
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
”اگر کبھی عادل مجھے کاٹ لے تو آپ ہی سے دم کرواؤں گی “ عظمی کھل کھلا کر ہنستے ہوئے بولی اور گاڑی سے خوشی خوشی اُتر گئی۔
بلال نے گاڑی ماڈل ٹاؤن سے ڈیفنس کی طرف موڑ لی تھوڑی دیر بعد وہ گھر پرتھا گاڑی سے اُترنے سے پہلے اُسے عظمی کا مسیج ملا جس میں لکھا ہوا تھا۔
Bilal thank you again I should Adil new mobile number.
بلال نے عظمی کو عادل کا نیا نمبر مسیج کر دیا تھا۔
بلال جب اپنے کمرے میں پہنچا تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکاتھا۔اُس نے گرم پانی سے غسل کیا اور نماز ادا کی اس کے بعد ایک کپ گرین ٹی بنائی اور مگ لے کر چھت پر چلا گیا چھت پرایک پرانی ایزی چیئر پڑی ہوئی تھی۔ جس کے اوپر بیٹھ کر وہ ڈوبتے ہوئے سورج کو دیکھ رہا تھا۔ فروری کی 9 تاریخ اتوار کا دن اورسال 2014 غروب ہوتا سورج، اور بلال گرین ٹی سے لطف اندوز ہوتا ہوا سوچوں میں گم تھا۔
سورج کی شعاعیں اُس کے حسین چہرے کو مزیدروشن بنارہیں تھیں۔ اور وہ سورج ہی کے متعلق غور و فکر کررہاتھا۔ دن21 دسمبر کا ہو یا 21 جون سورج کو غروب ہونا ہی پڑتا ہے۔اُسی طرح انسان 10 سال کی عمر میں مر جائے یا 100 سال بعد اُسے مرنا ہی پڑتا ہے۔
پرندے اپنے اپنے گھروں کوواپس لوٹ رہے تھے۔ انسان کوبھی واپس اللہ کے حضور لوٹنا ہی پڑتا ہے۔
سب کوواپس لوٹ کر جانا ہی پڑے گا کسی کو پہلے اور کسی کو بعد میں جانا سب کو ہے…اور باقی … پیچھے کون… رہنا کس نے ہے … بلال دل میں سوچ رہا تھا … مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی …
اَ للّٰہ اَکْبَرْ …اَ للّٰہ اَکْبَرْ… اَ للّٰہ اَکْبَرْ … اَ للّٰہ اَکْبَرْ
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
بلال کو اُسی لمحے جواب مل گیا وہ مسکرایا اپنا گرین مگ پکڑا اور مسجد کی طرف رُخ کیا جب وہ نماز پڑھ کر واپس لوٹا تو نوشی اس کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی۔
”میں کافی دن سے آپ سے ایک بات کرنا چاہ رہی تھی۔ “ نوشی جھجھکتے ہوئے بولی۔
بلال نے اثبات میں سر ہلایا نوشی کی طرف دیکھ کر جیسے کہہ رہا ہو جی بتائیں۔
”میری خواہش ہے اگر آپ مان لیں تو … دراصل میں یہ چاہتی تھی … جس طرح آپ نے شادی کے بارے میں سوچا تھا… میرے بھی کچھ ارمان تھے اپنی شادی کو لے کر … “
”نوشی جی آپ کھل کر بات کر سکتی ہیں میں بالکل بھی بُرا نہیں مانوں گا “ بلال نے حوصلہ بڑھایا نوشی کا، وہ اُس کی پریشانی دیکھ رہا تھا۔
وہ بلال سے بات نہیں کر پا رہی تھی۔
”دراصل میں یہ چاہتی ہوں نکاح آپ کی مرضی سے ہو اور ولیمہ میری مرضی سے کسی بڑے ہوٹل میں ہمارے سٹیٹس کے عین مطابق “ نوشی نے ہمت کرکے دل کی آدھی بات کہہ دی۔
”ٹھیک ہے … اور کچھ … مجھے جگہ بتا دیں… اور مینیو بھی ڈیسائیڈ کر لیجیے گا۔ “
بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”ارے میں تو ایسے ہی کنفیوز تھی۔
یہ تو بڑی جلدی مان گیا نکاح کا بھی بول دیتی ہوں۔ “
نوشی اپنے دل کے اندر خود ہی سے مخاطب تھی۔
” مسجد میں نکاح پر بھی آپ کو اعتراض ہوگا۔“ اس دفعہ بلال نے پوچھا تھا۔
”ہاں… نہیں وہ … نکاح تو ٹھیک ہے “ نوشی نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا۔
”نوشی جی بیٹھ جائیں “ بلال نے نوشی کوبیٹھنے کو کہا جو کہ بلال کے سامنے کھڑی تھی۔
نوشی بیٹھ گئی دیوان پر بلال کرسی لے کر اُس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔
”میاں بیوی کا رشتہ اُس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب وہ دوسروں کی سنتیں ہیں اور دوسروں سے کہتے ہیں۔ آپس میں بات کرنے سے اُن کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ “
”جی میں سمجھ گئی، اب میں چلتی ہوں۔ “ نوشی نے بلال سے جان چھڑائی اور وہاں سے نکل آئی۔
تھوڑی دیر بعد نوشی توشی کو ساتھ لے کر آ گئی، دوبارہ بلال کے روم میں توشی تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی پھر وہ اصل بات کی طرف آئی تھی۔
”بلال دراصل نوشی تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہے۔ “ توشی ترجمان بنی ہوئی تھی نوشی کی ۔
”جی پوچھیں سب کچھ جو آپ جاننا چاہتی ہیں میرے بارے میں “ بلال نے سنجیدگی سے کہا۔
”آپ نے کبھی جھوٹ بولا ہے۔ “ نوشی دیوان کے بازو پر ناخن رگڑتے ہوئے بولی۔
”میٹرک میں تھا تب بولا تھا۔میں خود میٹرک کی تیاری کر رہا تھا۔مجھے پیسوں کی ضرورت تھی۔
دو لڑکیاں وہ بھی میٹرک میں پڑھتی تھی۔ اُن کے پیرنٹس سے کہا، میں FSc کر چکا ہوں، اس طرح مجھے جھوٹ بول کر اُن کی ٹیویشن مل گئی تھی۔ “
”کبھی کسی کیساتھ دھوکہ کیا یا بے ایمانی کی۔ “
”کبھی نہیں “
”سگریٹ، شراب، یا کوئی دوسرا نشہ زندگی میں کیا ہو۔ “
”کبھی نہیں آج تک ہاتھ نہیں لگایا ان میں سے کسی بھی چیز کو۔ “
”کوئی اسکینڈل کوئی فلرٹ کوئی لڑکی جو آپ کی زندگی میں ہو۔
“
”کوئی اسکینڈل نہیں کبھی کسی کیساتھ فلرٹ نہیں کیا ہاں میری زندگی میں ایک لڑکی ہے۔ “ بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا نوشی اور توشی کا چہرہ زرد پڑ گیا پریشانی اُن کے چہرے پر واضح تھی۔
”وہ کون ہے۔ “ نوشی نے پریشانی سے پوچھا۔
”اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہے اور اگلے مہینے میری اُس سے شادی ہونے والی ہے۔ “
بلال نے نوشی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنجیدگی سے کہا نوشی نے شرما کر نظریں جھکا لیں اور اُٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
”بلال پتہ نہیں کون اس کے ذہن میں اُلٹی سیدھی باتیں ڈال دیتا ہے۔پھر یہ مجھ سے پوچھتی ہے بھلا میں کیا جواب دوں اس کے سوالوں کا کبھی کہتی ہے بلال کی زندگی میں بہت ساری لڑکیاں ہیں۔ کل کہنے لگی اُس نے مجھ سے کبھی محبت کا اظہار نہیں کیا … پھر نکاح اور ولیمے کی بات لے کر بیٹھ گئی جیسے جیسے شادی کے دن قریب آ رہے ہیں مجھے تو فکرہو رہی ہے“ توشی نے اپنی پریشانی بیان کی۔
بلال نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی اوربولا۔
”توشی جی میری زندگی میں کوئی لڑکی نہیں ہے۔اللہ کے فضل سے میں ہر قسم کے نشے سے محفوظ رہا ہوں۔ ولیمہ کی بات میں مان چکا ہوں۔ رہی بات محبت کے اظہار کی۔ تو ہر بات وقت پر اچھی لگتی ہے۔ اور جب وقت آئے گا تو میں اظہار بھی کروں گا … اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو محبت خود ہی اظہار ہوتی ہے۔
اورآخری بات آپ بھی یاد رکھنا اوراپنی بہن کو بھی بتا دیجیے گا ۔بغیر تصدیق کے کبھی سنی سنائی بات پر یقین نہ کریں۔ “
بلال کو اس طرح سے نوشی اور توشی کا سوال کرنا پسند نہیں آیا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کون ہے۔ اور کیوں نوشی کو یہ سب کچھ بتا رہا ہے۔اُس کے ذہن میں اپنی ممانی اور شعیب کا نام آیا اُس نے نوشی کوآواز دی اور کہا نوشی کو بلا کر لائے چند منٹ بعد وہ دونوں بہنیں وہاں موجودتھیں۔
بلال نے دروازہ بند کیا پردے آ گے کیے اور اُن دونوں کے سامنے بیٹھ گیا وہ دونوں بہنیں دیوان پر بیٹھی ہوئیں تھیں۔بلال اُن کے سامنے کرسی لے کر بیٹھ گیا تھا۔
”میں نے آٹھ سال سے 26 سال تک ان 18 سالوں میں صرف ایک لڑکی کو چاہا جس کا نام نسیم جمال رندھاوا ہے… جس دن میری ماں نے کہا تھا۔بلال بیٹا نسیم سے شادی کرنا میں نے اُس دن سے نسیم کا ہاتھ تھام لیا تھا دل سے …یہ میرے کچے ذہن کی پکی محبت ہے۔
میرا ماننا ہے نہ محبت چھینی جاتی ہے، اور نہ ہی مانگی جاتی ہے … بلکہ محبت کی جاتی ہے … یا پھر محبت دی جاتی ہے … اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔“
نوشی اور توشی ایک دوسری کو دیکھ رہیں تھیں۔ انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا۔ بلال اس طرح دو ٹوک بات کرسکتا ہے۔ نوشی کا تو دل چا ہ رہا تھا۔ کہ وہ اسی وقت بلال کے گلے لگ کر اُس کی ہو جائے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُسے توشی کا بھی کوئی خیال نہ ہوتا، اگر وہ بلال سے نہ ڈرتی ایک دفعہ پہلے بھی اُس نے ایسی حرکت کی تھی۔
تب تو بلال نے اُسے پیار سے سمجھایا تھا، لیکن اس دفعہ شاید ایسا نہ ہوتا اس لیے نوشی نے اپنے جذبات کو شٹ اَپ کہا۔
”میں آپ سے ہی شادی کرنا چاہتی ہوں۔یہ میرا اٹل فیصلہ ہے۔ “ نوشی گردن جھکائے بولی
”تو پھر ممانی اورشعیب کو اعتراض ہوگا۔ اس رشتہ پر “ بلال نے خدشہ ظاہر کیا۔
”اگر ممانی اور شعیب کو اعتراض ہے۔ تو میں یہ شادی نہیں کروں گا۔
اور اُن کا نام بھی نہیں آئے گا سارا اعتراض میں اپنے سر پر لے لوں گا۔“
”ماما اورشعیب بھائی خوش نہیں ہیں اس رشتے پر “ توشی نے صاف گوئی سے کام لیا۔
”آپ اُن سے پوچھ کر مجھے بتا دو میں خود انکار کردوں گا۔ “ بلال نے کہا۔
”میں اُن دونوں کو یہاں بھیجتی ہوں تمہارے پاس“ توشی نے کہا۔
”نہیں ممانی بڑی ہیں۔ میں خود اُن کے پاس چلا جاتا ہوں۔ “ بلال نے جواب دیا۔
”ماما اس وقت شعیب بھائی کے روم میں ہوں گئی۔ “ توشی نے آواز لگائی بلال کو جاتے ہوئے دیکھ کر۔
بلال نے شعیب کے روم کے دروازے پر دستک دی اندر سے آواز آئی۔
” Yes come in “ بلال روم میں داخل ہو گیا۔
”اسلام علیکم “ بلال نے اندر داخل ہوتے ہی سلام کیا کمرے میں LCD on تھی اور وہ ماں بیٹا ڈرائی فروٹ کھانے میں مصروف تھے۔ ناہید اور شعیب کے چہروں پر عجیب طرح کی پریشانی اور حیرانی نظر آ رہی تھی۔ مگر وہ دونوں اپنی جگہ سے نہیں اُٹھے بلال آج کوئی 15 یا 16 سال بعد شعیب کے روم میں گیا تھا۔
”آؤ مسٹر بلال کیسے آئے ہو۔ “ شعیب طنزیہ انداز سے بولا، ناہید نے کچھ بھانپ لیا اُس نے فوراً رنگ بدلا گرگٹ کی طرح۔
”آؤ بلال اِدھر بیٹھو میرے پاس … کیسے آنا ہوا … “
ناہید مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے ہوئے بولی تھی۔
”ممانی جان آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ “ بلال نے ناہید کی طرف دیکھ کر کہا۔
”بولو … ضروری بات۔ “ ناہید نے روکھے لہجے سے جواب دیا۔
”مجھے ایسا لگ رہا ہے۔
جیسے آپ میری اور نوشی کی شادی پر خوش نہیں ہیں۔ اور یہ شادی آپ کی مرضی کے خلاف ہو رہی ہے۔
اگر ایسی کوئی بھی بات ہے تو میں یہ شادی نہیں کروں گا اور آپ پر بات بھی نہیں آئے گی۔ میں خود انکار کردوں گا۔“
شعیب اور ناہید نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا انہیں بھی امید نہیں تھی۔ بلال اس طرح کی بات کر سکتا ہے وہ دونوں ہکا بکا تھے۔ ناہید نے اپنا ترپ کا پتہ سنبھال لیا تھا۔ کسی اور وقت کے لیے شعیب آنکھیں جھپکا جھپکا کر بلال کو دیکھ رہا تھا۔
ناہید کشمکش میں تھی بلال کو کیا جواب دے۔
”نہیں نہیں … ایسی تو کوئی بات نہیں … شاید تمہیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے … کیوں شعیب “ مگر شعیب خاموش رہا اُسے آناً فاناً بدلتی ہوئی صورتحال سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
”میں اس رشتے پر بہت خوش ہوں … بلال بیٹا۔ “ ناہید نے چالاکی سے بات بدلی تھی اُس کی زبان سے کوئی 18 سال بعد بلال کے ساتھ بیٹا نکلا تھا۔
”تم بے فکر ہو کر جاؤ۔“
بلال وہاں سے چلا گیا تھا۔
”آئی ایم شاکڈ۔ “ شعیب منہ کھولے بولا۔
”شعیب تم ابھی بچے ہو۔ اسی لیے تو کہتی ہوں بلال بہت چالاک ہے۔ اگر میں اُسے یہ کہہ بھی دیتی کہ مجھے اعتراض ہے اس رشتے پر تو ساری بات مجھ پر آ جاتی اور تمہارا باپ پھر بھی یہ شادی کروا دیتا وہ اُسے زمین بھی خرید کر دیتا وہی 50 ایکڑ اور بلال کو سلامی میں بھی اچھی خاصی رقم دیتا خواہ مخواہ برائی لینے والی بات تھی۔
یہ جو رندھاوا ہوتے ہیں۔ انہیں دیہاتوں میں جٹ کہتے ہیں۔ جس چیز پر اڑ جائیں جٹ کی اڑی بہت مشہور ہے۔ تمہارا باپ بھی جٹ ہے وہ اڑ چکا ہے۔ اس رشتے پر اور میں بھی رندھاوا جٹ ہی کی بیٹی ہوں۔ تمہارا باپ یہ شادی کروا نا چاہتا ہے۔ اور میں ہونے نہیں دوں گی۔“
”ممانی نہیں چاہتیں یہ شادی ہو۔ “ بلال اپنے روم میں آ کر بولا جہاں پر نوشی اور توشی اُس کا انتظار کر رہیں تھیں۔
”ایسا ماما نے خود کہا آپ سے۔ “ نوشی نے روہانسی ہو کر پوچھا جلدی سے۔
”نہیں انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ وہ تو اس شادی پر بہت خوش ہیں … ایسا کہا ہے۔ انہوں نے اُن کے الفاظ اُن کے چہرے کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ یہ میری رائے ہے … “
”اُف شکر ہے میں اپنی ماما کو جانتی ہوں اگر انہیں اعتراض ہوتا تو وہ صاف کہہ دیتیں آپ کو وہم ہے اچھا بھئی میں جا رہی ہوں۔
“ نوشی بے فکری سے چلی گئی بلال اور توشی خاموش تھے۔ اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔
”ماما یوٹرن نہیں لے سکتی۔ نہ میں جانتی ہوں ماما کو اور نہ ہی نوشی … بلال تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو … ماما کے ذہن میں کیا چل رہا ہے … میں اُس کا پتہ لگاتی ہوں تم بے فکر ہو جاؤ۔ “ توشی نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
”بابا جی کہا کرتے تھے۔ زن زر اور زمین کی ہوس فساد کی وجہ سے بنتی ہے۔
میں ایسا بالکل نہیں چاہوں گا اس رشتے کو لے کر کوئی فساد بھرپا ہو اس گھر میں … “
بلال سوچ میں ڈوبا ہوا بول رہا تھا۔ توشی بھی واپس چلی گئی اپنے روم میں۔
”کیا کہہ رہے تھے وہ میرے بعد “ نوشی نے توشی کو روم میں داخل ہوتے ہی پوچھ لیا۔
”آخری بات کی تو مجھے بھی سمجھ نہیں آئی۔ “
”وہ کیا بات تھی … توشی۔ “
”زن زر اور زمین کی ہوس فساد کی وجہ سے بنتی ہے ایسا کہا تھا بلال نے … “
”زن اور زر یہ کون ہیں۔
“ نوشی حیرت سے بولی۔
”میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ “ توشی نے اپنی پریشانی بھی ظاہر کر دی۔
”زن اور زر کو دفعہ کرو کوئی بھی ہوں۔ تم مجھے یہ بتاؤ تم آج کل بلال کو آپ آپ کس وجہ سے کہہ رہی ہو۔ “ توشی بولی لب سیکڑ کر۔
”BG کی باتیں بول گئی۔ ابھی سے BG نے کہا تھا۔ صاحب اور آپ کہہ کر بلانا۔ “
”وہ تو مجھے کہا تھا کہنے کے لیے۔
“ توشی ابرو چڑھا کر بولی۔
”توشی مجھے بلال کو آپ کہنا اچھا لگتا ہے۔ توشی جب انہوں نے کہا یہ میرے کچے ذہن کی پکی محبت ہے۔ تو میرا دل چاہا اُن کے گلے لگ جاؤ اُسی وقت اور اُن کو بتا دوں مجھے بھی اُن سے بہت محبت ہے۔ ایک دم پکی محبت پتھر پر لکیر جیسی۔ “
”وہ کس کا ڈریس ہے۔ “ توشی کی نظر پڑی بیڈ پر رکھے ہوئے Bridal dress پر۔ ”عالیہ زی نے بھیجا ہے۔
میرے لیے میرا Bridal dress“ نوشی نے بتایا۔
”مگر وہ جو تم نے خود ڈیزائن کیا تھا اُس کا کیا۔ “ توشی نے حیران ہو کر پوچھا۔
”تمہیں پتہ تو ہے کپڑے جوتے اور پرفیومز میری کمزوری ہیں۔ جتنے بھی ہوں اُتنے ہی کم …
اب اچھا تھوڑی لگتا ہے۔ اپنی شادی پر بھی خود کا ڈیزائن کیا ہوا Dress پہنا جائے“ ”اور یہ پرفیومز؟” یہ بھی میں نے ہی منگوائے ہیں، پیرس سے لاسٹ ویک عالیہ زی پیرس گئی ہوئی تھی۔
“
”یہ لو … اب بلال پلاٹ بیچ کر تمہارے کپڑے اور پرفیومز ہی پورے کرئے گا۔ “ توشی نے اپنے شانے اُچکاتے ہوئے کہا۔
”پلاٹ کی بات تو کرنا بھول ہی گئی تھی۔ “ نوشی کو اچانک یاد آیا۔
”مطلب؟ “ توشی فوراً بول پڑی۔
”مطلب یہ ماما نے کہا تھا۔ بلال سے کہو۔ پلاٹ حق مہر میں لکھ کر دے۔ اس طرح معلوم ہو جائے گا وہ تم سے کتنی محبت کرتا ہے۔
“ نوشی نے Bridal Dress پکڑا اور لہنگا نکال کر وہیں ہی اپنی ٹائٹ جینز پر پہن کر چیک کرنا شروع کر دیا۔ ”سوچ رہی ہوں چولی بھی چیک کر ہی لوں۔“
وہ تخیل سے اپنے آپ کو دلہن بنی دیکھ رہی تھی، آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی وہ اپنا شادی کا جوڑا دیکھ کر خوش ہو رہی تھی۔ اُس کے برعکس توشی پریشان تھی۔ یہ سوچ کر کہ۔
”یہ سب ماما اس کے ذہن میں ڈال رہیں ہیں۔
“ توشی نے خود سے کہا دل ہی دل میں۔ نوشی ڈریسنگ ٹیبل سے بیڈ کی طرف آئی جہاں پر اُس کا فون اور لہنگا کی جوڑی دار چولی پڑی ہوئی تھی۔ توشی اُٹھی اور کمرے سے نکل گئی۔
”تم کہاں جا رہی ہو۔ “ نوشی نے توشی کو جاتے ہوئے پوچھا تھا۔
”ماما کے پاس۔ “ توشی نے دروازہ کھولتے ہوئے جاتے جاتے کہا نوشی نے چولی پکڑنے کے لیے بیڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا اُسی لمحے شعیب کی کال آئی نوشی کے فون پر، چولی کی بجائے نوشی نے موبائل پکڑا۔
”جی شعیب بھائی“ اُس نے خوشی سے جھومتے ہوئے پوچھا تھا۔
”ماما بلا رہی ہیں۔ “ شعیب نے فون کی دوسری طرف سے پیغام دیا ” میں پانچ منٹ میں آئی“
”توشی بھی ماما سے ملنے ہی گئی ہے۔ “ نوشی نے فون بیڈ پر پھینک کر چولی پکڑی اور گنگناتے ہوئے اپنے بیڈ روم کا لاک لگایا اور وہیں اپنی شرٹ اور اَپر اُتار کر اپنا شادی کا جوڑا چیک کرنے لگی۔ ”فٹنگ چیک کر لوں“ اُس نے بلند آواز سے خود ہی سے کہا۔
”ماما توشی آ رہی ہے۔ یہاں “ شعیب نے ناہید کو اطلاع دی ناہید نے پھر سے اپنا رنگ بدلا۔
”شعیب آئندہ مجھے اگر پتہ چلا کہ تم نے بلال کے ساتھ کوئی بد تمیزی کی ہے۔ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ “ ناہید اُٹھی صوفے سے اور با آواز بلند شعیب کو ڈانٹ رہی تھی کمرے میں چلتے ہوئے اِدھر سے اُدھر اس سے پہلے توشی وہاں پہنچتی اُس نے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھول دیا تھا تا کہ اُس کی اور شعیب کی آواز باہر دروازے تک جا سکے ناہید کی ٹائمنگ کمال کی تھی۔
جیسے ہی اُس نے دروازہ کھولا توشی چند سیکنڈ بعد دروازے کے پاس کھڑی تھی۔
”مجھ سے بھی ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئیں تھیں۔ جن کی میں بلال سے معافی مانگ لوں گی اور تمہیں بھی بلال سے معافی مانگنی پڑے گی “ ناہید با آواز بلند بول رہی تھی اور توشی دروازے پر کھڑی ہوئی سن رہی تھی۔
”بلال اگر ابھی تھوڑی دیر پہلے یہاں نہ آتا تو شاید میں اُسے لالچی ہی سمجھتی لیکن اب ایسا نہیں ہے نوشی کے لیے بلال سے اچھا رشتہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا میں غلط تھی شعیب میں غلط تھی۔
“ ناہید نے اپنے مگر مچھ کے آنسو صاف کیے۔
”کون ماں ہوگی جسے اپنی اولاد کی خوشی عزیز نہ ہو۔ اور اچھی بات یہ ہے کہ نوشی بھی اس رشتے پر بہت خوش ہے۔ شکر خدا کا توشی کے لیے بھی بہت اچھا رشتہ مل گیا ہے۔ “
توشی نے یہ سنا تو وہ باہر ہی سے چلی گئی بغیر ناہید کو ملے ہوئے۔ نوشی نے اُسے دروازے کے پاس سے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ جب وہ شعیب کے روم کی طرف آ رہی تھی نوشی بغیر ناک کیے ہوئے شعیب کے روم میں چلی آئی۔
”جی ماما آپ نے بلایا تھا “ نوشی نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔
”ہاں میں نے بلایا تھا … وہ توشی کہاں ہے۔ “ ناہید نے پوچھا جو توشی کے جانے سے بے خبر تھی۔
”وہ تو ابھی یہاں سے … “ نوشی نے حیران ہو کر آدھ جملہ ہی کہا تھا کہ ناہید جلدی سے بولی۔
”ہاں ہاں دراصل میں یہ کہہ رہی تھی کہاں گئی ہے توشی۔ “
”شاید اُن کے روم میں گئی ہو گئی۔
“ نوشی نے جواب دیا۔
توشی بلال کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ اُس نے کمرے کا جائزہ لیا بلال کو آواز دی باتھ روم میں بھی کوئی نہیں تھا۔ اچانک اُس کی نظر بلال کے تکیے کی طرف پڑی تکیے کے ایک سرے کے نیچے سے اُسے کوئی گرین چیز نظر آئی توشی کو تجسس ہوا وہ تکیے کی طرف بڑھی اُس نے تکیہ اُٹھایا نیچے ایک پاسپورٹ اور ایک تصویر فریم میں سجی ہوئی تھی تصویر کے دونوں چہروں سے توشی اچھی طرح واقف تھی ایک اُس کی پھوپھو یعنی بلال کی ماں اور دوسرا بلال کا باپ یہ تصویر جمیلہ اور جلال کی شادی کے چند دن بعد کی تصویر تھی۔
”یہ پاسپورٹ کس کا ہے “ توشی پاسپورٹ کو ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کھولتے ہوئے بولی تھی سب سے پہلے اُس کی نظر تصویر پر پڑی سفید رنگت لائٹ بلو آنکھیں سفید داڑھی والا ایک خوبصورت چہرہ اُس کی آنکھوں کے سامنے تھا جب توشی پہلی اور آخری بار بابا جمعہ سے ملی تھی۔
پاسپورٹ کوئی ڈیڑھ مہینہ پہلے ہی ایشو ہوا تھا توشی کی نظر ایشو ڈیٹ پر پڑی تھی۔
اسی دوران بلال کمرے میں داخل ہوا تھا۔ توشی کا چہرہ فق ہو گیا اور وہ گھبرا کر بولی۔
”میں تو جا رہی تھی بس نظر پڑ گئی تھی اس لیے دیکھ لیا ورنہ میں نے کبھی بھی تمہاری چیزوں کو چیک نہیں کیا “ بلال نے اُسے نظر بھر کر دیکھا تھا توشی مزید ڈر گئی۔
”بیٹھ جاؤ … اٹس اوکے … “ بلال سنجیدگی سے بولا تھا۔ توشی وہیں بلال کے بیڈ پر بیٹھ گئی گردن جھکائے ہوئے۔
”ایک خوشخبری ہے تمہارے لیے“ توشی نے بات بدلی۔ بلال نے دونوں ابرو کے ساتھ بولنے کا سگنل دیا۔ ”ماما کو کوئی اعتراض نہیں ہے تمہاری اور نوشی کی شادی پر۔“
بلال یہ سن کر خاموش رہا بغیر کسی تاثر کے توشی نے بلال کی طرف دیکھا تو پھر سے بولی۔
”لگتا ہے تمہیں خوشی نہیں ہوئی یہ خوشخبری سن کر۔ “
”توشی جی آپ خبر کو خوشخبری سمجھ رہی ہیں۔
مجھے یہ خبر ہے۔ کہ ممانی کو اس رشتے پر انکار نہیں ہے۔ “
بلال نے جواب دیا توشی کو لگا جیسے بلال کو اُس کی بات پر یقین نہ آیا ہو اس لیے اُس نے کہا۔
”ویسے تم آ کہاں سے رہے ہو۔ “
”میں نانو کے پاس تھا۔ “
”میں تم سے آج بہت ساری باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ “ توشی نے کہا تھا۔
”آپ مجھ سے بہت ساری باتیں پوچھنا چاہتی ہیں۔
“ بلال جانچتی نگاہوں سے دیکھ کر بولا۔
”نہیں … خیر چھوڑو … مجھے کیوں لگ رہا ہے جیسے تم خوش نہیں ہو۔ “ توشی نے کہا۔
بلال گردن جھکائے مسکرایا پھر بولا۔ ”خوش تو میں ہوں مگر زیادہ فکر مند ہوں۔“
”فکر مند کیوں “ توشی بے نیازی سے بولی فٹا فٹ۔
”توشی جی محبت کے بہت سارے رنگ ہیں اور بہت ساری شکلیں بھی …
اس کے برعکس عزت صرف اپنی اصل شکل میں ہوتی ہے اور اُس کا صرف ایک رنگ ہے اور وہ رنگ ہے سفید، عزت سفید چادر کی طرح ہوتی ہے، جس پر کسی رنگ کا چھینٹا پڑ جائے تو وہ داغ دار ہو جاتی ہے خواہ وہ چھینٹا ست رنگی محبت ہی کا کیوں نہ ہو …
جب میرے ابا فوت ہوئے تو میں آٹھ ماہ کا تھا۔
میری ماں کو میرے ابا سے بہت محبت تھی۔ مگر اُن کی محبت انہیں چھوڑ کر چلی گئی اُس کے بعد میری محبت کے سہارے میری ماں نے زندگی کا سفر جاری رکھا پھر ایک دن اُن پر چوری کا الزام لگا دیا گیا اُن کی عزت چھین لی گئی میری ماں پر اس صدمے کا گہرا اثر ہوا میری ماں ڈسٹرب تھی اس صورتحال میں تب ممانی نے انہیں پاگل ثابت کرکے مینٹل ہاسپٹل بجھوا دیا اور چند ماہ بعد وہاں سے اُن کی لاش آئی۔
“
بلال گھائل آواز کے ساتھ اپنی ماں کی رو داد سنا رہا تھا گردن جھکائے کمرے میں تھوڑی دیر خاموش رہی۔
”مجھے میرے ابا کی محبت نہیں ملی۔ اپنی ماں کی محبت سے محروم رہا، پھر مجھے بابا جمعہ کی محبت نے تھام لیا انہوں نے مجھے میرے والدین کی طرح پیار کیا اب وہ بھی مجھے چھوڑ کر جا چکے ہیں……اتنی محبتوں کے چھن جانے کے باوجود میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں … میرا ماننا ہے کسی سے اُس کی محبت چھین لی جائے تو وہ زندہ رہ سکتا ہے اگر اُس سے اُس کی عزت چھین لی جائے تو وہ جیتے جی مر جاتا ہے“
توشی کی آنکھوں سے آنسو گرتے ہوئے اُس کے سرخ گالوں پر تھے۔
جنہیں اُس نے بائیں ہاتھ کی پشت سے صاف کیا اُس کے دائیں ہاتھ میں اب بھی بابا جمعہ کا پاسپورٹ تھا۔ بلال سنجیدگی سے توشی کو دیکھ رہا تھا۔
”جب میں نے بابا جی کو شادی کی تاریخ کا بتایا تو کہنے لگے تمہاری شادی سے پہلے ہم دونوں عمرہ کرکے آتے ہیں مجھے تاکید کی شادی کے بعد آنے والا حج میری بہو کے ساتھ کرنا … بابا جی کی وفات سے تین چار روز قبل ہم دونوں اُن کا پاسپورٹ لے کر آئے تھے، تب سے یہ میرے پاس ہی ہے۔
“ بلال اب خاموش تھا اور کافی دیر خاموش رہا۔
”عظمی اب بھی … “ توشی نے آدھی بات کی جھجھکتے ہوئے۔
”عظمی اب بھی میری دوست ہی ہے، اور مجھے پوری امید ہے کہ وہ میرے دوست عادل عقیل سے جلد ہی شادی کر لے گی۔ “ بلال نے توشی کے آدھے سوال کا پورا جواب دیا۔ نوشی کافی دیر سے باہر کھڑی بلال اور توشی کی گفتگو سن رہی تھی۔ جبکہ توشی اور بلال نوشی کی موجودگی سے بے خبر تھے۔
نوشی کو بھی عظمی کا ڈر ستا رہا تھا۔ جب اُس نے یہ سنا تو وہ باہر ہی سے خوشی خوشی لوٹ گئی۔
”میں بھی تم سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ تمہیں اگر بابا جمعہ کی محبت نے تھام لیا تھا تو ہمیں تمہاری محبت نے تھاما ہوا تھا مجھے اور نوشی کو … میرا سہارا تم تھے اور میں نوشی کا سہارا تھی۔ اور میری بے وقوفی دیکھو میں نے اُس محبت کو دوسری نظر سے دیکھا میں بھی ایڈیٹ ہوں ایک نمبر کی ایڈیٹ سوری بلال صاحب … اب تو مسکرا دو ماما کی طرف سے بے فکر ہو جاؤ میں اپنے کانوں سے سن کر آ رہی ہوں وہ بہت خوش ہیں ہم دونوں بہنوں کی شادی پر۔ “
توشی نے بلال کو تسلی دی۔
”اب میں چلتی ہوں۔ “ توشی کمرے سے جا رہی تھی کمرے کے دروازے پر رُک کر دوبارہ مڑی۔
”ہاں مجھے یاد آیا 28 فروری کو دادا جی کی برسی ہے۔ 27 کو میں دادو اور DJ گاؤں جا رہے ہیں۔ “
”خان صاحب آپ کے ساتھ نہیں جا رہے ہیں اس دفعہ۔ “ بلال نے پوچھا۔
”نہیں وہ یورپ جا رہے ہیں۔ اپنے بیٹے کے ساتھ بزنس ٹور پر پاپا اپنی جگہ اُنہیں بھیج رہے ہیں۔
“
توشی وہاں سے چلی گئی۔ بلال کچھ دیر ویسے ہی بیٹھا رہا پھر اُس نے اُٹھ کر کتاب گھر سے ایک کتاب نکالی ڈاکٹر علامہ اقبال کی بانگ درا
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ وعدہ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سننا چاہتا ہوں
کوئی دم بھر مہمان ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
یہ مصرع پڑتے ہوئے بلال کے آواز بھر آئی اُس کی نظریں تو بانگ درا پر تھیں مگر وہ دیکھ کچھ اور رہا تھا کھلی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اُن لمحوں کو جب وہ اور بابا جمعہ سیالکوٹ گئے تھے۔
حضرت اقبال کی جائے پیدائش کو دیکھنے کے لیے بابا جمعہ حضرت اقبال سے بڑی عقیدی رکھتے تھے۔
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
اب بلال بانگِ درا ہاتھ میں پکڑے ہوئے گم سم بیٹھا ہوا تھا، اپنے بیڈ پر دروازے پر ایک معزز دستک ہوئی۔
”آ جائیں خان صاحب تشریف لے آئیں۔
“ بلال نے صدا لگائی۔
گل شیر خان بلال کے کمرے میں داخل ہوئے بلال اپنی جگہ سے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اُنہیں گرم جوشی سے گلے ملا اور اُس کے بعد اُنہیں احترام سے بٹھایا دیوان پر۔
”بلال … تمہیں کیسے خبر ہو جاتا ہے مڑا کہ ہم آیا ہے۔ “ گل شیر خان نے حیرت سے پوچھا۔
”آپ کی دستک بڑی معزز ہوتی ہے ایک دفعہ مجھے غلطی لگی تھی ورنہ میں پہچان لیتا ہوں۔
“
بلال کو یاد تھا جب ایک دفعہ نوشی نے دستک دی تھی دروازے پر تو اُس نے کہا تھا آ جائیں خان صاحب دروازہ کھلا ہے۔
”آپ کے لیے چائے بناتا ہوں۔ “ بلال اوپن کچن کی طرف جاتے ہوئے بولا تھا۔
”نہ نہ تمہارا چائے ہم نہیں پی سکتا یا کڑوا ہوتا ہے یا پھیکا۔ “ گل شیر نے فوراً انکار کر دیا۔
”نہ کڑوا ہوگا اور نہ ہی پھیکا آپ کو گڑ والی چائے پلاتا ہوں۔
“ بلال چائے بناتے ہوئے بولا تھا۔
بلال چائے بنانے میں مصروف تھا اور گل شیر خان اُسے مسلسل خاموشی سے دیکھ رہے تھے کوئی دس منٹ بعد بلال نے اُنہیں چائے کا مگ پیش کیا۔
”ڈیئر شلی … “ گل شیر خان کے منہ سے بے ساختہ نکلا جب انہوں نے چائے کا پہلا گھونٹ لیا تھا وہ چائے کی تعریف کر رہے تھے۔
”مڑا تم نے پہلے تو کبھی ایسا مزیدار چائے نہیں پلایا۔
“ گل شیر خان چائے پیتے ہوئے بولے تھے۔
”ہم اور حسیب اس 25 کو جا رہا ہوں یورپ … یہ بلال بیٹا تمہارا امانت ہمارے پاس ہے یہ رکھ لو۔ “
گل شیر خان نے ایک پلاسٹک کا کالا فولڈر بلال کے حوالے کیا جس میں بہت سارے کاغذ کے ٹکڑے تھے۔
”ہاں میں بتانا بھول گیا تھا تمہارا ماں کا زمین کا بات تقریباً فائنل ہو چکا ہے وہ آدمی زمین کا مالک اب 50 ایکڑ کا پچاس کروڑ مانگ رہا ہے۔
47 یا 48 کروڑ میں بات بن جائے گی … اسی لیے تمہیں رندھاوا صاحب نے ماں جی کے کمرے میں بلایا ہے یہ خوشخبری دینے کے لیے۔ “
دونوں چائے ختم کر چکے تھے، گل شیر خان یہ پیغام دے کر جا چکے تھے بلال گہری سوچ میں گم سم تھا۔
”ماں کی زمین “ اُس نے خود سے کہا اس کے بعد وہ اپنی نانی کے کمرے کی طرف چل دیا۔
”اسلام علیکم “ بلال کمرے میں داخل ہوتے بولا تھا۔
”و علیکم اسلام “ جمال رندھاوانے جواب دیا۔ جو اب تک پینٹ کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ وہ گھر آتے ہی سیدھا جہاں آرا کے کمرے میں آ گئے تھے۔ اور گل شیر خان کو انہوں نے بلال کی طرف بھیج دیا گل شیر خان بلال کی طرف جانے سے پہلے اپنے کوارٹر میں گئے تھے۔ جہاں سے اُنہوں نے وہ کالا فولڈر لیا اور بلال کی طرف چلے گئے، توشی بلال کی طرف سے سیدھی اپنی دادی کے پاس آئی جب وہ جانے لگی تو جمال رندھا وا کمرے میں داخل ہوئے۔
توشی اپنے باپ کو دیکھ کر رُک گئی۔
توشی اور جمال رندھاوا بہت خوش تھے۔ اور وہ آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے۔ جہاں آرا اُن دونوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہیں تھیں۔
”مبارک ہو۔ بلال بیٹا تمہاری ماں کی زمین اب میں خرید رہا ہوں تمہارے لیے۔ “ جمال رندھاوا تفاخر سے بولے بلال کو دیکھ کر جو اُن کے سامنے دیوان پر بیٹھا ہوا تھا۔ دیوان کے ایک کونے پر توشی بیٹھی ہوئی تھی۔
اور دوسرے کونے پر بلال، جہاں آرا ہمیشہ کی طرح ایزی چیئر پر براجمان تھیں۔ اور جمال رندھاوا ایک بازو والی کرسی پر ٹیک لگائے ٹانگ کے اوپر ٹانگ رکھے بلال سے مخاطب تھے۔
”ماں جی … اب جلد ہی میں اپنا فرض بھی ادا کر دوں گا اور قرض بھی۔ “ جمال رندھاوا نے اپنی ماں کی طرف دیکھ کر کہا اور جہاں آرا بلال کو دیکھ رہیں تھیں۔ جو گردن جھکائے خاموش بیٹھا ہوا تھا۔
اور اپنے دائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی کی پڑوسن انگلی میں پہنی ہوئی چاندی کی انگوٹھی جس میں فیروزہ جڑا ہوا تھا اُسے دیکھ رہا تھا، یہ انگوٹھی اُس نے مدینہ منورہ سے خریدی تھی۔
”تمہیں تو خوش ہونا چاہیے بلال بیٹا۔ “ جہاں آرا نے بلال کو مخاطب کیا اُس کی طرف دیکھ کر توشی بھی منتظرتھی بلال کی رائے کی مگر بلال خاموش تھا، اور اپنے ہاتھ میں پہنی ہوئی انگوٹھی کو دیکھ رہا تھا۔
”آپ کیوں خرید رہے ہیں وہ زمین … “ بلال نے لب کشائی کی جمال کو دیکھتے ہوئے۔
”تمہارے لیے “ جمال نے جواب دیا۔
”ماموں جان میں نے تو آج تک کبھی تقاضہ نہیں کیا آپ سے… اُس زمین کی واپسی کا… “ بلال نے تحمل اور ادب سے کہا۔
”مگر … جمیلہ کی یہ خواہش تھی۔ “ جمال نے وضاحت کی ۔
”ماموں جان … انسان کے ساتھ اُس کی خواہش بھی مر جاتی ہیں … کاش آپ نے اُن کی خواہش وقت پر پوری کی ہوتی … تو شاید آج وہ زندہ ہوتیں … مرنا تو سب نے ہی ہے لیکن میری ماں کی طرح کوئی نہ مرے … چوری کا الزام اپنے سینے پر سجائے پاگل خانے میں … آپ صرف اپنا یہ فرض ادا کریں … میری ماں آپ سے کبھی بھی قرض کی واپس کا مطالبہ نہ کرتیں اگر وہ اُس وقت مجبور نہ ہوتیں … اُن کے ساتھ اُن کی مجبوریاں بھی ختم ہوگئیں۔
اُن کا دیا ہوا قرض وقت پر واپسی کرنا بھی آپ کا فرض تھا۔ آپ کو یہ فرض یاد ہے اُسے کیسے بھول گئے آپ … “
جمال رندھاوا ملال سے اپنی جبیں جھکائے بیٹھے ہوئے تھے۔ اور توشی کرب میں مبتلا اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی۔ جہاں آرا نے اپنا چشمہ اُتار کر اپنے اشک صاف کیے تھے۔
”توشی نے ایک نظر بلال کو دیکھا جس کی آنکھوں میں آج پہلی بار اُسے اپنے باپ کے لیے وہ ادب و احترام نظر نہیں آیا جو اُس کی آنکھوں میں ہمیشہ اُن کے لیے تھا۔
“
اس کے باوجود بلال نے ساری گفتگو کے دوران دھیمی آواز میں بات کی تھی، بڑی احتیاط کے ساتھ ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے۔
”آپ نے وہ زمین خریدنی ہے ضرور خریدیں مگر میرے لیے ہرگز نہیں … میں اپنی ماں کے کیے ہوئے احسانوں اور دی ہوئی قربانیوں کی قیمت کبھی نہیں لوں گا یہ میرا فیصلہ ہے۔ “
”بس کرو بلال … خدا کے لیے … بس کرو … “ جمال رندھا وا دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔
توشی جلدی سے اُٹھی اور اپنے باپ کو سنبھالا جو کہ گردن جھکائے کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور بلند آواز سے رو رہے تھے۔ جہاں آرا اپنی ایزی چیئر پر بیٹھی ہوئیں رو رہیں تھیں بلال اُٹھا اور اپنے ماموں کے گلے لگ گیا بیٹھے بیٹھے ہی۔
”مجھے معاف کر دو بلال بیٹا۔ “ جمال رندھا وا روتے ہوئے بولے بلال نے اُنہیں سنبھالا آنکھوں سے تسلی دی مگر زبان سے کچھ نہیں کہا جمال اب بلال کی طرف دیکھ رہے تھے۔ بلال نے جمال کے آنسو صاف کیے بلال کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ اُبھری اور اُس نے اپنی پلکیں جھپکائیں اور جمال کے گلے لگ گیا توشی نے بھی اپنے آنسو صاف کیے جہاں آرا اب سنجیدگی سے بلال کو دیکھ رہیں تھیں تھوڑی دیر بعد سب کچھ نارمل ہو گیا۔
”میں Change کرکے آتا ہوں۔ توشی کھانا یہی منگوا لو سب ساتھ کھائیں گے۔ “ جمال یہ بول کر چلے گئے رات کے 11 بج رہے تھے بلال رات کا کھانا مغرب کے بعد کھا لیتا تھا۔ جہاں آرا بھی کھانا کھا چکی تھیں۔ توشی اور جمال نے ابھی کھانا نہیں کھایا تھا۔
سب نے ساتھ کھانا کھایا بلال نے اُن کا ساتھ دیا جہاں آرا نے انکار کر دیا کھانے سے فارغ ہو کر جمال رندھاوا نے پوچھا۔
”شادی کی تیاریاں کیسی چل رہی ہیں۔ “
”مت پوچھیں میں ایک سوٹ خریدتی ہوں تو آپ کی بیٹی دو خریدتی ہے۔ اس طرح ہر چیز مجھ سے ڈبل خرید رہی ہے نوشی میڈم “ توشی نے جواب دیا۔
بلال خاموش بیٹھا ہوا تھا۔
”کیا سوچ رہے ہو بلال … “ جمال نے بلال کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
”ماموں جان آپ سے ایک بات کرنی تھی۔
“
”ہاں ہاں بولو بیٹا۔
“
”مجھے ایسا لگتا ہے ممانی جان اس شادی کے حق میں نہیں ہیں اگر ایسا ہے تو مجھے پہلے ُانہیں راضی کرنا ہے میں ممانی جان کی مرضی کے خلاف یہ شادی نہیں کرناچاہتا ہوں۔ “
”میں ناہید سے پوچھ لوں گا … اور کچھ … “ جمال نے کہا۔
”ایک بات اور میں شادی سے پہلے یہاں سے جوہر ٹاؤن شفٹ کرنا چاہتا ہوں۔ “
جمال نے اپنی ماں کی طرف دیکھا انہوں نے اثبات میں گردن ہلا دی۔
”کوئی گھر دیکھا ہے تم نے “ جمال نے پوچھا۔
”ابھی تک تو کوئی نہیں … کل سے دیکھوں گا … فی الحال رینٹ پر جاؤں گا چھ سات ماہ تک اپنا خرید لوں گا۔“ بلال نے جواب دیا۔
”پاپا آپ خرید دیں بلال کو گھر “ توشی نے جلدی سے کہا جمال نے توشی کی طرف دیکھا اور اُسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
”ٹھیک ہے بلال جیسے تمہاری خوشی مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
“ جمال نے مسکرا کر کہا۔
###
اگلے دن 10 فروری بروز پیر بلال سیدھا رامے اسٹیٹ پر گیا طارق رامے ابھی تک آفس نہیں پہنچا تھا۔ مگر اُس کا آفس کھلا ہوا تھا۔ آفس بوائے نے بلال سے چائے کا پوچھا اُسے ادب سے بٹھایا۔
”رامے صاحب کب تک آئیں گے۔ “ بلال نے سوال کیا۔
”سر جی رامے صاحب تو LDA آفس چلے گئے ہیں اب تو وہ 12، ساڑے 12 بجے تک آئیں گے۔
“
آفس بوائے نے جواب دیا، بلال نے گھڑی کی طرف دیکھا، ساڑھے 9 بج رہے تھے۔ وہ اپنے سکول چلا گیا۔ بلال آفس میں مصروف ہو گیا اپنے روزمرہ کے کاموں میں 12 بجے کے قریب فوزیہ اور لیاقت بلال سے ملنے کے لیے آئے تھے۔
”سر ایک فیصلہ کر دیں … میں سوئزر لینڈ جانا چاہتی ہوں اور لیاقت مجھے دبئی لے جانا چاہتا ہے … میں نے کہا دبئی تو اب ہر للو پنجو جا رہا ہے … جانا تو وہاں چاہیے جہاں کم لوگ جائیں اور وہ جگہ بھی خاص ہو۔
“
لیاقت علی فوزیہ کو ہنی مون کے لیے دبئی لے جانا چاہتا تھا۔ وہ اس لیے اُسے وزٹ ویزہ فری مل جاتا اُس کے تعلقات کی وجہ سے صرف ٹکٹ کا خرچہ تھا۔ کھانے پینے کا بندوبست دعوتوں سے ہو جاتا، ہنی مون کا ہنی مون اور بچت کی بچت مگر فوزیہ دبئی جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔
”شیدائن نہ ہو تو اوئے پاگلے سارے انگریز اب گھومنے کے لیے دبئی ہی آتے ہیں اور تم انگریزوں کے ملک کا بول رہی ہو۔
“ لیاقت علی نے فوزیہ کو جواب دیا۔
”سر آپ فیصلہ کر دیں ہمیں کہاں جانا چاہیے۔ “ فوزیہ نے درخواست کی۔
”میں تمہیں ایک ایسی جگہ بتاتا ہوں جہاں سب سے زیادہ لوگ جاتے ہیں۔ مگر جاتے سارے کے سارے نصیبوں والے ہیں اور وہ جگہ بھی سب سے خاص اور اہم ہے تم لوگ عمرہ کر آؤ … خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں اپنی زندگی میں اللہ اور اُس کے محبوب ﷺ کے گھر کی زیارت نصیب ہو جائے بلکہ خالہ نصرت اور خالہ ثریا کو بھی ساتھ لے جاؤ۔
“
بلال نے مشورہ دیا۔ فوزیہ کو بلال کا مشورہ بہت پسند آیا مگر لیاقت علی کو خرچے کی فکر تھی۔ لیاقت علی بوسکی کی قمیض اور کیٹی کی شلوار پہنے ہوئے تھا۔ اُس نے اپنی بوسکی کی قمیض کی سائیڈ والی پاکٹ کے اوپر ہاتھ رکھا اور اپنے بٹوئے کو چھوا اور بولا ”میرے پاس چار لوگوں کے پیسے نہیں ہیں۔“
”لیاقت علی اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو خالہ نصرت اور ثریا خالہ کے پیسے مجھ سے لے لو یہ بات ہم تینوں کے درمیان رہے گی ہمیشہ کے لیے۔
“
بلال نے پُر خلوص لہجے سے کہا فوزیہ اور لیاقت نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اس کے بعد فوزیہ بولی۔
”سر … ٹھیک ہے … مگر یہ قرض ہوگا جو میں آپ کو واپس کروں گئی۔ “
”منظور ہے … “ بلال نے ہاں کر دی اُس کے بعد فوزیہ اور لیاقت کو چائے پلائی۔
”میں یکم مارچ کو جا رہا ہوں عمرہ کرنے کے لیے 12 مارچ کو واپسی ہوگی میری چند گھنٹے دبئی اسٹے ہے اس کے بعد لاہور واپس۔
“ بلال نے اپنا سارا شیڈول بتا دیا۔
”بلال بھائی آپ کے چھ ماہ بھی ہونے والے ہیں۔ “ لیاقت نے یاد دہانی کرائی۔ بلال کے پاس امارات کا Residence visa تھا۔ جس کے لیے ضروری ہے ہر چھ ماہ بعد متحدہ عرب امارات چکر لگا یا جائے چاہے ائیر پورٹ سے اِن آؤٹ ہو کر واپس آ جائیں وہ ویزہ لیاقت علی کے کسی جاننے والے نے دیا تھا ویزے کا سارا خرچہ بلال نے کیا تھا۔
”سر آپ کی شادی۔ “ فوزیہ کو تشویش ہوئی۔
”میں 13 مارچ کی صبح انشا اللہ واپس آ جاؤں گا۔ اور نکاح 14 مارچ جمعہ کی نماز کے بعد ہے۔ “
”سر ہم لوگ آپ کی شادی کے بعد ہی عمرہ کرنے جائیں گے تب تک امی اور خالہ کا پاسپورٹ بھی بن جائے گا۔ “
بلال اسکول سے دو بجے کے آس پاس فارغ ہوا اس کے بعد وہ طارق رامے کے دفتر دوبارہ گیا۔ طارق رامے اور اعجاز جنجوعہ آفس میں موجود تھے جب بلال آفس کے اندر داخل ہوا تو طارق رامے کسی پارٹی کو جھوٹی سچی کہانی موبائل پر سنا رہا تھا۔
اور اعجاز جنجوعہ بائیں ہاتھ میں اخبار اور دائیں ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
”اُو جی… بسم اللہ بلال صاحب آئے نے۔ “ طارق رامے نے فون پر بات کرتے کرتے اُٹھ کر بلال کا استقبال کیا اور اُسے گلے لگایا اور ہاتھ کے اشارے سے بلال کو بیٹھنے کو کہا بلال بیٹھنے سے پہلے جنجوعہ صاحب سے گلے مل چکا تھا۔ جنجوعہ صاحب اپنی چائے ختم کر چکے تھے۔
بلال صوفہ پر بیٹھ گیا جنجوعہ صاحب کے برابر میں۔
”اوئے چھوٹے تین کپ دودھ پتی بنا اور ودیا سے بسکٹ لا۔ “ طارق رامے نے آفس بوائے کو حکم دیا۔
”چھوٹے دو کپ بنانا میں نے ابھی ابھی چائے ختم کی ہے۔ “ اعجاز جنجوعہ نے کہا۔
”پی لے جنجوعہ پی لے … تیری رگوں میں ویسے بھی چائے ہی دوڑ رہی ہے۔ خون کی جگہ ایک کپ اور سہی۔ “ طارق رامے موبائل پر بات کر چکا تھا اور اب اعجاز جنجوعہ کی ٹانگ کھینچ رہا تھا۔
”رامے صاحب میں چائے نہیں پئیوں گا میرا روزہ ہے “ بلال نے کہا۔
”روزہ … “ طارق رامے کے منہ سے حیرت سے نکلا۔ ”وہ کس خوشی میں حیرت کی بات ہے۔ تم نے روزہ رکھا ہے۔“
”رامے تمہارے لیے حیرت کی بات ہی ہوگی کیونکہ تم نے کبھی رمضان کے روزے نہیں رکھے۔ ویسے تم ڈیلروں کو موت کیوں یاد نہیں۔ “ اعجاز جنجوعہ نے حساب برابر کر لیا۔
”موت کو یاد کرنے ٹھیکہ ہم نے ٹھیکیداروں کو جو دے دیا ہے۔ میں واقف ہوں تمہاری رگ رگ سے تم وہی ہو نا جو کہتا تھا۔ یار رامے باقی سب تو ٹھیک ہے۔ میں روزے میں سب کچھ چھوڑ سکتا ہوں سوائے چائے کے “ طارق رامے نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اس سے پہلے کہ رامے اور جنجوعہ میں باقاعدہ جنگ چھڑ جاتی بلال نے اپنے آنے کی وجہ بیان کر دی۔
”جنجوعہ صاحب اور رامے صاحب میرا 14 مارچ کو نکاح ہے آپ لوگوں نے آنا ہے۔ جنجوعہ صاحب بھابھی اور بچوں کے ساتھ اور رامے صاحب آپ کو بھی “