
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
”کسی کو ایک دن کے لیے بیوی بنا کر لے آئے گا رامے تمہاری شادی پر۔ “ اعجاز جنجوعہ نے بلال کی بات کاٹ کر جوابی حملہ کر دیا۔
”بلال نکاح کہاں ہے اور ولیمہ کہاں کون سی جگہ ہے “ طارق رامے نے پوچھا۔ ”اور نکاح کس کے ساتھ کر رہے ہو“ اعجاز جنجوعہ نے بات مکمل کی۔
”رامے صاحب نکاح چرڑ گاؤں کی نورانی مسجد میں ہوگا۔ اور بریگیڈر امان اللہ پڑھائیں گے اور ولیمہ 17 مارچ کو ہوگا اُس کی جگہ ابھی فائنل نہیں ہوئی۔
“
”ولیمہ کسی مدرسے میں کر لو۔ “ طارق رامے نے بے ساختہ کہا۔
”کوئی کارڈ شاڈ نہیں پرنٹ کروائے۔ “ اعجاز جنجوعہ نے پوچھا تو بلال نے نفی میں گردن ہلا دی۔
”میرے چھوٹے سالے کا پرنٹنگ پریس ہے پنڈی میں مَیں پرنٹ کروا دیتا ہوں۔ “
”جنجوعہ صاحب میرے صرف آٹھ دس مہمان تھے اس لیے شادی کارڈ پرنٹ نہیں کروائے۔
“
”کسی بیوہ کے ساتھ شادی کر رہے ہو۔
“ طارق رامے نے پوچھا۔ ”جو اتنی سادگی اختیار کی ہے۔“
”نہیں وہ میری بچپن کی منگیتر ہیں میرے ماموں کی بیٹی … اور جہاں تک سادگی کی بات ہے تو رامے صاحب ہم لوگوں نے شادی کو مشکل بنا دیا ہے۔ فضول رسموں رواجوں کی وجہ سے اس دور میں نکاح کرنا مہنگا ہوگیا ہے اور زنا کرنا سستا جس کی وجہ سے بے حیائی بڑھ رہی ہے۔ میں ولیمہ اپنی حیثیت کے مطابق اچھی جگہ پر کروں گا۔
“ بلال نے طارق رامے کے سارے سوالوں کے جواب دے دئیے۔ ”رامے صاحب مجھے ایک کنال کا گھر چاہیے رینٹ پر وہ بھی یکم مارچ تک۔“
”کوئی مسئلہ نہیں ہے ہو جائے گا۔ وہ اپنے میاں محمود صاحب ہیں۔ لندن والے اُن کا گھر ہے۔ صاف ستھرا فرنشڈ وہ اپنے اسکول والے میاں صاحب جن کی بلڈنگ میں اپنا اسکول ہے۔ “
”مگر وہ تو خود پاکستان آئے ہوئے ہیں پچھلے ہفتے اسکول آئے تھے۔
“ بلال نے جواب دیا۔
”25 فروری کو جا رہے ہیں اُنہوں نے تمہاری بہت تعریف کی تھی۔ بلال صاحب یہ جوانویسٹر ہوتے ہیں انہیں کرایہ وقت پر دیتے رہو اور ان کی پراپرٹی کا خیال رکھو پھر چاہے 20-25 سال گزار لو یہ کچھ نہیں بولتے۔ میں اُن سے بات کرتا ہوں وہ فوراً مان جائیں گے۔ “
”رامے صاحب مجھے صرف چھ سات ماہ کے لیے گھر چاہیے اُس کے بعد میں اپنا گھر خرید لوں گا انشاء اللہ۔
“
”میں ابھی بات کرتا ہوں۔ “ طارق رامے نے میاں محمود کو کال ملا دی اور وہ اُن سے باتیں کرنے لگا۔ اعجاز جنجوعہ دل میں سوچ رہا تھا اس کے پاس چھ سات ماہ میں گھر کی رقم اکٹھی ہو جائے گی۔ بلال اخبار پر نظریں جمائے اخبار پڑھ رہا تھا۔ آفس بوائے نے چائے اعجاز جنجوعہ کے سامنے رکھی اور دوسرا کپ طارق رامے کو پیش کیا۔
”لو بلال صاحب کام ہوگیا میاں صاحب خوشی سے مان گئے ایک پورشن کے لیے اوپر والا پورشن 2 بیڈ روم ٹی وی لاؤنج کچن سب کچھ ہے۔
گھر کے سارے سامان کے ساتھ آپ نے صرف اپنے کپڑے لے کر آنے ہیں اور بس ہاں ایک بات اور انہوں نے کہا ہے کرایہ بھی نہیں لیں گے آپ سے 25 کو وہ لوگ جا رہے ہیں 26 فروری کو آپ شفٹ کر لو۔“
”رامے صاحب میں شفٹ یکم مارچ تک کروں گا اور 2 مارچ کو عمرے کے لیے چلا جاؤں گا جانے سے پہلے میں گھر کا کچھ کام خود کروانا چاہوں گا اپنے حساب سے۔ “
بلال نے تفصیل بیان کی۔
” ٹھیک ہے بادشا ہو جیسے آپ کی مرضی میں 26 تاریخ کو چابیاں آپ کو دے دوں گا۔“
بلال نے اُن دونوں سے اجازت لی اور آفس سے چلا گیا۔
”کام تو صرف دو ہیں اس دور میں یا پراپرٹی کا یا پھر ایجوکیشن کا “ اعجاز جنجوعہ بولا بلال کے جانے کے بعد۔
”اور جہاں سے جنجوعہ تو نے کروڑوں کمائے ہیں۔ ٹھیکیداری وہ کام برُا ہو گیا۔ “ طارق رامے فوراً بول اُٹھا۔
”میرا وہ مطلب نہیں تھا دیکھو نا دو ماہ پہلے سوا تین کروڑ کا پلاٹ خریدا ہے اب گھر خریدنے کی بات کر رہا تھا پیسہ ہے تو کہہ رہا تھا۔“
”پیسہ کیوں نہیں ہوگا اُس کا نام ہے شہر میں گلبرگ ڈیفنس اور ماڈل ٹاؤن سے لوگ اپنے بچوں کو بلال کے اسکول بجھواتے ہیں فیس بھی ٹھیک ٹھاک لیتا ہے۔ اور غریب بچوں کو بھی مفت پڑھاتا ہے…
ایک طرف سے امیر لوگوں کو کاٹ رہا ہے اور دوسری طرف غریب بچوں میں بانٹ رہا ہے۔
“
طارق رامے نے تبصرہ کیا۔
”نہیں رامے کاٹنے والی بات غلط ہے۔ میرا بڑا بیٹا روحان پہلے دوسرے اسکول میں جاتا تھا میرا چھوٹا بیٹا اور بیٹی بلال کے اسکول میں پڑتے ہیں۔ میرے دونوں چھوٹے بچے بڑے بیٹے سے لائق تھے اور ہیں حالانکہ بڑے کو ٹیوشن بھی رکھوائی تھی اور اُس اسکول کی فیس بلال کے اسکول کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی۔ اب میں نے بڑے بیٹے کو بھی بلال کے اسکول داخل کروا دیا ہے …
رامے جس طرح انویسٹر کو اپنی پراپرٹی اور کرائے سے غرض ہوتی ہے۔
اسی طرح والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور ماحول سے غرض ہوتی ہے فیس سے نہیں … ایک اور بات جو دیکھ کر میں حیران رہ گیا میرے تینوں بچوں کو انگلش، عربی، اُردو بولنی آتی ہے اس دفعہ جب ہم لوگ پنڈی گئے تو میری سب سے چھوٹی بیٹی زونیشا اپنی نانی کے ساتھ پنجابی میں بات کر رہی تھی۔ جب میں نے پوچھا تمہیں پنجابی کیسے آئی ہے تو اُس نے مجھے بتایا ہمارا ایک پریڈ پنجابی کا بھی ہوتا ہے۔
جس میں ہماری ٹیچر ہم سے پنجابی میں بات کرتی ہے۔ حالانکہ میری سالی کے بچے پنڈی کے سب سے اچھے اسکول میں جاتے ہیں … انگلش عربی تو دور اُنہیں صحیح طرح سے اُردو بولنی نہیں آتی گلابی اُردو میں بات کرتے ہیں۔“
”جنجوعہ یار یہی بات ابھی فون پر میاں محمود صاحب بتا رہے تھے۔ کہ اس لڑکے کا اسکول بہت شاندار ہے۔ اور میاں صاحب سب سے زیادہ اس بات پر خوش تھے کہ اُن کی پرانی کھنڈر بلڈنگ کو بلال نے مرمت کروا کر ایک دم نیا بنا دیا ہے۔
اور کرایہ کبھی ایک دن لیٹ نہیں ہوتا … حساب کا تو توُ بھی بہت کھرا ہے جنجوعہ لیکن بلال کی بات ہی کچھ اور ہے … ہاں مجھے یاد آیا یہ تو نے کیا چول ماری تھی۔ کہ میرے سالے کا پرنٹنگ پریس ہے۔ شادی کارڈ میں پرنٹ کروا دیتا ہوں۔ “
”یار رامے بس ایسے ہی شوخی مار دی تھی۔ مجھے بھی بعد میں احساس ہو گیا تھا۔ یہاں کنجوسی کا نہیں سادگی کا معاملہ ہے۔
“ اعجاز جنجوعہ نے ایک لمبی ٹھنڈی سانس لی۔
”ماہ رخ کی اگر بلال سے شادی ہو جاتی تو راج کرتی۔ اب کیا کر سکتے ہیں ماہ رخ کے مقدر۔ “
”میں بھی اپنے بچے بلال ہی کے اسکول میں داخل کرواؤں گا “ طارق رامے نے مستقبل کی پلائنگ بتا دی۔
”بھائی صاحب پہلے شادی تو کر لو سال دو سال اور گزر گئے تو کوئی بیوہ بھی نہیں ملے گی۔ “
”ٹھیک ہے جی ٹھیک ہے جنجوعہ ابھی کل ہی بڑے بھائی راشد رامے کا فون آیا تھا بتا رہا تھا۔
امی نے تمہارے لیے ایک لڑکی دیکھی ہے چیچہ وطنی سے تعلق ہے۔ ڈاکٹر ہے، اور حج بھی کیا ہوا ہے۔ “ طارق رامے نے تفاخر سے بتایا اعجاز جنجوعہ کو۔
”بس پھر کام ہو گیا وہ چیچہ وطنی والی ڈاکٹر کو چیچک تو ضرور ہو جائے گی تیرے ساتھ شادی کرکے۔ “ اعجاز جنجوعہ نے طنزیہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تھا۔
###
”محسن کے ساتھ شادی کرکے تم بہت خوش رہو گی۔ “ نوشی نے توشی کو دیکھ کر کہا جو محسن رضا کا مسیج پڑھ رہی تھی اپنے موبائل پر۔
”کیا کہا تم نے “ توشی نے دوبارہ پوچھا۔
”جو سنا تم نے “ نوشی نے اُس کی نقل اُتاری۔
”آج کیا تاریخ ہے “ توشی نے نوشی سے پوچھا نوشی کا چہرہ دیکھنے والا تھا اُس نے گھوری ڈالی آنکھوں سے اور دل میں کہا ایڈیٹ۔
”موبائل تمہارے ہاتھ میں ہے اور تاریخ مجھ سے پوچھ رہی ہو۔ “ نوشی نے کہا۔
”ابھی بھی ایک مہینہ پڑا ہوا ہے کب آئیں گے وہ دن … “ توشی نے بے قراری سے کہا۔ بیڈ پر لیٹے ہوئے نوشی کے پہلو میں جو کہ دائیں طرف کروٹ لیے ہوئے پہلے سے لیٹی تھی۔
توشی اُسی انداز میں اُس کے سامنے بائیں ہاتھ کو اپنے رخسار کے نیچے رکھتے ہوئے لیٹ گئی۔
”کیا باتیں کرتی رہتی ہوں محسن بھائی کے ساتھ “ نوشی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”بس ایسے ہی اِدھر اُدھر کی باتیں، بتا رہا تھا شیروانی آ گئی ہے تیار ہو کر اور میرا لہنگا بھی۔ “
توشی محبت کی وادی میں کھوئی ہوئی بولی۔
”مجھ سے تو بلال نہ موبائل پر بات کرتا ہے اور نہ ہی مسیج سے اور اُس کا موبائل دیکھا ہے پرانا میوزیم میں رکھنے والا۔
“ نوشی نے اپنا مسئلہ بیان کر دیا۔
”یہ لو … تم بھی حد کرتی ہو ابھی آ جائے گا۔ عصر کی نماز پڑھ کر پھر چھت پر چلا جائے گا پھر گھنٹہ ڈیڑھ وہیں بیٹھے گا جب تک مغرب کی اذان نہ ہو جائے … چھت پر بیٹھ کر چائے پیتا ہے ڈوبتے سورج کو دیکھتے ہوئے جاؤ اُس کے ساتھ جا کر چائے پیو۔ ساری رومیٹنک باتیں کرو۔ “ توشی نے مسئلے کا حل بھی بتایا اور طریقہ بھی۔
”وہ رومینٹک باتیں کب کرتا ہے … اُس کی آدھی باتیں تو مجھے سمجھ ہی نہیں آتی۔ “ نوشی نے دوسری پریشانی بیان کر دی۔
”بلال کو رومینٹک باتیں نہیں آتیں حد کرتی ہو نوشی میڈم … اُس کی تو خاموشی بھی رومینٹگ ہوتی ہے کبھی اُس کی آنکھوں میں دیکھنا مر جانے کو جی چاہتا ہے … محسن اکثر کہتا ہے جب وہ خاموش ہوتا ہے تو دل کرتا ہے اُسے دیکھتے رہو اور جب وہ بولتا ہے تو اُسے سننے کو من کرتا ہے۔
مجھ سے کل کہہ رہا تھا۔ جب میں محسن سے WhatsApp پر بات کر رہی تھی۔ توشی جی محسن سے شادی سے پہلے اتنی باتیں مت کرو کہ بعد میں کہنے اور سننے کو کچھ نہ ہو۔ “
”تم نے بھی اُس سے کچھ پوچھا شادی کی شاپنگ کے بارے میں۔ اُس نے تو ابھی تک کچھ نہیں خریدا۔“نوشی کو نئی فکر لا حق ہو گئی۔
”نکاح والے دن وہ بابا جمعہ کا دیا ہوا سفید سوٹ پہنے گا اور اُن کی ہی دی ہوئی پشاوری چپل کے ساتھ۔
وہ سفید کپڑا اُس نے گلبرگ سے سلائی کروا لیا ہے۔ اور ولیمے کے لیے وہ مدینہ منورہ سے شاپنگ کرے گا پینٹ کوٹ شوز سب کچھ اور تمہارے لیے بھی ساری شاپنگ وہ مدینہ منورہ سے ہی کرئے گا۔ “
”بلال شاپنگ کرنے کے لیے سعودی عرب جا رہا ہے۔ “ نوشی نے معصومیت سے پوچھا۔
”ایک نمبر کی ڈفر ہو تم پتہ نہیں پھوپھو نے کیا دیکھا تھا تم میں … وہ اپنی شادی سے پہلے عمرہ کرنے جا رہا ہے اور شادی کے بعد تمہارے ساتھ حج کرنے جائے گا۔
“ توشی بیزاری سے بولی۔
ٹھیک ہے ضرور جائے مجھے بھی ساتھ لے جاتا تا کہ میں اپنی مرضی سے شاپنگ کر لیتی اب اُسے میری پسند اور نا پسند کا کیا پتہ شادی کے بعد حج کے لیے ساتھ لے کر جائیں گے ابھی کیوں نہیں لے جا رہے ہیں ساتھ مجھ کو۔“ نوشی نے اپنا نقطہ نظر بیان کر دیا۔
”وہ اس لیے ابھی تم نا محرم ہو بلال کے لیے۔ “ توشی نے وضاحت کی۔
”یہ نا محرم کیا ہوتا ہے؟ “ نوشی نے ایک اور کم علمی کی بات کردی۔
”یہ لو … ستیاناس … “توشی نے اپنا تکیہ کلام دہرایا۔
###
”ہماری بیٹی بے وقوف ہے … ہم ماں باپ ہیں اس لیے اُسے معصوم اور بھولی سمجھتے ہیں اور بلال اتنا ہی ذہین اور عقلمند ہے …ناہید بیگم اُس بچے کی تابعداری دیکھو اُس نے مجھ سے کہا کہ میں ممانی جان کی مرضی کے بغیر یہ شادی نہیں کروں گا … ناہید میری بھی محبت تھی تم اب بھی ہو اور رہو گئی حالانکہ میں نے ابا جی کی مخالفت کے باوجود تم سے شادی کی تھی۔
بلال نے مجھے محبت کا مطلب سمجھایا … محبت حق دینے کا نام ہے حق چھینے کا نام نہیں تمہاری بیٹی کی شادی میں تمہاری پسند اور نا پسند تمہارا حق ہے حالانکہ میں نے ابا جی سے اُن کی پسند کا حق لے لیا تھا مگر بلال نے ایسا نہیں کیا … ناہید بلال سے اچھا لڑکا ہماری بیٹی کو مل ہی نہیں سکتا بات کو سمجھو۔“ جمال نے ناہید کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا ہوا تھا وہ اُس کے پہلو میں بیڈ پر ٹیک لگائے ہوئے بیٹھی تھی۔
”خاک محبت کرتے ہیں آپ اُس دن جوان بیٹے کے سامنے تھپیڑ مار دیا … اُس رات میں سو نہیں پائی پھر سیالکوٹ چلے گئے رات کو واپس آئے تو اس کمرے میں آ کر الگ سو گئے میں بیڈ روم میں آپ کا انتظار کر رہی تھی اب بھی میں ہی ڈھیٹ بن کر آئی ہو۔ محبت کرتا ہوں تم سے ناہید سب جھوٹ ہے۔ “ناہید اپنے نازنخرے دکھاتے ہوئے بولی۔
”اچھا بابا سوری … اب چھوڑ دو وہ بات میں نے پوری زندگی تم پر کبھی ہاتھ نہیں اُٹھایا۔
“ جمال رندھا وا نے اپنی صفائی پیش کی۔
”یہی تو … اب اس عمر میں وہ بھی شعیب کے سامنے خیر چھوڑیں اُس بات کو آپ نے توشی کا رشتہ طے کیا مجھے ساتھ لے جانا مناسب نہیں سمجھا یہی تک بات نہیں روکی آپ نے شادی کی ڈیٹ فائنل کی مجھ سے مشورہ نہیں کیا رندھاوا صاحب چھوڑیں یہ محبت کی باتیں آپ نے مجھے میری حیثیت بتا دی ہے۔ “ ناہید نے خفگی سے کہا روکھے انداز کے ساتھ۔
”ٹھیک کہہ رہی ہو مجھ سے یہ ساری غلطیاں ہوئیں ہیں … سچ کہوں تو بلال نے مجھے اُسی دن کہا تھا ماموں جان ممانی کو ساتھ ہونا چاہیے آخر وہ توشی کی ماں ہیں … دیکھو ناہید یہ باتیں ہم بعد میں بھی کر سکتے ہیں ابھی جو میں نے پوچھا ہے تم اُس کا جواب دو۔ “ جمال رندھاوا نے ناہید کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے سپاٹ انداز سے کہا۔رندھاوا صاحب میں نے ساری زندگی آپ کی کوئی بات ٹالی ہے کبھی … جیسے آپ خوش۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بلال اور نوشی کی شادی پر “
ناہید نے دل فریبی سے رنگ بدلا جمال اُس کا دوغلا پن نہیں دیکھ سکا اُسے یقین آ گیا کہ ناہید سچ کہہ رہی ہے۔ (رندھاوا صاحب میں اس لیے مان رہی ہوں کہ کسی طرح وہ زمین والی بات ٹل جائے نہیں تو مفت میں چالیس پچاس کروڑ کا نقصان ہو جائے گا۔) ناہید نے اپنے دل میں کہا۔
”میں ایسے ہی پریشان ہو رہا تھا تم تو مان گئی یہ تمہاری اچھائی ہے ناہید بیگم … “
جمال رندھاوا ایک بار پھر بولے۔
”بلال کا بڑا پن دیکھو اُس نے کہا ہے آپ وہ زمین ضرور خریدیں مگر میرے لیے نہیں … “
”اچھا … آپ سچ کہہ رہے ہیں … واقعی … “ ناہید ایک دم ہشاش بشاش ہو گی اُس کے منہ سے افراتفری میں یہ الفاظ نکلے اُس کے ہونٹوں پر ایک عجیب طرح کا تبسم تھا جیسے دنیا جہاں کے خزانے اُس کے ہاتھ لگ گئے ہوں وہ فٹا فٹ اُٹھی بیڈ سے۔
”میں آپ کے لیے جوس لے کر آتی ہوں۔
“ ناہید نے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔ ”کنٹرول ناہید کنٹرول اپنے جذبات کو قابو میں رکھو۔“ ناہید نے خود سے کہا تھوڑی دیر بعد وہ اورنج جوس لے کر کمرے میں آئی جمال رندھاوا واش روم سے نکل رہے تھے۔
”یہ لیجیے … میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے آپ کے لیے۔ “ ناہید نے رومینٹک انداز سے کہا جمال نے جوس لیا اور کرسی پر بیٹھ کر پینے لگا ناہید جمال کو مسلسل دیکھ رہی تھی جمال نے جوس ختم کیا۔
”چلیں اُٹھیں اپنے بیڈ روم میں چلیں۔ “ ناہید نے جمال کا ہاتھ پکڑ اور اپنے بیڈ روم میں لے آئی ۔
”رندھاوا صاحب آپ واقعی مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ “ ناہید نے نینوں کے تیر چلائے اور بولی۔
”ہاں بھی کیسے یقین دلاؤں “ جمال رندھاوا نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”میں نے ایک فارم ہاؤس دیکھا ہے۔ بیدیاں روڑ پر 16 کنال کا ہے آپ نے اپنے تینوں بچوں کے نام پر الگ الگ اُن کو پراپرٹی خرید کر دی ہے یہ گھر آدھا پہلے ہی جمیلہ کے نام پر ہے۔
آپ کے نام پر سیالکوٹ کی فیکٹری میرے نام پر کیا ہے صرف وہ کوٹ لکھپت والی فیکٹری اُس میں بھی آپ کا بیٹا پارٹنر ہے۔“
”وہ فارم ہاؤس خریدنا چاہتی ہوں۔ “ جمال رندھا وا نے ناہید کا ہاتھ پکڑا اور بیڈ پر اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔
”ہاں جی … مگر میرے نام پر … “ ناہید نے محبت بھرے انداز سے کہا۔
”ٹھیک ہے … خرید لو … “ جمال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
###
عصر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلال چھت پر اپنے گرین ہاؤس میں پودوں کو دیکھ رہا تھا۔ مٹی کی کنالیوں میں وہ پانی اور دانہ پہلے ہی ڈال چکا تھا۔ دو چار پودوں کی گوڈی کرنے کے بعد اُس نے چھت پر لگے بیسن پر ہاتھ دھوئے۔ بلال نے گرے کلر کا ٹروزر اور شرٹ اور شرٹ کے اوپر اپر پہنا ہوا تھا۔ اُس کے پاؤں میں سلیپر تھے بلال کافی Relax نظر آ رہا تھا۔ بلال چھت کی مغربی چار دیواری کے پاس پانی کی کنالیوں سے آگے مغرب کی طرف منہ کرکے کھڑا ہو گیا اور ڈوبتے سورج کو دیکھ رہا تھا اُس کے بالکل برابر میں توشی بھی آ کر کھڑی ہو گئی تھی چند منٹ پہلے۔
”یہ محبت کیا ہے؟ اور عشق کیا ہے؟ “ توشی نے کھڑے ہونے کے کچھ دیر بعد پوچھ لیا بلال نے اُس کی طرف دیکھا اور مسکرایا اور کافی دیر توشی کو دیکھتا رہا پھر بولا۔
”توشی جی ان دو جذبوں پر سب سے زیادہ لکھا ہے، شاعروں اور لکھاریوں نے آنے والے لوگ بھی شاید اپنی تحریروں کا موضوع انہیں ہی بنائیں سمجھ کوئی نہیں سکا سب کا اپنا اپنا نقطہ نظر ہے میں جو سمجھا ہوں میں بیان کر دیتا ہوں …
عشق کی معراج کو پہنچے حضرت بلال نبی پاک ﷺ سے اُن جیسا عشق کون کر سکتا ہے … ہم صرف اُن کے جذبہ عشق کو سلام پیش کر سکتے ہیں۔
عاشق بننا ہم جیسے کمزور لوگوں کے بس کی بات نہیں عشق میں کسی وقت بھی جان قربان کرنی پڑ سکتی ہے اور ہمیں سب سے زیادہ اپنی جان پیاری ہوتی ہے ہم صرف عشق کرنے کی نقل اُتار سکتے ہیں عشق کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے یہ بڑے لوگوں کا کام ہے۔“
”نوشی ٹھیک کہتی ہے تمہاری آدھی باتیں سر سے گزر جاتی ہیں۔ “ توشی گھوم کر کھڑی ہو گئی باؤنڈری وال سے ٹھیک لگا کر اب اُس کی پشت سورج کی طرف تھی بلال اُسی طرح کھڑا تھا۔
”توشی جی آسان بات یہ ہے … محبت زندگی عطا کرتی ہے۔ اور عشق میں جان دینی پڑتی ہے۔ “ بلال نے گھر جاتے ہوئے پنچھیوں کو دیکھ کر کہا۔
”تم نوشی سے محبت کرتے ہو یا عشق “ توشی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”میں کوشش کرتا ہوں سب سے ہی محبت کروں بابا جمعہ فرماتے تھے محبت فرض ہے۔ “
”بات گول مت کرو سیدھا جواب دو۔ “ توشی نے شہادت کی انگلی دکھا کر بلال کو تڑی لگائی۔
”میں نسیم جمال رندھاوا سے بہت محبت کرتا ہوں۔ “ بلال نے محبت سے جواب دیا عین اُس وقت نوشی ہاتھ میں چائے کی ٹرئے پکڑے توشی کے سامنے اور بلال کے پیچھے کھڑی ہوئی تھی۔ نوشی نے بلال کے کہے ہوئے الفاظ سنے تھے نوشی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اُس نے بات بدلی۔
”تم بھی یہاں کھڑی ہو۔ “ نوشی نے کہا اُسے توشی کا وہاں پر ہونا اچھا نہیں لگا تھا۔
”جی ہاں میں بھی بلال کے ساتھ کھڑی ہوں ہم دونوں یہاں کھڑے ہیں نسیم جمال رندھاوا۔ “
”ہاں مجھے پتہ ہے تم دونوں ہی ہو ایک اور ایک دو ہی ہوتے ہیں اتنی تو سمجھ ہے مجھ میں اُس نے چائے کی ٹرے ایک لکڑی کے پرانے چھوٹے میز پر رکھ دی چھت پر صرف ایک ایزی چیئر پڑی ہوئی تھی۔ “
”ایک جمع ایک دو بنتا ہے ایک اور ایک گیارہ بنتے ہیں۔
“بلال اب گھوم چکا تھا اور اُس نے نوشی کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”وہ کیسے؟ “ نوشی نے پوچھا۔
”ابھی ٹرے میں دو مگ ہیں۔ دور سے دیکھو تو گیارہ لگے گا ایک کے ساتھ دوسرا ایک کھڑا ہو تو گیارہ بن جاتا ہے۔ “ بلال نے تفصیل بتائی SMS دوسری ٹرے ہاتھ میں اُٹھائے چھت پر آیا جس میں نگٹس شامی کباب بسکٹ فروٹ کیک بہت کچھ تھا۔
”یہ لو … عیاشیاں … ٹی پارٹی ہو رہی ہے۔ “ توشی نے چائے کا ایک مگ اُٹھایا۔
”چلو SMS … چلیں یہاں سے۔ “ SMS کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے کیٹ واک کرتے ہوئے چھت کی سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔ ”بلال صاحب یاد رکھنا گیارہ کو میں نے پھر ایک بنا دیا ہے۔“
توشی اور SMS وہاں سے جا چکے تھے۔ بلال اور نوشی ایک دوسرے کو چور نگاہوں سے دیکھ رہے تھے نوشی کا چہرہ شرم سے لال ہو چکا تھا۔
بلال نے اُسے ایزی چیئر پر بیٹھنے کو کہا۔
”نوشی جی آپ بیٹھ جائیں۔ “ بلال کے جملے میں بہت مٹھاس اور اپنائیت تھی نوشی بغیر تردد کے بیٹھ گئی۔ اب بلال اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے اور نوشی گردن جھکائے بیٹھی ہوئی تھی۔
”آپ چائے پئیں ورنہ ٹھنڈی ہو جائے گی۔ “ بلال نے مسکرا کر کہا وہ نوشی کی شرماہٹ اور گھبراہٹ انجوائے کر رہا تھا۔
”مگر یہ تو میں نے آپ کے لیے بنائی تھی۔ “ نوشی نے رک رک کر جواب دیا۔
”آپ نے خود بنائی تھی میرے لیے۔ “ بلال نے خوش ہو کر نوشی کے الفاظ دہرائے۔
”جی زندگی میں پہلی بار وہ بھی BG سے پوچھ کر آپ یہ نگٹس لیں یہ بھی میں نے ہی فرائی کیے تھے آپ کے لیے۔ “ نوشی نے نگٹس کی پلیٹ اُٹھائی اور بلال کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔بلال نے سورج کی طرف دیکھا جو اپنے بستر پر لیٹ چکا تھا۔
اور رات کی چادر اوڑھ کر سونے والا تھا کل صبح تک۔ مغرب کی اذان کو تھوڑی دیر باقی تھی۔بلال نے پلیٹ پکڑ لی اور ٹیبل پر رکھ دی اور چائے کا مگ اُٹھا لایا۔ ”آپ چائے پیو …“
بلال نے چائے کا مگ نوشی کو تھما دیا نوشی نے چائے کے دو چار سپ لگائے تو مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی۔ بلال نے کچھ بولے بغیر نوشی کے ہاتھ کو چھوئے بغیر وہ مگ اُس کے ہاتھ سے پکڑا اور روزہ کھولنے کی دعا پڑی اور بسم اللہ پڑھ کر چائے کے دو گھونٹ لگائے اُسی جگہ سے جہاں پر نوشی کی لپ اسٹک لگی ہوئی تھی۔
مگ کے کناروں پر نوشی حیرانی سے بلال کو دیکھ رہی تھی۔
”بلال مجھے سارے جواب مل گئے تمہاری خاموشی بھی رومینٹک ہے۔ “ نوشی نے دل ہی دل میں کہا۔
بلال نے وہ مگ چائے والی چھوٹی ٹرے میں رکھا اور دونوں ٹرے اُٹھائیں اور چھت سے اُتر آیا۔
نوشی جان چکی تھی۔ کہ بلال کا روزہ تھا وہ یہ بھی جان چکی تھی۔ نا محرم کسے کہتے ہیں۔ وہ یہ بھی جان چکی تھی کہ بلال اُس سے کتنی محبت کرتا ہے۔
اُسے یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ وہ کتنا رومینٹک ہے اُسے بلال کی نظروں میں اپنی قدر و منزلت کا بھی احساس ہو چکا تھا۔
”واقعی میں اندھی تھی۔ جواتنے سالوں میں اس کی محبت کو دیکھ نہیں سکی۔ “ نوشی نے اپنی بے وقوفی پر خود کو ملامت کی۔
سورج نے پوری طرح سے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔ مگر نوشی کی آنکھیں کھل چکی تھیں۔شام رات کے دروازے پر دستک دے چکی تھی۔
نوشی کافی دیر وہیں کھڑی رہی اُس کے بعد وہ بلال کے روم میں آئی بلال مسجد سے نماز ادا کرکے آ چکا تھا جب وہ روم میں داخل ہوئی تو بلال اوون میں نوشی کی لائی ہوئی اشیا گرم کر چکا تھا اَب اُس نے چائے کا آدھا مگ اُٹھایا اور اُسے اوون میں رکھا گرم کرنے کے لیے اُس کے بعد اُس نے اپنے بیڈ پر پلاسٹک کی شیٹ بچھائی اور سب کچھ اُس پر رکھا اپنے سگنل بیڈ کے ساتھ نوشی کے لیے رائٹنگ ٹیبل والی کرسی رکھی اور خود بیڈ پر بیٹھ گیا۔
”نوشی جی آ جائیں اب وقت ہے آپ کی بنائی ہوئی چیزوں کو کھانے اور پینے کا۔ “ بلال نے نوشی کی طرف دیکھ کر کہا جو اُس کے سامنے کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔ بلال نے بڑے شوق سے نوشی کی لائی ہوئی چیزیں کھائیں نوشی چائے میں چینی زیادہ پیتی تھی اور بلال پھیکی چائے پینے والا نوشی کو معلوم تھا۔ اس لیے وہ بلال کے لیے گرین مگ پھیکا بنا کر لائی تھی۔
جو توشی اُٹھا کر چلی گئی تھی اور یہ سفید مگ وہ اپنے لیے لائی تھی جس میں زیادہ چینی تھی مگر بلال بڑے مزے سے یہ زیادہ چینی والی چائے پی رہا تھا اُس نے نوشی کو ایک بار نہیں کہا اس میں چینی زیادہ ہے۔
”کوئی بات کریں۔ “ نوشی نے فرمائش کی۔
”آپ نے چائے بڑی اچھی بنائی تھی اور نگٹس بھی اچھی طرح سے فرائی کیے تھے۔ “ بلال کی یہ بات سن کر نوشی کھل کھلا کر ہنس دی۔
”میں کچھ اور سننا چاہتی ہوں آپ کے دل کی بات۔ “ نوشی نے محبت سے کہا۔
”ابھی اُس کا وقت نہیں آیا باقی باتیں 32 دن بعد۔ “ بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا نوشی کو معلوم تھا 32 دن بعد اُن کا نکاح تھا۔ اُس نے شرما کر نظریں جھکا لیں اور اُٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔
###
نوشی سونے کی کوشش کر رہی تھی مگر نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ وہ اُٹھ کر ٹیرس پر گئی بلال کے روم کی ساری لائٹس آف تھیں۔ ”میری نیندیں اُڑا کر خود آرام سے سوئے ہوئے ہیں۔“ نوشی اپنے منہ میں بھڑ بھڑائی اُس کے بعد وہ بیڈ پر لیٹ گئی توشی دوسری طرف منہ کرکے لیٹی ہوئی تھی۔
وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی بلال کو جب اُس نے مگ اُس کے ہاتھ سے لے کر وہیں سے ہی چائے پی تھی جہاں پر نوشی کے ہونٹوں کے نشان لگے ہوئے تھے۔
نوشی نے بیڈ پر لیٹے لیٹے ہی اپنی ہتھیلیوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا شرم کے مارے اور اُس کے ہونٹوں سے یہ الفاظ نکلے۔
”کب آئیں گے وہ دن۔ “ نوشی کے برابر میں توشی فوراً بول پڑی۔
”کمینی نہ ہوتو “ دونوں بہنیں چیخ کر خوشی سے ایک دوسری کے گلے لگ گئیں۔
”اب پتا چلا کب آئیں گے وہ دن اور کب آئیں گی وہ راتیں“
توشی نے نوشی کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا۔
”مجھے بتا نہیں سکتی تھی کہ وہ مگ تیرے اُن کا تھا۔ “ توشی نے گلہ کیا نوشی نے توشی کا ہاتھ چوم لیا۔
”قربان جاؤں تیرے اس ہاتھ پر جس نے وہ پھیکا مگ اُٹھا لیا تھا۔ “ نوشی نے گرم جوشی سے کہا تھا۔
”دیکھ نوشی مجھے ساری بات سننی ہے بیچ میں سے کچھ چھوڑ مت دینا ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔ “ نوشی نے وہ ساری باتیں توشی کو لفظ بہ لفظ سنا دیں۔
”پھر آ گے کیا ہوا۔ “ توشی نے تجسس سے پوچھا۔
”پھر انہوں نے کہا باقی باتیں 32 دن بعد۔ “
دونوں بہنیں خوشی سے پاگل ہو رہیں تھیں پھر دونوں نے ہم آواز ہو کر زور سے کہا۔
”کب آئیں گے وہ دن … اور کب آئیں گئی وہ راتیں ……… “
اور بیڈ پر ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ کر سو گئیں۔
###
11فروری سے لے کر 25 فروری تک نوشی کا یہ معمول رہا کہ وہ عصر سے پہلے پہلے اپنے سارے کام ختم کر لیتی تھی۔
بوتیک کی ساری ذمہ داری اُس نے ارم واسطی پر ڈال دی تھی۔اُس نے اپنی شاپنگ بھی کم کر دی تھی۔ اب اُسے بھوک بھی کم لگتی تھی۔ اور نیند بھی کم ہی آتی تھی۔اُس کا سارا دھیان بلال کی طرف تھا۔ کب عصر کی نماز ادا کرکے وہ چھت پر جائے اور نوشی اُس کے لیے اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر وہاں پہنچے سوائے جمعہ اور پیر کے، جمعہ اور پیر والے دن وہ بلال کے لیے افطاری تیاری کرتی خود اپنے ہاتھوں سے۔
سارے گھر والوں کو اس بات کی خبر تھی مگر کسی نے اعتراض نہیں کیا، جمال اور جہاں آرا کو بلال پر پورا اعتماد تھا۔ توشی اپنی مصروفیت میں مصروف رہتی۔ شادی کی ساری تیاری نوشی اور خود کی اُس کے ذمے تھی۔
وہ بلال کو دیکھتی رہتی چپ چاپ بلال پہلے ہی کم گو انسان تھا۔ اکثر وہ دونوں خاموشی کی زبان سے بات چیت کرتے۔ 25 فروری 2014 کو عصر کے بعد نوشی اور بلال چائے پینے میں مصروف تھے۔
توشی ایزی چیئر پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اُس کے گولڈن بال کھلے ہوئے تھے۔ بغیر میک اَپ کے بھی وہ حسین لگ رہی تھی۔ نوشی نے لائٹ بلو جینز کے اوپر سفید کرتا پہنا ہوا تھا جس کے گلے پر سرخ رنگ کا کام ہوا تھا۔ اور اُس کے شانوں پر سرخ رنگ کی کشمیر ی شال تھی۔
بلال سفید رنگ کا کرُتا اور پائجامہ پہنے ہوا تھا۔ اور اُس کے کندھوں پر کالی گرم چادر تھی۔
اُس کے کالے سیاہ بال سورج کی روشنی سے مزید چمک رہے تھے۔ وہ ٹیک لگائے دیوار کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ اور اُس کے ہاتھوں میں گرین مگ تھا۔ جس میں پھیکی چائے تھی۔
”شادی کے بعد میں آپ کو حج پر اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔ “ بلال نے نوشی کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے کہا تھا۔
”مجھے انتظار ہے اُس وقت کا۔ “ نوشی نے مسکرا کر جواب دیا پھر کافی دیر دونوں اطراف سے خاموش رہی۔
”کوئی اور بات کریں مجھے آپ کی باتیں سننا اچھا لگتا ہے۔ “ نوشی اپنے سفید مگ کے کناروں پر شہادت والی انگلی پھیر کر بولی نظریں جھکائے ہوئے۔
”پیار دلوں میں تب تک رہتا ہے … جب دل سے دل تک اعتبار کا رشتہ قائم ہو … نوشی جی گارنٹی لکھ کردی جاتی ہے … بھروسہ بغیر لکھے کیا جاتا ہے… “
بلال چائے پیتے ہوئے بول رہا تھا نوشی کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری۔
”کوئی آسان بات میں سننا چاہتی ہوں۔ “ نوشی نے محبت سے زور دے کر کہا۔
”باتیں تب تک مشکل لگتی ہیں جب تک ہم غورو فکر نہیں کرتے جب ہم غورو فکر کرنا شروع کر دیتے ہیں تو سب کچھ آسان ہو جاتا ہے … نوشی جی آپ کے مطلب کی بات یہ ہے کہ آج آپ بہت اچھی لگ رہیں ہیں۔ سادگی میں انسان زیادہ حسین اور خوبصورت نظر آتا ہے۔ سادگی ہمیشہ فیشن کو مات دے دیتی ہے۔
“
”نا بابا نا آپ جیسی سادگی تو میں اختیار نہیں کر سکتی صرف دو رنگ ہیں آپ کی زندگی میں بلیک اینڈ وائٹ اور کوئی انجوائے منٹ نہیں آپ کی زندگی میں نہ آپ پارٹیز میں جاتے ہیں نہ شادیوں پر صرف فوزیہ کی شادی پر دیکھا تھا میں نے آپ کو زندگی میں ایک بار … فیشن شوز کنسرٹ اور ایگزیشن تو بہت دور کی بات ہے۔ “
پچھلے دو ہفتوں میں پہلی بار نوشی نے بلال کے سامنے اپنا نقطہ نظر کھل کر بیان کیا تھا۔
بلال کو اُس کا اظہار خیال کرنا اچھا لگا تھا۔
”نوشی جی آپ کو کس نے کہا میری زندگی میں صرف دو رنگ ہیں۔ میں رنگوں سے پیار کرتا ہوں وہ الگ بات ہے مجھے ذاتی طور پر ہلکے رنگ پسند ہیں۔
رہا پارٹیز میں جانا یا شادیوں میں شرکت کرنا میں نے اکثر لوگوں کو پارٹیز میں بھی اکیلے ہی دیکھا ہے وہ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں بھی تنہا ہوتے ہیں۔
اور کچھ تنہائی میں بھی پارٹی سے زیادہ انجوائے کر لیتے ہیں۔ میں اور آپ دونوں تنہا بیٹھے ہوئے ہیں … دیکھنے والے کو یہی لگے گا۔ اگر آپ غور کرو تو ہمارے ساتھ یہاں ساری کائنات خوش ہو رہی ہے وہ درخت پر شہد کی مکھیوں کو دیکھو … وہ آسمان پر گھر جاتے پرندوں کو دیکھو …“
بلال نے نوشی کو ہاتھ کے اشارے سے اُٹھنے کو کہا اب نوشی اُس کے ساتھ سامنے پارک کی طرف دیکھ رہی تھی۔
جہاں پر ٹالی کا ایک بہت بڑا درخت تھا۔ جس پر بہت سارے پرندوں کے گھونسلے تھے اور وہ گھر آ کر اپنی خوشی کا اظہار اور اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے۔
”وہ آپ جنگلی کبوتروں کو دیکھو کیسے اپنے ساتھی سے محبت کا اظہار کر رہا ہے “ چھت کے ایک کونے میں جنگلی کبوتر اپنی مادہ کے ساتھ محبت کے راگ چھیڑے بیٹھا ہوا تھا۔
اب بلال دو فٹ کی دوری پر نوشی کے بالکل سامنے کھڑا تھا۔
چھت کے ایک کونے پر اُس کے بائیں طرف بہت بڑا پارک تھا۔ جہاں سے پرندوں کی آوازیں بیگ گراؤنڈ میوزک کی طرح آ رہیں تھیں۔
”نوشی جی ہمارے دلوں میں حرص و ہوس کا بسیرا ہے خوشی اور سکون کو حرص و ہوس کے ساتھ دل میں جگہ نہیں ملتی اور ہم خوشیاں تلاش کرنے کے لیے پارٹیز کنسرٹ اور ایگزیبیشن میں جاتے ہیں پھر آپ کہیں گئی مشکل باتیں کر رہا ہے۔ سیدھی بات یہ ہے دل سے حرص و ہوس نکال دیں تو آپ تنہائی میں بھی خوش رہیں گے۔ فیشن شوز میں جا کر خوشی نہیں ملتی خوشی انسان کے اندر ہوتی ہے۔ “
”میں خود Fashion designer ہوں میں سمجھنا چاہتی ہوں کس طرح سادگی فیشن کو مات دیتی ہے۔ “ نوشی کو بلال کی اس بات سے شدید اختلاف تھا۔
”میں Explain کرتا ہوں آپ اپنے نیکسٹ فیشن شو میں دو ماڈلز کا انتخاب کیجیے گا۔ ایک ٹاپ کی ماڈل جو انتہائی خوبصورت بھی ہو اور دوسری عام سی شکل و صورت کی جو آپ کی ٹاپ کی ماڈل ہو اُسے آپ اپنا ماسٹر پیس دیجیے گا۔ Aluabile, western, unique, clour full اور دوسری عام شکل و صورت کی ماڈل کو ایک سادہ مشرقی لباس جو دو تین رنگوں میں بنا ہو مگر پورا لباس ہو اور اُس کے ساتھ دوپٹہ ضرور ہو۔
ٹاپ ماڈل کا میک اَپ ٹاپ کی بیوٹیشن سے کروا لیجیے گا اور عام ماڈل کا میک اَپ کسی بھی میک اَپ آرٹسٹ سے کروا لیں …پھر دونوں ماڈلز کو ریمپ پر واک کے لیے بھیج دیں آپ کو دیکھ کر حیرانی ہو گئی آپ کا وہ لباس جو سادہ تھا اور آپ کے لحاظ سے عام سا تھا زیادہ لوگ اُسے پسند کریں گے اور آپ کی outlet پر زیادہ سیل بھی وہی ہوگا۔
“
”آپ ہماری فیشن انڈسٹری پر تنقید کر رہے ہیں ہماری کمیونٹی کے لوگ آپ کے خلاف ہو جائیں گے۔
“ نوشی نے ہنستے ہوئے کہا۔
” نہیں میں کسی پر تنقید نہیں کر رہا ہوں۔ میں تو سادگی کی بات کر رہا تھا …“
”یہ تو آپ نے سادگی اور فیشن کا فرق بتایا۔ سادگی کسے کہتے ہیں؟ “ نوشی نے سوال کیا بلال اُس کا سوال سن کر خوش ہوا۔
”یہ تو آپ نے عادل عقیل کی یاد دلا دی وہ بھی بابا جمعہ سے ایسے ہی سوال پوچھتا تھا نوشی جی جو چیز بھی اپنی اصل شکل اور اصل حالت میں ہو۔
وہ سادہ ہی کہلاتی ہے جیسے گلاب کا پھول وہ طوطا دیکھیں وہ جنگلی کبوتر یہ سب سادہ ہی ہیں انہوں نے کوئی فیشن نہیں کیا ہے پھر بھی یہ سب حسین اور خوبصورت ہیں۔ “
”لگتا ہے شادی کے بعد آپ مجھ سے فیشن انڈسٹری چھڑوا دیں گئیں۔ “ نوشی نے ہنستے ہوئے اندازہ لگا یا۔
”نہیں … بالکل نہیں … نوشی جی آپ کا شوق ہے آپ کام کرو … مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی ہوگا بس کچھ باتوں کا خیال رکھیں آپ اچھے سے اچھا کپڑا پہنیں مگر … اپنی حیا کی چادر کبھی نہ اُترنے دیں … آپ سب کچھ کھائیں پئیں صرف حلال حرام کا خیال رکھیں … آپ بزنس کریں اُس میں سود نہ ہو اور کسی کا حق کبھی نہ رکھیں اور جو کچھ اللہ نے آپ کو دیا ہے اُس میں سے غریبوں کو ضرور دیں زکوٰة ادا کرنے کے بعد بھی اور آخری بات نوشی جی آپ نماز پڑھا کر یں… “
بلال کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تو اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوا مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی۔
نوشی نے لال کشمیری شال اپنے سر پر اوڑھ لی۔ بلال نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جا چکا تھا۔ نوشی وہاں سے اپنی دادی کے کمرے میں چلی گئی اُس نے دادی سے وضو کا پوچھا کیسے کرتے ہیں اُس کے بعد نماز کا طریقہ پوچھنے لگی نوشی کو نماز نہیں آتی تھی۔پھر بھی اُس کا سر سجدے میں تھا اپنے مالک کے حضور، دادی اُس کو دیکھ رہیں تھیں اور اُن کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے خوشی کے آنسو اور دادی منہ سے یہ الفاظ نکلے۔
(اچھی سنگت انسان کو اچھا بنا دیتی ہے اور بُری سنگت بُرا)
###
دو دن پہلے اتوار یعنی 23 فروری بروز اتوار 2014 کے دن بلال اور عادل صبح 9 بجے تقریباً بابا جمعہ کے لکڑی کے بڑے سے بینچ پر بیٹھے ہوئے اقبال چائے والا کے ہاتھ کی بنی ہوئی چائے پی رہے تھے۔ اس بار اقبال بھی اُن کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
”بابا جمعہ کو فوت ہوئے ایک مہینے سے زیادہ دن ہو گئے ہیں۔
“اقبال چائے والا بولا۔
” جی اقبال بھائی مگر بابا جی کی خوشبو اب بھی۔ یہاں سے آتی ہے۔“ عادل نے اظہار خیال کیا۔
”بلال بھائی ایک موچی ہے ولی خان وہ بڑی دفعہ میرے پاس آیا ہے کہتا ہے کہ یہ اڈہ اور بابا جی کا سامان مجھے دے دو آپ کیا کہتے ہیں۔ “ اقبال نے پوچھا بلال سے۔
بلال نے عادل کی طرف دیکھا مشاورت کے لیے عادل نظر کی زبان پڑھنا سیکھ گیا تھا۔
”بلال بھائی جیسے آپ کی مرضی میں آپ کے پیچھے ہوں “ عادل نے سنجیدگی سے کہا۔
”اقبال بھائی بریگیڈئر صاحب سے پوچھ لوں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے کیوں عادل صاحب۔ “
”جی جی بلال بھائی “ عادل نے بلال کی ہاں میں ہاں ملا دی اقبال نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔
”تو پھر ٹھیک بریگیڈئیر صاحب سے میں پوچھ چکا ہوں۔ انہوں نے کہا تھا اگر بلال اجازت دے تو پھر ولی خان کو یہ اڈہ اور جمعہ خان کا سامان دے دینا۔
“
”میرا نکاح ہے 14 مارچ بروز جمعہ اسی مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد ہے۔ نکاح بریگیڈئیر صاحب پڑھائیں گے کیونکہ بابا جی کے ساتھ انہوں نے عمر گزاری ہے میری نظر میں بابا جی کے بعد وہی معتبر انسان ہیں۔ اقبال بھائی آپ نے دودھ کا انتظام کرنا ہے اور کھجوریں میں لے آیا ہوں اور دوسری بات آپ دونوں کو دعوت ہے میری طرف سے ولیمے میں آپ دونوں نے اپنی پوری فیملی کے ساتھ شرکت کرنی ہے۔
“
اقبال اور عادل کے چہروں پر خوشی کی چمک واضع تھی۔ بلال نے اقبال کو دودھ کے لیے رقم دی اقبال نے انکار کر دیا۔
”نہیں اقبال بھائی رکھ لو اگر بابا جی ہوتے تو وہ بھی یہی کہتے آپ سے “ اقبال نے بلال کی بات سنی تو اُس کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور اُس نے خاموشی سے دودھ کی رقم جیب میں ڈالی اور اپنی دکان کی طرف چلا گیا اس سے پہلے اُس کے آنسو گرتے۔
بلال نے عادل کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”عادل چلو میرے ساتھ۔ “ عادل نے اپنی گاڑی بلال کی گاڑی کے پیچھے ڈال دی۔
”عظمی جی میرا نکا ح ہے 14 مارچ کو اور 17 مارچ کو ولیمہ آپ سب نے آنا ہے۔ “ بلال نے کافی کاگھونٹ لیتے ہوئے کہا وہ کھانا کھا چکے تھے۔
”اب تم دونوں بھی جلدی سے جلدی شادی کر لو۔ “ بلال نے عادل اور عظمی کی طرف دیکھ کر کہا۔
”شادی اور اس سے … “ عظمی نے گردن تن کر کہا ”ویسے بلال آپ سانپ کا زہر نکالنا تو جانتے ہونا۔“
”بلال بھائی تو ناگن کا زہر بھی نکال لیتے ہیں۔ “
عادل نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا سب کھل کھلا کر ہنس دئیے۔
###
”مجھے تو تمہاری ہونے والی ساس ناگن لگ رہی ہے۔ کیا ضرورت ہے بھلا ایک شریف آدمی کو ذلیل اور رسوا کرنے کی جب وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے پچاس ایکڑ زمین نہیں چاہیے اور شادی میں آپ کی رضا مندی ہی سے کروں گا۔
“
ارم واسطی بات کرتے کرتے رُک گئی وہ کچھ پریشان تھی وہ ولید کو کچھ سمجھانا چاہتی تھی۔
”ولید مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے میں بڑے بڑے مجرموں سے کبھی نہیں ڈری مگر اس بندے سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ “
ارم کے سارے الفاظ ختم ہو گئے تھے اور اُس کا گلا خشک تھا ہونٹ ایسے جیسے سوکھے ہوئے پتے۔
”ولید بھلے ہی تم مجھ سے شادی نہ کرنا مگر میں بلال پر الزام نہیں لگا سکتی۔
“ ارم واسطی نے دو ٹوک انداز سے کہہ دیا۔
”تم اتنی ستی ساوتیری کب سے بن گئی ہو … میں کچھ نہیں سننا چاہتا ہوں اپنی بکواس بند کرو۔ “ ولید غصے سے بولا۔
”آج وہ بوتیک پر آیا تھا۔ دونوں بہنوں کی غیر موجودگی میں مجھ سے کہنے لگا۔ ارم جی آپ کو نوشی کی پسند معلوم ہے کپڑوں کے معاملے میں مجھے تو کوئی آئیڈیا نہیں ہے آپ میری ہیلپ کریں مجھے نوشی کے لیے ڈریسز ز تیار کروانے ہیں۔
“
میں فوزیہ اور عظمی کو کہہ دیتا مگر اُن دونوں کو نوشی کی پسند اور نا پسند معلوم نہیں ہے اس لیے میں آپ کو تکلیف دے رہا ہوں نوشی اور توشی کو مت بتائیے گا اس بارے میں“ ارم کھوئی ہوئی بولی۔
”میں کچھ کہہ رہا ہوں … اور تم مجھے خبریں سنا رہی ہو … مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے بلال نے کیا کہا تم سے… “
”ولید وہ میرے سامنے نظریں جھکائے بیٹھا ہوا تھا۔
اُس نے کبھی مجھے نظر اُٹھا کر نہیں دیکھا۔ پھر اُس نے مجھے اپنی آنکھیں اُٹھا کر دیکھا اور کہنے لگا ارم جی نماز پڑھا کریں۔“
”ارم تم پاگل تو نہیں ہو پھر یہ بے تکی اور بے ربط باتیں کیوں کر رہی ہو۔ یہ سب کچھ میں ہم دونوں کے لیے ہی کر رہا ہوں۔ “
ولید نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی اُس نے ارم کے دونوں بازوں کو پکڑ کر کہا تھا۔
”ولید تم نوشی کی ماں سے کہو کہ وہ اس شادی سے انکار کر دے پھر ہمیں بلال پر الزام لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
“
”کیا بک رہی ہو مجھے کیا ضرورت ہے میں ناہید سے یہ کہوں۔ اُس کی وجہ سے تو یہ سارا کھیل اتنا آسان ہوا ہے۔ دیکھو ارم مجھے معلوم ہے ناہید ناگن ہے وہ مجھے استعمال کر رہی ہے بلا ل کو بد نام کرنے کے لیے ویسے بھی تو یہ تمہارا ہی پلان تھا اب اتنی آسانی سے ہو رہا ہے … یہ جو نیکی کی شمع جل رہی ہے تمہارے اندر اسے بجھا دو ہم دونوں اگر یہ کام نہ بھی کریں تو ناہید کسی اور سے کروا لے گئی یہ تو طے ہے کہ وہ نوشی کی شادی بلال سے ہونے نہیں دے گئی … “
نوشی کی بے شمار دولت کسی اور کے ہاتھ لگ جائے گی سوچو ایسے موقعے روز روز نہیں ملتے ہیں۔
“
ولید نے ارم کو بازوؤں سے پکڑ کر جھنجھوڑ کر کہا۔
”ایک بات سمجھ نہیں آتی تم پر وہ اتنا مہربان کیوں ہوئی ہے نوشی کی ماں “ ولید کے جھنجھوڑنے سے بلال کی جلائی ہوئی روشنی کی شمع اب ارم کے اندر سے بجھ گئی تھی۔
”ایک پارٹی میں کسی نے میرا ناہید سے تعارف کروایا تھا، کہ یہ مشہور انڈ سٹر یلسٹ عقیل ہاشمی کا بھتیجا ہے اور میرے دادا کو بھی نوشی کی ماں ناہید جانتی تھی۔
یہ سن کر وہ خود ہی مجھ پر مہربان ہو گئی اور اُس نے مجھے یہ کہا بیٹا تم شادی شدہ ہوں میں نے نفی میں گردن ہلا دی۔
اس کے بعد اُس نے مجھ سے ملنا شروع کر دیا تھا اس کے پیچھے بھی اُس کا مقصد ہے۔
ولید ہاشمی نے بیڈ سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا ارم اُسے دیکھ رہی تھی۔ ”کیسا مقصد۔ “
”ڈارلنگ سب پاور گیم ہے۔ پاکستان میں دو ہی کاروبار ہیں۔
آج کل کے دین کے ٹھیکیدارمذہبی چولا پہن کر دین بیچتے ہیں اور آج کل کے سیاست دان خدمت کی ویسٹ کوٹ پہن کر سب کچھ بیچ دیتے ہیں نوشی کی ماں میرے باپ کی مدد سے MNA کا الیکشن لڑنا چاہتی ہے ہمارے حلقے سے میرے دادا کی نیک نامی شرافت پر لوگ آج بھی ووٹ دیتے ہیں۔ وہ امیداوار جیتا ہے جس کے کندھے پر میرا باپ ہاتھ رکھ دیتا ہے۔ “
”اچھا یہ مہربانیاں اس لیے ہیں “ ارم واسطی کھڑے ہو کر بولی اب اُس نے اپنی باہیں ولید کے گلے میں ڈال دیں تھیں۔
”تم جو کہو گے میں کروں گئی “ ارم نے ولید کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کر کہا۔
” بس ارم یہ بازی ہم جیت گئے تو مال ہی مال مجھے نفرت ہے چڑہاوؤں اور نذرانوں کے مال سے اس لیے تو میں گاؤں سے یہاں بھاگا ہوں ایک دفعہ مال ہاتھ آ جائے پھر ہم دبئی چلے جائیں گے بہت آسان ہے وہاں جانا وہیں جا کر ہم نیا بزنس سیٹ کریں گے۔“
ولید ہاشمی نے ارم کو اپنے بازؤں کے حصار میں لیتے ہوئے کہا تھا۔
###