
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
”میں نے سوچا بلال صاحب آپ مصروف ہوں گے۔ اس لیے گھر کی چابیاں لے کر خود ہی آگیا۔ “
طارق نے بلال کو آنے کی وجہ بتائی۔
”رامے زندگی میں کبھی تو سچ بول دیا کرو۔ “ اعجاز جنجوعہ نے پہلا وار کر دیا۔
”بلال صاحب دراصل اس کی منگنی ہو گئی ہے۔ یہ مٹھائی لے کر آیا تھا آپ کے لیے۔ “
”گاڑی کی ڈگی میں مٹھائی کی ٹوکری پڑی ہوئی ہے کسی کو بھیج کر منگوا لیں۔
“ طارق رامے نے شرماتے ہوئے کہا بلال سے۔
”اوئے ہوئے رامے تیرا شرمانا “ اعجاز جنجوعہ نے پیلے دانت نکالتے ہوئے کہا۔
بلال نے آفس بوائے کو طارق رامے کی گاڑی کی چابیاں دیں۔
”یہ رامے صاحب کی گاڑی سے مٹھائی نکال کر سارے سٹاف میں تقسیم کر دو۔ “ بلال نے آفس بوائے کو ہدایات جاری کیں۔
”رامے صاحب بہت بہت مبارک ہو۔ “ بلال مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
”بلال صاحب تمہارے اور اپنی ماں کے کہنے پر میں شادی کر رہا ہوں۔ “ طارق رامے نے کہا۔
”نہیں تو اس نے خود کشی کر لینی تھی۔ شادی کر رہا ہوں۔ بھائی بڑا احسان کر رہے ہو۔ تم یہ شادی کرکے “ اعجاز جنجوعہ اپنے سارے حساب برابر کرنے کے موڈ میں تھا۔بلال نے اعجاز جنجوعہ اور طارق رامے کو چائے پلائی اس کے بعد وہ دونوں چلے گئے۔
###
اسکول سے فارغ ہونے کے بعد بلال فوزیہ کے گھر چلا گیا اُن کو شادی کی دعوت دینے کے لیے۔
”خالہ جی میں چاہتا ہوں میری غیر موجودگی میں فوزیہ اسکول کے معاملات دیکھے آپ کی اجازت چاہیے۔ “ بلال نے فوزیہ کی ساس سے کہا۔
”کیوں لیاقی تجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ “ فوزیہ کی ساس خالہ نصرت نے اپنے بیٹے لیاقت سے پوچھا۔
” نہیں اماں بھلا مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔“ لیاقت نے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے فوزیہ جی کل سے آپ آفس آ رہی ہیں۔
“
”سر … کل تو 28 فروری ہے میں یکم مارچ سے آ جاؤں گی۔ “ فوزیہ نے کہا۔
”یکم کو پہنچ جانا اُس دن میری جدہّ کی فلائیٹ ہے میں اسکول نہیں آ سکوں گا … “
”سر یہ تو میں آپ کی موجودگی میں ہی اُلٹی سیدھی حرکتیں کرتی ہوں آپ کے جانے کے بعد … سر آپ کو شکایت کا موقع نہیں دوں گی آپ بے فکر ہو کر جائیں۔ “
فوزیہ نے سنجیدگی سے بلال کو یقین دہانی کرائی۔
فوزیہ کی ماں خالہ ثریا چائے کی ٹرئے لے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
”آپ سب نے میرے ولیمے میں شرکت کرنی ہے آپ سب لوگ آئیں گے تو مجھے خوشی ہوگئی۔ “
بلال نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے سادگی سے دعوت دے دی۔
ابھی چائے ختم کرکے بلال نے کپ رکھا ہی تھا اُس کے موبائل پر بیل ہوئی توشی کی کال تھی۔
”جیجا جی کہاں ہو۔ “ توشی نے پوچھا مذاق کے انداز میں۔
”میں فوزیہ کے گھر پر “ بلال نے بتایا۔
”ہم تمہارے اسکول کے باہر کھڑے ہیں۔ “ توشی نے اطلاع دی۔
”کون کون؟ “ بلال کو تجسس ہوا۔
”خود آ کے دیکھ لو “ توشی نے اسٹائل سے کہا۔
”آپ لوگ رُکو میں پانچ منٹ میں پہنچتا ہوں “ بلال نے جواب دیا۔
جہاں آرا بیگم توشی اور DJ ایک ڈرائیور اور 2 سیکورٹی گارڈ کے ساتھ گاؤں جا رہے تھے کوٹ فتح گڑھ، نارووال بلال کے نانا کی برسی کے سلسلے میں 28 مارچ کو چوہدری ارشاد رندھاوا کی برسی تھی۔
چوہدری ارشاد رندھاوا کے مرنے کے بعد جہاں آرا ہر سال اُن کی برسی پر گاؤں جاتی غریب لوگوں میں کپڑے پیسے اور اناج تقسیم کرتی اپنے مرحوم شوہر چوہدری ارشاد رندھاوا کے ایصال ثواب کے لیے، پہلے تو اُن کے ساتھ بلال اور گل شیر خان جایا کرتے تھے۔ مگر اس بار بلال اور خان صاحب اُن کے ساتھ نہیں تھے۔بلال صبح اسکول آنے سے پہلے نانی سے مل کر آیا تھا پھر بھی اُس کی نانی جہاں آرا جانے سے پہلے ایک بار اُسے ملنا چاہتی تھیں۔
”بلال اپنا خیال رکھنا مجھے بہت فکر ہو رہی ہے تمہاری … اگر تمہارے نانا کی برسی نہ ہوتی تو میں کبھی نہ جاتی۔ “ جہاں آرا نے بلال کا ماتھے سے بوسہ لیتے ہوئے کہا۔جہاں آرا گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھیں توشی کے ساتھ DJ ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ،وہ لوگ فور بائی فور Toyota vigo ڈالہ میں گاؤں جا رہے تھے گاڑی کے پچھلے حصہ میں دو اونچے لمبے گارڈ جان کی دشمن گنوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے جمال رندھاوا اب بہت محتاط ہو گئے تھے۔
”تم کیوں اس طرح خفا بیٹھی ہو “ بلال نے توشی کو دیکھ کر کہا جو کچھ غصے میں تھی۔
”پیچھے دیکھو جیسے ہم لوگ جنگ لڑنے جا رہے ہیں اگر خان صاحب یہاں ہوتے تو ان موچھڑوں کو ساتھ نہ لے جانا پڑتا۔ “ توشی بیزاری سے بولی۔
”come On توشی یہ لوگ آپ کی حفاظت کے لیے ہیں “ بلال نے توشی کو سمجھایا۔
”اچھا ایک بات سن لو غور سے مسٹر بلال لڑکی ہماری بہت نخرے والی ہے اُس کے لیے کپڑے اور زیور اُس کے معیار کے مطابق ہونے چاہئیں۔
“ توشی نے بلال سے مذاق میں کہا۔
”پتہ ہے اسی لیے اُس کے واسطے ساری شاپنگ مدینہ منورہ سے کروں گا۔ تمہاری ساس کی طرح نہیں دہلی دروازے اور اچھرہ سے سب کچھ خرید رہیں ہیں تمہارے لیے اور تمہارا زیور پتہ ہے کہاں سے تیار ہو رہا ہے سوا بازار کے بٹ جیولرز سے۔ “
بلال نے بھی توشی کی کلاس لی۔
”شٹ اَپ بلال … دادو اسے منع کریں نا تنگ کر رہا ہے۔
“ توشی بچوں کی طرح جہاں آرا سے بلال کی شکایت کر رہی تھی۔
”پہلے تم نے شروع کیا تھا۔ “ جہاں آرا مسکراتے ہوئے بولیں۔ ”اچھا مجھے یاد آیا بلال بیٹا تم نے پلاٹ یہیں پر خریدا ہے۔“
”جی نانو وہ سڑک کے دوسری طرف دو خالی پلاٹ ہیں دائیں ہاتھ والا دوسرے پلاٹ کی بھی بات چل رہی ہے دعا کریں ہو جائے پھر اسکول کی بلڈنگ شاندار بن جائے گی۔
نانو اب آپ کو جانا چاہیے ورنہ دیر ہو جائے گی۔ “بلال نے کہا DJ نے ڈرائیور کو چلنے کے لیے بولا جہاں آرا نے جانے سے پہلے بلال کا ماتھا چوما تھا وہ لوگ کوٹ فتح گڑھ کے لیے روانہ ہو گئے۔بلال وہیں کھڑا ہوا گاڑی کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا کافی دیر وہ وہاں کھڑا سوچتا رہا۔
”خان صاحب بھی چلے گئے ہیں۔ “ اُس نے دل میں کہا۔ ”ماموں جان کو بھی انہیں اب ہی بھیجنا تھا میرے نکاح کے بعد چلے جاتے۔
“ گل شیر خان اور اُن کے بیٹے حسیب خان کو جمال رندھاوا نے یورپ اور امریکہ بھیجا تھا۔ بزنس ٹور کے سلسلے میں پہلی بار۔ جمال رندھاوا اب کم لوگوں پر اعتبار کرتے تھے۔ وہ اٹھارہ سال پہلے والی غلطی اب نہیں دہرانا چاہیے تھے۔جب وہ اپنے پارٹنر شہباز رندھاوا جو کہ ناہید رندھاوا کا بھائی بھی تھا پر مکمل اعتبار کرتے تھے تب جمال رندھاوا فیلڈ کا کام دیکھتے تھے اور شہباز کے پاس لین دین تھا اسی کا فائدہ اُٹھا کر اُس نے اتنا بڑا غبن کیا تھا جس کے بعد جمال کو جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔
بلال نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو طارق رامے کی دی ہوئی گھر کی چابیاں بھی گاڑی کی چابی کے ساتھ ہی اُس کے ہاتھ میں آ گئیں تھیں۔
بلال نے اپنا سارا سامان پک اَپ میں لوڈ کروا لیا تھا۔ سب کچھ سوائے اپنے کمرے کے سنگل بیڈ اور دیوان، اُس نے جمال سے اجازت لے لی تھی اُنہیں سیالکوٹ میں کال کرکے جمال نے اُسے کہا تھا تم سامان شفٹ کر لو میں کل آتا ہوں کل رات کو ہم ڈنر ساتھ کریں گے سب لوگ اکٹھے کسی اچھے سے ریستوران میں اور پرسوں میں خود تمہیں چھوڑ کر آؤں گا۔
ائیر پورٹ جب تم عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوگے۔
”لطیف سارا سامان احتیاط سے اُتار لینا اور اوپر والے بیڈ روم میں رکھ دینا جو بیڈ روم لان کی طرف ہے اور سوٹ کیس کو سنبھال کر رکھنا۔ “ بلال نے پک اپ پر پڑے ہوئے سوٹ کیس کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا۔ جس کے اندر اُس کے والدین اور بابا جمعہ کی چند اشیاء تھیں۔ بلال نے سارا سامان لوڈ کروانے کے بعد وہ سوٹ کیس پک اَپ میں رکھا تھا۔
اور اُس کے بھی بعد سب سے اوپر وہ کارٹون رکھا تھا جس کے اندر قرآن پاک اُس نے بڑی احتیاط اور ادب سے رکھے تھے۔
لطیف نے پک اَپ والے کو کہا۔ ”چلو بھئی“
لطیف کے جانے سے پہلے بلال بولا۔ ”لطیف صاحب چابیاں کل آفس ساتھ ہی لے آنا۔“
لطیف بلال کے اسکول میں اندر باہر کے کام کرنے والا ایک بیس بائیس سال کا نوجوان تھا۔
بلال نے سارا سامان لطیف کے ساتھ خود گاڑی پر لوڈ کیا تھا۔
سامان بھی کتنا تھا۔
کچن کا سامان اور چند برتن کپڑوں کے تین سوٹ کیس اور بہت ساری کتابیں بلال کی زندگی میں کتابوں کی بہت اہمیت تھی اسی لیے کتابیں سب سے زیادہ تھیں۔خالی کمرہ ہو یا خالی مکان اپنی آواز خود ہی سنائی دیتی ہے۔ مگر بلال کو دکھائی دے رہا تھا، اپنا بچپن اپنی اچھی بُری یادیں اپنی ماں کمرے کی دیواروں پر وہ ایسے دیکھ رہا تھا۔
جیسے سنیما کے پردے پر فلم چلتی ہوئی دیکھ رہا ہو، یہ ڈھائی تین گھنٹے کی فلم نہیں تھی۔وہ 25 سال اور چند مہینوں کی حقیقت دیکھ رہاتھا۔ کمرے کی دیواروں پر جب وہ اس کمرے میں آیا تو آٹھ ماہ کا شیر خوار بچہ تھا آج وہ یہاں سے جا رہا تھا تو 26 سال کا خوبصورت نوجوان ہے وہ ہمیشہ سے یہاں سے جانا چاہتا تھا۔ ”پھر یہ اداسی کیسی بلال صاحب کیوں اُداس ہو۔“
اُس کے دل سے آواز آئی دوسرے لمحے ہی اُسے اُس کا جواب مل گیا۔ جب اُس کی ماں کی شکل سی گرین دیوار پر اُبھری اُسے جواب مل گیا وہ سات سال اور چند ماہ اپنی ماں کے ساتھ اس کمرے میں رہا تھا۔
اُسے اس کمرے سے اپنی ماں کی خوشبو آتی تھی۔ بلال نے آنکھیں بند کرکے ایک لمبی سانس لی۔ بلال کی آنکھیں بند تھی وہ کچھ نہیں دیکھ رہا تھا۔ اب اُس کی دل کی آنکھ کھل چکی تھی۔
جس کے اندر اُس کی ماں کی تصویر تھی۔ اور بلال کی سانسوں میں اپنی ماں کی خوشبو کی مہک وہ مسلسل سونگھ رہا تھا۔ آنکھیں بند کیے ہوئے جیسے کوشش کر رہا ہو ویکیوم کلینر کی طرح جس طرح وہ سب کچھ کھینچ لیتا ہے اپنے اندر اسی طرح بلال اپنی ماں کی ساری خوشبو اپنے ساتھ لے جاننا چاہتا تھا اپنے دل اور روم روم میں محفوظ کرکے۔
نوشی اُسے تلاش کرتی ہوئی کمرے میں پہنچی وہ بھی اُسے آنکھیں بند کیے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
اُس نے چائے کی ٹرے کچن میں رکھ دی بغیر کسی آواز کے اور خود بلال کے پیچھے آ کے اُسی طرح کھڑی ہو گئی اپنے دونوں بازو اپنے سینے پر باندھے ہوئے آنکھیں بند کیے ہوئے سانس کی مشق کرتے ہوئے نوشی کو خیال گزرا شاید یہ یوگا کی کوئی مشق کر رہا ہے۔نوشی کو کیا خبر یہ یوگ سے آگے عقیدت کی بات تھی۔
چند منٹ اس طرح گزارنے کے بعد نوشی کا سر چکرا گیا تب اُس نے اپنی بند آنکھیں جلدی سے کھول دیں کیونکہ نوشی کی اس کمرے سے کوئی جذباتی وابستگی بھی نہیں تھی۔
وہ عقیدت کو کیا سمجھ پاتی۔ بلال اب بھی اُس طرح کھڑا تھا۔ آنکھیں بند کیے ہوئے اپنے دونوں بازوؤں اپنے سینے پر بلال کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی اُس کے دل پر تھی اور بائیں ہاتھ کی ہتھیلی اُس کے دائیں بازو پر تھی اور وہ بغیر آواز کے کچھ محسوس کر رہا تھا۔
نوشی کا تجسس اب تشویش میں بدل چکا تھا۔ اُس نے بلال کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”آپ ٹھیک تو ہو؟ “ نوشی کی زبان سے فکر مندی کے ساتھ یہ چار الفاظ ادا ہوئے بلال نے آنکھیں کھول دیں نوشی کا دایاں ہاتھ بلال کے کندھے پر تھا۔
اور وہ اُس کے سامنے کھڑی ہوئی تھی بہت کم دوری پر دونوں میں فرق اتنا تھا کہ جسم دوسرے کے جسم کو چھو نہ سکے۔
بلال عقیدت کی خوشبو سونگھ چکا تھا۔ اور اُس کی محبت اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اُس کا دل چاہا لگے ہاتھ محبت کی خوشبو بھی ساتھ لے جاؤں وہ نوشی کی سانسوں کی مہک اپنی سانسوں میں محسوس کر سکتا تھا۔ جو کہ نوشی محسوس کر رہی تھی۔ آنکھیں بند کیے ہوئے اب نوشی کی دونوں آنکھیں خود بخود بند ہو چکی تھیں۔
اور بلال اُسے دیکھ رہا تھا۔ اب نوشی دائیں ہاتھ کو بلال کے بازو سے اُٹھا کر اپنے دل پر رکھ چکی تھی اور اُس کا بایاں ہاتھ دائیں بازو کے کندھے پر تھا۔
بلال کو نوشی کے معصوم اور بھولے چہرے پر بہت پیار آیا وہ اُسے اپنے ہاتھوں سے چھونا تو چاہتا تھا لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا۔ اُس کے دل نے کہا (اس کی خوشبو ہی اپنی سانسوں میں بسا لو اُن پر تو تمہار حق ہے) دل مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
بلال کے تقویٰ نے اُسے فتوہ دیا۔ ”ملک بلال احمد تم صرف محبت کر سکتے ہو کسی سے بھی کہیں بھی نسیم جمال رندھاوا کی سانسوں کی مہک اور اُس کے جسم کی خوشبو پر نکاح سے پہلے تمہارا حق نہیں ہے۔“ تقویٰ کا فتوہ سننے کے بعد بلال دو قدم پیچھے کی جانب ہٹ گیا۔
”نوشی جی آپ ٹھیک تو ہو “ بلال نے نوشی کے الفاظ دہرائے نوشی نے آنکھیں کھول دئیں اُس کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور آنکھوں میں بے شمار پیار چند لمحے وہ بلال کو ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی تھی۔
”میں آپ کے لیے چائے لے کر آئی تھی، نوشی نے بائیں ہاتھ سے اپنے چہرے پر آئے بالوں کو کان کے پیچھے کیا چائے اور شامی کباب پڑے پڑے برف ہو چکے تھے۔“
”SMS کو فون کرتی ہوں گرم کرکے لا دے “ نوشی نے SMS کو فون ملاتے ہوئے کہا تھا نوشی کچن کو دیکھ چکی تھی جہاں پر صرف چولہا پڑا ہوا تھا اُس نے کمرے کا جائزہ لیا ایک بیڈ دیوان اور چولہا رہ گئے تھے ایک کونے میں بلال کا ہیڈ کیری پڑا ہوا تھا۔
اور بیڈ پر ایک فولڈر کالے رنگ والا جو چند دن پہلے گل شیر خان نے اُسے واپس کیا تھا اُس کی امانت کہہ کر۔
SMS آ کر چائے والی ٹرے اُٹھا کر جا چکا تھا۔
”ہینڈ کیری اور اُس فولڈر کی سمجھ آتی ہے ہیڈ کیری میں آپ کے کپڑے ہوں گے عمرے پر جانے کے لیے اور فولڈر میں ڈاکو منٹس یہ تین چیزیں کیوں آپ نے چھوڑ دیں “ نوشی دیوان پر بیٹھتے ہوئے بولی تھی۔
”نوشی جی ان میں سے کوئی بھی چیز میں نے نہیں خریدی یہ اس گھر کی ملکیت ہیں جو میں نے خریدا تھا وہ میں لے جا چکا ہوں۔ “ بلال بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
” آپ اس گھر کو اور اس کی چیزوں کو اپنا نہیں سمجھتے میں ایسا سمجھوں۔“ نوشی نے سنجیدگی سے کہا۔
”نوشی جی ایسا نہیں ہے۔ اپنا سمجھنے اور اپنا ہونے میں فرق ہے میں اس گھر اور اس کی ہر ایک چیز کو اپنا سمجھتا ہوں لیکن یہ میری نہیں ہیں۔
اس گھر کو اور اس کی چیزوں کو اپنا سمجھنا یہ سچ ہے ان میں سے کچھ بھی میرا نہیں ہے۔ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔ “
”خیرچھوڑیں سچ اور حقیقت کو۔ “ نوشی کوئی گہری باتیں سننے کے موڈ میں نہیں تھی۔
”آپ یہ بتائیں آپ کب جا رہے ہیں۔ اور کب واپس آئیں گے؟ “
بلال نے اُسے اپنا سارا شیڈول بتایا وہ کہاں کہاں جائے گا کیا کیا کرئے گا مکہ میں کتنے دن گزارے گا اور مدینہ میں اُسے کتنے دن رہنے کی سعادت نصیب ہو گی واپسی پر وہ امارات انٹری کے لیے روکے گا چند گھنٹے یا ایک دن۔
”کیوں دبئی سے آپ کی ٹکٹ کنفرم نہیں ہے۔ “ نوشی نے پوچھا فکر مندی سے۔
”دبئی سے لاہور اور اسلام آباد کی ٹکٹ ایزی مل جاتی ہے اس لیے میں نے کنفرم نہیں کروائی۔ شاید کچھ شاپنگ رہ جائے اس لیے سوچا ہے اگر کچھ رہ گیا تو وہ واپسی پر دبئی سے لے لوں گا۔ “
”کیا کیا خرید دیں گے میرے لیے “ نوشی نے جانچتی نگاہوں سے دیکھ کر پوچھا۔
”آپ کے لیے کچھ نہیں یہ تو میں اپنی شاپنگ کی بات کر رہا تھا۔ “ بلال نے جواب دیا۔
”یہ لو … “ نوشی نے توشی کا تکیہ کلام دہرایا بلال اور نوشی ہنس دئیے۔
”مجھے توشی نے مسیج کرکے سب کچھ بتا دیا ہے کہ آپ میرے لیے مدینہ سے شاپنگ کریں گے ویسے آپ نے جھوٹ کیوں بولا کہ اپنے لیے ہی شاپنگ کروں گا۔ “
”نوشی جی میں ہمیشہ سچ بولنے کی کوشش کرتا ہوں، جانے انجانے میں اگر کبھی جھوٹ بول بھی دوں تو مان جاتا ہوں … دراصل میں آپ کو بہت سارے سرپرائز دینا چاہتا ہوں اس لیے مذاق میں بات ٹال دی۔
“ بلال نے اپنی صفائی دی۔
SMS چائے گرم کرکے آ چکا تھا۔ ”بلال بھائی جلدی آ جانا۔“ SMS چائے والی ٹرے دیوان پر رکھتے ہوئے بولا تھا۔ بلال نے دیکھا تو بلال اُٹھا اور کچن میں کچھ انگلش نیوز پیپر پڑے ہوئے تھے۔ وہاں سے اخبار اُٹھا کر ٹرے کے نیچے بچھا دی SMS کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔
SMS بھول گیا تھا، یہاں صفائی نہیں نفاست کا معاملہ ہے۔
SMS کچھ شرمندہ سا ہوا بلال نے اُس کی شرمندگی کو ختم کرنے کے لیے جلدی سے بات بدلی۔
” شاہد صاحب کیا لاؤں آپ کے لیے۔“ بلال نے SMS سے پوچھا تھا۔
” بلال بھائی جب بن مانگے مل جائے تو مانگنے کی کیا ضرورت ہے مجھے نہیں یاد پڑتا کہ آپ لاہور سے باہر گئے ہوں اور سب کے لیے کچھ نہ کچھ نہ لائے ہوں۔“
SMS کی آنکھوں میں چمک تھی۔ وہ یہ بول کر وہاں سے چلا گیا، نوشی بلال اور SMS کو دیکھ رہی تھی۔
اُسے یاد تھا کہ ان چند مہینوں میں بلال شہر سے باہر نہیں گیا تھا۔ جب سے وہ بلال کے قریب ہوئی تھی اس سے پہلے توشی اُسے ہمیشہ بلال کا لایا ہوا گفٹ دیتی جو وہ کھولنا بھی ضروری نہیں سمجھتی تھی۔ ہاں ایک بات ضرور تھی اُس نے وہ سارے گفٹس رکھے سنبھال کر تھے۔
”نوشی جی … چائے … “ بلال کی آواز نے نوشی کی سوچ کو روکا اُس نے چونک کر بلال کی طرف دیکھا جو کہ اپنا مگ اُٹھا کر پینے میں مصروف تھا۔
اور نوشی کا مگ اُس کے سامنے پڑا ہوا تھا۔ نوشی نے چائے جلدی سے ختم کی وہ اپنے سارے تحائف دیکھنا چاہتی تھی۔ جو اُسے پچھلے کئی سالوں سے بلال دے رہا تھا، توشی کے ذریعے اُس نے چائے جلدی سے ختم کی اور وہاں سے چلی گئی نوشی نے اپنی دراز سے اپنے اسٹور روم کی چابی نکالی جو کہ اُس کے بیڈ روم کے ساتھ ہی تھا اسی دوران اُسے توشی نے فون کر دیا۔
”ہائے سویٹ ہاٹ … کیا کر رہی ہو۔
“ توشی نے پوچھا موبائل پر۔
”تم لوگ پہنچ گئے۔ “ نوشی نے اپنا سوال پوچھ لیا۔
”کہاں یار ابھی تک رستے میں ہی ہیں نارووال جانے والی سڑک اتنی ٹوٹی ہوئی ہے کیا بتاؤں میں تھک گئی ہوں “ توشی بیزاری سے بھول رہی تھی۔
”اچھا داود سے بات کراؤ۔ “ نوشی نے توشی سے کہا۔
”جی میری جان۔ “ جہاں آرا نے نوشی سے محبت سے کہا۔
”اسلام علیکم داؤد “ نوشی نے ادب سے سلام کیا۔
”و علیکم اسلام … جیتی رہو سدا خوش رہو اللہ تمہارے اور بلال کے نصیب اچھے کرئے۔ بیٹا توشی سے بات کرو۔ دادی کی دعاؤں کا سلسلہ ختم ہوا دادی مزید باتیں کرتیں اگر توشی کا ہاتھ اُن کے کندھے پر نہ ہوتا وہ سمجھ گئیں توشی بات کرنا چاہتی ہے۔ “
”نوشی کہاں ہو تمہاری آواز صاف نہیں آ رہی ہے۔ “
”اچھا میں ٹیرس پر جاتی ہوں۔ “ نوشی فون سننے کے لیے ٹیرس پر چلی گئی اسٹور کی چابی وہیں سائیڈ ٹیبل پر پڑی رہ گئی۔
”چائے پی لی۔ “ توشی نے تجسس سے پوچھا۔ ”بلال نے شفٹ کر لیا کیا؟“
”ہاں انہوں نے سامان شفٹ کر لیا ہے۔ “ نوشی اُداسی سے بولی۔
”آپی آپ کو بڑے صاحب بھلا رہے ہیں۔ “ SMS نے آکر پیغام دیا تھا۔
”اچھا یار میں بعد میں بات کرتی ہوں۔ پاپا بھلا رہے ہیں۔ Take care بائے۔ “
نوشی نے کال کاٹ دی اور اپنے باپ کی طرف چل دی وہ اپنے سائیڈ ٹیبل کے پاس سے گزر گئی جہاں پر اُس نے وہ چابی رکھی تھی تھوڑی دیر بعد BG کمرے میں آئی اور اُس نے وہ چابی اُٹھا کر پھر سے دراز میں رکھ دی۔
”پتہ نہیں کیا بنے گا ان لڑکیوں کا شادی کے بعد “ BG کمبل کو سیدھا کرتے ہوئے بول رہی تھی اسٹور روم کی چابی اُس نے پہلے ہی دراز میں رکھ دی تھی۔
###
”ولید بیٹا … یہ ارم ہے یہ بھی ہماری مدد کرے گی اس کام میں۔ “ ناہید نے ارم واسطی کا تعارف ولید ہاشمی سے کروایا ناہید بے خبر تھی ارم اور ولید کے ریلیشن شپ سے وہ چاروں ایک ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے چوتھا نوشی کا بھائی شعیب۔
”ولید اس سے اچھا موقع ہمیں نہیں مل سکتا خالہ اور توشی گاؤں گئے ہوئے ہیں DJ بھی اُن کے ساتھ ہے اور گل شیر خان بھی ملک سے باہر ہے۔
بلال کے سارے حمایتی کوئی بھی نہیں ہے یہاں پر“ ناہید دانت پیستے ہوئے بول رہی تھی اُس کی آنکھوں میں عجیب نفرت تھی بلال کے لیے۔
”BG اور SMS کا علاج میں خود کر لوں گا۔ “ شعیب نے بھی جذباتی ہو کر کہا۔
”آنٹی جی … سارا پلان تیار ہے کل کا دن اُس کی بدنامی کا دن ہے “ ولید نے یقین سے پیشین گوئی کر دی ارم نے ترچھی نگاہ سے ولید کی طرف دیکھا وہ سوچ رہی تھی۔
ناہید کی نفرت کے بارے میں انہوں نے جلدی سے اپنی چغلی میٹنگ ختم کر دی اس ڈر سے کوئی ہمیں ساتھ نہ دیکھ لے اس وقت یہاں اکٹھے اس جگہ۔
”ولید بیٹا میرا اور شعیب کا یہاں زیادہ دیر بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔ جمال بھی آ چکے ہیں۔ سیالکوٹ سے ہم چلتے ہیں … اگر تمہیں تکلیف نہ ہو تو ارم کو ڈراپ کر دینا۔ “
ناہید اور شعیب وہاں سے جا چکے تھے۔
”میں تو تمہیں یہاں ان کے ساتھ دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا۔ “ ولید کہہ رہا تھا ولید کے آنے سے پہلے ناہید شعیب اور ارم ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ناہید نے ہی ارم کو بوتیک سے پک کیا تھا۔ اور اسے ایک اچھی خاصی رقم آفر کی تھی اس پلان میں اُن کا ساتھ دینے کے لیے۔
”اُس دن پارٹی میں شعیب نے تمہیں میرے ساتھ کیا دیکھا نہیں تھا؟ “ ولید نے ارم سے پوچھا۔
”اُس نے صرف مجھے دیکھا تھا عالیہ زی کی پارٹی میں تم اُس کی طرف کمر کرکے بیٹھے ہوئے تھے اُس نے ہی اپنی ماں کو میرا مشورہ دیا تھا، ولید اگر دیکھا بھی ہو اب تو ہم سب ننگے ہیں ایک دوسرے کے سامنے … ولید مجھے تو حالات نے کمینی بنا دیا مگر یہ ماں بیٹا تو پیدائشی کمینے ہیں ورنہ کیا تُک بنتی ہے ایک شریف آدمی کو بدنام کرنے کی اُس کی عزت کا جنازہ نکالنے کی۔
“
ولید نے چالاکی سے بات بدلی اُسے ڈر تھا ارم کی وہ شمع پھر روشن نہ ہو جائے۔
”ڈرالنگ دفعہ کرو ان ماں بیٹے کو میں تمہارے سامنے بیٹھا ہوں اور تم یہ فضول باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو ہمیں اُن سے کیا “ولید نے ارم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
”یہ تو وہ بات ہو گئی … گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ “ ارم واسطی مسکراتے ہوئے بولی۔
###
اگلے دن کالے سیاہ بادل آسمان پر چھائے ہوئے تھے اور سورج بھی کمبل اوڑھ کر اپنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے سردی جاتے جاتے واپس آ گئی تھی۔ فروری میں بارش ہونا کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ کل 27 فروری بروز جمعرات کو تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی اور آج 28 فروری بروز جمعہ کالے سیاہ بادل سورج کو للکار رہے تھے آؤ میدان میں سورج عقلمند نکلا اُسے معلوم تھا آج ان بادلوں کا دن ہے اسی لیے وہ اپنے بستر سے اُٹھا ہی نہیں سورج نے دل میں سوچا تمہیں بیٹا پرسوں دیکھ لوں گا۔
سورج اور بادلوں کی نوک جھونک سے بہت پہلے جب سورج سویا ہوا تھا۔ اور بادل اپنی صف بندی کررہے تھے۔ یعنی تہجد کے وقت بلال تہجد ادا کر چکا تھا۔
وہ کھجوروں اور سیب سے سحری کر رہاتھا وجہ یہ تھی کہ کچن میں چولہے کی سوا کچھ نہیں تھا کھجوریں اور سیب اور پانی کی بوتل وہ رات کو ہی لے آیا تھا۔
سحری کرنے کے بعد وہ مسجد چلا گیا، مسجد سے واپس آ کر وہ اپنی نانی کے کمرے میں جایا کرتا تھا۔
اور وہیں بیٹھا رہتا تھا جب تک اُس کے اسکول کا ٹائم نہ ہوتا، صرف جمعہ اور پیر والے دن باقی دنوں میں وہ نماز سے فارغ ہو کر جاگنگ کے لیے چلا جاتا تھا، جاگنگ سے واپس آ کر گرم پانی سے نہاتا ناشتہ کرتا اُس کے بعد نانی کے پاس جاتا تھا۔ آج اُس کی ساری روٹین ڈسٹرب ہو گئی تھی۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی کی وجہ سے وہ چھت پر بھی نہیں بیٹھ سکتا تھا۔
اس وقت گھر کے سارے افراد سوئے ہوئے تھے۔
سوائے سیکورٹی گارڈ کے اسی دوران باجی غفوراں چھتری لیے گھر کے اندر داخل ہوئی تھی۔بلال اُس سے پہلے اپنے کمرے کے ریلنگ ڈور میں کھڑا سیکورٹی گارڈ کو دیکھ رہا تھا جو اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا سوچوں میں گم تھا۔ سیکورٹی گارڈ کا کمرہ گھر کے مین گیٹ کے ساتھ تھا دو طرف کنکریٹ کی مضبوط دیواریں اور دو طرف بلٹ پروف شیشہ بلال اُسے شیشے کے اُس پار بیٹھا ہوا دیکھ رہا تھا۔
یہ نظر بھی عجیب شے ہے بعض اوقات شیشے کے اُس پار دیکھ لیتی ہے اور اکثر اپنے سامنے کی حقیقت کو دیکھ نہیں پاتی۔
اُس کا دل چاہا باجی غفوراں سے باتیں کرئے۔ بلال نے باجی غفوراں کو آواز دی وہ رُک گئیں، بلال اپنے کمرے سے نکل کر باجی غفوراں کی طرف چل پڑا۔تھوڑی دیر بعد وہ دونوں گھر کے کچن میں تھے وجہ یہ تھی باجی غفوراں کو ناشتہ تیار کرنا تھا اُس نے بلال سے کہا کہ وہیں آ جاؤ۔
”آج کوئی بارہ وروں کے بعد بلال بیٹا تم یہاں آئے ہو۔ باورچی خانے میں “ باجی غفوراں اپنی انگلیوں پر حساب لگا کر بولی تھی۔
”جی باجی 11 سال 9 مہینے اور 10دن بعد “ بلال سوچوں میں گم بولا۔
”مجھے یاد ہے جب تم کھانا کھا رہے تھے تو ناہید بی بی نے تمہارے سامنے سے مچھلی اُٹھا لی تھی۔ “
”چھوڑیں باجی پرانی باتیں “ بلال زخمی آواز سے بولا۔
”بڑا حوصلہ ہے تمہارا بلال بیٹا مجھے یہ بھی یاد ہے پھر تم گھر سے جا رہے تھے اُسی وقت اگر میں بڑی بیگم صاحبہ کو نہ بتاتی تو تم چلے جاتے یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ “
باجی غفوراں نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔
”آپ کو نہیں بتانا چاہیے تھا، پھر نانو نے مجھ سے وعدہ لے لیا، اپنے سر پر میرا ہاتھ رکھ کر … “
بلال بات کرتے کرتے خاموش ہو گیا تھا۔
”تم دو صورتوں میں اس گھر سے جاؤ گے میری اجازت سے یا پھر میرے مرنے کے بعد … “
باجی غفوراں نے بات مکمل کی ”بلال بیٹا اچھا ہوا جو میں نے بڑی بیگم صاحبہ کو بتا دیا آج تم اُن کی اجازت سے اس گھر سے جا رہے ہو عزت کے ساتھ۔ بڑا حوصلہ ہے تمہارا بلال بیٹا ناہید بی بی نے بڑی زیادتیاں کی تھیں تمہاری ماں کے ساتھ پھر بھی تم نے اُسے معاف کر دیا۔“
”باجی غفوراں بدلہ لینے سے معاف کرنا افضل ہے۔ “ بلال نے جواب دیا ”میں نے ممانی کو دل سے معاف بھی کر دیا اور ہمیشہ اُن کی ماں کی طرح عزت بھی کی۔“
”ٹھیک کہہ رہے ہو بلال بیٹا اللہ تمہارے جیسا بیٹا سب کو دے۔ “
###
”لطیف صاحب میں کل عمرے کے لیے جا رہا ہوں نوشی میڈم آئیں گی گھر میں جس طرح کی تبدیلی وہ کہیں گئی آپ کروا دیجیے گا وائیٹ واش پردے کراکری سب کچھ اُن کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ “
بلال نے لطیف کو ساری تفصیل بتائی۔
بلال جب اسکول پہنچا صبح کے دس بج رہے تھے۔ اُسے اطلاع دی گئی کہ نوین بغیر کسی اطلاع کے آج چھٹی پر ہے۔ بلال نے فوزیہ کو فون ملایا۔
”جی سر … “ فوزیہ نے فون کال ریسو کی۔
”فوزیہ جی 10 بج رہے ہیں اگر آپ 12 بجے تک آفس آ جائیں صرف ایک گھنٹہ کے لیے۔ “
”سر میں آ جاتی ہو۔ “ فوزیہ نے جواب دیا اور کال کاٹ دی۔ بلال نے آفس بوائے کو بلا کر سارے اسٹاف کو مسیج بھیجا 12 بجے میٹنگ ہے جمعہ کی وجہ سے اسکول میں ہاف ڈے تھا 12 بجے سے پہلے ہی اسکول میں چھٹی ہو گئی، سارا اسٹاف ٹھیک 12 بجے میٹنگ روم میں موجود تھا بشمول فوزیہ کے۔
”میں کل انشاء اللہ عمرہ کرنے جا رہا ہوں تقریباً دو ہفتے بعد لوٹوں گا 17 مارچ کو میرا ولیمہ ہے آپ سب کو With Family میری طرف سے دعوت ہے … میرے بعد فوزیہ جی میری جگہ ہیں۔ میں امید کرتا ہوں آپ ہمیشہ کی طرح میرے معیار سے بہتر ثابت ہوں گے شکریہ۔“ میٹنگ ختم ہو چکی تھی سارا اسٹاف جا چکا تھا۔
فوزیہ اور بلال آفس واپس آئے جہاں پر لیاقت بیٹھا ہوا تھا۔
بلال نے اُن دونوں کو چائے پلائی اور فوزیہ کو ضروری ہدایات دیں۔ایک بجے تک فوزیہ اور لیاقت چلے گئے تھے۔ بلال جمعہ پڑھنے چلا گیا۔ 2 بجے کے آس پاس وہ واپس لوٹا تو اُس کا فون مسلسل بج رہا تھا۔
”اسلام علیکم بٹ صاحب “ بلال خوش اخلاقی سے بولا ڈاکٹر محسن بٹ دوسری طرف تھا۔
”بلال کدھر ہو کوئی خبر نہیں۔ “
”بس کچھ مصروف تھا … محسن میں کل عمرے کے لیے جا رہا ہوں 13 تاریخ تک واپس آ جاؤں گا۔
“
”یار مجھے بھی بتا دیتے میں بھی تمہارے ساتھ پروگرام بنا لیتا۔ “ محسن نے گلہ کیا۔
”Take careواپسی پر بات ہو گئی بائے۔ “ محسن نے فون بند کر دیا۔ کچھ ناراضی کے ساتھ۔
بلال سوچو میں گم کافی دیر آفس میں بیٹھا رہا، تقریباً 3 بجے وہ اپنے آفس سے اُٹھا گھر جانے کے لیے وہ نکلا، تو بابا جمعہ کو یاد کر رہا تھا۔ جب وہ جمعہ والے دن پیاز گوشت پکاتا اور بابا جمعہ کے گھر اُن کے لیے لے کر جاتا تھا اور وہ دونوں روزہ اکٹھے افطار کرتے تھے۔
بارش اب تیز ہو چکی تھی جو کہ نماز جمعہ کے وقت ہلکی ہلکی ہو رہی تھی۔ بلال اپنی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔ بارش کو دیکھ کر اُس نے سوچا تھوڑی دیر رُک جاتا ہوں وہ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ہی بارش کے رُکنے کا انتظار کر رہا تھا۔بلال کو ایک نمبر سے کال آئی جو اُس کے موبائل میں Save نہیں تھا۔
”سر پلیز میری مدد کریں میری امی کی طبیعت بہت خراب ہے اُنہیں ہاسپٹل لے کر جانا ہے۔
“ نوین روتے ہوئے التجا کر رہی تھی۔ ”بارش کی وجہ سے کوئی گاڑی اور رکشہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ سر پلیز کچھ کریں خدا کے لیے میری مدد کریں ورنہ میری امی کو کچھ ہو جائے گا“ کال کٹ گئی۔
بلال نے کچھ سوچا پھر تیزی سے گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا نوین کے گھر کی طرف سفر کرنے لگا موسلادھار بارش ہو رہی تھی آسمان پر کالے سیاہ بادلوں کا راج تھا۔جوہر ٹاؤن اور ٹاؤن شپ میں سیوریج کا نظام شہر کے دوسرے حصوں کی نسبت قدرے بہتر ہے اس لیے سڑک پر زیادہ پانی کھڑا نہیں تھا۔
جس کی وجہ سے بلال بہت جلدی نوین کے گھر کے باہر پہنچ گیا، اُس نے وہی نمبر ملایا اس غرض سے کہ نوین اپنی ماں کو باہر لے آئے، مگر وہ نمبر بند تھا۔ بارش کی وجہ سے روڈ پر ٹریفک بالکل بھی نہیں تھی، اور دور دور تک کوئی بندہ بشر نظر نہیں آ رہا تھا۔
یہ ایک پانچ مرلے کا گھر تھا۔ سنگل اسٹوری بیرونی دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ اور اندر سے کسی کی آواز نہیں آ رہی تھی۔
بلال کو تشویش لاحق ہوئی وہ اپنی گاڑی سے اُترا اور گھر کے اندر چلا گیا ایک چھوٹے گیراج کے بعد بڑا ہال تھا۔ بلال گیراج سے گزر کر اب وہ ہال میں تھا ہال تقریباً خالی تھا سوائے دو صوفوں اور ایک لکڑی کی میز کے ہال میں اندھیرا تھا۔
”نوین … نوین … کہاں ہو آپ… “ بلال نے آواز لگائی اُسی لمحے سامنے والے بیڈ روم سے رونے کی آواز گونجی بلال جلدی سے بیڈ روم کی طرف بڑھا اندر بھی اندھیرا تھا۔
بلال نے دروازہ کھولا تو اُسے سامنے بیڈ پر کوئی کمبل کے اندر لیٹا ہوا نظر آیا وہ جلدی سے اُس طرف بڑھا جب بلال بیڈ روم میں داخل ہو چکا تھا۔ تو اُسی لمحے کمرے کی ساری لائٹس on ہو گئیں۔ بارش کی وجہ سے بجلی نہیں تھی یہ کمال UPS نے دکھایا تھا نوین کی مدد سے، نوین دروازے کے پیچھے سوئچ بورڈ کے پاس کھڑی تھی۔ اپنی کالی چادر کو اوڑھے ہوئے اپنی آنکھوں پر نقاب کیے ہوئے اور اپنے جسم کو چھپائے ہوئے نوین نے مست نگاہوں سے بلال کو دیکھا اُس کی موٹی موٹی کالی سیاہ آنکھوں میں کالا کاجل دعوت گناہ کا پیغام دے رہا تھا۔
بلال نے کمبل کی طرف دیکھا کمبل کے نیچے دو گول تکیے پڑے ہوئے تھے۔ جب بلال نے کمبل ہٹایا تو اُسے پتہ چلا۔ بیڈ روم بہت شاندار اور لگژری تھا۔ سب کچھ ہی کلر فل اور الگ مختلف۔
نوین کالی ناگن کی طرح لہراتی بل کھاتی بلال کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اُس نے اپنے چہرے سے وہ کالا نقاب ہٹایا تیکھے نین نقش والی ایک سانولی سلونی لڑکی جس کی آنکھوں میں اُس کے دل کی بات پڑھی جا سکتی تھی۔
وہ بلال کی سالوں کی تپسپا بھسم کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ نوین کی آنکھوں میں نشہ تھا۔ اور وہ بلال کو دیکھ رہی تھی۔ بلال نے اُسے دیکھ کر نظریں جھکا لیں۔
”بلال … ہائے میں مر جاؤ اس ادا پر۔ “ نوین نے اپنے ہاتھ سے بلال کی ٹھوڑی کو اوپر اُٹھایا اب تک وہ کالی چادر اُس کے جسم پر تھی صرف اُس نے چہرے سے نقاب ہٹایا تھا اُس نے وہ چادر آہستہ آہستہ اُتاری اور داخلی دروازے کے دائیں ہاتھ پڑی ہوئی بازوں والی کرسی پر پھینک دی پیچھے کی جانب بغیر دیکھے ہوئے۔
کالی چادر کے نیچے اُس نے ایک بیہودہ لباس پہنا ہوا تھا۔ جس سے اُس کی چھاتی واضح نظر آ رہی تھی وہ ایک کھلے گلے والی نائٹی پہنے ہوئے تھی۔ نوین کے چہرے پر ایک واہیات مسکراہٹ اُبھری۔
”حیرت ہے … بلال … تم اب تک میرے ارادوں کو جان نہیں سکے۔ “
”نوین جی … میں آپ کو پہلی ملاقات ہی میں جان گیا تھا۔ وہ الگ بات ہے دیکھ آج رہا ہوں۔
“ بلال نے تضحیک آمیز لہجے میں کہا۔
”یہ موسم … میرا یہ جوبن … تمہاری یہ جوانی اور یہ تنہائی کیا سوچ رہے ہو۔ “ نوین نے نینوں کے تیر چلاتے ہوئے بے حیائی سے کہا۔
”سوچ رہا ہوں ایک عورت اپنے آپ کو کس حد تک گرا سکتی ہے۔ “
”اسی لیے تو میں چاہتی ہوں تم مجھے اُٹھا لو … تھام لو … مجھے اپنا بنا لو … بلال میں تم پر مر مٹی ہوں۔
“ نیناں زبردستی بلال کے گلے لگ گئی۔ بلال نے اُسے زور سے خود سے جدا کیا اور اُسے بیڈ پر دھکا دے دیا اور خود بیڈ روم سے نکلنے لگا دروازے کے پاس پہنچ کر اُس کی نظر نیناں کی کالی چادر پر پڑی جو کہ کرسی پر پڑی ہوئی تھی۔ بلال دروازے پر رُکا اور پلٹ کر نیناں سے کہا جو کہ بیڈ سے اُٹھ رہی تھی۔
”کپڑے کی چادر تو تم نے اُتار کر پھینک دی ہے … اب کبھی اوڑھنی ہو تو حیا کی چادر اوڑھنا۔
“ بلال یہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا اب وہ ہال میں تھا۔ نیناں پیچھے سے بھاگ کر آئی اور بلال کی کمر سے لپٹ گئی اُس کے دونوں ہاتھ بلال کے سینے پر تھے۔
”بلال I love you … پلیز مجھے اس طرح چھوڑ کر نہ جاؤ … مجھے تمہاری اور نوشی کی شادی پر کوئی اعتراض نہیں ہے … تم شادی ضرور کرو … مگر یہ تعلق تو ختم نہ کرو۔ “
شعیب اور ناہید پہلے سے ہال میں کھڑے ہوئے تھے، اور نوشی اُن دونوں کے پیچھے سے کندھوں کے درمیان سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
وہ بلال کے بیڈ روم سے نکلنے سے پہلے ہی وہاں پہنچے تھے کمرے میں روشنی تھی اور ہال میں اندھیرا شعیب نے اُسی لمحے ہال کی ساری لائٹس on کر دیں جہاں وہ کھڑا ہوا تھا سوئچ بورڈ بالکل اُس کے پیچھے تھا۔
نوشی دیکھ رہی تھی بلال کو حیرت سے نفرت سے اور حقارت سے بلال کی کمر سے نیناں لپٹی ہوئی تھی وہ آنکھیں بند کیے ہوئے بول رہی تھی۔
”بلال پلیز یہ تعلق ختم نہ کرو … بلال پلیز یہ تعلق ختم نہ کرو۔ “ ایک منٹ کے اندر اندر بلال نے نیناں کو خود سے جدا کر دیا اُس نے اپنی چھاتی سے نیناں کا ہاتھ ہٹا کر اُسے اُس کے بازو سے پکڑ کر زور لگا کر خود سے جدا کیا تھا۔
”یہ کیابکواس کر رہی ہو … چھوڑو مجھے … کس تعلق کی بات کر رہی ہو…“ بلال غصے سے دھاڑا اُس کی آنکھوں میں شعلے تھے۔ اور نوشی کی آنکھوں میں نفرت شدید غصہ اُس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھی۔کڑکتی بجلی نے چیخ ماری شاید باہر کہیں کسی پر گری تھی۔ یا پھر بجلی اس سازش پر روئی تھی اُس کی خبر نہیں کہ بجلی کڑکنے کی اصل وجہ کیا تھی، یا پھر بارش وہ تیز بارش … بلال کی نظر اُن سب پر پڑی وہ خاموش رہا۔
ناہید سامنے کھڑی تھی اُس کے دائیں ہاتھ ایک قدم پیچھے نوشی کھڑی تھی، اور اُس سے دو قدم پیچھے شعیب کھڑا تھا، دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے ریلکس اُس کے بائیں جانب بجلی کا سوئچ بورڈ تھا۔
نیناں نے اُن سب کو دیکھا تو اپنا بلاوز سیدھا کیا مکار حسینہ نے ایک اور چال چل دی۔
”نہیں نہیں ایسا کچھ نہیں ہے … ہم دونوں کے بیچ میں … بلال تو بڑے شریف آدمی ہیں۔
“
”وہ تو میں دیکھ رہی ہوں “ ناہید دانت پیستے ہوئے آگے بڑھی اور بلال کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اور اُسے کالر کے نیچے سے گریباں سے پکڑ کر کہا تھا۔
”اُتار کر پھینک دو … یہ شرافت کا چوغہ … میں نے تم سے زیادہ بے غیرت اور بے حیا شخص آج تک نہیں دیکھا۔ “ ناہید نے بلال کو گریباں سے پکڑ کر جھنجھوڑا تھا۔
نوشی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
بلال پتھرائی ہوئی آنکھوں سے نوشی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ناہید نے نوشی کی طرف دیکھا تو بولی۔
”شعیب سنبھالو بہن کو … اور چلو یہاں سے … “ ناہید آگے تھی اور شعیب نے بازو میں لے کر نوشی کو سنبھالا ہوا تھا۔
نیناں آدھ ننگی، نظریں جھکائے بلال کے سامنے کھڑی تھی اُس نے اپنے بازوؤں سے اپنی ننگی چھاتی کو چھپایا ہوا تھا۔ بلال کمرے میں واپس گیا اور کرسی پر پڑی کالی چادر اُٹھائی اور واپس نیناں کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور وہ کالی چادر اُس کے کندھوں کے اوپر سے نیناں پر ڈال دی تھی۔
”نوین جی کپڑے کی چادر عورت کو تحفظ دیتی ہے … اور حیا کی چادر اوڑھنے سے عورت کو عزت ملتی ہے … اور دونوں چادریں اوڑھنے سے عورت کا اپنا ہی بھلا ہوتا ہے۔ “ بلال تھوڑی دیر خاموش رہا جیسے اپنے آپ کو سنبھال رہا ہو۔ بلال نے صبر کی طاقت سے اپنے آپ کو ریزہ ریزہ ہونے سے بچا لیا تھا۔ مگر اپنی تکلیف نہیں چھپا سکا۔
”نوین جی میں نے آپ کو معاف کیا … اور میں دعا کرتا ہوں میرا اللہ بھی آپ کو معاف کر دے “ بلال دکھ میں ڈوبی ہوئی گھائل آواز کے ساتھ بول رہا تھا۔
نیناں نے اپنی پلکوں کے کواڑ کھولے … نیناں کے موٹے موٹے نینوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ اُس نے عقیدت سے بلال کے چہرے کو دیکھا جو چند منٹ پہلے ہوس اور بے حیائی سے دیکھ رہی تھی۔ اُس کے اشک اب اُس کے گالوں پر تھے۔
نیناں کا دل اُسے ملامت کر رہا تھا، کہ تم نے چند لاکھ روپوں کے لیے کسی کی عزت کو داغ دار کر دیا اور اُسے دیکھو اُس نے تمہیں معاف بھی کر دیا، اور تمہارے لیے دعا کر رہا ہے۔
بلال وہاں سے جا چکا تھا۔ نیناں اُسی جگہ کھڑی ہوئی آنسو بہا رہی تھی۔ اُس نے وہ بلال کی اوڑھنی کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور خود سے عہد کیا۔
”بلال تم نے میرے ننگے اور غلیظ بدن پر جو دو چادریں ڈالی ہیں۔ میں انہیں کبھی اُترنے نہیں دوں گئی۔ … کبھی نہیں … میرے لیے دعا کرنا … اللہ مجھے معاف کر دے۔ “
نیناں روتے روتے زمین پر بیٹھ گئی اُس نے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دی اُس کی ہچکیوں سے ہال گونج رہا تھا۔
###
ولید صبح ہی سے بلال کو فالو کر رہا تھا۔ وہ شعیب کے ساتھ رابطے میں تھا۔ اور لمحہ بہ لمحہ شعیب کو اَپ ڈیٹ کر رہا تھا۔ WhatsApp کے ذریعے ناہید نوشی کو اپنے ساتھ اپنی فیکٹری لے کر آئی تھی گھر سے کوٹ لکھپت کا فیکٹری ایریا اور ٹاؤن شپ آمنے سامنے ہیں اُن کے درمیان ایک تقریباً 100 فٹ کی ڈبل روڑ واقع ہے۔ناہید کی فیکٹری اور نیناں کا گھر چند منٹ کی دوری پر تھے۔
جیسے ہی بلال نیناں کے گھر کے باہر پہنچا ولید نے شعیب کو اطلاع کردی تھی۔ شعیب اور ناہید نوشی کو وہاں لے کر آ گئے تھے۔ ناہید جو کچھ نوشی کو دکھانا چاہتی تھی وہ اُس میں کامیاب ہو چکی تھی۔ولید نے ہی ارم واسطی کے ذریعے نیناں کو بلال کے آفس میں رکھوایا تھا۔
بلال پہلے دن ہی جان چکا تھا۔ کہ نیناں کس طرح کی لڑکی ہے۔ نیناں ایک مشہور کال گرل تھی۔
جو اپنے جسم کا دھندا کرتی تھی۔ بلال کو یہ سب تو معلوم نہیں تھا۔ مگر اُس نے نیناں کے بے حیا نین ضرور پڑھ لیے تھے۔ ایک دفعہ بلال نے توشی سے کہا بھی تھا۔ ”اُس لڑکی کی آنکھیں بولتی ہیں“۔
نیناں اور ارم میں فرق یہ تھا۔ نیناں کال گرل تھی۔ اور ارم کی زندگی میں دل نواز ڈئیگی کے بعد ولید چھوتا آدمی تھا۔ دل نواز ڈئیگی اُس کی محبت تھا۔
بعد میں آنے والے دو شخص اُس کی مجبوری تھے۔ اور اب ولید اُس کی عادت، اُس کا نشہ، ولید اور ارم کو ایک دوسرے کی لعئت لگی ہوئی تھی۔
ارم مجبور تھی شروع میں … اور نیناں شروع ہی سے عادت سے مجبور تھی۔ مجبور انسان اور عادت سے مجبور انسان میں فرق ہوتا ہے۔عادت سے مجبور نے تو توبہ کر لی تھی سچی پکی توبہ، اب دیکھنا یہ تھا کہ مجبور کیا کرتی ہے۔
ارم کا ایک کمال اور بھی تھا کہ وہ جب جب بلال سے ملی تھی اُس نے کبھی بھی بلال کو نظر اُٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ اور کبھی بھی اُس سے کوئی فضول بات نہیں کی تھی۔
ارم نے ہمیشہ بلال سے سیدھی اور مختصر بات کی تھی، اسی وجہ سے بلال اُسے نوشی کے ڈریسز کے لیے تین لاکھ روپیہ دے کر آیا تھا۔
بلال ارم کے متعلق اچھی رائے رکھتا تھا۔
ارم اور ولید اپنے بنائے ہوئے پلان میں بڑی آسانی سے کامیاب ہو چکے تھے۔ شعب اور ناہید کی وجہ سے۔ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے، یہ چاروں بلال کے دشمن تھے، اس لیے آپس میں دوست بن گئے تھے۔
###