
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
مغرب کی اذان سے چند منٹ پہلے SMS بلال کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ بلال دیوان پر اپنے سامنے کھجوریں اور پانی کی بوتل رکھے ہوئے بیٹھا دعا مانگ رہا تھا۔SMS کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اور وہ بلال کی طرف دیکھ رہا تھا، اپنے آنسوں کو صاف کرتے ہوئے۔
”بلال بھائی آپ کو بڑے صاحب نے بلایا ہے “ SMS لرزتی ہوئی آواز سے بول رہا تھا۔ ”وہاں پر وہ سب…“ بلال نے اپنی شہادت کی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھی اور SMS کو چپ رہنے کا اشارہ دیا۔
” شاہد آپ جاؤ میں نماز پڑھ کر آتا ہوں۔“ مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی۔ بلال نے ایک کھجور منہ میں ڈالی اور بوتل کو منہ لگا کر تین گھونٹ پانی پیا وقفہ دے دے کر۔
”شاہد سنو یہ ہینڈ کیری میری گاڑی میں رکھ دو … کوچ کا نقارہ بج چکا ہے … پچھلی سیٹ پر رکھنا دروازہ کھلا ہے۔
“
شاہد محمود سکھیرا وہ ہینڈ کیری اُٹھا کر جا چکا تھا۔
بلال نے خشوع و خضوع کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کی اور دعا کے بعد جائے نماز لپیٹ کر اپنی بغل میں لگا لیا اور وہ کالا فولڈر اُٹھایا اور گھر کے لاؤنج کی طرف چل دیا۔
”نماز پڑھ کر آتا ہوں … سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی۔ “ ناہید لومڑی کا دماغ رکھنے والی عورت بول رہی تھی۔
گھر کے لاؤنج میں جمال رندھاوا صوفے پر بیٹھے ہوئے اپنے اوپر والے دانتوں سے نیچے کے دانتوں کو دبا رہے تھے منہ بند کیے ہوئے غصے سے۔
نوشی دوسرے صوفے پر اپنے باپ کے سامنے بائیں ہاتھ سامنے کی طرف بیٹھی ہوئی تھی۔ ناہید پیچھے کھڑی تھی جمال رندھاوا کے۔
شعیب دائیں ہاتھ دو کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ سامنے کی طرف اور اُس سے کچھ فاصلے پر ارم واسطی کھڑی تھی نظریں جھکائے ہوئے۔
جمال رندھاوا کے سامنے ٹیبل پر دو لفافے پڑے ہوئے تھے۔ ایک بلال کے اسکول کا انویلپ تھا اور دوسرا انویلپ ڈیفنس کے ایک فوٹو اسٹوڈیو کا تھا۔
BG اور SMS ناہید سے بھی پیچھے دیوار کے ساتھ کھڑے تھے۔ باقی گھر کے نوکروں کو اس طرف آنے کی اجازت نہیں تھی۔
”اسلام علیکم … “ بلال نے اپنے آنے کی اطلاع دی۔ ”جی ماموں آپ نے بلایا تھا“ بلال مطمئن تھا اُسے معلوم تھا۔ اُس کے آنے سے پہلے ہی اُس کے خلاف فیصلہ ہو چکا ہے۔
”یہ دونوں لفافے اُٹھاؤ۔ “ جمال نے غصے سے کہا بلال نے آگے بڑھ کر وہ دونوں لفافے اُٹھا لیے JUST اقرا اسکول والا انویلپ اُس نے کھولا اُس میں وہی تین لاکھ روپیہ تھا جو اُس نے چند دن پہلے ارم کو دیا تھا، نوشی کے کپڑوں کے لیے۔
بلال نے وہ روپے واپس اُسی میں ڈال دیے۔ اب دوسرے انویلپ کی باری تھی۔ اُس نے وہ انویلپ کھولا تو اُس میں بلال اور عظمی افگن نیازی کی وہ تصویریں تھیں، جو کافی دنوں پہلے جب وہ اور عظمی آخری بار ریستوران سے کھانا کھا کر نکلے تھے، تو پارکنگ میں بلال کی گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے جب عظمی اپنے ایک مہربان سچے اور کھرے دوست کے گلے لگی تھی۔ اُس لمحے کو کیمرے نے محفوظ کر لیا تھا اُسی طرح۔
ایک تصویر تھی، مگر اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی تھا۔
دوسری تصویر میں عظمی بلال کے ہاتھ کو چوم رہی تھی۔ اور تیسری تصویر میں بلال کا ہاتھ عظمی کے بائیں کندھے پر اور چوتھی تصویر بلال کا بایاں ہاتھ عظمی کے دائیں گال پر تھا۔
ایسی کوئی دو درجن کے قریب تصویریں اُس انویلپ کے اندر تھیں۔
”یہ روپے … “ جمال نے تشویش کے انداز سے پوچھا۔
”میں نے دئیے تھے … ارم کو … “
”اور وہ تصویریں جو تمہارے ہاتھ میں ہیں … کہیں نقلی تو نہیں ہیں۔ “ جمال تلخی سے بولا۔
”جی نہیں … جو تصویریں دکھا رہی ہیں۔ وہ بھی بالکل سچ ہے … مگر حقیقت کچھ اور ہے … آپ میری بات بھی سن لیں۔ “ بلال نے ادب سے جواب دیا۔
”جو ہم لوگوں نے آج دیکھا وہ سچ تھا … یا حقیقت تھی … تم جیسا بے شرم آدمی میں نے آج تک نہیں دیکھا … اب جمال تمہاری بات کیوں سنیں جو دیکھا ہے وہ کافی ہے۔
“
”ارم تم کیوں خاموش کھڑی ہو، بتاتی کیوں نہیں تمہارے ساتھ اس بے غیرت شخص نے کیا وعدے کیے تھے۔“ شعیب ارم کی طرف دیکھ کر غصے سے بولا۔ ارم کی آنکھوں میں وہ مصنوعی آنسو ایک بار پھر آ گئے تھے۔ جو وہ کوئی آدھ گھنٹہ پہلے بھی لا چکی تھی، جب اُس نے جمال کو اپنی اور بلال کی فرضی کہانی سنائی تھی۔ ارم نے ڈرتے ہوئے بلال کی طرف دیکھا۔
”تم ڈرو مت میں تمہارے ساتھ ہوں۔
“ جمال نے ارم کا حوصلہ بڑھایا۔
”سر تین سال پہلے جب میں نے بوتیک پر جاب شرع کی تھی تو ایک دن بلال وہاں پر آیا مجھے دیکھا اور میرے پیچھے ہی پڑ گیا۔ کچھ دن بعد کہنے لگا میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں، مگر تمہاری باس میرے گلے پڑی ہوئی ہے، بچپن سے جیسے ہی اس سے میری جان چھوٹتی ہے، میں تم سے شادی کر لوں گا۔
میں اس کی باتوں میں آ گئی، میری عزت آبرو اس کی ہوس کا شکار ہو گئی، پھر یہ ہفتے میں دو دفعہ مجھ سے ملنے لگا اور اتوار کا سارا دن میرے ساتھ فلیٹ پر گزارتا۔
یہ سلسلہ پچھلے تین سال سے چل رہا ہے، اب یہ کہتا ہے، میں تم سے شادی نہیں کر سکتا میری نوشی سے شادی ہونے والی ہے اس نے میرا منہ بند کرنے کے لیے یہ تین لاکھ روپیہ مجھے دیا تھا۔ اور ساتھ یہ بھی کہا تھا، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو میں تمہیں قتل کروا دوں گا۔“
ارم واسطی نے زور زور سے رونا شروع کردیا تھا۔ بلا ل نے اُس کی طرف حقارت سے نگاہ ڈالی۔
”بلال میں تو تمہاری مثالیں دیا کرتا تھا لوگوں کو … اور تم کیا نکلے۔ “ جمال رندھاوا دکھی ہو کر بولے۔
”ماموں جان یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے۔ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تین لاکھ روپیہ میں نے اسے نوشی کے ڈریسزز بنوانے کے لیے دیا تھا۔ اور وہ تصویریں میری دوست ڈاکٹر عظمی افگن کی ہیں، وہ صرف میری دوست ہے … بس “ بلال نے آرام سے اپنی صفائی پیش کی۔
”اور وہ جو ہم تینوں نے دیکھا وہ کیا تھا … “ ناہید غصے سے چلائی۔
”ممانی جان وہ مجھ سے زیادہ آپ جانتی ہیں۔ “ بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
”ممانی جان میری سمجھ سے باہر ہے آپ کیوں یہ گندا اور غلیظ کھیل کھیل رہی ہیں۔ “
”بلال اپنی زبان کو لگام دو … مت بھولو وہ تمہاری کیا لگتی ہے۔ “ جمال رندھاوا غصے سے گرجے۔ ”تمہیں شرم آنی چاہیے یہ گندا الزام لگاتے ہوئے اپنی ممانی پر۔
“
”ممانی نہیں … ماں … میں نے ہمیشہ ان کو اپنی ماں کی طرح عزت دی اسی لیے میں بار بار کہتا تھا، کہ ممانی سے پوچھ لیں اگر اُن کو اس شادی پر اعتراض ہے تو میں یہ شادی کبھی نہیں کروں گا، میں نے ایک ماں کے حکم پر محبت کی اور اپنی دوسری ماں کے حکم پر اپنی محبت سے منہ موڑ لیتا … ممانی جان آپ صرف ایک بار مجھے کہہ دیتی میں خوشی خوشی خود انکار کر دیتا اس لیے کہ میں آپ کو ماں سمجھتا نہیں مانتا بھی تھا …
ممانی جان مجھے اپنی ماں کی ہر چیز سے محبت ہے، اور میری ماں کو اپنی آبائی زمین سے بہت لگاؤ تھا، مگر میں نے آپ کی خوشی کی خاطر اُسے لینے سے بھی انکار کر دیا تھا … اگر اللہ نے زندگی دی تو میں وہ زمین خود خریدوں گا اپنے پیسوں سے … انشاء اللہ۔
“
”پوری زندگی ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والے … زمین خریدوں گا … تمہاری اوقات بھی ہے وہ زمین خریدنے کی۔ “ ناہید نے بلال پر طنز کیا۔ ”میں حیران ہوں تم کتنے بے شرم اور بے غیرت ہو جو اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بڑے مزئے سے باتیں کر رہے ہو … ذرا دیکھو میری معصوم بچی کی طرف وہ رو رو کر پاگل ہو گئی ہے اور تمہاری آنکھوں میں شرمندگی کا ایک آنسو بھی نہیں ہے … تم ایک بے حس اور بد کردار شخص ہو … رندھاوا صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں آپ بڑے مزے سے اس گھٹیا شخص کی تقریر سن رہے ہیں دھکے مار کر نکالیں اسے یہاں سے … احسان فراموش اگر رندھاوا صاحب نہ ہوتے تو تم در در کی ٹھوکریں کھاتے۔
اور ہ تمہارے دونوں چچا کبھی انہوں نے تمہاری خبر لی“
”خبر نہ لینا … جبر اور ظلم کرنے سے … بہر حال بہتر ہے … “
بلال نے ناہید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سنجیدگی سے جواب دیا۔
”تیور تو دیکھو … اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے … چور ماں کا چول بیٹا … “ ناہید نے ایک بار پھر بلال کے زخموں پر نمک ڈالا۔
”ممانی جان … بس … بس … “ بلال غصے سے دھاڑا پہلی بار اُس نے اونچی آواز میں بات کی تھی۔ اُس کی آواز لاؤنج میں گونج رہی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا تھا۔
”ممانی جان آپ مجھے کچھ بھی کہہ لیں … میں برداشت کرلوں گا … اُف تک نہیں کروں گا … مگر اپنے مرے ہوئے ماں باپ کے متعلق ایک لفظ بھی نہیں سن سکتا … آپ نے میری ماں پر جھوٹا چوری کا الزام لگایا تھا … اُس عورت پر جس نے اپنی کروڑوں کی جائیداد آپ کے کہنے پر دے دی … اور کبھی آپ سے واپسی کا تقاضا نہیں کیا … اور آپ نے لاکھ دو لاکھ کے زیورات کی چوری کا الزام اُس عظیم عورت پر لگا دیا … آپ نے اُس عظیم عورت کی عزت وقار خودداری کا جنازہ نکال دیا … مر تو وہ آپ کالگایا ہوا الزام سن کر ہی گئی تھی۔
صرف مرنے کی رسم پاگل خانے میں ادا ہوئی… آپ کو یاد تو ہوگا … ایک دفعہ آپ نے مجھ پر بھی چوری کا الزام لگایا تھا … میں نے 26 سالوں میں جو عزت کمائی تھی … آپ نے وہ بھی چھین لی … میں چند دنوں میں ثابت کر سکتا ہوں کہ میں بے گناہ ہوں … سچا ہوں … بد کردار نہیں ہرگز نہیں۔
ممانی جان میں آپ کے لگائے ہوئے الزاموں سے ہرگز پاگل نہیں بن سکتا … یہ آپ کی بھول ہے … “
”تم کرو ثابت … میں چیلنج کرتی ہوں … تم اپنے آپ کو کبھی بے گناہ ثابت نہیں کر سکتے … تم ایک بد کردار … بد لحاظ … عیاش آدمی ہو۔
“
ناہید رندھاوا انگلی دکھاتے ہوئے غصے سے چیخی زندگی میں پہلی بار اُسے کسی نے منہ توڑ جواب دیا تھا۔ ناہید کا رنگ فق ہو چکا تھا۔ اور وہ بلال کا جواب سن کر حواس باختہ ہو گئی تھی۔
”میں کہتی ہوں … تم اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرو … “ ناہید دوبارہ چلائی۔
”میں سچا ہوں … اور میں ثابت بھی کر سکتا ہوں … اُس کے بعد ان سب لوگوں کے درمیان آپ کی کیا عزت رہ جائے گی … میں اب بھی آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہوں بغیر کسی شرمندگی کے … ممانی جان یہ ثابت ہونے کے بعد کیا آپ ان سب سے آنکھ ملا سکیں گی … اور مجھے ڈر ہے … کہیں آپ کے ساتھ … میری ماں جیسا … نہیں نہیں اللہ نہ کرے … آپ تو ماں نہ بن سکیں … مگر میں تو بیٹا ہوں۔
“
بلال نے ایک بار پھر ناہید کو کرارا جواب دیا۔ SMS اور BG جو پہلے گردن جھکائے کھڑے تھے اپنے آنسوؤں کو چھپانے کی غرض سے ایک دم سے اُن کی گردنیں سیدھی ہو گئیں تھیں۔ آنسو خود بخود خشک ہو چکے تھے۔ SMS کی دونوں مٹھیاں بند تھیں جوش کے ساتھ غصے کی وجہ سے۔
جمال رندھاوا خاموشی سے سب کچھ سن رہے تھے۔ نوشی جو کچھ دیر پہلے آنسو بہا رہی تھی اب پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنی ماں اور بلال کو دیکھ رہی تھی۔
کبھی بلال کی طرف اور کبھی اپنی ماں کی طرف نوشی کو اپنی سچی محبت اور جھوٹی جنت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ نوشی اسی کشمکش میں مبتلا تھی۔
شعیب غصے سے بلال کو دیکھ رہا تھا۔ اور ارم واسطی حیرت میں مبتلا کہ اتنا خاموش اور دھیمے لہجے میں بات کرنے والا بندہ اپنی ماں کا نام سن کر اتنا جذباتی بھی ہو سکتا ہے۔
ارم کو شرافت اور کمزوری کا فرق سمجھ آ گیا تھا۔
”اوئے ہیرو یہ کیا ڈائیلاگ بازی کر رہے ہو … نکلو یہاں سے … تم کیا سمجھتے ہو یہ کسی فلم کا کلائمیکس ہے … جو تم ڈائیلاگ بول کر … پبلک کو خوش کر لو گے … اور لوگ تمہاری بے گناہی ثابت ہونے کے بعد … تالیاں بجا کر اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں گے۔ “
شعیب نےBG اور SMS کی آنکھوں میں بلال کی جیت کی چمک دیکھ لی تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ یہ دونوں اپنے ہیرو کی جیت پر تالیاں نہیں بجا سکتے تھے۔
شعیب نے غصے سے ہاتھ سے چٹکی بجاتے ہوئے بلال کو مخاطب کیا تھا۔
بلال جمال رندھاوا کی طرف بڑھا، اُن دونوں کے درمیان شیشے کا سینٹر ٹیبل تھا۔ جمال رندھاوا براؤن لیدر کا لباس پہنے ہوئے صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور بلال اُن کے سامنے ٹیبل کی دوسری طرف کھڑا تھا۔ بلال کی بائیں بغل میں وہ کالا فولڈر اور جائے نماز تھا۔ بلال دو زانو بیٹھ گیا۔
بالکل اپنے ماموں کے سامنے اور جمال رندھاوا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت ادب سے بولا۔
”ماموں جان یہ سب جھوٹ ہے۔ “ اب بلال نے نظریں اُٹھا کر ناہید کی طرف دیکھا جو کہ جمال کے پیچھے کھڑی تھی۔ اور قہر آلود نگاہوں سے بلال کو تک رہی تھی۔
”میں یہ گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ “ بلال پھر جمال کی طرف متوجہ ہوا اور جمال کو دیکھ کر بولا۔
”میں آپ سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ شاید کہہ نہ پاؤں اس لیے لکھ کر رکھ لیا تھا۔ “ بلال نے وہ کالا فولڈر شیشے کی ٹیبل پر رکھ دیا۔
”اس میں ایک خط ہے ضرور پڑھیے گا۔ اور آپ کے 144 احسانات جو آپ مجھ پر پچھلے 12 سال سے ہر مہینے کر رہے تھے۔ وہ آپ کے سارے احسان اس فولڈر میں بند ہیں۔ وہ بھی دیکھ لیجیے گا۔ “
اس کے بعد بلا ل نے وہ فوٹو اسٹوڈیو کا انویلپ اپنے کوٹ کی اندرونی پاکٹ میں ڈال لیا۔
جائے نماز اب بھی بلال کی بائیں بغل میں تھا۔ اور اُس کے دائیں ہاتھ میں وہ تین لاکھ کی تین گھٹیاں تھیں جو کہ بلال کے اسکول کے جسٹ اقرا انویلپ میں تھیں۔ بلال اپنے گھٹنوں سے اُٹھا اور اُلٹے پاؤں واپس ارم کی طرف آ گیا، جاتے ہوئے بھی اُس نے اپنے ماموں کی طرف پشت نہیں کی ارم واسطی کے برابر آ کر بلال نے وہ تین لاکھ روپیہ جسٹ اقرا اسکول کے انویلپ سے نکالا اور انویلپ کو اپنے لائٹ بلیو کوٹ کی سائیڈ والی پاکٹ میں ڈال لیا، اور وہ تین لاکھ روپیہ ارم کی طرف بڑھا دیا۔
”ارم جی یہ رکھ لیں۔ “ ارم نے گردن اُٹھا کر بلال کو حیرت سے دیکھا، بلال کے چہرے پر جیت کی مسکراہٹ اُبھری اور وہ بولا۔
”انہیں کے لیے تو آپ نے اس حد تک اپنے آپ کو گرایا ہے … آپ کو ارم جی ان روپوں کی بہت ضرورت ہے … پلیز رکھ لیں۔ “ بلال نے وہ روپے ارم واسطی کو تھما دئیے اب بلال نوشی کی طرف بڑھا جو بلال کو اپنی طرف آتا دیکھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
”نوشی جی میں نے اپنی پوری زندگی محبت کے بغیر گزار دی … میں بلال احمد محبت کے بغیر زندہ رہ سکتا ہوں … عزت کے بغیر نہیں … مجھے نہیں پتہ محبت کے اداب کیا ہوتے ہیں … میرے نزدیک محبت کے سر کی چادر عزت ہوتی ہے … اور آپ کی ماں نے وہ عزت کی چادر نفرت کی آگ میں جلا دی، اور ایسی ننگی محبت کا میں قائل نہیں ہوں … میں نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے … اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے سچ اور جھوٹ میں سے کسی ایک کا۔
“
”یہ کیا ڈرامہ ہو رہا ہے سچ … جھوٹ … عزت … محبت … شعیب گارڈز کو بلا کر اس فلاسفر کو دھکے مار کر نکالو، یہاں سے … “ ناہید نے اپنے بیٹے شعیب کو غصے سے حکم دیا۔
”شعیب رُکو تم ایسا کچھ نہیں کرو گے … بلال تم یہاں سے چلے جاؤ ابھی اسی وقت۔ “ جمال نے اُٹھتے ہوئے کہا کالا فولڈر اُٹھایا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔ جمال جلدی سے جلدی وہ خط پڑھنا چاہتا تھا۔
بلال اب بھی نوشی کے سامنے کھڑا تھا۔ اور اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا، محبت ہے یا نفرت اُسے میری کہیں ہوئی باتوں پر یقین آیا یا نہیں۔ نوشی بھی بلال کو پتھرائی ہوئی آنکھوں سے تک رہی تھی۔
”شعیب اسے نکالو یہاں سے … تم نے سنا نہیں…“ ناہید بلال کی طرف بڑھتے ہوئے بولی اور بلال کو دھکا دیا زور سے یہ دیکھ کر شعیب کو بھی جوش آ گیا۔
”واقعی تمہاری رگوں میں گندا خون ہے۔ “ شعیب نے جذبات میں آ کر بول دیا تھا۔ یہ بولنے کی دیر تھی۔ بلال نے ایک زور دار تھپیڑ شعیب کے گال پر جما دیا تھپڑ اتنی زور کا تھا دوسرے ہی لمحے شعیب زمین پر تھا۔ بلال کی بغل سے جائے نماز زمین پر گر گیا تھا۔
بلال نے شعیب کو گریبان سے پکڑ کر اُٹھایا اور اپنا دایاں ہاتھ اُس کے گلے پر جما دیا ،بلال نے اتنی طاقت سے شعیب کا گلہ دبوچا ہوا تھا کہ شعیب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
شعیب کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ بڑی مشکل سے سانس لے پا رہا تھا۔
”چھوڑو میرے بیٹے کو … رندھاوا صاحب … میرے بیٹے کو بچائیں اس جانور سے SMS کہاں مر گئے ہو … شعیب کو چھڑاؤ اس درندے سے ورنہ یہ مار دے گا۔ “ناہید بلال کو پیچھے سے مارتے ہوئے بول رہی تھی۔
BG اور SMS خوش تھے ۔ ”اچھا ہوا سالے کو اور مارو۔“ SMS نے منہ میں کہا تھا۔
”میں نے کہا تھا نا میرے ماں باپ کی گستاخی نہ کرنا۔
“ بلال غصے سے دانت پیستے ہوئے بولا، نوشی مجسمہ بنی سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
”نوشی اسے روکو … ورنہ یہ شعیب کو جان سے مار دے گا۔ “ ناہید نے نوشی کے مجسمے کو جھنجھوڑ کر التجا کی تھی۔
”آپ چھوڑ دیں میرے بھائی کو … “ نوشی نے اپنا دایاں ہاتھ بلال کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا جو شعیب کی گردن پر تھا۔ بلال نے اُس لمحے گرفت ڈھیلی کر دی تھی۔
شعیب کو پیچھے کی طرف گرتے ہوئے SMS نے سنبھالا تھا۔ اب SMS نے شعیب کو صوفے پر بٹھا دیا تھا۔ اور BG پانی کا گلاس لے کر آ چکی تھی۔
ناہید اپنے بیٹے شعیب کو پانی پلا رہی تھی۔ SMS شعیب کی ٹانگیں دبا رہا تھا۔ اور BG اُس کی ہتھیلیوں کو جھس رہی تھی۔
ارم شرمندگی کی تصویر بنے کھڑی ہوئی تھی۔ اس دوران وہ اپنی جگہ سے ایک انچ آگے پیچھے نہیں ہوئی تھی۔
”آپ چلے جائیں … یہاں سے ابھی اسی وقت۔ “ نوشی نے آخری فرمان جاری کر دیا۔ بلال نے نوشی کو آنکھ بھر کر دیکھا اور وہاں سے چلا گیا۔ نوشی جاتے ہوئے بلال کو دیکھ رہی تھی۔ بلال لاؤنج کے دروازے پر جا کر رُکا مڑا اور نوشی کو اُس کے پیروں سے چہرے کی طرف دیکھا نیچے سے اوپر کی طرف۔
نوشی کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور اُس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں نمکین پانی سے جلن ہونے لگی۔ بلال نے نوشی کی طرف پہلا قدم اُٹھایا اُس کا وہ قدم 26 سال کی مسافت کے دوران شاید سب سے مشکل قدم تھا۔ نوشی نے اپنی جبین بلال کے قدموں کے سامنے جھکا دی نوشی اپنی طرف آتے ہوئے بلال کے قدم دیکھ رہی تھی۔
نوشی کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ دھک دھک … دھک دھک۔
”اگر اس نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا تو میں کیا کروں گی… میں چلی جاؤں گی بلال کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے … مگر یہ تو … نہیں نہیں … اس نے اپنی بے گناہی ثابت تو نہیں کی … شک کا کالا ناگ پھنکارا … ماما کو چھوڑو … میں نے تو اسے خود یکھا تھا……نیناں کے ساتھ … میں کیسے یقین کر لوں … مجھے نہیں اعتبار بلال کی باتوں پر۔“
نوشی نے چند لمحوں میں اتنی ساری باتیں اپنے دل سے کر لیں تھیں۔
اب بلال اُس کے سامنے کھڑا ہوا تھا، دو فٹ کی دوری پر … بلال کی نظریں جھکی ہوئیں تھیں، اور وہ نوشی کے قدموں کی طرف دیکھ رہا تھا۔
نوشی کے نین بلال کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ رہے تھے، نوشی کا گلا خشک ہو گیا اور اُس کی آواز جیسے چھین لی گئی ہو۔ بلال اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گیا۔ وہ اپنی محبت کے سامنے جھک گیا تھا۔بلال نے نوشی کے قدموں سے آگے … پڑا ہوا جائے نماز اُٹھایا … وہ جائے نماز اُسے بابا جمعہ نے تحفہ دیا تھا … جس سے بلال کو بڑی عقیدت تھی … بلال اپنی محبت کے سامنے جھکا ہوا تھا، اپنی عقیدت کی وجہ سے ہمیشہ سے ایسے ہی تھا۔
محبت کسی کو جھکاتی نہیں ہے، محبت تو اُٹھاتی ہے محبت سر جھکا کر نہیں سر اُٹھا کر کی جاتی ہے۔ محبت کسی تذلیل نہیں … محبت تو عزت ہے۔
بلال نے صحیح کہا تھا۔ محبت کے سر کی چادر … عزت ہے … عزت کے بغیر محبت بیہودہ ہو جاتی ہے۔بلال نے بابا جمعہ کے جائے نماز کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اپنی جبین سے لگا لیا۔
نوشی نے گردن جھکا کر دیکھا۔
بلال کی طرف جو اُس کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ جائے نماز کو اپنے ماتھے سے لگائے ہوئے۔ بلال نے اپنی عقیدت کو ہونٹوں سے چوما اور آنکھوں سے لگا لیا۔ نوشی کی آنکھوں سے رم جھم اشکوں کی بارش شروع ہو گئی، نوشی کے سارے آنسو بلال کے شانوں پر گر رہے تھے۔ بلال وہاں سے اُٹھا اور نوشی کے رُخسار کو دیکھے بغیر چلا گیا مڑ کر دیکھا بھی نہیں، نوشی کی طرف۔
بلال نے اپنی محبت سے منہ موڑ لیا تھا۔
باہر آسمانی بجلی چیخیں مار رہی تھی۔ اور بادل رو رو کر ہلکان ہو رہے تھے۔ تیز بارش ہو رہی تھی۔
بلال بارش میں بھیگتا ہوا اپنی گاڑی تک پہنچا گاڑی اسٹارٹ کی سیکورٹی گارڈ نے گیٹ کھول دیا، بلال نے گھر سے نکل کر پارک کے ساتھ گاڑی رُوک لی اور رندھاوا ہاؤس کو دیکھنے لگا سرخ عروسی لباس پہنے ہوئے یہ دلہن جس کی چھتوں سے گرتا ہوا پانی ایسے محسوس ہو رہا تھا۔
جیسے یہ دلہن آنسو بہا رہی ہو۔
بلال نے اس رندھاوا ہاؤس میں اپنی زندگی کے 25 سال اور 4 مہینے گزارے تھے۔ یہ دلہن رو رہی تھی۔ بلال کو جاتے ہوئے دیکھ کر مگر بلال کی آنکھوں سے ایک آنسو نہیں نکلا تھا۔ بلال نے گاڑی اسٹارٹ کی اور چلا گیا تھا۔
###
اللہ حافظ ……………… ماموں جان … تب تک میں جا چکا ہوں گا اس گھر سے جب آپ میرا یہ خط پڑھ رہے ہوں گے۔
یہ خط آج ہی میں نے عصر کی نماز کے بعد لکھا تھا، وجہ یہ تھی میں آپ سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ میں آٹھ ماہ کا تھا جب میرے ابا فوت ہوگئے۔ میں اپنی ماں کے ساتھ اس گھر میں آ گیا میں نے آپ کو ہی اپنا باپ سمجھ لیا اور ممانی جان کو ماں اور آپ دونوں سے محبت کرنے لگا۔ میں آپ سب سے محبت کرتا رہا اور آپ نے صرف ممانی جان سے محبت کی ایک شوہر کو اپنی بیوی سے محبت کرنی چاہیے مگر ایسے نہیں جیسے آپ نے کی۔
محبت روشنی کی طرف لے کر جاتی ہے مگر آپ ممانی جان کی محبت میں اندھے ہو گئے تھے۔ میاں بیوی کا رشتہ بڑا مقدس رشتہ ہوتا ہے۔ آپ نے صرف ایک رشتے کو مقدم جانا اور ساری زندگی اُسی ایک رشتے کے حضور موٴدب کھڑے رہے۔آج ماموں جان میں صرف سچ بولوں گا، اور سچ بولنا بے ادبی نہیں ہوتی۔ممانی نے نانا جان سے بڑی بد تمیزی کی تھی، جس کی وجہ سے اُنہیں ہاٹ اٹیک ہو گیا اور وہ اس دنیا سے چلے گئے وقت سے بہت پہلے مگر آپ ممانی کی محبت میں خاموش رہے کچھ نہ کہا۔
ممانی نے میری ماں پر جھوٹا الزام لگایا چوری کا وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکیں اور پاگل ہو کر مر گئی آپ کو کوئی فرق نہیں پڑا آپ پھر سے خاموش رہے آج میرے ساتھ بھی ممانی نے گندا کھیل کھیلا مجھے پتہ ہے آج بھی آپ کچھ نہیں بول سکیں گے آپ جیسے لوگوں کو ہمارے معاشرے میں (رن مرید کہتے ہیں) جی ہاں جو روکا غلام اس گھر کے سارے فیصلے ممانی نے کیے اور آپ نے صرف تماشا دیکھا چپ چاپ۔
آج بھی وہ مجھے ذلیل کرکے اس گھر سے نکالنا چاہتی ہیں، اور آپ آج بھی تماشا دیکھیں گے آپ کی قابلیت پر مجھے پورا یقین ہے۔
میں یہ گھر چھوڑ کر 12 سال پہلے جا چکا ہوتا اگر نانو مجھے قسم دے کر روک نہ لیتیں، میں انہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا، مگر وہ تیار نہیں تھیں۔ نانو کی قسم کے علاوہ میرے رکنے کی ایک وجہ اور تھی مجھے ڈر تھا، ممانی نانو کے ساتھ بھی کچھ ایسا ویسا نہ کر دیں اگر نانو کے ساتھ کچھ ہو جاتا تو آپ اُسے بھی حادثہ سمجھ کر خاموش رہتے۔
ایک دفعہ ممانی نے میرے سامنے سے کھانا اُٹھا لیا تھا، اور مجھے بے عزت کیا اُس سے اگلے دن انہوں نے مجھ پر چوری کا الزام لگایا آپ پھر بھی خاموش رہے۔
نانو کے کہنے پر آپ نے میری پاکٹ منی لگا دی ،آج سے 12 سال پہلے پھر آپ ہر مہینے مجھے ایک چیک دے دیتے ممانی سے چھپ کر۔ وہ چیک مجھے ہمیشہ خیرات کی طرح محسوس ہوئے ایک ڈر پوک جٹ کی خیرات جو بھیک دیتے ہوئے بھی اپنی بیوی سے ڈرتا ہے۔
آج وہ چوری سے دی ہوئی بھیک، آپ کو واپس کر کے جا رہا ہوں۔ پچھلے بارہ سال کے 144 چیک جو میں نے کبھی کیش ہی نہیں کروائے تھے۔
اتنے سالوں کے دوران جب کبھی آپ کو اس یتیم بچے کا خیال آتا تو آپ اسے اپنے بچوں کے ساتھ ایک ٹیبل پر کھانا ضرور کھلا دیتے اور میں بھی چپ چاپ آپ کا دل رکھنے کی خاطر وہ کھانا کھا لیتا اُس کھانے کے ایک ایک نوالے پرممانی کی نظریں ہوتیں مجھے ایسا محسوس ہوتا اس کھانے سے زہر کھانا بہتر ہے۔
اُس کے علاوہ میں نے آپ کے گھر کا کبھی پانی بھی نہیں پیا تھا۔
ماموں جان ایسی باتیں ہمیشہ ماں باپ اپنے بچوں کو سمجھاتے ہیں۔ نانا جان کو تو میں نے دیکھا نہیں۔ نانو نے بھی کبھی آپ کو کچھ نہیں سمجھایا ہمیشہ خاموش رہیں ضرور کوئی وجہ ہو گی۔
آپ کی عظیم بہن کا نالائق بیٹا بلال احمد
###
”دادو مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی آپ نے کبھی پاپا کو کچھ نہیں کہا ہمیشہ بلال کو ہی صبر کرنے کو کہا۔ “ توشی اپنی دادی سے کوٹ فتح گڑھ میں اپنی آبائی حویلی میں بیٹھی ہوئی پوچھ رہی تھی۔
”توشی بیٹی ٹھیک کہہ رہی ہو اُس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ تمہارے باپ نے ہمیشہ تمہاری ماں کی بات مانی ہے مجھے ڈر تھا میں اُس سے کچھ کہوں گی اگر اُس نے انکار کردیا تو میرے پلے کیا رہ جائے گا………
اور دوسری وجہ یہ میرا ہی فیصلہ تھا، تمہارے باپ کی شادی کا میں نے ساری زندگی اپنے اس غلط فیصلے کو صحیح ثابت کرنے میں گزار دی………
تمہاری پھوپھو تمہارے دادا کی لاڈلی تھی۔
تمہارے دادا نے تمہاری پھوپھو کی پسند سے ملک جلال احمد کے ساتھ تمہاری پھوپھو کا رشتہ طے کیا تھا، دونوں ساتھ پڑھتے تھے۔
اور تیرا باپ تیری ماں پر لٹو تھا۔ یہ رشتہ میں نے تیرے دادا اور پھوپھو کی مخالفت کے باوجود ضد میں کیا تھا۔“ دادی کی آنکھوں میں نمی تھی اور وہ رُک گئیں بات کرتے کرتے۔
”توشی کبھی بھی اپنے سائیں سے ضد نہ کرنا گھر برباد ہو جاتے ہیں۔
تیرے باپ کی شادی کے بعد چند دنوں کے اندر ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ تیرا باپ تیری ماں کے پیچھے ہم سب کو چھوڑ سکتا ہے۔
ایک دن تیری ماں اور تیرے دادا میں زمین نہ بیچنے پر بحث ہو گئی تیری ماں نے بڑی بد تمیزی کی تیرے دادا کے ساتھ اور تیرا باپ پاس بیٹھا تماشہ دیکھتا رہا اُس وقت تیرے دادا کو دل کا دورہ پڑ گیا، ہم اس حویلی میں تھے اور تیری پھوپھو لاہور تھی۔
تیرا دادا چل بسا۔
تیری ماں نے تیرے باپ کا حصہ بیچ کر ہی دم لیا تیری پھوپھو نے اپنا حصہ نہیں بیچا تھا۔ پھر تیرے باپ کے لیے میری ممتا جاگ اُٹھی۔ جمال کو جیل سے نکالنے کے لیے تمہاری ماں کے کہنے پر تمہاری پھوپھو کو مجبور کیا تھا۔ تیری پھوپھو نے اپنی زمین اپنے بھائی پر قربان کردی پھر تیری ماں تیری پھوپھو کو بھی کھا گئی تیرا باپ پھر بھی کچھ نہ بول سکا تھا۔
اب تو ہی بتا تیرے باپ کو کیا کہوں۔ اتنا بڑا کاروباری بندہ ہے لیکن اپنے گھر کے فیصلے نہیں کر سکا۔“دادی نے اپنی آنکھوں کی نمی صاف کی توشی کے دیکھنے سے پہلے دادی نہیں چاہتی تھی کہ توشی پھر پرانی باتوں کو یاد کرکے روئے۔
”دادو … آپ نے بلال کے لیے بھی پاپا سے کبھی بات نہیں۔ “
”بیٹا سچ پوچھوں مجھے ڈر تھا، تمہاری ماں سے کہیں وہ بلال کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے اس لیے میں نے کبھی اُس کے لیے آواز نہیں اُٹھائی، میں تیرے باپ کو کچھ سمجھانے کی کوشش بھی کرتی، کرنا اُس نے وہی تھا جو تیری ماں کا حکم ہوتا۔
بہشتی تیرا دادا بڑی نگاہ رکھنے والا بندہ تھا۔ تیرے باپ کے ولیمے والے دن کہنے لگا مجھ سے کان میں جہاں آرا بیگم میری بات یاد رکھنا تیرا بیٹا بہت بڑا (رن مرید ہوگا) میں ہنس پڑی تیرے داد کی بات سن کر میں نے کہا آپ کا بیٹا ہے آپ تو میرے مرید نہیں بنے نہیں یہ تمہارا بیٹا ہے تیرے دادا نے کہا پھر تیری پھوپھو پر نظر پڑی اور بولا میرا بیٹا وہ ہے میری بیٹی لڑکی ہو کر بھی دلیر بہادر سمجھدار اور تیرا بیٹا مرد ہو کر بھی (جھوڈو) ڈر پوک اور لائی لگ۔
)“
دادی کے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ تھی انہوں نے اپنی مسکان سے اپنے غم کو چھپانے کی پوری کوشش کی تھی۔
”شکر ہے یہ بارش تو کم ہوئی۔ “ توشی نے کھڑکی سے باہر دیکھا۔ دادی دوبارہ بول پڑتی ہیں۔
”بلال میں مجھے تینوں کی جھلک نظر آتی ہے۔ بلال اپنے باپ کی طرح خود دار اور اپنی ماں کی طرح سمجھدار اور تیرے دادا کی طرح دلیر بہادر مضبوط مرد۔
تیرے باپ کی طرح(جھوڈو) نہیں۔ “
دادی کے چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ تھی۔
”دادو کیا مضبوط مرد روتے نہیں ہیں۔ میں نے آج تک بلال کو روتے ہوئے نہیں دیکھا کبھی اُس کی آنکھوں سے ایک آنسو گرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ “توشی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”وہ کیا کہتی ہو تم ہاں یاد آیا … یہ لو … “ دادی نے بھی توشی کا تکیہ کلام دھرایا۔
مسکراتے ہوئے ۔ ”توشی بیٹی وہ روتا ہے لیکن لوگوں کے سامنے نہیں۔“ دادی نے ٹھنڈی سانس بھری۔
”ایک دفعہ مجھے کہنے لگا نانو دوست کے کندھے پر سر رکھ کر رویا جاتا ہے، یا پھر ماں کی آغوش میں۔ “
”ماں کی آغوش… “ توشی کچھ سوچ کر بولی۔ ”دوست کا کندھا … دادو میں نے کئی بار اپنا کندھا پیش کیا مگر وہ رویا ہی نہیں میرے کندھے پر سر رکھ کے۔
“
”وہ اپنی ماں کے پاس جا کر روتا ہے۔ “ دادی رنجیدگی سے بولی۔
”ماں کے پاس جا کر۔ “ توشی نے حیرت سے اپنی دادی کے الفاظ دہرائے۔
”بلال کہتا ہے ماں کی قبر پر رونا میرے نبی پاکﷺ کی سنت ہے۔ بلال بھی اپنی ماں کی قبر پر جا کر روتا ہے۔ “
###
اُسی دن رات کو رندھاوا ہاؤس سے نکلنے کے بعد بلال سیدھا ڈیفنس کے S بلاک والے قبر ستان میں واقع اپنی ماں کی قبر پر گیا۔
بارش ہلکی ہو چکی تھی۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔
اپنی ماں کی قبر کے سرہانے بیٹھ کر اپنا سر اپنے گھٹنوں میں لیے ہوئے بلال بلک بلک کر رو رہا تھا۔ بلال کے آنسو زار و قطار بہہ رہے تھے۔ بلال سسکیاں لے رہا تھا۔ جیسے کوئی شیر خوار بچہ ہو۔ آج یہ مضبوط مرد کرچی کرچی ہو چکا تھا۔ بلال کے بدن میں کپکپاہٹ تھی۔ بلال کا دل چھلنی چھلنی ہو چکا تھا۔
اس الزام کی وجہ سے اُس کی عزت نفس مجروح ہو ئی تھی۔
”بلال بھائی کی گاڑی … یہاں اس وقت … “ عادل عقیل نے قبرستان کے باہر کھڑی گاڑی دیکھ کر خود سے کہا عادل نورانی مسجد میں عشاء کی نماز ادا کرکے اپنے گھر جا رہا تھا۔ بابا جمعہ کے انتقال کے بعد سے عادل کا معمول تھا کہ وہ فجر اور عشاء کی نمازیں بابا جمعہ کے موچی خانے کے سامنے واقع نورانی مسجد میں ادا کرتا تھا۔
فجر کے بعد وہ بابا جمعہ کے جنگلی کبوتروں کو دانہ ڈالتا اور کالی بلی کو دودھ، آج بھی وہ عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر کالی بلی کو دودھ ڈالنے کے بعد، اپنے گھر جا رہا تھا، جب اچانک اُس کی نظر بلال کی گاڑی پر پڑی تھی۔ اس قبر ستان سے بابا جمعہ کا موچی خانہ کوئی آدھ کلو میٹر سے بھی کم دوری پر تھا۔
عادل نے اپنی BMW کار بلال کی گاڑی کے ساتھ پارک کی اور گاڑی سے اُتر کر گاڑی کے شیشوں کے پار دیکھنے کی کوشش کرنے لگا عادل کو کچھ نظر نہیں آیا اب بھی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔
عادل کی تشویش بڑھنے لگی، اُس نے بلال کے نمبر پر کال ملائی، بیل جا رہی تھی، موبائل کی روشنی کی وجہ سے اُسے پتہ چل گیا گاڑی میں کوئی نہیں تھا، بلال کا موبائل بھی گاڑی میں ہی تھا۔
عادل کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ کالے سیاہ بادلوں کی وجہ سے رات مزید سیاہ تھی اوپر سے ٹھنڈی ہوا، اور ہلکی ہلکی بوندا باندی بارش کی جہ سے اس سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔
ویسے بھی یہ سڑک مین غازی روڑ سے نکلتی ہے۔ PTCL ایکسچینج کے پاس سے اس روڑ سے صرف وہ گاڑیاں گزرتی ہیں جن کی منزل S بلاک کا کوئی گھر ہو۔عادل سوچ میں پڑ گیا۔ بلال بھائی کہاں ہو سکتے ہیں۔ ”قبرستان کے اندر“ عادل نے خود کو مخاطب کیا۔
عادل نے قبرستان کے گیٹ کی طرف نظر ڈالی بڑا مین گیٹ بند تھا۔ اُس کے ساتھ چھوٹا گیٹ کھلا ہوا تھا۔ قبرستان کے گیٹ کا رنگ بھی کالی سیاہ رات جیسا ہی تھا یعنی کالا سیاہ۔
عادل قدم اُٹھاتا ہوا قبرستان کی طرف چل دیا۔ عادل چھوٹے گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہوئے رُکا مڑ کر پیچھے دیکھا کوئی نہیں تھا، اُس کا وہم تھا۔ عادل زندگی میں کبھی دن کے اُجالے میں قبر ستان کے اندر نہیں گیا تھا۔
رات کے اس پہر عشا کے بعد وہ بھی اکیلا اُس نے سامنے کی طرف دیکھا عالم خان پھول فروش کی دُکان چھوٹے گیٹ کے بالکل سامنے جو دُکان کم پان شاپ زیادہ لگتی تھی، گول فٹ بال کی طرح بنی ہوئی پھولوں کی دُکان جس کے سامنے کی طرف شیشے کی کھڑکیاں لگی ہوئی تھیں اور پچھلی سائیڈ پر دیوار کے ساتھ ایک سفید فریزر رکھا ہوا تھا۔
(نوٹ: ہم مسہری اور اسٹیج ڈیکوریشن کا تسلی بخش کام بھی کرتے ہیں) ایک چاٹ پیپر پر لکھا ہوا تھا، چاٹ پیپر کے نیچے عالم خان پھول فروش اور ساتھ اُس کا موبائل نمبر بھی تھا۔ مین گیٹ کے بالکل سامنے ایک پختہ راہ داری تھی اور گیٹ کے بائیں طرف سیکورٹی گارڈ کا کیبن مگر اُس میں گارڈ نہیں تھا۔ اُس وقت قبر ستان میں کوئی گھور کن بھی موجود نہیں تھا۔
عادل اُس پختہ راہ داری پر چلتا ہوا قبر ستان کے اندر داخل ہو گیا اُس کے دائیں بائیں دو گرین لان تھے اور ان میں لکڑی اور لوہے کی بنی سیٹیں لگی ہوئیں تھیں ۔ راہ داری پر سرخ چھوٹی ٹف ٹائلیں لگی ہوئیں تھیں۔
عادل دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا، ڈرتے ہوئے اُسے حوصلہ ٹیوب لائٹوں کی وجہ سے تھا بجلی کے چھوٹے کھمبوں پر جا بجا ٹیوب لائٹس لگی ہوئی تھیں اُس کے دل کی دھڑکن تیز تھی۔
تیس چالیس قدم چلنے کے بعد عادل کی نظر بلال پر پڑی جو ٹیوب لائٹ کے پول سے آگے چھوٹے آم کے پیڑ سے کچھ فاصلے پر ایک قبر کے سرہانے اپنا سر اپنے گھٹنوں میں لیے ہوئے رو رہا تھا۔
جمیلہ جلال قبر کے قطبے پر لکھا ہوا تھا اور نیچے کی طرف قبر کا نمبر لکھا ہوا تھا۔ عادل دبے پاؤں بلال کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اُس کے پیچھے کی طرف وہ چند منٹ اس طرح کھڑا رہا اس کے بعد عادل نے ہمت کی۔
’ بلال بھائی …’ “ عادل نے بلال کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔ اُس کا دایاں ہاتھ بلال کے بائیں کندھے پر تھا۔ عادل اپنے گھٹنوں پر بیٹھ چکا تھا۔ بلال مسلسل رو رہا تھا۔ چند منٹ عادل دیکھتا رہا، اُس کے بعد عادل نے بلال کو اُٹھایا زور لگا کر، عادل کو ایسے محسوس ہوا جیسے بلال کوئی بے جان بدن ہو جو صرف سانس لے رہا ہو، اور رو رہا ہو۔
عادل نے بلال کو گلے لگا لیا تھا۔ بلال کا سر عادل کے کندھے پر تھا، اور وہ زور زور سے رو رہا تھا۔ عادل سمجھ گیا ضرور بلال کے ساتھ کوئی بڑا حادثہ ہوا ہے۔ عادل بھی بابا جمعہ کے انتقال کے وقت ایسے ہی رو رہا تھا تب بھی، بلال کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہیں آیا تھا۔ عادل نے بلال کو اپنی کار میں بٹھایا اور اپنے گھر لے گیا گیسٹ روم کی بجائے عادل نے بلال کو اپنے بیڈ روم میں لے جانا بہتر سمجھا۔
اپنی ایک شلوار قمیض اُسے دی ”بلال بھائی کپڑے چینج کر لیں ورنہ ٹھنڈ لگ جائے گئی۔“
عادل نے ہینگر بلال کو تھماتے ہوئے کہا تھا۔ بلال باتھ روم چلا گیا اور چند منٹ بعد گرم پانی سے غسل کرکے لوٹا تھا۔
”عادل میری گاڑی منگوا لو۔ “ بلال نے گاڑی کی چابی عادل کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔ بلال غسل کرنے کے بعد کافی بہتر تھا۔ عادل نے اپنے ملازموں کو بھیج کر بلال کی گاڑی منگوا لی تھی۔ گاڑی آنے کے بعد بلال نے بیڈ روم کی کھڑکی کا پردہ پیچھے ہٹا کر پورچ میں کھڑی اپنی گاڑی کو دیکھا جو اُس کے باپ کی نشانی تھی۔
”بلال بھائی کچھ کھا ئیں گے؟ “ عادل نے آہستہ سے پوچھا بلال نے نفی میں گردن ہلا دی۔
”یہ گاڑی کی چابی، کچھ اور چاہیے آپ کو؟ “ عادل نے جانچتی نگاہوں سے پوچھا بلال نے اِرد گرد دیکھا۔
”جائے نماز “ بلال نے مختصر سا جواب دیا۔ عادل نے ایک کیبن کھولا اور جائے نماز نکال کر دے دیا۔ ”بلال بھائی اگر کچھ چاہیے ہوگا تو آپ مجھے کال کردیجیے گا۔ میں ساتھ والے روم میں ہوں اب آپ آرام کریں ہاں یاد آیا قبلہ اس طرف ہے“ عادل نے جانے سے پہلے کہا تھا۔
بلال نے جائے نماز بچھایا اور عشاء کی نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔
اگلی صبح عادل فجر کی نماز ادا کرنے کے ایک گھنٹہ بعد اپنے ہی بیڈ روم میں بلال سے اجازت لے کر داخل ہوا تو اُس نے دیکھا بلال اب بھی جائے نماز پر ہی بیٹھا ہوا تھا۔
بلال نے ساری رات جائے نماز پر گزار دی۔ بلال صبر اور نماز کے ذریعے اپنے اللہ سے مدد لے چکا تھا۔
بلال جس کرب میں مبتلا تھا، وہ اب شانت ہو چکا تھا۔ اُس کے چہرے کی پریشانی اب ایک میٹھی مسکان کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ یقین اور بے یقینی کی جنگ میں یقین جیت چکا تھا۔ داخلی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ہو چکی تھی۔بلال کے ماتھے پر لگا کلنک کا ٹیکہ رات بھر سجد ے میں پڑی رہی پیشانی سے صاف ہو چکا تھا۔
بلال کا چہرہ بارش کے بعد کی دھوپ جیسا روشن چمکدار اور اُجلا تھا۔
بلال کی گرین آنکھیں ضرور سرخ تھیں نیند کی وجہ سے پھر بھی وہ فریش لگ رہا تھا۔
”السلام علیکم بلال بھائی “ عادل نے اندر آتے ہوئے سلام کیا تھا۔
”و علیکم اسلام عادل صاحب “ بلال نے جائے نماز کو سیمٹتے ہوئے جواب دیا اور عادل کے سامنے کھڑا ہوگیا اپنے چہرے پر تبسم سجائے۔
”عادل صاحب تشریف رکھیں اسے اپنا ہی گھر سمجھیں۔ “ بلال مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
عادل کھل کھلا کر ہنس دیا عادل کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔
”عادل صاحب بہت بھوک لگی ہے جلدی سے کچھ کھلا دو “ بلال نے عادل سے کہا۔
”جی جی … بلال بھائی مجھے اندازہ ہے … اس لیے میں ناشتے کا بول کر آیا ہوں۔ “چند منٹ بعد دو ملازم اندر آئے ایک عمر رسیدہ خاتون تھی اور ایک نوجوان لڑکا اُن دونوں نے ناشتہ سینٹر ٹیبل پر ہی لگا دیا تھا۔
”ممی ڈیڈی اور دادی اسلام آباد گئے ہوئے ہیں ۔پھوپھو کے بیٹے کی شادی ہے۔ اس لیے میں نے ناشتہ یہی منگوا لیا ہے۔ “ عادل نے کہا۔ ناشتہ بلال کی پسند کے مطابق تھا گڑ والی چائے براؤن بریڈ، فریش اورنج جوس، انڈوں کی سفیدی کا آملیٹ عادل اور بلال نے ناشتہ کیا۔
” بلال بھائی دوپہر کے لیے میں نے دیسی مرغ وہ بھی دیسی گھی میں پکا ہوا اور پیاز گوشت بول دیا ہے۔
“ عادل اپنے ہاتھ دھونے کے بعد تولیے سے صاف کرتے ہوئے بولا تھا۔
”عادل میں دوپہر تک نہیں رُک سکوں گا۔ “ بلال نے وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے کہا تھا۔ وال کلاک پر آٹھ بجنے والے تھے۔ عادل نے بلال کی طرف حیرت سے دیکھا۔
عادل سوچ رہا تھا ”بلال بھائی بھی عجیب کریکٹر ہیں۔ رات کو رو رہے تھے، صبح کو مسکرا رہے تھے، اور اب جا رہے ہیں۔
“
”عادل صاحب میں آج 11 بجے کی فلائیٹ سے عمرہ ادا کرنے جا رہا ہوں۔ اس لیے میں دوپہر تک نہیں رُک سکتا ورنہ آپ کی دعوت سر آنکھوں پر واپسی پر آپ سے کھانا ضرور کھاؤں گا۔ “
”آپ عمرے کے لیے جا رہے ہیں … آج؟ “ عادل نے حیرت سے سوال کیا۔ ”بلال بھائی آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا میں آپ کے ساتھ جانا چاہتا تھا مجھے آپ سے گلہ ہے۔“
”اگر زندگی نے مہلت دی تو ہم اس سال حج ساتھ کریں گے … انشاء اللہ … “
عمر رسیدہ خاتون اور وہ نوجوان لڑکا ناشتے کے برتن اُٹھانے کے لیے آ گئے تھے۔
بلال نے اُنہیں دیکھا تو گاڑی کی چابی عادل کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا۔
”عادل صاحب میرا ہینڈ کیری منگوا دو گاڑی سے مجھے کپڑے اور پاسپورٹ ٹکٹ نکالنے ہیں۔ “
”بلال بھائی میں خود لیکر آتا ہوں۔ “ عادل نے جلدی سے گاڑی کی چابی پکڑی اور ہینڈ کیری لینے چلا گیا۔ نوجوان ملازم لڑکا ناشتے کے برتن ٹرالی پر رکھ کر کمرے سے جا رہا تھا۔ بلال کھڑکی سے پردہ ہٹا کر عادل کو دیکھ رہا تھا۔
جو اُس کی گاڑی کے پاس کھڑا فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔
”آپ ہی بلال ہو … صاحب … “ عمر رسیدہ ملازمہ نے ادب سے پوچھا بلال کی طرف دیکھ کر بلال اُس ملازمہ کی طرف دیکھ کر متوجہ ہوا۔
”جی جی … خالہ جی …… مگر آپ کیسے مجھے جانتی ہیں؟ “ بلال نے حیرت سے پوچھا۔
”صاحب آپ کو اور بابا جی کو کون نہیں جانتا اس گھر میں ہاشمی صاحب سے لے کر مالی تک سب آپ سے ملنا چاہتے تھے۔
اور میں بھی، میرے ابا جی بڑے پیر صاحب کی ایسے عزت کرتے تھے۔ جیسے عادل آپ کی اور بابا جمعہ کی کرتا ہے،میں تو رات کو ہی سمجھ گئی تھی، جب عادل صاحب اپنے بیڈ رم میں آپ کو لے کر آئے تھے ورنہ اس بیڈ روم میں کسی کو آنے کی اجازت نہیں ہے سوائے میرے …“حلیمہ بی بی رُکی اور پھر دوبارہ بولی بلال کے چہرے کو دیکھ کر جواب اُس کے سامنے کھڑا تھا۔
” صاحب آپ نے کیا جادو کردیا ہے۔
ہمارے عادل صاحب پر چھ مہینے پہلے تک جب میں یہ کمرہ صاف کرنے آتی تھی تو روڑی سے زیادہ گندا ہوتا تھا، اور اب مسیت کی طرح صاف ستھرا ہوتا ہے، صفائی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔“
”لگتا ہے آپ اس گھر میں کافی سالوں سے ہیں؟ “ بلال نے پوچھا۔
”جی صاحب میں 22 سال سے یہاں کام کر رہی ہوں، بڑے اچھے لوگ ہیں۔ پیروں کا گھرانہ ہے۔ زندگی میں پہلی بار کسی پیر زادے کا مرشد دیکھ رہی ہوں “ ملازمہ نے جواب دیا۔
بلال سمجھ کر بھی تفصیل جاننا چاہتا تھا اس لیے اُس نے پوچھا۔ ”کیا مطلب؟“
”صاحب … مطلب یہ عادل صاحب کے دادا بہت بڑے بزرگ تھے اور ان کے تایا بہت مشہور پیر ہیں، لوگ اس گھرانے کی بہت عزت کرتے ہیں۔
عادل صاحب اُن سب سے بڑھ کر آپ کی اور بابا جمعہ کی عزت کرتے ہیں۔ رات آپ کو روتا دیکھ کر عادل صاحب پوری رات سو نہیں سکے مجھے کہنے لگے حلیمہ بی بلال بھائی کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھے اللہ خیر کرے۔
“
”آپ کا نام حلیمہ بی ہے۔ “ بلال نے پوچھا۔
”شناختی کارڈ پر تو میرا نام حلیمہ صادق ہے بس عادل صاحب حلیمہ بی کہتے ہیں۔ “
صاحب وہ جو سامنے دیوار ہے جس کے اوپر پلاسٹک کا پردہ ہے اس دیوار پر پہلے تین تصویریں لگی ہوئی تھیں اب ایک اور بڑی تصویر لگا دی ہے عادل صاحب نے۔“
بلال نے کمرے کی مغربی دیوار کی طرف دیکھا، جہاں دیوار پر کھڑکیوں کے اوپر لگے ہوئے بلائینڈر کی طرح دیوار پر آدھ فٹ آگے کی طرف لائٹ گرین شیٹ کا بلائینڈر لگا ہوا تھا۔
جس کے پیچھے چار بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ ایک عادل کے دادا اور دادی کی تصویر جو کہ بلیک اینڈ وائٹ تھی، دوسری تصویر اس کے والدین کی تھی جو کہ کلر تھی، تیسری تصویر جو کہ دیوار پر سب سے نیچے لگی ہوئی تھی، اسکول یونیفارم پہنے ہوئے دو بچے ایک بچہ موٹا گندمی رنگ والا اور ایک چھوٹی بچی گول مٹول گوری چٹی رنگت والی۔ بلال اُس دیوار کی طرف بڑھا جس کے پیچھے لگی ہوئیں تصویریں اُس پردے کی وجہ سے نظر نہیں آ رہیں تھیں بلال نے بغیر اجازت کے اُس پردے کو ہٹانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
بلال کا منہ اُس دیوار کی طرف تھا، اور حلیمہ بی کی طرف پشت تھی، حلیمہ بی کھڑی ہوئیں بلال کو دیکھ رہیں تھیں۔
” بلال بھائی آپ کا ہینڈ کیری“ عادل کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا تھا۔
”آپ کپڑے نکال دیں حلیمہ بی پریس کروا دیتیں ہیں۔ “ بلال نے اپنے کپڑے حلیمہ بی کو دئیے وہ کمرے سے چلیں گئیں۔