
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
عادل نے وہ بلائینڈر پیچھے ہٹا یا چوتھی تصویر بابا جمعہ اور بلال کی تھی جو عادل نے موبائل سے لی تھی۔
”بلال بھائی یہ میرے دادا اور دادی ہیں یہ ممی ڈیڈی اور یہ میرے اور عظمی کے بچپن کی تصویر ہے۔ “
چوتھی تصویر کے پاس کھڑے ہو کر عادل نے محبت سے سر شار ہو کر کہا۔
”یہ میرے مرشد بابا جمعہ خاں میواتی اور میرے محسن میرے دوست ملک بلال احمد ہیں۔
“ عادل کی سانسوں سے عقیدت کی خوشبو آ رہی تھی، اور اُس کی آنکھوں میں چمک تھی، اُس کے لہجے میں احترام تھا۔ وہ بلال سے بلال کو متعارف کروا رہا تھا۔
”بلال بھائی اگر یہ دو عظیم بندے مجھے نہ ملتے تو شاید میں پاگل ہو جاتا ان دونوں نے مجھے زندگی سے ملا دیا۔ “
عادل بول رہا تھا اور بلال سن رہا تھا۔
”میں ابھی عظمی سے بات کر رہا تھا میں نے اُسے بتایا آپ میرے ساتھ میرے گھر پر ہو وہ بھی یہاں آ رہی ہے، آپ سے ملنے کے لیے۔
بلال بھائی آپ نے ہم دونوں کا خود سے بھی تعارف کروا دیا ورنہ میں اور عظمی خود ہی سے بھاگ رہے تھے، اگر آپ نہ ہوتے تو شاید میں اور عظمی ایک دوسرے کی محبت سے انجان ہی رہتے۔“
بلال خاموشی سے عادل کے سامنے کھڑا ہوا عادل کی باتیں سن رہا تھا۔
”بلال بھائی میری اور عظمی کی شادی نومبر میں ہو رہی ہے، ڈیڈی اور عظمی کے انکل نے ہماری مرضی سے یہ رشتہ طے کیا ہے۔
“
عادل کے چہرے پر میٹھی سی مسکراہٹ اُبھری مگر بلال سنجیدہ تھا۔ بلال واش روم میں گیا اور اپنے کوٹ کی اندرونی پاکٹ سے وہ تصویریں نکال لایا اور عادل کی طرف بڑھا دیں۔ عادل نے وہ ساری دو درجن کے قریب تصویر دیکھیں اب عادل کے چہرے پر بھی سنجیدگی تھی۔ کڑوی سنجیدگی میٹھی مسکراہٹ کو کھا گئی تھی۔
”بلال بھائی مجھ سے بابا جی کہا کرتے تھے، عادل بیٹا اکثر آپ کا سچ حقیقت نہیں ہوتا یہ تصویریں سچ ہوں گی، مگر حقیقت کچھ اور ہے، مجھے عظمی اور خود سے زیادہ ملک بلال احمد پر اعتماد ہے۔
“
میٹھی مسکراہٹ نے کڑوی سنجیدگی کو پھر مات دے دی عادل نے وہ تصویریں اپنے دراز کے اندر رکھ دیں۔
” بلال بھائی اگر اجازت ہو تو … کل رات کو … ایسا کیا ہو گیا تھا …“
عادل نے رُک رُک کر آدھا سوال پوچھا۔ بلال نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کے دراز کی طرف دیکھا جہاں پر عادل نے بلال اور عظمی کی تصویریں رکھی تھیں۔ عادل ساری بات سمجھ گیا اُس نے مزید تفصیل نہیں پوچھی۔
”عادل صاحب … اب 14 مارچ کو میرا نکاح نہیں ہوگا ۔سب کو اطلاع کر دینا اور ابھی اس بارے میں عظمی سے ذکر مت کرنا میرے جانے کے بعد بتا دینا۔ “
بلال آدھی بات کرکے خاموش ہو گیا۔ بلال ایک دم سنجیدہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد عظمی بھی آ گئی۔ عادل اور عظمی نے بلال کو ائیر پورٹ ڈراپ کیا، بلال عمرہ کرنے چلا گیا تھا۔
علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے واپسی کے بعد جب عادل اور عظمی گھر لوٹے تو پورچ میں عادل نے اپنی کار عظمی کی سوزکی مہران کے ساتھ کھڑی کی تو گاڑی سے اُتر کر وہ دونوں بلال کی گاڑی کی طرف آئے۔
” عادل تمہیں پتہ ہے بلال یہ گاڑی کیوں نہیں بدلتا۔“ عظمی عادل کی طرف دیکھ کر بولی۔
” کیوں؟“ عادل نے پوچھا۔
”اس لیے یہ اُس کے ابا کی نشانی ہے۔ “ عظمی نے بتایا۔
”مجھے تو لگتا ہے بلال اپنے نکاح والے دن بھی اسی گاڑی کو سجائے گا اور نوشی کو اسی میں بٹھا کر لے جائے گا اپنے گھر۔ “
”نہیں اب ایسا نہیں ہوگا۔ “ عادل نے عظمی کو اطلاع دی۔
”تو پھر ہم تمہاری BMW کو سجائیں گے، بلال کے نکاح والے دن “ عظمی خوشی سے بولی۔
” عظمی اب بلال بھائی کا نوشی سے نکاح نہیں ہوگا۔“ عادل نے دو ٹوک بات کر دی۔
”way … ایسا کیا ہو گیا ہے … کیوں نہیں ہوگا یہ نکاح … عادل آپ کیا کہہ رہے ہیں … ابھی تھوڑی دیر پہلے تو بلال بالکل نارمل تھا … بلال کی کسی بات سے تو نہیں لگا مجھے ایسا کچھ۔
“ عظمی نے بہت سارے سوال عادل سے پوچھ لیے عظمی روہانسی چہرے کے ساتھ عادل کی طرف دیکھ رہی تھی۔
”کہیں عادل آپ میرے ساتھ مذاق تو نہیں کر رہے تھے۔ “ عظمی نے عادل کی طرف انگلی کرکے پوچھا۔
” عظمی یہ سچ ہے مجھے کوئی دو گھنٹے پہلے بلال بھائی نے خود بتایا تھا۔ میں کل رات کوبلال بھائی کو ڈیفنس کے قبرستان سے لے کر آیا تھا، وہ ایک قبر کے سرہانے بیٹھ کر رو رہے تھے۔
“ عادل نے رنجیدگی سے کہا تھا۔
”بلال رو رہا تھا … رو رہا تھا وہ بھی بلال … میں نے دو ڈھائی سال کے دوران اُس کی آنکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھے۔ “ عظمی حیرت سے بولی۔
”آخر کوئی تو وجہ ہو گی … ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ “
”تم میرے ساتھ آؤ میرے بیڈ روم میں۔ “ عادل بولا جاتے ہوئے عظمی اُس کے پیچھے چل دی بیڈروم میں داخل ہونے کے بعد عادل نے بلال اور عظمی کی وہ تصویریں عظمی کو تھما دیں۔
”او مائی گاڈ … میری بے وقوفی … بلال نے تو کبھی میرے جسم کو تو کیا اُس نے تو کبھی میرے پہنے ہوئے کپڑوں کو بھی نہیں چھوا …“
عادل غور سے دیکھ رہا تھا عظمی کی طرف ”عادل کہیں آپ بھی تو ان تصویروں سے“
” مجھے بلال بھائی اور آپ پر پورا اعتماد ہے۔“عادل نے عظمی کی آنکھوں میں دیکھ کر جواب دیا۔ ”عظمی آپ بیٹھ جاؤ“ عظمی صوفے پر بیٹھ گئی۔
”عادل یہ وہ لمحہ تھا، جب بلال مجھے آپ کے بارے میں بتا رہا تھا، آپ کی محبت سے میرا تعارف کروا رہا تھا، تب مجھے ایسے لگا جیسے مجھے میری منزل مل گئی، جیسے ڈوبتے ہوئے کو کنارہ مل جائے جیسے قحط کے دنوں میں بارش شروع ہو جائے … میں تو بلال سے ایسے لپٹی تھی جیسے موت کو مات دے کر مریض اپنے طبیب سے لپٹ جائے کس طرح ان تصویروں کو غلط رنگ دیا گیا ہے، میں توشی سے بات کرتی ہوں ابھی “ عظمی نے اپنے موبائل پر توشی کا نمبر دیکھنا شروع کیا۔
”عظمی آپ کسی کو بھی فون مت کرو۔ ایک دفعہ مجھے بلال بھائی نے کہا تھا، عادل محبت کو کسی کی بھی سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی، اور بلال بھائی نے یہ بھی کہا تھا، اعتماد محبت کی پہلی سیڑھی ہے۔ بلال بھائی نے مجھے یہ تصویریں دکھائیں تو کہا کچھ نہیں اور نہ ہی اپنی صفائی دی، اگر میں بلال بھائی اور آپ پر اعتماد کر سکتا ہوں تو اُن کی ہونے والی بیوی کو بھی کرنا چاہیے تھا۔
“
عظمی نے اپنا موبائل صوفے پر رکھ دیا اور کسی گہری سوچ میں کھو گئی۔
###
”رندھاوا صاحب آپ کن سوچوں میں گم ہیں۔ “ ناہید اپنے بیڈ رم میں داخل ہوتے ہوئے بولی تھی۔ جمال رندھاوا ایزی چیئر پر بیٹھے ہوئے سگار کے دھوئے سے حقیقت کو اندھا بنانا چاہتے تھے۔ اُن کے ذہن میں بلال کا لکھا ہوا جملہ گونج رہا تھا۔ (جو رو کا غلام۔ رن مرید) جمال رندھاوا رات سے نہ جانے کتنے سگار سلگا چکے تھے۔
”رندھاوا صاحب میں رات کو آئی تھی آپ نے اندر سے لاک لگایا ہوا تھا، میں نے آپ کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا، رات گئی بات گئی آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ “
جمال رندھاوا نے ناہید کی طرف دیکھا جس کا ہاتھ جمال کے گال پر تھا۔ ناہید کے ہونٹوں پر مرہمی مسکراہٹ تھی، جس نے فوراً جمال رندھاوا کے گھاؤ بھر دئیے تھے۔
جمال رندھاوا نے وہ خط اور بلال کے لوٹائے ہوئے چیک اپنے لاکر میں رکھ لیے تھے اُس فولڈر سمیت جس کی ناہید کو خبر نہیں تھی۔
###
یکم مارچ 2014 بروز ہفتہ توشی اور جہاں آرا بیگم مغرب کے بعد کوٹ فتح گڑھ سے گھر لوٹے تو گھر میں عجیب طرح کا سناٹا تھا۔
جہاں آرا اپنے کمرے میں چلی گئیں اور توشی اپنے بیڈ روم میں پہنچ گئی، نوشی ٹیرس پر کھڑی بلال کے روم کو دیکھ رہی تھی۔
”جلدی آئیں گے وہ دن “ توشی نے پیچھے سے نوشی کو جپھی ڈال لی ”میں کل رات سے فون کر رہی ہوں کوئی رسپانس نہیں۔
بلال کو تو سمجھ آتی ہے اُس کا نمبر کیوں OFF ہے مگر تم کیوں نہیں جواب دے رہی تھی … میری جان“
توشی لپٹ کر بول رہی تھی ۔ نوشی کے ساتھ توشی نے خود کو توشی کی باہوں کے حصار سے چھڑایا اور کمرے میں چلی گئی۔
”اسے کیا ہوا “ توشی نے خود سے کہا، نوشی کے جانے کے بعد توشی اُس کے پیچھے آئی روم کے اندر، نوشی کی آنکھیں سرخ تھیں اور اس کا چہرہ مرجھائے ہوئے پھلوں کی طرح تھا۔
”کیا ہوا نوشی؟ “ توشی فکر مندی سے بولی۔
”یہ پوچھو کیا نہیں ہوا۔ “ نوشی غصے سے چیخی ”شرافت کا چوغہ اُتر گیا اور بلال کی حقیقت سامنے آ گئی۔“
” میں سمجھی نہیں … صاف صاف بات کرو۔“ توشی کو تشویش ہوئی۔
”جب کھلی آنکھوں سے سچائی دیکھ لی جائے تو سمجھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ “
نوشی نے غصے سے کہا اس کے بعد نوشی نے ساری بات توشی کو بتائی حرف سے جملے تک شروع سے آخر تک۔
”مجھے تمہاری کسی بات پر یقین نہیں ہے … یہ سب جھوٹ نکلے گا … ضرور کسی کی سازش ہے۔ “
توشی نے افسردگی سے جواب دیا۔ ”دو دن میں اتنا سب کچھ ہو گیا اور کسی نے ہمیں بتانا مناسب نہیں سمجھا … بلال ایسا نہیں ہے۔ ضرور اس سب کے پیچھے کسی کا ہاتھ ہے۔“توشی خفگی سے بولی۔
”تمہیں آج تک بلال میں کوئی نقص نظر آیا ہے، جو اب آئے گا اُس شخص نے تمہاری بہن کی زندگی برباد کر دی، اور تم اب بھی اُسی کی وکالت کر رہی ہو۔
بارہ دن بعد ہماری شادی تھی اور اُس نے یہ گل کھلائے ہیں۔ پاپا رات سے اپنے بیڈ روم سے نہیں نکلے۔ ماما کا الگ بُرا حال ہے میں رات بھر سو نہیں سکی۔ اور تم اب بھی … اُس کی … فار گاڈ سیک … کچھ تو ہوش سے کام لو …“ نوشی غصے سے بھڑکی توشی پر۔
”ہوش سے کام لو … تم … نوشی جی یہ سب الزام ہیں … حقیقت نہیں ہے مجھے تو اس سب میں ماما کا ہاتھ لگ رہا ہے۔
“ توشی نے رگیں تن کر جواب دیا۔
” کچھ تو شرم کرو … اپنی ماں کے متعلق ایسا سوچتے ہوئے … تم اپنی ماما کو جانتی نہیں ہو وہ کیسی ہیں۔“
”افسوس تو یہی ہے کہ نہ تم ماما کو جان سکی ہو اور نہ ہی بلال کو۔ نوشی اپنے دل سے پوچھو وہ کیا کہتا ہے۔ نوشی وہ تم سے پیار نہیں محبت نہیں عشق کرتا ہے۔ “
توشی نے نوشی کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”عشق کرتا ہے۔ مائی فٹ “ نوشی دانت پیستے ہوئے بولی۔
”سچ کہا تھا، بلال نے تمہارا عشق وقتی بخار ہی تھا، جو اُتر گیا۔ بلال نے کہا تھا۔ آج کل کا عشق وقتی بخار ہے اور تم نے ثابت کر دیا۔ “
”یہ عشق و شق سب بکواس ہے مجھے تو آج تک یہ سمجھ نہیں آئی، یہ عشق کس بلا کا نام ہے اور عشق کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ “ نوشی نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”عشق کا مطلب ہے … بلال … “ توشی نے تفاخر سے جواب دیا۔
”میں اُن کی نہیں … اس بلال کی بات کر رہی ہوں۔ “ نوشی نے آسمان کی طرف شہادت کی انگلی کرتے ہوئے کہا تھا۔
”اور میں عشق کے مطلب کی بات کر رہی ہوں۔ “ توشی یکا یک بول پڑی۔
چلو مان لیا عشق کا مطلب … بلال … ہے … ذرا یہ تو بتاؤ … بلال … کا مطلب کیا ہے“ نوشی نے فلسفیانہ انداز سے پوچھا تیکھے انداز کے ساتھ۔
”کچھ نام خود میں اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ مطلب اُن کے آگے چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ “
توشی نے کسی دانشور کی طرح جواب دیا بالکل ویسے جیسے اُس نے بابا جمعہ سے سنا تھا۔
SMS نے دروازے پر دستک دی دروازہ کھلا ہوا تھا ۔ ”آپی آپ دونوں کو بڑی بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں“ دونوں بہنوں کی جرح وقتی طور پر ختم ہو گئی۔
###
جہاں آرا کو ساری بات BG نے بتا دی تھی۔
کوٹ فتح گڑھ سے واپس آنے کے فوراً بعد۔
”جمال رندھاوا میری بات کان کھول کر سن لو اگر اس باریہ بات جھوٹی نکلی تو میں تمہیں اپنا دودھ نہیں بخشوں گی قیامت والے دن …
جمال مرد بنوں تم جٹ رندھاوا ہو مجھے کہتے ہوئے شرم آتی ہے میرا بیٹا را رن مرید ہے۔“
جہاں آرام بیگم غصے سے گرجی اس بوڑھی ملکہ کی آنکھیں دہک رہیں تھیں۔
”جن گھروں کے فیصلے عورتیں کرنا شروع کر دیں، اُن گھروں کا بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔
اب بھی ہوش کے ناخن لو … تم صرف وہ دیکھتے ہو جو تمہاری بیوی تمہیں دکھاتی ہے … بہو کو اس رشتے پر اعتراض تھا تو صاف کہہ دیتی یہ تماشہ لگانے کی کیا ضرورت تھی“ اتنے میں ناہید کمرے میں داخل ہوتی ہے اُس سے پہلے جمال اور جہاں آرا ہی کمرے میں تھے۔ جہاں آرا بیگم اپنی ایزی چیئر پر بیٹھی ہوئی تھیں اور جمال اُن کے سامنے نظریں جھکائے دیوان پر بیٹھا تھا۔
ناہید جمال اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ جاتی ہے۔
”خالہ آپ مجھ پر الزام لگا رہی ہیں۔ “ ناہید آگ بگولہ ہو ئی۔
”الزام … تہمت … بہتان … کوئی بھی نام دے لو … ناہید بیٹی عمر گزر جاتی ہے یہ گھاؤ بھرتے بھرتے جس دن تم پر جھوٹا الزام لگے گا تب پوچھوں گی، تم سے، کتنا گہرا ہوتا ہے یہ زخم۔ “ جہاں آرا گھائل آواز سے بولی اُن کے چشمے کے نیچے موٹے موٹے آنسو چمک رہے تھے۔
” آخر بن ہی گئی نہ آپ ساس“ ناہید دانت پیستے ہوئے بولی۔
”افسوس … میں نے ساری زندگی تمہیں اپنی اکلوتی مرحومہ بہن کی نشانی سمجھ کر رکھا پھولوں کی طرح۔ تمہاری ہر زیادتی پر خاموش رہی تھیں۔ ماں کی طرح پیار کیا مگر تم بیٹی نہ بن سکی۔ ناہید تم میرے سہاگ کو کھا گئی۔ میری بیٹی کو پاگل بنا کر مار ڈالا اور اب بلال کے ساتھ یہ گندا اور بے ہودہ کھیل، کھیل رہی ہو۔
ناہید اگر میں ساس بنتی تو تمہاری سانس روک لیتی، شکر کرو ایسا نہیں ہوا میں چاہتی تھی میرا جھڈو بیٹا مرد بن جائے مگر … افسوس ایسا بھی نہیں ہوا۔ “ جہاں آرا کا چہرہ غصے سے لال ہو چکا تھا انہوں نے چشمہ اُتار کر اپنے آنسو صاف کر لیے تھے اور اُن کے لہجے میں کوئی دید کوئی لحاظ نہیں تھا۔
ناہید ہکا بکا تھی اپنی خالہ کی باتیں سن کر پاؤں پٹختے ہوئے کمرے سے جانے لگی۔
”روکو … اور یہاں بیٹھ جاؤ … “ جہاں آرا بیگم نے تلخ لہجے سے حکم دیا ”میری بات کان کھول کر سن لو ناہید بیگم اگر اس بار یہ جھوٹ ہوا تو ایک الزام میں تم پر لگاؤ گی۔ جب بیٹا بے غیرت بن جائے تو ماں کو غیرت مند بننا پڑتا ہے۔ اور چوہدری صاحب آپ بھی سن لو یہ گھر بھی بلال کا ہے اور 50 ایکڑ زمین بھی آپ خرید کر دیں گے اور جہاں تک نوشی اور بلال کے رشتے کی بات ہے۔
اُسے میں خود ختم کرتی ہوں، تم دونوں اپنی بیٹی کے لیے دیکھ لو کوئی اُس جیسا … بے وقوف کم عقل ہاں ایک بات ذہن نشین کر لو اچھی طرح سے اس گھر سے تم سب لوگ جاؤ گے صرف میں اور بلال رہیں گے۔ یہاں پر اور آئندہ ناہید بیگم میری ساتھ اونچی آواز میں بات کی تو حلق سے تمہاری زبان کھینچ لوں گی“ جہاں آرا بیگم نے سو سو نار کی ایک لوہار کی والا معاملہ کیا۔
اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ ۔
”اب تم جا سکتی ہو اور چوہدری صاحب آپ بھی تشریف لے جا سکتے ہیں۔ “ جہاں آرا بیگم نے اپنے بیٹے کو طنز سے فرمان جاری کیا۔ نوشی اور توشی کمرے کے دروازے پر کھڑی ہوئیں یہ سب سن رہیں تھیں ناہید اور جمال وہاں سے چلے گئے تھے۔
”تم دونوں اندر آؤ “ دادی نے رعب دار آواز میں حکم دیا نوشی اور توشی کمرے میں آ گئیں۔
”بیٹھ جاؤ … “ دادی پھر سے بولی وہ دونو ں اپنے ماں باپ کی جگہ پر بیٹھ گئیں توشی جمال کی جگہ اور نوشی ناہید والی جگہ۔
”دادو آپ نے یہ رشتہ کیوں ختم کیا “ توشی نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
”اپنی بہن سے پوچھ لو کیا یہ رشتہ رکھنا چاہتی ہے بلال کے ساتھ “ دادی نے دو ٹوک کہہ دیا۔نوشی نظریں جھکائے کچھ سوچ رہی تھی۔
”توشی بیٹی محبت سوچ کر نہیں کی جاتی اور نوشی سوچ رہی ہے یہی بہتر ہے … بلال اور نوشی کے لیے، جو لڑکی سچ اور جھوٹ کی پہچان نہیں کر سکتی … خیر چھوڑو … بہشتی تمہارا دادا کہا کرتا تھا، جہاںآ را بیگم بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہوتا ہے۔
“ دادی نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا۔
”مگر دادو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، نیناں کے ساتھ بلال کو اور عظمی کی تصویریں میں صبح آپ کو دکھا دوں گی اور ارم واسطی بھی یہی پر ہے کل وہ بھی آ جائے گئی۔ “
نوشی اپنے فیصلے پر قائم تھی۔
”نوشی بیٹی الزام لگانے سے کوئی مجرم نہیں بن جاتا۔ میں نے ایسے کئی فیصلے کرتے ہوئے تیرے دادا کو دیکھا تھا۔
تیرا دادا تب تک فیصلہ نہیں کرتا تھا، جب تک دونوں اطراف کی بات نہ سن لیتا تم نے بلال کو صفائی کا موقع دیا۔ “ دادی نے پوچھا تونوشی نے نفی میں گردن ہلا دی۔
”مگر میں نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا تھا۔ “ نوشی اپنے موقوف پر قائم رہی۔
” نوشی بیٹی میں نے یہ رشتہ ختم کردیا ہے اگر تم اب بھی بلال سے شادی کرنا چاہتی ہوں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اب فیصلہ تم نے کرنا ہے خود … اپنی عقل سے ……“
###
” اب آپ خود فیصلہ کریں خالہ کو ایسی باتیں کرنا چاہیں تھیں۔ انہوں نے ہماری بچیوں کے سامنے ہمیں ذلیل کر دیا ہے۔“
ہمارے مقابلے میں اُس بھیک منگے کی وکالت کر رہی تھیں، خالہ جان۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔ رندھاوا صاحب مجھے سب پتہ ہے آپ اُسے 12 سال سے ہر مہینے ایک اچھی خاصی رقم کا چیک دیتے آئے ہیں اور وہ بے غیرت ہمارا کھا کر ہمیں ہی آنکھیں دکھا رہا تھا۔
آپ کے جانے کے بعد اُس احساس فراموش نے ہمارے بیٹے کو مارا میں تو پولیس کو بلانے لگی تھی پھر رندھاوا ہاؤس کی عزت کا خیال آ گیا تھا۔“
ناہید اپنے بیڈ روم میں آنے کے بعد جمال رندھاوا سے مخاطب تھی۔
” ناہید بیگم اگر اس بار اس میں تمہاری کوئی سازش ہوئی تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا … تم اپنا منہ چھپاتی پھرو گی۔
“ جمال غصے سے بولا۔
”رندھاوا صاحب آپ بھی مجھ پر شک کر رہے ہیں۔ “ ناہید نے نینوں کے تیر چلائے اور جمال کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔
”آپ غصہ کیوں کر رہے ہیں میں نے خالہ جان کی بے ادبی تھوڑی کی ہے میں تو اُس کمینے اور فقرے کی بات کر رہی تھی۔ “ ناہید نے جمال کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا۔
جمال نے غصے سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور لاکر سے وہ سارے 144 چیک نکالے اور ناہید کے منہ پر دے مارے۔
”تم جسے منگتا کہتی تھی، وہ سخی نکلا وہ میر ی دی ہوئی بھیک میرے منہ پر مار کر چلا گیا۔ “ جمال نے غصے سے ناہید کو گردن کے بالوں سے پکڑا۔
”ناہید بیگم اگر بلال بے گناہ ہوا تو تم نشان عبرت ضرور بنوں گی۔ “
جمال رندھاوا یہ کہہ کرے کمرے سے چلا گیا غصے کے ساتھ۔
###
”دادو شکر خدا کا ہم نے اب تک شادی کے کارڈز تقسیم نہیں کیے تھے ورنہ بہت بد نامی ہوتی ہم لوگوں کی۔
“ توشی اپنی دادی سے بول رہی تھی۔ ”اب کیا ہوگا؟“
دادی کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
”بڑا ظلم کیا تیری ماں نے اور تیرا باپ وہ زیادہ قصور وار ہے۔ “ دادی اپنی سوچوں میں گم تھیں توشی کیا بول رہی ہے انہوں نے سنا ہی نہیں تھا۔
” دادو آپ کہاں کھو گئیں کچھ تو بتائیں ہم نے کارڈز نہیں تقسیم کیے، معلوم تو آدھے شہر کو ہے جمال رندھاوا کی بیٹیوں کی شادی ہے۔
“ توشی دکھ اور کرب سے بول رہی تھی۔
”تم دونوں کی شادیاں مقررہ تاریخوں پر ہی ہوں گئیں۔ “ جمال رندھاوا نے اندر آتے ہوئے حتمی فیصلہ سنا یا ”تم جاؤ اور اپنی ماں کوبلا کر لاؤ“ جمال نے توشی سے کہا توشی چلی گئی جہاں آرا نے جمال کی طرف دیکھا۔
”چوہدری جمال رندھاوا صاحب دیکھ لو اپنی بیوی کے سامنے تمہاری ہوا نا نکل جائے گی۔ “ جہاں آرا بیگم نے طنزیہ لہجے سے کہا اپنے آنسو رومال سے صاف کرتے ہوئے۔
”ماں جی دیکھنا کیا ہے۔ توشی کا رشتہ میں نے کیا تھا، آپ کے اور بلال کے مشورے سے نوشی کا رشتہ آپ نے ختم کر دیا، اب نوشی کی ماں اپنی بیٹی کا رشتہ خود کرے گی۔ “
جمال رندھاوا سوچوں میں گم بول رہے تھے۔
”نا … نا … بیٹا جی … نوشی کا رشتہ تمہاری بیگم صاحبہ اور تم نے خود ختم کیا تھا۔ میں نے تو صرف اعلان کیا ہے، رشتہ ختم ہونے کا، اب میں دیکھنا چاہتی ہوں، بلال کی جگہ کون سید زادہ تمہاری بیٹی کا ہاتھ تھامتا ہے۔
“
” سید زادہ ہی ہوگا … خالہ جان … یہ میرا وعدہ ہے آپ سے …“ ناہید لہراتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی دو گھنٹے پہلی والی بے عزتی اُسے یاد ہی نہ تھی۔
”اتنا گھمنڈ اور یہ تکبر … خالی سید زادہ ہونے سے بات نہیں بنتی … ناہید اور بھی بہت کچھ دیکھا جاتا ہے۔ “ جہاں آرا نے جواب دیا۔
”سب دیکھ لیا … خالہ جان … “ ناہید نے تیور دکھاتے ہوئے کہا۔
”ناہید بیگم یہ تیور مت دکھاؤ … اِدھر میری طرف دیکھو نوشی کا رشتہ تم کرو گی خود اپنی مرضی سے … اور شادی بھی پرانی تاریخوں پر ہی ہو گی … ایک بات کان کھول کر سن لو، اگر میری بیٹی کے ساتھ ایسا ویسا کچھ بھی ہوا … ویسا ہی سلوک میں تمہارے ساتھ کروں گا … اور یاد رکھو اگر بلال پر لگائے ہوئے الزام جھوٹے نکلے تو ایک الزام، ماں جی کی بجائے میں لگاؤ گا تم پر … ساسیں اپنی بہوں پر الزام لگاتی آئیں ہیں … جب تیس سالہ ازواجی زندگی کے بعد میں تم پر جھوٹا الزام لگاؤں گا … اُس کا بوجھ تم اُٹھا نہیں سکو گئی“ جمال رندھاوا نے سنجیدگی سے کہا اور کمرے سے چلے گئے۔
ناہید بھی اُن کے پیچھے پیچھے کمرے سے نکل گئی۔ ناہید نے جمال کی کہی ہوئی بات کا نوٹس ہی نہیں لیا تھا۔
”دادو جو رشتہ جوڑنے کے لیے آپ نے اتنے سال دعائیں مانگیں اُسے خود ہی ختم کر دیا“ توشی نے حیرت اور دکھ سے کہا تھا۔
”توشی بیٹی جن رشتوں میں اعتبار نہ ہو، وہ جوڑے نہیں جا سکتے۔ “ دادی نے توشی کو سمجھانے کی کوشش کی ”اِدھر آؤ میرے پاس“ توشی اپنی دادی کے سامنے بیٹھ گئی کرسی پر ،دادی نے اُس کے چہرے پر پیار کیا۔
”دادو … بلال کا کیا ہو گا … “ توشی فکر مندی سے بولی۔
”سوچو یہ نوشی کا کیا ہوگا، تمہار ماں کا چُنا ہوا سید زادہ بھی … پتہ نہیں کیسا ہوگا۔ تم بلال کی فکر نہ کرو … خیر سے اب تک مکہ پہنچ گیا ہوگا۔ “
”اُس نے فون بھی تو نہیں کیا۔ “ توشی روہانسی ہو کر بولی۔
”توشی بیٹی میں نے کہا نا … بلال کی فکر نہ کرو … وہ دوسروں کو سنبھالنے والا ہے خود کو بھی سنبھال لے گا۔
“
”دادو … بلال کب آئے گا۔ “ توشی اپنی دادی کے گلے لگ کر بولی۔
”وہ ابھی چند مہینے نہیں آئے گا۔ “ دادی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی بول رہی تھی۔
”یہ بلال نے آپ سے کہا۔ “ توشی یکایک بول اُٹھی دادی کے کندھے سے اپنا سر اُٹھاتے ہوئے۔
”نہیں بیٹا … میرا تجربہ بتا رہا ہے … وہ ابھی نہیں آئے گا۔ “
جہاں آرا بیگم نے نظریں اوپر اُٹھا کر دیکھا۔
” یا اللہ میرے بلال کو اپنی امان میں رکھنا۔“
###
بہار کی آمد آمد تھی۔ آم کے درختوں پر بور آ چکا تھا۔ گندم کی نالیوں میں موجود سفید سفوف گندم کے سٹیوں میں منتقل ہو چکا تھا۔ چڑیوں نے اپنے گھونسلے تیار کر لیے تھے، انڈے دینے کے لیے ہر طرف بہار کی آمد آمد تھی موتیے کے پودوں سے نئی شاخیں نکل رہیں تھیں۔
درختوں پر کہیں بلبل کے نغمے اور کہیں کوئل کی صدائیں۔
مارچ کے مہینے نے سردی کا گلہ دبا دیا تھا۔
اگلے دن 2 مارچ 2014 بروز اتوار مغرب کے بعد توشی اور محسن کی ملاقات ڈیفنس کے ایک مشہور ریستوران میں ہوئی۔
”توشی تم بھی سمجھ سے باہر ہو۔ دو مہینے سے میں ملنے کا کہہ رہا تھا۔ تمہارا جواب ہوتا میں شادی سے پہلے نہیں مل سکتی، فون پر بات بھی نہیں کرتی تھی کہ ساری باتیں پہلے نہیں کرنی چاہیے، صرف WhatsApp کا سہارا تھا۔
”آج اچانک مجھے یہاں بلا لیا so romantic“ محسن رضا آنکھوں میں محبت سجائے توشی کو دیکھ رہا تھا۔
توشی کافی پریشان تھی محسن نے جب بیٹھ کر توشی کو غور سے دیکھا تو اسے بغیر دیکھے توشی کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہے گئے اپنے جملے عجیب لگے۔
”توشی……… کیا ہوا خریت تو ہے ……… میں تم سے ملنے کی خوشی میں ناجانے کیا کیا بول گیا“ محسن رضا کو پریشانی ہوئی توشی کو پریشان دیکھ کر۔
توشی نے الف سے یے تک ساری کہانی محسن کو سنائی محسن کی خوشی کو غمی میں بدلتے ہوئے چند منٹ لگے محسن بھی توشی کی طرح پریشان ہو گیا، ساری بات سن کر ”یہ کب ہوا“ محسن نے پوچھا
”پرسوں رات کو“ توشی اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی
”پرسوں جمعے والے دن تو میری بلال سے فون پر بات ہوئی تھی، جمعہ کی نماز کے بعد بتا رہا تھا کہ عمرہ کرنے جا رہا ہوں میں اُس سے ناراض بھی ہوا تھا کہ مجھے کیوں نہیں بتایا میں بھی تمہارے ساتھ چلتا“ محسن نے اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے ماتھے کو پکڑا وہ کچھ سوچ رہا تھا۔
”بلال بتا رہا تھا 13 مارچ کی صبح تک واپس آجائے گا“ محسن پریشانی سے بولا
”وہ ابھی نہیں آئے گا“ توشی نے ٹشو پیپر سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔
”تمہیں کس نے بتایا“ محسن عجلت میں بولا
”دادونے کہا میرا تجربہ ہے، توشی بیٹی وہ ابھی نہیں آئے گا“
”توشی ہمیں بلال کے بغیر یہ شادی نہیں کرنی چاہیے تمہاری بہن کالے چور سے شادی کرے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا“
”ڈاکٹر صاحب آپ ٹھیک سوچ رہے ہو۔
ہمیں بلال کے آنے کے بعد شادی کرنی چاہیے………“
توشی اور محسن ابھی شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اُسی وقت توشی کے نمبر پر ایک کال آئی تھی۔
”عجیب سا نمبر ہے“ توشی موبائل اسکرین دیکھتے ہوئے بولی
”دکھاؤ کہیں بلال فون نہ کر رہا ہو“ محسن نے موبائل جلدی سے توشی کے ہاتھ سے لے لیا ”ہاں یہ تو سعودیہ کا کنٹری کوڈ ہے اٹھاؤ جلدی سے “ محسن نے موبائل توشی کو تیزی سے واپس بھی کر دیا تھا۔
”ہیلو………“ توشی جھجھکتے ہوئے بولی
توشی جی…………میں بلال……“ بلال دوسری طرف سے بولا
توشی نے بلال سے بے شمار باتیں کیں جن میں توشی خود بلال کو بے گناہ بتا رہی تھی اُس کے ساتھ ہمدردی جتا رہی تھی اُسے پریشان نہ ہونے کی تلقین کر رہی تھی۔
”میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے ایک فیصلہ کیا ہے، کہ ہم تمہارے بغیر ابھی یہ شادی نہیں کریں گے ………بلال تم کب آؤ گے“ توشی نے فکر مندی سے پوچھا
”پتہ نہیں………“ بلال نے مختصر جواب دیا توشی نے محسن کی طرف دیکھا اور اُسے بلال سے بات کرنے کا اشارہ کیا ”بلال یہ لو ڈاکٹر صاحب سے بات کرو“
ہیلو بلال کیسے ہو……… تم ٹھیک تو ہو“ محسن نے موبائل پکڑتے ہوئے جلدی سے پوچھا
”اللہ کا شکر ہے میں بالکل ٹھیک ہو۔
محسن تم سے ایک درخواست ہے تم دونوں ابھی شادی کر لو مقرر تاریخ پر ورنہ لوگ باتیں بنائیں گیا اور ماموں جان کی بدنامی ہو گی…………میں نے عمرہ ادا کرنے کے بعد تم دونوں کے لیے دعا کی تھی“
”ہماری شادی تمہاری وجہ سے ہو رہی ہے ہم تمہارے بغیر یہ شادی کیسے کر سکتے ہیں؟“
ڈاکٹر محسن بٹ اپنے موقف پر قائم رہا
”موبائل کا اسپیکر اوپن کرو“ بلال نے کہا
”کر دیا“ محسن نے بتایا
”توشی جی اور محسن صاحب کسی سے محبت شادی کے بغیر بھی کی جا سکتی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ نکاح کے بعد وہ محبت با برکت ہو جاتی ہے۔
تمہیں قسمت یہ موقع دے رہی ہے نکاح جیسی سنت پوری کرنے کا، تم دونوں نا شکری نہ کرو اور ابھی شادی کر لو“
”میری ایک شرط ہے……… بلال صاحب“ توشی کچھ سوچتے ہوئے بولی
”مجھے منظور ہے………… “ بلال نے شرط سنے بغیر جلدی سے شرط مان لی
”شرط یہ ہے آج دو مارچ ہے اور بارہ مارچ رات کو تمہاری واپسی ہے، یعنی پورے دس دن مجھے اور ڈاکٹر صاحب کو یہ دس دن کوشش کرنے دو کہ نوشی اس شادی کے لیے مان جائے اگر وہ مان گئی تو تمہیں اُس سے شادی کرنا پڑے گی ہمارے ساتھ اگر وہ نہ مانی تو ہم دونوں شادی کر لیں گے، کیوں ڈاکٹر صاحب“ ”ہاں ہاں بالکل“ ڈاکٹر محسن نے جلدی سے توشی کی ہاں میں ہاں ملا دی، بلال نے دوسری طرف سے ہلکا سا قہقہہ لگایا
”مجھے منظور ہے ……… آپ دونوں ایک بات یاد رکھو کسی کی محبت خیرات میں نہیں مانگی جاتی میں 12 تاریخ کو عشاء کی نماز کے بعد انشااللہ فون ضرور کروں گا۔
اللہ حافظ“
بلال نے فون رکھ دیا
”ڈاکٹر صاحب بلال کا نمبر SAVE کر لیں“ توشی نے جلدی سے کہا محسن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی توشی BGکے مشورے کے مطابق اب ڈاکٹر محسن رضا بٹ کا نام نہیں لیتی تھی کبھی ڈاکٹر صاحب کہہ کر مخاطب کرتی اور کبھی بٹ صاحب اُس کی زبان پر آتا تھا۔
”توشی وہ بوتھ سے کال کر رہا تھا۔ ہم اُس سے رابطہ نہیں کر سکتے وہ ضرور 12 مارچ کو فون کرے گا میں نے تمہارا دل رکھنے کے لیے ہاں میں ہاں ملا دی بائی داوے اب تم کیا کرو گی“ محسن جانچتی نگاہوں سے پوچھ رہا تھا۔
”ابھی چند دن ہوئے میری اُس لڑکی عظمی سے ملاقات ہوئی تھی، شاپنگ کرنے کے دوران وہ بلال کے دوست عادل کے ساتھ تھی۔ عظمی نے مجھے بتایا کہ بلال کی وجہ سے ہماری بات پکی ہو گئی ہے، اور ہم دونوں جلد ہی شادی کرنے والے ہیں میرے پاس عظمی کا نمبر بھی ہے میں اُسے فون کرتی ہوں“
توشی نے عظمی کو فون کیا اور اُسے ریستوران کا بتایا اور آنے کی درخواست کی اتنی جلدی میں عظمی آنے کی حامی کبھی نہ بھرتی اگر توشی بلال کا ذکر نہ کرتی عظمی نے عادل کو بھی فون کر دیا اور توشی کے ساتھ اپنی گفتگو کا حال بتایا۔
”اب نیکسٹ تم کیا کرو گی“ محسن نے مسکراتے ہوئے پوچھا
”میں نیناں کو بھی نوشی کے سامنے لے کر جاؤں گئی۔ اور اِرم واسطی کی تو میں، جھوٹی کمینی توشی دانت پیسے ہوئے غصے سے بولی
”توشی ایک بات بولوں اگر تمہیں بُرا نہ لگے تو“
توشی نے آنکھوں سے بولنے کا اشارہ کیا
”تم دل سے سوچتی ہو اور خواب دیکھتی ہو۔ اور تمہاری بہن سوچتی تو بالکل بھی نہیں اور اُس نے شک کا چشمہ پہنا ہوا ہے۔
حقیقت دیکھنے والی آنکھ دونوں کی نہیں ہے“
”میں سمجھی نہیں ڈاکٹر صاحب“ توشی نے کہا
”سمجھاتا ہوں دیکھو توشی وہ ڈاکٹر لڑکی جس کو تم نے ابھی فون کیا ہے وہ تو آجائے گی باقی وہ دونوں لڑکیاں تمہیں نہیں ملیں گی وہ دونوں لڑکیاں انڈر گراؤنڈ رہیں گی جب تک تمہاری بہن کی دوسری جگہ شادی نہیں ہو جاتی۔
میں نے تمہارے منہ سے یہ ساری باتیں سنیں ہیں پھر بھی مجھے بلال پر پورا یقین ہے کہ وہ سچا ہے، تمہیں بھی ہو گا مگر تمہاری بہن کا کیا کریں اُسے کون سمجھائے“
” اور وہ جوآپ نے کہا حقیقت کو دیکھنے والی آنکھ اُسکا کیا مطلب تھا“ توشی نے اگلا سوال کر دیا ” کچھ کھاؤ گی تم“ ڈاکٹر محسن نے بات بدلنی چاہیں۔
” بعد میں پہلے آپ مجھے میرے سوال کا جواب دیں“
” توشی میں نے تم سے کچھ نہیں چھپایا تھا، اپنے ماضی کے بارے میں وہ بھی بلال کے کہنے پر میں نے اپنی زندگی میں صرف دو ایسے افراد یکھے ہیں، جو صرف دیکھ کر حالات کو جان جاتے تھے اُن کے اندازے غلط بھی ہوں گے مگر میں نے کبھی نہیں دیکھا ایسا ہوتے ہوئے………
میں اور بلال سیکنڈائیر میں تھے۔ ہمارے ساتھ ایک لڑکا پڑھتا تھا، رضوان الہی اُس کے آباو اجداد کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔
اُن دنوں مجھے اپنی پڑوسن سمیرا سے محبت ہو گئی، وہ لوگ گجر تھے۔ اُس کے بھائیوں کا دودھ دہی کا کاروبار تھا، سمیرا کا باپ مر چکا تھا، اور وہ اپنے تین بڑے بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی میں اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا، مگر مشکل یہ تھی وہ لوگ گجر تھے، اور ہم بٹ، رشتہ نہ تو وہ لوگ برادری سے باہر کرتے تھے، اور نہ ہی ہمارے ہاں ایسا کبھی ہوا تھا۔
میں نے اپنی مشکل بلال اور رضوان الٰہی سے ڈسکس کی، بلال تو سُن کر خاموش رہا مگر رضوان الٰہی بول پڑا کہ سیالکوٹ میں ایک جگہ ہے اڈاپسروریاں اُس کے پاس ہی ملک فاضل کا اللہ ہو جنرل اسٹور ہے وہاں چلتے ہیں وہ تعویذ دیں گے تو بات بن جائے گی ،ایسا رضوان الٰہی نے کہا تھا۔ میں سارے راستے یہ سوچتا رہا اب تعویذ بھی جنرل اسٹور پر ملتے ہیں۔
سخت گرمی تھی ہم تینوں کا پیاس سے برا حال تھا اور ہم تینوں کے کپڑے پسینے سے بھیگ چکے تھے۔ میں دل میں سوچ رہا تھا، ملک فاضل کے جنرل اسٹور پر پہنچنے کی دیر ہے ملک فاضل صاحب Coke کی بوتلیں ہمیں پیش کریں گے آخر ہم اُن کے گاہک ہیں۔
لاہور سے سیالکوٹ کا سفر ہم نے اللہ ہو جنرل اسٹور سے تعویذ لینے کے لیے ہی تو کیا تھا اب تعویذ خریدیں گے تو Coke تو ڈیزرو کرتے ہیں۔
جب ہم اللہ ہو جنرل اسٹور پر پہنچے تو وہاں جنرل اسٹور والی کوئی بات نہیں تھی باہر اللہ ہو جنرل اسٹور ضرور لکھا ہوا تھا۔
اڈاپسروریاں بازار کے اندر ایک پرانی دُکان تھی جس کی چھت لکڑی کی تھی آگے کی طرف ایک برآمدہ تھا، دُکان کو لکڑی کے تختے والے دروازے لگے ہوئے تھے، اور دُکان کے اندر ایک چارپائی، تین لکڑی کے بینچ ایک کونے میں دو بڑے بڑے گڑھے پیالوں سمیت ایک ٹوٹی ہوئی لکڑی کی کرسی جس پر آٹھ دس قسم کی لکڑی سے مرمت ہو چکی تھی ایک پرانا اسٹینڈ والا پنکھا جو چلتا کم اور شور زیادہ کرتا تھا۔
ملک فاضل صاحب اُس ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے، اور ہاتھ والے پنکھے سے خود کو ہوا دے رہے تھے لائٹ ہونے کے باوجود انہوں نے بجلی والا وہ میوزیم میں رکھنے والا پنکھا بند کیا ہوا تھا۔
رضوان الٰہی نے سڑک پر کھڑے ہو کر برآمدے کے باہر ہی سے اندر آنے کی اجازت طلب کی ملک صاحب نے دیکھ کر منہ دوسری طرف پھیر لیا ہم کوئی آٹھ دس منٹ تک باہر کھڑے رہے اندر جانے کی اجازت نہیں ملی مجھے ملک فاضل پر غصہ آرہا تھا اور رضوان الٰہی شرمندہ ہو رہا تھا مجھ سے اور بلال سے ۔
بلال سکون سے نظریں جھکائے کھڑا ہوا تھا۔
ہمارے سر پر سورج سوانیزے پر حلق خشک تھی گرمی سے بُرا حال تھا، کوئی دس منٹ بعد ملک فاضل نے ہمیں اندر آنے کی اجازت دی۔
مجھ سے اور رضوان سے انہوں نے صرف ہاتھ ملایا بلال کو اپنے گلے سے لگایا اور اپنے پاس لکڑی کے بینچ پر بلال کو جگہ دی، وہ میوزیم میں رکھنے والا پنکھا بھی لگا کر منہ بلال کی طرف کر دیا اور گھڑے سے ایک پیالہ پانی بھی بلال کو ہی پیش کیا خود اپنے ہاتھوں سے“
”رضوان خود بھی پانی پی لو اور اس لڑکے کو بھی پلا دو“ ملک فاضل رُعب دار آواز میں بولے رضوان نے پہلے دو پیالے پانی مجھے پلایا اِس کے بعد خود دوپیالے پانی پیا
” حکیم الاامت فرماتے ہیں………ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں………“ ملک فاضل نے میری اور رضوان کی طرف دیکھ کر کہا
”جانتے ہوں میں کن کی بات کر رہا ہوں……“ ملک فاضل صاحب پھر گرجے میں اور رضوان ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے ملک صاحب بلال کی طرف متوجہ ہوئے انہوں نے بلال کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا؟
”کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی“
بلال نے یہ شعر سنایا ملک فاضل کا چہرہ خوشی سے کھل گیا۔
”بیٹا آپکا نام“ ملک فاضل نے بلال سے پوچھا شگفتگی سے
” بلال احمد“ بلال نے مختصر سا جواب دیا
” کیسے آنا ہوا، رضوان الٰہی اور یہ تمہارے ساتھ کون ہے“ ملک فاضل صاحب نے پھر ہم دونوں کے ساتھ بے رخی سے بات کی جب وہ بلال سے بات کرتے تو انتہائی محبت کے ساتھ اور ہمارے ساتھ سخت لہجے میں بولتے
” حضرت جی یہ میرا دوست ہے محسن رضا“ رضوان الٰہی نے ادب سے میرا تعارف کروایا ”ضرورتی عاشق ہے……… تمہارا دوست“ ملک فاضل نے میرے چہرے کو غور سے دیکھ کر کہا تھا ”تم بتاؤ کیا چیز تمہیں یہاں لے آئی ہے“
”جی محبت……… میں ایک لڑکی سے محبت کرتا ہوں…………اور اُس سے شادی بھی کرنا چاہتا ہوں“ میں نے جھجھکتے ہوئے اپنے دل کی بات بول دی۔
”اُس لڑکی کی بُری باتیں بتاؤ“ ملک فاضل نے مجھ سے پوچھا
”میں نے سمیرا کی پانچ چھ بُری باتیں بتا دیں“ ملک فاضل مسکرا دیئے اور بلال کی طرف دیکھا جو سنجیدگی سے بیٹھا ہوا ملک صاحب کو دیکھ رہا تھا، میں اور رضوان کھڑے ہوئے تھے جیسے عدالت میں ملزم کھڑے ہوں جج کے سامنے
”بچوں آجکل کی محبت ضرورت کے بستر پر دم توڑ دیتی ہے، پھر وہ محبت وقت کے قبرستان میں دفن ہو جاتی ہے کبھی بدنامی کا کفن پہن کر اور کبھی گمنامی کا کفن اوڑھ کر صرف وہ محبت امر ہوتی ہے جو جسمانی ضرورت کی غلام نہ ہو یا پھر نکاح کے بندھن میں بندھ جائے“ پھر ملک فاضل صاحب میری طرف متوجہ ہوئے
”محسن بیٹا میں تمہیں ایسا حل بتاؤں گا کہ تمہاری اُس لڑکی سے شادی ہو جائے گی جس کے لیے تمہیں میرے ایک سوال کا جواب دینا پڑے گا“
”جی پوچھیں سوال……… میں جواب دوں گا“ میں نے جلدی سے کہا
”مجھے یہ بتاؤ مہینوال کی سوہنی کیوں دریا میں ڈوبی تھی“ ملک فاضل نے پوچھا
”اس دن جی اُس کا گڑھا کچا تھا پہلے وہ پکا گڑھا استعمال کرتی تھی“ میں نے فوراً جواب دیا
”غلط بالکل غلط“ ملک صاحب مسکرائے ”چلو ایسا کرو میرے پاس ایک مہینے بعد آنا پھر جواب دے دینا ”اس کے بعد ملک صاحب نے ہمیں کھانا کھلایا اور واپس لاہور بھیج دیا۔
میں دس دن تک تو اس سوال کا جواب تلاش کرتا رہا اس دوران میں نے انڈیا اور پاکستان میں بننے والی سوہنی مہینوال پر نئی پرانی کوئی چار پانچ فلمیں بھی دیکھیں سب میں یہ کچے اور پکے گڑھے کا چکر ہی تھا۔ پھر میں نے اپنے پروفیسروں سے پوچھنا شروع کر دیا جس سے بھی پوچھا اُس نے یا تو مجھے گالیاں دیں یا قہر آلود نگاہوں سے دیکھا پھر میں نے سوچا دفعہ کرو سوہنی کو اپنی ہیر پر توجہ دوں۔
ایک دن سمیرا کے گھر والے گوجرانوالہ شادی پر گئے ہوئے تھے۔ صرف اُس کا ایک بھائی اور سمیرا گھر پر تھے سخت گرمی تھی کوئی 2 بجے کے پاس سمیرا کا بھائی گھر سے نکل کر گیا میں نے جاتے ہوئے اُسے دیکھ لیا تھا۔ میں اپنی چھت پر پہنچ گیا کوئی دس منٹ بعد سمیرا بھی چھت پر آگئی وہ چھت سے مجھے اپنے گھر کے اندر لے گئی میں ڈر رہا تھا“
”ڈرو مت محسن ویر جی اب رات 12 بجے آئیں گے باقی سب لوگ شادی پر گئے ہوئے ہیں“
”سمیرا نے میرے گال پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے تسلی دی اس کے بعد اُس نے مجھے دیسی گھی کی چوری کھلائی بعد میں چاٹی کی لسی پلائی پھر سمیرا نے کہا محسن یہی پر سو جاؤ تمہارے گھروالے بھی تو سوئے ہوئے ہیں میں اُس کی سب سے چھوٹی بھابھی کے کمرے میں سوگیا۔
اُس کے چھوٹے بھائی کی اُن دنوں نئی نئی شادی ہوئی تھی تھوڑی دیر بعد سمیرا بھی اُسی بیڈ پر میرے ساتھ سوگئی پھر وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا ہماری محبت ضرورت کے بستر پر دم توڑ گئی اگلے دن بھی دوپہر کو 2 بجے سمیرا کا بھائی اپنی دودھ دہی کی دکان پر نکلا تو ٹھیک دس پندرہ منٹ کے بعد میں اُس کے بیڈروم میں اُسی کی بہن کے ساتھ تھا۔
میری اور سمیرا کی محبت کی قبر اُس کے بھائی کے بیڈ کے نیچے بن گئی ہماری محبت کو جسمانی ہوس کی شکل اختیار کرنے میں چند منٹ لگے تھے۔
سمیرا کے گھروالوں کو ہمارے مراسم کی خبر ہو چکی تھی۔ چند مہینوں بعد ایک دن میری بڑی بھابھی نے مجھے طنز سے کہا ” اس اتوار سمیرا کی بارات آرہی ہے“۔
”اس کے بعد میں اور سمیرا کبھی نظریں نہیں ملا سکے ایک دوسرے کے ساتھ۔۔۔۔۔“
یہ ساری باتیں کر کے محسن رضا خاموش نظریں جھکائے بیٹھا ہوا تھا، شرمندگی کی وجہ سے توشی کے چہرے پر سنجیدگی تھی پھر بھی اُس نے اپنا ہاتھ محسن کے ہاتھ پر رکھا اور مسکرانے کی کوشش کی۔
”اسلام علیکم“ عظمی اور عادل پاس کھڑے ہوئے بول رہے تھے، محسن اور توشی نے اُن کا کھڑے ہو کر استقبال کیا۔