
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
”ارے آپ سے تو میری ملاقات ہو چکی ہے“ محسن نے عظمی کی طرف دیکھ کر کہا
”جی ………بلال کے آفس میں“ عظمی نے جواب دیا
”ہم لوگ آپ کا ہی انتظار کر رہے تھے ڈاکٹر صاحب اب کچھ کھانے کا آرڈر کر دیں“
توشی نے محسن کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے کہا
ڈاکٹر محسن نے باہمی مشاورت سے کھانا آرڈر کر دیا
”عظمی IF YOU DONT MIND آپ کے آنے سے پہلے ڈاکٹر صاحب اپنا اور بلال کا واقعہ سنا رہے تھے، کھانا آنے تک وہ سُن لیتے ہیں ،کھانے کے بعد وہ ضروری بات جس کے لیے آپ کو زحمت دی“ توشی نے عظمی سے کہا عظمی نے عادل کی طرف دیکھا جس نے OK کا سگنل دیا۔
”جی ضرور …… ڈاکٹر صاحب آپ بلال بھائی کی بات بتائیں ہم بھی سننا چاہتے ہیں“
عادل نے تجسس سے کہا
”کہاں تھا میں“ محسن نے توشی کی طرف دیکھ کر پوچھا
”ایک مہینے بعد جب آپ لوگ ملک فاضل کے پاس دوبارہ گئے“ توشی نے لقمہ دیا “
”دوسری بار ملک صاحب نے ہمیں جلدی سے اجازت دے دی اندر آنے کی اور سوہنی مہینوال کا سارا قصہ سنا کر بولے اس وجہ سے سوہنی ڈوبی تھی۔
میں اور رضوان حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ بلال نظریں جھکائے زیرلب مسکرا رہا تھا۔ جیسے وہ ہم دونوں کی بے وقوفی پر ہنس رہا ہو۔
”ملک صاحب میں نے بھی تو سوہنی کے ڈوبنے کی یہی وجہ بیان کی تھی“ میں نے عرض کی ڈرتے ڈرتے ملک صاحب کے چہرے پر تبسم تھا وہ بولے
”پھر سناتا ہوں اب سمجھ لینا جب سوہنی مہینوال سے ملنے جاتی تو گڑھا اُٹھاتی اور دریا میں ڈال دیتی۔
مہینوال سے ملاقات کے بعد مہینوال اُسے مچھلی کھلاتا، ایک دن اُسے مچھلی نہیں ملی تو اُس نے اپنی ران سے گوشت نکال کر سوہنی کو کھلا دیا، گوشت کھانے کے بعد سوہنی کا معمول ہوتا وہ مہینوال کی ران پر سر رکھ کر آرام کرتی اُس دن بھی اُس نے ایسا ہی کیا ران پر زخم کی وجہ سے مہینوال کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تھے۔ مہینوال کی آنکھیں تکلیف کی شدت کی وجہ سے دہک رہیں تھیں۔
جب اُس کی سوہنی سے آنکھیں چار ہوئیں تو اُس نے کہا مہینوال تمہاری آنکھیں بدل گئیں ہیں۔
آپ تکلیف کو عیب کا نام دے دیں تو وہ نقص ہوتاہے میرے بچوں
یاد رکھو محبوب بے عیب ہوتاہے جس میں عیب نظر آجائے پھر وہ محبوب نہیں رہتا……
سوہنی نے اپنے محبوب میں عیب نکال دیا تھا۔ اسی وجہ سے مہینوال نے اُسے دوبارہ آنے سے منع کر دیا تھا۔
ایک دن سوہنی نے پکا گڑھا پکڑا اور دریا میں اُتار دیا اور ڈوب گئی محسن بیٹا پکا گڑھا نہیں بلکہ پکا عشق پار لگاتا ہے۔ اگر عشق پکا ہو تو گھڑا کچا بھی ہو تو آپ ڈوب نہیں سکتے……
سوہنی بیچاری کب کچے پکے گڑھوں کے چکر میں پڑتی تھی، وہ تو بس کوئی بھی گڑھا اُٹھاتی اور دریا میں ڈال دیتی تھی، وجہ یہ تھی اُسکا عشق پکا تھا۔ اُس دن محبوب کی تکلیف نہ دیکھ سکی تکلیف کو عیب کا نام دے دیا۔
عشق کامل نہ رہا پھر پکے گڑھے نے بھی ڈبو دیا محسن تم نے اپنی محبت میں پہلے دن ہی پانچ نقص اور عیب نکال دیئے تھے……
محسن بیٹا اب بتاؤ کون سا تعویذدوں“
میں نظریں جھکائے ہوئے بیٹھا تھا
”ایک اور کڑوا سچ بولوں اگر تمہاری اجازت ہو تو “ ملک فاضل نے میری طرف دیکھ کر کہا
”جی جی……… میں سننا چاہتا ہوں“
”بیٹھا مہینہ پہلے جب میں نے تم دونوں کو دیکھا تو تمہاری آنکھوں میں مجھے ضرورت نظر آئی تھی اور بلال کی آنکھوں میں محبت، رضوان کی آنکھوں میں جستجو ہے تلاش ہے جب سے میں اسے دیکھ رہا ہو۔
آج تمہاری اُس دن والی ضرورت پوری ہو چکی ہے، اسی لیے وہ بے چینی مجھے نظر نہیں آرہی ہے بیٹا تم سب اپنے اپنے گناہوں پر توبہ کرو“
محسن رضا یہ بول کر خاموش ہو گیا تھا،ویٹرٹیبل پر کھانا لگا رہا تھا۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد پہلا جملہ توشی کی زبان سے نکلا جب ویٹر نے ٹیبل صاف کر دیا تھا۔
”ڈاکٹر صاحب آپ بلال جیسے تو نہیں ہیں پھر بھی مجھے آپ پر فخر ہے۔
اب آپکی آنکھوں میں صرف محبت نظر آتی ہے۔ ضرورت کہیں نہیں کیوں عظمی میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں……“
توشی نے ڈاکٹر محسن کی طرف دیکھ کر کہا اور عظمی کی تائید حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔
”جی آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ مجھے بھی عادل کی آنکھوں میں سب سے زیادہ محبت نظر آتی ہے“ عظمی نے عادل کی طرف دیکھ کر کہا
”اور یہ محبت کے بیج بونے والا ایک ہی آدمی ہے جس کے لیے ہم سب اکٹھے ہوئے ہیں کچھ اُن کے متعلق بھی بات کر لیں“ عادل عقیل نے سنجیدگی سے کہا۔
اُسے نوشی اور عظمی کی بات پسند نہیں آئی تھی۔
”بلال کی محبت نے ہم چاروں پر اپنا رنگ چھوڑا ہے“ محسن رضا نے کہا
عادل نے عظمی اور بلال کی تصویریں ٹیبل پر رکھ دیں محسن اور توشی وہ تصویریں دیکھ رہے تھے عادل نے اُنہیں اُس رات کی ساری تفصیل بتائی جب عادل قبرستان سے بلال کو اپنے گھر لے کر گیا تھا۔
توشی کے ذہن میں اپنی دادی کے الفاظ گونج رہے تھے” ماں کی قبر پر رونا میرے نبی پاک ﷺ کی سنت ہے“
جب عادل نے یہ بتایا کہ بلال بھائی میرے کندھے پر سر رکھ کر روئے، توشی تڑپ اُٹھی اُس نے رشک سے عادل کو دیکھا۔
عادل کے علاوہ اس ڈنر کو توشی محسن اور عظمی نے انجوائے کیا اِس دوران عادل کے مکھڑے پر ایک دفعہ بھی مسکراہٹ قدم نہیں رکھ سکی، عادل بے چین تھا۔ وہ تڑپ رہا تھا۔ جیسے یہ سارے الزام اُسکی ذات پر لگائے گئے ہوں۔اس دوران توشی اور محسن نے عظمی کی طرف دیکھا جیسے اُسے اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع فراہم کیا ہو
”یہ سچ ہے میں بلال سے شادی کرنا چاہتی تھی۔
یہ میری یک طرفہ محبت تھی۔ گو میری یک طرفہ محبت اب عقیدت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بلال نے عادل کی خاموش محبت سے میرا تعارف کروایا تھا۔ عادل مجھ سے بچپن سے محبت کرتے تھے جو بات بلال کو پتہ تھی۔
عادل وہ سب کچھ کہہ نہیں پائے، اور میں کچھ سننا ہی نہیں چاہتی تھی۔ ہم دونوں کے درمیان ڈر، عدم اعتماد، بے یقینی، شکوک وشبہات، کی ایک گہری کھائی تھی جس کھائی کو پار کرنے سے ہم دونوں ڈرتے تھے۔
بلال نے اُس کھائی پر ایک پُل کا کام کیا، اور ہم دونوں کو ایک بار پھر ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا۔
توشی یہ وہ لمحہ تھا، جس کو غلط رنگ دیا گیا ہے۔ ڈھائی سال سے میری اور بلال کی ملاقات ہر سنڈے ہوتی رہی ہے۔مجھے ان ڈھائی سالوں میں بلال کی نظروں میں پاک محبت نظر آئی۔ اِن تصویروں سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ عادل کو مجھ پر اور بلال پر یقین ہے“
عظمی نے اپنے آنسو صاف کیے
”توشی میں تڑپ جاتی ہوں، آپ کی بہن کے متعلق سوچ کر کہیں وہ پاگل تو نہیں ہے۔
بلال کے لیے لڑکیوں کی کوئی کمی تھوڑی ہے، آپ سمجھائیں اپنی بہن کو ہوش سے کام لے، میرا نمبر آپ کے پاس ہے، جہاں کہیں گی میں حاضر ہو جاؤں گئی، بلال کے لیے نہیں آپ کی بہن کے لیے، بلال کی بے گناہی کا فیصلہ تو یہیں پر ہو گیا ہے ہم چاروں میں سے کوئی بھی بلال کو غلط نہیں سمجھتا ہم سب اُسے بے گناہ سمجھتے ہیں، بلال کا موقف سنے بغیر جانے بغیر“
”نوشی جی آپ کو یاد تو ہو گا جب آپ لوگ بابا جمعہ کے پاس آئے تھے۔
میں بھی بابا جی کے پاس بیٹھا تھا۔“
”ہاں عادل مجھے یاد ہے نوشی اور DJ گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے، اور میں بابا جی سے ملنے گئے تھی“ توشی دُکھی انداز میں بولی۔
”آپ لوگوں کے جانے کے بعد میں نے بابا جی سے پوچھا، بابا جی جو گاڑی میں بیٹھی تھی، یہ ہے بلال بھائی کی منگیتر بابا جی میری بات سن کر مسکرائے اور بولے۔
”ہاں…… یہی ہے…… منگیتر……
عادل بیٹا وہ گاڑی میں نہیں نفرت کے گھوڑے پر بیٹھی ہوئی تھی۔
“
”میں سمجھا نہیں بابا جی“ میں نے عرض کی۔
”عادل بیٹا بلال محبت کی اونٹنی کا سوار ہے، اور وہ بچی نسیم نفرت کے گھوڑے پر بیٹھی ہے، رفتار تو نفرت کے گھوڑے کی زیادہ ہے، آخر میں جیت محبت کی اونٹنی جائے گی۔“
اس وقت مجھے بابا جی کی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی ۔کسی کو پانا ہار جیت کا معیار نہیں ہے۔
میرے نزدیک یہ بلال بھائی کی جیت ہے، جو ہم سب ان کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔
میں انشاء اللہ بلال بھائی پر لگے سارے الزام غلط ثابت کر کے رہوں گا۔“
عادل نم آنکھوں کے ساتھ بول رہا تھا۔
تھوڑی دیر خاموش رہی توشی نے بھی اپنے آنسو صاف کیے عظمی اور توشی کے آنسو جاری تھے محسن نے عادل کی طرف دیکھا جیسے آنکھوں سے کچھ کہہ رہا ہو۔
”محسن ڈنر کے لیے THANKS اب ہمیں چلنا چاہیے……… عظمی جی چلیں………“
عادل عقیل نے اپنی چیئر سے اُٹھتے ہوئے کہا تھا۔
###
”نوشی بات سمجھنے کی کوشش کرو یہ سازش ہے میں عظمی کو بلا لیتی ہوں تم خود اُس سے پوچھ لو بلال کا عظمی کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہے۔ کیوں اتنی کنزرویٹو بن گئی ہو“
تو شی اپنی آخری کوشش کر رہی تھی ایک ہفتے سے وہ اِرم اور نیناں کو تلاش کر رہی تھی مگر دونوں کی کوئی خبر نہیں تھی اُس دن کے بعد سے نیناں شرم کے مارے لاہور چھوڑ کر جا چکی تھی، اُس نے اپنا نمبر بھی تبدیل کر لیا تھا، اور اِرم واسطی پلان کے تحت انڈر گراؤنڈ ہوئی تھی۔
”وہ جو میں نے دیکھا ور سُنا اُس کا کیا“ نوشی نے طنز سے جواب دیا“ مامانے میرے لیے لڑکا دیکھ لیا ہے، ہاشمی ہے، سید گھرانے سے ہے یہیں ڈیفنس میں رہتا ہے۔“
”تم ملی ہو………اُس سے……“ توشی نے ہار مانتے ہوئے پوچھا”بلال سے اچھا ہی ہو گا“
”بلال………بلال………بلال……… سچ پوچھو میں یہ نام سننا ہی نہیں چاہتی اور نہ ہی اپنی زبان پر لانا چاہتی ہوں۔
اگر بلال اتنا اچھا ہے تو تم خود کر لو نا بلال سے شادی……… میری جان چھوڑ دو……کہاں وہ اور کہاں میں…… ہم خاندانی لوگ ہیں ہمارا اس سوسائٹی میں ایک اسٹیٹس ہے……… ماما ٹھیک کہتیں ہیں کیا جوڑ ہے میرا اُس کے ساتھ“ نوشی کے سخت جملے سن کر توشی خاموش ہو گئی نوشی کے جملوں سے غرور تکبر جھلک رہا تھا۔
”آخر ماما نے تمہارے جوڑ کا رشتہ ڈھونڈ ہی لیا چلو مجھے ہی ملنے دو اپنے سید زادے سے آخر اُس کی ہونی والی سالی ہوں“ توشی نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
”توشی میں اُسے دیکھنا نہیں چاہتی وجہ یہ ہے جسے بچپن سے دیکھا تھا، اُس کے اصلیت دیکھ کر دکھ ہوا تھا، اب مجھے ماما پر پورا اعتماد ہے وہ میرے لیے اچھا ہی سوچیں گی……… تم اگر اُس سے ملنا چاہتی ہو تو مل لو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے“
نوشی یہ بول کر اپنے بیڈروم سے چلی گئی اپنی گردن تن کر توشی اُسے بے بسی سے دیکھ رہی تھی اُس دن گیارہ تاریخ تھی توشی نے اپنا فون نکالا اور ڈاکٹر محسن کا نمبر ملایا
”جی توشی………خریت تو ہے………“ ڈاکٹر محسن نے کال ریسو کرنے کے بعد کہا تھا
”میں آپ سے کل اُسی ریستوران میں ملنا چاہتی ہوں عشا کی نماز سے پہلے“
توشی نے کال کرنے کی وجہ بیان کر دی
”OK……… میں پہنچ جاؤں گا“ ڈاکٹر محسن نے جواب
توشی نے فون بند کر دیا اور سوچوں میں گم ہو گئی اُسے وہ سارے لمحے وہ پل جو اُس نے اور اُسکی بہن نے بلال کے ساتھ گزارے تھے یاد آرہے تھے۔
اُن کا فلم دیکھنے جانا چھت پر نوشی کا بلال کے لیے چائے لے کر آنا بلال کا کافی بنا کر پیش کرنا توشی اب ایک شوخ وچنچل لڑکی کی بجائے ایک سنجیدہ عورت لگ رہی تھی۔
اگلے دن توشی اور محسن اُسی ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے
”توشی یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے………دو دن بعد ہماری شادی شروع ہو جائے گئی اور تم اپنی طرف دیکھو……“ محسن نے فکر مندی سے کہا توشی کو دیکھ کر۔
”ٹھیک تو ہوں…… ڈاکٹر صاحب۔“ توشی درد بھری آواز سے بولی ”میں ہار گئی اپنی بہن سے……میں بلال کا کیسے سامنا کروں گئی“
”تم صرف حقیقت کا سامنا کرو میں نے اُس دن آدھی بات کی تھی۔ آج مکمل کرتا ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں دو افراد دیکھے ہیں جو حالات وواقعات دیکھ کر حقیقت جان لیتے پہلا شخص ملک فاضل صاحب تھے، اللہ اُن کی قبر کو روشن کرے، اور دوسرا بلال احمد وہ جان چُکا ہے کہ اُس کی تمہاری بہن سے شادی نہیں ہو سکتی تم بھی اس حقیقت کو مان لو اور اس غم سے باہر نکلو۔
خود کو سنبھالو………
تمہاری بہن کی میں بہت عزت کرتا ہوں، صرف اس لیے کے وہ بلال کی منگیتر تھی۔ سچ پوچھو تو تمہاری بہن اِس قابل ہی نہیں ہے، کہ اُسے بلال ملے، ڈاکٹرعظمی نے ٹھیک کہا تھا، بلال کے لیے لڑکیوں کی لائن لگ جائے گئی۔توشی آج ایک سچ اور بولتا ہوں، جب مجھے تم سے محبت ہوئی تو سب سے پہلے بلال نے وہ حقیقت دیکھی تھی، میرا ماضی بھی اُس کے سامنے تھا، اور اُسے تمہاری بھی بہت فکر تھی۔
میں نے تمہیں حاصل کرنے کے لیے اُس کی مدد مانگی تو پتہ ہے اُس نے کیا جواب دیا تھا۔ ”محسن اگر تمہیں توشی سے سچی محبت ہے تو پھر میری سفارش کی ضرورت نہیں ہے۔“
اِس کے باوجود مجھے بلال کی HELP لینی پڑی بلال نے ہی تم سے بات کرنے کا طریقہ بتایا تھا۔ بلال نے تو مجھے ملاقات سے پہلے ہی یہ بھی بتا دیا تھا کہ تم کس بات پر شرما کر نظریں جھکاؤ گئی اور کس بات پر مسکرا دو گی اور کب اپنے بال چہرے سے ہٹا کر کان سے پیچھے کرو گی۔
“
توشی کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری ”ڈاکٹر صاحب آپ سچ کہہ رہے ہیں“
”ہاں بالکل سچ“ ڈاکٹر محسن نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
”فوزیہ بالکل ٹھیک کہتی ہے کہ سر بہت کھوچل اور چالو ہیں“ توشی مسکراتے ہوئے بولی
”فوزیہ کی فوزیہ جانے میرے نزدیک بلال بڑا غیرت مند اور خود دار ہے بلال نے مجھ سے یہ بھی کہا تھا توشی میری عزت ہے اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھنا“
”ڈاکٹر صاحب میں نے اُس دن بھی آپ کو کہا تھا، آپ کی آنکھوں میں مجھے اپنے لیے محبت اور عزت نظر آتی ہے۔
جب ضرورتیں دفن ہو جائیں تو محبت زندہ ہو جاتی ہے“ توشی نے بڑے رومیٹک انداز سے کہا محسن نے توشی کے چہرے کو دیکھا تو بولا
”یہ لو………“ مسکراتے ہوئے۔
”ڈاکٹر صاحب آپ بھی میری نقل اُتارنا شروع ہو گے“
”نہیں جناب……… ہم تو آپ کی اسی ادا پر مرمٹے تھے“
ڈاکٹر محسن نے آنکھوں سے دیکھ کر اظہار محبت کیا، تھوڑی دیر محسن اور توشی اسی طرح ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔
” سر کچھ لیں گے“ ویٹر بولا تھا۔ اِس جملے نے اُن کے تسلسل کو توڑا
”فریش مسمی جوس“ توشی نے جواب دیا ۔
”توشی ابھی بلال فون کرے گا اُسے کہنا وہ ہمارے لیے دعا کرے اِس کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں۔ جہاں تک اُس کی شادی کا تعلق ہے اُس کے آنے کے بعد ہم سب اُس کے لیے ایک اچھی سی لڑکی ڈھونڈ کر اُس کی شادی کروا دیں گے“
جوس پینے کے دوران بلال کی کال آئی
”ہیلو………“ توشی نے کہا بلال نے دوسری طرف سے اسلام علیکم کہا تھا
”ہم شادی کررہے ہیں“ توشی شرط ہار چکی تھی۔
”میں تم دونوں کے لیے مسجد نبوی میں دُعا کروں گا۔ میں اس وقت مسجد نبوی کے باہر کھڑا ہوں، اور آج رات کو دبئی چلا جاؤں گا ابھی میں جدہ ائیر پورٹ کے لیے نکل رہا ہوں اللہ حافظ“ بلال نے فون بند کر دیا۔
توشی نے اپنا موبائل کان سے ہٹا کر سامنے ٹیبل پر رکھ دیا محسن نے دیکھا تو بولا
”توشی تم نے بلال کو ہم دونوں کے لیے دعا کے لیے تو کہا ہی نہیں“
”ڈاکٹر صاحب…… وہ بلال ہے…… اُسے دینا آتا ہے اللہ کی توفیق سے، چاہے قربانی ہو یا پھر دُعا وہ بن مانگے ہی دے دیتا ہے“ توشی نے تحمل سے جواب دیا۔
”آج ایک سچ میں بھی بولوں آپ سے………“
”ضرور……“ ڈاکٹر محسن نے نرم شگفتہ لہجے میں کہا
”ڈاکٹر صاحب میں بھی بلال سے محبت کرتی تھی، یک طرفہ محبت بچپن سے………بلال نے کبھی مجھے اِس نظر سے نہیں دیکھا تھا……بلال کی آنکھوں میں جو چمک نوشی کو دیکھ کر آتی تھی وہ مجھے اپنے لیے کبھی نظر نہیں آئی………میں اپنی بہن کی قسمت پررشک کرتی تھی۔
جس سے بلال محبت کرتا تھا……آج مجھے اپنی بہن کی قسمت پر رونا آتا ہے، اور اپنی قسمت پر رشک کرتی ہوں……میں نے یہ ساری کوشش بلال کے لیے نہیں صرف اپنی بہن کے لیے کی تھی،بلال کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی بہن سے بھی بہت محبت ہے…میری بہن شروع ہی سے مینٹل کیس ہے، آدھی پاگل پھر بھی میری جان ہے وہ………“
توشی نے محسن سے نظریں ملا کر یہ سب کچھ کہا تھا۔
”ویسے ایک بات ہے، بلال کے ساتھ سے ہم سب بڑی بڑی باتیں کرنا شروع ہو گئے ہیں۔وہ کیا کہا تھا تم نے جب ضرورت دفن ہو جائے تو محبت زندہ ہو جاتی ہے ملک فاضل صاحب یاد آگئے تھے تمہاری یہ بات سُن کر………
تمہارا سچ مجھے پہلے سے معلوم تھا، بلال نے بتایا تھا، بلال نے کہا تھا، جس دن توشی کو تم سے سچی محبت ہو جائے گی وہ خود یہ بات تمہیں بتائے گی اور آج مجھے یقین ہو گیا ہے تمہیں مجھ سے سچی محبت ہو گئی ہے…یہ ضرور بلال ہی کی دعا ہو گی“ محسن رضا نے اندازہ لگایا جو کہ سچ تھا۔
بلال مسجد نبوی کے سامنے واقع ٹیلی فون بوتھ سے سیدھا مسجد نبوی کے صحن میں آیا جہاں بیسمنٹ میں وضو خانہ ہے اُس کے اوپر بیرونی دروازے سے کچھ آگے کی طرف بلال کی پیشانی سجدے میں تھی اور اُس کے ہونٹوں پر یہ مختصر الفاظ تھے۔
”یا اللہ…… میرے مالک…… تو کھلاتا ہے پھول کلیوں سے……… اور بناتا ہے جوڑے آسمانوں پر……اس جوڑے کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے سچی محبت ڈال دے……… آمین……“ یہ دعا مانگتے ہوئے بلال کے دو آنسو آنکھوں سے گِر کر مسجد کے صحن میں رہ گئے بلال سجدے سے اُٹھ کر اپنے ہوٹل کی طرف چل دیا جہاں سے اُس نے جدہ ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہونا تھا۔
جدہ سے دبئی بلال کی ٹکٹ کنفرم تھی۔ بلال کے پاس امارات کا RESIDENCE VISA پہلے سے تھا۔ بلال13 مارچ کی صبح دبئی ٹرمینل ONE پر پہنچا، وہاں سے اُس نے ٹیکسی لی اور شارجہ میں ایک جگہ ہے رولا وہاں ROTANA HOTEL میں روم لے کر اپنا سامان رکھا اور وہاں سے پیدل رولامین بازار میں آگیا، جہاں پر اُس نے کراچی دربار ریسٹورنٹ سے ناشتہ کیا، اور انتظار کرنے لگا شارجہ رولا میں حج اور عمرہ کاکام کرنی والی بہت ساری ٹریول ایجنسیاں تھیں، جن کے آفس صبح 9 بجے کے آس پاس کھلتے تھے اُس وقت صبح کے 8 بج رہے تھے۔
بلال نے وقت گزاری کے لیے دو تین کپ پھیکی چائے کے پیئے تھے۔
ٹھیک 9 بجے وہ شاطی ٹریول کے آفس میں تھا۔ بلال نے ایک مہینے کے ویزے کے لیے اپنا پاسپورٹ اور مطلوبہ رقم جمع کروادی۔ ٹریول ایجنٹ محمد شفیق نے بلال کو یقین دلایا ایک ہفتے کے اندر اُن کا ویزہ لگ کر آجائے گا۔
”بلال صاحب ایک ہفتے کا ٹائم میں آپ سے لے رہا ہو یہ کام دوتین دن کا ہے اگر کل جمعہ نہ ہوتا تو میں آپکو تین دن کے اندر بجوا دیتا پھر بھی انشااللہ امید ہے پیر کو آپ مکہ ہوں گے“ محمد شفیق نے بلال سے کہا تھا۔
لفظ جمعہ سن کر بلال کے زخم ہرے ہو گئے ایک تو بابا جمعہ اور دوسرا اگلے دن بروز جمعہ اُس کا نکاح تھا جواب نہیں ہو رہا تھا۔
###
اگلے دن 14 مارچ بروز جمعہ نوشی کی شادی ولید ہاشمی سے ہو گئی بڑی دھوم دھام کے ساتھ ڈیفنس میں واقع ایک مقامی ہوٹل میں۔
دودھ پلائی کی رسم کے دوران عادل عقیل کی نظر توشی پر پڑی وہ اُسے دیکھ کر حیران رہ گیا توشی نے بھی عادل کو دیکھ لیا تھا۔
”آپ یہاں…… یہ لڑکی……“ عادل نے حیرت سے ڈوبی ہوئی آواز میں آدھ سوال پوچھا
”یہ میری بہن نوشی ہے“ توشی پریشان ہو گئی تھی عادل کے غصے کو دیکھ کر
”کیا انتخاب ہے…… آپ کی بہن کا……“ عادل یہ بول کر غصے سے چلا گیا وہاں سے توشی نے ایک نظر ولید ہاشمی کی طرف دیکھا جو کہ نوشی ساتھ بیٹھا ہوا مسکرارہا تھا۔
نوشی اور ولید کے اردگرد عورتوں اور لڑکیوں کا ہجوم تھا۔
ولید کی شادی میں اُس کے سارے خاندان نے شرکت کی تھی۔ ولید کا باپ پیرداود ہاشمی اُس کے چچا عقیل ہاشمی اُس کی دادی اور سارے رشتے دار سب لوگ بارات کے ساتھ آئے تھے سوائے ولید کے چچا عقیل ہاشمی کے اکلوتے بیٹے عادل عقیل ہاشمی کے عادل اور ولید کی بچپن سے نہیں بنتی تھی جوان ہو کر اُن دونوں کے اختلافات میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
عادل شادی میں شرکت نہیں کرنا چاہتا تھا، اُس کی دادی کے بار بار فون کرنے پر وہ نکاح کے بعد آیا تھا، صرف خانہ پُری کے لیے اُس وقت نکاح ہو چکا تھا۔
جب اُس کی نظر توشی پر پڑی تھی۔ولید نے ایک کنال کا گھر رینٹ پر لیا ہوا تھا جہاں اُس کے سارے مہمان آئے تھے۔
ولید ہاشمی کا بیڈ روم سرخ گلابوں سے مہک رہا تھا اور نوشی اُس کی سیج پر اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی۔ ولید اپنے بیڈروم میں آیا۔
”واقعی تم بہت خوبصورت ہیں………میں یہ منظر بھی زندگی میں کبھی نہیں بول سکوں گا“
ولید نے نوشی کے پہلو میں بیٹھے ہوئے کہا تھا یہ جملہ سن کر نوشی نے کچھ سوچا
”میں وہی ہوں…… جس کے بارے میں تم سوچ رہی ہو……جس نے تمہیں گرتے ہوئے سنبھالا تھا……کون بے وقوف کہتا ہے پہلی نظر میں محبت نہیں ہوتی………مجھے تو تم سے پہلی نظر میں ہی محبت ہو گئی تھی“ ولید نے بڑی انگلی سے نوشی کا چہرہ اوپر اُٹھاتے ہوئے کہا تھا ۔
نوشی نے آنکھیں اُٹھا کر ولید کی طرف دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔
”اگر محبت سچی ہو تو آپ آپنے محبوب کو پا ہی لیتے ہیں۔ جیسے میں نے تمہیں پا لیا نوشی میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں میں ہر کام جلدی کرتا ہو…دیکھو نا ایک لمحے میں تم سے محبت ہوئی، دس دن کے اندر تم سے شادی بھی کر لی اب جلدی سے ایک بڑا بزنس مین بننا چاہتا ہوں۔ اس شہر کا سب سے بڑا بزنس مین، میں بھی ایڈیٹ ہوں بزنس کی باتیں کر رہا ہو، اپنی پہلی رات کو یہ میں تمہارے کے لیے لایا تھا“
ولید نے ایک ڈائمنڈ کا سیٹ جو کہ باکس میں سجا ہوا تھا، نوشی کو پیش کیا منہ دکھائی کے طور پر نوشی کی اُس سیٹ پر نظر پڑی تو اُسکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
”یہ تمہارے لیے ہے پکڑلو……“ ولید نے نوشی کی خوشی اُس کے چہرے سے پڑھ لی تھی۔
”آپ خود ہی پہنا دیں“ نوشی دھیرے سے بولی شرماتے ہوئے
”تم بولتی بھی ہو……ولید ہار پہناتے ہوئے بولا تھا
”آپ نے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا“نوشی نے اعتماد سے کہا
”نوشی یہ آپ واپ ادب ، آداب مجھے پسند نہیں ہے۔ تم مجھے ولید کہہ سکتی ہو، میں نے دیکھا ہے تم لوگ ڈیفنس میں رہ کر بھی ٹپیکل مڈل کلاس فیملیز کی طرح رہتے ہو۔
تم جاؤ اور اس ہیوی جیولری سے جان چھڑاؤ تم جا کر Changeکر لو میں تو سوچ رہا تھا، تم نے اب تک Changeکر لیا ہو گا یہ لہنگا وغیرہ یہ ہیوی کا سٹیوم………“
ولید کی نظر نوشی کی جیولری پر پڑھ چکی تھی سونے کے بڑے بڑے سیٹ چوڑیاں ایک ہاتھ میں دوسرے ہاتھ کنگن ”یہ تو خود ہیں سونے کی کان ہے“ ولید نے دل میں کہا تھا نوشی کپڑے Changeکرنے جا چکی تھی۔
نوشی کے آنے سے پہلے ہی ولید اپنی شیروانی تبدیل کر چکا تھا بیڈروم کے اندر ہی جب نوشی باہر نکلی کپڑے تبدیل کرکے تو ولید کی نظر نوشی پر پڑی
”یہ سونے کی کان کے ساتھ ساتھ حسن کی دکان بھی ہے“ ولید نے ایک بار پھر اپنے دل میں سوچا تھا۔
عین اُس وقت بلال اپنے ہوٹل کے کمرے میں لیٹا ہوا تھا، چھت کی طرف نظریں جمائے جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔
”میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا، نوشی اور ممانی ویسے ہی انکار کر دیتیں، نوشی میری محبت تھی اور میری محبت اب کس اور کی بیوی ہے، مجھ سے میری یہ محبت بھی چھین لی گئی……“بلال اپنے خیالوں میں گم سوچ رہا تھا۔ عین اُسی لمحے بلال کو بابا جمعہ کا کہا ہوا ایک جملہ یاد آیا۔
(دیکھو بلال بیٹا محبت میں حاصل کرنے کی شرط نہیں ہوتی اگر شرط ہو تو پھر محبت نہیں ہوتی)
بلال کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری اُس نے کمرے کی لائٹ آف کی اور آیت الکرسی پڑھ کر سو گیا۔
###
اگلے دن توشی اور محسن کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی بالکل لاہوری اسٹائل کے مطابق محسن کی بارات پوری شان و شوکت سے نکلی تھی، نظر آرہا تھا کشمیری بٹوں کی بارات برآمد ہوئی ہے۔ بارات میں پانچ سو سے اوپر افراد ہوں گے۔
کھانے کا انتظام جمال رندھا وانے کشمیری بٹوں کے ذوق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کروایا تھا۔ جمال اندھا واکو محسن کی ماں عذرا کی کہی ہوئی بات یاد تھی ”بھائی صاحب بھلے ہی میری بہو کو ایک جوڑے میں بھیج دیں مگر کھانا بہترین ہونا چاہیے براتیوں کے لیے “
یہ فرمائش اُنکی سوچ سے زیادہ بڑھ کر پوری کی تھی۔
جس کا اعتراف جاتے ہوئے عذرا نے کیا تھا۔
”بھائی صاحب آپ نے میری سوچ سے بڑھ کر اچھا انتظام کیا تھا۔ ایک یقین میں بھی آپ کو دلاتی ہوں آپ کی بیٹی آپ کے گھر سے زیادہ اب اپنے گھر میں خوش رہے گئی۔
انشااللہ“عذرا کا یہ جملہ سُن کر جمال رندھاوا کی آنکھوں میں آنسو آگئے ناہید نے جمال کے کندھے پر ہاتھ رکھا تسلی دینے کے لیے۔
نوشی کی بارات والے دن جہاں آرابیگم کی طبیعت خراب تھی۔
اس لیے وہ ہوٹل میں نہیں آئیں تھیں۔ آج جہاں آرابیگم نے اپنی لاڈلی پوتی کو دعاؤں سے رخصت کیاتھا۔ بارات جا چکی تھی۔
نوشی زندگی کی دوسری انگز کھیلنے کے لیے تیار بیٹھی تھی، اپنے بیڈ روم میں محسن کی بھابھیوں اور دوسری لڑکیوں کے ساتھ جب بلال نے اُسے مبارک باد کا فون کیا تھا۔ اس سے پہلے بلال نے محسن کو بھی مبارک باد دی تھی، اُسکے نمبر پر کال کر کے۔
بلال نے محسن سے کہا تھا توشی سے بھی بات کروا دو محسن نے جواب دیا میں ابھی مردوں میں بیٹھا ہوا ہوں اور وہ بیڈروم میں عورتوں کے ساتھ ہے تم اُسی کے نمبر پر فون کر لو۔
###
چار دن بعد بلال دوبارہ شارجہ سے جدہ روانہ ہو گیا تھا۔
گرمی شروع ہو چکی تھی گندم کی فصل پکنے کے لیے تیار تھی۔ محسن اور توشی اپنی دعوتیں انجوائے کر رہے تھے۔
محسن کا خاندان بہت بڑا تھا۔ جس کی وجہ سے ہر روز کسی نہ کسی کی طرف اُن کی دعوت ہوتی تھی۔ اِس کے برعکس نوشی اور ولید مختلف پارٹیز انجوائے کر رہے تھے۔ دن بڑے ہو رہے تھے، اور راتیں چھوٹی دیکھتے ہی دیکھتے بیس دن گزر گئے تھے۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں ایک د ن ولید ہاشمی کوٹ لکھپت ناہید اور شعیب کی فیکٹری پہنچا ناہید اور شعیب اپنے آفس میں تھے جب ولید آفس میں آیا تھا۔
”آؤ…… آؤ……ولید کیسے ہو ……… نوشی نہیں آئی تمہارے ساتھ“ ناہید نے ولید کو آندر آتے ہوئے دیکھ کرکہا تھا۔
” نہیں وہ سور ہی تھی۔ رات کو ہم لوگ دیر سے ایک پارٹی سے لوٹے تھے۔ رات ضد کر رہی تھی کہ گرمی شروع ہو گئی ہے سوئٹزر لینڈ چلتے ہیں ہنی مون کے لیے ………“
ولید نے صوفے پر بیٹھنے کے بعد کہا تھا
”تو جاؤ بھائی تم لوگوں کو جانا بھی چاہیے“ شعیب نے فائل ٹیبل پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔
”آنٹی میرے پاس رقم ختم ہو گئی ہے“ ولید نے ناہید کی طرف دیکھ کر کہا
”صرف بیس دن میں 3 کروڑ ختم کر دیئے تم نے“ شعیب حیران ہو کر بولا ۔ ناہید نے ایک نظر ولید پر ڈالی اور دوسری شعیب کی طرف جیسے کچھ سوچ رہی ہو۔
”شعیب ایسا کرو ولید کو 2 کروڑ کا چیک دے دو‘ شعیب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اپنی ماں کی بات سُن کر۔
”جو میں کہہ رہی ہوں وہ کرو“ ناہید نے سنجیدگی سے کہا تھا شعیب نے دو کروڑ کا چیک ولید کو دے دیا ولید نے چیک پکڑا رقم دیکھی اور مسکراتے ہوئے صوفے سے اُٹھا ”اب میں چلتا ہوں آنٹی جی“ ولید چل دیا۔
”ولید ایک کام میں نے بھی تمہیں کہا تھا“ ناہید جانچتی نگاہوں سے دیکھ کر بولی ”آنٹی جی مجھے یاد ہے وقت آنے دیں“ ولید نے چیک اپنی دو انگلیوں میں لہراتے ہوئے جواب دیا اور آفس سے نکل گیا۔
”پانچ کروڑ کا نقصان“ شعیب نے ناہید کی طرف دیکھ کر کہا
”نہیں 45 کروڑ کا فائدہ“ ناہید مسکراتی ہوئی بولی تھی ”شعیب بزنس سیکھو اُس زمین کی ڈیل 50 کروڑ میں فائنل ہوئی تھی۔
اُس کے بدلے میں، ایک فارم ہاؤس خرید ا ہے تمہارے باپ نے میرے لیے، فارم ہاؤس بھی اپنا اور جہاں تک اس پانچ کروڑ کی بات ہے، اس کے ساتھ صرف ایک زیرو لگانا ہے تو یہ بن جائیں گیں پچاس کروڑ سیاست میں آ کے کئی زیرو بن جاتے ہیں ہیرو……“ ناہید جمال رندھا وار سیاست میں آنا چاہتی تھی، پیرداود ہاشمی کے ذریعے اسی لیے اُس نے نوشی کی شادی ولید ہاشمی سے کروائی تھی۔
چند دونوں بعد نوشی اور ولیدہنی مون کے لیے چلے گئے اُن کے جانے کے دو دن بعد بلال سعودی عرب سے لوٹا تھا۔ عادل عقیل بلال کو لینے ائیرپورٹ گیا تھا۔ اس عرصے کے دوران بلال کا صرف عادل اور فوزیہ سے رابطہ رہا تھا، باقی کسی سے نہیں۔ فوزیہ سے وہ صرف اسکول کے معاملات ڈسکس کرتا تھا۔ اور عادل سے صرف خیر خیریت دریافت کرتا تھا۔ بلال شروع ہی سے کم گوتھا، اب وہ اور زیادہ خاموش ہو گیا تھا صرف ضرورت کی بات کرتا تھا۔
بلال نے دوپہر کا کھانا عادل کے ساتھ کھایا اُس کے گھر پر اُس کی دادی اور ماں بھی موجود تھیں، جو بلال کو دیکھ کر کافی خوش ہوئیں، عادل نے بلال کا تعارف اپنے گھر پر صرف اتنا کروایا تھا کہ میرا دوست ہے۔
جس دن عقیل ہاشمی نے اپنے بھتیجے کی دعوت کی تھی، ولید ہاشمی اور نوشی کی اُس دن عادل بلال کی گاڑی لے کر گھر سے چلاگیا تھا۔ نہ تو وہ ولید ہاشمی کو دیکھنا چاہتا تھا اور نہ ہی اُس کی بیوی نوشی کو نہ ہی وہ بلال سے اپنا تعلق ظاہر کرنا چاہتا تھا۔
بلال نے اپنی گاڑی پر نظر ڈالی جو کہ چمک رہی تھی۔
”بلال بھائی آپ کی اجازت کے بغیر ایک دن میں نے آپ کی گاڑی چلائی تھی“ عادل نے بلال کی طرف دیکھ کر کہا بلال نے ایک نظر اپنی گاڑی کو دیکھا اُس کے بعد عادل کے گلے لگ گیا ”عادل شکریہ“ بلال نے یہ دو الفاظ اپنی زبان سے کہے اور گاڑی لے کروہاں سے چلا گیا سب سے پہلے وہ اپنی ماں کی قبر پر گیا تھا۔
آج بھی بلال کی آنکھوں سے خاموش آنسورواں دواں تھے، بغیر آواز کے اُس نے اپنی ماں کی قبر پر دُعاکی اُس کے بعد کماہاں گاؤں کے قبرستان گیا بابا جمعہ کی قبر پر دعا کرنے کے لیے۔
جب وہ فوزیہ کے گھر کے باہر پہنچا تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکا، اُس نے نواں پنڈ کی مسجد میں نماز عصر ادا کی اُس کے بعد گھر کے دروازے پر دستک دی۔
بلال اُن سب کے لیے تحائف لے کر آیا تھا۔
بلال نے فوزیہ سے میاں محمود کے گھر کی چابی لی، اور وہاں سے چلا گیا۔
فوزیہ نے بلال کی پسند کے مطابق اوپر والا پورشن سیٹ کروا دیا تھا۔
عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلال نے اپنا فون SILENT کیا اور سو گیا۔
اگلے دن بلال نے اپنے آنے کی اطلاع اپنے چند قریبی جاننے والوں کو کر دی سب سے پہلے اُس نے اپنی نانی جہاں آرابیگم سے بات کی اُس کے بعد توشی اور محسن سے اور سب سے آخر میں عظمی آفگن سے اُس نے حال احوال کیا تھا۔
جہاں آرا بیگم بلال سے ملنے کے لیے تڑپ رہیں تھیں۔ جس کا حل بلال نے یہ نکالا اُس نے اپنی نانی سے کہا آپ عشاء کے بعد توشی کے گھر اُس سے ملنے کے لیے آجائیں وہ بھی وہاں پہنچ جائے گا۔
توشی کو اُس نے یہ سارا پروگرام بتا دیا تھا۔ توشی نے اپنی دادی اور بلال کے آنے کی خوشی میں دس طرح کے پکوان تیار کیے تھے۔ اُس کی شادی کے بعد پہلی بار توشی کی دادی اُس کے گھر آرہی تھی، اور سب سے بڑھ کر ملک بلال احمد آرہا تھا۔
توشی نے اپنے گھر کے نیچے والے پورشن میں اپنی دادی اور بلال کے رُکنے کا انتظام کیا ہوا تھا، توشی اور محسن کا بیڈروم اوپر تھا۔
توشی نے اپنے ڈرائیور کو بھیج کر اپنی دادی کو بلوالیا تھا، اور اپنے باپ جمال رندھاوا سے کہہ دیا تھا آج رات دادو میرے گھر پر ہی رہیں گئی، جہاں آرا بیگم عشاء کی نماز سے پہلے ہی وہاں ں پہنچ گئیں تھی۔
جہاں آرابیگم بلال سے ملنے کی گھڑیاں گن رہیں تھیں، وہ کمرے میں بیٹھی ہوئی بلال کا انتظار کر رہیں تھیں، محسن کی ماں عذرااُن کے ساتھ رسمی بات چیت میں مصروف تھی مگر جہاں آرابیگم کے کان باہر مین گیٹ کی طرف اور نظریں گھڑی پر تھیں اور اُن کا دھیان عذرا کی باتوں سے زیادہ بلال کی طرف تھا۔
توشی اور محسن گھر کے لاوئج میں بلال کے منتظر تھے۔ مین گیٹ پر فوکس کیے ہوئے عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد بلال کی گاڑی گھر کے باہر پہنچی ہی تھی، بلال نے ہارن دیا چوکیدارنے گھر کا گیٹ کھول دیا گاڑی کے پورچ میں پہنچنے سے پہلے ہی توشی اور محسن وہاں کھڑے تھے۔
بلال گاڑی سے اُترا ہی تھا۔ محسن کچھ کہے سنے بغیر ہی اُس سے لپٹ گیا اُسی لمحے توشی بھی بلال کی کمر سے لپٹ گی توشی اور محسن بلال سے لپٹے ہوئے تھے جیسے گمشدہ بچہ ملنے کے بعد اُس کے ماں باپ اُس سے لپٹ جاتے ہیں۔
توشی اور محسن کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ تھوڑی دیر یہ جذباتی سین چلا اُس کے بعد وہ دونوں بلال سے الگ ہوئے محسن نے اپنے آنسو صاف کیے جو کہ توشی نے دیکھ لیے تھے۔
”یہ لو………میں اور میرے میاں رو رو کر ہلکان ہو رہے ہیں اور اس پتھر کے انسان کو دیکھو مسکرا رہا ہے“ توشی نے بلال کے چہرے پر میٹھی مسکراہٹ دیکھ کر کہا تھا۔
” اوئے ہوئے ………میرے میاں……… کیوں میاں جی کیا حال ہے آپکا………“
بلال نے توشی اور محسن کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔
اس بار بلال نے محسن سے جپھی ڈال لی مسکراتے ہوئے
”محسن صاحب بہت بہت مبارک ہو اللہ آپ دونوں کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے۔ ”آمین“بلال محسن کے گلے لگ کر بول رہا تھا۔ اُس کے بعد بلال توشی کی طرف متوجہ ہوا
”توشی جی آپ کو بھی شادی مبارک ہو“ بلال نے اپنا دائیاں ہاتھ شفقت سے توشی کے دائیں کندھے پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”بلال اندر چلو …… دادو انتظار کر رہیں ہیں“ توشی نے خوشی سے کہا تھا۔
”ایک منٹ………“ بلال نے اپنی گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور پھولوں کا خوبصورت بوکے نکالا
” شادی مبارک ہو“
بلال نے پھولوں کا بوکے توشی اور محسن کو پیش کرتے ہوئے کہا تھا۔
"HOW SWEET"
توشی نے پھول دیکھ کرجواب دیا۔
”شکریہ بلال چلو اندر چلو“ اس بار محسن بولا تھا۔
”گاڑی میں مٹھائی اور کچھ تحائف ہیں میں نے مدینہ منورہ سے خریدے تھے، تم لوگوں کے لیے وہ نکلوالو“ بلال لاونج میں داخل ہوتے ہوئے بولا رہا تھا توشی سے بلال اُس کمرے میں داخل ہوا جہاں پر اُس کی نانو تھی۔
جہاں آرابیگم نے بلال کو کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھا تو بیڈ سے اُٹھ کر کھڑی ہو گئیں بلال جلدی سے آگئے بڑھا اس سے پہلے جہاں آرا اُس تک آتیں بلال بیڈ کے پاس پہنچ گیا جہاں آرابیگم نے بلال کو گلے لگا لیا اور زور زور سے روناشروع کر دیا۔
”نانو……چُپ کر جائیں………میں آپ کے سامنے ہوں“ بلال نے اپنی نانی کا ہاتھ چومتے ہوئے کہا ۔ اب جہاں آرا بیڈ پر ٹیک لگائے ہوئے بیٹھ چکی تھیں اور بلال اُن کے سامنے تھا، اُن کی آنکھوں کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔
”تو……مجھے …… اپنے گھر لے چل اب میں بھی رندھاوا ہاؤس واپسی نہیں جاؤں گئی“ جہاں آرابیگم گھائل آواز سے بولی۔ بلال نے اپنی نانی کے آنسو اپنے رومال سے صاف کیے اور مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”نانو آپ خود ہی تو کہتیں تھیں، بلال بیٹا پیٹ پہلے آتا ہے گھٹنوں سے“
”میں غلط تھی میرے بچے تو پیٹ سے بھی اوپر میرے دل کا ٹکڑا ہے“ نانی نے تفاخر سے کہا
”مجھے تجھ پر فخر ہے……… میں بغیر دیکھے گواہی دیتی ہوں…… تجھ پر لگائے گئے سارے الزام جھوٹے تھے“ بلال اپنی نانی کی یہ بات سُن کر خاموش ہو گیا ُس نے اُس بات پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
عذرا محسن کی ماں بلال کے آنے کے بعد کمرے سے چلی گئی تھی، دراصل وہ اُن کے گھر کی باتیں سننا نہیں چاہتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ملازم نے آکر اطلاع دی آپا جی کہہ رہی ہیں کھانا لگ گیا ہے ۔کھانے کے دوران سب خاموش تھے۔ سب کی نظریں بلال پر مرکوز تھیں۔ بلال نے اُن کے خلاف توقع پیٹ بھر کر کھانا کھایا، بلال نے اُن کے اندازے اور خدشے غلط ثابت کر دیئے وہ سب سوچ رہے تھے۔
بلال اب تک اُس صدمے میں ہو گا، بلال اُس غم کو نہیں بھولا تھا، مگر بلال کا کمال یہ تھا، اُس نے اُن سب کو ہوا بھی نہیں لگنے دی اپنی اندرونی کیفیت کی۔
کھانے کے بعد وہ سب اُسی کمرے میں تھے جہاں پر جہاں آرا کو ٹھہرایا گیا تھا۔ پھر وہی باتیں شروع ہو گئیں عذرا اُٹھ کر جانے لگی۔
”بیٹھ جاؤ………عذرا بیٹی اب تم بھی گھرہی کی فرد ہو……تم میری پوتی کی ماں ہو میں نے دیکھ لیا ہے………تم نے میری توشی کو کیسے پھولوں کی طرح رکھا ہے“ عذرا یہ سُن کر بیٹھ گئی ”عذرا بیٹی تم اور توشی اب میرے بلال کے لیے ایک اچھی سی لڑکی ڈھونڈوں میں بلال کی خوشی دیکھ کر مرنا چاہتی ہوں“
بلال اور نانی کے درمیان رات گئے تک باتیں ہوتی رہیں، جہاں آرابیگم نے توشی اور محسن کو پہلے ہی بھیج دیا تھا، عذرا بھی اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔
توشی نے بلال کے سونے کا انتظام گیسٹ روم میں کیا ہو اتھا۔
”ویسے ایک بات تم نے بالکل صحیح کہی، بلال واقعی پتھر کا انسان ہے“ محسن اپنے بیڈروم میں اپنے بیڈ پر توشی کے پہلو میں اپنے بازو پر سر رکھے لیٹا ہوا توشی کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔
” میں تو یہ سمجھ رہا تھا کہ بلال پورا دیوداس بن چُکا ہو گا۔ شراب کو گولی مارو اُس کی توشیو بھی نہیں بڑھی ہوئی تھی۔
توشی میں نے بلال کو اتنا مطمئن اور پرسکون تو کبھی نہیں دیکھا ،میں نے ٹشو پیپر کے دو ڈبے دادی کے کمرے میں رکھے تھے اختیاط کے طور پر“
”وہ کیوں……؟“ توشی نے حیرت سے پوچھا
” اس لیے کہ بلال کو اپنے آنسو صاف کرنے میں مشکل نہ ہو۔ مگر مجال ہے اُس نے ایک ٹشو پیپر بھی استعمال کیا ہو اُلٹا کم بخت نے مجھے رُلا دیا“ ڈاکٹر محسن نے منہ بنا کر کہا تھا توشی کھل اُٹھی ”شکر ہے……… تمہارے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی“ ڈاکٹر محسن ایسی باتیں توشی کو خوش کرنے کے لیے کہہ رہا تھا، اسے بھی بلال کی اندرونی کیفیت کی خبر تھی۔
توشی نے اپنا ہاتھ محسن کے سر کے بالوں میں پھیرا اور بولی
” ڈاکٹر صاحب آپ بہت اچھے ہیں اتنے کم دنوں میں آپ نے مجھے اتنی ساری خوشیاں دی ہیں میں بیان نہیں کر سکتی“
دوسری طرف نانی اور بلال کی گفتگو جارہی تھی
”بلال بیٹا میں تمہاری خوشیاں دیکھنا چاہتی ہوں“ نانی نے بلال کو دیکھ کر کہا جو اُن کی ٹانگیں دبا رہا تھا ”میری آخری خواہش ہے کہ تم شادی کر لو“
”نانو ٹھیک ہے……… بس مجھے تھوڑا سا وقت دے دیں پہلے میں اپنے اسکول کی بلڈنگ بنانا چاہتا ہوں۔
سردیاں شروع ہوتے ہی میں شادی کرلوں گا تب تک میرے اسکول کی عمارت بھی مکمل ہو جائے گئی، پھر آپ جہاں کہیں گئی جس سے کہیں گئی میں شادی کر لوں گا“ جہاں آرابیگم بلال کی بات سُن کر خوش ہوگئی اور باتیں کرتی کرتی ہی سو گئی بلال نے اپنی نانی کے اوپر چادر ڈالی اور خود گیسٹ روم میں جانے کی بجائے وہیں صوفے پر سو گیا تھا۔
###
مئی کا مہینہ شرو ع چکا تھا، ایک دن محمد طفیل اسکول میں بلال سے ملنے کے لیے آیا محمد طفیل بہت خوش تھا۔
”بلال صاحب میں آپ کا اور بابا جی کا احسان مند پوری زندگی رہو ں گا۔ یہ دس لاکھ کا چیک ہے یہ رکھیں باقی پانچ لاکھ بھی ایک دو مہینے میں لوٹا دوں گا“
بلال نے محمد طفیل کی طرف غور سے دیکھا
”آپ تنگ ہو کر تو قرض واپس نہیں کر رہے ہیں“ بلال نے جانچتی نگاہوں کے ساتھ پوچھا
”نہیں نہیں………بلال صاحب……… اب برکت ہے میرے کاروبار میں بابا جی کے کلئیے پر عمل کیا ہے نہ اُدھار سودا لیتا ہوں اور نہ اُدھار بیچتا ہوں، اور کبھی کھانا فریز نہیں کیا سب گاہکوں کو تازہ کھانا کھلاتا ہوں۔
آئل ، گوشت، مصالحے، سب خالص ایک نمبر استعمال کرتا ہوں۔ پیسے بھی مناسب لیتا ہوں۔ بڑا اللہ کا کرم ہے، رش ہی نہیں ٹوٹتا ریسٹورنٹ سے کبھی آپ بھی آکر دیکھیں ناوہ آپ کے دوست عادل صاحب تو اکثر آتے ہیں ہمارے ریسٹورنٹ میں“
”عادل آپ کے ریسٹورنٹ میں آتا رہتا ہے“ بلال نے حیرت سے پوچھا
”جی بلال صاحب ایک دن میں نے عادل صاحب سے پوچھا ہم نے ریسٹورنٹ کا نام بدلنا ہے کوئی اچھا سا نام تو بتاؤ تو پتہ ہے عادل نے کونسا نام بتایا؟“
”کون سا……؟“ بلال نے سوال پر سوال کر دیا۔
”بابا جمعہ ریسٹورنٹ‘ میں نے وہ نام فوراً رکھ لیا،اور عادل صاحب ہی نے ہمیں مشورہ دیا تھا کہ آپ دیسی مرغ کی کڑاہی وہ بھی دیسی گھی میں بھی بنایا کریں اور پیاز گوشت بنانے کا طریقہ بھی عادل صاحب نے ہی بتایا تھا۔ بلال صاحب سب سے زیادہ پیاز گوشت ہی لوگ پسند کرتے ہیں۔ دور دور سے لوگ آتے ہیں۔ کبھی آپ بھی تشریف لائیں“ محمدطفیل نے خلوص سے دعوت دی۔
”طفیل صاحب ضرور آؤں گا……… مگر ایک شرط ہے“ ”وہ مجھے معلوم ہے بلال صاحب مجھے آپ کی شرط منظور ہے“ محمد طفیل نے بلال کی بات کاٹ کر جلدی سے کہا تھا۔
”یہی ناں آپ کھانے کے پیسے دیں گئے، آپ تو بابا جمعہ کے سب سے پیارے شاگرد تھے۔ اور سب سے لائق بھی آپ کیسے اُن کا سبق بھول سکتے ہیں۔
عادل صاحب کی بھی یہی شرط تھی۔ پتہ ہے عادل صاحب نے بابا جی کی دو بڑی بڑی تصویریں بھی مجھے لا کر دیں ہیں، ایک میں نے ہال میں لگائی ہے اور دوسری کاونٹر والی جگہ پر، محمد طفیل کافی دیر اپنے کاروبار کی باتیں کرتا رہا بلال کے ساتھ اور بلال خاموشی سے اُس کی باتیں سنتا رہا اور محمد طفیل کی کامیابی پر خوش ہوتا رہا۔
بلال کو یہ بھی یاد تھا جب عادل نے بلال سے پیاز گوشت کی ریسپی لی تھی۔
###