
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
اگلے دن بلال نے اعجاز جنجوعہ کے جاننے والے ایک آرکیٹکٹ کو بلایا اپنے آفس میں اور اُس کے ساتھ ساری ڈسکشن کی اپنے اسکول کی بلڈنگ کے متعلق ساری ڈی ٹیلز لیں بلڈنگ کے انٹریر اور ایکس ٹیریر پر بھی ڈیٹیل میں ڈسکس ہوئی ۔آرکیٹکٹ اپنے کام میں ایکسپرٹ تھا، اس لیے بلال پہلی ملاقات ہی میں مطمئن ہو گیا تھا ،آرکیٹکٹ نے فائنل ڈرائنگ کے لیے ایک دن کا ٹائم لیا، اگلے دن وہ بلڈنگ کی فائنل ڈرائنگ لے کر آگیا جو کہ بلال کو بہت پسند آئی اُس نے اپنے اسکول کی بلڈنگ بنانے کا کنٹریکٹ اعجاز جنجوعہ کی AL AZIZ CONSTRUCTION COMPANY کو دے دیا۔
اُس دن اعجاز جنجوعہ کو بھی بلایا تھا، بلال نے اپنے آفس میں اعجاز جنجوعہ نے اپنی کمپنی کا نام اپنے مرحوم دادا عزیز الدین جنجوعہ کے نام پر رکھا تھا۔ بلال کو اعجاز جنجوعہ پر اعتبار تھا اس لیے اُس نے یہ فیصلہ کیا تھا۔
آرکیٹکٹ چائے پی کر جا چکا تھا۔ اعجاز جنجوعہ چائے ٹھنڈی پینے کا عادی تھا اس لیے وہ بیٹھا ہوا تھا۔ اور کچھ سوچ بھی رہا تھا۔
”بلال تمہاری بھابھی تمہاری دعوت کرنا چاہتی ہے“ اعجاز جنجوعہ نے اپنے چشمے کے اوپر سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ”کب آسکتے ہو اب تو تم ہمارے جوہر ٹاؤں میں ہی شفٹ ہو چکے ہو“
”جنجوعہ صاحب جب آپ کی سہولت ہو“ بلال نے جواب دیا
”تو پھر کل رات ڈنر ہمارے گھر پر ٹھیک 8 بجے مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ٹائم پر آجانا“ اعجاز جنجوعہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
”جی جنجوعہ صاحب………انشا اللہ میں وقت پر پہنچ جاؤں گا“ بلال نے کہا تھا۔
اگلے دن ٹھیک رات 8 بجے بلال اعجاز جنجوعہ کے گھر پہنچ گیا تھا۔ اعجاز جنجوعہ کا گھر میاں محمود کے گھر سے پانچ منٹ کی مسافت پر تھا۔ بلال اب میاں محمود کے گھر کا مکین تھا۔ بلال پیدل چلتا ہوا اعجاز جنجوعہ کے گھر پہنچا تھا۔
فرح نے پُر تکلف کھانے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد رسمی گفتگو کے دوران فرح بھابھی نے ایک چُھبتا ہوا سوال بلال سے پوچھ لیا تھا۔
”بلال………سنا ہے تمہاری منگیتر کی کسی اور کے ساتھ شادی ہو گئی ہے“
بلال نے فرح بھابھی کی طرف دیکھا وہ اُن سے ایسے کسی سوال کی توقع نہیں رکھتا تھا۔
”نہیں بھابھی اُس نے کسی اور کے ساتھ شادی کر لی ہے“ بلال نے تحمل سے جواب دیا ”مطلب ……… میں سمجھی نہیں“ فرح بھابھی کو تجسس ہوا۔
”فرح بیگم………مطلب کو دفعہ کرو……چھوڑو پرانی باتیں“ اعجاز جنجوعہ نے بات بدلنی چاہی اعجاز جنجوعہ اپنی بیوی سے خفگی سے بولے تھے۔
”مطلب یہ بھابھی اُسے مجھ پر اعتبار نہیں تھا، وہ مجھے بدکردار سمجھتی ہے۔“ بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا تھا۔
”بلال میں نے نئی گاڑی خریدلی ہے اپنی پرانی گاڑی Suzuki Fx1988 ایک صاحب ہیں نجم الثاقب جیل روڈ پر اُن کا گاڑیوں کا شوروم ہے، نجم موٹرز کے نام سے انہوں نے میری وہ گاڑی بھی رکھ لی ہے اور ساتھ چار لاکھ لے کر سوزکی مہران 2013 ماڈل مجھے دے دی ہے، بڑی صاف گاڑی ہے ایک ہاتھ چلی ہوئی“
اعجاز جنجوعہ نے اس بار بات بدلنے کی بھرپور کوشش کی اور اپنی گاڑی چینج کرنے کا سارا احوال بھی سنا دیا تھا، اعجاز جنجوعہ بلال کو دوبارہ ڈسٹرب کرنا نہیں چاہتا تھا مگر بھابھی فرح ٹلنے والی کہاں تھیں۔
”بلال یہ جو جنجوعہ صاحب ہیں نا اِن کی سوزکی والوں سے رشتے داری ہے، گاڑی بدلی بھی تو FX Suzuki دے کر سوزکی مہران لے بہت بڑا تیر مارا ہے، جنجوعہ صاحب نے۔ بلال میں نے نئی گاڑی لی ہے“ فرح نے منہ بنا کر کہا تھا۔
اچھا بھئی چائے تو پلادو لڑائی بعد میں کر لینا“ اعجاز جنجوعہ نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ،بھابھی فرح کچن کی طرف چلی گئی
”بلال صاحب………میں نے تمہاری بھابھی کو کہا بھی تھا“ ”کوئی بات نہیں جنجوعہ صاحب میں مائنڈ نہیں کروں گا بھابھی کو ایک دفعہ تفصیل پوچھ لینے دیں“ بلال نے اعجاز جنجوعہ کے معذرت خوانہ لہجے کو دیکھتے ہوئے بات بیچ میں ہی سے کاٹ دی تھی۔
”چائے کابول دیا ہے ابھی ماسی لے کر آتی ہے۔ بلال کچھ سمجھاؤ جنجوعہ صاحب کو بہت زیادہ چائے پیتے ہیں، اگر انہیں کسی کو خون دینا پڑ جائے تو ان کے جسم سے خون کے بجائے چائے نکلے گی جنجوعہ صاحب اب ڈسٹرب مت کیجیے گا بلال بھائی سے مجھے بات کرنے دیں“
”آپ کہاں ٹلنے والی ہیں بیگم“ اعجاز جنجوعہ نے چشمے کے اوپر سے دیکھا اور صوفے پر لیٹنے کے انداز میں بیٹھ گئے چپ چاپ”دفعہ دور کرو اُس لڑکی کو جس نے تمہیں چھوڑ کر کسی اور سے شادی کرلی…… میرا مشورہ مانوں اب تم بھی شادی کر ہی لو“ فرح نے ناک چڑھاتے ہوئے کہاتھا۔
”بھابھی پرانی محبت کو دفعہ دور نہیں کہہ سکتے محبت بُرا مان جاتی ہے“ بلال مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
”تو کیا تم شادی نہیں کرو گے اُس کے غم میں“ فرح ابرو چڑھاتے ہوئے بولی
”میں شادی ضرور کروں گا…… مجھے کسی کا غم نہیں ہے، بس بھابھی میں محبت کو دفعہ دور نہیں کہتا“ بلال نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
ماسی چائے لے کر آچکی تھی فرح نے خود چائے بنا کر دی بلال کو اور جنجوعہ صاحب کو
”جنجوعہ صاحب گرمی شروع ہو گئی ہے، اب تو چائے کی جان چھوڑ دیں“ فرح نے چائے کا کپ اعجاز جنجوعہ کو تھماتے ہوئے کہا تھا بلال نے بھی چائے کا کپ لیا وہ فرح اور اعجاز کی نوک جھونک انجوائے کر رہا تھا مگر فرح کا انٹرویو ابھی باقی تھا۔
”شادی کے لیے کوئی لڑکی دیکھی ہے“ فرح نے سوالیہ نظروں سے پوچھا
”نہیں………ابھی تک تو کوئی نہیں………نانو کو چند دن پہلے ہی شادی کی حامی بھری ہے…… جو بھی لڑکی اُن کو پسند آجاے گئی میں اُس سے شادی کر لوں گا“
”میری بڑی آپا واہ کینٹ میں رہتی ہیں، اُن کی بیٹی ہے ماہ رخ بی ایڈ کیا ہوا ہے گوری چٹی، شرم و حیاوالی، تمہارا گھر سنبھال لے گئی“ فرح نے اصل بات بیان کر دی”شکر ہے………“ اعجاز جنجوعہ نے ٹھنڈی چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا تھا ”آپ نے فرح بیگم اپنے دل کی بات کہہ ہی ڈالی“
”کیوں نہ کہتی آخر مجھے بلال کی فکر ہے“ فرح بھابھی نے فکر ے پر زور دے کر کہا تھا۔
”بھابھی اگر میری نانو کو ماہ رخ پسند آجائے تو میں ماہ رخ ہی سے شادی کر لوں گا“ بلال نے پرچ اور کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔
”کیا تم اپنی منگیتر کو بھلا سکو گے؟“ فرح نے تفتیشی نگاہوں سے پوچھا
”بھابھی میں نے زندگی میں ہر تعلق ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کی ہے، مجھے یقین ہے جس لڑکی سے بھی میری شادی ہوگی وہ میرے ساتھ خوش رہے گئی“
”مجھے بھی بلال بھائی تمہاری ایمانداری پر شک نہیں ہے، بات کسی کو بھلانے کی ہو رہی ہے“ فرح نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا تھا۔
وہ ٹکٹکی باندھے بلال کو تک رہی تھی اور اعجاز جنجوعہ اپنے چشمے کے اوپر سے اپنی بیوی اور بلال کے درمیان ہونے والی گفتگو دیکھ رہا تھا اعجاز جنجوعہ نے ٹھنڈی چائے کا ایک گھونٹ لیا بغیر آواز کیے ہوئے بلال کے چہرے پر زخمی مسکراہٹ اُبھری۔
”بھابھی پرانی محبت اور پرانی چیزوں میں فرق ہوتا ہے۔ پرانی چیز اگر اچھے برینڈ کی ہو اور اچھی حالت میں بھی ہو تو وہ انٹیک بن جاتی ہے۔
نجم الثاقب جیسے کسی قدر دان کی اُس پر نظر پڑجائے تو وہ اُسے خرید لیتا ہے، نہیں تو اسلم کباڑیے کا کباڑ خانہ، پرانی محبت انٹیک نہیں ڈھیٹ ہوتی ہے، جس محبت کو محبوب ہی رسوا کر دے اُس پر قدر دان کی نظر تو دور کی بات اُسے تو کسی کباڑ خانے میں بھی جگہ نصیب نہیں ہوتی، ایسی محبت آپ کے ساتھ منوں مٹی تلے قبر میں ہی دفن ہوتی ہے۔“
بلال اپنی بات کرکے خاموش تھا نظریں جھکائے ہوئے اور فرح نے چپکے سے اپنے آنسو صاف کیے مگر اعجاز ٹھیکدار کی نظروں سے نہیں بچ سکی۔
”ANY WAY ڈنر کا بہت مزہ آیا شکریہ بھابھی“ بلال اپنی جگہ سے اُٹھا
”اب آپ لوگ مجھے اجازت دیں“ اعجاز جنجوعہ بلال کو گھر کے مین گیٹ تک چھوڑنے آیا تھا وہ دیر تک بلال کو سیدھی سڑک پر جاتے ہوئے دیکھتا رہا وہیں کھڑا ہوا اپنے گھر کے باہر سے جب اعجاز جنجوعہ اپنے بیڈروم میں واپس آیا تو فرح ایک دم سنجیدہ تھی۔
”فری بیگم آپ کو کیا ہوا………آپ نے جو سوچا تھا وہی کہا“ اعجاز جنجوعہ بولا ”جنجوعہ صاحب میں شادی سے پہلے خواتین کے سارے ڈائجسٹ پڑھتی تھی، پھر آپ سے میری شادی ہو گئی آپ بالکل مختلف انسان تھے، ناولوں اور افسانوں کے کرداروں سے پھر میں نے ڈائجسٹ پڑھنا چھوڑ دیئے تھے، مجھے ایسا لگا کہ ناول اور افسانہ لکھنے والے لوگ جھوٹ ہی لکھتے ہیں، حقیقت میں تھوڑی ایسے کردار ہوتے ہیں۔
آج ایسا لگا کہ جتنے لوگ ہمارے معاشرے میں کتابیں اور ڈائجسٹ پڑھتے ہیں اُس سے زیادہ کردار ہوتے ہیں، ہمارے ارد گرد ماہ رخ بھی میری طرح کہانیاں پڑھتی ہے، وہ بلال کو سمجھ لے گی“ فرح اپنے شوہر کی طرف آئی
”ماہ رخ کو بُلالوں بلال کی نانی سے ملوانے کے لیے“ فرح نے اعجاز جنجوعہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔
”بلالو……“ اعجاز جنجوعہ نے مسکراتے ہوئے اجازت دے دی۔
###
ایک ہفتے بعد بلال نے اپنے اسکول کا سنگ بنیاد اپنی نانی کے ہاتھ سے رکھوا دیا تھا۔ تعمیر کا کام زوروں سے شروع ہو گیا تھا۔سارا میٹریل بلال نے فراہم کرنا تھا۔ باقی ساری ذمہ داری العزیز کنسٹرکشن کمپنی کی تھی۔
جون کا مہینہ شروع ہو چُکا تھا۔ کچھ اسکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں ہو چکی تھیں۔ اور کچھ میں ہونے والی تھیں۔
توشی نے ایک دن محسن کو خوشخبری دی کہ وہ ماں بننے والی ہے۔
محسن اور اُس کی ماں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
نوشی اور ولید اپنے ہنی مون سے واپس لوٹ چکے تھے۔ پارٹیز ڈنرز فیشن شوز کنسرٹ اُن دونوں کا روز کا معمول تھا۔ ولید نے واپسی پر ناہید سے اور پیسے لیے فضول خرچی قارون کے خزانوں کو بھی کھا جاتی ہے۔
ایک دن رات کو ولید نے نوشی سے کہا تھا۔
”نوشی ہماری شادی کو تین ماہ ہو چکے ہیں بہت انجوائے کر لیا، اب کچھ کام بھی کیا جائے میری جو سیونگ تھی سب ختم ہو گئی ہے۔
“
ولید یہ بول کر پریشانی سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ نوشی نے دیکھا تو وہ اُس کے پاس آئی اور اُس کے پہلو میں بیٹھ گئی۔
”تم پریشان کیوں ہوتے ہوں۔ میرے پاس بینک میں آٹھ دس کروڑ پڑے ہیں وہ لے لو“ نوشی نے تسلی دی تھی۔
”نوشی آٹھ دس کروڑ سے کیا ہوگا۔ تمہیں پتہ ہے جس دن سے ہماری شادی ہوئی ہے تین ماہ میں سات کروڑ خرچ ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی مجھے تمہارے پیسے نہیں چاہیں کروڑوں کی جائیداد ہے میرے حصے میں آتی مجال ہے پیرداود ہاشمی میرے والد متحرم اُس میں سے کچھ دیں کہتے ہیں گاؤں آجاؤ، اور گدی سنبھال لو وہی چھوٹی سوچ۔
چاچو عقیل ہاشمی کو دیکھو کہاں سے کہاں پہنچ گئے ایک سرامکس کی فیکٹری تھی اور اب تین ہیں۔ اُن کے بیٹے کو دیکھو نالائق، چاچو کہتا ہے بزنس پر توجہ دو اور وہ جناب سنا ہے، کسی موچی کے پاس بیٹھتا تھا ولید کا یہ جملہ سن کر نوشی کو ان تین ماہ میں پہلی بار بلال یاد آیا تھا، وہ بھی کسی موچی کے پاس جایا کرتا تھا۔
”میں بزنس کرنا چاہتا ہوں“ ولید یہ بول کر وہاں سے چلا گیا ور نوشی پریشان کھڑی اپنے شوہر کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔
جمال اور ناہید کو خبر تھی کہ جہاں آرابیگم اور توشی بلال سے ملتی رہتی ہیں۔ مگر وہ دونوں خاموش تھے۔ توشی اب کسی کی بیوی تھی اور اُس کا شوہر بلال کا بہت اچھا دوست تھا اور جہاں تک جہاں آرابیگم کی بات تھی۔ وہ دونوں جانتے تھے کہ وہ بلال کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑ سکتی تھیں۔
جہاں آرابیگم اور توشی نے بلال کے لیے، بہت ساری لڑکیاں دیکھیں، اُن دونوں کی نظر ماہ رخ پر جا کر ٹھہر گئی، مگر انہوں نے فرح سے کسی قسم کی بات نہیں کی تھی، وجہ یہ تھی پہلے وہ بلال سے پوچھنا چاہتی تھیں، اور بلال کا سارا فوکس اپنے اسکول کی بلڈنگ پر تھا۔
اِس لیے بات ایک ڈنر سے آگئے نہیں بڑھ سکی، جب فرح نے بلال کی نانی اور کزن کو کھانے پر بلایا تھا وہیں پر ماہ رخ پر اُن کی نظر ٹھہری تھی۔
محمد طفیل نے باقی کے پانچ لاکھ بھی بلال کو واپس کر دیئے تھے۔ بلال نے جو روپے اپنے گھر کے لیے بچا کے رکھے تھے وہ بھی سارے وہ اپنے اسکول میں لگانا چاہتا تھا، سب سے پہلے بلال نے بابا جمعہ کے دئیے ہوئے بیس لاکھ کو اپنے اسکول کی بنیادوں پر خرچ کیا تھا۔
گل شیر خان اور حسیب حسن ملک واپس آچکے تھے۔ جب گل شیر خان کو سارے معاملے کی خبر ہوئی تو ایک دن جمال اندھاوا کے آفس میں گل شیر خان نے کہا۔
”رندھاوا صاحب بہت مبارک ہو آپ نے بچیوں کا فرض ادا کر دیا ہے… لیکن …“یہ بول کر گل شیر خان خاموش ہو گیا۔
”لیکن…کیا…خان میں پوچھ رہا ہوں……بتاؤ مجھے…لیکن کیا……“
جمال رندھاوا جاننا چاہتے تھے۔
”آپ نے بلال کے ساتھ اچھا نہیں کیا…رندھاوا صاحب وہ بچہ ایسا نہیں ہے“
”گل شیر خان تم بھی ایسا سوچتے ہو………“ جمال رندھاوا حیرت سے بولے
”نہیں رندھاوا صاحب میں ایسا مانتا ہوں۔ بلال ایسا ہوہی نہیں سکتا یہ کسی کی سازش ہے“ گل شیر خان کے اعتماد نے جمال رندھاوا کو سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ گل شیر خان کی ذہانت کا قائل تھا ہمیشہ سے۔
”خان صاحب میں اگلے ہفتے امریکہ جا رہا ہوں ایک ڈیڑھ مہینہ لگ جائے گا۔ وہاں پر میرے واپس آنے تک آپ اس سازش کا پتہ لگائیں واپس آتے ہی مجھے ساری رپوٹ چاہیے“جمال رندھاوا سوچتے ہوئے بولے تھے
”انشااللہ………رندھاوا صاحب……… میں بلال پر لگی اس تہمت کی حقیقت سامنے ضرور لے کرآؤں گا……انشااللہ………“گل شیر خان نے یقین کے ساتھ کہا تھا۔
###
”کیا سوچ رہے ہو ولید میں دیکھ رہی ہوں پچھلے چند دنوں سے تم چپ چاپ ہو ہم کہیں باہر بھی نہیں گئے“ نوشی نے فکر مندی سے پوچھا” کتنے دن ہو گئے ہیں تم نے مجھے کوئی گفٹ بھی نہیں دیا“ ولید نے اپنی شادی کے بعد سے نہ جانے کتنے پرفیومز نوشی کو گفٹ کیے تھے۔ شاید ہی کوئی فرانسیسی سینٹ ہو جو ولید نے نوشی کو گفٹ نہ کیا ہو۔ کیوں نہ کرتا اُس کی ماں کا پیسہ جو تھا۔
کون ساولید کی اپنی جیب ہلکی ہو رہی تھی۔ نوشی اس سب سے بے خبر تھی۔
”نوشی میرا یک دوست ہے دبئی میں اُسکا پرفیومز کا بزنس ہے۔ کل کی بات ہے یہاں پر دھکے کھاتا تھا۔ اور آج بہت بڑا بزنس مین ہے۔
وہ اپنے بھائی کو بھی بزنس شروع کر کے دینے لگا ہے،ا ُس نے مجھے آفر کی ہے کہ ہم پاٹنرشپ کر لیتے ہیں، 20 ملین درہم کی انویسمنٹ ہے 10 ملین درہم اُس کے اور 10ملین درہم میرے میں نے پیر صاحب سے پیسے مانگے تھے وہ دینے کو تیار نہیں، چاچو کے پاس گیا تھا، وہ کہنے لگے اپنے باپ سے لو اُس کے پاس بہت پیسہ ہے۔
“
”10 ملین درہم……“ نوشی نے خود سے کہاں
”جی ہاں 10 ملین درہم یعنی 27 کروڑ روپیہ میرے پاس خود کے سات کروڑ تھے وہ میں نے……“ ولید یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔
”میرے پاس 10 کروڑ ہیں، وہ تم لے لو میں نے بینک سے پتہ کیا تھا“ نوشی نے کہا
”پہلی بات تو یہ 10کروڑ سے کچھ نہیں ہوگا، اور دوسری بات مجھے تم سے پیسے نہیں لینے تمہارے گھر والوں کو پتہ چلے گا تو وہ کیا سوچین گے میرے بارے میں“
”ولید تم گھر والوں کی فکرنہ کرو، میں اُنہیں تھوڑی بتاؤں گئی، یہ میرے پیسے ہیں“
”نوشی تم بات سمجھو میں یہ دس کروڑ لے بھی لوں، بات پھر بھی نہیں بنتی“ ولید نے بیزاری سے کہا
”میرے نام پر دو پلازیں اور دو گھر ہیں تم اُنہیں بیچ دو اُن کے پیپر بینک لا کر میں رکھے ہوئے ہیں میں کل تمہیں لادوں گی پراپرٹی کے سارے پیپرز وغیرہ تم خود ہی دیکھ لینا اُن کا کیا کرنا ہے“ ”میں نے تمہیں بتایا تھا، یہ گھر میرا نہیں ہے، رینٹ پر ہے“ ولید نے پریشانی سے کہا تھا ”مجھے معلوم ہے ……تم نے ذکر کیا تھا………میرے چھوٹے والے گھر ہم لوگ شفٹ ہو جاتے ہیں“ نوشی نے مشورہ دیا تھا۔
”لوگ کیا کہیں گے بیوی سے روپے بھی لیے ہیں، بزنس کے لیے اور اُسی کے گھر میں بھی رہ رہا ہے اور آنٹی کیا سوچیں گی میرے بارے میں وہ تو مجھے بڑا خوددار سمجھتی ہیں نوشی تم رہنے دو میں کچھ اور دیکھتا ہوں“ ولید نے مکاری سے کہا تھا۔
”ولید کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی اِس بارے میں، پاپا اور توشی جانتے ہیں پاپا ویسے بھی ایک دو دن کے بعد امریکہ جا رہے ہیں، اور توشی نے پچھلے تین مہینے سے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں رکھا ہے، ماما اور شعیب بھائی کو صرف اتنا پتہ ہے کہ پاپا نے ہم دونوں بہنوں کے نام پر کچھ خریدا ہے ماما کو ڈیٹیل کا نہیں پتہ…… ولید تم نے ان ساڑھے تین مہینوں میں مجھے زمانے بھر کی خوشیاں دی ہیں، جو میں نے مانگا تم نے لا کر دیا، جیسا میں نے کہا تم نے وہی کیا، تم سے شادی سے پہلے میں ڈری ہوئی تھی۔
تم نے میرے سارے ڈر سارے خدشے دور کر دئیے ہیں، مجھے تم پر پورا اعتماد ہے، تم جو کچھ کر رہے ہو صرف میری خوشی کے لیے، پلیز میری بات مان لو“ نوشی نے محبت سے کہا تھا۔
”میری ایک شرط ہے، میں تمہارے گھر نہیں رہوں گا، اور یہ قرض ہو گا جو میں واپس کروں گا، جیسے ہی میرا بزنس سیٹ ہوتا ہے، ہم دونوں دبئی شفٹ ہو جائیں گے………اس طرح میری اپنے باپ پیردادو ہاشمی سے بھی جان چھوٹ جائے گی، اور اُن کی گدی سے بھی جب بھی ملتے ہیں۔
بیٹا گدی سنبھالو گدی سنبھالو میں تنگ آگیا ہوں یہ سن سن کر میں نے گلبرگ میں ایک اپارٹمنٹ دیکھا ہے، کل ہم وہاں شفٹ ہو رہے ہیں۔“ ولید اور نوشی کی اس گفتگو کے دوران جمال کی نوشی کو کال آئی تھی۔
”ہیلو پاپا بہت لمبی عمر ہے آپ کی ابھی میں ولید سے آپ کا ذکر کر رہی تھی“ نوشی نے جمال سے خوشی خوشی بات کی تھی۔
”نوشی بیٹی تمہاری آواز سن کر مجھے سکون مل گیا ہے میں پرسوں امریکہ جا رہا ہوں اس لیے میں یہ چاہتا ہوں کل رات کا ڈنر ہم سب اکٹھے کریں تم دونوں کی شادی کے بعد سے تم بہنوں کو اکٹھے نہیں دیکھا ہے، اسی لیے میں نے توشی اور محسن کو بھی بلا لیا ہے گھر پر………نوشی بیٹی ولید سے بات کرواؤ……“
”ہیلو انکل کیسے ہیں آپ میں نوشی کو بتا رہا تھا، آپ بزنس میں میرے آئیڈیل ہیں“
”THANK YOU بیٹا، اچھا کل رات کا ڈنر میرے ساتھ گھر پر“ جمال نے ولید سے کہا
”جی ضرور انکل جیسے آپ کا حکم“ ولید نے جمال کو اچھے تابعدار داماد کا تاثر دیا تھا”مگر کل توہم نے گلبرگ شفٹ ہونا تھا“ نوشی نے یاد کروایا ولید کو
”ہم پرسوں شفٹ ہو جائیں گے، انکل کے جانے کے بعد، انکل نے اتنی محبت سے بلایا ہے“ ”ولید واقعی ماما کا انتخاب لاجواب تھا، تم بہت اچھے ہو، میری سوچ سے بڑھ کر“ نوشی پوری طرح ولید کے جال میں پھنس گئی تھی۔
سب کچھ ولید کے پلان کے مطابق ہو رہا تھا۔ ایک ایک بات ارم اور ولید نے ڈسکس کی تھی نوشی سے متعلق
”نوشی اب میری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے، اگر تمہارے گھروالوں کو پتہ چل گیا تو میں اپنے آپ کو ہلکا محسوس کروں گا“ ولید نے اپنے بنائے جال پر ایک اور گرہ لگائی ۔ ”ولید مجھے تو تم پر پورا اعتماد ہے، تم بھی یقین کر لو مجھ پر، یہ بات میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔
“
نوشی نے ولید کو یقین دلایا ولید کے چہرے پر جیت کی مسکراہٹ اُبھری اُس نے نوشی کو گلے لگا لیا تھا ”نوشی مجھے بھی تم پر پورا اعتماد ہے“ ولید نے گلبرک والا فلیٹ نوشی ہی کے نام پر خرید رکھا تھا نوشی کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے ۔
###
ڈنر سے فارغ ہونے کے بعد گھر کے سب افراد لان میں بیٹھے ہوئے تھے 29 جون بروز اتوار 2014 رات کے 10 بج رہے تھے۔
جمال رندھاوا نے گل شیر خان کو آواز لگائی گل شیر خان نے دو لفافے سامنے پلاسٹک کی میز پر رکھے اور واپس چلے گئے وہاں سے۔
”میرے ابّا جی سب لوگوں سے کہتے تھے، کہ اپنی بچیوں کو وارثت سے حصہ دو، جہیز مت دو۔ اسی لیے میں نے اپنی بیٹوں کو اُن کا حصہ شادی سے پہلے ہی دے دیا تھا۔“ جہاں آرابیگم کے چہرے پر ایک طنز یہ مسکراہٹ اُبھری اپنے بیٹے جمال کی بات سُن کر مگروہ خاموش رہی کیونکہ جمال اپنے دامادوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
”یہ بیٹا تم دونوں کے لیے میری طرف سے سلامی ہے۔ یہ دو چیک ہیں، ایک ایک کروڑ کے ایک ولید بیٹا تمہارے لیے اور دوسرا محسن بیٹا تمہارے لیے“
محسن نے یہ بات سن کرتوشی کی طرف دیکھا جو اپنی دادی کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ توشی نے اپنی دادو کی طرف دیکھا جنہوں نے آنکھ سے ہاں کا اشارہ کر دیا تھا۔ توشی نے بھی محسن کو چیک لینے کا اشارہ دے دیا، آنکھوں ہی آنکھوں میں ناہید یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی ولید نے یہ سن کر اپنی ساس ناہید کی طرف دیکھا، جس نے نہیں کا اشارہ دیا نوشی اپنی ماں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔
جسے اپنی ماں کے حکم کی خبر ہو چکی تھی۔ مگر وہ خاموش رہی۔ جمال نے پہلے وہ لفافہ جس میں ایک کروڑ کا چیک تھا۔ ولید کی طرف بڑھایا جو کہ جمال کے دائیں ہاتھ والی کرسی پر بیٹھا تھا۔
”سر مجھے صرف آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے، اس سلامی کی نہیں، یہ میں نہیں لے سکتا“ ولید نے دو ٹوک بات کر دی اور وہ چیک نہیں پکڑا جمال نے وہ چیک میز پر رکھ دیا جمال نے دوسرا لفافہ اُٹھایا، اور محسن کی طرف کر دیا جو کہ جمال کے بائیں طرف بیٹھا تھا۔
”ولید نے صحیح کہا ہے انکل ، آپ کی دعائیں زیادہ اہم ہیں ، اس چیک کے مقابلے میں یہ چیک میں آپ کی بیٹی کے کہنے پر لے رہا ہوں اور مجھے پورا یقین ہے ولید جتنی دعا تو آپ میرے لیے بھی کریں گے۔
توشی اگر نہ بھی کہتی پھر بھی میں یہ رکھ لیتا ۔ میرا دوست بلال کہتا ہے، کسی کی محبت کو انکار مت کرو، اور مانگو صرف اللہ سے کیونکہ دینے والا صرف وہ ہے۔
انکل آپ کی محبت سمجھ کر یہ چیک میں لے رہا ہوں۔ جس کی وجہ سے آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں یعنی آپ کی بیٹی یہ رقم میری امانت ہے اُس کے پاس مجھے جب بھی ضرورت ہو گی میں اپنی بیوی سے یہ رقم لے لوں گا۔ توشی جی یہ رقم میری ہے، اور آپ کے پاس امانت کے طور پر پڑی ہے“
محسن نے SMS کو اشارہ کیا جو آئس کریم کی ٹرے لے کر آیا تھا۔ SMS نے وہ چیک لفافے سمیت توشی کو پکڑا دیا محسن سے لے کر سب خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
آئس کریم کھانے کے بعد سب جا چکے تھے۔ صرف جہاں آرابیگم لان میں بیٹھیں تھیں۔ اور وہ بلال کے روم کو دیکھ رہیں تھیں۔ اور اُن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ SMS نے جا کے جمال کو اطلاع دی تھی کہ بڑی بیگم صاحبہ ابھی بھی لان میں ہی بیٹھیں ہیں ”چلیں ماں جی اندر چلیں بہت رات ہو گئی ہے“ جمال نے ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ہوئے کہا تھا۔
”بیٹا تو صرف اپنی بیوی کی کہی ہوئی باتیں یاد رکھتا ہے، آج اپنے باپ کی بات تجھے کہاں سے یاد آگئی،ا ور میری بات تم ایک کان سے سنتے ہو اور دوسرے سے نکال دیتے ہو۔
“
”ماں جی میں نے وہ 50 ایکٹر زمین خریدی ہے، آپ بلال کو بلائیں اُس کے نام پر میں رجسٹری اور انتقال کروا دیتا ہوں“
جمال رندھاوا وہ 50 ایکٹر تجھے مبارک میں نے بلال سے بات کی تھی اُسے وہ زمین نہیں چاہیے اُس نے جاتے ہوئے تیری خیرات تجھے واپس کی یا نہیں؟ بیٹا جس دن تو نے پہلا چیک اپنی بیوی سے چھپ کر دیا تھا، اُس نے اُسی دن وہ چیک مجھے واپس کر دیا تھا، میں نے لینے سے انکار کیا تو بولا نانو میں ماموں جان کا دل رکھنے کے لیے یہ چیک لیتا رہوں گا مگر کیش کبھی نہیں کرواؤں گا۔
ایسا ہی تھا ورنہ میرا بچہ اتنی تنگی سے گزارا نہ کرتا……… جمال رندھاوا تیرا باپ کہا کرتا تھا۔ عورت کی طرح مرد بھی چار رشتے نبھاتا ہے……… نہ تو جمال تم اچھے بیٹے بن سکے، اور نہ ہی اچھے بھائی، توشی کے علاوہ تیرے دونوں بچوں کا اللہ ہی مالک ہے۔ ہاں بیوی کی جی حضوری میں تم نے حق ادا کر دیا ہے۔ تیرے باپ کی کہی ہوئی بات تم نے ایمانداری سے ثابت کی ہے“
”ماں جی باتوں سے گزارا نہیں ہو گا جوتا پکڑیں اور اس رن مرید کو ماریں………“
جمال رندھاوا روتے ہوئے اپنی ماں کے قدموں میں گر گیا تھا۔
جمال رندھاوا زور زور سے رو رہا تھا۔
جہاں آرا کی ممتا جاگ اُٹھی، انہوں نے جمال کو اُٹھایا اپنے قدموں سے اور اپنے سامنے کرسی پر بیٹھایا۔
”جمال اب بھی اپنے گھر کو بچا لو، میں مزید چوکیداری نہیں کر سکتی۔ تمہارے بیٹے کے لچھن ٹھیک نہیں ہیں۔ میں کل بلال کے پاس جا رہی ہوں ہمیشہ کے لیے“ جہاں آرابیگم نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔
###
اگلے دن جمال رندھاوا ڈیڑھ ماہ کے لیے امریکہ چلے گئے۔
ولید نے بھی ڈیفنس سے گلبرگ جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ولید نے ایک فرنشڈ گھر لیا ہوا تھا کرائے پر اس لیے اُسے شفٹ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی، نوشی کے باپ نے اُسے جہیز نہیں دیا تھا، جس کا مسئلہ ہوتا۔
بلال نے بھی میاں محمود کا گھر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ جس کی دو وجوہات تھیں پہلی میاں محمود نے چار ماہ کا کرایہ اُس سے نہیں لیا تھا۔
جب سے بلال گھر میں شفٹ ہوا تھا۔ اور دوسری وجہ اُس کی نانی تھیں نانی عمر رسیدہ خاتون تھیں۔ وہ گھر کی سیڑھیاں بار بار اُتر اور چڑھ نہیں سکتی تھیں، اور بلال کے پاس گھر کا اپرپورشن تھا۔ بلال نے اپنا مسئلہ طارق رامے کو بتایا تھا۔
طارق رامے نے میاں محمود کو لندن اطلاع دی فون کر کے
”رامے صاحب وہ اچھا لڑکا ہے، ایسا کرایہ دار کدھر ملتا ہے، اُسے میرا کوئی بھی پانچ مرلے کا گھر دے دیں کرائے پر ہاں کرایہ پورا لیجیے گا، وہ خود دار بندہ ہے، ورنہ وہ گھر نہیں لے گا“ میاں محمود نے طارق کو جواب دیا تھا۔
”ٹھیک ہے………میاں صاحب……… میں بھی یہی چاہتا تھا“ طارق رامے نے فون بند کر دیا طارق رامے نے میاں محمود کا ایک سال پرانا گھر جو کہ چند دن پہلے ہی خالی ہوا تھا۔ جس کے سامنے پارک بھی تھا۔ وہ کرائے پر دے دیا تھا۔ بلال کی نانی کو وہ گھر بہت پسند آیا تھا۔ وہ گھر چھوٹا ضرور تھا، مگر ہوا دار اور روشن تھا گھر کے گیراج میں ایک گاڑی بھی آرام سے کھڑی ہو سکتی تھی، اور دوسری گاڑی گھر کے باہر پارک کے ساتھ کھڑی ہو سکتی تھی، اور سب سے اچھی بات وہ بلال کے اسکول کے بھی نزدیک تھا۔
رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا………
دن بھاگ رہے تھے، جس کا اندازہ ولید ہاشمی کو تھا، ولید نے مہینوں کا کام دنوں میں مکمل کیا اُس نے نوشی کے دونوں پلازے دونوں مکان دنوں میں سیل کر لیے تھے۔ اگر 10 کروڑ کی چیز 8 میں ملے تو اُس کے 10گاہک ہوتے ہیں۔ یہی کچھ ولید نے نوشی کی پراپرٹی کے ساتھ کیا تھا۔ اُس نے 10 ملین درہم ہنڈی کے دریعے دبئی ٹرانسفر کر دیئے تھے۔
نوشی سے وہ بینک والے 10 کروڑ بھی لے چکا تھا۔ اس دوران ولید ایک ہفتے کے لیے دبئی بھی گیا تھا، جہاں پر اُس نے اپنے اور ارم کے لیے ایک فلیٹ بھی خرید لیا تھا۔
ایک ہفتے کے دوران اُس نے اپنی ایک کمپنی بھی بنائی اور اپنے اور ارم کے RESIDENCE VISA کے لیے کاغذات بھی جمع کروا دیئے امیگریشن کے اندر ولید کے دوست نے اُسے یقین دہانی کروادی تھی، کہ اب تم جاؤ چھ سات دن کے اندر اندر تمہارا اور اِرم کا ویزہ نکل آئے گا۔
ولید نے یہ سارے کام جولائی کے ایک مہینے میں کر لیے تھے۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوئی تھی۔
میٹھی عید آ کے پھیکی ہو گئی……
ولید ہاشمی آزادی کے مہینے سے پہلے پہلے نوشی اور اپنے رشتے سے بھی آزادی چاہتا تھا۔ ولید نے اپنا کام انتہائی مہارت سے کیا تھا۔ اُس نے نوشی کو کوئی 52 کروڑ کا ٹیکہ لگایا تھا جس میں اُس کے دونوں گھروں اور پلازوں کی قیمت، اور 10 کروڑ روپے نقد تھے اس میں وہ 7 کروڑ روپیہ شامل ہی نہیں تھا جو ولید نے ناہید سے لیا تھا۔
الیکشن ابھی بہت دور تھے اور ناہید اپنی سیٹ ہار چکی تھی، الیکشن سے پہلے ہی اب ولید کی نظر نوشی کے اُن گہنوں پر تھی جو اُس نے شادی کی پہلی رات کو پہنے ہوئے تھے جواب تک اس وجہ سے محفوظ تھے کہ وہ نوشی، رندھاوا ہاوس چھوڑ گئی تھی اپنے ولیمہ کے بعد غلطی سے ولید اب کسی ایسی وجہ کی تلاش میں تھا، جس کو جواز بنا کر وہ نوشی سے جان چھڑا سکے جھوٹے الزام سے بہتر کیا وجہ ہو سکتی ہے۔
اگست کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ ایک دن ارم اور ولید کی ملاقات ہوئی اُس فلیٹ میں جہاں پر اِرم انڈرگرونڈ ہوئی تھی۔
”اِرم ڈارلنگ میں چاہتا ہوں ، نوشی کے باپ کے آنے سے پہلے پہلے ہم لوگ دبئی نکل جائیں مجھے لگتا ہے بعد میں ہمارے لیے مسئلے مسائل کھڑے ہو جائیں گے………بہت سارے مسائل، سمجھ نہیں آرہا ہے کیسے جان چھڑاوں اس پاگل لڑکی سے“ ولید نے ارم سے اپنا مسئلہ بیان کر دیا تھا۔
”ویری سمپل………الزام لگا دو……اپنی بیوی پر……یہی سب سے آسان اور کارآمد طریقہ ہے………کسی سے بدلہ لینے کا………کسی کو رسوا کرنے کا……کسی سے جان چھڑانے کا………اب تو لوگ جھوٹا الزام لگا کر اپنی بیوی کو قتل بھی کر دیتے ہیں۔
یہ تو جان من چھوٹی سی بات ہے۔“ ارم واسطی نے اپنے ترکش سے ایک اور تیر نکالا اس دفعہ اس کا شکار نوشی تھی۔
”کیا الزام لگاؤں اپنی بیوی پر“ ولید نے اپنی کمان نوشی کی طرف کر لی صرف تیر چلانا باقی تھا۔
”پہلے تم مجھے یہ بتاؤ ہمارے ویزے کب تک آجائیں گئے“
”تین سے چار دن کے اندر اندر………“
”تم آج سے دیوداس ہو…… تمہیں آج ہی اپنی بیوی کے افئیر کا پتہ چلا ہے……جو شادی سے پہلے ہی اپنے منگیتر کے ساتھ وہ سب کچھ کر چکی تھی……جو شادی کے بعد ہوتا ہے………اس طرح تم اپنی بیوی کو طلاق بھی دے سکتے ہو اور تم ظالم بھی نہیں بنوں گے۔
“
”میں تو مظلوم بن گیا………پھر ظالم کون ہو گا“ ولید نے تجسس سے پوچھا
”ہم ایک بار پھر مظلوم ہی کو ظالم بنا دیں گے“ ارم نے اپنے تیر پر زہر کے قطرے ڈالے وہ زہر جو نہ جینے دیتا ہے اور نہ مرنے دیتا ہے۔ جھوٹے الزام کا زہر
”ارم مجھے اب تک سمجھ نہیں آئی تم کیا کہہ رہی ہو“ ولید نے ارم کو غور سے دیکھا اِرم کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔
”ایک دن یہ دونوں بہنیں بوتیک پر اپنے آفس میں بیٹھی ہوئیں تھیں۔ سخت سردی تھی اور باہر بہت زیادہ دھند تھی۔ سارے سٹاف کو انہوں نے چھٹی دے دی اور خود پیزہ آڈر کر دیا باہر صرف سیکورٹی گارڈ تھا۔ میں بھی وہاں سے آگئی تھی، پھر مجھے یاد آیا میں اپنے پورشن کی چابیاں وہیں آفس میں بھول آئی ہوں میں وہ چابیاں لینے کے لیے واپس گئی تو یہ دونوں بہنیں آفس کے اندر ہنس ہنس کر کھسر پھسر کر رہی تھیں میں نے غور کیا تو تمہاری سالی توشی اپنی بہن نوشی کو تنگ کر رہی تھی کہ وہ ملاقاتیں، اُن کی کہانی پھر سے سناؤ جو اُس کے اور بلال کے درمیان ہوئیں تھیں۔
تمہیں یاد ہے وہ جوہر ٹاؤن کی تیل مہندی جہاں میں نے تمہیں بھیجا تھا۔ اُس رات تمہارے آنے کے بعد نوشی کو چند لڑکوں نے اُٹھانے کی کوشش کی تھی۔
اُس کے بعد بلال نے کوئی چکر چلایا تو وہ لڑکے گھر آکر معافی مانگ کر گئے تھے، نوشی سے اُس کے بعد اصل کہانی شروع ہوئی تھی۔
پھر تمہاری بیوی اپنے اُس وقت کے منگیتر سے اُس کے کمرے میں ملنے کے لیے جاتی تھی، رات کے پچھلے پہر ایک دن یہ اُس کے گلے بھی لگ گئی تھی۔
“
”گلے لگ گئی تھی“ ولید نے چونک کر پوچھا
”وہ بلال تھا………ولید تھوڑی نا تھا……… گھبراؤ مت اور سنو تب بلال نے کہا تھا یہ گناہ ہے……کبیرہ گناہ………آپ ابھی میرے نکاح میں نہیں ہو………بلال تمہاری بیوی کو کافی پلاتا تھا، اور اُس کے پسندیدہ بسکٹ بھی کھلاتا تھا، اُن ملاقاتوں کے دوران۔ اُن سرد راتوں کی ملاقاتوں کے بارے میں دونوں بہنوں اور بلال کے علاوہ صرف مجھے معلوم ہے۔
جس کی اُن تینوں کو خبر نہیں ہے۔
ولید تم نے صرف اتنا کرنا ہے، تم نے اُن ساری صاف ستھری ملاقاتوں کو جس میں بلال نے اُس ایک واقعہ کے علاوہ تمہاری بیوی کو آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا ایک گندہ رنگ دینا ہے، جس میں ہر رات نوشی اور بلال ہوس کے بستر پر اپنی اپنی بھوک مٹاتے تھے………تم نے بلال کی پاک محبت کو ناپاک بھوک کی شکل میں بدلنا ہے۔
یاد رکھو تمہیں یہ سب کچھ آج ہی بلال نے خود بتایا ہے، ایسا تم اپنی بیوی سے کہو گے۔ بلال بدلا لینا چاہتا تھا۔ نوشی سے وہ نوشی کو برباد کرناچاہتا تھا، یہ بھی بلال نے تم سے کہا تھا۔“
”کیا شیطانی دماغ ہے تمہارا اِرم واسطی“ ولید نے خوشی سے کہا تھا۔
”تم کل ہی وکیل سے بات کر کے طلاق کے کاغذات تیار کرواؤ جب تک طلاق کے پیپر تیار نہیں ہو جاتے اور ہمارا ویزہ نہیں آجاتا تم نوشی سے کچھ نہیں کہو گے۔
اُدھر ہمارا ویزہ ہمارے ہاتھ میں اُسی لمحے نوشی کے ہاتھ میں طلاق کے پیپر دے کر زبانی طلاق دے دینا اور اُس کے گھر رخصت کر دینا۔ اور ہم اُسی دن فلائیٹ لے کر دبئی ۔یہ ہے ولید ہاشمی میرا پلان“ اِرم واسطی نے مکاری سے کہا تھا۔
”میں سوچ رہا ہوں ناہید کی جگہ پیرصاحب سے کہہ کر تمہیں ہی MNA بنوادوں“ دونوں نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا تھا۔
اِرم اور ولید اپنی کامیابی پر اور نوشی کی بے وقوفی پر ہنس رہے تھے کافی دیر بعد اِرم نے وائن کے دو پیک بنائے
”میرے دیوداس کریکٹر میں آؤ اور پیو“ اِرم نے ریڈوائن کا گلاس ولید کو دیتے ہوئے کہا تھا۔
”چیرز میری چندرمکھی“ ولید نے گلاس سے گلاس ٹکرایا اور ریڈوائن غٹاغٹ پی گیا اِرم نے دوسرا پیک بنایا اور پینے سے پہلے بولی
”ولید تمہیں آج ہی اپنی بیوی کے افیئر کے بارے میں پتہ چلا ہے اور تم اپنا غم بھلانے کے لیے شراب پی رہے ہو۔
ایکٹنگ زبردست کرنا دیوداس کی“
اِرم نے اپنے پلان کا آخری پارٹ اچھی طرح ولید کو سمجھا دیا تھا۔
اس کے بعد ولید گلبرگ اپنے فلیٹ پر پہنچا ، اُس نے پلان کے مطابق نوشی سے بدتمیزی کی اور بُرا بھلا کہا، اُسکے کردار پر انگلیاں اُٹھائیں۔
اندر کی بات اُسے نہیں بتائی، نوشی ساری رات پریشان رہی ولید کا یہ روپ دیکھ کر آج دوپہر کو ہی ناہید اور شعیب تین چار دن کے لیے ملائیشیا گئے تھے، اپنے بزنس ٹور کے سلسلے میں نوشی بہت پریشان تھی۔
نوشی کو خبر تھی اُس کی دادی بلال کے پاس چلی گئی ہے۔ توشی الگ اُس سے ناراض تھی۔ شادی کے بعد سے اُن دونوں بہنوں کی صرف ایک ملاقات ہوئی تھی وہ بھی سوامہینہ پہلے ڈنر پر بھی دونوں بہنوں کے درمیان بات چیت نہیں ہوئی تھی۔
اگلے دو دن بھی نوشی نے وہاں اُسی کرب میں گزارے تھے دن میں ولید ارم کے فلیٹ پر ہوتا اُس کے ساتھ اور رات کو وہ شراب پی کر آجاتا تھا اور نوشی کو بے وفائی طعنے دیتا رہتا تھا۔
11 اگست کو ولید کے سارے کام مکمل ہو چکے تھے۔ا ُس کا ویزہ اور ٹکٹ اُس کے ہاتھ میں تھا۔ طلاق کے کاغذات وکیل نے اُسے دے دیئے تھے۔ اب صرف اُس نے طلاق کا اعلان کرنا تھا۔ اس شام پانچ بجے کے قریب ولید اپنے فلیٹ میں آیا تھا۔ نوشی اُسے اُس وقت دیکھ کر حیران ہو گئی تھی پچھلے تین دن سے وہ رات کو لیٹ گھر آتا تھا، اور نوشی سے لڑتا جھگڑتا اور سُو جاتا اور صبح اُٹھ کر اِرم کے فلیٹ پر چلا جاتا تھا۔
اُس دن ولید نے شراب بھی نہیں پی ہوئی تھی۔
”یہ لو نسیم جمال رندھاوا تم نسیم ولید ہاشمی نہ بن سکی“ ولید نے طلاق کے کاغذ نوشی کو پکڑا دیئے نوشی کا رنگ پیلافق ہو گیا تھا۔ ولید کے ہاتھ سے کاغذ پکڑتے ہوئے اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ نوشی کی آنکھوں میں خوف تھا۔
”بستر تم بلال کا سجاتی رہی ہو اور شادی مجھ سے کرلی“ ولید نے حقارت سے کہا تھا۔
نوشی تم ایک گندی عورت ہو“ ولید نے دوسرا تیر سیدھا نشانے پر لگایا تھا۔
”ولید یہ کیا کہہ رہے ہو تم“ نوشی نے ولید کا گریباں پکڑتے ہوئے کہا تھا۔
”جو تم نے سنا تم بلال سے اُسکے کمرے میں ملنے نہیں جایا کرتی تھی اُس کے بعد تم دونوں……نوشی مجھے یہ کہتے ہوئے شرم آرہی ہے……تمہیں کرتے ہوئے نہ آئی“
”یہ سب جھوٹ ہے………بکواس ہے………تہمت ہے مجھ پر………میں ایسی نہیں ہوں……ولید خدا کے لیے میرا یقین کرو……“نوشی نے ولید کا گربیان چھوڑ کر فوراً ہاتھ جوڑ لیے اُس کے سامنے طلاق کے کاغذ دیکھنے سے پہلے ہی اُس کے ہاتھ سے گر گئے تھے۔
جب نوشی نے غصے سے ولید کا گربیان پکڑا تھا۔
نوشی تم صرف مجھے یہ بتاؤ تم اُس سے ملنے اُ سکے کمرے میں جاتی تھی“ ولید نے غصے سے پوچھا ”ہاں………یہ سچ ہے……مگر………اُس نے……“ ولید نے نوشی کو بات پوری نہیں کرنے دی۔
اُس نے ………تمہیں بھی نہیں چھوڑا……نوشی تم یہ مان لو تم اُس کے بہکاوے میں آگئی تھی تم نے مجھے کیوں یہ سزا دی………آخر کیوں………“ولید نے نوشی کو غصے سے دھکا دیا ۔
”ولید میری بات کا یقین کرو………تم میری زندگی میں پہلے مرد ہو جس نے میرے جسم کو چھوا ہے زندگی میں صرف ایک دفعہ میں اُس کے گلے لگی تھی……وہ بھی میری غلطی تھی………“ نوشی فرش پر بیٹھی ہوئی بول رہی تھی۔
”سب جھوٹ ……میں تمہیں ……ابھی……اسی وقت……“
”نہیں ولید……نہیں……“ نوشی اپنی جگہ سے جلدی سے اُٹھی اور ایک بار پھر ولید کے سامنے منت سماجت کرنے لگی،ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے
”نسیم جمال رندھاوا میں ولید ہاشمی تمہیں ہوش و حواس میں……طلاق دیتا ہوں……طلاق دیتا ہوں……… طلاق دیتا ہوں………“
نوشی کے ہاتھ جوڑے کے جوڑے اور منہ کھلا کا کھلا رہ گیا حلال چیزوں میں سے ناپسندیدہ اُس کے شوہر نے اُسے کے لیے پسند کی تھی یعنی طلاق نوشی کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ زمین پر گرنے لگے تھے۔
اُس کا حلق خشک تھا جیسے صدیوں کی پیاسی ہو نوشی اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گئی ولید کے قدموں کے سامنے اُن دونوں کے درمیان طلاق کے کاغذ خاکی لفافے کے اندر بند تھے۔
”ولید یہ تم نے ظلم کیا میرے ساتھ………اللہ کی قسم بلال نے تو کبھی مجھے چھوا تک نہیں تھا……“ نوشی نے بے خیالی ہی میں سہی بلال کی بے گناہی کی قسم دے دی تھی۔
”یہ سب کچھ مجھے بلال نے ہی بتایا ہے“ ولید یہ کہہ کروہاں سے چلا گیا تھا۔
نوشی نے اپنی طلاق کے کاغذ غصے سے پکڑے نوشی کی آنکھوں میں انتقام کے شعلے تھے۔
”بلال تم نے مجھے برباد کیا میں تمہیں برباد کردوں گی“
نوشی نے یہ کہا اور اپنے فلیٹ سے نکل گئی تھی۔ اُس نے ٹیکسی پکڑی اور رندھا واہاؤس چلی گئی۔
رات گیارہ بجے اِرم اور ولید کی فلائیٹ تھی دبئی کے لیے وہ دونوں آٹھ بجے ائیرپورٹ پہنچ گئے تھے ساڑھے آٹھ بجے تک وہ لوگ بورڈنگ سے فارغ ہو چکے تھے۔
ولید نے اپنا موبائل آف کر دیا تھا۔ اِرم کا نیا نمبر ولید کے دبئی والے دوست کے پاس تھا۔ جس کے ذریعے ولید اُس سے رابطے میں تھا۔
اُس سے پہلے شام سات بجے جمال رندھاوا واپس آئے تھے امریکہ سے جب گل شیر خان اُن کو لے کر رندھاوا ہاؤس پہنچا تو اُسی لمحے نوشی ٹیکسی سے اُتر رہی تھی، شادی کے بعد سے نوشی اور توشی کی گاڑی رندھاوا ہاؤس میں کھڑی تھی۔
وجہ نوشی ولید کی گاڑی استعمال کرتی تھی۔
نوشی کٹی ہوئی پتنگ کی طرح چلتی ہوئی گھر کے گیٹ سے اندر آئی تھی۔ اُس کے ہاتھ میں وہ خاکی لفافہ تھا جس کو اُس نے مضبوطی سے اپنی مٹھی میں جکڑا ہوا تھا۔
جمال رندھاوا جب اپنی گاڑی سے اُترے تو اُن کی نظر اپنی بیٹی پر پڑی تو اُنکا کلیجہ منہ کو آگیا تھا۔ نوشی نے اپنے باپ کو دیکھا تو روتے ہوئے جمال کے گلے سے لگتے ہی بے ہوش ہو گئی تھی۔
جمال اور گل شیر خان نے اُسے گاڑی میں ڈالا اور قریبی پرائیوٹ ہاسپٹل میں لے گئے جمال نے نوشی کو وارڈ میں لے جانے کے بعد سب سے پہلے ولید کو فون کیا تھا، جسکا نمبر بند جا رہا تھا۔
جمال نے نوشی کے ہاتھ میں وہ خاکی لفافہ نہیں دیکھا تھا۔ اُس پر گل شیر خان کی نظر پڑی تھی۔ گل شیر خان نے وارڈ میں جانے کے بعد نوشی کے ہاتھ سے وہ خاکی لفافہ نکال لیا تھا۔
ولید کے بعد جمال نے ناہید اور شعیب کے نمبر ملائے اُن دونوں کے نمبر بھی بند تھے ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے آخر میں جمال نے توشی کو اطلا دی تھی۔
گل شیر نے وہ لفافہ جمال کے سامنے کر دیا۔
”رندھاوا صاحب یہ نوشی بیٹی کے ہاتھ میں تھا“ گل شیر خان ایک دانا آدمی لفافہ دیکھ کر ہی مضمون سمجھ گیا تھا جب جمال رندھاوا نے لفافہ کھول کر طلاق کے کاغذ دیکھے تو اُن کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین نکل گئی تھی آسمان سر پر آگر ا تھا۔
”خان میری بیٹی برباد ہوگئی“ شاید جمال رندھاوا زمین پر گر جاتے گل شیر خان نے انہیں تھاما اور جمال کو ہال میں پڑی ہوئی سیٹیوں میں سے ایک پر بیٹھایا تھا۔
آدھے گھنٹے کے اندر ہی توشی بھی وہاں پہنچ گئی تھی۔
”کیا ہوا………پاپا……نوشی کو ………“ توشی نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ پوچھا تھا وہ گاڑی سے اُترتے ہی ہاسپٹل میں داخل ہوئی تھی۔
ایمرجنسی وارڈ کے باہر اُسکی نظر گل شیر خان پر پڑی تھی جو پانی کا گلاس لیے جمال رندھاوا کے سامنے کھڑا تھا۔ جمال کے دائیں ہاتھ دوسری سیٹ پر طلاق کے کاغذ پڑے ہوئے تھے۔ جمال نے کا نپتے ہاتھوں کے ساتھ وہ کاغذ اُٹھا کر توشی کی طرف بڑھا دئیے تھے۔
”ڈائیوورس……ولید نے نوشی کو ڈائیو ورس دے دی………“ توشی نے وہ پیپر دیکھنے کے بعد کہا تھا۔
توشی نے ایک ہاتھ اپنی کمر پر رکھا اور دوسرے سے اپنا سر پکڑ لیا تھا اس سے پہلے کے وہ گر جاتی، ڈاکٹر محسن نے اُسے پیچھے سے آکر سنبھال لیا تھا جو گاڑی پارک کرنے کے بعد ایمرجنسی کے باہر پہنچا تھا۔ توشی نے دکھ سے کہا۔
”اُو……مائی………گاڈ……یہ کیا ہوگیا ہے……“ محسن نے توشی کو جمال کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا دیا تھا۔توشی کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے بغیر رونے کے بغیر آواز کے گل شیر خان کو اب جمال سے زیادہ توشی کی فکر تھی۔
اُس نے جلدی سے وہی پانی کا گلاس توشی کو پینے کے لیے دیا تھا۔
”توشی پانی پی لو………“ محسن نے فکر مندی سے کہا تھا۔ جواب اپنے گھٹنوں پر بیٹھا ہوا تھا توشی کے سامنے توشی نے پانی پی لیا تھا مگر وہ خاموش تھی۔
تھوڑی دیر بعد ایک لیڈی ڈاکٹر اُن کے پاس آئی محسن نے ڈاکٹر کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا۔
”میں ڈاکٹر محسن ہوں“ لیڈی ڈاکٹر نے محسن سے بات کرنا مناسب سمجھا تھا۔
”ڈاکٹر محسن اب پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔ اور ہم نے اُنہیں ایمرجنسی سے روم میں بھی شفٹ کر دیا ہے………فی الحال گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے“
”مگر ڈاکٹر اُسے ہوا کیا تھا“ توشی نے جلدی سے پوچھا
”فکر کرنے کی کوئی بات نہیں پچھلے دو تین دن سے پیشنٹ نے کچھ خاص کھایا پیا نہیں تھا جس کی وجہ سے اُن کا BP Low ہو گیا تھا، اور وہ بے ہوش ہو گئی تھیں۔
ڈاکٹر محسن ہم نے سارے ٹیسٹ کر لیے ہیں۔ باقی رپوٹس آنے کے بعد ہی کچھ کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت آپ بہتر جانتے ہیں کیا کرنا چاہیے۔ آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں۔“
یہ کہہ کے لیڈی ڈاکٹر وہاں سے چلی گئی۔
”انکل فکر نہ کریں ایک تو اُس نے کچھ کھایا نہیں تھا۔ اور دوسرا وہ پریشان ہے اِس وقت اس لیے ہم سب کو اُسے RELAX کرنا چاہیے اُسے توشی کچھ کھلاؤ انشااللہ وہ ٹھیک ہو جائے گی“ جمال اور توشی نے نوشی سے کوئی سوال نہیں پوچھا تھا۔