
شکیل احمد چوہان - بلال صاحب
توشی نے اُسے جوس، دودھ ، سوپ وغیرہ پلایا تھا۔ اگلے سولہ گھنٹوں کے دوران جس کی وجہ سے نوشی اب کافی بہتر تھی اور وہ سوگئی تھی۔ سونے سے پہلے ڈاکٹر نے اُس کا چیک اپ کیا تھا اور ساری رپورٹس بھی ٹھیک تھیں۔
”رندھاوا صاحب کل تک آپ انہیں لے جا سکتے ہیں آپ لوگ اگر انہیں سونے دیں تو زیادہ بہتر ہو گا“ یہ بول کر ڈاکٹر روم سے چلی گئی تھی۔ اُس کے پیچھے جمال اور توشی بھی باہر آگئے تھے گل شیر خان باہر بیٹھا ہوا تھا۔
ڈاکٹر محسن کو صبح توشی نے خود گھر بھیجا تھا، محسن کو توشی کی زیادہ فکر تھی کیونکہ وہ اُس کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔
”گل شیر خان میرے پیچھے میری بیٹی برباد ہوگئی اور تم تماشہ دیکھتے رہے“ جمال رندھاوانے کرب سے کہا تھا۔
”رندھاوا صاحب جب آپ کے گھروالے ہی نوشی بیٹی کو برباد کرنے پر تلے تھے تو میں کیا کر سکتا تھا جب آپ نے مجھے حکم دیا اُس وقت تک سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔
“گل شیر خاں سر جھکائے ہوئے کھڑا تھا
”گل شیر خان پہلیاں مت بجھاؤ سیدھی بات کرو“ جمال نے غصے سے کہا تھا ”سیدھی بات رندھاوا صاحب بہت کڑوی ہے شاید آپ سُن نہ سکیں۔“ گل شیر نے ہولے سے جواب دیا۔
”پاپا آپ بیٹھ جائیں……… خان صاحب آپ بتائیں ہم سننا چاہتے ہیں“ توشی نے اپنے باپ کو کوریڈور میں روم سے باہر پڑی ہوئی سیٹوں میں سے ایک پر بٹھا دیا تھا اور گل شیر خان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”خان صاحب……پلیز بتائیں“ توشی نے عرضی کی
”رندھاوا صاحب آپ کو اُس دن ائیر پورٹ چھوڑنے کے بعد رات کو میں نے باجی غفوراں اور شاہد محمود کو بلایا تھا اپنے کوارٹر میں اُن سے ساری معلومات لی۔ مجھے لگا صرف چار افراد حقیقت سے پردہ ہٹا سکتے ہیں۔ بلال سے میں پوچھنا چاہتا تھا، اور آپ نے اُس سے ملنے سے بھی منع کیا تھا۔ اِرم غائب تھی، اور اُس کا نمبر بھی بند تھا۔
اب صرف وہ دو لڑکیاں بچی تھیں اُس وقت نیناں کو جانتا نہیں تھا اب صرف ڈاکٹر عظمی افگن رہ گئی تھی۔ اُسے میں اچھی طرح سے جانتا تھا بلال نے خود مجھے عظمی کے بارے میں بتایا تھا۔ جب وہ مینٹل ہاسپٹیل میں جایا کرتا تھا۔ عظمی سے مل کر مجھے پتہ لگا کہ وہ توخود بیچاری اس وجہ سے بہت پریشان تھی عظمی نے میری ملاقات عادل سے کرائی تھی، عادل بلال کا دوست ہے۔
اب صرف نیناں کے ذریعے ہم یہ حقیقت جان سکتے تھے۔ میں اور عادل فوزیہ سے ملے جو بلال کے آفس میں کام کرتی ہے، اُس سے ہم نے نیناں کے شناختی کارڈ کی کاپی لی جو کہ اسکول ریکاڈ میں موجود تھی۔
اُس کے ذریعے ہم کلرکہار نیناں کے گھر پہنچ گئے۔ نیناں نے پہلے تو ہمارے ساتھ ملنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ جب عادل نے بلال کا نام لیا تو اُس نے ہمیں ساری کہانی بتائی۔
نیناں کے مطابق یہ سب کچھ ناہید بی بی کی سازش تھی، جس میں شعیب اور ولید نے اُن کا ساتھ دیا تھا۔ بعد میں اِرم واسطی اور مجھے بھی پیسوں کا لالچ دے کر انہوں نے اپنے ساتھ ملایا تھا یہ نیناں کے الفاظ تھے۔
ڈاکٹر عظمی اور بلال کی وہ تصویریں شعیب اور ولید نے اُتاری تھیں، جسے بعد میں غلط انداز سے پیش کیا تھا۔
گل شیر خان یہ سب کچھ بول کر خاموش ہو گئے تھے۔
جمال رندھاوا اپنا سر پکڑے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے۔ اور توشی بت بنی کھڑی ہوئی تھی۔
توشی نے گل شیر خان کو انگلی ہونٹوں پر رکھ کر مزید بات کرنے سے منا کر دیا تھا، توشی نے جمال کے ڈرائیور کو بلایا۔
”پاپا آپ گھر جا کر آرام کریں لمبی فلائیٹ لے کر آئے تھے اور پچھلے اٹھارہ گھنٹے سے یہاں پر ہیں………پاپا پلیز میری خاطر گھر چلیں جائیں………“
توشی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر جمال نے خود کو سنبھالا اور ڈرائیور کے ساتھ گھر چلے گئے۔
گل شیر خان جب جمال کو گاڑی تک چھوڑ کر آئے تو توشی اپنی بہن کے روم کے باہر اپنا سر اپنے ہاتھوں سے پکڑے ہوئے گردن جھکائے بیٹی تھی۔
”توشی بیٹی یہ پی لو“ گل شیر خان نے چائے کا ڈسپوزایبل کپ توشی کو پیش کیا تھا ”شکریہ خان صاحب“ توشی نے چائے کا کپ لیتے ہوئے کہا تھا
” خان صاحب آب کچھ اور بتانا چاہتے تھے“
”توشی بیٹی نہ ہی سنو“ گل شیر نے جواب دیا افسردگی کے ساتھ
”ایک بیٹی کے لیے اس سے زیادہ اذیت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُس کی ماں………آپ بتائیں میں سنوں گی……“
”توشی بیٹی ہم بلال کی بے گناہی ثابت کرنے میں مصروف تھے اور ولید اپنی جیبیں بھرنے میں“
”کیا مطلب ……“ توشی کو فکر لاحق ہوئی
”مجھے عادل نے کوئی مہینہ پہلے ہی ولید کی اصلیت سے آگاہ کر دیا تھا۔
تب میں ایک دن گلبرگ نوشی بیٹی سے ملنے بھی گیا تھا، اُسے خوش دیکھ کر مجھے لگا کہ شاید ولید بدل گیا ہے پھر ایک دو دن میں نے ولید اور نوشی کا پیچھا کیا مجھے سب ٹھیک لگا تھا وہ دونوں بہت خوش تھے میں مطمئن ہو گیا تھا۔
میں نے سوچا بلال کے ساتھ جو بھی ہوا وہ غلط تھا۔ چلو نوشی بیٹی تو خوش ہے اپنے گھر، عادل کو بھی میں نے منع کر دیا تھا، کہ وہ ولید اور نوشی کو اُن کے حال پر چھوڑ دے اور اُن کے متعلق مزید انکوائری نہ کرئے……عادل نے میری بات مان لی تھی۔
مگر ……عادل کا شک صحیح نکلا……توشی بیٹی……عادل ٹھیک کہتا تھا کہ ولید میرے سگے تایا کا بیٹا ہے……آپ خان صاحب اُسے نہیں جانتے ہیں…… میں واقعی ولید کو نہ جان سکا………“
گل شیر خان بات کرتے کرتے خاموش ہو گئے تھے
”کیسا شک……… خان صاحب“ توشی کو تجسس ہوا تھا۔
”توشی بیٹی ولید نے نوشی بیٹی کی ساری پراپرٹی سیل کر دی ہے اور وہ اِرم کے ساتھ کل رات کو دبئی چلا گیا ہے یہ بات عادل ہی نے مجھے صبح 10 بجے بتائی تھی۔
توشی کے کانوں میں عادل کے الفاظ گونجے نوشی کی بارات والے دن کے
”کیا انتخاب ہے آپ کی بہن کا“ ”کیا انتخاب ہے میری ماں کا“ توشی نے خود سے کہا ”مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی توشی بیٹی میں ولید کے ارادوں کو نہ دیکھ سکا ورنہ یہ سب نہ ہوتا“ گل شیر خان نے خود کو قصور وار ٹھہرایا۔
”چھوڑیں خان صاحب آپ کا کوئی قصور نہیں ہے…… ساری زندگی ہمارا باپ ہماری ماں کو نہ جان سکا، اور ہم اپنی ماں کو نہ جان سکے، خان صاحب آپ سے تو غلطی سے غلطی ہو گئی اور ہم سب تو ساری زندگی جان بوجھ کر گناہ کبیرہ کرتے رہے۔
“
توشی یہ بول کر نوشی کے کمرے کے اندر گئی، نوشی اب بھی سو رہی تھی، توشی اُسے دیکھ کر واپس باہر آگئی تھی وہ پھر سے بیٹھ گئی، گل شیر خان اب بھی بے چین تھے وہ بار بار کسی کو فون کر رہے تھے۔
توشی یہ سب سن کر پریشان تو بہت تھی، مگر وہ بے چین ہرگز نہیں تھی، اب اُسے صرف اپنی بہن کی فکر تھی، مگر خان صاحب کو اب یہ کیسی بے چینی لگ گئی ہے۔
”خان صاحب کچھ باقی رہ گیا ہے“ توشی نے گل شیر خان کے پاس پہنچ کر کہا تھا، گل شیر خان نے پریشانی سے گردن ہلا دی تھی۔
”توشی بیٹی ناہید بی بی اور شعیب صاحب چار دن پہلے ہی کسی بزنس ٹور کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے ہیں۔ SMSبتا رہا تھا کہ وہ لوگ آج لوٹیں گے“
”ہاں مجھے معلوم ہے ماما نے جانے سے پہلے مجھے فون کر کے انفارم کیا تھا، اور یہ بھی بتایا تھا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر وہ لوگ واپس آجائیں گے“ توشی نے اطمینان سے کہا تھا ”تو آنے دیں خان صاحب ماما کو کیوں بچارہے ہیں، میری ماں کو اُس کے کیے ہوئے گناہوں سے، اِن گناہوں کی سزا تو اُسے مل کر رہے گی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔
“ توشی نے تلخ لہجے میں کہا تھا۔
”توشی بیٹی یہ بات نہیں بات کچھ اور ہے شعیب صاحب اور اُن کے دو دوستوں سنی اور وکی نے“ ”ہاں ہاں وہ بے غیرت کے بچے…… وہ شعیب کے دوست بھی ہیں“ توشی نے گل شیر خان کی بات درمیان میں کاٹ کر نفرت سے کہا تھا۔
”افسوس……مگر یہ اٹل حقیقت ہے“ گل شیر خان کی کنپٹی کی رگیں تن گئیں۔
”توشی بیٹا یہ تینوں پچھلے ایک سال سے شہر کے مختلف علاقوں سے لڑکیاں اغوا کرتے، پھر تینوں اُن لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرتے انہیں ڈراتے دھمکاتے اکثر لڑکیاں اپنی بدنامی کے ڈر سے خاموش ہو جاتیں، دو ہفتہ پہلے اِن تینوں نے گلبرگ کے علاقے سے ایک لڑکی اُٹھائی اُس لڑکی کا باپ کرنل ہے اور خفیہ ایجنسی میں کسی بڑے عہدے پر کام بھی کرتا ہے، اُس لڑکی نے ان تینوں کو انجام کی دھمکی دی تھی، اس ڈر سے انہوں نے اُسے قتل کر کے کوٹ لکھپت کے پیچھے کھیتوں میں پھینک دیا تھا، یہ ظلم اِن تینوں نے مل کر کیا تھا، یہ شعیب صاحب کے باہر جانے سے پہلے کی بات ہے۔
دو دن پہلے خفیہ اداروں کے لوگوں نے سنی اوروکی کو پکڑ لیا ہے میرا چچا زاد بھائی اُس کرنل صاحب کے گھر ڈرائیور ہے یہ ساری باتیں اُس نے مجھے ابھی جب آپ اندر گئی تھیں، تب اُس کا فون آیا تھا میرا بھائی بتا رہا تھا، وہ لوگ شعیب صاحب کو ائیر پورٹ ہی سے اُٹھالیں گے بیٹا تیرے باپ کا نمک کھایا ہے“
گل شیر خان کی آنکھوں میں پہلی دفعہ موٹے موٹے آنسو چمک رہے تھے مغرب کی آذان ہو رہی تھی۔
خان صاحب نماز پڑھنے چلے گئے تھے۔
توشی اپنی بہن کے پاس کمرے میں لوٹی نوشی بھی جاگ چکی تھی نرس اُس کا B.P چیک کر رہی تھی۔ توشی کی آنکھیں رات سے رو رو کر سرخ ہو چکی تھیں پھر بھی اُسے نوشی کی طرف دیکھ کر مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائی تھی۔
نوشی اب کافی بہتر تھی، اُسکا B.Pبھی نارمل تھا، اُس کی نیند بھی پوری ہو چکی تھی۔ سونے سے پہلے اُس نے سوپ بھی پیا تھا۔
محسن کھانے پینے کے بہت سارے سامان کے ساتھ کمرے میں داخل ہو ا تھا۔ اُس کے ساتھ اُس کا کا ڈرائیور تھا۔ وہ یہ سارا سامان اپنے گھر سے لے کر آیا تھا۔
”کیسی ہیں آپ……… نوشی صاحبہ“ محسن نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
امی نے آپ کے لیے یخنی بنا کر بھیجی ہے خود اپنے ہاتھوں سے اور آپ کے لیے کھانا بیگم صاحبہ چلو جلدی سے نکالو“ محسن نے نوشی اور توشی کو باری بار بولا ۔
توشی نے پہلے نوشی کو یخنی پلائی اُس کے بعد وہ دونوں کمرے میں پڑے صوفہ سیٹ پر بیٹھ گئے اور کھانا سینٹر ٹیبل پر رکھ لیا، دونوں میاں بیوی کھانا کھانے مین مصروف ہوگئے۔
محسن اپنے ہاتھ سے توشی کو کھلا رہا تھا اور نوشی دیکھ رہی تھی، اور اُسے ولید یاد آرہا تھا۔ نوشی کی آنکھوں سے ایک بار پھر خاموش اشک بہنے لگے تھے۔ محسن کی نظر پڑی تو اُس نے بات بدلی۔
”سالی صاحبہ آپ خالہ بننے والی ہیں، اس لیے ان کی اتنی خدمت کر رہا ہوں۔“
توشی نے سنا تو شرمانے لگی
”آپ بھی، میں خان صاحب کو دیکھ کر آتی ہوں انہوں نے بھی کچھ نہیں کھایا ہے“ خان صاحب کھانا کھا کر پھر کمرے سے باہر نکل گئے تھے وہ کسی طرح شعیب کو بچانا چاہتے تھے۔
توشی نے نوشی کو میڈیسن کھلائی ”توشی……مبارک ہو“ نوشی نے گلے کے انداز میں کہا
”خیر مبارک……“ توشی نے اُسی انداز میں جواب دیا ناراضی سے۔
دونوں بہنیں اپنی سوچوں میں گم تھیں توشی نے نوشی کو بتانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔
”بلال نہیں آیا یہاں پر………“ محسن نے پوچھا
”میں نے خود ہی……اُسے اور دادی کو نہیں بتایا تھا……“ توشی نے جواب دیا۔
”توشی میں ہوں یہاں……تم ڈرائیور کے ساتھ گھر چلی جاؤ……کل سے ہو یہاں پر……مجھے تمہاری فکر ہے“ محسن نے فکر مندی سے کہا
ڈاکٹر صاحب…پلیز، آپ کو معلوم ہے…میں آپ کی ہر بات مان لیتی ہوں…میں گھر پر بھی بے چین ہی رہوں گئی………پلیز………“
توشی نے محسن کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے التجا کی ۔
”ٹھیک ہے……جیسے تمہاری خوشی……“
”THANK YOU………ڈاکٹر صاحب“ توشی نے محبت سے کہا ۔
رات دس بجے کے قریب جمال رندھاوا اندر داخل ہوئے تھے۔ نوشی اپنے بیڈ پر سوئی ہوئی تھی، اور توشی محسن کے کندھے پر سر رکھ کر سوگئی تھی۔ محسن صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا۔
جمال کے پیچھے بلال نے اپنی نانی کا ہاتھ پکڑے ہوا تھا۔ وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔
جمال دوپہر کو گھر جانے کے بعد سوگئے تھے شام سات بجے وہ اُٹھے اور بلال کو فون کیا اور اُس کے گھر کا ایڈریس پوچھ کر وہاں چلے گئے تھے۔جمال نے خود اپنی ماں کے سامنے بلال کی بے گناہی کا اعلان کیا تھا۔ اور ہاتھ جوڑ کر بلال سے معافی مانگنی ۔
”بلال بیٹا میں تم سے شرمندہ ہوں“ جمال نے بلال کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا۔
”کیوں ماموں جان مجھے گناہ گار کر رہے ہیں“ بلال نے جمال کے جوڑے ہوئے ہاتھوں کو تھام لیا ”باپ بیٹے سے معافی مانگتا ہوا اچھا نہیں لگتا“ اس کے بعد جمال نے ساری تفصیل اپنی ماں اور بلال کو بتائی تھی۔
تب اُسی وقت بلال نے اپنی نانی کو ساتھ لیا اور جمال کے ساتھ ہی ہاسپٹل آگیا تھا۔ نوشی اور توشی جاگ گئی تھیں جمال کے آنے کی وجہ سے، جمال نوشی کو دیکھ کر خوش ہو گئے تھے۔ جمال نے نوشی کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اپنی ماں کو راستہ دیا نوشی سے ملنے کا
”محسن بیٹا چلو ڈاکٹر سے پوچھتے ہیں……… وہ لوگ کب تک ڈسچارج کر دیں گے نوشی کو“ جمال رندھاوا اور ڈاکٹر محسن وہاں سے چلے گئے تھے۔
”میری بچی………میری جان……“ جہاں آرابیگم نے نوشی کی پیشانی چومی جو کہ بیڈ سے ٹیک لگائے ہوئے بیٹھی تھی۔ اس کے بعد جہاں آرا نوشی کے بیڈ کے ساتھ پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی۔
بلال آگے آیا اور نوشی کی طرف دیکھ کر بولا
”نوشی جی……اب کیسی طبیعت ہے آپ کی“ بلال نے یہ بات سنجیدگی سے پوچھی تھی۔ مگر نوشی نے بلال کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور گردن دوسری طرف موڑ لی غصے سے۔
جہاں آرابیگم اور توشی نے دیکھ لیا تھی، نوشی کی یہ بداخلاقی۔ بلال وہیں کھڑا تھا۔ نوشی کے سامنے اُسی وقت ناہید اندر داخل ہوئی، بلال کو نوشی کے سامنے دیکھا تو اُس کے تن بدن میں جیسے آگ ہی لگ گئی تھی۔
”یہ بے غیرت یہاں کیا کر رہا ہے، یہ گندا اور ناپاک شخص، بدکردار اور بے حیا………“
ناہید غصے سے آگ بگولہ تھی بلال کو اُس نے بے شمار گالیاں دیں ایک منٹ کے اندر اندر، بلال پھر بھی خاموش تھا۔
جہاں آرابیگم اور توشی اس سے پہلے کہ بولتیں جمال اور محسن بھی کمرے آچکے تھے۔ ناہید اُن دونوں سے بے خبر تھی۔ اُس کا منہ بلال کی طرف تھا۔
”شعیب نے اُس دن ٹھیک کہا تھا، تمہاری نسل ہی گندی ہے“ ناہید نے آگئے بڑھ کر زور دار طمائچہ بلال کے گال پر دے مارا ۔
جمال رندھاوا نے پیچھے سے ناہید کو اُس کے بالوں سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا کمرے سے باہر لے گیا۔
کوریڈور میں بہت سارے افراد تھے جن میں کچھ اسٹاف کے لوگ، کچھ مریضوں سے ملنے ملانے والے اور اُن میں سے کچھ رندھاوا فیملی کو جاننے والے بھی تھے۔
نوشی کو چھوڑ کر باقی سارے افراد بھی جمال سے ناہید کو بچانے کے لیے کمرے سے نکل آئے جمال رندھاوا نے سب کے سامنے تھپڑوں کی بارش اپنی بیوی کے گالوں پر کردی۔ محسن اور بلال آگے بڑھے تو توشی نے دونوں کو اُن کی کلائیوں سے پکڑ لیا تھا۔
”میری ماں یہ سلوک ڈیزور کرتی ہے“ توشی نے روتے ہوئے کہا
”تم ہو کسی گندے خاندان کی تمہاری رگوں میں کسی گندے اور خبیث انسان کا خون ہے، میں نے تم سے زیادہ گھٹیا عورت اپنی زندگی میں نہیں دیکھی، جس نے اپنی ضد اور لالچ کی وجہ سے اپنی ہی بیٹی کی زندگی برباد کر دی، تم ہوساری بربادی کی وجہ………“
جمال رندھاوا غصے سے بول رہے تھے سب کے سامنے، تماشہ دیکھنے والوں کا ہجوم لگا ہوا تھا اور ناہید بکھرے بالوں کے ساتھ فرش پر بیٹھی ہوئی تھی ،اُس کے ہونٹوں اور ناک سے خون بہہ رہا تھا۔
بلال نے دیکھا تو اُس نے توشی سے اپنی کلائی چھڑائی اور آگے بڑھ کر ناہید کا دوپٹہ پکڑا جو کہ فرش پر گرا ہوا تھا اُٹھایا اور ناہید کو جا کر سنبھالا اور اُسے فرش سے سہارا دے کر اُٹھایاا ور ناہید کا دوپٹہ اُس پر ڈال دیا۔
”ناہید دیکھو اُس کو، جس نے تمہیں اُٹھایا ہے۔ تم نے اس کو ساری زندگی نفرت سے دیکھا ہے“ جمال نے درد اور تکلیف سے کہا تھا۔
نوشی بھی اپنے بیڈ سے اُٹھ کر دیوار کے ساتھ ساتھ اُس کے سہارے کمرے کے دروازے تک پہنچ گئی تھی۔ جب اُس نے دروازہ کھولا تو ناہید نے بولنا شروع کیا۔
”یہ سب کچھ بلال کے کہنے پر تو میرے ساتھ ہوا ہے۔ اچھا بدلہ لیا تم نے بلال مجھ سے……… چھوڑو مجھے یہ ہمدردی سب دکھاوا ہے“ ناہید نے بلال کی گرفت سے خود کو چھڑایا اور اُسے حقارت سے زور کا دھکا دیا، بلال گرتے گرتے بچا تھا۔
جمال نے ایک بار پھر ناہید کا یہ تضحیک آمیز رویہ بلال کے ساتھ دیکھا تو وہ غصے میں اپنے ہوش کھو بیٹھا
”ناہید………میں تمہیں………طلاق دیتا ہوں……طلاق………طلاق دیتا ہوں، ہاسپٹل کے کوریڈور اور ہال کے اندر خاموشی چھا گئی سب لوگ ایک دوسرے کو حیرت سے تک رہے تھے۔ ایک عجیب طرح کا سناٹا چھا گیا تھا۔
ناہید بکھرے بالوں اور بہتے ہوئے خون کے ساتھ بڑی مشکل سے ایک سیٹ پر بیٹھ پائی تھی۔
توشی اپنی ماں کی طرف لپکی، توشی اپنی ماں کو قصور وار ضرور سمجھتی تھی اس ساری صوتحال کا، اُس کا باپ اُس کی ماں کو یہ سزا دے گا اُس نے سوچا بھی نہیں تھا۔
”اب تو تم خوش ہو………میرا گھر برباد کر کے……“ ناہید نے روتے ہوئے بلال کی طرف دیکھ کر چیخ کر کہا تھا۔ بلال کے چہرے پر افسردگی تھی۔
وہ اپنے ماموں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جیسے کہہ رہا ہوں ماموں جان یہ آپ نے کیا کر دیا ہے۔
جہاں آرابیگم سسکیاں لے لے کررو رہیں تھیں محسن نے اُنہیں سنبھالا ہوا تھا۔
نوشی دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے، نفرت اور غصے کے ساتھ بلال کو دیکھ رہی تھی۔ اس ساری خاموشی کو شعیب کے اندر دوڑ کر آتے ہوئے بوٹوں کی آواز نے توڑا، جب وہ ہال کے اندر آکر رکا۔ اُس کے پیچھے پیچھے گل شیر خان بھاگتا ہوا اندر آیا تھا، پھولی ہوئی سانس کے ساتھ وہ دونوں اس بات سے انجان تھے کہ اندر کیا ہوا ہے، شعیب کی ہلکی سی نظر اپنی ماں کی ناک سے بہتے ہوئے خون پر پڑی تھی۔
وہ ہجوم کو پیچھے ہٹا کر آگے جانا چاہتا تھا گل شیر خان نے شعیب کو بازو سے پکڑا اور زور سے اپنی طرف کھینچا ۔
”شعیب صاحب میں کب سے آپ کو تلاش کر رہا ہوں آپ کا نمبر بھی بند ہے، آپ نکلو یہاں سے“ گل شیر خان نے دبی ہوئی آواز کے ساتھ شعیب کے کان میں کہا۔ گل شیر خان نے ناہید کو نہیں دیکھا تھا۔ شعیب نے خان کی بات پر دھیان نہ دیا۔ شعیب نے جھٹکے کے ساتھ گل شیر خان سے اپنا بازو چھڑایا اور آگے کی طرف بڑھا۔
”میری بات سنو شعیب صاحب اور نکلو یہاں سے“ گل شیر خان نے شعیب کو پیچھے سے اپنے بازوؤں سے دبوچا اور اُس کے کان میں پھر التجا کی
”چھوڑو مجھے خان………یہ کیا بدتمیزی ہے“ شعیب نے گل شیر خان کی گرفت سے خود کو چھڑایا اور لوگوں کے درمیان سے گزرتا ہوا اپنی ماں کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ گل شیر خان نے پھر کوشش کی وہ شعیب کے پیچھے آئے جب خان کی نظر ناہید پر پڑی تو وہ سائیڈ پر کھڑے ہوگئے۔
گل شیر خان نے جمال رندھاوا کی طرف دیکھا جواب بھی قہر آلود نگاہوں سے ناہید اور شعیب کو دیکھ رہے تھے۔
جمال کی رگیں ایک بار پھر تن گیں تھیں۔ اُن کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا بھی اس سازش میں برابر کا شریک تھا، جس سے بلال کو تو کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ ہاں البتہ نوشی کی زندگی ضرور برباد ہو گئی تھی۔ گل شیر خان بغیر دیکھے اور بغیر سنے ہی ساری کہانی سمجھ گئے تھے۔
شعیب نے گردن موڑ کر غصے سے بلال کی طرف دیکھا
”چلوبھی………چلو………سب لوگ اپنا اپنا کام کرو“ گل شیر خان نے کھڑے ہوئے افراد سے کہا ۔
گل شیر خان کا قد کاٹھ اور رعب دار آواز نے سب افراد پر فوراً اپنا اثر چھوڑا سب لوگ ایک منٹ کے اندر ہی دائیں بائیں تتر بتر ہو گئے ۔
اب کوریڈور اور ہال خالی تھا شعیب اُٹھا اور بلال کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا
”تم نے میری ماں کے ساتھ……“ شعیب کو صرف یہ بولنے کا موقع ملا تھا۔
ایک زور دار تھپڑ اُس کے گال پر پڑا جس کی وجہ سے وہ ایک لمحے میں زمین پر گر گیا۔ ایک مضبوط قد کا ٹھ کے شخص نے اُسے گریبان سے پکڑا اور اُٹھایا
”کچھ بھی نہیں ہوا ہے………تمہاری ماں کے ساتھ………یاد کرو تم نے میری معصوم بچی کے ساتھ کیا کیا نہیں کیا………حرام زادے………میں تجھے عبرت کا نشان بنا دوں گا“
”کرنل حشمت خان چھوڑو میرے بیٹے کو……“ جمال رندھاوا نے غصے سے آگے بڑھتے ہوئے کہا ”جمال رندھاوا میں چوہدری ارشاد رندھاوا کو بھی جانتا تھا۔
اور تجھے بھی جانتا ہوں۔ مجھے خود یقین نہیں آ رہا ہے… کہ تیرا خون اتنا گندا ہو سکتا ہے…چوہدری ارشاد رندھاوا تو لوگوں کی بہو بیٹوں پر چادر ڈالنے والا تھا، تونے کسی پر عزت کی چادر تو نہیں ڈالی مگر کسی عورت کو ساری زندگی گندی نظر سے بھی نہیں دیکھا………پھر یہ سور کس کی اولا د ہے“ کرنل حشمت خان نے ایک اور زور دار تھپڑ شعیب کو مارا دائیں ہاتھ کے ساتھ اور بائیں ہاتھ سے اُس کا گربیان پکڑا ہوا تھا۔
” انکل بتائیں تو سہی آخر بات کیا ہے“ بلال نے تحمل اور ہمدردی سے کرنل حشمت خان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔
کرنل کا غصہ دکھ کی شکل اختیار کر گیا تھا۔
”انسپکٹر اسے میری نظروں سے دور لے جاؤ“ پولیس کے آٹھ دس جوان کھڑے تھے اُن کے ساتھ آٹھ دس لوگ سادہ لباس میں تھے شاید خفیہ اداروں کے لوگ ہوں انہوں نے شعیب کو ہتھ کڑی لگائی اور وہاں سے لے گئے۔
”بلال بیٹا اس نے اور اس کے دوستوں نے میری پھول جیسی بیٹی سے زیادتی کی اور اُسے قتل کر کے کھیتوں میں پھینک دیا، بڑا ظلم کیا ہے، جمال رندھاوا کے بیٹے نے……“
کرنل روتے ہوئے بلال کے گلے لگ گیا چند منٹ بالکل خاموشی رہی صرف کرنل کے رونے کی آواز سے ہال اور کوریڈور میں جان تھی۔
”جمال یہ بھی تو تمہارا بھانجا ہے، میری بیوی بہو گھر میں اس کی مثال دیتی ہیں، میرے پوتے اور نواسے اسی کے اسکول میں پڑتے ہیں“
کرنل حشمت خان نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تھا۔
اب وہ کوریڈور سے چلتا ہوا ہال میں پہنچ گیا وہاں جا کر کرنل صاحب کو نہ جانے کیا خیال آیا وہ رک گیا اور پیچھے مڑکر ناہید کی طرف دیکھا اور ایک نظر جمال پر ڈالی
”جمال اپنی بیوی سے پوچھنا ضرور، وہ سُور کس کی اولاد ہے………“
کرنل حشمت خان جاتے جاتے ناہید کو بہت بڑی گالی دے گیا تھا، سب خاموش تھے۔ کرنل کی گالی سُن کر بھی، جمال کے لیے آج قیامت کادن تھا، وہ طلاق دے کر بھی ذلت محسوس کر رہا تھا۔
وہ باہر کھلی فضا میں جانا چاہتا تھا وہ چلتا ہوا ہاسپٹل کے ہال سے باہر آگیا تھا۔ اُس کے سامنے اُترنے کے چار زینے تھے لان میں جانے کے لیے جو کہ مرکزی ہال کے بالکل سامنے ہی تھا۔
جب جمال نے پہلے زینے پر قدم رکھا اُ سکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ جمال نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سینے کو پکڑا ، پھر بھی وہ اپنے دل کو نہیں سنبھال پایا ۔
دور اتنا شدید تھا کہ جمال رندھاوا گرتا ہوا سیڑھوں سے نیچے تھا۔ بلال کی نگاہیں مسلسل جمال کا تعاقب کررہیں تھیں۔ جب بلال نے جمال کو دونوں ہاتھ سینے پر رکھتے ہوئے دیکھا تو اُس نے اُسی لمحے دوڑ لگادی تھی، جمال کی طرف تب تک بہت دیر ہو چکی تھی جمال زمین پرگر چکا تھا۔
جمال کو فوراً ایمرجنسی میں لے جایا گیا تھوڑی دیر بعد سینئر ڈاکٹر نے آکر بتایا
”ہارٹ اٹیک تھا……… جو جان لیوا ثابت ہوا“ ڈاکٹر یہ بتا کر چلا گیا تھا
یہ سن کر جہاں آرا اور توشی ایک دوسرے سے لپٹ کر رونے لگیں، گل شیر خان بلال کے گلے لگ کر رو رہا تھا۔
محسن کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے شاید وہ بھی یا کوئی اُس کے ساتھ لپٹ کر روتا مگر وہاں تھا کوئی نہیں، ایمرجنسی کے باہر۔ محسن نے نوشی کو جمال کے اٹیک سے پہلے اور شعیب کو پولیس کے لے جانے کے بعد اُس کے بستر پر لٹا دیا تھا، ایک نرس کی مدد سے۔ (مگر ناہید کہاں ہے) محسن نے کہا۔ وہ بھاگتا ہوا کوریڈور میں آیا جہاں پر ناہید اسٹیل کی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔
اب وہ زمین پر گر چکی تھی اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔
محسن نے ناہید کو تھامتے ہوئے ”ایمرجنسی………ایمرجنسی………“ کی آواز لگائی تھی۔
ناہید پر فالج کا اٹیک ہو اتھا جس کی وجہ سے اس کی زبان بند ہو گئی تھی اور اُس کا دایاں حصہ مفلوج ہو چکا تھا۔یہ رات قیامت کی رات تھی، رندھاوا فیملی پر ،ایک رات کے اندر اندر ہی شعیب سلاخوں کے پیچھے جمال رندھاوا اگلے سفر پر روانہ ہو چکے تھے، اور ناہید ایمرجنسی کے بستر پر نہ مردوں میں اور نہ زندوں میں
###
بابا جمعہ بلال سے کہا کرتے تھے بلال بیٹا جب بھی مانگو دعا ہی مانگو بدعا نہ مانگو، یہ بلال کی بددعا ہر گز نہیں تھی۔ یہ قدرت کا انصاف تھا۔
”یا اللہ میرے ماموں کی بخشش فرما اور میری ممانی کی مشکل آسان کر دے اُن کو صحت وتندرستی عطا فرما آمین“ بلال نے ظہر کی نماز کے بعد یہ دعا مانگی تھی، صبح 10 بجے جمال رندھاوا کا جنازہ تھا۔
چند دن ہاسپٹل میں رکھنے کے بعد ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ ناہید کو گھر لے جائیں اور وہیں پر اُن کی دیکھ بھال کے لیے ایک نرس کا بندوبست کر لیں۔
ڈاکٹر محسن نے ایک نرس کا بندوبست کر دیا تھا، اور وہ خود ہر دوسرے دن ناہید کو چیک کرتا تھا۔ ناہید کی جان تو بچ گئی تھی مگر وہ بول نہیں سکتی تھی اور اُس کے جسم کا دایاں حصہ بھی حرکت نہیں کر رہا تھا۔
نوشی اب ٹھیک تو تھی مگر اُس کی رنگت بالکل ہلدی جیسی ہو گئی تھی اور وہ اب بہت کم بولتی تھی، نرس کے ساتھ ساتھ وہ بھی اپنی ماں کا خیال رکھتی تھی۔
نوشی کو اب اپنی ماں سے اور زیادہ محبت ہو گئی تھی وہ اب بھی سمجھتی تھی کہ یہ سب کچھ بلال ہی کے کہنے پر اُس کے باپ نے اُس کی ماں کے ساتھ کیا تھا۔
نوشی اپنی ماں اپنے بھائی اور ولید کی سازش سے بھی انجان تھی، جو انہوں نے بلال کو رسوا کرنے لیے بنائی تھی نوشی اپنی طلاق کا قصوروار اب بھی بلال ہی کو سمجھتی تھی۔
برسات کا موسم آکے گزر گیا تھا اب آنکھوں سے برسنے والی قطرے بھی تھم گئے تھے ہلکی ہلکی سردی شروع ہو چکی تھی بلال اور عادل اکثر ولی خان کے پاس بیٹھتے وہ اُس کے ساتھ چائے پیتے اُس سے باتیں کرتے، ولی خان اکثر کہہ دیتا ”صاحب میں کیا جانوں میں تو اسکول ہی نہیں گیا“ جب عادل اُس سے کوئی سوال پوچھتا، بابا جمعہ سمجھ کر عادل ولی خان میں بابا جمعہ کو تلاش کر رہا تھا۔
ولی خان صرف نام کا ولی تھا۔ مگر وہ ایک کردار کے ولی کی گدی پر بیٹھا ہوا تھا۔ بقول بابا جمعہ کے عاجزی پہلی سیڑھی ہے اُس سفر کی طرف ولی خان میں عاجزی بہت تھی۔ شاید اُسے بھی اُس سفر پر جانا نصیب ہو جائے عادل نے اب اپنے باپ کا بزنس سنبھال لیا تھا۔ وہ بہت مصروف بھی ہو گیا تھا۔ اُسکے باوجود وہ صبح کی نماز نورانی مسجد ہی میں ادا کرتا تھا۔
کبوتروں کو دانہ ڈالتا اور بلی کو دودھ پلاتا اور رات کے لیے دودھ ولی خان کو دے کر جاتا کہ جب وہ گھر کے لیے نکلے تو بابا جمعہ کی کالی بلی کو دودھ ضرور پلادے۔
طارق رامے اور عجاز جنجوعہ کی نونک جھونک اب بھی ہوتی رہتی تھی۔ فرق صرف اتنا پڑا تھا اب اعجاز جنجوعہ بھی اُسے بیوی سے ڈرنے کے طعنے خوب دیتا تھا۔
طارق رامے نے اپنی والدہ کی پسند سے چیچا وطنی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شازیہ چغتائی سے شادی جو کر لی تھی۔
ڈاکٹر شازیہ لاہور کے گنگارام ہاسپٹل میں جاب کرتی تھی۔
بڑی عید آ گئی، کروڑوں لوگوں نے قربانی کی، قربانی کرنے والے کروڑوں…… اور قربان دینے والے ہزاروں………
سردی اب بڑھ گئی تھی۔
فوزیہ چھٹیوں پر تھی وجہ اُس کو اللہ نے ایک چاند سا بیٹا دیا تھا۔ جس کانام اُس کی ساس اور ماں نے ہی رکھا تھا محمد بلال……… ایک دن بلال اپنے آفس میں تھا، آفس بوائے نے آکر بتایا ”سر ایک لڑکی نوین حیات آپ سے ملنا چاہتی ہے“ ”ٹھیک ہے بھیج دو“ بلال نے بغیر تاثر کے بولا تھا
نوین عرف نیناں آفس میں داخل ہوئی اب اُس نے نقاب نہیں کیا ہوا تھا، صرف کپڑے کی بڑی سی کالی چادر اُوڑھ رکھی تھی۔
”سر اسلام علیکم……“ نیناں نظریں جھکا کر بولی ۔
”نوین حیات بیٹھو……… کیسے آنا ہوا……“ بلال نے تحمل سے پوچھا
”سر مجھے نوکری چاہیے………“ نیناں نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔
”فوزیہ کی سیٹ پر بیٹھ جاؤ اُس کے واپس آنے تک، آجکل فوزیہ چھٹیوں پر ہے اُس کے آنے کے بعد تم اپنے پرانے آفس میں کام کرو گئی……“ بلال نے نیناں کو ایک نظر دیکھ کر ہی فیصلہ کر لیا تھا۔
نیناں یہ سُن کر ہکابکا رہ گئی، اُس نے حیرت سے بلال کی طرف دیکھا، بلال نے بھی نیناں کے نینوں کو غور سے دیکھا جنہوں نے حیا کی عینک پہنی ہوئی تھی۔نیناں نے کالی چادر کے ساتھ ساتھ حیا کی چادر بھی اوڑھ رکھی تھی۔
###
28 نومبر بروز جمعہ عادل عقیل ہاشمی کا نکاح ڈاکٹر عظمی افگن نیازی کے ساتھ تھا، جو کہ ماڈل ٹاؤن کی ایک مسجد میں بریگیڈئر امان اللہ صاحب نے پڑھایا تھا۔
29 نومبر کو ایک عالی شان ہوٹل میں ولیمے کی دعوت ہوئی جس میں شہر کی مشہور ہستیوں نے شرکت کی تھی۔بلال کو عادل نے ولیمہ اور نکاح کی تقریب میں خصوصی پروٹوکول دیا تھا۔ چند دن بعد عادل اور عظمی عمرہ ادا کرنے کے لیے چلے گئے تھے۔ عادل حج پر جانا چاہتا تھا، اپنی شادی سے پہلے مگر بلال اپنے اسکول کی بلڈنگ کے انٹیرئیر میں مصروف تھا، اس لیے عادل نے اگلے سال کا پروگرام بنایا تھا حج کے لیے۔
بلال کے اسکول کی ایک اور الگ بات تھی۔
JUST اقرا ہائی اسکول میں سالانہ امتحان دسمبر میں ہوتے یکم دسمبر سے 15 دسمبر تک 25 دسمبر کو رزلٹ اور یکم جنوری سے نئی کلاسوں کا آغاز صرف بورڈ کے امتحانات میں وہ پنجاب بورڈ کے مطابق چلتا تھا۔
بلال یکم جنوری 2015 سے اپنے اسکول کی نئی بلڈنگ میں شفٹ ہو کر نئی کلاسزز کا آغاز کرنا چاہتا تھا، اس لیے اس کی مصروفیت بڑھ گئی تھی۔
30 دسمبر تک بلال نے سارا کام مکمل کر لیا تھا۔ اسکول کی عمارت کو سجایا گیا تھا بلال کی اس خوشی کو سیلی بریٹ کرنے کے لیے 31دسمبر کی رات اپنے گھر پر ایک دعوت کا اہتمام کیا تھا، توشی اور محسن نے
ویسے بھی جمال رندھاوا کے مرنے کے بعد سے ان سب نے کوئی پروگرام نہیں بنایا تھا نوشی کی عدت بھی پوری ہو چکی تھی، توشی یہ چاہتی تھی کہ وہ سب اُس غم سے باہر نکل آئیں اور زندگی گزارنے سے زندگی جینا شروع کر دیں۔
توشی کے بے حد اصرار پر اُس کی بہن نوشی نے اس دعوت میں شرکت کی تھی جس میں صرف گھر کے افراد ہی تھے۔
توشی نے خاص طور پر رندھاوا ہاؤس کے سارے ملازموں کو فرداً فرداً فون کر کے بلایا تھا۔ جس میں گل شیر خان، باجی غفوراں، DJ، اور SMS اور باقی سارے ملازم بھی شامل تھے۔
نوشی اور بلال کا کھانے کے دوران ایک بار آمنا سامنا ہوا تھا۔
نوشی کی آنکھوں میں بلال کے لیے نفرت ہی تھی۔ بلال کا ماننا تھا آنکھیں دل کا حال بیان کر دیتی ہیں، صرف وہ حال پڑھنے والی آنکھ ہونی چاہیے۔
نوشی جلدی چلی گئی تھی۔
”توشی میں چلتی ہوں………ماما کو صرف نرس کے سہارے تو نہیں چھوڑ سکی………“جانے سے پہلے نوشی نے کہا تھا……سب لوگ جا چکے تھے۔ جہاں آرابیگم اپنے بیٹے کے گزرنے کے بعد سے رندھاوا ہاؤس واپس چلی گئیں تھیں۔
سب مہمانوں کے جانے کے بعد لاؤنج میں محسن اور توشی کے ساتھ بلال کافی پی رہا تھا، 12 بجنے میں 10 منٹ باقی تھے توشی نے کافی کا سیپ لیتے ہوئے وال کلاک کی طرف دیکھا تھا۔
”زندگی کا ایک اور سال ختم ہونے والا ہے……… اس سال مجھے محسن جیسا ہمسفر ملا……… اور میرے پاپا نے اس سفر میں میرا ساتھ چھوڑ دیا………“ توشی نے مسکرانے کی کوشش کی تھی ”اِسی کا نام زندگی ہے………انشااللہ نیا سال ہماری زندگی میں بے شمار خوشیاں لے کر آئے گا………“ محسن نے توشی کے بڑھئے ہوئے پیٹ کی طرف دیکھ کر کہا، وہ ماں جو بننے والی تھی اور جنوری کے آخر میں ڈلیوری کا وقت ڈاکٹروں نے بتایا تھا۔
توشی نے محسن کی یہ بات سنی تو نظریں جھکا لیں، بلال اُن کے سامنے بیٹھا ہوا تھا جو نظریں جھکائے صرف اُن دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔
”بلال میری ایک بات مانوں گئے“ توشی نے ہچکچاتے ہوئے کہا تھا، بلال نے توشی کی طرف غور سے دیکھ جیسے پوچھ رہا ہو……کیا بات………
”میری بہن سے شادی کر لو“ توشی نے التجا کی تھی بلال کے چہرے پر سنجیدگی بڑھ گئی مگر وہ خاموش رہا
”کیا سوچ رہے ہو………بلال………توشی نے تم سے کچھ کہا ہے“ محسن نے بات آگے بڑھائی ”ہم دونوں نے سوچ سمجھ کر یہ بات تم سے کی ہے“ بلال نے سخت ٹھنڈ میں بھی ٹھنڈی سانس لی۔
”محبت انسان کو بہادر بناتی ہے………محبت اگر ڈرانا شروع کر دے تو……“ ”تم ڈرتے ہو؟“توشی نے بلال کی بات پوری نہیں ہونے دی اور مسکراتے ہوئے بولی تھی۔
”ہاں میں ڈرتا ہوں……نفرت سے…“ بلال نے جواب دیا
”بھائی میرے کس کی نفرت سے“ محسن نے تجسس سے پوچھا
”نوشی کی آنکھوں میں میرے لیے نفرت کے شعلے ہیں………مجھے اُس کی انکھوں میں محبت کے قطرے نظر نہیں آئے۔ کسی کو مارنے کے لیے نفرت کے دو بول زہر کا کام کرتے ہیں…موت بیچاری تو ویسے ہی بدنام ہے……“ بلال نے کہا ۔
”میں کل اُس نفرت کی وجہ دور کردوں گئی……… نوشی کو اس سارے معاملے کی خبر نہیں ہے…… میں کل اُسے ماما، شعیب اور ولید کی اصلیت بتادوں گئی…… کس طرح ان تینوں نے مل کر تمہارے خلاف سازش کی تھی اور نوشی کو تمہارے خلاف کردیا تھا……“
”توشی جی اب آپ اپنی بہن کو یہ سب کچھ بتا کر اپنی بیمار ماں کے خلاف کرنا چاہتی ہیں۔
شعیب جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے ولید دبئی میں مزے کر رہا ہے، سب سے زیادہ نقصان ممانی جان کو ہوگا……ویسے بھی جس سچ کی ضرورت نہ ہو اُس پر پردہ ہی بہتر ہے……… میں نوشی کو ممانی کے خلاف کر کے اُس کی نظروں میں ہیرو نہیں بننا چاہتا……… نفرت کے بدلے محبت کا یہ سودا مجھے منظور نہیں ہے……“بلال نے توشی اور محسن کو لاجواب کر دیا تھا۔
”اور مجھے پورا یقین کہ آپ نے نوشی سے اِس بارے میں پوچھا ہی نہیں ہو گا……“ بلال نے مسکراتے ہوئے سنجیدگی کو ختم کیا جو کہ توشی کے چہرے پر تھی۔
”توشی جی آپ میری ایک بات مان لیں………آپ اپنے دل سے ممانی جان کے لیے غصہ نکال دیں وہ جیسی بھی ہیں آپ کی ماں ہیں……ماں جیسی بھی ہو جنت میں موسی کا پڑوسی بنا دیتی ہے……“
بلال یہ کہہ کروہاں سے چلا گیا تھا۔
”جنت میں موسی کا پڑوسی“ توشی نے کچھ سوچتے ہوئے محسن کی طرف دیکھا اُس کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی تھی۔
###
اگلے دن یکم جنوری کو توشی ضد کر کے رندھاوا ہاؤس اپنی ماں سے ملنے گئی تھی، محسن ایک شرط پر مانا تھا کہ وہ خود اُس کے ساتھ جائے گا۔
توشی اپنے باپ کے مرنے کے بعد د وسری دفعہ اپنی ماں ناہید سے ملنے گئی تھی، وہ جاتے ہی اپنی ماں کے گلے لگ کر بہت روئی ، اُس نے اپنی ماں کے ہاتھ چومے ناہید کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔
”ماما کل مجھے بلال نے کہا تھا………ماں جیسی بھی ہو………جنت میں موسی کا پڑوسی بنا دیتی ہے……آپ تو سب سے اچھی ماں ہیں“
”بلال بیٹا خدا کے لیے………مجھے معاف کردو……… ایک دفعہ آکر مجھ سے مل جاؤ…… میں آنسو بہا کر ہی تم سے معافی مانگ لوں گی………“ناہید نے دل میں کہا تھا۔ ناہید کی آنکھوں سے آنسو توشی نے صاف کیے تھے۔
”ماما کے سونے کا وقت ہو گیا ہے“ نوشی نے توشی اور محسن کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا تھا نوشی کو اپنی ماں کے آنسو دیکھ کر اذیت محسوس ہو رہی تھی۔
”نوشی مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے“ توشی نے لاونج میں بیٹھتے ہوئے کہا
”بولو………میں سن رہی ہوں“ نوشی نے روکھے انداز میں جواب دیا ۔
”بلال پر یہ الزام شعیب ولید اور……“ اور کے بعد توشی رُک گئی تھی مگر نوشی اور کے بعد ”اور……اور کچھ کہنا چاہتی ہو……“ نوشی نے تلخی سے کہا تھا”خبر ہے مجھے“ نوشی بول پڑی تھی ”پھر یہ نفرت کیوں“ توشی نے تحمل سے پوچھا
”محبت کا اچار ڈالوں……مجھے طلاق ہو گئی……میرا بھائی عمرقید کی سزا کاٹ رہا ہے……میرا باپ مرنے سے آدھ گھنٹہ پہلے میری ماں کے گلے میں طلاق کی مالا ڈال کر گیا تھا……… لوگ اُسے جمال رندھاوا کی بیوہ تو نہیں کہتے……… ایک طلاق یافتہ کا طعنہ ضرور دیتے ہیں“ نوشی دانت پیستے ہوئے غصے سے بولی تھی۔
”ان سب باتوں میں بلال کا تو کوئی قصور نہیں تم پھر بھی……“ توشی نے شائستگی سے کہا ”پھر بھی مجھے بلال سے نفرت ہے………“نوشی نے بھڑکتے ہوئے کہا ۔
”وجہ پوچھ سکتی ہوں“ توشی نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
(اچھا بدلہ لیا تم نے بلال مجھ سے) ناہید کے الفاظ نوشی کے کانوں میں پڑئے (یہ سب کچھ مجھے بلال ہی نے بتایا تھا) ولید یہ کہتا ہوا نوشی کو نظر آرہا تھا نوشی نے کھا جانے والی نظروں سے توشی کو دیکھا محسن کو ڈر تھا اب یہ گفتگو لڑائی میں نہ بدل جائے، اُس نے توشی کا ہاتھ پکڑ کر صوفے سے اُٹھایا اور توشی کو بازو میں لے کر پورچ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف چل دیا ۔
نوشی کھڑی ہوئی اپنی بہن اور بہنوئی کو جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی اُس نے دل میں کہا ”توشی تمہیں تمہاری ڈلیوری کے بعد بتاؤں گئی میری اور ماما کی طلاق بلال ہی کی وجہ سے ہوئی تھی……… میں بلال سے رات کو ملنے جایا کرتی تھی اس بات کی تمہارے علاوہ کسی کو بھی خبر نہیں تھی……… اور بلال نے مجھ پر یہ گندا لزام لگایا تھا کہ میں اُس کا بستر سجاتی رہی ہوں…… اس وجہ سے ولید نے مجھے طلاق دی تھی ورنہ ولید تو بہت اچھا تھا میرے ساتھ محبت کرنے والا شوہر“
نوشی اب بھی ولید کو اچھا انسان سمجھتی تھی ولید نے نوشی سے اُس کی ساری دولت چھین لی تھی چالاکی سے مگر نوشی کے ذہن میں یہ بات تھی کہ یہ دولت تو میں نے خود ولید کو مجبور کر کے دی تھی، ولید بڑا خود دار انسان تھا۔
ویسے بھی جو چیز انسان کے پاس ضرورت سے بہت زیادہ ہو، اُس سے اُسے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا ہے۔ جمال رندھاوا کے مرنے کے بعد اُس کی بے شمار دولت کی وجہ سے نوشی کو کبھی بھی اپنی پراپرٹی کے چھن جانے کا خیال بھی نہیں گزرا تھا۔ اُس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ گھر میں صرف گل شیر خان اور توشی کو معلوم تھا اِس بارے میں اُن دونوں نے کبھی اس بات کا نوشی یا کسی اور سے ذکر تک نہیں کیا تھا اِس ڈر سے کہ نوشی ڈسٹرب نہ ہو جائے ،ویسے بھی توشی اور شعیب کی پراپرٹی کا سار اکرایہ بھی رندھاوا ہاؤس ہی آتا تھا ناہید کے نام پر جو فارم ہاؤس تھا وہاں سے اچھی خاصی رقم رندھاوا ہاؤس آجاتی تھی دونوں فیکٹریاں اب گل شیر خان دیکھتا تھا۔
جو ایمانداری اور دیانت سے سارا حساب کتاب جہاں آرابیگم کو دے دیتا تھا۔ نوشی کے نزدیک مدعا پراپرٹی ہاتھ سے جانے کا نہیں تھا۔ اُسے بلال سے نفرت اُس لیے تھی کہ اُس نے ولید سے اپنی اور نوشی کی ملاقاتوں کا ذکر کیا تھا، جس کی وجہ سے ولید نے اُسے طلاق دی تھی۔
نوشی یہ بھی سمجھتی تھی کہ بلال نے اُس کے باپ کو مجبور کیا تھا، کہ وہ نوشی کی ماں کو طلاق دے دے۔
ایک ہفتے بعد نوشی اپنی ماں کی دوائی لینے کے لیے گھر سے باہر گئی تھی فارمیسی سے نکلتے ہوئے اُس کی ایک شخص سے ملاقات ہو گئی۔
جس سے چند باتیں کرنے کے بعد نوشی نے توشی کو رندھاوا ہاؤس بلایا
”میں نہیں آسکتی ڈاکٹر صاحب اس حالت میں مجھے نہیں آنے دیں گے“ توشی نے فون پر معذرت کر لی ۔
نوشی نے محسن کو فون کر دیا تھا۔
”محسن بھائی……پلیز آخری بار……توشی کے ساتھ گھر آئیں بہت ضروری بات کرنی ہے… محسن بھائی انکار مت کیجیے گا۔
پاپا اور بھائی کے بعد ……آپ ہی اِس گھر کے کَرتا دھرتا ہیں“
نوشی نے صرف اپنی بات کی اور فون بند کر دیا ۔ نوشی کے اِس طرح بات کرنے کی وجہ سے محسن کو فکر لاحق ہوئی تھی۔محسن نے توشی کو اپنے ساتھ لیا اور رندھاوا ہاؤس پہنچ گیا۔ رات 8 بجے کے قریب جہاں آرابیگم کے کمرے میں توشی محسن اور نوشی موجود تھے۔
”بتاؤ کیا ضروری بات ہے……“ توشی نے پوچھا تھا
”میں بلال کے ساتھ نکاح کرنا چاہتی ہوں“ نوشی نے دل کی بات کر دی سب حیرت سے ایک دوسرے کو تکنے لگے۔
”کیا میں نے کوئی غلط بات کر دی ہے؟“ نوشی نے سب کے چہروں پر آئی حیرت کو دیکھ کر کہا تھا۔
”ٹھیک ہے نوشی بیٹی ہم بلال سے بات کریں گئے“ دادی نے دانائی سے جواب دیا ۔
”تو ٹھیک ہے اُسے بلائیں یہاں پر اور کریں بات………“ نوشی نے دو ٹوک کہہ دیا ۔
”رشتے کی بات کرنی ہے کوئی پیزا آرڈر نہیں کرنا کہ آدھے گھنٹے میں ڈلیوری مل جائے“ توشی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
”دس سال سے میں یہ سن رہی ہوں، بلال مجھ سے محبت کرتا ہے اور شادی کرنا چاہتا ہے۔
توشی میڈم یہ تم ہی تو کہتی تھی۔ اب میں اُس سے شادی کرنا چاہتی ہوں تو اُسے کیا اعتراضٰ ہو سکتا ہے“ نوشی نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا تھا۔
”نوشی دیکھو دادی ٹھیک کہہ رہیں ہیں ہم بلال سے بات کر لیتے ہیں۔ ایک دو دن کے اندر اندر………“ محسن نے نوشی کو سمجھانے کی کوشش کی ۔