top of page

دل کی دھڑکن بن گئے

از پری وش

قسط نمبر ایک

وہ بدنماساکمرہ تھا جس میں ذرد روشنی والا بلب جل رہا تھا.اسے وخشت ہو رہی تھی .وہ چٹائی پر گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی.کمرہ بہت چھوٹا تھا.اس لڑکی نے سر اٹھا کے ایک بار پھر اس کمرے کو دیکھا. ایک کونے میں لکڑیوں کا ڈھیر پڑا تھا.تھوڑے فصلے پر پانی کا گھڑا رکھا تھا اور ایک چٹائی تھی جس پر وہ بیٹھی تھی.یہی سامان تھا اس کمرے میں.ایک طرف دیوار پر ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی اور کافی اپر بنی
تھی جس کے آگے لوھے کی جالی لگی تھی.اور دوسری دیوار جس میں لکڑی کا دروازہ تھا.جو کہ مضبوطی سے بند تھا.وہ اٹھ کے کھڑکی کی طرف آیی اور پاؤں اٹھا کر باہر جھانک کے دیکھا . بےشمار درخت تھےوہاں ایسا لگ رہا تھا جیسے جنگل ہو .یہ کمرے کا پچھلا حصہ تھا اور کھڑکی کے اس پار سامنے وہ دو بد صورت آدمی بیٹھے تاش کھیلنے میں مگن تھے.وہ پیچھے ہو کر دیوار کے ساتھ لگ کے کھڑی ہوگئی.گالوں پر آنسوؤں کے نشان تھے.بال بکھرے ہوئے تھے اور گلہ خراب ہو چکا تھا.وہ عصر کے وقت لائبریری جانے کے لیے گھر سے نکلی تھی. جب سامنے گاڑی آ کے رکی اور اس میں سے تین آدمی نکلے پھر کیا ہوا اسے یاد نہیں جب اُسکی آنکھ کُھلی تو خود کو اِس کمرے میں پایا.وہ رو رو کے چیخ چیخ کے پوچھتی رہی اسے یہاں کیوں لایا گیا پر باہر سے کوئی جواب نہ آیا......
وہ سوچوں میں گم تھی کہ باہر سے قدموں کی چاپ سنائی دی.اسنے جلدی سے لکڑیوں کے ڈھیر میں سے ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھایا اور دروازے والی دیوار کے ساتھ لگ کے کھڑی ہوگئی.اور جیسے ہی دروازہ کھلا اسنےڈنڈا آنے والے کے سر پے دے مارا.وہ موٹا سا غنڈہ تھا. اُس کے ہاتھ سے کھانے کی پلیٹ گری اور وہ اِسکی طرف پلٹا.
"تیری تو .."وہ اتنا کہہ کر اسکی طرف بڑھا کہ اسنے کانپتے ہاتھوں سے ڈنڈے کو زور سے پکڑا اور آنکھیں بند کر کے اُسکے سر پے مارنے لگی اور اسکی چیخوں کی آواز بلند ہونے لگی تو دعا نے آنکھیں کھول کر دیکھا وہ آدمی زمین پے پڑا تھا. ہاتھوں سے سر تھاما ہوا تھا اور سر سے خون نکل رہا تھا.دعا نے ڈنڈاپھینکا اور کھُلے دروازے سے باہر بھاگ گئی.رُک کر اِدھر اُدھر دیکھا تو ماتھے پرپسینہ چمک اٹھا .وہ خوفناک جنگل میں پھنس گئی تھی. چاروں طرف انرھیرا تھا.بس چاند کی چاندنی تھی. وہ بھی گھنے درختوں کی وجہ سے نیچے نہیں پہنچ رہی تھی ....
" اللّه جی میں کیا کروں " اُسے رونا آنےلگا کہ اب یہاں سے کیسے نکلے گی ...."اوئے شیدے ، نورے لڑکی بھاگ گئی پکڑو اسے" اس آواز پر دعانے چونک کے پیچھے دیکھا اور پھر بھاگنا شروع کردیا. وہ بھاگ بھاگ کے تھک گئی تھی پر رکی نہیں.اسکی سانس پُھول رہی تھی . وہ آگے دور اسے سڑک دکھائی دی اسنے اور تیزی سے قدم آگے کی طرف بڑھائے آخر کار وہ سڑک پر پھنچی پر وہ روڈ بلکل سنسان تھا.دعا نے آسمان کی طرف دیکھا اور بولی " مجھے کوئی راستہ دیکھائیں یا اللّه مجھے اپنی جان کی پرواہ نہیں پر مجھے اپنی عزت بچانی ہے نہ جانے یہ لوگ مجھے کس مقصد کے تحت اغوا کر کے یہاں لائے ہیں" اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے.اس کو یہاں آ ئے نہ جانے کتنا وقت گزر چکا تھا.جنگل سے بھاگتے قدموں کی آواز آئی.دعا نے ڈر کے پیچھے دیکھا اور ایک بار پھر بھاگنے لگی کہ سامنے سے گاڑی کی ہیڈ لائٹس سے نکلتی روشنی اس کی آنکھوں چُھبنے لگی گاڑی پاس آئی اور دعا جو گاڑی کے سامنے کھڑی تھی.خوف کے مارے نیچے گری.اسے لگا وہ گاڑی سے ٹکرا جائے گی.پر ایسا کچھ نہیں ہوا اور گاڑی وقت پر رُک گئی.پھر گاڑی سے ایک لڑکا ، لڑکی باہر نکل کر دعا کی طرف آئے.لیکن تب تک وہ بیہوش ہو چکی تھی."اَرے یہ اکیلی یہاں کیا کرہی ہے " لڑکی نے کہاں
"ہے تو بڑی خوبصورت " لڑکے نے دعا کو دیکھتے ہوئے کہا اور پھر دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو کوئی اشارہ کیا اور دعا کو اٹھا کے گاڑی کی بیک سیٹ پر ڈال دیا اور گاڑی اگے بڑھا دی.گاڑی ابھی بھی چل رہی تھی. پتہ نہیں کتنا وقت گزرا اور دعا کو ہوش آیا. پہلے تو وہ گھبرائی پھر اسے سب کچھ یاد آیا.اپنا بھاگنا ، بیہوش ہونا ، اور وہ لڑکا ، لڑکی دعا نے آنکھیں بند کی کے شکر وہ بچ گئ کہ اچانک لڑکے کی آواز گاڑی میں گونجی" روشنی بائی اس لڑکی کو دیکھ کے بہت خوش ہوگی خوبصورتی کی تو دیوانی ہے وہ خوب پیسہ بنائے گی یہ لڑکی " بات ختم کر کے وہ قہقہہ لگا کر ہسنے لگا.
"چل اب دماغ نہ کھا اور مجھے میرے گھر چھوڑ پھر جو مرضی کرنا اس لڑکی کے ساتھ " لڑکی بے زاری سے بولی " تو جل رہی ہے نہ اس سے " لڑکے نے کہا" جلتی ہے میری جوتی ہنہ" لڑکی نے غصے سے کہا اور دعا بلکل بت بن گئی. یہ کیا کہہ رہے ہیں یہ لوگ ؟ کیا وہ ایک مصیبت سے نکل کر دوسری مصیبت میں پھنس گئی تھی ؟ اسکی آنکھوں سے آنسو نکل ہے اور وہ سونے کا ناٹک کرتی رہی نہیں چاہتی تھی کہ انھے پتہ چلے کہ وہ انکی باتیں سن چکی ہے .دعا نے سوچا مر جاؤنگی پر اپنی عزت پے آنچ بھی نہیں آنے دونگی .
اچانک گاڑی ایک بیلڈنگ کے سامنے رُکی اور وہ دونو ں باہر نکلے اور گاڑی سے کافی دور کھڑے ہو کر نجانے کیا راز ونیاز کرنے لگے.دعاکو بھاگنے کا موقع مل گیا .وہ آرام سے کار کا دروازہ کھول کر نیچے اتر آئی.اسکے پاؤں میں جوتے تک نہیں تھے.اتنابھاگنے کی وجہ سے ٹانگیں دکھ رہی تھیں.پاؤں سے خون نکل رہا تھا .دعانے پلٹ کر دیکھا دونوں ابھی بھی باتوں میں مگن تھے .تو آرام سے وہاں سے نکل پڑی.گلیاں ہی گلیاں تھی اور لوگ بھی کم کم نظر رہے تھے.اسنےدوپٹہ سر پراُڑھ لیا.اسکی حالت بہت خراب ہورہی تھی.سفید لمبی فراک دھول سے بھری تھی بالوں کی لٹیں چہرے پر آرہی تھی .اس نے ہاتھوں سے بال پیچھے کر کے دوپٹہ درست کیا اور تیز قدموں سے آگے بڑھنے لگی کہ اچانک اس کی کسی سے زور دار ٹکر ہوئی
"اللّه ہو اکبر "سامنے والے نے کہا دعا نے سر اٹھا کے دیکھا.بلیو پینٹ، کالی شرٹ اور جیکٹ میں ایک شاندار سا لڑکا کھڑا تھا.
" مس کہیں آپ کوئی بد روح تو نہیں؟" لڑکے نے اس کے سفید لباس کو دیکھ کر سنجیدگی سے کہاپر اسکی آنکھوں میں شوخ سی چمک تھی ...دعاکوئی جواب دیے بنا آگے بڑھنے لگی کہ وہ بولا " لگتا ہے آپ ناراض ہوگئی سنو وائٹ " اور دعا نے حیرت سے اس لڑکے کو دیکھا بد روح سے سنو وائٹ بنا دیا اور ایسے بات کرہا تھا.جیسے وہ دعا کو جاتا ہو .    "دیکھیں سوری میرا دھیان نہیں تھا" بات پوری کر کے اسنےڈر کر پیچھے دیکھا کہیں وہ گاڑی والا لڑکا نہ آ جائے."سنو وائٹ تم مٹی میں کھیل کے آئی ہو ؟ لڑکے نے ہستے ہوئے کہا ..." خدا کے لئے مجھے جانے دیں میں پہلے ہی مشکل میں ہوں " دعا رونے لگی تو لڑکے نے پریشانی میں اسے دیکھا 
"کیا میں آپکی کوئی مدد کر سکتا ہوں ؟ اسنےدوستانہ لہجے میں کہا.
دعانے اسے مشکوک نظروں سے دیکھاکیوں کہ وہ پھر کسی مصیبت میں نہیں پڑنا چاہتی تھی. لڑکے نے جیسے اسکا چہرہ پڑھ لیا اور جلدی سے بولا "سنو وائٹ میں بہت شریف لڑکا ہوں.میری دادو کہتی ہیں کہ مجھ جیسا شریف لڑکا چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا " دعا نے لڑکے کو غور سے دیکھا جسکی آنکھوں میں شرارت کے ساتھ سچائی کی چمک بھی صاف نظر آرہی تھی اور اسے گھر جانے کے لیے کسی کی مدد تو چاہیے تھی تو وہ ڈرتے ہوئے بولی"مجھے اپنے گھر فون کرنا ہے "
لڑکےنے اپنا فون نکالا مگر فون بند تھا.
"او سوری اسکی بیٹری لوو ہوگئی. پر یہ قریب ہی میرا گھر ہے آپ وہاں سے کال کر سکتی ہیں "دعا نے پریشانی سے اُسے دیکھا
"مجھ پر بھروسہ کر سکتی ہیں مس " اسنے سنجیدگی سے کہا
"جی ٹھیک ہے " دعا نے کہا تو لڑکے نے اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا.چلتے ہوئے اسنےگردن موڈ کر دعا کی طرف دیکھا" ویسے مجھے ازھران علی خان کہتے ہیں "اسنے اپنا نام بتایا دعا خاموش رہی تو وہ بھی چپ ہوگیا. ...................######
"سر وہ لڑکی بھاگ گئ" شیدے نے کانپتی آواز میں باس کو بتایا
" اوہ یو فول تم لوگوں کے لئے یہ کوئی نیا کام نہیں تھا پھر کیسے بھاگ گئ وہ گز بھر کی لڑکی " دوسری طرف سے باس بھیڑیے کی طرخ غرایا تو شیدے کے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا اور بولا " باس ہم تلاش کر لے گیں اس لڑکی کو "
" بکواس بند کرو , پہلے اس لڑکی کو سنبھال نہیں پائے اب کیا تلاش کرو گے . اب اس معاملےکو میں خود نبھٹاؤں گا "باس نے غصے سے کہہ کر فون بند کر دیا.                          ...........#####                                                 تھوری دیر چلتے رھنے کے بعد وہ لوگ ایک چھوٹے سے خوبصورت گھر کے سامنے رُکے .ازھران نے چابی نکال کے دروازہ کھولا تو دعا نے ڈر سے ازھران کو دیکھا " آ...آپ کی فیملی نہیں ہے " اس کی بات پر ازھران نے پلٹ کر دیکھا " کیا مطلب ؟ "اسے سمجھ نہیں آئی.   دعا اسے ہی دیکھ رہی تھی پھر ڈرتے ہوۓ بولی "مجھے لگا تھا کہ آپ کی فیملی ہوگی گھر پے اس لئے مم...میں آپ کے ساتھ آئی" اسکی بات سن کر ازھران کے ماتھے پر بل پڑھ گئے"آپ کو میں کوئی غنڈا ماوالی لگتا ہوں ؟آپ مجھے پریشان لگیں اس لئے مدد کررہا ہوں سمجھیں"بات ختم کر کے اس نے دعا کو دیکھا پر وہ سر جھکاۓ چپ کھڑی تھی. ازھران کو اس پےترس آیا اور اس نے ایک دم سے اپنا لہجہ بدلا "سنو وائٹ آخری بار بتا رہا ہوں میں...ایک...شریف...بندہ..ہوں ٹرسٹ می " اپنی بات پر زور دے کر کہا تو دعا نے اُسے سوری کہا."اوکے کم ان "ازھران دروازے کے سامنے سے ہٹا تاکہ وہ اندر آسکے. دعا اندر آئی نظر اُٹھا کے دیکھا خوبصورتی سے بنا وہ گھر سنگل سٹوری تھا. دائیں طرف پورچ تھااور بائیں طرف خوبصورت سا گارڈن تھا. وہ دونوں چلتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئے .جو کے بہت خوبصورت اور اچھے سے ڈیکوریٹ ہوا تھا.لاؤنج سے اند داخل ہوتے ہی ایک طرف آمنے سامنے دو ڈبل سائز صوفے رکھےہوئے تھے. درمیان میں ٹیبل اور سامنے دیوار پر بڑےسائز کا ایل یی ڈی ٹی وی لگا ہوا تھا. آگےکی طرف دو کمرے تھے اور ایک سائیڈ پر اوپن کچن تھا. گھر چھوٹا پر کافی خوبصورت تھا.دعا گھر دیکھ رہی تھی.ازھران کے بولنے پر چونک گئ "تم  چاہو توفریش ہو لو یا پھرگھر فون کر لو" اُس نے Ptcl کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہاتو دعا نے سَر ہلا دیا.ازھران پھر بولا " میری فیملی کا تم نے پوچھا تھا. تو جناب میرے والدین کی ڈیتھ ہو چکی ھے.پر میری پیاری سی دادو ہیں.وہ گاؤں میں رہتیں ہیں اچھا تم آرام سے بیٹھو میں جب تک میں کچھ ٹھنڈا لے کر آتا ہوں" بات ختم کر کے وہ کچن کی جانب چلا گیا.دعافون کی طرف بڑھی اُسے بی جان سے بات کرنے کی جلدی تھی.اس نے ایک لمبا سانس کھنچا. اور نمبرملانےلگی .اس کے گھر میں تھا ہی کون ایک بی جان تھی.جنہوں نے اسے پالا تھا. وہ دعا کے لئے بالکل ماں جیسی تھیں اور دوسرے اس کے بہنوئی جو ذیادہ تر ملک سے باہر ہوتے تھے. انھیں تو پتہ بھی نہیں ہوگا کے دعا گھر سے غائب ہے. ہاں پر بی جان ضرور پریشان ہونگیں.نمبر ملا کر فون کان سےلگایا دوسری طرف سے فون اٹھایا گیا اور بی جان کی آواز آئی " سلام کون؟" اور دعا رونے لگی پھر بولی " بی جان مم...میں دعا "اسکی آواز کانپ رہی تھی آنسو گالوں پر بہہ نکلے تھے. اسے لگا اسنے ایک عرصے بعد کسی اپنے کی آواز سنی ہے.دوسری طرف بی جان تڑپ کر بولیں "دعا میری بچی کہاں ہو تم ؟ میں کتنی پریشان ہوئی تمھارے لئے"دعا نے انھیں کہا کہ وہ گھر آکر سب کچھ بتاۓ گی اور فون بند کر دیا.ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کیے اور جیسے ہی نظراپراٹھائی سامنے ازھران ہاتھ میں جوس کے گلاس لئے کھڑا تھا.پھر خاموشی سے چلتا ہوا دعا کے سامنے آیا جوس کا ایک گلاس اس کی طرف بڑھایا جسے دعا نے تھام لیا.ازھران چلتا ہوا اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا اور جوس کے سِپ لینے لگا. دعا نے اسے دیکھا وہ پھر بھی چپ رہا دعا کو حیرت ہوئی کہ پہلے کتنا بول رہا تھا اور اب ایک دَم سے چُپ ہوگیا.اس بار دعا نے بولنے میں پہل کی "مم....مجھے گھر جانا ہے "جھجک کے کہا گیا.تو ازھران بولا "اوہ تھینک گاڈ آپ بولی تو سہی میں چاہتا تھا اس بار پہلے تم بولو"دعا نے اسے دیکھا عجیب لڑکا ہے کبھی آپ اور کبھی تم کہہ کر بلاتا ہے."پہلے یہ جوس توپی لو "ازھران نے کہا تو دعا نے خاموشی سے جوس کا گلاس لبوں سے لگا لیا.وہ پھر بولا " ایک تو تم اپنے پاؤں دھو لو "دعا کے پاؤں کی طرف اشارہ کر کے کہا جن پر دھول اور جما ہوا خون لگا تھا.دعا نے ایک نظر اپنے پاؤں کو دیکھا اور پھر ازھران کی طرف متاوجہ ہوئی جو کہہ رہا تھا "اور دوسرا یہ کہ مجھے اپنا اصل نام بھی بتا دو"ازھران نے اس معصوم سنو وائٹ کو دیکھ کر کہا اور کھڑا ہوگیا"آؤ تمھیں واش روم دیکھا دوں"
دعا نے جوس ختم کر کے گلاس ٹیبل پر رکھا اور ازھران کے پیچھے چلنے لگی.
اسے لے کر وہ سامنے ایک کمرے میں آیا واش رُوم کی طرف اشارہ کر کے کہا "جاؤ فریش ہو لو "بات ختم کر کے وہ باہر چلا گیا. دعا واش رُوم میں داخل ہوئی. واش بیسن کے سامنے لگے آئینےمیں اپنا چہرہ دیکھا جہاں دھول اور آنسوؤں کے نشان تھے. اس نے اپنے ہاتھ دھوئے پھر منہ پر پانی مارا اور پاؤں دھوتے ہوئے اسے تکلیف ہورہی تھی کیونکہ پاؤں پر جگہ جگہ زخم بنے ہوئےتھے.اپنا دوپٹہ سیٹ کر کے وہ باہر آگئ. جہاں ازھران جوتے لئے کھڑا تھا " یہ تم پر بڑے ہونگے پر ابھی انہیں ہی غنیمت سمجھ کر پہن لو" اسنے ہنس کر کہا تو دعا نے جوتوں کو دیکھا جو واقعی کافی بڑے تھےپھر وہ ہلکا سا مسکرائی اور جوتے پہن لئے"اوہ سنو وائٹ مسکراتی بھی ہے "ازھران نے شرارت سے کہا"چلو اب اسی خوشی میں اپنا نام بتاؤ"دونو ں چلتے ہوئے صوفے تک آئے.دعا کو چلنے میں مسئلہ ہورہا تھا.جوتے اسکے پاؤں سے نکل رہے تھے.صوفے پر بیٹھ کر اسنے کہا "میرا نام دعا جہانگیر ہے " .........."ماشااللہ بہت اچھا نام ہے پر.."وہ اتنا کہہ کر چپ ہوا دعا نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا "پرکیا؟"
"پر یہ کہ میرے لئے تم سنو وائٹ ہی ہو یا پھر بد روح کہہ لوں ؟" ازھران نے ہنستے ہوئے کہا تو دعا بھی ہنس دی اور بولی "سنو وائٹ ہی ٹھیک ہے اور آپکا بہت شکریہ آپ نے میری اتنی مدد کی " دعا نے مشکور نظروں سے اسے دیکھا.انکو ملے گھنٹہ بھر ہونے کو تھا اور سامنے بیٹھا لڑکا اُسکا محسن تھا"نو پرابلم سنو وائٹ چلو ایڈریس بتاؤ تمھیں تمہارے گھر چھوڑ آؤ " دعا نے ایڈریس بتایا اوردونوں چلتے ہوئےپورچ تک آئے اور کار میں بیٹھ کر کار آگےبڑھا دی.................#####
گاڑی میں گہرا سکوت چھایا تھا .وہ دونوں خاموش بیٹھے تھے.ازھران ڈرائیوکرتے ہوئے گہری سوچ میں ڈوبا تھا. پھر دعا کو دیکھا اور جھجھکتے ہوئے بولا "تمہارے ساتھ کیا ہوا تھا؟ کیا مجھے بتا سکتی ہو؟" دعا نے اُ سے دیکھا کچھ دیر خاموش رہی پھر آہستہ آواز میں ساری بات ازھران کوبتا دی "ہمم...کیا تمہاری فیملی کی کسی کے ساتھ دشمنی ھے؟" اُس نے سوچتے ہوئے پوچھا                                                 "ایسا تو کچھ بھی نہیں میری فیملی میں بی جان اور خُرم بھائی کے علاوہ کوئی نہیں.بی جان یا میری تو کسی سے کوئی دشمنی نہیں اور خُرم بھائی بھی لئے دیئے رہنے والوں میں سے ہیں"بات ختم کر کے دعا نے لمبی سانس بھری"پولیس میں کمپلین درج کرانے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ازھران کی بات پر وہ خاموش رہی کیونکہ اس کا کمپلین کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا.خُرم بھائی انجان تھے تو وہ اُنھیں انجان ہی رہنے دینا چاہتی تھی.بی جان نے اسے بتایا تھا کہ خُرم بھائی کام کے سلسلے میں ملک سے باہر گئے ہیں.اور دوسرا یہ کہ وہ بچ گئی تھی اُس کے لئے اتنا ہی بہت تھا.ازھران نے اُس کی خاموشی نوٹ کی تو خود بھی خاموش ہو گیا کہ شاید دعا اس معاملے پر بات نہیں کرنا چاہتی.کچھ دیر بعد کار ایک خوبصورت سے بنگلے کے سامنے رکی. " آگئی تمہاری منزل سنو وائٹ" ازھران کی آواز میں اداسی اتر آئی تھی .نجانے کیوں؟ دعا نے چونک کر شیشے کے پار اُس بنگلے کو دیکھا اور پھر ازھران کو " آپکا بہت شکریہ میں ہمیشہ آپکی مشکور رہوں گی"دعا کی آواز میں نمی اتر آئی.اسنے کار کا دروازہ کھولا پلٹ کر ازھران کو اللّه حافظ کہا اور کار سے اتر گئی. "اللّه حافظ سنو وائٹ " ازھران نے آہستہ سے کہا اور دعا آگے بڑھ گئی.اس کی نگاہوں نے دعا کے اوجھل ہو جانے تک اسکا پیچھا کیا اور جب وہ گیٹ سے اندر چلی گئی. تو اسنےلمبا سانس کھنچ کر زن سے گاڑی آگے بڑھا دی ............####
وہ ایک خفیہ سا کمرہ تھا.جہاں بے شمار فائلز رکھی تھی.بڑی سی ٹیبل کے پیچھے کالے سوٹ میں ایک شخص بیٹھا تھا .اس کے سامنے اسکے دو ساتھی بیٹھے تھے.اُن میں سے ایک اس سوٹ والے سے مخاطب ہوا "بلیک تمھیں کیا لگتا ہے اس بار کتنا فائدہ ہوگا ہمیں ؟"اسے سب بلیک کہہ کر بلاتے تھے.کیوں کہ وہ تھا ہی اندھیرے کی مانند خوفناک اور پُر اسرار         "بہت زیادہ ایک سے ایک خوبصورت لڑکی ہے اور ہیں بھی پوری بیس صحیح دام وصول کرونگا " وہ بات ختم کر کے قہقہہ لگا کر ہسنےلگا."اور وہ لڑکی جسکا تمنے کہا تھا؟ اسکا کیابنا ؟" اسکے دوسرے ساتھی نے پوچھا "بھاگ گئی وہ ....."گندی سی گالی دے کر پھر بولا " پر وہ میرے ہاتھ کے نیچے ہے جلد ہی منہ کےبَل گرے گی" بلیک خوفناک بھیڑیے کی طرح غرایااور بولا "ابھی اُن نئی لڑکیوں کی بات کرو جلد ہی انھیں لاہور روانہ کرنا ہے.خیال رکھنا یہ بات اپنے آدمیوں کے علاوہ کسی کو پتہ نہ چلے سمجھے، پچھلی بار بھی مشکل سے بچ کے نکلے تھے.اب کی بار مجھے کوئی مسئلہ نہیں چاہیے " بلیک نے غصے سے گھور کے دونوں کو دیکھا اور پھر تینوں اس معاملے کو ڈسکس کرنے لگے ....... ####

دعا نے جہانگیروِلا میں قدم رکھااور نظر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑی تین فلورکی عمارت کو دیکھا۔جس کے دائیں  اور بائیں طرف خوبصورت گارڈن بنا تھااوردرمیان میں سرخ اینٹوں سے بنا راستہ تھا.جو سیدھا پورچ تک جاتا تھا۔پھر تھوڑا آگے ہال کا دروازہ تھا.جو کُھلا  ہوا تھا.دعا چلتی ہوئی اندر داخل ہوئی ۔جہاں بی جان دروازے پر ہی نظریں جما ئے بیٹھی تھیں ۔جیسے ہی دعا نے اندر قدم رکھا بی جان اُٹھ کھڑی ہوئیں اور دعا بھاگ کر اُنکے گلے لگ کر رونے لگی.بی جان اسکی کَمر سہلانے لگیں."چپ ہوجاؤ دعا بچے"بی جان نے اسے خود سے الگ کر کے صوفے پر بٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گئیں.ہاتھ بڑھا کر دعا کے آنسو صاف کیئے."بس بچے اب اور نہیں رونا"                                                             "جی بی جان "دعا نے سر ہلایا اور صوفے سے اُٹھ کر بی جان کے قدموں میں بیٹھ گئی. سَر اُن کے گھٹنوں پر رکھ دیا.بی جان اُس کے بالوں میں اُنگلیاں پھیرنے لگیں. انھوں نے دعا سے کچھ نہیں پوچھا تھا.وہ نہیں چاہتی تھیں کہ دعا پھر سے رونے لگے. بی جان خاموش ہی رہیں پر دعا نے خود بات شروع کی اور آہستہ آہستہ ساری بات بتا دی.اس نے ازھران علی خان کا بھی بتایاکہ کیسے اسنے دعا کی مدد کی تھی. بات ختم کر کے دعا نے چہرہ اُپر اُٹھا کر بی جان کو دیکھا جن کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں."وہ لڑکا فرشتہ بن کر آیا تھا.تمھارے لئے بیٹا ورنہ آج کل کون کسی کی مدد کرتا ہے. اللّه اُس بچے کو خوش رکھے" بی جان ازھران کو دعائیں دینے لگیں اور دعا نے دل میں آمین کہا. بی جان نے اسے اُٹھنے کا کہا اور خود بھی کھڑی ہو کر بولیں"بیٹا آؤ تمھارے لئے کھانا لگاتی ہوں, آ کر کچھ کھا لو بھوک لگی ہو گی " بی جان نے پیار سے اسکے سر پرہاتھ پھیرا.            "بی جان میرا بالکل دل نہیں ہے کھانا کھانے کا میں بس آرام کروں گی " دعانے آہستہ سے کہااور بی جان کا ہاتھ پکڑ کر آنکھوں سے   لگایا.وہ بہت تھک چکی تھی. اب گھر کے پر سکون ماحول میں اسےشدت سے اس بات کا احساس ہواتھا.بھاگ بھاگ کر اُس کی ٹانگیں دُکھ رہی تھیں.                                                                   "اچھا تم بیٹھو یہاں میں دودھ لے کر آتی ہوں وہ پی لو پھر چلی جانا آرام کرنے" بی جان بات ختم کر کہ کچن کی طرف چلیں گئیں. دعا صوفےکی بیک سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئ اور نظر گھوما کر اپنے پیارے سے گھر کو دیکھنے لگی. گھر کے تین فلور تھے. نیچے والے فلور پر تین کمرے تھے. جن میں سے ایک بی جان کا کمرہ تھا.ایک خُرم بھائی کا اور تیسرے کمرےکو خُرم بھائی نے اپنا آفس بنایا ہوا تھا.جب گھر پے ہوتے تو آفس کا کام وہ اسے کمرے میں کرتے تھے. ایک سائیڈ پر کِچن تھااور درمیان میں بڑا سا خوبصورت ہال تھا. ویسا ہی جیسا امیر ترین لوگوں کے گھروں میں ہوتا ہے. دیواروں پر پینٹنگز , صوفہ سیٹ ,قیتی ڈیکوریشن پیسز اور روشنیوں سے چکا چوند تھا. سامنے ہال کے درمیان سے سیڑھیاں اُپر کی طرف جاتی تھیں. دوسرے فلور پر دو کمرے اور ہال تھا .ایک کمرہ دعا کا تھا اور دوسرا ممی , پاپا کا جو بند رہتا تھا.پر جب بھی دعا کو اُن کی یاد آتی وہ انکے کمرے میں آجاتی اور ڈھیر سارا وقت وہاں گزارتی تھی. 
اور گھر کا تیسرا فلور بند پڑا ہوا تھا.                                                                      "دعا بیٹا یہ لو دودھ " بی جان کی آواز پر وہ چونکی اور گلاس تھام لیا دودھ پی کر وہ کھڑی ہوگئ."اب آرام کروں گی بی جان وقت کافی ہوگیا ہے"دعا نے گھڑی کی طرف دیکھا جہاں بارہ بج رہے تھے.                                                 " جاؤں بیٹا شب بخیر " بی جان نے اسکی پیشانی چومی پھر دعا سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئ .کمرے میں آکر اسنے نماز کی تیاری کی پھر دو نفل شکرانے کے ادا کئے. خدانے اسے کس مصیبت سے بچایا تھا. ہونے کو کچھ بھی ہو سکتا تھا .پر اللّه پاک نے اسے صحیح سلامت وہاں سے نکال دیا تھا. نفل ادا کر کہ وہ سونے کے لئے لیٹ گئ ...............####                                جہانگیر خان بہت بڑے بزنس ٹائیکون تھے. پاکستان اور دوسرے ممالک میں بھی اُن کا بزنس اچھا خاصاپھیلا ہوا تھا.اُن کی دو بیٹیاں تھی.بڑی مناہل اور چھوٹی دعا جو مناہل سے پورے پندرہ سال  چھوٹی تھی. دعا کی  پیدائیش پر کچھ پیچیدگی ہونے کی وجہ سے مسز جہانگیر کی ڈیتھ ہو گئ تھی.دعا اپنی ممی کو بہت یاد کرتی تھی .اسنے ممی کی تصویر پِلو کے نیچے رکھی ہوتی تھی .دعا کو جہانگیر خان اور مناہل آپی نے ہی پالا  تھااور دونوں اس سے بہت پیار کرتے تھے.پرماں کی کمی کوئی کہا پوری کر سکتا ہے.
مناہل , خُرم قریشی سے محبت کرتی تھی.وہ مناہل کا یونی فیلو تھا.پر خُرم قریشی کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا. ماں,باپ کی موت ہوچکی تھی.بہن ,بھائی کوئی تھے نہیں اور نہ کوئی قریبی رشتےدار تھا.مناہل نے پاپا سے خُرم کی بات کی تو جہانگیر خان ,خُرم قریشی سے ملے پھر انھوں نے مناہل کو انکار کر دیا تھاکہ خُرم تنہا لڑکا ہے .کون جانے وہ کیسا ہو.پر مناہل کے اِسرار پر جہانگیر خان دو,تین بار  خُرم سے ملے.وہ واقع بہت اچھا اور با اخلاق لڑکا تھا. مناہل اور خُرم کی شادی سے پہلے جہانگیر خان نے شرط رکھی کہ شادی کے بعد خُرم جہانگیروِلا میں ہی رہے گا.تاکہ اُنھیں بیٹی کی طرف سے فکرمندی نہ ہو کیونکہ خُرم جاب لیس تھا .اسلئے جہانگیر خان کو یہ شرط رکھنی پڑی تھی.مناہل نے خُرم کو منا لیا  تھا اور پھر دونوں کی شادی ہوگئ تھی.تب دعا نو سال کی تھی.خُرم نے جہانگیرخان کے ساتھ آفس جانا  شروع کر دیا تھا.یونہی ہنسی خوشی ایک سال گزر گیا تھا کہ اچانک ایک رات جہانگیر خان کو ہارٹ اٹیک ہوا جس کی وجہ سے انکی ڈیتھ ہو گئ تھی اور وہ اپنی بیٹیوں کو اکیلاچھوڑ کر دنیا سے چلے گئے تھے.پاپا کی ڈیتھ کے بعد دعا بیمار رہنے لگی تھی.وہ پاپا کی لاڈلی تھی.اُس کے لئے پاپا کی جدائی سہنا آسان نہیں تھا.مناہل نے جیسے تیسے خود کو سنبھال لیا  تھا.اُسے دعا کا خیال رکھنا تھا اور ساتھ ہی بزنس پر  بھی دھیان دینا تھا.ایک مہینے تک مناہل , دعا کے ساتھ ساتھ رہی اورخُرم نے بزنس سنبھالا ہواتھا.مگر بزنس میں لاس ہونے لگا تھا.پاپا نے یہی سارابزنس اکیلے سنبھال رکھا تھاکیونکہ اُن کا کافی سالوں کا تجربہ تھا. مگر کسی نا تجربہ کار بندے سے انتا پھیلا ہوا بزنس سنبھالا جانا مشکل تھا .مہینے بعد دعا کچھ بہتر ہوئی .تو مناہل نے آفس جانا شروع کیا اور دعا کی دیکھ بھال کے لئے بی جان کو رکھ لیا.وہ بیوہ اور بے اولاد تھیں.تب دعا دس سال کی تھی.بی جان کے روپ میں اُسے ماں مل گئ  اور بی جان ایک پیاری سی بیٹی.
اسی طرح دس سال گزرے گئے اور دعا بڑی ہو گئ .وہ بہت کم گو تھی.پہلے سکول اور اب کالج میں بھی اسکی کوئی دوست نہیں تھی.وہ یاتو بی جان سے بات کرتی تھی یا مناہل آپی سے , مناہل آپی کی کوئی اولاد نہیں تھی.یہ بات انھیں بہت دُکھ دیتی تھی پر پھر یہ سوچ کر خود کو سمجھا لیتں کہ الّلہ کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت چُھپی ہوتی ہےاور اسکے لئے تو دعا بھی بچوں جیسی تھی مناہل کو بزنس سے جیسے ہی فری وقت ملتا دونوں بہنیں خوب باتیں کرتی تھیں.پر ایسا بہت کم ہوتا تھا. کیونکہ مناہل ذیادہ تر کام میں مصروف رہتی تھی.                                                 اور پھر آخرکار وہ دن بھی آگیا تھا. جب دعا سے اسکا آخری خون کا رشتہ بھی چھین گیا تھا.اسکی پیاری آپی موت کی گود میں سو گیں تھیں.اس دن وہ کالج میں تھی. جب اسے پرنسپل کے آفس میں بلایا گیا.اسکے لئے گھر سے فون تھا.فون اٹھاتے ہی بی جان کی آوازسنائی دی اور جوبات انھوں نے کی اسے سن کر دعا پوری جان سے کانپ گئ تھی.مناہل کا ایسیڈنٹ ہوا تھا.وہ ہسپتال پھنچنے سے پہلے ہی دم توڑگئ تھی.مناہل کی موت پر دعا پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی کہ بی جان کو اسے سنبھالنا مشکل ہو گیا تھا.خُرم قریشی ,مناہل کی موت کے بعد بالکل چُپ ہو کر رہ گیا تھا.ہر وقت کام میں مصروف رہتاتھا.دعا کو بی جان کا سہارا تھا.مشکل سے ہی سہی پر وہ سنبھل گئ  تھی.   ..............####
بلیک اپنی کرسی پر بیٹھا تھا.ٹیبل کی دوسری طرف اسکا خاص بندہ معاذ بیٹھا تھا.اسکے سامنے لیپ ٹاپ کُھلا ہوا تھا.جس پر وہ کوئی کام کرنے میں مصروف تھا.بلیک گہری سوچ میں ڈوباہوا تھا.تھوڑی دیر بعد اسکی آواز گونجی "لاہور والا کام صحیح سے ہو گیا نا ؟ کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا ؟"                                     بلیک کی بات پر معاذ نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا پھر بولا " بالکل اچھے سے ہو گیا کام کہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی"           "انہوں ... اب اگلے کچھ دنوں کے لئے اس کام کو روک لو, مجھے خبر ملی ہیں کہ پولیس ہمارے پیچھے ہے اور مجھے کوئی مسئلہ نہیں چاہیے.سمجھے ؟" بلیک نے بات مکمل کی , وہ جرم کی دنیا کا پرانا کھلاڑی تھا.اسے پتہ تھا کب اور کیسے کون سا کام کرنا ہے.                   "پر بلیک روس( Russia) میں جو مال بھیجنا ہے.اسکا کیا ہوگا ؟"معاذ نے فکرمندی سے کہا.  "کتنی ٹائم لِمٹ ہے ہمارے پاس اس کام کو کرنے کے لئے؟"                                                   "ذیادہ سے ذیادہ بیس دن ہیں"                         "ٹھیک ہے دو,تین دن رُک جاؤ پھر کام شروع کردینا مگر پولیس سے بچ کررہنا ایک اور ضروری بات اس بار لڑکیوں کے ساتھ بچے بھی ہونے چاہیے" بلیک اب معاذ کو ساری تفصیل بتانے لگا .                                                 
"جیسا کہا ہے ویسا ہی کرنا کچھ دنوں کے لئے میں جا رہا ہوں.کوئی ضروری بات ہو تبہی کونٹیکٹ کرنا ورنہ میں خود ہی کونٹیکٹ کروں گا ٹھیک ہے"بلیک اپنا فون چیک کرتے ہوئے بولا 
"یس باس" معاز نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا .  
بلیک اور اس کے ساتھیوں کی یہ خفیہ جگہ تھی. جو کہ تہ خانے میں بنی ہوئی تھی. 
بلیک جانے سے پہلے معاذ کو  ضروری باتیں بتانے لگا.ابھی وہ باتوں میں مصروف تھے اچانک  بلیک کا فون بجنے لگا.اسنے معاذ کو چُپ رہنے کا اشارہ کیا اور فون پر بات کرنے لگا............####
بلیک اور اسکے ساتھی ہیومن ٹریفکنگ کا کام کرتے تھے .نہ صرف پاکستان میں بلکہ دوسرےکئ  ممالک میں بھی ہیومن اسمگلنگ کرتے تھے.جہاں  بچوں, لڑکیوں اور یہاں تک کے مردوں کو بھی اسمگل کیاجاتا تھا.کچھ لوگ کسی مجبوری کی وجہ سے انکے ہاتھ لگ جاتے تھے یا پھر انھیں اغوا کیا جاتا تھا .ان لوگوں کو یا تو ملک کے اندر ہی بیچا جاتا وہ بھی مہنگی سے مہنگی قیمت پر یا دوسرے ممالک میں ا سمگل  کر دیا جاتا اور وہاں ان مجبور لوگوں سے ہر قسم کا کام لیا جاتا تھا .ایسے لوگ بےدام کے غلام ہوتے ہیں جنہیں اپنے خریدار کے اشارے پر چلنا ہوتا ہے.وہاں انکے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے .بچوں کو جسمانی طور پر معذُور کر کے ان سے بھیک منگوائی جاتی یا پھر انکے باڈی پارٹس نکال کر اسمگل کئے جاتے ہیں. لڑکیوں کو ذیادہ ترجسم فروشی میں دھکیل دیا جاتا ہے. جہاں نہ وہ جی سکتی ہیں, نہ مر سکتی ہیں.بس ایسی غلیظ ذندگی جینے پر مجبور ہوتی ہیں.وہاں سے انکی رہائی موت کی صورت ہی ممکن ہوتی ہے.                                    ہیومن ٹریفکنگ دنیا کا تیسرا بڑا جرم ہے.ہمارا اپنا ملک اس جرم میں بہت حد تک شامل ہے.اور دنیا کے کئ ممالک اس جرم میں بہت آگے نکلے ہوئے ہیں.جن میں سے ایک بڑا نام روس کا ہے.رشین مافیا جو بڑے سے بڑا جرم کرتا ہیں. ہیومن ٹریفکنگ بھی ان میں سے ایک ہے اور بلیک جیسے لوگ ان سے رابطہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں .کیونکہ اس کام میں ان لوگوں کو بے تحاشا پیسہ ملتا ہے . بلیک اور اس جیسے بہت سے لوگوں کو پیسے کے آگے کچھ نظر نہیں آتا , نہ معصوم بچوں کی سسکیاں سنائی دیتی ہیں  اور نہان باعصمت لڑکیوں کی آہیں . بلیک جیسے بے ضمیر لوگ ہمارے ملک کو کھوکھلا کر رہے ہیں. بلیک پہلے جرم کی دنیا کا چھوٹا سا مہرہ تھا. پھر آہستہ آہستہ اسنے جرم کی دنیا میں اپنے قدم جما لئے اور اب وہ ایک بہت بڑےگروہ "بلیک گینگ" کا رہنما تھا. پاکستان میں جرم کی دنیا میں اسکا ایک بڑا نام تھا ...............####                                              اگلی صبح دعا کی آنکھ دیر سے کُھلی اسنے گھڑی کی طرف  دیکھا تو دن کا ایک بج رہا  تھا.وہ بیڈ سے اُٹھ کر واش روم کی طرف گئ.اسکا سَر اب بھی بھاری ہو رہا تھا .فریش ہو کر جب وہ نیچے آئی تو بی جان کچن میں تھیں اور فاطمہ آپا کو کھانا بنانے کا بتا رہیں تھیں .فاطمہ آپا انکے گھر کام کرتی تھیں اور گھر کے پیچھے بنے سرونٹ کواٹر میں رہتی تھیں.انکے تین بچے تھے اور شوہر بھی یہیں مالی کا کام کرتا تھا.                                      جب دعا نے کچن میں قدم رکھا جو کہ کافی بڑا اور خوبصورت تھا . اس نے دیکھا  بی جان چولہے کے پاس کھڑی تھیں . اسے اندر آتے دیکھ کر بولیں "دعا بچے اُٹھ گئ تم ,آؤ بیٹھو تمہارے لئے ناشتہ بناتی ہوں " بی جان نے کچن میں ایک طرف رکھی ڈائننگ ٹیبل کی طرف اشارہ کر کے کہا.                                                      "بی جان اب کھانا ہی کھاؤں گی .ناشتے کو رہنے دیں. سَر میں بہت درد ہورہا ہے " دعا نے بات ختم کی پھر کرسی کھنچ کر بیٹھ گئ اور ہاتھ سے پیشانی مسلنے لگی .                                           "اچھا چائے بنا دیتی ہوں  وہ پی لو سردرد ختم ہو جائے گا اور تھوڑی دیر میں کھانا بھی بن جائے گا "بی جان ،دعا کو دیکھ کر پیار سے بولیں پھر چائے کا پانی چولہے پر رکھنے لگیں.                                                           "ٹھیک ہے بی جان "دعا نے اتنا کہہ کر بی جان کو دیکھا وہ بالکل ماں کی طرح اسکا خیال رکھتی تھیں .اگر پاپا اور مناہل آپی کے بعد بی جان اسکے ساتھ نہ ہوتیں تو وہ بالکل ٹوٹ جاتی. تھوڑی دیر بعد بی جان نے چائے کا کپ اسکے سامنے رکھا اور خود بھی ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئیں.                                               "بیٹا جو بات گزر گئی اسے بھول جاؤ بس آگے سے کہیں اکیلے باہر مت جانا اور یونیورسٹی جاتے ہوئے بھی خیال رکھناٹھیک ہے ناں؟" بی جان نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا          "جی بی جان اور خُرم بھائی کو نہیں پتہ نا بی جان؟" دعا کو معلوم تو تھا اسنے پھر بھی بی جان سے پوچھ لیا تھا.                                                               "نہیں بیٹا اسے کچھ نہیں معلوم اور نہ میں نے بتایا.ویسے ہی کام میں مصروف رہتا ہے .اسلئے اسے پریشان نہیں کیا "                         "ٹھیک کیا بی جان ویسے بھی آپی کی موت کے بعد وہ کس قدر خاموش ہو گئے ہیں. آپی کو گئے ایک سال سے اُپر ہونے والاھے .پر خُرم بھائی اب تک سنبھل نہیں پائےہیں"اسے خُرم بھائی سے ہمدردی تھی وہ  انھیں بالکل بھائی کی طرح سمجھتی تھی.آپی کے ذکر پر دعا کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں.                                                               "بس یہی ذندگی ہے بیٹا کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے.اللہ خُرم کو صبر دے." بی جان نے اتنا کہہ کر روکیں پھر بولیں"چلو تم چائے پیوؤ ٹھنڈی ہو رہی ہےمیں کھانے کو دیکھ لو " بی جان اُٹھ کر فاطمہ آپا کی طرف چلیں گیں اور دعا نے کپ اُٹھا کر منہ سے لگا لیا ساتھ سوچنے لگی کہ کل سے یونیورسٹی بھی جانا ہے.آج بھی وہ نہیں جا پائی تھی.........####                             "ایک گاڑی آکر پولیس اسٹیشن کے سامنے رُکی اور ایک  شاندار سا شخص باہر نکلا اور پولیس اسٹیشن کے اندر داخل ہوا. اندر آکر وہ ایک حولدار کے پاس رکا اور بولا " اے ایس پی شاہ میر شاہ موجود ہیں تھانے میں ؟"        "آپ کون ہیں اور کیوں ملنا ہے آپکو اے ایس پی صاحب سے؟" حوالدار نے اُلٹا اس سے سوال کیا                                                                        "اوہو مجھے ضروری کام ہے اُن سے" وہ شخص بے زاری سے بولا                                              "پہلے نام بتاؤ اپنا؟"حولدار اسکی جان چھوڑنے کو تیار نہیں تھا .                                  "اللّه توبہ ، پتہ نہیں مجرم تم لوگوں کے ساتھ کیسے گزارا کرتے ہیں" اس شخص نے منہ بنا کر کہا اور حوالدارنے غصے سے اُسے دیکھا. اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا اُس شخص نے اپنا نام بتایا.پھر حوالدار نے اے ایس پی صاحب کو کال کر کے کہا کہ کوئی شخص آپ سے ملنے آیا ہے ساتھ نام بتایا تو دوسری طرف سے ہاں میں جواب آیا کہ اس شخص کو اندر بھیج دیا جائے.حوالدار فون رکھ کر اسکی طرف پلٹا اور بولا " آپ اندر جا سکتے ہیں "  کمرے کی طرف اشارہ کر تے ہوئےکہا گیا .                              "شکر خدا کا "وہ  بڑبڑا کر آگے بڑھ گیا.کمرے کا دروازہ کھول کر جب وہ اندر داخل ہوا تو جناب  اے ایس پی شاہ میر اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور سَر فائل پر جُھکا رکھا تھا.دروازہ بند ہونے کی آواز پر سر اُٹھا کر دیکھا گیا تو چہرے پر مسکراہٹ آگئی.پر سامنے والا ماتھے پر بل ڈالے اُسے گھور رہا تھا.                             شاہ میرشاہ نے فائل بند کی پھر اٹھ کر  مسکراتے ہوئے  اس تک آیا اور اس سے بغل گیر ہوا پھر اسے دیکھ کر بولا 
"واہ آج میری یاد کیسے آگئی میرے یار کو؟" آنے والے نے اسے گھُوری سے نوازا پھربولا 
"پہلے روکو میں اپنے یار کی نظر تو اتار دوں ماشااللہ کتنے ڈھیٹ ہو تم، مجھے سامنے دیکھ کر تمھیں شرم نہ آئی، اُپر سے مجھ پر طنز کر رہے ہو؟اور فون رکھا کیوں ہے تم نے ؟ جب کال اٹھانی نہیں ہوتی.یہاں جناب سے ملنے آیا ہوں تو پہلے باہر کھڑا کیئے رکھا اور سُو سوال پوچھے گئے ہیں , جیسے میں تو کوئی بھاگا ہوا مجرم ہوں ناں،مطلب کہ حد ہوگئی توبہ توبہ" اور وہ جو کب سے بھرا بیٹھا تھا. ماتھے پر بل ڈال کر بولنا شروع ہوا تو ایک سانس میں بولتا چلا گیا اور بے چارہ شاہ میر مسکرا کر سنتا رہا کیونکہ غلطی اسکی تھی.اس نے فون سئلینٹ پر کیا ہوا تھا اورخود ضروری فائل کا مُطالعہ کرنے میں مصروف تھا.       
"چلوبیٹھو اب ٹھنڈا کرو خود کو ازھران علی خان صاحب"شاہ میر اسے کندھوں سے پکڑ کر کرسی پر بٹھایا ،پھر ٹیبل کی دوسری طرف آ یا فون اٹھا کر دو کولڈ ڈرنکس لانے کا کہا ،فون رکھ کر وہ ازھران  کے سامنے ٹیبل کی دوسری طرف اپنی کرسی پر بیٹھ گیا.ازھران اب بھی اسے گھور رہا تھا .
"بس کردو یار اور کتنا گھورو گے.ویسےاِس انداز میں بھی پیارے لگتے ہو "شاہ میر نے آنکھ مار کر کہا .
"اب زیادہ پیار نہ جتلاؤ تمھیں ایک بار بھی فرصت نہ ملی کہ مجھ سے مل لو ؟ اور میں الو چلا آتا ہوں تم سے ملنے" ازھران اداس ہو کر بولا کیونکہ وہ دونوں بچپن کے دوست اور خالہ زاد بھائی تھے .دو  مہینے پہلے شاہ میر کا ٹرانسفر اسلام آباد میں ہوا تھا اور ازھران  تو پڑھائی کے سلسلے میں کافی عرصے سے یہیں رہتا تھا.دو مہینے میں شاہ میر اس سے ایک بار بھی ملنے نہیں آیا تھا. جبکہ ازھران کئی  بار اس سے ملنے اس کے گھر  جا چکا تھا.تبھی  اب ناراض ہو رہا تھا.بات کہہ کر وہ خاموش بیٹھا تھا.
"میرابھائی نہیں ہے تو ؟ چل اب شکل ٹھیک کر یار"شاہ میر نےاسکے ہاتھ پر تھپکی دے کرکہا 
"بھائی ہوں تبھی تو نا جائز فائدہ اٹھاتا ہے.فون تک نہیں اٹھاتا ، اب پہلے مجھ سے وعدہ کر جلد ہی میرے ساتھ ڈنر کرے گا ؟" 
" وعدہ بابا وعدہ ، تجھے نہ کر کے  میں نے مرنا ہے کیا.پھردوستی ہوگئی؟"شاہ میر نے ہنس کر پوچھا.
"دوستی ہی دوستی میرے یار ، تجھ سے ناراض نہیں ہوسکتا بس ڈرامہ کر رہا تھا "  اپنی بات کہہ کر وہ ہنس دیا .پھر اٹھ کر شاہ میر تک آیا.ایک بار پھر اس سے بغل گیر ہوا 
"پراسکا یہ مطلب نہیں کہ اب آگے بھی تو مجھ سے ملنے نہ آئے ،جلد ساتھ ڈنر کریں گے دونوں سمجھے؟"ازھران  نے انگلی اٹھا کراسے آگاہ کیا."یس سر"شاہ میر نے اسے سلیوٹ کیا ، پھر دونوں ہنس پڑے.اچانک دروازے پر نُوک ہوئی شاہ میر نے آنے والے کو یس کہہ کر اجازت دی تو وہی حولدار کولڈ ڈرنکس لے کر اند داخل  ہوا. جو ازھران سے سوال کر رہا تھا.               "سر یہ کولڈ ڈرنکس " 
ہاں رکھ دو اور دیکھو یہ صاحب جب بھی یہاں آئیں اِن سے بغیر کوئی سوال کئے انھیں اندر آنے دینا ورنہ یہ بڑا ناراض ہوتے ہیں.خود کو بھاگا ہوا مجرم سمجھنے لگتے ہیں . ویسے بھی یار ہے اپنا تو اسے کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے" شاہ میر نے ازھران کی طرف اشارہ کر کے ہنستے ہوئے کہا تو حولدار بھی مسکرا دیا پھر ہاں میں گردن ہلا کر باہر چلا گیا.       ازھران بھی مسکرا دیا اسے پتہ تھا کہ پولیس اسٹیشن میں ایسے ہی کسی کو  نہیں آنے دیا جاسکتا پر وہ شاہ میر کو کال کرتا رہا تھا جب اس نے فون نہیں اٹھایا تو ازھران کو غصے آگیا  تھا.اس لئے وہ سیدھا پولیس اسٹیشن ہی چلا آیا تھا اُس سے ملنے , پر یہاں حولدار کے سوالوں سے بے زار ہوگیا تھا.
"بڑا خیال ہے میرا شاہ " وہ شاہ میر کو دیکھ کر بولا ,لاڈ سے ازھران  اسے ایسے ہی مخاطب کرتا تھا ."کیا کریں اپنی دوستی ہی ایسی ہے یار"شاہ میر نے کہا تو دونو ں ہنس دیئے . پھر کافی دیر تک دونوں باتیں کرتے رہے. ازھران  اسے ڈنر پر آنے کا کہہ کر وہاں سے چلا گیا. ..............#####                                          دعا نے مغرب کی نماز پڑھی پھر کمرے سے 
نکل کر نیچے آئی .سیڑھیاں اتر کر وہ بائیں طرف ایک کمرے میں داخل ہوئی.وہ کمرہ بی جان کا تھا.جب دعا نے اندر قدم رکھا تو بی جان بیڈ پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں.وہ چلتی ہوئی بیڈ تک آئی اور بیڈ پر بی جان کے  سامنے خاموشی سے بیٹھ گئی .بی جان نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا پھر تسبیح ایک طرف رکھی پھر دعا کا سر ہاتھوں میں تھام کر اس پر پھونک ماری.
"کیا ہوا بیٹا اتنی خاموش کیوں ہو ؟"بی جان نے اسکے ہاتھ اپنے بوڑھے ہاتھوں میں تھامے .
"پتا نہیں بی جان دل اداس ہے.میں اپنا دھیان اس حادثے سے ہٹا نہیں پا رہی ، جب بھی سوچتی ہوں ایسا لگتا ہے ابھی یہ بات ختم نہیں ہوئی کچھ برا ہونے والا ہے.مجھے ڈر لگتا ہے بی جان " دعا کی آواز میں نمی اتر آئی .
"میری جان ایسا کچھ نہیں ہے تم نے اس ڈر کو اپنے اپرحاوی کر لیا ہے .اس لئے تمہں ایسا لگ رہا ہےاور میری دعا بیٹی تو بہت بہادر ہے .
ہےنا ؟" بی جان نے اس سے تصدیق چاہی .
"بالکل میں اپنی بی جان کی بہادر بیٹی ہوں "  دعا نے مسکرا کر بی جان کو تسلی دینے کے لئےکہاپھر ان کے ہاتھ چوم لیئے.
"بی جان آپ آئیں میرے ساتھ میں اپنے ہاتھوں سے بنی چاۓ آپکو پلاتی ہوں.وہ بھی لان میں بیٹھ کر پیئے گے.ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے .بہت خوش گوار موسم ہے "وہ بی جان کا 
ہاتھ پکڑ کر باہر لے آئی پھرتھوڑی دیر میں وہ چاۓ بنا کر لان میں لے آئی تھی.ٹرے ٹیبل پر رکھ کر اسنے ایک کپ بی جان کو دیا جو سامنے کرسی پر بیٹھی تھیں اور اپنا کپ لے کر وہ بی جان کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی.ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی .لان میں  رنگ برنگےپھول کھلے ہوئے تھے .جنکی خوشبو ہوا میں پھیلی ہوئی تھی .جو دل کو تازگی بخش رہی تھی.ماحول کو خوشگوار بنا رہی تھی .دعانے ایک لمبی سانس کھینچ کر اس خوشبو کو اپنے اندر اتارا اور ایک دَم مسکرا دی.پھربی جان کو دیکھ کر بولی "یہ قدرتی حُسن کتنا دل فریب ہوتا ہے نا بی جان ، انسان کی ساری اداسی ، بے زاری دور کر دیتا ہے "
"بالکل بیٹا یہ اللّه تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لئے نعمت ہے ، دیکھو تو میری بیٹی بھی اس قدرتی حُسن کو دیکھ کر خوش ہوگئی " بی جان پیار سے بولیں .
"بالکل بی جان " وہ ہنس دی پھر یاد آنے پر بولی "خُرم بھائی نے کب آنا ہے بی جان ؟"
"فون آیا تھا اسکا آج رات تک آ جائے گا " بی جان نے کپ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا.
" آؤ بیٹا اندر چلیں اب"بی جان نے کہا تو دعا اپنا کپ ٹیبل پر رکھا پھر  انکا ہاتھ پکڑ کر اندر کی طرف آ گئی.بی جان کو ان کے کمرے میں چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں آئی اور کوئی کتاب لے کر پڑھنے لگی .کافی ٹائم گزر گیا وہ کتاب پڑھنے میں مگن تھی کہ اچانک ہارن کی آواز پر چونکی ،گھڑی دیکھی تو رات کے آٹھ بج رہے تھے.اس نے کتاب ٹیبل پر رکھی .پھر نیچے آئی تو بی جان ہال میں بیٹھی تھیں.تھوڑی دیر بعد خُرم بھائی نیوی بلیو سوٹ پہنے ، ایک ہاتھ میں موبائل اور گاڑی کی چابی لئے اور دوسرے ہاتھ میں  لیپ ٹاپ بیگ تھامے اندرداخل ہوا. 
"اسلام وعلیکم "  خُرم نے دونوں کو اکٹھے ہی سلام کیا. بی جان نے وعلیکم السلام کہا اور دعا نے سر ہلا کر جواب دیا .خُرم چیزیں ٹیبل پر رکھ کر انکے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا.پھر بولا "کیسی ہیں آپ دونوں ؟" 
" الحمد لله ٹھیک ہیں بیٹا ، آپ بتائیں سفر کیسا رہا "بی جان نے جواب دیا جبکہ دعا خاموش رہی .
"ٹھیک بی جان"خُرم نے جواب دے کر دعا کو دیکھا پھر بولا "تم کیسی ہو ؟ پڑھائی کیسی جارہی ہے ؟" وہی دو ، تین سوال جو وہ ہمیشہ دعا سے کرتا تھا .
"ٹھیک ہوں ، پڑھائی بھی اچھی جارہی ہے "  دعا کا بھی ہمیشہ والا جواب آیا.
"اوکے آپ لوگ بیٹھیں میں اب ریسٹ کروں گا " اتنا کہہ کر وہ اپنا سامان اٹھا کر کمرے کی جانب بڑھ گیا."بیٹا کھانا نہیں کھائیں گے     آپ ؟" بی جان پوچھا .
"کھانا کھانے کا جی نہیں ہے.بس رِیسٹ کروں
گا"پلٹ کر جواب دیا گیا پھر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا اور دروازہ بن کر دیا .
دعا اور بی جان نے ساتھ مل کر کھانا کھایا پھر سونے کے لئے اپنے کمروں میں چلی گئیں دعانے کمرے میں آ کر کتاب اٹھائی جسے وہ پہلے پڑھ رہی تھی . کافی دیر وہ کتاب پڑھتی رہی .پھرجب نیند آنے لگی تو اسنے کتاب بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھی ، گھڑی اٹھائی تا کہ اس پر الارم سیٹ کر سکے  کیونکہ صبح اسے یونیورسٹی بھی جانا تھا.ٹائم سیٹ کیا پھر  سونے کے لئے لیٹ گئی .                             ............####
" تجھ کو دیکھا پھر اس کو نہ دیکھا "
         چاند کہتا ہی رہا ، میں چاند ہوں، 
                        میں چاند ہوں 
" ہاں ہاں پتا ہے تو چاند ہے جس پر گرہن لگا ہوا ہے اور اب  چپ کر جا" معاذ جو لیپ ٹاپ کھولے اس پرکام کر رہا تھااسکے شعر پڑھنے پر اسکی لمبی داڑھی کو دیکھ کر طنزیہ انداز میں بولا جو شعر پڑھ کرکب سے میں چاند ہوں، میں چاند ہوں بولےجارہا تھا.
وہ دونوں ایک کمرے میں بیٹھے تھے.یہ جگہ بلیک کی خفیہ جگہ نہیں تھی یہاں سب کا باس مغاذ تھا وہ لوگ بلیک کے نام سے واقف توتھے پر اسکو دیکھا نہیں تھا بلیک کے سارے پیعام ان تک مغاذ لاتا تھا.
                  "بے قراری دیکھی ہے "
             "تو میرا ضبط بھی دیکھو"
       "اتناچپ رہوں گا کہ چیخ اٹھو گے تم"
چاند شعر میں سے اپنے مطلب کی بات چُن لیتا پھر اس شعر کے آگے پیچھے کیا ہے اس سے، اسے کوئی مطلب نہیں ہوتا تھا.اسے  شاعری کا شوق تھا. اسلئے کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ سناتا رہتا تھا.چاہے سامنے والا سننا چاہتا ہو یا نہیں پر چاند لگا رہتا تھا .
معاذ نے اسے گھور کر دیکھا تو وہ ہنس کر چپ ہوگیا پھربولا "اچھا اب نہیں پڑھتا شعر بد ذوق انسان پر تمہاری چاند گرہن والی بات ٹھیک نہیں اتنا پیارا تو ہوں " چاند نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر کہااور ٹھیک ہی کہا تھا پر اس کے چہرے پر بے ترتیب داڑھی اور لمبے بال اسے کوئی عجیب ہی مخلوق بنا رہےتھے                              "ہاں کچھ زیادہ ہی پیارے ہو چلو اب کوئی کام بھی کرلو" مغاذ نے سنجیدگی سےکہا     "ہمم تم کونسے کام میں مصروف ہو ویسے؟"
چاند نے سنجیدگی سے پوچھابالکل نہیں لگ رہا تھا کہ یہ کچھ دیر پہلے والا چاند ہے .
"روس میں جومال بھیجنا ہے انہیں سے کنٹیکٹ میں ہوں.جیسا بلیک نے کہا تھاکہ کچھ دنوں کے لیے باہر کے  کام روک دیئے جائیں اسلئے جو کام اندر بیٹھ کر ہو سکتا ہے وہ کررہا ہوں"
"ویسے تم کب سے بلیک کے ساتھ کام کررہے ہو؟ چاند نے اسکے چہرے پر نظریں جماکر کہا
اسکے سوال پرمعاذ نے اسے گھور کر دیکھا " تم یہ سوال کرنا بند کرو اورکام پر دھیان دو" بات ختم کر تے ہی اسنے لیپ ٹاپ چاند کی طرف گھومایا پھر بولا " یہ تم پڑھ لو کہ روس والوں کے کیا کیا مطالبات ہیں مال کے لئے پھر کچھ دنوں میں اس حساب سے کام کرنا ہے" 
"یس باس "چاند نے کہا پھرخاموشی سے کام میں لگ گیا.  بلیک سب کے لئے ایک پہیلی تھا اسے مغاذ اور چند قریبی بندوں کے علاوہ کسی نے نہیں دیکھا تھا .                                            ..............#### 
دعا تیار ہو کر نیچے آئی ،تو  بی جان کچن سے باہر آکر بولیں "دعا بچے آؤ ناشتہ کر لو " 
دعا چلتی ہوئی کچن میں رکھی ڈائننگ ٹیبل  کی طرف آگئی .ایک کرسی کھینچ کر بیٹھی اور اپنا بیگ ساتھ والی کرسی پر رکھا. بی جان نے ناشتہ اس کے سامنے رکھا.تودعا بولی 
"بی جان آپ بھی میرے ساتھ ناشتہ کریں "
"تم شروع کرو بیٹا میں آرہی ہوں.بس یہ چاۓکپ میں ڈال لوں" بی جان چاۓ کپ میں ڈالنے لگیں.دعا اٹھ کر ان تک آئی اور ان کے ہاتھ سےکَپ لے لیا پھر بولی "بی جان آپ اتنا کام کیوں کررہی ہیں. فاطمہ آپا کہاں ہیں ؟ وہ بنا دیتیں ناشتہ" بات کرتے ہوئے اس نے کپ ٹیبل پر رکھا اور بی جان کے لئے کرسی کھینچی پھر خود بھی بیٹھ گئی .
"فاطمہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسلئے میں نے خود اپنی بیٹی کے لئے ناشتہ بنا لیا "وہ پیار سے بولیں ."بی جان مجھے بتا دیتی  آپ اب یہ اچھا لگتا ہے کہ آپ اس عمر میں کام کریں"  دعا نے چاۓ پیتے ہوئے کہا .
"اچھا تو تم مجھے بوڑھیا کہہ رہی ہو ؟"  بی جان نے اسے مصنوعی خفگی سے گھورا .
"اوہ نو بی جان ، آپ تو مجھ سے زیادہ ینگ اور سمارٹ ہیں.میری مجال جو میں ایسا کہوں"دعا نے ہنستے ہوئے کہا پھر کرسی سے اٹھ کر بی جان کے پاس آئی اور ان کے گال پر پیار کیا."میری پیاری بی جان "
"بس بچے پتہ چل گیا تم نے مجھے بوڑھیا نہیں کہا " بی جان ہنس کر بولیں 
"جی جی بالکل"دعا نے مسکرا کر کہا پھر اپنا بیگ اٹھایا " چلتی ہوں بی جان " 
بی جان اس کے ساتھ کار تک آئیں ،ڈرائیور کو ہدایت دی کہ دعا کو خیریت سے لے کر جائے .
پھردعا پر آیتُہ الکرسی پڑھ کر پھونکی  
"اللّه حافظ بی جان "
"فی آمان اللّه بیٹا " دعا کار میں بیٹھی تو ڈرائیور نے کار آگے بڑھا دی .کارگیٹ سے باہر نکلی تو بی جان بھی اندر کی طرف بڑھ گئیں ...............####

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page