top of page

دل کی دھڑکن بن گئے

از پری وش

قسط نمبر دو

شاہ میر شاہ ڈی آئی جی کے آفس میں بیٹھا تھا.ڈی آئی جی آغا رضا کاظمی چشمہ لگاۓ بہت سی فائلز ٹیبل پر رکھے ایک ایک فائل کو چیک کرنے میں مصروف تھے.شاہ میر فل پولیس یونیفارم میں ڈی آئی جی صاحب کے سامنے خاموشی سے بیٹھا تھا.آغا رضا کاظمی نے ایک فائل اسکی طرف بڑھائی اور بولے 
"یہ لو نو جوان اس فائل کو غور سے پڑھنا اس میں ان لوگوں کی معلومات ہے .پہلے جو فائل دی تھی اسکو چیک کر لیا ہوگاآپ نے ؟"
سوالیہ انداز میں پوچھا گیا.شاہ میر نےفائل تھام لی پھر بولا "یس سر فائل کو چیک کر لیا ہے اور مہینے بھر سے ہماری ٹیم اسی کام میں لگی ہے جلد آپکو کوئی اچھی اطلاع ملے گی"
"ویل ڈن نوجوان ، آپکی اسی محنت کو مد نظر رکھتے ہوئے آپکا ٹرانسفر یہاں کروایا گیا  ہے اور یہ کیس آپکو دیا گیا ہے " آغا رضا کاظمی نے اس پر عزم نو جوان کو دیکھا 
"شکریہ سر"
"اوکے نوجوان اپنا کام جاری رکھیں پر محتاط رہ کر وہ لوگ کوئی چھوٹے مجرم نہیں ہیں  سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں پر اب تک پولیس کے ہاتھ نہیں لگے " 
"جی سر اس بات کا خیال رکھیں گےاور انشاء اللّه جلد وہ لوگ پکڑے جائیں گے"  شاہ میر پُر عزم تھا .
" کِیپ اِٹ اپ مین اینڈ بی کِیئر فل "  آغا رضا کاظمی کو یہ نو جوان اچھا لگا تھا.وہ خود بھی ایک ایمان دار افسر تھے اور کافی سالوں سے پولیس میں تھے .
"یس سر اور اب اجازت دیں "  شاہ میر نے کھڑے ہو کر ڈی آئی جی صاحب کو  سلیوٹ کیا.
"ہاتھ ملاؤ نوجوان"  آغا رضا کاظمی نے مسکرا کر ہاتھ آگے بڑھایا تو شاہ میر نے ان سے مُصافحہ کیا.
"اللّه حافظ سر" شاہ میر نے کہہ کر فائل اٹھائی .اور کمرے سے باہر نکل آیا. ..............####
دعا یونیورسٹی پہنچی تو جلدی سے کلاس کی طرف بڑھی ، اسے یونی جوائن کیئے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے. وہ یہاں کسی کو  نہیں جانتی تھی. وہ کلاس لینے کے بعد فری وقت لائبریری میں گزارتی تھی.اب بھی وہ کلاس لے کر باہر نکلی .
 اسکا رخ لائبریری کی طرف تھا.وہ چلتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی.لائبریری میں انٹر ہونے ہی والی تھی کہ اندر سے کوئی باہر نکلا اور دعا کی اس سے زور دار ٹکر ہوئی اور دعا  کے ہاتھ سے کتابیں نیچے جا گریں ، اسنے بنا سامنے والے کو دیکھے سُوری کہا , پھر نیچے جُھک کر کتابیں اٹھانے لگی.اسکا ہاتھ ایک کتاب کی طرف بڑھا ہی تھا کہ ایک مردانہ ہاتھ نے وہ کتاب اٹھا لی .
دعا نے نظر اٹھا کر دیکھا تو حیران رہ گئی.اورحیرت کے ساتھ اسے خوشی بھی ہوئی.نجانے کیوں ؟.اس نے جلدی سے باقی کتابیں اٹھا لیں پھر خود بھی اٹھ کھڑی ہوئی.
 وہ اسے دیکھ کر مسکرارہا تھا. اسکی چمکتی آنکھیں دعا کے چہرے پر تھیں.
" تم نے سوچ لیا ہے کہ ہمیں ہمیشہ ٹکرا
 کر ہی ملنا ہے ؟"ازھران نے ہنستے ہوئے کہا .
"آپ یہاں کیا کررہے ہیں ؟"  دعا نے اَحمقانہ سوال کیا .
"گھومنےآیا ہوں"  جواب آیا 
"جی" دعا نے آنکھیں پوری کھول کر کہا 
"ارے کمال کرتی ہو سنو وائٹ یونیورسٹی میں ہوں تو ظاہر سی بات ہے پڑھتا ہوں یہاں"
اس نے ہنس کر کہا 
"اوہ سوری "  دعا شرمندگی سے بولی 
"سوری کو رہنے دو سنو وائٹ آؤ کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں" ازھران نے دوستانہ انداز میں کہا.دعا جھجک رہی تھی.پرجب ازھران نے قدم آگے بڑھائے تو دعا بھی اسکے پیچھے چل پڑی .ازھران چلتا ہوا ایک بینچ پر بیٹھا جبکہ دعا چپ کھڑی رہی .ازھران نے اسے دیکھا پھر کہنے لگا "بیٹھ بھی جاؤ اب " .دعا خاموشی سے بینچ کے دوسرے سرے پر ہو کر بیٹھ گئ وہ سامنے دیکھ رہی تھی. جہاں بہت سے اسٹوڈنٹ کھڑے باتوں میں مگن تھے .تبہی  ازھران نے اسکی کتاب آگے بڑھا کر اسے دی تو دعا نے تھام لی.
"کیسی ہو تم ؟ سوال ہوا 
"میں ٹھیک " جواب آیا 
"تم مجھ سے بھی میرا حال پوچھ سکتی ہو کوئی پابندی نہیں ہے "  مسکرا کر کہا گیا .
"کیسےہیں آپ ؟"  شرمندہ سی ہنسی ہنس کر وہ بولی 
"بہت پیارا"  اس نے شرارتی انداز میں کہا         ازھران کے جواب پر دعا خاموش ہو گئ تو وہ بولا
"بس پھر چپ ہوگئی؟ تم اتنا کم کیوں بولتی ہو؟ اسنے دعا کو دیکھ کر پوچھا 
" اور آپ اتنا زیادہ کیوں بولتے ہیں؟" دعا نے الٹا اس سے سوال کیا.اس کے سوال پر ازھران  ہنس پڑا.
"گڈ سنو وائٹ کو بولنا آتا ہے "اسنے ہنستے ہوئے کہا پھر کچھ دیر رک کر بولا "ویسے تم کب سے یونیورسٹی میں ہو ؟"
"ابھی کچھ دن ہی ہوئے ہیں"  دعا نے جواب دیا "اچھا میں پچھلے دنوں گاؤں گیا ہوا تھا اپنی دادو سے ملنے اس لئے تمہیں نہیں دیکھ سکا, پردیکھو نہ اس دن کیسے ہماری ملاقات ہو گئ تھی " اسنے دعا کودیکھتے ہوئے کہا                دعا نے اسکی بات پر سر ہلا دیا.جب اچانک وہ بولا " مجھ سے دوستی کرو گی سنو وائٹ ؟"  بڑے دلکش انداز میں پوچھا گیا تھا.ساتھ ہی اپنا ہاتھ بھی آگے بڑھا دیا جیسے اسے یقین ہو کہ دعا اس سے دوستی کر ہی لے گی.
دعا نے پہلے اسکے پھیلے ہوئے ہاتھ کو دیکھا پھر اسکے چہرے پر نظر ڈالی.وہ بھورے بالوں اور شوخ آنکھوں والا لڑکا اتنا برا بھی نہیں تھا.پر اس نے تو آج تک کسی سے دوستی نہیں کی تھی. کیا وہ ازھران کو نہ کہہ دے؟دعا یونہی سوچوں میں گم تھی کہ وہ پھر بولا 
"اتنا مت سوچو سنو وائٹ میں بہت اچھا دوست ہوں ، ایسا میرے دوست کہتے ہیں"وہ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لئے بولا 
اورپھر نہ جانے کیوں دعا نے اسکا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا.
"ہاہ شکر ورنہ مجھے لگا تھا. تم سوچتی ہی رہو گی ویسے نئی دوستی مبارک ہو "ازھران  شوخی سے بولا تو دعا مسکرا دی.اوریہاں سے انکی دوستی کی ابتدا ہوگئی تھی.        .............####
چاند کرسی پر بیٹھا تھا اور لیپ ٹاپ  پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا.وہ لیپ ٹاپ معاذ کا تھا.چاند اپنے کام میں مصروف تھا.جب معاذ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا .یہاں معاذ اور چاند اپنا کام کیا کرتے تھے.ایک ٹیبل پر بہت ساری تصویریں ، فائلز رکھی تھیں.معاذ اور چاند کا کام لڑکیوں ، بچوں کو تلاش کرنا ہوتا تھا کہ کہیں وہ کسی اسٹرونگ خاندان سے تعلق تو نہیں رکھتے یہ لوگ زیادہ تر ایسے لوگوں کو اغوا کرتے جو بے گھر ہوتے یا غریب ہوتے تاکہ کام آرام سے ہو جائے اور پولیس کا کوئی مسئلہ نہ بنے یہ لوگ انکی ساری معلومات اکٹھی کرتے.ان کے آنے جانے کا وقت نوٹ کرتے تھے اور ان  طرح ہی بلیک کے بہت سے ساتھی ایسے ہی جگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے جیسے کالج , یونیورسٹی جہاں پر وہ لوگ لڑکیوں پر نظر رکھتے اور جو بدنصیب انکی نظر میں آجاتی انہیں پھر اغوا کروا لیا جاتا. یہ ساری معلومات معاذ باقی ساتھیوں کو دیتا جو پھر اغوا کرنے کا کام سر انجام دیتے تھے.
معاذ ، چاند کی طرف آیا اور بولا 
"بلیک کی کال آئی تھی .کل سے ہمیں اپنا کام شروع کرنا ہوگا " 
"اوکے باس "  چاند نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے کہا 
معاذکا فون بجا تو وہ کمرے سے نکل گیا.
اور چاند اٹھ کر میز تک آیا جس پر تصویریں اور فائلز رکھی تھیں وہ انھیں اٹھا کر دیکھنے لگا پھر اپناموبائل نکالا اور کیمرہ کھول کر انکی تصویریں لینے لگا.
                                          ####................
شام کا وقت تھا.جب ازھران علی خان اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر ڈنر بنانے کی تیاری کر رہا تھا.اس نے آج شاہ میر کو ڈنر پر بلایا تھا.اس لئےعمر اور عدیل کو یونیورسٹی سے سیدھا اپنے گھر ہی لے آیا تھا.ازھران نے انہیں کہا کہ وہ خود کھانا بناۓ گا بس ان دونوں کو اسکی تھوڑی مدد کرنی ہے.وہ دونوں ماننے کو تیار نہ تھے.دونوں نے ازھران کو کہا بھی کہ کہیں باہر ڈنر کر لیں گے پر وہ نہیں مانا شاہ میر پہلی بار اس کے گھر آنے والا تھا اس لئے وہ کچھ الگ کرنا چاہتا تھاتو اس نے سوچا کہ کیوں نہ وہ خود شاہ میر کے لئے کھانا بنائے وہ  اچھی کوکنگ کر لیتا تھاپر دو ، چار چیزیں ہی بنانی آتی تھیں اور وہ کام بھی آرام آرام سے کرتا اسلئے ان دونوں کو لے کر وہ شام میں ہی کچن کی طرف آگیا جبکہ عمر اور عدیل منہ بناتے رہ گئے.
"آج دوستی میں باورچی بھی بن گئے ہم"  عمر نے ٹماٹر کاٹتے ہوئے کہا 
"اور نہیں تو کیا یہاں ہمیں خوار کر رہا ہے.کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں بھی ڈنر کر سکتے تھے"  عدیل جو مرغی دھونے میں مصروف تھا منہ بنا کربولا 
"ہاں پر یہ اپنا سردار مانے تب نا"  عمر نے کہہ کر ازھران کو دیکھا کہ وہ کچھ بولے پر وہ خاموشی سے مچھلی کو مسالا لگا رہاتھا .
"ہاہ کیا وقت آگیا ہے تین ، تین خوبصورت مرد کھانا بنا رہے ہیں" عدیل نے ڈرامائیی انداز میں کہا."ہاۓ میری ماں کو بلا کر لاؤ وہ آ کردیکھیں تو  انکا بیٹا گھر کا کام کرنے لگا ہے اب اس کے ہاتھ پیلے کر دیں"عمر نے لہرا کر کہا "خاموش ہو جاؤ ڈرامے بازو اور کام پر دھیان دو" ازھران  نے دونوں کو گھور کر دیکھا 
"ہم خاموش رہ کر کام نہیں کر سکتے" عدیل نے اسے گھور کر جواب دیا
عمرکیوں پیچھے رہتا وہ بھی جلدی سے بولا 
"بلکل اگر خاموش رہ کر ہی کام کرنا ہے تو ہم دونوں چلتے ہیں تم خود کر لو سارا کام" اسنے جلدی سے چھری نیچے رکھی.
"ارےمیرے یارو آؤ تینوں باتیں کرتے ہوئے کام کرتے ہیں.میں بھلا زیادہ دیر تک خاموش رہ سکتا ہوں؟ ازھران بھی انکا ہی دوست تھا ڈرامہ کرنے میں کیوں پیچھے رہتا.
"ہاں پتا ہے زبان بہت چلتی ہے تمھاری اور دماغ بھی"  عمر نے کہا تو ازھران ہنس دیا 
"چلو پھر لگ جاؤ کام پر" 
اوروہ دونوں ازھران کو گھور کر پھر سے اپنے کام پر لگ گئے تھے.                                  .................####
دعا گھر آئی تو بہت خوش تھی.آج اس نے پہلی بار کسی سے دوستی کی تھی.وہ بھی ایسے شخص سے جو اسکامحسن تھا.وہ کھانا کھاتے ہوئے بچوں کی طرح خوش ہو کربی جان کو بتا رہی تھی. جیسے بچہ پہلے دن اسکول جاتا ہے اور واپس آ کر ماں کو بتاتا ہے کہ آج اسکا نیا دوست بنا ہے بی جان مسکرا کر دعا کی باتیں سنتی رہی تھیں اور بی جان نے اس سے کہا کہ ازھران  کو ایک بار ان سے ضرور ملوائے تا کہ وہ اسکا شکریہ ادا کر سکیں کیونکہ اس نے دعا کی مدد کی تھی.
                                                   ###..............
آٹھ  بجے تک ان لوگوں نے ڈنر تیار کر لیا تھا.عمر اور عدیل لاؤنج میں آ کر بیٹھے جبکہ  ازھران اوپن کچن کے باہر رکھی ڈائینگ ٹیبل پر برتن سیٹ کر رہا تھا.
"دیکھو ان جناب کو خود تو تھکتےنہیں پر ہمارا حال بے حال کر دیا ہے"  عمر نے اپنا بازو دباتے ہوئے عدیل کو کہا 
"وہی نہ اتنا کام میں نے کبھی نہیں کیا جتنا ازھران صاحب نے کروا دیا"  عدیل نے اونچی آواز میں ازھران کو سنانے کے لئے کہا 
"بس کرو سست لڑکوں اتنا کام نہیں کیا جتنی ہاۓ ہاۓ کر رہے ہو"  ازھران بھی ان کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا.
"خود تو تم پتھر کے بنے ہوئے ہو ہم بیچارے معصوم بچوں پر ظلم کرتے ہو "  عمر نے مظلومیت سے کہا 
"اوئے صدقےجاؤں تم معصوم بچوں کے ڈرامے باز نہ ہو تو"  ازھران نے منہ بنا کر کہا 
"اچھا بتاؤ شاہ صاحب نے کب آنا ہے ؟"  عدیل نے پوچھا
عمر اور عدیل سے بھی شاہ میر  کی کافی دوستی تھی .
"کل بتایا تو تھا اسے پر ایک بار پھر کال کرتا ہو بھول ہی نہ جائے کہیں " ازھران  موبائل ہاتھ میں اٹھاتے ہوئے بولا 
"ہاں یار جلدی فون کرو سخت بھوک لگ رہی ہے مجھے"  عمر نے پیٹ پر ہاتھ رکھتےہوئے کہا تو عدیل بولا "  تو ہے ہی ہمیشہ کا بھوکا "
"تو چپ کر جا"  عمر نے عدیل کو گھور کر کہا  اور صوفے پرمزید پھیل کر بیٹھ گیا.
اور ازھران  نے شاہ میر کو فون کیا اور جلدی آنے کا بولا تو اسنے کہا بس راستے میں ہوں کچھ دیر میں آ رہا ہوں.
"چلو اب کھانا لگاتے ہیں شاہ میر بس آنے ہی والا ہے" ازھران کی بات سن کر عمر جلدی سے بولا " نہیں ، نہیں" جبکہ عدیل اٹھ کھڑا ہوا.
"پورا ڈرامہ ہے یہ لڑکا"ازھران نے ہنس کر کہا اور عدیل کے پیچھے کچن کی طرف آگیا
دونوں کھانا لگا رہے تھے جب کار کا ہارن بجا عمر نے جلدی سے باہر آکرگیٹ کھولااور شاہ میر اپنی کار اندر لے آیا.پھردونوں چلتے ہوئے اندر داخل ہوئے تو عمر اونچی آواز میں بولا 
"آگیا ہے وہ جس کا انتظار تھا دوستوں" اسکے بولنے پر شاہ میر ہنس پڑا
دونوں صوفے  پرآ کر بیٹھے تو ازھران اور عدیل کچن سے نکل کر شاہ میر سے ملنے آئے
"چلو اب بیٹھو مت یہاں کھانا کھا لیتے ہیں ورنہ ہمارے عمر صاحب بھوک سے بیہوش ہو جائے گے" 
"اورنہیں تو کیا"  ازھران کی بات سے عدیل نے اتفاق کیا.تو تینوں عمر کو دیکھ کر ہنس پڑے  اور عمر نے اپنا منہ بگاڑ لیا تھا. وہ تینوں عمر کو پکڑ کر کھانے کی میز تک لائے تو وہ مسکرا دیا.پھر خوش گوار ماحول میں ان چاروں نے کھانا کھایا. پھر کافی پیتے ہوئے باتیں  کرنے لگے۔ 
"شاہ کیس کا بتاؤ کہا تک پہنچا ؟" ازھران نے کافی کا سپ لیتے ہوئے کہا                                "بس کام جاری ہے .جلد بلیک گینگ کا نام و نشان نہیں ہوگا.انہوں نے جتنا ظلم کرنا تھا کر لیا اب اور نہیں ہم جلد کامیاب ہونگے       انشاء اللّہ" شاہ میر نے تینوں کو دیکھ کر کہا جو سنجیدگی سے اسکی بات سن رہے تھے         "اور اس دن کا ہمیں بے صبری سے انتظار ہے" عمر کی آنکھیں چمک اٹھیں.                              پھر چاروں کافی دیر اس سنجیدہ موضوع پر بات کرتے رہے.                                                    ####
"سنو وائٹ تم یہاں بیٹھی ہو؟ میں کب سے تمہیں پوری یونی میں تلاش کر رہا ہو " ازھران  تیز تیز بولتا اس تک آیا .دعا جو درخت کے نیچے بیٹھی تھی. اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا.
"آپ مجھے کیوں تلاش کر رہے تھے؟"دعا نے نہ سمجھی سے اسے دیکھا 
"اےلڑکی تم دوست ہو میری یاد تو ہے نہ تمہیں؟"ازھران نے آنکھیں نکال کراس سے پوچھا "یاد ہے مجھے"اسنے ہنس کر کہا 
"پھر ٹھیک ہے معصوم لڑکی"مسکرا کر کہا گیا دعا کچھ کہنے ہی والی تھی کہ عمر اور عدیل کو آتے دیکھا تو جھجھک کر چپ ہو گئی.
"اسلام وعلیکم"دونوں نے ایک ساتھ کہا 
"وعلیکم السلام "ازھران نے جواب دیا اور دعا نے بھی سر ہلا دیا 
"دعا ان سے ملو یہ عمر اور عدیل ہے " اس نے دونوں کاتعارف کروایا 
"اوریہ ہیں دعا"  ازھران نے دعا کو دیکھ کر کہا پہلی بار دعا نے اس کے منہ سے اپنا نام سنا تھااور دعاکو سن کر اچھا لگا تھا  ورنہ تو وہ سنو وائٹ ہی کہتا تھا.
"اچھا....."عدیل نےاچھا کو لمبا کھینچا          پھر ان دونوں نے ازھران کو دیکھ کر آنکھیں گھومائیں تو ازھران نے انھیں گھورا.دعا سر جھکائے بیٹھی تھی.اسنے اپنا جھکا سر اٹھایا اور بولی "مجھے لائبریری سے کتابیں لینی ہیں میں چلتی ہوں"ازھران کو دیکھ کر وہ بولی پھر کھڑی ہو کران دونوں کو دیکھ کر بولی   "آپ لوگوں سے مل کر اچھا لگا"
"اور ہمیں بھی" عمر نے دانت نکالتے ہوئے کہا 
تو ازھران نے اسے گھورا پھر بولا 
"سنووائٹ مجھے بھی جانا ہے چلو دونوں ساتھ چلتے ہیں" وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا . اسکے سنو وائٹ کہنے پر دونوں نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا.ازھران سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا. ان شیطانوں کے سامنے اسکے منہ سے پھسل گیا تھا اب تو دونوں نے اسے نہیں چھوڑناتھا .وہ جلدی سے دعا کے پیچھے چلنے لگا اور وہ دونوں جو پیچھے رہ گئے تھے دورجاتے ازھران صاحب کو گھوریوں سے نواز رہے تھے.
         #######                                                بہت سے دن پلک چھپکتے ہی گزر چکے تھے.دعا اس حادثے کو بھول چکی تھی .یونی میں اس دل لگ چکا تھا جس کی بڑی وجہ ازھران تھا.جو ہمیشہ اسکے ساتھ رہتا , اسکا خیال رکھتا ازھران اور اسکی دوستی کافی مضبوط ہوگئی تھی.ازھران ایک ، دو بار دعا کے گھر بھی آیا اور بی جان سے ملا .ازھران کے آنے سے اسکی زندگی میں جیسے بہار آگئ تھی .ازھران اسکے ساتھ ہوتا تو اسے سب اچھا لگتا.جیسے ہر طرف رنگ ہی رنگ بکھرے ہوئے ہوں.وہ زندگی کو جینے لگی تھی.
                                         ########     
" ایک اور آرڈرآیا ہے لاہور کی ہیرامنڈی سے"  بلیک نے سامنے رکھی فائلز کو دیکھتے ہوئے کہا
"ابھی تو روس والا کام پورا کرنا ہے بلیک پہلے ہی بہت ٹائم گزر چکا ہے"معاذ نے اسے دیکھ کر کہا "تو.....؟؟ ہمارے لئےمشکل کیا ہے؟ دونوں کام ایک ساتھ کر لو" بلیک اسے گھور کر بولا 
"ٹھیک ہے جیساآپ کہیں"  معاذ نے سر جھٹکا 
"اورہاں ہیرا منڈی والا مال اچھا ہونا چاہئے پھر قیمت بھی ڈبل وصول کرونگا"  بلیک  کمینگی سے ہنسا. "اوکے "معاذ کہہ کرکمرے سے باہر نکل گیا اسے اب آگے کا پلین سب ساتھیوں کو بتانا تھا.بلیک فائلز کھولے انھیں چیک کررہا تھا.
ہیرامنڈی کے ساتھ تو اسکا پرانا تعلق تھا .جب وہ بلیک نہیں تھا تب سے وہ وہاں مال پہنچا رہا تھا. لاہور کی مشہور ہیرا منڈی جہاں اغوا شدہ  لڑکیوں کو بیچاجاتا تھا پھر ان ہیروں کو تراشا جاتا اور بازار کی رونق بنا دیا جاتا تھا .  ان لڑکیوں کو یا تو مہنگے داموں آگےبیچ دیا جاتا یا پھر ہمیشہ کے لئے وہ ہیرا منڈی کی رونق بن کر رہ  جاتیں تھیں.
                                             #######    
  گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے اسکی نظر روڈ کے ایک طرف پریشان کھڑی دعا پر پڑی جو ڈرائیور سے کوئی بات کر رہی تھی.ازھران  نے اپنی کار دعا کی کار کے پیچھے روکی پھر اتر کر اس تک آیا .
"کیاہوا ؟ کوئی مسئلہ ہے؟ اسنے نے دعا کو دیکھ کر کہا 
اسکی بات پر دعا نے سر اٹھا کر اسےدیکھا .
"کار میں کچھ مسئلہ ہوگیا ہے.برکت بابا نے چیک کی ہے پر سمجھ نہیں آرہا" دعا نے پریشانی سے جواب دیا.وہ یونی سے گھر جارہی تھی جب راستے میں گاڑی بند ہوگئی تھی."روکو میں چیک کرتا ہوں"ازھران نے آگے بڑھ کر کار کو چیک کیا پر وہ ٹھیک نہیں ہوئی.
"کار میں کوئی بڑا مسئلہ لگتا ہے.ایک کام کریں برکت بابا آپ مکینک کو بلا کر کار کو چیک کروا دیں "  
"جی صاحب"  بابا نے سر ہلا کر جواب دیا.
بابا سے بات کرنے کر بعد وہ دعا کی طرف پلٹا "تم میرے ساتھ چلو تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں"
"آپکو پریشانی ہوگی"دعا نے اسے دیکھ کرکہا  "بالکل نہیں مجھے خوشی ہوگی.چلو آؤ"  مسکرا کر جواب دیا گیا اور ساتھ ہی اپنے پیچھے آنے کا کہا.دعاکے لئے اسنے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا "بیٹھو سنو وائٹ" 
دعابیٹھ گئی تو ازھران نے  دروازہ بند کیا پھر گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور کار آگے بڑھا دی.دونوں خاموش تھے .ازھران اپنی سوچوں میں گم تھا اور دعا کو گھر پہچنے کی جلدی تھی کیونکہ بی جان اس کے لئے فکر مند ہو رہی ہونگی.وہ یہی سوچے جا رہی تھی جب کار گھر کے سامنے رکی تو دعا نے ازھران کی طرف دیکھا پھر بولی"آپ اندر چلے ناں   بی جان بھی آپکا پوچھ رہیں تھیں"
دعا کی بات پر وہ کچھ دیر چپ رہا پھر ہارن بجا دیا تاکہ چوکیدار گیٹ کھول دے. ازھران پہلے بھی یہاں آ چکا تھا تو چوکیدار نے اسکی کار دیکھ کر گیٹ کھول دیا.جیسے ہی اسکی کار  گھر کے اندر داخل ہوئی پیچھے سے خرم کی کار بھی آگئی.دونوں گاڑیاں آگے پیچھے پورچ میں روکیں .
دعا اور ازھران کار سے نکلے.خرم بھی اپنی کار سے نکل کر ان تک آیا.
"یہ کون ہے ؟"خرم نے دعا سےسوال کیا
"یہ ازھران ہیں میرے یونی فیلو "دعا کی بات پر خرم کے ماتھے پر بل پڑے
"اوریہ خرم بھائی ہیں" اب اسنے ازھران کی طرف دیکھ کر کہا.دعا نے اسے اپنے بارے میں سب بتا دیا تھا.وہ خرم کے نام سے واقف تھا پر اسے دیکھا آج تھا.دعا کی بات پر ازھران نے بنا کچھ کہے اپنا ہاتھ خرم کی طرف بڑھایا.خرم نے ہیلو کہہ کر اس سے مُصافحہ کیا پر بہت سرد انداز میں"اچھا لگا آپ سے مل کر"خرم نے اسے دیکھ کر کہا 
"اورمجھے بھی" ازھران  نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور دعا ان دونوں کے  بیچ خاموش کھڑی تھی.
" اندر چلیں" خرم نے ہاتھ کے اشارے سے کہا تو تینوں اندر کی طرف بڑھ گئے.سامنے ہی بی جان پریشانی سے ٹہل رہی تھیں.دعا کو دیکھتے ہی اس تک آئیں.
"بیٹا کہا رہ گئی تھی تم" 
"بی جان کار خراب ہو گئی تھی.ازھران نےگھر تک لفٹ دی ہے." اپنے پیچھے آتے ازھران کو دیکھ کر کہا تو بی جان نے بھی ازھران کو دیکھا."اسلام وعلیکم بی جان" ازھران نے بی جان کے سامنے جھک کر کہا تو بی جان نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا.          
"وعلیکم السلام بیٹا آؤ بیٹھو "                       بی جان نے صوفےکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا. ازھران اور خرم آمنے سامنے صوفے پر بیٹھ گئے اور بی جان ایک طرف رکھی کرسی پر بیٹھ گئیں تھیں.جبکہ دعا کچن کی طرف چلی گئ. ازھران بی جان سے بات کر رہا تھا اور خرم خاموش بیٹھا ازھران کا جائزہ لے رہا تھا جب دعا , فاطمہ آپا کے ساتھ ٹرالی لئے اندر آئی. بی جان اور ازھران کو جوس دیا اور جب خرم کو دینے لگی تو وہ اٹھ کھڑا ہوا  "شکریہ میں کھانا کھا کر آیا ہوں بس اب آرام کروں گا.آپ لوگ بیٹھیں"اتنا کہہ کر وہ کمرے کی جانب بڑھ گیا اور ازھران نے خاموشی سے اسے جاتے دیکھا.                                                   "بیٹا آپ نے دعا کی مدد کی شکریہ آپکا " بی جان نے مشکور نظروں سے اسے دیکھ کر کہا                                                    " نہیں بی جان شکریہ کی کیا بات ہے دعامیری دوست ہے اور دوستوں کی مدد کرنا مجھے اچھا لگتا ہے" ازھران نے دعا کو دیکھ کر کہا جو اسکی بات پر مسکرا دی تھی.                                                                  پھر کچھ دیر بعد ازھران جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا بی جان کو خداحافظ کہا. دعا پورچ تک اسکے ساتھ آئی. ازھران نےکار کا درازہ کھول کر ایک بار پلٹ کر دعا کو دیکھا اور بولا " کل یونی میں ملیں گے , اللّہ حافظ سنو وائٹ" مسکرا کر کہتا وہ کار میں بیٹھ گیا اور دعا ہونٹوں پر پیاری سی مسکان سجائے اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگی.                            ######
اگلے دن دعا یونیورسٹی آئی ایک کلاس لے کر وہ باہر آگئی تھی.اسکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی. دعا بینچ پر آنکھیں بند کئے بیٹھی تھی اور  ایک ہاتھ سے اپنی پیشانی مسل رہی تھی . جب ازھران خاموشی سے اس کے ساتھ آ کر بیٹھااور اسے دیکھنے لگا.دعا کو اپنے چہرے پر کسی کی نظروں کی تپش کا احساس ہوا تو اس نےجھٹ سے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا اس کے ساتھ ازھران  بیٹھا تھا.اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر وہ بولا 
"کیا ہوا ؟ طبیعت خراب ہے؟" فکر مندی سے پوچھا گیا.
"ہاں وہ سر میں بہت درد ہے"  دعا نے اسے دیکھ کر کہا 
"کہوتو تمہیں گھر لے جاؤں؟"  سوالیہ انداز میں پوچھا گیا.
"نہیں شکریہ آپکا میں نے برکت بابا کو فون کر دیا ہے کہ آ کر مجھے لے جائیں"  دعا نے کہا تو اسنے دعا کو غور سےدیکھااسکا چہرہ زرد ہو رہا تھا .
"چلوٹھیک ہے، پر اگر طبیعت زیادہ خراب ہے تو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں؟" ازھران نے فکر مندی سے پوچھا.
"ارے نہیں بس گھر جا کر آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی" دعا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا پھر اٹھ کھڑی ہوئی.
"میں چلتی ہوں برکت بابا آ گئے ہونگے اللّه حافظ" بات ختم کرتے ہی وہ آگے بڑھ گئ جبکہ ازھران وہیں بیٹھا اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا.دعا یونی سے نکل کر پارکنگ ایریا کی طرف آئی جہاں بالکل خاموشی تھی ورنہ تو بہت شور ہوتا تھا گاڑیوں کا آج چونکہ وہ جلدی گھر جارہی تھی اسلئے پارکنگ ایریا میں کوئی نہیں  تھا.دعا بیگ کندھے سے لٹکائے سر نیچا کیئے آگے بڑھ رہی تھی.اسنے باتوں کی آواز پر نظر اٹھا کر دیکھاتوسامنے دو لڑکیاں باتیں کرتیں جارہی تھیں اور پھر اچانک ایک وین ان لڑکیوں سے تھوڑے فاصلے پر رکی. اس میں سے دو آدمی نکلے اور دعا کے دیکھتے ہی دیکھتے ان لڑکیوں کو گھسیٹ کر وین میں ڈال دیا.دعا کی آنکھیں پھٹ گئیں تھیں جب ان میں سے ایک آدمی دعا کی طرف بڑھا اسکی سانس حلق میں اٹک گئی .اچانک وہ کتنے دن پیچھے چلی گئی .جب ایسے ہی  غنڈوں نے اسے اغوا کیاتھا.وہ بالکل بت بن گئی. وہ آدمی اس کے قریب آنے ہی والا تھا کہ اس نے قریب پارک ہوئی کار کا ہینڈل مضبوطی سے  پکڑ لیا.اسکی ٹانگوں میں جان نہیں رہی کہ وہ بھاگ پاتی. وہ آدمی اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا پر دعا نے پوری جان لگا کر ہینڈل کو تھامے رکھا.اسےلگا اگر اسکا ہاتھ چھوٹ گیا تو پھر وہ زندہ نہیں رہ پاۓ گی.
"چھوڑ اسے"وہ آدمی دھاڑ کر بولا 
دعانے اپنی پوری طاقت لگا کر ہینڈل کو اور  مضبوطی سے پکڑا .آنکھوں ںسے آنسو بہنے لگے تھے.خلق سے آواز تک نہیں نکل رہی تھی کہ وہ مدد کے لئے کسی کو پکار لیتی.
آدمی کے اسے زور سے کھنچنے پر دعا کا ہاتھ چھوٹنے لگا تھا اسکی طاقت ختم ہورہی تھی جب اچانک پیچھے سے بھاگتے قدموں کی  آواز آئی اور ساتھ ہی آنے والے نے چیخ کر کہا
"اے کون ہو تم چھوڑو اسے" آنے والا کوئی اور نہیں ازھران علی خان تھا.ازھران کی آواز پر وین  کے اندر بیٹھاآدمی چیخ کر بولا
"چھوڑ اسے اور بھاگ وہاں سے"  اپنے ساتھی کی آواز پر وہ  آدمی جلدیسے وین کی طرف بھاگا اور ازھران اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے بولا 
"رک تیری تو"ازھران اس سے کافی پیچھے تھا اسلئے وہ ازھران سے بچ نکلا تھا. وہ آدمی بھاگ کر وین میں سوار ہوا اور زن سے وین آگے بڑھا دی گئی تھی .
اور ازھران بھاگتا ہوا دعا تک آیا جو اسے طرح بت کی مانند کھڑی تھی.ازھران نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے  پکارا 
"دعا آر یو اوکے؟" 
دعانے خوفزدہ نظروں سے ازھران کو دیکھا. اسکی آنکھوں میں خاموشی اور خوف کے علاوہ کچھ نہیں تھا.
"اےسنو وائٹ یہ میں ہوں ازھران ، ڈرو مت"  وہ اسے غور سےدیکھتے ہوئے نرمی سے بولا ازھران کی بات سمجھ کر اس کی آنکھوں میں خوف کی جگہ آنسوؤں نے لے لی تھی.وہ رک رک کر بولی 
"از....ھران وہ .....وہ لڑکیاں ..... "جہاں سے وین گئی تھی دعانے اس طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا.وہ خود اس مصیبت سے ایک بار بچ کر نکلی تھی.اب اسنے ان لڑکیوں کو بھی ویسے ہی خطرے میں جاتے دیکھا تھا.وہ تو بچ گئی تھی پر اب ان لڑکیوں کے ساتھ کیا ہوگا؟
" تم انکی فکر نہ کرو انھیں کچھ نہیں ہوگا.چلوآؤ میرے ساتھ تمہیں گھر چھوڑ کر آتا ہوں"  ازھران نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنی کار کی جانب بڑھ گیا.دعا نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے اس کے ہاتھ میں دبے اپنے ہاتھ کو دیکھا اسے تحفظ کا احساس ہوا.
دونوں کار تک آۓ ازھران نے دعا کو فرنٹ سیٹ پربیٹھایا پھر بولا "تم بیٹھو میں دو منٹ میں آتا ہوں"  اسکی بات سن کے دعا نے ڈر کر اسکا ہاتھ تھام لیا.
"وہ ازھران "  اسکی آواز کانپ رہی تھی.ہاتھ ٹھنڈے ہو رہے تھے.اسے ڈر تھا کہیں وہ لوگ واپس نہ آجائیں.
"اےڈرو نہیں سنو وائٹ میں یہی ہوں کار کے پاس بس ایک کال کرنی ہے ٹھیک ہے نا "  ازھران نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور  نرمی سے بولا تو دعا نے سر ہلا دیا.پھر ازھران نےاسکا ہاتھ چھوڑ کر کار کا دروازہ بند کیا اور تھوڑی دور جا کر کال ملا کر بات کی پھرآ کر  ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور کار آگے بڑھا دی.دعا خاموش بیٹھی تھی.چہرہ مرجھا گیا تھا.ازھران نے ایک نظر اسے دیکھا.وہ دعا کے لئے پریشان تھا.یہ لڑکی ہر گزرتے دن کے ساتھ اسکے دل کے قریب ہوتی جا رہی تھی. اسنے ایک بار پھر دعا کو دیکھا پھر رہا نہیں گیا تو بول پڑا
"کیاتم اب بھی ڈر رہی ہو سنو وائٹ؟" 
دعا نے ایک نظر اسے دیکھا پھر شیشےکے پاردیکھنے لگی 
"نہیں " دھیمی آواز میں کہہ کر وہ خاموش ہوگئی.ازھران نے ایک خاموش نظر اس پر ڈالی پھر اسکی بھاری آواز گاڑی میں گونجی
"جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں تمہیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ میں کسی کو تمہیں کوئی نقصان پہنچانے دونگا میری یہ بات تم اپنے دماغ میں رکھنا"  وہ ڈرائیو کرتے ہوئے سنجیدگی سے بولا اور دعا اسے ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگی تھی پھر ہلکی آواز میں بولی "آپ بہت اچھے ہیں ازھران"
اوراسکی بات پر ازھران اسے دیکھ کر دل کھول کر ہنسا پھر بولا "او سچ میں جناب ....بہت شکریہ ...چلو اب مسکرا دو" 
اسکے کہنے پر دعا ہلکا سا مسکرا دی.پر اسکا دل گھبرا رہا تھاان لڑکیوں کا کیا ہوگا؟ وہ بس انکے بارے میں سوچے جارہی تھی.
کچھ دیر بعد کار جہانگیر ولا کے سامنے رکی.ازھران , دعا کو گھر کے اندر لے کر آیا .
دعا کو اپنا خیال رکھنے کا کہا اور ساتھ ہی بی جان کو کچھ بھی بتانے سے منع کیا کیونکہ وہ پہلے ہی بیمار تھیں.ازھران نے کہا کہ سب کچھ وہ خود سنبھال لے گا.دعا کو سمجھاکر وہ وہاں سے نکل آیا تھا.
                                               ########
وہ کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھاسوائے ایک کونے کے جہاں زرد بلب جل رہا تھا.جس کی روشنی بس اس کونے میں پھیلی تھی جہاں دو کرسیوں پردو آدمیوں کو باندھاگیا تھا.انکی آنکھوں پر کالی پٹیاں بندھی ہوئیں تھیں.ایک طرف ایک آدمی کھڑا تھاجبکہ بندھے ہوئے آدمیوں کے سامنے تھوڑے فاصلے پر وہ بیٹھا ان سے سوال کر رہا تھا.
"بولو کب سے یہ کام کررھے ہو؟ غصے سے وہ بولا 
"ہمیں کچھ نہیں پتہ"  کونے سے آواز آئی 
"جواب  تو تمہارے اچھے بھی دینگے ذرا علاج کرو انکا جب جواب دینے پر راضی ہو جائیں تو بلا لینا مجھے" وہ کب سے دونوں سے سوال کر رہا تھا اور بار بار یہی جواب مل رہا تھا.آخرکار وہ جھنجھلا کر اپنے ساتھی سے کہتا باہر نکل گیااور اس کے ساتھی نے دونوں کی خوب دھلائی کی جب مار کھاکھا کر انکی حالت خراب ہوئی تو دونوں جواب دینے پر راضی ہوگئے. اسنے سر کو انفارم کیا تو وہ واپس کمرے میں آیا .
"ہاں اب جلدی سے زبان کھولو اپنی" وہ کرسی پر بیٹھ گیا اور ہاتھ میں پکڑا پین انگلیوں میں  گھمانے لگا.
"کس کے لئے کام کرتے ہو؟ اور کب سے؟ اسنے سوال کیا وہ دونوں مضبوطی سے بندھے تھے پر آنکھوں سے کالی پٹی ہٹا دی گئی تھی.ان دونوں کو جو بھی معلوم تھا انہوں نے اسے بتا دیا.بات ختم ہوتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے ساتھی کی طرف پلٹا
"ان سے اور معلومات حاصل کرو اور بھاگنے نہ پائیں سمجھ گئےنا؟"
"یس سر" 
وہ کمرے سے باہر نکل رہا تھا کہ پیچھے سے دونوں میں سے ایک آدمی غصےسے بولا "ہمیں جانے دے اب ہم نے جواب دے دیا ہے نہ تجھے تو ہمیں جانتا نہیں ہے" 
یہ بات سن کر وہ غصے سے کمرے کے کونے تک آیا اور ایک تھپڑ کھینچ کر بولنے والے کے منہ پر دے مارا پھر دھاڑ کر بولا "بتا کون ہے تو..بول؟" 
اسکےمنہ کو سختی سے پکڑ کر بولا 
"جو غلیظ کام تم لوگ کرتے ہو نہ اس کے لئے موت کی سزا بھی کم ہے اور جس کے نام پر اچھل رہے ہو نہ اسے بھی جلد اپنے ساتھ پاؤ گے"  اسکا منہ جھٹکے سےچھوڑ کر وہ دور ہٹا پھر اپنے ساتھی کو دیکھ کر بولا.
"اچھے سے خاطر داری کرو انکی پھر پوچھنا کون ہیں یہ" غصے سے اپنی بات کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا .
                                            #########    
ازھران اپنے بیڈ پر لیٹا تھا.ہاتھ سے ماتھے پرآئے بال پیچھے کئے ، آنکھیں بندکر کے کھولیں اسکی آنکھیں جل رہیں تھیں .آج جو کچھ ہوا اس کے بارے میں ہی سوچے جارہا تھااورجتنا سوچ رہا تھا اتنا ہی اسکا سر بھاری ہوتا جارہا تھا .جب دعا طبیعت خرابی کی وجہ سے بینچ  پر بیٹھی تھی.اسکا زرد چہرہ دیکھ کر اسکے دل کو کچھ ہوا.پھرجب وہ گھر جانے کے لئے  اسکے پاس سے اٹھ کر گئی تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ دعا کے چلے جانے سے جیسے سارے رنگ پھیکے پڑھ گئے ہوں.ایک لمبا سانس کھینچ کر وہ وہاں سے اٹھنے لگا کہ نظربینچ پر رکھی دعا کی بک پر پڑی.وہ بک اٹھا کر بھاگتا ہوا پارکنگ تک آیا تا کہ دعا کو بک دے سکے پر وہاں جو منظر اس نے دیکھا اسکو آگ لگانے کے لئے کافی تھا.ایک آدمی دعا کو اپنی طرف کھینچ رہاتھا.وہ بھاگتا ہوا اس تک آیا پر فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ آدمی بچ نکلا.جب وہ دعاکے قریب آیا تو اُسکی حالت دیکھ کر اسکا غصہ آسمان کو چھونے لگا کہ وہ آدمی اگر سامنے ہوتا تو وہ اسکا قتل کر دیتا.اس نے اپنے غصے کو قابوکیا پھردعا کو پکارا پردعا کی آنکھوں میں تو پہچان کے رنگ نظر ہی نہیں آئیے وہاں صرف خوف کے سائے تھے .پھر جب اسے دیکھ کر دعا کی آنکھوں میں آنسو آئے تو اسکا دل چاہا وہ اس لڑکی کو سب سے چھپا کر اپنے دل میں رکھ لے جہاں پر اسے کوئی دکھ ، خوف نہ ہو.وہ اسے روتے ہوئے کہا دیکھ سکتا تھا اسکے رونے سے ازھران علی خان کا دل تڑپتا تھا. ایک پل کے لئے اس نے سوچا اگر وہ وہاں وقت پر نہ پہنچتا تو؟ کیااسکی سنو وائٹ اس سے چھین لی جاتی؟ دعا کو کھو دینے کا ڈر اسکے پورے وجود میں پھیل گیا.وہ ایک دم سے اٹھ بیٹھا.وہ دعا کو کھونا نہیں چاہتا تھا کسی قیمت پر بھی نہیں.وہ تو اسکے دل میں دھڑکتی تھی.اسکے دل کی دھڑکن بن گئی تھی.ہاں اسے اپنی سنو وائٹ سے بے تحاشا محبّت ہے.اسنے آج مان ہی لیا کہ دعا جہانگیر اسکے لئے کتنی اہم ہے.
"ازھران کی دعا"ہلکی آواز میں کہتا وہ مسکرانے لگا تھا.
"تو سنو وائٹ تمہارے سارے ڈر ، خوف ختم کر دونگا.تم اب سے ازھران علی خان کے لئے اسکا سب کچھ ہو ......سب کچھ .....
وہ آنکھیں بند کئیے لیٹ گیا.بند آنکھوں کے پیچھے دعا کا چہرہ دیکھ کر مسکرانےلگا آج تو  ساری رات اسے جاگ کر گزارنی تھی.       
                                              ##########
  اگر ازھران علی خان جاگ رہا تھا تو سوئی دعاجہانگیر  بھی نہیں تھی.وہ اپنے کمرے کی کھڑکی کھولے کھڑی دور آسمان پر چاند کو  دیکھ رہی تھی .آج اسکا دل کہیں نہیں لگ رہا تھا.اس نے کھڑکی بند کی پھر بیڈ پر بیٹھ گئی.دوپٹہ سائیڈ پر رکھا تھا.لمبےبال کھلے ہوئے تھے.بالوں کی لٹیں چہرے پر آرہی تھیں.اسنے اپنا ہاتھ سامنے کیا جہاں اب بھی ایک انجان سا لمس وہ محسوس کر رہی تھی."ازھران علی خان" اس نام پر اسکادل پوری رفتار کے ساتھ دھڑک رہا تھا جیسے پاگل ہوگیا ہو.اسنے اپنا ہاتھ دل پر رکھا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا جیسے ابھی باہر آجائےگا.اسکےماتھے پرپسینہ چمک اٹھا.ہاتھ، پاؤں ٹھنڈے پڑھ گئے.
"یہ مجھے کیا ہورہا ہے اللّه پاک"  وہ بیڈ پر پاؤں سمیٹ کر بیٹھ گئی.جو بات اسکا دل اسے سمجھانا چاہ رہا تھا وہ اسے جھٹلا رہی تھی.پر آخر کب تک؟ کبھی تو پاگل دل اپنی کرے گا..تب وہ کیا کرئے گی؟ بہت سے سوال تھے پر اسکے پاس جواب نہیں تھا.دماغ یہی کہہ رہا تھا کہ وہ بس دوست ہے اسکا
 پر دل......اپنی ضد سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھا اسے تو بس جواچھا لگے, اپنا لگے وہی چاہیے ہوتا ہے.باقی وہ کہا کسی کی سنتا ہے.
                                              #########

اگلے دن ازھران دعا اور بی جان کو لیئے اپنے گھر جارہا تھا.وہ پوچھتیں بھی رہیں کہ کیوں لے جارہے ہو پر ازھران نے کچھ نہیں بتایا اور ضد کر کے دونوں کو لے آیا. جیسے ہی وہ لوگ ازھران کے گھر میں داخل ہوئیں اندر سے باتوں کی آواز آرہی تھی. وہاں شاہ میر , عمر , عدیل اور ازھران کی دادو سب  تھے.وہ لوگ لاؤنج میں داخل ہوئیں تو ازھران نے سب کا تعارف کروایا. دادو نے دعا کو اپنے پاس بلایا تو وہ انکے پاس صوفے پر بیٹھ گئ.دادو نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں لے کر بولیں"ماشاءاللّہ کتنی پیاری بچی ہے" ازھران  دادو کو دعا کے بارے میں پتا چکا تھا کہ وہ اسکی بہت اچھی دوست ہے. دادو اس سے مل کر بہت خوش ہوئیں تھیں.                                                     دادو کی بات پر دعا مسکرا دی تھی.                 "آپ خود بھی بہت پیاری ہیں دادو" دعا کی جگہ ازھران نے ہنس کر جواب دیا تو سب مسکرانے لگے تھے. بی جان اور دادو آپس میں باتیں کرنے میں لگیں تھیں. چاروں لڑکے ہنسی مذاق کر رہے تھے اوردعا چپ بیٹھی انکی باتیں سن کر مسکرا رہی تھی. پھر اچانک عمر سب کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا.                          "خواتین و حضرات آج ہمارےازھران علی خان صاحب کی سلگرہ ہےتو ہم سب دوستوں نے مل کر یہ چھوٹی سی پارٹی رکھی ہے تو چلیں ساتھ مل کر کھانے کی چیزیں ٹیبل پر لگاتے ہیں" عمر نے جلدی سے کہا تو اسکی آخری بات پر سب ہنسنے لگے پھر سب نے ازھران کو ویش کیا.سب سے آخر میں دعا اس تک آئی "سلگرہ مبارک ہو"                                                                    "شکریہ سنووائٹ" ازھران اسے دیکھ کر بولا    "آپ نے مجھے بتایا ہی نہیں ورنہ میں گفٹ لے کر آتی آپ کے لئے" دعا نے شرمندگی سے کہا.    "اوہ نو سنووائٹ میں کوئی بچہ تھوڑی ہوں جو گفٹ لوں یہ سب بھی ان سب نے کیاہےاور شاہ میر دادو کو بھی گاؤں سے لے آیا تو میں انکار نہیں کر سکا کہ چلو کچھ وقت ساتھ گزر جائے گا" ازھران نے مسکرا کر ان تینوں کی طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا جو ٹیبل پر کھانے کی چیزیں سیٹ کررہے تھے.                          "چلو آؤ" وہ سب انہیں بلا رہے تھے.دونوں آگے پیچھے ٹیبل تک آئے اور دعا نے سوچا کہ کل ضرور وہ ازھران کے لئے گفٹ لے گی .   
پھربہت خوش گوار ماحول میں کھانا کھایا گیا.اسکے بعد سب لاؤنج میں بیٹھ گئے تھے دعا، دادو اور بی جان کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھی جبکہ وہ چاروں لڑکے اپنی باتوں میں لگے تھے.ازھران کی نظریں بار بار دعا کی طرف اٹھ رہی تھیں.وہ کتنی خوش تھی ہنستے ہوئے بے حد پیاری لگ رہی تھی.ازھران کا دل چاہا کے وہ ایسے ہی بیٹھا اسے دیکھتا رہے .وقت رک جائے اور دعا ہمیشہ کے لئے اس کی نظروں کے سامنے رہے.جب وہ دعا کو دیکھ رہا تھا تب ہی دعا کی نظریں اٹھیں ایک پل کے لئے دونوں کی نگاہیں ملیں.دعا نے جلدی سے سر جھکا لیا جبکہ ازھران آنکھوں میں انوکھی سی چمک لئے اسے دیکھتا رہا.ایک دم سے اسکے سر جھکا لینے پر ازھران کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی تھی.پھراس نے دعا پر سے اپنی نظریں ہٹالیں وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا. وہ شاہ میر کی بات سننے لگا جو کیس کے بارے میں بات کر رہا تھا.ازھران اسکی بات سن کر بہت کچھ سوچنے لگا تھا.
                                ########
  "ہیلو "  فون کان سے لگاۓ وہ آہستہ آواز میں بولا 
"کام کہاں تک ہوا ھے ؟" دوسری طرف سے سوال ہوا .
"کام ہوگیا ھے پر ابھی یہاں سے نکلنا مشکل ہے.نظر رکھی جارہی ہے مجھ پر اسلئے ابھی کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا.ثبوت حاصل کر لئے ہیں.کسی بھی طرح تم تک پہنچا دونگا پر جلد ایکشن لینا ہو گا ورنہ بہت نقصان ہو جائے گا سمجھ رہے ہو نا میری بات"
"بہت اچھی طرح سے سمجھ گیا اور ویل ڈن بس ثبوت ہاتھ لگ جائیں پھر آگے میرا کام ہے اور ہاں بی کئیر فل "  دوسری طرف سے پر عزم لہجے میں کہا گیا.
"اوکے اللّه حافظ" اسے کوئی آواز سنائی دی تو  اس نے جلدی سے فون بند کیا پھر ایک نظر اِدھر اُدھر دیکھا اور اندر کی طرف بڑھ گیا.
                                                 #########
دعا یونیورسٹی سے واپسی پر شاپنگ مال 
چلی آئی تھی.اسنے بی جان کو بتا دیا تھا کہ وہ ازھران کے لئے گفٹ لینےآئی ہے تا کہ وہ فکر نہ کریں بی جان نے اسے جلدی گھر واپس آنے اور  اپنا خیال رکھنے کا کہا تو دعا نے جلدی واپسی کا کہہ کر فون بند کر دیا اورکار سے اتر کر برکت بابا کی طرف آئی جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے تھے .
"بابا میں بس تھوڑی دیر میں کچھ چیزیں لے کر آتی ہوں آپ کار کو پارک کر دیں میں بس جلدی سے آئی"  جلدی سے اس نے اپنی بات ختم کی .
"ٹھیک ہے بیٹا"  برکت بابا نے سر ہلا کر کہا تو دعا مال کی جانب بڑھ گئی.
اسنے ازھران کے لئے کالے رنگ کی ٹائی  اورایک اچھا سا پرفیوم لیا اور پیک کروا کر وہ مال سے باہر نکل رہی تھی جب سیڑھیاں  اترتے ہوئے اسکا پاؤں سلپ ہوا دعا نے خود کو سنبھال لیا تھا پر اسکا بیگ، گفٹ والا شاپر نیچے گر گئے.سامنے سے آنے والے بندے نے چیزیں اٹھا کر دعا کودیں.
"یہ لیں میڈم"  اسنے بیگ  اور گفٹ کا شاپر دعا کی طرف بڑھایا.
"شکریہ"  دعا نےسر اٹھا کر اسے دیکھا اور  چیزیں تھام لیں.دعاکی آنکھوں میں پہچان کے رنگ لہرائے وہ بولنے ہی والی تھی کہ کوئی چلایا.
"اوۓ چاند جلدی آ ادھر" 
اس آواز پر وہ جلدی سے وہاں سے چلا گیا تو دعا نے بھی سر جھٹکا پھر اپنی کار کی طرف بڑھ گئی .
                                                 #########
دعا  شاپنگ مال سے ازھران کے گھر چلی آئی تھی تا کہ گفٹ اسے دے کر ہی گھر جائے.
گیٹ کھلا ہوا تھا.بابانے کار اندر پارک کی تو دعا چیزیں لے کر کار سے باہر نکلی . ازھران اپنی کار بند کر رہا تھا جب دعا کو دیکھا تو اسکی طرف آیا.
"آہا سنو وائٹ تم یہاں"  ازھران نے اسے کل کے بعد ابھی دیکھا تھا صبح وہ یونی نہیں گیا تھا کیونکہ اسے دادو کو گاؤں چھوڑ کر آنا تھا.وہ بہت مشکل سے ایک رات ازھران کے پاس رہیں تھیں.صبح ہوتے ہی انھیں گھر یاد آنے لگا تو ازھران انھیں گھر لے گیا تھااور ابھی ہی وہاں سے لوٹا تھا.ا ب دعا کو یوں
 اچانک اپنے گھرمیں دیکھ کر اسکا موڈ خوش گوار ہو گیا تھا.
"میں یہ دینے آئی تھی" دعا نے شاپر اسکی طرف بڑھایا .
"یہ کیا ہے ؟" ازھران نے شاپر کو دیکھ کر کہا .
"برتھڈےگفٹ"  دعا نے بتایا 
"سنو وائٹ میں نے کہا بھی تھا میں بچہ نہیں ہوں" سنجیدگی سے اسنے دعا کو دیکھ کر کہا پر اندر اسے خوشی بھی ہوئی تھی.
"آپ یہ لینگے تو مجھے خوشی ہوگی"نرمی سے کہا گیا .
"تمہاری خوشی کے لیۓ پھر کچھ بھی کروں گا" ازھران نے مسکرا کر اس معصوم لڑکی کو دیکھ کر کہا پھر بولا " اندر تو آؤ"                      دعا ازھران کی کہی بات میں کھوئی تھی.اسکے دوبارہ بولنے پر چونک کر بولی
"نہیں میں چلتی ہوں بی جان انتظار کر رہی ہونگی"  دعا نے شاپر اسکی طرف بڑھایا.
"ایسےتو نہیں لونگا یہ چلو اندر آؤ بی جان کو میں بتا دونگا" ازھران کے کہنے پر وہ اندر چلی آئی تھی.ازھران نے اس سے شاپر لے لیا.
"تم بیٹھو میں جوس لے کر آتا ہوں پی کر چلی جانا"  اسکی پریشان صورت دیکھ کر کہتا وہ کچن کی طرف چلا گیا.تھوڑی دیر بعد وہ جوس لے کر آیا.ازھران نے گلاس اسکی طرف بڑھایا دعا کا دھیان نہیں تھا جس کی وجہ سے تھوڑا سا جوس دعا کے اپر گرا پر ازھران نے جلدی سے گلاس تھام لیا.دعانے سے بیگ سے ٹِشو نکال کر کپڑے صاف کرنے لگی.
"دھولو اسے ورنہ نشان رہ جائے گا "  ازھران کی بات پر دعا سامنے ایک کمرے میں گئ اور ازھران گفٹ والا شاپر لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا.کمرے میں آکر دعا نے اپنا بیگ سائیڈ پر رکھا اور واش روم میں جا کر کپڑے صاف کئیے پھر کمرے سے باہر آ گئی .ازھران بھی دوسرے کمرے سے باہر نکل رہا تھا.دونوں لاؤنج میں آئے.دعا نے اسے دیکھ کر کہا
"اب میں چلتی ہوں.بی جان پریشان ہو رہی ہونگی"  دعا نے دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے کہا .
"اوکے سنو وائٹ" ازھران ایک نظر اسکے پیارے چہرے پر ڈال کر بولا پھر دونوں پورچ تک ساتھ آئے دعانے ازھران کو اللّہ حافظ کہا اور کار میں بیٹھ گئ تو بابا نے کار آگے بڑھا دی اور ازھران وہیں کھڑا سوچوں میں گم ہو گیا تھا.
                                              ###########
رات کا وقت تھا ہر طرف اندھیرے پھیلا ہوا تھا.وہ ایک طرف کھڑا فون پر بات کر رہا کہ اچانک پیچھے سے اس کے سر پر زور دار وار
ہوا.اسکے ہاتھ سے موبائل نیچے جا گرا اور وہ خود بھی زمین پر گرتا چلا گیا.

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page