
دل کی دھڑکن بن گئے
از پری وش
قسط نمبر تین
دعا گھر واپس آئی تو بی جان اسے کہیں نظر نہیں آئیں تو وہ سیدھی بی جان کے کمرے کی طرف گئی.جب اسنے کمرے میں قدم رکھا تو بی جان کمبل کیئے بیڈ پر لیٹیں تھیں.بی جان ہمیشہ اسکے آنے پر ہال میں بیٹھیں اسکا انتظار کرتیں پر آج وہ وہاں نہیں تھیں.
دعا پریشانی سے بی جان تک آئی اور انکی پیشانی پر ہاتھ رکھا بی جان نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا انھیں تیز بخار تھا.
"آگئی دعا بچے" بی جان نے کمزور آواز میں پوچھا.
"جی بی جان یہ آپکو اچانک اتنا تیز بخار کیسے ہوگیا " دعا نے پریشانی سے پوچھا
اور بی جان کے پاس ہی بیٹھ گئی صبح جب وہ یونی گئی تب بی جان ٹھیک تھیں اور اب یوں اچانک انکی طبیعت خراب ہوگئی.بی جان کو دل کا مسئلہ تھا اسلئے دعا کو انکی فکر ہونے لگی."بی جان آپ نے دوا تو لی تھی نہ؟"
"ہاں بیٹا لی تھی تم تھکی ہوئی آئی ہو جاؤ فریش ہو کر کھانا کھا لو میں بھی کچھ دیر آرام کروں گی" انہوں نے دیھمی آواز میں کہا
"ٹھیک ہے بی جان آپ آرام کریں میں بعد میں آتی ہوں" اسنے بی جان کے ہاتھ چومےان کے اوپر کمبل ٹھیک کیا اور کمرے سے باہر نکل گئی.سیڑھیوں سے اوپر جاتے ہوئے وہ بی جان کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی کہ انھیں ڈاکٹر کے پاس لے کر جائے گی.
دعا نے فریش ہو کر کھانا کھایا پھر بی جان کے کمرے میں آئی پر وہ سو رہیں تھیں.وہ ایک نظر انہیں دیکھ کر باہر لان میں چلی گئی کچھ دیر وہ وہاں بیٹھی رہی بہت اچھی ہوا چل رہی تھی پھر وہ وہاں سے اٹھی تو کمرے میں آگئ ویسے تو وہ بی جان سے باتوں میں لگی رہتی تو وقت گزر جاتا تھا پر آج کہیں بھی دل ہی نہیں لگ رہا تھا وہ کمرے میں آ کر بیڈ پر بیٹھی ہاتھ میں موبائل اٹھایا وہ ازھران سے بات کرنا چاہتی تھی پر اسنے آج تک اسے فون نہیں کیا تھا ازھران خود ہی کال کر لیتا تھا.وہ ازھران کو سوچنے لگی وہ اسے کتنا اپنا اپنا سالگتا تھا اسکے ساتھ ہوتی تو ایسا لگتا وہ اسکا ہے وہ ازھران کی سنگت میں خوش رہتی پر جب اس سے دور ہوتی تو دل گھبرانے لگتا کہ کہیں وہ اس سے ہمیشہ کے لئے دور نہ ہو جائے وہ اپنی سوچوں میں گم تھی جب موبائل بجا اسنےاسکرین کو دیکھا تو وہاں ازھران کا نام چمک رہا تھا.دعا کا دل دھڑک اٹھا کہ کیا ازھران کو پتا چل گیا کہ دعا نے اسے یاد کیا ہے؟
"افف اللّه" اس نےکہہ کر سر جھٹکا جیسے اپنی سوچوں کو جھٹکا ہو اور کال پک کی "اسلام و علیکم " دعا نے دھیمی آواز میں کہا
"وعلیکم السلام مجھے تمہارا شکریہ ادا کرنا تھا " دوسری طرف سے ازھران کی بھاری آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی
"وہ کیوں؟" سوالیہ انداز میں پوچھا گیا
"گفٹ کے لئے سنو وائٹ"
"کوئی بات نہیں" دعا کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا جواب دے
"اچھا جناب ... کیا ہو رہا ہے؟"دوسری طرف سے ہنس کر پوچھا گیا .
"کچھ نہیں آج بی جان کی طبیعت خراب ہے اچانک سے پتا نہیں کیا ہوگیا انھیں" دعا نے اپنی پریشانی ازھران سے کہہ دی وہی تو ایک اسکا دوست تھا ورنہ تو وہ بالکل اکیلی تھی.
"سنو وائٹ تم پریشان نہ ہو انشاء اللّه بی جان ٹھیک ہو جایئں گیں"ازھران نے نرمی سے کہہ کراسے حوصلہ دیا
"جی انشاء اللّه "
"اوکے تم بی جان کا خیال رکھو میں بی جان کو دیکھنے آؤں گا"
"جی ...اللّه حافظ" دعا نے کہہ کر فون رکھ دیا کچھ دیر آرام کرنے کے بعد وہ کمرے سے نکل کر نیچے آئی تو اندھیرا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا اسنے آہستہ سے بی جان کے کمرے کا دروازہ کھولا اور چلتی ہوئی بیڈ تک آئی بی جان سو رہیں تھیں دعا نے اپنا ہاتھ انکی پیشانی پر رکھا تو وہ بخار سے تپ رہیں تھیں
" بی جان" اسنے بی جان کو آواز دی ایک کے بعد دوسری پر وہ کچھ نہ بولیں دعا کا دل ٹہر سا گیا ہاتھ کانپنے لگے اسے کچھ برا ہونے کا احساس ہوا اسنے بی جان کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا"بی جان آ....آپ کچھ بول کیوں نہیں رہیں" اسکی آواز جیسے حلق میں اٹک گئی تھی جب اسکے پکارنے پر بھی بی جان نہ بولیں تو وہ بھاگتی ہوئی کچن میں فاطمہ آپا کے پاس آئی.
"فاطمہ آپا وہ....وہ بی جان کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے" اسکی سانس پھول رہی تھی آنکھوں میں بہت سا نمکین پانی جما ہونے لگا.
"کیا ہوا بی جان کو دعا باجی" فاطمہ آپا بھی پریشانی میں جلدی سے دعا کے ساتھ بی جان کے کمرے تک آئیں اور بی جان کو پکارا تو کچھ دیر بعد انھوں نے آنکھیں کھول لیں.
دعا جو ڈر کے مارے چپ کھڑی تھی کہ بی جان کو کچھ ہو نہ گیا ہو بی جان کو آنکھیں کھولتےدیکھ کر وہ بیڈ کے پاس زمین پر بیٹھ گئ اور بی جان کاہاتھ تھام کر رونے لگی
"آپ نے مجھے ڈرا دیا تھا بی جان " وہ ہچکی لے کر بولی بی جان نے اپنا دوسرا ہاتھ دعا کے سر پی رکھا اور کمزور آواز میں بولیں
"میں ٹھیک ہوں بچے"
"جی میری پیاری بی جان " دعا نے انکے ہاتھ پر پیار کیا پھر فاطمہ آپا کی طرف دیکھا
"فاطمہ آپا آپ بی جان کے لئے کچھ کھانے کو لے کر آئیں میں خود بی جان کو اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں گی اور دوا بھی دونگی"
دعا کی بات پر فاطمہ آپا وہاں سے کچن کی طرف چلی گئیں دعا,بی جان کو واش روم تک لائی تا کہ وہ فریش ہو لیں.
پھر فاطمہ آپا کھانا لےکر آئیں تو دعا نے بی جان کے ساتھ مل کر انکے کمرے میں کھانا کھایا اور بی جان کو دوا دی اور آرام کرنے کا کہا بی جان آرام کرنے لیٹ گئیں تو دعا انکے پاس ہی رہی کہ بی جان کو رات میں کسی چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے اسلئے وہ بی جان کے کمرے میں ہی رک گئی تھی . #####
اگلی صبح دعا یونیورسٹی نہیں گئی اسنے اٹھ کر بی جان کو ناشتہ کروایا پھر وہ لیٹ گئیں ایک دن میں ہی بخار کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہو گئیں تھیں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتیں تھیں.دعا کچھ دیر فاطمہ آپا کے پاس بیٹھی رہی دونوں بی جان کی یوں اچانک طبیعت خرابی کے بارے میں بات کرتیں رہیں پھر فاطمہ آپا کھانا بنانے لگیں. دعا نے بی جان کو دیکھا تووہ سو رہیں تھیں.وہ اپنے کمرے میں آئی اور کوئی کتاب لے کر پڑھنے لگی.بہت سا وقت یونہی گزر گیا پھر اچانک ہارن کی آواز پر وہ چونکی کتاب رکھ کر وہ کمرے سے باہر نکلی ابھی وہ سیڑھیاں اتر ہی رہی تھی کہ اسکی نظر ہال کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ازھران پر پڑی اسے دیکھ کر دعا کا دل پوری رفتار سے دھڑکنےلگا پھر وہ خود کو سنبھال کر باقی سیڑھیاں اتر کر اس تک آئی
"اسلام و علیکم" ازھران نے اسے نرم نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا
"وعلیکم السلام آئیں بیٹھیں پلیز" دعا نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
"شکریہ " وہ کہہ کر بیٹھ گیا پھر ایک گہری نظر دعا پر ڈالی جو اسکے سامنے صوفے پر بیٹھی تھی کالا لباس زیب تن کیے وہ اداس لگ رہی تھی.الجھی ہوئیں کالی زلفیں اسکی پریشانی کا بتا رہیں تھیں. مگر اس میں بھی وہ دل میں اتر جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی ازھران اسے دیکھے گیا دعا نے ایک پل کے لئے اسے دیکھا تو وہ سنبھل گیا پھر بولا"بی جان کی طبیعت اب کیسی ہے؟"
" اب ٹھیک ہیں وہ کل کچھ زیادہ طبیعت بگڑی تھی پر اللّه کا شکر ہے اب" دعا نے دھیمی آواز میں جواب دیا.
"کیا میں مل سکتا ہوں بی جان سے؟"
"میں دیکھ کر آتی ہوں اگر وہ جاگ رہیں ہوئیں تو آپ مل لیں ان سے"دعا نے جواب دیا
" اوکے سنو وائٹ" ازھران کی بات سن کر دعا بی جان کے کمرے کی طرف چلی گئی اور ازھران اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگا کچھ دیر بعد دعا واپس آئی
"آپ آجائیں بی جان جاگ رہیں ہیں اور میں نے انھیں آپکا بتایا وہ سن کر خوش ہوئیں" دعا نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اسے بتایا اور ازھران اسے یوں مسکراتے دیکھ کر رک سا گیا اسکا پاگل دل اس لڑکی کو کہیں چھپا لینا چاہتا تھاجہاں اسے دوسرا کوئی نہ دیکھ سکتا
"چلیں آئیں" دعا اپنے ہی خیالوں میں تھی ورنہ اپنی طرف اٹھیں ازھران کی پیار بھری نظریں پہچان لیتی دعا کی آواز پرازھران اپنی سوچوں سے باہر نکلا اور دعا کے ساتھ بی جان کے کمرے میں آیا بی جان تکیئوں کے سہارے بیڈ سےٹیک لگاۓ بیٹھیں تھیں.
"سلام بی جان"ازھران نے جھک کر کہا تو بی جان نے اپنا کمزور ہاتھ اسکے سر پر پھیرا
"وعلیکم السلام بیٹا "بی جان نے ہلکی آواز میں کہا ازھران بیڈ کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گیا اور دعا بی جان کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی .
"کیسی طبیعت ہے آپکی اب بی جان ؟" اسنے بی جان کو دیکھ کر کہا جو واقعی بہت کمزور لگ رہیں تھیں .
"اللّه کا شکر ہے بیٹا بس اب تو عمر ہو گئ ہے بیماریاں کہاں جان چھوڑیں گی" بی جان نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
"بی جان عمر کی بات نہ کریں کوئی اتنی بھی زیادہ نہیں ہے.آپکو میرے لئے ٹھیک ہونا ہے وہ بھی جلد سے جلد " دعا انھیں دیکھ خفگی سے بولی اسکی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں .تو بی جان نے اسے اپنے ساتھ لگایا
"دیکھا آپ نے ازھران بیٹا بالکل بچوں کی طرح رونے لگتی ہے یہ پاگل لڑکی" بی جان کی بات پر ازھران نے اسے دیکھا اسکی آنکھیں گلابی ہو رہیں تھیں.
"دعا بچے خود کو سنبھالنا سیکھو میں ہمیشہ تمہارے ساتھ تو نہیں رہوں گی نہ" دعا نے آنکھیں پھاڑ کر بی جان کو دیکھا وہ کیوں ایسی باتیں کر رہیں ہیں؟ اسنے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا کہ بی جان اس سے کبھی دور ہونگی بی جان کی بات پر دعا کا رنگ زرد ہونے لگاازھران نے اسکی حالت دیکھی تو جلدی سے بولا " بی جان ایسی باتیں نہ کریں انشاء اللّه آپکو کچھ نہیں ہوگا آپ جلد ٹھیک ہو جائیں گی" ازھران کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی دعا کمرے سے نکل چکی تھی .
" پھر بھی بیٹا میں نہیں چاہتی میرے بعد دعا خود کو سنبھال نہ سکے مجھے اسکی بہت فکر ہے بہت معصوم ہے میری بچی اس ظالم دنیا کو نہیں سمجھتی کیا کرے گی " بی جان کی آواز نم ہو گئی تھی ازھران کرسی سے اٹھ کر بی جان کے پاس آکر بیٹھ گیا.
"ایسا کچھ نہیں ہوگا بی جان اوراللّه نہ کرے کبھی ایسا کوئی وقت آیا تو دعا کو میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا " اسنے بی جان کے ہاتھ تھام کر کہا بی جان نے اسے دیکھا یہ چمکتی آنکھوں والا لڑکا انھیں بہت اچھا لگتا تھا . ازھران سوچ رہا تھا کہ وہ بی جان کو کیا بتاۓ کہ دعا اسکے لئے کیا ہے.وہ خیالوں میں گم تھا جب دعا ٹرالی لے کر کمرے میں داخل ہوئی ازھران اور بی جان کو چاۓ بنا کر دی ازھران نے چاۓ کے علاوہ کچھ نہیں لیا پھر کچھ دیر بعد وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا
"چلتا ہوں بی جان آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں" وہ ہلکا سا مسکرا کر بولا تو بی جان مسکرا دیں جبکہ دعا خاموش کھڑی تھی پھر وہ دونوں کمرے سے باہر نکل کر ہال میں آئے ازھران نے پلٹ کر دعا کو دیکھا جسکا چہرہ گلابی ہورہا تھا جیسے وہ بہت سارا رو چکی ہو"تم روتی رہی ہو؟"اسکے چہرے پر نظریں جما کر پوچھا گیا .
"نہیں تو " دعا نے صاف جھوٹ بولا
"سنووائٹ تم مجھ سے جھوٹ بولو گی اب " ازھران نے اسے خفگی سے گھورا
"وہ بی جان کی وجہ سے" دعا نے شرمندگی سے کہا
"تم پریشان مت ہو بی جان ٹھیک ہو جایئں گیں اور تم نے اب بالکل نہیں رونا ٹھیک ہے نہ ؟" ازھران نے اسے دیکھ کر نرمی سے کہا
"جی " دعا نے سر اثبات میں ہلایا ازھران کے قدم ہال کے دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے دعا اسکے پیچھے چل رہی تھی کہ اچانک ازھران کوئی بات کرنے کے لئے پلٹا اور دعا کی اس سے ٹکر ہوئی اسکا سر ازھران کے سینے سے ٹکرایا تو اسکی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے وہ لڑکھڑائی تھی پر ازھران نے اسکا بازو تھام کر اسے سنبھال لیا دعا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ ٹکٹکی باندھے دعاکو دیکھ رہا تھاپھر اچانک ازھران نے اسکا بازو چھوڑ کر اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور نظریں دعا کے چہرے پرجمی تھیں.
"تمہیں کبھی بھی میری ضرورت ہو بغیر کسی جھجک کے تم مجھے کہہ سکتی ہو اور" اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوا پھر اسکی آنکھوں کو دیکھ کر بولا "اب میں ان آنکھوں میں آنسو نہ دیکھوں کبھی سمجھ گئ نہ ؟"
ایک ہاتھ سے اسکی بائیں آنکھ کی پلک کو چھو کر اسکی آنکھوں میں دیکھ کر دھیمی آواز میں کہا گیا اور پھر وہ پلٹ کر چلا گیا جبکہ دعا بالکل بت بن گئی دل رک سا گیا تھا اسنے ایک ہاتھ سے اپنی پلک کو چھوا رکی ہوئی اسکی دل کی دھڑکنیں ایک دم زور زور سے دھڑکنے لگیں مشکل سے خود کو سنبھال کر وہ اپنے کمرے تک گئ.
ابھی کمرے میں آۓ اسے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ فاطمہ آپا اس کے کمرے میں آئیں
"دعا باجی آپکو خُرم صاحب بلا رہے ہیں"
" خُرم بھائی کب آۓفاطمہ آپا؟ "
"ابھی کچھ دیر پہلے" وہ کہہ کر چلیں گئیں اور دعا بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی پتا نہیں خُرم بھائی نے کیوں بلایا ہے وہ زیادہ ترگھر میں ہوتے ہی نہیں تھے یا گھر میں موجود ہوتے بھی تو کمرے میں رہتے انکا ہونا ، نہ ہونا ایک برابر تھا اور وہ ویسے بھی کسی سے زیادہ بات ہی نہیں کرتے تھے عجیب سرد سا انداز ہوتا تھا انکا دعا انہیں سوچوں میں گم ہال تک آئی خُرم بھائی صوفے پر بیٹھے تھے.
"کیوں آیا تھا وہ لڑکا یہاں؟ سخت لہجے میں پوچھا گیا
"جی" دعا کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں .
"کیا کرنے آیا تھا وہ یہاں؟" غصے میں سوال پر سوال ہوا اور دعا حیران رہ گئی یہ وہ کس انداز میں بات کر رہے تھے
"و...وہ بی جان کو دیکھنے آۓ تھے" دعا رک رک کر بولی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ خُرم بھائی اس سے ایسے سوال کیوں کر رہے تھے وہ بھی اس انداز میں
"آئندہ وہ لڑکا مجھے یہاں نظر نہ آۓ " ماتھے میں بل ڈالے سخت لہجے میں کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا اور دعا کچھ بول ہی نہ پائی خُرم بھائی نے بی جان کی طبیعت کا نہیں پوچھا جبکہ وہ انھیں بتا چکی تھی.وہ تو بس ازھران کے پیچھے پڑے تھے دعا سوچوں میں گم بی جان کے کمرے میں چلی گئ. ###### بلیک کا کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا تھا.بلیک سائیڈ پے رکھی کرسی پر بیٹھا تھا.معاذ اور اسکے تین اور بندے تھوڑے فاصلے پر کھڑے تھے اور انکے سامنے ایک شخص خون میں لت پت زمین پر پڑا تھا.اسکی حالت بے حد خراب ہورہی تھی.معاذ اس آدمی تک آیا اور اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اسکےبال مٹھی میں لے کر اسکا سر اپر اٹھایا.
"بتا کس کے لئے کام کرتا ہے تو؟" سوالیہ انداز میں پوچھا گیا
"ہنہ تجھے کیا لگتا ہے کہ میں جواب دےدونگا؟" دوسری طرف سے طنزیہ انداز میں ہنس کر کہا گیا اسکے منہ سے خون نکل رہا تھا چہرے پر نیل پڑے تھے لیکن آنکھوں میں ایک انوکھی سی چمک تھی.
"جواب تو تجھے دینا ہوگا ورنہ" معاذ نے غصے سے کہہ کر ایک تھپڑ اسکے منہ پر مارا تھپڑ کی آواز پورے کمرے میں گونجی کمرے میں گہری خاموشی چھائی تھی بلیک چپ بیٹھا سارا تماشا دیکھ رہا تھا .
"ورنہ.....دھمکی سے نہیں ڈرتا میں سمجھے ایک مقصد کے تحت آیا تھا وہ پورا ہوا جلد تم سب کا نام و نشان نہیں ہوگا" چمک دار آنکھیں سب کی طرف اٹھیں.
"موت سے تو ڈرے گا نہ تو ؟" مغاذ نے طنزیہ انداز میں کہا جیسے سامنے والا اب کچھ نہیں بول پائے گا پر اسنے زور دار قہقہہ لگایا.
"تو مجھ جیسے شخص کو موت سے ڈرا رہا ہے ؟ہم جیسے لوگ سر پر کفن باندھ کر اپنے کام پر نکلتے ہیں" سر اٹھا کر جواب دیا گیا
اچانک بلیک اپنی کرسی سے اٹھا اسکے ہاتھ میں پستول تھا وہ لمبے ڈگ بھرتاان دونوں تک آیا.
"تیری ہمت کیسے ہوئی تو نے بلیک کے ساتھ غداری کی؟" بلیک غرا کر بولا
"میں نے تجھ سے غداری نہیں کی بلکہ اپنا کام امانتداری سے کیا ہے" سامنے والا سر اٹھا کر بولا
تو بلیک کو جانتا نہیں ہے مرنے کے بعد امانتداری نبھانا" بلیک نے غصے سے کہہ کر پستول اسکے ماتھے پر رکھا جیسے وہ ابھی اسے مار ڈالے گا.
"تو نے ایسا کیوں کیا چاند" معاذ کو افسوس ہوا کیونکہ چانداسکا دوست تھا .
" کیونکہ ہمیں تم جیسے بے حس لوگوں سے ان معصوموں کو بچانا ہے" چاند نے اسے دیکھ کر کہا اور بلیک نے اس بات پر پستول سے اسکے چہرے پر وار کیا وہ درد کی شدت سے دوھرا ہونا لگا .
"بچا لیا تو نے انھیں ہاں؟" بلیک نے اسے ٹھوکر مارکر کہا پھر پستول زور سے اسکے ماتھے پر رکھا اور اس نے آنکھیں بند کرلیں اسکی بند آنکھوں کے پیچھے بہت سی تصویریں چلنے لگیں اسکے اپنوں کی اسکےپیاروں کی جنہیں وہ شاید اب کبھی نہیں دیکھ پائے گا پھر اسنے ایک لمبی سانس کھنچ کر آنکھیں کھول دیں اور بلیک کو دیکھا جو موت کا فرشتہ بنے اسکے سر پر کھڑا تھا.چاند نے سوچا اپنے ملک اور اسکی عزت کی حفاظت کے لئے تو کتنےشیر جوان قربان ہوئے ہیں ایک اسکا نام بھی ان میں شامل ہو جائے گا تو یہ اغزاز کی بات ہو گئ اسکے لئے کہ وہ ایک نیک کام کرتے شہید ہوا ہے .
بلیک نے پستول کےگھوڑے پر انگلی رکھی اور چاند نے آنکھیں بند کر لیں اسکے چہرے پر ایک دھیمی سی مسکان ٹھر گئی تھی.
##########
دعا فاطمہ آپا کے ساتھ کچن میں بیٹھی چاۓ پی رہی تھی.دن میں اسنے بی جان کے ساتھ مل کر کھانا کھایا پھر بی جان کو آرام کرنے کا کہہ کر وہ خود بھی آرام کرنے اپنے کمرے میں چلی گئی تھی سو کر اٹھی تو نیچھے آ گئی فاطمہ آپا نے چاۓ بنائی دعا کچن میں بیٹھ کر پینے لگی فاطمہ آپا کو دیکھا جو رات کے کھانے کی تیاری کر رہیں تھیں
"خرم بھائی گھر پر ہی ہے آپا؟" دعانے چاۓ کا سپ لے کرپوچھا
"نہیں وہ تو دن میں جب آۓ تھے پھر تھوڑی دیر بعد ہی چلے گئے تھے" فاطمہ آپا نے پلٹ کر جواب دیاتو دعا نے سر ہلا دیا
"اپنا خیال رکھا کریں دعا باجی کتنی کمزور ہو گئیں ہیں آپ" فاطمہ آپا کی بات سن کر دعا مسکرا دی "بس بی جان ٹھیک ہو جائیں فاطمہ آپا پھر میں بھی ٹھیک ہو جاؤں گی" بات ختم کر کے وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی
فاطمہ آپا کچھ اور بھی کہنے والی تھیں پر دعا کو اٹھتے دیکھ کر خاموش ہو گئیں.
"میں بی جان کو دیکھ لوں" اتنا کہہ کر وہ وہاں سے بی جان کے کمرے کی طرف بڑھ گئ اسنے آہستہ سے دروازہ کھولا تو بی جان بیٹھی ہوئیں تسبیح پڑھ رہیں تھیں
"آپ اٹھ گئیں بی جان طبیعت کیسی ہے آپکی" دعا انکے پاس آ کر بیٹھی بی جان نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا
"میں اب ٹھیک ہوں بیٹا پر تم کیوں کمزور لگ رہی ہو؟"بی جان نے اسکے چہرے پر ہاتھ پھیرا
"کچھ نہیں بی جان بس آپ بیمار تھیں نہ تو میں ڈر گئی تھی"دعا نے بی جان کے ہاتھ تھامے "بیٹا اپنے آپ کو بہادر بناؤ آج میں ہوں کل نہ ہوئی تو کیسے رہو گی تم"
"بی جان پلیز آپ ایسی باتیں نہ کیا کریں آپ ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گیں" دعا نے جلدی سے انھیں ٹوکا تھا.
"بیٹا میں بہت پریشان ہوں تمہارے لئے کیسے سمجھاؤں اب میں تمہیں" دعا نہ سمجھی سے بی جان کو دیکھنے لگی تھی جبکہ بی جان اسے بہت کچھ بتانا چاہتی تھیں مگرخاموش ہو گئیں.دعا کچھ دیر بی جان کے پاس بیٹھی رہی پھر اٹھ کر کچن تک آئی تا کہ بی جان کے لیے کھانا لے جائے دعا نے بھی بی جان کے ساتھ مل کر کھانا کھایا ویسے تو وہ دیر سے کھانا کھاتی تھی پرآج بی جان کے ساتھ جلدی ہی کھا لیا تھا کھانے کے بعد اسنے بی جان کو دوا دے کر آرام کرنے کا کہا اور خود اپنے کمرے میں چلی آئی نماز عشاءکی تیاری کر کے اسنے نماز پڑھی پھر بیڈ پر لیٹ گئی اورازھران کے بارے میں سوچنے لگی آج دن میں جو ہوا تھا وہ بات اسکے دماغ سے نکل نہیں رہی تھی دل تھا کہ اسے اور ہی خواب دیکھا رہا تھا
بہت سارا وقت گزر گیا وہ سوچ سوچ کر تھک چکی تھی.گہری سانس لے کر وہ بیڈ سے اٹھ بیٹھی گھڑی کی طرف دیکھا تو نو بجنے والے تھے وہ بیڈ سے اٹھی سائیڈ پر رکھا دوپٹہ اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل گئ تاکہ بی جان کو دیکھ سکے کچن سے برتنوں کی آواز آرہی تھی دعا نے کچن میں جھانکا فاطمہ آپا برتن دھو رہیں تھیں اسے دیکھ کر بولیں
"کچھ چائیے آپکو؟"
"نہیں فاطمہ آپا میں بس بی جان کو دیکھنے آئی تھی ذرا دیکھ آؤں انھیں" وہ بات ختم کرتی بی جان کے کمرے کی طرف بڑھ گئی
اسنے کمرے میں قدم رکھا تو بی جان سو رہیں تھیں وہ آہستہ سے انکے قریب گئ پر اسے کچھ غیر معمولی لگا اسنے بی جان کے ہاتھ کو چھوا وہ بالکل ٹھنڈی ہورہی تھیں
"بی جان" دعا نے انھیں پکارا
"بی جان آنکھیں کھولیں" اسنے پھر پکارا پر بی جان نے کوئی جواب نہ دیا دعا کا دل بند ہونے لگا اسنے بی جان کا چہرہ ہاتھوں میں لیا پر انکے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوئی دعا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کچھ دیر پہلے تو بی جان ٹھیک تھیں اور اب اچانک نہ جانے کیا ہوگیا تھا.
"اللّه جی بی جان کو کیا ہوگیا؟"دعا بیڈ کے پاس ہی زمین پر بیٹھ گئی اور رونے لگی اسکی آواز سن کے فاطمہ آپا جلدی سے کمرے میں آئیں "کیا ہوا بی جان کو؟"
"فاطمہ آپا برکت بابا سے کہیں گاڑی نکالیں" فاطمہ آپا سے کہہ کر وہ جلدی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی موبائل اٹھایا اورازھران کو کال ملائی اس مصیبت کی گھڑی میں اسے ازھران کے علاوہ کوئی نظر نہیں آیا تھا
فون کر کے اسنے ازھران کو روتے ہوئے ساری بات بتائی ازھران نے اسے حوصلہ دیا اور کہا کہ وہ جلد پہنچ رہا ہے دعا نے اسے ہسپتال کا نام بتایا پھر فون بند کر کے وہ نیچے کی طرف بھاگی وہ اورفاطمہ آپا مل کر بی جان کو کسی طرح کار تک لائیں دعا جلدی سے بیک سیٹ پر بیٹھی اور بی جان کا سر اپنی گود میں رکھا فاطمہ آپا کو دیکھ کر جلدی سے بولی" اگر خرم بھائی کی کال آۓ تو انھیں بتا دیجئے گا"
"جلدی چلیں بابا" کار کا دروازہ بند کر کے وہ بولی دعاکے کہنے پر برکت بابا نے جلدی سے کار آگے بڑھا دی دعا کی اپنی حالت خراب ہو رہی تھی ہاتھ ، پاؤں ٹھنڈے پڑ گئے.دھڑکنیں ساکن ہو گئیں وہ بی جان کو کھونا نہیں چاہتی تھی.
#######
نجانے کتنا وقت گزرا کار ہسپتال کے سامنے رکی پھر کیا ہوتا رہا اسے ایسا لگا جیسے وہ خواب دیکھ رہی ہو. بی جان کوہسپتال کے اندر لے جایا گیا دعا پیچھے چل رہی تھی بی جان کو آئی سی یو کے اندر لے گئے. دعا باہراکیلی کھڑی رہ گئی تھی.
كوریڈور میں بالکل خاموشی چھائی تھی
وہ چلتی ہوئی بینچ پر بیٹھی اسکی ٹانگوں میں جان نہیں رہی کہ وہ مزید کھڑی رہ سکتی وہ خاموشی سے آنسو بہاۓ جا رہی تھی کہ اچانک اسکے سامنے آ کر کوئی کھڑا ہوا وہ پہچان گئی تھی کہ آنے والا ازھران علی خان تھا اسکا دوست ، اسکا ہمدرد ، اسکا محسن کیا کچھ نہیں تھا وہ دعا کے لئے
ازھران اسکے ساتھ ہی بیٹھ گیا دعا نےآنسوؤں سے بھری آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا
"ازھران" اسکی آنکھوں سے آنسو اور تیزی سے بہنے لگےازھران نے اسکے ہاتھ تھام لیے
"دعا سنبھالو خود کو بی جان کو کچھ نہیں ہوگا"ازھران نے نرمی سے اسے دیکھ کر کہا
"مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے مم...میں بی جان کو کھونا نہیں چاہتی" وہ ازھران کے ہاتھوں پر چہرہ ٹکا کر رونے لگی اسے روتے دیکھ ازھران کے دل کو کچھ ہونے لگا اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیسے دعا کو تسلی دے
"دعا میری بات سنو رونے سے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا تم دعا کرو بی جان کے لئے " ازھران کی بھاری آواز پر دعا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا
"چلو جلدی سے آنسو صاف کرو" دعا اسے دیکھتی رہی پھر خاموشی سے آنسوپونچھ لئے پھر بالوں کی لٹیں چہرے سے پیچھے کر کے دوپٹہ ٹھیک کیا .
"بی جان ٹھیک تو ہو جائیں گی نہ؟" دعا نے امید بھری نظروں سے اسے دیکھ کر پوچھا ازھران نے اسکی طرف دیکھا رونے کی وجہ سے دعا کی ناک اور آنکھیں لال ہورہی تھیں.
"تم اللّه کی ذات سے دعا مانگو انشاء اللّه سب ٹھیک ہوگا"ازھران نے اسے دیکھ کر بات پوری کی اور اٹھ کھڑا ہوا آئی سی یو کا دروازہ کھول کر ڈاکٹر باہر آیا دونوں جلدی سے انکی طرف بڑھے "کیسی ہیں بی جان؟" دعا نے جلدی سے پوچھا
"ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے ، آپ میرے ساتھ چلیں" ڈاکٹر دعا کو جواب دے کرازھران کی طرف دیکھ کر بولا
"تم بیٹھو میں آتا ہوں اور رونا مت" اسکو دیکھ کر کہتا وہ ڈاکٹر کے پیچھے چلا گیا
دعا واپس بینچ پر بیٹھ گئی کچھ دیر بعد ازھران واپس لوٹا دعا اٹھ کھڑی ہوئی
"کیاکہا ڈاکٹر نے؟"
دعا کے پوچھنے پر وہ نظریں چرا گیا تو دعا نے غور سے اسکا چہرہ دیکھا اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی آئی سی یو کا دروازہ کھلا اور نرس باہر نکلی
"دعا آپ ہیں؟ نرس نے پوچھا
"جی " وہ جلدی سے بولی
"آپ اندر آ کر مل لیں ماں جی سے انھیں ہوش آیا ہے وہ آپکو پکار رہی ہیں وقت زیادہ نہیں ہیں انکے پاس"
نرس کی بات پر دعا لڑکھڑائی پر ازھران نے اسے سنبھال لیا"جلدی چلیں پلیز" نرس دوبارہ بولی تو ازھران اسے تھام کر اندر لے آیا
دعا کی نظر بیڈ پر مشینوں میں جکڑی بی جان پر پڑی تو اسکا دل ڈوب گیا ٹانگیں کانپنےلگیں اگر ازھران نے اسے پکڑا ہوا نہ ہوتا تو وہ نیچےگر جاتی دعا نے خود کو ازھران سے چھوڑایا اوربی جان کی طرف بڑھی
"بی جان آنکھیں کھولیں پلیز" وہ روتے ہوئے بولی ازھران اس سے کچھ قدموں کے فاصلے پر کھڑا تھا.دعا کے پکارنے پر بی جان نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا
"دعا بچے" اتنا کہہ کر انہوں نے لمبی سانس بھری جیسی وہ اتنا بولنے پر ہی تھک گئیں ہوں.دعانے بی جان کا ہاتھ تھاما اسکی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے بی جان اسے ہی دیکھ رہیں تھیں
"بہادر بنو بیٹا" انہوں نے آہستہ آواز میں کہا
"آپ ٹھیک ہو جائیں بی جان پلیز" وہ روتی ہوئی بولی تو بی جان کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے ازھران نے آگے بڑھ کر دعاکو کندھوں سے تھاما بی جان نے دونوں کو ایک ساتھ دیکھا تو انکی آنکھیں چمکنے لگیں.
"ازھران بیٹا مجھے آپ سے اکیلے میں بات کرنی ہے" بی جان نےاکھڑی سانسوں کے بیچ کہاازھران دعا کو باہر لے گیا دعا بس روۓ
جارہی تھی.ازھران اسے باہر بیٹھا کر اندر آیا دعا کی نظریں دروازے پر جم گئیں تھیں
وہ سوچنے لگی بی جان کو ازھران سے کیا بات کرنی ہوگی کچھ دیر بعد آئی سی یو کا دروازہ کھول کر ازھران باہر نکلا ایک نظر دعا پر ڈالی "بی جان تمہیں بولا رہی ہیں" اتنا کہہ کر وہ موبائل پر نمبر ملاتا وہاں سے باہر کی جانب چلا گیا اور دعا خیالوں میں گم بی جان کے پاس آئی ابھی وہ کچھ بہتر لگ رہیں تھیں.دعا بیڈ کے قریب کھڑی ہوگئی بی جان نے اسے دیکھا
"دعا بیٹا آپ سے ضروری بات کرنی ہیں"
دعانے بی جان کا ہاتھ پکڑا جو برف کی طرح ٹھنڈا ہو رہا تھادعا کا دل کانپنے لگا کہ کیابات ہوگی"جی بی جان" اسنے بی جان کا ہاتھ لبوں سے لگایا
"میں نے تمہارے لئے ایک فیصلہ لیا ہے بیٹا " بی جان کے کہنے پر دعا جلدی سے بولی
"آپ میری ماں ہیں بی جان آپکی کہی کسی بھی بات پر نہ کرنے کا سوال ہی نہیں ہے" دعا پیار سے انھیں دیکھتی رہی یہاں تک کہ اسکی آنکھوں میں نمی ٹہر گئی
"میری پیاری بیٹی روتے نہیں ہیں" بی جان نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا
اچانک ازھران اندر داخل ہوا دعا کی نظریں اسکی طرف اٹھیں ازھران نے بھی ایک نظر اس پر ڈالی اسکے ہاتھ میں ایک شاپر پکڑا تھا اور جیسے ہی ازھران سامنے سے ہٹا مولوی صاحب اندر آۓ دعا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی.ازھران بی جان کے پاس آیا اور شاپر انھیں دیا بی جان کے چہرے پر مسکان ٹہر گئی جبکہ انکی رنگت زرد ہورہی تھی بی جان نے دعا کو اشارہ کیا اور شاپر دے کر بولیں "اس میں سے دوپٹہ نکال کر اوڑھ لوبیٹا" دعا نے ایسا ہی کیا وہ سمجھ گئی تھی کہ یہاں کیا ہونے والا تھا.
"ازھران سے تمہارا نکاح ہورہا ہے" بی جان کی آواز میں خوشی تھی جبکہ دعا بت بن گئی
"ازھران سے نکاح" اسکے دماغ میں یہی بات گونج رہی تھی ازھران نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی پھر مولوی صاحب کو دیکھا جن کے لئے کرسی منگوا دی گئی تھی جس پر وہ بیٹھ چکے تھے. دو ڈاکٹرزاور تین نرسیں بھی وہاں کھڑی تھیں انکے لئے یہ نئی بات تھی کہ آئی سے یو میں نکاح ہو رہا تھا ڈاکٹر نے اجازت دے دی تھی کیونکہ بی جان کی حالت ٹھیک نہیں تھی اور یہ انکی خواہش تھی کہ مرنے سے پہلے دعا کو کسی کے مضبوط ہاتھوں میں سونپ کر جایئں.
دعا بالکل خاموش کھڑی تھی لال خوبصورت سا دوپٹہ اس نے اوڑھ لیا تھا پھر کیا کیا ہوتا رہا اسے کچھ پتا نہ چلا ہوش تو تب آیا جب بی جان نے اسکا ہاتھ پکڑا اور دعا نے سامنے دیکھا تو ازھران مولوی صاحب سے گلے مل رہا تھا "مبارک ہو" ڈاکٹرز نے بھی ازھران سے ہاتھ ملا کر مبارک دی
دعانے بی جان کو دیکھا انکی آنکھیں چمک
رہیں تھیں اسکا ہاتھ پکڑے بولیں
"نکاح مبارک ہو میری جان" بی جان کی بات پر دعا کا دل دھڑک اٹھا.اسکا نکاح ہو چکا تھا؟ وہ بھی ازھران علی خان سے وہی ازھران علی خان جو اسکے دل میں رہتا تھا اسے دعا کا بنا دیا گیا تھا پر ایسے موڑ پر جہاں اسکی بی جان زندگی اور موت کے بیچ تھیں دعا نے ازھران کو دیکھا جسکی آنکھوں کی چمک مزید بڑھ گئی تھی اچانک ازھران کی نظریں اسکی اٹھیں دعا نے جلدی سے سر جھکا لیا پھر بی جان کو دیکھنے لگی انکی آنکھیں بند تھیں نرس اسکے پاس آئی "آپ اب باہر چلی جائیں تاکہ ماں جی آرام کر لیں" اسکے کہنے پر دعا نے اپنا ہاتھ آہستہ سے بی جان کے ہاتھ سے نکالا پھر نیچے جھک کر بی جان کی پیشانی چومی اور باہر نکل گئی ازھران سامنے ہی کھڑا تھا دعا نے اسے دیکھا پھر جھجک کر نظریں جھکالیں اور خاموشی سے بینچ پر بیٹھ گئی .
ازھران اسے ہی دیکھ رہا تھا لال دوپٹہ میں اسکا گلابی چہرہ بے حد پیارا لگ رہاتھا ازھران کو اس پل وہ اپنے وجود کا حصہ لگی ہمیشہ سے بڑھ کر اپنے دل کے قریب محسوس ہوئی آج سے وہ ازھران علی خان کی تھی ہمیشہ کے لئے. ازھران چلتا ہوا اس تک آیا "چاۓ پیوؤ گی سنو وائٹ" ازھران نے نارمل انداز میں بات کی تا کہ دعا کو جھجک محسوس نہ ہو
"نہیں" سر جھکاۓ وہ دھیمی آواز میں بولی
"میں لے کر آتا ہوں پی لینا "وہ کہہ کر چلا گیا دعا نے اسکی پشت کو دیکھا یہ شخص ہمیشہ سے اسکے ساتھ رہا تھا ہر پریشانی ، ہر مشکل میں اور اللّه تعالیٰ نے ازھران کو ہمیشہ کے لئے اسکے نصیب میں لکھ دیا تھا اسکی آنکھیں نم ہونے لگیں.
ازھران چاۓ لے کر آیا تو دونوں نے چاۓ پی ٹھنڈے کوریڈور میں دونوں خاموش بیٹھے تھے.رات کے اس پہر وہاں مکمل سکوت چھایا تھا دعا کے ہاتھ ،پاؤں سرد ہو رہے تھے وہ دل ہی دل میں بی جان کے لئے دعائیں کرتی رہی پھر بیٹھے بیٹھے ہی اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں.ازھران نے دعا کو دیکھا جو شاید سو گئی تھی.اسکا سر ایک طرف ہوا تھا وہ آہستہ سے دعا کے قریب ہوا اور ہاتھ بڑھا کر آرام سے اسکا سر اپنے کندھے پر رکھا تاکہ وہ آرام سے سو سکے جب سے ہسپتال آئی تھی بس روتی ہی رہی ازھران نے اس معصوم لڑکی کو دیکھا جو سوتے ہوئے کتنی پر سکون لگ رہی تھی دعا کے بال چہرے پر آرہے تھے ازھران نے آہستہ سے اسکے بال پیچھے کیئے اور سر پر اسکا دوپٹہ ٹھیک کیا. ازھران نے ایک نظر گھڑی پر ڈالی جہاں رات کے تین بج رہے تھے بی جان کو ابھی بھی آئی سی یو میں رکھا گیا تھا انکی حالت ٹھیک نہیں تھی.ازھران بہت کچھ سوچ رہا تھا نجانے کتنا وقت گزرا کہ آئی سی یو کا دروازہ کھول کر نرس باہر نکلی اور ڈاکٹر کو بلا کر اندر لے گئی اچانک ہی افراتفری مچی تھی دعاکی آنکھ کھل گئی وہ سیدھی ہو کر بیٹھی ڈاکٹر باہر آیا تو وہ دونوں جلدی سے اسکی طرف بڑھے
"بی جان ٹھیک ہیں ؟"ازھران نے پوچھا جبکہ دعا کچھ بول ہی نہ پائی اسے جیسے پتا چل چکا تھا کہ ڈاکٹر کیا کہنے والا ہے.
"آئی ایم سوری مسٹر ازھران " اسکا کندھا تھپک کر ڈاکٹر وہاں سے چلا گیا.ازھران نے دعا کی طرف دیکھا جو بت بنی کھڑی تھی اس سے پہلے کے وہ کچھ کہتا دعا لڑکھڑائی اور ازھران نے جلدی سے بازو آگے بڑھا کر اسے تھام لیا "دعا"ازھران نے اسے پکارا پر وہ بیہوش ہو چکی تھی . ########
شاہ میر اور عدیل پولیس اسٹیشن میں بیٹھے بے حد پریشان لگ رہے تھے
"رابطہ ہوا اس سے؟" عدیل نے پریشانی سےپوچھا
" نہیں بہت کوشش کی پر رابطہ نہیں ہو سکا" شاہ میر نے پیشانی مسل کر کہا
"ازھران سے بات نہیں ہوئی اسکی ؟"
"دو دن پہلے ہی بات ہوئی تھی اسکی ازھران سے ،اسنے ضروری معلومات دی تھی پر اب اس سے رابطہ نہیں ہورہا" شاہ میر نے جواب دیا پھر بولا "ازھران ہے کہا ؟"
"بی جان کی ڈیتھ ہوگئی ہے.ازھران وہیں ہے کل فون پر اسنے اتنا ہی بتایا تھا" عدیل جواب دے کر اٹھ کھڑا ہوا
"اوہ بہت برا ہوا اللّہ دعا کو صبر دے " شاہ میر کو افسوس ہوا تھا. وہ لوگ جانتے تھے کہ ازھران دعا کو پسند کرتا ہے پرانھیں ازھران اور دعاکے نکاح کا معلوم نہیں تھا.
"مشکل وقت ہے انکے لیے" شاہ میر کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا تا کہ وہ دعا کے گھر افسوس کے لئے جا سکے پر تبھی دروازہ کھول کر حولدار اندر داخل ہوا.
"سر ہمیں اطلاع ملی ہے کہ قریب کے علاقے میں ایک ڈیڈ باڈی ملی ہے"
"اوکے جلدی چلو وہاں" شاہ میر جلدی سے باہر نکلا عدیل بھی اسکے ساتھ تھا وہ لوگ دو گاڑیوں میں اس جگہ تک پہنچے پولیس نے لوگوں کو پیچھے ہٹا کر اس جگہ کو گھیر لیا شاہ میر اور عدیل گاڑی سے باہر نکلے اور آگے بڑھنے لگے شاہ میر آگے چل رہا تھا جب اسکی نظر ڈیڈ باڈی پر پڑی تو اسکے قدم تھم گئے عدیل بھی ایک دم سے رکا تھا دونوں بالکل بت بن گئے .
عدیل بھاگ کر آگے بڑھا اور زمین پر پڑے شخص کے پاس بیٹھ گیا اسکا سر اپنی گود میں رکھا اور رونے لگا اسکی سامنے پڑے وجود میں جان نہیں تھی اور وہ وجود کوئی اور نہیں ان سب کا یار تھا شاہ میر بھی اسکے پاس بیٹھ گیا.
"یہ کیا ہوگیا شاہ ؟" عدیل روتے ہوئے بولا
شاہ میر کی آنکھیں لال ہونے لگیں اسنے عدیل کو اپنے ساتھ لگا لیا دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے وہاں کھڑے پولیس والی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے .
"میرے یار ، میرے عمر کو کیا ہوگیا شاہ ؟ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا " عدیل ، شاہ میر سے الگ ہوا اور عمر کا چہرہ ہاتھوں میں لیا کر اسے پکارنے لگا "اٹھ جا میرے یار ....اٹھ عمر تو ایسا کیسے کر سکتا ہے یار" وہ روتے ہوئے فریاد کرنے لگا پر وہاں کس نے سننا تھا وہ تو موت کی نیند سو چکا تھا شاہ میر نے عدیل کو کھینچ کر پیچھے کیا اورحولدار کی طرف پلٹا " باڈی کو گاڑی میں ڈالو" ضبط سے کہتا وہ عدیل کو لے کر گاڑی کی طرف بڑھا اسکا دل خون کے آنسو رو رہا تھا. #######
جہانگیر ولا بالکل ویران ہورہا تھا کچھ دیر پہلے ہی بی جان کا جنازہ نکلا تھا یہ وقت دعا کے لئے قیامت سے کم نہیں تھا وہ جب ہوش میں آئی تو اسکی دنیا ویران ہوچکی تھی اسکی پیاری بی جان اسے ہمیشہ کے لئے اکیلا چھوڑ گئیں تھیں وہ بہت روئی تھی کہ اسکے آنسو سوکھ گئے تھے .
بی جان کو جب ہسپتال سے گھر لایا گیا تو ازھران نے دعا کو سنبھالے رکھا تھا
یہ خبر سن کر آس پڑوس والے جہانگیر ولا افسوس کرنے آنے لگے سارا کام ازھران نے بیٹا بن کر سنبھالا تھا فاطمہ آپا کو دعا کا خیال رکھنے کا کہا دعا کی حالت بہت خراب ہو رہی تھی خُرم قریشی جنازے سے کچھ دیر پہلے پہنچا تھا دو بجے کے قریب بی جان کا جنازہ اٹھا تو دعا کا دل بند ہونے لگا فاطمہ آپا نے بہت مشکل سے اسے سنبھالا تھا جنازہ کرنے کے بعد ازھران واپس آیا تا کہ دعا کو دیکھ سکے وہ خود بھی بہت تھک چکا تھا پر اسے دعا کو سمبھالنا تھا سب لوگ وہاں سے جا چکے تھے گھر بالکل سنسان ہوگیا تھا ازھران صوفے پر بیٹھا فاطمہ آپا کو کچن سے نکلتے دیکھ کر بولا " فاطمہ آپا ، دعا کیسی ہے ؟"
"نیند کی گولی دی تھی انھیں ازھران بھائی سو رہیں ہیں وہ " فاطمہ آپا نے رک کر جواب دیا تو ازھران اٹھ کھڑا ہوا
"میں دیکھ لوں ذرا دعا کو" وہ کہہ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا اسنے فاطمہ آپا کو اپنے اور دعا کے نکاح کے بارے میں بتا دیا تھا اسلئے فاطمہ آپا مطمئن ہو کر کچن کی
طرف چلی گئیں.
ازھران نے کمرے میں قدم رکھا کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا تھا وہ چلتا ہوا بیڈ تک آیا
دعا سو رہی تھی لال دوپٹہ سائیڈ پر رکھا تھا اسکے بال تکیئں پر بکھرے تھے چہرہ مرجھایاہوا تھا ازھران اسے دیکھنے لگا اچانک دعا نے سسکی بھری تو ازھران آہستہ سے بیڈ پر دعا کے قریب بیٹھ گیا ہاتھ بڑھا کر اسکے بال پیچھے کیے پھر جھک کر اپنے لب اسکے ماتھے پر رکھے ایک نظر اسکے چہرے پر ڈالی پھر اسکے اپر سے کمبل ٹھیک کیا اور کمرے سے باہر نکل گیا.
نیچے آیا تو فاطمہ آپا کھانا لگا رہیں تھیں .
"ازھران بھائی کھانا کھا لیں آپ صبح سے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں"
"نہیں فاطمہ آپا میں اب جاؤں گا آپ دعا کا خیال رکھیں اور یہ رہا میرا نمبر کوئی بات ہو تو مجھے کال کر لیجئے گا" ازھران نے اپنا نمبر انکی طرف بڑھایا اور جانے لگا پھر کچھ یاد آنے پر پلٹا
"خرم قریشی کہا ہیں؟"
"پتا نہیں ...جنازے کے بعد گھر نہیں آۓ" فاطمہ آپا کہا پھر اپنا کام کرنے لگیں ازھران نے کچھ سوچتے ہوئےسر ہلا دیا
"چلتاہوں دعا کا خیال رکھیے گا " اتنا کہہ کر وہ باہر کی طرف بڑھ گیا.
######
وہ کار ڈرائیو کر رہا تھا اسےیاد آیا کہ اسکا موبائل بند پڑا تھا اسنے پاکٹ سے موبائل نکالا
اور جلدی سے موبائل چارج پر لگایا کل اسنے عدیل سے بات کی تھی اب وہ شاہ کو کال کرنا چاہتا تھا.اسکا موبائل آن ہوا تو اسنے موبائل کو چیک کیا جہاں شاہ اور عدیل کی کالز آئیں تھیں ابھی وہ شاہ کو کال کرنے ہی والا تھا کہ شاہ کی کال آگئی اسنے کال اٹھائی
وہ نہیں جانتا تھا کہ اس پرکیا قیامت ٹوٹنے والی تھی وہ فون کان سے لگاۓ دوسری طرف سے آتیں ہوئی آوازیں سن رہا تھا ویسا ہی شور جیسا وہ دعا کے گھر سے سن کر آیا تھا.
"ہیلو شاہ " اسنے شاہ کو پکارا
"ازھران" شاہ میر اتنا کہہ کر چپ ہوا
"شاہ کیا ہوا بتاؤ مجھے" ازھران نے بے تابی سے پوچھا
"ہمارا یار عمر اب اس دنیا میں نہیں ہے ازھران" شاہ میر کی نم آواز نے ازھران کا دل مدھم کردیا تھا اسنے کار کو بریک لگائی
"یہ...یہ کیا کہہ رہے ہو شاہ" اسے یقین نہیں آ رہا تھا بھلا عمر ایسے کیسے چھوڑ گیا انھیں
"یہی سچ ہے میرے یار ہم عمر کے گھر میں ہیں تم بھی آ جاؤں یہاں جلدہی جنازے کا وقت ہونے والا ہے" شاہ نے بات ختم کر کے کال کاٹ دی
ازھران نے ضبط کے مارے اپنا ہاتھ زور سے اسٹیرنگ ویل پر مارا پھر اس پر سر رکھ کر اس دکھ کو برداشت کرنے کی ہمت جما کرنے لگا جب اسنے سر اٹھایا تو اسکی آنکھیں ضبط کی انتہا پر تھیں اسنے لمبی سانس کھینچ کر کار اسٹارٹ کی اور عمر کے گھر جانے والے راستے پر ڈال دی.
جس وقت وہ عمر کے گھر پہنچا وہاں کوہرام مچا ہوا تھا جوان موت پر ایک دنیا وہاں موجود تھی ازھران, شاہ اور عدیل کی طرف آیا جو ایک سائیڈ پر کھڑے تھے وہ دونوں سے گلے لگا عدیل رو رہا تھا اسکی اور شاہ کی آنکھیں بھی نم ہو رہیں تھیں.
ازھران نے عمر کو دیکھا تو درد کی شدت سے اسکا دل پھٹنے لگا وہ اپنے دوست کو ایسے کہا دیکھ سکتا تھا وہ ہنسنے ، شرار تیں کرنے والا عمر بالکل خاموش پڑا تھا مگر اسکے چہرے پر ایک پیاری سی مسکان تھی ایک انوکھی چمک تھی ازھران کی آنکھ سے چپکے سے ایک آنسو نکلا کچھ دیر بعد عمر کا جنازہ اٹھا ہر طرف رونا ، شور مچا تھا اور وہ دوست اپنے یار کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنے جا رہے تھے جہاں سے وہ کبھی واپس نہیں آیگا
ایک دن میں اسنے دو جنازے پڑھے تھے اور دونوں ہی اسکے بہت عزیز تھے. وہ لوگ کار میں بیٹھے گھر جا رہے تھے عمر کا جنازہ ہو چکا تھا تینوں خاموش بیٹھے تھے شاہ کار ڈرائیو کر رہا تھا ازھران اسکے ساتھ بیٹھا تھا اور عدیل پیچھے .
"کچھ پتا چلا کس نے کیا یہ سب ؟" ازھران نے سوال کیا
"تمہیں پتا تو ہے کہ کسنے کیاہے سب" شاہ نے جواب دیا
"ہاں....اب جلد کوئی اسٹیپ لینا ہے" ازھران کے ماتھے پر سوچ کی لکیریں تھیں.
"بالکل ازھران اب اور کوئی موقع نہیں دینا انھیں" عدیل غصے سے بولا
پھر تینوں خاموش ہوگئے کار ازھران کے گھر کے سامنے رکی شام کے ساۓ ہر طرف پھیل چکے تھے .وہ چلتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئے وہ تھکے ہارے ہوئے صوفوں پر بیٹھے تھے.
"آخری بار تمہاری عمر سے بات ہوئی تھی کچھ معلومات دی اسنے" شاہ نے ازھران سے پوچھا جو آنکھیں بند کیئے صوفے پر نیم دراز تھا "ہاں بس جلد ہم نے وہ کام سر انجام دینا
ہے تم لوگ تیار رہنا" اسنے آنکھیں کھول کر شاہ اور عدیل کو دیکھا
"ہماری اس لڑائی میں ہمارا دوست بچھڑ گیا ہے ہم سے وہ تو شہید ہوا پر ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا پر جس کام کو کرتے ہوئے اسکی جان گئی اب ہمیں اسے انجام تک پہنچانا ہوگا" ازھران نے عزم لہجے میں کہا
"انشاءاللّه" شاہ اور عدیل نے ایک ساتھ کہا #######
ازھران علی خان اپنے گاؤں کا سردار تھا اور اپنی دادو کے ساتھ رہتا تھا.اسکی طبیعت سرداروں والی نہیں تھی وہ شوخ سا لڑکا تھا شاہ میر اسکا خالہ زاد بھائی اور بہت اچھا دوست تھا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد شاہ نے پولیس فورس جوائن کر لی جبکہ ازھران نے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی جوائن کی پھر وہ اسلام آباد چلا آیا وہیں اسکی ملاقات عمر اور عدیل سے ہوئی تھی وہ دونوں اسکے ساتھ ہی کام کرتے تھے اسکے آئی ایس آئی میں جانے کی بات شاہ میر کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں تھی .اسلام آباد میں یونیورسٹیوں سے لڑکیوں کے غائب ہونے کے واقعات ہونے لگے تب اسے آغا رضا کاظمی نے بلایا تھا اس سے پہلے بھی وہ ایسے کیسز کامیابی سے ہینڈل کر چکا تھا آغا رضا کاظمی نے یہ کیس ازھران کو دیا تھا اور عمر ، عدیل بھی اسکے اس کیس پر کام کر رہے تھے
وہ تینوں یونیورسٹی کے اندر رہ کر سب پر نظر رکھے ہوئے تھے پھر انھیں دنوں ہیومن اسمگلنگ کا کام زیادہ ہونے لگا تو شاہ میر کا ٹرانسفر یہاں کروایا گیا تب بلیک گینگ کا نام اس کام میں سامنے آیا تو چاروں مل کر کام کر نے لگے عمر کسی طرح سے بلیک گینگ میں چاند بن کر شامل ہوا دوسری طرف ازھران نے اپنا کام شروع کیا تھا یونیورسٹی کی کینٹین میں کام کرنے والے آدمی لڑکیوں کے اغوا میں شامل تھے جنہیں ازھران پکڑ چکا تھا پر یہ لوگ صرف چھوٹے سے مہرے تھے انکے پیچھے کوئی اور بیٹھا تھا جو یہ سب کروا رہا تھا عمر نے سارے ثبوت جما کر لئے تھے پر اسے دینے کا موقع نہ مل سکا پر جن لڑکیوں اور بچوں کو اسمگل کیا جانے والا تھا انکی معلومات وہ دے چکا تھا اب انھیں آگے کا کام کرنا تھا. #######
ساری رات ازھران بے چین رہا تھا صبح وہ اٹھا اور گاڑی لے کر گھر سے نکل پڑا وہ جہانگیر ولا پہنچا کار پورچ میں پارک کی اور اندر چلا آیا سامنے کوئی نظر نہیں آرہا تھا وہ آگے بڑھا کچن سے آواز آرہی تھی .
"فاطمہ آپا " اسنے پکارا فاطمہ آپا کچن سے باہر نکلیں" سلام ازھران بھائی"
ازھران نے سلام کا جواب دیا اور دعا کا پوچھا
"وہ صبح سے بی جان کے کمرے میں بیٹھیں ہیں کچھ کھایا بھی نہیں آپ ہی کہیں ان سے"
"میں دیکھتا ہوں اسے" وہ کہہ کر بی جان کے کمرے کی طرف آیا دروازہ کھولا تو دعا بی جان کے بیڈ پر بیٹھی آنسو بہانے میں مصروف تھی ازھران چلتا ہوا بیڈ پر اسکے سامنے بیٹھ گیا دعا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا "تم نے کچھ کھایا کیوں نہیں ؟" ازھران نے اسکے چہرے پر نظریں جما کر پوچھا دعا نے زخمی نظروں سے اسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو"کیا آپکو نہیں پتا؟" ازھران نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے پھر اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا "مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا سنووائٹ"اتناکہہ کر وہ کچھ دیر رکا "عمر میرا دوست وہ بھی کل ہمیں چھوڑ کر چلا گیا پر دیکھو میں آج تمہارے سامنے بیٹھا ہوں ہم کسی کے چلے جانے سے جینا نہیں چھوڑ سکتے وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ ذندہ رہیں گے بس رونے کے بجائے تم دعا مانگو انکے لئے ٹھیک ہے نہ؟" ازھران اسے سمجھاتا رہا اور دعا اسے دیکھتی رہی ازھران کی آنکھیں ضبط کے مارے لال ہو رہیں تھیں ازھران نے خود کو سنبھالا پھر ہاتھ بڑھا کر دعا کے بال کان کے پیچھے کیے اور بولا "کچھ کھا لینا اوکے مجھے ضروری کام کے لئے جانا ہے تم سے پھر ملنے آؤں گا" وہ اسکا ہاتھ چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا "اللّہ حافظ" دعا نے دھیمی آواز میں کہا "اپنا خیال رکھنا " وہ کہہ کر باہر نکل گیا. ####### ازھران ڈی آئی جی کے آفس میں بیٹھا تھا "سر آپکی سپورٹ چاہئے باقی کام ہم کر لیں گے" ازھران نے انھیں دیکھ کر کہا " میرا فل سپورٹ آپکے ساتھ ہے آپکو جو کرنا ہے کریں" آغا رضا کاظمی نے اس بہادر نوجوان کو دیکھ کر کہا "بہت شکریہ سر " " عمرکی موت کا بہت افسوس ہے نوجوان پر فخر بھی ہے کہ وہ نیک کام کرتے ہوئےشہید ہوا ہے" " بالکل سر وہ ایک بہادر نوجوان تھا ہم سب کو فخر ہے اس پر" آغا رضا کاظمی کی بات پر ازھران نے جواب دیا پھر اٹھ کھڑا ہوا "اجازت دیں سر" وہ سر سے ہاتھ ملا کر باہر نکل گیا. ###### دعا اپنے کمرے میں تھی ابھی رات کے دس بجے کا وقت تھا وہ کھلی کھڑکی میں کھڑی آسمان کو دیکھ رہی تھی پھر سوچنے لگی بی جان اسے ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلیں گئیں تھیں پر جاتے ہوئے بھی وہ اسے ازھران جیسا ہمسفر دے گئیں تھیں ازھران کے سمجھانے پر اسنےکھانا بھی کھایا اور نماز پڑھ کر بی جان کے لئے دعا کی تھی اسنے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جنہیں ازھران کئی بار تھام چکا تھا وہ چلتی ہوئی آئی اور بیڈ پر بیٹھ گئ وہ اپنے خیالوں میں گم تھی کہ کمرے کے باہر قدموں کی چاپ سنائی دی دعا جلدی میں بیڈ سے اتری اچانک دروازہ کھلا اور دعا ٹہر سی گئ. #######