
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر ایک
لیپ ٹاپ سامنے تکیے پر رکھا ہوا تھا۔ وہ بیڈ پر کہنیوں کے بل اوندھی لیٹی ہوئی تھی۔ اسکرین کی روشنی اس کے چہرے کو چمکا رہی تھی۔ وہ تھوڑی تلے ہتھیلی رکھے دوسرے ہاتھ کی ایک انگلی لیپ ٹاپ کے ٹچ پیڈ پر پھیر رہی تھی۔ لمبے سیدھے سیاہ بال سائڈ پر پڑے تھے۔ اس کی آنکھیں بھی ویسی ہی تھیں۔ سیاہ بڑی بڑی آنکھیں اور چاندنی جیسی چمک تھی۔ اور چہرہ ملائی کا بنا لگتا تھا۔ سفید، صاف اور چکنا سا۔ وہ اسی مگن انداز میں سکرین پر نظریں مرکوز کیے ٹچ پیڈ پر انگلی پھیر رہی تھی۔ ایک کلک کے بعد کوئی صفحہ کھلا تو اس کی متحرک انگلی رک گئی۔ سکرین پر جمی آنکھوں میں ذرا تفکر ابھرا اور پھر بے چینی، اس نے جلدی جلدی دو تین بٹن دبائے۔ لوڈنگ............................... اگلے صفحے کے لوڈ ہونے کے انتظار کرتے ہوئے اسی مضطرب انداز میں اس نے انگلی سے چہرے کی دائیں طرف سے پھسلتی لٹیں پیچھے کیں۔ چند سیکنڈ میں صفحہ لوڈ ہوگیا۔ وہ بے چین ہو کر چہرہ سکرین کے قریب لائی تو اس کے بالوں کی چند لٹیں پھسل کر پھر چہرے کے سامنے آگئیں۔ جیسے جیسے وہ پڑھتی گئی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی گئیں۔ لب ذرا سے کھل گئے۔ اور پورا وجود بے یقینی مین ڈوب گیا۔ ڈھیر سارے لمحے لگے تھے اس کو خود کو یقین دلانے میں، جو وہ پڑھ رہی تھی بالکل سچ ہے اور جیسے ہی اس کے ذہن نے یقین کی دھرتی کو چھوا، وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔ اس کا فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر سیل اٹھایا اور جلدی جلدی کوئی نمبر ڈائیل کیا۔ رات کی مقدس خاموشی میں بٹنوں کی آواز نے ذرا ارتعاش پیدا کیا۔ اس نے فون کان سے لگایا دوسری طرف بیل جا رہی تھی۔
"ہیلو زارا!" شاید رابطہ مل گیا تھا۔ تب ہی وہ بےحد شوخی سے چہکی۔ ”کسی ہو؟ سو تو نہیں گئی تھی؟“ دوسری طرف اس کی دوست کچھ کہہ رہی تھی۔ وہ لمحے بھر کو سننےکے لئے رکی، اور پھر ہنس پڑی۔ "ساری باتیں چھوڑو میرے پاس جو بڑی خبر ہے وہ سنو! اس نے عادتاً اپنے بالوں کی لٹ کو انگلی پر لپٹتے ہوئے کہا۔
" تم یقین نہیں کرو گی میں جانتی ہوں۔ ارے نہیں یار! دلاور بھائی کی شادی کے بارے میں نہیں ہے"
دوسری طرف زارا نے کچھ کہا تو اس نے فوراً تردید کی۔
"بلکہ تم ایسا کرو، گیس کرو، میں تمہیں کیا بتانے والی ہوں؟"
اس نے ایک ہاتھ سے لیپ ٹاپ سائیڈ پر کیا اور تکیہ نکال کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر کہا۔ پھر اس نے ٹیک لگا کر پاؤں سیدھے کر لئے۔ ساتھ ساتھ وہ زارا کے اندازوں کی تردید بھی کیے جا رہی تھی۔
"نہیں! بالکل نہیں۔" ایسا تو بالکل بھی نہیں۔ ارے میری شادی بھی نہیں ہو رہی۔ جی نہیں! ارم کی بھی نہیں ہو رہی۔ سیریسلی زارا! تمہاری سوچ بس یہی تک ہے۔ اب کان کھول کر سنو تم، وہ آرمدیوس ایکسچینج پروگرام یاد ہے، جس کے لئے ہم نے اپلائی کیا تھا؟
can you believe it zara?
یورپین یونین نے مجھے سکالر شپ کے لئے سلیکٹ کیا ہے۔ دوسری جانب زارا اتنی زور سے چیخی کہ موبائل کا سپیکر بند ہونے کے باوجود بھی اس کی چیخ پورے کمرے میں گونجی تھی۔
"بالکل سچ کہ رہی ہوں زارا! ابھی پندرہ منٹس پہلے مجھے یونیورسٹی کی میل ملی ہے۔“ اور ساتھ ہی لیپ ٹاپ کا رخ اپنی طرف موڑ کر دوبارہ غور سے سکرین کو دیکھا. "جہاں پندرہ منٹ پہلے ہی سلیکشن میل آئی ہے۔ تم بھی فوراً چیک کرو! تم نے بھی apply کیا تھا، تمہیں بھی میل آئی ہوگی۔ وہ فون ایک ہاتھ میں پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے لیپ ٹاپ آف کر رہی تھی۔
لیپ ٹاپ کی سکرین پر اندھیرا ہوا تو اس نے ہاتھ بڑھا کر سکرین کو بند کیا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ ”میں نے سبانجی کو نیٹ پر دیکھا ہے۔ بہت ہی خوبصورت یونیورسٹی ہے۔ مگر......“ وہ تھوڑی دیر کو خاموش ہوگئی۔ دوسری طرف سے استفسار پر وہ پھر سے بولی تھی۔بس ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے، ہم اپنی فیملیز کو اس کے بارے میں نہیں بتائیں گے۔“ دھیمی آواز میں بولتے ہوئے اس نے بند دروازے کو دیکھا۔ ”دراصل سانجی می لڑکیوں کے ہیڈ سکارف پر پابندی ہے۔ ادھر سر ڈھانپنا منع ہے۔ گھر والوں کو بتا کر متفکر کرنے کے بجائے اس بات کو گول کر جانا۔ ویسے بھی ہم دونوں ہی سکارف نہیں لیتیں۔“ اس پل کھڑکی کے باہر کچھ کھڑکا ہوا تھا۔ وہ چونک کر دیکھنے لگی۔ قد آدم کھڑکیوں کے آگے بھاری پردے گرے ہوئے تھے۔ البتہ پیچھے جالیاں کھلی ہوئی تھیں۔ شاید اس کا وہم تھا۔ وہ سر جھٹک کر فون کی طرف متوجہ ہوگئی.
"ابا نے مجھے کبھی سکارف لینے یا سر ڈھکنے پر مجبور نہیں کیا، تھینک گاڈ! ہاں ارم گھر کے باہر سکارف لیتی ہے۔ اس کے ابو، تایا فرقان کچھ سخت ہیں ناں۔“ پھر وہ بیڈ سے ٹیک لگاتے ہوے نیم دراز ہو کر بتانے لگی۔ "پرمشن کا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ابا اسپین جانے کی اجازت نہ دیتے۔ مگر ترکی میں سبین پھوپھو رہتیں ہیں۔ تو وہ مان گئے تھے۔ ویسے بھی انہیں اپنی بیٹی پر پورا بھروسہ ہے۔“
پھر وہ چند لمحے اپنی دوست کی باتیں سنتی رہی۔ زارا خاموش ہوئی تو اس نے پھر نفی میں سر ہلایا۔
"کل نہیں! داور بھائی کی مہندی کل ہے۔ تم آرہی ہوں ناں؟ اور ہاں میں اور ارم لہنگا پہن رہے ہیں۔سارے کزنز بہت excited ہیں۔ خاندان کی پہلی شادی ہے نا۔ اوکے! اب تم جا کر میل چیک کرو، میں بھی سوتی ہوں۔ رات بہت ہوگئی ہے۔“
الوداعی کلمات بولنے کے بعد اس نے فون تکیہ پر اچھال دیا۔ پھر باہر جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ باہر لاؤنج خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ حیا نے آہستہ سے اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا۔ ننگے پاؤں چلتے لاؤنج سے کچن میں آئی۔
سیاہ قمیض اور کھلے ٹراوزر میں اس کا قد اور بھی دراز لگ رہا تھا.۔کچن میں اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ وہ دروازے پر رکی اور ہاتھ بڑھا کر کچن کی لائٹ جلائی۔ ساری بتیاں جل گئیں۔ اس نے آگے بڑھ کر فریج کا دروازہ کھولا اور پانی کی بوتل نکالنے کو جھکی۔ جھکنے سے بال پھسل کر سامنے آگئے۔ حیا نے نرمی سے ان کو پیچھے ہٹایا اور پانی کی بوتل لے کر سیدھی ہوئی۔ کاؤنٹر پر رکھے ریک سے گلاس اٹھایا اور پانی گلاس میں انڈیلنے لگی۔ تبھی اس کی نگاہ کاؤنٹر پر رکھی سفید چیز پر پڑی۔ وہ جیسے چونک اٹھی، بوتل وہی رکھ کر آگے آئی، وہ سفید آدھ کھلے گلابوں کا بکے تھا، ساتھ ایک سفید لفافہ بھی تھا۔
حیا نے گلدستہ اٹھایا اور دھرے سے پاس لا کر آنکھیں موندھے اس کو سونگھا۔ دلفریب تازگی بھری مہک اس میں اتر گئی۔ پھول بالکل تازہ تھے جیسیلے ابھی توڑے ہوں، جانے کون یہاں رکھ گیا۔ اس نے بند لفافہ اٹھایا اور پلٹ کر دیکھا۔ اس کے پتے والی جگہ پر "حیا سلمان" لکھا ہوا تھا۔ بھیجنے والے کا کوئی پتا نہیں لکھا تھا۔ بس کوریئر کی ٹکٹ لگی ہوئی تھی۔ اور ٹکٹ پر ایک روز قبل کی تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ اس کو تو کبھی کسی نے یوں پھول نہیں بھیجے، یہ کیا معاملہ تھا۔ الجھتے ہوئے حیا نے لفافہ چاک کیا۔ اس مین ایک موٹا کاغذ تھا۔ اس نے دو انگلیاں ڈال کر کاغذ باہر نکالا۔ سفید کاغذ بالکل صاف تھا نہ کوئی لکیر نہ ڈیزائن۔ بس اس کے وسط میں دو لفظ لکھے ہوئے تھے۔
"welcome to Sabanci"
"وہ سناٹے میں رہ گئی۔ یہ کیا مذاق تھا؟ بھلا خط بھیجنے والے کو کیا معلوم کہ میں سبانجی جا رہی ہوں؟ خط پر تو ایک روز قبل کی تاریخ لکھی ہوئی تھی۔ جب کہ قبولیت کی میل تو ابھی پندرہ منٹ پہلے ملی۔ تو پھول بھیجنے والے کو ایک دن پہلے کیسے پتا چل گیا؟
اگر زارا کو اس نے خود نہ بتایا ہوتا تو وہ یہی سمجھتی کے یہ اس کی حرکت ہے.
۔ یہ خط سبانجی یونیورسٹی کی طرف سے بھی نہیں آسکتا تھا۔ کیوں کہ اس پر لوکل کوریئر کی مہر لگی ہوئی تھی۔ پھر کس نے بھیجا ہے یہ؟ وہ پانی کا گلاس وہی سلیب پر رکھ کر بکے اٹھاکر سوچتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
•••••••••••••••••
اس نے لاک میں چابی گھمائی ہی تھی کہ گیٹ کے پار سے زارا آتی دکھائی دی. وہ دروازہ کھول کر مسکراتی ہوئی سیدھی ہوئی۔
"حیا مجھے تو کوئی میل نہیں ملی۔"
زارا نے آدھ کھلے گیٹ کو دھکیل کر اندر قدم رکھا۔ اس کے چہرے پر اداسی تھی۔
"کوئی بات نہیں، ایک دو دن میں آجائے گی، فکر مت کرو۔ ہم نے ایک ساتھ ہی apply کیا تھا۔ مجھے آگئی ہے تو تمہیں بھی آجائے گی۔“
"مگر سکالر شپ کوارڈینیٹر کے آفس کے باہر جو لسٹ تھی اس میں بھی میرا نام نہیں ہے۔"
"اور میرا؟"
”صرف تمہارا ہے ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں سے اور اینورمینٹل سائنسز کی ایک لڑکی خدیجہ کا ہے۔ مجھے لگتا ہے میرا سلیکشن ہی نہیں ہوا۔“
"اوہ!"
اسے واقع افسوس ہوا تھا۔ اس کی زارا سے اب بات ہو رہی تھی۔
"خیر! تم کہیں جا رہی تھی؟“
زارا چہرے پر بشاشت لاتے ہوئے بولی۔
"ہاں مارکیٹ ارم کے ساتھ، کل داور بھائی کی مہندی کا فنکشن ہے نا اور لہنگے کے ساتھ کی ہائی ہیلز گم ہوگئیں ہیں۔ شاید کام والی اٹھا کر لے گئی ہے۔ اب نئے جوتے خریدنے پڑیں گے۔ تم چلو گی ساتھ؟“
اس نے گاڑی پر کہنی ٹکاتے ہوئے کہا۔ وہ ہلکی آسمانی لمبی قمیض اور تنگ چوری دار پاجامے میں ملبوس تھی۔ قمیض کا دامن ٹخنوں سے ذرا اوپر تھا۔ ہم رنگ دوپٹہ گلے میں تھا اور بال کمر پر کھلے تھے۔
"ہاں! چلو جلدی، نکلتے ہیں۔“
زارا فورناً تیار ہوگئی اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ "ارم کو بھی لینا ہے" حیا نے بیٹھ کر کہا۔
"ویسے تمہارے سخت سے تایا ارم کو تمہارے ساتھ جانے کی اجازت دے دیتے ہیں؟“
ارم ان دونوں سے جونیئر تھی اور اس کا ڈیپارٹمنٹ بھی دوسرا تھا۔ سو زارا سے اس کی زیادہ ملاقات نہیں تھی۔
"ان کی سختی صرف سکارف تک ہے۔ ایسے ویسے نہیں ہیں وہ"
وہ کار باہر گیٹ پر لے آئی۔ ارم کا گھر زارا کے ہمسائے میں تھا۔ دونوں گھروں کے درمیان کی دیوار میں آنے جانے کا راستہ تھا۔ لیکن اسے جب بھی ارم کو پک کرنا ہوتا تو وہ اس کے گیٹ پر ہارن کیا کرتی تھی۔ اب بھی زور سے ہارن دیا تو چند لمحوں میں ارم باہر آگئی۔ کاسنی لمبی قمیض، ٹراؤزر اور ہم رنگ دوپٹہ سینے پر پھیلائے، چہرے پر کاسنی سکارف لپیٹے وہ تقریباً بھاگتی ہوئی پچھلی سیٹ کے دروازے پر آئی۔ "ہیلو حیا! ہیلو زارا!
وہ چہکتی ہوئی کہہ کر بیٹھی اور دروازہ بند کیا۔ حیا کے ساتھ اووٹنگ کے پروگرام پر وہ یوں ہی خوش ہوا کرتی تھی۔
"کیسی ہو ارم ! تم سے تو اب ملاقات ہی نہیں ہوتی۔"
اس نے رخ موڑ کر اس کو دیکھا۔
"آپ کا ڈیپارٹمنٹ دور پڑتا ہے، تب ہی اور ہاں، حیا بتا رہی تھی کہ آپ لوگوں کا ترکی میں سلیکشن ہوگیا ہے۔“
"میں سلیکٹ نہیں ہوئی، حیا ہوگئی ہے، خیر! اسی میں کوئی بہتری ہوگی۔ تم نے apply نہیں کیا تھا؟" "ابّا اجازت دیتے تب ناں؟ اس نے اداس ہوکر کہا
"ویسے پیرنٹس کو اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے" زارا نے کہا.
حیا نے تادیبی نظروں سے زارا کو دیکھا کہ پہلے احساس کمتری میں مبتلا ارم مزید اداس نہ ہو جائے۔ "ابا بھی پتا نہیں اتنے سخت کیوں ہیں؟ گرمی میں سکارف لینا اتنا آسان تو نہیں ہے۔ اور پھر کل مہندی کے لہنگے کی بھی آدھی آستیں رکھنے نہیں دیں۔ حیا کی بھی تو آدھی آستیں ہیں۔ مگر ابّا ذرا بھی سلمان چچا جیسے نہیں ہیں۔“
"ارم! تمہیں آج کیا لینا ہے؟ میں نے تو جوتے لینے ہیں۔
اس نے کوفت چھپاتے ہوئے بات کو بدلا۔ ارم ہر وقت یہی رونا روتی رہتی تھی۔
"چوریاں لینی ہیں! مگر پوری آستین کے بلاؤز کے ساتھ چوڑیاں اچھی کہاں لگیں گی"
وہ منہ بسورے پھر سے شروع ہونے لگی تو حیا نے کیسٹ پلیئرآن کر دیا۔ عاطف اسلم کا گانا پوری آواز میں گونجنے لگا تو ارم کو چپ ہونا پڑا۔
مارکیٹ پہنچنے کے بعد ارم تو چوڑیاں ڈھونڈھنے نکل گئی اور وہ دونوں میٹرو آگئیں۔
"یہ گولڈن والا جو تیسرے نمبر پر رکھا ہے، وہ دکھائیں؟"
بہت دیر بعد ایک اونچی ہیل اس کی نظر میں جچی تھی۔ "یہ والا میم" سیلز مین نے جوتا نکل کر اس کے سامنے کیا۔ وہ زمین پر پنجوں کے بل بیٹھا تھا اور وہ دونوں کاؤچ پر بیٹھی تھیں۔ "پہنا دوں میم" بہت مؤدب اور شائستہ لہجے میں سیلز مین نے مسکرا کر پوچھا۔
"میرے ہاتھ نہیں ٹوٹے ہوئے، میں خود پہن سکتی ہوں۔"
"جی شیور! یہ لیجیے۔"
سیلزمیں نے مسکراتے ہوئے جوتا اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے اسے یوں پکڑ رکھا تھا کہ پکڑتے وقت حیا کی انگلیاں لازمی اس کے ہاتھ سے مس ہوتیں- "سامنے رکھ دو, میں اٹھا لوں گی۔"
اس کے روکھے انداز پر سیلزمین نے گنگناتے ہوئے جوتا سامنے رکھ دیا۔ پھر بل کی ادائیگی کے بعد کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے نے بقیہ رقم اس کی طرف بڑھائی تو حیا نے دیکھا کہ پیسوں کے اوپر پانچ کا سکہ رکھا ہوا ہے اور لڑکے نے سکہ یوں پکڑ رکھا تھا جیسے سیلزمین نے جوتا....
"شکریہ"
حیا نے نوٹوں کو کنارے سے پکڑ کر کھینچا تو سکہ لڑکے کے ہاتھ میں ہی رہ گیا۔
"میم! آپ کا سکہ"
لڑکے نے فاتحانہ مسکراتے ہوئ کہا کہ اب تو لازمی پکڑے گی اور......
"یہ سامنے پڑے صدقے کے باکس میں ڈال دو۔"
وہ بے نیازی سے شاپر تھامے پلٹی تو زارا نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
"اس لڑکے کی شکل دیکھنے والی تھی حیا۔“
”دل کر رہا تھا اس کی شکل پر شاپ میں پڑے سارے جوتے مار دوں۔ پتا نہیں ہماری ذہنیت کب بدلے گی۔ یوں گھورتے ہیں جیسے پہلی بار کوئی لڑکی دیکھی ہو۔“
وہ تنفر سے ناک سکوڑتی، غصّے سے سیڑھیاں اتر رہی تھی، جب قریب ہی سے آواز آئی۔
"تو اتنا بن سنور کے باہر مت نکلا کرو بی بی !"
وہ چونک کر آخری سیڑھی پر رک گئی۔ ایک ممر خاتون تھی، بڑی سی چادر لپیٹی ہوئی، ناگواری بھری نگاہ اس پر ڈال کر اوپر زینے پر چڑھ گئیں۔
"ایک تو لوگوں کو راہ چلتے تبلیغ کا شوق ہوتا ہے" زارا اس کو کہنی سے تھامے ہوئے وہاں سے لے آئی۔ تب ہی ارم سامنے سے آتی دکھائی دی۔ اس کا سینے پر پھیلا دوپٹہ اب سمٹ کر گلے میں جا چکا تھا۔ اس نے کوئی خاص شاپنگ نہیں کی تھی۔ شاید وہ اس کے ساتھ صرف آؤٹننگ کے لئے ہی آئی تھی۔ میٹرو سے وہ "اسکوپ" چلی آئیں، تاکہ کچھ کھا پی لیں۔ رات کی دعوت تو تایا فرقان کی طرف تھی، جو وہ بیٹے کی شادی کے لئے آئے ہوئے لوگوں کو دے رہے تھے۔
"میرے لئے پائن ایپل منگوانا، میں ذرا بیکری سے کچھ لے آؤں۔ ارم جھپٹ کر باہر کو لپکی۔ حیا نے گہری سانس لیتے ہوئے اپنی سائیڈ کا شیشہ نیچے کیا، سرد ہوا کا تھپیڑا اندر آیا۔ مگر اتنی سردی میں سلش پینے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ وہ پارکنگ لاٹ میں موجود تھیں اور ٹھنڈی ہوا نے سب کو گھیرا ہوا تھا. "ارم خاصی کمپلیسڈ لگتی ہے ناں؟“ ارم دور ہوگئی تو زارا اس کی طرف مڑی۔
"اور تم اس کے کمپلیکس کو ہوا دے رہی ہو۔" وہ الٹا اسی پر خفا ہوئی۔
"تایا فرقان صرف سکارف کی سختی کرتے ہیں۔ وہ بس اس بات پر خودترسی کا شکار ہے اور تم بھی اس کا ساتھ دے رہی ہو۔
"میں نے کہا کہ بے چاری......"
"نہیں ہے وہ بے چاری، اب اس کو بھی یہی سمجھانا ہے کہ خوامخواہ کی خود ترسی سے نکل آئے۔"
ویٹر ہاتھ میں کارڈ پکڑے حیا کی طرف آچکا تھا۔ "تمہیں یاد ہے زارا! جب پچھلے سال یونیورسٹی والوں نے ہمیں ترکی کے ٹرپ کی آس دلائی تھی اور آخر میں آکر سارا پروگرام کینسل کر دیا تھا۔"
آرڈر کر کے شیشہ اوپر چڑھا کر وہ یاد کرنے لگی. "میں تو اتنی مایوس ہوگئی تھی، سوچا بھی نہ تھا کہ کبھی جا سکوں گی۔"
اس کی آواز میں اس جھڑنے کی خوشی در آئی تھی۔ زارا اور وہ ایل ایل بی کے پانچویں سال میں تھیں.۔ ان کا ساتویں سمسٹر کا درمیان تھا۔ جب یورپی یونین کے سالر شپ کا اعلان ہوا۔ جس کے تحت یورپیاور ایشیائی یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس کا تبادلہ ہوگا جب درخواست دینے کی باری آئی تو اس کو ترکی کی سبانجی یونیورسٹی کا فارم سب سے آسان لگا، پھر ایک ہسپانوی یونیورسٹی میں بھی ساتھ ہی apply کیا بلآخر سبانجی نے اس کا انتخاب کر لیا ساتواں سمسٹر پورا کر کے اس کو پانچ ماہ کے لئے ترکی جانا تھا۔ جہاں اس کے مضامین تو نہ تھے کہ ترکی کا قانون، پاکستان کے قانون سے مختلف تھا۔ سو پانچ ماہ کے لئے وہ اپنی مرضی سے کوئی بھی مضمون پڑھ سکتی تھی. پھر پاکستان واپس آکر آٹھواں سمسٹر شروع کرنا تھا۔
"کتنا مزہ آئے حیا، کوئی رومانٹک سا ہینڈسم سا ہم سفر تمہیں مل جائے تو تمہارا سفر کتنا خوبصورت ہو جائے۔
"ہم سفر کوئی نہیں ملنے والا، پاکستان سے ہم صرف دو لڑکیاں سبانجی جا رہی ہیں، اور پھر ہم ٹھہری وومین یونیورسٹی میں پڑھنے والیاں۔
"وہ خدیجہ رانا، جو تمہارے ساتھ جا رہی ہے۔ اس سے کوئی بات ہوئی۔" ویٹر سے شیشہ بجایا تو حیا نے شیشہ نیچے کیا۔
"نہیں! خدیجہ رانا کو تو میں جانتی بھی نہیں ہوں۔“ اس نے سلش کے گلاس پکڑے، زارا کا اس کو تھمایا ارم کا ڈیش بورڈ پر رکھا۔ بے دھیانی میں وہ شیشہ بند کرنا بھول گئی۔ اس کے علم میں نہ رہا۔ دفعتاً!
زارا کا موبائل بجا۔ زارا نے سپ لیتے ہوئے فون کان سے لگایا۔ "ہیلو اماں! جی کیا ہوا؟ آواز خراب ہے، ایک منٹ۔ زارا کے فون پر سگنل ٹھیک نہیں آرہے تھے، وہ سلش کا گلاس ہاتھ میں پکڑے باہر نکل گئی۔
حیا اپنے گلاس سے چھوٹے چھوٹے سپ لیتے ہوئے ونڈوسکرین سے باہر زارا کو دیکھنے لگی۔ اب وہ دور درخت کے پاس کھڑی بات کر رہی تھی۔
"ہیلو مائی بیوٹی!" کوئی ایک دم سے اس کے بالکل قریب آکر بولا تھا۔ وہ ڈر کر اچھلی۔ ذرا سر جوس بھی کپڑوں پر گرا۔
کھلی کھڑکی پر ایک خوبصرت عورت جھکی ہوئی تھی۔ میک اپ سے بھرا چہرہ، آئی شیڈو سے چمکتی آنکھیں، بھڑکتی ہوئی سرخی، بالوں کا جوڑا اور چم چم کرتے کپڑے۔ وہ عورت نہیں تھی مگر مرد بھی نہیں تھا۔
"ڈرو نہیں سوہنیو! میں تمہاری دوست ہوں، ڈولی کہتے ہیں مجھے۔"
"ہٹو، ہٹو جاؤ!“
وہ گھبرا گئی۔ خواجہ سرا کے وجود سے سستے پرفیوم کی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ اسے کراہیت سی آئی۔
"اچھا سوہنیو! ذرا بات تو سنو۔“
اس نے اپنا چہرہ اور جھکایا اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتا، حیا نے سلش کا بھرا گلاس اس کے منہ پر الٹ دیا۔ ٹھنڈی ٹھار برف منہ پر گری تو وہ بلبلا کر پیچھے ہوا۔ اس نے پھرتی سے شیشہ اوپر کر لیا۔
"سنو جی!“
وہ مسکرا کر چہرہ صاف کرتے ہوئے شیشہ بجانے لگا۔ بند سیشے کی وجہ سے اس کی آواز کم آرہی تھی۔ اب وہ کوئی گانا گا رہا تھا۔
کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے اگنیشن میں چابی گھمائی، اور گاڑی وہاں سے نکال لائی۔ گاڑی بیکری کے داخلی دروازے کے سامنے گاڑی روکی اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔ دور درختوں کے پاس ڈولی نامی خواجہ سرا ابھی تک وہی کھڑا تھا۔ وہ اس کے پیچھے نہیں آیا تھا۔ اب وہ گا بھی نہیں رہا تھا۔ بس خاموش گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اسے بے اختیار جھرجھری سی آئی۔
"کہاں رہ گئیں ہیں دونوں؟"
اس نے جھنجھلا کر ہارن پر ہاتھ رکھ دیا۔ پھر گردن موڑ کر دیکھا، وہ ابھی تک اسی کو دیکھ رہا تھا۔
••••••••••••••••••••••••
ارم اور زارا کو ڈراپ کر کے وہ اپنے کمرے میں آئی۔ ڈنر کا وقت ہونے والا تھا۔ اس نے کپڑے بھی ڈنر کی مناسبت سے پہنے تھے۔ مگر جوس چھلکنے کی وجہ سے ذرا داغ پڑ گیا تھا۔ اس نے جلدی سے اتنا دوپٹہ دھو کر استری کیا۔ اسے رہ رہ کر وہ خواجہ سرا یاد آرہا تھا۔ اس برادری کے لوگ اکثر آکر پیسے مانگتے تھے مگر ایسی حرکت تو کبھی کسی نے نہیں کی۔ اس خواجہ سرا کی نگاہیں اور انداز اس کو پھر سے جھرجھری آگئی۔ پھر جب وہ اپنی تیاری سے مطمئن ہوکر باہر آئی تو دروازے کے باہر پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا۔ وہ چونک گئی۔ دروازے کے ساتھ فرش پر وہ سفید ادھ کھلے گلابوں کا بکے پڑا تھا۔ ساتھ میں ایک بند لفافہ بھی تھا۔ وہ دونوں چیزیں اٹھا کر سیدھی ہوئی۔ لفافہ کھولا جس پر "حیا سلمان" لکھا ہوا تھا۔ اندر وہ ہی سفید بے سطر چوکور کاغذ تھا۔ اس کے وسط میں اردو میں لکھا تھا۔
"امید کرتا ہوں آپ کا آج کا ڈنر اچھا گزرے گا۔"
اس نے لفافہ پلٹ کر دیکھا اس پر اور کچھ نہیں لکھا تھا بس لفافے پر گزشتہ روز کی مہر لگی تھی۔ "یہ کون تھا اور کیوں اسے پھول بھیج رہا تھا؟“ وہ خط اور بکے کمرے میں رکھ کر نئے سرے معاملے سے الجھتی باہر آگئی۔
تایا فرقان کے گھر خوب چہل پہل تھی۔ سب کزنز لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ ایک طرف خواتین خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ مرد حضرات یقینناً ڈرائنگ روم میں تھے۔ اس کے خاندان میں کزنز کی بے تکلفی کو بری نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ تایا فرقان تمام بہن بھائیوں میں بہت سخت تھے اور ان کی سختی صرف ارم کے سکارف لینے اور گھر سے باہر لڑکوں سے بات کرنے تک تھی۔ ارم اور باقی کزنز بھی گھر کے کزنز کے علاوہ لڑکوں سے بات نہیں کرتی تھیں۔ حیا اور ارم تو پڑھتی بھی ویمن یونیورسٹی میں تھیں. ہاں دوسرے چچا اور خود سلمان صاحب اپنے بچوں کی شادیاں مکس گیدرنگ میں کریں گے۔ ان کا خاندان زیادہ بڑا نہیں تھا۔ وہ لوگ تین بھائی اور ایک بہن تھے۔ تایا فرقان سب سے بڑے تھے۔ داؤد، فرخ، ارم اور سمیع ان کے بچے تھے۔ فرخ میڈیکل کر چکا تھا اور آج کل پولی کلینک میں ہاؤس جاب کر رہا تھا، اور حیا سے تین سال بڑا تھا اور سمیع فرخ سے سال بھر چھوٹا تھا اور ایم بی اے کر کے جاب کر رہا تھا۔ سب سے بڑے داؤد کی شادی ہو رہی تھی۔
فرقان صاحب کے بعد سلمان تھے۔ ان کی ایک ہی بیٹی حیا اور بیٹا روحیل تھا۔ روحیل پڑھائی کے سلسلے میں امریکا میں ہوتا تھا۔ پھر زاہد چچا تھے۔ ان کی بڑی دو جڑواں بیٹیاں مہوش اور سحرش تھیں۔ پھر بیٹا رضا انجنیئر تھا۔ سب سے چھوٹی بیٹی ثناہ اے لیول کر رہی تھی۔ اس وقت روحیل کے علا وہ، جو کہ امریکا میں تھا اور داوؤد کے، جو ڈرائنگ روم میں تھا باقی سب کزن لاؤنج میں بیٹھے تھے۔
لڑکیاں کارپٹ پر دائرہ بنا کر بیٹھی تھی۔ ارم ڈھولک بجا رہی تھی۔ اس کا دوپٹہ سر سے ڈھلک کر کندھے پر آگیا تھا۔ (اگر ابھی تایا یہاں آجاتے تو وہ فوراً دوپٹہ سر پر لے لیتی) وہ مہوش، سحرش کے ساتھ سر ملا رہی تھی اور لڑکے اوپر صوفے پر بیٹھے ان پر فقرے اچھال رہے تھے۔
"ہیلو ایوری ون" وہ سینے پر ہاتھ باندھے چلتی ہوئی ان کے قریب آکر رکی۔ سب کی نظریں اس پر رکی۔ سفید چہرے کے ارد گرد کالے بال اور کاجل سے لبریز آنکھی، وہ تھی ہی اتنی حسین کہ ہر اٹھی نگاہ میں ستائش ابھر آتی۔
"حیا کیسی ہو"؟
"آؤ ان لڑکوں کو ہراتے ہیں۔"
"بیٹھو نا"
بہت سی آوازیں اس سے ٹکرائیں۔ اس نے کندھے اچکائے اور کہا۔ "پہلے میں صائمہ تائیی کی کچن میں مدد کروں گی۔ اس نے ارم کی امی کا نام لیا تھا، جنہوں نے اس کو آتا دیکھ کر فوراً کچن کا رخ کیا تھا۔ صائمہ تائی نے یقیناً اس کو نہیں دیکھا تھا۔ ورنہ فوراً بلوا لیتیں۔ ارم سے زیادہ سمجھ دار تو بقول ان کے حیا تھی۔ صائمہ تائی کے پیچھے زاہد چچا کی بیگم عابدہ چچی بھی کچن میں چلی گئیں۔ اب صوفے پر حیا کی امی فاطمہ بیگم اکیلی بیٹھیں تھیں۔
"اماں! میں زرا تائی کی مدد کروادوں۔" ان کو اپنی طرف دیکھتا پا کر اد نے کہا تو انہوں نے اطمینان سے سر ہلا دیا۔ وہ مطمئن سی آگے بڑھ گئی۔ وہ راہداری سے گزر کر کچن کے دروازے کی طرف بڑھی۔ تبھی صائمہ تائی کی تیز آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی "جیسے میں جانتی نہیں ناں، یہ سارے رنگ ڈھنگ کس لئے ہیں، ایک میرے ہی بیٹے ملی ہیں اس کو پاگل بنانے کے لئے۔"
وہ بے اختیار دو قدم پیچھے ہو کر دیوار سے جا لگی۔ یہ صائمہ تائی کس کی بات کر رہی ہیں۔"
تب ہی میں کہوں بھابھی، یہ رضا کیوں ہر وقت حیا حیا کرتا رہتا ہے۔“ یہ عابدہ چچی تھیںں۔ وہ اس کے بارے میں کہہ رہیں تھیں۔
"پچھلی دفعہ جب ہم سلمان بھائی کی طرف کھانے پر گئے تو کس طرح نک سک سی تیار پھر رہی تھی تب سے رضا میرے پیچھے پڑا ہے کہ حیا کا رشتہ مانگیں۔"
"اس لڑکی کو لڑکوں کا دل جیتنے کا فن آتا تھا۔ کتنی مشکل سے داؤد کے دل سے اس کا خیال نکالا تھا میں نے اور فرقان نے وہ تو آڑ ہی گیا تھا کہ شادی کروں گا تو حیا سے۔ مگر جب فرقان نے سختی کی کہ ایسی بے پردہ اور آزاد خیال لڑکی کو اپنی بہو بنا کر ہم نے اپنی آخرت خراب کرنی ہے؟ تب کہیں جا کر وہ مانا۔ اور اب یہ فرخ کو پتا نہیں کیا ہوگیا تھا۔ کیا کروں اس لڑکے کا، اب وہ پھر کیل کانٹوں سے لیس ہوکر آجائے گی اور اس کے جاتے ہی فرخ ضد لگا کر بیٹھ جائے گا۔ اب میری ارم بھی ہے، مجال ہی گھر سے باہر سر پر دوپٹہ لئے بغیر نکلے۔"
صائمہ تائی بہت فخر سے کہہ رہی تھیں اور وہ دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگاتے کھڑی تھی۔ اسے لگا کہ اس نے مزید کچھ سنا تو اس کے اعصاب جواب دے جائیں گے۔ بدقت اپنے وجود کو سنبھالتے وہ واپس مڑی۔
کسی بات پر ہنستے ہوئے فرخ کی نگاہ اس پر پڑی تو اس کو راہداری سے آتا دیکھ کر اس کی ہنسی رک گئی۔ وہ مسکرایا۔ بہت مناسب سی شکل و صورت کا تھا فرخ اور ٹف روٹین کی وجہ سے اس کا رنگ مزید سانولا ہوگیا تھا۔ مگر مسئلہ اس کی واجبی صورت اور حیا کی بے پردگی کا نہیں تھا۔ اصل بات سب جانتے تھے تو پھر رضا اور فرخ نے ایسا سوچا بھی کیسے؟ وہ ایک سپاٹ نگاہ فرخ پر ڈال کر صوفے پر فاطمہ بیگم کے ساتھ آبیٹھی۔
تمہیں کیا ہوا؟"
" کچھ نہیں اماں" وہ بدقت خود کو نارمل کر پائی۔ وہ مطمئن ہوگئیں۔ تو وہ صائمہ تائی کے بارے میں سوچنے لگیں۔ جن کا "حیا میری جان" کہتے منہ نہ تھکتا تھا اور فرقان تایا کی تو وہ بڑی بیٹی تھی۔ مگر ان کے دل میں ایسے خیالات تھے یہ وہ گمان بھی نہیں کر سکتی تھی۔
اور وہ پھول! وہ بھی فرخ یا رضا نے بھیجے تھے؟؟ مگر جب پہلی بار اس کو پھول آئے تھے، تو فرخ شہر سے باہر تھا اور رضا تو اسلام آباد میں ہی تھا۔ مگر ان میں سے کسی کو اس کی سبانجی سلیکشن کا پتا نہیں تھا۔ شاید جب وہ زارا کو فون پر بتا رہی تھی تب کھڑکی کے باہر کچھ کھڑکا تھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا اس نے کھڑکی کے باہر سے ساری بات سن لی تھی اور اس نے پھولوں کی ساتھ خط لکھ کر رکھ دیا ہوگا مگر کوریئر پر تو ایک دن پہلے کی مہر لگی ہوئی تھی۔ شاید اس نے کوئی جعلی مہر استعمال کی ہوگی۔ مگر اس طرح کے جھمیلوں میں فرخ اور رضا جیسے جاب والے مصروف بندے کیوں پڑیں گے بھلا؟ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ پھول بھیجنے والا کوئی اور ہی ہے۔ خیر دفعہ کرو، جو بھی ہو۔ ان دونوں کا دماغ تو میں ابھی ٹھیک کرتی ہوں۔ وہ تیزی سے اٹھ کر لڑکے لڑکیوں کے گروپ کی طرف چلی آئی۔
"ارم!“
اس نے اپنے مخصوص انداز میں سینے پر ہاتھ باندھے ہوئے ارم کو مخاطب کیا۔ تو سب رک کو اس کو دیکھنے لگی۔
"کیا؟“
"تم لوگوں نے سبین پھوپھو کو شادی کا کارڈ بھیجا تھا ترکی؟“
کنکھیؤں سے اس نے فرخ اور رضا کے چہروں کو ماند پڑتا دیکھا۔
"سلمان چچا کو کارڈ دیا تھا انہوں نے بھجوا دیا ہوگا اور سبین پھوپھو کو ابو نے فون کر کے کہہ دیا تھا۔ کیا سبین پھوپھو آئیں گی؟"
"آنا تو چاہیے، قریبی رشتہ ہے تم سے نہ سہی، ہم سے تو ہے۔"
اس نے قریبی رشتے پر زور ڈالتے ہوئے فرخ اور رضا پر ایک نظر ڈالی۔ ان کے چہرے پھیکے پڑے تھے اور دونوں ہی سوچ میں گم تھے۔ پھر کھانے کے وقت صائمہ تائی نے سب سے پہلے اس کو بلایا۔
"حیا! میری جان! تم تو سمجھدار ہو، یہ ارم تو بس، تم نے ٹیبل پر خیال رکھنا ہے۔ جیسے ہی کوئی ڈش خالی ہو یا آدھی ہوجائے تو فوراً ظفر (کک) کو آواز دے دینا۔ "ٹھیک؟“
"شیور! تائی میں خیال رکھوں گی۔"
وہ بدقت مسکراتی ہوئی سرو کرنے لگی۔ چند منٹ بعد سب کھڑے اپنی اپنی پلیٹوں میں کھانا نکال رہے تھے۔ ”
تایا جان آپ نے سلاد نہیں لیا؟“
وہ رشین سلاد کا پیالہ ہاتھ میں لئے ابو اور تایا فرقان کی طرف آئی، جو اپنے دھن میں باتیں کر رہے تھے، اس کے پکارنے پر چونکے۔
"تھینک یو بیٹا!"
تایا فرقان نے مسکراتے ہوئے سلاد اپنی پلیٹ میں نکالا۔ وہ شلوار کرتے میں ملبوس تھے اور شال لی تھی، بارعب چہرے پر مونچھیں۔ سلمان صاحب ان کے برعکس کلین شیو، ڈنر سوٹ میں بہت سمارٹ لگ رہے تھے۔ دونوں کی سوچیں ان کے حلیوں جیسی تھی۔
”ابا آپ بھی لیں ناں۔"
"سلمان تم نے سبین کو کارڈ پوسٹ کر دیا تھا؟"
تایا کو اچانک شاید اس کی شکل دیکھ کر یاد آیا تھا۔ سلمان صاحب کا چمچے سے سلاد بھرتا ہاتھ ذرا سست پڑا اور چہرے پر کڑواہٹ پھیل گئی۔ بہت آہستہ آہستہ انہوں نے چمچہ پلیٹ میں پلٹا۔
"کر دیا تھا۔"
ان کے لہجے میں کاٹ تھی جو حیا کے لئے نئی تھی۔ "ابا! سبین پھپھو شادی پر آئیں گی؟"
وہ پوچھے بنا رہ نہ سکی۔
"کل مہندی ہے۔ آنا ہوتا تو آج آچکی ہوتی۔ تیس سالوں میں جو عورت صرف کچھ دفعہ ملنے آئی ہو، وہ اب بھی نہ آئے تو بہتر ہے۔“
فرقان تایا بھی دنگ رہ گئے۔
"سلمان! کیا ہوا ہے؟
”تھینک یو بیٹا!“
سلمان صاحب نے حیا کو کہا۔ اس کا مطلب تھا کہ اب تم یہاں سے جاؤ۔ اور وہ اشارہ سمجھ کر سر جھکاتے وہاں سے آگئی۔ بہت آہستہ سے سلاد کا پیالہ میز پر رکھا اور اپنی آدھی بھری پلیٹ اٹھا لی مگر اب کچھ کھانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ "یہ ابا کو کیا ہوگیا تھا وہ پھوپھو کے بارے میں ایسی باتیں کیوں کر رہے تھے۔؟ پھر اس سے رہا نہیں گیا وہ اپنی پلیٹ اٹھا کر ستون کے ساتھ کھڑی ہوگئی، جس کی دوسری طرف ابا اور تایا کھڑے تھے۔ بظاھر اپنی پلیٹ پر نظر جھکاتے کان ان دونوں کی باتوں کی طرف تھے۔
”حیا کے لئے لغاری نے اپنے بیٹے کا پرپوزل دیا ہے۔“ سلمان صاحب نے اپنے دوست کا نام لیا تو حیا کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پلیٹ لرز گئی۔
یہ کیا کہہ رہے ہو؟“ فرقان تایا ششدر رہ گئے۔
"بھائی! اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ ولید اچھا لڑکا ہے۔ کل مہندی پر آئے گا تو ملواؤں گا۔ سوچ رہا ہوں حیا سے پوچھ کر ہاں کر دوں۔"
"مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر سلمان یہ کیسے ہو سکتا ہے؟“
"کیوں نہیں ہو سکتا بھئی؟"
"تم یہ شادی کیسے کر سکتے ہو؟"
"باپ ہوں اس کا، کر سکتا ہوں، فاطمہ بھی راضی ہے اور مجھے یقین ہے، حیا کو کوئی اعترض نہیں ہوگا۔"
"اور جہاں! جہاں کا کیا ہوگا؟“
"کون جہاں؟" سلمان صاحب یکسر انجان بن گئے۔ "تمہارا بھانجا! سبین کا بیٹا، جس سے تم نے حیاکا نکاح کیا تھا۔ تم کیسے بھول گئے ہو۔"
”وہ اکیس سال پرانی بات ہے اور حیا اب بائیس سال کی ہوگئی ہے۔ بیوقوفی کی تھی میں نے، سبین پر اعتبار کر کے اپنی بچی کا نکاح کر دیا۔ اکیس برسوں میں کبھی سبین نے مڑ کر پوچھا کہ نکاح کا کیا ہوگا؟ چھ ماہ میں ایک بار فون کر لیتی ہے اور تین منٹ بات کر کے رکھ دیتی ہے۔ اور آپ کو واقع لگتا ہے کہ وہ لوگ رشتہ قائم رکھنا چاہتے ہیں؟“
"مگر سبین تو سکندر کی وجہ سے، تم تو جانتے ہو الٹے دماغ کا انسان ہے۔"
”میں کیسے مان لوں کہ اپنے مغرور اور بددماغ شوہر کی وجہ سے نکاح کو بھول گئی۔ اتنے برس بیت گئے، اس نے ایک بار بھی اس شادی کی بات منہ سے نہیں نکالی۔ میں اس سے کیا امید رکھوں؟“
"مگر جہاں تو اچھا لڑکا ہے۔ تم اس سے ملے تو تھے جب پچھلے سال تم استنبول گئے تھے۔“
"جی! جہاں سکندر! اچھا لڑکا ہے۔ مائی فٹ۔" انھوں نے بہت تلخ ہوکر کہا۔ "اس کے تو مزاج ہی نہیں ملتے، ترکی میں پیدا ہوا ہے، نہ اس کو اردو آتی ہے، نہ پنجابی اور کبھی اس نے ماموں کا حال پوچھا ہے؟ کبھی فون کیا ہے بھائی؟ میں یہ سب بھول جاتا مگر پچلے سال میں ترکی گیا، تو یقین کریں بھائی میں اٹھارہ دن وہاں رہا۔ روز سبین کے گھر جاتا تھا، سکندر تو خیر الگ بات ہے، مگر جہاں آخری روز مجھے ملا وہ بھی پندرہ منٹ کے لئے بس۔ وہ بھی جب اس کی ماں نے میرا نام بتایا تو کافی دیر سوچنے کے بعد اس کو یاد آیا کہ میں اس کا دور پرے کا ماموں لگتا ہوں وہ مجھ سے ملا اور وہ بھی پندرہ منٹ کے لیےبس۔ اور پوچھنے لگا کیا پاکستان میں روز بم دھماکےہوتے ہیں؟ اور کیا وہاں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے؟
پھر اس کا فون آیا اور وہ اٹھ کھڑا ہوا اور چلا گیا۔ میں کبھی حیا کے لیےکورٹ سے خلع لینے کا نہ سوچتا اگر میں اس روز ایک ترک لڑکی کو جہان کے ساتھ اس کے گھر ڈراپ کرتے نہ دیکھتا۔ جب میں فلائٹ پکڑنے سے قبل سبین کو خدا خافظ کہنے گیا تھا۔ اس لڑکی کے ساتھ اس کی بے تکلفی ۔۔۔۔ الامان ۔۔۔ وہ سکندر شاہ کا بیٹا ہے اور وہ اپنے باپ کا ہی پرتو ہے۔ میں سمجھتا تھاکہ اگر احمدشاہ جیسے عظیم انسان کا بیٹا ہو کر سکندر ان کے برعکس نکلا تو ویسے ہی جہان بھی اپنے باپ کے برعکس نکلے گا۔اور ایک اچھا انسان ہو گا اور وہ اسی مغرور آدمی کا بیٹا ہے۔ حیا کون ہے؟ اس کا ان سے کیا تعلق ہے؟ یہ بات نہ جہان کو یاد ہے نہ سبین کو۔
سبین تو اب یہ زکر ہی نہیں کرتی۔ اب میں اپنی بیٹی کو زبردستی ان کے گھر بھیج دوں کیا؟ خیر! کل ولید سے ملواؤں گا آپ کو۔ اب جو رشتہ بھی اچھا لگا میں حیا کی ادھر شادی کردوں گا۔
حیا میں اب مزید سننے کی تاب نہ تھی۔ وہ سفید چہرہ لیے بوجھل قدموں سے چلتی ان سے دورہٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہان سکندرکو اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا بس بچپن سے اس نے اپنے اور اس کے رشتے سے متعلق سنا تھا۔ وہ سال بھر کی تھی، جب سبین پھوپھو پاکستان آئیں اور فرط جزبات میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے کے لیے اس کا رشتہ مانگ لیا۔ جزباتی سی کاروائیُ ہوئی اور دونوں بہن بھائیُ نے بچوں کا نکاح کر دیا۔تب آٹھ سالہ جہان ان کے ساتھ تھا۔ پھر وہ ترکی چلا گیا۔ اکیس سال گزر گیُے۔ وہ ترکی میں ہی رہا۔ کبھی پاکستان نہیں آیا اور اس وزٹ کے بعد سبین پھوپھو بھی نہیں آئیُں۔ نہ کبھی انھوں نے کوئی تصویر بھیجی، نہ خط لکھا۔ اگر کبھی کوئی ترکی چلا جاتا تو ان سے رابطہ کر لیتا۔ رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔انٹرنیٹ وہ استعمال نہیں کرتی تھیں۔ اگر کرتا تھا جہان سکندر بھی تواس کا کوئی ای میل فیس بک ٹویٹرکسی کے پاس کچھ نہیں تھا۔ارم وغیرہ اسے فیس بک پر سرچ کرتے کرتے تھک گیے تھے۔مگر ترکی کا کوئی جہان سکندر ان کو نہیں ملتا تھا۔شروع کے چند دن پھوپھو بہت فون کرتی تھیں۔پھر آہستہ آہستہ یہ رابطے زندگی کی مصروفیات میں کھوگیے ۔تین ماہ میں ایک فون ان کا آجاتا تین ماہ میں ایک فون ادھر سے چلا جاتا۔یوں چھ ماہ میں دو دفعہ سہی بات ہو جاتی رسمی علیک سلیک موسم کا حال احوال سیاست پر بات اور الّٰلہ خافظ۔
ان تمام باتوں کے باوجود وہ خود کو ذہنی طور پر جہان سے وابستہ کر چکی تھی۔ نکاح کے وقت کی تصاویر آج بھی اس کے پاس محفوظ تھیں۔ آٹھ سالہ بھورے بالوں اورسنہری رنگت والاخوبصورت لڑکا۔۔ جس کو اس نے کبھی اپنے روبرو نہیں دیکھا تھا۔ اور شاید ترکی جانے کی ساری خوشی کی وجہ بھی یہی تھی۔ جس پر ابا نے پانی پھیر دیا تھا۔ اس روز اسے رہ رہ کر جہان پر غصہ آرہا تھا۔ جس کی بے رخی کے باعث اب یہ رشتہ ایک سوالیہ نشان بن گیا۔
مگر خیر داور بھائی کی شادی ہوجاےُ اور سمسٹر ختم ہوجائیں، تو وہ ترکی جاےُ گی اور ان کو ضرور ڈھونڈھے گی۔
••••••••••••••••••••••••••••
”حیا! حیا! کدھر ہو؟“
وہ لابی میں آویزاں آئینے کے سامنے کھڑی ماتھے پر ٹیکا درست کر رہی تھی۔ جب فاطمہ بیگم اسے پکارتی آئیں۔ ہر طرف گہما گہمی تھی۔ ایک ناقابل فہم شور سا مچا تھا۔ مہندی کافنگشن شروع ہو چکا تھا۔ سب باہر جانے کی جلدی مچاےُ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور وہ ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔
”کیا ہوا اماں؟“
وہ ٹیکے کے ساتھ الجھی ہوئی تھی، جو ماتھے پر سیٹ ہو کر نہیں دے رہا تھا۔ سونے کا گول سکے کی شکل کا ٹیکاجس کے نیچے ایک سرخ روبی لٹک رہا تھا۔ بار بار ادھر ادھر جھول جاتا۔ ٹیکے کو ٹھیک کرتے ہوے ُمسلسل اس کی چوڑیاں کھنک رہی تھیں۔
”جلدی آو!ُ تمھارے ابا بلا رہے ہیں، کسی سے ملوانا ہےتمھیں۔“
ان کی آواز میں خوشی کی رمق تھی ،وہ چونک کر ان کو دیکھنے لگی۔ نفیس سی سلک کی ساڑھی اور ڈائمنڈز پہنے وہ خاصی باوقار اور خوش لگ رہی تھیں۔ اس کی انگلیوں نے ٹیکا چھوڑ دیا۔ دل زور سے دھڑکا۔ کیا پھوپھو آگئیں تھیں اور ان کا مغرور بیٹا بھی؟؟؟؟؟؟
”کدھر ہیں ابا؟“
وہ دھک دھک کرتے دل کے ساتھ ان کے پیچھے باہر نکلی۔ گیٹ کے قریب سلیمان کھڑے دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک خوبرو سا لڑکا کھڑا تھا۔ جس کے شانے پر ہاتھ رکھے وہ بات کر رہے تھے۔ سامنے خاصے باوقارسے سوٹ میں ملبوس ایک صاحب اور ایک ڈیسنٹ سی خاتون تھیں۔ وہ دونوں پہلوؤں سے لہنگا سنبھالتی ان کے قریب آئی۔
”یہ حیا ہے، میری بیٹی!“ سلیمان صاحب نے مسکرا کر اسے شانوں سے تھاما۔
”السلام علیکم!“ اس نے سر کو جنبش دیتے ہوے ُمدہم آواز میں سلام کیا۔
”وعلیکم السلام بیٹا!“ وہ تینوں دلچسپی سے اسے دیکھنے لگے۔
اس نے ڈل گولڈن کلر کا لہنگا پہنا تھا۔ کامدار بلاؤز کی آدھی سے بھی چھوٹی آستین اور ان سے نکلتے اس کے دودھیا بازو، سنہرے موتیوں کی شعاعوں میں سنہرے دکھ رہے تھے۔ بھاری کامدار دوپٹہ اس نے گردن میں ڈال رکھا تھا۔ بال ہمیشہ کی طرح کھلے کمر پر گرے تھے۔ ٹیکے کے ساتھ کے سنہرے جھمکے کانوں سے لٹک رہے تھے اور ملائی سے بنا چہرہ ہلکے میک سے دلکش لگ ریا تھا۔ اس نے کاجل سے لبریز پلکیں اٹھائیں۔ وہ تینوں اسے ستائش سے دیکھ رہے تھے۔
”اور حیا! یہ میرے دوست ہیں عمیر لغاری، یہ مہناز بھابھی ہیں اور یہ ان کے صاحبزادے ہیں ولید۔“
اس کے دل پر بوجھ سا آگرا۔ آنکھوں میں بے اختییار نمکین پانی بھر آیا۔ جسے اس نےاندر اتار لیا۔
”نائس ٹو میٹ یو، وہ۔۔۔ وہ مہمان آنے لگے ہیں، میں پھول کی پتییاں ادھر رکھ آئی تھی۔ سب مجھے ڈھونڈھ رہے ہوں گے، تو میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
”ہاں، ہاں تم جاوُ! انجوائے کرو۔“
سلیمان صاحب نے آہستگی سے اس کے شانوں سے ہاتھ ہٹالیئے۔
وہ معذرت خواہانہ مسکراتی ہوئی گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ باہر آ کر اس نے بے اختیار آنکھوں کے بھیگے ٗگوشے صاف کیے اور ایک نظر ان کو پلٹ کر دیکھا، پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔
ان کے گھر کے ساتھ خالی پلاٹ میں شامیانے لگا کر مہندی کا فنکشن ارینج کیا گیا تھا۔ مہندیاں دونوں گھروں کی الگ الگ تھیں۔
گیندے کے پھولوں اور موتیے کی لڑیوں سے ہر کونا سجا تھا۔ تقریب سیگریگیٹڈ تھی۔ مرد الگ، عورتیں الگ۔ ہاں عورتوں کی طرف خاندان کے مردوں کا آنا جانا لگا تھا۔ مریم بھی سلور کامدار لہنگے میں ادھر ادھر گھوم رہی تھی۔ وہاں ڈی جے، مووی والے اور ریفریشمنٹ سرو کرتے باہر کے مرد تھے۔ مگر آج تو شادی کا ایک فنکشن تھا، پھر سر ڈھکنے کی پابندی کیسے ہوتی؟ شادیوں پہ تو خیر ہوتی ہے نا۔
”حیا! ڈانس شروع کریں؟” ارم اپنا لہنگا سنبھالتی ہوئی اس کے پاس آئی۔
”ہاں! ٹھیک ہے، تم گانا لگواؤ اور٠٠٠٠٠٠٠٠ یہ کون ہے؟“ سامنے والی کرسیوں کی قطار کے ساتھ کھڑی ایک لڑکی کرسی پہ بیٹھی خاتوں سے جھک کر مل رہی تھی۔ اس نے سیاہ عبایا اور اوپر اسٹول لے رکھی تھی۔ عجیب بات تھی کہ اس لڑکی نے انگلیوں سے نقاب تھام رکھا تھا۔
”کون”؟ ارم نے پلٹ کردیکھا، پھر گہری سانس لے کر مڑی ۔ ”یہ ایلین ہیں”۔
”کون؟” حیا نے حیرت سے کہا۔
”ایلین، ارے شہلا بھابھی ہیں یہ۔ پوری دنیا سے الگ ان کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہوتی ہے۔ بس توجہ کھینچنے کے لیے فنکشنز پر بھی عبایا، نقاب میں ملتی ہیں۔ اب پوچھو، بھلا عورتوں کے فنکشن میں کس سے پردہ کر رہی ہیں؟”
”ہاں، واقعی، عجیب ہیں یہ بھی!” اس نے شانے اچکائے۔ وہ ان کے ایک سیکنڈ کزن کی وائف تھیں اور سال بھر پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔
ڈی جے نےگانا سیٹ کر دیا۔
انہوں نے مووی والے کو ڈانس کی مووی بنانے سے منع کر دیا اور پھر اپنا مہارت سے تیار کردہ رقص شروع کیا۔ ایک سنہری پری لگ رہی تھی تو دوسری چاندی کی۔ جب پاؤں دکھ گئے اور خوب تالیاں بجیں تو وہ ہنستے ہوئے کرسیوں کی طرف آئیں۔
"السلام علیکم شہلابھابھی!" وہ لڑکی بھی اسی میز پر موجود تھی۔ ارم نے فوراً سلام کیا، حیا نے بھی پیروی کی۔
”وعلیکم السلام! کیسی ہو تم دونوں؟“ وہ مسکرا کر خوش دلی سے ملی۔ ایک ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس نے ابھی تک سیاہ نقاب تھام رکھا تھا۔
بالکل ٹھیک، شہلا بھابھی! نقاب اتار دیں، ادھر کون ہے؟“
شہلا نے جواباً مسکرا کر سر ہلایا، مگر نقاب اسی طرح پکڑے رکھا۔
”ماشاءاللہ تم دونوں بہت پیاری لگ رہی ہو“۔
وہ بات کرتے کرتے ذرا سی ترچھی ہوگئ۔ حیا نے حیرت سےدیکھا۔ شاید اس طرف مووی والا فلم بنا رہا تھا، اسی لیے۔
عجیب عورت ہے، اتنی بھی کیا بے اعتباری، ہماری فیملی مووی ہے، ہم کون سا باہر کسی کو دکھائیں گے۔حیا بڑبڑائی۔
پھر وہ جلد ہی وہاں سے اٹھ گئ۔ اماں جانے کدھر تھیں۔ کس سے پوچھے سبین پھوپھو آئی ہیں یا نہیں۔ وہ کافی دیر اسی شش و پنچ میں مبتلا رہی، پھر گھر چلی آئی اور ٹی وی لاؤنج میں فون کے ساتھ رکھی ڈائری اٹھائی۔ تھکن کی وجہ سے دھم سے صوفے پر گری۔ اور سبین پھوپھو کا نمبر تلاش کرنے لگی۔ اس نے کبھی ان کو یوں فون نہیں کیا تھا، مگر آج دل کے ہاتھوں ہار گئی تھی۔ ترکی کا وہ نمبر مل ہی گیا۔ اس نے ریسیور اٹھایا اور نمبر ڈائل کیا۔ گھنٹی جانے لگی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ پانچویں گھنٹی پر فون اٹھا لیا گیا۔
”ہیلو“۔
بھاری مردانہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔ ”اسلام علیکم“۔ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔
جواباً وہ کسی انجان زبان میں کچھ بولا۔
”میں پاکستان سے بات کر رہی ہوں۔“ گڑبڑا کر انگریزی میں بتانے لگی۔
”پاکستان سے کون؟“ اب کے وہ انگریزی میں پوچھ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔
”میں سبین سکندر کی بھتیجی ہوں۔ پلیز ان کو فون دے دیں۔“
”وہ تو جواہر گئی ہیں، کوئی میسج ہے تو بتا دیں۔“ وہ مصروف سے انداز میں کہہ رہا تھا۔ اب یہ جواہر کیا تھا، اسے کچھ اندازہ نہ تھا۔
”وہ۔۔۔۔۔ وہ سبین پھوپھو نے پاکستان نہیں آنا کیا، داور بھائی کی شادی پر؟“
”نہیں وہ بزی ہیں۔“ شاید وہ فون رکھنے ہی لگا تھا کہ وہ کہہ اٹھی۔
”آپ۔۔۔۔۔۔ آپ کون؟“
”ان کا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ جہان!“ کھٹ سے فون رکھ دیا گیا۔
اس نے بھیگی آنکھوں سے ریسیور کو دیکھا اور پھر زور سے کریڈل پہ پٹخا۔ آنسو صاف کیے اور اٹھ کر باہر آئی تو گیٹ کی طرف سے ظفر چلا آ رہاتھا۔ اس کے ہاتھ میں سفید ادھ کھلے گلابوں کا بکے تھا۔
وہ بے اختیار ٹھٹک کر رکی، پھر لہنگا سنبھالتی، زینے اتر آئی۔
”یہ کیا ہے ظفر؟“
”اوہ تسی اتھے ہو؟ یہ کوریئر والے نے دیا ہے تہاڈے لیے۔“ ظفر نے گلدستہ اور ایک بند لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ پچھلے سات سال سے تایا فرقان کا ملازم تھا۔
”ٹھیک ہیے تم جاؤ۔ اس نے بوکے کو بازو اور سینے کے درمیان پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے بند لفافہ کھولنے لگی۔
حسب معمول اس میں سفید سادہ کاغذ تھا، جس کے بالکل درمیان میں اردو میں ایک سطر لکھی تھی۔
”اس لڑکی کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کبھی کسی ان چاہے رشتے کے بننے کے خوف سے روتی ہے، تو کبھی کسی بن چکے ان چاہے رشتے کے ٹوٹنے کے خوف سے“۔
وہ سن رہ گئی۔ پھر گبھرا کر ادھر ادھر دیکھا۔
گیٹ کھلا تھا۔ مہندی والی جگہ سے بہت سے لوگ آ جا رہے تھے۔ ایسے میں کیا کوئی ادھر تھا جو بغور مشاہدہ کر رہا تھا؟
اس نے لفافے کو پلٹا۔ کوریئر کی مہر ایک روز قبل کی تھی۔
ابھی دس منٹ قبل وہ جہان کے ساتھ پہلی دفعہ بات کرکے روئی تھی۔
بن چکا ان چاہا رشتہ۔
اور گھنٹہ بھر پہلے ولید اور اس کے والدین سے ملی تھی۔
ان چاہے رشتے کے بننے کے خوف۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کون تھا جو اتنا باخبر تھا؟ ایک دن قبل ہی اسے کیسے علم ہوا کہ وہ آج دو دفعہ روئے گی؟
وہ خوف زدہ سی کھڑی بار بار وہ تحریر پڑھے جارہی تھی۔