
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر دو
ابا نکل تو نہیں گئے؟“
وہ پرفیوم کی بوتل بند کرتی، مخصوص ہارن اور گیٹ کھولنے کی آواز پر موبائل اور پرس اٹھا کر باہر کو بھاگی۔ مقررہ وقت ہونے کو تھا، آج داور بھائی کی بارات تھی۔
پورچ خالی تھا۔ تایا فرقان کے پورشن سے البتہ آواز آ رہی تھی۔ اب کیا کرے؟ ابا کو فون کرے یا تایا فرقان کے گھر جا کر کسی سے لفٹ مانگے؟
وہ سوچ ہی رہی تھی کہ گیٹ پر ہارن ہوا۔ اس نے رک کر دیکھا۔
سیاہ چمکتی اکارڈ باہر کھڑی تھی۔ اس کی ہیڈلائٹس خاصی تیز تھی۔ اس نے بےاختیار ماتھے پہ ہاتھ کا سایہ بنا کر دیکھنا چاہا۔
وہ ولید لغاری تھا۔ ساتھ فرنٹ سیٹ پر اس کے والد تھے اور پیچھے والدہ۔
”السلام علیکم حیا!“ وہ درواز کھول کر باہر نکلا۔
وہ دھیمی ہوتی ہیڈلائٹس میں ان کے سامنے کھڑی تھی۔ گہرے سرخ کامدار بغیر آستینوں والا فراک جو پاؤں تک آتا تھا اور نیچے ہم رنگ تنگ پاجامہ۔ گولڈن ڈوپٹہ گردن میں تھا۔
”ہمیں میرج ہال کا علم نہیں ہے، انکل ہیں؟“
وہ اسے نظرانداز کرتی لغاری صاحب کے دروازے کے پاس رکی۔
”انکل! پیراڈائز ہال جانا ہے اور ابا شاید نکل گئے۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا۔“
”اوہ۔۔۔۔۔ تو آپ کے چچا وغیرہ؟“
”وہ تو ابا سے بھی پہلے چلے گئے تھے۔ ٹھہریں! ابا زیادہ دور نہیں گئے ہو گے، میں انہیں واپس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
”ارے وہ کیوں واپس آئیں؟ آپ ہمارے ساتھ آ جاؤ بیٹا! “
”ہاں بیٹا، آؤ!“ مسز مہناز لغاری نے فوراً دروازہ کھولا۔
اب اگر ابا کا انتظار کرتی تو آدھا فنکشن نکل جاتا۔
”چلیں ٹھیک ہے۔“ وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔
”تو ہماری بیٹی کیا کرتی ہے؟“ راستے میں لغاری صاحب نے پوچھا۔
(میں ان کی بیٹی کب سے ہو گئی?)
”جی میں شریعہ اینڈ لاء میں ایل ایل بی آنرز کر رہی ہوں۔“
”یعنی کہ آپ اسلامی وکیل ہو؟“
”جی!“ وہ پھیکا سا مسکرائی۔ یہ لوگ اتنی اپنائیت کیوں دے رہے تھے اسے؟
”حیا بیٹا! آپ کا شادی کے بعد پریکٹس کا ارادہ ہے؟“ کیونکہ میں اور آپ کے انکل تو کبھی اس معاملے میں زبردتی کے قائل نہیں ہیں۔ خود ولید کو بھی شادی کے بعد بیوی کے جاب کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔“
مہناز کہہ رہی تھیں اور وہ ہکا بکا ان کو دیکھ رہی تھی۔ کیا معاملات اتنے آگے بڑھ چکے ہیں یا وہ اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ ابا ان کو کبھی انکار نہیں کرے گے۔
وہ اس وقت پر سکون ہوئی جب میرج ہال کی بتیاں نظر آنے لگیں۔
”لفٹ کا شکریہ انکل۔“ وہ انکل اور آنٹی کے ساتھ ہی باہر نکلی تھی۔ اسی پل انکل کا موبائل بجا تو معذرت کر کے ایک طرف چلے گئے، منہاز بی ان کے پیچھے گئیں۔
”حیا سنئیے!“ وہ جانے لگی تھی کہ ولید نے پکارا۔ ”مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔“
”مگر یہ مناسب نہیں ہے“۔
”مگر مجھے اسی رشتے کے متعلق بات کرنی ہے۔ اگر آپ دو منٹ اندر بیٹھ کر بات سن لے تو۔“ ساتھ ہی اس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا۔
روشنی کا ایک کوندا اس کے ذہن میں لپکا۔ موقع اچھا تھا۔ وہ اس کو اپنے نکاح کے بارےمیں بتا کر سارا معاملہ یہی دبا سکتی تھی۔
”ٹھیک ہے، لیکن یہاں ہمارے رشتہ دار ہیں اگر۔۔۔۔۔۔۔۔“
”ڈونٹ وری، میں کار کو بیک سائڈ پر لے جاؤں گا، آپ بیٹھئے۔“
وہ بیٹھی تو ولید زن سے گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔
”آپ کو جو بھی کہنا ہے، جلدی کہیے، پھر مجھے بھی کچھ کہنا ہے۔“
پہلے آپ کہیے۔ولید میرج ہال کی پچھلی طرف سنسان گلی میں گاڑی لے آیا تھا۔
اوکے۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ بتانا تھا۔ میرے ابا نے معلوم نہیں آپ کو بتایا ہے یا نہیں مگر میں بتانا ضروری سمجھتی ہوں۔ میرا نکاح میری پھوپھی کے بیٹے سے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ وہ لوگ ترکی میں ہوتے ہیں۔ کچھ خاندانی مسائل کی وجہ سے میرے ابا ان سے تھوڑا بدظن ہے۔ اور مجھے ڈائیورس دلا کر میری شادی کہیں اور کرانا چاہتے ہیں۔ مگر میں ایسا نہیں چاہتی۔
پلیز آپ انکار کر دے میں کسی اور کی بیوی ہوں۔ نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا۔ پلیز میں آپ سے درخواست کرتی ہوں۔
اس نے چہرہ اوپر اٹھایا۔ وہ یک ٹک گہری خاموش گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ یہ اس کا چہرہ تو نہ تھا، جو وہ سارا راستہ ڈرائیونگ کے دوران دیکھتی آئی تھی۔ یہ تو کوئی اور ہی شخص تھا۔
پھر۔۔۔۔۔۔ پھر آپ نے کیا سوچا؟ اس کی آواز لڑکھڑا گئی۔ خطرے کا الارم زور زور سے اس کے اندر بجنے لگا۔
کس بارے میں؟ وہ بوجھل آواز میں بولا تو وہ دروازے کی طرف سمٹی۔ اس کا ہاتھ ہینڈل پر رینگ گیا۔
آپ کے اس رشتے سے انکار کے بارے میں۔
ساری عمر پڑی ہے یہ باتیں کرنے کے لیے حیا! ابھی تو ان لمحوں کا فائدہ اٹھاؤ جو میسر ہے۔ وہ ایک دم اس پر جھکا۔ حیا کے لبوں سے چیخ نکلی۔ ولید نے دونوں ہاتھ اس کی گردن پر رکھنے چاہیے۔ مگر اس نے زور سے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا اور دوسرے ہاتھ سے ولید کو دھکادے کر باہر نکلی۔ اس کا ڈوپٹہ ولید کے ہاتھ میں آ گیا تھا۔ وہ بنا پیچھے مڑ کردیکھے بھاگی جا رہی تھی۔
گلیاں سنسان تھی۔ جانے وہ کہاں لے آیا تھا۔ آج اتوار تھا اور دکانوں کے شٹر گرے ہوئے تھے۔
وہ بھاگتے ہوئے گلی کے دوسرے سرے پر پہنچی، مگر یہ کیا؟ گلی آگے سے بند تھی۔ ڈیڈ اینڈ۔۔۔۔۔
کیوں بھاگتی ہو ؟ مسرور سے انداز میں پیچھے سے کسی نے کہا تو وہ گبھرا کر پلٹی۔ ولید سامنے سے قدم قدم چلتا آ رہا تھا۔ اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ وہ نڈھال سی دیوار سے لگ گئی۔ اس کا ڈوپٹہ تو وہی رہ گیا تھا۔ اب بغیر آستینوں کے جھلکتے بازو اور گلے کا گہرا کاٹ۔ اس نے بے اختیار سینے پر بازو لپیٹے۔
”مجھے جانے دو!“ اس کی آواز گھبرا گئی۔
کیسے جانے دوں، پھر تم نے ہاتھ تھوڑے ہی آنا ہے؟ وہ چلتے چلتے اس سے چند قدم کے فاصلے پر آ کر کھڑا ہو گیا۔
”پلیز میں ایسی لڑکی نہیں ہوں“
”تو کیسی لڑکی ہو؟“ مجھ سے لفٹ لے لی مگر شادی سے انکار ہے؟ تب ہی گاڑی میں اتنی بے رخی دکھا رہی تھیں؟ وہ اس کے بالکل سامنے آ رکا۔
پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اب ولید کو دھکا دیتی۔
شش!
وہ مسکراتے ہوئےآگےبڑھا۔ حیا نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔
تب ہی اس نے زور سے کسی ضرب لگنے کی آواز سنی اور پھر ولید کی کراہ۔ اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔
ولید چکرا کر نیچے گر رہا تھا اور اس کے پیچھے کوئی کھڑا نظر آ رہا تھا۔
شوخ نارنجی شلوار قمیض میں ملبوس، میک اپ سے اٹا چہرہ لیے، وہی اس روز والا خواجہ سرا ڈولی۔ اس کے ہاتھ میں ایک فرائنگ پین تھا جو اس نے شاید ولید کے سر پر مارا تھا۔ وہ ساکت کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی۔
وہ دو قدم آگے بڑھا اور عین حیا کے سامنے رکا۔ اس کی آنکھوں میں ایسی کاٹ تھی کہ وہ سانس روکے اسے دیکھے گئی۔
تب ہی اس نے ہاتھ بڑھایا اور حیا کو گردن کے پیچھے سے دبوچا لیکن اس کے منہ سے کراہ تک نہ نکلی۔
اس کی گردن کو یونہی پیچھے سے دبوچے ڈولی نےایک جھٹکے سے اسے آگے دھکیلا۔
گلی کے آغاز تک جہاں سے وہ آئی تھی، وہ اسے لے گیا، پھر مخالف سمت مڑ گیا۔ سامنے ہی میرج ہال کا پچھلا حصہ تھا۔
وہ اسے گیٹ تک لے آیا اور ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا۔ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے ڈولی کو دیکھا۔
وہ ابھی تک لب بھینچے، تلخ کاٹ دار آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
دفعتاً ڈولی نے اپنی گردن سے لپٹا نارنجی دوپٹہ کھینچا اور اس پر اچھالا۔۔۔۔۔ ڈوپٹہ اس کے سر پر آن ٹھہرا۔ ڈولی چبھتی ہوئی نطروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا ۔
”بے حیا“
پھر وہ پلٹ گیا۔ نارنجی ڈوپٹہ اس کے کندھوں سے پھسل کر قدموں میں آ گرا تو وہ چونکی، پھر جھک کر ڈوپٹہ اٹھایا۔
اس نےاچھے طریقے سے خود کو اس میں لپیٹا، تا کہ پہچانی نہ جائے اور پچھلےگیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
ہال میں جانے کی بجائے وہ باتھ رومز کی طرف آئی اور اپنا حلیہ درست کیا۔
اندر فنکشن عروج پر تھا۔
وہ ایسی حالت میں نہ تھی کہ دو قدم بھی چل پاتی سو بے دم سی آخری نشست پر گری ہوئی تھی۔
”بے حیا“
”بے حیا“
”بے حیا“
ڈولی کے لفظ ہتھوڑے کی طرح اس کے دماغ پر برس رہے تھے۔ وہ بے حیا تو نہیں تھی۔ وہ تو کبھی کسی لڑکے کی گاڑی میں نہیں بیٹھی تھی۔ اس سے تو یہ غلطی پہلی بار ہوئی تھی، پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ سوچ سوچ کر دماغ پھٹا جا رہا تھا۔
وہ آدھے فنکشن کے بعد ہی طبعیت خرابی کا بہانہ کر کے چلی آئی تھی۔
***************
یہ داور اور سونیا کی شادی کے چند دن بعد کا ذکر ہے۔
صبح سے سردی بہت بڑھ گئی تھی۔ دسمبر ختم ہونے کو تھا اور ہوا ٹھٹھرا دینے والی بن چکی تھی۔ ایسے میں وہ کیمپس میں اسکالر شپ کوآرڈینیٹر کے آفس کے باہر دروازے پر لگی لسٹ کو دیکھ رہی تھی۔ ”اریسمس منڈس ایکسچینج پروگرام“ کے تحت اسٹوڈنٹس میں سے صرف دو لڑکیاں سبانجی یونیورسٹی جا رہی تھیں۔
حیا سلیمان اور خدیجہ رانا۔
”یہ خدیجہ رانا کون ہے بھلا؟“ وہ سوچتے ہوئے اپنے یخ ہوتے ہاتھ آپس میں رگڑ رہی تھی۔ سردی سے اس کی ناک سرخ پڑ رہی تھی۔ لانگ شرٹ اور ٹراؤزر پر اسٹائلش سا لانگ سوئیٹر پہنے وہ دروازے کے سامنے کھڑی تھی۔ دفعتاً عقب سے کسی نے پکارا۔
”ایکسکیوزمی!“
وہ چونک کر پلٹی۔ پیچھے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ کندھے پر بیگ، ہاتھ میں ڈائری اور پین اور آنکھوں پر بڑا سا چشمہ۔ وہ اس کو نام سے نہیں پہچانتی تھی لیکن یونی میں کئی بار دیکھا ضرور تھا۔ وہ لڑکی اسے خوامخواہ ہی بری لگی تھی۔
”یہ حیا سلیمان کون ہی بھلا؟“ وہ چشمے کے پیچھے سے آنکھیں سکیڑے سوچتی ہوئی کہہ رہی تھی۔
حیا نے ایک طنزیہ نگاہ میں اس کا سر سے پاؤں تک جائزہ لیا، پھر ذرا روکھے انداز میں بولی۔ ”میں ہوں!“
”اوہ!“ اس نے جیسے بمشکل اپنی ناگواری چھپائی۔
”میں آپ کے ساتھ ترکی جا رہی ہوں حیا! میں خدیجہ ہوں، میری فرینڈز مجھے ”ڈی جے“ کہتی ہیں، لیکن آپ میری فرینڈ نہیں ہیں، سو خدیجہ ہی کہیے گا۔“
”مجھے بھی حیا صرف میرے فرینڈز کہتےہیں۔ آپ مجھے مس سلیمان کہہ سکتی ہیں۔“ وہ کہہ کر پلٹ گئی۔
عجیب بددماغ لڑکی تھی وہ خدیجہ رانا۔ اسے پہلے بھی خوامخواہ بری لگتی تھی اور ب اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے بھی حیا کے بارے میں کچھ ایسے ہی خیالات تھے۔
•••••••••••••••••••••••
وہ جیسے ہی گھر آئی، ظفر سامنے سے آ گیا۔ بھاگتا ہوا، ہانپتا ہوا۔
”حیا بی بی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا بی بی!“
”بول بھی چکو اب! وہ گاڑی لاک کرتی کوفت زدہ ہوئی۔
”آپ کو ارم بی بی بلا رہی ہیں۔“
”خیریت؟“
”خیریت نہیں لگتی جی۔ وہ بہت رو رہی ہیں۔“ ظفر نے رازداری سے بتایا تو وہ چونکی۔
”اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آتی ہوں، تم یہ میرا بیگ اندر رکھ دو۔“ وہ سیدھا ارم کے گھر کھلنے والے درمیانی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
لاؤنج میں صائمہ تائی اور سونیا بیٹھی تھیں۔ سمنے کوئی کامدار ڈوپٹہ پھیلا رکھا تھا اور دونوں اس کے ساتھ الجھی تھیں۔آہٹ پہ سر اٹھایا۔ اسے دیکھ کر دونوں ہی مسکرا دیں۔
”حیا! کیسی ہو؟“
”بالکل ٹھیک۔ ارم کہاں ہے تائی اماں! مجھے بلا رہی تھی۔“
”اندر کمرے میں ہو گی۔“
”اوکے!میں دیکھ لیتی ہوں۔“ وہ مسکرا کر راہ داری کی سمت بڑھ گئی۔
ارم کے کمرےکا دروازہ بند تھا۔ اس نے ڈور ناب گھما کر دھکیلا۔ دروازہ کھلتا چلاگیا، ارم بیڈ پر اکڑوں بیٹھی تھی۔ سامنے لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا۔ چمکتی سکرین کی روشنی ارم کے چہرے کو چمکا رہی تھی، جس پر آنسو لڑیوں کی صورت بہہ رہےتھے۔
”ارم کیا ہوا؟“ وہ قدرے فکرمندی سے ارم کے سامنے آ بیٹھی۔
ارم نے سرخ متورم آنکھیں اٹھا کر حیا کودیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ تھا جو اسے ٹھٹکا گیا۔
”حیا! ایک بات بتاؤ؟“ اس کا رندھاہوا لہجہ عجیب سا تھا۔
”بولو!“
”ہم شریف لڑکیاں ہے کیا؟“
”اپنے بارےمیں تو یقین ہے مگر تمہارا معاملہ ذرا مشکوک ہے۔“ اس نے ماحول کا بوجھل پن دور کرنے کو کہا مگر ارم مسکرائی تک نہیں۔
”نہیں حیا، ہم دونوں کا ایک ہی معاملہ ہے۔“
”کیوں پہیلیاں بجھوا رہی ہو؟ ہوا کیا ہے؟“
”حیا مجھے بتاؤ! کیا ہم مجرا کرنے والیاں ہیں؟“ وہ ایک دم رونے لگی تھی۔
”ارم!“ وہ ششدر رہ گئی۔
”بتاؤ, کیا ہم طوائفیں ہیں؟“ وہ اور زور سے رونے لگی۔
”ارم! بات کیا ہوئی ہے؟“
”حیا! بولو، بتاؤ ہم ایسی ہیں کیا؟“
”نہیں، بالکل نہیں!“
”پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ کیا ہے؟“ ارم نے لیپ ٹاپ کی سکرین کا رخ اس کی طرف کیا۔
”کیا ہے یہ؟“ اس نےالجھن سے سکرین کو دیکھا۔ اس پر ایک ویڈیو چل رہی تھی۔ ویڈیو کا کیپشن اوپر رومن اردو میں لکھا ہوا تھا۔
”شریفوں کا مجرا۔“
ویڈیو کسی شادی کے فنکشن کی تھی۔ ہر سو سجی سنوری خواتین اور درمین میں ڈانس فلور پر محو رقص دو لڑکیاں۔
ایک کا لہنگا گولڈن تھا اور دوسری کا سلور۔
پوری چھت جیسے اس کے سر پر آن گری۔
”نہیں!“ وہ کرنٹ کھا کر اٹھی۔ ”یہ کیا ہے؟“
”یہ شریفوں کا مجرا ہے حیا! اور یہ ہم نے کیا ہے، یہ داور بھائی کی شادی کی ویڈیو ہے، جو کسی نے انٹر نیٹ پر ڈال دی ہے۔ یہ پڑھو، ویڈیو ڈالنےوالے نےاپنا ای میل ایڈریس بھی دیا ہے۔ جس پر میل کر کے پورے ڈانس کی ویڈیو بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ دیکھو۔۔۔۔ اس ویڈیو کو تین دن سے سینکڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ حیا! ہم برباد ہو چکے ہیں۔ ہم کہیں کے نہیں رہے۔“
ارم پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور وہ ساکت سی اسکرین کو تکے جا رہی تھی۔ یہ کوئی بھیانک خواب تھا۔ ہاں، یہ خواب ہی تھا۔ اور اب وہ جاگ جانا چاہتی تھی۔
اسکرین پر رقصاں پریوں کے سراپے میں مختلف حصوں پر کسی نے سرخ دائرے کھینچ رکھے تھے، جیسے ہی کوئی لڑکی جیسے ہی کوئی لڑکی کسی سٹیپ پہ جھکتی، تو فوراً سرخ دائرہ ابھرتا۔
اس کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔
”نہیں! ۔۔۔۔۔۔ یہ میں نے نہیں کیا۔“ وہ ایک ایک قدم پیچھے ہو رہی تھی۔ اس کے لب کپکپا رہے تھے۔ ارم اسی طرح بلک رہی تھی۔
”میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مجرا کرنے والی نہیں ہوں، میں شریف لڑکی ہوں۔“
”یہ ہم ہی ہیں حیا! ہم برباد ہو گئے۔“
اس کا سر چکرانے لگا۔ یہ سب کیا ہو گیا تھا؟ ویڈیو کے سینکڑوں ویوز لکھے آ رہے رتھے۔ کیا وہ پورے شہر میں پھیل گئی تھی؟ اور اگر اس کے خاندان والوں تک پہنچ گئی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”ابا تو مجھے گولی مار دے گے ارم!“
”مجھے تو زندہ گاڑ دیں گے.“
”مگر یہ ویڈیو کس نے بنائی ہے؟ ہم نےتو مووی والے کو منع کر دیا تھا۔“
”کسی نے چھپ کر بنائی ہو گی۔“
”کچھ کرو ارم۔“ اس کا سکتہ ٹوٹا، وہ تیزی سے ارم کے قریب آئی۔
”میں نے اس ویب سائٹ پر رپورٹ تو کی ہے لیکن ویب سائٹ نے ایکشن لے کر ویڈیو ہٹا دی تو بھی یہ سی ڈی پر ہر جگہ مل رہی ہے۔ ایسی چیزیں تو منٹوں میں پھیلتی ہیں۔ ہم کہاں کہاں سے ہٹوائے ہٹوائیں گے؟“
”خدایا یہ کیا ہو گیا؟ وہ بے بس سی زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ اگر بابا یا پھر کسی بھائی وغیرہ کو معلوم ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ خدایا۔ ہم کیا کریں؟“
ارم نے بھی خودکو کمرے میں بند کر لیا تھا اور وہ بھی بس کمرے کی ہو کر رہ گئی تھی۔ سوچ سوچ کر دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ مگر کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا۔
••••••••••••••••••
شام میں وہ سو رہی تھی کہ راحیل کا فون آ گیا۔ اس کے دماغ میں خطرے کا الارم بجنے لگا تھا۔
”۔۔۔۔۔ہیلو۔۔۔۔۔۔۔!“
”ہیلو حیا کیسی ہو؟“ روحیل کی آواز میں گرم جوشی تھی۔ وہ کچھ اندازہ نہ کر پائی۔
”ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔۔تم ٹھیک ہو؟“
”ایک دم فٹ۔ میں نے تمہیں مبارک با دینی تھی۔“
”کک۔۔۔۔۔۔۔۔ کس بات کی؟“
”بھئی تم ایکسچینج پروگرام کے تحت ترکی جا رہی ہو اور کس بات کی بھلا؟“
”اوہ اچھا۔ تھینک یو سو مچ۔“ اس کی اٹکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔
”کب تک جانا ہے۔“ وہ خوشی سے پوچھ رہا تھا۔
”جنوری کے اینڈ تک یا فروری کے شروع تک۔“
”تو کیا تم ادھر سبین پھو پھو کی فیملی سے ملو گی؟“
”پتا نہیں، ابھی سوچا نہیں ہے۔۔“
”کیا بات ہے تم اپ سیٹ لگ رہی ہو؟“
وہ ذرا پریشان ہوا۔
”ارے نہیں۔۔۔۔۔۔“ وہ فوراً سنبھلی اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کر کے خود کو نارمل ظاہر کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی۔
فون بند ہوا تو وہ ارم کی طرف چلی
آئی۔
”یوں منہ سر لپیٹ کر بیٹھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔“
”تو کیا کریں؟“ ارم نے تکیہ پھینکا اور اٹھ بیٹھی۔
”سب سے پہلے تو سارے گھر کے کمپیوٹرز سے اس ویب سائٹ کو بلاک کرتے ہیں۔تا کہ کم از کم گھر والوں کو تو نہ پتہ چلے، پھر اس کا کوئی مستقل حل سوچتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے چلو!“ امید کا سرا نظر آتے ہی ارم اٹھ کھڑی ہوئی۔ بنا کسی دقت کے جب وہ تمام کمپیوٹرز پر اس ویب سائٹ کو بلاک کر چکی تو صائمہ تائی نے آ کر بتایا کہ رات میں ارم کو دیکھنے کے لیے تایا فرقان کے کوئی فیملی فرینڈ بمع خاندان آ رہے ہیں۔ رسمی کاروائی تھی کیونکہ رشتہ تو وہ ڈھکے چھپےلفظوں میں مانگ ہی چکے تھے۔ حیا سب کچھ بھول کرپرجوش ہو گئی۔
**********************
”ہمارے دولہا بھائی بھی ساتھ ہی آئے ہیں۔“ حیا ڈرائنگ روم میں جھانک کر اندر کمرے میں آئی تو وہ منہ لٹکائے نیٹھی تھی۔
”تم ایسےکیوں بیٹھی ہو؟“
ارم نے آہستہ سے سر اٹھایا۔ سر پر سلیقے سے ڈوپٹہ اوڑھے وہ بردکھوے کے لیے تیا بیٹھی تھی۔
”وہ ویڈیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!“
”دفع کرو اسے۔ آؤ سب بھلا رہے ہیں۔ لڑکے کو اس کی والدہ ماجدہ نے اندر بلایا ہے، تمہیں دکھانے کے لئے۔ آؤ!“ اس نے ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا۔
وہ ارم کو پکڑے ڈرایئنگ روم میں آ گئی۔
سامنے دو سنگل صوفوں پر ایک نفیس سی خاتون اور ایک خوبرو سا نوجوان بیٹھا تھا۔ سامنے رکھی میز لوازمات سے سجی تھی اور سونیا بصداصرار مہمانوں کو بہت کچھ پیش کر رہی تھی۔
”بس بھابھی! ہمیں تو اپنے جیسی ہی بچی چاہیے۔ با حیا، با پردہ، صوم و صلاة کی پابند۔“ وہ خاتون مسکرا کر کہہ رہی تھیں۔
”ارے مسز کریم! ہماری ارم تو کبھی سر ڈھکے بغیر گیٹ سے باہر نہیں نکلی۔“
”السلام علیکم!“ وہ ارم کو ساتھ لیے اندر داخل ہوئی۔ اس کے سلام پر سب نے سر اٹھا کر دیکھا۔
گلابی پوری آستینوں والی شلوار قمیض میں ہم رنگ ڈوپٹہ اچھی طرح پھیلا کر سر پر لیے ارم جھکی جھکی نگاہوں کے سے سامنے ایک صوفے پر آبیٹھ گئی۔
حیا بھی ساتھ ہی تھی۔ کمر پر گرتے سلکی بال، گرے اے لائن شرٹ اور ٹراؤزر زیب تن کیے، ڈوپٹہ کندھے پر ڈالے ارم کے ساتھ ہی ٹانگ پر ٹانگ رکھے پراعتماد طریقے سے بیٹھ گئی۔
بیگم کریم کی مشفق سی آنکھوں میں ارم کے لئے پسندیدگی کی جھلک اٹھی تھی۔ انہوں نے تائیدی انداز میں اپنے اسمارٹ سے بیٹے کو دیکھا, مگر وہ ارم کو نہیں، بلکہ بہت غور سے حیا کو دیکھ رہاتھا۔
”اور بیٹا! آپ کیا کرتی ہو؟“ بیٹے کو متوجہ نہ پا کر وہ ارم سے مخاطب ہوئیں۔
”جی! ماسٹرز کر رہی ہوں انگلش لٹریچر میں۔“ ارم نے جھکی جھکی نظروں سے جواب دیا۔
تب ہی حیا کو محسوس ہوا کہ وہ لڑکا مسلسل اسے دیکھ رہا ہے۔ بڑی جانچتی پرکھتی نظروں سے۔
دفعتاً اس نے پاکٹ سے اپنا بلیک بیری فون نکالا اور خاموشی سے سر جھکائے بٹن پریس کرنے لگا۔
خواتین آپس میں مصروف تھیں، مگر حیا کچھ عجیب سا محسوس کرتی کنکھیوں سے اسی کو دیکھ رہی تھی۔ جو اپنے فون ر جھکا ہوا تھا۔ تب ہی ہولے سے اس کے موبائل سے ” مائی نیم از شیلا“ کی آواز گونجی۔ جسے اس نے فوراً بند کر دیا۔ مگر وہ سن چکی تھی۔ شیلا کے ساتھ شادیوں کا مخصوص شور بھی سنائی دیا تھا اور ارم نے بھی شاید کچھ سنا تھا، تب ہی چونک کر گردن اٹھائی اور پھر قدرے سبکی سے واپس جھکا دی۔
حیا کو اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ کیا دنیا اتنی چھوٹی تھی؟
وہ اب موبائل پر کچھ دیکھ رہا تھا، کبھی سکرین پر دیکھتا اور کبھی حیا اور ارم کے چہروں پر نظر ڈالتا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ کچھ ملانے کی سعی کر رہا تھا۔
پھر ایک دم وہ اٹھا اور تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔ ایک شرمندہ سی خاموشی نے سارےماحول کو گھیرلیا۔
حیا نے سر جھکا دیا، اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا سا محسوس ہوا تھا۔
وہ بہت بے چین سی بیٹھی۔ پاؤں اوپر صوفے پر سمیٹے، ہاتھ میں ریمورٹ پکڑے، وہ جھلائی ہوئی سی چینل بدل رہی تھی۔ مضطرب، بے بس، پریشان۔
اسمارٹ ٹی وی کی سکرین پہ پورے میوزک کے ساتھ اشتہار چل رہا تھا۔ وہ غائب دماغی سے سکرین کو دیکھ رہی تھی۔ جہاں موبائل کمپنی کے ساتھ ” غیر تصدیق شدہ سم کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے“ لکھا آ رہا تھا۔ جانے کب pause کا نبٹن اس سے دبا اور اشتہار وہیں رک گیا۔ وہ اتنی دور بھٹکی ہوئی تھی کہ play بھی نہ کر سکی۔
دفعتاً دروازے میں فاطمہ بیگم کی شکل دکھائی دی۔ وہ تھکی تھکی سی اندرداخل ہو رہی تھیں۔ حیا ریمورٹ پھینک کر تیزی سے اٹھی۔
کیا بات تھی؟ صائمہ تائی نے کیوں بلایا تھا؟
ارم کے رشتے کے لیے جو لوگ اس دن آئے تھے انہوں نے انکار کر دیا ہے، حالانکہ رشتہ مانگ چکے تھے۔
اور حیا کا دل بہت ڈوب کر ابھرا تھا۔
کیوں؟ کیوں انکار کر دیا؟ اس کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔
کوئی وجہ نہیں بتاتے۔ بس ایک دم ہی پیچھے ہٹ گئے۔ صائمہ بھابھی بھی بہت اپ سیٹ تھیں۔
مگر کچھ تو کہا ہو گا؟
بس یہی کہا ہے کہ ہم نے کسی آزاد خیال اوربے پردہ لڑکی کو بہو بنا کر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی۔
وہ متحیر رہ گئی۔ چند روز قبل سنا تائی کا فقرہ سماعت میں گونجا تھا۔
”جب فرقان نے سختی کی کہ بھلا ایسی بے پردہ اور آزد خیال لڑکی کو بہو بنا کر ہم نے اپنی آخرت بگاڑنی ہے کیا، تب کہیں جا کر وہ مانا“
کیا اس کو مکافات عمل کہتے ہیں؟
کیا دوسروں کی بیٹیوں پر انگلیاں اٹھانے والوں کےگھروں پر وہی اٹھی انگلیاں لوٹ کر آتی ہیں؟
مگر وہ خوش نہیں ہو پائی۔ اگر بات کھل جاتی تو اصل بدنامی تو اسی کے حصے میں آتی۔ ارم کو تو شاید اس کی ماں ”حیا نے اسے بگاڑا ہے“ کہہ کر درمیان سے نکال لیتی اور بات تو اب بھی کھل سکتی تھی۔ وہ ویڈیو تو اب بھی انٹر نیٹ پر موجود تھی۔ ٹی وی سکرین پر اب بھی اشتہار رکا ہوا تھا۔ وہ بس خالی خالی نظروں سے اسے دیکھے گئی۔
”بغیر تصدیق شدہ سم کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے۔“
”بغیر تصدیق شدہ سم کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے“
وہ بے خیالی میں تکتی، سوچوں کی الجھن سے نکل کر ایک دم چونکی۔
۔
”بغیر تصدیق شدہ سم کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے“
بجلی کا ایک کوندا سا اس کےذہن میں لکا تھا۔اوہ خدایا! یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا تھا؟
وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور باہر کی طرف لپکی۔
”ارم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارم۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ بہت جوش سے چلاتے ہوئے حیا نے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا۔
ارم موبائل پکڑے بیڈ پر بیٹھی تھی، دروازہ کھلنے پر گڑبڑا کر موبائل سائڈ پر رکھا۔
کیا ہوا؟ ساتھ ہی ارم نے اپنا موبائل الٹا کر دیا تا کہ اسکرین چھپ جائے۔
سنو وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب ہی رشتے والی بات یاد آئی۔ اوہ آئی ایم سوری ان لوگوں نے رشتے سے انکار کر دیا۔
وہ تو ویڈیو دیکھ کر کرنا ہی تھا، خیر جانے دو اچھا ہی ہوا۔ وہ مطمئن تھی۔
ارم تم ے کبھی موبائل کنکشنز کے اشتہاروں میں وہ عبارت پڑھی ہے کہ غیر تصدیق شدہ سم کا استعمال جرم ہے۔
ہاں تو؟
تو کیا تمہیں معلوم ہے کہ سم رجسٹر کروانا کیوں ضروری ہوتا ہے؟
کیوں؟
تا کہ کوئی کسی سم کا غلط استعمال نہ کر سکے، چاہے وہ دہشت گردی کی وردات ہو یا کسی کو رانگ کالز کرنا، یہ سب سائبر کرائم کے تحت آتا ہے۔
سائبر کرائم؟ ارم نے پلکیں جھپکائیں۔
ارم۔۔۔۔۔۔۔۔ ارم ہماری پرسنل ویڈیوانٹرنیٹ پر ڈال دینا بھی تو ایک سنگین جرم ہے، ہم اس کی رپورٹ کر سکتے ہیں۔
مگر ہم کس کو رپورٹ کریں گے؟ وہ نیم رضا مند ہوئی تو حیا نےجھٹ اپنا موبائل نکالا۔
پی ٹی اے کو، روازہ بند کرو، میں ہیلپ لائن سے نمبر لیتی ہوں۔
پی ٹی اے کی ہیلپ لائن کا نمبر آسانی سے مل گیا، مگر آپریٹر نے نہایت شائستگی سے یہ کہہ کر معزرت کرلی کہ اس طرح کے کیس کی سائبر کرائم یا کسی انٹیلی جنس کے سائبر سیل کو رپورٹ کرنا ہوگا۔ حیا نے ان سے ملک کی سب سے بڑی سرکاری، سویلین ایجنسی کے سائبر کرائم سیل کا ای میل ایڈریس تو لے لیا لیکن اب وہ متذبذب بیٹھی تھی۔
یہ انٹیلی جنس والے بڑے خطرنا لوگ ہوتے ہیں ارم!
مگر اب یہ کرنا تو ہے نا!
اور واقعی کرنا تو تھا۔
ارم نے لیپ ٹاپ کھولا اور پھر بہت بحث و تمحیص کے بعد انہوں نے ایک کمپلینٹ لکھی اور اس پتے پر بھیج دی جو پی ٹی اے سے ان کو ملا تھا۔
بمشکل دس منٹ گزرے تھےکہ حیا کا موبائل بجا۔ چمکتی سکرین پر private number calling لکھا آ رہا تھا۔
یہ کون ہو سکتا ہے؟ اس نےاچنبھے سے موبائل کان سے لگایا۔
ہیلو! دوسری جانب ذرا خاموشی کے بعد ایک بھاری گمبھیر آواز سنائی دی۔
السلام علیکم، مس حیا سلیمان؟
جج۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کون؟
میں میجر احمد بات کر رہا ہوں، سائبر کرائم سیل سے۔ آپ نے ہماری ایجنسی میں رپورٹ کی ہے، ہمیں ابھی آپ کی کمپلینٹ موصول ہوئی ہے۔
وہ جو کوئی بھی تھا۔ بہت خوبصورت بولتا تھا۔ گہرا، گمبھیر، مگر نرم لہجہ جس میں ذرا سی چاشنی بھری تپش تھی۔ گرم اور سرد کا امتزاج۔
مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میجر احمد ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کمپلینٹ میں اپنا نمبر تو نہیں لکھا تھا۔ وہ دھک ھک کرتے دل کے ساتھ کہہ رہی تھی۔ ارم بھی حیرت بھرے خوف سے اس کو دیکھ رہی تھی۔ جواباً وہ دھیرے سے ہنس دیا۔
نمبر تو بہت عام سی چیز ہے مس سلیمان! میں تو آپ کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔
کیا؟
یہی کی آپ سلیمان اصغر کی بیٹی ہیں۔ آپ کے والد کی ایک کنسٹریکشن کمپنی ہے۔ آپ کا بھائی روحیل جارج میسن یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ خود آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں ایل ایل بی آنرز شریعہ اینڈ لاء کے پانچویں سال میں ہیں۔ فروری میں آپ ایکسچینج پروگرام کے تحت استنبول جا رہی ہیں، غالباً سبانجی یونیورسٹی میں اور پچھلے ہفتے اپنے کزن داور فرقان کی مہندی کی فنکشن پہ بننے والی ویڈیو کی انٹرنیٹ پہ اپ لوڈنگ کو آپ نے رپورٹ کیاہے۔ از دیٹ رائٹ میم؟
وہ جو دم بخود سنتی جا رہی تھی، بمشکل بول پائی۔
جی۔۔۔۔۔۔۔۔جی وہی ویڈیو۔
اب آپ کیا چاہتی ہیں؟
یہی کی آپ اسے ویب سائٹ سے ہٹادیں۔ اس کی آواز میں بہت مان، بہت منت بھر آئی تھی۔
اوکے اور کچھ؟
اور۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جن لوگوں کے پاس اس کی سی ڈی ہے وہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے اس کا گلہ رندھ گیا، احساس توہین سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔
میں شہر کےایک ایک بندے سے وہ ویڈیو نکلوالوں گا آپ بے فکر رہیے۔ اور اسے لگا منوں بوجھ اس کے اوپر سے اتر گیا ہو۔
تھینک یو میجر احمد۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ فون رکھنے والی ہے تو وہ بول اٹھا۔
تھینک یو تو آپ تب کہیں جب میں یہ کام کردوں اور اس کام کو محض شروع کرنےکے لیے بھی مجھے آپ کا تعاون چاہیے۔
کیسا تعاون؟
مادام! آپ کو ذرا سی تکلیف کرنی ہو گی، آپ کو اس ویڈیو کی باقاعدہ رپورٹ کرنے کے لیے میرے آفس آنا ہو گا۔
کیا؟ نہیں، نہیں میں نہیں آ سکتی۔ وہ پریشانی سے ہکلا گئی۔ ارم بھی گکر مندی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
پھر تویہ کام نہیں ہو پائے گا۔ ایسے اسٹیپ فون پر نہیں لیے جا سکتے۔ اسے لگا، وہ محفوظ سا مسکرا رہا
تھا۔
مم۔۔۔۔۔۔ مگر میں نہیں آسکتی۔ اور وہ کیسے آ سکتی تھی؟ اگر کسی کو پتا چل جاتا تو کتنی بدنامی ہوتی۔
آپ کو آنا پڑے گا، میں گاڑی بھیج دیتا ہوں۔
نہیں نہیں، اچھا خدا حافظ۔ اس نے جلدی سےفون بند کر دیا۔
بھاڑ میں گیا یہ اور اس کا سائبر کرائم سیل۔ اگر ابا یا تایا ابا کو پتا چل گیا کہ ہم ایک ایجنسی کے ہیڈکواٹرز گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہماری ٹانگیں توڑ دیں گے وہ۔
میں تو پہلے ہی کہہ رہی تھی کہ رپورٹ نہ کرو۔
پرائیویٹ نمبر سے پھر کال آنے لگی تھی۔ اس نے جھنجھلا کر فون ہی آف کر دیا۔ اس ویڈیو سے زیادہ میجر احمد نے اسے بلیک میل کیا ہے۔ یہ خیال پھر سارا دن اس کے ذہن میں گونجتا رہا۔
********************
وہ بہت تھکی ہوئی پاسپورٹ آفس سے نکلی تھی۔ اسلام آباد سے پنڈی کا اتنا لمبا اور رش بھری سڑک پہ تھکا دینے والا سفر کر کے وہ آج پاسپورٹ آفس سے اپنا پاسپورٹ اٹھانے آئی تھی، مگر یہاں علم ہوا کہ پاسپورٹ چودہ جنوری کو ہی مل پائے گا اور ابھی چودہ جنوری میں ہورا ہفتہ باقی تھا۔ اسلام آباد میں کوئی تکنیکی مسئلہ تھا اس لیےاسے پنڈی میں ہی اپلائی کرنا پڑا تھا۔
واپسی پر بھی اتنا ہی رش تھا۔ کچھ شاپنگ کے بعد جب وہ مری روڈ پر آئی تو مغرب چھا رہی تھی۔سڑک گاڑیوں سے بھری پڑی تھی اور گاڑیوں کا یہ سیلاب بہت سست روی سے بہہ رہا تھا۔ سگنل پر اس نےگاڑی روکی اور شیشے کھول دیے۔ اس کا ذہن ابھی تک پاسپورٹ میں الجھا ہوا تھا۔
یکایک کوئی اس کی کھڑکی پر جھکا۔
سوہنیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا سوچ رہے ہو؟
وہ بری طرح چونکی اور سر اٹھا کر دیکھا۔
وہ وہی تھا ڈولی۔
ناگواری کی ایک لہر اس کے چہرے پر سمٹ آئی۔ اسے بھول گیا کہ کبھی ڈولی نے اس پر کوئی احسان کیا تھا۔
ہٹو سامنے سے۔ وہ جھڑک کر بولی۔ وہ کھلی کھڑکی میں اس طرح ہاتھ جما کر کھڑا تھا کہ وہ شیشہ اونچا نہیں کر سکتی تھی۔
لو باجی! میں تو سلام دعا کرنے آئی تھی اور آپ غصہ کر رہی ہو۔ اس روز والے سخت تاثرات ڈولی کے چہرے پر نہیں تھے۔ اس کے چہرے پر کراہیت بڑی معصومیت تھی۔
ہٹو سامنے سے، ورنہ میں پولیس کو بلا لوں گی۔
ہائے باجی! ڈولی سے ایسے بات کرتی ہو؟ اور آپ کی تریفیں کر کر کے ڈولی نے میرا سر کھا لیا تھا۔
اس نے آواز پر سر گھما کر دیکھا تو فرنٹ سیٹ کی کھلی کھڑکی پر ایک اور خواجہ سرا کھڑا تھا۔ ڈولی کی سیاہ رنگت کی نسبت اس کا رنگ ذرا صاف تھا۔
وہ دونوں ہاتھ کھڑکی کی چوکھٹ میں دیے کھڑا تھا۔
یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون ہو تم؟ ہٹو میری گاڑی سے۔ اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے۔
یہ جی میری بہن ہے پنکی۔ بڑا شوق تھا جی اسے آپ سے ملنے کا۔ ایک بڑی ضروری بات کرنی تھی جی ہمیں آپ سے۔
گیٹ لاسٹ۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر شیشہ اونچا کرنا چاہا، مگر پنکی نے اپنا ہاتھ اندر کر دیا۔ ایک دم سے اس کی کلائی سامنے آئی تھی۔ اس کی کلائی پر ایک گلابی سرخ سا کانٹا بنا تھا۔ جیسے جلا ہو یا شاید برتھ مارک۔
ہٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی سے گیٹ لاسٹ۔ وہ عالم طیش میں شیشہ اوپر کرنےلگی مگر پنکی نے اس پر اپنے ہاتھ رکھ دیے تھے۔ شیشہ اوپر نہیں ہو پا رہا تھا۔
باجی! ایسے نا کرو پنکی نال۔ اس کا ہاتھ زخمی ہو جائےگا جی۔ ڈولی نے پیچھے سے کہتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر اس کے کندھے پر رکھا تو وہ تیورا کر گھومی۔ اس نے ڈولی کو دھکا دیا اور وہ لڑکھڑا کر چند قدم پیچھے ہٹا تو اس نے جلدی سے شیشہ اوپر چڑھا دیا۔
اب تم بھی ہٹو ادھر سے، ورنہ میں لوگوں کو اکٹھا کر لوں گی۔ وہ ہاتھ بڑھا کر پنکی کی طرف والا شیشہ بند کرنے لگی لیکن وہ اڑ ہی گیا تھا۔
باجی جی میں تو تہانوں ڈولی کے دل کی بات بتانے آئی تھی اور تساں اس طرح کر رہے ہو، یہ جو ڈولی ہے نا یہ بڑا پسند کرتی ہےآپ کو مگر اقرار نہیں کرتی ہے۔ پنکی مصنوعی انداز میں بن بن کر بل رہا تھا۔
پیچھے ڈولی شیشہ بجانے لگا تھا۔
وہ پوری قوت سے شیشہ اوپر چڑھانے لگی۔ پنکی نے لمحہ بھر کو گردن موڑ کر ڈولی کو دیکھا تو اس کی گرفت ذرا ڈھیلی ہوئی، حیا نے فوراً شیشہ اوپر چڑھایا۔ پنکی نے چونک کر دیکھا پھر انگلیاں کھینچنی چاہیں مگر وہ مسلسل شیشہ اوپر کر رہی تھی۔ پنکی کی انگلیاں پھنس کر رہ گئی۔
اوہ چھڈو باجی جی!
دفعتاً پنکی کے دائیں ہاتھ کی انگلی سے خون کی بونڈ ٹپک کر شیشے پر گری تو اسے ہوش آیا ایک جھٹکے سے اس نے لیور نیچے کیا۔ شیشہ ایک انچ نیچے گرا۔ پنکی نے غصے سے اسے گھورتے ہوئے ہاہر کھینچے۔ گاڑی آگے بھگانے سے قبل اس نے بہت غور سے پنکی کے ہاتوھں کو دیکھا تھا۔ دائیں ہاتھ، جس کی کلائی پر کانٹے کا جلا ہوا نشان تھا، کی شہادت کی انگلی سے خون نکلا تھا اور باقی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے اوپر پوروں کی قدرتی لکیر پر موٹی سی بھوریلکیر بن گئی تھی۔ یقینا اس کے ہاتھ زخمی ہئے تھ مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔
وہ زن سے گاڑی آگے لے گئی، پھر اس نے بیک ویو مرر میں دیکھا۔ وہ دونوں خواجہ سرا بار بار مڑ مڑ کر اسے غصے سے دیکھتے ہوئے سڑک پار کر رہے تھے۔ ڈولی نے پنکی کا زخمی ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور غصے سے پلٹ کر حیا کی دور جاتی گاڑی کو دیکھتے ہوئے کچھ کہہ رہا تھا۔ اس نے سر جھٹک کر ایکسیلیٹڑ پر زور بڑھا دیا۔ کم ازکم اتنی امید اسے تھی کہ اب وہ ڈولی اس کا پیچھا کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔
بہت جلد وہ غلط ثابت ہونے والی تھی۔