
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر سولہ
اور میں بتاؤں کہ تمھاری محبوب ترین شے کیا ہے؟"
کیا؟
"تمہاری انا۔ تم اسےقربان کردو۔"
مگر کس کے لیے؟" وہ ذرا حیرت سےبولی۔
"اپنے چچا کی کسی بیٹی کے لیے۔ تمھارے کوئی چچا اور ان کی بیٹیاں ہیں؟" حیا نے دھیرے سےاثبات میں سر ہلایا۔
"تم ان کے لیے وہ کرو جو تم کبھی نہیں کرتیں۔ سب سے مشکل قربانی دینا چچا کے بچوں کے لیے ہوتا ہے، کیونکہ سب سے زیادہ مقابلہ ان سے رہتا ہے، اور سب سے زیادہ ناقدرے بھی وہی ہوتے ہیں۔"
میں ان کے لیے کیا کروں؟ میں ان سے کبھی زیادتی نہیں کرتی۔ بس میں ان کے طنز کے جواب میں زبان پہ آۓ طنز کو روک نہیں پاتی۔
"حیا! یہ جو چھوٹے چھوٹے طنز اور طعنے ہوتے ہیں نا، ان سے بچا کرو۔ مکہ میں چند بڑے بڑے سردار تھے، جو یونہی چھوٹے چھوٹے طنز کر جاتے تھے، پھر کیا ہوا؟ وہ بدر سے پہلے چھوٹی چھوٹی تکلیفوں سے مر گۓ۔ کوئی خراش سے مرا تو کوئی چھوٹے سے پھوڑے سے۔ تم اپنی کزن کے لیے اپنی انا کی ضرب کو بھول جاؤ۔"
میں کوشش کروں گی۔ ویسے عائشے!" وہ ذرا سا مسکرائی۔ "تم بہت پیاری ہو۔"
جوابا عائشے دھیرے سے ہنس دی۔
"تم بھی بہت پیاری ہو حیا!"
اور میں بھی بہت پیاری ہوں۔" بہارے نے بند آنکھوں سے کہا تو وہ دونوں چونک کر اسے دیکھنے لگیں۔ "گندی بچی! تم جاگ رہی تھیں؟ چلو سو جاؤ۔ صبح کام پر بھی جانا ہے۔"
عائشے نے بہارے کو مصنوعی خفگی سے ڈانٹتے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل لیمپ آف کیا، سبز روشنی غائب ہو گئی۔ کمرہ تاریکی میں ڈوب گیا۔
صبح سویرے کچن سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ کھلے بال انگلیوں سے سمیٹ کر جوڑے میں لپیٹتی چوکھٹ تک آئی۔
عائشے کرسی پہ بیٹھی تھی اور اپنے آگے کھڑی بہارے کے بال بنا رہی تھی۔ آج گھر کے کام تھے، سو جنگل نہیں جانا تھا تو بہارے باہر جدیسی (گلی) میں بچوں کے ساتھ کھیلنے جا رہی تھی۔
"اب بہارے گل اکیلی جاۓ گی تو اچھی لڑکی بن کر جاۓ گی، ٹھیک ہےنا؟" عائشے نرمی سے تائید چاہتی اس کی چوٹی گوندھ رہی تھی۔
"ٹھیک!" بہارے نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
"اور اچھی لڑکیاں جب بازار سے گزرتی ہیں تو نظریں جھکا کر گزرتی ہیں۔"
ایسے اگر ٹھوکر لگ جاۓ تو؟"
عائشے نے دھیرے سے مسکراتے ہوۓ چوٹی کے آخری بل ایک دوسرے میں گوندھے۔
"جو لڑکی اللہ کی بات مانتی ہے، اسے اللہ ٹھوکر لگنے نہیں دیتا۔"
اور جو نہیں مانتی؟"
اسے لگنے دیتاہے۔" اس نے پونی باندھ کر نچلے بالوں کو برش کیا۔ پھر شانوں سے تھام کر بہارے کا رخ اپنی جانب کیا۔
"اور اچھی لڑکیاں جب باہر نکلتی ہیں تو کیسے چلتی ہیں؟" بہارے کی پیشانی کے بال نرمی سے سنوارتے اس نے روز کا دھرایا جانے والا سبق پھر سے پوچھا۔
"وہ ان دو لڑکیوں کی طرح چلتی ہیں جو کنویں پہ موسی علیہ السلام کے پاس آئی تھیں۔"
اور وہ دو لڑکیاں کیسے چل رہی تھیں؟" اس نے بہارے کی بھوری گھنگریالی لٹ کان کے پیچھے اڑسی۔ "حیاکےساتھ...."
اور عمر بن خطاب رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے کیا کہا تھا۔ حیا والی لڑکیاں کیسی ہوتی ہیں؟
"وہ ہر جگہ نہیں چلی جاتیں، ہر بات نہیں کر لیتیں۔ ہر کسی سے نہیں مل لیتیں۔" بہارے نے انگلیوں پہ تینوں نکات جلدی جلدی دہراۓ، جیسے اسے بھاگنے کی جلدی ہو۔
"اور یاد رکھنا کہ جب تم میں حیا نہ رہے، تو پھر جو جی چاہے کرنا۔" بظاہر نرمی سے کہتے عائشے کی آنکھوں میں وہ تنبیہہ ابھری جو بہارے کو سیدھا رکھتی تھی۔
بہارے نے اثبات میں سر ہلایا اور آگے بڑھ کر باری باری عائشے کے دونوں رخسار چومے۔
"عائشے گل! بہارے گل تم سے بہت پیار کرتی ہے۔"
وہ بھاگ کر دروازے میں آئی، تو حیا اس سے ملنے کے لیے جھکی، اس نے اسی طرح حیا کے دونوں گال چومے۔
"حیا سلیمان! بہارے گل تم سے بہت پیار کرتی ہے۔" کہہ کر وہ باہر بھاگ گئی۔
"تم بہت محنت کرتی ہو، اس کی ذہن سازی کے لیے۔" وہ آگے چلی آئی۔ وہ جب تک بیدار ہوتی تھی، وہ دونوں بہنیں حلیمہ آنٹی کے گھر سے قرآن پڑھ کر آچکی ہوتی تھیں۔
"کرنی پڑتی ہے۔ چھوٹی لڑکیاں تو نرم ٹہنی کی طرح ہوتی ہیں۔ جہاں موڑو، مڑجائیں گی، اگر وقت گزرنے کے ساتھ ٹہنی رنگ بدل لے، سوکھ بھی جاۓ تو بھی اس کا رخ وہی رہتا ہے۔ مگر جو بڑی لڑکیاں ہوتی ہیں نا، وہ کانچ کی طرح ہوتی ہیں۔ اسے موڑو تو مڑتا نہیں ہے، زبردستی کرو تو ٹوٹ جاتاہے۔ کانچ کو تراشنا پڑتا ہے اور جب تک اس کی کرچیاں نہیں ٹوٹتیں اور اپنے ہاتھ زخمی نہیں ہوتے، وہ مرضی کے مطابق نہیں ڈھلتا۔"
صحیح کہہ رہی ہو۔" اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ "اچھا فون کدھر ہے؟ میرا کریڈٹ ختم ہے۔ پاکستان فون کرنا تھا۔"
اوہ سوری! یہ پڑا ہے، عبدالرحمن کا فون آیا تھا تو میں نے ادھر ہی رکھ دیا اور یہ تمھاری چاۓ۔" اس نے کارڈلیس فون اور حیا کاے ناشتہ کا واحد جز چاۓ اس کے سامنے رکھی۔
"کیا کہہ رہاتھا وہ؟"بے اختیار ہی وہ پوچھ اٹھی۔حالانکہ اسے پاشا میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
"بس کچھ پیپرز کا پوچھ رہا تھا۔ اس کے کمرے میں رکھے تھے۔"
بہارے تو خوش ہوئی ہو گی اس سے بات کر کے" ناشتے کے برتن سمیٹتی عائشے کے ہاتھ ذرا سست پڑے۔ ایک آزردگی اس کے چہرے پہ بکھر گئی۔
"تم بہارے کو مت بتانا۔ میں نے بھی اسے نہیں بتایا۔ وہ اس سے بات کرنے کے لیے فون نہیں کرتا، اپنے کام کے لیے کرتا ہے بس۔ وہ اداسی سے سر جھٹک کر کام کرنے لگی۔
حیا خاموشی سے فون اور چاۓ کا کپ لیے باہر آگئی۔ گھاس پہ شبنم کے قطروں کی چادر چڑھی تھی۔ بہار کے پھول ہر سو خوشبو بکھیرے ہوۓ تھے۔ وہ گھاس پہ بیٹھ کر چاۓ کے گھونٹ بھرتی تایا فرقان کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔
فون ارم نے ہی اٹھایا۔ دعا، سلام اور رسمی سے حال احوال کے بعد وہ بہت چبھتے ہوۓ لہجے میں بولی۔ "تمہیں آج کیسے خیال آگیا فون کرنے کا؟"
عام دنوں میں حیا کو اس فقرے سے زیادہ تپ کسی شے سے نہیں چڑھتی تھی۔ انسان جب کسی کو فون کرے، چاہے سال بعد ہی سہی تو وہ اگلے کا خیال کر کے ہی فون کرتا ہے۔ اس پہ کسی گلے سے بات کا آغاز کرنا مخاطب کو یہ کہنے کے برابر ہے کہ آئندہ یہ خیال کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مگر اس نے اب زندگی میں اتنی تکلیف سہہ لی تھی کہ اسے محسوس نہیں ہوا، یا پھر وہ خود ہی نظر انداز کر گئی۔
"ٹھیک کہہ رہی ہو، میں بھی بس مصروفیت کے باعث کر ہی نہیں پات۔ تم سناؤ کیسی ہو؟ اور ہاں،
منگنی بہت مبارک ہو۔"
بہت شکریہ! ارم کا لہجہ خاصا روکھا تھا۔
چند چھوٹی چھوٹی نرم سی باتیں کر کے اور ارم کی چھوٹی چھوٹی تند باتوں کو نظر انداز کر کے اس نے فون رکھا تو اس کا دل پہلے سے بہت ہلکا تھا۔
••••••••••••••••••••••••
اس روز شام میں عائشے اور بہارے جب اپنے جاننے والوں میں کسی کی فوتگی پہ گئی تھیں تو حیا نے گھر ٹھہرنا یادہ مناسب سمجھا، مگر اب تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔
وہ سارا دن اکٹھی ہوتی تھیں، پھر رات کو ہوٹل گرینڈ کے گارڈز گیٹ پہ اور دو گارڈز جدیسی کے سرے پہ آ کر پہرہ دیتے تھے تو ایک تحفظ کا احساس گھیرے رہتا تھا۔ البتہ اب وہ بہت تنہائی محسوس کر رہی تھی۔
پہلے تو وہ اوپر اسٹڈی میں آ گئی، جہاں اس کی تصاویر دیواروں پہ آویزاں تھیں۔ اسے یوں اپنی تصاویر ادھر دیکھ کر ہمیشہ بہت کوفت ہوتی تھی۔
وہ میٹرو اسٹیشن کی سیڑھیوں کے دہانے پہ ذرا سی لڑکھڑائی تھی۔ ٹوٹی سرخ جوتی پاؤں سے لٹک رہی تھی۔
وہ اپنے سنہری سکوں والے فراک میں پاشا کی سیاہ کار سے نکل رہی تھی۔
اور بھی ترکی اور پاکستان کی بہت سی تصاویر، پاشا کے بندے ہر پل اس کا تعاقب کرتے تھے۔ اسے یقین تھا۔ وہ بے دلی سے باہر آگئی۔ اس کو بلیک میل کرنے کے لیے اس نے بہت سا سامان اکھٹا کر رکھا تھا۔ مگر کوئی کمزوری تو پاشا کی بھی ہو گی۔
کچھ سوچ کر اس نے گردن اٹھا کر اوپر دیکھا۔ گول چکر کھاتا لکڑی کا زینہ تیسری منزل تک جاتا تھا۔ وہاں پاشا کا کمرہ تھا۔ بہارے بات بے بات ذکر کرتی۔ راہداری کا آخری کمرہ، وہ ادھر گئی تو نہیں تھی۔
مگر جانے میں حرج بھی نہ تھا۔ اسے اس گھر کے بارے میں جتنا پتا ہوتا اچھا تھا۔
وہ ننگے پاؤں زینے چڑھتی اوپر آئی۔ چابیوں کا گچھا اس نے عائشے کے دراز سے نکال لیا تھا۔ آخری کمرے کا دروازہ بند تھا۔ اس نے ایک ایک کر کے چابیاں لگانا شروع کیں۔ چوتھی چابی پہ لاک کھل گیا۔ اس نے دھیرے سے دروازہ دھکیلا۔
وہ بہت شاہانہ طرز کا بیڈ روم تھا۔ اونچی چھت، جھلملاتا فانوس، دیوار گیر کھڑکی کے ہلکے سرمئی مخملیں پردے۔ قالین بھی سر مئی۔ سارا کمرہ گہرے نیلے اور سرمئی شیڈز میں آراستہ کیا گیا تھا۔
کمرے میں پرفیوم کی خوشبو پھیلی تھی۔ خوشبو پرفیوم کے بے حد قیمتی ہونے کی چغلی کھا رہی تھی۔ اس نے ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھی نازک شیشیوں کو دیکھا۔ ایک سے ایک مہنگا پرفیوم ادھر رکھا تھا۔
وہ ادھر ادھر ٹہلتی ہر شے کا جائزہ لیتے ہوۓ الماریوں کی طرف آئی۔ ایک ایک کر کے اس نے پانچوں پٹ کھولنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے چار لاکڈ تھے۔ آخری کھلا تھا۔ اس نے پٹ کھولا تو اندر بہت سے قیمتی، نفیس تھری پیس سوٹ ہینگرز میں لٹکے تھے۔ نچلے خانے میں ایک بریف کیس رکھا تھا۔
اس نے احتیاط سے بریف کیس اٹھایا۔ اور بیڈ پہ آ بیٹھی۔ بریف کیس لاکڈ نہیں تھا۔ حیا نے اسے کھولا۔ اندر چند فائلز رکھی تھیں اور اوپر ایک نوٹ پیڈ پہ سیاہ روشنائی سے ترکی میں کچھ نام فہرست کی صورت میں لکھے تھے۔ وہ فہرست اٹھا کر پڑھنے لگی۔ تب ہی بریف کیس میں سے بیپ کی آواز آنے لگی۔ وہ چونکی، اندر کچھ بج رہا تھا۔ اس نے گھبرا کر جلدی سے کاغذ اندر ڈالا تو انگوٹھے پہ ایک حرف کی سیاہ روشنائی لگ گئی۔ بہت تیزی سے بریف کیس کو واپس رکھ کر بستر کی چادر کی شکن درست کرتی وہ باہر نکل آئی۔
کمرہ لاک کر کے جب وہ زینے اتر رہی تھی تو لاؤنج کا فون بج رہا تھا۔ وہ تقریبا بھاگتی ہوئی نیچے آئی اور فون اٹھایا۔
"ہیلو؟"
جوابا لمحے بھر کی خاموشی چھائی رہی۔ پھر ایئر پیس میں سے عبدالرحمن پاشا کی آواز گونجی۔
"عائشے کدھر ہے؟"
"وہ دونوں کسی کے گھر گئی ہیں۔"وہ ذرا سنبھل کر بولی۔
"آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟"
چند لمحے کے لیے وہ خاموش رہا۔ پھر بولا تو اس کی آواز بے حد سرد تھی۔
"آئندہ اگر آپ میرے کمرے میں گئیں یا میرے بریف کیس کو کھولنے کی کوشش کی تو اپنے پیروں پہ گھر نہیں جا سکیں گی، سمجھیں؟" بہت ضبط سے بولا تھا۔
حیا کے قدموں تلے سے زمین سرک گئی۔ اس نے گھبرا کر ریسیور کریڈل پہ ڈال دیا۔ پھر انگوٹھے پہ لگے سیاہی کےدھبے کو کپڑے سے رگڑ کر گویا ثبوت مٹانے کی کوشش کی۔
عبدالرحمن کو کیسے علم ہوا؟ ان کا دماغ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔ البتہ اس کے اندر کوئی اسے کہہ رہا تھا کہ اب اسے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔ لیکن قصر بیوک ادا اور ان دو بہنوں کی کشش۔۔۔۔۔۔۔ وہ عجیب مخمصے میں پڑ گئی۔
••••••••••••••••••••••
"یہ ادا چاۓ کے کھیت ہیں۔" اگلے روز عائشے نے اسے اپنی ایک عزیزہ کبری خانم کا لہلاتا ہوا کھیت دکھاتے ہوۓ بتایا تھا۔
"ادا چاۓ کیا ہوتی ہے؟" اس نے پودے کے ترکی نام
کا مطلب پوچھا۔
"ادا یعنی جزیرہ، اور چاۓ یعنی ٹی۔"
"اوہ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم بھی ٹی کو چاۓ ہی کہتے ہیں۔ وہ دھیرے سے ہنس پڑی۔ کبری خانم ایک معمر خاتون تھیں۔ ان کی فصل تیار تھی مگر ان کے پاس کوئی ہیلپر نہیں تھا جو ان کے ساتھ فصل چنتا، سو عائشے کے کہنے پہ حیا نے لکڑیاں کاٹنے کے بجاۓ کبری خانم کے ساتھ ادا چاۓ کے پتے چننے شروع کر دیے۔ چمکتے سورج اور ٹھنڈی ہوا کے امتزاج میں کام کرنا مشقت طلب تھا۔ مگر وہ اس فطرت کے قریب ماحول میں خوش تھی۔ کبری خانم سے وہ چھوٹی چھوٹی باتیں پوچھتی رہی تھی اور جو باتیں وہ عبدالرحمن پاشا کے بارے میں کر جاتیں، وہ انہیں ذہن میں محفوظ کرتی جاتی۔ اسے ہوٹل گرینڈ کے معاملات میں دلچسپی ہونے لگی تھی۔ وہ اب تنہا کہیں آتی جاتی نہیں تھی۔ ورنہ کئی دفعہ اس کا جی ہوٹل گرینڈ کا چکر لگانے کو چاہا تھا۔ واپس جانے کا ارادہ اس نے فی الحال ملتوی کر دیا تھا۔ اس کی چھٹی حس کہتی تھی کہ بیوک ادا میں کچھ ہے۔ کچھ ایسا جو اسے اگر معلوم ہو گیا تو اس کے پاس ایک قیمتی ہتھیار آجاۓ گا جو مستقبل میں اس کے کام آسکتا ہے۔
اس شام وہ تینوں ساحل کنارے چٹائی پہ بیٹھی تھیں۔ عائشے کو آج دو سیپ ملے تھے سو وہ انہیں کھول رہی تھی۔ حیا اب بڑے سیپ نہیں چنتی تھی۔ بلکہ بادام کے سائز کی سیپوں کے خالی خول ریت سے اٹھا لیتی اور اب ان کے ہی ڈھیر کو لیے وہ ایک مالا میں پرو رہی تھی۔ ساتھ ہی بہارے اپنے پزل باکس کے سلائیڈز کو اوپر نیچے کر رہی تھی۔
"حیا۔۔۔۔۔۔! میں اسے کبھی نہیں کھول پاؤں گی۔" اس کا لہجہ مایوس کن تھا۔ حیا نے ننھےخول کو سوئی میں پروتے سر اٹھا کر اس کا اداس چہرہ دیکھا۔ پھر گردن آگے جھکا کر اس پہ لکھی نظم کو پڑھا۔ "یہ بہت آسان ہے بہارے۔ ٹھہرو۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں ایک ہنٹ دیتی ہوں"۔
اس نے دوبارہ سے وہ نظم پڑھی۔ پھر سمجھ کر بولی۔ "یہ ایک سفید چھوٹی سی آنکھ ہے جو چاندی کے صندوق میں بند ہوتی ہے اور وہ صندوق نمکین گہرائی میں رکھا ہوتا ہے۔بہارے! وہ کون سی گہرائی ہے جو نمکین ہوتی ہے؟
بہارے جو اداس نظروں سے پزل باکس کو دیکھ رہی تھی۔ ایک دم چونکی۔
*********_******_**_
مرمرا۔۔۔۔۔۔۔ سمندر۔۔۔۔۔۔۔ نمکین پانی۔
عائشے نے مسکرا کر ان کو دیکھتے ہوئے چھرا اپنے سیپ کے ایک طرف رکھا۔
ہاں تو بہارے، وہ کیا چیز ہے جو پانی کے اندر ایک صندوق میں ریت کے ذرے سے بنتی ہے؟
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مٹی کے ذرے سے بنتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کا صندوق جب قتل کیا جاتا تو۔۔۔۔۔۔۔ چھرا گھونپ کر قتل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جوش سے بے ربط جملے بولتی عائشے کے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی جو ایک چاندی سے چمکتے سیپ میں چھرا چلا رہی تھی۔ سیپ کا خول چٹخا۔ عائشے نے کتاب کی طرح سے اسے کھولا۔ اندر دم توڑتے جانور پہ ایک سمید موتی جگمگا رہا تھا۔
موتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرل ۔۔۔۔۔۔ پورے پانچ حروف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہارے خوشی سے چلائی اور پھر جلدی جلدی ڈبے کے کوڈبار کی سلائیڈز اوپر نیچے کرنے لگی۔ وہ اب اس پہ Pearl لکھ رہی تھی۔
حيا اور عائشے بے اختيار اپنا كام چهوڑ كر آگے ہو كر اسے ديكهنے لگيں- جیسے ہی بہارے آخری حرف ”ایل“ سامنے لائی، کلک کی آواز کے ساتھ باکس کے سائیڈ سے دروازہ باہر کو کھلا۔ حیا کی تو قع کے برعکس وه باکس اوپری ڈھکن کے بجائے سائیڈ کی دراز سے کھلتا تھا۔
دراز ميں سياه مخمليں كپڑا بچها تها اور اس پہ ايک نازک سا نیکلیس ركها تها، دراصل نیکلیس پلاٹينم كى زنجير تهى۔ جس پر ہر دو كڑياں چهوڑ کر ننھے ننھے ہیرے لٹک رہے تھے۔ زنجير كے بالكل وسط میں ہیرے کے بجائے تين کڑياں لٹک رہی تھیں جن کے آخری سرے پر ایک سفيد موتى پرويا ہوا تھا۔
وه تينوں مبہوت سی اس بیش قیمت نيكلس كو دیکھ رہی تھیں۔
بہارے! یہ تو وہی موتی ہے جو تمہاری سیپ سے نکلا تھا۔ جو تم نے عبدالرحمان کو دے دیا تھا۔ عائشے ششدر سی اس موتی کو دیکھتے ہوئی بولی تھی۔
ہاں یہ تو وہی ہے۔ عبدالرحمان نے وہ مجھے گفٹ کر دیا۔
اور وه بھی اتنے خوبصورت انداز میں۔ حیا بس اتنا ہی کہہ سکی۔ اسے اس تحفے اور اس تحفے کو دینے کے انداز نے بہت متاثر کیا تھا۔
بہارے نے اپنی ننھی انگلیوں سے نيكلس اٹھایا اور گردن سے لگايا، پھر چہرہ اٹھا کر ان دونوں کو دیکھا۔ یہ کیسا لگ رہا ہے؟ اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔
بہت پیارا۔
عبدالرحمان نے مجھے کتنا پیارا گفٹ دیا ہے۔ اللّه، اللّه مجھے یقین ہی نہیں آرہا۔ وه اپنے پرس سے آئینہ نکال کر اب ہر زاويے سے اس کو اپنی گردن سے لگا لگا کر دیکھ رہی تھی۔
تم عبدالرحمن کو ضرور تھنک یو کرنا۔
اللّه۔۔۔۔۔۔ اللّه! بہارے کی خوشی بیان سے باہر تھی۔ حیا میں تم سے بھی خوبصورت لگ رہی ہوں، ہے نا۔
ہاں! تم مجھ سے بھی زیادہ خوبصورت لگ رہی ہو۔ وه مسکرا کر اسے تسلی دیتی سيپ کے خول اٹھانے گی۔ ابھی اسے پوری مالا بنانی تھی۔
حیا! تم میری تصویر کھینچو۔ میں اسے سر پر کراؤن کی طرح پہنتی ہوں۔ کیوں کہ میں پرنسس ہوں۔ وه نيكلس اپنے سر پر تاج کی طرح پہنے اٹھ کر ساحل پہ جا کھڑی ہوئی۔ اس نے وه گفٹ دو ڈھائی ماہ بعد کھولا تھا۔ سو آج اس کا دن تھا۔
دھيان سے بہارے! ہوا تیز ہے۔ سمندر کی طرف پشت کیے کھڑی بہارے نے عائشہ کی بات نہیں سنی تھی۔ حیا نے موبائل نکال کر کیمرہ آن کیا۔ پھر موبائل چہرے کے سامنے لا کر بہارے کو فوكس کیا۔
پرنسس! اب تم ذرا مسكراؤ۔
بہارے بڑے معصوم انداز میں مسکرا دی۔ اسے بے اختیار بيوک ادا كے بازار ميں سڑک كے وسط میں کھڑی بہارے یاد آگئی، جس کے گرد سیاحوں کا جمگهٹا لگا ہوا تھا۔ ریڈ کارپٹ شو پھر سے شروع ہو گیا تھا۔
اسی لمحے ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور ساتھ پانی بھی۔ اس سے پہلے کے ان میں سے کسی کی کچھ بھی سمجھ میں آتا، بہارے کے سر سے نيكلس اڑتا ہوا پانی میں جا گرا۔ وه بوکھلا کر پلٹی اور پھر اس کی چیخيں ہر سو بلند ہوئیں۔
حیا تیزی سے اٹھی۔ گود میں رکھی لڑی گر گئی۔ سيپوں کے خول بکھر گے۔ وه بھاگ کر پانی میں آئی۔ بہارے چیختی ہوئی پانی میں ہاتھ مارتی اپنا نيكلس تلاش کر رہی تھی۔ جو لہر اس کا نيكلس چھین کر لے گئی تھی۔ وه واپس جا رہی تھی۔ حیا ننگے پیر بھاگتی ہوئی لہر کے پیچھے گئی، مگر پانی جیت گیا، لہر پلٹ گئی۔ ہار پانی میں گم ہو گیا۔ بہارے زور زور سے روتے ہوئے چیخ رہی تھی۔
میرا نيكلس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا نيكلس......... عائشے پیچھے سے اسے بازوؤں میں لیے پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر وه کسی بے آب مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے خود کو چھڑا رہی تھی۔
حیا.......... آگے مت جاؤ......... پانی گہرا ہے........ وه گم جائے گا۔ عائشے اسے آوازیں دے رہی تھی، مگر وه سب کچھ بولائے بیوک ادا کی شہزادی کا تاج ڈھونڈ رہی تھی۔ ساحل کی گیلی ریت، پانی، سمندر، وه پانی میں ہاتھ مارتی پوری بھیگ چکی تھی، مگر نيكلس کہیں نہیں تھا ۔ اس نے تھک کر اپنے عقب میں دیکھا، جہاں عائشے بمشکل آنسو روکے، ٹرپتی، بلکتی بہارے کو پکڑے کھڑی تھی۔
عائشے! میرا نيكلس......... عائشے! مجهے نيكلس واپس لا دو۔ وه پهوٹ پھوٹ کر روتی عائشے کے بازو خود سے ہٹانے کی سعی کر رہی تھی۔
نيكلس وہاں کہیں بھی نہیں تھا۔ اسے نمکین گہرائى واپس اپنے اندر لے گئی تھی۔ بہارے کی زندگی کا پہلا اور واحد موتی اس سے کھو گیا تھا۔
بہارے!ے میں نے بہت ڈھونڈا مگر دیکھو، جو اللّه کی مرضی۔ وه واپس آئی اور بہارے کے ہاتھ تھام کر کہا۔ بہارے کچھ نہیں سن رہی تھی۔ وه گردن ادھر ادھر مارتی چلی جا رہی تھی۔
مجھے نيكلس واپس لا دو۔ کوئی مجھے نيكلس واپس لا دے۔ وه انگریزی اور پھر ترک میں ایک ہی بات دہراتی بلک بلک کر رو رہی تھی۔
حیا کے گلے میں آنسوؤں کا پھندا پڑ گیا۔
اسے لگا وه خود بھی ابھی رو دے گی۔ وه بمشكل لب بھينچ كر ضبط كيے ہوئے تھی۔ پا کر کھو دینے کا دکھ وه پہچانتی تھی۔ جب اس کا جنجر بريڈ ہاؤس ٹوٹا تھا۔ جب استقلال اسٹریٹ کی اس شاپ میں ڈی جے سر پکڑ کر گر گئی تھی۔ پا کر کھو دینے سے بڑا کرب کوئی نہیں ہوتا۔
اس شام دونوں بمشكل بہا کو سنبهالتى، گھر واپس لائی تھیں اور اب لونگ روم میں بڑے صوفے پر بیٹھی تھیں۔ یوں کہ بہارے درمیان میں تھی اور اسے حیا نے اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا۔
شام ڈهل چکی تھی اور کهڑکيوں کے پار اندھیرا اتر آیا تھا۔ آتش دان میں مصنوعى لکڑیاں بھڑک رہی تھیں۔ بہارے اسی طرح روئے جا رہی تھی۔ اس کے پاس آنسوں کا مرمرا تھا جو ختم نہیں ہو سکتا تھا۔ بہارے! میں تمہیں اور نيكلس لا دوں گی۔ وه اسے اپنے ساتھ لگائے بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔
مگر وه ایسا نہیں ہو گا۔ وه نفى ميں سر ہلاتی روئے جا رہی تھی۔
بالکل اس جیسا لا دوں گی۔۔۔۔۔۔ پرامس!
مگر وه عبدالرحمن کا گفٹ نہیں ہو گا۔
عبدالرحمن تمہیں خود ویسا ہی نیکلس گفٹ کرے گا۔ میں اسے کہوں گی۔
مگر اس میں میرا موتی نہیں ہوگا۔ عائشے۔۔۔۔۔۔۔۔ ممی۔۔۔۔۔۔ وه روتے روتے کبھی اپنی ماں کو یاد کرتی تو کبھی عائشے کو پکارتی۔ عائشے سر گهٹنوں پہ رکھے مغموم سی بیٹھی تھی۔
تمہارا جب دوبارہ موتی نکلے گا تو میں اسے نيكلس میں پرو دوں گی۔ مگر بہارے اس کی کوئی بات نہیں مان رہی تھی۔ اس کے لئے اس نيكلس کا کچھ بھی متبادل نہیں ہو سکتا تھا۔ ہر شے کا متبادل نہیں ہوا کرتا۔
بہارے! اب بس کرو۔ جب وه سر پٹخ پٹخ کر مزید بلند آواز میں رونے لگی تو عائشے نے برہمى سے ڈانٹا۔ وه کب سے تمہیں منا رہی ہے اور تم ہو کہ بدتميزى کیے جا رہی ہو؟
جواباً بہارے نے غصے اور پانى سى بھری آنکھوں سے عائشے کو دیکھا۔
تم mean ہو عائشے۔۔۔۔۔۔ تمہیں اچھا نہیں لگتا کہ عبدالرحمن مجھے گفٹ دے۔
ہا؟ عائشے ہکا بکا رہ گئی۔ میں۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایسی ہوں؟ تمہیں پتا ہے، تم کیا کہہ رہی ہو؟
ہاں تم mean ہو۔ وہ آگے بڑھ کر اپنی چھوٹی چھوٹی مٹھیوں سے عائشے کے گھٹنے پہ مکے مارنے لگی۔ حیا نے پیچھے سے اسے بازوؤں میں لیتے ہوئے ہٹایا۔
میں نے کیا، کیاہے؟ عائشے روہانسی ہو گئی۔
تم۔۔۔۔۔ تم لڑ رہی تھیں عبدالرحمن سے۔ اسی لیے وہ انڈیا چلا گیا ہے کیونکہ تم اس سے لڑ رہی تھیں۔ تم نے اسے تھپڑ بھی مارا تھا اور تم نے اس سے کہا تھا کہ وہ بہارے گل سے بے تکلف نہ ہوا کرے۔ وہ تمہاری وجہ سے یہاں سے گیا ہے۔ میں نے خود دیکھا تھا سوراخ سے۔
عائشے کا چہرہ یک دم سرخ پڑ گیا۔ اس کی آنکھوں میں جیسے بہت سے زخم ابھرے۔
سنو بہارے! وہ آگے بڑھی اور ایک دم بے حد جارحانہ انداز سے بہارے کے کندھے دبوچ کر اس کا چہرہ سامنے کیا۔
عبدالرحمن ہمارا نہیں ہے اور وہ جلد یا بدیر ہمیں چھوڑ کر چلا جائے گا۔
تم گندی ہو، تم جھوٹ بولتی ہو۔
میں جھوٹ نہیں بولتی، میں کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ اب میری بات غور سے سنو۔ اس نے غصے سے بہارے کو جھٹکا دیا۔ عبدالرحمن مر گیا ہمارے لیے۔ ایک جھٹکے سے اس نے بہارے کے کندھے چھوڑے اور تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی اوپر چلی گئی۔
بہارے کے آنسو ایک دم سے رک گئے۔ وہ بالکل ساکت و جامد ہو چکی تھی۔ لب آپس میں پیوست کیے، وہ گویا سانس روکے بیٹھی تھی۔
بہارے! اس نے تاسف سے اسے پکارا۔
وہ ایک دم اٹھی اور بھاگتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔
حیا نے گردن موڑ کر دیکھا۔ ان کے مشترکہ بیڈ روم کا دروازہ کھلا تھا اور بہارے بیڈ پر چت لیتی نظر آ رہی تھی۔ بھی اسے چھیڑنا مناسب نہیں تھا۔ سو وہ عائشے کی تلاش میں سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
عائشے چھت پر تھی۔ وہ ٹیرس کی ریلنگ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ اس کے پیچھے کھلا سیاہ آسمان تھا اور نیچے جدیسی کے اونچے پولز کی مدھم بتیاں۔ اندھیرے میں بھی وہ اس کے سیاہ اسکارف میں دمکتے چہرے پہ لڑھکتے آنسو دیکھ سکتی تھی۔ اسے بےاختیار ڈی جے یاد آئی، جب وہ ناراض ہو کر اسٹڈی میں چلی گئی تھی۔
عائشے! وہ دکھی دل سے کہتی اس کے ساتھ آبیٹھی اور ہولے سے اس کا ہاتھ تھاما۔ عائشے نےہاتھ نہیں چھڑایا۔ وہ بس اپنے گھٹنوں کو دیکھتی بے آواز روئے گئی۔
عائشے! یوں مت روؤ۔ وہ بچی ہے۔ اس نے یوں ہی کہہ دی وہ بات۔ مجھے پتا ہے، تم کسی سے نہیں لڑ سکتیں۔
بہارے ٹھیک کہہ رہی تھی۔ میں واقعی عبدالرحمن سے لڑی تھی، مگر صرف اس وقت جب میں بہت پریشان تھی لیکن وہ میری وجہ سے واپس نہیں گیا۔ وہ ہماری وجہ سے کچھ نہیں کرتا۔ وہ سب کچھ اپنی مرضی سے کرتا ہے لیکن میں کیا کرتی؟ مجھ سے آنے کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی۔
کیا ہوا آنے کو؟ عائشے نے بھیگی نگاہیں اٹھا کر اسےدیکھا۔
کیا تمہیں عبدالرحمن نے بتایا ہے کہ اس کا ایک بھائی بھی ہے؟
نہیں! وہ بری طرح چونکی۔
میں اور بہارے اپنے والدین کے ساتھ اناطولیہ کے ایک گاؤں میں رہتے تھے۔ ایک سال پہلے ہمارے والدین کا ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا تو ہماری سب سے قریبی عزیزہ یعنی ہماری دادی (آنے) ہمیں ادھر لے آئیں۔ یہ گھر آنے کا اپنا نہیں تھا۔ یہ گھر آنے کے والد کی ملکیت تھا بعد میں نسل در نسل چلتا میرے باپ اور پھر مجھ تک آیا۔ آنے کے دونوں بیٹوں نے اس سے اپنا حصہ نہیں لیا۔ سو آنے نے قانونی کاروائی کے بعد اسے میرے نام کر دیا۔ جب ہم یہاں آئے تھے، تب یہاں صرف آنے اور عبدالرحمن رہتے تھے، مگر مجھے یاد تھا کہ آنے کا ایک اور بیٹا بھی تھا۔ تب آنے نے بہت دکھ سے بتایا کہ ن کا دوسرا بیٹا ہمارے آنے سے چند ماہ قبل گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ کیوں، کیسے، عبدالرحمن لاعلم تھا۔ مگر آج سے تین ماہ قبل مجھے کسی نے بتایا کہ وہ عبدالرحمن کے آفس میں جاتے دیکھا گیا ہے اور یہ کہ وہاں سے کسی جھگڑے کی آواز آ رہی تھی۔ تب میں عبدالرحمن سے بہت لڑی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا بھائی کدھر ہے مگر اس نے ہم سب سے جھوٹ بلا۔ آنے کو تو ابھی تک نہیں معلوم کہ عبدالرحمن اس کے بارے میں جانتا ہے۔
مگر اس کا بھائی کہاں گیا؟
یہی تو میں نے عبدالحمن سے پوچھا تھا مگر وہ کسی بات کا ٹھیک جواب دے تب نا۔ وہ کہتا ہے اس نے اپنے بھائی کو نہیں نکالا، وہ خود سب کچھ چھوڑ کر گیا ہے۔ پہلے تو ان دونوں کی بہت دوستی تھی۔ عبدالرحمن پانی کی طرح اس پہ پیسہ بہایا کرتا تھا، پھر ایک دم سے وہ کیوں سب کچھ چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ یہ میری سمجھ سے باہر ہے۔ آنے اس کو بہت یاد کرتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیسے ان کے لیے کچھ کروں۔
تم نے دیکھا ہوا ہے ان کے دوسرے بیٹے کو؟
جب میں گیارہ سال کی تھی تب آخری بار اسے اپنے سامنے دیکھا تھا۔ پتا نہیں وہ اب کہاں ہو گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ استنبول میں ہی ہے، مگر ہوٹل گرینڈ میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ یونان چلا گیا اور وہاں پہ ہوٹل گرینڈ کی چین میں کام کر رہا ہے مگر یقین مانو، یونان میں ہمارے ہوٹل کی کوئی شاخ نہیں ہے۔ وہ اب رو نہیں رہی تھی مگر اس کی آواز آنسوؤں سے بوجھل تھی۔
عائشے! تم اور بہارے عبدالرحمن کی اتنی تعریفیں کرتے ہو، میں نے تم سے کبھی یہ نہیں کہا مگر آج مجھے یہ کہنے دو کہ وہ استنبول میں خاصا بدنام ہے۔ لوگ اسے اچھا آدمی نہیں سمجھتے۔
میرا دل ان باتوں کو نہیں مانتا۔ لوگ مجھے بھی آ کر یہ باتیں کہہ دیتے ہیں، مگر میں جانتی ہوں کہ وہ بہت اچھا ہے۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔ وہ واقعی بہت اچھا ہے۔ بس اس نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ اس نے ہمارے ساتھ بہت غلط کیا ہے۔ وہ عائشے کی بات نہیں سن رہی تھی۔ اس کا دماغ اسی ایک نکتہ پہ مرکوز
ہو گیا تھا۔ عبدالرحمن پاشا کا ایک گمشدہ بھائی۔ کوئی بھی شخص یوں ہی اتنا بڑا بزنس چھوڑ کر نہیں جاتا، کوئی تو بات تھی۔ بالآخر اسے عبدالرحمن کی ایک کمزوری مل گئی تھی۔
”اب آئے گا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔“
••••••••••••••••••••••••••
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا۔ صبح وہ عائشے کے زور زور سے چلانے پر ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔
کیا ہوا؟ اس نے پریشانی سے عائشے کو دیکھا جس کے چہرے پہ ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
بہارے گھر پہ نہیں ہے۔ وہ کہیں بھی نہیں ہے۔ ساری میری غلطی ہے۔ میں نے کل اسے ڈانٹا تھا۔ عائشے بس رو دینے کو تھی۔ وہ ایک جھٹکے سے بستر سے نکلی تھی۔
باہر کھڑے گارڈ نے بتایا کہ اس نے بہارے کو باہر جاتے نہیں دیکھا۔
وہ پچھلے دروازے سے نکلی ہو گی۔ اس گھر میں ایک پچھلا دروازہ بھی ہے۔ عبدالرحمن کی عنایت۔ وہ ہر شے میں بیک ڈور رکھتا ہے۔ عائشے تلخی سے بڑبڑاتی اس کے ساتھ باہر نکلی۔
عائشے! مجھے پتا ہے، وہ کدھر ہو گی۔ اسے یقین تھا کہ وہ سمندر پر گئی ہو گی۔
جب وہ اس ویران سمندر پر پہنچی تو وہ انہیں دور سے ہی نظر آ گئی۔ وہ وہیں اس پھر پر بیٹھی تھی جہاں وہ تینوں کل چٹائی ڈالے بیٹھی تھیں۔ اس کے گھنگھریالے بال ہوا سے اڑ رہے تھے اور وہ خالی خالی نگاہوں سے سمندر کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے ایک ہاتھ میں سیپ اور دوسرے میں چھرا تھا۔
بہارے! عائشے بمشکل اپنے آنسو روکتی، بھاگتی ہوئی بہارے کے گلے لگ گئی۔ تم ایسے کیوں آ گئیں؟ میں اتنی پریشان ہو گئی تھی۔
بہارے نے ویران سی نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا، پھر ہاتھ میں پکڑی سیپ عائشے کے سامنے کی۔
عائشے! میرا سیپ پھر خالی نکلا۔ اس نے بہت دکھ سے سیپ کھول کر دکھائی۔
تم میرے سارے موتی لے لینا، میں انہیں اب بازار میں نہیں بیچوں گی، تم حیا کے تینوں موتی بھی لے لینا جو اس کے کزن نے دے تھے۔
مگر اب تم روؤ گی نہیں۔
نہیں عائشے! بہارے نے نفی میں سر ہلایا۔
میرا موتی کھو گیا ہے، وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔
حیا، بہارے کے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھی اور اس کے گیلے ہاتھ تھام کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہنے لگی۔
چیزیں وقتی ہوتی ہیں، ٹوٹ جاتی ہیں، بکھر جاتی ہیں۔ رویے دائمی ہوتے ہیں۔ صدیوں کے لیے اپنا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ انسان کو کوئی چیز نہیں ہرا سکتی۔ جب تک کہ وہ خود ہار نہ مان لے اور آج تم نے ایک کھوئے ہوئے موتی سے ہار مان لی؟
بہارے نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔ وہ جیسےکچھ کہہ نہیں پا رہی تھی۔
اپنے دکھ میں دوسروں کا دل نہیں دکھاتے بہارے! میں تمہیں بالکل ویسا ہی نیکلس لا دوں گی، پرامس۔
اور پھر شام میں اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے اس نے عائشے سے کہا کہ جب عبدالرحمن کا فون آئے، وہ اسے بتائے، سو جب اس کا فون آیا تو عائشے نے کارڈلیس اسے تھما دیا اور خود دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
السلام علیکم! وہ بہت دھیمی آواز میں بولی تھی۔
وعلیکم السلام۔۔۔۔۔۔۔۔ خیریت؟ وہ جیسے بہت حیران ہوا تھا۔
جی۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ کام تھا۔ اسے یاد تھا کہ آخری دفعہ اس نے جب عبدالرحمن کو کام کہا تھا تو اس کا نتیجہ بہت بھیانک نکلا تھا مگر اب وہ اسے ایک اور موقع دے رہی تھی۔
کہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کو ہم سے بات کرنے کا خیال صرف کام کے وقت ہی آتا ہے، مگر کہیے۔
دل تو اس کا چاہا کہ فون دیوار پر دے مارے، مگر برداشت کر گئی اور ساری بات کہہ سنائی۔ آخر میں بولی۔ آپ مجھے اس شاپ کا نام بتا سکتے ہیں جہاں سے آپ نے وہ نیکلس لیا تھا؟
وہ میرا گفٹ تھا۔ سو مجھے ہی دوبارہ لینا چاہیے، لیکن چونکہ میں ابھی ملک سے باہر ہوں، تو میرا بندہ اس شاپ کے واؤچرز آپ کو دے جائے گا۔ آپ جواہر کی اس شاپ سے وہ نیکلس خرید کر بہارے کو دے دیجیے گا۔ السلام علیکم۔
بے لچک اور خشک انداز میں کہہ کر اس نے فون رکھ دیا تھا۔ حیا نے ایک متنفر نگاہ کارڈلیس پر ڈالی اور تہیہ کر لیا کہ آئندہ وہ کبھی اس شخص سے بات کرنے کی زحمت نہیں کرے گی۔
اس کا خیال بہت جلد غلط ثابت ہونے والا تھا۔
•••••••••••••••••••••
ہوٹل گرینڈ کا ملازم اگلی صبح واؤچر لے کر آیا، مگر تب جب وہ تینوں استنبول جانے کی تیاری کر رہی تھیں۔ عائشے کو بینک میں کوئی کام تھا۔ سو وہ اور بہارے اس کے ہمراہ چل رہی تھیں۔ حیا نے واؤچرز لے کر کمرے میں رکھے۔ مگر فیری کے لئے روانہ ہوتے وقت وہ انہیں اٹھانا بھول گئی۔ سو استنبول آ کر وہ جواہر نہیں گئی۔ نیکلس پھر کبھی خرید لے گی، کیونکہ اس پر پرونا تو بہارے کا موتی ہی تھا جو جانے کب نکلے۔ مگر سبانجی کے ڈورم میں جا کر وہ اپنا پزل باکس ضرور اٹھا لائی تھی۔ وہ صبح کی کلاسز کا ٹائم تھا اور ڈورم خالی پڑا تھا۔ سو نہ وہ کسی سے خود ملی اور نہ کسی سے سامنا ہوا۔
پزل باکس اور چند ضروری چیزیں لے کر جب وہ باہر آئی تو عائشے کے کاموں میں اتنا وقت ہی نہیں ملا کہ استقلال اسٹریٹ جا سکتی. وہ دوپہر تک ہی واپس آ گئے۔ اپنا پزل باکس اس نے احتیاط سے الماری میں کپڑوں کے نیچے رکھا۔ اب اس نے جلد از جلد اسے کھولنا تھا۔
رات کو وہ عائشے اور بہارے کے سونے کے بعد پزل باکس نکال کر دبے قدموں میں چلتی باہر آئی۔ اس کا رخ کچن کی طرف تھا.
کاؤنٹر سے ٹیک لگا کر کھڑے اس نے کوڈ بار کی سلائیڈذ اوپر نیچے کرنا شروع کیں۔ پہلے اس نےeAyeshy لکھا، مگر باکس جامد رہا۔ اسے یہی توقع تھی۔ یقینا باکس لیتے ہی خریدار نے پاسورڈ بدل دیا ہو گا۔ پھر اس نے Yangin لکھا جو آگ کو ترکی میں کہتے ہیں۔ باکس جوں کا توں رہا۔ اسے یہی امید تھی۔ اب اسے وہ کرنا تھا جس کی طرف ہراقلیطس کا قول اشارہ کر رہا تھا۔ آگ، اصلی والی آگ۔
اس نے ماچس اٹھائی اور تیلی سلگا کر باکس کے قریب لائی مگر آنچ لکڑی کو سیاہ کرنے لگی اور شعلہ تیلی کو کھا کر اس کی انگلی تک پہنچنے لگا تو اس نے جھنجھلا کر تیلی پھینکی۔ چند لمحے وہ کچھ سوچتی رہی، پھر باکس لیے باہر آئی۔
لونگ روم کا آتش دان سرد پڑا تھا۔ اس نے ناب پھیر کر آگ لگائی تو مصنوعی لکڑیوں والا ہیٹر جل گیا۔ وہ باکس کو دونوں ہاتھوں میں پکڑے اس جگہ کے قریب لائی جہاں صرف دہکتے انگارے تھے۔ شعلے نہ تھے۔
ہیٹر کی تپش اس کی انگلیوں کو چھونے لگی۔ وہ ضبط کر کے باکس پکڑے بیٹھی رہی۔ بار بار نگاہوں کے سامنے وہ تکلیف دہ رات ابھرتی۔ الاؤ، کھولتا مائع، دہکتی سلاخیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سر جھٹک کر توجہ باکس کی طرف مرکوز کی۔ اس نے اسے ذرا ترچھا پکڑ رکھا تھا۔ یوں کہ اس کی دو اطراف انگاروں کے سامنے تھیں۔ جو طرف ذرا زیادہ سامنے تھی۔ اس پر حروف ابھرنا شروع ہو گئے تھے۔
حروف۔۔۔۔۔۔ بلکہ الفاظ۔۔۔۔۔۔۔ فقرے۔
اس نے حیرت سے باکس کی اس سائیڈ کو دیکھا۔ جس کا رنگ تپش کے ساتھ سیاہ ہو رہا تھا اور اوپر سنہری سے الفاظ ابھر رہے تھے۔ وہ شاید لاشعوری طور پر چھ حرفی لفظ کی توقع کر رہی تھی، مگر یہاں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا نے باکس آگ سے ہٹا کر دیکھا۔اس پر لکھے وہ فقرے واضح تھے۔
وہ کوئی نظمیہ شعر تھا۔
Marked on Homer’s doubts
A Stick with twin Sprouts
(ہومر کے شبہات پہ نشان زدہ ایک چھڑی جس کی دو نوکیں ہوتی ہیں)۔
وہ ابھی ان الفاظ پہ ٹھیک سے الجھ بھی نہ سکی کہ اس کی نگاہ اس سیاہ ہوتی طرف سے متصل جگہ پر پڑی۔ جو ذرا سی تپش اس جگہ کو ملی تھی، اس نے وہاں چند ادھورے حروف ظاہر کئے تھے۔ حیاہ نے وہ طرف آگ کے سامنے کی۔ ادھورے الفاظ مکمل ہو کر ایک شعر میں ڈھل گئے۔
Round the emeralad crusified
And the Freedom Petrified
(مصلوب زدہ زمرد اور ٹھہری ہوئی آزادی کے گرد)
کسی احساس کے تحت اس نے تیسری متصل دیوار
کو آنچ دکھائی۔ باکس کی تیسری طرف بھی کسی جادوئی اثر کی طرح سیاہ پڑنے لگی اور اوپر جیسے کوئی ان دیکھا قلم سنہری روشنائی سے لکھنے لگا۔
Snapped there a bloody pine
Split there some tears divine
(ادھر خون میں ڈوبا صنوبر چٹختا تھا اور آفاقی آنسو بکھرتے تھے)۔
اب کوڈ بار سے متصل دو دیواریں اور تیسری جو کوڈ بار کے بالکل متوازی تھی، حروف سے بھری جا چکی تھیں۔ باقی اوپر ڈھکن کی سطح جہاں ہراقلیطس کا قول لکھا تھا، رہ گئی تھی، یا پھر نچلی طرف۔ اس نے دونوں کو آنچ دکھائی، مگر کچھ نا ہوا۔ اب صرف کوڈ بار والی طرف بچی تھی۔ حیا نے احتیاط سے اس کو انگاروں کے قریب کیا۔ جیسے جیسے تپش لکڑی کو چھوتی گئی، کوڈ بار کے چھ چوکھٹوں کے اوپر شعر ابھرتا گیا۔
A Love lost in symbolic smell
Under which the lines dwell
(علامتی خوشبو میں اک پیار کھو گیا، جس کے نیچے لکیریں رہتی ہیں۔)
پزل باکس کا آخری شعر۔
آٹھ مصروں کی نظم پوری ہو گئی تھی۔ اب یہ نظم کس طرف اشارہ کر رہی تھی۔ یہ اس کو ابھی سوچنا تھا۔
پہلی بار اسے بری طرح سے معتصم کی کمی محسوس ہوئی تھی۔
••••••••••••••••••••
بہارے پھول چننے کے لئے گئی تھی اور اب نیچے درختوں میں ادھر ادھر بھاگی پھر رہی تھی۔ نیکلس کا غم اب تک اسے بھول بھال چکا تھا۔ وہ عائشے کے ساتھ ایک درخت تلے چٹائی پر بیٹھی، اس کی ہدایت کے مطابق ہاتھ میں پکڑے لکڑی کے ٹکڑے کو تراش رہی تھی، سہ پہر کی نرم سی دھوپ، صنوبر کے درختوں سے چھن چھن کر ان پر گر رہی تھی۔
ایک پزل باکس بنانے کے لئے پانچ سو سات (507) لکڑی کے چھوٹے بڑے ٹکڑے درکار ہوتے تھے۔ خاصا مخنت طلب کام تھا۔ عائشے نے اناطولیہ کے ایک گاؤں میں کسی معمر چینی کاریگر سے یہ فن سیکھا تھا۔
"تمہیں واؤچرز منگوانے کی ضرورت نہیں تھی۔ عبدالرحمن کی تو قیمتی تحفے دینے کی عادت ہے۔ یوں ہی بہارے کی عادتیں بگڑتی جائیں گی۔"
اس کی بات پر حیا نے سر اٹھایا۔ اس نے ڈھیلی چوٹی باندھ کر آگے کو ڈال رکھی تھی اور چند لٹیں چہرے کے اطراف میں جھول رہی تھیں۔
میں تو اپنی طرف سے دینا چاہتی تھی مگر اس نے میری پوری بات ہی نہیں سنی. اب لے ہی آیا ہے تو واپس کیا کرنا۔ وہ سر جھکا کر رندا لکڑی کے ٹکڑے پر آگے پیچھے رگڑنے لگی۔ لکڑی کے باریک رول شدہ چپس سے نیچے گر رہے تھے۔
"اور ہاں، بہارے نے تمہارے لیے کچھ خریدا تھا.۔ اسے لگا اس نے تم سے اس دن بدتمیزی کر دی تھی۔"
اچھا؟ کیا خریدا ہے؟" وہ مدھم مسکراہٹ کے ساتھ پوچھنے لگی۔
ایک ریشمی اسکارف ہے۔"
مگر میں تو سر پہ اسکارف نہیں لیتی۔" بے اختیار اس کے لبوں سے نکلا۔ پھر پچھتائی، کسی کے تحفے کے لئے ایسے تو نہیں کہنا چاہئے۔
"کوئی بات نہیں، تم گردن میں لے لینا۔"
ہاں، یہ ٹھیک ہے۔ وہ مسکرا کر دوبارہ رندا لکڑی پر رگڑنے لگی
"تمہیں پتا ہے عائشے! جب میں چھوٹی تھی نا، دس، گیارہ سال کی، تب مجھے اسکارف پہننے کا بہت شوق تھا۔ میرے ابا اور تایا فرقان دونوں مجھے اکثر سر ڈھانپنے کو کہا کرتے تھے۔ انہیں ایسے بہت اچھا لگتا تھا۔ میری اماں بھی چاہتی تھیں کہ میں سر ڈھکا کروں، تاکہ میرے چہرے پہ نور آجائے اور میں اللہ تعالی کے بہت قریب ہو جاؤں، انہوں نے مجھے قرآن پاک حفظ کرنے کے لۓ ایک اسلامک اسکول میں بھی داخل کروایا، مگر میں تیسرے روز ہی بھاگ آئی۔ تب میرا اسکارف پہننے کو بہت دل چاہتا تھا۔
تو کیوں نہیں لیا؟
جوابا حیا نے دھیرے سے شانے اچکاۓ۔
مجھے آہستہ آہستہ سمجھ آ گئی کہ میرا فیس کٹ ایسا ہے کہ میں اسکارف میں اچھی نہیں لگوں گی۔ وہ کہہ کر سر جھکاۓ کام کرنے لگی۔ عائشے اسی طرح ہاتھ روکے اسے دیکھ رہی تھی۔
کس کو؟
"ہاں؟" اس نے نا سمجھی سے سر اٹھا کر عائشے کو دیکھا۔
"تم کس کو اسکارف میں اچھی نہیں لگو گی؟
"لوگوں کو۔"
اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
"اور کیمرے کو۔ مثلا تصویروں میں۔"
"اور؟"
"اور خود کو؟"
اور اللہ تعالی کو؟ عائشے دھیرے سے مسکرائی۔ اس کی سبز آنکھیں نرمدھوپ میں سنہری لگ رہی تھیں۔ ہو سکتا ہے تم اسکارف میں اللہ تعالی کو بہت اچھی لگتی ہو۔ وہ ایک دم، بالکل سن ہوئی، عائشے کو دیکھے گئی۔
"تم نے ایک دفعہ مجھ سے پوچھا تھا حیا! کہ میں ہر وقت اسکارف کیوں پہنتی ہوں۔ عائشے سر جھکاۓ لکڑی کے ٹکڑے کا کنارہ تراشتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔ میں تمہیں بتاؤں، میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں وہ خوبصورت ملبوسات پہنوں جو بیوک ادا میں استنبول یا اٹلی یا سپین کی لڑکیاں پہن کر آتی ہیں۔ بالکل جیسے ماڈلز پہنتی ہیں اور جب وہ اونچی ہیل کے ساتھ ریمپ پہ چلتی آ رہی ہوتی ہیں تو ایک دنیا ان کو مسحور ہو کر دیکھ رہی ہوتی ہے۔ میرا بھی دل کرتا ہے کہ میں بھی ایسے اسمارٹ اور ٹرینڈی ڈیزائنر لباس پہن کر جب سڑک پر چلوں تو لوگ مسحور و متاثر ہو کر مجھے دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ وہ سانس لینے کو رکی، حیا بنا پلک جھپکے، سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔
لیکن۔۔۔۔۔۔ پھر مجھے ایک خیال آتا ہے۔ یہ خیال کہ ایک دن میں مر جاؤں گی، جیسے تمہاری دوست مر گئی تھی اور میں اس مٹی میں چلی جاؤں گی، جس کے اوپر میں چلتی ہوں۔ پھر ایک دن سورج مغرب سے نکلے گا اور زمین کا جانور زمین سے نکل کر لوگوں سے باتیں کرے گا اور لال آندھی ہر سو چلے گی۔ اس دن مجھے بھی سب کے ساتھ اٹھایا جاۓ گا۔ تم نے کبھی اولمپکس کے وہ اسٹیڈیمز دیکھے ہیں جن میں بڑی بڑی اسکرینز نصب ہوتی ہیں؟ میں خود کو ایک ایسے اسٹیڈیم میں دیکھتی ہوں۔ میدان کے عین وسط میں کھڑے۔ اسکرین پہ میرا چہرا ہوتا ہے اور میدان لوگوں سے بھرا ہوتا ہے۔ سب مجھے ہی دیکھ رہے ہوتے ہیں اور میں اکیلی وہاں کھڑی ہوتی ہوں۔ میں سوچتی ہوں حیا، اگر اس وقت میرے رب نے مجھ سے پوچھ لیا کہ اناطولیہ کی عائشے گل، اب بتاؤ تم نے کیا، کیا؟ یہ بال، یہ چہرا، یہ جسم، یہ سب تو میں نے تمہیں دیا تھا۔ یہ نہ تم نے مجھ سے مانگ کر حاصل کیا تھا اور نہ ہی اس کی قیمت ادا کی تھی۔ یہ تو میری امانت تھی۔ پھر تم نے اسے میری مرضی کے مطابق استعمال کیوں نہیں کیا؟ تم نے اس سے وہ کام کیوں کیے جن کو میں نا پسند کرتا ہوں؟ تم نے ان عورتوں کا راستہ کیوں چن لیا جن سے میں ناراض تھا؟
میں نے ان سوالوں کے بہت جواب سوچے ہیں، مگر مجھے کوئی جواب مطمئن نہیں کرتا۔ روز صبح اسکارف لینے سے پہلے میری آنکھوں کے سامنے ان تمام حسین عورتوں کے دلکش سراپے گردش کرتے ہیں جو ٹی وی پہ میں نے کبھی دیکھی ہوتی ہیں اور میرا دل کرتا ہے کہ میں ان کا راستہ چن لوں، مگر پھر مجھے وہ آخری عدالت یاد آ جاتی ہے، تب میں سوچتی ہوں کہ اس دن میں اللہ کو کیا جواب دوں گی؟ میں ترازو کے ایک پلڑے میں وہ سراپا ڈالتی ہوں جس میں میں خود کو اچھی لگتی ہوں اور دوسرے میں وہ جس میں میں اللہ تعالٰی کو اچھی لگتی ہوں میری پسند کا پلڑا کبھی نہیں جھکتا۔ اللہ کی پسند کا پلڑا کبھی نہیں اٹھتا۔ تم نے پوچھا تھا کہ میں اسکارف کیوں لیتی ہوں؟ سو میں یہ اس لیے کرتی ہوں کیونکہ میں اللہ کو ایسے اچھی لگتی ہوں۔
وہ اب چھرے کی نوک سے لکڑی کے کنارے خم ڈال رہی تھی۔
لڑکیاں سمندر کی ریت کی مانند ہوتی ہیں حیا! عیاں پڑی ریت، اگر ساحل پہ ہو تو قدموں تلے روندی جاتی ہے۔ اور اگر سمندر کی تہہ میں ھو تو کیچڑ بن جاتی ہے، لیکن اسی ریت کا وہ ذرہ جو خود کو ایک مضبوط سیپ میں ڈھک لے، وہ موتی بن جاتا ہے۔ جوہری اس ایک موتی کے لیے کتنے ہی سیپ چنتا ہے اور پھر اس موتی کو مخملیں ڈبوں میں بند کر کے محفوظ تجوریوں میں رکھ دیتا ہے دکان کا کوئی جوہری اپنی دکان کے شوکیس میں اصلی جیولری نہیں رکھتا، مگر ریت کے ذرے کے لیے موتی بننا آسان نہیں ہوتا، وہ ڈوبے بغیر سیپ کو کبھی پا نہیں سکتا۔
حیا اب اسے نہیں دیکھ رہی تھی۔ وہ سر جھکائے ریگ مال لکڑی کے ٹکڑے پہ رگڑ رہی تھی۔ لکڑی کی گنگھریالی پتریاں اتر اتر کر نیچے گر رہی تھیں۔ اس کے اندر بھی کچھ ایسا ہی چٹخ رہا تھا۔ کیا؟ وہ سمجھ نہیں پاتی تھی اور کبھی کبھی اسے لگتا وہ کبھی سمجھ نہیں سکے گی۔
کبرٰی بہلول کے گھر اور ان کے کھیت میں کام کرتے، ادا چائے کے پتے چنتے، ان کی مرغابیوں کو دانہ ڈالتے، وہ اب ان سے چھوٹے چھوٹے بظاہر بے ضرر سوال کثرت سے پوچھنے لگی تھی وہ عائشے کے بتائے گئے دو کو کبریٰ بہلول کے دو سے جمع کر کے دیکھتی تو جواب چار کی بجائے چا سو نکلتا۔ اب اسے پھر سے عبدالرحمن پاشا کے فون کا انتظار تھا۔ کب وہ فون کرے اور وہ اپنے پتے پھینکے۔ کھیل پاشا نے شروع کیا تھا۔ اسے ختم اب وہ کرے گی۔
چند ہی روز میں اسے یہ موقع مل گیا۔ فون کی گھنٹی بجی تو اس نے کارڈ لیس اٹھا لیا اور اوپر اسٹڈی میں آ گئی۔
ہیلو؟ اس نے بظاہر سادگی سے کہ۔ا
دوسری جانب چند لمحوں کی خاموشی چھائی رہی،
پھر اس کی بھاری کھردری آواز سنائی دی۔
حیا بی بی ۔۔۔۔ کیسی ہیں آپ؟
میں ٹھیک ہوں، آپ سنائیے۔
جی الحمد اللہ۔۔۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔۔ کیا کر رہی تھیں؟ وہ محتاط لہجے میں پوچھ رہا تھا۔ جیسے اس کا فون اٹھانے کا مقصد نہ سمجھا ہو۔
میں ایک کہانی لکھ رہی تھی، کہیں تو سناؤں؟
اب کی بار دوسری جانب متذبذب خاموشی چھائی رہی، پھر وہ گہری سانس لے کر بولا۔ جی، سنا دیجیے۔
تین سال پہلے کی بات ہے، انڈیا کا اک عام سا اسمگلر اپنی ماں اور بھائی کے پاس بیوک ادا آتا ہے۔ اس کا بھائی ادا میں ایک بہت کامیاب ہوٹل چلا رہا ہوتا ہے۔ نووارد بھائی اس کے ساتھ ہوٹل کے کاموں میں دلچسپی لینا شروع کر دیتا ہے۔ بظاہر اسے اپنے بھائی کا بہت خیال ہے، مگر آہستہ آہستہ وہ ہوٹل پر قبضہ کرنے لگتا ہے۔ وہ اپنے بھائی کے تعلقات استعمال کر کے اپنے تعلقات وسیع کرتا ہے۔ مافیا کے ساتھ روابط بڑھاتا ہے اور تو اور، اس کی ایک عالمی دہشت گرد تنظیم سے بھی روابط ہیں۔ پھر آج سے ٹھیک دو سال پہلے وہ اپنے بھائی کو کچھ یوں ہراساں کرتا ہے کہ ایک روز بیچارہ بھائی چپ چاپ ہوٹل چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ یونان میں ہے، لیکن وہ درحقیقت کہاں ہے، یہ اس بڑے بھائی سے بہتر کوئی نہیں جانتا اور اس سے باز پرس کرنے والا کوئی ہے بھی نہیں، سوائے ایک بوڑھی عورت اور دو معصوم لڑکیوں کے، یوں وہ عام سا اسمگلر استنبول کے بارسوخ ترین افراد میں شامل ہو جاتا ہے، اب بتایئے کیسی لگی کہانی؟ کہتے ہیں تو پبلیشگ کے لیے دے دوں؟
اس نے بہت معصومیت سے پوچھا تھا۔
میں اس ساری بکواس سے کیا مطلب لوں؟
یہی کہ میرے بارے میں ذرا احتیاط سے کام لیجیے گا، ورنہ پیر کے نیچے دباؤ تو چیونٹی بھی کاٹ لیتی ہے۔
بہت احسان فراموش لڑکی ہو۔ تمہیں بھول گیا ہے کہ اس رات تمہیں اس بحری جہاز سے نیم مردہ حالت میں کون ادھر لایا تھا؟
لمحے بھر کو وہ بالکل چپ رہ گئی۔
میں پرسوں بیوک ادا واپس آرہا ہوں۔ تم نے جب تک ادھر رہنا ہے تم رہو میں ادھر نہیں آؤں گا اور نہ ہی تمہارے راستے میں آؤں گا، سو تم بھی میرے راستے میں آنے کی کوشش مت کرنا۔ دھمکی آمیز لہجہ اس بات کا غماز تھا کہ اس نے وہیں ہاتھ رکھا تھا، جہاں سب سے زیادہ درد ہوتا تھا۔
میں نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں، اس کا فیصلہ ابھی نہیں کیا میں نے۔ اس نے محظوظ سے انداز میں کہہ کر فون رکھ دیا
میجر احمد کا شکریہ، جس نے اسے ایک دوسرے نہج پر سوچنا سکھایا تھا۔
•••••••••••••••
اور کیا قربان کر سکتی ہو تم اپنا فاصلہ گھٹانے کے لیے؟ رات سونے سے قبل یہ آخری بات تھی جو عائشے نے اس سے پوچھی تھی۔ اس نے نیند میں ڈوبی آنکھیں کھول کر سوالیہ نگاہوں سے عائشے کو دیکھا، بولی کچھ نہیں۔
میں بتاؤں؟ تم اپنی نیند قربان کرنا سیکھ لو۔ وہ کہہ کر لیٹ گئی تو حیا نے بوجھل ہوتی آنکھیں بند کر لیں۔ صبح فجر کی اذان کے ساتھ ہی بہارے اس کا کندھا جھنجوڑ کر اسے اٹھا رہی تھی۔
اٹھ جاؤ! عائشے نے کہا ہے آج سے تم بھی ہمارے ساتھ قرآن پڑھنے جاؤ گی۔
میں؟ اس نے کسلمندی سے آنکھیں ذرا کھولیں۔ مجھے نیند آرہی ہے۔
نہیں، نہیں، اب تو تمہیں بھی جانا پڑے گا۔ یہ ٹارچر تم بھی سہو ناں۔ میں اکیلے کیوں برداشت کروں؟ اب اٹھ جاؤ۔ دم کٹی لومڑی دوسرے کی دم پھندے میں پھنستے دیکھ کے بہت خوشی خوشی اچھلتی کودتی تیار رو رہی تھی۔
حیا بدقت تمام کمبل اتار کر اٹھی۔ اسے اور ڈی جے کو صبح خیزی کی عادت تو تھی، مگر ان کی صبح فجر قضا ہونے کے بعد ہوتی تھی اور پھر بھاگم بھاگ کیمپس کی تیاری۔
اس نے اپنا لیموں کے رنگ کا زرد فراک پہنا، جو ایک دفعہ جہان کے گھر پہن کہ گئی تھی اور گیلے بال کھلے چھوڑ کر سنگھار میز کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ ابھی اس نے پرفیوم کی شیشی اٹھائی ہی تھی، بہارے عقب میں زور سے چیخی۔
یہ کیا کر رہی ہو؟
کیا؟ وہ اس کے اچانک چلانے پہ ڈر کر پلٹی۔
تم باہر جانے سے پہلے پرفیوم لگا رہی ہو؟ بہارے نے بے یقینی سے پوری آنکھیں کھول کہ اسے دیکھا۔
آ۔۔۔۔۔۔۔ہاں۔ کیا ہوا؟
عائشے گل کہتی ہے، اچھی لڑکیاں باہر جانے سے پہلے اتنا تیز پرفیوم نہیں لگاتیں۔ تم یہ باڈی اسپرے لگا لو، مگر پرفیوم نہیں۔ اللہ تعالٰی ناراض ہوتا ہے۔ وہ بہت خفگی سے ڈانٹتی ہوئی حیا کے ساتھ آ کھڑی ہوئی اور پھر ایڑیاں اونچی اٹھا کر خود کو آئینے میں دیکھتی اسکارف لپیٹنے لگی۔
حیا نے ایک ہاتھ میں پکڑے پرفیوم کو دیکھا اور پھر ذرا سا خفت سے اسے رکھ کر باڈی مسٹ اٹھا لیا۔
حلیمہ آنٹی کے لان میں چاندنی بچھی تھی۔ وہ مرکزی جگہ پر بیٹھی تھیں اور سارے چھوٹے بڑے بچے ان کے گرد نیم دائرے کی صورت بیٹھے تھے۔ وہ تینوں جس وقت داخل ہوئیں، ایک جگہ سے بچوں نے فورًا جگہ چھوڑ کر دائرہ بڑا کر دیا۔ حلیمہ آنٹی نے ایک نرم مسکراہٹ ان کی طرف اچھال کر سر کو جنبش دی۔ وہ تینوں ساتھ ساتھ بیٹھ گئیں۔
میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالی کے دھتکارے ہوئے شیطان سے۔ اللہ کے نام کے ساتھ جو بہت مہربان اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
قرآت کرنے والا بچہ سنہرے بالوں والا ترک تھا، جس نے سر پر جالی دار ٹوپی لے رکھی تھی۔ باقی بچے خاموش تھے۔ وہ اپنی باریک، مدھر آواز میں پڑھ رہا تھا۔
آپ ایمان لانے والی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھا کریں اور اپنے قابلِ ستر اعضا کی حفاظت کیا کریں۔ وہ جو جماہی روکتی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی، ایک دم گڑبڑا کر سیدھی ہو بیٹھی۔
اور وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے۔
کمسن بچے کی آواز نے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ہر سو ایک سحر سا طاری ہو رہا تھا۔ حیا نے بے اختیار سر پہ اوڑھے دوپٹے سے کان ڈھکے، جن میں اس نے موتی والی بالیاں پہن رکھی تھیں۔ وہی موتی جو جہان کے سیپ سے نکلے تھے۔ بہارے نے اسے ایک ایک موتی دونوں بالیوں میں پرو دیا تھا۔ تیسرا موتی حیا نے سنبھال رکھا تھا۔
اور انہیں چاہیے کہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پہ ڈالے رکھا کریں۔
کسی معمول کی سی کیفیت میں اس نے گردن جھکا کر دیکھا۔ اس کا شیفون کا دوپٹہ اس کے سر پر تو تھا لیکن گردن پہ اس نے مفلر کی طرح لپیٹ رکھا تھا۔ قدرے خفت سے اس نے دوپٹہ کھول کر شانوں پر ٹھیک سے پھیلا کر لپیٹا، اس وقت سوائے حکم ماننے کے اسے کوئی چارہ نظر نہیں آیا تھا۔ یہ عائشے کی باتیں نہیں تھیں، جن پہ الجھ کر ان کو ذہن سے جھٹکا جا سکتا تھا۔ یہ حکم بہت اوپر آسمانوں سے آیا تھا۔ وہاں سے، جہاں انکار نہیں سنا جاتا تھا، جہاں صرف سر جھکایا جاتا تھا۔
ترک بچہ اپنا سبق ختم کر چکا تھا۔ حلیمہ آنٹی نے بہارے کو اشارہ کیا۔ وہ اپنا قرآن سامنے کیے، تعوذ پڑھ کر اپنا سبق پڑھنے لگی۔
اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا۔
اس کے نور کی مثال ایک طاق کی طرح ہے جس میں چراغ ہیں۔
چراغ فانوس میں ہے۔
فانوس گویا ایک چمکتا ہوا تارہ ہے۔
وہ ایک بابرکت زیتون کے درخت سے روشن کیا جاتا ہے۔
نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی۔
قریب ہے کہ اس کا تیل روشن ہو جائے۔
اور اگرچہ اسے آگ بھی نہ چھوئی ہو۔
نور ہے اوپر نور کے۔
اللہ اپنے نور کی طرف راستہ دکھاتا ہے، جسے وہ چاہتا ہے۔۔۔۔
لان میں ایک دم بہت سی روشنی اتر آئی تھی۔ جیسے چمکتا چاند پورے افق پہ چھا گیا ہو۔ جیسے سونے کے پتنگے ہر سو آہستہ آہستہ نیچے گر رہے ہوں، جیسے نیلا آسمان سنہری قندیلوں سے جگمگا اٹھا ہو۔ وہ اس طلسم میں گھری، سحرزدہ سی ہوئی سنے جا رہی تھی۔
بہارے پڑھ رہی تھی۔
اور وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا۔۔۔۔۔۔
ان کے اعمال ایک چٹیل میدان میں سراب کی مانند ہیں۔
پیاسا اس کو پانی سمجھتا ہے۔
حتٰی کہ جب وہ اس کے قریب آتا ہے تو اس کو کچھ بھی نہیں پاتا۔
اور وہ وہاں اللہ کو پاتا ہے۔
پھر اللہ اس کو اس کا پورا پورا حساب دیتا ہے۔
اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔
نیلا آسمان ان دیکھی مشعلوں سے روشن تھا۔ چاندی کی مشعلیں وہاں روشن نہیں تھیں، مگر وہاں روشنی تھی۔ نور تھا اوپر نور کے۔
یا ان کی مثال سمندر کے گہرے اندھیروں کی مانند ہے ۔
پھر اسے ایک لہر ڈھانپ لیتی ہے۔ اس کے اوپر ایک اور لہر۔ اس کے اوپر بادل۔ ان میں سے بعض کے اوپر بعض اندھیرے ہیں۔ اتنا اندھیرا کہ جب وہ شخص اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے بھی نہیں دیکھ پاتا۔
اور جس کا نہیں بنایا اللہ نے کوئی نور۔
تو نہیں ہے اس کے لیے کوئی نور!
بہارے اپنا سبق ختم کر چکی تھی۔ دور مرمرا کی لہریں کناروں پر سر پٹخ پٹخ کر پلٹ رہی تھیں، واپس اپنے اندھیروں میں۔ کلاس کا وقت ختم ہوا تو سحر ٹوٹا۔ قندیلیں غائب ہو گئیں۔ صبح کی روشنی میں آسمان کے چراغ چھپ گئے۔
بچے اٹھ اٹھ کر جانے لگے۔ حلیمہ آنٹی اب ان کی طرف ہی آ رہی تھیں، مگر وہ اپنی جگہ سن سی بیٹھی کہیں بہت اندر گم تھی۔ اپنی ذات کے اندھیروں میں ۔ اندھیری لہر کے اوپر ایک اور لہر اور اس کے اوپر غم کے بادل۔ اتنا اندھیرا کے مشکلوں کا سرا سجھائی نہ دیتا تھا اور جس کا نہیں بنایا اللہ نے کوئی نور، تو نہیں ہے اس کے لیے کوئی نور!
وہ بالکل چپ سی اپنی جگہ پر اسی طرح بیٹھی تھی۔