top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر سترہ

ہوٹل گرینڈ بیوک ادا کے ایک نسبتاً ویران ساحل کے قریب واقع تھا۔ جزیرے کے بازار کے رش اور سیاحوں کے شور و ہنگامے سے دور وہ ایک بہت پر سکون سی جگہ تھی۔ ہوٹل کی بلند و بالا عمارت کی کھڑکیوں سے مرمرا کا سمندر بالکل سامنے دکھائی دیتا تھا۔ وہ ادا کا سب سے بڑا، سب سے مہنگا ہوٹل تھا۔ 
”دیمت فردوس“ پچھلے ساڑھے تین سال سے ہوٹل کے مالک کی پرسنل سیکریٹری تھی۔ اس کا عہدہ ساڑھے تین برس میں وہی رہا تھا، البتہ اس کا باس ایک دفعہ ضرور بدلا تھا۔ جب وہ تازہ تازہ ازمیر ( ترکی کا ایک شہر ) چھوڑ کر استنبول آئی تھی اور کئی جگہ نوکری کے لیے دھکے کھانے کے بعد اسے استنبول سے دور اس جزیرے پہ یہ جاب ملی تھی۔، تب دیمت کا باس عبدالرحمان پاشا نہیں تھا۔ اس وقت وہ اس کے چھوٹے بھائی کی سیکریٹری تھی، مگر ان پچھلے تین برسوں میں بہت کچھ بدلا تھا۔ 
اس نرم سی صبح میں اپنے ڈیسک کی کرسی سنبھالتے، پرس اتار کر میز پر رکھتے وئے بھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ ہوٹل گرینڈ اب بہت بدل گیا تھا۔ اس کا پچھلا باس بہت خوش خلق اور سادہ لوح سا آدمی تھا۔ ایسا آدمی جس میں کوئی بناوٹ نہیں ہوتی۔ وہ ہوٹل کا مالک ہونے کے باوجود اکثر نیچے ریسٹورنٹ کے کچن میں کام کرتا پایا جاتا تھا۔ اس کے عام سے حلیے کو دیکھ کر کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ شخص بیوک ادا کے رئیسوں میں سے ہے۔ پھر وقت بدلتا گیا۔ دیمت عبدالرحمان پاشا کو پہلے کبھی کبھار اور پھر اکثر ہوٹل میں اپنے بھائی کے ساتھ آتے دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ہوٹل کا کنٹرول اور وہ آفس عبدالرحمان کی دسترس میں چلا گیا۔ عبدالرحمان پاشا نے کیسے سب کچھ اپنے قابو میں کیا کہ کوئی چوں بھی نہ کر سکا اور اس کا بھائی کہاں چلا گیا، وہ کبھی نہیں جان سکی تھی۔ وہ اس کی سیکریٹری ہو کر بھی اپنے اور اس کے درمیان موجود فاصلے کو نہیں پاٹ سکی تھی۔ اسے عبدالرحمان پاشا کے سوائے چھوٹے موٹے دفتری کاموں کے علاوہ کچھ بھی کرنے کو نہیں دیا جاتا تھا۔ کبھی کبھی دیمت کو شک گزرتا کہ اے آر پی نے اپنی کوئی اور سیکریٹری رکھی ہوئی ہو گی، جو اس کے معمولات سے باخبر ہو گی، ورنہ اس کے پاور آفس میں کیا ہوتا ہے وہ اس سے قطعاً بے خبر تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ پچھلے چند ماہ میں اس نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ ہوٹل گرینڈ میں کچھ اور بھی ہو رہا ہے، کچھ ایسا جو غلط تھا۔ کچھ ایسا جو ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے اسے کبھی ہونے نہیں دینا چاہیے تھا، مگر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھی اور کھوج لگانے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔ اپنی دراز سے ایک فائل نکالتے ہوئے اس نے یونہی ایک سرسری سی نگاہ سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بند دروازے پر ڈالی، جس پر اے آر پی کی تختی لگی تھی، اور ٹھٹھک کر رک گئی۔
دروازے کی نچلی درز سے روشنی جھانک رہی تھی۔ کیا عبدالرحمن واپس آ گیا ہے؟ کب؟ اسے پتا ہی نہیں چلا۔ 
وہ خوشگوار حیرت میں گھری جلدی جلدی اپنی چیزوں کو ترتیب دینے لگی۔ دنیا چاہے جو بھی کہے وہ عبدالرحمان پاشا کی سب سے بڑی پرستار تھی۔ اس نے زندگی میں کبھی اتنا سحر انگیز اور شان دار آدمی نہیں دیکھا تھا۔ بات ہینڈسم ہونے یا نہ ہونے کی نہیں تھی۔ بات اس وقار اور مقناطیسیت کی تھی جو اس آدمی کی شخصیت کا خاصا تھی۔
اسی لمحے انٹر کام کی گھنٹی بجی۔ اس نے جلدی سے فون اٹھایا۔
یس سر؟ 
دیمت! برنگ میں اے کافی! اپنے بھاری اور بارعب انداز میں کہہ کر اس نے فون رکھ دیا تھا۔ وہ اپنا سارا کام چھوڑ کر نہایت مستعدی سے کافی تیار کرنے لگی۔ اس کا باس تین ماہ بعد انڈیا سے لوٹا تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ 
کافی کی ٹرے اٹھائے، اس نے دروازہ ذرا سا بجا کر کھولا۔
عبدالرحمان پاشا کا آفس نہایت شاندار اور پرتعیش انداز میں آراستہ کیا گیا تھا۔ اپنی شیشے کی چمکتی سطح والی میز کے پیچھے ریوالونگ چیئر پہ ٹیک لگا کر بیٹھا، وہ کھڑکی سے باہر پرسوچ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سگریٹ لبوں میں دبائے ہوئے تھا۔ ہلکی ہلکی بڑھی شیو میں وہ پہلے سے زیادہ باوقار لگ رہا تھا۔ دنیا کو وہ اچھا لگے یا برا، دیمت کو اس جیسا کوئی نہیں لگتا تھا۔ 
اس نے کافی میز پر رکھی۔ السلام علیکم سر اینڈ ویلکم بیک ۔ وہ مسکرا کر اپنے باس کا خوش آمدید کہہ رہی تھی۔
ہوں تھینکس! عبدالرحمان نے ایک سرسری نگاہ اس پر ڈالی اور پھر آگے ہوتے ہوئے سگریٹ انگلیوں میں پکڑ کر ایش ٹرے میں جھٹکا۔ وہاں راکھ کے بہت سے ٹکڑوں پر ایک اور ٹکڑا آن گرا۔ پاشا کے متعلق ایک بات وہ جانتی تھی، وہ اتنی بے تحاشا اسموکنگ شدید پریشانی و تفکر کے عالم میں کرتا تھا ۔ 
سر! آپ کچھ اور لیں گے؟ وہ مؤدب کھڑی پوچھ رہی تھی۔ 
میرے کوٹ پہ داغ لگ گیا ہے، اسے صاف کر لاؤ۔ اس نے میز کے دوسری جانب رکھی کرسی کے کندھوں پہ ڈالے کوٹ کی جانب اشارہ کیا۔ خود وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کیے، شرٹ کے کف کھولے بیٹھا تھا۔ اس کا لباس بھی اس کی شخصیت کی طرح ہوتا تھا۔ نفیس اور شاندار۔ 
جی سر! دیمت نے احتیاط سے کوٹ اٹھایا اور باہر نکل گئی۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد جب وہ سیاہی کا دھبہ صاف کر کے لائی تو پاشا کا آفس سگریٹوں کے دھوئیں سے بھرا تھا۔ اس کی کافی جوں کی توں رکھی تھی، البتہ ایش ٹرے میں راکھ کے ٹکڑے بڑھ چکے تھے۔ 
سر! سب ٹھیک تو ہے ناں؟ کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتی ھہوں؟ اس نے صرف پیشہ ورانہ تکلف میں نہیں بلکہ دلی تفکر کے باعث پوچھا۔ اسے معلوم تھا کہ جواباً وہ اسے نو تھینکس کہہ کر واپس جانے کو کہے گا۔ وہ اپنے معاملات کسی سے شیئر نہیں کرتا تھا۔
ہوں۔ بیٹھو! اس نے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے ہاتھ میں دو سونے کی قیمتی انگوٹھیاں تھیں جو وہ ہمیشہ پہنے رکھتا تھا۔ دیمت حیرت چھپاتی بیٹھ گئی۔ 
دیمت! وہ سگریٹ کے کش لیتے، کھڑکی کے باہر ٹھاٹھیں مارتے سمندر کو دیکھتے ہوئے بولا تو اس کا لہجہ بے لچک اور سرد تھا۔ 
کسی غیر ملکی کو ترکی سے واپس بھیجنا ہو تو کیا کیا جائے؟
(اتنی سی بات؟) 
سر! کوئی غیر ملکی اگر ترکی میں رہ رہا ہو تو یقیناً کسی وجہ سے رہ رہا ہوتا ہے۔ اسے جس چیز کی کشش ترکی میں نظر آ رہی ہو، اس چیز کو ختم کر دینا چاہیے۔ 
اور اگر وہ کشش کسی انسان کی ہو؟ مثلاً ہزبینڈ کی تو۔۔۔۔۔۔۔؟ 
تب اس کشش کو ختم کرنا چاہیے۔
اور وہ کیسے؟ عبدالرحمن نے ذرا مسکرا کر اسے محفوظ انداز میں دیکھا۔
سر! کوئی عورت اپنے شوہر کو صرف تب چھوڑتی ہے، جب اسے یہ لگتا کے اس کے شوہر نے اسے دھوکا دیا ہے۔ شدید بدگمان ہوئے بغیر عورت اپنے شوہر کو کبھی نہیں چھوڑتی۔
تمہارا مطلب ہے کہ کوئی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بہکائے؟ اونہوں! اس نے ناگواری سے سر ذرا سا جھٹکا۔ وہ کیوں کسی کی بات پہ یقین کرے گی؟
جی سر! وہ کسی دوسرے کی بات پہ یقین نہیں کرے گی، وہ صرف اپنے شوہر کی بات پہ یقین کرے گی۔
اور کوئی شوہر اپنے دھوکے یا اپنی بداعمالیوں کی داستان اپنے منہ سے اپنی بیوی کو کیوں سنائے گا؟
میں نے یہ تو نہیں کہا کہ وہ یہ سب اپنی بیوی کو کہے۔ اب کے دایمت ذرا معنی خیز انداز میں مسکرائی تھی۔ وہ یہ سب کسی اور سے کہے گا اور اگر ٹائمنگ صحیح رکھی جائے تو اس کی بیوی اس کے علم میں لاے بغیر اس کی باتیں سن لے گی۔ ایک معصوم سا اتفاق۔ بات ختم کر کے دیمت نے ذرا سے شانے اچکائے۔
عبدالرحمن کی آنکھوں میں ایک چمک در آئی۔ اس نے سگریٹ کا ٹکڑا الیش ٹرے میں پھینکا اور ذرا آ گے ہو کر بیٹھا۔ 
مگر دیمت! کوئی آدمی کسی دوسرے کے بھی سامنے اپنے کسی بدعمل کا ذکر کیوں کرے گا؟
میں نے کہا نا سر! ٹائمنگ صحیح رکھی جائے تو سب ٹھیک رہے گا۔ وہ آدمی اپنے بدعمل کی داستان نہیں سنائے گا۔ وہ عمل کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ بعض کام ایسے ہوتے ہیں جو کسی کو ہیرو بنا دیتے ہیں لیکن اگر سیاق و سباق کے بغیر پیش کیے جائیں تو وہ ہیرو کو ولن بنا دیتے ہیں۔
عبدالرحمن پاشا کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی۔ اس کے چہرے پہ چھائی فکر غائب ہو رہی تھی۔ دیمت! جو کام میں پچھلے پانچ مہینوں میں نہیں کر سکا، وہ تم نے پانچ منٹ میں کر دکھایا ہے۔ تھینک یو سو مچ۔ وہ واقعتا اس کا بہت ممنون تھا۔ 
دیمت کا دل خوشی سے بھر گیا۔ وہ بہت مسرت سے اٹھی تھی۔ گو کہ اندر سے وہ جانتی تھی کہ عبدالرحمن کسی بیوی کو اس کے شوہر سے بدظن کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ غلط کام تھا، مگر عبدالرحمن کا تشکر ہر شے پہ چھانے لگا۔
تمہارا شوہر کیسا ہے، ابھی تک وینٹ پہ ہے؟
جی سر! کرسی سے اٹھتے ہوئے اس نے مغموم انداز میں بتایا۔ ایک حادثے کے بعد اس کا شوہر کچھ عرصے سے وینٹی لیٹر پہ تھا اور یہ پورا ہوٹل گرینڈ جانتا تھا۔
ایڈوانس سیلری چاہیے ہو تو بتا دینا۔
تھینک یو سر! وہ پورے دل سے مسکرائی۔ عبدالرحمن اسے ”لالچ“ دے رہا تھا۔ یہ اس کے مشورے کا انعام تھا۔ وہ بہت فرحت سے واپس جانے کے لیے مڑی تھی۔
تمہارا ہیئر اسٹائل اچھا ہے دیمت۔!
عبدالرحمن نے اس کے عقب سے پکارا تھا۔ اس کے قدم زنجیر ہو گئے۔ وہ بہت الجھن سے واپس پلٹی۔ عبدالرحمن اب ایک فائل اٹھا کر اس کی ورق گردانی کر رہا تھا۔ وہ بظاہر اس کی طرف متوجہ نہ تھا مگر اس نے یہ بات کیوں کہی؟ پچھلے تین برسوں میں تو اسے کبھی دیمت کے بالوں کا خیال نہیں آیا تھا، نہ ہی وہ عورتوں سے شغف رکھنے والا بندا تھا۔ پر اس نے یہ کیوں کہا؟
تھینک۔۔۔۔۔۔ تھینک یو سر! وہ ذرا تذبذب بولی۔
ویسے تمہارا پچھلا ہیئر اسٹائل بھی اچھا تھا۔ 
پچھلا؟ اس نے بہت الجھ کر اپنے باس کو دیکھا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا۔ دیمت نے تو پچھلے تین برسوں میں سوائے اس کٹنگ کے، دوسری کوئی کٹنگ نہیں کرائی
تھی۔ 
ہاں، جو انتالیہ کے ساحل پہ تھا۔ تم پہ گنگھریالے سرخ بال اچھے لگتے ہیں۔ وہ فائل کی طرف متوجہ بہت سرسری انداز میں کہہ رہا تھا۔ 
دیمت کے قدموں کے نیچے سے زمین سرک گئی۔ وہ پتھر کا بت بنی رہ گئی۔ ایک دم کمرے میں گھٹن بہت بڑھ گئی تھی۔ اسے سانس نہیں آ رہا تھا۔ وہ بدقت تمام باہر نکلی اور اپنی کرسی پہ ڈھے سی گئی۔ 
انتالیہ کا ساحل، سرخ گنگھریالے سرخ بال۔۔۔۔۔ چھ سال پہلے اس نے ایک ایکس ریٹ میگزین کے لیے ماڈلنگ کی تھی۔ وہ بدنام زمانہ میگزین صرف انتالیہ میں چھپتا تھا اور وہاں سے باہر نہیں جایا کرتا تھا مگر۔۔۔۔۔۔ مگر تب اسے پیسے چاہیے تھے اور وہ نشے میں تھی۔ بعد میں وہ شرمندہ تھی۔ اس نے وہ شہر، وہ جگہ، سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ اس کے خاندان، اس کے دوستوں، کبھی کسی کو اس میگزین کی ان چند کاپیز کا علم تک نہیں ہوا تھا۔ وہ میگزین تو شاید اب ردی کا ڈھیر بن کر اس دنیا سے ہی غائب ہو گیا ہو، تو پھر عبدالرحمن پاشا کو کیسے پتہ چلا؟ 
وہ سر دونوں ہاتھوں میں گرائے بیٹھی تھی۔ اس کی بے لچک آواز کی دھمکی وہ سمجھتی تھی۔ اگر اس نے یہ گفتگو کسی کے سامنے دہرائی تو وہ میگزین منظر عام پہ آ جائے گا اور۔۔۔۔۔۔ اور اس کا گھر، بچے، زندگی سب تباہ ہو جائے گا۔ 
اس نے چہرہ اٹھا کر بے بس، متنفر نگاہوں سے اے آر پی کے آفس کے بند دروازے کو دیکھا۔
بلیک میلر! اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو امڈ آئے تھے۔ اسے آج علم ہوا تھا کہ عبدالرحمن پاشا نے کیسے ہر شے کو اپنے قابو میں کیا تھا۔
بند دروازے کہ اس پار وہ کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اس کا قیمتی موبائل تھا، جس میں وہ کوئی نمبر ڈھونڈ رہا تھا، ایک نمبر پہ آ کر اس کا ہاتھ تھم گیا۔ وہ نمبر اس نے انگریزی میں ”Brother Dearest“ کے نام سے محفوظ کر رکھا تھا۔
اب اس نمبر پر رابطہ کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ اگر ہر چیز ویسے ہوتی جائے جیسے وہ سوچ رہا تھا تو۔۔۔۔۔۔ اس نے مسکرا کر اس نمبر کو دیکھا اور پھر اس کے نام پیغام لکھنے لگا۔
میں انڈیا سے واپس بیوک ادا آچکا ہوں ۔ کیا ہم مل سکتے ہیں؟
پیغام جانے کے پورے ڈیڑھ منٹ بعد اسی نمبر سے جواب آیا تھا۔
جہنم میں جاؤ تم۔ میں تمہاری شکل بھی نہیں دکھنا چاہتا۔ 
وہ پیغام پڑھتے ہوئے محفوظ سے انداز میں ہنس پڑا۔ پھر مسکرا کر سر جھٹکتے ہوئے جوابی پیغام لکھنے لگا۔ 
میں جہنم میں بعد میں جاؤں گا، پہلے تم سے تو مل لوں۔ تم ہوٹل گرینڈ آؤ گے یا میں استقلال اسٹریٹ میں برگر کنگ پہ آجاؤں؟ 
سینڈ کا بٹن دباتے وقت وہ جانتا تھا کہ اس کے بردار ڈیرسٹ کا جواب ان دونوں جگہوں میں سے کوئی ہو گا۔ وہ انکار نہیں کرے گا۔ اس نے آج تک عبدالرحمن کو ”ناں“ نہیں کی تھی۔ وہ اسے ”ناں“ کبھی نہیں کر سکتا تھا۔
•••••••••••••••
حیا اس صبح جب حلیمہ آنٹی کے گھر سے واپس آرہی تھی تو اس کے موبائل پہ جہان کا پیغام آیا تھا۔
بگھی سے اترتے ہوئے اس نے پیغام کھول کر پڑھا۔
سنو! میں ابھی ذرا کام سے بیوک ادا آرہا ہوں۔ دوپہر میں ملتے ہیں۔ لنچ ساتھ کریں گے ٹھیک!
حیا نے حیرت سے ٹائم دیکھا۔ صبح کے سات بجے تھے، اگر وہ ابھی چلا ہو تو آٹھ، ساڑھے آٹھ تک پہنچ جائے گا، پھر وہ دوپہر تک بیوک ادا میں کیا کرے گا؟ اس کا کب سے اس جزیرے میں کوئی کام ہونے لگا؟
وہ الجھتی اندر آئی تھی۔
بیگ بیڈ پہ رکھتے ہوئے اس نے موبائل پہ جہان کا نمبر ملایا۔ نمبر بزی جا رہا تھا۔ اس نے فون رکھا اور چوکھٹ میں آ کھڑی ہوئی۔ سامنے عائشے اور بہارے اپنی چیزیں اکٹھی کرتی نظر آ رہی تھیں۔انہوں نے اب جنگل جانا تھا۔
آج میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکوں گی عائشے! جہان آ رہا ہے۔وہ ذرا الجھی الجھی سی بتا رہی تھی۔
شیور! عائشے نے سمجھ کر سر ہلا دیا اور تھیلا لیے باہر چلی گئی۔ پھر آٹھ بجے کے قریب وہ سنگھار میز کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ جہان آ رہا تھا، اسے ڈھنگ سے تیار ہو جانا چاہیے۔ اس نے ہلکے ہلکے نم بالوں میں برش پھیرا، پھر ایک دراز سے وہ تھیلی نکالی جس میں اس کا تیسرا موتی رکھا ہوا تھا۔ بہارے کی سلور چین میں اس نے وہ موتی ویسے ہی پرو دیا جسے وہ دونوں بہنیں پروتی تھیں اور چین گردن سے لگا کر دونوں ہاتھ پیچھے لے جا کر ہک بند کیا۔ تنگ زنجیر گردن سے چپک گئی تھی اور درمیان میں اٹکا موتی مزید چمکنے لگا تھا۔
اب اس نے پھر سے جہان کا نمبر ملایا، گھنٹی جا رہی تھی۔
ہیلو؟ جہان بولا تو پیچھے بازار کا مخصوص شور تھا۔
جہان تم پہنچ گئے؟
ہاں، میں تم سے دوپہر میں ملتا ہوں۔
تو تم دوپہر تک کیا کرو گے ادھر؟ 
میں وہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ذرا رکا۔ میں ایک دوست سے ملنے آیا تھا، ابھی اس کے پاس جا رہا ہوں۔ 
کون سا دوست؟ اچنبھے سے پوچھتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ جہان نے سوائے علی کرامت اور اس کی ماں کے، کبھی اپنے دوستوں کا ذکر نہیں کیا تھا۔ کیا اس کا کوئی دوست نہیں تھا یا وہ اپنے دوستوں کا ذکر مستور رکھتا تھا؟
ہے کوئی، تم نہیں جانتیں۔ اچھا۔ میں فارغ ہو کر کال کرتا ہوں۔ وہ عجلت میں لگ رہا تھا۔
اوکے! اس نے فون کان سے ہٹایا، پھر سوچا کہ لنچ پر ہی پوچھ لے گی کیوں کہ وہہ جہان کو اس سفید محل میں نہیں بلانا چاہتی تھی۔ سو جلدی سے فون کان سے لگا کر ”ہیلو جہان؟“ کہا کہ مبادا اس نے فون بند نہ کر دیا ہو۔
جہان بھی فون بند کرنے کی بجائے کان سے ہٹا کر دوسری طرف کسی سے بات کرنے میں مصروف تھا۔ اس نے یقینا حیا کا ہیلو نہیں سنا تھا۔ وہ ترکی میں کچھ کہہ رہا تھا۔
کوئی مبہم سا فقرہ جس میں ”اوتل گریند“ سمجھ میں آیا تھا۔ ساتھ ہی رابطہ منقطع ہو گیا۔
اوتل گرینڈ؟ یعنی ہوٹل گرینڈ؟ جہان نے ہوٹل گرینڈ کا ذکر کیا؟ یعنی وہ ہوٹل گرینڈ جا رہا تھا؟ وہ حیران ہونے کہ ساتھ ساتھ پریشان بھی ہو گئی۔ کیا جہان کو علم نہیں کہ وہ عبدالرحمن پاشا کا ہوٹل ہے اور پاشا تو اب بیوک ادا واپس آگیا ہے۔ لوگ عموما رسٹورانٹس میں ہی ملتے ہیں، اس لیے اس نے یقینا اپنے دوست کو وہی مقام بتا دیا ہو گا اور جہان تو سرے سے کسی عبدالرحمن کو نہیں مانتا تھا۔ پھر؟
اچھا چھوڑو سب۔ دوپہر میں اس سے ملنا تو پوچھ لینا۔
سارے خیالات ذہن سے جھٹکتی، وہ پزل باکس لے کر اٹھی اور اسٹڈی میں آ بیٹھی۔ کچھ دیر وہ باکس کو الٹ پلٹ کر دیکھتی رہی، پھر ایک دم ایک نہج پر پہنچ کر باکس میز پہ رکھ کر اٹھی اور تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آئی۔ زرد لمبے فراک پہ اس نے بھورا اسٹول شانوں کے گرد سختی سے لپیٹ لیا، بال یونہی کھلے رہنے دیے اور پرس میں کالی مرچ کا اسپرے رکھ کر وہ باہر نکل گی۔

اسے معلوم تھا کہ وہ اب جب تک جہان کو اور ہوٹل گرینڈ کو دیکھ نہیں لے گی، اسے بے چینی رہے گی،
اب چاہے اس کے لے اس کو تنہا کیوں نہ سفر کرنا پڑے۔ ویسے بھی جزیرہ چھوٹا سا تھا۔ ہوٹل گرینڈ اور اس کی عقبی پھولوں کی مارکیٹ اس محل سے قریبا پندرہ منٹ کی ہارس رائید پہ تهی مگر بندرگاہ سے اس کا فاصلہ دس منٹ اوپر تھا۔۔
کیا تم مجھے دس منٹ میں پھولوں کی مارکیٹ پہنچا سکتے ہو؟ اس نے پانچ لیرا کے دو کڑکڑاتے نوٹ بگھی بان کے سامنے کر کے سنجیدگی سے پوچھا۔بگھی بان نے ایک نظر نوٹوں کو دیکھا اور دوسری نظر اس پہ ڈالی۔
تمام! (اوکے) اگلے ہی لمحے اس کی بگھی کے دونوں گھوڑے پتھریلی سڑک پہ دوڑ رہے تھے۔
وہ ایک لمبی، سیدھی سڑک تھی جو دو رویہ درختوں سے گھری تھیاور اس کے آخری سرے پہ ہوٹل گرینڈ کی بلند وبالا عمارت کھڑی تھی۔ عمارت کے پیچھے ساحل تھا، گو وہ یہاں سے نظر نہیں آتا تھا۔ عمارت پوری کالونی میں ممتاز دکھتی تھی کیونکہ آس پاس چھوٹے موٹے کیفے تھےیا پھر پھولوں کی دوکانیں۔پھولوں کی مارکیٹ یہاں سے شروع ہو کر ہوٹل کے عقب میں پچھلی گلی تک پھیلی تھی۔
وہ پھولوں کے ایک اسٹال پہ جا کھڑی ہوئی اور یونہی بے توجہی سے پھول اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگی۔بے چین نگاہیں بار بار اٹھ کر ہوٹل کے دروازے کا طواف کرتیں۔ پتا نہیں جہان نے آنا بھی تھا یا اس نے یونہی اس ہوٹل کا تذکرہ کیا تھا؟
تب ہی گلی کے سرے پہ ایک بگھی رکتی دکھائی دی۔اس میں سے نیچے اترنے والا بلاشبہ جہان ہی تھا۔ اس نے سر پہ سرخ کیپ لے رکھی تھی اور اب وہ والٹ سے پیسے نکال کر بگھی بان کو دے رہا تھا۔
حیا جلدی سے ایک اونچے شیلف کے پیچھے جا کھڑی ہوئی جس پہ گملے رکھے تھے۔ گملوں اور پھولوں کی جھکی ٹہنیوں کی درمیانی درزوں سے اسے وہ منظر نظر آ رہا تھا۔ 
پسیے دے کر وہ آ گے بڑھ گیا۔ وہ اب ہوٹل کی مخالف سمت میں سر جھکائے، جیبوں میں ہاتھ ڈالے چلتا جا رہا تھا۔ اس کا رخ ہوٹل کی عقبی گلی کی جانب تھا۔
بے چارا آیا ہو گا کسی دوست سے ملنے، وہ کیوں اس کے پچھے پڑ گئی ہے؟ وہ کیوں اس کا تعاقب کر رہی ہے؟ اس نے جھنجھلا کر خود کو کوسا۔ جہان کے آس پاس سڑک پہ بہت سے لوگ دوسری سمت میں جا رہے تھے۔ وہ بھی اس ریلے کے پیچھے چل دی۔ اب جہان کو پکارنا بے و قوفی کے سوا کچھ نہ تھا۔ بس وہ کہیں کسی کیفے میں چلا جائے تو وہ واپس چلے جائے گی۔
گلی کے دوراہے پہ پھولوں کا ایک بڑا سا اسٹال لگا تھا۔ وہ اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی اور ایک فلورل میگزین اٹھا کر اپنے چہرے کے سامنے کر لیا۔ میگزین کے اطراف سے اسے گلی کا عقبی حصہ نظر آ رہا تھا، جہاں دور آخری سرے پہ ہوٹل گرینڈ کی پشت تھی۔وہاں ایک چھوٹا سا پرائیویٹ پارکنگ لاٹ بنا تھا اور مستعد گارڈز پہرہ دے رہے تھے۔ یقینا وہ ہوٹل کے مالکان کے لیے تھا اور وہاں پر کوئی پرائیویٹ لفٹ بھی ہو گی جو ہوٹل کے اعلی عہدیداران کو ڈائریکٹ اپنے فلور تک پہنچا دیتی ہو گی۔
اس نے میگزین کے کور کا کنارہ ذرا سا موڑ کر دیکھا۔جہان اس طرح سر جھکائے چلتا ہوا سامنے جا رہا تھا۔ہوٹل گرینڈ کی عقبی طرف۔
سیلزمین اب اس سے ”کیا چاہیے؟“ پوچھ رہا تھا۔ٹیولپس۔۔۔۔۔ سبز رنگ کا ٹیولپ مل سکتا ہے؟ اس نے اردگرد ٹیولپ کے پھولوں کو دیکھتے ہوئے وہ رنگ پوچھا جو استنبول کیا کرہ ارض پہ بھی شاید ہی ملتا۔ اس کے خیال میں!
سبز رنگ کا ٹیولپ؟ دکاندار ذرا حیران ہوا پھر بولا ”مل جائے گا۔“
اتنے زیادہ کیوں ہوتے ہیں ٹیولپس استنبول میں؟ جہاں دیکھو، ٹیولپس ہی نظر آتے ہیں۔ اس نے جلدی سے دوسرا سوال جھاڑا۔ کن اکھیوں سے اسے جہان اب پارکنگ لاٹ تک پہنچتا نظر آ رہا تھا ۔ وہاں رک کر اس نے والٹ نکال کر گارڈ کو کچھ دکھایا، شاید اپنا آئی ڈی کارڈ۔ نفی میں سر ہلا کر جوابا کچھ کہہ رہا تھا ۔
ٹیولپس تو استنبول کا سمبل ہیں۔ کیا آپ نے ٹیولپ فسٹیول کے بارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکان دار جوش و خروش سے اسے فیسٹول کے بارے میں بتانے لگا۔ جس میں اسے قطعا کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ بظاہر سر ہلا کر سنتی، گاہے بگاہے ایک نگاہ ہوٹل کے عقبی پارکنگ لاٹ پہ ڈال لیتی، جہاں وہ ابھی تک کھڑا گارڈ سے کچھ کہہ رہا تھا۔ جب تک وہ واپس پلٹا، حیا اسٹول پہ بیٹھ کر میگزین چہرے کے سامنے کیے پھولوں میں کیموفلاج ہوئی بیٹھی تھی۔ اب بس جہان چلا جائے تو وہ بھی خاموشی سے نکل جائے گی۔
کسی نے نرمی سے میگزین اس کے ہاتھ سے کھینچا۔اس نے چونک کر دیکھا۔
جب اپنا چہرہ چھپانے کے لیے میگزین اس کے سامنے کرتے ہیں تو اس کو الٹا نہیں پکڑتے۔
عین اس کے سر پہ کھڑے جہان سکندر نے نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ کر میگزین سیدھا کر کے اسے تھمایا۔
اگر زمین میں گڑ جانے سے زیادہ مبالغہ آمیز محاورہ ہوتا تو وہ اس وقت حیا سلیمان پہ صادق اترتا۔ 
وہ قدرے بوکھلا کر کھڑی ہوئی۔
اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم، تم ادھر کیا کر رہے ہو؟
جوابا جہان نے مسکراہٹ دبائے، سوالیہ آبرو اٹھائی۔
نہیں، بلکہ، میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہاں کیا کر رہی ہوں ۔ وہ ذرا خفت سے مسکرائی ۔
میں ایک کام سے آیا تھا اور تم شاید میرے پیچھے۔ وہ مسکرا کر بولا، مگر اس کا چہرہ ذرا ستا ہوا لگ رہا تھا۔
نہیں، تمہارے پیچھے کیوں، میں بھی ایک کام سے آئی تھی۔ وہ سنبھل کر مسکرا کر بولی، البتہ دل ابھی تک دھک دھک کر رہا تھا۔
واقعی؟ 
ہاں، میں اس علاقے پہ ایک رپورٹ لکھ رہی ہوں۔ ہالے کی ایک جرنلسٹ دوست کے لیے۔ بہت دلچسپ ہے۔
جہان نے جوابا نگاہیں جھکا کر اس کے خالی ہاتھوں کو دیکھا۔
اور تم کاغذ کے بغیر ہی رپورٹ لکھتی ہو؟
یہ نوٹ بک کہاں گئی؟ اوہ یہ رکھی ہے۔اس نے اب بہت اطمینان سے اسٹال کے اس طرف دکان کے کاونٹر پہ رکھی نوٹ بک اٹھائی اور اسے سینے سے لگا کر بازو لپیٹتے ہوئے مسکرا کر جہان کو دیکھا۔ جہان نے گردن موڑ کر دکان دار کو دیکھا۔ دکاندار نے ایک قلم میز سے اٹھا کر حیا کی طرف برھایا۔
یہ آپ کا قلم! کیا میرے انٹرویو کے ساتھ میری تصویر بھی چھپے گی؟ ترک دوکاندار نے بہت سادگی سے پوچھا تھا۔
کوشش کروں گی! اس نے مسکراہٹ دبائے سر ہلا دیا۔جہان شانے اچکا کر پلٹ گیا تو اس نے ایک ممنوں نگاہ دکاندار پہ ڈالی جو جوابا مسکرا دیا تھا۔ وہ جلدی سے جہان کے پیچھے لپکی۔
مل لیے دوست سے؟
نہیں۔ بعد میں ملوں گا۔ سلیمان ماموں برسوں استنبول آ رہے ہیں۔ تمہیں پتا ہے؟ وہ دونوں ساتھ ساتھ جزیرے کی ایک گلی میں چل رہے تھے۔ جب جہان نے بتایا۔
ہوں، معلوم ہے۔ اس لیے میں آج تمہارے ساتھ چلی جاؤں گی۔ اس نے ابھی ابھی کا ترتیب دیا ہوا پروگرام بتایا۔ ابا نے جب اپنے کاروباری ٹرپ کا ذکر کیا تھا تو اس نے استنبول واپس جانے کا تہیہ کر لیا تھا، اب جہان کے آنے سے آسانی ہو گئی تھی۔ اس سے زیادہ چھٹیاں وہ افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔
عیسی کی پہاڑی کس طرف تھی؟
جب سڑک ختم ہو گئی اور وہ پہاڑی راستے پر چڑھنے لگے تو جہان ایک جگہ رک گیا اور متذبذب انداز میں دو مخالف سمتوں میں جانے والے پہاڑی راستوں کو دیکھا۔
یہ کیسے ہو گیا کہ جہان سکندر کو اپنے ترکی کے راستے بھول گئے؟ وہ جتا کر مسکراتی ایک سمت اوپر چڑھنے لگی۔ ٹھنڈی ہوا سے اڑتی شال کو اس نے سختی سے شانوں کے گرد لپیٹ کر پکڑ رکھا تھا۔ جہان سکندر جب بیوک ادا تمہارے اور ڈی جے کے ساتھ آیا تھا تو اس وقت وہ دو سال بعد ادھر آیا تھا۔ اور مجھے یاد ہے، تب بھی ڈی جے کے فون کرنے پر تم بمشکل راضی ہوئے تھے۔
اوہ تم اس وقت ڈی جے کے ساتھ بیٹھی ہماری باتیں سن رہی تھیں؟ مجھے تو ڈی جے نے بتایا تھا کہ تم مصروف ہو۔ وہ اس کے پیچھے پہاڑی پہ چڑھتے ہوئے ہلکے سے مسکرا کر بولا۔
اس نے بعد میں بتایا تھا۔
وہ مڑی نہیں، مگر اسے حیرت ھہوئی تھی کہ جہان کو اتنی پرانی بات اتنی جزئیات سے یاد تھی۔ 
عیسٰی تیسی (عیسٰی کی پہاڑی) کی چوٹی پہ وہ یونہی چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے پہنچ ہی گئے تھے۔ پہاڑی کی چوٹی کسی سرسبز لان کی طرح چپٹی اور گھاس سے ڈھکی تھی۔ وہاں فاصلے فاصلے پر بہت اونچے درخت تھے یوں جیسے کسی یونیورسٹی کیمپس کا لان ہو۔ دور دور تک ٹولیوں میں لوگ بیٹھے تھے۔ 
ایک طرف ایک چوکور بلاک کی مانند لکڑی کی عظیم الشان قدیم عمارت تھی وہ ایک خستہ حال، قدیم یونانی یتیم خانہ تھا جس کو دیکھنے لوگ دور دور سے Hill jesus (عیسٰی کی پہاڑی) پہ آتے تھے۔ 
وہ دونوں ایک درخت تلے آ بیٹھے۔ حیا نے تنے سے ٹیک لگا لی، جبکہ جہان اس کے قریب ہی کہنی کے بل گھاس پہ نیم دراز ہو گیا۔ اسے بے اختیار ٹواپ قپی کے عقبی برآمدے کا منظر یاد آیا جب وہ دونوں اسی طرح بیٹھے تھے۔ لمحے جزیرے کی ہواؤں سے پھسلتے، لکڑی کی قدیم عمارت پر گر رہے تھے۔ گویا بارش کے ان دیکھے قطرے ہوں۔ 
عمارت کے قریب چند لڑکے گھاس سے ہٹ کر ایک الاؤ کے گرد بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ الاؤ سے آگ کی لپیٹیں اٹھ اٹھ کر فضا میں گم ہو رہی تھیں۔ 
جہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی تم نے اپنی جلد پر جلنے کا زخم محسوس کیا ہے؟ وہ دور اس الاؤ کو دیکھتی پوچھ رہی تھی۔ 
غریب شیف دن میں کئی بار ہاتھ جلاتا ہے مادام!
اس نے ایک نگاہ جہان پر ڈالی۔ اس نے سوال ضائع کیا تھا۔ یہ بات اسے میجر احمد سے پوچھنی چاہیے تھی۔ اس نے سوال غلط بندے سے کیا تھا۔ 
تم ہر وقت اپنے آپ کو اتنا غریب کیوں کہتے ہو؟ لمحے بھر کو اسے جہان پر بےطرح غصہ آیا تھا۔ استقلال اسٹریٹ میں تمہارا ریسٹورنٹ ہے؟ جہانگیر میں تمہارا گھر ہے اور جس روز ہم پاکستان سے آئے تھے، میں نے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی Gadget تمہارے کمرے میں رکھا تھا۔ اب وہ سب تو تمہیں گفٹ نہیں ملے تھے نا۔ 
تم زخم کی بات کر رہی تھیں۔ تمہاری گردن کا زخم ٹھیک ہوا؟ وہ بغیر شرمندہ ہوئے بہت ڈھٹائی سے موضوع بدل گیا۔ 
میرے زخم بہت سے ہیں، میں نے ان کا شمار چھوڑ دیا ہے۔ وہ ذرا تلخی سے کہتی رخ موڑ کر قدیم خستہ حال عمارت کو دیکھنے لگی۔ حرکت کرنے سے اس کے کان میں موجود بالی کا موتی ہلنے لگا تھا، مگر جہان کو تو یاد بھی نہیں ہو گا کہ حیا کو یہ موتی اس نے دیا تھا۔ 
تمہاری رپورٹ کہاں تک پہنچی؟ وہ مسکراہٹ دبائےاسے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگا جیسے اسے ابھی تک یقین نہ ہو کہ حیا ”اتفاق“ سے پھولوں کی مارکیٹ میں تھی۔
بہت دور تک۔۔۔۔۔۔۔ سننا چاہو گے؟ 
ہاں تم نے اس بیچارے دکان دار سے پھولوں کے متعلق کون سا راز اگلوایا،، ذرا میں بھی تو سنوں۔ وہ کہنی کے بل ذرا اوپر کو ہو کر بیٹھتے ہوئے بولا۔
میں پھولوں کے متعلق نہیں عبدالرحمان پاشا، اس کے گمشدہ بھائی اور ہوٹل گرینڈ کے متعلق رپورٹ لکھ رہی ہوں!
اور زندگی میں پہلی بار اس نے جہان کے چہرے سے رنگ اڑتا دیکھا۔ وہ ایکدم سیدھا ہہو کر بیٹھا۔
تم مذاق کر رہی ہو؟ 
نہیں، مگر اب تم یہ نہ کہنا کہ استنبول میں عبدالرحمان پاشا نامی کوئی بندہ نہیں ہے۔ وہ ہے اور ہوٹل گرینڈ کا مالک ہے، لیکن تم جانتے ہو، اس ہوٹل کا اصل مالک کون تھا؟ 
جہان نے جواباً سوال نہیں کیا، وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہا تھا۔ 
اس کا چھوٹا بھائی۔ عبدالرحمان کا ایک چھوٹا بھائی تھا، جو اچانک ڈیڑھ دو سال قبل منظر عام سے غائب ہو گیا۔ اگر آج وہ ادھر ہوتا تو عبدالرحمان پاشا اتنا ناقابل شکست اور مضبوط نہ بنا بیٹھا ہوتا۔ میں وجہ تلاش کر رہی ہوں جس کے باعث اس کا بھائی یوں روپوش ہوا ہے۔ 
تم یہ سب جان کر کیا کرو گی؟ وہ بہت الجھن سے اسے دیکھ رہا تھا۔
میں یہ اسٹوری ہالے کو دوں گی اور وہ اپنی صحافی دوست کو۔ یوں معصوم سی یہ کہانی اخبار میں چھپے گی اور اگر یہ چیز ایک دفعہہ میڈیا کے ہاتھ لگ جائے تو پریشر کے باعث عبدالرحمان اپنے بھائی کو ڈھونڈ نکالے گا یا میڈیا۔ وہ بہت جوش سے بولتی جا رہی تھی۔
اگر یہ اتنا آسان ہوتا تو کوئی پہلے ہی کر چکا ہوتا اور تم۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اس کے بھائی کو منظر عام پر لا کر کیا کروگی؟ 
میں چاہتی ہوں لوگ اس غلط فہمی سے نکل آئیں کہ عبدالرحمان پاشا کسی Voldemort Lord کا نام ہے۔ تم یقین کرو جہان! میں نے جتنی اس معاملے پہ تحقیق کی ہے، اتنا ہی مجھے اندازہ ہوا ہے کہ پاشا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ محض ایک جعلی پروپیگنڈا مہم ہے۔ بعض لوگ خود کو طاقتور کہلا کر اپنی انا کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ میں قانون پڑھ رہی ہوں مجھے ان باریکیوں کا پتا ہے۔ 
اچھا ہوا تم نے بتا دیا۔ تم قانون پڑھ رہی ہو، ورنہ میں تو اب تک بھول ہی چکا تھا۔ 
بات مت بدلو۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے جب میڈیا میں یہ بات آئے گی کہ ہوٹل گرینڈ کا اصل مالک یونان نہیں، بلکہ کسی چھوٹی سی جگہ پہ گمنامی کی زندگی بسر کر رہا ہے تو اس بات کو کتنا اچھالا جائے گا۔ 
اسٹاپ دس حیا! وہ ایک دم جھنجھلایا تھا۔ تم، تم۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ضرورت ہے تمہیں پرائے مسئلے میں پڑنے کی؟ ضروری تو نہیں ہے کہ پاشا نے اپنے بھائی کو نکالا ہو، ہو سکتا ہے وہ خود گیا ہو، سکتا ہے ان دونوں کے درمیان کوئی سیٹل منٹ ہو۔ ہزار ممکنات ہو سکتی ہیں۔
اور ہو سکتا ہے، اس نے خود اپنے بھائی کو واپس آنے سے روک رکھا ہو، اگر اخبارات اس خبر کو اچھالیں گے تو عبدالرحمان پاشا کی اس خود ساختہ شہرت کے غبارے سے ساری ہوا نکل جائے گی۔ وہ بہت مزے سے بولی تھی، پھر جہان کے تاثرات دیکھ کر اچنبھا ہوا۔ وہ بہت مضطرب اور کوفت زدہ سا لگ رہا تھا۔ 
عبدالرحمان پاشا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ فرق پڑے گا تو اس کے بھائی کو حیا! بہت سے لوگ نئی زندگیاں شروع کر لیتے ہیں، وہ خود ہی اپنی پرانی زندگی میں نہیں لوٹنا چاہتے۔ اس طرح اس کو ایکسپوز کر کے تم اس کی زندگی مشکل میں ڈال دو گی۔ خوامخواہ مت پڑو ان لوگوں کے مسئلوں میں۔ چلو چلتے ہیں، مجھے واپس کام پہ بھی پہنچنا ہے۔ وہ ایکدم ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے انداز میں واضح اضطراب تھا۔
تم کو اپنے دوست سے نہیں ملنا؟ 
جہان نے رک کر ایک نظر اسے دیکھا اور پھر نفی میں سر ہلا دیا۔ 
نہیں، پھر کبھی مل لوں گا۔
مجھے سامان پیک کرنے میں ذرا وقت لگے گا، تم پورٹ پر میرا انتظار کر سکتے ہو؟ میں سامان لے کر سیدھی وہیں آ جاؤں گی۔ 
میں تمہارے ساتھ ہی چلتا ہوں، تمہاری دوست کے گھر۔
نہیں، تم بور ہو جاؤ گے، مجھے ساتھ والی آنٹی سے کچھ چیزیں لینی ہیں، وقت لگ جائے گا۔ میں تمہیں پورٹ پر ملوں گی۔ وہ جہان کو عائشے گل کے گھر کے باہر لگی اے آر پاشا کی تختی دکھانے کی ہرگز متحمل نہیں تھی۔ 
اوکے! اس نے زور نہیں دیا۔ وہ شانے اچکا کر سر جھکائے نیچے اترنے لگا۔ وہ کسی اور بات پہ الجھا ہوا لگ رہا تھا۔ 
•••••••••••••••••••
گھر آ کر اس نے جلدی جلدی سامان پیک کیا۔ فون کر کے عائشے سے معذرت کی اور دوبارہ آنے کا وعدہ کر کے، ابا کی آمد کا بتا کر جب وہ اپنا بیگ لیے نہایت عجلت میں بندرگاہ جانے کے لیے نکلی تو اسے بھول چکا تھا کہ اس کا پزل باکس اوپر اسٹڈی کی میز پر پڑا رہ گیا ہے۔
•••••••••••••••••••••••
دوپہر کی سرخی بیوک ادا کی اس سر سبز درختوں سے گھری گلی پہ چھا رہی تھی۔ بلندوبالا عثمانی محل کے سفید ستون سنہری روشنی سے چمک رہے تھے۔ 
عبدالرحمان ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا گول چکر دار زینے اوپر چڑھ رہا تھا۔ اس کے جوتوں کی دھمک پہ کچن میں کام کرتی عائشے کے ہاتھ رک گئے۔ گھر میں جوتوں سمیت صرف عبدالرحمان ہی گھوما کرتا تھا۔ وہ مڈل کلاس ترکوں کی طرح گھر سے باہر کبھی جوتے نہیں اتارتا تھا بلکہ استنبول کی ہائی ایلیٹ کی طرح قالین پہ بھی جوتے پہن کے بہت تفاخر سے چلا کرتا تھا۔
عائشے نے صبح ہی اسے ایس ایم ایس کر دیا تھا کہ حیا کل چلی گئی ہے اور رات میں آنے بھی آ گئی تھیں، وہ چاہے تو گھر آ سکتا ہے۔ سو وہ آگیا تھا۔ 
اس نے جلدی سے سنک کی ٹونٹی کھولی، ہاتھ دھوئے اور انہیں خشک کیے بنا باہر نکلی تو اسے عبدالرحمان بالائی منزل کہ راہداری کے پہلے دروازے میں داخل ہوتا دکھائی دیا تھا۔ وہ اسٹڈی میں جا رہا تھا۔ عائشے تیز قدموں سے اس کے پیچھے زینے چڑھنے لگی۔ 
اسٹڈی روم کا دروازہ پورا کھلا تھا۔ عبدالرحمان ایک بک شیلف کے سامنے کھڑا کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔
السلام علیکم! اس نے چوکھٹ میں رک کر سلام کیا۔
ہوں وعلیکم! وہ ہاتھ میں پکڑی کتاب کے صفحے پلٹ رہا تھا۔ وہ اتنے دن بعد گھر واپس آیا تھا، مگر اس کا انداز ویسا ہی تھا۔ 
تم کب آئے؟ 
ابھی۔ وہ کتاب رکھ کر اسٹڈی ٹیبل کی طرف آیا اور دراز کھول کر اندر رکھی اشیاء ادھر ادھر کرنے لگا۔
کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ عائشے کو بے چینی ہوئی۔
کچھ پیپرز تھے اور ایک کتاب بھی۔ وہ اب گھٹنے کے بل زمین پر بیٹھا نچلی دراز کھول رہا تھا۔
تم ابھی تک مجھ سے ناراض ہو؟ وہ اداسی سے بولی۔
نہیں! وہ بنا پلٹے بولا تھا۔
میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ میں نے جو کہا تھا، آنے کے لیے کہا تھا۔ اتنا عرصہ ہو گیا ہے مگر تم نے اس دن کے بعد مجھ سے کبھی ٹھیک سے بات نہیں کی۔
عائشے! میرے معاملات میں مت بولا کرو! اس نے مڑ کر ایک سخت نگاہ عائشے پر ڈال کر کہا اور واپس پلٹ گیا۔ تم نے اپنی دوست کو میرے سو کالڈ بھائی کے بارے میں بتایا ہے نا، اس نے مجھے خصوصاً یہ بتانے کے لیے فون کیا تھا، تمہیں یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔
میں تمہارے حکم کی پابند تو نہیں عبدالرحمان! عائشے نے نرمی سے مگر خفا لہجے میں کہا۔ بہارے نے ہماری لڑائی کا ذکر کیا تو میں نے پوری بات بتا دی۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔ 
آنے کدھر ہیں؟ وہ اپنے ٹیبل پہ رکھی کتابیں اٹھا اٹھا کر کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔
وہ سو رہی ہیں۔ وہ کہہ کر پلٹ گئی۔ جاتے ہوئے اس کا چہرہ بہت خفا اور اداس تھا۔ وہ چلی گئی تو عبدالرحمان نے پلٹ کر دیکھا پھر برہمی سے سر جھٹکا۔ یہ لڑکی مروائے گی اسے کسی د۔
سرخ جلد والی کتاب ایک فائل تلے رکھی تھی، اس نے گہری سانس لے کر کتاب اٹھائی۔ اس کے اندر وہ کاغذات پڑے تھے جو اس نے پہلے وہاں رکھے تھے۔ کتاب اٹھا کر وہ پلٹنے ہی لگا تھا کہ اس کی نگاہ ایک شے پہ رک گئی۔ 
وہ ایک سیاہی مائل پزل باکس تھا جس کی چاروں اطراف جلی ہوئی لگتی تھیں اور ان پہ سنہری حروف ابھرے ہوئے تھے۔ 
عبدالرحمان نے کتاب واپس رکھی اور آہستہ سے وہ باکس اٹھایا، پھر اس کو الٹ پلٹ کر کے وہ سطور دیکھنے لگا۔ ایک شعر تلے کوڈ بار کے چھے چوکھٹے بنے تھے اور ان میں متفرق حروف ابھرے ہوئے تھے۔ وہ باکس پکڑے باہر آی۔ عائشے اسی وقت کچن سے نکلی جب وہ سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ عبدالرحمان نے نامحسوس انداز میں باکس والا ہاتھ پیچھے کر لیا۔ عائشے نے اسے نہیں دیکھا تھا، وہ سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئی۔ 
وہ راہداری سے گزر کر پچھلے دروازے سے ہوتا ہوا عقبی باغیچے میں آگیا۔ وہاں کونے میں عائشے کی ورک ٹیبل رکھی تھی جس پر بہارے کوئی کلرنگ بک رکھے رنگ بھر رہی تھی۔ بہارے سے وہ آتے ہوئے مل چکا تھا، سو اب اسے آتے دیکھ کر وہ سادگی مسکرا دی۔ 
بہارے! وہ مدھم مسکراہٹ لبوں پہ سجائے اس کے قریب آیا اور پزل باکس اس کے سامنے کیا۔ یہ کس کا ہے؟ 
اوہ یہ تو حیا کا ہے۔ وہ یہیں بھول گئی؟ وہ حیرت سے بولی۔ کل اس کا کزن آیا تھا تو اسے جلدی میں جانا پڑا۔ تمہیں پتا ہے اس کا کزن بہت ہینڈسم ہے۔
یہ حیا کا ہے؟ عبدالرحمان نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے دہرایا۔ 
ہاں یہ اسے کسی نے دیا تھا۔ 
کس نے؟ وہ بنا پلک جھپکے بہارے کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ 
یہ تو مجھے نہیں پتا۔ بہارے نے شانے اچکا دیے۔ 
کیا یہ عائشے نے بنایا ہے؟
ہاں، مگر تم اس سے پوچھنا نہیں۔ اس کے خریدار نے تمہیں بتانے سے منع کیا تھا۔ بہارے کی آواز سرگوشی میں بدل گئی۔ وہ مسکرا دیا۔ 
اسی لیے تو میں تم سے پوچھ رہا ہوں۔ کیا تم اس کو کھول سکتی ہو؟ 
نہیں! اس کی پہیلی ابھی حیا حل نہیں کر سکی تھی۔ تم کر سکتے ہو؟ بہارے کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
شاید۔ مگر بہارے گل! وہ ذرا سا جھکا اور دھیرے سے بولا۔ یہ باکس میرے پاس ہے، اور یہ بات تمہارے اور میرے درمیان راز رہے گی۔ تم حیا یا عائشے کو نہیں بتاؤ گی اس بارے میں۔ ٹھیک؟
ٹھیک! بہارے نے الجھتے ہوئے سر ہلایا۔ مگر تم اس کو توڑنا نہیں توڑ کر کھولنے سے اس کے اندر کی موجود شے تمہارے کام کی نہیں رہے گی۔
وہ سر ہلا کر واپس پلٹ گیا۔ بہارے اپنی کلرنگ بک چھوڑ کر اس کے پیچھے آئی۔ وہ جب تک اندر آئی، عبدالرحمان اوپر جا چکا تھا۔ وہ دبے پاؤں زینے چڑھنے لگی۔ 
تیسری منزل پہ عبدالرحمان کے کمرے کا دروازہ نیم وا تھا۔ بہارے نے چوکھٹ کے قریب سر نکال کر جھانکا۔
عبدالرحمان پزل باکس الماری میں رکھ رہا تھا۔ الماری کا پٹ بند کر کے اس نے لاک لگایا اور چابی اپنے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کی دراز میں ڈال دی۔ بہارے جلدی سے پیچھے ہٹ گئی اور بلی کی چال چلتے واپس اتر گئی۔
عبدالرحمن نے وہ باکس کیوں رکھ لیا، اس کا دماغ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔

ابا آج صبح پہنچے تھے اور اب وہ ”مرمرا ہوٹل“ میں تھے۔ مرمرا ہوٹل ٹاقسم میں واقع تھا۔ حیا اور ڈی جے نے غریب عوام کی طرح وہ شاندار ہوٹل باہر سے ہی دیکھا تھا۔ اگر ڈی جے ہوتی تو وہ دونوں اس بات کو بہت انجوائے کرتیں کہ ابا اب اسی ہوٹ لمیں رہ رہے تھے۔
اس کا ڈروم ڈی جے بغیر بہت ادھورا سا تھا۔ ڈی جے ابھی تک وہیں تھی، وہ تو جیسے کہیں گئی ہی نہیں تھی۔ ہالے نے کل ڈروم بدل لیا تھا، اب وہ ڈی جے کے بنک پہ منتقل ہو گئی تھی۔ البتہ ان دونوں نے اس بنک سے ملحقہ میز پہ ڈی جے کی ٹوٹی ہوئی عینک ٹیپ سے جوڑ کر رکھ دی تھی۔
رات انجم باجی اور ہالے اسی کے پاس رک گئی تھیں۔ وہ تینوں گھنٹوں ڈی جے کی باتیں کرتی رہی تھیں۔
جب ہم پہلی بار آپ سے ملے تھے تو اسے آپ کے انڈین ہونے پر بہت اعتراض تھا۔ اسے پاکستان کا ٹی ٹوئنٹی فائنل میں آخرہ بال پر مصباح کے آؤٹ ہونے کا بہت دکھ تھا۔ اس نے اس کے بعد کرکٹ دیکھنی ہی چھوڑ دی تھی۔ بعض دکھ اصل واقعات سے بڑے ہوتے ہیں۔ جیسے ڈی جے کی محبت سے ڈی جے کا دکھ بڑھ گیا ہے۔
اور استقلال اسٹریٹ میں جب۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے اور ہالے کے پاس بہت سے واقعات تھے۔ وہ یادوں سے نکل کر جب سوئیں تو صبح دیر سے اٹھیں۔ آج چھٹی تھی اور اب اسے ابا سے ملنے جانا تھا۔ سو اب وہ اسی لیے تیار ہو رہی تھی۔
جو گہرا سبز فراق اس نے پہنا تھا یہ وہی تھا جو وہ ڈی جے کے ساتھ آخری دفعہ پھپھو کے گھر پہن کر گئی تھی۔
بالکل پاکستان کا جھنڈا لگ رہی ہو۔
کچھ یاد کر کے وہ اداسی سے مسکرائی اور پرفیوم اٹھایا۔ ابھی اس نے اسپرے نوزل پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ بہارے کہیں آس پاس سے چیخی تھی۔
یہ کیا کر رہی ہو؟ اچھی لڑکیاں اتنا تیز پرفیوم لگا کر باہر نہیں جاتیں۔
وہ ایک دم رک گئی۔ اف، عائشے گل اور اس کی ”اچھی لڑکی“ اسے ان باتوں کو اپنے ذہن پہ حاوی نہیں کرنا چاہیے۔ اس نے دوبارہ نوزل دبانا چاہا مگر پتا نہیں کیوں اس نے پرفیوم واپس رکھ دیا۔
اپنے بازو کے اوپری حصے پہ داغے گئے الفاظ پہ وہ پہلے ہی اسکن کلر کا بینڈیج لگا چکی تھی۔ فراک کی شیفون کی آستینوں سے بازو جھلکتے تھے۔ کلر بینڈیج نے ان کو ڈھانپ لیا تھا۔ اس نے سبز ڈوپٹہ ٹھیک سے شانوں پہ پھیلایا اور کھلے بالوں کو کندھے کے ایک طرف ڈالتی باہر نکل آئی۔
اچھی لڑکیاں بال کھول کر باہر نہیں نکلتیں۔
وہ اپنے ذہن میں گونجتی آوازوں کو نظرانداز کرتی سیڑھیاں اتر رہی تھی۔
اچھی لڑکیاں اللہ تعالی کی بات مانتی ہیں۔
وہ سر جھٹکتی آخری زینہ پھلانگ آئی۔
اچھی لڑکیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھی لڑکیاں۔
اس نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔ اندھیرے پر اندھیرے۔ لہر پہ لہر۔۔۔ صبح کے وقت بھی اسے ہر طرف اندھیرا لگنے لگا تھا۔ اس کی روشنی کہاں تھی؟ 
وہ بے دلی سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی انجم باجی کے اپارٹمنٹ کی طرف آ گئی۔ انجم باجی اپنا چارجر اس کے کمرے میں بھول گئی تھیں۔ ان کا چارجر لوٹا کر اس نے اب چلے جانا تھا مگر پتا نہیں کیوں رک گئی۔
انجم باجی! میرے بالوں کی فرنچ بریڈ بنا دیں گی؟ اس نے خود کو کہتے سنا۔
ہاں۔ شیور ادھر بیٹھو! انجم باجی برش لے کر اس کے بال سنوارنے لگیں۔
حیا! تمہارے بالوں کو کیا ہوا ہے؟ فرانسیسی طرز کی چوٹی کے باریک بل باندھتے ہوئے وہ حیرت سے کہہ اٹھیں۔ وہ ذرا سی چونکی۔
"کیا ہوا؟"
"تمہاری Scalp کی جلد کا رنگ ایسا سرخ بھورا سا ہو رہا ہے، چھالے ہوئے تھے بالوں میں"؟
"نہیں، ایک شیمپو ری ایکٹ کر گیا تھا۔ بس چند دن میں ٹھیک ہو جائیں گے۔" اس نے ان سے زیادہ خود کو تسلی دی۔
چوٹی بناتے ہوئے بال کھنچ رہے تھے اور سر کی جلد درد کر رہی تھی، مگر وہ برداشت کر کے بیٹھی رہی۔ عائشے نے جب وہ ویکس اتاری تھی تو اس کے بالوں کو کتنا نقصان ہوا، کتنا نہیں، عائشے نے تفصیل کبھی نہیں بتائی تھی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ کبھی وہ اس سارے واقعے کی تفصیل دوبارہ سے سنے گی۔
اس نے انجم باجی کے اپارٹمنٹ سے نکلنے سے قبل خود کو آئینے میں نہیں دیکھا۔ اسے پتا تھا، وہ فرنچ بریڈ میں بہت اچھی نہیں لگ رہی ہو گی۔
حسین اور مومن گورسل شٹل سے اتر رہے تھے جب وہ اسٹاپ پہ پہنچی۔
"معتصم سے کہنا، مجھے اس کو کچھ دکھانا ہے۔ وہ نرم مسکراہٹ کے ساتھ حسین سے کہہ کر بس میں چڑھ گئی۔ وہ واپس آجائے پھر معتصم کے ساتھ مل کر پزل باکس کی پہیلی حل کرنے کی کوشش کرے گی۔
مرمرا ہوٹل، ٹاقسم ڈسٹرکٹ میں واقع تھا۔ شیشوں سے ڈھکی بلندوبالا عمارت، گویا کوئی اونچا سا ٹاور ہو۔ اندر سے بھی وہی چمکتا، آنکھوں کو خیرہ کرتا منظر۔
وہ پتلی ہیل سے پر اعتماد انداز میں چلتی لابی میں آئی تھی۔ ابا نے بتایا تھا کہ وہ لابی میں ہی ہوں گے اور وہ اسے دور سے ہی نظر آ گئے تھے۔ ان کا اس کی طرف نیم رخ تھا۔ وہ کھڑے کسی سے محو گفتگو تھے۔
وہ ان کی طرف بڑھنے ہی لگی تھی کہ نگاہ ابا کے ساتھ کھڑے دونوں افراد پر پڑی۔ ایک دم سے اس کے پاؤں برف کی سل بن گئے۔
ابا کے ساتھ کوئی اور نہیں، ان کے کاروباری شراکت دار لغاری انکل اور ولید لغاری تھے۔ 
گویا کرنٹ کھا کر حیا مڑی اور تیزی سے ایک دوسری راہداری میں آگے بڑھتی چلی گئی۔ صد شکر کے ان میں سے کسی کی نظر ابھی اس پر نہیں پڑی تھی۔
یہ قابل نفرت شخص کہاں سے آ گیا؟ وہ اس کا سامنا کیسے کرے؟ وہ کیا کرے؟ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ بس وہ بنا دیکھے لیڈیز ریسٹ روم کی طرف آ گئی۔
وہاں آئینے سے ڈھکی دیوار کے آگے قطار میں بیسن لگے تھے۔ ایک طرف باتھ رومز تھے۔ ایک ترک لڑکی ایک بیسن کے سامنے کھڑی آئینے میں دیکھتی لپ اسٹک درست کر رہی تھی۔
حیا اس سے فاصلے پہ آئینے کے آگے کھڑی ہو گئی۔اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے اس نے بے اختیار گردن پر ہاتھ رکھا۔ جب ولید نے اس کا دوپٹہ کھینچا تھا تو اس کی گردن پر رگڑ آئی تھی۔ ڈولی کا کھردرا ہاتھ، اس کا فرائنگ پن مگر یہاں کوئی ڈولی نہیں تھا۔ جو اس کے لیے آ جاتا۔ وہ اکیلی تھی۔ کس سے مدد مانگے، اس سے جو کسی مشکل میں اس کے ساتھ نہیں ہوتا تھا؟ مگر شاید اب کی بار۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے جلدی سے موبائل پر جہان کا نمبر ملایا۔ طویل گھنٹیاں جا رہی تھی۔
"اٹھا بھی چکو! وہ فون کام سے لگائے کوفت زدہ سی کھڑی تھی۔ آئینے میں جھلکتے اس کے چہرے پہ اب تک زخموں کے نشان مندمل ہو چکے تھے۔
پانچویں گھنٹی پر جہان کی خمار آلود آواز گونجی۔
"آپ کا مطلوبہ نمبر اس وقت سو رہا ہے۔ براہ مہربانی، کافی دیر بعد رابطہ کریں۔ شکریہ۔"
"جہان! اٹھو اور میری بات سنو !" وہ جھلا سی گئی تھی۔
"میں بہت تھکا ہوا ہوں، مجھے سونے دو، میں نے ریسٹورنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔"
"جہنم میں گیا تمہارا ریسٹورنٹ۔ تم ابھی اسی وقت مرمرا ہوٹل پہنچو۔ ابا آئے ہوئے ہیں اور ساتھ ان کے دوست وغیرہ بھی ہیں، مجھے اکیلے ان سے ملنا اچھا نہیں لگ رہا۔" اس کی آواز میں بے بسی در آئی تھی۔
ساتھ کھڑی لڑکی اب بالوں کو اونچے جوڑے میں باندھ رہی تھی۔
"میں نہیں آ رہا، مجھے آرام کرنے دو۔"
"ٹھیک ہے۔ جہنم میں جاؤ تم اور تمہارا ریسٹورنٹ۔ وہ جن لوگوں نے تمہارے ریسٹورنٹ میں توڑ پھوڑ کی تھی نا، انھوں نے بہت اچھا کیا تھا، تم ہو ہی اسی قابل-" اس نے زور سے بٹن دبا کر کال کاٹی۔
ترک لڑکی اب بیسن کی سلیب پر رکھا اسکارف اٹھا کر چہرے کے گرد لپٹ رہی تھی۔ حیا چند لمحے بے خیالی میں اسے تکتی رہی، پھر کسی میکانکی عمل کے تحت اس نے شانوں پہ پھیلا دوپٹہ اتارا اور سر پر رکھ کر چہرے کے گرد تنگ ہالہ بنا کر پلو بائیں کندھے پر ڈال لیا۔ سبز دوپٹہ کرنکل جارجٹ کا تھا اور چاروں اطراف سفید موٹی پائی پن ہوئی تھی۔ پاکستان کا جھنڈا۔ کندھے، آستین اور کلائیاں تک دوپٹے میں چھپ گئی تھیں، مگر کیا وہ اچھی بھی لگ رہی تھی؟ شاید نہیں۔
لیکن کس کو؟ کسی نے اس سے پوچھا اور ایک دم سے اس کا دل پرسکونے ہو گیا۔ اس وقت وہ لوگوں کو اچھی لگنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ وہ یہ سب اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لیے نہیں کر رہی تھی، وہ تو شاید صرف اپنا دفاع کر رہی تھی۔ نیکی، اللہ کا خوف، اسے اب بھی ان میں سے کچھ محسوس نہیں ہوتا تھا۔
"ابا! ان کے عقب میں جا کر اس نے ان کو پکارا تو وہ تینوں ایک ساتھ پلٹے۔ 
"اوہ مائی چائلڈ!" ابا خوشی سے آگے بڑھے۔ وہ ایک رسمی مسکراہٹ لبوں پہ سجائے ابا سے ملی اور لغاری انکل کو فاصلے سے سلام کر لیا۔
"بیٹا! یہ لغاری ہیں، میرے دوست اور یہ ان کے صاحب زادے ہیں ولید۔"
"مجھے تو آپ جانتی ہوں گی، ہم پہلے مل چکے ہیں-"
ولید ایک محفوظ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے بولا تھا۔
"مجھے یاد نہیں، میں ہر کسی کو یاد نہیں رکھتی -" ذرا رکھائی سے کہہ کر وہ ابا کی طرف مڑی اور اپنی بات کا رد عمل آنے سے قبل ہی بولی۔
"آپ کو کدھر لے کر جاوں ابا! استنبول کی سیر آپ کہاں سے شروع کرنا چاہیں گے؟"
"میرا خیال ہے انکل! استقلال اسٹریٹ چلتے ہیں، اس کی رونق کے بارے میں بہت سنا ہے-" ولید کی مسکراہٹ ذرا سمٹی تو تھی مگر وہ ابھی بھی مایوس نہیں ہوا تھا۔ استقلال اسٹریٹ کی رونق سے اس کا اشارہ اس جگہ کے بارز اور نائٹ کلبز کی طرف ہی تھا۔
"جہاں تم کہو، تم زیادہ جانتی ہو گی استنبول کو-" ابا مسکرا کر بولے تھے۔
"میرا خیال ہے ابا، ہم بلیو موسق (نیلی مسجد) چلتے ہیں۔ میں جہان کو بھی بتا دوں-" وہ سارا پروگرام بنا کر موبائل پہ جہان کو میسج کرنے لگی۔ جان بوجھ کر بھی جہان کا نام لینے کے باوجود بھی ان باپ بیٹے نے نہیں پوچھا کہ کون جہان؟" اسے مزید کوفت ہوئی۔ اسی کوفت زدہ انداز میں اس نے میسج لکھا۔
"ہم بلیو موسق، آیا صوفیہ اور ٹاپ قپی جا رہے ہیں، تم بھی وہیں آ جاؤ اور اگر تم نہ آئے تو میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گی-"
"یہ بات اسٹامپ پیپر پر لکھ کر دو!" فورا جواب آیا تھا۔
"فائن۔ اب میں تم سے واقعی کبھی بات نہیں کروں گی-"
"تو کیا ٹیکسٹ کرو گی؟" ساتھ ایک معصوم سا مسکراتا چہرہ بھی تھا۔ اس نے جواب نہیں دیا، اگر وہ سامنے ہوتا تو وہ اس کی گردن دپوچ لیتی۔
آیا صوفیہ اور ٹاپ قپی پیلس ساتھ ساتھ ہی واقع تھے اور ان کے سامنے سڑک کی دوسری جانب استنبول کی مشہور زمانہ نیلی مسجد تھی، پچھلی دفعہ آگر ڈی جے اور پھر جہان کی طبیعت خراب نہ ہو جاتی تو وہ لوگ نیلی مسجد ضرور جاتے مگر اب سب بدل چکا تھا۔
نیلی مسجد (سلطان احمت مسجد ) کا رنگ نیلا نہیں تھا مگر اس کی اندرونی ازمک ٹائلز نیلی تھیں۔ باہر سے اس کے گنبد یوں تھے گویا چھوٹے چھوٹے پیالے الٹے رکھے ہوں۔ مسجد کے احاطے کے آگے گیٹ تھا اور اس کے باہر قطار میں بنچ لگے تھے۔ یوں کے ہر دو پنچز کے درمیان ایک میز تھی۔
بنچ پر وہ اور ابا میز کے ایک طرف جبکہ ولید اور لغاری صاحب دوسری طرف بیٹھے تھے۔ موبائل حیا نے گود میں رکھا ہوا تھا گو کہ اب وہ جہان کی طرف سے مایوس ہو چکی تھی۔
وہاں ہر سو کبوتر پھڑ پھڑاتے ہوئے اڑ رہے تھے۔ ہوا سے اس کا دوپٹہ بھی پھسلنے لگتا، وہ بار بار اسے دو انگلیوں سے پیشانی پہ آگے کو کھینچی۔ آج اسے اپنے سر سے دوپٹا نہیں گرنے دینا تھا۔ آج نہیں۔
"رات کے سیمینار کے بعد یوں کرتے ہیں کہ عمیر خان سے مل لیں گے۔" ابا اور لغاری انکل آپس میں محو گفتگو تھے۔ ولید اسے نظروں کے حصار میں لیے اس کے مقابل بیٹھا تھا۔ وہ گردن موڑ کر لاتعلق سی اڑتے کبوتر دیکھ رہی تھی۔ 
دفعتا اس نے ابا اور لغاری انکل کو اٹھتے دیکھا۔ چونک کر اس نے گردن موڑی۔
"تم لوگ بیٹھو، ہم ابھی آتے ہیں"- اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔
انہیں کچھ دیکھنا تھا یا کوئی مل گیا تھا یا پھر شاید ولید نے اپنے باپ کو کلیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹھی رہی۔ دل کی عجیب کیفیت ہو رہی تھی۔ ابا کو بھی ترکی آکر اتاترک کا اثر ہو گیا تھا۔ پاکستان ہوتا تو وہ کبھی یوں اپنی بیٹی کو دوست کے بیٹے کے ساتھ تنہا چھوڑ کر نہ جاتے۔
"تو میں آپ کو واقعی یاد نہیں؟" وہ محفوظ انداز میں مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔ حیا نے گردن پھیر کر سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
"میرے ابا کے دوستوں کے پاس بہت کتے ہیں، مجھے کبھی کسی ایک کتے کا بھی نام نہیں یاد رہا-"
وہ جوابا اسی طرح مسکرائے گیا۔
"بہت نیک ہو گئی ہیں آپ مگر اس سرخ رنگ میں آپ بہت اچھی لگتی تھیں"-
وہ لب بھینچے رخ موڑے بیٹھی رہی۔
"کچھ کھائیں گی آپ؟ کیا پسند ہے آپ کو کھانے میں؟"
"آپ کو کیا ہے پسند کھانے میں؟ فرائینگ پین؟" اب کے وہ بھی تمسخرانہ مسکرا کر بولی تھی۔ وہ پھر بھی ڈھٹائی سے مسکراتا رہا۔ 
گاڑی نہیں ہے آپ کے پاس ادھر؟ مجھے آپ کے ساتھ ڈرائیو پر جانا اچھا لگتا"۔ وہ اسے یاد دلا رہا تھا۔ ایک سنگین غلطی جس کا پردہ وہ کبھی بھی کھول سکتا تھا۔ لمحے بھر کو وہ اندر تک کانپ گئی تھی۔
"اپنی حد میں رہیں ولید صاحب! جو رات کے اندھیرے میں آپ کو فرائینگ پین کی ایک ضرب سے زمین بوس کر سکتا ہے، وہ دن کی روشنی میں تو اس سے بھی بدتر کر سکتا ہے۔" کسی احساس کے تحت اس نے چہرہ موڑا تھا۔
دور سے جہان نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا۔ وہ ان ہی کی طرف آ رہا تھا۔ نیلی جینز پر سفید ٹی شرٹ میں ملبوس، اس کے چہرے سے لگ رہا تھا، وہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے۔
حیا کی اٹکی سانس بحال ہوئی۔ اسے زندگی میں کبھی جہان سکندر کو دیکھ اتنی خوشی نہیں ہوئی تھی، جتنی اس وقت ہو رہی تھی۔ 
وہ بے اختیار اٹھی، گود میں رکھا موبائل زمین پر جا گرا۔ وہ چونکی اور جلدی سے جھک کر فون اٹھایا۔اس کی اسکرین پر بڑی سی خراش پڑ گئی تھی۔
"کیا ہوا؟" اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھتے
ہوئے ولید بھی ساتھ ہی اٹھا تھا۔
"جی میڈم! آپ اپنی بات پر قائم ہیں؟" وہ مسکرا کر کہتا اس کے قریب آیا-" پھر نگاہ ولید پر پڑی تو اس نے سوالیہ نظروں سے حیا کو دیکھا۔
"جہان! یہ ابا کے دوست کے بیٹے ہیں، ابا ان کے والد کے ساتھ ابھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ آ گئے۔" ابا اور لغاری انکل سامنے سے چلے آ رہے تھے۔ جہان کو دیکھ کر ابا کے چہرے پر خوشگوار حیرت ابھری۔
"سوری ماموں! میں ایرپورٹ نہیں آ سکا۔ ممی نے بتایا کہ آپ نے خود منع کیا تھا۔" ابا سے مل کر وہ مدھم مسکراہٹ کے ساتھ بتا رہا تھا۔ لغاری انکل اور ولید کے ساتھ بھی وہ خوش دلی سے ملا تھا، البتہ وہ دونوں استفہامیہ نظروں سے سلیمان صاحب کو دیکھ رہے تھے۔
"اٹس اوکے، ہمیں آفیشلی پک کر لیا گیا تھا، اسی لیے میں نے سبین کو منع کر دیا تھا-" جہان نے مسکرا کر سر کو جنبش دی، پھر نگاہ لغاری انکل کے سوالیہ تاثرات پر پڑی تو جیسے جلدی سے وضاحت دی۔
"میں جہان سکندر ہوں، سلیمان ماموں کا بھانجا اور داماد۔ حیا کا ہزبینڈ!"
مرمرا کا سمندر ایک دم آسمان تک اٹھا اور کسی تھال کی طرح اس پر انڈیل دیا گیا تھا۔ وہ اس بوچھاڑ میں بالکل سن سی ہوئی جہان کو دیکھ رہی تھی جس رشتے کے متعلق نہ پوچھنے کی اس نے قسم کھا رکھی تھی، اس رشتے کا اقرار یوں اس منظر نامے میں ہو گا، اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ 
"داماد؟ اوہ آئی سی!" لغاری انکل نے بمشکل مسکرا کر سر ہلایا، پھر ایک نظر ابا پر ڈالی، جو لمحے بھر کو گنگ رہ گئے تھے، مگر جلد ہی سنبھل گئے تھے۔
"مجھے خوشی ہے جہان! کہ تم آئے-" حالانکہ وہ اس کے آنے کے بجائے کسی اور بات پر خوش تھے۔
"سوری ماموں! مجھے پہلے آنا چاہیے تھا اور اگر اب بھی نہ آتا تو حیا نے مجھ سے ساری زندگی بات نہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا-" اس نے مسکرا کر کہتے حیا کو دیکھا، وہ جوابا دھیرے سے مسکرائی۔ جیسے وہ دونوں ہمیشہ سے ہی ایسے آئیڈیل کپل کی طرح بات کرتے رہے ہو۔
ولید لغاری کے چہرے کی مسکراہٹ پھر یوں غائب ہوئی کہ وہ دوبارہ نہ مسکرا سکا۔ بعد میں وہ محتاط انداز میں سارا وقت اپنے باپ کے ساتھ بیٹھا رہا۔ وہ اپنے سامنے، اپنے باپ اور شوہر کے درمیان بیٹھی لڑکی پر اب نظر ڈالنے کی جرات نہ کر رہا تھا۔
اس سہ پہر جہان نے ان تینوں مہمانوں کی بہت اچھے سے تواضع کی۔ ٹاپ قپی اور آیا صوفیہ (میوزیم) کی راہ داریوں میں ان کو ساتھ لیے وہ ایک اچھے گائیڈ کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ آج استنبول میں حیا کا پہلا دن تھا، جب وہ بہت اعتماد سے جہان کے پہلو میں چل رہی تھی۔
"تم ان دونوں کو ہوٹل ڈراپ کر کے ابا کو گھر لے جانا، میں خود ہی گھر آ جاؤں گی۔ ابھی مجھے یہاں کچھ کام ہے۔" واپسی کے وقت اس نے جہان سے دھیرے سے کہا تھا۔ وہ شانے اچکا کر بنا اعتراض کے ساتھ چلا گیا۔ 
ان کے جانے کے بعد وہ نیلی مسجد کے گیٹ کے اندر چلی آئی۔ اسے یہاں کوئی کام نہیں تھا، اسے بس کچھ وقت کے لیے تنہائی چاہیے تھی۔
مسجد کے احاطے میں سبزہ زار پر پانی کا فوارہ ابل رہا تھا۔ اونچے گنبدوں پر چھاؤں سی چھائی تھی۔ وہ سر جھکائے روش پر چلتی اندر جا رہی تھی 
"اندھیروں پہ اندھیرے، اس کے اوپر لہر۔ اس کے اوپر بادل۔"
اس کے قدموں میں تھکاوٹ تھی۔ اس شخص کی سی تھکاوٹ جس کا سیراب اسے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ زندگی کے بائیس برس ایک دھوکے میں گزار دینے کے بعد آج اس کو پہلی بار لگا تھا کہ وہ سب صرف ایک سیراب تھا۔ چمکتی ریت جسے وہ آب حیات سمجھی تھی۔
"اور نہیں بنایا جس کے لیے اللہ نے نور، تو نہیں ہے اس کے لیے کوئی نور۔"
اندر اس عظیم الشان ہال میں وہ گھٹنوں کے گرد بازوؤں کا حلقہ بنائے، تھوڑی ان پر جمائے ساری دنیا سے لاتعلق بیٹھی تھی۔
"تو نہیں اس کے لیے کوئی نور۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اس نے ہمیشہ اپنی مرضی کی تھی۔ اس نے ہمیشہ اپنی مرضی کر کے غلط کیا تھا۔ اس نے بہت دفعہ اللہ کو "ناں" کی تھی۔ اسے کبھی اس بات سے فرق نہیں پڑا تھا کہ اللہ اسے کیسا دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ ہمیشہ وہی بنی رہی جیسے وہ خود دیکھنا چاہتی تھی۔
"وہ سمجھتا ہے اسے پانی، یہاں تک کہ وہ اس کے قریب پہنچتا تو وہاں کچھ نہیں پاتا اور وہ اس کے قریب اللہ کو پاتا ہے-"
اس نے آنکھیں بند کر کے چہرہ گھٹنوں میں چھپا لیا۔
جن دنوں اس کا تازہ تازہ یونیورسٹی میں ایڈمیش ہوا تھا، اس نے دوپٹہ بالکل گردن میں لینا شروع کر دیا تھا۔ کتنا ڈانٹتے تھے تایا فرقان اور ابا بھی شروع شروع میں کچھ کہہ دیتے، مگر جب وہ خاموشی سے ان کی بات سنی ان سنی کر کے آگے نکل جاتی تو رفتہ رفتہ سب نے کہنا چھوڑ دیا اور پھر اس سفر کی نوبت کہاں آ پہنچی؟ اس کی ویڈیو کو مجرے کا نام دیا گیا، ایک بدنام زمانہ آدمی اس کے پیچھے پڑا تھا، صائمہ تائی اس کے بارے میں آگے پیچھے ہر جگہ نازیبا باتیں کہتی پھرتی تھی اور ایک اغوا کار شخص نے اس کے بازو پر وہ نام داغ دیا تھا جو شرفاء اپنے منہ سے نہیں نکالا کرتے تھے۔
اس نے دھیرے سے سر اٹھایا۔
اللہ نور ہے، آسمانوں اور زمین کا۔۔۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page