top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر آٹھارہ

اللہ نور ہے، آسمانوں اور زمین کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
لوگ کہتے ہیں، مسجدوں میں سکون ہوتا ہے، کوئی اس سے پوچھتا تو وہ کہتی، مسجدوں میں نور ہوتا ہے۔ نور، اوپر نور کے۔
اس نے آہتگی سے گردن موڑی۔ اس کے بائیں طرف ایک تیرہ چودہ سال کا ترک لڑکا آ بیٹھا تھا۔ جس کے ایک بازو پر پلستر چڑھا تھا۔ وہ گم صم سی نگاہوں سے اوپر مسجد کی منقش چھت کو دیکھ رہا تھا۔ 
"نور کیا ہوتا ہے؟ تم جانتے ہو؟ وہ اتنی ہولے سے بولی تھی کہ اپنی آواز بھی سنائی نہ دی۔ 
"نور وہ ہوتا ہے جو اندھیری سرنگ کے دوسرے سرے پر نظر آتا ہے، گویا کسی پہاڑ سے گرتا پگھلے سونے کا چشمہ ہو۔" وہ اسی طرح چھت کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
"اور کیسے ملتا ہے نور؟"
"جس اللہ تعالی کی جتنی مانتا ہے، اسے اتنا ہی نور ملتا ہے۔ کسی کا نور پہاڑ جتنا ہوتا ہے، کسی کا درخت جتنا، کسی کا شعلے جتنا اور کسی کا پاؤں کے انگوٹھے جتنا۔۔۔۔۔۔"
لڑکے نے سر جھکا کر اپنے پاؤں کو دیکھا۔
"انگوٹھے جتنا نور، جو جلتا بجھتا ہے، بجھتا جلتا ہے۔ یہ ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو کچھ دن بہت دل لگا کر نیک عمل کرتے ہیں اور پھر کچھ دن سب چھوڑ چھاڑ کر ڈپریشن میں گھر کر بیٹھ جاتے ہیں۔
"اور انسان کیا کرے کہ اسے آسمانوں اور زمین جتنا نور مل جائے؟"
"وہ اللہ کو ناں کہنا چھوڑ دے۔ اسے اتنا نور ملے گا کہ اس کی ساری دنیا روشن ہو جائے گی- وہ ایک دفعہ پھر گردن اٹھائے مسجد کی اونچی چھت کو دیکھنے لگا تھا۔
اسے محسوس ہوا، اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ رہا ہے۔ وہ دھیرے سے اٹھی اور باہر کی طرف چل دی۔ "سنو! وہ لڑکا پیچھے سے بولا تھا۔ حیا لمحے بھر کو رکی۔
"دل کو مارے بغیر نور نہیں ملا کرتا۔"
وہ پلٹے بغیر آگے بڑھ گئی۔ دل کو مارنا پڑتا ہے، مگر ضروری تو نہیں ہے کہ ٹھوکر بھی کھائی جائے۔ انسان ٹھوکر کھائے بغیر، زخم لیے بغیر، خود کو جلائے بغیر بات کیوں نہیں مانتا؟ پہلی دفعہ میں ہاں کیوں نہیں کہتا؟ نیلی مسجد کے کبوتروں کی طرح اوپر اڑنا کیوں چاہتا ہے؟ پہلے حکم پر سر کیوں نہیں جھکاتا؟ ہم سب کو آخر منہ کے بل گرنے کا انتظار کیوں ہوتا ہے؟ اور گرنے کے بعد ہی بات کیوں سمجھ میں آتی ہے؟
اس نے ہتھیلی کی پشت سے دھیرے سے آنکھیں رگڑیں اور باہر نکل آئی۔
ایک فیصلہ تھا جو اس نے نیلی مسجد کو گواہ بنا کر کیا تھا۔ اب اسے اس فیصلے کو نبھانا تھا۔
••••••••••••••••••••••
پھپھو اور ابا لاؤنج میں بیٹھے بیتے دنوں کی باتیں کر رہے تھے۔ پھپھو بہت خوش تھیں۔ بار بار نم آنکھیں پونچھتیں۔ وہ کچن میں چائے بنا رہی تھی، جہان کیک ٹرے میں سیٹ کر رہا تھا۔ آج اس نے کون سا اعتراف کیا ہے۔ وہ سب یوں ظاہر کر رہے تھے، گویا انہیں یاد ہی نہ ہو۔
"تمہاری پڑھائی کا حرج تو بہت ہو گیا ہو گا؟ اتنے دن لگا دیے ادالار میں، ڈورم آفیسر نے طلبی کی ہو گی؟ 
وہ کیک پر کچھ چھڑکتے ہوئے پوچھ رہا تھا۔
نہیں، ڈورم میں حاضری مارکنگ کا کوئی نظام نہیں ہے۔ ہاں کلاسز کا حرج تو ہوا ہے، پانچ دن تو اسپرنگ بریکر میں شامل ہو گئے تھے۔ اوپر کے چھ دن کی غیر حاضری لگی ہو گی۔ اب مزید صرف ایک چھٹی کی گنجائش ہے میرے پاس! وہ کیتلی میں چائے انڈیلتے ہوئے بولی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو نہیں دیکھ رہے تھے۔
ایگزامز کب ہیں؟ 
مئی کے آخر سے جون کے پہلے ہفتے تک۔
اور پاکستان تم نے پانچ جولائ کو جانا ہے نا؟ یہ آخری مہینہ تو شاید صرف ترکی گھومنے کے لیے ہے۔
ہاں مگر ایکسچینج اسٹوڈنٹس کی کوشش ہوتی ہے کہ قریبی ممالک بھی دیکھ لیں۔ کوئی قطر جا رہا ہے تو کوئی پیرس۔ وہ ٹرے اٹھا کر جانے کے لیے مڑی۔
"ہم لندن چلیں؟ 
حیا نے پلٹ کر حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ اوون سے اسنیکس کی پلیٹ نکالتے ہوئے دھیرے سے مسکرایا تھا۔
ہم لندن جا رہے ہیں کچھ عرصے تک، ابا کے علاج کے لیے۔ تم بھی ساتھ چلو۔
آئیڈیا اچھا ہے، سوچوں گی۔ وہ مسکراتے ہوئے باہر آ گئی۔
میری بہت خواہش تھی بھائی کہ یہ سب پاکستان میں، سب رشتےداروں کے ساتھ ہو، لیکن شاید ایسا جلد ممکن نہ ہو اور پھر ہم دونوں تو ہیں یہاں، اس لیے میں نے سوچا کہ غیر رسمی انداز میں رسم کر لیں۔
پھپھو شاید ابا سے بات کر چکی تھیں، تب ہی مسکرا رہی تھیں، وہ جو کارپٹ پر پنجوں کے بل بیٹھی ٹرے سے پیالیاں نکال کر میز پر رکھ رہی تھی، ناسمجھی سے انہیں دیکھنے لگی۔
پھپھو مسکراتے ہوئے اٹھیں اور چند لمحوں بعد سلور ٹرے لے آئیں جس میں سرخ فیتہ رکھا نظر آرہا تھا۔ حیا نے ناسمجھی سے ٹرے کو دیکھا، پھر کچن سے ٹرالی دھکیل کر لاتے جہان کو وہ بھی پھپھو کے ہاتھ میں ٹرے دیکھ کر رکا، پھر سوالیہ نگاہوں سے ان کا چہرہ دیکھا۔
جہان سکندر! آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ پھپھو نے بظاہر مسکراتے، آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے متنبہ کیا۔ وہ شاید راضی نہیں تھا،مگر "نہیں" کہہ کر ٹرالی آگے لے آیا۔ حیا میز پر ہی ٹرے چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے اب نظر آیا، سرخ فیتے کے دونوں سروں پہ ایک ایک انگھوٹھی بندھی تھی۔
شادی کا وقت تو ظاہر ہے ہم بعد میں ڈیسائیڈ کریں گے، مگر ہر ماں کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ میں اپنی بہو کو نسبت کی انگھوٹھی پہنا دوں۔ فاطمہ بھی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ وہ دونوں انگھوٹھیوں کو پکڑے ان دونوں کے پاس آئیں۔
ان کے ہاتھ بڑھانے پر حیا نے کسی خواب کی سی کیفیت میں اپنا ہاتھ آگے کیا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے اس میں انگھوٹھی ڈالی۔ وہ ایک سادہ، پلاٹینم بینڈ تھا۔ سرخ ربن کے دوسرے سرے سے بندھا بینڈ انہوں نے جہان کی انگلی میں ڈالا، پھر ٹرے سے چھوٹی قینچی اٹھا کر ربن درمیان سے کاٹا۔ دونوں کی انگھوٹھیوں سے بندھا ربن ان کی انگلیوں کے ساتھ جھولتا رہ گیا۔ ترکی میں منگنی شاید اسی طرح ہوا کرتی تھی۔
حیا نے سن ہوتے دماغ کے ساتھ سر اٹھایا۔ جہان پھپھو کو دیکھتے ہوئے مسکرا رہا تھا اور وہ اس کی پیشانی کو چوم کر دعا دے رہی تھیں۔ ابا بھی اٹھ کر اس کو گلے سے لگائے دعا دے رہے تھے۔ وہ سب کتنا حسین تھا، کسی خواب کی طرح۔ دھنک کے سارے رنگوں سے مزین کوئی بلبلہ جو کشش ثقل سے آزاد ہو کر اوپر اڑتا جا رہا ہو۔ اوپر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اوپر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کیوں چپ بیٹھے ہو برخودار؟ ابا شاید جہان سے پوچھ رہے تھے۔
میں سوچ رہا ہوں، میں وہ پہلا آدمی ہوں جس کی منگنی، اس کی شادی کے بعد ہوئی ہے۔
وہ دھیرے سے ہنس کر بولا تھا۔ وہ نچلا لب دبائے جلدی سے ٹرے لیے کچن میں آ گئی۔ اس کا ست رنگا بلبلہ اوپر، بہت اوپر تیرتا جا رہا تھا۔ 
شام میں دیر سے جہان، ابا کو واپس چھوڑنے گیا اور پھپھو اپنے کام نبٹانے لگیں تو وہ لاؤنج میں آ بیٹھی۔ اپنی انگلی میں پہنی انگھوٹھی سے بندھے ربن کو دیکھتے ہوئے وہ زیر لب مسکرا رہی تھی۔ تب ہی لینڈ لائن فون کی گھنٹی بجی۔
ہیلو؟ اس نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری جانب کوئی نسوانی آواز تھی۔
کیا میں مسٹر جہان سکندر سے بات کر سکتی ہوں؟
نہیں، وہ ذرا باہر تک گئے ہیں۔ کوئی پیغام ہو تو دے دیجئے۔
وہ چند لمحے کی خاموشی کے بعد بولی۔
جہان کو کہنا، اس نے جو پارسل مجھے بھجوایا تھا، وہ کھو گیا ہے۔ کسی غلط ایڈریس پہ چلا گیا ہے شاید۔ میں اسے رات میں کال کروں گی۔
اس کے ساتھ ہی اس نے فون رکھ دیا۔
حیا نے ایک نظر ریسیور کو دیکھا اور پھر شانے اچکاتے ہوئے اسے کریڈل پہ ڈال دیا۔
جہان جب واپس آیا تو وہ لاؤنج میں منتظر بیٹھی تھی۔ پھپھو اب تک سونے جا چکی تھیں۔ حیا کا ارادہ تھا کہ وہ لندن کے ٹرپ کا پروگرام جہان سے ڈسکس اور بھی بہت سی باتیں تھیں مگر پہلے اس کا پیغام۔
ماموں صبح ہوٹل سے ہی ایئر پورٹ چلے جائیں گے، ہمیں آنے سے منع کر دیا ہے۔ تم ایسا کرو، دو کپ کافی بنا لاؤ، میں کچھ نئی موویز لایا تھا۔ دیکھتے ہیں۔
وہ بہت اچھے موڈ میں کہتے ہوئے ٹی وی کے نیچے بنے ریک کی طرف آیا تھا۔
اوکے لاتی ہوں اور ہاں، تمہارے لیے فون آیا تھا۔ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔ کوئی لڑکی تھی، نام تو نہیں بتایا مگر کہہ رہی تھی کہ تمہارا پارسل اسے نہیں ملا، کسی غلط ایڈریس پہ چلا گیا ہے۔ شاید وہ رات میں کال کرے۔
وہ تیزی سے مڑتے ہوئے اٹھا تھا۔
میرا پارسل اسے نہیں ملا اور کیا کہا؟ وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
کچھ نہیں۔ کافی لاؤں؟
نہیں، رہنے دو۔ وہ قدرے مضطرب انداز میں کہتے ہوئے صوفے کی طرف آیا اور فون اٹھا کر سی ایل آئی چیک کرنے لگا۔ اس کی انگلی میں انگوٹھی اب بھی تھی، مگر ربن نہیں تھا۔
تم۔۔۔۔۔۔ تمہیں صبح کیمپس بھی جانا ہو گا، تم ایسا کرو سو جاؤ۔ میں بس تھوڑا کام کروں گا۔ وہ الجھے الجھے متفکر انداز میں سی ایل آئی چیک کرتے ہوئے بولا۔
ست رنگا بلبلہ پھٹ گیا تھا۔
سارا موڈ غارت، سارا پلان ختم۔
وہ ”اچھا“ کہہ کر کمرے میں چلی آئی۔
اس کا کمرہ لاؤنج سے محقہ تھا۔ دروازے کی ہلکی سی درز اس نے کھلی رہنے دی۔ جب تک وہ سو نہیں گئی، اسے جہان صوفے پہ مضطرب سا بیٹھا فون کو دیکتا نظر آتا رہا تھا۔
وہ صبح فجر پہ اٹھی تو دیکھا، جہان اسی طرح صوفے پہ بیٹھا ، فون کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں رت جگے سے سرخ ہو رہی تھیں۔ اس لڑکی کا فون نہیں آیا تھا شاید۔ انتظار لا حاصل۔ اس کے دل پہ بہت سا بوجھ آن پڑا تھا۔
•••••••••••••••••••••••
کلاس میں وہ سر سے دوپٹا اتار کر گئی تھی اور بالکل پیچھے بیٹھی رہی۔ باہر نکلتے ہی اس نے دوپٹا پھر ٹھیک سے سر پہ لے لیا۔ کامن روم میں واپس آئی تو متعصم مل گیا۔
”حیا۔۔۔۔۔۔۔ کی آ حال ہے؟“ حسین اور متعصم اس کے لیے کھڑے ہو گئے تھے۔ ڈی جے کی سکھائی گئی اردو۔وہ اداس مسکراہٹ کے ساتھ ان کے پاس آئی۔
”میں ٹھیک ٹھاک ہوں اور آپ کی خیریت ٹھیک چاہتی ہوں۔ مجھے تمہیں کچھ دکھانا تھا۔“ آخری فقرہ اس نے انگریزی میں ادا کیا۔
”پزل باکس؟ وہ کھلا؟“
”نہیں، مگر اس پہ لکھی پہیلی مل گئی ہے۔ ٹھہرو میں لے آٶں۔“ وہ الٹے قدموں واپس پلٹ گئی۔
کمرے میں آ کر اس نے بیگ کھولا، کپڑے، جوتے، سوئیٹرز، پرس، ہر چیز الٹ پلٹ کی، مگر پزل باکس وہاں نہیں تھا۔
”کدھر گیا؟ یہیں تو تھا۔ آخری دفعہ کہاں رکھا تھا اس نے؟“ وہ سوچنے لگی۔ ”ہاں، اسٹڈی میں، جب وہ جہان کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ ”اوہ، خدا نہ کرے وہ پاشا کے ہاتھ لگے۔“
اس نے جلدی سےموبائل اٹھایا اور اس کی ٹوٹی اسکرین کو دیکھتے ہوۓ عائشے کا نمبر ملانے لگی۔
••••••••••••••••
سفید محل کے عقبی باغیچے میں سہ پہر اتری تھی۔
عائشے اسٹول پہ بیٹھی'ورگ ٹیبل پہ لکڑی کا ٹکڑا رکھے نوکدار چھرے سے اس کو چھید رہی تھی۔ اس کی آنکھیں مکمل اپنے کام پہ مرکوز تھیں۔
”عائشے! حیا کی کال!“ بہارے اس کا موبائل پکڑے بھاگتی ہوئی باہر آئی تھی۔ عائشے نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا اور پھر موبائل تھام لیا۔
”سلام علیکم حیا۔“ اب وہ فون کان سے لگائے ازلی خوش دلی سے رسمی باتیں کر رہی تھی۔ بہارے ساتھ ہی کھڑی ہو گئی اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ باتیں سننے لگی۔
”پزل باکس؟“ عائشے کی مسکراہٹ ذرا سمٹی، بھنویں الجھن سے سکڑیں۔ ”تمہارا والا کدھر رکھا تھا؟“
بہارے نے چونک کر دیکھا۔ اس کا دل اس لمحے زور سے دھڑکا تھا۔
”میں نے کل ہی پوری اسٹڈی کی صفائی اپنے سامنے کروائی ہے۔ اگر ہوتا تو مل جاتا۔ ہو سکتا ہے کہ تم ساتھ لے گئی ہو؟ اچھا تم فکر نہ کرو۔ میں دوبارہ دیکھ کر کرتی ہوں۔“ اس نے موبائل بند کر کے میز پہ رکھا۔
”بہارے! تم نے حیا کا پزل باکس تو نہیں دیکھا؟“
”نہیں!“ بہارے نے ہولے سے نفی میں سر ہلایا۔
”چلو پھر یوں کرتے ہیں کہ مل کر تلاش کرتے ہیں۔
مہمان کی چیز میزبان کے گھر میں کبھی کھونی نہیں چاہیۓ۔ بہت شرمندگی کی بات ہوتی ہے۔“
وہ چیزیں سمیٹتے ہوئےاٹھ گئی۔ بہارے سر جھکاۓ اپنی بڑی بہن کے پیچھے چل دی۔ اس کے ذہن کے پردے پہ صرف ایک آواز گونج رہی تھی۔
”یہ باکس میرے پاس ہے۔ یہ بات میرے اور تمہارے درمیان راز رہے گی۔ تم حیا یا عائشے کو نہیں بتاٶ گی اس بارے میں۔ ٹھیک؟“
”ٹھیک عبدالحمٰن!“ اس نے بےدلی سے زیر لب دہرایا۔
••••••••••••••••••••••
اس روز جب عائشے نے اسے ایس ایم ایس کیا تب وہ ہالے کے ساتھ جمعہ کی نماز پہ ایوب سلطان جامعه
آئی ہوئی تھی۔
نماز جمعہ پہ جامعہ میں خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ ترک رسم کے مطابق کم سن بچے جمعے کی نماز پڑھنے سلطان کے مخصوص لباس میں آتے۔ سنہری پگڑی، سنہرا اور سفید زرتار لباس، میان میں تلوار، کامدار جوتے پہنے وہ ننھے سلاطین اپنی ماٶں کی انگلیاں تھامے ہر جگہ پھر رہے ہوتے۔
انصاری محلے میں ہالے کے ساتھ چلتے ہوۓ اسے بے اختیار اپنا اور ڈی جے کا ترکی میں پہلا دن یاد آ یا تھا۔ وہ دن جو بہت طویل تھا۔ اب ان ساڑھے تین ماہ میں کتنا کچھ بدل چکا تھا۔
انصاری محلے میں استنبول کے بہترین اور سستے اسکارف ملا کرتے تھے۔ وہ اب سر ڈھکے بغیر باہر نہیں نکلتی تھی، مگر اس کے سارے دوپٹے شیفون کے یا ریشمی ہوتے، جو سر پہ نہیں ٹکتے تھے۔ اب وہ یہاں ایسے اسکارف لینے آئی تھی، جو سادہ اور ایک رنگ کے ہوں نہ کہ ایسے شوخ اور کام دار کہ ہر کسی کی توجہ گھیریں۔ اسے اب کسی اور کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرنا تھا۔ جہان اس کا تھا۔ اسے اور کچھ نہیں چاہیے تھا۔
وہ اپنے چند جوڑوں کے ساتھ ہم رنگ اسکارف پیک کروا رہی تھی، جب میسج ٹون بجی۔ اس نے فون نکال کر خراش زدہ اسکرین کو دیکھا۔ عائشے کا پیغام جگمگا رہا تھا۔
”میں نے سارے گھر میں ڈھونڈا، مگر نہیں ملا۔ تم خود کسی دن آ جاٶ، دوبارہ مل کر ڈھونڈ لیتے ہیں۔“
اس نے ویک اینڈ پہ آنے کا وعدہ کر کے موبائل پرس میں رکھ دیا۔
”واپسی پہ جواہر چلتے ہیں، مجھے فون کی اسکرین ٹھیک کروانی ہے۔“
”شیور!“ ہالے نے ہامی بھر لی۔ وہ ڈی جے کے بعد اس کے ساتھ ساتھ ہی رہا کرتی تھی۔ ہالے ان لوگوں میں سے تھی جو دوسروں کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور بدلے کی توقع کے بغیر مدد کرتے رہتے ہیں۔ ترکی کے پر خلوص لوگ!
ٹاقسم سے انہوں نے انڈر گراٶنڈ میٹرو پکڑی۔ پہلا اسٹاپ چھوڑ کر وہ دوسرے پہ اتر گئیں۔ اسٹیشن سے باہر سامنے ہی جواہر شاپنگ مال تھا۔ بلندوبالا کھجور کے درخت، لش چمکتا مال۔ روشنیوں کا سمندر۔
ہالے کچھ کھانے کے لیے ٹیک اوے کرنے ایک ریسٹورنٹ میں چلی گئی اور وہ بالائی فلور پہ فون ریپئیرنگ شاپ پہ آ گئی۔
”پانچ دس منٹ کا کام ہے میم! آپ کاٶچ پہ بیٹھ جائیں۔ میں ابھی کر دیتا ہوں۔“ جس ترک دکان دار لڑکے نے اس سے فون لیا تھا، وہ فون کا معائنہ کر کے بولا۔
وہ سر ہلا کر سامنے کاٶچ پہ آبیٹھی اور ریک سے ایک میگزین اٹھا کر یونہی ورق گردانی کرنے لگی۔
لڑکا اب شو کیس کے پیچھے کھڑا،اس کے موبائل کے ٹکڑے الگ کر رہا تھا۔ کیسنگ اتار کر اس نے بیٹری نکالی تو ایک دم رک گیا اور سر اٹھا کر قدرے تذبذب سے حیا کو دیکھا۔
”میڈم!“ اس نے ذرا الجھن سے پکارا۔ حیا نے میگزین سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ”کیا ہوا؟“
”یہ لگا رہنے دوں؟“
”کیا؟“ وہ رسالہ رکھ کر اس کے قریب چلی آئی۔
”آپ کے فون میں جی پی ایس ٹریسر ہے۔ اسے لگا رہنے دوں؟“
”ٹریسر؟ میرے فون میں ٹریسر ہے؟“ وہ سانس لینا بھول گئی تھی۔
”اوہ! آپ کو نہیں معلوم تھا اور جس نے یہ ٹریسر ڈالا ہے، وہ تو ہمہ وقت آپ کی لوکیشن ٹریس کر رہا ہو گا۔“
وہ بنا پلک جھپکے اپنے موبائل کے اندر لگے ناخن برابر باریک ٹریسر کو دیکھے گئی۔
اور وہ سوچتی تھی، پاشا کو اس کی لوکیشن کا کیسے پتہ چلتا ہے؟ یقیناً اس کے پچھلے فونز میں بھی ٹریسرز ہوں گے۔ تب ہی۔
”یہ بہت سوفسٹی کیٹڈ ہے میم! وہ جب چاہے اس سے فون کا مائیک آن کر کے آپ کی گفتگو بھی سن سکتا ہے۔ اب اس کا کیا کروں؟“
وہ چند لمحے اسے دیکھے گئی۔ اس کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔
”اسے لگا رہنے دو۔“
”رئیلی؟“ لڑکا حیران ہوا تھا۔
”ایک ٹریسر نکالوں گی تو وہ دس اور ڈال دے گا۔ اس لیے بہتر ہے میں اس کو اسی ٹریسر سے دھوکا دیتی رہوں۔ میں ہر جگہ اسے ساتھ نہیں لے کر جاٶں گی۔خصوصاً اس جگہ نہیں، جہاں میں نہیں چاہتی کہ اس کو پتہ چلے۔“
”اوہ ویری اسمارٹ!“ لڑکا مسکرا دیا۔ ”میں آپ کو کسی چھوٹی سی ڈبی میں یہ ڈال دیتا ہوں تا کہ آپ کو اسے بار بار فون سے علیحدہ نہ کرنا پڑے۔“
وہ اب احتیاط سے وہ ننھا سا ٹریسر نکال رہا تھا۔ حیا ابھی تک بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہی تھی۔
عبدالرحمٰن پاشا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیا کرے اس آدمی کا؟ وہ اپنا اتنا وقت اور توانائی اس پہ کیوں صرف کرتا تھا؟کیا یہ اندھی محبت تھی؟ شاید کچھ اور؟
•••••••••••••••••••
اندھیرے کمرے میں مدھم سبز نائٹ بلب کی روشنی بکھری تھی اور جزیرے کے ساحل سے سر ٹکراتی لہروں کی سرسراہٹ یہاں تک محسوس ہوتی تھی۔عائشے آنکھوں پہ بازو رکھے قریباً نیند میں جا چکی تھی۔ جب بہارے نے پکارا۔
”عائشے، بات سنو!“ وہ چت لیٹی چھت پہ کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہی تھی۔ نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
”ہوں؟“ عائشے کی آواز نیم غنودگی سے بوجھل تھی۔
”جب بندہ بار بار جھوٹ بولتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟“
”اللٰہ اسے اپنے پاس۔ ”بہت جھوٹ بولنے والا“ لکھ لیتا ہے۔“
بہارے نے چونک کر اسے دیکھا۔ عائشے کی آنکھوں پہ بازو تھا۔ شکر کہ وہ بہارے کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی۔
”اپنے پاس کدھر؟ آسمانوں پہ؟“
”ہاں، آسمانوں پہ۔“
”کیا اس کے نام کے ساتھ ”جھوٹا“ کسی بڑے پوسٹر پہ لکھا جاتا ہے؟“
”شاید ایسا ہی ہو۔ اب سو جاٶ۔“
”عائشے! اگر اللٰہ تعالیٰ وہ پوسٹر آسمان پہ بچھا دے تو کیا سب کو اس کے نام کے ساتھ جھوٹا لکھا نظر آئے گا؟ اس کی آواز میں انجانا سا خوف تھا۔
چشم تصور میں اس نے دیکھا، باہر تاریک آسمان پہ سرخ انگاروں سے لکھا تھا۔
”اناطولیہ کی بہارے گل۔۔۔۔۔۔۔ بہت جھوٹ بولنے والی۔“
”ہاں، سب کو ہر جگہ سے وہ نظر آۓ گا۔“
”جو گھر کے اندر ، کمرےکے اندر ہو گا اسے بھی؟“
”ہاں، اب سو جاٶ بچے! صبح کام پہ بھی جانا ہے۔“
”اور اگر کوئی بیڈ کے نیچے گھس جاۓ تو وہاں سے بھی آسمان نظر آۓ گا؟“
”ہاں اور بہارے گل! تم اب بولیں تو میں تمہیں ٹرنک میں بند کر دوں گی۔“
عائشے جھنجھلا کر بولی تھی۔ اس کی نیند بار بار ٹوٹ رہی تھی۔ وہ سارے دن کی تھکی ہوئی تھی۔بہارے ذرا سی عائشے کے قریب کھسکی اور چہرہ اس کے کان کے قریب لے آئی۔
”عائشے!“ اس نےبہت دھیمی سی سرگوشی کی۔ کیا ٹرنک کےاندر سے آسمان نظر آۓ گا؟“
”اللٰہ اللٰہ!“ عائشے نے غصے سے بازو ہٹایا۔ بہارے نے غڑاپ سے منہ کمبل کے اندر کر لیا۔
مگر اسے کمبل کے اندر سے بھی آسمان نظر آ رہا تھا۔سرخ انگارے اسی طرح دہک رہے تھے

اس شام وہ ٹاقسم اپنی سرخ ہیل ٹھیک کروانے آئی تھی۔ جب ہیل جڑ گئی تو وہ کسی خیال کی تحت شاپر لیے اسکوائر کے مجسمے کی طرف آ گئی۔ استقلال یمینی (مجسمہ آزادی)۔
مجسمے کےگرد گھاس کے گول قطعے اراضی کو مثبت کے نشان کی طرح دو گزرگاہوں نے کاٹ رکھا تھا، جس سے گول قطعہ چار برابر خانوں میں بٹ گیا تھا۔ کمپاس کے چار خانے۔ ہر سو ٹیولپس کی مہک تھی۔
بہادر جرنیل اب مجسم صورت اس کے سامنے کھڑے تھے۔ اتاترک مصطفی کمال پاشا۔ یہ وہ دوسرا پاشا تھا، جس سے اس کو شدید نفرت ہونے لگی تھی۔ صرف اس کی وجہ سے وہ روز کلاس میں اسکارف اتارتی تھی اور ٹالی اس کو استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا کرتی۔ اس ایک آدمی نے اسے ہرا دیا تھا مگر۔
انسان کو کوئی چیز نہیں ہرا سکتی، جب تک کہ وہ خود ہار نہ مان لے۔ ڈی جے کہیں دور سے بولی تھی۔
وہ چند قدم مزید آگے چل کر آئی۔ اس نے مجسم ہوئے جنگجو کی پتھر آنکھوں میں دیکھا۔ یہ آدمی کیوں جیتا؟ کیونکہ یہ لڑنا جانتا تھا، کیونکہ اس نے شکست تسلیم نہیں کی تھی، کیونکہ وہ لڑتا رہا تھا یہاں تک کہ اسے فتح مل گئی اور ایک جنگجو کو کیسے ہرایا جاتا ہے؟ اس نے میجر احمد سے دل ہی دل میں پوچھا تھا۔
اس سے مقابلہ کر کے، اس سے تب تک لڑ کے، جب تک فتح نہ مل جائے یا جان نہ چلی جائے۔
جواب فورا آیا تھا۔ اگر وہ غلط ہو کر اتنا پر اعتماد تھا، تو وہ صحیح ہو کر پر اعتماد کیوں نہ تھی؟ وہ غلط ہو کر جیت سکتا ہے تو وہ صحیح ہو کر کیوں نہیں جیت سکتی؟ وہ کیوں اتارے اسکارف؟ وہ ان لوگوں کے پیچھے اللہ تعالی کو کیوں ناں کرے؟ زیادہ سے زیادہ سبانجی والے نکال دیں گے، تو نکال دیں، مگر کیوں نکال دیں؟ نہیں، وہ نہ اسکارف اتارے گی، نہ میدان چھوڑے گی۔
وہ اتاترک کے مجسمے کو یہی اسکارف لپیٹ کر سبانجی کے کلاس روم میں بیٹھ کر پڑھ کر دکھائے گی۔ مسجد میں جو فیصلہ میں نے کیا تھا، اسے بس اب پورا کرنا ہے طیب اردگان کو قانون بدلنا پڑے، سو بدلے۔ وہ مزید اس ذلت سے نہیں گزرے گی اللہ تعالی کی حدود مذاق نہیں ہوتیں۔ اب وہ اسکارف پہن کر ہی پڑھے گی، دیکھتے ہیں کون روکتا ہے اسے۔ اس کی ماں اسے روئے!
اتاترک کے مجسمے کو دیکھتے ہوئے اس نے عہد کیا تھا کہ وہ اسے زندگی بھر اپنے اسکارف پہ سمجھوتا نہیں کرتا۔ وہ نقاب نہیں کر سکتی، وہ برقع نہیں اوڑھ سکتی، مگر اسکارف اوڑھنا۔ یہ ایک کام ہے جو وہ کر سکتی ہے، تو پھر اسے روکنے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ کوئی رستہ تو ہو گا۔
رستہ ضرور ہوتا ہے۔ میجر احمد نے کہا تھا۔
رستے ڈھونڈے جاتے ہیں اسے بھی رستہ ڈھونڈنا تھا۔
••••••••••••••••••
آئینے میں اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے اس نے اسکارف کو ٹھوڑی تلے پن سے جوڑا، پھر سامنے کے دو تکونے پلوؤں میں سے ایک کو مخالف سمت چہرے کے گرد لپیٹ کر سر کی پشت پہ پن سے لگا دیا۔ اسکارف خاصا بڑا تھا۔ دوسرے پلو نے سامنے سے اسے ڈھک دیا۔ نیچے سیاہ اسکرٹ پہ اس نے پوری آستینوں والا میرون پھول دار بلاؤز پہن رکھا تھا۔ توقع کے برخلاف، میرون اسکارف کے ہالے میں دمکتا اس کا چہرہ کافی اچھا لگ رہا تھا۔
کتابیں اٹھائے، بیگ کندھے پہ ڈالے جب وہ سبانجی کی مرکزی عمارت کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی تو سامنے ہی ٹالی چند یورپین اسٹوڈنٹس کے ساتھ آتی دکھائی دی۔ وہ گزرتے گزرتے آج کل حیا کے اسکارف پہ کوئی تبصرہ کر دیا کرتی تھی۔ اب بھی حیا کو آتا دیکھ کر اس کے لبوں پہ استہزائیہ مسکراہٹ ابھری۔ 
حیا! اس نے زور سے آواز دی۔
حیا اسے نظر انداز کر کے تیز تیز سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ آج اس کی پہلی کلاس ٹالی کے ہی ساتھ تھی۔
Haya! What Colour is your hair today? blue?
حیا بن کچھ کہے اندر کی جانب بڑھ گئی۔ پیچھے سے آتے قہقہے کو اس نے نظرانداز کر دیا تھا، آج کل جہاں ان لڑکیوں سے سامنا ہوتا، وہ اسے تمسخر سے عرب لڑکی کہہ کر پکارا کرتی تھیں۔ بدتمیز نہ ہوں تو۔۔۔۔۔۔
آج وہ بنا اسکارف اتارے کلاس میں چلی آئی اور دوسری قطار میں بہت اعتماد سے بیٹھ گئی۔ چند ہی لمحوں بعد ٹالی اس کے ساتھ آ بیٹھی۔ 
تم نے آج اسکارف نہیں اتارا؟ کیا ابھی سب کے سامنے اتارو گی؟ 
جوابا اس نے بہت اعتماد سے مسکرا کر ٹالی کو دیکھا۔
دیکھتے ہیں! جتانے والے انداز میں کہہ کر وہ کتابیں جوڑنے لگی۔ اندر سے اس کا دل بھی عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا۔ آج کیا ہو گا؟ وہ اسے نکال دیں گے کیا؟
پروفیسر بابرصات نے ابھی لیکچر شروع بھی نہیں کیا تھا کہ ان کی نگاہ حیا پہ پڑ گئی۔
مس۔۔۔۔۔۔ میرا نہیں خیال آپ کو کلاس روم میں اسکارف کرنے کی اجازت ہے۔ وہ براہ راست اسے مخاطب کر کے بولے۔
بہت سے طلبا و طالبات گردنیں موڑ کر اسے دیکھنے لگے، جو ساری بڑی بڑی باتیں، احادیث، آیات، اقوال اس نے اس موقع کے یاد کر رکھے تھے، وہ سب اسے بھول گئے۔ اسے سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا کہے۔ وہ بالکل خالی خالی نظروں سے پروفیسر کا چہرہ دیکھنے لگی۔ ٹالی بھی مسکراہٹ دبائے اسے دیکھ رہی تھی۔ 
مس۔۔۔۔۔۔۔ آپ ہیڈ کورنگ ریموو کریں۔ انہوں نے دہرایا۔
جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لیے راستہ نکال دیتا ہے۔
عائشے نے ایک دفعہ کہا تھا مگر اسے سارے راستے بند نظر آ رہے تھے سب سے ہی دیکھ رہے تھے۔ اس نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے، تب ہی پیچھے سے کوئی ترک لڑکی اٹھی۔
سر! ایکسچینج اسٹوڈنٹ ہے۔ مہمان اور یہ رول مہمان پر اپلائی نہیں ہوتا۔ اس نے جلدی سے اپنے پروفیسر کو کچھ یاد دلایا تھا۔
اوہ سوری، آپ مہمان ہیں؟ پلیز تشریف رکھیے۔ پروفیسر بہت شائستگی سے معذرت کر کے لیکچر شروع کرنے لگے۔
ٹالی کے لبوں سے مسکراہٹ غائب ہوئی۔ حیا نے ایک نظر اسے دیکھا اور دھیرے سے مسکرائی، پھر گردن موڑ کر پیچھے اپنی محسنہ کو دیکھنا چاہا، لیکچر شروع ہو چکا تھا، تمام سر جھکنے لگے تھے۔ وہ اس لڑکی کو دیکھ نہ پائی، سو چہرہ موڑ لیا۔ اس کے دل و دماغ سن ہو چکے تھے۔ کسی خواب کی سی کیفیت میں اس نے لکھنا شروع کیا۔ سب اتنا آسان ہو گا، اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
•••••••••••••••••••
یہیں رکھا تھا، کہاں جا سکتا ہے۔ وہ ویک اینڈ پہ بیوک ادا آئی تھی اور اب عائشے ار بہارے کے ساتھ مل کر ساری اسٹڈی چھان کر مایوسی سے کہہ رہی تھی۔ وہ بہت قیمتی تھا۔ میں اسے کھونے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
ساتھ کھڑی بہارے کا چہرہ زرد او سر جھکا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ دھیرے سے چل رہے تھے آج۔ شاید وہ بیمار تھی۔
تمہیں کیا ہوا بہار کا پھول؟ وہ بہارے کا پژمردہ انداز کافی دیر سے محسوس کر رہی تھی، سو پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
بہارے نے گردن اٹھا کر خالی خالی، خاموش نگاہوں سے اسے دیکھا۔
وہی پرانا مسئلہ، صبح بہارے کو ایک سیپ ملا، جس میں موتی نہیں تھا، حالانکہ مجھے تو آج ایک بھی سیپ نہیں ملا۔ عائشے اپنے گھر سے پزل باکس کھو جانے پر بہت اداس تھی۔
اب میرے سیپ سے موتی کبھی نہیں نکلے گا۔ بہارے بڑبڑائی۔ وہ دونوں محسوس کیے بنا اسٹڈی ٹیبل کے دراز کھول کھول کر دیکھ رہی تھیں۔
وہ باکس عبدالرحمان کے ہاتھ نہ لگ جائے، مجھے اسی بات کا ڈر ہے۔ وہ باکس اس کو نہیں ملنا چاہیے عائشے!۔ 
بہارے کی جھکی گردن مزید جھک گئی۔ 
ملازمہ کبھی چوری نہیں کرتی، اس نے بھی باکس نہیں دیکھا۔ کہاں ڈھونڈیں۔
حیا تھکے تھکے سے انداز میں کرسی پر گر سی گئی۔ اس کا دل بہت برا ہو رہا تھا۔ 
آئی ایم سوری حیا! عائشے نے آزردگی سے کہا۔ اسی پل کمرے میں دبی دبی سسکیاں گونجنے لگیں۔ حیا نے چونک کر بہارے کو دیکھا۔ وہ سر جھکائے ہولے ہولے رو رہی تھی۔
بہارے! کیا ہوا؟ وہ دونوں بھاگ کر اس کے پاس آئیں۔ بہارے نے بھیگا چہرہ اٹھایا۔ 
وہ باکس عبدالرحمان کے پاس ھہے۔ اس نے مجھے تمہیں بتانے سے منع کیا تھا۔ 
کیا؟ وہ سانس لینا بھول گئی۔ عائشے خود ششدر سی کھڑی رہ گئی۔
مگر مجھے پتا ہے کہ اس نے وہ کدھر رکھا ہے۔ میں تمہیں لا دیتی ہوں۔ بہارے ایک دم اٹھی اور باہر بھاگ گئی۔ وہ دونوں ساکت، ششدر سی اپنی جگہ کھڑی تھیں۔ 
پانچ منٹ بعد ہی بہارے واپس آئی تو اس کا بھیگا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پزل باکس تھا۔ وہ حیا کا پزل باکس ہی ہے، اس میں کوئی شک نہیں تھا۔ 
یہ لو، تمہاری امانت۔ اس نے باکس حیا کی طرف بڑھایا۔
بہارے گل! حیا سلیمان تم سے بہت پیار کرتی ہے۔ اس نے بے اختیار جھک کر اس ننھی پری کے دونوں گال چومے۔ اور تم اس کو ڈانٹنا مت۔ سچ بولنے پہ کسی کو ڈانٹا نہیں کرتے۔ اس نے ساتھ ہی عائشے کو کہہ دیا تھا، جو بہارے سے ذرا سی خفا لگ رہی تھی، مگر اس کی بات سمجھ کر مسکرا دی۔
آنے کسی کے گھر گئی ہوئی تھیں۔ کھانا کھانے کے بعد وہ حیا کو واپس چھوڑنے کے لیے گھر سے نکل آئیں۔ بہارے قریبی کلب سے عبدالرحمان کا گھوڑا لے آئی تھی اور اب اس پر بیٹھی ان دونوں کے عقب میں چلی آ رہی تھی۔
اسے عبدالرحمان نے رائیڈنگ سکھائی ہے۔ بہارے سے اچھی رائیڈنگ پورے ادا میں کوئی بھی نہیں کر سکتا۔
وہ بس مسکرا کر رہ گئی۔ عبدالرحمان کا نام وہ آخری نام تھا، جو اس وقت وہ سننا چاہتی تھی۔ اس نے اس کا باکس کیوں رکھا، وہ یہی سمجھنے سے قاصر تھی۔
تم پہ یہ اسکارف بہت اچھا لگتا ہے حیا! اسے کبھی مت چھوڑنا۔
نہیں چھوڑوں گی۔ میں سبانجی سے جیت گئی، میں اتاترک سے جیت گئی، مجھے اور کیا چاہیے۔ 
تمہیں کچھ بھی چھوڑنا پڑے، اسے مت چھوڑنا! عائشے نے دہرایا۔ حیا نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔ 
ان کے عقب میں گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھی بہارے نے اچنبھے سے عائشے کو دیکھا تھا۔ اس کی بہن اتنے اصرار سے اپنی بات دہراتی تو نہیں تھی، پھر اب کیوں؟
•••••••••••••••••••
معتصم نے جلی ہوئی اطراف والے پزل باکس کو الٹ پلٹ کر دیکھا، پھر ایک بڑے ڈبے کی طرف اشارہ کیا، جو اس کے ساتھ گھاس پر پڑا تھا۔
پہلے فلوٹیلا کے لیے فنڈ دو۔
اوہ شیور ! وہ گھاس پر بیٹھتے ہوئے پرس سے پیسے نکالنے لگی۔ چند نوٹ ڈبے کی درز میں ڈال کر اس نے دیکھا، اس پہ جلی حروف میں لکھا تھا۔
فریڈم فلوٹیلا 2010۔
وہ مئی 2010 تھا اور اسی ماہ کے آخر تک فلوٹیلا نے غزہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ یہ بات فلسطینی اب تک بہت دفعہ دہرا چکے تھے۔ 
گھاس کے آگے مصنوعی جھیل دوپہر کی کرنوں سے چمک رہی تھی۔ معتصم اس چمکتی دھوپ میں باکس پکڑے کافی دیر اسے الٹ پلٹ کر کے دیکھتا رہا۔
یقین کرو! مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا مگر اس ”ہومر“ والی پہیلی کو حل کرنا آسان ہو گا۔ ٹھہرو! کوشش کرتے ہیں۔ اس نے جلی لکڑی پہ لکھے سنہرے حروف پڑھے۔
Marked on Homer’s Doubts 
A Stick with twin sprouts 
ہومر وہی فلسفی تھا نا جس کے بارے میں ہراقلیطس نے کہا تھا کہ اسے درے مارے جانے چاہئیں؟ 
اس کے کہنے پر معتصم نے سر اٹھا کر خفگی سے اسے دیکھا تھا۔ وہ شانے اچکا کر رہ گئی۔ یونانی فلسفہ وہ آخری شے تھی جو اسے دلچسپ لگتی تھی مگر شاید میجر احمد کا حساب الٹا تھا۔ 
ہومر کے شبہات پہ نشان زدہ اسٹک۔ یہاں کسی نشان کی بات ہو رہی ہے۔ ہومر کے شبہات، مگر کیسے شبہات؟ وہ سوچنے لگا۔
معتصم! نشان تو کسی کے لکھے ہوئے کام پہ ہی لگایا جا سکتا ہے نا، تو کیا ہومر کے لکھے ہوئے کام میں کسی کے شکوک وشبہات کا ذکر ہے؟
یہ تو مجھے نہیں پتا، مگر اس کے اپنے کام میں جو حصہ بعد میں آنے والے ناقدین کو مشکوک لگتا ہے، اسے مارک ضرور کیا گیا ہے۔
کیسے مارک کیا گیا ہے؟ وہ چونکی۔ کسی خاص نشان سے؟ 
مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ ہومر کے کام میں مشتبہ حصہ ہوتا ہے، اس پہ oObelus کا نشان لگا کر مارک کیا جاتا ہے۔ 
کیا ہوتا ہے Obelus؟ 
تمہیں اوبلس کا نہیں پتا؟ یہ ہوتا ہے اوبلس! اس نے رجسٹر کےصفحے پر ایک سیدھی لکیر کھینچی اور اس کے اوپر اور نیچے ایک ایک نقطہ لگا دیا۔ 
یہ تو تقسیم کا سمبل ہے۔ اس طرح کہو نا۔ اس نے پزل باکس کی سلائیڈز اوپر نیچے کیں، یہاں تک کہ پورا لفظ اوبلس لکھا گیا مگر باکس جامد رہا۔ 
یہ صرف پہلی پہیلی کا جواب ہے حیا! ہمیں ان چاروں کے جواب تلاش کر کے ان میں سے مشترک بات ڈھونڈنی ہے۔ اس نے یاد دلایا۔ 
حیا نے بد دلی سے پزل باکس اسے تھما دیا۔ وہ اس وقت خود کو بہارے کی طرح محسوس کر رہی تھی، اپنے تحفے کے اتنے قریب مگر اتنی ہی دور اور بے بس۔ بہت بے بس۔ 
••••••••••••••••••
شام کا اندھیرا استقلال اسٹریٹ پر اتر آیا تھا۔ گلی کی رونق اور روشنیاں اپنے عروج پر تھیں۔ وہ اور ہالے کافی دنوں بعد استقلال اسٹریٹ آئی تھیں۔ امتحان قریب تھے سو نکل ہی نہیں پائی تھیں۔ اب نکلیں تو ڈی جے کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ خریدا انہوں نے کچھ نہیں، بس ونڈو شاپنگ کرتی رہیں۔ وہ آٹھ بجے والے گورسل سے آئی تھیں۔ گورسل کو واپس رات کے ڈیڑھ بجے جانا تھا، سو تب تک ان کا ارادہ خوب اچھی طرح سے جدیسی میں گھومنے کا تھا۔ 
پہلے تو برگر کنگ میں ڈنر کر لیتے ہیں، ٹھیک ؟ وہ اس روز کے بعد جہان سے بھی نہیں ملی تھی، سوچا اب مل لے۔
تمہاری صلح ہو گئی اس سے؟ وہ برگر کنگ کے دروازے پہ تھیں۔ جب ہالے نے پوچھا۔ حیا نے ذرا حیرت سے اسے دیکھا، پھر ہنس پڑی ۔
وہ بات تو بہت پرانی ہو گئی۔ اب تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔ وہ مدھم مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔ سیاہ اسکارف چہرے کے گرد لپیٹ رکھا تھا اور اس میں دمکتا اس کا چہرہ بہت مطمئن لگ رہا تھا۔
ہاں! لگ تو رہا ہے۔ ہالے شرارت سے مسکرائی۔
حیا نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا۔ پلاٹینم رنگ رات کی مصنوعی روشنیوں میں چمک رہی تھی۔ 
وہاٹ؟ تمہاری جہان سکندر سے منگنی ہو گئی اور تم نے مجھے بتایا نہیں؟ ہالے خوشگوار حیرت سے کہہ اٹھی۔ وہ دونوں ریسٹورنٹ کے دروازے میں کھڑی تھیں۔ اطراف میں لوگ آ جا رہے تھے۔
مگر ہماری شادی منگنی سے پہلے ہوئی تھی۔ یہی کوئی بیس، اکیس سال پہلے۔ لمبی کہانی ہے، ڈنر کے بعد سناؤں گی۔ وہ جلدی سے ہالے کا بازو تھامے اندر چلی آئی۔ آج اس نے وہی سرخ ہیل پہن رکھی تھی اور ذرا احتیاط سے چل رہی تھی۔
جہان تو چھ بجے تک آف کر گیا تھا۔ ابھی گھر پہ ہو گا۔ وہاں کام کرنے والے لڑکے نے بتایا۔ اسے مایوسی ہوئی مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا ۔ 
مجھے پوری کہانی سناؤ۔ تم نے اتنی بڑی بات نہیں بتائی؟ ہالے پرجوش بھی تھی اور سارا قصہ سننے کے لیے بے تاب بھی۔ 
چلو! ٹاقسم چلتے ہیں۔ وہیں بیٹھ کر سناتی ہوں۔ وہ ہنس کر بولی۔ 
چند قدم کا تو فاصلہ تھا۔ باتوں میں ہی کٹ گیا۔ وہ اسکوائر پہ آئیں تو شام میں ہوئی بارش سے گیلی سڑک ابھی تک چمک رہی تھی۔ حیا نے بے اختیار اپنے پاؤں کو دیکھا۔
یہیں ٹوٹی تھی میری ہیل۔ اس نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے اپنی مرمت شدہ ہیل کو دیکھا۔ لکڑی کی بہت باریک ہیل اب بالکل ٹھیک لگ رہی تھی۔ پھر کتنا خوار کرایا تھا اس نے اس دن۔ سرخ ہیل، سرخ کوٹ، برستی بارش۔ اسے بہت کچھ یاد آیا تھا۔
آؤ پارک میں چلتے ہیں۔ ہالے اسے بلا رہی تھی مگر وہ اسی طرح کھڑی سر جھکائے اپنی ہیل کو دیکھ رہی تھی۔ لمحے بھر کو اس کے گرد جگمگاتا اسکوائر ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ ساری آوازیں بند ہو گئیں۔ وہ بالکل ساکت کھڑی اپنی ہیل دیکھ رہی تھی۔
یہیں ٹوٹی تھی اس کی ہیل۔ یہیں۔۔۔۔۔۔ یہیں 
Snapped there a Blooded pine
بلڈڈ؟ یعنی خون۔۔۔۔۔۔۔ مگر خون سرخ ہوتا ہے۔ سرخ لکڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لکڑی کی ہیل۔۔۔۔۔۔۔
Split there some Ttears divine 
اس کی متحیر نگاہوں نے ٹاقسم اسکوائر کا احاطہ کیا۔
آفاقی آنسو، آسمان کے آنسو۔۔۔۔۔۔۔ بارش۔ نہریں ”تقسیم“ ہوتی تھیں اس جگہ۔
Roud the emerald crusified 
اس کی نظریں مجسمے کے گرد پھیلے گھاس کے قطعہ اراضی پر جم گئیں، جنہیں دو گزر گاہیں صلیب کے نشان کی طرح کاٹ رہی تھیں۔ زمرد گھاس جو مصلوب تھی۔ 
And the freedome petrified
ساکن ہوئی، پتھر بنی آزادی۔ یقیناً مجسمہ آزادی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتاترک کا مجسمہ استقلال یمینی 
A love lost in symbolic smell 
پیار جو کھو گیا؟
ڈی جے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ذہن میں جھماکہ ہوا۔ ادھر ساتھ استقلال جدیسی میں ڈیجے گری تھی اور روز ٹاقسم اسکوائر میں ٹیولپس کی مہک پھیلی تھی۔ علامتی خوشبو۔۔۔۔۔۔۔ ٹیولپس جو استنبول کی علامت تھے۔
Under which the lines dwell 
اس جگہ کے نیچے کیا تھا؟ لکیریں نہیں لائنز۔ ہاں! میٹرو لائنز۔ ریلوے لائنز۔ نیچے ریلوے اسٹیشن تھا۔ ایک ایک کر کے پزل کے سارے ٹکڑے جڑتے جا رہے تھے ۔
ابلس کا نشان کس چیز کا نشان تھا بھلا؟
حیا! یہ آدمی ہمیں فالو کر رہا ہے۔ ہالے نے اس کا بازو جھنجھوڑا۔ وہ ہالے کی طرف متوجہ نہیں تھی۔ کسی خوابیدہ کیفیت میں وہ بڑبڑائی۔
پورے چھ حروف Taksim۔ اس کی آنکھوں میں بے یقینی تھی، اس نے پزل حل کر لیا تھا۔
"حیا۔۔۔۔۔۔! یہ آدمی ہمارے پیچھے آ رہا ہے۔" ہالے کی آواز میں ذرا سی گھبراہٹ تھی۔ وہ جیسے کسی خواب سے جاگی اور پلٹ کر دیکھا۔ 
سڑک کے اس پار کھڑا شخص اسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ وہ ایک دم برف کا مجسمہ بن گئی۔ اس کا چہرہ سفید پڑ گیا۔
وہ اس چہرے کو کیسے بھول سکتی تھی؟ عبدالرحمن پاشا۔
آنے کے ساتھ اور انفرادی کتنی ہی تصویروں میں وہ اسے دیکھ چکی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر جس شناسائی سے مسکرایا تھا۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اسے پہچان چکا ہے۔
"چلو! واپس اسٹریٹ میں چلتے ہیں۔" وہ ہالے کا ہاتھ تھامے تیزی سے واپس پلٹ گئی۔ لوگوں کے رش میں سے جگہ بناتے، تیز تیز قدموں سے فٹ پاتھ پہ چلتے ہوۓ وہ دونوں اس شخص سے دور جا رہی تھیں۔ جب حیا کو یقین ہو گیا کہ وہ ان کو کھو چکا ہے، تو اسی طرح ہالے کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ایک کافی شاپ میں آگئی۔
"پتا نہیں کون تھا۔" انہوں نے ایک کونے والی میز کا انتخاب کیا تھا۔ ہالے دو مگ گرما گرم کافی کے لے آئی اور اب وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھی، اس آدمی کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہی تھیں۔
"ہاں! پتا نہیں کون تھا؟ اس نے لاتعلقی سے شانے اچکاۓ اور گرم کپ لبوں سے لگایا۔ ایک دم ہی کافی کا گھونٹ کسی تلخ زہر کی طرح اس کی گردن کو جکڑ گیا۔ اسے سامنے سے پاشا آتا دکھائی دیا تھا۔ وہ کافی شاپ میں کب داخل ہوا، انہیں پتا ہی نہیں چلا تھا۔ 
"ہالے وہ ادھر ہی آ گیا۔" اس نے سراسیمگی کی سی کیفیت میں کپ نیچے کیا۔ ہالے نے پریشانی سے پلٹ کر دیکھا۔ وہ عین ان کے سر پر آ پہنچا تھا۔ 
"کیا میں آپ کو جوائن کر سکتا ہوں مسز جہان سکندر؟" کرسی کی پشت پر ہاتھ رکھ کر کھڑے اس نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔ لم­­بی سرمئی برساتی میں ملبوس، وہ اچھا خاصا لحیم شحیم آدمی تھا۔ فریم لیس گلاسز کے پیچھے سے چھلکتی آنکھوں میں واضح مسکراہٹ تھی۔ وہ لمحہ ملاقات جس سے اس کو کبھی ڈر نہیں لگا تھا، اس وقت بے حد خوف زدہ کر گیا تھا.
"جی! ضرور بیٹھیے۔" اس نے کپ پہ اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوۓ بظاہر مسکرا کر کہا۔
ہالے نے اسے آنکھوں میں کوئی اشارہ کیا تھا۔ حیا نے سمجھ کر سر کو اثبات میں ذرا سی جنبش دی۔ جیسے ہی وہ کرسی کھینچ کر بیٹھنے لگا، حیا نے گرما گرم کافی اس کے چہرے پہ الٹ دی

پاشا کے لیے یہ حملہ قطعا غیر متوقع تھا۔ گو کہ ردعمل کے طور پر اس نے چہرہ فورا پیچھے کیا تھا، اس کے باوجود کافی اس کے رخسار کو جھلسا گئی تھی۔
چھبک چھبک۔ (جلدی جلدی) ہالےنے اس کا ہاتھ تھاما اور دوسرے ہی لمحے وہ دونوں باہر بھاگی تھیں۔
کافی گرم تھی، اور اس نے پاشا کا چہرہ سرخ کر دیا تھا۔ وہ بلبلا کر چہرہ ہاتھوں سے صاف کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ دوسرے گاہک اور ویٹرز اس کیجانب لپکے تھے۔ یہ وہ آخری منظر تھا جو حیا نے باہر نکلنے سے پہلے دیکھا تھا۔
وہ نہیں آ رہا، جلدی چلو! گلی میں لوگوں کے رش میں سے رستہ بناتے ہوئے تیز قدموں سے دوڑتے، ہالے بار بار گردن موڑ کر دیکھتی تھی۔
‏"برگر کنگ سامنے ہی ہے، جلدی سے اس میں چلے جاتے ہیں، اس سے پہلے کہ وہ باہرنکلے۔" 
مگر تمہیں اس پر کافی الٹنے کی کیا ضرورت تھی؟" ہالے جھنجھلائی۔
(کچھ پرانے حساب اتارنے تھے۔) 
تم خود ہی تو میرے کپ کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔ 
"میرا مطلب تھا کہ کپ چھوڑو اور باہر نکلو۔" 
وہ مزید بحث کیے بنا ہاتھ سے ہالے کو ساتھ کھینچتی برگر کنگ کا گلاس ڈور دھکیل کر اندر داخل ہوئی۔ وہ دونوں ایسے اندھا دھند طریقے سے دوڑتی آئی اور استقبالیہ کاؤنٹر پہ آ کر دم لیا کہ وہاں موجود لڑکا قدرے بوکھلا گیا۔ 
"کیا ہوا؟ جہان نہیں ہے ادھر۔" وہ سمجھا وہ دوبارہ جہان کے لیےآئی ہیں۔
"ٹھیک ہے، ٹھیک ہے!" حیا نے پھولے تنفس کے درمیان ہاتھ اٹھا کر کہا۔ تمہارے کچن میں کوئی دروازہ ہے جو پچھلی گلی میں کھلتا ہو؟ 
"کچن میں نہیں، مگر پینٹری میں بیک ڈور ہے۔ آپ میرے ساتھ آئیں۔" شاید وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ دونوں کسی سے بچنا چاہ رہی ہیں، سو بنا کوئی مزید سوال کیے وہ انہیں اپنی رہنمائی میں پینٹری میں لے آیا۔ 
پینٹری مستطیل سی تھی اور اس میں اسٹوریج شیلف اور بڑے بڑے فریزر رکھے تھے۔ کچھ دوسرا کاٹھ کباڑ بھی تھا۔ 
"وہ رہا دروازہ۔" اس نے ایک دروازے کی جانب اشارہ کیا اور ایک مشکوک نظر ان پہ ڈالتا واپس پلٹ گیا۔ ہالے نے پینٹری سے کچن میں کھلنے والا دروازہ بند کیا اور پھر قدرے تذبذب سے پچھلی گلی کے دروازے کو دیکھا۔
"ابھی باہر نکلنے کا فائدہ؟ گورسل تو ڈیڑھ بجے آۓ گی، تب تک یہیں بیٹھتے ہیں۔"
وہ ایک کونے سے دو پلاسٹک کی کرسیاں اٹھا لائی اور کمرے کے وسط میں فرش پہ آمنے سامنے رکھیں۔
"ویسے اب میں سوچ رہی ہوں کہ تم نے ٹھیک ہی کیا، استقلال جدیسی میں اکثر ایسے ڈرنک لوگوں سے ٹکراؤ ہو جاتا ہے جو عجیب حرکتیں کرتے ہیں۔"
تب ہی میں نے کافی الٹی، تاکہ وہ فورا ہمارے پیچھےنہ آسکے۔" 
وہ کرسی پہ نہیں بیٹھی، بلکہ دروازے کے قریب چلی آئی تھی۔ دروازے کے ساتھ ایک چوکور کھڑکی نما روشن دان تھا۔ وہ بہت اونچا نہیں تھا، بلکہ حیا کےچہرے کے بالکل برابر تھا۔
اس نے روشن دان کی شیشے کی سلائیڈ ایک طرف کی تو ٹھنڈی ہوا اور پچھلی گلی کی آوازیں اندر آنے لگیں۔ 
وہ استقلال اسٹریٹ کی بغلی گلی تھی۔ استقلال اسٹریٹ کی دونوں جانب ایسی ہی گلیاں تھیں جو ذرا تنگ اور چھوٹی مگر دونوں اطراف سے عمارتوں سے گھری تھیں۔
"اب تم مجھے بتاؤ، یہ منگنی کا کیا قصہ ہے؟" ذرا سکون کا سانس ملا تو ہالے کو ادھوری بات یاد آگئی۔ وہ پرجوش سی کرسی پہ آگے ہو کر بیٹھی۔ 
حیا نے پلٹ کر دیکھا اور مسکرا دی۔ جو­­ تناؤ اور پریشانی وہ تھوڑی دیر پہلے محسوس کر رہی تھیں، وہ پینٹری کی فضا میں تحلیل ہوتا جا رہا تھا۔
"بتاتی ہوں۔" وہ کرسی پہ آبیٹھی اور گورسل شٹل آنے تک وہ سارا قصہ سنا چکی تھی۔ بس میں بھی سارا راستہ وہ دونوں یہی باتیں کرتی رہیں۔ 
"اگر وہ جانتا تھا تو اس نے پہلے اظہار کیوں نہیں کیا؟" 
اب کر دیا، یہی بہت ہے۔ وہ بہت پریکٹیل اور کم گو سا آدمی ہے۔ اس سے وابستہ توقعات میں نےاب کم کر دی ہیں۔ اس نے شانے اچکا کر کہا تھا۔
ک­مرے میں آ کر ہالے تو سونےچلی گئی۔ ٹالی اور چیری بھی تب تک سو چکی تھیں۔ جبکہ اس نے پہلے تو اپنی میز کی دراز میں اس ڈبیا کی تصدیق کی جس میں موبائل شاپ کے لڑکے نےجی پی ایس ٹریسر ڈال کر دیا تھا۔ وہ دراز میں ہی رکھی تھی، جہاں وہ چھوڑ کر گئی تھی، پھر پاشا کو کیسے پتا چلا کہ وہ کہاں ہے؟ ہو سکتا ہے اس کی کسی اور شے میں بھی ٹریسر ہو، یا پھر وہ محض اتفاق ہو، لیکن اس کے اتفاقات تو کم ہی ہوتے تھے، اتنا تو اسے یقی­­ن تھا۔
جو بھی ہے، وہ ہر شےکو ذہن سے جھٹک کر اپنا پزل باکس نکال کر دبے قدموں باہر آگئی۔ بالکونی کی بتی اسے دیکھتے ہی جل اٹھی۔ وہ وہیں پہلے زینے پہ بیٹھ گئی اور پزل باکس چہرے کے سامنے کیا۔ چاروں پہیلیاں ایک چوکور کی صورت میں باکس کی چاروں اطراف پہ لکھی تھیں۔ چوکور اسکوائر، ٹاقسم اسکوائر۔
دھڑکتے دل اور نم ہتھیلیوں کے ساتھ وہ سلائیڈز اوپر نیچے کرنے لگی۔ ‏‎ Taksim‏ کا آخری حرف ایم جیسے ہی جگہ پہ آیا۔ کلک کی آواز کے ساتھ باکس کی دراز اسپرنگ کی طرح باہر نکلی۔ 
وہ بنا پلک جھپکے بے یقینی سے باکس کےاندر دیکھ رہی تھی۔ اس نے میجر احمد کا پزل حل کر لیا تھا۔ وہ باکس کھول چکی تھی۔
دراز میں ایک سفید مستطیل کاغذ رکھا تھا۔ وہ کاغذ پوری دراز پہ فٹ آ رہا تھا۔ اس نے دو انگلیوں سے پکڑ کر کاغذ باہر نکالا۔ بالکونی کی مدھم روشنی میں وہ کاغذ پہ لکھی تحریر بنا کسی دقت کے پڑھ سکتی تھی۔
Two full stops under the key
‏(چابی کے نیچے دو فل اسٹاپس) 
اس نے بے یقینی سے وہ سطر پڑھی جو کاغذ کے اوپری حصے پہ لکھی تھی۔ کیا یہ کوئی مذاق تھا۔ اپریل فول؟ اس کاغذ کےٹکڑے
کے لیے اس نے اتنی محنت کی؟ 
کاغذ کے چاروں کونوں میں چھوٹا چھوٹا سا چھ (6) کا ہندسہ بھی لکھا تھا۔ اس نے کاغذ پلٹا۔ اس کی پشت پہ بالکل وسط میں ایک بار کوڈ چھپا تھا۔ موٹی پتلی ایک انچ کی لکیریں اور ان کے نیچے ایک سیریل نمبر، شیمپوز، لوشن اور ان گنت دوسری اشیا کے لفافوں اور ڈبوں کے کونوں میں اکثر ایسے ہی بار کوڈ چھپے ہوتے تھے۔ اس بار کوڈ کا وہ کیا کرے گی؟ 
مگر نہیں، باکس میں کچھ اور بھی تھا۔
دراز کی زمین سے ایک لوہے کی لمبی اور
عجیب وضع کی چابی چپکی تھی۔ اس نے دو انگلیوں سے چابی کو کھینچا تو وہ جو گوند کے محض ایک قطرے سے چپکائی گئی تھی، اکھڑ کر حیا کے ہاتھ میں آگئی۔ حیا نے دیکھا، چابی کے نیچے موجود لکڑی پہ دو موٹے موٹے نقطے لگے تھے اور ان کے درمیان لکھا تھا۔ ”Emanet“
پھر کوئی پزل؟ پھر پہیلیاں؟ چابی تلے دو فل اسٹاپ؟ وہ دونوں نقطے اسے مل گۓ مگر اب وہ ان کا کیا کرے؟ کاش! وہ یہ سب اٹھا کر میجر احمد کے منہ پہ دے مار سکتی۔
یہ چابی کس شے کی تھی؟ 
کسی کمرے، کسی گاڑی، کسی گھر کی؟ اگر پہاڑ کھودنے پہ یہ مرا ہوا چوہا ہی نکلنا تھا تو بہتر تھا وہ اسے توڑ کر ہی نکال لیتی، اچھا مذاق تھا۔
اس نے خفگی سے دراز بند کی تو وہ پھر باہر نکل آئی۔ اس نے دوبارہ دراز کو اندر دھکیلا اور اسے پکڑے پکڑے سلائیڈز اوپر نیچے کیں۔ کوڈ بار کا سہ حرفی لفظ بگڑ گیا باکس پھر سے لاک ہو گیا۔ اس نے ہاتھ ہٹایا تو دراز باہر نہیں آئی۔
واپس بستر پہ لیٹتے ہوۓ وہ بے حد کڑھ رہی تھی۔ ایک چابی سے کوئی اور پزل باکس کھلے گا، اس سے کوئی اور، اس سے کوئی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا وہ ساری زندگی مقفل تالے ہی کھولتی رہے گی؟ اچھا مذاق تھا۔
پھر وہ ذہن سے یہ سوچیں جھٹک کر پاشا کے بارے میں سوچنے لگی۔ ایک مطمئن مسکراہٹ خودبخود اس کے لبوں پر بکھر گئی۔
بہت اچھا کیا اس نے کافی الٹ کر۔ وہ اسی قابل تھا۔
حقیقت میں اپنے روبرو پاشا کو دیکھت­­ے ہوۓ اسے تصاویر سے بہتر لگا تھا۔ اس کا قد کافی اونچا تھا۔ چھ فٹ سے بھی اوپر اور لباس بھی مناسب تھا۔ آنکھوں پہ بغیر فریم کی گلاسز لگاۓ اور ذرا، ذرا سی بڑھی شیو۔
وہ روبرو دیکھنے میں بس ایسا تھا کہ مقابل اس کی عزت کرے۔ مگر اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ہینڈسم تو وہ اسے کبھی نہیں لگا تھا، نہ ہی اس کی شخصیت میں کوئی سحر تھا۔ (جس کی باتیں بہارے کرتی تھی) وہ دیکھنے میں بس درمیانے درجے کا آدمی لگتا تھا یا شاید استقلال­­ اسٹریٹ میں چہل قدمی کرنے کے لیے اس نے خود کو ایک عام آدمی کی طرح ڈریس اپ کر کےکیموفلاج کر رکھا تھا۔ شاید یہی بات ہو۔
وہ ان ہی سوچوں میں گھری کب نیند کے سمندر میں ڈوب گئی، اسے علم ہی نہ ہو سکا۔
••••••••••••••••••••••••••••
اس نے چابی کی ہول میں گھمائی اور پھر الماری کا پٹ کھولا۔ سامنے والے خانے میں جہاں چند کاغذات کے اوپر اس نے جلی ہوئی اطراف والا پزل باکس رکھا تھا۔ اب وہ وہاں نہیں تھا۔ اس کے ذہن نے لمحوں میں کڑیوں سے کڑیاں ملائیں، اگلے ہی پل وہ پٹ بند کر کے باہر آیا تھا۔
"بہار­­ے گل!" سڑھیوں کے دہانے پہ کھڑے ہو کر اس نے آواز دی۔ 
بہارے کافی دنوں سے اس آواز کی منتظر تھی، مگر عبدالرحمن کو اپنی مصروفیت میں الماری کھولنے کا موقع شاید آج ملا تھا۔ اس لیے اب آواز سن کر وہ جو ٹی وی کے سامنے بیٹھی تھی، تابعداری سےاٹھی اور سر جھکاۓ مودب انداز میں سڑھیاں چڑھنے لگی۔
تیسری منزل کے دہانے پہ پہنچ کر اس نے جھکا سر اٹھایا۔ وہ اس کے سامنے
کھڑا تھا۔ وہ ابھی ابھی ہوٹل سے آیا تھا، سو ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کیے، کوٹ کے بغیر تھا۔ اسے متوجہ پا کر عبدالرحمن نے سوالیہ ابرو اٹھائی۔
"کیا بہارےگل مجھے بتانا پسند کریں گی کہ وہ پزل باکس کہاں ہے؟" 
میں پسند کروں گی۔ بہارے نے سادگی سے اثبات میں گردن ہلائی۔ "میں نے وہ حیا کو واپس کر دیا۔" 
وہ چند لمحےکچھ کہہ ہی نہیں سکا۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔ مگر بہارے جانتی تھی کہ اسے دھچکا لگا ہے۔ "وہ کس کی اجازت سے؟" 
وہ تمہاری چیز نہیں تھی عبدالرحمن! جس کی تھی، میں نے اسے دے دی۔"
وہ چند ثانیے اسے دیکھتا رہا، پھر اس کے سامنے ایک پنجے کے بل فرش پہ بیٹھا اور سیدھا بہارے کی آنکھوں میں دیکھا۔ 
"کیا تم نے مجھ سے رازداری کا وعدہ نہیں کیا تھا؟" میں رحمن کے بندے کو خوش کرنے کے لیے رحمن کو ناراض نہیں کر سکتی تھی۔ میں جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔" اس کی بڑی بڑی آنکھیں بھیگ گئیں۔ "جو جتنا اچھا جھوٹ بولتا ہے بہارے! یہ دنیا اسی کی ہوتی ہے۔"
لیکن پھر اس کی آخرت نہیں ہوتی، یہ عائشےگل کہتی ہے۔
وہ زخمی انداز میں مسکرایا۔ 
"پھر تو مجھے تمہارے دوسرے وعدے کا بھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔"
نہیں! ہم واقعی جزیرے پہ کسی سے تمہارے بارے میں بات نہیں کرتے۔
وہ نہیں، ایک اور وعدہ بھی تھا ہمارے درمیان، ہمارا لٹل­ سیکرٹ۔
بہارے کے کندھوں پہ ایک دم بہت بھاری بوجھ سا آگرا۔ اس نے اداسی سے عبدالرحمن کو دیکھا جو منتظر سا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ بہت پہلے عبدالرحمن نے اس سے عہد لیا تھا کہ اگر وہ مر گیا تو وہ اسے جنازہ بھی دے گی اور اس کی میت کو اون بھی کرے گی۔
"تم سچ بولنے والی بہارے گل پہ اعتبار کر سکتے ہو۔ پورا ادالار،­­ بلکہ پورا ترکی تمہیں چھوڑ دے، مگر بہارے گل تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گی۔
اور ہو سکتا ہے کہ ایک وقت ایسا آۓ، جب تم مجھے پہچاننے سے بھی انکار کر دو۔ تم کہو، کون عبدالرحمن، کہاں کا عبدا­­لرحمن؟ 
"تم ایسی باتیں مت کیا کرو، مجھے دکھ ہوتا ہے۔" 
اور اس بارے میں بھی عائشے گل کی کوئی کہاوت ضرور ہو گی۔ وہ ذرا سا مسکرایا۔
"اس کو چھوڑو، وہ تو بہت کچھ کہتی رہتی ہے۔ میں دوسرے کان سے نکال دیتی ہوں۔" اس نے ناک پہ سے مکھی اڑا کر گویا عبدالرحمن کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔ "وہ تو مجھ سے اتنی خفا ہوئی تھی کہ میں نے تم سے شادی کی بات کیوں کی۔ لحظہ بھر کو رک کر بہارے ذرا تشوش سے بولی۔ "تم مجھ سے شادی کرو گے نا عبدالرحمن؟" ساتھ ہی اس نے گردن موڑ کر ارد گرد دیکھ بھی لیا۔ عائشےقریب میں کہیں نہیں تھی۔ وہ دھیرے سے ہنس دیا۔
"مگر میں تمہاری نئی دوست میں دلچسپی رکھتا ہوں۔"
وہ تم سے شادی کیوں کرے گی؟ وہ اپنے کزن کو پسند کرتی ہے اور اس کا کزن بہت ہینڈسم ہے۔" بہارے کو جیسے بہت غصہ آیا تھا۔
"اور تمہاری دوست کو عبدالرحمن جیسا کوئی بدصورت نہیں لگتا ہو گا، ہے نا؟"
یہ سچ ہے۔ اسے تم بالکل پسند نہیں ہو، مگر مجھے تم سے زیادہ کوئی ہینڈسم نہیں لگتا۔" 
وہ مسکراتے ہوۓ اٹھ کھڑا ہوا۔ بہارے نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا۔
"سنو!­­ وہ حیا کے پزل باکس پہ جو پہیلی کھدی تھی، وہ کس نے لکھی تھی؟" وہ جاتے جاتے ذرا چونک کر واپس پلٹا۔ 
مجھے کیسے علم ہو سکتا ہے؟ میں نے تو ابھی تک اس باکس پر غور ہی نہیں کیا تھا۔
"نہیں! دراصل میرے باکس کی پہیلی اور حیا کی پہیلی بالکل ایک سی لکھی تھیں، تب ہی حیا نےمجھ سے پوچھا تھا کہ میری پہیلی کس نے لکھی ہے؟ 
وہ واقعتا چونکا تھا۔ اس نے یہ محسوس کیوں نہیں کیا؟ وہ یہ بات نظرانداز کیوں کر گیا؟
پھر تم کیا کہا؟ بلکہ­­ ٹھہرو! تم نے کہا ہو گا کہ عبدالرحمن کے پاس ہر کام کے لیے بہت سے بندے ہوتے ہیں۔
بہارے ک­­ا منہ کھل گیا۔ "تمہیں کیسے پتا؟"
بہارے گل! میں تمہاری سوچ سے بھی زیادہ
اچھے طریقے سے تمہیں جانتا ہوں۔ وہ کہہ کر رکا نہیں۔ بہارے نے آزر­­دگی سے اسے جاتے دیکھا۔ وہ اس سے خفا تھا، وہ جانتی تھی مگر عائشے کہتی تھی، بندہ خفا ہو جاۓ، خیر ہے، بس رحمن خفا نہ ہو۔
"اف!" اس نے سر جھٹکا۔ "عائشےگل کی کہاوتیں!!"
•••••••••••••••••••••
آڈیٹوریم اسٹوڈنٹس سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ باسکٹ بال کا میچ جاری تھا۔ کورٹ میں لڑکے نارنجی گیند اچھالتے ادھر ادھر ب­­ھاگ رہے تھے۔ تماشائیوں کی نگاہیں بھی گیند پہ لگی تھیں۔ مخصوص شور، ہنگامہ اور رش۔
حیا ان سب سے بےنیاز، اپنا بیگ تھامے کرسیوں کی قطاروں کے درمیان۔۔۔۔۔۔ رستہ بناتی آگے بڑھ رہی تھی۔ امتحان قریب تھے اور ان دنوں وہ اتنی مصروف رہی تھی کہ معتصم سے بات کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ ابھی لطیف نے بتایا کہ وہ آڈیٹوریم میں ہے تو وہ یہاں آ گئی۔ ویسے بھی اب وہ فلسطینی لڑکوں سے بات چیت میں ذرا احتیاط کرتی تھی۔
نہیں، وہ تو ویسے ہی ڈیسنٹ اور بھائیوں جسے تھے، مگر وہ وہی نہیں رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اب وہ اسکارف لیتی ہے، سو اس کے نام کے ساتھ کوئی غلط بات جڑی تو بدنام اس کا اسکارف ہو گا۔ اس لیے اس کی کوشش ہوتی کہ وہ معتصم یا حیسن وغیرہ سے تنہائی میں نہ ملے بلکہ کسی ایسی جگہ پہ ملے، جہاں سب سامنے ہی ہوں۔
وہ تیسری قطار میں بیٹھا تھا۔ نگاہیں کھیل پہ مرکوز کیے کرسی پر آگے ہو کر بیٹھا وہ میچ کی طرف متوجہ تھا۔ اس کے بائیں طرف دو کرسیاں خالی تھیں۔ وہ ایک کرسی اپنے اور اس کے درمیان چھوڑ کر بیٹھ گئی اور بیگ سے پزل باکس نکال کر اس کے سامنے کیا۔ وہ چونکا۔
میں نے اسے کھول لیا۔ اس کا کوڈ ٹاقسم تھا۔ کیا تم آگے میری مدد کر سکتے ہو؟
اوہ سلام! ٹھہرو، میں دیکھتا ہوں۔ معتصم نے دارز کھولی اور کاغذ پہ لکھی تحریر پڑھی، پھر اسے پلٹا۔
بار کوڈ؟ بار کوڈ تو اشیاء کے پیکٹس پہ لگا ہوتا ہے، اسے کوئی مشین ہی ڈی ٹیکٹ کرتی ہے۔ یہ بار کوڈ بھی مشین کے لیے ہے تاکہ وہ اسے پہچانے، مگر کدھر؟ ہوں۔۔۔۔۔۔۔ شاید اس سطر سے کوئی مدد مل جائے۔ وہ پھر سے کاغذ پلٹ کر سطر پڑھنے لگا، پھر نفی میں سر ہلا کر دراز سے چابی اٹھالی۔
بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ یہ سطر اس چابی تلے لکھے دو نقطوں اور اس لفظ کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
اور یہ لفظ کسی تالے کی طرف اشارہ کر رہا ہے، ویسے emanet کہتے کسے ہیں؟ اس نے ذرا الجھن سے پوچھا۔
یہ امانت ہے نا، ہمارا والا امانت، ترک میں بھی اس کو یہی کہتے ہیں۔ اس نے بے اختیار گہری سانس اندر کھنچی۔
ایک تو ترک اور اردو کی مماثلت!
مجھے یہ لگتا ہے حیا! کہ اس نے تمہاری کوئی امانت کہیں لاک لگا کر رکھی ہے اور اس کی چابی تمہیں دی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ کوئی عظیم الشان سا محل ہو یا کوئی برانڈ نیو گاڑی۔ وہ اپنی بات پہ خود ہی دھیرے سے ہنسا۔
مجھے ایسا کچھ بھی نہیں لگتا۔
ہو سکتا ہے اس باکس میں کوئی نادیدد لکھائی ہو اور آنچ دکھانے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کوشش کر چکی ہوں۔ اس ایک لفظ امانت کے سوا اس میں کچھ نہیں لکھا ہے۔ اس نے باکس میں ساری چیزیں واپس ڈالیں اور اسے بند کر کے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ معتصم مزید اس کی مدد نہیں کر سکتا تھا، اب جو بھی کرنا تھا، اسے خود کرنا تھا۔
امتحانوں کے بعد کچھ سوچوں گی۔ ابھی تو اس قصے کو بند ہی کر دیتے ہیں۔ جوابا معتصم نے مسکرا کر شانے اچکا دیے۔
وہ آڈیٹوریم ے نکل رہی تھی جب اسکا موبائل بجا۔ اماں اس وقت تو فون نہیں کرتی تھیں، پھر؟ اس نے بیگ سے موبائل نکال کر دیکھا۔ یہ وہی نمبر تھا۔۔۔۔۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page