top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر انیس

اس نے بیگ سے موبائل نکال کر دیکھا۔ یہ وہی پاکستان کا نمبر تھا جس سے پہلے بھی میجر احمد نے فون کیا تھا۔
ہیلو! کرسیوں کی قطار سے راستہ بناتے وہ ذرا اونچا بولی تھی ۔ اردگرد کہے شور میں میجر احمد کی آواز بمشکل سنائی دے رہی تھی۔ 
السلام علیکم! کسی ہیں آپ حیا؟ وہی نرم، خوبصورت، ٹھہرا ہوا انداز۔ اب وہ اس سے چڑتی نہیں تھی بلکہ ذرا احتیاط سے بات کر ہی لیتی تھی۔
وعلیکم السلام! میری خیریت آپ کو پتا لگتی ہی رہتی ہو گی۔ وہ باہر کاریڈور میں تیز تیز چلتی جا رہی تھی۔ جوابا وہ دھیرے سے ہنسا۔
اب ایسا بھی نہیں ہے۔ آپ کو لگتا ہے، مجھے آپ کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔؟
مجھے لگتا تو خیر یہی ہے کہ آپ کو اور پاشا کو میرے علاوہ کوئی کام نہیں ہے؟
غصے میں ہیں، خیرت 
کوئی مذاق کر رہے ہیں آپ میرے ساتھ؟ میں کتنی پہیلیاں بوجھوں؟ اس نے زچ سے انداز میں کہتے ہوئے اپنا بیگ اتار کر سبانجی کی عمارت کی بیرونی سیڑھیوں پہ رکھا۔ 
میں معذرت خواہ ہوں۔ بعض چیزیں اتنی حساس ہوتی ہیں کہ انہیں بہت راز داری سے کسی کے حوالے کرنا پڑتا ہے، تا کہ وہ غلط شخص کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ ویسے ایک گھنٹے کا کام تھا، آپ نے ہی اتنے دن لگا دیے۔
خیر! آپ کا پزل تو میں حل کر ہی لوں گی، مگر کیا گارنٹی ہے کہ آخر میں مجھے ”اپریل فول“ کے الفاظ نہیں ملیں گے۔ وہ وہی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی تھی۔ استنبول کی دھوپ اردگرد سبزہ زار کو سنہری پن عطا کر رہی تھی۔ 
اتنا غیر سنجیدہ سمجھتی ہیں آپ مجھے؟
کیوں؟ کیا آپ ہی نہیں ہیں جو خواجہ سرا بن کر مجھ سے ملے تھے؟ کبھی شرمندگی نہیں ہوئی آپ کو اس بات پہ؟
شرمندگی کیسی؟ میں خواجہ سرا بن کر آپ سے ملا ہی تھا، خواجہ سرا بن کر کوئی محفل تو نہیں لگائی تھی۔ وہ شاید برامان گیا تھا۔
مگر خواجہ سرا بننا بزات خود بہت عجیب ہے۔
کیوں؟ کیا خواجہ سرا انسان نہیں ہوتے؟ کیا وہ جانور ہوتے ہیں؟ میں نے ان کا حلیہ اپنایا تھا، مگر آپ کے لیے نہیں۔ میں تو اپنے کام سے وہ سب بنا تھا۔ بس اسی دوران۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ مل گئیں۔
آپ اپنے کام خواجہ سرا بن کر نکلواتے ہیں؟ وہ دم بخود رہ گئی۔ پہلی دفعہ کوئی سوال اس نے بچوں کی سی دلچسپی سے پوچھا تھا۔
کبھی میرے آفس آئیے گا۔ میں آپ کو اپنے کام کی تفصیل بتاؤں گا۔
آپ کے آفس میں کبھی نہیں آرہی، مگر وہ امانت، وہ کیسے ڈھونڈو میں؟
جو لکھا ہے، اس پر غور کریں۔ وہ ڈولی کی امانت ہے اور وہ اسی کو ملنی چاہیے، جو اپنی صلاحیتوں سے خود کو اس کے قابل ثابت کر سکے۔ کیا آپ اتنی باصلاحیت ہیں؟
ٹرائی می! اس نے جتا کر کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔ سبانجی کی دھوپ ابھی تک سیڑھیوں پہ اس کے قدموں میں گر رہی تھی۔
••••••••••••••••••
کلینک کی انتظار گاہ میں ٹھنڈی سی خنکی چھائی تھی۔ وہ کاؤچ پہ خاموش سی بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔ ہالے کے توسط سے اس نے ایک ڈرماٹولوجسٹ سے وقت لیا تھا، اس کے بال بظاہر ٹھیک نظر آتے تھے، اور عاشئے کے دیے گئے لوشن کام کر رہے تھے مگر ہاتھ لگانے پہ وہ پہلے سے ذرا روکھے لگتے اور سر کی جلد جو خراب ہوئی، وہ الگ۔
حیا نے اپنا پرس ساتھ ہی رکھا ہوا تھا۔ ٹریسر والی ڈبیا ڈروم میں ہی تھی، اب وہ اسے استنبول میں اپنے ساتھ لے کر نہیں جاتی تھی۔
تب ہی اس کے ساتھ والی نشست پہ ایک سیاہ عبایا والی لڑکی آ بیٹھی۔ بیٹھتے ہی اس نے چند گہرے سانس لے کر تنفس بحال کیا، پھر ٹشو سے نقاب کے اندر چہرہ تھپتھپانے لگی۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ پیدل آئی ہے اور بہت تھک گئی ہے ۔
حیا لاشعوری طور پہ نگاہوں کا زاویہ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ جانے کیوں آج کل وہ عبایا اور حجاب والی لڑکیوں کو بہت غور سے دیکھا کرتی تھی۔ استنبول میں ایسی لڑکیاں بہت کم ہی نظر آتی تھیں، البتہ اسکارف اور لانگ اسکرٹس والی مل جاتی۔ اکثریت ایسی لڑکیوں کی ہوتی جن میں سے ایک اس کے سامنے کاؤچ پہ بیٹھی تھی۔ مختصر اسکرٹ بنا آستین کے بلاؤز اور خوب صورت بال۔ وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی گھٹنے پہ پھیلا مگزین پڑھنے میں مگن تھی۔ استنبول کی علامتی لڑکی۔ اس کے اسکرٹ کا رنگ نارنجی تھا، بالکل ان دو کراؤن فش جیسا ان دونوں کاؤچز کے درمیان رکھی میز پہ سجے ایکوریم میں تیر رہی تھیں ۔ نھنی نھنی سی نارنجی مچھلیاں، جن کی زندگی، جن کی سانس اور جن کی آواز سب پانی تھا۔
عبایا والی لڑکی اب پرس کھول کر کچھ تلاش کر رہی تھی۔ حیا ابھی تک اسے یوں ہی دیکھ رہی تھی۔ اس نے پرس سے ایک اورنج جوس کی بوتل نکالی اور اس کا ڈھکن اتارا، پھر ذرا رکی اور حیا کی طرف بڑھائی۔
نو تھینک یو۔ وہ ذرا سنبھل کر سیدھی ہوئی۔ 
وہ لڑکی مسکرا کر بوتل میں اسٹرا ڈالنے لگی۔ سیاہ نقاب میں اس کی سرمئی آنکھیں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔
آپ ہمیشہ یہ عبایا کرتی ہیں؟ وہ رہ نہیں سکی اور پوچھ ہی بیٹھی۔
ہوں۔ نقاب تلے ایک گھونٹ لیتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
آپ کو گٹھن نہیں ہوتی اس میں؟ 
میرا دل اللہ نے اس کے لیے کھول دیا ہے، سو گھٹن کیسی۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی مسلمان لڑکی تو بہت مضبوط ہوتی ہے۔ اس نے بوتل کا ڈھکن بند کرتے ہوئے کہا۔ مگر مجھے تو نقاب کا سوچ کر ہی گٹھن ہوتی ہے۔
ہو سکتا ہے، یہ سب صرف آپ کے ذہن میں ہو۔
آپ کے ذہن میں بھی یہ باتیں آتی ہو گی نا۔ وہ اس کی طرف رخ موڑے غیر ارادی طور پہ بحث کرنے لگی تھی۔
کیا بہت پڑھے لکھے، ماڈرن قسم کے لوگوں کے درمیان بیٹھے آپ کو احساس کمتری نہیں ہوتا؟ ساتھ ہی ایک نگاہ اس نے ایکوریم کے پار بیٹھی ترک لڑکی پہ ڈالی جو ابھی تک میگزین میں گم تھی۔
بہت ماڈرن قسم کے لوگ تو میرے جیسے ہی ہوتے ہیں نا۔ میری شریعت تو دنیا کی سب سے ماڈرن (جدید) شریعت ہے۔ احساس کمتری تو انہیں ہونا چاہیے، جو جاہلیت کے زمانے کا تبرج کرتے ہیں۔
تبرج سمجھتی ہو؟
اسے اندازہ تھا، پھر بھی اس نے نفی میں گردن ہلائی۔
تبرج۔۔۔۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔۔۔۔ کیسے سمجھاوں؟ اس لڑکی نے لمحے بھر کو سوچا۔ تم نے دبئی کے وہ اونچے اونچے ٹاورز تو دیکھے ہوں گے۔ برج العرب، برج الخلیفہ؟
ہاں تصاویر میں۔
بس! اسی برج سے یہ تبرج نکلا ہے۔ کسی شے کو اتنا نمایاں اور خوبصورت بنانا کہ دور سے نظر آ ئے۔ وہ صدیوں پہلے یوسف علیہ اسلام کے مصر کی عورتیں تھیں، جو تبرج کرتی تھیں۔ وہ ابو جہل کے عرب کی عورتیں تھیں، زیب و زینت کر کہ مردوں کہ درمیان سے گزرتی تھیں۔ اگر استنبول کی لڑکیاں ان زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی پیروی کرتی ہیں تو وہ ماڈرن تو نہ ہوئیں نا۔ ماڈرن تو میں ہوں، تم ہو، پھر کیسی شرمندگی۔ اس نے رسان سے کہتے ہوئے شانے اچکائے۔
اللہ، اللہ، یہ اعتماد؟ وہ دم بخود رہ گئی۔ (ترکوں کا اثر تھا وہ بھی اللہ، اللہ کہنے لگی تھی)۔
تمہیں لگتا ہے، تم کبھی نقاب نہیں پہن سکتیں؟ وہ اب ٹشو سے ماتھے پہ آئے پسینے کہ قطرے تھپتھپا رہی تھی۔
شاید نہیں، میری دوستوں اور فرسٹ کزنز میں سے کوئی نقاب نہیں لیتا۔ اسے شہلا یاد تھی، پر وہ اس کے سیکنڈ کزن کی بیوی تھی۔
تو تم یہ رواج ڈالنے والی پہلی لڑکی بن جاؤ۔
اس سے کیا ہو گا؟ جواب میں اس لڑکی نے مسکرا کر ذرا سے شانے اچکائے۔
جو غار ثور کے آخری سوراخ پہ اپنا پاؤں رکھ دیتا ہے اور ساری رات سانپ سے ڈسے جانے کے باوجود اف نہیں کرتا، اس کی اس ایک رات کی نیکیاں عمر بن
خطابرضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی زندگی بھر کی نیکیوں کے برابر ہوتی ہیں۔ مگر ہر شخص ابوبکر نہیں بن سکتا۔ ابوبکر صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ پہلوں میں پہل کرنے والا۔
اس کی باری پکاری گئی تو وہ چونکی۔ پر سلام کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے اب اس لڑکی سے کچھ نہیں کہنا تھا۔ اس کا ذہن صاف تھا، اس کراؤن فش کے نارنجی پن کی طرح، شفاف اور صاف، مگر وہ جانتی تھی کہ وہ کبھی اپنا چہرہ نہیں لپیٹ سکتی۔ اس تصور سے ہی اس کا دم گھٹتا تھا۔ 
ایکوریم کے پانی میں اسی طرح بلبلے بن اور مٹ رہے تھے۔ دونوں مچھلیاں بنا تھکے ایک دوسرے سے پیچھے دائرے میں دوڑ رہی تھیں۔ دائرہ۔۔۔۔۔ جس میں آغاز اور اختتام کی تفریق مٹ جاتی ہے۔
••••••••••••••••••••••
استقلال جدیسی میں معمول کی چہل پہل تھی۔ ٹھنڈی سی دھوپ گلی کے دونوں اطراف میں اٹھی قدیم عمارتوں پہ گر رہی تھی، گویا سنہری برف ہو۔
وہ جہان کے ساتھ ساتھ چلتی گلی میں آگے بڑھ رہی تھی۔ پھر اتفاق ہوا تھا کہ اس نے سیاہ اسکارف اور سیاہ اسکرٹ کے ساتھ گرے بلاؤز پہن رکھا تھا اور جہان نے سیاہ جینز پہ گرے آدھی آستین والی ٹی شرٹ۔ آج جب وہ ادھر آئی تھی تو اس نے خواہش کی تھی کہ وہ استقلال اسٹریٹ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اسے اس گلی کا انت دیکھنا تھا۔ اب وہ اسی لیے چلتے جا رہے تھے۔
کچھ پیو گی؟ جہان نے رک کر پوچھا، پھر جواب کا انتظار کیے بنا ایک کیفے میں چلا گیا۔ جب باہر آیا تو اس کے ہاتھوں میں دو ڈسپوزیبل گلاس تھے اور بغل میں رول شدہ اخبار۔
شکریہ۔۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے گلاس تھاما۔ جھاگ سے بھرا پینا کولاڈا۔ ناریل اور انناس کی رسیلی خوشبو اور ٹاقسم اسکوائر سے اٹھتی ٹیولپس کی مہک۔ اس نے آنکھیں بند کر کے سانس اندر کھینچی۔ جہان سکندر کا استنبول بہت خوبصورت تھا۔
ہوں، اچھا ہے۔ وہ خود ہی تبصرہ کرتا گھونٹ بھر رہا تھا۔ حیا نے اس کے گلاس پکڑے ہاتھ کو دیکھا۔ اس نے وہ پلاٹینم بینڈ نہیں پہن رکھا تھا۔ یہ ان کی منگنی کے بعد پہلی ملاقات تھی اور اس میں اتنی انا تو تھی کہ اسے خود سے کبھی اس موضوع کو نہیں چھیڑنا تھا۔
تم اس روز دو دفعہ آئی تھیں؟ بیک ڈور کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ وہ سرسری انداز میں پوچھ رہا تھا۔ یقینا اس کے ورکر نے اسے پوری رپورٹ دی ہو گی، مگر جواب اس کے پاس تیار تھا۔ عائشے گل نے بے شک کہا تھا کہ سچ سے بہتر جواب کوئی نہیں ہوتا، مگر اس وقت عائشے کون سا دیکھ رہی تھی۔ 
کوئی جاننے والا نظر آ گیا تھا۔ ہالے اور میں نے اس سے ٹکرانے سے بہتر سمجھا کہ دوسری گلی میں چلے جائیں، ویسے بھی شٹل کے آنے تک ہمیں انتظار تو کرنا تھا نا۔
اگر کبھی پچھلی گلی میں کوئی جاننے والا ملے اور تمہیں استقلال میں آنا پڑے تو بے شک برگر کنگ کے اسی دروازے کو استعمال کر لینا۔ اس کی پچھلی طرف گھنٹی لگی ہے۔ گلاس خالی کر کے جہان نے کچرے دان میں اچھال دیا۔ حیا کا ابھی آدھا گلاس باقی تھا۔ 
تم سناؤ! تمہیں لندن کب جانا ہے۔ وہ کافی بلند آواز میں بول رہی تھی۔ قریب سے گزرتے تاریخی، سرخ ٹرام میں سوار سیاحوں کا گروہ اونچی اونچی سیٹیان بجا رہے تھا۔ جس کے باعث کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ 
اگلے ماہ کا سوچ رہے ہیں۔ تب تک تم بھی فارغ ہو گی۔ باقی ایکسچینج اسٹوڈنٹس کہاں جا رہے ہیں؟
کچھ ترکی میں ہی گھومیں پھیریں گے، اور کچھ قطر، پیرس، دبئ وغیرہ جا رہے ہیں۔
تو تم ہماربے ساتھ لندن چلو نا۔ پھر جولائی میں
واپس آکر کلیئرنس کروانا اور پاکستان چلی جانا۔
میں اپنی دوستوں کے ساتھ بیوک ادا رہنا چاہتی ہوں۔ گو کہ جہان کے ساتھ لندن جانے کا خیال کافی پرکشش تھا، مگر اس نے فورا ہامی بھرنا مناسب نہ سمجھا۔ 
اوہ! ڈونٹ ٹیل می کہ تم ابھی تک وہی رپورٹ لکھ رہی ہو۔
جہان نے ہاتھ ہلا کر گویا ناک سے مکھی اڑائی۔ حیا نے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔ ہالے کی دوست چھاپنے کے لیے تیار تھی، مگر جہان کے منع کرنے پہ اس نے وہ رپورٹ بند کر دی تھی۔ آج صبح ہی جب وہ اس بارے میں سوچ رہی تھی تو اسے لگا اسے یہ سب کسی بااعتماد شخص سے شیئر کرنا چاہیے اور میجر احمد سے بڑھ کر کسی پہ اعتبار نہیں تھا۔ تب ہی صبح اس نے میجر احمد کو ٹیکسٹ کیا تھا کہ وہ بات کرنا چاہتی ہے، مگر کوئی جواب نہیں آیا تھا۔
نہیں! میں نے اسے ذہن سے نکال دیا ہے۔
گڈ گرل! وہ ایک دم اس کہ بالکل مقابل آکھڑا ہوا، یوں کے حیا کا سامنے کا منظر چھپ گیا۔ وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔
بعض دفعہ جو ہم دیکھتے ہیں، وہ ہو نہیں رہا ہوتا اور جو ہو رہا ہوتا ہے، وہ ہم دیکھ نہیں رہے ہوتے۔
کہتے ہوئے اس نے رول شدہ اخبار کھولا اور پھر اسے لپیٹنے لگا، یہاں تک کہ کون آئس کریم کی سنہری کون کی طرح اس نے اخبار کو رول کر دیا۔ پھر اس نے حیا کا گلاس لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا ۔ حیا نے نا سمجی سے گلاس اسے پکڑایا ۔
ایک چیز ہوتی ہے، نظر کا دھوکا، لوگ وہ نہیں ہوتے، جو وہ نظر آتے ہیں اور جو وہ ہوتے ہیں، اسے وہ چھپا کر رکھتے ہیں۔ اس نے گلاس کون کے منہ میں انڈیل دیا۔ جوس دھار کی صورت اخبار کی کون میں گرنے لگا۔ جہان نے خالی گلاس حیا کو تھمایا اور اخبار کی کون کو مزید لپیٹنا شروع کیا۔ پھر اس کا منہ بند کر دیا اور مخالف سمت سے اخبار کھولنے لگا۔ تہیں کھلتی گئیں اور پورا اخبار سیدھا کھل کر سامنے آگیا۔
صفحے سوکھے تھے اور جوس غائب۔
زبردست! وہ مسکراتے ہوئے تالی بجانے لگی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ کوئی ٹرک تھی۔ اس نے یقینا کمال مہارت سے جوس کہیں آس پاس گرا دیا تھا یا پھر کچھ اور کیا ہو گا، بہرحال اس کا انداز متاثر کن تھا۔
وہ دونوں پھر سے ساتھ چلنے لگے تھے۔ جہان نے اخبار اب دو رویہ تہہ کر کے ہاتھ میں پکڑ لیا تھا۔
دفعتا حیا کا فون بجا۔ اس نے پرس سے موبائل نکال کر دیکھا۔ مجیر احمد کی کال آ رہی تھی۔ اس نے کال کاٹ دی اور فون رکھ دیا۔ جہان اتنا مہذب تو تھا کہ کوئی سوال نہ کرتا، مگر وہ خود بتانا چاہتی تھی۔
مجیر احمد کی کال تھی کچھ کام تھا ان سے۔ وہ چلتے ہوئے سرسری انداز میں بولی۔ یہ سراسر جواء تھا۔ جہان کے موڈ کا کچھ بھروسا نہ تھا، مگر وہ اس پہ بھروسا کرنا چاہتی تھی۔
میجر احمد کون؟ اس نے ناسمجھی سے حیا کو دیکھا۔ 
پاکستان میں ہوتے ہیں، سائبر کرایم سیل میں انٹیلی جنس آفیسر ہیں۔ تمہارے ابا کو بھی جانتے ہیں۔ وہ ذرا رکی۔ میں ان سے بات کروں تو تمہیں برا تو نہیں لگے گا نا؟
آف کورس نہیں! اس نے شانے اچکا دیے۔ کون کتنا قابل اعتبار ہے، یہ فیصلہ تم جود کر سکتی ہو، کیوں کہ میرے نزدیک تو سب ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔
اتنی بے یقینی بھی اچھی نہیں ہوتی جہان! 
رئیلی؟ جیسے تمہیں یقین ہے کہ تمہارا جوس میں نے کہیں گرا دیا تھا؟ وہ پھر اس کے مقابل آ کھڑا ہوا اور گلاس لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا جو جانے کیوں ابھی تک وہ پکڑے کھڑی تھی۔
یقینا تم نے ایسا کیا ہو گا۔ اس نے گلاس جہان کو تھما دیا۔ تب تک وہ اخبار کو دوبارہ کون کی شکل میں لپیٹ چکا تھا۔ گلاس لے کر اس نے اخبار کی کون کا کھلا منہ گلاس میں الٹا۔ پینا کولاڈا ایک دھار کی صورت گلاس میں گرنے لگا۔
وہ بے یقینی سے ساکت کھڑی دیکھ رہی تھی۔
یہ تم نے کیسے کیا؟ میں نے۔۔۔۔۔۔ میں نے خود دیکھا تھا کہ اخبار سوکھا تھا۔ پھر یہ جوس کہاں سے آیا؟
اگر جادوگر اپنی ٹرک کے گورا بعد ہی راز بتا دے تو کیا فائدہ؟ کبھی فرصت میں بتاؤں گا کہ یہ کیسے ہوا۔ البتہ اگر تم میری جگہ پہ کھڑی ہو کر دیکھتیں تو جان پاتیں کہ کیسے کیا ہے جب تک انسان دوسرے کی جگہ پہ کھڑا ہو کر نہیں دیکھتا، اسے پوری بات سمجھ میں نہیں آتی۔
تم عجیب ہو جہان! اس نے تحیر سے سر جھٹکا۔
ان دونوں چیزوں کو ٹریش میں پھینک دو، میری پیاس مر گئی ہے۔
وہ ہنس پڑا۔ نہیں! تمہاری پیاس ڈر گئی ہے۔ پھر شعبدہ باز نے دونوں چیزیں ایک قریبی کچرے دان میں اچھال دیں۔
دور سامنے گلی کے اختتام پر ایک اونچا ٹاور تھا۔ جس نے گلی کا دہانہ بالکل بلاک کر رکھا تھا، جیسے زمین سے اگ آیا ہو۔ وہ یوں تھا جیسے پاکستان میں اونچی گول سی اینٹوں کی بھٹی ہوتی ہے، ویسا ہی سلنڈر نما ٹاور جس کا گنبد کون کی شکل کا تھا۔
یہ رہا وہ انت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ Galata ٹاور (غلطہ ٹاور) جسے جاننے کا تمہیں تجسس تھا۔ اس نے ٹاور کی طرف اشارہ کیا۔ 
اور انت جاننے کا سب سے بڑا نقصان پتا ہے کیا ہوتا ہے جہان؟ 
جہان نے سولیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
انسان کا سفر ختم ہو جاتا ہے.۔ اس نے گہری سانس لی اور پلٹ گئی۔ وہ شانے اچکا کر اس کے پیچھے ہو لیا۔
••••••••••••
ترکی والوں کو سلام۔ واپسی پر گورسل میں بیٹھے جب اس نے میجر احمد کو کال کی اور جوابا احمد نے کال کاٹ کر اسے خود سے کال کی تو اس کا ہیلو سنتے ہی وہ جیسے کسی خوشگوار حیرت کے زیراثر بولا تھا۔
زندگی میں پہلی دفعہ آپ نے میجر احمد کو خود یاد کیا ہے۔ مگر جب آپ نے کال نہیں اٹھائی تو میں سمجھا کہ وہ ٹیکسٹ آپ نے غلطی سے کیا ہو گا۔
یہ بات نہیں ہے۔ میں اس وقت جہان کے ساتھ تھی۔ سوچا بعد میں تفصیلی بات کروں گی۔
اچھا۔ وہ جیسے چپ ہو گیا۔ شاید اسے جہان کا ذکر کرنا ناگوار گزرا تھا۔ 
میں نے جہان کو آپ کے بارے میں بتایا، مگر وہ آپ کو نہیں جانتا۔
کیوں؟ آپ نے کیوں بتایا؟ وہ بہت حیران ہوا۔ 
شوہر کو علم ہونا چاہیے کہ اس کی بیوی کس سے بات کرتی ہے۔ وہ ذرا جتا کر بولی۔ جانتی تھی کہ اس کا استحقاق سے شوہر کی بات کرنا احمد کو کتنا برا لگتا تھا۔
شوہروں کا بھروسہ نہیں ہوتا۔ احتیاط کیجیے گا، آپ پھنس ہی نہ جائیں۔
غلط کام تو نہیں کر رہی کہ پھنسوں۔ بہرحال! ہم کام کی بات کریں۔ اس ک لہجہ بےلچک ہو گیا۔ ساتھ ہی جو کچھ بیوک ادا میں وہ جان پائی تھی، اس نے وہ میجر احمد کو بتا دیا۔
میں وہ رپورٹ شائع کروانا چاہتی تھی، مگر جہان نے منع کر دیا۔ روانی میں کہہ گئی۔ پھر ایک دم خاموش ہو گئی۔
وہ منع تو کرے گا، اس کا بہت کچھ داؤ پر جو لگے گا۔ خیر! آپ بالکل وہ رپورٹ شائع کروائیں، مگر حیا!حیا اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
کیا مطلب.؟ وہ جہان والی بات نظرانداز کر گئی۔ وہ ذاتی عناد کے باعث کہہ رہا تھا یقینا۔
ایک رپورٹ سے اے آر پی جیسے بندے کا کیا بگڑے گا۔؟ مافیا کے ایک ایک بندے کے پیچھے پوری کی پوری نیٹ ورکنگ ہوتی ہے۔ عبدالرحمن جیسے شہرت یافتہ تو صرف پل کا کام کرتے ہیں۔ ایسے کہ اپنے دامن پر کوئی چھینٹا نہ پڑے۔ سو ان کے خلاف نہ
ثبوت ہوتے ہیں، نہ فائلز کھلتی ہیں۔
مگر میں نے سنا ہے کہ اس کے عالمی دہشت گرد تنظیموں سے بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس سے سنا ہے؟ وہ بات کاٹ کر بولا۔
لیڈی کبریٰ سے۔ ادالار میں۔
بہرحال! یہ دوسری دنیا کے لوگ ہیں۔ آپ ان معاملوں میں مت پڑیں۔
تو پھر یہ پاشا میرے پیچھے کیوں پڑا ہے آخر؟ وہ زچ ہو کر بولی.۔
مجھے تو لگتا ہے حیا! اس نے آپ کا پیچھا چھوڑ دیا ہے۔ اب صرف آپ انس کے پیچھے پڑی ہیں۔
وہ ایک دم چپ ہو گئی۔ اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
ویسے ضروری نہیں تھا کہ آپ میرے بارے میں جہان سکندر کو بتائیں۔ انسان کو کچھ باتیں اپنے تک بھی رکھنی چاہئین۔ 
بس باسفورس برج سے گزر رہی تھی اور وہ کھڑکی سے باہر پل تلے بہتا سمندر کو دیکھ سکتی تھی۔ وہاں حسب معمول ایک فیری تیر رہا تھا۔
میں نہیں چاہتی کہ کوئی میرے اور آپ کے رابطے کو غلط طریقے سے استعمال کرے مجھے رسوا کر سکے۔
اللہ آپ کو رسوا نہیں کرے گا حیا! جنت کے پتے تھامنے والوں کو اللہ رسوا نہیں کرتا۔
اسی لمحے دور نیچے سمندر کے کناروں پر بگلوں کا ایک غول پھڑپھڑاتا ہوا اڑا تھا۔ وہ نگاہیں ان کے سفید پروں پر مرکوز کیے ٹھہر سی گئی۔
آپ جنت کے پتے کسے کہتے ہیں
احمد نے گہری سانس لی اور کہنے لگا۔
آپ جانتی ہیں، آدم علیہ السلام اور حوا جنت میں رہا کرتے تھے، اس جنت میں، جہاں نہ بھوک تھی، نہ پیاس، نہ دھوپ اور نہ برہنگی۔ تب اللہ نے انہیں ایک ترغیب دلاتے درخت کے پاس جانے سے روکا تھا، تا کہ وہ دونوں مصیبت میں نہ پڑ جائیں۔ وہ سانس لینے کو رکا۔
بس اب پل کے آخری حصے پہ تھی۔ بگلوں کا غول فیری کے اوپر سے پھڑپھڑاتا ہوا گزر رہا تھا۔ سمندر پیچھے کو جا رہا تھا۔
اس وقت شیطان نے ان دونوں کو ترغیب دلائی کہ اگر وہ اس ہمیشگی کے درخت کو چھو لیں تو فرشتے بن جائیں گے یا پھر ہمیشہ رہیں گے۔ انہیں کبھی نہ پرانی ہونے والی بادشاہت ملے گی۔
پل پیچھے رہ گیا۔ گورسل اب پرانے شہر (اناطولیہ یا ایشیائی حصہ) میں داخل ہو رہی تھی۔ وہ ہر شے سے بے نیاز یکسوئی سے سن رہی تھی۔
سو انہوں نے درخت کو چکھ لیا۔ حد پار کر لی۔۔۔۔۔۔
تو ان کو ورا بے لباس کر دیا گیا۔ اس پہلی رسوائی میں جو سب سے پہلی شےجس نے انسان کو ڈھکا تھا، وہ جنت کے پتے تھے، ورق الجنتہ۔
پرانے شہر کی سڑک پر کوئی ٹریفک جام تھا۔ گورسل بہت سست روی سے چل رہی تھی۔ سڑک کنارے چلتے لوگ اور دکانوں پہ لگا رش، اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہاتھا۔ وہ بس سن رہی تھی۔
آپ جانتی ہیں، ابلیس نے انسان کو کس شے کی ترغیب دلا کر اللہ کہ حد پار کروائی تھی؟ فرشتہ بننے کی اور ہمیشہ رہنے کی۔ جانتی ہو حیا! فرشتے کیسے ہوتے ہیں؟
اس نے نفی میں گردن ہلائی، گو کہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسے نہیں دیکھ سکتا۔
فرشتے خوب صورت ہوتے ہیں۔ وہ لمحے بھر کو رکا۔ اور ہمیشہ کی بادشاہت کسے ملتی ہے؟ کون ہمیشہ کے لیے امر کون ہو جاتا ہے؟ وہ جسے لوگ بھول نہ سکیں، جو انہیں مسحور کر دے، ان کے دلوں پر قبضہ کر لے۔ خوبصورتی اور امر ہونے کی چاہ، یہ دونوں چیزیں انسان کو دھوکے میں ڈال کر ممنوعہ حد پار کرواتی ہیں اور پھل کھانے کا وقت نہیں ملتا۔ انسان چکھتے ہی بھری دنیا میں رسوا ہو جاتا ہے۔ اس وقت اگر وہ خود کو ڈھکے تو اسے ڈھکنے والے جنت کے پتے ہوتے ہیں۔ لوگ اسے کپڑے کا ٹکڑا کہیں یا کچھ اور، میرے نزدیک یہ ورق الجنتہ ہیں۔
پرانے شہر کی قدیم اونچی عمارتوں پر سے دھوپ رینگ گئی تھی اور اب چھاؤں کی نیلاہٹ ان پر چھا رہی تھی۔ وہ سانس روکے موبائل کان سے لگائے دم سادھے بیٹھی سن رہی تھی۔
جنت کے پتے صرف اسی کو ملتے ہیں، جس نے ترغیب کو چکھنے کی کوشش کی ہوتی ہے اور ان کا سفر ان کو خود پہ لگا لینے کے بعد ختم نہیں ہو جاتا، کیونکہ ان کو تھامنے سے پہلے انسان جنت میں ہوتا ہے۔ تھامنے کے بعد وہ دنیا میں اتار دیا جاتا ہے، بخشش مل جاتی ہے، مگر دنیا شروع ہو جاتی ہے اور پھر۔۔۔۔۔۔۔
وہ جیسے دھیرے سے مسکرایا۔
دنیا والوں نے جنت تو نہیں دیکھی ہوتی نا! سو ان کو معلوم ہی نہیں ہوتا جنت کے پتے دکھتے کیسے ہیں۔سو وہ ان کے ساتھ سلوک بھی وہی کرتے ہیں، جو کسی شے کی اصل جانے بغیر اس کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ آپ دنیا میں اترنے کے بعد دنیا والوں کے رویے سے پریشان مت ہوئیے گا۔
وہ خاموش ہوا تو کوئی طلسم ٹوٹا۔ سحر کا بلبلہ جو اس کے گرد تن چکا تھا، پھٹ کر ہوا میں تحلیل ہو گیا۔
تھینکس میجر احمد! وہ گہری سانس لے کر بولی۔ اس وقت کچھ زیادہ کہنے کے قابل نہیں تھی۔
آپ اچھے انسان ہیں، اچھی باتیں کرتے ہیں۔ 
شکریہ! میں اب فون رکھتا ہوں۔ اپنا خیال رکھیے گا۔ اس نے فون کان سے ہٹایا۔ اس کا کان سن ہو چکا تھا۔
قدیم شہر کی عمارتوں میں اس کو ابھی تک میجر احمد کی باتوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔
••••••••••••••••••
اناطولین سٹی میں ایک سیمینار ہے، چلو گی؟ ہالے نے ڈورم کے دروازے سے جھانک کر اسے مخاطب کیا۔ وہ جو اپنی کرسی پر بیٹھی میز پہ پھیلی کتابوں میں منہمک تھی، چونک کر پلٹی۔
ابھی تو ممکن نہیں ہے، میرے پورے دو چیپٹر رہ گئے ہیں۔ حیا نے صفحے آگے پلٹ کر دیکھا اور پھر نفی میں گردن ہلائی۔ 
کار میں پڑھ لینا۔ کتاب ساتھ لے چلو۔
اتنا ضروری کیا ہے؟
تم پچھتاؤ گی نہیں۔ لکھ کر رکھ لو۔ ہالے مصر تھی، سو اس نے کتاب ساتھ رکھ لی۔ پزل باکس بھی بیگ میں ڈال لیا اور بھنی مونگ پھلی کا پیکٹ جو کلہی دیا اسٹور سے لائی تھی، ہاتھ میں پکڑ لیا۔
کپڑے ٹھیک ہیں؟ اس نے گردن جھکا کر صبح کے پہنے لباس کو دیکھا۔ گرے اسکرٹ کے ساتھ لائم گرین بلاؤز اور اوپر گرے اسکارف جو ابھی ابھی پن اپ کیا تھا۔
ہاں! ٹھیک ہیں، چلو۔ ہالے نے کار کی چابی اور پرس سنبھالا۔ یہ اس کا خوش قسمت دن تھا کہ آج اس کے پاس کار تھی۔ 
وہ سیمینار ہوٹل کے جس ہال میں تھا وہ ہال سب سے اوپر والے فلور پر تھا۔ اس کی دو متوازی دیواریں گلاس کی بنی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہال کھچا کھچ بھرا تھا۔ عورتیں، لڑکیاں اور بے حد معمر خواتین، خالص نسوانی ماحول تھا۔
ان دونوں کو شیشے کی دیوار کے ساتھ جگہ ملی۔ حیا کی کرسی قطار کی پہلی کرسی تھی، سو اب اس کے دائیں طرف گلاس وال تھی اور بائیں طرف ہالے۔ اس نے مونگ پھلی کا پیکٹ کھول کر درمیان میں رکھ دیا تھا۔ وہی ڈی جے کے ساتھ کلاس میں کھانے کی عادت۔
روسٹرم کے عقب میں دیوار اس خوب صورت بینر سے ڈھکی تھی، جس پر انگریزی میں چھپا تھا۔
Face Veil Mandatory or Recommended
(چہرے کا نقاب، واجب یا مستجب؟) 
اس نے دو انگلیوں اور انگوٹھے کو پیکٹ میں ڈال کر چند دانے نکالے اور منہ میں رکھے۔ وہ اسکارف کر لے، یہ اس کے تقویٰ کی انتہا تھی۔ سو اب چہرے کانقاب واجب تھا یا مستجب، کیا فرق پڑتا تھا؟
سیمینار انگریزی میں تھا۔ سو ڈائس سنبھالے کھڑی میرون اسکارف والی عربی خاتون انگریزی میں ہی کہہ رہی تھیں۔
واجب وہ چیز ہوتی جو کریں تو ثواب، نہ کریں تو گناہ، جبکہ مستجب وہ کام ہیں جو کریں تو ثواب، مگر نہ کرنے پہ گناہ نہیں ہے۔ اب اس بات پر تو سب راضی ہیں کہ لڑکیوں کا سر اور جسم ڈھکنا واجب، لیکن کیا چہرہ ڈھکنا بھی لازمی ہے؟
حیا کے دائیں جانب گلاس وال پہ ایکدم سے کوئی پرندہ آ ٹکرایا تھا۔ وہ چونکی۔ وہ ننھی سی چڑیا تھی جو شیشے سے ٹکرا کر نیچے گر گئی تھی۔
جب میں کہتی ہوں کہ چہرہ ڈھکنا واجب نہیں، صرف مستجب ہے تو اس کی وجہ وہ حدیث ہے کہ جب حضرت اسماء بنت ابو بکر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور ان کا لباس ذرا باریک تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”اسماء! جب لڑکی جوان ہو جاتی ہے تو سوائے اس اور اس کے (چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کر کے) کچھ نظر نہیں آن چاہیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چہرہ کھلا رہنے پہ گناہ نہیں ہوتا۔
گری ہوئی چڑیا اب سنبھل کر فرش پر پھدک رہی تھی۔ چند ایک بار اس نے شیشے کی دیوار پر پنجے مار کر چڑھنے کی کوشش کی، مگور ناکام رہی۔
اور پھر جب حج کے موقع پر ایک لڑکی جو اونٹ پر سوار آپ سے بچے کے حج کے بارے میں پوچھ رہی تھی تو آپﷺ کے پیچھے کھڑے فضل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ لاشعوری طور پر اس لڑکی کے چہرے کو دیکھ رہے تھے تو آپ ﷺ نے ہاتھ پیچھے کر کے فضل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا چہرہ دوسری جانب پھیر دیا، جبکہ اس لڑکی کو چہرہ ڈھکنے کا نہیں کہا۔ دوسری طرف آپ ﷺ کے زمانہ میں ازواج مطہرات اور صحابیات جو حجاب اوڑھتی تھیں، وہ مستحب کے درجے کا تھا۔ واجب کا نہیں۔ سو جو سورۃ نور میں ہے کہ وہ اپنی زینتیں چھپائیں، سوائے اس کے کہ جو خود ظاہر ہو جائے تو اس ”وہ جو خود ظاہر ہو جائے“ میں سرمہ، انگھوٹھی وغیرہ کے ساتھ چہرہ بھی شامل ہے۔
چڑیا پھڑپھڑاتی ہوئی کب کی اڑ چکی تھی۔ وہ مونگ پھلی چباتے ہوئے سر اثبات میں ہلاتی مقررہ کو سن رہی تھی۔ وہ مزید چند دلائل دے کر اپنی کرسی پر واپس جا چکی تھیں اور تب تک وہ مطمئن ہو چکی تھی۔ اسے ان کی ساری بات ٹھیک لگی تھی۔
میں ڈاکٹر فریحہ سے اختلاف کی جسارت کروں گی۔ ڈائس پر آنے والی گرے اسکارف والی مقررہ اپنی بات شروع کر چکی تھیں۔ وہ دراصل بحث تھی۔ حیا اور ہالے باری باری اپنی پیکٹ میں انگلیاں ڈال کر مونگ پھلی نکالتے ہوئے، پوری طرح ان کی طرف متوجہ تھیں۔
رہی اسماء بنت ابوبکر رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ والی حدیث، اس کی تشریح تو محرم رشتوں کے لحاظ سے بھی کی جا سکتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سالی تھیں اور اسی حدیث سے ہم دلیل لیتے ہیں کہ بہنوئی سے چہرے کا پردہ نہیں ہوتا اور حضرت فضل رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ والا واقعہ حج کے موقع کا تھا اور حج پر آپ ﷺ نے سختی سے نقاب یا دستانے پہننے س منع فرمایا تھا۔ جس سے ظاہر ہوتاہ کہ نقاب کرنا اس زمانے میں ایک کامن پریکٹس تھی۔
دو فاختائیں تیزی سے اڑتی ہوئی آئیں اور شیشے کی دیوار سے ٹکرائیں۔ حیا نے گردن موڑ کر دیکھا۔ وہ اب ٹکرا کر نیچے جا گری تھیں اور اگلے ہی پل اٹھ کر اڑ گئیں۔
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کہتی ہیں کہ جب گریبانوں کو ڈھانپ لینے کا حکم نازل ہوا تھا تو مدینے کی عورتوں نے وہ حکم سنتے ہی اپنی اوڑھنیاں حصوں میں پھاڑی اور سر سے پاؤں تک خود کو اس سے ڈھانپ لیا۔ یہاں ڈھانپنے سے مراد چہرہ ڈھانپنا بھی ہے۔ سو ”وہ جو خود ظاہر ہو جائے“ میں انگوٹھی، سرمہ، جوتی تو آتی ہے، مگر چہرہ نہیں۔
پھر جب ابن عباس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے آیت حجاب کی تفسیر پوچھی گئی تھی تو آپ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ نے اپنی چادر سر پر لپیٹ کر بکل مار کر دکھائی، یوں کہ بس ایک آنکھ واضح تھی۔ آیت حجاب میں اللہ نے ”اے ایمان والو!“ کہہ کر حکم دیا ہے اور جب اللہ تعالیﷻ مومن کو اس کے ایمان کا واسطہ دے کر حکم دیتا ہے تو وہ حکم بے حد اہم ہوتا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ صرف سر اور جسم ڈھکنا واجب نہیں، بلکہ چہرہ ڈھکنا بھی واجب ہے۔
وہ گردن ذرا سی پھیرے شیشے کی دیوار کو دیکھ رہی تھی، جہاں تھوڑی سی دیر میں بہت سے پرندے ٹکرائے تھے۔ تایا فرقان کہتے تھے کہ پرندے یوں اس لیے کرتے ہیں، کیونکہ وہ پچھلے سال جب یہاں سے گزرے تھے تو وہ عمارت وہاں نہیں تھی۔ اب وہ راستے پر اپنی رو میں اڑتے جا رہے ہوتے ہیں تو ٹکر لگنے پہ معلوم ہوتا ہے کہ راستہ بلاک ہے۔ معلوم نہیں، تایا کی فلاسفی کتنی درست تھی، مگر وہ ہوٹل نیا تعمیر شدہ ہی تھا۔ شاید وہ واقعی پرندوں کی گزرگاہ کے درمیان بن گیا تھا۔
مستجب اور واجب، بحث بہت پرانی ہے۔ ڈائس پر اب ایک سیاہ عبایا اور سیاہ اسکارف والی دراز قد، شہد رنگ آنکھوں والی خاتون آ چکی تھیں۔ خوبصورت، شفاف چہرہ، نرم سی مسکراہٹ، سب بہت توجہ سے انہیں سن رہے تھے۔
آپ نے مستجب والوں کے دلائل سنے، آپ کو لگا ہو گا کہ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ آپ نے پھر واجب والوں کا بیان سنا، تو لگا کہ وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ اب آپ کہیں گے کہ دونوں ٹھیک کہتے ہیں؟ یہ وہی لطیفہ ہو جائے گا کہ آپ بھی ٹھیک کہتے ہیں۔
ہال میں بے اختیار قہقہہ بلند ہوا۔ شیشے کی دیواریں بھی مسکرا اٹھیں۔
ایسا ہے کہ میں ان دونوں میں سے کسی گروہ کی حمایت یا مخالفت کرنے کے لیے نہیں آئی۔ میں کچھ اور کہنا چاہتی ہوں۔
وہ لمحے بھر کو رکیں۔ پورا حال بہت دلچسپی سے سن رہا تھا۔
ہم عموما دنیا اور آخرت کی مثال کسی کالج ایگزام سے دیتے ہیں، رائٹ؟ تو وہی مثال لے لیتے ہیں۔ دنیا اور آخرت کے کسی بھی سکول یا کالج کا جب پیپر سیٹ کیا جاتا ہے تو اس میں چند سوال بہت آسان رکھے جاتے ہیں۔ جو کوئی اوسط درجے کا طالب علم بھی حل کر کے %33 سے زیادہ نمبر لے کر پاس ہو سکتا ہے۔ پھر چند سوال ذرا مشکل ہوتے ہیں جو صرف اچھے طلبہ حل کر کے ستر، اسی فیصد نمبر لے جاتے ہیں اور آخر میں کچھ سوال بہت پیچ دار۔۔۔۔۔۔۔ اور مشکل رکھے جاتے ہیں۔ وہ سوال پوزیشن ہولڈرز کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اسی لیے عموما پوزیشن ہولڈرز کے آپس میں چند نمبرز یا پرسنٹیج کے ذرا سے تناسب کا فرق ہوتا ہے۔ یہ سوال مستحب ہوتے ہیں۔ ہم عموما سمجھتے ہیں کہ مستحب وہ ہوتا ہے کہ جب پانچ میں سے چار سوال حل کرنے ہوں، تو چاروں میں سے کوئی غلط ہونے کے ڈر سے پانچواں بھی اٹیمپ کر دیا جائے، ایکسٹرا سوال جبکہ وہ مستحب نہیں ہوتا۔
وہ اب کرسی پہ ذرا آگے ہو کر بیٹھی غور سے سن رہی تھی۔ استنبول کی خوب صورت عورتوں کی خوب صورت باتوں کا بھی ایک اپنا ہی سحر تھا۔
اب ہوتا یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ شفاف چہرے والی ڈاکٹر شائستہ کہہ رہی تھیں۔ کہ اس مسئلے پہ واجب والے، مستحب والوں پہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ اپنی مرضی کا دن چاہتے ہیں اور خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ جبکہ مستحب والے انہیں کہتے ہیں کہ آپ شدت سند ہو رہے ہیں۔ الزامات کی اس جنگ میں لڑکیوں کے پاس بہانہ آ جاتا ہے کہ انہیں حجاب کی ضرور نہیں ہے۔ وہ ایسے ہی ٹھیک ہیں، کیونکہ یہ تو ثابت ہی نہیں ہے کہ اسلام میں چہرے کا پردہ ہے بھی یا نہیں۔ جبکہ یہ غلط تاثر ہے۔ بحث نقاب کے ”ہونے“ یا ”نہ ہونے“ کی نہیں ہے، بلکہ بحث اس کے واجب یا مستحب ہونے کی ہے۔ آسان الفاظ میں کہتی ہوں، اس پہ سب راضی ہیں کہ نقاب کرنے پہ ثواب ہے، جبکہ اختلافی نقطہ یہ ہے کہ کیا نقاب نہ کرنے پہ گناہ بھی ہے یا نہیں؟ 
اس نے اسکالر کے چہرے کو دیکھتے انگلیاں پیکٹ میں ڈالیں تو پوروں نے خالی پلاسٹک کو چھوا۔ مونگ پھلی کب کی ختم ہو چکی تھی۔ اس نے انگلیاں نہیں نکالیں، وہ ویسے ہی پوری یکسوئی سے اسٹیج کی طرف دیکھ رہی تھی۔
میں سوچتی ہوں کہ تھوڑی دیر کے لیے ہم اختلافی نقطہ یعنی گناہ ہے یا نہیں۔ چھوڑ دیں اور صرف "متفق نقطے" پہ غور کریں تو اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ "گناہ کو چھوڑ دیں۔" کامن پوائنٹ دیکھیں کہ نقاب کرنا ایک نیکی ہے۔ بہت بڑی نیکی۔ تو کیا جو چیز مستحب ہوتی ہے، اسے فالتو سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے؟ جیسے مستحب والے کرتے ہیں۔ وہ نقاب کو غیر واجب قرار دے کر اس کی ترویج و تبلیغ کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف 33 فیصد والے جواب دے کر کسی فالتو سوال کے بغیر ہی ہم پاس ہو جائیں گے؟ کیا ہمیں یقین ہے کہ ہمارا 33 فی صد کا جواب نامہ بھی درست لکھا گیا ہے؟
ان کے سوال پر ہال میں خاموشی چھائی رہی مرعوب سی خاموشی۔
"ادھر ہم سب عورتیں اور لڑکیاں ہی موجود ہیں۔ ایک بات کہوں آپ سے؟ ہم میں یہ چند باتیں ضرور ہوتی ہیں۔ ساری نہیں تو کچھ تو ضرور ہی۔ ہم جلد جیلس ہو جاتی ہیں، کسی کے پیچھے اس کی برائی بھی کر لیتی ہیں۔ منہ سے جھوٹ بھی پھسل جاتا ہے ۔ نمازیں ہم پوری پڑھتی نہیں۔ جو پڑھیں، ان میں بھی دھیاں کہیں اور ہوتا ہے۔ ان کا بھی پتہ نہیں کتنا پانچواں ، نواں یا دسواں حصہ لکھا جاتا ہو گا۔ رمضان کے روزے رکھ لیں تو چھوٹے روزوں کی قضا دینا بھول جاتے ہیں۔ یہ تھا وہ 33 فیصد پرچہ۔ یہ کتنا اچھا ہم حل کر رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں۔ پھر بھی ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں کسی ایکسٹرا عمل کی ضرورت نہیں؟ مائی ڈئیر لیڈیز! جنت صرف خواہش کرنے سے نہیں مل جاتی۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آدم کی اولاد میں ہر ایک ہزار میں سے 999 جہنم میں ڈالے جائیں گئے اور صرف ایک جنت میں داخل کیا جائے گا؟ یہ میں نہیں کہہ رہی، یہ بخاری کی حدیث ہے۔ کیا ہم اس اعمال نامے کے ساتھ اس "ایک" میں شامل ہو سکتے ہیں؟
وہ بالکل ساکت بیٹھی، بنا پلک جھپکے مقررہ کو دیکھ رہی تھی۔ "جہنم" کے لفظ نے اس کی آنکھوں کے سامنے ایک فلم چلا دی تھی۔
ہراقلیطس کی دائمی آگ، بھڑکتا آتش دان، دھکتے انگارے۔
آج ہم بحث کرتے ہیں کہ نقاب واجب ہے یا نہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ کل کو قیامت کے دن جب ہم ایک ایک نیکی کہ تلاش میں ہوں گے تب ہم شاید رو رو کر کہیں کہ آخر اس سے کیا فرق پڑتا تھا کہ حجاب واجب تھا یا مستحب، تھا تو نیک عمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا تو ثواب ہی نا، تو ہم نے کیوں نہیں کیا؟ انہوں نے رک کر ایک گہری سانس اوپر کو کھینچی۔ یقین کریں! میں واجب والوں اور مستحب والوں، کسی کی حمایت یا مخالفت نہیں کر رہی۔ میں بس ایک بات کہہ رہی ہوں کہ حجاب کرنا نیکی ہے، سو چاہے آپ اسے واجب سمجھ کر کریں یا مستحب سمجھ کر۔۔۔۔۔۔ اسے کریں ضرور اور اسے پھیلائیں بھی ضرور۔ ہمارے جھوٹ، خیانتیں اور دھوکے ہمارے لیے جو آگ تیار کر رہے ہیں، اس سے دور ہونے کے لیے جو کرنا پڑے کریں اور ایک آخری بات۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھر سانس لینے کو رکیں۔ ہال میں اسی طرح مکمل خاموشی تھی۔
آپ حجاب کے جس بھی درجے پر ہوں، صرف اسکارف لیں یا عبایا بھی لیں یا ساتھ میں نقاب بھی کریں، جو بھی کریں، اس پر قائم ہو جائیں۔ اس سے نیچے کبھی نہ جائیں اور پھر اس کے لیے لڑنا پڑے تو لڑیں۔ مرنا پڑے تو مریں، مگر اس پہ سمجھوتا کبھی نہ کریں۔ مجھے نہیں معلوم کہ حجاب واجب ہے یا مستحب، میں بس یہ جانتی ہوں کہ یہ اللہ کو پسند ہے تو پھر یہ مجھے بھی پسند ہونا چاہیے۔
وہ اسٹیج سے اتریں تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
گرے اسکارف والی اور میرون اسکارف والی دونوں خواتین متفق انداز میں مسکراتے ہوئے سر ہلا کر تالی بجا رہی تھیں۔ 
وہ بالکل چپ، خاموش سی بیٹھی تھی۔ دل و دماغ جیسے بالکل خالی ہو گئے تھے۔ جیسے ہی وہ سیاہ عبایا والی ڈاکٹر شائستہ ہمدانی دروازے کی طرف بڑھیں۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور ان کی جانب لپکی۔ 
میم! وہ تیز قدموں سے چلتے ہوئے ان تک آئی۔
یس؟ وہ پلٹیں۔ ساتھ ہی وہ ایک ہاتھ میں اپنا فون پکڑے تیز تیز کچھ ٹائپ کر رہی تھیں۔
وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی کرنا چاہتی ہوں نقاب۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے اپنی بات سمجھائے۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔ میں کیسے کروں؟
بہت آسان! ڈاکٹر شائستہ نے موبائل بیگ میں ڈالا اور پھر آگے بڑھ کر اس کے اسکارف کا سامنے کو گرا دایاں تکونا پلو اٹھایا۔ اسے پہلے بائیں گال کے ساتھ اسکارف کے ہالے میں اڑسا، اور پھر کچھ حصہ دائیں گال کے اس طرف اڑسا۔ یوں کے اس کے چہرے کو ایک نفیس سے نقاب نے ڈھانپ دیا۔
بس۔۔۔۔۔۔۔ اتنی سی بات تھی۔ مسکرا کر کندھوں کو ذرا سی جنبش دے کر وہ موبائل نکالنے کے لیے پرس کھنگالتے ہوئے پلٹ گئیں۔
اتنی سی بات تھی؟ وہ اپنی جگہ منجمند سی کھڑی رہ گئی۔
بس؟ اتنی سی بات تھی؟ اس کا سانس گھٹا، نہ دل تنگ ہوا، نہ ہی نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھایا۔سب ویسا ہی تھا۔ بس اتنی سی بات تھی؟
اناطولیہ کے بازار میں چہل قدمی کرتے، گوسل کی نشست سے کھڑکی کے باہر دیکھتے، سبانجی کے کیمپس میں واپس بس سے اترتے، ہر جگہ اس نے لوگوں کو، دیواروں کو، مناظر کو کھوجنے کی سعی کی۔ کیا کوئی فرق پڑا تھا؟ مگر اسے احساس ہوا کہ سب ویسا ہی تھا۔ اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ ڈاکٹر شائستہ کا پہنایا نقاب اتار سکتی، سو وہ استنبول میں اسی نقاب کے ساتھ لمحے بتاتی رہی۔ پر کہیں کوئی گھٹن، کوئی تنگی نہ تھی۔ انسان دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے، نہ کہ ناک، رخسار، ٹھوڑی یا پیشانی سے، سو ان کے ڈھکے ہونے کے باوجود منظر وہی رہتا ہے، پھر کیسی پریشانی؟ 
لیکن پھر بھی اسے عجیب سی خفت ہو رہی تھی۔ باوجود اس کے ہالے کا انداز ویسا ہی تھا، جیسا پہلے تھا۔ ڈورم کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے حسین اور معتصم اترتے دکھائی دیے۔ حسین بس لمحہ بھر کو ٹھٹکا تھا، پھر دونوں مسکرا کر سلام کرتے نیچے اتر گئے۔ سب پہلے جیسا تھا۔
"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ﷺ کہہ دیں اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں، تا کہ وہ پہچان لی جائیں اور وہ ستائی نہ جائیں۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔"
وہ اپنی کرسی پر بیٹھی، کتاب پر جھکی، ذہنی طور پر ابھی تک اسی ہال میں تھی، جہاں شیشے کی دیواروں سے پرندے ٹکرا جایا کرتے تھے۔ جب واپسی کے وقت پس منظر میں کسی نے یہ آیت چلا دی تھی تو وہ اس کے ٹرانس سے باہر ہی نہ آ سکی تھی۔ اسے لگا، وہ کبھی اس کے اثر سے نہیں نکل سکے گی۔ لمحے بھر میں اس کی سمجھ میں آ گیا تھا کہ وہ آج تک حجاب یا نقاب کیوں نہیں پہن سکی تھی۔ باوجود اس کے کہ تایا، ابا اور روحیل بھی اسے بہت تاکید کرتے تھے۔ وہ یہ نہیں کر سکی۔ اس لیے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ اپنی کہی۔ کبھی اللہ کی بات سنائی ہی نہیں۔ جبر کی طرح اپنی بات مسلط کرنی چاہی اور اکثر باپ، بھائی یہی تو کرتے ہیں۔ اپنی ہی کہتے رہتے ہیں۔ پھر شکایت کرتے ہیں کہ بچیاں مانتی کیوں نہیں ہیں؟ کبھی اللہ کی سنوا کر تو دیکھتے، پھر علم ہوتا کہ مسلمان لڑکی چھوٹی ہو یا بڑی، نرم ٹہنی ہو یا سخت کانچ، دل اس کا ایک ہی ہوتا ہے۔ وہ دل جو اللہ کی سن کر جھک ہی جاتا ہے۔ پھر کسی وعظ، تقریر یا درس کی ضرورت نہیں رہتی۔
ایک آیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک آیت زندگی بدل دیتی ہے۔ بس ایک آیت

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page