
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر بیس
ببوک ادا کے ساحل پہ لہریں پتھروں سے سر پٹخ رہی تھیں۔ ان کا شور اس اونچے، سفید قصر عثمانی کے اندر تک سنائی دے رہا تھا۔ محل اندھیرے میں ڈوبا تھا، راہداریاں تاریک تھی۔ صرف دوسری منزل کی اسٹڈی میں نیم روشنی چھائی تھی۔ اندر ایک مدھم سا بلب جل رہا تھا یا پھر میز پر کھلا پڑا عبدالرحمن کا لیپ ٹاپ۔ البتہ وہ اسکرین کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ ریوالونگ چیئر کی پشت پہ سر گرائے، سوچتی نگاہوں سے چھت کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی دونوں سونے کی انگوٹھیاں اور موٹے فریم کے گلاسز میز پہ لیپ ٹاپ کے ساتھ رکھے تھے۔
بے خیالی میں اس نے ہاتھ بڑھا کر سگریٹ کی ڈبیا اٹھائی۔ اسے دیکھا اور پھر ذرا کوفت سے واپس میز پر پھینک دیا۔ اس سگریٹ نوشی سے اسے چھٹکارا لے لینا چاہئیے تھا اب تک۔ بلکہ اور بھی بہت چیزوں سے۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور انگلیوں سے کنپٹیوں کو دھیرے دھیرے مسلنے لگا۔ اس کے سر میں کافی دیر سے درد تھا، شاید بہت سوچنے کے باعث اعصابی دباؤ۔
اوں ہوں! اس نے نفی میں سر جھٹکا۔ اس کے اعصاب بہت مضبوط تھے اور وہ کبھی بھی اس قسم کے دباؤ سے نہیں ہار سکتا تھا۔ اس نے خود کو یقین دلایا۔ ویسے بھی سب کچھ ٹھیک ہو رہا تھا۔ ہر شے حسب منشا جا رہی تھی۔ جو تاش کے پتوں کا گھر اس نے بنا رکھا تھا۔ وہ اپنے آخری مرحلے میں تھا۔ کامیابی بہت نزدیک تھی۔ جو وہ چاہتا تھا، سب ویسے ہی ہو رہا تھا۔ مگر اب اسے زیادہ توانائی اور زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی۔ پچھلی دفعہ کھیل آخری مرحلے میں بگڑ گیا تھا۔ ہر شے دھپ سے اس پر آ گری تھی اور وہ بھی اس دوست کے طفیل "دوست" دھوکہ دے، اس سے بڑھ کر تکلیف دہ شے کوئی نہیں ہوتی۔ کچھ پل کے لیے وہ اذیت ناک دن اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائے تھے۔ اپنے قابل سے قابل دوستوں اور جاننے والوں کو چھوڑ کر، وہ اس قابل نفرت آدمی کے پاس گیا تھا مدد کے لیے اور اس نے جو کیا، وہ بہت برا تھا۔
عبدالرحمن نے تلخی سے سر جھٹکا۔ اس وقت کم از کم وہ اس واقعے اور اس شخص کو یاد نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جس نے اس کی پیٹھ پر چھرا کھونپا تھا۔ اللہ ضرور اسے موقع دے گا کہ وہ اس سے اپنا انتقام لے اور وہ کبھی وہ موقع ضائع نہیں کرے گا۔ اس نے قسم کھا رکھی تھی، مگر اس وقت اسے وہ سب بھلا کر ان مواقع پر توجہ مرکوز رکھنی تھی جو اس کے سامنے تھے۔ عبدالرحمن نے کبھی موقعوں کا انتظار نہیں کیا تھا۔ اس نے موقعے ہمیشہ خود پیدا کیے تھے اور پھر اپنے کام نکلوائے تھے۔ اب بھی وہ یہی کر رہا تھا۔
مگر اس سب سے پہلے اسے اس چھوٹے سے مسئلے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا جو چار، پانچ ماہ قبل اس نے خود کھڑا کیا تھا۔ گو کہ ہر چیز ویسے نہیں ہوئی تھی جیسے اس نے سوچا تھا۔ بڑی غلطی ہوئی اس سے ہاشم پر اعتبار کر کے، مگر پھر بھی اس سب کا اختتام ویسا ہی ہو گا، جیسے اس نے سوچا تھا۔ جیسے اس نے پلان کیا تھا، جیسے دیمت فردوس نے مشورہ دیا تھا۔
ایک اتفاقیہ موقع اسے مزید پیدا کرنا تھا۔
اس نے میز پر رکھا اپنا فون اٹھایا اور فون بک کھولی۔ وہ نمبرز کبھی لوگوں کے اصل نام سے محفوظ نہیں کرتا تھا۔ یہ نمبر بھی اس نے ایکسچینج اسٹوڈنٹ کے نام سے محفوظ کر رکھا تھا۔
کچھ سوچتے ہوئے وہ اس نمبر پر میسج لکھنے لگا۔
••••••••••••••••••••••••
چھبیس مئی سے سبانجی میں امتحانات کا موسم چھا گیا۔ اس کھٹں موسم کو نو جون تک جاری رہنا تھا۔ ٹاقسم کا مجسمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ استقلال جدیسی کے چکر، جواہر کی شاپنگ اور پزل باکس کی پہلیاں، اسے سب بھول گیا تھا۔ ادالار میں رکنے کے باعث ہونے والا نقصان تو وہ پورا کر چکی تھی، مگر یہاں صرف پاس نہیں ہونا تھا، بلکہ ڈسٹنکشن لینی تھی۔ اس کا رزلٹ برا ہوا تو پاکستانی ایکسچینج اسٹوڈنٹس کی ناکامی ہو گی اور رزلٹ اچھا آیا تو پاکستانی ایکسچینج اسٹوڈنٹ کی کامیابی ہو گی۔ وہ حیا سلیمان کو بھلا کر صرف اور صرف "پاکستانی ایکسچینج اسٹوڈنٹس" رہ گئی تھی۔
اکتیس مئی کی صبح استنبول پر کسی قہر کی طرح نازل ہوئی تھی۔ وہ رات دیر تک پڑھنے کے بعد فجر کے قریب سوئی تھی کہ آج چھٹی تھی، مگر صبح ہی صبح ہالے کسی آندھی طوفان کی طرح ڈورم میں بھاگتی آئی تھی۔
حیا۔۔۔۔۔۔۔ حیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹھو! وہ ہالے کے زور، زور سے پکارنے پر ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔
کیا ہوا؟ نیچے اپنے بینک کی سیڑھی کے ساتھ کھڑی ہالے کے حواس باختہ چہرے کو دیکھ کر اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔ وہ لحاف پھینک کر تیزی سے نیچے اتری۔
"حیا۔۔۔۔۔۔۔" ہالے کی آنکھیں چھلکنے کو بے تاب تھیں۔ حیا نے بے اختیار اس کے ہاتھ پکڑے، جو سرد ہو رہے تھے۔
"ہالے؟"
"حیا۔۔۔۔۔۔۔ فریڈم فلوٹیلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو غزہ جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسے روک دیا گیا ہے، اسرائیل نے اس پر اٹیک کر دیا ہے۔ پتا نہیں، کتنے فلسطینی اور ترک مارے جا چکے ہیں۔"
"اللہ۔۔!" اس نے بے اختیار دل پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔مگر وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ ان بحری جہازوں میں تو خوراک تھی، دوائیاں تھیں۔"
"وہ کہتے ہیں کہ ان میں اسلحہ تھا اور دہشت گرد بھی۔ پھر انہیں پوچھنے والا کون ہے؟"
"خدایا! معتصم وغیرہ تو بہت پریشان ہوں گے۔ ان کے تو دوست بھی تھے مسافر بردار جہاز میں۔" اسے بے اختیار یاد آیا۔
"ہمیں ان کے پاس جانا چاہیے چلو، جلدی کرو۔"
اس نے جلدی جلدی بال جوڑے میں لپیٹے اور لباس بدل کر، اسکارف لپیٹ کر اور نقاب نفاست سے سیٹ کر کے وہ ہالے کے ساتھ باہر آ گئی۔ کامن روم کے راستے میں اس نے موبائل چیک کیا تو ادھر رات کے کسی ایک پہر ترک موبائل نمبر سے ایک پیغام آیا ہوا تھا۔
"میرے پاس آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے، اے آر پی۔"
"جہنم میں جائے اے آر پی۔" وہ اس وقت اس پریشانی میں اے آر پی کے سرپرائز کے بارے میں کہاں سوچتی۔
کامن روم میں پانچوں فلسطینی لڑکے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ میز پر لیپ ٹاپس کھلے پڑے تھے اور موبائل ہاتھوں میں لیے وہ سب اپ ڈیٹس کے منتظر تھے۔ ان کے چہرے دیکھے تو وہ افسوس کے سارے الفاظ بھول گئی۔ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا کہے۔ وہ اور ہالے خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ گئیں۔
"آئی ایم سو سوری معتصم" اس کے کہنے پر معتصم نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ہلکی سی پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ سر کو جنبش دی اور دوبارہ اپنے جوتوں کو دیکھنے لگا۔ وہ اس کی تکلیف محسوس کر سکتی تھی، بلکہ نہیں وہ کیسے محسوس کر سکتی تھی سوائے اس کے کہ وہ خود کو ان کی جگہ پہ رکھے۔ وہ تصور کرے کہ (اس نے لمحے بھر کو آنکھیں میچ کر سوچا) اگر خدانخواستہ اسلام آباد میں جنگ جاری ہو، پورا شہر اپنے گھروں میں محصور ہو، اس کے گھر والے بیمار اور زخمی ہوں اور پھر وہ ادھر ترکی سے ایک فلوٹیلا پر انہیں دوائیاں اور خوراک بھیجے، مگر وہ فلوٹیلا کراچی کے ساحل پر روک لیا جائے، اس میں سوار کچھ لوگوں کو مار دیا جائے اور اس کے گھر والے تڑپتے رہیں۔ ہاں! (اس نے تکلیف سے آنکھیں کھولیں۔) اب وہ محسوس کر سکتی تھی۔ جب تک اپنے ملک اور اپنے گھر پر بات نہ آئے، کسی دوسرے کا درد محسوس ہی نہیں ہوتا۔
کامن روم کا دروازہ کھول کر ٹالی اندر داخل ہوئی۔
حیا اور ہالے نے ایک دم اسے دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو۔ ٹالی چلتی ہوئی سامنے آئی۔ وہ لڑکوں کو دیکھ رہی تھی، مگر لڑکوں میں سے کسی نے بھی اس کی طرف نہیں دیکھا۔
"معتصم! کیا ہم بات کر سکتے ہیں ؟"
معتصم اپنے جوتوں کو دیکھتا رہا، اس نے جیسے سنا ہی نہیں تھا۔
"حسین۔۔۔! وہ حسین کے قریب صوفے پر بیٹھی، اس کا بیٹھنا گویا کسی کرنٹ کا جھٹکا تھا۔ حسین تیزی سے اٹھا۔ ساتھ ہی چاروں لڑکے اٹھے اور وہ اکھٹے باہر نکل گئے۔
ٹالی لب کاٹتے ہوئے انہیں جاتے دیکھتی رہی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ دن اس کی اور ان فلسطینیوں کی مثالی دوستی کا آخری دن تھا۔
ان کے نکلتے ہی دوسری طرف سے لطیف کمرے میں داخل ہوا۔ آہٹ پر ٹالی اور ان دونوں نے گردن موڑ کر دیکھا۔ لطیف نے جینز پر سفید ٹی شرٹ پہن رکھی تھی، جس پر کالے مارکر سے نمایاں کر کے لکھا تھا۔
"شیم آن یو اسرائیل!"
ٹالی نے وہ تحریر پڑھی۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ ہالے زیر لب مسکرائی اور حیا کو دیکھا۔ وہ بھی جوابا مسکرائی۔
"ٹالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹرسٹ می، یہ صرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔" لطیف ہاتھ اٹھا کر اب بہت ہی دھیمے انداز میں ٹالی کو سمجھا رہا تھا کہ اس کی یہ تحریر صرف اسرائیلی حکومت اور اسرائیلی فوج کے لیے تھی۔ اسے ٹالی سے کوئی مسلئہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس سے ناراض تھا۔ ٹالی پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلاتے ہوئے سمجھنے والے انداز میں سنتی رہی۔ لطیف کیتھولک تھا، ڈچ تھا۔ وہ یہ سب کہہ سکتا تھا، مگر فلسطینیوں کی بات اور تھی۔ جو انہوں نے کیا ہالے اور حیا کو بالکل درست لگا تھا۔
وہ ماتم کا دن تھا۔ گو کہ یونیورسٹی میں سارے کام معمول کے مطابق ہو رہے تھے، مگر درودیوار پہ چھایا سوگ اور اذیت دل کو کاٹتی تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کریں، کس سے انصاف مانگیں۔
"ہٹلر کہتا تھا، میں چاہتا تو تمام یہودیوں کو مار دیتا، مگر میں نے بہت سوں کو چھوڑ دیا، تا کہ دنیا جان سکے کہ میں نے ان کے بھائی بندوں کو کیوں مارا تھا۔"
اور اس جیسی بہت سی دوسری ”کہاوتیں“ اسٹوڈنٹس اپنی اپنی شرٹس پر لکھ کر پہنے گھوم رہے تھے۔ وہ اور ہالے بھی سارا دن سناٹے میں ڈوبی راہ داریوں میں بے مقصد چلتی رہی تھیں۔
پاکستان میں اپنے لاؤنج میں بیٹھے ریموٹ ہاتھ میں پکڑے ٹی وی پہ فریڈم فلوٹیلا کی خبر دیکھنا اور افسوس کر کے چینل بدل دینا اور بات تھی، مگر ترکی میں رہ کر اس ساری اذیت و تکلیف کا حصہ بننا دوسری بات تھی۔
وہ اینکر پرسن طلعت حسین کا شو کبھی بھی نہیں دیکھتی تھی، مگر یہ بات کہ وہ بھی ان سینکڑوں لوگوں کے ساتھ قید تھے، بہت دل دکھانے والا تھا۔ وہ چھ جہاز تھے، تین کارگو اور تین مسافر بردار۔ یہ سب مختلف جگہوں سے آ کر مرمرا میں ایک مقام پر اکٹھے ہوئے تھے۔ وہاں سے یہ پورا فلوٹیلا غزہ کی جانب گامزن ہوا تھا، تا کہ غزہ کے محصورین کو امداد پہنچا سکے۔ جب فلوٹیلا غزہ کے قریب پہنچا تو اسرائیلی فوج نے جہازوں پر حملہ کر دیا۔ کتنے ہی لوگ شہید کر دیے اور باقی سب قید۔
دوپہر میں وہ اور ہالے باہر سبانجی کے کیفے کے فوارے کے ساتھ کرسیوں پہ بیٹھی، چارٹس اور پلے کارڈز بنا رہی تھیں۔
انہوں نے سنا تھا کہ پورا استنبول سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ (سبانجی شہر میں نہیں، بلکہ دور مضافات میں تھی) سو ان کا ارادہ بھی آج جا کر اس احتجاج میں شامل ہونے کا تھا۔
مئی کے آخر کی دھوپ فوارے کے پانی سے ابل رہی تھی۔ وہ کہنیاں میز پر ٹکائے سر جھکائے پوسٹر میں رنگ کر رہی تھی اسکارف کے ایک پلو سے نفاست سے کیا گیا نقاب اس کے چہرے کا حصہ بن گیا تھا۔ صرف بڑی بڑی سیاہ آنکھیں نظر آتیں جو پہلے سے
زیادہ سنجیدہ ہو گئی تھیں۔ انسان ایک ہی دریا میں دو دفعہ نہیں اتر سکتا۔ وہ بھی اب وہ والی حیا سلیمان نہیں رہی تھی جو چار ماہ قبل ترکی آئی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ نا محسوس طریقے سے بدلتی جا رہی تھی۔
ایک ثانیے کو اس کا ذہن صبح آئے پیغام کی جانب بھٹک گیا۔
"کون سا سرپرائز؟ کیسا سرپرائز؟ خیر! عبدالرحمن کی ہر بات ہی سرپرائز ہوتی تھی۔ اب تو اس نے حیران ہونا بھی ترک کر دیا تھا۔
پلے کارڈز اور پوسٹرز لپیٹ کر جب وہ کامن روم میں آئی تو سینڈرا، چیری اور سارہ کتابیں گود میں رکھے ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ ہالے میز پہ رکھے اپنے بیگ میں کچھ چیزیں ڈال رہی تھی اور فلسطینی لڑکے بھی افراتفری کے عالم میں آ جا رہے تھے۔ سب کو احتجاج کے لیے استنبول جانا تھا۔
"کیا تم لوگ آؤ گے سارہ؟" اس نے ٹی وی میں مگن تینوں لڑکیوں کو مخاطب کیا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ سارہ نے اسکرین پہ نگاہیں جمائے بے نیازی سے شانے اچکائے۔ چیری اور سینڈرا نے تو اسے دیکھا تک نہیں۔ وہ اسی طرح کھڑی ٹکر ٹکر ان کے چہرے دیکھے گئی۔
ہالے اور فلسطینیوں کے ساتھ سامان پیک کروانے اور احتجاجی شرٹس پہن کر اس کارواں میں شامل ہونے کے لیے بہت سے ترک اسٹوڈنٹس بھی آ گئے تھے۔ یہ وہ لڑکیاں تھی جو گرمی، سردی، ہر موسم میں منی اسکرٹس میں ملبوس ہوتی تھیں۔ وہ لڑکے جن کا دین، مذہب سے کوئی دور، دور کا واسطہ بھی نہ تھا، کانوں میں بالی اور قابل اعتراض تصاویر والی شرٹس اور جینز پہننے والے سب ایک ہو گئے تھے۔ مگر وہ لڑکیاں چیری، سارہ اور ٹالی، وہ جن کے ساتھ حیا اور ڈی جے رات کو گھنٹوں باتیں کرتی تھی، جو ساتھ کھاتی پیتی، سوتی جاگتی، ہنستی بولتی تھیں، اب وہی لڑکیاں اجنبی بنی بیٹھی تھی۔
یہ لوگ کیوں نہیں چل رہے؟ سب واضع تھا، پھر بھی اس نے الجھن بھرے انداز میں ہالے سے دھیرے سے پوچھا۔ ہالے نے سارہ والی بے نیازی سے شانے اچکائے۔
"کیونکہ وہ مسلمان نہیں ہیں حیا!"
وہ بالکل چپ کھڑی رہ گئی۔ ان چار ماہ میں انہیں ترک، پاکستانی، فلسطینی، نارویجن، ڈچ، چائنیز، اسرائیل اور ایسی ہی درجنوں تفریقات میں بانٹا گیا تھا، مگر آج قومیت کے سارے فرق مٹ گئے تھے۔ یہودی، عیسائی، بدھسٹ، سب ایک طرف ہو گئے تھے اور مسلمان اسٹوڈنٹس ایک طرف۔
اور وہ بھی کن سیرابوں کے پیچھے دوڑا کرتی تھی؟ اسے بھی کن لوگوں کا لباس، کن کا رہن سہن اچھا لگتا تھا؟
انجم باجی اور جاوید بھائی سمیت وہ سب جب ٹاقسم پہ پہنچے تو وہ پانچ منٹ کے لیے معذرت کر کے تیزی سے استقلال اسٹریٹ کی طرف چلی آئی۔اسے جہان کو بھی اپنے ساتھ لینا تھا۔ جتنے زیادہ مسلمان ہوں، اتنا بہتر تھا۔ برگر کنگ پر معمول کی گہما گہمی تھی۔ وہ ریسٹورنٹ کی میزوں سے ہٹ کر اندر جانے والے دروازے میں داخل ہو گئی۔ کچن میں ایک ترک لڑکی اور ایک نیا لڑکا کام کر رہے تھے۔ دونوں شیف تھے۔
سلام! جہان کہاں ہے؟ اس نے اردگرد نگاہیں دوڑاتے ہوئے لڑکے کو مخاطب کیا۔
وہ ابھی تو یہیں تھا۔ گوشت کاٹ رہا تھا۔ اب شاید۔۔۔۔۔ لڑکے نے مڑ کر ایک دوسرے دروازے کی طرف دیکھا۔ شاید ڈریسنگ روم میں ہو یا باتھ روم میں۔
اسی پل ڈریسنگ روم کا دروازہ کھلا۔ حیا نے بے اختیار گردن موڑ کر دیکھا۔ جہان اندر داخل ہو رہا تھا، یوں کہ سر جھکائے وہ آنکھوں کو انگلیوں سے رگڑ رہا تھا۔
جہان! اس نے پکارہ تو جہاں نے چونک کر گردن
اٹھائی۔ اس کی آنکھیں بھیگی اور سرخ سی ہو رہی تھی۔ وہ بامشکل مسکرایہ اور سلیب کی طرف آیا۔
السلام علیکم! تم کب آئیں؟ وہ اس سے نظر ملائے بغیر گردن جھکا کر گوشت کی ٹرے اٹھانے لگا۔
ابھی۔۔۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو؟ وہ بغور اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
ہاں، بس پیاز کاٹنے سے آنکھوں میں تھوڑی جلن ہو رہی تھی، تو ابھی منہ دھونے گیا تھا۔ اتنی لمبی وضاحت؟ وہ بھی جہان دے؟ اور پیاز۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ارد گرد دیکھا، پیاز تو کہیں نہیں تھی۔
تم بتاؤ! کیسے آئیں؟
وہ۔۔۔۔۔۔ ہم اسٹریٹ پروٹیسٹ کے لیے جا رہے ہیں۔ فریڈم فلوٹیلا پہ حملے کے خلاف۔ تم چلو گے؟
پروسٹیٹ کیوں؟ ان بحری جہازوں میں اسلحہ نہیں تھا؟
اسلحہ؟ نہیں جہان! ان میں دوا اور خوراک تھی۔ اس نے اچنپھے سے جہان کو دیکھا۔ کیا وہ اتنا بے خبر تھا؟
یہ تو تم کہہ رہی ہو۔۔۔۔۔۔ اسلحہ نہ ہوتا تو اسرائیلی کیوں روکتے اسے؟ وہ لاپرواہی سے کہتے ہوئے گوشت کے قتلے کھٹا کھٹ کاٹ رہا تھا۔
جہان! کیا تمہیں لگتا ہے کہ ان کو کسی وجہ کی ضرورت ہے؟
یہ ان کی آپس کی جنگ ہے حیا! یہ فلسطینی بھی اتنے سیدھے نہیں ہوتے۔ یہ جہاد وغیرہ کچھ نہیں ہوتا۔ سب دہشت گردی کی قسمیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ فلوٹیلا کو واقعی ناجائز روکا گیا ہو، مگر ہمیں فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی بننے کی ضرورت نہیں۔ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔
جہان! یہ کیسے ہمارا مسئلہ نہیں ہے، ہمارے ریجن کو ہماری ضرورت ہے۔
ہمارا ریجن ہمارے پیدا ہونے سے پہلے بھی تھا اور ہمارے مرنے کے بعد بھی رہے گا۔ اسے ہماری قطعا ضرورت نہیں ہے اور پلیز! تم اس محمد بن قاسم ایرا کے رومانس سے نکل آؤ۔
وہ بہت بے زاری سے گردن جھکائے کام کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
یہ کیسا جہاد ہے کہ بوڑھے ماں، باپ کو چھوڑ کر بندوق اٹھائے نکل پڑو۔ جہاد تو وہ ہوتا ہے جو ایک آدمی اپنے گھر والوں کے لیے مشقت کر کے روزہ کماتا ہے، جو میں کرتا ہوں، جو اس ریسٹورنٹ میں میرے ورکرز کرتے ہیں۔
جہنم میں گیا تمہارا ریسٹورنٹ، بہرحال میں تم سے متفق نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر تم غلط ہو کر اتنے پر اعتماد ہو سکتے ہو تو میں صحیح ہو کر پر اعتماد کیوں نہ ہوؤں؟ وہ تلخی سے کہہ کر پلٹ گئی۔
جہان نے ایک نظر اسے جاتے دیکھا، پھر سر جھٹک کر کام کرنے لگا۔
مسلمان اسٹوڈنٹس کا دوسرے ترک باسیوں کے ساتھ اسٹریٹ پروٹیسٹ جاری تھا۔ پلے کارڈ اور بینرز اٹھائے وہ نعرے بلند کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک شخص زور سے پکارتا تھا "ڈاون ود؟" تو باقی لوگ ہم آواز ہو کر "اسرائیل!" چلاتے۔ ہر طرف "Down with Israel" کے نعروں کی گونج تھی۔ پاکستان میں ایسے مظاہروں میں عموما مردوں، عورتوں کے درمیان تفریق سی ہوتی تھی، مگر ترکی میں دونوں صنف اکھٹے ہی ریلی میں چل رہے تھے۔ یوں بہت بچ بچ کر چلنا پڑتا، مگر اس کا ذہن ابھی تک جہان میں اٹکا تھا۔
ہر ایک کے سیاسی تجزیات الگ ہوتے ہیں سب کو اپنی راہ رکھنے کا حق ہے، پھر اسے کیوں بار بار رونا۔۔۔۔۔۔ آ رہا تھا اور وہ کیوں بار بار اپنے آنسو بمشکل روک رہی ہے؟
وہ اسرئیلی ایمبیسی کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے۔ معتصم کا وعدہ پورا نہ ہو سکا، مگر ان کا احتجاج شاندار رہا۔ اگلے روز اس کا پیپر تھا۔ وہ بے دلی سے تھوڑا بہت پڑھ کر جلدی سو گئی اور پھر صبح منہ اندھیرے اٹھ کر کتابیں لیے جھیل پر آ گئی۔
ہر سو نیلا اندھیرا چھایا تھا۔ جون شروع ہو چکا تھا۔ مگر اس وقت بہت ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ گرمی صرف دن میں ہوا کرتی تھی۔ وہ پانی میں پاؤں ڈال کر بیٹھ گئی اور گھنٹوں پہ کتاب رکھ لی۔ ہوا کے باعث شال سر سے پھسل کر گردن کی پشت پر جا ٹھہری۔ دور، دور تک کوئی نہ تھا، وہ وہاں اکیلی تھی۔
رونا تو اسے رات سے ہی آ رہا تھا، مگر اب اس میں شدت آ گئی تھی۔ وہ سر جھکائے بے آواز آنسو بہاتی رہی۔ گھر، اماں، ابا، روحیل سب بہت یاد آ رہے تھے۔
دفعتا اس کا فون بجا۔ اس نے گھاس پر رکھا موبائل اٹھایا۔
"جہان کالنگ“ اس وقت؟ خیریت؟ وہ حیران ہوئی۔
جہان! کیا ہوا؟ وہ زکام زدہ آواز میں ذرا پریشانی سے بولی۔
تم جاگ رہی ہو؟ آج تمہارا پیپر ہے نا؟
ہاں! میں جھیل پہ ہوں، تم کہاں ہو؟
ایک کام سے قریب میں آیا تھا، بس تم رکو! میں آ رہا ہوں۔
حیا نے موبائل بند کیا اور ہتھیلی کی پشت سے آنسو رگڑے۔ اس نے اپنی پوری زندگی میں اتنا غیر متوقع رویہ رکھنے والا شخص نہیں دیکھا تھا۔
ہیلو! چند ہی منٹ بعد وہ اس کے ساتھ آ بیٹھا تھا۔ اس نے دھیرے سے سر اٹھا کر دیکھا۔ جینز اور چاکلیٹ کلر ٹی شرٹ میں وہ بہت تروتازہ لگ رہا تھا۔
"تم اتنی صبح کیسے؟"
یہاں مجھے قریب میں پہنچنا تھا، سات بجے تک۔ سوچا جلدی آ جاؤں تا کہ پہلے تم سے مل لوں۔ مجھے لگا، تم کل مجھ سے ذرا ناراض ہو گئی تھیں۔ وہ اسی کے انداز میں اکڑوں بیٹھا اب جھیل کے پانی کو دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ وہ بھی پانی ہی کو دیکھ رہی تھی۔
نہیں! ایسی تو کوئی بات نہیں۔ چند لمحے خاموشی کی نظر ہو گئے۔
حیا! ایک بات کہوں؟ کبھی بھی اپنے قرابت داروں سے ان کے پولیٹیکل ویوز کے باعث ناراض نہیں ہوتے۔ وہ بہت نرمی سے دھیمے انداز میں سمجھا رہا تھا۔ وہ گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ اسے کچھ یاد آیا تھا۔
ہر شخص کے رویے کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے۔ میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ جب تک آپ کسی دوسرے کی جگہ پہ کھڑے ہو کر نہیں دیکھتے، آپ کی سمجھ میں پوری بات نہیں آسکتی۔ ہر کہانی کی ایک دوسری سائیڈ ضرور ہوتی ہے۔ اس نے چہرہ موڑ کر حیا کو دیکھا۔ اب بتاؤ کیوں رو رہی تھیں؟
ہوں ہی۔ وہ فورا نگاہ چرا کر پانی کو دیکھنے لگی۔
"بس گھر یاد آ رہا تھا۔"
صبر کر لو، انسان کو ہمیشہ اتنی ہی تکلیف ملتی ہے جتنی وہ سہہ سکے۔
اور اگر وہ نہ سہنا چاہے؟ آخر کیوں انسان کو سہنا پڑتا ہے سب کچھ؟ زندگی آسان کیوں نہیں ہوتی جہان؟ اس کی آنکھیں بھر سے بھیگ گئیں۔ وہ ابھی تک پانی کو دیکھ رہی تھی جو چمک رہا تھا۔ جیسے نیلے آسمان پہ چاندی کے تھال کی طرح کے چاند سے قطرہ قطرہ چاندی پگھل کر جھیل کی سطح پر گر رہی تھی۔
ابھی تمہاری اسٹوڈنٹ لائف ہے، اسے جتنا انجوائے کر سکتی ہو، کرو۔ کیونکہ اس کے بعد زندگی اپنا نقاب اتر پھینکتی ہے اور چیزیں بہت مشکل ہو جاتی ہیں۔ میرے ساتھ بھی تمہاری زندگی مشکل ہو جائے گی۔ تم کرو گی مجھ سے شادی؟
لمحے بھر کو چاندی کی تہہ جھیل کی سطح سے پھیل کر سارے سبزہ زار پر چڑھتی گئی۔ وہ ہر شے کو چاندی بنا گئی اور وہ دونوں بھی چاندی کے مجسمے بنے رہ گئے، چمکتے ہوئے سلور مجسمے۔
ہماری شادی ہو نہیں چکی؟
وہ تو ہمارے بڑوں نے کی تھی۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ تم مجھے جانتی ہو۔ میں کوئی ہر وقت ہنستا مسکراتا آدمی نہیں ہوں۔ میں جانتا ہوں، میں بعض دفعہ بہت سخت ہو جاتا ہوں اور تب تمہیں میں بہت برا لگتا ہوں۔ مجھے پتہ ہے، مگر میں ایسا ہی ہوں۔ کیا تم میرے ساتھ ساری زندگی رہ لو گی؟ وہ بہت سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔ حیا نے دھیرے سے شانے اچکائے۔
استنبول میں ہر حالات میں رہنے کو تیار ہوں میں۔
اللہ نہ کرے جو ہم یہاں رہیں۔ وہ ایک دم بالکل غیر ارادی طور پہ چونک کر بولا۔ چاندی کے دوسرے مجسمے نے حیرت سے اسے دیکھا۔
کیوں؟
یوں ہی کہہ رہا تھا۔ پہلے مجسمے نے گردن موڑ لی۔
تمہیں پھپھو نے کب بتایا کہ کہ ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ بات ادھوری چھوڑ گئی۔
وہ کیوں بتاتیں؟ میں اس وقت آٹھ سال کا تھا اور آٹھ سال کے بچے کا حافظہ اچھا خاصا ہوتا ہے۔ مجھے ہمیشہ سے پتا تھا۔
میں سمجھی تھی کہ تمہیں نہیں پتا۔ بے اختیار اس نے زبان دانتوں تلے دبائی۔ زبان بھی چاندی بن چکی تھی۔
تمہیں کیا لگتا ہے، میں ہر کسی سے معذرت کرنے آ جاتا ہوں یا۔۔۔۔۔۔۔ ہر لڑکی کو ڈنر کے لیے لے جاتا ہوں؟ وہ ذرا خفگی سے اس معذرت کا حوالہ دینے لگا، جب اس نے اس کا خنجر بریڈ ہاؤس توڑا تھا۔
تم میری بیوی ہو اور میرے لیے بہت خاص ہو۔ بس میرے کچھ مسئلے ہیں۔ وہ ٹھیک ہو جائیں تو ہم اپنی زندگی شروع کریں گے۔
چاندی کی تہ اب سبزہ زار کے دہانوں سے پھیلتی ڈورم بلاکس پہ چھاتی جا رہی تھی۔ پوری دنیا، زمین، آسمان، سب چاندی بنتا جا رہا تھا۔
حیا! ہمارے بہت مسئلے رہے ہیں، مگر میری ماں۔۔۔۔۔۔ ہم انہیں ٹھیک کر لیں گے۔ وہ زخمی انداز سے مسکرایا۔ ہم ہمیشہ سے ساتھ مل کر اپنے مسئلے ٹھیک کرتے آئے ہیں۔ ہم نے بہت اذیتیں کاٹی ہیں۔ بہت دکھ اٹھائے ہیں۔ مگر میری ماں بہت مضبوط عورت ہے، بہت نڈر، بہت بہادر۔ انہوں نے ساری زندگی بوتیکس کے لیے کپڑے سی کر مجھے کسی قابل بنایا ہے وہ اب بھی یہ کام کرتی ہیں، مگر انہوں نے تمہیں نہیں بتایا ہو گا۔ وہ اپنے مسئلے کسی سے بیان نہیں کرتیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم بھی اتنی ہی مضبوط اور بہادر بن جاؤ۔ وجیہہ مجسمہ اٹھ کھڑا ہوا تو چاندی کا خول چٹخا۔ سبزہ زار پہ چڑھے ورق میں دراڑیں پڑ گئیں۔
میں چلتا ہوں، تم اچھا سا ایگزام دو اور اگر لندن چلنے کا موڈ ہو تو بتانا۔ ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا، وہ جانے کے لیے مڑ گیا۔
وہ بھیگی آنکھوں اور نیم مسکان سے اسے جاتے دیکھتی رہی۔
چاندی کے ٹکڑے ٹوٹ ٹوٹ کر جھیل کے پانی میں گم ہو رہے تھے۔ چاند اب سرخ نارنجی روشنی کے نقطوں میں ڈر کر بادلوں کی اوٹ میں تیرنے لگا تھا۔ فسوں ختم ہو چکا تھا، حقیقی دن کا آغاز ہو چکا تھا۔
••••••••••••••••••
چھ جون کو جب تک اسرائیل نے سارے قیدی رہا کر دیے تب تک سبانجی اور استنبول میں غم و غصے کی فضاء چھائی رہی۔ قیدیوں کی رہائی کے لیے مظاہرے، طیب اردگان کے سخت بیانات اور فلسطینی اسٹوڈنٹس کا تناؤ اور بھی بہت کچھ ہوا جو ہماری کہانی کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ بہرحال، ماوی مرمرا اور فریڈم فلوٹیلا کی پریشانی ختم ہوئی تو سب ایگزامز کی طرف متوجہ ہو گئے۔
وہ امتحان بھی اسی لمبے اسکرٹ، فل سلیو بلاؤز اور اسکارف سے کیے گئے نقاب میں دیتی گئی اور اب اسے اپنے چہرے کی عادت ہوتی جا رہی تھی۔ کندھے پر بیگ لٹکائے اور سینے سے فائل لگا کر بازو لپیٹے وہ سر اٹھا کر بہت اعتماد سے جب سبانجی کی راہداری میں چلتی تو اسے ٹالی اور اس کی دوستوں کی آوازوں کی پرواہ نہ ہوتی۔
ٹالی ابھی بھی اسے استہزایہ انداز میں "Arab baci" کہتی تھی۔ (عرب باجی، یہ اردو والا باجی ہی تھا کہ ترکوں کا ”C“ جیم کی آواز سے پڑھ جاتا تھا۔) البتہ ٹالی اور فلسطینی لڑکوں کے درمیان فریڈم فلوٹیلا کی کھینچی گئی لکیر ہنوز قائم تھی گو کہ ڈی جے اپنی دلی خواہش کی تکمیل دیکھنے کے لیے زندہ نہیں تھی۔
نو جون کو امتحان ختم ہوئے تو الوداعی دعوتوں کا آغاز ہو گیا۔ پچاس ممالک کے ایکسچینج اسٹوڈنٹس میں سے کچھ آخری مہینے میں دوسرے ممالک جا رہے تھے، جبکہ کچھ ترکی میں ہی رہ رہے تھے۔ وہ عائشے کے پاس بیوک ادا جانا چاہتی تھی، مگر وہاں عبدالرحمن تھا اور ابھی کافی تو اسے یاد ہو گی۔ وہ بدلہ بھی لے گا، مگر اسے پرواہ نہیں تھی۔ بس چند دن ہیں، پھر وہ پاکستان چلی جائے گی تو نہ وہاں عبدالرحمن ہو گا، نہ آوازے کسنے والی ٹالی۔ وہاں اس کے حجاب کی عزت ہو گی۔ پہلی دفعہ اسے تایا فرقان کے نظریات برے نہیں لگے تھے۔ وہ ٹھیک ہی ارم پر روک ٹوک کرتے تھے۔ ابا اور تایا کتنے خوش ہوں گے اس کے حجاب پہ۔ مگر نہیں اسے ان کی خوشی سے فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ وہ کسی کی ستائش کے لیے تو یہ سب نہیں کر رہی۔
ستائش کے لیے اگر کوئی حجاب لے تو جلد ہی چھوڑ دے، کیونکہ یہ وہ کام ہے، جس میں ریا ہو ہی نہیں سکتی۔ عائشے نے اس کی بات پہ ہنس کر کیا تھا۔ وہ اتنے دن بعد آج بیوک ادا آئی تھی اور اب وہ تینوں ساحل کے کنارے ایک اوپن ایر کیفے میں بیٹھی تھیں۔
اس سے قبل وہ ان دونوں بہنوں کے ساتھ حلیمہ آنٹی کی طرف بھی ہو آئی تھی۔ آنٹی، عثمان انکل اور سفیر کے ساتھ کہیں نکل رہی تھی۔ بس دروازے پہ ہی کھڑے کھڑے سلام دعا ہو سکی۔ عثمان انکل ویسے ہی تھے، بھاری بھر کم اور خوش مزاج۔ ڈی جے کا افسوس کرنے لگے تو عادتا بولتے ہی چلے گئے اور بہارے گل برے برے منہ بنا کر سنے گئی۔ ایک وہی تھی جو اپنے تاثرات نہیں چھپا سکتی تھی سفیر سے البتہ بہارے اور عائشے دونوں بور نہیں ہوتی تھیں۔ وہ اکثر اس کا ذکر اس کا ذکر کرتی تھی اور اب حیا کی سفیر سے سرسری سی ملاقات بھی ہو گئی تھی۔ وہ تئیس، چوبیس برس کا خوش مزاج سا لڑکا تھا جیسا کہ یورپ میں مقیم پاکستانی لڑکے ہوتے ہیں۔
اس کی شادی اس کے والدین پاکستان میں زبردستی کرنا چاہتے تھے اور یہ قصہ بہارے اتنی دفعہ دہرا چکی تھی کہ وہ حیا کے لیے اہمیت کھو چکا تھا۔ وہ دونوں باپ بیٹا ہوٹل گرینڈ میں کام کرتے تھے اور اس دس منٹ کی ملاقات میں بھی چند ایک بار سفیر کے لبوں سے "عبدالرحمن بھائی" ضرور نکلا تھا۔ وہی ستائش، فخر سے نام لینے کا انداز جو ان دونوں بہنوں کا بھی خاصہ تھا۔ پتہ نہیں ان سب کو عبدالرحمن میں کیا نظر آتا تھا ۔
جانے سے پہلے اس نے ایک دفعہ سوچا کہ عثمان شبیر سے پوچھ لے کہ جہاز میں انہوں نے اگلی نشست پہ بیٹھی ترک عورت کو کیا کہا تھا کہ وہ خفگی سے واپس مڑ گئی تھی، مگر پھر اس نے جانے دیا۔ بعض باتیں ادھوری ہی رہیں تو بہتر ہوتا ہے۔
اور ریا کاری کی ایک پہچان ہوتی ہے حیا! عائشے کہہ رہی تھی۔ بعض دفعہ بندے کو خود بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ دکھاوا کر رہا ہے، مگر ایسے کام کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اللہ اس پر کبھی ثابت قدمی عطا نہیں کرتا۔ ساحل کے کنارے پر سیاحوں کا کافی رش تھا۔ بیوک ادا، استنبول والوں کا "مری" تھا۔ موسم گرما شروع ہوتے ہی سیاحوں کا رش لگ جاتا تھا۔
بھورے، سرمئی پروں والے سمندری بگلے بھی ساحل کی پٹی کے ساتھ ساتھ اڑ رہے تھے۔
بہارے کے ہاتھ میں روٹی تھی ار وہ بگلوں کی طرف اچھال رہی تھی۔ ایک ٹکڑا بھی زمین پہ نہ گرتا، بگلے فضا میں ہی اسے چونچ میں دبا لیتے۔
ثابت قدمی واقعی مشکل ہوتی ہے عائشے! میری ساتھی اسٹوڈنٹس مجھ پہ آواز کس کر پوچھتی ہیں کہ میں نے اس بڑے سے اسکارف کے اندر کیا چھپا رکھا ہے؟
تم آگے سے کہا کرو، خودکش بم چھپا رکھا ہے۔ بہارے نے اس کی طرف گردن جھکا کر رازداری سے کہا تھا، مگر اس کی بہن نے سن لیا۔
بری بات، بہارے! عائشے گل نے خفگی سے اسے دیکھا۔ جب اچھی لڑکیاں کوئی فضول بات سنتی ہیں تو اسے باوقار طریقے سے نظرانداز کر دیتی ہیں۔ بہارے نے اتنی ہی خفگی سے سر جھٹکا اور روٹی کے ٹکڑے توڑنے لگی۔
خیر ہے بہارے! بس جولائی میں، میں واپس چلی جاؤں گی اور وہاں نہ ترک حکومت کی سختی ہو گی، نہ اسرائیلی طعنے، میں ادھر پوری آزادی کے ساتھ حجاب لے سکوں گی۔
ضرور، مگر خندق کی جنگ میں ایک بنوقریظہ مل ہی جاتا ہے حیا!
مطلب؟ اس نے نا سمجھی سے ابرو اٹھائی۔ جوابا عائشے اپنے خاص انداز میں مسکرائی، جیسے اس کے پاس دکھانے کے لیے کوئی خاص جواہر ہو۔
تم نے کبھی سوچا ہےحیا کہ آیت حجاب سورۃ احزاب میں ہی کیوں آئی ہے؟ اس نے جواب دینے کے بجائے ایک نیا سولل کیا۔
اس نے ذہن پر زور دیا، پھر نفی میں سر ہلا دیا۔
شاید اس لیے کہ یہ حکم غزوہ احزاب کے قریب ہی اترا تھا۔
یہ تو سب کو نظر آتا ہے حیا! میں تمہیں وہ سمجھاؤں جو سب کو نظر نہیں آتا، یقین کرو، یہ گتھی تمہارے پزل باکس کی پہیلیوں سے زیادہ دلچسپ ثابت ہو گی۔
حیا لاشعوری طور پر کرسی پر ذرا آگے ہوئی۔ بہارے برے برے منہ بناتی روٹی کے ٹکڑے اچھال رہی تھی۔ وہ بول نہیں سکتی تھی کہ عائشے سن لیتی اور سب کے سامنے وہ ہمیشہ عائشے کی وفادار رہتی تھی، لیکن اس نے قدیم لوک کہانی میں پڑھا تھا کہ مرمرا کے بگلے ان کہی باتیں بھی سن لیتے ہیں، سو اس نے دل ہی دل میں ان پھڑپھڑاتے بگلوں کو مخاطب کیا تھا۔
(عبدالرحمن ٹھیک کہتا ہے، میری بہن کو لیکچر دینے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ کیا تم نے سنا، میں نے کیا کہا؟)
اللہ چاہتا تو کسی اور سوره میں یہ حکم نازل کر دیتا، یا اس سوره احزاب کا کچھ اور نام رکھ دیتا، مگر یہی نام کیوں؟
ایک چھوٹے سے بگلے نے فضا میں ہی بہارے کا پھینکا ٹکڑ اچکا اور پر پھڑپھڑاتے ہوئے اڑ گیا۔ بہارے نے گردن اٹھا کر اسے اوپر اڑتے دیکھا۔ کیا اس نے سنا تھا جو وہ اس سے کہہ رہی تھی؟
تمہیں پتا ہے، احزاب کہتے ہیں گروہوں کو اور ”احزاب“ دراصل غزوہ خندق کا دوسرا نام ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ تم یہ سارا واقعہ جانتی ہو کہ کس طرح مسلمانوں نے خندق کھودی، مگر پھر بھی میں تمہیں یہ دوبارہ سنانا چاہتی ہوں۔
(میری بہن حیا کو بور کر رہی ہے، اگر عبدالرحمن ادھر ہوتا تو یہی کہتا، کیا تم نے اب سنا؟) مگر بگلے بس روٹی چونچوں میں دبا کر اڑ جاتے۔
تمہیں پتا ہے مدینہ میں یہود کے ساتھ مومنین کا معاہدہ تھا کہ مدینہ پر حملہ ہوا تو مل کر دفاع کریں گے، مگر یہود تو یہود ہوتے ہیں۔ بنو قریظہ، یہود کے گروہ نے اہل مکہ سمیت کئی گروہوں کو جا جا کر اکسایا کہ مدینہ پر حملہ کر دیں، وہ ان کے ساتھ ہیں۔ یوں جب سارے گروہوں نے لشکر کی صورت مدینہ کے باہر پڑاؤ ڈال دیا تو بنو قریظہ آپ ﷺ کا اعتماد کر ”گروہوں“ کے ساتھ جا ملا۔ عائشے سانس لینے کو رکی۔ بہارے بگلوں کو بھول کر، روٹی توڑنا چھوڑ کر عائشے کو دیکھ رہی تھی۔
تب مسلمانوں نے اپنے دشمن کے گروہوں کےدرمیان ایک بہت لمبی بہت گہری خندق کھودی تھی۔ سردی اور بھوک کی تکلیف واحد تکلیف نہیں تھی۔ اصل اذیت کسی حلیف کے دھوکا دینے کی ہوتی ہے۔ باہر والے تو دشمن ہوتے ہیں، مگر جب کوئی پنا بیچ جنگ میں چھوڑ کر چلا جائے، وہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اسی لیے جب یہ ”گروہ“ محاصرے سے تنگ آ کر ایک عرصے بعد واپس چلے گئے اور بنو قریظہ خف کے مارے اپنے قلعوں میں چھپ گئے، تو ان کو سز یہ ملی کہ ان کے ایک ایک مرد کو چن چن کر مارا گیا کہ یہ اللہ کا حکم تھا۔ جانتی ہو، میں نے تمہیں اتنی لمبی کہانی کیوں سنائی؟
کیوں؟ حیا کی بجائے، بہارے کے لبوں سے پھسلا۔ وہ اب ساری خفگی بھلائے عائشے کی طرف گھومی بیٹھی تھی۔
کیونکہ حجاب پہننا، جنگ خندق کو دعوت دینا ہے۔ گروہوں کی جنگ میں حجابی لڑکی کو دل پہ پتھر باندھ کر اپنے گرد خندق کھودنی پڑتی ہے، اتنی گہری کہ کوئی پاٹنے کی جرات نہ کر سکے۔ اور پھر اسے اس خندق کے پار مصحور رہنا پڑتا ہے۔ اس جنگ میں اصل دشمن اہل مکہ نہیں ہوتے، بلکہ اصل تکلیف بنو قریظہ سے ملتی ہے۔ یہ جنگ ہوتی ہی بنو قریظہ سے ہے اور خندق کی جنگ کبھی بھی بنو قریظہ کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔
عائشے خاموش ہوئی تو کوئی سحر ٹوٹا۔ حیا نے سمجھ کر سر یلایا۔ قرآن کی پہیلی زیادہ دلچسپ ہوتی ہیں۔
تم صحیح کہہ رہی ہو، مگر شکر ہے میری فیملی حجاب کی بہت بڑی حامی ہے۔ میرا ان سے ساری زندگی نقطہ اختلاف ہی یہ رہا ہے۔
ہو سکتا ہے تمہاری اس جنگ میں کوئی بنو قریظہ نہ ہو۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ عائشے نے مسکرا کر دعا دی تھی۔
مگر عائشے۔۔۔۔۔۔۔۔! بہارے کچھ کہتے کہتے الجھ کر رک گئی، ان دونوںنے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔ وہ قدرے مبہم سے تاثرات کے ساتھ کچھ سوچ رہی تھی۔
کیا ہوا بہارے؟
کچھ نہیں۔ بہارے سنبھل کر مسکرائی۔ اسے حیا کے سامنے عائے کا ہمیشہ وفادار رہنا تھا، لیکن بعد میں تنہائی میں وہ اسے بتائے گی کہ اس نے پوری پہیلی حل نہیں کی، وہ احزاب کی پزل میں کچھ مس کر گئی تھی۔ وہ اصل نتیجہ نہیں جان سکی تھی اور وہ تو کتنے سمنے کی بات تھی۔ بہارے نے ذرا سا غور کیا تو اس کی سمجھ میں آ گیا۔ اس نے دل ہی دلمیں وہ بات بگلوں سے دہرائی۔
(کیا تم نے اب سنا؟ کیا تم نے سنا؟)
قریب ہی ساحل پہ پھدکتے بگلے نے ریت میں کچھ ڈھونڈنے کے لیے گردن جھکائی تھی۔ کیا یہ اثبات کا اشارہ تھا؟ بہارے گل سمجھ نہ سکی۔
•••••••••••••••••••••••••
امتحانات کا موسم ختم ہوا تو الوداعی دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اسٹوڈنٹس نے اب آخری مہینے کی سیاحت کے لیے روانہ ہونا تھا، سو سبانجی میں ایک دفعہ پھر سے وہی ماحول چھا گیا جو سپرنگ بریک سے پہلے چھایا تھا۔ روانگی کی تیاریاں، پیکنگ، آخری شاپنگز، نقشے، گائیڈ بکس، صرف وہی تھی جس نے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا تھا۔
اس رات ان کے ڈروم میں پوٹ لک Potluck ڈنر تھا۔ سب ایکسچینج اسٹوڈنٹس اہنے ممالک کی ڈشز تیار کر کے لا رہے تھے۔ دیسی کھانوں میں بریانی کے علاوہ اسے صرف چکن کڑاہی بنانی آتی تھی، سو انجم باجی کے اپارٹمنٹ پہ ان کے ساتھ مل کر اس نے وہی بنائی۔ نمک مرچ البتہ ذرا تیز ہو گیا تھا۔
چلو خیر ہے، کم بنی ہے تو کم ہی کھائیں گے سب۔ انجم باجی نے اسے تسلی دی۔ ابھی وہ دونوں ان کے کمرے میں بڑے آئینے کے سامنے کھڑی تیار ہو رہی تھیں۔ حیا سیاہ اسکارف ٹھوڑی تلے پن اپ کر رہی تھی، جبکہ انجم باجی آئی شیڈز لگا رہی تھیں۔ انہوں نے سلک کا نارمل سا جوڑا پہن رکھا تھا۔ جوڑا اچھا تھا، مگر قمیض کافی چھوٹی اور شلوار کھلے تھی یا تو انجم باجی ذرا آؤٹ ڈیٹڈ تھیں یا پھر انڈیا میں ابھی تک پٹیالہ شلوار اور چھوٹی قمیص کا فیشن چل رہا تھا (پاکستان سے تو وہ عرصہ ہوا غائب ہو چکا تھا) اس نے سوچا ضرور مگر کہا نہیں۔
تم آج تو نقاب مت کرو، آج تو پارٹی ہے۔
تم آج تو نقاب مت کرو، آج تو پارٹی ہے۔ اسے نقاب اڑستے دیکھ کر انجم باجی ذرا بے چینی سے بولی تھیں۔ وہ ذرا چونکی، پھر دھیرے سے مسکرائی۔
”پارٹی تو ہے انجو باجی! مگر لوگ تو وہی ہیں جن سے سارا دن نقاب کرتی ہوں۔ اب اتارا تو کتنا برا لگے گا۔“
اس نے بے حد رسان سے سمجھایا۔ تو انہوں نے سر ہلا دیا۔
”ہاں، یہ تو ہے۔“
اپنے دیسی لوگ کتنے اچھے ہوتے ہیں نا، حجاب پہ آپ کو اذیت نہیں دیتے جیسے ٹالی جیسے لوگ دیتے ہیں۔
شکر ہے انجم باجی نے دوبارہ اعتراض نہیں کیا۔ کرنا بھی نہیں چاہیے۔ وہ بھی تو ان کے پرانے فیشن پہ کچھ نہیں بولی تھی۔ اس نے پیشانی سے اسکارف ٹھیک کرتے ہوۓ سوچا تھا۔
آج اس نے سیاہ سلک بلاٶز اور اسکرٹ کے ساتھ سیاہ اسکارف لیا تھا۔ پورا لباس سیاہ تھا، بس آستین پہ کلائیوں کے گرد سفید موتیوں کی دہری لڑی لگی تھی۔جو مدھم سی چمکتی تھی۔
ڈورم بلاک کے کامن روم میں روشنیوں کا سا سماں تھا۔ کرسیوں کے پھول ویسے ہی بنے تھے جیسے حسین کی سالگرہ کے دن بناۓ گئے تھے۔ (آہ، اس کا جنجر بریڈ ہاٶس اور ڈی جے!) یورپین لڑکیاں بہت دل سے تیار ہوئی تھیں۔ شولڈر لیس ملبوسات جو گھٹنوں پر سے اوپر آتے تھے۔ جیسے وہ کوئی ہروم نائٹ ہو۔ ایسے میں وہ سب سے الگ تھلگ ایک کونے میں خاموش سی بیٹھی تھی۔ فلسطینی لڑکے اور ہالےاپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے سو نہیں آ سکے تھے۔ وہ خود کو بہت تنہا محسوس کر رہی تھی۔ دل میں عجیب سی ویرانی چھائی تھی، جیسے وہ کسی غلط جگہ پہ آ گئی ہو۔
اگر وہ پہلے والی حیا ہوتی تو ایسے تیار ہوتی کہ کوئی اسے نظر انداز نہ کر پاتا۔ وہ موقع کی مناسبت سے ساڑھی، اونچا جوڑا اور ہائی ہیلز پہنتی اور۔ اس نے سر جھٹکا زمانہ جاہلیت کی کشش ثقل آخر مرتی کیوں نہیں ہے؟ وہ کیوں بار بار کھینچتی رہتی ہے؟حالانکہ وہ قطعاً واپس اس دور میں نہیں لوٹنا چاہتی تھی، وہ تو اس پہاڑی پہ قدم بہ قدم اوپر چڑھنا چاہتی تھی، پھر اب نیچے کیوں دیکھ رہی تھی؟ نیچے تو کھائی تھی۔
کھانا شروع ہو چکا تھا۔ اسٹوڈنٹس ہنستے مسکراتے، باتیں کرتے پلیٹیں لیے ادھر ادھر گھوم رہے تھے ٹالی اپنی ڈش اٹھاۓ آئی تھی۔ پتا نہیں گوشت اور گاجر کا کیا ملغوبہ تھا جس کا وہ ایک بہت مشکل سا عبرانی نام لے رہی تھی۔ اس نے بہت خوش دلی سے حیا کے آگے ڈش کی تو حیا نے شکریہ کہتے ہوۓ ذرا سا پلیٹ میں ڈالا۔ ٹالی مسکرا کر آگے بڑھ گئی۔ حیا نے تمام سوچوں کو ذہن سے جھٹکتے کانٹے میں گوشت کا ٹکڑا پھنسایا، پھر ایک دم ٹھہر گئی۔
وہ نقاب میں بیٹھی تھی۔ نقاب کے ساتھ وہ کیسے کھا سکتی تھی، اسے کیوں بھول گیا کہ وہ نقاب کے ساتھ نہیں کھا سکتی؟
اس نے بے بسی سے ارد گرد دیکھا۔ کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا مگر وہاں بہت سے لڑکے تھے۔ وہ نقاب نہیں اتار سکتی تھی، کم از کم ٹالی کے اس ملغوبے کے لیے تو نہیں۔
اس نے بے دلی سے کانٹا پلیٹ میں گرا دیا۔ دل کی ویرانی بڑھ گئی تھی۔ اتنے سارے ایک جیسے لوگوں میں ایک ہی مختلف سی لڑکی پتا نہیں کہاں سے آ گئی تھی۔ وہ ان سب میں بالکل مس فٹ تھی۔ اجنبی، ایلین کسی اور دنیا سے تعلق رکھنے والی۔ یہ اس کی دنیا نہیں تھی۔ آگے پاکستان میں بھی تو دعوتیں اور تقریبات ہوں گی۔ وہ تو ادھر بھی مس فٹ لگے گی۔ یوں اس لبادے میں خود کو لپیٹے، الگ تھلگ، خاموش سی، لوگ تو اسے پاگل کہیں گے۔ اسے اجنبی کہیں گے۔ اسے لوگوں کی باتوں سے فرق نہیں پڑتا تھا، مگر خود اس کو سارا منظر بہت اجنبی اجنبی سا لگ رہا تھا۔ وہ جیسے انگریزی میں کہتے ہیں ”اوڈ ون آؤٹ“ وہ وہی بن چکی تھی۔
گھٹن بڑھ گئی تھی۔ اسے لگا اگر وہ کچھ دیر مزید بیٹھی تو رو دے گی۔ اسے یہاں سے کہیں بہت دور چلے جانا چاہئیے، کسی جنگل میں، جہاں وہ اجنبی نہ ہو۔ وہ تیزی سے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی۔راستے میں ٹالی، دو لڑکیوں کے ساتھ کھڑی ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی، اسے آتے دیکھ کر وہ شرارت سے مسکرائی۔
حیا! تم نے اپنے اسکارف میں کیا چھپا رکھا ہے؟
ڈور ناب گھماتے ہوۓ حیا نے پلٹ کر دیکھا اور سنجیدگی سے بولی۔
خود کش بم! کیا دکھاٶں! اس نے سوالیہ ابرو اٹھائی۔
ٹالی کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ وہ اس کے سنبھلنے کا انتظار کیے بغیر باہر نکل آئی۔
اپنے ڈروم میں آ کر اس نے زور سے دروازہ بند کیا اور پھر دروازے سے کمر ٹکاۓ آنکھیں بند کیے، تیز تیز سانس لینے لگی۔ چند ثانیے بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔ کمرہ خالی تھا۔ چاروں ڈبل اسٹوری بینکس نفاست سے بنے پڑے تھے۔
وہ اسی طرح دروازے سے لگی زمین پہ بیٹھتی گئی۔ اسکارف کی پن نوچ کر اتاری اور اسے اپنی میز کی طرف اچھالا۔ وہ کرسی پہ جا گرا، ایک پلو لٹکتا ہوا زمین کو چھونے لگا۔ وہ اسے اٹھانے کے لئے نہیں اٹھی۔ بس نم آنکھوں سے اسے دیکھے گئی۔
وہ تو کبھی محفلوں کی جان ہوتی تھی۔ اتنی سحر انگیز کہ اسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ پھر اب؟ اب وہ کیسے ایک دم سے اجنبی بن گئی تھی؟
بپ کی آواز کے ساتھ پاکٹ میں رکھا موبائل بجا۔ اس نے فون نکال کر ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھا۔ میجر احمد کا میسج آیا تھا۔
کیسی ہیں آپ؟ بس تین الفاظ۔ شاید اس کے دل نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ بہت ٹوٹی ہوئی، بکھری ہوئی سی ہے اس وقت یہ کوئی جی پی ایس ٹریکنگ نہیں تھی، وہ وجدان کا تعلق تھا۔ خیال کا رشتہ۔
وہ جواباً ٹائپ کرنے لگی۔
مجھے جنت کے ان پتوں نے دنیا والوں کے لیے اجنبی بنا دیا ہے۔ میجر احمد!
پیغام چلا گیا۔ آنسو اسی طرح اس کے چہرے پہ لڑھکتے رہے۔ اسے پرانی زندگی یاد نہیں آ رہی تھی۔اسے نئی زندگی مشکل لگ رہی تھی۔ احزاب کی جنگ کی یہ خندق تو بہت گہری، بہت تاریک تھی۔ اس میں تو دم گھٹتا تھا۔ وہ کیسے اس پہ قائم رہ پاۓ گی؟
احمد کا جواب آیا تو اسکرین جگمگا اٹھی۔ اس نے پیغام کھولا۔
اللہکے رسول ﷺ ؐ نے فرمایا تھا۔
اسلام شروع میں اجنبی تھا۔
عنقریب یہ پھر اجنبی ہو جاۓ گا۔
اور
سلام ہو ان اجنبیوں پہ!“
اسکرین پہ ٹپ ٹپ اس کے آنسو گرنے لگے۔ اوہ اللٰہ!اس نے بے اختیار دونوں ہاتھوں میں سر گرا لیا۔
وہ کیوں نہیں سمجھ سکی کہ یہی اجنبی پن تو اسلام تھا۔
ایسی ہی تو ہوتی ہیں اچھی لڑکیاں۔ عام لڑکیوں سے الگ، منفرد، مختلف۔ وہ دنیا میں گم، بے فکری سے قہقہے لگاتی، کپڑوں، جوتوں اور ڈراموں میں مگن لڑکیوں جیسی تو نہیں ہوتیں۔ اجنبیت ہی ان کی شناخت ہوتی ہے۔ وہ ساحل کے کیچڑ پہ چمکنے والا الگ سا موتی ہوتی ہیں۔ اجنبی موتی۔
وہ دھیرے سے مسکرائی اور ہتھیلی کی پشت سے آنسو رگڑے۔ وہ ایک مضبوط لڑکی ہے، اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننی۔ وہ اس اجنبی طریقے سے اس دنیا
میں سر اٹھا کر سب کے درمیان جیے گی اور وہ دنیا والوں کو یہ کر کے دکھاۓ گی۔ آئندہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کوئی پارٹی چھوڑ کر نہیں آۓ گی، وہ پورے اعتماد سے ان میں بیٹھے گی۔
وہ اٹھی اور اپنا اسکارف اٹھایا۔ پھر فون پہ عائشے کا نمبر ملانے لگی۔ اجنبی لڑکیوں کو اپنے جیسی ایلینز سے زیادہ سے زیادہ ان ٹچ رہنا چاہئیے تا کہ جب خندق کھودتے کوئی اپنے دل پہ رکھا ایک پتھر دکھاۓ تو آپ اسے اپنے دو پتھر دکھا سکیں۔
اسلام علیکم حیا! دوسری جانب بہارے چہکی تھی۔ میں ابھی تمہارے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔
اچھا تم کیا سوچ رہی تھیں؟ وہ آئینے کے سامنے کھڑی بالوں کا جوڑا کھولنے لگی۔ نرم، ریشمی بال کھل کر کمر پہ گرتے چلے گئے۔ وہ اب بھی اتنی ہی خوبصورت تھی جتنی پہلے تھی۔
میں سوچ رہی تھی کہ میں نے تم سے پوچھا ہی نہیں کہ تمہارا باکس کھلا یا نہیں؟
ارے ہاں، وہ کھل گیا۔ مگر اس میں صرف ایک چابی تھی۔
کھل گیا؟ تم نے پہیلی بوجھ لی؟ بہارے ایک دم سے بہت پرجوش ہو گئی۔
ہاں میں نے بوجھ لی۔
تو اس باکس کی”کی“ کیا تھی؟ کون سا لفظ تھا؟“ بہارے کو بہت بے چینی تھی۔ اس نے بھی حیا کے باکس پہ زور آزمائی کی تھی مگر سب اس کے اوپر سے گزر گیا تھا۔
اس کی key ٹاقسم ہے۔ اس نے مسکراتے ہوۓ بتایا۔ عائشے اور بہارے باکس کے کوڈ کو عموماً ”کی“ کہا کرتی تھیں۔ مقفل باکس کی چابی۔
بالوں میں برش چلاتی، وہ ایک دم بالکل ٹھہر گئی۔ اس کے ذہن میں روشنی کا کوندا سا لپکا تھا۔
”کی؟“ اس نے بے یقینی سے دہرایا۔ بہارے! میں تمہیں بعد میں کال کرتی ہوں۔ ابھی کچھ کام آن پڑا ہے۔ اس نے جلدی سے فون بند کیا، اور اپنے دراز سے پزل باکس نکالا۔ بہت تیزی سے اس نے سلائیڈز اوپر نیچے کیں ٹاقسم کا لفظ سامنے آیا تو مقفل باکس کھل پڑا۔ مقفل باکس کی کنجی ٹاقسم تھی۔
اندر رکھے کاغذ پہ لکھی تحریر واضح تھی۔
چابی کے نیچے دو فل سٹاپس۔
چابی! اوہ خدایا۔ اسے پہلے کیوں سمجھ میں نہیں آیا۔ پنکی نے کہا تھا، توڑ کر کھولنے پہ یہ کسی کام کا نہیں رہے گا۔ اس نے وہ تحریر توڑ کر کھولنے والے کے لیے لکھی تھی تاکہ وہ سمجھے کہ ”چابی“ سے مراد وہ لوہے کی چابی ہے جبکہ پہیلی بوجھ کر کھولنے والے کو علم ہو گا کہ چابی سے مراد ”ٹاقسم“ ہے۔
ٹاقسم کے نیچے دو فل اسٹاپس لگانے سے کیا بنتا تھا؟ وہ سوچنا چاہتی تھی، مگر لڑکیاں واپس آ گئیں تو اس کی یکسوئی متاثر ہونے لگی۔ اس نے باکس لیا، اسکارف لپیٹا اور اسٹڈی روم میں آ گئی۔ وہاں ان کے ڈورم بلاک کی دو ترک اسٹوڈنٹس بیٹھی پڑھ رہی تھیں۔ وہ بھی ایک کرسی پہ آ بیٹھی اور ایک کاغذ پہ لکھا ”ٹاقسم“ پھر اس کے نیچے کئی جگہوں پہ نقطے لگا کر دیکھے، مگر کچھ نہیں بن رہا تھا۔ انگریزی حروف میں لکھا تب بھی کچھ نہیں بنا۔
سنو۔ اس نے ان دونوں لڑکیوں کو مخاطب کیا۔ دونوں سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگیں۔
ٹاقسم کے نیچے آئی مین، ٹاقسم اسکوائر کے نیچے اگر ہم دو فل اسٹاپس لگائیں تو ہمیں کیا ملے گا؟“
ایک لڑکی الجھ کر اسے دیکھنے لگی۔ جبکہ دوسری نے بہت بے نیازی سے شانے اچکاۓ۔ لگانے سے اگر تمہارا مطلب ٹریول کرنا ہے تو پھر سسلی!
کیا؟ حیا کو سمجھ نہیں آیا۔
ٹاقسم کے نیچے اگر تم میٹرو لائن پہ دو پورے اسٹاپ ٹریول کرو تو سسلی کا اسٹاپ آۓ گا نا۔۔۔۔۔!
وہ بالکل سناٹے میں رہ گئی۔
اوہو، وہ ٹاقسم لفظ کی بات کر رہی ہے، اصلی والے اسکوائر کی نہیں۔ دوسری لڑکی نے اپنی ساتھی کو ٹوکا تھا۔ جواباً اس لڑکی نے سوالیہ نگاہوں سے حیا کو دیکھا۔ وہ بدقت مسکرائی۔
نہیں میں اصلی والے ٹاقسم اسکوائر کی ہی بات کر رہی تھی۔ وہ کرسی پر واپس گھوم گئی اور وہ تحریر پڑھی۔
چابی تلے دو فل اسٹاپس۔ یعنی ٹاقسم کے نیچے دو (پورے اسٹاپس) فل اسٹاپس سے مراد نقطے نہیں، بلکہ میٹرو کے اسٹاپ تھے اور لوہے کی چابی تلے وہ نقطے اس نے توڑ کر کھولنے والے کے لیے بطور دھوکے لگائے تھے۔
سسلی! اس نے زیر لب دہرایا۔ سسلی میں اس کی امانت تھی۔ ڈولی کی امانت، جسے میجر احمد نے چھپایا تھا۔ اسے اب کل صبح ٹاقسم کے نیچے پورے دو اسٹاپس تک سفر کرنا تھا۔
میجر احمد کا پزل آہستہ آہستہ کھلتا جا رہا تھا۔
••••••••••••••••••••••
وہ صبح بہت سنہری، نرم گرم سی طلوع ہوئی تھی۔ وہ ٹاقسم جانے کے لیے آئینے کے سامنے کھڑی گیلے بال ڈرائر سے سکھا رہی تھی۔ وہ کبھی بھی نم بالوں کو اسکارف میں نہیں باندھتی تھی۔ اسکارف پہننے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ گندہ، میلا رہا جائے۔ وہ اب بھی اپنے بالوں کی خوبصورتی کا اتنا ہی خیال رکھتی تھی جتنا کہ پہلے۔ جب تک بال خشک ہوئے، ہالے ایک پیکٹ اٹھائے اندر چلی آئی۔
فلسطینی اسٹوڈنٹس صبح سویرے قطر جانے کے لیے نکل گئے تھے۔ وہ مجھے تمہارا یہ گفٹ دے گئے تھے۔ تب تم سو رہی تھیں۔ انہوں نے سب کو گفٹس دیے ہیں۔
اچھا، دکھاؤ۔ وہ برش رکھ کر بہت اشتیاق سے پیکٹ کھولنے لگی۔ اندر اس کے تحفے پر ایک سادہ موٹے کارڈ پہ لکھا تھا۔
لطیف نے بتایا تھا کہ کل ہماری پاکستانی ایکسچینج اسٹوڈنٹ اپنے نقاب کی وجہ سے کھانا نہیں کھا سکی تھیں۔ اس لیے ہم یہ لے آئے۔ اس میں آپ کو کبھی بھوکا نہیں رہنا پڑے گا۔ منجانب فلسطینی ایکسچینج اسٹوڈنٹس!
اس کے نیچے ایک سیاہ سلک کا لبادہ رکھا تھا۔
اس نے وہ اٹھایا تو وہ نرم ریشمی سا کپڑا انگلیوں سے پھسلنے لگا۔ سیاہ، لمبا عبایا جو ”حریر“ کا بنا تھا۔ وہ عام ریشم نہیں تھا بلکہ ذرا مختلف تھا۔ اس میں بہت ہلکی سی چمک تھی جتنی چائنا سلک کے دوپٹے میں ہوتی ہے۔ آستین پہ کلائیوں کے گرد موٹے موٹے سبز پتھر لگے تھے کسی لیس کی طرح وہ بادام کے سائز کے تھے اور بالکل زمرد کی طرح لگے تھے۔ سوائے سبز اسٹونز کی لیس کے سارا عبایا سادہ تھا۔ اس کی اسٹول البتہ ریشم کے بجائے کسی نرم کپڑے کی تھی اور ساتھ میں ایک علیحدہ نقاب بھی تھا۔ اسے کارڈ پر لکھی تحریر کا مطلب سمجھ آ گیا اس علیحدہ نقاب کو (جس میں آنکھوں کا خلا بنا تھا) پیشانی پہ رکھ کر سر کے پیچھے پن اپ کرنا تھا۔ یوں نقاب کی سائیڈ کھلی ہوتیں اور وہ اس سے کھا سکتی۔
یہ تو بہت مہنگا لگ رہا ہے، تمہیں پتا ہے یہ انہوں نے ضرور جواہر سے لیا ہو گا۔ وہاں ایک شاپ سے سعودیہ کے امپورٹڈ عبایا ملتے ہیں، یہ وہی ہے اور تمہارے پاکستانی روپوں میں دس، پندرہ ہزار سے کم کا نہیں ہو گا۔ ہالے ستائش سے اس خوبصورت عبایا کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اور ان کی خاص بات یہ کہ ان میں گرمی نہیں لگتی۔ پتا نہیں کیا میکانزم ہے، مگر اس کو تم گرم سے گرم ماحول میں بھی پہنو تو تمہیں گھٹن یا گرمی نہیں لگے گی۔
واقعی؟ وہ بہت متاثر سی عبایا کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھی۔ وہ اتنا خوبصورت اور باوقار تھا کہ نگاہ نہیں ٹکتی تھی۔ اس نے اپنے لباس پہ ہی اس کو پہنا اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر بٹن بند کرنے لگی۔ عبایا اس کے قدموں تک گرتا تھا۔ جیسے کسی رائل پرنس کا ریشمی لبادہ ہو۔ ایک بہت شاہانہ جھلک تھی اس میں۔
بہت خوبصورت لگ رہا ہے۔ کہیں جا رہی ہو تم؟ ہالے کو کچھ یاد آیا۔ اگر مارکیٹ جا رہی ہو تو مجھے کچھ منگوانا تھا۔ وہ جلدی سے ایک کاغذ پر کچھ چیزیں لکھنے لگی۔
ہاں، ٹھیک ہے لے آؤں گی۔ اس نے عبایا کی اسٹول چہرے کے گرد لپیٹتے ہوئے کہا۔ بس مجھے سسلی سے ایک امانت اٹھانی ہے۔ زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
ہالے نے جو میز پر کاغذ رکھے کچھ لکھ رہی تھی ناسمجھی سے سر اٹھایا۔
امانت؟ کیا کسی نے تمہارے لیے رکھوائی ہے؟
یہی سمجھ لو۔ اس نے ذرا سے شانے اچکائے۔
چابی ہے تمہارے پاس؟ ہالے نے عادتاً پوچھا وہ ہمیشہ باہر جانے سے پہلے پوچھ لیا کرتی تھی کہ کون سی شے رکھی اور کون سی نہیں، مگر وہ ٹھٹک کر رک گئی۔
کس چیز کی چابی؟
امانت کی چابی۔ اس کے بغیر تو نہیں کھلے گی نا۔
ہالے! اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔ تم۔۔۔۔۔۔۔ تم امانت کسے کہتی ہو؟
امانت لاکرز کو۔ تم ان ہی کی بات کر رہی ہو نا؟ ہم لیفٹ لگیج eLeft Luggag لاکرز کو لگیج امانت بولتے ہیں نا۔
اوہ۔۔۔۔۔۔۔ لیفٹ لگیج لاکرز! اس نے بے اختیار ماتھے کو چھوا۔ وہ لاکرز جہاں لوگ سامان محفوظ کر کے چلے جاتے ہیں کہ بعد میں اٹھا لیں گے؟ اسے یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ یہ چابی کسی لیفٹ لگیج لاکر کی بھی ہو سکتی ہے۔
ہالے۔۔۔۔۔۔۔۔ ہالے۔۔۔۔۔۔۔ وہ تیزی سے اس کے قریب آئی۔ تمہیں پتا ہے سسلی میں امانت لاکرز کہاں ہوں گے؟ اس کی بات پہ ہالے متذبذب سی سوچنے لگی۔
سچ کہوں تو میں نے کبھی استنبول میں کوئی پبلک لاکر ٹرائی نہیں کیا، مگر عموماً ریلوے اسٹیشنز پر لاکرز ہوتے ہیں۔ تم سسلی کہ اسٹاپ پر دیکھنا، شاید وہاں کوئی مل جائے۔
ٹاقسم کے نیچے دو پورے میٹرو اسٹاپس۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں کوئی امانت لاکر تھا۔ اس نے ذہن میں اس پہیلی کو ڈی کوڈ کیا۔
••••••••••••••••
سسلی کے میٹرو اسٹاپ پر معمول کی گہما گہمی تھی۔ وہ پرس کندھے پہ لٹکائے بہت پر اعتماد طریقے سے چلتی ٹکٹ کاؤنٹر تک آئی۔
السلام علیکم۔ مجھے کچھ سامان ڈمپ کرنا ہے لگیج امانت کس طرف ہے؟ اس نے سرسری سے انداز میں لاکرز کا پوچھا۔ اس لیے کہ وہ مشتبہ نہ لگے، اس نے یہ نہ بتانا ہی بہتر سمجھا کہ کسی نے اس کے لیے امانت رکھوائی ہے۔
میڈم! یہاں اس اسٹاپ میں تو کوئی لاکر نہیں ہے۔
کیا مطلب؟ یہاں کوئی لاکر نہیں ہے؟ اس نے اچنبھے سے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔
جب سے میں یہاں کام کر رہا ہوں، تب سے تو اس اسٹاپ پہ کوئی لاکر نہیں ہے۔ شاید پہلے ہوتے ہوں۔ آپ کو پتا ہے نائن الیون کے بعد یورپ کہ بہت سے ریلوے اسٹیشن سے لاکرز ختم کر دیے گئے تھے۔ معمر ترک کلرک نے تفصیلاً بتایا۔
اچھا! اس کا دل مایوسی میں ڈوب گیا۔ ٹاقسم سے میٹرو میں سوار ہونے کے بعد وہ پہلے اسٹیشن پہ نہیں اتری پھر دوسرے، یعنی سسلی پہ اتر گئی۔ ٹاقسم سے میٹرو لائن کا آغاز ہوتا تھا۔ میٹرو ایک ہی سمت میں جاتی تھی سو دو پورے اسٹاپس کا اختتام سسلی پہ ہی ہوتا تھا۔
آپ کو سامان رکھوانا ہے تو میرے پاس رکھوا دیں پھر بعد میں لے لیجیے گا۔ وہ جانے لگی تو کلرک نے بہت خلوص سے پیش کش کی۔
نہیں خیر ہے۔ میں اٹھا لوں گی۔ اس نے شعوری طور پر پرس کو ذرا مضبوط پکڑ لیا۔ بس مجھے جواہر سے ذرا سی شاپنگ کرنی ہے، ہمیں مینج کر لوں گی۔ اس کی آواز میں واضح مایوسی تھی۔
اچھا آپ جواہر جا رہی ہیں؟ تو پھر آپ سامان وہیں رکھوا دیجیے گا۔ بلکہ۔۔۔۔۔ وہ ذرا سا رکا۔ جواہر میں امانت لاکرز ہوتے ہیں۔ وہ انٹرنس کے قریب ہی بنے ہیں۔
واقعی؟ وہ جھٹکے سے واپس پلٹی تھی۔ ”امانت لاکرز؟ جو چابی سے کھلتے ہیں ؟“
ارے میم! وہ زمانے گئے، جب لاکرز چابی سے کھلا کرتے تھے۔ سلطنت ترکیہ اب ترقی کر چکا ہے۔ ترک بوڑھے نے بہت فخر سے گردن اٹھا کر کہا۔ ہمارے امانت لاکرز بار کوڈ سے کھلتے ہیں۔
آف کورس! حیا نے گہری سانس لی اور مسکرائی۔ اللہ ترقی یافتہ سلطنت ترکیہ کو سلامت رکھے! بار کوڈ! اس نے سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔
بالآخر اسے سارے بریڈ کرمبز ملتے جا رہے تھے۔
سسلی کے اسٹاپ سے ایک ڈائریکٹ ایگزٹ تھی جو جواہر مال میں کھلتی تھی۔ وہ مال میں آئی اور تیزی سے ان لاکرز کی طرف لپکی جو داخلی حصے کے قریب ہی بنے تھے۔ ایک دیوار پہ پھیلے نارنجی لاکرز، جیسے کچن کیبنٹس ہوں۔ سب پہ ایک ایک نمبر لکھا تھا۔ اس نے پرس سے چابی اور بارکوڈ سلپ نکالی، اور پورے اعتماد سے چلتی لاکرز کے قریب آئی۔
وہاں کھڑا گارڈ بے اختیار اسے دیکھنے لگا۔
حیا نے وہاں لاکرز کی مشین کا طریقہ دیکھا۔ اسے پہلے لاکر نمبر ٹائپ کرنا تھا۔ وہاں بنے کی پیڈ پہ اس نے 6 کا ہندسہ دبایا۔ یہی ہندسہ اس کی بار کوڈ کی رسید کے چار کونوں میں لکھا تھا۔ یہی لاکر نمبر ہو سکتا تھا۔
مشین کی سیاہ اسکرین پہ چھ لکھا آیا، پھر اس نے بار کوڈ مانگا۔ حیا نے بار کوڈ والی طرف سے کاغذ شناخت کے لیے مشین کے سامنے کیا۔ ٹوں ٹوں کی آواز آئی اور اسکرین پر سرخ عبارت ابھری۔ بار کوڈ غلط تھا۔
اس نے بے یقینی سے رسید کو دیکھا اور پھر مشین کو، شاید کوئی غلطی ہو گئی ہو۔ گارڈ اب پوری گردن موڑ کر مشکوک نگاھہوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔
حیا نے جلدی سے مشین ری سیٹ کی اور 6 پہ انگلی رکھی، پھر بارکوڈ سامنے کیا پھر سرخ عبارت ابھری۔ کچھ غلط تھا۔
گارڈ کی نظریں اور بے بسی بھری پریشانی۔ وہ کپکپاتی انگلیوں سے تیسری دفعہ مشین ری سیٹ کرنے لگی تو رسید ہاتھ سے پھسل کر فرش پر جا گری۔ وہ تیزی سے اسے اٹھانے کے لیے جھکی۔
رسید کا کاغذ الٹا گرا تھا۔ یوں کہ الفاظ سر کے بل الٹے نظر آ رہے تھے۔ چاروں کونوں میں لکھا ہوا چھ اب الٹا ہو کر 9 لگ رہا تھا۔ کاغذ اٹھا کر اس نے گردن اٹھا کر دیکھا۔ 9 نمبر لاکر اوپر والی قطار میں سب سے آخر پہ تھا۔ کچھ سوچ کر اس نے مشین کے کی پیڈ پہ 9 پہ انگلی رکھی، پھر بار کوڈ سامنے کیا۔ بپ کی آواز آئی اور سبز رنگ کی عبارت ابھری۔ نو نمبر لاکر کھل گیا تھا۔
وہ جلدی سے آگے بڑھی اور 9 نمبر لاکر کا دروازہ کھولا (جیسے کچن کیبنٹ کو کھولتے ہیں) اندر ایک چوکور سی تجوری رکھی تھی جو پیچھے کہیں سے چپکی تھی۔ (یہ وہ تجوری تھی جس کی دھات کی تہوں میں شیشے کی تہہ ہوتی ہے، اور اگر اسے غلط طریقے سے کھولنے کی کوشش کی جائے تو اندرونی شیشہ ٹوٹ کر تجوری کو جام کر دیتا ہے۔) اس نے تجوری کے کی ہول میں وہ چابی ڈال کر گھمائی۔ تجوری کھل گئی۔ حیا نے جلدی سے اسے کھولا۔ اندر ایک چھوٹی سی سیاہ مخملیں ڈبی رکھی تھی جیسے انگوٹھی کی ڈبی ہوتی ہے۔ اس نے وہ ڈبی مٹھی میں دبائی اور احتیاط سے اپنے کھلے بیگ کے اندر گرا دیا کہ پیچھے کھڑا گارڈ نہ دیکھ سکے۔
دو منٹ کے بعد وہ مال کے باہر کھڑی تھی۔ اس نے بیگ کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ ترکی اور ترکی کے ایڈونچرز۔ وہ کبھی ان پر ایک کتاب ضرور لکھے گی، اس نے مسکراتے ہوئے سوچا تھا۔ فی الحال اسے ایک ایسی جگہ کی تلاش تھی جہاں بیٹھ کر وہ آرام سے وہ ڈبی کھول سکے۔
دفعتاً اس کا موبائل بجا۔
آپ کا سرپرائز برگر کنگ کی پینٹری میں آپ کا انتظار کر رہا ہے۔ اے آر پی۔ دو سطور کا وہ مختصر سا پیغام اس کو سُن کر گیا۔ کہیں عبدالرحمان، جہان کے پاس تو نہیں چلا گیا؟ اس کی آنکھوں کے سامنے جہان کا ٹوٹا پھوٹا ریسٹورنٹ گھوما تھا۔ اوہ نہیں۔
وہ واپس زیر زمین میٹرو کی طرف بھاگی تھی۔
برگر کنگ میں معمول کا شور اور رش تھا۔ وہ قریباً دوڑتی ہوئی کچن میں آئی تھی۔
جہان کہاں ہے؟ اس کے حواس باختہ انداز پہ وہاں شیف لڑکے نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا۔ وہ۔۔۔۔۔۔۔ پینٹری میں ہے، مگر ٹھہریں، آپ ادھر نہ جائیں۔ وہ پینٹری کی طرف بڑھی تو وہ لڑکا اس کے سامنے آ گیا۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میم پلیز، اس کا کوئی مہمان آیا ہے، وہ اندر ہے، اس نے کہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کو اندر نہ آنے دوں، ورنہ میری نوکری چلی جائے گی۔
کچھ نہیں ہو گا، مجھے دیکھنے دو۔
پلیز مجھے سمسٹر کی فیس دینی ہے، آپ ادھر مت جائیں، وہ مجھے واقعی جان سے مار دے گا۔ اگر۔۔۔۔۔۔ اگر آپ کو اندر جانا ہی ہے تو آپ پچھلی گلی سے چلی جائیں پچھلے دروازے کی گھنٹی بجا دیجیے گا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بات مکمل ھہونے سے قبل ہی وہ باہر نکل چکی تھی۔
دس منٹ بھی نہیں لگے تھے اسے پچھلی گلی سے پینٹری کے دروازے تک پہنچتے ۔ اگر عبدالرحمان ادھر آیا تو وہ اسے جان سے مار دے گی، اس نے سوچ لیا تھا۔
پینٹری کا روشن دان کھلا تھا۔ وہ حیا کے چہرے برابر آتا تھا۔ اس سے اندر کا منظر اور آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ وہ جو گھنٹی بجانے لگی تھی، بے اختیار رک گئی۔
جہان، جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے حیا کی طرف پشت کیے کھڑا کہہ رہا تھا۔
آواز نیچی رکھو، یہ تمہارا ادالار نہیں ہے جہاں میں تمہاری ساری بکواس چپ کر کے سنتا رہوں گا۔ یہ میری جگہ ہے!
اس کے مخاطب نے استہزائیہ انداز میں سر جھٹکا۔
سرمئی برساتی، آنکھوں پہ عینک اور وہ ناقابل فراموش چہرہ جس پہ چند روز قبل اس نے کافی الٹی تھی۔ وہ پاشا کا چہرہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔
ہا! تمہاری جگہ! مت بھولو کہ یہ جگہ بھی میں نے تمہیں دی تھی جب تمہیں بیوک ادا سے فرار ہو کر چھپنے کے لیے جگہ چاہیے تھی، مگر تم دنیا کے سب سے بڑے احسان فراموش ہو جہان!
وہ دیوار سے لگی، پتھر کا مجسمہ بنی رہ گئی۔ استقلال اسٹریٹ کا شور غائب ہو گیا۔
میرا بھی اپنے بارے میں یہی خیال ہے۔ وہ جواباً کمال بے نیازی سے شانے اچکا کر بولا تھا۔
اور میرے کام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کیا وہ اڑتالیس گھنٹوں میں ہو جائے گا؟
نہیں۔ جہان اسی رکھائی سے بولا تھا۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں تمہارے باپ کا ملازم نہیں ہوں اور دوسری یہ کہ تم اپنے لالچ کے ہاتھوں بےصبرے ہونے کی بجائے تھوڑا انتظار کرو تو بہتر ہو گا۔
لالچ؟ پاشا نے بےیقینی سے دہرایا۔ میرا سب کچھ داؤ پہ لگا ہے اور تم کہتے ہو کہ میں لالچی ہوں۔
جہان نے لاپروائی سے شانے اچکائے۔
تمہارے اپنے جرائم کی سزا ہے، میرا کیا قصور ہے؟
اور تمہیں تمہارے جرائم کی سزا کب ملے گی جہان سکندر؟ وہ لب بھینچے اتنی سختی سے بول رہا تھا کہ جبڑے کی رگیں تن گئی تھیں۔ یاد رکھنا، جس دن میں نے زبان کھولی، اس دن تم سیدھا پھانسی چڑھو گے۔
جہان بے اختیار ہنس پڑا۔
اور تمہیں لگتا ہے کہ میں پھانسی چڑھ کر تمہیں ادالار میں عیش کرنے کے لیے چھوڑ جاؤں گا؟ ایسی فیری ٹیل تم ہی گھڑ سکتے ہو، پاشا بے!
بے ترک میں صاحب یا مسٹر کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
پاشا بہت تاسف سے اسے دیکھ رہا تھا۔
تم ایک دفعہ پہلے بھی مجھے دھوکہ دے چکے ہو، میں اس دفعہ تمہارا اعتبار نہیں کروں گا۔
تو نہ کرو! اس نے بے نیازی سے کندھوں کو جنبش دی۔ جہنم میں جاؤ میری طرف سے۔
پاشا چند لمحے بہت ضبط کیے اسے دیکھتا رہا، پھر کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ نگاہ روشن دان سے جھانکتے چہرے پہ پڑی۔ سیاہ لبادے میں سے صرف اس کی بڑی بڑی آنکھیں نظر آ رہی تھیں، جن میں سارے زمانے کی بے یقینی تھی۔ وہ دھیرے سے مسکرایا۔
تمہاری بیوی باہر کھڑی ہے جہان! اسے اندر نہیں بلاؤ گے؟
وہ جو چہرے پہ ڈھیروں بے زاری لیے کھڑا تھا، کرنٹ کھا کر پلٹا۔ حیا اسی طرح ساکت سی روشن دان کے باہر کھڑی تھی۔
کیا؟ جہان نے بے یقینی سے دہرایا، اسے شاید لگ رہا تھا کہ اس نے غلط سنا ہے۔ پاشا زیر لب مسکرایا۔
تمہاری بیوی، سبانجی یونیورسٹی کی ایکسچینج سٹوڈنٹ، ڈورم نمبر بھی بتاؤں؟ حیران مت ہو جہان! تم نے پاشا بے کو انڈر اسٹیمیٹ کیا ہے۔ میں تمہاری بیوی کو اچھی طرح جانتا ہوں بلکہ کچھ دن پہلے ہی ہماری ملاقات ہوئی ہے۔ کیوں مادام؟ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟
اس نے آگے بڑھ کر پینٹری کا دروازہ کھولا اور اسے جیسے اندر آنے کا راستہ دیا۔
ملاقات؟ جہان کے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا ۔ اس نے ششدر نگاہوں سے حیا کو دیکھا۔ وہ اتنی ہی بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ بے یقینی، بے اعتبار، فریب، جھوٹ۔
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ۔ تم اس کو جانتی ہو؟ وہ متحیر سا تھا، جیسے اسے یقین ہی نہ آیا ہو وہ اس سب سے بے خبر تھا۔ یہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ سچ کہہ رہا ہے؟
اس نے بمشکل اثبات میں گردن ہلائی، وہ ان ہی بے اعتبار نگاہوں سے پلک جھپکے بنا جہان کو دیکھ رہی تھی۔ وہ کون تھا، وہ نہیں جانتی تھی۔
اب بتاؤ، جہان! میرا کام اڑتالیس گھنٹوں میں ہو جائے گا یا نہیں؟ وہ مسکرا کر پوچھ رہا تھا۔ جہان نے اسے دیکھا، پھر اس کی پیشانی کی رگیں تن گئیں۔ وہ آگے بڑھا اور اپنے ساتھی کو گریبان سے پکڑ لیا۔
میری بات کان کھول کر سن لو۔ میں تمہارا کام کر دوں گا، اڑتالیس گھنٹوں سے پہلے۔ لیکن اگر تم نے میری بیوی کو طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا، تو استنبول کے کتوں کو کھانے کے لیے تمہاری لاش بھی نہیں ملے گی۔
ایک جھٹکے سے اس نے پاشا کا گریبان چھوڑا۔ اس کی آنکھوں میں وہ خون اترا تھا کہ حیا ڈر کر دو قدم پیچھے ہی، اس نے واضح طور پر محسوس کیا کہ پاشا کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔
مجھے تمہاری بیوی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، نہ میں نے پہلے اسے کچھ کہا، نہ اب کہوں گا۔ مجھے صرف اپنے کام سے غرض ہے۔
ہو جائے گا۔ ناؤ گیٹ لاسٹ! وہ بہت ضبط سے بولا تھا ۔
پاشا نے اپنی برساتی کا کالر ٹھیک کیا اور پھر بنا کسی کو دیکھے باہر نکل گیا۔ حیا ابھی تک بغیر پلک جھپکے جہان کو دیکھتی، دروازے میں کھڑی تھی۔
تم اسے کیسے جانتی ہو، میں سمجھ نہیں پا رہا۔ وہ اس کے قریب آیا تو وہ بے اختیار دو قدم مزید پیچھے ہٹی۔ وہ رک گیا۔
میں نہیں جانتا کہ تم نے کیا سنا، مگر تم نے ادھوری باتیں سنی ہیں۔ میرا اس آدمی سے کوئی تعلق نہیں ہے حیا۔۔۔۔۔۔ تم، تمہیں مجھ پر اعتبار ہے نا، میری بات سنو! وہ بے بسی سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا، مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ اسے جہان سکندر کی کسی بات کا اعتبار نہیں رہا تھا۔
وہ ایک دم مڑی اور اسکوائر کی جانب واپس بھاگی۔
میری لینڈ لیڈی نے خوب ہنگامہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آج کل اس سے چھپتا پھر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں کوئی عبدالرحمن پاشا نہیں ہے۔ یونہی کسی نے اپنے بارے میں افواہیں پھیلائی ہوں گی۔
جھوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹ تھا۔ سب فریب تھا۔ آنسو اس کی آنکھوں سے گرتے حجاب بھگو رہے تھے۔ ایک لمحہ بس، ایک لمحہ لگتا ہے اعتبار ٹوٹنے میں اور سب ختم ہونے میں۔
وہ اسے مسلسل فون کر رہا تھا۔ مگر وہ سن نہیں رہی تھی۔ سبانجی واپس پہنچنے تک وہ فیصلہ کر چکی تھی اسے معلوم تھا کہ اسے جہان کی بات لینی چاہیے ایک دفعہ اسے وضاحت دینے کا موقع دینا چاہیے، مگر وہ خوف، بےاعتباری کے دکھ سے بڑا تھا جو اسے اپنی لپیٹ میں لے چکا تھا۔ پاشا نے اسے وضاحت مہرے کے طور پر استعمال کیا۔ ایک بلیک میلنگ ہتھیار کے طور پہ۔ یہ سب جرم کی دنیا کے ساتھی تھے۔ کرمنلز۔ اسے ان کے درمیان نہیں رہنا تھا اب اس نے فیصلہ کر لیا تھا۔ پہلی دفعہ اسے استنبول سے بہت ڈر لگا تھا۔ اسے جلد از جلد واپس پاکستان پہنچنا تھا۔ اس کا گھر دنیا میں ان کی واحد محفوظ پناہ نگاہ تھی۔
ہالے اس سے پوچھ رہی تھی، مگر وہ کچھ بھی بتائے بغیر مسلسل بے آوز روتی، سامان پیک کر رہی تھی، نہ بیوک ادا، نہ لندن، اسے اپنا آخری مہینہ پاکستان میں گزارنا تھا۔ پھر جولائی میں دو دن کے لیے وہ آ کر کلیئرنس کوا لے گی۔
فلائٹ رات کو ملی، اور تب تک ہر مرحلے پہ ہالے نے اس کی بہت مدد کی۔ سبانجی کو وہ ایسے چھوڑے گی، اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ سب کچھ ادھورا رہ گیا تھا۔ وہ لڑکا پھر کبھی نہیں ملا جو ڈی جے کے گڈ مارننگ کا جواب دیا کرتا تھا۔ ادھوری یادیں۔ پورے دکھ۔
اس نے ابا کو مختصر سا بتا کر فون آف کر دیا تھا۔ وہ واقعی بہت زیادہ ڈر گئی تھی۔ اسے بس جلد از جلد وہاں سے نکلنا تھا۔ ایر پورٹ پہ بھی وہ بہت پریشان اور چڑچڑی سی ہو رہی تھی۔ جب آفیسر نے اسے لیپ ٹاپ ہینڈی کیری میں رکھنے کو کہا تو وہ اڑ گئی۔
مجھے اتنا بھاری ہینڈ کیری نہیں اٹھانا بس۔ یہ اس کا ڈی جے کو ایک آخری خراج تھا۔
جب فلائٹ نے استنبول سے ٹیک آف کر لیا اور مرمرا ان کے قدموں تلے آ گیا تو اس کے دل کو ذرا سکون ملا۔ بالاخر۔ و اپنے گھر واپس جا رہی تھی۔ بس، بہت ہو گیا ایڈونچر، بہت ہو گئے پزل۔
پزل؟ وہ چونکی اور پھر جلدی سے پرس کھولا مخملیں، سیاہ ڈبی اندر محفوظ پڑی تھی۔ وہ سارا دن اتنی پریشان رہی کہ اسے بھول ہی گئی۔ جانے اس میں کیا تھا؟
ڈھرکتے دل کے ساتھ اس نے ایک ہاتھ میں ڈبی پکڑ کر، دوسرے ہاتھ سے اس کا ڈھکن کھولا۔