
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر چوبیس
وہاں ہر طرف سناٹا تھا۔ خاموشی۔ اندھیرا۔ کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر شاید اس کا وہم ہو۔ اس نے سر جھٹک کر پھر سے قدم اندر کی جانب بڑھانے چاہے مگر لمحے بھر کو پھر سے کچھ چمکا۔
کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے؟ وہ بالکل ساکن کھڑی پلکیں سکیڑے اس جگہ کو دیکھے گئی۔ اسے ڈر نہیں لگ رہا ہے۔ وہ بالکل بھی خوف زدہ نہیں ہے۔ اس نے خود کو بتانے کی کوشش کی، مگر فطری خوف نے اسے چھوا تھا۔ پھر وہ کچھ سوچ کر آگے بڑھی۔ گملوں کی قطار کے ساتھ چلتی وہ آخری گملے تک پہنچی جس میں لگا منی پلانٹ ڈنڈی کی مدد سے قریبا چھ فٹ اونچا کھڑا تھا۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا، مگر کچھ تھا۔ کسی احساس کے تحت وہ ذرا سی آگے ہوئی اور پھر ایک دم رک گئی۔
خدایا! وہ جیسے کرنٹ کھا کر دو قدم پیچھے ہٹی اور پھر بے یقینی سے پھٹی پھٹی نگاہوں سے گردن اونچی کر کے دیکھا۔
اونچے منی پلانٹ سے لے کر چھت کی منڈیر تک ایک ان دیکھی دیوار سی بنی تھی، مکڑی کے جالے کی دیوار۔ جیسے کسی بیڈ مینٹن کورٹ میں جالی دار نیٹ لگا ہوتا ہے۔ وہ چھ فٹ اونچا اور بے حد لمبا سا جالا بے حد خوبصورت اور سحر انگیز تھا۔ اس کے تانے بانے بہت نفاست سے بنے تھے گو کہ وہ بہت پتلا تھا، پھر بھی چاند کی روشنی کسی خاص زاویے سے پڑتی تو دھنک کے ساتوں رنگ چمکتے۔
وہ اسے تحیر سے دیکھتی الٹے قدموں پیچھے آئی۔ اگلے ہی پل وہ اندر سیڑھیوں کے دہانے پہ غصے سے نوربانو کو پکار رہی تھی۔
جی، جی آئی۔نور بانو جو کچن میں کھانے کے برتن سمیٹ رہی تھی، بھاگتی ہوئی باہر آئی۔
جاؤ کوئی جھاڑو لے کر آؤ۔ اتنے جالے لگے ہیں چھت پہ۔ تم صفائی کیوں نہیں کرتی ٹھیک سے؟ پتا نہیں اسے کس بات پہ زیادہ غصہ چڑھا تھا۔ اس کے تیور دیکھ کر نوربانو بھاگتی ہوئی لمبی والی جھاڑو لیے اوپر آئی۔
اتنا بڑا جالا جہاں بنا ہی کیسے؟ جب نور بانو اس کے
ساتھ باہر چھت پر آئی تو وہ حیرت اور اچنبھے سے جیسے خود سے بولی تھی۔
حیا باجی! دیکھیں نا، یہاں کی صفائی کی ذمہ داری نسرین کی ہے، وہ روز چھت صاف نہیں کرتی۔ مجھے تو لگتا ہے کافی دن سے ادھر سے گزری بھی نہیں ہے۔ گزری ہوتی تو جالا نہ بنتا۔ یہ مکڑیاں جالے ادھر ہی بناتی ہیں جہاں کچھ عرصہ کچھ گزرا نہ ہو، چاہے بندہ، چاہے جھاڑو۔ جتنے اتار لو جالے، پر کچھ روز بعد بن لیتی ہیں۔ سدا کی کام چور ہے نسرین، ذرا سا کام نہیں ہوتا۔ یہ جالا دیکھنے میں کتنا بڑا تھا جی، مگر جھاڑو ایک دفعہ ماری اور اتر گیا۔ اتنی سی بات تھی۔
نور بانو جھاڑو ہوا میں اوپر نیچے مارتی جلدی جلدی وضاحتیں دے رہی تھیں۔ حیا نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ درست کہہ رہی تھی۔ وہاں سے کافی دنوں سے کوئی نہیں گزرا تھا۔ وہ بھی ادھر آتی تو جھولے پہ بیٹھ کر تھوڑی دیر بعد اندر چلی جاتی۔ اسی لیے تو جالا بنا تھا۔ اسی لیےتو جالے بنتے ہیں۔ اس کے دل میں بھی بن گئے تھے۔ اب اسے ان کو صاف کرنا تھا۔ کیسے؟ لمحے بھر بعد ہی اس کے دل نے اسے جواب دے دیا تھا۔
اسے اب صبح کا انتظار تھا۔
•••••••••••••••••••••
special thanks to IqRa Saqi
regard: Iffa Noor
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ویسی ہی خوب صورت اور پر سکون تھی جیسی وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ لہلہاتا سبزہ، کشادہ سڑکیں اور کیمپس کے سرخ اینٹوں والے بلاکس۔ کیمپس میں رش بہت کم تھا۔ وہ بنا کچھ دیکھے، سیدھی ڈاکٹر ابراہیم حسن کے آفس آئی تھی۔ خوش قسمتی سے اسے ان کا نمبر مل گیا تھا اور چونکہ وہ ان کی ایک اچھی اسٹوڈنٹ تھی، اس لیے انہوں نے ملاقات کا وقت طے کر لیا تھا۔ السلام علیکم سر! اجازت ملنے پہ ان کے آفس میں داخل ہوتے ہوۓ وہ بولی۔ وہ معمر مگر پر وقار سے استاد تھے۔ مسکراتے ہوۓ اس کے لیے اٹھے اور ”وعلیکم السلام“ کہتے ہوۓ سامنے کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
بہت شکریہ آپ نے ٹائم دیا۔ میں کچھ پریشان تھی، سوچا آپ سے ڈسکس کر لوں، شاید کوئی حل نکل آۓ۔ کرسی کھینچتے ہوئے اس نے وہی بات دہرائی جو فون پہ کہی تھی۔ اپنے سیاہ عبایا اور نفاست سے لیے گئے نقاب میں وہ بہت تھکی تھکی لگ رہی تھی۔
شیور۔ آپ بتایئے اور چاۓ لیں گی یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
نہیں نہیں سر! پلیز، کچھ بھی نہیں۔ بس میں بولنا چاہتی ہوں۔ مجھے ایک سامع چاہیے۔
انہوں نے سمجھ کر سر ہلا دیا۔ وہ منتظر تھے۔ حیا ایک گہری سانس لے کر ٹیک لگا کر بیھٹی کہنیاں کرسی کی ہتھی پہ رکھے، ہتھیلیاں ملاۓ، وہ پلاٹینیم کی انگوٹھی انگلی میں گھماتے ہوۓ کہنے لگی۔
میں جانتی ہوں کہ ایک مسلمان کا بہترین ساتھی قرآن ہوتا ہے اور اسے اپنی تمام کنسولیشن (ہدایت) اللہ تعالی سے لینی چاہیے اپنا مسئلہ صرف اللہ کے سامنے رکھنا چاہیے، لیکن اگر یہی کافی ہوتا تو اللہ تعالی سورہ عصر میں یہ نہ فرماتا کہ ”انسان خسارے میں ہے، سواۓ ان کے جو ایمان لاۓ اور اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو حق کی تلقین کی۔ اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔“ سر! یہ جو وتواصو بالصبر ہوتا ہے نا، یہ بندے کو بندے سے ہی چاہیے ہوتا ہے، خصوصا تب جب دل میں مکڑی کے جالے بن جائیں۔
انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ کرسی پہ قدرے آگے ہو کر بیٹھے وہ بہت توجہ سے اسے سن رہے تھے۔
آپ مجھے جانتے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ میں ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ میرے لیے دین کبھی بھی لائف سٹائل کا حصہ نہیں رہا تھا، پھر بھی میں ایک بری لڑکی کبھی بھی نہیں تھی۔ ہر انسان اپنی کہانی خود سناتے ہوۓ خود کو مارجن دے دیا کرتا ہے، شاید میں بھی دے رہی ہوں۔ پھر بھی میں بے شک حجاب نہیں لیتی تھی، مگر لڑکوں سے بات نہیں کرتی تھی۔ میری کسی لڑکے سے خفیہ دوستی نہیں تھی۔ میں دوکان دار سے پیسے پکڑتے ہوۓ بھی احتیاط کرتی تھی کہ ہاتھ نہ چھوۓ۔ میرا نکاح بچپن میں ہوا تھا اور میں اتنی وفادار تھی کہ اگر کبھی کسی لڑکے سے یوں ملی تو اسی نکاح کو بچانے کے لیے۔
وہ کہہ رہی تھی اور ہر ہر لفظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے تکلیف عیاں تھی۔ دل میں چبھے کانٹے اتنی اذیت نہیں دیتے جتنا ان کو نوچ کر نکالنے کا عمل اذیت دیتا ہے۔
پھر میں باہر چلی گئی۔ وہاں بھی دین میرے لیے بس اتنا ہی تھا کہ میلاد اٹینڈ کر لیا اور ٹاپ قپی میں متبرکات دیکھ کر سر ڈھانپ لیا، بس ثواب مل گیا، پھر جو چاہے کرو، مگر پھر میں نے محسوس کیا کہ میری عزت نہیں ہے۔ میں نے خود کو بے عزت اور رسوا ہوتے دیکھا۔ میری نیت کبھی بھی غلط نہیں ہوتی تھی، پھر بھی میں رسوا ہو جاتی تھی۔ تب میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کیوں ہوتا ہے۔ پھر اللہ نے مجھے دو طرح کے عذاب چکھاۓ۔ روحانی اور جسمانی۔ پہلے میں نے موت دیکھی، اور موت کے بعد جہنم۔ درد سے اس نے آنکھیں میچ لیں۔ بھڑکتا الاؤ، دہکتے انگارے۔ سب کچھ سامنے ہی تھا۔
میری جلد پر آج بھی وہ زخم تازہ ہیں جو اس بھیانک حادثے نے مجھے دیے اور تب مجھے سمجھ میں آ گیا کہ اللہ کی رضا صرف تمنا اور خواہش سے نہیں ملتی۔ اس کے لیے دل مارنا پڑتا ہے۔ محنت کرنی پڑتی ہے اور میں نے دل مارا۔ تا کہ میری آنکھ میں اور دل میں اور وجود میں نور داخل ہو جاۓ اور میں نے وہ سب کرنا چاہا جو اللہ تعالی چاہتا تھا کہ میں کروں مگر تب مجھے کسی نے کہا تھا کہ قرآن کی پہیلیاں زیادہ دلچسپ ہوتی ہیں اور یہ کہ ”احزاب“ میں آیت حجاب اترنا بھی ایک پہیلی ہے۔ اس نے اس پہیلی کو یوں حل کیا کہ حجاب لینا خندق کی جنگ کو دعوت دینے کے مترارف ہے۔ جہاں کسی عہد میں بندھے بنوقریظہ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، جہاں جاڑے کی سختی اور بھوک کی تنگی ہوتی ہے اور پھر میں نے خود کو اسی خندق میں پایا۔ اب جب کہ میں اس دوسرے لائف اسٹائل کو نہیں چھوڑنا چاہتی تو لوگ مجھے اس پہ مجبور کر رہے ہیں۔ میرے سگے تایا جو اپنی بیٹی کو ساری عمر اسکارف کرواتے آئیں ہیں، وہی اس کے خلاف ہو گئے ہیں۔ میں کیسے اس دل کی ویرانی پہ قابو پاؤں جو میرے اندر اتر آئی ہے؟ میں کیسے ان جالوں کو صاف کرو؟
بہت بے بسی اور شکستگی سے کہتے اس نے اپنا سوال ان کے سامنے رکھا۔ دل جیسے ایک غبار سے صاف ہوا تھا۔ ایک بوجھ سا کندھوں سے اترا تھا۔
میں جہاں تک آپ کی بات سمجھ سکا ہوں۔ بہت دھیمے مگر مضبوط لہجے میں انہوں نے کہنا شروع کیا۔ تو آپ کے دل میں مکڑی کے جالے اسی لیے بن رہے ہیں کہ آپ لوگوں کے ان رویوں کو دائمی سمجھ رہی ہیں۔ دیکھیں! قرآن کیا کہتا ہے؟ ایک سوره ہے جس کا نام عنکبوت یعنی ”مکڑی“ ہے، اس میں یہی لکھا ہے نا کہ جو شخص اللہ تعالی کے سوا دوسروں کو اپنا کارساز بناتا ہے، اس کی مثال مکڑی کی سی ہے جو اپنا گھر بنتی ہے اور بےشک گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہی ہوتا ہے تو بیٹا یہ جو ”کارساز“ بنانا ہوتا ہے نا، یہ صرف کسی انسان کو خدا کے برابر سمجھنا نہیں ہوتا بلکہ کسی کو زور آور تسلیم کرنا اور اس کے رویے کو خود پہ طاری کر لینا بھی ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے حجاب کے لیے بہت فائٹ کی، یہی تو عورت کا جہاد ہوتا ہے، اس کی الٹی میٹ اسٹرگل۔ مگر آہستہ آہستہ فطری طور پہ آپ نے یہ سمجھ لیا کہ لوگوں کا رویہ ہمیشہ یہی رہے گا۔
آپ کو لگتا ہے وہ بدلیں گے؟ نہیں۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔ میرے تایا کبھی اپنی شکست تسلیم نہیں کریں گے، آپ ان کو نہیں جانتے۔
آپ کے تایا کا مسئلہ پتا ہے کیا ہے حیا؟ بہت سے لوگوں کی طرح انہوں نے بھی انی بیٹی کو اسکارف اللہ کی رضا کے لیے کروایا ہو گا، انہوں نے حجاب کے لیے اسٹینڈ لیا ہو گا، جیسے آج آپ لے رہی ہو اور حجاب کے لیے ہر اسٹینڈ لینے والے کو آزمایا جاتا ہے۔ آپ کو طنز و طعنے کے نشتروں سے آزمایا گیا کیونکہ یہی آپ کی کمزوری ہے کہ آپ کسی کی ٹیڑھی بات زیادہ برداشت نہیں کر سکتیں اور آپ کے ”تایا کو تعریف، ستائش اور واہ واہ“ سے آزمایا گیا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی بہت اچھی تربیت کی ہے۔ یہ بات ان سے لوگوں نے کہی ہو گی اور یوں ان کا کام جو اللہ کی رضا کے لیے شروع ہوا تھا، اس میں تکبر اور خودپسندی شامل ہو گئی۔
وہ بالکل یک ٹک ان کو دیکھے جا رہی تھی۔ اس نے تو کبھی س نہج پہ سوچا بھی نہیں تھا۔
اب اس خود پسندی میں وہ اتنے راسخ ہو گئے کہ اپنی ہر بات ان کو درست لگتی ہے۔ یہاں ہر شخص نے اپنا دین بنا رکھا ہے، اصولوں کا ایک سیٹ اسٹینڈرڈ جس سے آگے پیچھے ہونے کو وہ تیار نہیں۔ آپ کے تایا کا بھی اپنا دین ہے، جو اس تک عمل کرے مثلا صرف اسکارف لے، اس کو وہ سراہیں گے مگر جو اس سے آگے بڑھے، شرعی حجاب شروع کرے، مثلا ان کے بیٹے یا داماد سے پردہ کرنے لگے، اس نے ان کے دین سے آگے نکلنے کی کوشش کی، نتیجتا وہ ان کے عتاب کا شکار ہوا۔
اس نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا۔ وہ جو اسے لگتا تھا کہ تایا اس کی مخالفت میں دین کے دشمن ہو گئے ہیں تو وہ غلط تھی۔ وہ یہ سب دین اور صحیح کام سمجھ کر ہی تو کر رہے تھے۔
مگر اب اس سب کا انجام کیا ہو گا؟ یہ سب کدھر ختم ہو گا؟ انا اور اپنی نیکی پہ تکبر کی یہ جنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بنے گا اس کا؟
اس کی بات پہ وہ دھیرے سے مسکرائے۔
حیا! ابھی آپ نے احزاب کی پہیلی کی بات کی۔ اسے آپ نےحجاب سے تشبیہ دی۔
میں نے نہیں، میری دوست نے۔ اس نے فورا تصحیح کی۔
دوست۔ آپ کی دوست نے یہ سب کہا؟ خندق، بنوقریظہ، بھوک اور جاڑا۔ سب کی حجاب سے تشبیہ دی جا سکتی ہے، مگر پھر بھی آپ ایک آخری چیز مس کر گئی ہیں۔
کیا؟ وہ چونکی۔ کیا عائشے کچھ مس کر گئی تھی؟ آپ نے احزاب کی پہیلی ابھی مکمل حل نہیں کی۔ آپ بس ایک چیز نہیں دیکھ رہیں، وہ جو اس پہیلی کی اصل ہے، اس کی بنیاد ہے، ایک چیز جو آپ بھول گئی ہیں۔
کیا سر؟ وہ آگے ہو کر بیٹھی۔
اگر وہ میں آپ کو بتاؤں یا سمجھاؤں تو آپ کو اتنا فائدہ نہیں ہو گا جتنا آپ کو خود سوچنے سے ہو گا۔ قرآن کی پہیلیاں خود حل کرنی پڑتی ہیں۔ خود سوچیں، خود ڈھونڈیں، آپ کو اپنے مسئلےکا سیدھا سیدھا حل نظر آ جائے گا۔
اس نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا۔ اب اسے پہیلیاں بوجھنا اچھا لگتا تھا۔
ٹھیک ہے، میں خود سوچوں گی۔ مگر سر! لوگ مجھے دقیانوسی کہتے ہیں تو میرا دل دکھتا ہے، میں اپنے دل کا کیا کروں؟ وہ ایک ایک کر کے دل میں چبھے سارے کانٹے باہر نکال رہی تھی۔ اذیت ہی اذیت تھی۔
دقیانوسی کیا ہوتا ہے حیا؟
اس نے جواب دینے کے لیے لب کھولے، وہ کہنا چاہتی تھی کہ پرانا، بیک ورڈ، پینڈو، مگر رک گئی۔ اہل علم کے سوالات کا جواب کسی اور طریقے سے دینا چاہیے۔
آپ بتائیں سر! کیا ہوتا ہے؟
ڈاکٹر حسن ذرا سا مسکرائے۔ ”اصحاب کہف“ کا قصہ تو سنا ہو گا آپ نے؟ جس بادشاہ کے ظلم و جبر سے، اور اللہ تعالی کی فرماں برداری سے روکے جانے پہ انہوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر غار میں پناہ لی تھی، اس بادشاہ کا نام دقیانوس تھا۔
دقیانوس King Decius کا طریقہ اللہ تعالی کی فرماں برداری سے روکنا تھا۔ سو اللہ تعالی کی اطاعت کی کوئی بھی چیز دقیانوسی کیسے ہو سکتی ہے؟ وہ لمحے بھر کو بالکل چپ رہ گئی۔
میں تو یہ سمجھ جاؤں، مگر ان کو کیسے سمجھاؤں؟ میں نے اپنی ماں سے ایک گھنٹہ بحث کی مگر وہ نہیں سمجھیں۔
آپ کی عمر کتنی ہو گی؟
تئیس سال کی ہونے والی ہوں۔ اس نے بنا حیران ہوئے تحمل سے بتایا۔
آپ کو بارہ، تیرہ سال کی عمر سے اسکارف لے لینا چاہیے تھا، مگر آپ نے بائیس، ئتیس سال کی عمر میں لیا۔ جو بات دس سال، ایک دوست کی موت اور ایک بھیانک حادثے کے بعد آپ کی سمجھ میں آئی، آپ دوسروں سے کیسے توقع کرتی ہیں کہ وہ ایک گھنٹے کی بحث سے سے سمجھ لیں گے؟ وہ بہت نرمی سے اس سے پوچھ رہے تھے۔
تو کیا ان کو بھی میرا موقف سمجھنے میں دس سال لگیں گے؟
اس سے زیادہ بھی لگ سکتا ہے اور کم بھی، مگر آپ انہیں ان کا وقت تو دیں۔ کچھ چیزیں وقت لیتی ہیں حیا!
مگر انسان کتنا صبر کرے سر! کب تک صبر کرے؟ وہ اضطراب اور ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی۔
جب زخم پہ تازہ تازہ دوا کا قطرہ گرتا ہے تو ایسی ہی جلن اور تکلیف ہوتی ہے۔ میرے بچے! صبر کی ایک شرط ہوتی ہے، یہ صرف اسی مصیبت پہ کیا جاتا ہے جس سے نکلنےکا راستہ موجود نہ ہو۔ جہاں آپ اپنے دین کے لیے لڑ سکتی ہوں، وہاں لڑیں وہاں خاموش نہ رہیں۔ آپ سے آیت حجاب میں اللہ تعالی نے کیا وعدہ کیا ہے؟ یہی کہ آپ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکائیں تا کہ پہچان لی جائیں۔ یہ جو ”پہچان لی جائیں“ ہے نا، عربی میں ”عرف“ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ”تا کہ آپ عزت سے جانی جائیں“ بھی ہوتا ہے۔ آپ اپنا وعدہ نبھا رہی ہیں تو اللہ تعالی سے کیا توقع کرتی ہیں؟ وہ آپ کو عزت دینے اور اذیت سے بچانے کا وعدہ نہیں نبھائے گا کیا؟
مرہم لگنے کے باوجود زخم درد کر رہے تھے۔ اس کے گلے میں آنسوؤں کا گولا سا بنتا گیا۔
مگر کب سر؟ کیا میں تبدیلی دیکھوں گی؟ اس کی آواز میں نمی تھی۔
مزدور کو اجرت مزدوری شروع کرتے ہی نہیں ملتی حیا! بلکہ جب مطلوبہ کا لے لیا جاتا ہے تب ملتی ہے، شام ڈھلے، مگر کام ختم ہوتے ہی مل جاتی ہے، اس کے پسینے کے خشک ہونے کا انتظار کیے بغیر۔ ابھی آپ نے کہا تھا کہ اللہ تعالی کی رضا صرف تمنا اور خواہش سے نہیں مل جاتی۔ اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔ اللہ تعالی کے راستے میں تھکنا پڑتا ہے، پھر ہی اجرت ملتی ہے۔ فون کی گھنٹی بجی تو وہ رکے اور ریسیور اٹھایا۔ چند ثانیے کو عربی میں بات کرتے رہے، پھر ریسیور رکھ کر اٹھے۔
میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں، تب تک آپ بیٹھیں۔ سوری! میں آپ کو زیادہ کچھ آفر نہیں کر سکتا، سوائے اس کے۔ انہوں نے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا شیشے کا جار اس کے سامنے میز پہ رکھا جو گلابی ریپرز والی کینڈیز سے بھرا تھا۔
اٹس اوکےسر! وہ خفیف سی ہو گئی۔
دو ہفتے قبل ہم ترکی گئے تھے، یونیورسٹی آف استنبول میں ایک کانفرنس تھی، اس سلسلے میں۔ یہ میں کپادوکیہ سے لایا تھا۔ آپ کو ترکی پسند ہے، سو یہ بھی اچھی لگے گی۔ میں ابھی آتا ہوں۔ وہ مسکرا کر بتاتے چند کتابیں اٹھائے، جن میں سرفہرست ہولی بائبل تھی، باہر نکل گئے۔
اس نے بھیگی آنکھیں رگڑیں اور پھر مسکرا کر جار کھولا۔ اندر ہاتھ ڈال کر دو کینڈیز نکالیں۔ گلابی ریپر اتار کر کینڈی منہ میں رکھی، پھر ریپر کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اس پہ کوئی عجیب و غریب سا غار بنا تھا۔ جو بھی تھا، اس نے دوسری کینڈی اور ریپر پرس میں ڈال دیے۔ ترکی سے متعلقہ ہر چیز سے بہت پیاری تھی۔
کینڈی کو اپنے منہ میں محسوس کرتے، اس نے گردن موڑ کر بند دروازے کو دیکھا جہاں سے ابھی ابھی سر باہر گئے تھے۔
کچھ لوگ صرف دین کی وجہ سے آپ کے کتنے قریب آ جاتے ہیں نا۔
••••••••••••••••••••••
صبح آفس جانے سے قبل وہ ڈائننگ ٹیبل پہ جلدی جلدی ناشتا کر رہی تھی۔ کل سے اس کا دل اتنا پرسکون تھا کہ کوئی حد نہیں۔ کبھی کبھی انسان کا اپنا بوبھ بانٹ لینا چاہیے، مگر صحیح بندے کے ساتھ اور صحیح وقت پہ۔
نوربانو! فاطمہ قریب ہی کچن میں کھڑی نوربانو کو ہدایات دے رہی تھیں۔
عابدہ بھابھی اور سحرش دوپہر کے کھانے پہ یہاں ہوں گی، تم لنچ کی تیاری ابھی سے شروع کر دو۔ یوں کرنا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جوس کا گلاس لبوں سے لگاتے ہوئے وہ ٹھہر گئی۔
یہ عابدہ چچی اور سحرش کے چکر ان کے گھر بڑھ نہیں گئے تھے؟ پرسوں ہی تو وہ آئیں تھیں اور پھپھو کے لیے ایک بہت قیمتی جوڑا بھی لائی تھیں۔ آج پھر آ رہی تھیں۔ کیوں بھلا؟
اماں! کرسی سے اٹھ کر ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اس نے فاطمہ کو آتے دیکھا تو پکار لیا۔
چچی کیوں آ رہی ہیں، ابا سے ملنے؟
نہیں، تمہاری پھپھو کے ساتھ شاپنگ پہ جانا چاہتی ہیں۔ سحرش کے کالج میں کوئی فنکشن ہے۔ اسے آئرش طرز کی دلہن بننا ہے۔ وہ اس کے لیے کوئی خاص ڈریس بنوانا چاہتی ہے۔ سبین کو تجربہ ہے نا کپڑوں وغیرہ کا، اس لیے۔
اچھا۔ وہ اچنبھے سے عبایا پہننے لگی۔
پہلے تو سحرش کسی سے مشورے نہیں لیتی تھی، اب کیوں؟ اور پھپھو ہی کیوں؟ یا پھر وہ جہان سکندر بنتی جا رہی تھی۔ ہر ایک پہ شک کرنا۔ اف! وہ نقاب کی پٹی سر کے پیچھے باندھ کر باہر نکل آئی۔
خیر جو بھی ہے۔ اسے آتے دیکھ کر ڈرائیور نے فورا پچھلی نشست کا دروازہ کھولا۔ وہ اندر بیٹھنے لگی تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیا! ارم کی آواز نے اسے چونکایا۔ وہ بیٹھتے بیٹھتے رکی اور حیرت سے پلٹی۔ ارم سامنے ہی کھڑی تھی۔ سر پہ ڈوپٹا لیے، آنکھوں تلے حلقے، چہرے پہ سنجیدگی۔
ارم؟ اسے حیرت ہوئی۔ ارم چلتی ہوئی اس کے سامنے آئی۔
بات کرنی تھی تم سے۔ پھر اس نے ڈرائیور کو دیکھا۔
تم باہر جاؤ۔ وہ جیسے اسی جگہ پہ بات کرنا چاہتی تھی۔ ڈرائیور فورا تابع داری سے وہاں سے ہٹ گیا۔
بتاؤ، کیا بات ہے؟ اس نے نرمی سے پوچھا۔ ارم چند لمحے اسے سنجیدگی سے دیکھتی رہی، پھر دھیرے سے بولی۔
اس روز میں نے جو سنا، وہ وہاں جا کر بتا دیا، صرف اس لیے کہ مجھے تم پہ غصہ تھا۔ کیونکہ تم نے بھی میرا پردہ نہیں رکھا تھا۔
ارم! اگر تم نہ بھی بتاتیں اور مجھ سے کوئی پوچھتا کہ وہ کیوں گیا ہے تو میں خود ہی بتا دیتی۔ جہاں تک بات ہے میری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تایا نے رات کے تین بجے فون کر کے پوچھا تھا کہ میرے پاس کوئی دوسرا نمبر ہے یا نہیں، اگر تم نے مجھ پہ بھروسا کیا ہوتا تو میں بھی تم پہ بھروسا کرتی کہ تم مجھے پھنساؤ گی نہیں۔ وہ گاڑی کے کھلے دروازے کے ساتھ ہی کھڑی، بہت سکون سے کہہ رہی تھی۔ ارم چند لمحے لب کاٹتی رہی، پھر نفی میں سر ہلایا۔
مگر میں نے اس دن زیادتی کر دی تمہارے ساتھ۔ آئی ایم سوری فار ڈیٹ۔ مجھے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ حیا نے بغور اسے دیکھا۔ وہ نادم تھی یا اس کے پیچھے کوئی اور مقصد تھا۔ البتہ اس کا دل پسیجنے لگا تھا۔
کوئی بات نہیں۔ کیا فرق پڑتا ہے؟
فرق تو پڑا ہے نا، اسی وقت سے عابدہ چچی، پھپھو کے پیچھے پڑی ہیں کہ۔۔
اسی وقت سے عابدہ چچی، پھپھو کے پیچھے پڑی ہیں کہ تمہارا پتا صاف ہو اور وہ جہان کے لیے سحرش کی بات چلا سکیں۔
کیا؟ وہ چونکی۔ اس کی آنکھوں میں حیرت ابھری۔
ہاں! اسی لیے تو روز ہی پھپھو کے پاس آئی بیٹھی ہوتی ہیں۔ کیا تم نہیں جانتیں؟ اب کے ارم کو حیرت ہوئی۔ حیا نے بمشکل شانے اچکائے۔
جو بھی ہے، مجھے ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔ اس نے بظاہر لاپروائی سے کہا، البتہ اس کا دل اتھل پتھل ہو رہا تھا۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر! ارم نے گہری سانس لی۔ لمحے بھر کو خاموش رہی پھر بولی
کیا مجھے تمہارا فن مل سکتا ہے، مجھے ایک کال کرنی ہے بس! اس کا لہجہ ملتجی نہیں ہوا، بلکہ ہموار رہا۔ بس مجھے اس قصے کو ختم کرنا ہے، بس اسے خدا حافظ کہنا ہے۔
تو یہ بات تھی۔ حیا نے گہری سانس اندر کو کھینچی۔ ارم نے جسے بھی فون کرنا تھا وہ اسے لینڈ لائن یا کسی بھی طرح ماں، بھابھی کسی کا بھی فون لے کر سکتی تھی، مگر غالبا وہ پہلے پکڑی گئی ہو گی یا پھر سختی بڑھ گئی تھی، تب ہی وہ خطرہ مول نہیں لیتی تھی۔
ٹھیک ہے! مگر بہتر ہے کہ تم میرا فون استعمال مت کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الہی بخش! اس نے دور کھڑے ڈرائیور کو آوز دی۔ وہ فورا ہاتھ باندھے ان کے پاس آیا۔
کیا میں تمہارا فون لے سکتی ہوں ایک منٹ کے لیے؟
جی، جی! اس نے فورا اپنا موبائل پیش کیا اور دور چلا گیا۔
لو۔ حیا نے موبائل ارم کی طرف بڑھایا۔ ارم نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے فون تھاما اور تیزی سے نمبر ملانے لگی۔
وہ گاڑی میں بیٹھی اور دروازہ بند کیا۔ باہر ارم جلدی جلدی فون پہ دھیمی آواز میں کچھ کہ رہی تھی۔ اسے کچھ بھی سنائی نہیں دیا۔ نہ اس نے سننے کی کوشش کی۔ ایک منٹ بعد ہی ارم نے فون بند کر دیا۔ حیا نے بٹ دبایا، شیشہ نیچے ہوا۔
تھینکس حیا! ممنونیت سے کہتے ہوئے اس نے فون حیا کو تھمایا۔ میں چلتی ہوں۔ وہ تیزی سے واپس مڑ گئی۔ جب وہ درمیانی دروازہ پار کر گئی تو حیا نے موبائل کے کال ریکارڈز چیک کیے۔ اس نے ڈائلڈ کالز میں سے کال مٹا دی تھی مگر یہ نوکیا کا وہ ماڈل تھا جس میں ایک کال لاگ الگ سے موجود تھا۔ حیا نے اسے کھولا۔ وہاں نمبر محفوظ تھا۔ اس نے وہ نمبر اپنے موبائل میں اتارا اور محفوظ کر لیا۔
الہی بخش! اب وہ دور کھڑے الہی بخش کو واپس آنے کے لیے کہہ رہی تھی۔
کبھی اگر ارم نے اسے پھنسانے کی کوشش کی، تو اس کے پاس ثبوت بھی تھا اور موقع کا گواہ بھی۔ الہی بخش کو آتے دیکھ کر اس نے سوچا تھا۔
ذیشان صاحب کے آفس لے چلو! جہاں اس دن گئے تھے۔ فون آگے ہو کر اسے تھماتے ہوئے اس نے الہی بخش کو ہدایت دی۔
اور ارم بی بی نے تمہارا فن استعمال کیا ہے، یہ بات کسی اور کو پتا نہیں لگنی چاہیے۔
جی میم! اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اسٹیرنگ سنبھال لیا۔
•••••••••••••••••••••••••
ذیشان انکل آفس میں نہیں تھے۔ ان کی سیکرٹری پھر بھی اسے آفس میں لےگئی کیونکہ رجا اندر تھی۔
آپ بیٹھ جائیے۔ سر ابھی آتے ہوں گے۔ جاتے ہوئے ان کی سیکرٹری نے اوپر سے نیچے تک عجیب سی نظر اس پہ ڈالی تھی۔
وہ بنا اثر لیے کاؤچ پہ بیٹھ گئی۔ اس کے عبایا کو بہت سی جگہوں پہ اسی طرح دیکھا جاتا تھا مگر جب دوسرے غلط ہو کر اتنے پر اعتماد تھے تو وہ درست ہو کر پر اعتماد کیوں نہ ہو؟ اور وہ بھی کتنی پاگل تھی جو ٹالی اور اس کی باتوں کو دل سے لگا لیتی تھی۔ ٹالی بے چاری نے چند ایک بار فقرے اچھالنے کے سوا کہا ہی کیا تھا۔ وہ تو اہل مکہ تھی، ان سے کیا گلہ؟ اصل اذیت دینے والے تو بنوقریظہ ہوتے ہیں۔ مگر یہ جنگ وہی جیتتا ہے جو ہار نہیں مانتا، اور پھر انسان کو کوئی چیز نہیں ہرا سکتی جب تک کہ وہ خود ہار نہ مان لے۔
اس لمحے ڈی جے اسے بہت یاد آئی تھی۔ دھیان بٹانے کے لیے اس نے سر جھٹکا تو خیال آیا، رجا اس لمبے سے کاؤچ کے دوسرے سرے پہ بیٹھی تھی۔ چہرہ اخبار پہ اتنا جھکائے کہ گھنگھریالے بال صفحے کو چھو رہے تھے، وہ قلم سے اخبار پہ نشان لگا رہی تھی۔ اسے ورڈ پزل اچھے لگتے تھے۔ حیا کو بھی اب اچھے لگتے تھے، مگر وہ آخری پزل ابھی تک حل نہیںبہو سکا تھا۔ رجا تو اس کی مدد نہیںبکر سکتی تھی مگر شاید وہ رجا کی کچھ مدد کر سکے۔
رجا! کیا کر رہی ہو؟ وہ نرمی سے کہتی اٹھ کر اس کے قریب آ بیٹھی۔ رجا نے آہستہ سے سر اٹھایا۔ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھا اور پھر اخبار اس کے سامنے کیا۔ اس کی حرکات بہت آہستہ تھیں۔ اسے بچی پہ بہت ترس آیا۔ مگر پھر سوچا، وہ کیوں ترس کھا رہی ہے؟ جب وہ ایب نارمل لڑکی اپنی تمام ہمت مجتمع کر کے محنت کر رہی ہے تو وہ اس کے بارے میں ہمدردی اور تاسف سے کیوں سوچے؟ اسے ستائش سے سوچنا چاہیئے۔
دکھاؤ! کیا ہے یہ؟ اس نے وہ پرانا، مڑا تڑا ہوا اخبار رجا کے ہاتھ سے لیا۔ ایک ہی پزل پہ وہ کافی دن سے لگی ہوئی تھی شاید، اسی لیے وہ جگہ کافی خستہ حال لگ رہی تھی۔ ذیشان انکل یقینا اپنی محبت میں سمجھتے تھے کہ رجا یہ پزل حل کر لے گی ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شاید ذہنی طور پہ کافی پیچھے تھی۔
تم سے یہ حل نہیں ہو رہا؟ اس نے پیار سے پوچھا۔ رجا نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔ ایک ثانیے کو اسے بے اختیار بہارے گل یاد آئی۔
اچھا! یہ دیکھو۔ یہ جو پہلا لفظ ہے نا، یہ ایک اینا گرام ہے، اینا گرام یوں ہوتا ہے جیسے کسی لفظ کے حروف آگے پیچھے کر دو تو نیا لفظ بن جائے، جیسے Silent کے حروف ادل بدل کر دو تو Listen بن جاتا ہے۔ کہتے ہیں اینا گرام میں بہت حکمت اور دانائی چھپی ہوئی ہے۔ اب یہ پہلا لفظ دیکھو! وہ اخبار سے پڑھ کر بتانے لگی۔
یہ لکھا ہے Try Hero Part۔ یہ کسی مووی کا نام ہے،
تمہیں بتانا ہے کہ اس کے حروف ادل بدل کرو تو کس مووی کا نام بنتا ہے۔ ٹھیک؟
رجا نے کچھ نہیں کہا۔ وہ بنا تاثر کے خالی خالی نظروں سے حیا کو دیکھتی رہی۔
حیا نے چند ثانیے غور سے دیکھا اور پھر اس کی سمجھ میں آ گیا کہ ٹرائی ہیرو پارٹ کے حروف کی جگہیں آگے پیچھے کرنے سے کیا بنتا ہے۔
۔Harry Potter دیکھو! اس سے ہیری پوٹر بنتا ہے۔ اب یہاں لکھو ہیری پوٹر۔ اس نے اخبار رجا کو تھمایا۔
رجا نے دھیرے سے اثبات میں گردن ہلائی اور بہت آہستگی سے ایک ایک حرف خالی جگہ پہ اتارنے لگی۔
اب یہ اگلا مجموعہ دیکھو۔ Old Vest Action اس سے کسی مشہور ایکٹر کا نام بنتا ہے جو پرانی انگریزی ایکشن فلموں میں کام کیا کرتا تھا۔ کیا ہو سکتا ہے؟ وہ ان تین الفاظ کو دیکھتے ہوئے سوچ میں پڑ گئی۔ ذیشان انکل کے پاس وہ کس کام سے آئی تھی، اسے سب بھول چکا تھا۔
اوہ ہاں! Clint Eastwood۔ وہ ایک دم چونکی۔ بہت ہی دلچسپ پزل تھا۔
ویسے میں تمہیں چیٹنگ کروا رہی ہوں، یہ غلط بات ہے، چلو! اب باقی تم خود سولو کرو۔ بس تمہیں ان الفاظ کے حروف کی جگہوں کو ادل بدل کرنا ہے، جیسے میں نے کیا تھا، پھر تم نئے الفاظ بنا سکو گی، ٹھیک؟ بات ختم کرنے سے قبل ہی اس کا ذہن اپنے اس آخری پزل کی طرف بھٹک گیا۔
۔Swap؟ ساپ کرنے کا بھی یہ مطلب ہوتا ہے نا، کیا وہ کوئی ہنٹ تھا کہ اسے حروف کی جگہوں کو Swap کرنا ہے اور کوئی نیا لفظ بنانا ہے؟ مگر وہ کل بارہ حروف تھے، اور پاس ورڈ تو آٹھ حرفی ہونا چاہیے تھا، پھر وہ اس سے کیا بنا سکتی تھی؟ ایک دم وہ بے چینی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
ہو سکتا ہے وہ دو الفاظ کوئی اینا گرام ہی ہو۔ اینا گرام کے ذریعے کوڈز لکھنا تو بہت قدیم طریقہ تھا، یہ ہر دور میں استعمال ہوتا رہا تھا۔ فلسفے میں، آرٹ، فکشن، جاسوسی، ہر چیز میں کہیں نہ کہیں اینا گرامز کا ایک کردار ہوتا تھا۔ اسے پہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا بھلا؟
فلیش ڈرائیو اس کے پاس پرس میں ہی تھا، مگر اسے اس کو صرف اپنے لیپ ٹاپ میں لگانا چاہیے اور ابھی ابھی وہ کام اسے کرنا تھا۔ ذیشان انکل سے وہ بعد میں مل لے گی۔ ابھی اسے اپنے آفس پہنچنا تھا جہاں تنہائی میں وہ یہ کام کر سکے۔
باہر سیکرٹری کو بتا کر، رجا کو بائے کہہ کر وہ تیزی سے باہر آئی تھی۔ گاڑی میں ہی اس نے اپنے موبائل سے گوگل آن کیا اور ایک اینا گرام فائینڈر ویب سائٹ کھولی تا کہ وہ دیکھ سکے سائیڈ اسٹور سے کتنے ممکنہ الفاظ بن سکتے ہیں۔
پانچ ہزار چار سو تراسی مجمعوعات؟ نتیجہ دیکھ کر اس نے گہری سانس لی۔ اب ان میں سے کون سا درست ہو سکتا ہے بھلا؟ خیر، وہ ان تمام الفاظ کو دیکھتی ہے، شاید کچھ مل جاۓ۔
پہلا مجموعہ تھا۔ ”pasty powders“
اونہوں! اس نے خفگی سے نفی میں سر ہلایا۔
۔“so try swopped”٫ “trays swopped”
وہ ان عجیب و غریب مجموعات سے نظر گزارتی تیزی سے موبائل اسکرین کو انگلی سے اوپر نیچے کر رہی تھی کہ ایک مجموعہ الفاظ پہ ٹھہر گئی۔ storS swappeS کے حروف کو آگے پیچھے کرنے سے بننے والے یہ دو الفاظ تھے۔
۔Type Password
ٹائپ پاس ورڈ؟ اس نے اچنھبے سے دہرایا۔ یعنی کہ پاس ورڈ ٹائپ کرو۔ کیا مطلب؟ اور پھر روشنی کے کسی کوندے کی طرح وہ اس کے دل و دماغ کو روشن کر گیا۔
پاس ورڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاس ورڈ میں پورے آٹھ حروف ہوتے ہیں۔ ٹائپ پاس ورڈ کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ کوئی خفیہ لفظ ٹائپ کرے، بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لفظ ”پاس ورڈ“ ہی ٹائپ کر دے۔
لفظ ”پاس ورڈ“ جو آج بھی دنیا میں سب سے ذیادہ استعمال ہونے والا پاس ورڈ ہے، لاکھوں ای میل ہولڈرز کا پاس ورڈ آج بھی یہی لفظ”پاس ورڈ“ ہے۔ دنیا کا سب سے کامن، سب سے آسان پاس ورڈ۔ اس نے موبائل بند کیا اور پرس میں ڈالا۔
تیز چلاؤ الہی بخش! وہ بے چینی سے بولی۔ اپنے آفس پہنچے کی اتنی جلدی اسے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔
میں آفس جا رہی ہوں مگر پلیز! میں کسی سے نہیں ملنا چاہتی، سو مجھے کوئی ڈسٹرب نہیں کرے گا۔ ٹھیک؟ ابا کی سیکرٹری کو حکمیہ لہجے میں کہتے ہوئے وہ آگے بڑھ گئی۔
آفس مقفل کرنے اور نقاب اتارنے کہ بعد اس نے لیپ ٹاپ کھول کر میز پہ رکھا اور پرس سے مخملی ڈبی نکالی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اندر سیاہ فلیش ڈرائیو ویسے ہی رکھی تھی۔ اس نے اسے باہر نکالا اور ڈھکن کھول کر ساکٹ میں ڈالا۔
چند لمحوں بعد اسکرین پہ آٹھ چوکھٹے اس کے سامنے چمک رہے تھے۔ کی بورڈ پر انگلیاں رکھ کر اس نے لمحے بھر کو آنکھیں بند کر کے گہری سانس اندر کھینچی اور پھر آنکھیں کھولی۔ اگر وہ غلط ہوئی تو وہ اس فائل کو کھو دے گی، مگر اسے یقین تھا کہ ”پاس ورڈ“ ہی وہ لفظ تھا جو اسے اس فائل میں داخل کر دے گا۔ ٹھنڈی پڑتی انگلیوں سے اس نے ٹائپ کیا۔
پی اے ایس ایس ڈبلیو او آر ڈی۔
اور انٹر پہ انگلی رکھ دی۔ چند لمحے خاموشی چھائی رہی، پھر ہرا سگنل چمکا، access granted (ایکسیس گرانٹڈ) پاس ورڈ درست تھا۔
یا اللہ! وہ خوش ہو، یا حیران، اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا، مگر دل کی دھڑکن مزید تیز ہو گئی تھی۔ اسکرین پہ اب وہ فائل کھل رہی تھی۔ اس کے لیے جو پروگرام کمپیوٹر نے کھولا وہ ونڈوز میڈیا پلئیر تھا۔
میڈیا پلئیر؟ اس نے اچھنبے سے اسکرین کو دیکھا۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ فائل کوئی وڈیو یا آڈیو تھی۔ اس کا پہلا خیال اپنی اور ارم کی وڈیو کی طرف گیا تھا، داور بھائی کی مہندی کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اسے زیادہ کچھ سوچنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ کوئی وڈیو تھی اور شروع ہو چکی تھی۔
اس کے پہلے منظر پہ نظر پڑتے ہی حیا سلیمان کا سانس رک گیا۔ اسے لگا وہ کبھی ہل نہیں سکے گی۔ اللہ، اللہ، یہ کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ سفید پڑتا چہرہ لیے اسکرین کو دیکھ رہی تھی۔
•••••••••••••••••••••
جو کام نپٹا کر اسے بہارے گل سے نپٹنا تھا، وہ کام ابھی نہیں ہوئے تھے، مگر وہ جانتا تھا کہ آج دوپہر سے اچھا موقع اسے حلیمہ عثمان کے گھر جانے کا نہیں ملے گا، اس لیے وہ ادھر آ گیا تھا۔
حلیمہ آنٹی نے دروزہ کھولا تو وہ سامنے ہی کھڑا تھا۔ سوٹ میں ملبوس وہی گلاسز جیل سے پیچھے کیے بال اور عبدالرحمن کے ماتھے کے مخصوص بل۔
عبدالرحمن؟ آ جاؤ۔ وہ خوشگوار حیرت سے کہتے ہوئے ایک طرف ہوئیں۔
سفیر کدھر ہے حلیمہ؟ بے تاثر اور سپاٹ انداز میں پوچھتے ہوئے اس نے قدم اندر رکھا۔ یہ تو طے تھا کہ وہ لوگوں کو کبھی ریلیشن شپ ٹائٹل سے نہیں بلایا کرتا تھا۔ صرف ان کے پہلے نام لیا کرتا تھا۔
ہوٹل میں ہو گا، کال کروں اسے؟
نہیں! آپ اسے کال نہیں کریں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بہارے؟ اس نے یک لفظی استفسار کیا۔ جتنا حلیمہ عثمان اسے جانتی تھیں، وہ بھانپ گئیں کہ وہ بہت برے موڈ میں تھا۔
وہ اندر اسٹڈی روم میں بیٹھی ہے۔ بہت اداس ہے۔ انہوں نے ملال سے بتایا۔ شاید اس کا دل نرم کرنے کی کوشش کی۔
حرکتیں جو ایسی ہیں اس کی۔ وہ بے حد غصے سے کہتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھر کر اسٹڈی روم کی جانب بڑھ گیا۔
بنا دستک کے دروازہ دھکیلا تو کرسی پہ بیٹھی بہارے گل نے چونک کر سر اٹھایا۔ پورے گھنگھریالے بالوں کی پونی بنائے، لمبے فراک میں ملبوس وہ واقعی غم زدہ لگ رہی تھی، اسے دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
عبدالرحمن!عبدالرحمن وہ کرسی سے اٹھی اور میز کے پیچھے سے گھوم کر سامنے آئی۔ بہارے کا پھول جیسا چہرہ کھل اٹھا تھا۔
بہت اچھا لگتا ہے تمہیں دوسروں اذیت دینا؟ وہ اتنے غصے سے بولا تھا کہ وہ وہیں رک گئی۔ چہرے کی جوت بجھ سی گئی۔
میں تمہارے لیے کیا نہیں کرتا اور تم بدلے میں میرے مسائل بڑھانے پہ تلی ہو۔ تم میری دشمن ہو یا دوست؟ اس کی بڑی بڑی بھوری آنکھوں میں نمی اتر آئی۔
تم مجھ سے ناراض ہو عبدالرحمن؟
نہیں، نہیں! میں تم سے بہت خوش ہوں۔ اتنا پیسہ خرچ کر کے، اتنی مشکل سے میں نے تمہارے لیے پاسپورٹ بنوایا تھا۔ نئی شناخت، نیا گھر، نئی زندگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر تم نے اسے جلا دیا۔ وہ اتنی برہمی سے جھڑک رہا تھا کہ کوئی حد نہیں۔
بہارے خفگی سے سر جھکائے واپس کرسی پہ جا بیٹھی۔
مجھے نیا گھر نہیں چاہیے۔ اگر میں چلی جاتی تو تمہاری مدد کون کرتا؟ میں نے تم سے مدد کا وعدہ کیا تھا نا۔ تمہیں میری ضرورت ہے، میں اس لیے نہیں گئی۔ چند لمحے بعد سر اٹھا کر بہت سمجھداری سے اس نے سمجھایا۔
اچھا! مجھے تمہاری ضرورت ہے؟ وہ استہزائیہ انداز میں کہتا آیا اور کرسی کھینچ کر ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھا۔ اب دونوں کے درمیان میز حائل تھی۔
ہاں! ہے۔ میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔
مجھے ایک بیوقوف بچے کی کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے، سنا تم نے!
مجھے بچہ مت کہو۔ بہارے نے دبے دبے غصے سے اسے دیکھا۔ میں پورھے ساڑھے پانچ سال بعد پندرہ کی ہو جاؤں گی۔
اور پھر؟
اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم تب مجھ سے شادی کرو گے۔ کرو گے نا؟ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ عائشے نہ بھی ہو، تب بھی اسے لگتا کہ وہ کہیں نہ کہیں سے خفگی سے اسے دیکھ رہی ہے۔
بہارے گل! اس نے بے زاری سے سر جھٹکا۔ میں تم سے کبھی شادی نہیں کروں گا، بلکہ جو تم کر رہی ہو، اس سے تم مجھے مروا ضرور دو گی۔
نہیں! ایسے مت کہو۔ میں تمہیں ہرٹ نہیں کر سکتی۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ مگر تم ہمیشہ مجھے ہرٹ کرتے ہو، تم ہمیشہ مجھ سے جھوٹ بولتے ہو۔
اچھا! کون سا جھوٹ بولا ہے میں نے؟ ذرا میں بھی تو سنو۔ اس کے تیور ویسے ہی لگ رہے تھے، مگر پلکیں سکیڑے اب وہ جس طرح اسے دیکھ رہا تھا، بہارے کو محسوس ہوا وہ دلچسپی سے اس کی بات سننے کا منتظر ہے اور اس کا غصہ بھی ذرا کم ہوا ہے۔
بہت سارے جھوٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتن تو ادالار میں بگلے نہیں ہیں، جتنے جھوٹ تم نے مجھ سے بولے ہیں۔ وہ خفا سے انداز میں مگر ڈرتے ڈرتے کہہ رہی تھی۔ مگر اب مجھے سب پتا چل گیا ہے۔ مثلا کیا پتا چل گیا ہے تمہیں میرے بارے میں؟ بہارے کو لگا وہ ذرا سا مسکرایا تھا۔ چیلنج دیتی مسکراہٹ۔ اکساتی ہوئی مسکراہٹ۔
بہت سی باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ تمہارا اصلی نام عبدالرحمن نہیں ہے اور یہ کہ تمہارا نام جہان سکندر ہے اور تم ہی حیا کے کزن ہو۔
جہان ایک دم ہنس پڑا۔ بہارے کو حوصلہ ہوا۔ اسے برا نہیں لگا، وہ اسے ڈانٹے گا نہیں۔ اس کو ذرا تقویت ملی۔
صبر نہیں ہوا عائشے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اسے کہا تھا کہ جاتے وقت بتائے۔ اس نے ابھی بتا دیا۔ وہ جیسے بہت محفوظ ہوا تھا۔
اس نے اپنے جاتے وقت ہی بتایا تھا۔ تم بہت جھوٹ بولتے ہو عبدالرحمن۔ بہارے نے خفگی سے اسے دیکھا تھا۔
اور یہ بات تم نے کتنے لوگوں کو بتائی ہے؟ وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولا۔ اس کے تاثرات اب تک ہموار ہو چکے تھے۔ نہ غصہ تھا، نہ محفوظ سی مسکراہٹ۔
کسی کو نہیں۔ پرامس۔
مجھے امید ہے کہ تم اسے راز رکھو گی۔ کیا تمہیں راز رکھنے آتے ہیں بہار گل؟ میز پہ دونوں ہتھیلیاں رکھ کر اس کی طرف جھک کر وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔ بہارے نے اثبات میں سر ہلایا۔
مجھے راز رکھنے آتے ہیں۔
تمہارا پاسپورٹ کہاں ہے؟
میں نے جلا دیا اور میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ اس کے تھوڑی دیر قبل ہنسنے کا اثر تھا، جو وہ ذرا نروٹھے انداز میں بولی تھی۔
میں تمہارا نیا پاسورٹ جلد بھجوا دوں گا اور تمہیں جانا پڑے گا، کیونکہ میں بھی یہاں سے جا رہا ہوں۔ وہ واپس سیدھا ہوا۔
کدھر ہمارے ساتھ؟ اس کا چہرہ چمک اٹھا۔
نہیں! بلکہ یہاں سے بہت دور اور میں تم سے آخری دفعہ مل رہا ہوں۔ اب ہم کبھی نہیں ملیں گے۔ تم مجھے ایک اچھی یا بری یاد سمجھ کر بھلا دینا۔ مجھے یہاں سے نکلنا ہے اس سے قبل کہ میں گرفتار ہو جاؤں اور اگر میں گرفتار ہوا تو مجھے پھانسی ہو جائے گی۔ اگر تم نہیں چاہتیں کہ میرے ساتھ یہ سب کچھ ہو، تو میری بات مانو۔ جب پاسپورٹ آ جائے تو چلی جانا۔ وہ بے تاثر لہجے میں کہہ کر جانے کے لیے مڑا۔
مگر تم کہاں جا رہے ہو؟ وہ پریشانی سے کہہ اٹھی۔
جہان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
میں جہاں بھی جا رہا ہوں، اس کے بارے میں تمہیں، عائشے، آنے یا پاشا بے کو نہیں بتا سکتا۔ اس لیے یہ سوال مت کرو۔
کیا تم نے کسی کو نہیں بتایا کہ تم کہاں جا رہے ہو؟ وہ آنسو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے بمشکل بول پائی تھی۔
میں نے آنے سے کچھ دن پہلے حیا کو بتایا تھا، اسے معلوم ہے میں کدھر جا رہا ہوں۔ اسے راز رکھنے آتے ہیں۔ وہ کہہ کر دروازہ کھولتا باہر نکل گیا۔
بہارے گل بھاگ کر باہر آئی۔ بھیگی آنکھوں سے اس نے اپنے عبدالرحمن کو بیرونی دروازہ پار کرتے دیکھا۔ یہ خیال کہ وہ اسے آخری دفعہ دیکھ رہی ہے، بہت اذیت ناک تھا۔ آنسو ٹپ ٹپ اس کے چہرے پہ لڑھکنے لگے۔
آج پہلی دفعہ اسے یقین آیا تھا کہ وہ آخری دفعہ عبدالرحمن کو دیکھ رہی ہے۔
مگر بہت جلد وہ غلط ثابت ہونے والی تھی
اسکرین کی روشنی اس کے سفید پڑتے چہرے کو بھٹکا رہی تھی۔ وہ سانس روکے، یک ٹک اس منظر کو دیکھ رہی تھی جو اس کے سامنے چل رہا تھا۔
وہ ایک کمرے کا منظر تھا۔ نفاست سے بنا بیڈ، کھڑکی کے آگے گرے پردے۔ کیمرا کسی اونچی جگہ پہ رکھا تھا، کیونکہ اسے سامنے رائٹنگ ٹیبل کی خالی کرسی نظر آرہی تھی۔ کیمرہ یقینا کمپیوٹر مانیٹر کر اوپر رکھا گیا تھا۔ مانیٹر نظر نہیں آ رہا تھا، مگر وہ جانتی تھی کہ یہاں کمپیوٹر ہی رکھ ہوتا ہے۔ وہ کمرا پہلے کئی بار دیکھ چکی تھی۔ کمرے نے اسے نہیں چونکایا تھا، اس شخص نے چونکایا تھا جو ابھی ابھی کرسی پہ آ کر بیٹھا تھا۔
میں امید کرتا ہوں مادام! آپ وہ پہلی اور آخری شخصیت ہوں گی جو اس فائل کو کھول پائیں گی۔ اس کے ہاتھ میں مونگ پھلی کا پیکٹ تھا، جسے کھولتے ہوئے وہ مخاطب تھا۔ کس سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقینا حیا سے۔
وہ سانس روکے اسے دیکھے گئی۔
میرا نام جہان سکندر احمد ہے۔ بہت پرسکون سے انداز میں گویا اسے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
میجر جہان سکندر احمد! احمد میرے دادا کا نام تھا اور یہی میرا سر نیم ہے۔ میں جانتا ہوں، تم یہ سمجھتی ہو کہ میں یعنی میجر احمد، پنکی تھا۔ ایسا نہیں ہے۔ میں پنکی نہیں تھا۔ بات کرنے کے ساتھ ساتھ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد مونگ پھلی نکال کر منہ میں رکھتا تھا۔
وہ بت بنی اسے دیکھ رہی تھی۔ بنا پلک جھپکے، دم سادھے۔ چند لمحے ٹھہر کر وہ بولا۔
میں ڈولی تھا۔ یاد ہے تمہیں؟ گیم جیتنے کے بعد کنگ میکر کی مخصوص مسکراہٹ۔ وہ اسے نہیں جانتی تھی، نہیں پہچانتی تھی۔
ایک چوتھے نام سے بھی تم مجھے جانتی ہو۔ عبدالرحمن پاشا۔ ہوٹل گرینڈ کا مالک، ایک برا آدمی۔ ہ گویا سانس لینے کے لیے رکا، پھر نفی میں سر ہلایا۔
میں برا آدمی نہیں ہوں، نہ کبھی تھا۔ میں چاہتا تھا کہ تم مجھے خود تلاش کرو۔ مجھے خود ڈھونڈو، مجھے ڈسکور کرو۔ بہت بار میں نے تمہیں بتانے کی کوشش کی، مگر تم نہیں سمجھ سکیں۔ سو میں نے چاہاکہ میں تمہیں خود بتا دوں۔
وہ اب ٹیک لگا کر کرسی پہ بیٹھا جیسے یاد کر کے، سوچ سوچ کر بول رہا تھا۔ اس کی نگاہیں دور کسی غیر مرئی نقطے پہ جمی تھیں۔
وہ بالکل سانس روکے، دم سادھے اسے دیکھ رہی تھی۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا سرپرائز تھا۔
میں نے تمہیں سب کچھ ڈائریکٹلی اس لیے نہیں بتایا، کیونکہ میں کبھی اتنی آسانی سے، اتنے صاف لفظوں میں کسی کو کچھ نہیں کہا کرتا۔ میرے ہیشے کا یہی تقاضا ہے اور میں نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ انفارمین کو ان کوڈ اور ڈی کوڈ کرنے میں صرف کیا ہے۔ اس لیے میں نے ایک پزل ترتیب دیا۔ ایک ٹریژر ہنٹ۔
اور تم اسے حل کر لو گی۔ یہ میں جانتا ہوں۔ کب کرو گی، تب میں کہاں ہوں گا۔ زندہ بھی ہوں گا یا نہیں، باہر ہوں گا یا پھر سے جیل میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نہیں جانتا۔ بس اتنا جانتا ہوں کہ تم اسے حل کر لو گی۔
جولائی کی گرمی میں ہی اس کے ہاتھ، پیر برف بن رہے تھے۔ وہ پلکیں بالکل بھی نہیں جھپک پا رہی تھی۔ وہ بس اسکرین کو دیکھ رہی تھی، ایسے جیسے اس نے کبھی اسے نہ دیکھا ہو۔ وہ وقاعی پہلی دفعہ اس شخص سے مل رہی تھی۔
جب تک انسان کسی دوسرے کی جگہ پہ کھڑا نہیں ہوتا، وہ جان نہیں پاتا کہ اصل کہانی کیا ہے۔ ایک ہی روایت میں اگر راوی اور مروی کی جگہیں بدل دو تو سارا قصہ ہی بدل کر رہ جاتا۔ پچھلے چند ماہ میں تمہاری زندگی کی کہانی کا حصہ رہا ہوں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ تم میری طرف کی کہانی سنو۔ بات کے اختتام پہ وہ مسکرایا تھا۔
اسے کہتے ہیں اپنی کہانیوں کو Swep کرنا، رائٹ؟
یو ایڈیٹ! بے اختیار اس کے لبوں سے نکلا تھا۔ وہ ابھی تک پلکیں نہیں جھپک پا رہی تھی۔
•••••••••••••••••••••••••••
وہ ماہ دسمبر کے اسلام آباد کی خوبصورت، ٹھنڈی سی سہ پہر تھی۔ بادل ہر سو چھائے تھے۔ سبز درخت، سیاہ بادل، سرمئی سڑک، ایک پرسکون ٹھنڈا سا امتزاج۔
وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، سر جھکائے سڑک کے کنارے چل رہا تھا۔ جس ہوٹل میں اسے جانا تھا وہ وہاں سے چند گز کے فاصلے پہ تھا۔ وہ عادتا ٹیکسی سے مطلوبہ مقام سے ذرا دور اترا تھا۔ اب اسے پیدل چل کر ہوٹل تک جانا تھا۔
وہ وہی کر رہا تھا، مگر سر کے پچھلے حصے میں اٹھتا درد شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ وہ میگرین نہیں تھا، مگر شدت ویسی ہی تھی۔ وہ ظاہر نہیں کرتا تھا، لیکن تکلیف کبھی کبھی نا قابل برداشت ہو جاتی تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ ابھی اس کی ذہنی اذیت کا بڑا سبب ممی کی باتیں بنی ہوئی تھیں، جو صبح سے اس کے دماغ میں گھوم رہی تھیں۔ جب ممی غصے سے اسے ”جہان سکندر“ کہہ کر مخاطب کرتیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اب اگر وہ بات نہیں مانے گا تو وہ ہرٹ ہوں گی۔ ایسے مواقع کم ہی آتے تھے، مگر جب آتے تو اسے دکھی کر جاتے۔ تب اس کے پاس بات ماننے کے علاوہ کوئی چارا نہ ہوتا تھا۔ آج بھی نہیں تھا۔ آج تو ممی نے کال کے اختتام پر طعنہ بھی دے دیا تھا۔
جہان سکندر! تم مجھ سے زیادہ اپنے باس کی مانتے ہو، مجھے اب یہی لگا ہے۔
ہوٹل کا بیرونی گیٹ سامنے تھا۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اندر داخل ہوا۔ اسے کسی نے نہیں روکا، البتہ آج معمول سے زیادہ سیکیورٹی نظر آ رہی تھی۔ انٹرنس کینوپی کی طرف جاتے ہوۓ وہ محتاط نظروں سے اطراف کا جائزہ لے رہا تھا۔ یقینا ہوٹل میں کوئی خاص تقریب ہونی تھی، جس کی وجہ سے سیکیورٹی عام دنوں سے کہیں زیادہ تعینات کی گئی تھی۔
ابھی وہ انٹرنس سے زرا دور تھا۔ جب اس کا موبائل بجا۔ وہ رکا اور سیاہ جیکٹ کی جیب سے موبائل نکالا۔ اس کا سلور اسمارٹ فون جو کچھ عرصہ قبل اسے دیا گیا تھا، جس میں لگے بے حد بیش قیمت سرویلینس (نگرانی کرنے والے آلات) اس کی قیمت کو اسی ماڈل کے کسی بھی فون سے کئی گنا زیادہ بنا چکے تھے اور وہ جانتا تھا کہ موجودہ کام ختم ہوتے ہی اسے یہ سب واپس کرنا ہو گا، سیکرٹ فنڈ کی ایک ایک پائی کا حساب اور جسٹی فیکیشن انہیں ہی دینی پڑنی تھی۔
مسز پارٹنر! اسکرین پہ یہ نام جل بجھ رہا تھا۔ وہ عادتا کبھی بھی لوگوں کے نمبرز اصل ناموں سے محفوظ نہیں کرتا تھا۔ حماد پارٹنر کے نام سے اور اس کی منگیتر ثانیہ جو ان کے ساتھ ہی کام کرتی تھی، مسز پارٹنر کے نام سے اس کے فون میں موجود تھی۔ ہیلو! اس نے کان سے فون لگایا۔ پہلے کسی کو بولنے کا موقع دینا بھی اس کی عادت بن چکی تھی۔ بہت سی عادات جو ان بارہ سالوں نے اسے دی تھیں۔
تم کہاں ہو؟ میں لابی میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں؟
بس آ رہا ہوں۔ اس نے موبائل بند کر کے جیکٹ کی جیب میں رکھا اور داخلی دروازے کی طرف آیا۔ گارڈ نے کافی رکھائی سے اس سے شناخت طلب کی۔ آج واقعی حد سے زیادہ سختی تھی۔ ایسے مواقع پہ جو کم ہی آتے تھے۔ وہ اپنی اصل شناخت ہی دکھایا کرتا تھا۔
اس نے اندرونی جیب سے والٹ نکالا، اسے کھولا اور اندر والٹ کے ایک خانے میں پلاسٹک کور میں مقید کارڈ کچھ اس طرح سے سامنے کیا کہ اس کا انگوٹھا اس کے نام کو چھپا گیا، مگر تصویر، ایجنسی کا سہ حرفی مخفف اور وه مشھور زمانه پھول بوٹوں سے مزید چار چوکھٹوں کا نشان واضح تھا-
گارڈ کی تنی ابرو سیدھی ہوئیں، ایڑھیاں خود بخود مل گئیں اور "سر" کہتے ھوۓ اس نے ذرا پیچھے ہٹ کر راسته دیا-
وه سپاٹ چہرے کے ساتھ والٹ واپس رکھتا اندر کی جانب بڑھ گیا-
کبھی کبھی جب وه پاکستان میں ہوتا تو اسے یہ عیش بہت اچھے لگتے-
لابی میں داخل ہوتے ہی اس نے بنا گردن گھماۓ بس نگاھوں سے چھت، فانوس اور دیواروں کے کونوں میں لگے سیکیورٹی کیمروں کا جائزه لیا- کتنے کیمرے تھے، ان کا رخ کیا تھا۔ ڈیوٹی پہ کتنے گارڈز موجود تھے، اگر آگ لگ جاۓ یا کوئی ایمر جنسی ھو تو فائر ایگزٹ کس طرف تھی اور اس جیسی بہت سی باریکیوں کو جانچ کر وه لابی میں موجود صوفوں کی جانب بڑھ گیا۔ جدھر ثانیہ ایک صوفے پہ بیٹھی تھی-
اس نے سیاه سفید دھاریوں والی شلوار قمیض پہ سیاه سوئٹر پہن رکھا تھا، گلے میں ڈوپٹا، گہرے بھورے بالوں کی اونچی پونی اور اپنے مخصوص انداز میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی ثانیہ اسے اپنی جانب متوجہہ پاکر شناسائی سے مسکرائی تھی- وه اس کی ایک بہت اچھی دوست تھی، ان سے جونیئر تھی مگر حماد کی فیملی سے گہرے تعلقات کے باعث وه ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے-
وه بھی جوابا ہلکے سے مسکرا کر اس کی طرف آیا۔ وه دو صوفے آمنے سامنے لگے تھے۔ درمیان میں ایک چھوٹی میز تھی۔ جس پہ ثانیہ کا سیاه پاؤچ رکھا تھا۔ ایک قدرے بڑا پرس بھی ساتھ ہی پڑا تھا۔ وه قریب آیا تو ثانیہ اٹھ کھڑا ہوئی۔
السلام علیکم! کیسے ہو اور کب سے ہو ادھر؟
وعلیکم السلام۔ فائن تھینکس۔ زیادہ دن نہیں ہوئے۔ کام سے آیا تھا۔م قابل صوفے پر بیٹھتے ہوئے اس نے بتایا۔ وہ کتنے دنوں سے اسلام آباد میں تھا، تعداد اس نے نہیں بتائی۔ دوسرے آپ کے بارے میں جتنا کم جانیں، اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔
وہ تو مجھے اندازہ تھا۔ تمہارا کام! اس نے بیٹھتے ہوئے ابرو سے سیاہ پاؤچ کی طرف اشارہ کیا۔ جہان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
جتنا کر سکی، کر دیا۔ تمھاری معلومات ٹھیک تھیں۔ وہ سفارت خانے کی کار استعمال نہیں کرتی۔
اب اس کے سامنے بیٹھی وہ اسے دھیمی آواز میں امریکی سفارت خانے کی سیکنڈ سیکریٹری کے متعلق بتا رہی تھی، جو ویزا سیکشن کی ہیڈ تھی اور بھارتی نژاد امریکی شہری تھی۔ اسے سفارت خانے کی سیکنڈ سیکریٹری کے متعلق چند معلومات درکار تھیں، اور وہ بھی بہت جلد۔ اس لئے اس نے صبح ثانیہ کو فون کیا تھا۔ ثاتیہ تمام ضروری چیزیں لے آئی تھی اور اب زبانی بریفنگ دے رہی تھی۔
یو نو واٹ! وہ امریکی سفارت خانے کی ان گاڑیوں میں سے کوئی استعمال نہیں کرتی حو ہر وقت اسلام آباد میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ ویسے ان گاڑیوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو ہے۔
ایک سو چالیس! اس نے مسکراہٹ کے ساتھ تصحیح کی۔ ثانیہ سر ہلا کر رہ گئی۔ وہ ہمیشہ اس سے زیادہ باخبر رہتا تھا۔
بہرحال، وہ ان میں سے کسی گاڑی پر سفر نہیں کرتی کیونکہ اس کو ایک جگہ کہتے سنا گیا تھا کہ ان ڈیڑھ سو..... ایک سو چالیس گاڑیوں میں سے کسی ایک کا دروازہ بھی کھلے تو ایمبیسی کو خبر ہو جاتی ہے، اس لئے اسے ایمبیسی کی گاڑیوں سے چڑ ہے اور یہ بھی کہ ان کی اتنی سیکیورٹی ڈی سی میں نہیں ہوتی جتنی اسلام آباد میں ہوتی ہے۔
اس کے باوجود امریکی سفارت کار خود کہہ کہہ کر اپنی پوسٹنگ اسلام آباد کرواتے ہیں۔ کراچی سے بھاگتے ہیں مگر اسلا آباد تو ان کے لئے جنت ہے۔
چند منٹ وہ دونوں سفارتخانے کی باتیں کرتے رہے۔ نام لئے بغیر، بے ضرر سی باتیں، پھر لمحے بھر کو جب دونوں خاموش ہو گئے تو ثانیہ نے موضوع بدلا۔
کوئی اور کام بھی ہے اسلام آباد میں؟ اس نے سرسری سا پوچھا مگر وہ جانتا تھا وہ کس طرف اشارہ کر رہی ہے۔
ہاں! دو دن بعد میرے کزن کی مہندی ہے اور ممی چاہتی ہیں کہ میں وہ اٹینڈ کروں۔
اور تم کیا چاہتے ہو؟ وہ پتلیاں سکیڑے بغور اسے دیکھ رہی تھی۔ وہی تیکھا انداز جو ان کے ہم پیشہ افراد میں کثرت سے پایا جاتا تھا۔
مجھے معلوم نہیں۔ بس میں ان لوگوں سے نہیں ملنا چاہتا۔
ملو گے نہیں تو بات آگے کیسے بڑھے گی؟ تمہارا نکاح ہو چکا ہے تمھارے ماموں کے گھر۔ اس طرح اس بے چاری لڑکی کی زندگی تو مت لٹکاؤ یا نبھاؤ یا چھوڑ دو۔ بات کے اختتام پر اس نے ذرا سے کندھے اچکائے۔
جہان نے زخمی نگاہوں سے اسے دیکھا۔ ثانیہ کے لئے یہ تبصرہ کرنا کتنا آسان تھا۔
چھوڑ ہی تو نہیں سکتا۔ ممی بہت ہرٹ ہوں گی۔ ایک ہی تو صورت ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ پھر سے ایک ہو جائیں۔ یہ راستہ میں کیسے بند کر دوں؟
تو پھر نبھاؤ۔ کتنے عرصے سے تم اس بات کو لٹکا رہے ہو۔ جا کر مل لو نا اپنے ماموؤں سے۔
میں ان کے گھر جاؤں، ان سے ملوں، ان کے ساتھ تعلقات پھر سے استوار کروں، ۔میرا دل نہیں چاھتا یہ سب کرنے کو۔ اس نے بے بسی سے سر حھٹک کر کہا تھا۔ اپنے ملک میں اپنے دوستوں کے ساتھ، بس یہی وہ مقام تھا، جہاں وہ اپنے دل کی بات کہہ دیا کرتا تھا۔
دیکھو جہان! انسان اپنا کیا بہت جلد بھول جاتا ہے، وہ بھی بھول چکے ہوں گے۔ تم جاؤ اور ان کو ایک مثبت اشارہ دو۔ اس سے وہ یہ جان لیں گے کہ تم اور تمھاری ممی ان کے ساتھ رشتہ رکھنا چاہتے ہو۔ وہ تمہیں بہت اچھا ویلکم دیں گے۔ وہ کرسی پہ ذرا آگے ہو کر بیٹھی، گویا سمجھا رہی تھی مگر وہ سمجھنا نہیں چاہتا تھا۔
میں رشتہ نہیں نبھا پاؤں گا، میں کیوں ان کو دھوکا دوں؟ کیوں ان کی بیٹی کے ساتھ زیادتی کروں؟ دیکھو! میں جھوٹ بول کر شادی نہیں کروں گا اور سچ جاننے کہ بعد وہ اپنی بیٹی سے میری شادی نہیں کریں گے۔ بات پھر وہیں آجائے گی کہ ممی ہرٹ ہوں گی۔ وہ شدید قسم کے مخمصے میں تھا یا شاید وہ مسئله حل ہی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
ضروری نہیں ہے کہ چیزیں ویسی ہی ہوں جیسے تم سوچ رہے ہو۔ تم انہیں بتانا کہ تم کیا جاب کرتے ہو۔ اس کی کیا پیچیدگیاں ہیں۔ کیا مجبوریاں ہیں اور یہ کہ تم یہ جاب نہیں چھوڑ سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ انڈر اسٹینڈ کریں گے۔ جہان نے نفی میں سر ہلایا۔ لابی میں پس منظر میں دھیما سا بجتا میوزک جیسے ایک دم سے بہت تلخ ہو گیا تھا۔
تم میرے ماموؤں کو نہیں جانتی۔ وه ذرا ذرا سی بات پہ ایشو بنانے والے لوگ ہیں۔ وه اس بات کو ایشو بنا لیں گے کہ ہم نے پہلے انہیں بے خبر کیوں رکھا۔ اتنے سال میں کبھی ان سے ملنے نہیں آیا، وغیره وغیره۔ اپنے تمام رویے، سب تلخ باتیں، سب بھلا کر وه پھر سے ممی پہ چڑھ دوڑیں گے اور نتیجتأ ممى ہرٹ ہوں گی۔ میں ان کو مزید دکھی ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ اب میں کیا کروں میری سمجھ میں نہیں آرہا۔ ثانیه چند لمحے خاموشی سے ٱسے دیکھتی رہی پھر آہستگی سے بولی۔
جہان اگر ہر چیز بالکل ویسے ہو جیسے تم کہہ رہے ہو اور وه واقعی تمہاری ممی کو پھر سے ہرٹ کریں، تب بھی وه اتنی مضبوط تو ہیں که بہادری سے مقابله کر سکیں اور یہ بات تم اچھی طرح سے جانتے ہو۔ تم صرف اپنے رویوں کی صفائیاں دے رہے ہو۔ اصل وجه یہ نہیں ہے۔
تم بتاؤ کیا ہے اصل وجه؟ اس نے سنجیدگی سے دیکھتے ہوۓ ثانیه سے پوچھا۔ وه جانتا تھا که وه ٹھیک کہہ رہی ہے پھر بھی وه اس کے منه سے سننا چاہتا تھا۔
اصل وجه یہ نہیں ہے جو تم بتا رہے ہو کیونکه میں تمہیں جانتی ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ تم جب انہیں بتاؤ گے کہ تم صرف ایک آرمی آفیسر نہیں بلکه ایک جاسوس بھی ہو۔ اور وه اس پہ ردعمل ظاھر کریں، تب بھی تم آدھے گھنٹے میں انہیں مطمئن اور قائل کر لو گے۔
"نہیں، میں انہیں قائل نہیں کر سکتا۔ وه جانتے بوجھتے کبھی بھی اپنی بیٹی کی شادی کسی ایسے جاسوس سے نہیں کریں گے جس کی زندگی کا کوئی بھروسه نہیں ہو۔ جو ان کی بیٹی کے ساتھ نه رہے بلکه کسی دوسرے ملک میں کسی دوسرے نام کے ساتھ زندگی گزارے، جو وہاں مر بھی جاۓ تو مہینوں ان کی بیٹی کو پتا نه چلے کہ اس کی قبر کہاں ہے۔
اذیت سے کہتے ہوۓ وه کرسی پہ ذرا پیچھے کو ہوا۔ آنکھوں کے سامنے روح کو زخمی کر دینے والا منظر پھر سے لہرایا تھا۔
انطاکیہ کے قدیم شہر میں اس بڑے سے دالان کے فوارے کے ساتھ کھڑا گھوڑا اور اس کی کمر پہ اوندھے منہ لادا گیا وہ وجود۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سر جھٹکا۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ اصل وجہ نہیں ہے۔ تمہیں پته ہے تمہارا مسئله کیا ہے؟ قدرے خفگی سے کہتی وه باہم ملی مٹھیاں میز پہ ٹکاتے ہوۓ آگے ہوئی۔ تم اپنے ماموؤں سے ڈرتے ہو۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بے زاری سے ہاتھ جھلا کر وه دوسری طرف دیکھنے لگا۔
ایسی ہی بات ہے، تم ابھی تک اپنے احساس کمتری سے چھٹکارا نہیں پا سکے که وه تمہیں تمہارے ابا کا طعنه دیں گے اور تم ان کے سامنے سر نہیں اٹھا سکو گے۔ کم آن جہان! اب اس چیز سے باہر نکل آؤ۔جہان نے جواب نہیں دیا۔ وه ذرا سی گردن موڑے دائیں جانب دیکھتا رہا۔
مجھے حیرت ہوتی ہے کبھی کبھی تم پہ۔ اتنا قابل آفیسر، اتنا شاندار ٹریک ریکارڈ، ایجنسی کے بہترین ایجنٹس میں سے ایک۔ پھر بھی تم اپنے اندر کے احساس کمتری سے نہیں لڑ سکے۔ تم اپنے ابا کے کسی جرم میں شریک نہیں رہے ہو جہان!
جہان اس کی بات نہیں سن رہا تھا، وہ اس کی طرف متوجه نہیں تھا، وه کہیں اور دیکھ رہا تھا۔ ثانیه نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا۔
لابی کے دوسرے کونے میں صوفے پہ دو لڑکیاں بیٹھ رہی تھیں۔ ایک نیلے لباس میں تھی اور دوسری سیاه میں۔ سیاه لباس والی دراز قد لڑکی جس نے سیاه لمبے بال دائیں کندھے کی طرف آگے کو ڈالے ہوۓ تھے، کافی خوبصورت تھی۔ صوفے پہ بیٹھتے ہوۓ اس نے دوسری لڑکی کے ہاتھ سے کینڈی لے کر منه میں رکھی۔ دوسری لڑکی ساتھ ہی کچھ کہے جا رہی تھی۔
جہان! ثانیه نے اسے پکارا۔ وہ ذرا چونک کر اس کی طرف متوجه ہوا۔ کیوں دیکھ رہے ہو ایسے؟ یہ پاکستان ہے۔ وه خجل ہوا، نه شرمنده، بلکه دوباره ان دو لڑکیوں کو دیکھا۔
ثانیہ! یہ بلیک کپڑوں والی میری بیوی ہے۔
اوه اچھا! ثانیه تجربے اور ذہنی پختگی کے اس درجے پہ تھی کہ بنا چونکے اثبات میں سر ہلایا۔
ہوں! اچھی ہے۔ تم نے بلایا ہے اسے؟
نہیں! میں تو خود اسے دیکھ کر حیران ہو رہا ہوں۔ اس نے لاعلمی سے شانے اچکاۓ۔
آر یو شیور یہ وہی ہے۔
ہاں! میں نے اس کی پکچرز دیکھ رکھی ہیں۔ ثانیہ نے اب کے ذرا احتیاط سے گردن پھیر کر اسے دیکھا۔ سیاہ لباس والی کو جیسے مرچیں لگی تھیں۔ کینڈی غالبا مرچوں والی تھی۔ اس کی آنکھوں میں پانی آ گیا تھا اور ناک سرخ پڑ گئی تھی۔ وہ جیسے خفگی سے ساتھ والی کو ڈانٹنے لگی جو ہنس رہی تھی۔
کیا وہ تمہیں پہچان لے لگی۔
معلوم نہیں۔ میں تصویروں کے معاملے میں احتیاط برتتا ہوں، سو شاید نہیں! وہ بہت غور سے دور بیٹھی لڑکی کا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
اتنی نزاکت؟ اسے مایوسی ہوئی تھی۔
یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟ وہ جیسے خود سے بولا۔
پتا کروں؟ ثانیہ کی بات پہ اس نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔ وہ اٹھ گئی۔ اسی وقت سیاہ لباس والی لڑکی کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھتی اٹھی تھی۔ انہیں شاید کہیں پہنچنا تھا۔
یہ کہاں پڑھتی ہے؟ ثانیہ نے جاتے ہوۓ پوچھا۔
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، شریعہ اینڈ لاء، ساتواں سمسٹر! ممی کی دی ہوئی معلومات اس نے جوں کی توں دہرا دی۔ اور اس کا نام حیا سلمان ہے۔
ثانیہ سر ہلا کر آگے بڑھ گئی۔ وہ دونوں لڑکیاں اب لابی پار کر رہی تھیں۔ ثانیہ سیدھی ان کے پاس نہیں گئی، بلکہ پہلے اس نے قریب بنے کیفے کی طرف جاتے راستے پہ تیز تیز چلتے ایک ویٹر کو روکا اور اس سے ٹرے لی جس میں کافی کے چار کپ رکھے تھے۔ وہ یقینا عملے سے واقف تھی، سو ویٹر سر ہلا کر آگے چلا گیا۔ ثانیہ ٹرے اٹھاۓ ان دو لڑکیوں کی طرف بڑھ گئی، جو اب لابی کے آخری سرے تک پہنچ چکی تھیں۔
اس نے کچھ کہہ کر انہیں روکا۔ وہ دونوں پلٹی تھیں۔ اتنی دور سے وہ ان کی گفتگو نہیں سن سکتا تھا مگر ان کے تاثرات بخوبی دیکھ رہا تھا۔ ثانیہ نے ٹرے اسی لیے پکڑ رکھی تھی تا کہ وہ یہ تاثر دے سکے کہ وہ لابی کے قریب ہی کیفے (جس میں سیلف سروس موجود تھی) سے اٹھ کر آئی ہے، (اس کیفے کی انٹرنس پہ اگر آپ موجود ہوں تو لابی وہاں سے صاف نظر آتی ہے)، اور ان سے بات کر کے وہ فورا سیدھی جہان کی طرف آنے کی بجاۓ اندر کیفے میں چلی گئی تاکہ وہ لڑکیاں اس طرف نہ دیکھ پائیں جہاں وہ بیٹھا تھا.
سیاہ لباس والی لڑکی اچنبھے سے نفی میں سر ہلاتی کچھ کہہ رہی تھی۔ ان سے کافی فاصلے پہ بیٹھا وہ انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔ دفتعا اسے احساس ہوا کہ وہ اکیلا نہیں ہے بلکہ دوسرے بہت سے لوگ بھی جو آس پاس سے گزر رہے تھے، گردن موڑ کر ایک دفعہ اس پہ نگاہ ضرور ڈالتے تھے۔ اس نے قدرے بے چینی سے پہلو بدلا۔
اسے کیا برا لگا تھا، وہ فیصلہ نہ کر سکا۔
چیریٹی لنچ ہے کوئی، اسی لیے آئی ہے۔ ثانیہ ان کو بھیجنے کے بعد کیفے چلی گئی تھی اور اب جبکہ وہ لڑکیاں اندر جا چکی تھیں، وہ واپس آئی اور صوفے پہ بیٹھتے ہوۓ بتانے لگی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
غیر معمولی سیکیورٹی کی وجہ اس کی سمجھ میں آ گئی تھی۔
کیا بات ہوئی؟ وہ سرسری سے انداز میں پوچھنے لگا۔
بس وہی پرانا حربہ کہ آپ کو میں نے اصول الدین ڈپارٹمنٹ میں دیکھا تھا اور متوقع طور پہ اس نے مجھے نہیں پہچانا، پھر میں نے پوچھ لیا کہ ادھر کس لیے آئی ہیں وہ، سو اس نے بتا دیا۔ وہ خاموشی سے بیٹھا رہا۔ کچھ اسے بہت برا لگا تھا۔
پھر جاؤ گے آج اس کے گھر؟
ہاں! جاؤں گا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا مگر وہ اچھا نہیں محسوس کر رہا تھا۔ اس عجیب سے اتفاق نے ایک دم بہت کچھ بدل دیا تھا۔ خالی ہاتھ مت جانا۔ کچھ لے کر جانا۔
میں ترکی سے ان کے لیے کچھ نہیں لایا۔ خالی ہاتھ ہی جاؤں گا۔
اچھا! پھر کچھ خرید کر لے جانا، اچھا امپریشن پڑے گا۔ چلو! چل کر کچھ کھاتے ہیں۔ وہ جیسے جان گئی تھی کہ اس کا موڈ اچھا نہیں ہے، سو اٹھتے ہوۓ بولی۔ وہ خاموشی سے اٹھ کھڑا ہوا اور میز پہ رکھا سیاہ پاؤچ اٹھا کر جیکٹ کی جیب میں ڈال لیا۔
تم اپ سیٹ لگ رہے ہو