top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر پچیس

نہیں، بالکل نہیں۔ وہ زبردستی مسکرایا۔ تم سناؤ کب تک تمہارا منگیتر دوبارہ مجھ جتنا ہینڈسم ہو جائے گا؟۔
چند سیشن مزید لگیں گے، برن کافی زیادہ تھا۔ بات کا رخ بدلنے پہ ثانیہ اسے حماد کے بارے میں بتانے لگی۔ کچھ عرصہ قبل ایک حادثے میں اس کا چہرا قدرے مسخ ہو گیا تھا، البتہ سرجری سے وہ بہتر ہو رہا تھا۔ وہ بے توجہی سے سنتا گیا۔ اس کا ذہن وہیں پیچھے تھا۔
پھر جب ثانیہ چلی گئی تو وہ باہر آ گیا۔ اسلام باد کی ٹھنڈی سرمئی سڑک کے کنارے چلتے ہوئے اس کے دل و دماغ میں ثانیہ کی باتیں مسلسل گونج رہی تھیں۔
اس چیز سے باہر نکل آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اپنے ابا کے کسی جرم میں شریک نہیں رہے ہو جہان! اس چیز سے باہر نکل آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اذیت کی ایک شدید لہر اس کے اندر اٹھی۔ آنکھوں کے سامنے ہ زخمی کر دینے والا منظر پھر سے لہرایا۔ ثانیہ غلط تھی۔ ایک جرم میں وہ اپنے باپ کے ساتھ کسی حد تک شریک رہا تھا۔
••••••••••••••••••
بچپن کی یادیں اس کے ذہن میں بہت ٹوٹی پھوٹی، بکھری، مدہم مدہم سی تھیں۔ باسفورس کا نیلا سمندر، سمندری بگلے، جہانگیر میں واقع ان کا گھر اور دادا۔ یہ وہ سب تھے جو بچپن میں اس کے ساتھ تھے۔ دادا ابا کا ساتھ ان میں سب سے زیادہ اثر انگیز تھا۔
وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتی اولاد تھا۔ شادی کے ساتویں برس ملنے والی پہلی اور آخری اولاد۔ احمد شاہ کا اکلوتا پوتا۔
دادا کاروبار کے سلسلے میں ترکی آیا کرتے تھے۔ وہ فوج سے میجر ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ وقت سے قبل ان کی ریٹائرمنٹ کی وجہ ان کی خرابئ صحت تھی۔ فوج سے باعزت طور پہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گئے اور تب ہی وہ ترکی آئے اور پھر آتے جاتے رہے۔ ترکی میں ان کا علاج، جو پاکستان میں ممکن نہ تھا، قدرے سستا ہوتا رہا۔
جب ابا کا تبادلہ ترکی ہوا تو ممی بھی ساتھ آئیں۔ دادا نے تب ہی چند پیسے جوڑ کر جہانگیر (Cihangir) کے علاقے میں زمین خریدی۔ وہ خوش قسمتی کا دور تھا۔ ابا نے بعد میں اس جگہ گھر بنوانا شروع کیا۔ وہ تب ہی پیدا ہوا تھا۔ دادا کی گویا آدھی بیماری ہی دور ہو گئی۔ وہ تب بہت خوش رہا کرتے تھے۔ باقی بچی آدھی بیماری کے بہترین علاج کی سہولتوں کے باعث استنبول نہ چھوڑ سکے۔ اس وقت سلطنت ترکیہ اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی۔ ابھی پاپا کی حکومت آنے میں کافی دہائیاں پڑی تھیں۔ پاپا یعنی(طیب اردگان) مگر ترکی تب بھی بہت خوبصورت تھا۔
ابا واپس چلے گئے تھے مگر ممی، دادا اور وہ ادھر ہی رہے۔ دادا بگڑتی صحت کے باعث کاروبار میں بہت زیادہ فائدہ حاصل نہ کر سکے، سو گھر کے حالات قدرے خراب ہوتے گئے۔ کچھ عرصہ قبل کی خوشحالی روٹھ گئی۔ ابا کی تنخواہ پر گزارا کرنا تو ناممکن سی بات لگتی تھی۔ تب ہی اس نے ممی کو کام تلاش کرتے اور پھر نوکری کرتے دیکھا۔ تب وہ بہت چھوٹا تھا، وہ عمر جس میں محنت اور مشقت کے معنی سمجھ سے بالاتر ہوتے ہیں۔
ممی ایک فیکٹری میں معمولی ملازمت کرنے لگی تھیں۔ پتہ نہیں وہ کیا کام کرتی تھیں مگر ملک کے برے حالات کے باعث وہ نوکری ان کی تعلیمی قابلیت سے کم ہی تھی۔ گھر سے جیسے قسمت ہی روٹھ گئی تھی۔
دادا ابا کو کاروبار میں شدید گھاٹا ہوا اور ناسازی صحت کے باعث ان کا کام کرنا نہ کرنا برابر ہو گیا، مگر وہ کام پھر بھی کرتے تھے۔ وہ محنت کرنے والے، مضبوط ہاتھوں والے اور مشقت کرنے والے آدمی تھے۔ بظاہر رعب دار لگتے، مگر بات کرنے پر اتنے ہی مہربان اور شفیق۔ جہان کو وہ کبھی بیمار نہیں لگتے تھے۔ روز صبح وہ اسے ساتھ لے کر واک پر جایا کرتے تھے۔ وہ تھک جاتا، دادا نہیں تھکتے تھے۔ وہ بہت مضبوط، بہت بہادر انسان تھے۔ وہ اس کے آئیڈیل تھے۔ اس کے ہیرو۔
برا وقت کم نہیں ہوا، بڑھتا گیا تو ایک روز اس نے دادا کو افسردہ دیکھا۔ جہانگیر والا گھر جو انہوں نے بہت چاہ سے بنوایا تھا، انہیں بیچنا پڑا رہا تھا۔
دادا! ہم وہ گھر کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ جب وہ واک کے لیے باہر نکلے، تو ان کا ہاتھ پکڑ کر چلتے ہوئے اس نے گردن اٹھا کر ان کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔ انہوں نے بہت ملال سے اسے دیکھا مگر بولے تو آواز مضبوط تھی۔
یہ گھر بہت بڑا ہے، ہماری ضرورت سے بھی زیادہ۔ اس کو بیچ کر ہم کوئی چھوٹا گھر لے لیں گے۔
کیا ہم نیا گھر خریدیں گے؟
نہیں بیٹا! ہم ابھی اس کے متحمل نہیں ہیں مگر تم یہ بات اپنی ماں سے مت کرنا۔ تم تو جانتے ہو، یہ جان کر وہ غمگین ہو گی۔ کیا تم کو راز رکھنے آتے ہیں میرے بیٹے؟ اس نے فوراً اثبات میں سر ہلایا۔
جی دادا! مجھے راز رکھنے آتے ہیں۔
پھر انہوں نے جہانگیر چھوڑ دیا اور سمندر کنارے ایک درے خستہ حال جگہ پر آ بسے۔ یہاں ان کا گھر چھوٹا اور پہلے سے کمتر تھا۔ کرائے کا گھر۔ تب اس کے قریب پھیلا ساحل سمندر آج کی طرح خوبصورت پختہ فٹ پاتھ سے مزین نہیں ہوتا تھا، بلکہ وہاں پتھروں کا کچا پکا سا ساحل تھا۔ بگلے ہر وقت وہاں پھڑپھڑاتے ہوئے اڑا کرتے۔ دادا کہتے تھے۔
استنبول مسجدوں کا شہر ہے، لیکن جہان کو وہ ہمیشہ بگلوں کا شہر لگتا تھا۔ اپنے گھر کی بالکونی سے وہ ان بگلوں کو اکثر دیکھا کرتا تھا۔ شام میں وہاں بیٹھ کر وہ ان کو یوں شمار کرتا جیسے لوگ تارے شمار کرتے تھے۔ وہ تھک جاتا، مگر بگلے ختم نہ ہوتے۔
وہ اب بھی صبح دادا کے ساتھ باسفورس کنارے واک پہ جایا کرتا تھا۔ وہ اپنی بیماری کے باوجود بہت تیز تیز چلا کرتے، جہان بگلوں کے لیے روٹی کا ٹکڑا پکڑے ان کی رفتا سے ملنے کی کوشش میں لگا رہتا مگر وہ ہمیشہ آگے نکل جاتے، پھر رک جاتے اور تب تک نہ چلتے جب تک وہ ان کے ساتھ نہ آ ملتا۔
آپ رکتے کیوں ہے؟ وہ تنک کر پوچھتا۔ 
میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا مجھ سے آگے نکلے، پیچھے نہ رہے۔ وہ اسے ہمیشہ ”میرا بیٹا“ کہتے تھے۔
بہت بعد میں اسے محسوس ہوا کہ وہ اپنے اصل بیٹے کو بہت پسند نہیں کرتے۔ ابا عرصے بعد آیا کرتے اور جب بھی آتے، دادا کے ساتھ تلخ کلامی ضرور ہو جاتی۔ ممی اب کسی جگہ سے کپڑوں پہ مختلف قسم کے موتیوں کا کام سیکھتی تھیں، ساتھ میں نوکری۔ ابا ان سے بھی لڑ پڑتے مگر اس نے ہمیشہ اپنی ماں کو صبر شکر کر کے، خاموشی سے اپنا کام کرتے دیکھا تھا۔ وہ ابا کو بہت رسان سے جواب دے کر انہیں خاموش کرا دیتیں اور ساتھ ساتھ اپنا کام کرتی رہتیں۔ ممی اور دادا، یہ دونوں افراد کبھی فارغ نہیں بیٹھتے تھے۔ بےکار رہنا، یہ لفظ ان کی لغت میں نہیں تھا۔ 
بہت بچپن سے وہ ان کی طرح بنتا گیا۔ اسے کام کی عادت پڑ گئی اور پھر اسے فارغ بیٹھنے کا مطلب بھول گیا۔ اسے بس اتنا معلوم تھا کہ وہ ورکنگ کلاس لوگ ہیں۔ انہیں ہر وقت کام کرنا چاہیے۔ فارغ صرف ان لوگوں کو بیٹھنا چاہیے، جو امیر ہوں اور جن کے پاس ہر سہولت میسر ہو۔ جیسا کہ اس کے ماموں لوگ۔ 
وہ ان سے تب ہی مل پاتا جب کبھی شاد و نادر وہہ ترکی آتے۔ وہ اسے ہمیشہ ناپسند رہے تھے۔ اس کے دونوں بڑے ماموں رعب دار، دبنگ اور مغرور سے تھے۔ ان کے سامنے بیٹھ کر ہی لگتا تھا کہ وہ بہت شاہانہ قسم کے لوگ ہیں، جبکہ وہ، دادا اور ممی بہت غریب اور معمولی انسان ہیں۔ اس نے ممی کو بڑے ماموں کے سامنے سختی سے نفی میں سر ہلاتے، جیسے انکار کرتے یا منع کرتے ہیں، دیکھا تھا۔ ممی استفسار پہ کچھ نہ بتاتیں، دادا سے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا۔
وہ تمہاری ممی کو پیسے دینا چاہتے ہیں مگر وہ نہیں لیتیں۔
کیوں؟ وہ حیرت سے سوال کرتا۔ 
جب انسان کے یہ دو ہاتھ سلامت ہوں تو اس کی عزت کسی سے کچھ نہ لینے میں ہی ہوتی ہے۔ جو ہاتھ پھیلاتا ہے میرے بیٹے! وہ اپنا سب کچھ کھو دیتا ہے۔
دادا کہتے تھے، انسان کو عزت سے جینا اور وقار سے مرنا چاہیے۔ جیسے دادا تھے، بہت عزت والے اور جیسے ممی تھیں۔ محنت کر کے، مشقت کر کے زندگی بسر کرنے والے لوگ، مگر پتا نہیں کیوں ابا ایسے نہہ تھے۔ 
وہ آٹھ برس کا تھا، جب ابا ایک دن ترکی آئے۔ تب وہ ایک اعلا عہدے پر پہنچ کر کافی کمانے لگ گئے تھے، مگر تب بھی ان کے حالات نہ بدل پائے۔ البتہ اس بار اس نے پہلی بار دادا اور ابا کو لڑتے ہوئے سنا تھا۔ بلند آواز سے، غصے سے بحث کرتے۔ وہ بہت ڈر گیا تھا۔ ممی اس وقت گھر پہ نہیں تھیں۔ ابا لڑ جھگڑ کر سامان پیک کر کے باہر چلے گئے اور دادا اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئے۔
رات وہ ڈرتے ڈرتے، خاموشی سے دادا کے کمرے میں آیا۔ وہ چپ چاپ لیٹے تھے۔ لحاف اوڑھے، چھت کو تکتے۔ ان کا چہرہ پیلا، سفید اور آنکھیں گلابی پڑ رہی تھیںـ
دادا! وہ دھیرے سے ان کے پاس آ بیٹھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ انہیں ہوا کیا ہے۔ اس نے پوچھا کہ ”کیا وہ ٹھیک ہیں، انہوں نے کھانا کھایا ہے، انہیں کچھ چاہیے۔ دادا ابا نم آنکھوں سے اسے دیکھتے نفی میں سر ہلائے گئے۔
تمہیں پتا ہے جہان! اپنے بوڑھے ہاتھوں میں اس کا چھوٹا سا ہاتھ تھام کر وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے کہنے لگے۔ سلطان ٹیپو کو جس نے دھوکا دیا تھا، وہ میر صادق تھا۔ اس نے سلطان سے دغا کیا اور انگریز سے وفا کی۔ انگریز نے انعام کے طور پر اس کی کئی پشتوں کو نوازا۔ انہیں ماہانہ وظیفہ ملا کرتا تھا، مگر پتا ہے جہان! جب میر صادق کی اگلی نسلوں میں سے کوئی نہ کوئی ہر ماہ وظیفہ وصول کرنے عدالت آتا تو چپڑاسی صدا لگایا کرتا۔ 
”میر صادق غدار کے ورثا حاضر ہوں“ 
ایک آنسو ان کی آنکھ سے پھسلا اور تکیے میں جذب ہو گیا۔
میرے بیٹے! میری بات یاد رکھنا، جیسے شہید قبر میں جا کر سینکڑوں سال زندہ رہتا ہے، ایسے ہی غدار کی غداری بھی صدیوں یاد رکھی جاتی ہے۔ دن کے اختتام پر فرق صرف اس چیز سے پڑتا ہے کہ انسان تاریخ میں صحیح طرف تھا یا غلط طرف پہ۔
پھر انہوں نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا۔ اسے آج بھی یاد تھا، دادا کے ہاتھ اس روز کپکپا رہے تھے۔
میرے بیٹے! مجھ سے ایک وعدہ کرو گے؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
یہ تمہارا ملک نہیں ہے، مگر تم اس کیا کھا رہے ہو، کبھی اس کو نقصان مت پہنچانا۔ لیکن جو تمہارا ملک ہے نا، جس نے تمہیں سب کچھ دیا ہے اور تم سے کچھ نہیں لیا، اس کا کبھی کوئی قرض آ پڑے تو اسے اٹھا لینا۔ میں وہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا، جو تم پہ آن پڑا ہے۔ تم اسے اٹھا لینا۔ پھر انہوں نے لحاف میں جیسے جگہ بنائی۔ آؤ میرے پاس لیٹ جاؤ۔
وہ وہیں دادا کے بازو سے لگا، ان کے لحاف میں لیٹ گیا۔ دادا بہت گرم ہو رہے تھے، ان کا بستر بھی گرم تھا۔ اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ وہ سو گیا۔
صبح وہ اٹھا تو دادا فوت ہو چکے تھے۔
اس روز وہ بہت رویا تھا۔ ممی بھی بہت روئی تھیں۔اس نے پہلی بار جانا تھا کہ موت کیا ہوتی ہے۔ موت کی شکل اور ہیئت کیا تھی، وہ کچھ نہیں جانتا تھا، سوائے اس کے کہ موت بہت سرد ہوتی ہے۔ دادا کے جسم کی طرح۔ اس نے بہت بار ان کا ماتھا، ان کی آنکھیں اور ہاتھوں کو چھوا۔ وہ برف ہو رہے تھے۔ سرد اور ساکن۔ 
اسی شام ایک سمندری بگلا ان کی بالکونی میں آ گرا تھا۔ وہ زخمی تھا، جب تک اس نے دیکھا، وہ مر چکا تھا۔ جہان نے اسے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر دیکھا، وہ سرد تھا۔ سرد اور سخت 
یہی موت تھی۔
ابا ان کے ساتھ نہیں تھے، وہ کہاں تھے، اسے معلوم نہیں تھا۔ بس ممی اور وہ دادا کو پاکستان لے آئے۔ وہیں ان کو دفنایا گیا، وہیں وہ ابدی نیند جا سوئے، مگر ابا کا نام و نشان نہ تھا۔
ممی ان دنوں بہت غمم ذدہ رہتی تھیں۔ غم بہت سے تھے، مگر تب وہ ان کی شدت کو نہیں سمجھتا تھا۔ وہ اپنے بڑے ماموں کے گھر تھا، جب ایک روز ممی نے اسے بتایا کہ وہ اس کا نکاح ماموں کی بیٹی سے کر رہی ہیں۔ 
کیوں؟ اس نے اپنا پسندیدہ سوال کیا تھا۔
کیونکہ کچھ ایسا ہوا ہے کہ شاید ہم پھر یہاں نہ آ سکیں۔ میں چاہتی ہوں کہ تعلق کی ڈور بندھی رہے۔ میرے بھائی مجھ سے نہ چھوٹیں۔ ممی نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا مگر اسے یاد نہیں تھا۔ اسے صرف دادا کی باتیں یاد تھیں۔
ماموں کا گھر، ممانیاں اور ان کے بچے، اسے کچھ اچھا نہیں لگتا تھا۔ وہاں رہ کر اسے مزید احساس دلایا جاتا کہ وہ ان سے کم تر ہے۔ وہ بہت حساس ہوتا جا رہا تھا۔ اسے یاد تھا۔
وہ اس روز فرقان ماموں کے کچن میں پانی لینے آیا تھا۔ جب اس نے اپنے سے تھوڑے سے بڑے داور کو غصے سے فریج کا دروازہ بند کرتے دیکھا-
نہیں! مجھے انڈا ہی کھانا ہے۔ صائمہ ممانی اس کو اصرار کر کے منانے کی کوشش کر رہی تھیں، مگر وہ بگڑے بگڑے انداز میں ضد کر رہا تھا-
کیوں انڈے ختم ہو گئے ہیں؟ میرے لیے کیوں نہیں بچے؟ دفعتا اس کی نگاہ دروازے پر کھڑے گہرے بھورے بالوں والے لڑکے پر پڑی تو اس کی آنکھوں میں مزید غصہ در آیا-
یہ لوگ ہمارے گھر کے سارے انڈے کھا جاتے ہیں، یہ کیوں آئیں ہیں ہمارے گھر؟
بس کرو داور! کوفتوں میں ڈال دیے تھے، اسی لیے ختم ہوئے۔ میں منگوا دیتی ہوں ابھی۔ پتا نہیں ممانی نے اسے دیکھا تھا یا نہیں، مگر وہ فورا پلٹ گیا-
اسے اپنے اندر سے ایک ہلکی سی آواز آئی تھی، جو انڈے کو ضرب لگا کر توڑنے کی ہوتی ہے، جو کسی کی عزت نفس مجروع کرنے کی ہوتی ہے۔
اس روز کھانے میں نرگسی کوفتے بنے تھے۔ اسے کوفتوں میں انڈے دکھائی دیے تو اس نے پلیٹ پرے کر دی۔ رات کو بھی اس نے کھانا نہیں کھایا۔ اس کا اب ماموں کے گھر کسی بھی شے کو کھانے کا دل نہیں چاہتا تھا، انڈے تو کبھی بھی نہیں۔
ممی رات کو بہت حیرت سے وجہ پوچھنے لگیں تو اس نے صاف صاف وہ بتا دیا جو صبح ہوا تھا۔ ممی چپ ہو گئیں، پھر انہوں نے اسے توس اور ساتھ کچھ اور لا دیا۔ جتنے دن وہاں رہے، اس نے انڈوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ ممی نے ایک دفعہ بھی اصرار نہیں کیا۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ غم زدہ لگتی تھیں۔
وہ واپس آئے تو چند روز بعد ابا بھی آ گئے۔ وہ اب ان کے ساتھ رہتے تھے مگر گھر کا ماحول بہت تلخ اور خراب ہو گیا تھا۔ ممی اور ابا کی اکثر لڑائی ہو جاتی۔ ابا ہی بولتے رہتے، ممی خاموشی سے کا کیے جاتیں۔ اس نے بھی اپنی ماں کی عادت اپنا لی۔ وہ بھی خاموشی سے ممی کا ہاتھ بٹاتا رہتا۔
پھر جلد ہی انہوں نے استنبول چھوڑ دیا۔ صرف ایک گھر، ایک شہر نہیں، انہوں نے بہت سے گھر اور بہت سے شہر بدلے۔ وہ جیسے کسی سے بھاگ رہے تھے۔ کس سے اور کیوں؟ وہ نہیں جانتا تھا مگر اس نے ابا کو پھر ہمیشہ مضطرب اور پریشان ہی دیکھا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا وہ دس برس کا تھا جب اس نے جان لیا کہ ابا کس سے اور کیوں بھاگتے تھے اور یہ اس نے تب جانا جب اس نے دنیا کا سب سے خوبصورت آدمی دیکھا۔
ان دنوں وہ انطاکیہ میں تھے۔ ابا کے ایک دوست کے فارم ہاؤس کے دو کمرے ان کے پاس تھے۔ ممی ان لوگوں کے باڑے اور کھیت میں کام کرتی تھیں۔ وہ فصل کے دن تھے۔ انطاکیہ میں کٹائی کے موسم کی خوشبو بسی تھی۔ فارم کے چھت پر چڑھ کر دیکھو تو دور شام کی سرحدی باڑ دیکھائی دیتی تھی۔ وہ اکثر وہاں سے شام کی سر زمین کو دیکھا کرتا تھا، مگر اس رات وہ سو رہا تھا۔ جب اس نے وہ آواز سنی۔
وہ ایک دم اٹھ بیٹھا، ممی ادھر نہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو آج رات دیر تک فصل کا کام نپٹانا تھا، وہ جانتا تھا۔ پھر آواز کس کی تھی؟ جیسے کوئی درد سے چلایا تھا۔ آواز ساتھ والے کمرے سے آئی تھی۔ وہ فورا بستر سے اترا۔ وہ ڈرا نہیں، وہ میجر احمد شاہ کا بہادر پوتا تھا۔ اس نے سلیپرز پہنے اور دروازہ کھول کر باہر آیا۔
دوسرا کمرہ جو سامان کے لیے استعمال ہوتا تھا-اس کی بتی جلی ہوئی تھی۔ جہان نے اس کا دروازہ دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ اندر کا منظر بہت بھیانک تھا۔
کمرے میں چیزیں ادھر ادھر بکھری تھیں، جیسے بہت دھینگا مشتی کی گئی ہو۔ ابا ایک کونے میں شل سے کھڑے تھے، ان کے ہاتھ میں ایک چاقو تھا جس کے پھل سے خون کے قطرے ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ وہ خود بھی جیسے شاکڈ سے ہوئے سامنے فرش پر دیکھ رہے تھے جہاں کوئی اوندھے منہ گرا ہوا تھا۔
ابا! اس نے پکارا۔ جیسے کرنٹ کھا کر انہوں نے سر اٹھایا۔ اسے دیکھ کر ان کی انکھوں میں خوف در آیا۔ انہوں نے گبھرا کر چاقو پھینکا۔
یہ.......... یہ میں نے نہیں........... یہ مجھے مارنا چاہتا تھا، میں کیا کرتا؟ بے ربط سی صفائی دیتے وہ آگے آئے اور جلدی سے دروازہ بند کیا۔
جہان پھٹی پھٹی نگاہوں سے اوندھے منہ گرے شخص کو دیکھ رہا تھا، بلکہ نہیں، وہ اس خون کو دیکھ رہا تھا جو اس کے اوندھے گرے جسم کے نیچے سے کہیں سے نکلتا فرش پر بہہ رہا تھا-
جہان! میری بات سنو میرے بیٹے! ابا نے بہت بے چارگی سے اسے کندھوں سے تھام کر سامنے کیا۔ ان کا میرے بیٹے کہنے کا انداز بالکل دادا جیسا نہ تھا۔
یہ آدمی مجھ سے لڑ رہا تھا، میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا سواۓ اس کے کہ میں اس کو روکوں۔ ورنہ یہ مجھے پاکستان لے جاتا۔ میرے بیٹے! تم یہ بات کسی کو نہیں بتاؤ گے، ٹھیک ہے؟ اس نے خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھتے اثبات میں سر ہلایا وہ بہت گھبراۓ ہوۓ لگ رہے تھے۔
تم کسی کو بتاؤ گے تو نہیں؟ اپنی ماں کو بھی نہیں۔
نہیں ابا! مجھے راز رکھنے آتے ہیں۔ اس نے خود کو کہتے سنا۔
چلو! پھر جلدی کرو۔ اس جگہ کو ہمیں صاف کرنا ہے اور اس کی لاش کو کہیں دور لے کر جانا ہے۔ میں گھوڑا لاتا ہوں، تب تک تم تولیہ لے کر یہ جگہ صاف کر دو۔
اس نے فرماں برداری سے سر اثبات میں ہلایا۔ چند روز پہلے باڑے میں ایک گاۓ زخمی ہو کر مر گئی تھی، اس کا خون جو دیوار پہ لگ گیا تھا، اسی نے صاف کیا تھا ممی کے ہمراہ۔ اب بھی وہ کر لے گا۔
میں ابھی آتا ہوں۔ ابا تیزی سے باہر نکل گئے۔ اسے لگا شاید وہ اب کبھی واپس نا آئیں، جیسے دادا نہیں آۓ تھے۔ پہلی دفعہ اسے محسوس ہوا تھا کہ اس کو ابا پہ بھروسہ نہ تھا مگر کام تو اسے کرنا تھا۔ وہ بھاگ کر دو تین تولیے لے آیا اور پنجوں کے بل فرش پہ جھکا خون صاف کرنے لگا۔ 
وہ باڑے کی گاۓ نہیں تھی، وہ کوئی انسان تھا، جیتا جاگتا وجود جو اب لاش بن چکا تھا۔ چند لمحے بعد ہی وہ شدید خوف کے زیرِاثر آنے لگا۔ اس کے ہاتھوں میں لرزش آ گئی۔ مگر کام تو اسے کرنا تھا۔ کچھ دیر بعد کسی خیال کے تحت اس نے خون سے تر تولیہ چہرے کے قریب لے جا کر سونگھا۔ پھر ناک اس اوندھے منہ گرے وجود کے اوپر جھکا کر سانس اندر کو کھینچی۔ 
اس آدمی کے وجود سے خوشبو اٗٹھ رہی تھی۔ ایسی خوشبو جو اس نے کبھی نہیں سونگھی تھی۔ وہ خوشبو دھیرے دھیرے اس کا خوف زائل کر گئی۔ بہت زور لگا کر اس نے اس آدمی کو سیدھا کیا۔ پھر اس کے سینے پہ، جہاں سے خون ابل رہا تھا، تولیہ زور سے دبا کر رکھا۔ اپنے سامنے ایک نعش کو دیکھ کر بھی اسے ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے نہیں کہ وہ احمد شاہ کا بہادر پوتا تھا، بلکہ اس شخص میں ہی کچھ ایسا تھا جو ہر طرف خوشبو بکھیر رہا تھا۔ 
اس نے سیاہ پینٹ، سیاہ سوئیٹر اور سر پر سیاہ اونی ٹوپی لے رکھی تھی۔ اس کا رنگ سرخ و سفید تھا، وہ بہت خوبصورت اور وجیہہ آدمی تھا۔ سیدھا کرنے پر اس کی ٹھوڑی جو سینے سے جا لگی تھی، ذرا اوپر ہو گئی تو گردن پر پسینے کے قطرے نمایاں نظر آ رہے تھے۔ جہان نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، وہ گرم تھا۔ دادا کے جسم کی طرح ٹھنڈا نہیں، سخت نہیں، اکڑا ہوا نہیں۔ وہ بہت نرم اور گرم تھا۔
کیا وہ واقعی مر چکا تھا؟
اسی اثنا میں ابا آ گئے۔ وہ اب پہلے سے زیادہ سنبھلے ہوئے لگ رہے تھے۔ اس کے زخم پہ ایک کپڑا کس کے باندھنے کر بعد ابا اسے گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے۔وہاں ایک گھوڑا کھڑا تھا۔ اسے بمشکل گھوڑے پہ اوندھا لاد کر ابا نے بھاگ تھام لی۔ وہ بھی ساتھ ہی ہو لیا۔ رات کا وقت تھا، ہر سو سناٹا تھا، مہیب تاریکی۔
ابا فارم کی پچھلی طرف آ گئے۔ وہاں بڑے سے کچے صحن کے وسط میں فوارہ بنا تھا۔ ابا دو بڑے بیلچے کہیں سے لے آئے اور زمین کھودنے لگے۔ اس نے بھی بیلچہ تھام لیا۔ وہ ان کی مدد کرنے لگا۔ کافی دیر بعد جب گڑھا کھد گیا تو ابا نے بمشکل اس لاش کو اتار کر گڑھے میں ڈالا۔ 
ابا! کیا یہ مر چکا ہے؟ وہ متذبذب تھا۔ وہ بول اٹھا۔ انہوں نے اسے ذرا حیرت سے دیکھا۔
ہاں! یہ مر چکا ہے، نہ سانس ہے نہ دھڑکن۔
یہ کون تھا ابا؟
مٹی ڈالتے ہوئے لمحے بھر کو وہ رکے، جیسے فیصلہ کر رہے ہوں کہ اسے بتانا چاہیے یا نہیں، مگر پھر بتانے کا فیصلہ کر لیا۔
یہ پاک اسپائی تھا، اور مزید کوئی سوال نہیں۔
جہان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ مزید کوئی سوال کر بھی نہیں رہا تھا۔ اس کی نگاہیں اس سیاہ پوش شخص پر جمی تھیں، جس پر اب ابا مٹی گرا رہے تھے۔ 
بلاشبہ وہ اس دنیا کا خوب صورت ترین آدمی تھا

پاک اسپائی۔ پاکستانی جاسوس۔
واپسی پہ ابا نے کمال مہارت سے تمام نشانات صاف کر دیے۔ تھوڑی سی دیر میں کمرا یوں ہو گیا جیسے وہاں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ چیزیں درست کرتے ہوۓ اب اسے پتہ نہیں کیوں پھر سے ڈر لگنے لگا تھا۔ جب تک وه آدمی قریب تھا، اس کا سارا خوف زائل ہو گیا تھا، مگر جب وه دفن ہو گیا تو وہ خوف پھر سے عود کر آ گیا۔ ابا نے ہر نشان مٹا ڈالا، ممی کو بھی کچھ پتا نہ لگ سکا۔
مگر اسے یاد تھا، دادا کہا کرتے تھے، انسان جس جگہ پہ جو کرتا ہے، اس جگہ اس کا اثر چھوڑ جاتا ہے۔ آثار ہمیشه وہیں رہتے ہیں۔ وه کہتے تھے کہ یہ سورة يسين میں لکھا ہے۔ وه یہ بھی کہتے تھے کہ انسان جو بولتا ہے، اس کے الفاظ ہوا میں ٹھہر جاتے ہیں۔ آثار کبھی نہیں مٹتے۔
اس پاک اسپائی کے آثار بھی اس کے ذہن پہ، اس کمرے کے فرش پر اور فوارے کے سنگِ مرمر پر نقش ہو چکے تھے۔
اگلے تین روز وه بخار میں پھنکتا رہا۔ ایک عجیب سا احساس کہ کوئی اسے پکار رہا ہے۔ فوارے کے ساتھ کچے صحن کی قبر سے کوئی اسے آواز دے رہا ہے۔ وه کہہ رہا ہے کہ اس کا بدلہ ضرور دیا جائے گا، یہ احساس ہر شے پہ حاوی تھا- 
تب پہلی دفعہ اسے نے وہی منظر خواب میں دیکھا۔ حقیقت میں وه اسے دفنا کر آ گئے تھے، مگر خواب میں ہمیشه یوں دکھائی دیتا کہ جب وه دفنا کر پلٹتے ہیں تو وه قبر سے اسے پکارتا ہے۔ خوبصورت سحر انگیز سی آواز۔ مگر الفاظ اسے سمجھ میں نہیں آتے۔ وه بہت مدھم، مبہم سا کچھ کہتا تھا، وه کبھی نہ جان پایا کہ وه کیا کہتا تھا لیکن تب بھی اسے لگتا تھا کہ شاید وه بتا رہا ہے کہ اس کا بدلہ ضرور لیا جاۓ گا۔ 
وه لوگ جلد ہی انطاکیہ چھوڑ کر ادانہ چلے آئے۔ یہاں سے وه کچھ عرصے بعد قونیه منتقل ہو گئے اور جب وه باره برس کا ہوا، تب چار برس کی خانہ بدوشی کے بعد وه استنبول واپس آ گئے۔ ممی نے بتایا کہ اب انہیں حکومت نے اجازت دے دی ہے اور یہ کہ اب وه آرام سے استنبول میں ره سکتے ہیں۔
مگر آرام سے وه تب بھی نہیں رہنے لگے تھے۔ ممی ویسے ہی جاب کرتیں، البتہ ابّا بدلتے جا رہے تھے۔ وه پہلے سے زیاده مضطرب اور چڑچڑے رہنے لگے تھے۔ کبھی کبھی وه غصے میں اتنے بے قابو ہو جاتے کہ اسے لگتا، وه پاگل ہوتے جا رہے ہیں۔ 
تب اسے وه پاک اسپائی بہت یاد آتا۔ پھر ایک رات ممی کے ساتھ لیٹے ہوئے، چھت کو تکتے اس نے انسے پوچھ ہی لیا۔
ممی! یہ پاک اسپائی کون ہوتا ہے؟ 
ممی چند لمحے خاموش رہیں، پھر کہنے لگیں۔
بیٹا! پاکستان کی فوج میں جو خفیہ ایجنسیز ہوتی ہیں، ان میں بہت سے فوجی اور غیر فوجی کام کرتے ہیں۔ ان اہل کاروں میں سے کچھ تربیت یافتہ ایجنٹ ہوتے ہیں، وه اپنے ملک کے رازوں کی حفاظت کے لیے دوسرے ملکوں کے راز چرایا کرتے ہیں۔ 
مگر وه کرتے کیا ہیں؟
وه دوسرے ممالک میں جا کر جاسوسی کرتے ہیں۔ بھیس بدل بدل کر وه ہر جگہ پھرتے ہیں۔ ان کا کوئی ایک نام یا ایک شناخت نہیں ہوتی۔ ان کا کوئی ایک گھر یا ایک فیملی نہیں ہوتی۔ وه کبھی کچھ اور کبھی کچھ بن جاتے ہیں۔ ان کو یہ سب سکھایا جاتا ہے، تا کہ وه جاگیں اور پاکستان کے لوگ سکون سے سو سکیں۔ وه اپنے ملک کی آنکھیں ہوتے ہیں۔
اور پھر ان کو کیا ملتا ہے؟
کچھ بھی نہیں۔ ممی نے گہری سانس لے کر کہا۔ جب کوئی وردی والا سپاہی محاذ پہ لڑتا ہے تو اگر وه زنده ره جاۓ تو غازی کہلاتا ہے۔ جان قربان کرے تو شہید، اعزازت صرف وردی والے کو ملتے ہیں۔ ان کے نام پسے سڑکیں اور چوک منسوب کیے جاتے ہیں، ان پہ فلمیں بنائی جاتیں ہیں مگر جو جاسوس ہوتا ہے نا وه Unsung Hero ہوتا ہے۔ بے نام و نشان، خاموشی سے کسی دوسرے ملک میں زندگی بسر کرتا، وه اکیلا، تنہا ہی کام کیا کرتا ہے اور اگر گرفتار ہو جائے تو عموماً اسے بچانے کے لیے کوئی نہیں آتا۔ 
کیوں؟ وه حیران ہوا۔
بیٹا! یہی اس پیشے کی مجبوری ہوتی ہے۔ گرفتار ہونے کی صورت میں جاسوس کا ملک، حکومت، فوج، ایجنسی کوئی بھی کھلم کھلا اسے اون نہیں کرتی، اگر ان سے پوچھا جائے تو صاف انکار کر دیا جاتا ہے۔ دوسرے طریقوں سے وه اسے جیل سے بھگانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں لیکن اگر یہ نہ ہو سکے تو جاسوس کو ساری زندگی جیل میں رہنا پڑتا ہے۔ اگر وه راز اگل دے تو وہ غدار کہلاتا ہے۔ اس لیے اسے یہ تک چھپانا ہوتا ہے کہ وه جاسوس ہے، کیونکہ ہر ملک میں جاسوسی کی سزا موت ہوتی ہے۔ پھر اگر اس پہ جاسوسی ثابت ہو جائے تو اسے مار دیا جاتا ہے اور اس کی لاش کہیں بے نام و نشان دفن کی جاتی ہے یا کسی بھی طرح ڈسپوز آف کر دی جاتی ہے اور بعض دفعہ کتنے ہی عرصے تک اس کے خاندان والوں کو بھی پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں ہے۔ اس کا جنازہ تک نہیں پڑھایا جاتا۔
اس کی آنکھوں کے سامنے انطاکیہ میں فوارے کے ساتھ کھودی گئی قبر گھوم گئی۔ بے نام و نشان قبر۔
پھر تو اس کو کچھ بھی نہ ملا ممی!
بیٹا! جو آدمی خود کو اس کام کے لئے پیش کرتا ہے، وہ اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ گرفتار ہونے یا دیار ِغیر میں مارے جانے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ اس کو تاریخ کبھی ہیرو کے نام سے یاد نہیں کرے گی۔ اس کے ملک میں اس کی فائل پہ ٹاپ سیکرٹ یا کلاسیفائیڈ کی مہر لگا کر بند کر دی جائے گی۔ وہ یہ سب جانتے بوجھتے بھی خود کو اس جاب کے لئے پیش کرتا ہے۔ پتا ہے کیوں؟
کیوں؟ اس نے اپنا پسندیدہ سوال پھر سے دہرایا۔
کیونکہ بیٹا! جو شخص اپنی جان کے ذریعے ﷲ کی راہ میں لڑتا ہے اسے دنیا کے اعزازات اور تاریخ میں یاد رکھے جانے یا نہ رکھے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ اسے اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا کہ گرفتاری کی صورت میں سب اسے چھوڑ دیں گے اور موت کی صورت میں کوئی اس کا جنازہ بھی اٹھانے نہیں آئے گا، کیونکہ اسے ﷲ تعالیٰ کی رضا چاہئیے ہوتی ہے اور جسے یہ مل جائے، اسے اور کچھ نہیں چاہئیے ہوتا۔
ممی اکثر اسے ایسی باتیں بتایا کرتیں۔ پھر ایک دم چپ ہو جاتیں اور پھر اپنی رو میں کہتیں۔ اپنے ملک کے راز کبھی نہیں بیچنے چاہئیں۔ انسان بھی کتنی تھوڑی قیمت پہ راضی ہو جاتا ہے۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں ایک لو دیتی اذیت ہوتی۔ بہت عرصے بعد جہان کو اس تاثر کی وجہ سمجھ آئی تھی۔
اور یہ تب ہوا جب ان کی جدیسی (گلی) سے پچھلی جدیسی میں رہنے والے ایک لڑکے حاقان نے اس پہ راہ چلتے فقرہ اچھالا کہ وہ پناہ گزین ہے، اور یہ کہ اس کا باپ ایک مفرور مجرم ہے۔
اس نےحاقان کو کچھ بھی نہیں کہا مگر رات جب ممی سے پوچھا تو انہوں نے بتا دیا۔ سب کچھ صاف صاف کہ کس طرح ابّا سے غلطی ہوئی اور اس کی سزا وہ بھگت رہے تھے۔ جلا وطنی کی سزا۔ اور ترک حکومت نے رحم کھاتے ہوئے انہیں سیاسی پناہ بخشی تھی۔ تب اسے لگا، وہ بھی وظیفہ لینے والوں کی قطار میں عدالت میں کھڑا ہے اور چپڑاسی زور زور سے صدا لگا رہا ہے۔
سکندر شاہ غدّار کے ورثاء حاضر ہوں۔
اس سب کے باوجود وہ ابا سے نفرت نہ کر سکا۔ وہ ان سے اتنی ہی محبت کرتا تھا جتنی پہلے۔ ابا ویسے ہی اب بیمار رہنے لگے تھے۔ ممی کبھی کبھی ان کو ڈاکٹر کے پاس لے جایا کرتی تھیں۔ مگر ان کے اخراجات، اس کی پڑھائی، ممی کو ڈبل شفٹ کام کرنا پڑتا۔ رات میں کبھی کبھار وہ ممی کو لاؤنج میں پاؤں اوپر کر کے بیٹھے تلوؤں پہ بنے چھالوں پہ دوا لگاتے دیکھتا۔ ان کے ہاتھ سوئی، موتی، کپڑے، دھاگے اور قینچی سے آشنا ہو کر اب سخت پڑتے جا رہے تھے۔
تب وہ سوچتا کہ وہ بہت محنت کر کے بہت امیر آدمی بنے گا، تا کہ ممی کو کام نہ کرنا پڑے اور وہ انہیں جہانگیر والا گھر دوبارہ خرید کر دے سکے۔ مگر وہ وقت قوسِ قزح کی طرح دور چمکتا تو دکھائی دیتا لیکن اگر وہ اس کے پیچھے بھاگتا تو وہ غائب ہو جاتا۔
ایک روز وہ سکول سے آیا تو ممی اپنا زیور الٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھیں، ان کے چہرے کے افسردہ تاثرات کو دیکھتے ہوئے وہ ان کے پاس آ بیٹھا۔
ممی! کیا آپ اپنا زیور بیچ دیں گی؟ جیسے دادا نے جہانگیر والا گھر بیچا تھا؟
ممی بے دلی سے مسکرا دیں۔
چیزیں اسی لیے تو ہوتی ہیں۔ میں تمہارے ابا کے اس پیسے کو ہاتھ نہیں لگانا چاہتی، جو بینک میں رکھا ہے اور جس نے ہم دونوں کو اپنے ملک کے سامنے شرمندہ کر دیا ہے۔ اس لیے زیور بیچ رہی ہوں۔ مگر تم یہ بات کسی کو نہیں بتاؤ گے۔ کیا تمہیں راز رکھنے آتے ہیں جہان؟ وہ اکثر دادا کو جہان سے یہ فقرہ کہتے سنتی تھیں، اس لیے دہرایا تو اس نے پُر ملال مسکراہٹ کے ساتھ سر اثبات میں ہلا دیا۔
ممی نے زیور بیچ دیا۔ کچھ وقت کے لیے گزارہ ہونے لگا، مگر پھر اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ بھی کچھ کام کر کے پیسہ کمائے۔ تاکہ اس کی ماں کے ہاتھ نرم پڑ جائیں اور ان کے پیروں کے چھالے مٹ جائیں۔ یہی سوچ کر اس نے پچھلی جدیسی کے حاقان کے چچا کرامت کی ورکشاپ میں کام کرنے کے لئے خود کو پیش کر دیا۔ کرامت بے کا بیٹا علی کرامت اس کا کلاس فیلو بھی تھا، سو اس کو کام مل گیا۔ اس کو راز رکھنے آتے تھے، سو یہ بات اس نے ممی سے راز رکھ لی۔
کرامت بے کی گاڑیوں کی ورکشاپ ان کے گھر کے ساتھ تھی، یعنی جہان کے گھر سے پچھلی گلی میں۔جہان کا گھر بالائی منزل پہ تھا، اگر وہاں سے کھڑے ہو کر دیکھا جائے تو کرامت بے کا گھر اور ورکشاپ دونوں دکھائی دیتی تھیں۔ ورکشاپ گلی کے بالکل نکڑ پہ تھی، اس سے آگے دوسری گلی میں مڑو تو کمرشل ایریا شروع ہو جاتا تھا۔ 
ایک روز ممی نے اس کے کمرے کی کھڑکی سے جھانکا تو ورکشاپ میں ہاتھ منہ کالا کیے، کام کرتا نظر آ گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ کھیلنے کے لئے جانے کی اجازت لے کر جایا کرتا تھا اور ممی کو علم ہوتا تھا کہ وہ علی کرامت کے گھر جا رہا ہے۔ آج ان کو پتا لگ گیا کہ اصل میں وہ کہاں جاتا تھا۔ جب وہ گھر آیا تو انہوں نے ساری بات دہرا دی، مگر نہ اسے ڈانٹا، نہ ہی خفا ہوئیں۔ 
تم ورکشاپ میں کام کرو، اخبار بیچو یا پھولوں کے گلدستے بناؤ۔ کبھی ان کاموں میں اتنا پیسہ نہیں کما سکو گے کہ اپنی پوری کتابیں بھی خرید سکو۔ اس کے باوجود میں تمہیں نہیں روکوں گی۔ میں اپنے بیٹے کو مضبوط اور محنتی دیکھنا چاہتی ہوں۔
اس نے ہمیشہ کی طرح اثبات میں سر ہلا دیا۔ کمائی نہ ہونے کے برابر تھی، مگر پھر بھی اسے کام کرنا اچھا لگتا تھا۔ اس نے ممی سے کہا کہ وہ بڑا ہو کر مکینک بنے گا۔ ممی خوب ہنسیں۔
ابھی تم نے زندگی میں بہت کچھ دیکھنا ہے۔ بہت سے پیشے دیکھ کر تم کہو گے، تم نے وہی بننا ہے لیکن اصل میں انسان کو وہی پیشہ اپنانا چاہئیے جس کے مطابق اس کی صلاحیت ہو۔ ابھی یہ فیصلہ بہت دور ہے کہ تم کیا بنو گے۔ 
مگر تب بھی وہ جانتا تھا کہ وہ مکینک ہی بنے گا۔یہی اس کی منزل تھی۔ پھر کبھی کبھی وہ خواب اسے ستاتا۔ وہ خواب جس نے ان برسوں میں کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ وہ پاک اسپائی اور اس کا روشن چہرہ، تب اس کی خواہش ہوتی کہ وہ بھی اس جیسا ہی بنے لیکن پھر وہ ڈر جاتا۔ معلوم نہیں کیوں۔
اس کا یہ خوف، یہ عجیب سا الجھن بھرا ڈر کب نکلا؟ شاید تب جب اس نے فریحہ سے دشمنی مول لی۔
فریحہ کرامت بے کے بھائی کی بیوی تھی۔ دراز قد، اسمارٹ، خوبصورت سبز آنکھوں اور کندھوں تک گرتے اخروٹی بالوں والی۔ اس کا لباس، اس کا اٹھنا بیٹھنا، اس کے ناز و انداز، سب میں ایک شاہانہ جھلک ہوتی تھی۔ وہ بہت مغرور، بہت طرح دار سی تھی۔ اس کا بیٹا حاقان بھی اتنا ہی مغرور اور نک چڑھا تھا۔ فریحہ کا شوہر ایکان معمولی صورت کا تھا، جب کہ کرامت بے کافی وجیہہ تھے۔ اس لیے حاقان، جو عمر میں جہان سے دو برس ہی بڑا تھا، ہر جگہ اپنی ماں کے حسن کے قصے سنایا کرتا تھا۔ وہ لوگ پیچھے سے عرب تھے، آپس میں عربی بولا کرتے۔ ایک روز فریحہ ایکان ان کے اسکول آئی تو حاقان نے سب کے سامنے اپنی ماں کو گلاب کا پھول پیش کرتے ہوئے عربی میں کچھ کہا۔ میں "انت مرہ جمیلہ" ہی اسے سمجھ آیا۔
اس نے علی کرامت سے مطلب پوچھا تو اس نے بتایا کہ "مرہ جمیلہ" بہت بہت خوبصورت عورت کو کہتے ہیں۔ اسے "انت" بھی بھول گیا۔ صرف "مرہ جمیلہ" ذہن پہ نقش رہ گیا۔ 
بے حد حسین عورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرہ جمیلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ممی اپنے زیور بیچ رہی تھیں تو انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک نیکلس رکھ لیا ہے، وہ اسے نہیں بیچیں گے کیونکہ وہ اسے حیا کو دیں گی۔
تم ہمیشہ یاد رکھنا۔ میں تمہاری شادی اپنے بھائی کے گھر ہی کروں گی، اس لیے تمہیں استنبول میں کوئی لڑکی خوبصورت نہیں لگنی چاہیے۔ سن لیا تم نے؟
مگر فریحہ کافی خوبصورت تھی، اسے بھی اچھی لگی، لیکن اتنی بھی نہیں کہ وہ اسے مرہ جمیلہ ہی کہہ دے۔
حاقان سے اس کا جھگڑا گیم کے دوران ہوا تھا۔ ورکشاپ میں کام ختم کر کے وہ جدیسی میں کھیلتے علی کرامت، حاقان اور دوسرے لڑکوں کے ساتھ شریک ہوا تھا۔ حاقان کو اعتراض تھا، مگر علی کرامت کا کہنا تھا کہ جب دوسرے آدھے گیم کے دوران شامل ہو سکتے ہیں۔ تو جہان کیوں نہیں (اس کا اشارہ حاقان کی جانب تھا جو گزشتہ روز اسی طرح شامل ہوا تھا)۔
مجھ میں اور اس میں فرق ہے۔ میں حاقان ایکان رضا ہوں اور یہ ایک پناہ گزین کی اولاد۔
جہان نے ہاتھ میں پکڑی سرخ گیند اس کو دے ماری۔ اس نے بر وقت سر نیچے کر لیا مگر پھر تن فن کرتا آگے بڑھا۔ تھوڑی سی مارکٹائی کے بعد لڑکوں نے انہیں چھڑا لیا۔ وہ وہاں سے یوں بکھرے کہ حاقان کا ہونٹ پھٹا ہوا تھا اور جہان کی نکسیر پھوٹی ہوئی تھی۔
گھر آ کر اس نے چپ چاپ خون صاف کر لیا۔
اصل اذیت اس طعنے کی تھی، جو اسے دیا گیا تھا۔ جیسے منہ پر چابک دے مارا ہو۔ وہ تکلیف بہت زیادہ تھی۔ پھر بھی وہ ابا کے خلاف نہ جا سکا۔ شاید اس لیے کہ اس کی ماں نے کبھی اسے باپ کے خلاف نہیں بھرا، بلکہ ہمیشہ یہی سکھایا کہ نفرت گناہ سے کی جاتی ہے، گناہگار سے نہیں۔
حاقان نے البتہ چپ چاپ اپنا خون صاف نہیں کیا۔ اس کا ثبوت یہ تھا کہ فریحہ تن فن کرتی ان کے گھر آتی، بلند آواز اور رعونت سے اس کو بہت سی باتیں سنا کر گئی۔ (اس کا شوہر کاروباری آدمی تھا، اور مالی حالات کرامت بے سے اچھے تھے ُاسے اسی پیسے کا غرور تھا) یہی نہیں، اس نے جا کر میونسپلٹی والوں سے بات بھی کی کہ ان سیاسی پناہ گزینوں کو کہیں اور رہائش اختیار کرنے کو کہا جاۓ ورنہ وہ ماحول خراب کریں گے۔
ممی کو اس بات کا علم نہ ہو سکا، وہ گھر پہ نہیں تھیں۔ ابا ان دنوں بیمار رہنے لگے تھے، سو کمرے میں تھے۔ اس نے اکیلے فریحہ کی باتیں سنیں، مگر چپ رہا۔ میونسپلٹی والی بات اسے علی نے بتائی۔ اس کا دل جیسے ٹوٹ سا گیا۔ ابا کی وجہ سے، بلکہ اس کے اپنے جھگڑے کی وجہ سے ان کو یہ گھر چھوڑنا پڑے گا۔ اتنی مشکل سے ممی خرچے کی گاڑی کھینچ رہی تھیں، اب ان کو مزید تکلیف سہنی پڑے گی۔ وہ بہت پریشان ہو گیا۔
تم ان باتوں سے پریشان مت ہو بچے! کوئی نہ کوئی راستہ نکل آۓ گا۔ راستہ ہمیشہ ہوتا ہے، بس ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ علی کی بات سن کر اس کی ممی نے کہا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر ان کو دیکھا۔
وہ اس وقت کچن سلیب کے سامنے کھڑی تھیں۔ وہ باہر کام سے آئی تھیں اور ابھی ابھی انہوں نے اسکارف سے کیا گیا نقاب اتارا تھا۔ اب وہ ٹشو سے چہرے پہ آیا پسینہ تھپتھپا رہی تھیں۔ ان کا رنگ سیاہ تھا، وہ مصری تھیں، مصری سیاہ فام مگر پھر بھی ان کے چہرے پہ ایسی روشنی، ایسا نور تھا کہ وہ نگاہ نہیں ہٹا سکتا تھا۔ اسے وہ بہت خوب صورت لگتی تھیں۔ اس دن ان کی بات سن کر وہ خاموشی سے اٹھ گیا، مگر بعد میں مارکیٹ جا کر اس نے کارڈ خریدا اور اس پہ انگریزی میں لکھا۔
"You Are My Marrah Jameelah"
ساتھ میں ان کا نام اور فقط میں اپنا نام لکھ کر اس نے کارڈ کو خط کے لفافے میں ڈالا اور گوند سے لفافہ بند کر دیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ صبح جا کر چپکے سے یہ ان کو دے آۓ گا۔ ٹھیک ہے کہ ممی نے کہا تھا کہ اسے کوئی دوسری لڑکی خوب صورت نہیں لگنی چاہئیے۔ مگر وہ لڑکی تو نہ تھیں۔ وہ تو ایک درمیانی عمر کی خاتون تھیں، اپنی جیٹھانی فریحہ سے بالکل مختلف۔
جس پل وہ کارڈ اپنے بیگ میں رکھ رہا تھا، اسے کھڑکی کے باہر کچھ دکھائی دیا۔ اس نے جلدی سے بتی گل کی اور کھڑکی کے شیشے کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
باہر رات پھیلی تھی۔ فریحہ کا گھر (جہاں کرامت بے اور ایکان دونوں کے خاندان اکٹھے رہتے تھے) اور کرامت بے کی ورکشاپ سامنے دکھائی دے رہی تھی۔ ورکشاپ کے دروازے کے پاس دو ہیولے سے کھڑے تھے۔ ایک لاک کھول رہا تھا جبکہ دوسرا ساتھ میں چپکا کھڑا تھا۔
لاک کھول کر وہ اندر چلے گۓ جب دروازہ بند کرنے کے لئے وہ سایہ پلٹا تو اسٹریٹ پول کی روشنی ان دونوں پہ پڑی۔ لاک کھولنے والے شخص کا چہرا واضح ہوا جو کرامت بے کا تھا جب کہ اس کے پیچھے موجود لڑکی اسی وقت پلٹی تھی۔ روشنی نے اس کے اخروٹی بالوں کو چمکایا اور پھر دروازہ بند ہو گیا۔
فریحہ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ بھی کرامت بے کے ساتھ اس وقت؟
استنبول میں رہنے والے ایک تیرہ سالہ لڑکے کے لیے یہ سب سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا، یقین کرنا اور اس دھوکے کو جذب کرنا، یہ بہت مشکل تھا۔ وہ کتنی ہی دیر تو تحیر کے عالم میں وہیں بیٹھا رہا تھا۔ پھر ہر رات اس نے ان پہ نظر رکھنا شروع کر دی۔ وہ ہر رات نہیں آتے تھے۔ دو، دو، تین، تین دن بعد آیا کرتے۔
قریباٍ ایک مہینے بعد اس نے فریحہ کو سرِراہ اس وقت روکا، جب وہ صبح واک پہ تیز تیز چلتی جا رہی تھی۔
لیڈی ا یکان۔۔۔۔۔۔ کیا آپ مجھے ایک منٹ دے سکتی ہیں؟
فریحہ نے گردن موڑ کر کچھ اچنبھے، کچھ نخوست سے اسے دیکھا۔
بولو! 
••••••••••••••
ثانیہ کی باتیں تب بھی اس کے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔ جب وہ اپنے اپارٹمنٹ بلڈنگ کی لفٹ سے نکلا۔ پرانی یادیں، کسی ٹوٹے کانچ کی صورت ماس میں کھب گئی۔ ان کو کھینچ کر نکالنے کا تصور ہی جان لیوا تھا۔
اس نے سست روی سے فلیٹ کے دروازے میں چابی گھمائی تو اوپر کہیں سے پانی سے بھری ڈبی آ گری۔ وہ عین ڈور میٹ پر گری تھی اور کارپیٹ گیلا ہو گیا تھا۔ اس نے توجہ دیے بغیر دروازہ بند کیا۔ وہ اکثر ایسی چیزیں گھر میں چھوڑ جاتا۔ اگر ڈبی ابھی گری تھی تو اس کا مطلب تھا کہ اس کے بعد فلیٹ میں کوئی داخل نہیں ہوا تھا۔ ڈبی دوبارہ بھر کر رکھی جا سکتی تھی مگر کارپٹ پر نشانات ضرور ملتے۔ 
اس کے باوجود عادت سے مجبور اس نے کچن کی کھڑکی کی کنڈی چیک کی، پھر باتھ روم کے روشن دان کو دیکھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گیا تھا۔
اس نے ٹی وی آن کیا اور لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر پاؤں لمبے کر کے میز پر رکھے، صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ ان تمام ڈاکو منٹس کو دیکھنا چاہتا تھا جو ثانیہ نے اسے سی ڈی کی شکل میں دیے تھے۔ 
ثانیہ نے فائل پر سہ حرفی پاس ورڈ لگا دیا تھا اور وہ اسے بتا چکی تھی کہ پاس ورڈ کیا تھا اگر وہ اس سے کچھ بھی لیتا تو وہ اس کو اس فائل پہ یہی پاس ورڈ لگانے کو کہا کرتا تھا۔ ARP۔
لمحے بھر کو اس کا دھیان بھٹک کر ادالار میں اپنے ہوٹل گرینڈ کے آس کے باہر لگی تختی کی طرف چلا گیا۔ وہاں بھی اس نے یہی لکھوا رکھا تھا۔ اس سے عمومی تاثر یہی پڑتا تھا کہ اے ار پی کا مطلب عبدالرحمن پاشا ہے جب کہ ایسا نہیں تھا۔ وہ جب بھی خود کو اے ر پی لکھتا،وہ اس سے مراد کبھی بھی عبدالرحمن پاشا نہیں لیا کرتا تھا۔ اے آر پی کا مطلب اس کے نزدیک کچھ اور تھا۔
فائلز کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی وہ ذہنی طور پہ الجھا ہوا تھا۔ ممی نے صبح اسے جتنی تاکید سے کہا تھا کہ وہ ماموں سے مل لے، اب اگر وہ نہیں جائے گا تو وہ ہرٹ ہو گی اور یہی وہ چیز تھی جو وہ نہیں چاہتا تھا۔ اسے جانا ہی پڑے گا۔ وہ جتنا اس رشتے اور ان رشتہ داروں سے احتراز برتنے کی کوشش کر رہا تھا، اب اتنے ہی وہ اس کے سامنے آ چکے تھے۔
بہت بے دلی سے اس نے لیپ ٹاپ بند کیا اور پھر کلائی پہ بندی گھڑی دیکھی۔ رات کے نو بج رہے تھے۔ ماموں کا گھر یہاں سے دس منٹ کی ڈرائیو پر تھا۔ کیا وہ ابھی ہی چلا جائے؟ گاڑی آج اس کے پاس نہیں تھی۔ سروس کے لیے دی ہوئی تھی، اسے کل ملنا تھا۔ اگر ہوتی تب بھی وہ ٹیکسی پر ہی جاتا، کیونکہ وہ ان کو یہی تاثر دے گا کہ وہ ترکی سے آج آیا ہے، دو ہفتے قبل نہیں۔ البتہ وہ ان کے گھر رکے گا نہیں۔ واپس آ ائے گا، کہہ دے گا کہ وہ ہوٹل میں رہائش پزیر ہے وغیرہ وغیرہ۔ کور اسٹوری تو اس کے پاس ہمیشہ تیار ہوتی تھی۔
وہ اٹھا، اپنی جیکٹ پہنی، جوگر کے تسمے باندھے اور والٹ اٹھا کر جانے لگا، پھر خیال آیا کہ وہ خط کے لفافے اٹھا لے جن کو اسے پرانی تاریخوں میں اسٹیمپ کروا کر میڈم سیکنڈ سیکرٹری کو بھیجنا تھا۔ یہ کام ماموں کے گھر جانے سے زیادہ ضروری تھا، پہلے اسے یہی کرنا چاہیے۔ 
پانی کی ڈبی دروازے کی اوپری جگہ پر احتیاط سے رکھ کر، اس کی ڈور پھنسا کر وہ باہر نکل آیا۔ ٹیکسی نے اسے ماموں کے سیکٹر کے مرکز پہ اتارا۔ یہاں سے ان کا گھر سو قدم کے فاصلے پہ تھا۔ جس دن وہ اسلام آباد پہنچا تھا، اس نے یونہی سرسری سا وہ راستہ سمجھ لیا تھا۔ شاید اس کے لاشعور میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ اس دفعہ اسے جانا ہی پڑے گا۔ 
مرکز پہ ایک کوریئر سروس کی شاپ سامنے ہی تھی۔ اس کے سامنے پھول والا بیٹھا تھا۔ مختلف رنگوں اور قسموں کے پھول سجائے، وہ ان پہ پانی چھڑک رہا تھا۔ پھول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے چاہیے کہ وہ ان کے گھر کچھ لے کر جائے، پھولوں سے بہتر کوئی تحفہ نہیں تھا۔ وہ ہمیشہ ہی ایک بہت قیمتی اور خوب صورت تحفہ ہوتے ہیں۔ اس نے سوچا وہ لڑکے کو گلدستہ بنانے کا کہہ دے اور تب تک وہ اندر کوریئر سروس سے لفافے اسٹیمپ کروا لے۔
بات سنو! اس نے پھول بیچنے والے لڑک کو پکارا۔ وہ پانی کا چھڑکاؤ کر رہا تھا، فورا پلٹا۔
جی صاحب! اپنے سامنے موجود آدمی کو دیکھ کر، جو سیاہ جیکٹ میں ملبوس، پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا، وہ جلدی سے پانی کا برتن رکھ کر مؤدب سا ہوا، اس کے پاس آیا۔
گلاب کے پھول ہیں تمہارے پاس؟ 
کون سا رنگ چاہیے صاحب؟
سرخ! اس نے بنا سوچے کہہ دیا۔ لڑکے نے ذرا تاسف سے سر ہلایا۔
صاحب! سرخ پھول ختم ہو گیا ہے۔ تھوڑے سے سفید گلاب پڑے ہیں۔ وہ کردوں؟
نہیں، نہیں۔ اس نے قدرے برہمی سے نفی میں سر ہلایا۔ سفید گلاب، دشمنی کی علامت۔ ممی کو پتا چلے، وہ پہلے ہی دن ماموں کے گھر سفید گلاب لے گیا ہے تو وہ از حد خفا ہوں گی۔
مجھے سرخ ہی چاہئیں۔ کہاں سے ملیں گے۔
صاحب! میرے پاس سرخ اسپرے ہے، ان سفید پھولوں کو اسپرے کر دوں؟ قسم سے صاحب اتنی مہارت سے کروں گا، بالکل پتا نہیں چلے گا۔
ہاں یہ ٹھیک ہے، یہ ہی کر دو۔ اس نے اثبات میں سر کو جنبش دی۔ نقلی سرخ رنگ کے گلاب، سفید گلاب سے پھر بھی بہتر تھے

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page