top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر چھبیس

پھولوں والا لڑکا جلدی جلدی باسکٹ سے سفید پھول نکالنے لگا
تم گلدستہ بناؤ، میں آتا ہوں۔ اس کی رفتار دیکھ کر وہ جان گیا کہ ابھی اسے کافی وقت لگے گا، اس لیے وہ اندر کوریئر شاپ کی طرف بڑھ گیا۔ اسے اگر کسی شے سے از حد چڑ تھی تو وہ وقت ضائع کرنے سے تھی۔
کوریئر شاپ میں دو افراد کھڑے اپنے اپنے لفافے جمع کروا رہے تھے۔ ڈیسک کے پیچھے بیٹھا، پی کیپ پہنے لڑکا کمپیوٹر پہ مصروف نظر آ رہا تھا۔ وہ خاموشی سے جا کر ایک کونے میں کھڑا ہو گیا۔ دفعتا ملازم لڑکے نے ٹائپ کرتے ہوئے سر اٹھا کر دیکھا۔ جہان پہ نظر پڑتے ہی اس کے چہرے پہ شناسائی کی رمق ابھری۔ وہ جلدی جلدی کام نپٹانے لگا۔
دونوں افراد کو فارغ کر کے وہ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔
جی احمد بھائی! کوئی خدمت؟
ہاں، چوٹا سا کام ہے۔ وہ جیکٹ کی جیب سے چند صاف لفافے نکالتے ہوئے کاؤنٹر پر آیا۔
ان کو کچھ بیک ڈیٹس میں اسٹیمپ کرنا ہے اور کچھ کو آگے کی ڈیٹس میں۔ یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اسے کام سمجھانے لگا۔ غضنفر اس کو جانتا تھا، اس سے پہلے وہ جہان کو اس سے ہٹ کر بھی اضافی کام کر چکا تھا، نہ بھی کر چکا ہوتا، تب بھی اس کے کارڈ کے باعث کر ہی دیتا۔
انٹری نہیں کرنی بھائی؟ جب وہ لفافے میں واپس جیکٹ میں رکھنے لگا تو غضنفر حیرت سے بولا۔
اوں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ لمبا کام ہو جائے گا اور گھر میں سب ٹھیک ہیں؟
جی بھائی! غضنفر اب اسے گھر کی باتیں بتانے لگا۔ اس کا وہ بھائی جسے جیل سے نکلوانے میں جہان نے مدد کی تھی، اب وہ کام پہ لگ گیا تھا اور وہ اس بات سے کافی آسودہ لگ رہا تھا۔
میں چلتا ہوں، تمہارا بھی آف کرنے کا ٹائم ہو رہا ہے۔ اس کی بات تحمل سے سن کر اور تبصرہ کر کے اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ ماموں کے گھر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ غضنفر سے مصافحہ کر کے وہ باہر آیا۔
سست رو لڑکا ابھی بوکے پلاسٹک کور کے گرد ربن باندھ رہا تھا۔
اسپرے نہیں کیا؟ اس نے سفید گلاب کے پھولوں کو دیکھ کر اچنبھے سے آبرو اٹھائی۔
میں نے ابھی دیکھا صاب!صاب اسپرے ختم ہو گیا ہے۔ آپ ایسے ہی لے جائیں۔ دیکھیں! یہ سبز پتے ساتھ میں لگائے ہیں، کتنے اچھے لگ رہے ہیں۔
اچھا، زیادہ لیکچر مت دو۔ کتنے پیسے ہوئے، ناگواری سے ٹوکتے ہوئے اس نے بٹوہ نکالا۔ اندر سے چند نوٹ نکالتے ہوئے اس کی نگاہ اپنے سروس کارڈ پر پڑی۔ کیا ماموں کو یہ دکھانا تھا؟ نہیں، ابھی بہت جلدی ہو گا۔ پہلے ان کا اعتماد جیتنا ہو گا اور وہ ان کی نازک اندام، مغرور سی بیٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سب لوگوں کی زندگی کا حصہ بننا مشکل لگ رہا تھا۔
بوکے چھوٹا سا تھا۔ اس کو پہلو میں لٹکے ہاتھ میں لاپروائی سے پکڑے وہ سڑک کنارے چلنے لگا۔ ماموں کا گھر یہاں سے قریب تھا۔ مگر وہ کچھ دیر مرکز کی سڑکوں کے کناروے چلنا چاہتا تھا۔ ابھی وہ صرف اپنی سوچوں کو مجتمع کرنا چاہتا تھا۔
وہ کیا چاہتا تھا۔ وہ خود بھی پر یقین نہیں تھا۔ یا پھر جو وہ چاہتا تھا، اسے کہنے سے ڈرتا تھا۔ ماں سے کہنے کا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر خود سے تو کہہ ہی سکتا تھا اور اصل بات وہی تھی، جو ثانیہ نے آج دوپہر میں کہی تھی وہ اپنے ماموؤں سے ڈرتا تھا- وہ ان کے طعنوں سے ڈرتا تھا۔ اتنے سالوں بعد بھی وہ ان کے سامنے سر اٹھانے سے ڈرتا تھا۔ مگر ممی کہتی تھیں، وقت بدل گیا ہے- فرقان ماموں اور سلیمان ماموں نرم ہو گئے ہیں۔ البتہ پیچھلے برس ہونے والی سلیمان ماموں سے ملاقات کے بعد اسے کوئی خوش فہمی نہیں رہی تھی کہ ان کے مزاج کی سختی اور غرور ختم ہو گیا ہے۔ وہ ویسے ہی تھے۔ فرق یہ تھا کہ اب سلیمان ماموں کو اپنی بیٹی کی فکر تھی، اب وہ بیٹی والے تھے۔ ان کا ہاتھ نیچے تھا اور اس کا اوپر۔ پہلے کی بات اور تھی۔ تب ان کی بیٹی چھوٹی تھی۔ انہیں مستقبل کی فکر نہیں تھی لیکن اب اس کی شادی کی عمر تھی۔ رشتے بھی آتے ہوں گے۔ اب وہ اس فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہوں گے اور ان کی پہلی ترجیح ان کا بھانجا ہی تھا۔ کوئی بھی اپنی خوشی سے بچپن کا نکاح نہیں توڑتا۔ سلیمان ماموں سے بھی اسے یہ امید تھی کہ وہ اس رشتے کو ختم کرنا چاہتے ہوں گے نہ وہ خود چاہتا تھا۔ لیکن نبھانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہیں آ کر وہ رک جاتا۔ یہ رشتہ نبھانا بہت مشکل تھا۔
وہ ایسی چھوٹی سوچ کا حامل آدمی تو تھا نہیں کہ پرانے انتقام لینے کے لیے ان کی بیٹی کو لٹکائے رکھتا۔ یہ بھی ٹھیک تھا کہ وہ ان سے مل لے تا کہ دونوں فریقین دیکھ لیں کہ یہ رشتہ چل سکتا ہے یا نہیں۔ اگر اسے محسوس ہوا کہ وہ نبھا سکتا ہے تو وہ ممی کو آگاہ کر دے گا اور اگر اسے لگا کہ وہ کہ نہیں نبھا پائے گا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھر اسی مقام پر آ کر رک گیا۔ ممی ہرٹ ہوں گی۔ یہ وہ آخری چیز تھی جو وہ نہیں چاہتا تھا۔ اتنے سال اگر اس نے جان بوجھ کر ماموں کی فیمیلی سے لاتعلقی اختیار کیے رکھی تو اس لیے کہ دور اندر وہ یہ رشتہ نہیں چاہتا تھا۔ 
سڑک کنارے سر جھکا کر چلتے ہوئے اس نے خود سے سچ بولنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ وہ خود ہی یہ رشتہ نہیں چاہتا تھا۔ اس کی یہ ساری بے رخی، لاتعلقی اور اعراض برتنا، سب لاشعوری طور پر اسی لیے تھا کہ وہ لوگ تنگ آ کر خود ہی یہ رشتہ ختم کر دیں اور وہ ماں کو دکھ دینے کے بوجھ سے آزاد ہو جائے۔ یہ الگ بات تھی کہ یہ خود کو دھوکہ دینے کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ جو بھی یہ رشتہ ختم کرے، ذمہ دار تو وہی ہوتا۔ اس کے خشک رویے کے باعث ہی یہ رشتہ ٹوٹے گا۔ 
لیکن وہ لوگ اس سے اور کیا توقع رکھتے ہیں؟ کس نے کہا تھا انہیں کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کا رشتہ طے کر دیں؟ اسے کبھی کبھی ان سب ذمہ واران پہ ازحد غصہ چڑھتا تھا۔ ممی پہ البتہ نہیں چڑھتا۔ کبھی بھی نہیں۔ وہ صرف اپنے بھائیوں کے ساتھ تعلق قائم رکھنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا، بس رشتے بچانے کے لیے ہی کیا۔ وہ جان بوجھ کر ماں کو شک کا فائدہ دے دیا کرتا تھا مگر ماموں کو نہیں۔ بے انصافی ہے تو بے انصافی ہی سہی۔
بہت دیر وہ سڑکوں پہ بے مقصد چلتا سوچوں میں غلطاں رہا۔ وہ ابھی ان کے گھر نہیں جانا چاہتا تھا مگر ماں کے سامنے اس کے "میں ابھی ذہنی طور پر تیار نہیں“ اور ”یہ بہت جلدی ہے، مجھے سوچنے کا وقت دیں" جیسے بہانے نہیں چلتے تھے۔ اسے ایک دفعہ جانا ہی پڑے گا۔ 
گھڑی کی سوئیاں دس سے اوپر آ چکی تھیں۔ جب اس نے خود کو سلیمان ماموں کے گھر کے بیرونی گیٹ کے سامنے کھڑے پایا۔ گیٹ بند تھا۔ اندر گھر کی بتیاں جل رہی تھیں۔ اس کی نگاہیں ساتھ والے گیٹ پر پھیلیں۔ یہ فرقان ماموں کا گھر تھا۔ وہ پہلے ایک دن آ کر یہ گھر دیکھ گیا تھا اور پھر فیس بک پہ روحیل نے ان دونوں گھروں کے اندر باہر کی اتنی تصاویر لگا رکھی تھیں کہ اسے اندرونی نقشہ بھی حفظ تھا۔ 
وہ ان دونوں وسیع و عریض اور خوب صورت بنگلوں کے سامنے سڑک پہ گویا کسی دوراہے پہ کھڑا تھا۔ اندر جائے، یا یہیں سے پلٹ جائے؟ اسے صرف ایک بہانہ درکار تھا، اس گھر اور اس کے مکینوں سے دور بھاگنے کا۔ صرف ایک وجہ وہ ڈھونڈ لے اور واپس پلٹ جائے لیکن کوئی وجہ تھی ہی نہیں۔ اسے اندر جانا ہی تھا۔ 
دفعتاً فرقان ماموں کے گیٹ کے پیچھے کھڑکا ہوا اور پھر بولنے کی آوازیں، پاس آتے قدم۔ وہ غیر اختیاری طور پہ تیزی سے ایک طرف ہوا۔ کالونی میں نیم اندھیرا سا تھا۔ گھروں کی بیرونی بتیاں بھی اس جگہ کو روشن کرنے میں ناکام تھیں۔ وہ فرقان ماموں کے گیٹ کے داہنی طرف ایک گھاس سے بھرے جنگلے کے اوٹ میں ہو گیا۔ 
گیٹ سے فرقان ماموں چند افراد سمیت باہر نکل رہے تھے۔ شلوار قمیض میں ملبوس وہ خوش اخلاقی سے اپنے مہمانوں کو چھوڑنے باہر آئے تھے ۔ مہمان تین مرد حضرات تھے، جن کی کار سڑک کے پار ایک خالی پلاٹ کے سامنے کھڑی تھی۔ یہاں سے ذرا دور، نا جانے کیوں ماموں اب ان افراد کے ساتھ باتوں میں مگن اسی طرف جا رہے تھے، پیچھے گیٹ کھلا رہ گیا تھا۔ گارڈ، چوکیدار، فی الوقت کوئی بھی نہ تھا۔ شادی قریب تھی۔ سو مصروفیت نے ملازموں کو بھی گھیر رکھا ہو گا۔
وہ اندھیری جگہ پر دم سادھے کھڑا فرقان ماموں کو دیکھتا رہا۔ دل میں ایک عجیب سی ہوک اٹھی تھی۔ پرانی باتیں پھر سے یاد آنے لگی تھیں۔ اس نے بے اختیار سر جھٹکا اور جیسے امڈتی یادوں کر رفع کرنا چاہا۔ 
ماموں اب اپنے مہمانوں کی گاڑی کے ساتھ کھڑے ان سے کچھ کہہ رہے تھے۔ اسے یوں وقت ضائع ہونے پہ الجھن ہو رہی تھی۔ چند منٹ تو وہ کھڑا رہا، مگر جب اسے لگا کہ ماموں اور ان کے مہمانوں کی گفتگوں لمبی ہوتی جا رہی ہے تو وہ جنگلے کے عقب سے نکل آیا۔ وہ لوگ بہت دور تو نہیں تھے۔ البتہ ایسے رخ سے کھڑے تھے کہ کسی کا بھی چہرہ گیٹ کی جانب نہیں تھا۔ 
وہ فرقان ماموں کا سامنا کیے بغیر اندر جانا چاہتا تھا۔ کیا حرج تھا اگر وہ یوں ہی اندر داخل ہو جاۓ۔ فرقان ماموں کو متوجہ کرنا اور ان کے سوالات کا جواب دینا؟ نہیں، ابھی نہیں۔
بہت آرام اور آہستہ سے وہ کھلے گیٹ کے اندر چلا آیا۔ سردی بڑھ گئی تھی۔ لان خالی تھا۔ سب اندر تھے۔ اس نے گردن ادھر ادھر گمھا کر درمیانی دروازہ تلاش کیا۔ وہ سامنے ہی تھا۔ اس پہ گھنٹی لگی تھی لیکن پہلے اس نے دروازہ دھکیلا تو وہ کھل گیا۔ اسے جانا تو سلیمان ماموں کی طرف تھا، سو ادھر رکنا بے سود تھا۔ وہ دروازے سے گزر کر سلیمان ماموں کے لان میں داخل ہو گیا۔
اتنے برسوں سے بنا اجازت دوسروں کے گھروں، لاکرز، موبائلز اور ای میلز میں خاموشی سے داخل ہو نے اور نکلنے کی عادت کے باوجود وہ آفیشل کام کے بغیر ٹریس پاسنگ نہیں کیا کرتا تھا۔ اب بھی یہ کرتے وقت اس کے ذہن میں یہی بات تھی کہ وہ اس کے ماموں کا نہیں، بلکہ سسر کا بھی گھر ہے۔ اندر جا کر وہ بتا دے گا کہ وہ کس طرح داخل ہوا۔ بات ختم!
سلیمان ماموں کا ہرا بھرا لان بھی سنسان اور سرد پڑا تھا۔ اسے پچھتاوا ہوا کہ اس نے پھول اٹھانے کا تکلف کیوں کیا۔ خوامخواہ ایک بوجھ اٹھاۓ پھر رہا ہے۔ اس نے گلدستہ لان کی میز پہ رکھ دیا اور خود گھر کے داخلی دروازے کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
گھنٹی باہر گیٹ پہ تھی اندر داخلی دروازے پہ نہیں۔ اب کیا صرف دروازہ کھٹکٹانے پہ کوئی باہر نکلے گا؟ بہت تذبذب سے اس نے داخلی دروازے پہ دستک دی۔ البتہ وہ خود بھی جانتا تھا کہ اندر کمروں میں موجود افراد اس وقت یہ دستک نہیں سن پائیں گے۔ وہ جان بوجھ کر اس طرح کر رہا تھا، تا کہ اسے ان سے ملنا نہ پڑے اور وہ کہہ سکے ”ممی میں گیا تھا، مگر آپ کے بھائیوں نے دروازہ ہی نہیں کھولا، میں کیا کرتا، سو واپس آ گیا“۔
حسب توقع دروازہ کسی نے نہیں کھولا۔ وہ سرد پڑتے ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں ڈالے گھر کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے یوں ہی جائزہ لینے لگا اس گھر میں کون کون ہے۔ مہمان بھی آۓ ہوں گے شادی کے۔ کوئی جاگ رہا ہے یا نہیں ایسی ہی باتوں کا سرسری سا معلوم کرنے وہ گھر کو گھوم پھر کر دیکھنے لگا۔ تمام کھڑکیاں بند تھیں۔ البتہ لان کے داہنی رخ پہ کھلتی ایک کھڑکی کے دو شیشے کے پٹ کھلے تھے۔ اتنی سردی میں کون کھڑکی کھول کر بیٹھا ہے؟
اچنبھے سے بھنویں سکیڑے اس طرف آیا۔
شیشے کھلے تھے، البتہ جالی بند تھی۔ اس کے پیچھے پردے بھی گرے تھے۔ دو پردوں کے درمیان ایک درز سی تھی، جس سے کمرے کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں وہ عادت سے مجبور تھا۔ نچلا لب دانت سے دباۓ، اس نے احتیاط سے گردن ذرا اونچی کر کے اندر دیکھا۔ کمرے میں مدھم روشنی پھیلی تھی۔ صرف ایک ہی بلب جل رہا تھا۔ روشنی کا دوسرا منبع بیڈ کے تکیہ پہ رکھا لیپ ٹاپ تھا۔ جس کے سامنے وہ کہنیوں کے بل اوندھی لیٹی تھی۔ اسکرین کی روشنی اس کے چہرے کو چمکا رہی تھی۔ وہ ٹھوڑی تلے ہتھیلی رکھے، دوسرے ہاتھ کی انگلی لیپ ٹاپ کے ٹچ پیڈ پہ پھیر رہی تھی۔
یہ وہی تھی جس کو اس نے دوپہر میں دیکھا تھا۔ اس نے وہی سیاہ لباس پہن رکھا تھا۔ سلکی بال ملائی سے بنی جلد۔
اس کی کزن، اس کی بیوی، کیسا عجیب رشتہ تھا کہ دل میں کوئی احساس نہیں جاگتا تھا۔ نہ ہی اس سے ملنے کی کوئی خواہش تھی۔ نہ جانے کیوں، وہ مایوس ہوا تھا۔ جس طرح لوگ مڑمڑ کر اسے ہوٹل کی لابی میں دیکھ رہے تھے، اسے وہ سب کچھ ناگوار لگا تھا۔ گو کہ اس کا لباس ایسا نہ تھا، آستین پوری تھیں، قمیص لمبی تھی، نیچے کھلا ٹراؤزر تھا۔ مگر اس کے کپڑوں کی فال ہی کچھ ایسی تھی اور کچھ اس کا انداز کہ وہ توجہ کھینچتے تھے۔ اسے ایسی لڑکیاں کبھی بھی اچھی نہیں لگتی تھیں۔ اسے یہ لڑکی بھی قطعا اچھی نہیں لگی تھی۔
رات کی مقدس خاموشی میں بٹنوں کی آواز نے ارتعاش پیدا کیا تو وہ چونکا۔ وہ اب اٹھ کر بیھٹتے ہوۓ بے چینی سے موبائل پہ کال ملا رہی تھی۔
ہیلو زارا؟ شاید رابطہ مل گیا تھا۔ تب ہی وہ دبے دبے جوش سے چہکی۔ کیسی ہو؟ سو تو نہیں گئی تھیں؟ حیا بول رہی ہوں۔
جہان نے سوچا، وہ کیوں سردی میں کھڑا کسی کے کمرے میں جھانک رہا ہے۔ اس کو ممی نے ماموں وغیرہ کے سارے نمبرز رکھے تھے، پھر وہ انہیں کال کر کے بتا کیوں نہیں رہا کہ وہ ان کے گھر آیا آ چکا ہے۔ اگر اس کی نیت اندر جانے کی ہوتی تو وہ لاک توڑ کر بھی اندر داخل ہو جاتا۔ بات ساری نیت کی تھی۔
ساری باتیں چھوڑو زارا اور میرے پاس جو بڑی خبر ہے وہ سنو اور تم یقین نہیں کرو گی، میں جانتی ہوں۔
وہ اندر موجود لڑکی کی باتیں بے توجہی سے سن رہا تھا۔ موبائل جیب سے نکالتے ہوئے وہ سلیمان ماموں کو فون کرنے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس نے نمبر ملایا، پھر بند کر دیا۔ پھر ملایا، پھر بند کر دیا۔
کین یو بلیو اٹ زارا کہ مجھے یورپین یونین نے اسکالرشپ کے لیے سلیکٹ کر لیا ہے؟
موبائل کی اسکرین پہ انگلی سے نمبر لکھتا وہ جیسے چونکا تھا۔ یورپین یونین کا اسکالر شپ ارسمس منڈس کا ایکسچینج پروگرام؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ اپنی دوست سے جو گفتگو کر رہی تھی، اس میں یہی نام اس نے لیا تھا۔ کیا وہ اسکالرشپ کے لیے کہیں جا رہی تھی؟ اس نے موبائل واپس جیب میں ڈالا۔ اس کی ساری حسیات اندر ہوتی گفتگو پہ لگ گئیں۔
نہیں، اسپین کی Duesto نہیں، بلکہ ترکی کی سبانجی یونیورسٹی نے ہمیں سلیکٹ کیا ہے اور اب ہم ایک سمسٹر پڑھنے پانچ ماہ کے لیے استنبول جا رہے ہیں۔
باہر سردی اور تاریکی میں کھڑکی کے ساتھ کھڑے جہان کو محسوس ہوا، کسی نے اس کا سانس روک دیا ہو۔ ترکی؟ استنبول؟ پانچ ماہ؟ اس نے بے یقینی سے پردوں کی درز سے جھلکتے منظر کو دیکھا۔ اس کا دماغ جیسے سن ہو گیا تھا۔
وہ اب اپنی دوست کو سبانجی میں ہیڈ اسکارف پہ پابندی کے بارے میں بتا رہی تھی۔ اس کی توجہ پھر بھٹک گئی۔ اسے لگا اسے پشانی پہ پسینہ آ گیا ہے، جیکٹ کی آستین سے ماتھا صاف کرتے ہوئے وہ ذرا پیچھے کو ہوا تو ساتھ میں لگے گملوں سے ہاتھ ٹکرایا۔ بے خیالی میں ہونے والے اس عمل سے گملا لڑھک گیا۔ نیچے گھاس تھی، اس لیے وہ ٹوٹا نہیں، مگر پتوں کی ہلکی سی کھڑکھڑاہٹ بھی اندر سنائی دی تھی، تب ہی اس نے اس لڑکی کو چونک کر کھڑکی کی طرف دیکھتے دیکھا۔
وہ بہت احتیاط سے ایک طرف ہو گیا۔ وہ اتنی بیوقوف یا لاپروا نہیں تھی، اس کی حسیات کافی تیز تھیں۔ اسے اب یہاں سے چلے جانا چاہیے، اس سے قبل کہ وہ پکڑا جاۓ۔
ابا نے مجھے کبھی اسکارف لینے یا سر ڈھکنے پہ نہیں مجبور کیا، تھینک گاڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کھڑکی کی طرف نہیں آئی، بلکہ سلسلہ کلام وہی سے جوڑے کہنے لگی۔ وہ دوسری دفعہ چونکا تھا۔ تھینک گاڈ؟ اس بات پہ تھینک گاڈ کہ اس کے باپ نے کبھی اسے سر ڈھکنے کا نہیں کہا؟ عجیب لڑکی تھی یہ۔
چند لمحوں میں اس نے فیصلہ کر کیا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اسے اندر نہیں جانا۔ اسے ان لوگوں سے ابھی نہیں ملنا، اسے پہلے اپنی ”بیوی“ سے بات کرنی ہو گی۔ اسے ان سے ملنے اور ان کو اپنی طرف سےکوئی بھی امید دلانے سے قبل اس لڑکی کو جاننا اور اعتماد میں لینا ہو گا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ کسی نہ کسی طرح اسے ترکی کا اسکالرشپ حاصل کرنے سے روکنا ہے۔ اللہ، اللہ، اگر وہ ترکی آ گئی تو وہ بری طرح سے پھنس جاۓ گا۔ کیسے سنبھالے گا وہ سب کچھ؟
اس نے گردن موڑ کر لان کی میز پہ رکھے گلدستے کو دیکھا پھر کچھ سوچ کر جیب سے لفافوں کا بنڈل نکالا۔ وہ لفافہ جس پر ایک روز قبل کی مہر درج تھی، اس نے وہ علیحدہ کیا، پھر اندرونی جیب سے پین نکالا۔
چند لمحے سوچتا رہا، پھر لفافے کے اندر رکھا چوکور سفید موٹا کاغذ باہر نکالا اور اس پہ لکھا ”ویلکم ٹو سبانجی“ یہ اسے چونکانے کے لیے بہت ہو گا۔ کسی اور مقصد سے لیے گئے لفافے پہ اس کا نام لکھ کر اس نے ٹھیک سے اسے بند کیا۔
اندر وہ ابھی تک اپنی دوست کو پرسوں ہونے والی مہندی کے بارے میں بتا رہی تھی۔
وہ دبے قدموں چلتا لان میں رکھی کرسیوں تک آیا، میز پہ رکھا بوکے اٹھایا اور متلاشی نظروں سے گھر کو دیکھا۔ کدھر رکھے وہ اس کو؟ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں سب سے پہلے حیا دیکھے۔ اس کے ماں باپ نہیں۔
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نام بھی کتنا غیر مانوس تھا نا۔
اسے یہ گھر کے اندر رکھنا چاہیے۔ کچن کا ایک دروازہ عموما باہر کی طرف کھلتا ہے، شاید وہ کھلا ہو۔ یہی سوچ کر وہ گھوم کر گھر کی دوسری طرف آیا۔ کچن کا بیرونی دروازہ بند تھا لیکن ایک کھڑکی جو باہر کی طرف کھلتی تھی، اس میں سے وہ یہ بوکے اندر رکھ سکتا تھا۔ کھڑکی اس طرح سے بنی تھی کہ باہر کی طرف شیشے کے پٹ تھے اور اندر کی طرف گرل تھی۔ گرل کا ڈیزائن کچھ ایسا تھا کہ وہ بوکے اس کے اندر سے گزار کر کاؤنٹر پہ رکھا جا سکتا تھا۔ لیکن اس کے لیے پہلے شیشے کے پٹ کو کھولنا ہو گا۔
اس نے بس دو دفعہ کھینچا اور پٹ کی کنڈی اکهڑ گئی۔ دیسی چیزیں، خیر! اسے صرف پهول اندر رکهنے سے غرض تهی۔ نہایت آہستگی سے گلدستہ اور بند لفافہ گرل میں سے گزار کر اس نے کاؤنٹر پر رکها، پھر ہاتھ واپس کهینچ لیا۔ شیشے والا پٹ احتیاط سے بند کرتے ہوئے وہ پلٹ گیا۔
صبح جو بھی پهول دیکھے گا، لفافے پہ درج نام پڑھ کر ان کو حیا کے حوالے کر دے گا۔ وہ ضرور سوچے گی کہ رات کو ان کے گھر کے اندر کون پهول رکھ کر جا سکتا ہے۔ اس سے آگے کیا ہو گا، یہ اسے طے کرنا تها، لیکن جو بات اسے مطمئن کرنے کے لیے کافی تهی، وہ یہ تهی کہ وہ اس زبردستی کی ملاقات سے بچ گیا۔ ایک ان چاہے، مجبوری کے بندهن سے فرار کی مہلت میں چند دن کا اضافہ ہو گیا۔ اب وہ ممی کو کہہ سکتا تها کہ وہ اس لیے اندر نہیں گیا کیونکہ ان کی بهتیجی ترکی آ رہی ہے اور یہ بات ممی کو پریشان کر دینے کے لیے کافی تهی۔
گهر سے نکلنے سے قبل کچھ سوچ کر وہ پورچ میں کهڑی گاڑیوں کی طرف آیا تها۔
••••••••••••••••••••
فریحہ نے گردن موڑ کر کچھ اچنبهے، کچھ نخوت سے اسے دیکها۔
بولو!
میرا خیال ہے، ہم ادهر بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ پر اعتماد سی سنجیدگی سے کہتے ہوئے اس نے ہاتھ سے سڑک کنارے بنی بینچ کی طرف اشارہ کیا۔
لڑکے! میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے، جو کہنا ہے یہیں کہو۔
ٹھیک ہے۔ اب آپ میری بات سنیں۔ کندھوں کو ذرا سا اچکا کر وہ اس کے سامنے کھڑا کہنے لگا۔ آپ نے مجھے پناه گزین کی اولاد کہا تها۔
اب بھی کہتی ہوں اور بہت جلد تمہیں اس جگہ سے نکلوا کر بھی دکهاؤں گی۔ اس نے ہلکی سی استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
لیڈی فریحہ! پناہ گزین کی اولاد ہونا بہتر ہوتا ہے، اپنے شوہر کے چهوٹے بهائی کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور ہر دو روز بعد رات کے ساڑھے بارہ بجے مکینک شاپ میں وہ کرنے سے، جسے گناہ کہتے ہیں۔
اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اس نے کسی گلابی، سنہری سے انسانی چہرے کو سفید پڑتے دیکها تها- ایسا جیسے کسی نے سفید پینٹ کر دیا ہو۔ فریحہ کا سارا خون ہی نچڑ گیا۔ کتنے ہی پل تو وہ شل کهڑی رہی۔
اب آپ میری بات سنیں۔ مجھے اور میری فیملی کو اگر آپ نے یہاں سے نکلوانے کی کوشش کی تو میں آپ کے شوہر کے پاس چلا جاؤں گا اور یہ مت سوچئے گا کہ وہ میری بات نہیں مانیں گے۔ میں ان کو وہ ثبوت بهی دکهاؤں گا، جو میں نے اکٹھے کیے ہیں۔ یہ مت بھولیے گا کہ کیمرا ہر گهر میں ہوتا ہے۔
فریحہ نے شاید کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ یوں پکڑی جائے گی۔ وہ اتنی ششدر تهی کہ جوابا کچھ بھی نہ کہہ سکی۔ وہ اسے یوں ہی ہکا بکا چهوڑ کر پلٹ آیا۔ اس کا اپنا دل بھی زور سے دهک دهک کر رہا تها۔ بہت دنوں سے اس نے فریحہ کے سامنے خود پہ اعتماد قائم کیا تها اور یہ کیمرے والی بات تو ایک خالی دهمکی تهی، اس کے پاس کوئی ثبوت نہ تها۔ سامنے کوئی مرد ہوتا تو رکھ کے دو تهپڑ لگاتا اور بک جھک کر چلتا بنتا، مگر فریحہ کا غرور کچھ ایسے گهائل ہوا تها کہ وہ سنبھل ہی نہ سکی اور وہ دبی مسکراہٹ کے ساتھ واپس آ گیا-
پھر دوبارہ وہ کرامت بے کی دوکان پر نہیں گیا۔ علی کرامت کے گهر جانا بهی اس نے ترک کر دیا۔ اس کی عزت نفس کو گوارا نہیں تها کہ اب وه ان کے گهر جائے۔ لیکن اکثر اسکول سے جاتے ہوئے بس اسٹاپ پر شٹل کا انتظار کرتے وہ علی کرامت کو اپنی ڈاکٹر ممی کے ساتھ آتے دیکهتا تو پھر کافی دیر ان کو دیکهتا رہتا۔ نقاب سے بهی ان کی آنکھوں کی مسکراہٹ اور نرمی چپهتی نہ تهی۔
عمر حاقان اکثر نخوت سے کہتا نظر آتا کہ اس کی چچی ایک بدصورت، سیاہ فارم عورت ہے۔ مگر جہان کو وہ عورت بہت خوبصورت لگتی تهی۔ مرہ جمیلہ۔ اس کی مرہ جمیلہ۔ اس نے بہت عرصے بعد بالآخر ایک دن وہ مره جمیلہ والا کارڈ ان کو دے ہی ڈالا۔ وہیں بس سٹاپ پر کهڑے کارڈ پلٹ کر دیکهتے وہ بے اختیار ہنس دی تھیں۔
پھر بہت عرصہ نہیں گزرا، جب اس نے سنا، نانا کی طبیعت خراب تهی۔ ممی کو اس خبر نے بے چین کر دیا تها۔ وہ بار بار پاکستان فون کرتیں۔ اسے نا بتاتیں، مگر وہ دروازے کی اوٹ میں کهڑا سنتا رہتا۔
پلیز بھائی! مجھے اس طرح سے منع مت کریں۔ میں ابا سے ملنا چاہتی ہوں۔ بس میں اور جہان آئیں گے، کسی کو پتا نہیں چلے گا، پلیز آپ مجھے آنے دیں۔
وہ آنسو پونچھتی منت بھرے لہجے میں کہہ رہی ہوتیں۔ ایک شام اس نے ہمت مجتمع کر کے ابا کے کمرے کا ایکسٹینشن ریسیور تب اٹھایا جب ابا سو رہے تھے اور ممی لونگ روم میں بیٹھی پاکستان بات کر رہی تھیں۔ 
کوئی ضرورت نہیں سبین! بابا بالکل ٹھیک ہیں۔ تم یہاں آنے کا مت سوچو۔ دوسری طرف فرقان ماموں کہہ رہے تھے۔
مگر میرا دل کہتا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہیں۔ میں آنا چاہتی ہوں۔
ہر گز نہیں۔ تمہارے اس مفرور شوہر نے سارے زمانے میں ہمیں بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم پہلے ہی لوگوں سے اس بات پر منہ چھپاتے پھرتے ہیں کہ ہمارا بہنوئی مفرور ہے اور سیاسی پناہ لے کر رہ رہا ہے۔ اب تم آؤ گی تو ساری دنیا کیا کہے گی؟
مجھے ابا سے زیادہ کسی کی پرواہ نہیں ہے اور سکندر میرے ساتھ تو نہیں آ رہے۔ میں بس ایک دن کے لیے آ جاتی ہوں، اگر رشتہ داروں سے سامنا ہو گیا، تب بھی وہ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ابا سے ملنے آنے پر کون مجھ پر انگلی اٹھا سکتا ہے بھائی؟ممی کو ماموں کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی
میری نات سنو سبین! ہم نے تمہارے شوہر کے اس کارنامے کے بعد لوگوں سے کہہ دیا ہے کہ سکندر ذلت اور شرمندگی کے باعث ساری زندگی پاکستان کا رخ نہیں کر سکتا۔ آخر کارنامہ بھی تو کافی شرمناک انجام دیا ہے نا۔ ہم نے یہ بھی کہ دیا ہے کہ ہم نے تم لوگوں سے قطع تعلق کر لیا ہے۔
فون لائن پر چند لمحے ایک ششدر سی خاموشی چھا گئی، پھر ممی کی ڈوبتی آواز سنائی دی۔
آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں بھائی؟ میں آپ کی بہن ہوں، آپ مجھے یوں ڈس اون نہیں کر سکتے۔ ہمارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے بچوں کا رشتہ ہوا ہے۔
سلیمان کی بیٹی ابھی بہت چھوٹی ہے۔ اس رشتے کی بات بعد میں دیکھی جائے گی۔ ویسے بھی یہ تم نے اپنی خود غرضی کے باعث کیا۔ تم جانتی تھی کہ سکندر نے کیا، کیا ہے اور تمہیں ڈر تھا کہ ہم لوگ تمہیں چھوڑ نہ دیں، اس لیے تم نے یہ رشتہ کیا۔
ہاں! میں نے دکھائی خود غرضی۔ ہاں! میں نے چھبائی حقیقت۔ مگر میں نے یہ رشتہ جوڑنے کے لیے کیا۔ صرف اس لیے کہ میں آپ سے نہ کٹوں۔ اب آپ مجھے میرے باپ سے ملنے سے روک رہے ہیں۔ اس لیے کہ آپ لوگوں کے سامنے جھوٹے ثابت نہ ہو جائیں؟ ممی دبی دبی چیخی تھیں۔

اگر تم اس طرح آؤ گی تو نہ صرف ہم میں سے کوئی تمہیں لینے نہیں جائے گا، بلکہ ہم واقعتا تم سے قطع تعلق کر لیں گے اور جب ابا جان کو یہ معلوم ہو گا تو ان پر کیا گزرے گی، یہ سوچ لینا اور یہ بھی کہ اگر ان کو کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار صرف اور صرف تم ہو گی۔
بھائی! ممی کہتی رہ گئیں مگر دوسری طرف سے فون رکھ دیا گیا تھا۔ اس نے ممی کے ریسیور رکھنے کا انتظار کیا۔ پھر آہستہ سے فون رکھ کر باہر آ گیا۔ ممی صوفے پہ بیٹھی، سر ہاتھوں میں دیے، دبی دبی سسکیوں سے رو رہی تھیں۔
اس نے ٹشو کے ڈبے سے دو ٹشو نکالے اور ان کے سامنے لا کر دیے۔ ممی نے پھیکا چہرا اٹھایا۔
ممی! آپ ماموں کی بات نہ سنیں، ہم پاکستان ضرور جائیں گے۔ اگر وہ ہمیں لینے نہ آئیں گے تو ہمارے پاس ان کا ایڈریس ہے، ہم کیب کر کے ان کے گھر چلے جائیں گے۔
وہ بس نم آنکھوں سے اسے دیکھتی رہیں۔ شاید انہیں معلوم تھا کہ وہ دوسرے فون پر سب سنتا رہا ہے۔
ہم ان کے گھر جائیں گے، مگر ہم وہاں کچھ کھائے گے نہیں۔ اس نے جیسے انہیں یاد دلایا۔ وہ آنسوؤں کے درمیان ہلکا سا مسکرائیں اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ تب اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کیوں مسکرائی ہیں۔ بہت سال بعد اسے احساس ہوا کہ وہ شاید اپنے کم عمر بیٹے کی خودداری اور عزت نفس کے پاس پہ فخر سے مسکرائی تھیں۔
ممی نے ماموؤں کی ایک نہیں سنی۔ انہوں نے پیسے جوڑنے شروع کیے۔ وہ زیور جو انہوں نے اپنی بھتیجھی کے لیے رکھا ہوا تھا، وہ بھی بیچ دیا۔ اب وہ صرف روانگی کے انتظامات میں لگی ہوئی تھیں۔ ابا کی طبیعت بہت بگڑتی جا رہی تھی۔ ممی کو ان کے ساتھ کسی کے رہنے کا انتظام بھی کرنا تھا۔ ابھی روانگی میں دو دن تھے کہ ماموں کا فون آ گیا۔ نانا جان کا انتقال ہو گیا تھا۔
ممی کے لیے نانا کے انتقال کی خبر کا صدمہ اس صدمے سے کہیں چھوٹا تھا جو انہیں یہ جان کر لگا تھا کہ نانا کا انتقال اس روز نہیں، بلکہ ایک ہفتہ قبل ہوا تھا، مگر چونکہ ممی کے آنے سے ماموؤں کی عزت اور شان پہ انگلی اٹھائی جانے کا خدشہ تھا، اس لیے ان کو اطلاع ہی دیر سے دی گئی، تا کہ وہ ان کی وفات کی رسومات میں بھی شامل نہ ہو سکیں۔
وہ انٹرنیٹ کا دور نہیں تھاُ، خط اور فون کا زمانہ تھا، مگر ممی کا نمبر اور ایڈریس (بہت دفعہ گھر بدلنے اور دیگر رشتہ داروں سے رابطہ نہ رکھنے کے باعٽ) فقط ماموؤں کے پاس تھا۔ اس لیے کسی اور سے بھی اطلاع نہ پہنچ سکی۔
اس روز اس نے پہلی دفعہ اپنی بہت صبر کرنے والی مضبوط ماں کو، جن کی سسکیوں کی آواز سانس کی آواز سے اونچی نہیں ہوتی تھی، پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح روتے دیکھا۔ ان کا تو جیسے سب کچھ لٹ گیا تھا۔ ان کے پاس رونے کو بہت سے غم تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس کس بات کا ماتم کریں۔ باپ کے مرنے کا، یا بھائیوں کے رویے کا۔
دو روز تک وہ ٹھیک سے کچھ کھا بھی نہیں سکیں۔وہ بس خاموشی سے ان کے ساتھ بیٹھا رہتا تھا۔ تیسرے روز وہ علی کرامت کی ممی کو بلا لایا۔ وہ آئیں اور ممی کو تسلی دینے لگیں۔ ممی ذرا سنبھل گئیں۔ انہوں نے کھانا بھی کھا لیا۔ مگر ان کے جانے کے بعد وہ اس سے بولیں۔
سنو جہان! میرا خیال تھا کہ تم راز رکھنا جانتے ہو۔ہمارے مسئلے اور ہماری پریشانیاں بھی راز ہی ہوتی ہیں۔ ان کا دوسروں کے سامنے اشتہار نہیں لگاتے بیٹا!جو انسان اپنے آنسو دوسروں سے صاف کرواتا ہے، وہ خود کو بے عزت کر دیتا ہے اور جو اپنے آنسو خود پونچھتا ہے، وہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بن جاتا ہے۔
اس نے خفت سے سر ہلا دیا۔ یہ بات اس نے اپنے ذہن میں، دل میں اور ہاتھ کی لکیروں میں نقش کر لی کہ اسے اپنے مسئلے خود ہی، اکیلے اور تنہا حل کرنے ہیں۔کبھی بھی لوگوں کو بتا کر نہ ہمدردی لینی ہے اور نہ ہی تحسین مانگنی ہے۔
ممی نے پاکستان جانے کا ارادہ بدل دیا۔ نانا جان رہے نہیں اور جن لوگوں کے دل میں ان کی اور ان کے شوہر کی عزت و حرمت نہ تھی، ان لوگوں کے درمیان جا کر وہ کیا کرتیں؟
دوبارہ وہ اس کے سامنے نہیں روئیں، لیکن اب وہ بہت دکھی رہنے لگیں تھیں۔
ابا کی طبیٹ ان ڈراؤنے خوابوں سے بگڑنے لگی تھی، جو ان کو اب قریبا ًہر رات ستاتے تھے۔ کچھ خواب تو اسے بھی آتے تھے، مگر اس کے خواب میں اس کو ملامت نہیں کیا جاتا تھا، بس وہ آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پاک اسپائی، وہ گھوڑا، وہ فوارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سارا منظر پھر سے تازہ ہو جاتا، ایسے جیسے زخم تازہ ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں ابا کیا دیکھتے تھے، مگر وہ اکٽر راتوں کو چیخنا چلانا شروع کر دیتے تھے۔ کبھی کبھی ممی کے چہرے پہ کوئی نشان دیکھتا تو جان جاتا کہ ابا نے ہاتھ میں اٹھائی چیز ان کو دے ماری ہو گی۔ مگر ممی کوئی شکایت نہیں کرتی تھیں۔ یہ وہ سکندر احمد شاہ نہیں تھے جنہوں نے اپنے ملک سے غداری کی تھی۔ یہ ایک ذہنی مریض قابل ِرحم آدمی تھے اور اب انہیں ممی کی ضرورت تھی۔
پھر ایک عرصہ وہ ہسپتال بھی رہے، پھر جب واپس آۓ تو ان کو مستقل رکھنا پڑا۔ یہ دوائیں ان کو سارا دن خاموش اور پُرسکون رکھتیں، چاہے وہ جاگ رہے ہوتے یا سو رہے ہوتے، کچھ ہی عرصے بعد ابا ایک انسان سے ایک ایسے مریض بن گئے تھے جو کمرے تک محدود ہو گۓ۔ ہاں، ہر پندرہ، بیس دن بعد ایک دورہ ان کو پڑتا اور وہ توڑ پھوڑ کرتے، چیختے چلاتے، مگر ممی سنبھال لیتں۔ اپنے مسئلے خود ہی حل کرتے کرتے، وہ پہلے سے بہت مضبوط ہو گئیں تھیں۔
••••••••••••••••••
کرامت بے کی دکان چھوڑنے کے کچھ عرصہ بعد اس نے ایک چابی ساز کے پاس نوکری کر لی تھی۔ شام میں اب وہ اس دکان پہ جاتا جو ان کے گھر سے دس منٹ کے پیدل راستے پہ تھی۔ اگر اسے کسی کام میں مزہ آتا تھا تو وہ چابیاں بنانے میں تھا۔ کچھ عرصہ تو وہ صرف سیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ عام چابیوں کے بعد وہ چائنیز تالوں اور پیچیدہ اقسام کے سیف کی کنجی سازی سیکھنے لگا۔ اس کے پاس لائبریری سے لی گئی ان کتابوں کا ڈھیر ہوا کرتا تھا، جن میں لاک توڑنے یا کنجی سازی کے متعلق کوئی معلومات ہوتی۔بہت مہارت سے بنا کوئی ضرب لگاۓ تالا توڑنا، چاہے وہ ماسٹر کی سے یا لوہے کی پِن سے، وہ اس فن میں طاق ہوتا جا رہا تھا۔
ان سب مشغلوں کا اثر اس کی پڑھائی پہ البتہ ضرور پڑا۔ وہ کبھی بھی بہت لائق قسم کا طالب علم نہیں بن سکا۔ اس کے گریڈ ہمیشہ میڈیم رہے۔ وہ ذہین تھا، مگر اس کو پڑھائی میں دلچسپی نہ تھی۔ دوسرے کام اسے زیادہ دلچسپ لگتے تھے۔
اس کی چودھویں سالگرہ بیتے زیادہ وقت نہیں بیتا تھا۔ جب فرقان ماموں نے اطلاع دی کہ وہ اور سلیمان ماموں ترکی آرہے ہیں۔ خون، پانی سے گاڑا ہوتا ہے، اس نے یہ دیکھ لیا۔ ممی پرانی تلخیاں بھلا کر ان کے آنے کی تیاریوں میں لگ گئیں۔ انہوں نے جیسے دل سے ماموں کو معاف کر دیا تھا۔ ان کے خیال میں ماموں ان کے اس سوال کے جواب میں یہاں آ رہے تھے جو چند روز پہلے انہوں نے فون پہ ان سے پوچھا تھا کہ اگر وہ اور جہان، سکندر شاہ کو لے کر پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئیں اور ان کا مقدمہ لڑیں تو کیا ماموں ان کو مورل سپورٹ دیں گے۔ مالی مدد کا ایک ٹکا نہیں چاہئے تھا انہیں، بس ماموؤں کا ساتھ درکار تھا۔ فرقان ماموں جوابا خاموش ہو گئے تھے، پھر انہوں نے بتایا کہ وہ اور سلیمان کچھ روز تک آئیں گے، پھر اس بارے میں بات کریں گے۔
ممی کی اور بات تھی، مگر اس کا دل اپنے ماموں سے اتنا بدظن ہو چکا تھا کہ اسے ان کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہ رہی تھی۔ وہ خاموشی سے اپنا کام کرتے ہوئے ممی کو سنتا رہتا جو اب اٹھتے بیٹھتے کہا کرتیں۔
ہم پاکستان واپس ضرور جائیں گے، اتنے برس بیت گئے ہیں، لوگ بھول بھال گئے ہوں گے۔ اب یہ جلاوطنی ختم ہونی چاہیے۔ بھائی ضرور ہمارا ساتھ دیں گے۔ میرے بھائی بہت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ممی ڈھونڈ ڈھونڈ کر ماموؤں کی خوبیاں گنواتی رہتیں۔ اس نے بہت عرصے بعد انہیں اس طرح خوش اور پرامید دیکھا تھا۔ وہ انہیں کہہ نہیں سکا کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے انہیں اب دوسروں کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ انہیں اپنی کہی بات یاد رکھنی چاہیئے، مگر ممی بھائیوں کے نرم رویے دیکھ کر انہیں دوسروں کی فہرست سے نکال کر اپنوں میں لے آئی تھیں۔
اس میں ہمت نہیں تھی کہ یہ سب کہہ کر ماں کو مغموم کرے۔ ابا کا ہونا، نہ ہونا برابر تھا، مگر ممی اس کے لیے سب کچھ تھیں۔ ان کی مشقت، محنت، قربانیاں اور ایک کمزور عورت سے ایک مضبوط عورت میں ارتقا کا عمل جو اس نے عمر کی منزلیں طے کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس نے بہت دعا کی کہ ممی دکھی نہ ہوں، مگر اسے لگتا تھا کہ ممی غلط لوگوں سے امید لگا کر دکھی ضرور ہوں گی۔ لیکن جو ہوا، وہ اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
دونوں ماموں آ ہی گئے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد جب وہ برتن اٹھا کر انہیں کچن کے سنک میں دھونے کے لیے جمع کر رہا تھا تو ممی اور ماموؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو اسے صاف سنائی دے رہی تھی۔
بالکل! میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ اب تم لوگ پاکستان آ جاؤ۔ صوفے پر بہت کروفر سے بیٹھے رعب دار سے فرقان ماموں کہہ رہے تھے۔ ان کی بات پہ کچن میں کھڑا جہان تو ایک طرف، ممی بھی حی زدہ رہ گئیں۔ اتنی جلدی ماموں مان جائیں گے، ان دونوں نے نہیں سوچا تھا۔
تم لوگ ہمارے ساتھ آ کر رہو۔ وہ سب تمہارا ہی ہے سبین! پرانی باتیں بھول جاؤ! آگے کی سوچو۔ جہان کی پوری زندگی پڑی ہے۔ وہ بھی وہیں پڑھ لے گا، پھر ہائی سکول کے بعد ہم اسے باہر بھیج دیں گے، کسی بہت اچھی یونیورسٹی میں آخر وہ ہمارا بیٹا ہے اور پھر ہمارا داماد بھی تو بنے گا۔
فرقان ماموں نے کہتے ہوئے ایک نظر سلیمان ماموں پر ڈالی۔ انہوں نے تائیدی انداز میں سر کو اثبات میں جنبش دی۔ وہ ایسے ہی تھے، بڑے بھائی کے ادب میں ان کی ہر بات کی تائید کرنے والے۔
تم جہان کی زندگی کا سوچو سبین! اس کو ایک بہترین مستقبل دو، ہم اس کے بڑے ہیں، ہم اس کے باپ بن کر پالیں گے۔ 
باپ بن کر؟ وہ بالکل ٹھہر گیا۔ اس نے نل بند کر دیا۔ لاؤنج میں خاموشی تھی، مگر ایک آواز اب بھی آ رہی تھی۔ جو بند نل کے منہ سے قطرے ٹپکنے کی ہوتی ہے، جو اس کی ماں کی ساری امیدوں، خوابوں اور توقعات کے بہنے کی تھی۔ اسے ماموں کی بات ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آئی تھی، مگر کئی دن سے خود کو بہلانے والی اس کی ماں فورا سمجھ گئی تھی۔
جب ممی بولیں تو ان کی آواز میں بھائیوں کی محبت کو ترسی، رشتوں پر مان رکھنے والی عورت نہیں، بلکہ ایک خود دار عرت کی جھلک تھی، جس کے نزدیک اپنے گھر کی خود داری سب سے بڑھ کر تھی۔ 
میرے بیٹے کا باپ ابھی زندہ ہے بھائی! اور اس کی ماں کے ہاتھ بھی سلامت ہیں۔ میں خود محنت کر کے اسے پاکسان بھی لے جا سکتی ہوں اور سکندر کا کیس بھی لڑ سکتی ہوں۔ مجھے سکندر کو مظلوم ثابت نہیں کرنا، بلکہ بیماری کے باعث سزا میں کمی کی اپیل کرنی ہے اور مجھے آپ سے مورل سپورٹ کے علاوہ کچھ نہیں درکار تھا۔ 
تم ایک انتہائی ضدی عورت ہو۔ فرقان ماموں ایک دم بھڑک اٹھے تھے۔ جس مغرور اور بد دماغ آدمی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، تم اس کے پیچھے اپنی زندگی برباد کر رہی ہو؟ تم اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟
وہ آدمی میرا شوہر ہے اور بیمار ہے۔ وہ مجھ پہ انحصار کرتا ہے اور آپ کہتے ہیں، میں اسے چھوڑ دوں؟ 
اور جو اس نے کیا وہ ؟ 
اس کا فیصلہ کرنے والے میں یا آپ نہیں، عدالت ہے اور اب تو وہ بیمار ہیں۔ ان کو میں کس طرح اکیلا چھوڑ سکتی ہوں؟ نفرت گناہ سے کی جاتی ہے، گناہ گار سے تو نہیں۔ 
یعنی کہ تم اس کو ہر جرم سے بری الذمہ قرار دے رہی ہوں؟ ماموں کی آواز بلند ہو رہی تھی۔ 
میں یہ نہیں کہہ رہی، لیکن آپ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ہم نے جلاوطنی کاٹی ہے اور کئی برس کاٹی ہے۔ اب وہ بیمار ہیں۔ سکندر وہ انسان نہیں رہے جنہوں نے جرم کیا تھا، وہ صرف ایک مریض رہ گئے ہیں۔ آپ مجھ سے یہ کہہ بھی کیسے سکتے ہیں کہ میں انہیں چھوڑ دوں؟ ممی کی آنکھیں حیرت اور دکھ سے بھر گئیں۔ 
اگر تم یوں اس کا ساتھ دو گی تو تم ہر رشتہ کھو دو گی۔ سب تم سے دور ہو جائیں گے سبین! تم غلط کر رہی ہو۔ سلیمان ماموں نے دھیمے مگر افسردہ انداز میں کہا۔ 
اگر میری فیملی کو کاٹ کر سب مجھ سے خوش رہتے ہیں تو مجھے یہ خوشی نہیں چاہیے، نہ ہی ایسے رشتے۔ انہوں نے اپنی آنکھ سے ایک آنسو نہیں ٹپکنے دیا۔ رندھی ہوئی آواز میں وہ سر اٹھا کر مضبوطی سے بولی تھیں۔ 
تم ہماری بات مان لیتیں۔ سکندر سے طلاق لے کر ہمارے ساتھ چلتیں تو ہم تمہارے بیٹے کو بھی پڑھاتے اور اسے سر اٹھا کر جینے کے کے قابل بناتے لیکن اگر تم ہماری بات یوں رد کرو گی تو ہم بھی کبھی تمہارا ساتھ نہیں دے پائیں گے۔ فرقان ماموں کا انداز دوٹوک اور مزید سخت ہو گیا تھا۔ وہ ترکی فتح حاصل کرنے آئے تھے تا کہ جب بہن کو اپنے ساتھ واپس لے کر جائیں تو سر اٹھا کر لوگوں سے کہہ سکیں کہ انہوں نے ایک قابل نفرت آدمی کو اپنے خاندان سے نکال پھینکا اور پھر بہن، بھانجے کے سر پہ ہاتھ رکھنے پہ انہیں تحسین و تمغے بھی مل جائیں مگر ممی کو اپنے اور اپنے بیٹے کے لیے یہ مظلوم، ترحم آمیز کردار منظور نہ تھا۔ وہ سر اٹھا کر جینا چاہتی تھیں۔ 
پہلے بھی آپ نے کب میرا ساتھ دیا جو اگر اب نہیں دیں گے تو کوئی فرق پڑے گا۔
تم رشتوں کو کھو کر پچھتاؤ گی۔ 
میں رشتوں کو جان کر بھی پچھتا ہی رہی ہوں بھائی! کتنے ہی سیاست دان ہیں جو ملک سے غداری کر کے باہر چلے جاتے ہیں۔ مگر ان کی واپسی پہ آپ ہی ان کو ووٹ دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ امیر لوگ ہوتے ہیں ہم آپ کی نظروں میں معیوب اس لیے ہیں کیونکہ ہم غریب ہیں۔ 
ہمارے پاس ترکی میں لمبی چھوڑی جائیداد نہیں ہے۔ کوئی بہت اونچا سوشل اسٹیٹس نہیں ہے اگر ہوتا تو آپ کبھی ہم سے ہوں قطع تعلق نہ کرتے۔ 
تمہیں کیا لگتا ہے، تم یہاں رہوگی تو کیا عزت سے رہو گی؟ نہیں۔ تم ہمیشہ معیوب ہی رہو گی۔ ایک مفرور قومی مجرم کی بیوی بن کر ذلیل ہو گی ہمیشہ۔ 
فرقان ماموں غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ سلیمان ماموں بھی ساتھ ہی اٹھے۔ ان کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ بڑے ماموں سے متفق ہیں۔ البتہ ان کو اس طریقہ کار سے اختلاف تھا، لیکن وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھے۔ 
اور تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑے ماموں کی نظر کچن کے دروازے میں کھڑے اس دبلے پتلے لڑکے پہ پڑی تو انہوں نے اس کی طرف انگلی اٹھائی۔ تمہیں کیا لگتا ہے، تم یہاں عزت سے جی سکو گے؟ کبھی نہیں۔ تم ذلیل ہو گے۔ تم خوار ہو گے، کیونکہ تمہارا باپ تمہارے نام پہ ایک شرم ناک دھبہ ہے۔ تم کبھی سر اٹھا کر نہیں جی سکو گے۔ تمہارے باپ کا نام تمہارا سر ہمیشہ شرم سے جھکاتا رہے گا۔ تم کتوں کی سی زندگی گزارو گے۔ کبھی بھی عزت اور وقار سے اپنے ملک کا رخ نہیں کر سکو گے۔ 
وہ غصے میں بولتے کانپنے لگے تھے اور کانپ تو اس کا دل بھی رہا تھا۔ وہ بہت ہراساں سا دروازے کو مضبوطی سے پکڑے کھڑا تھا۔ 
بس کریں بھائی! میرے بیٹے کو یوں ٹارچر مت کریں! اس نے اپنی ماں کو اپنے سامنے آ کر کھڑے ہوتے دیکھا۔ اس کا قد اپنی ماں سے ذرا سا اونچا تھا، پھر بھی وہ اس کے سامنے ایک ڈھال تھیں۔ 
کیوں؟ اسے بھی تو پتا چلنا چاہیے کہ اس کی ماں نے اس کے لیے کتنا غلط فیصلہ کیا۔ میں نے تمہیں ایک آپشن دیا تھا، جو تمہارے بیٹے کے لئے اپنے ملک عزت سے لوٹنے کا واحد راستہ تھا، مگر وہ تم نے ٹھکرا دیا۔ تمنے اپنی ضد کی وجہ سے اس کی زندگی بھی جہنم بنا دی ہے۔
میں اس کی زندگی جہنم نہیں بننے دوں گی۔ سنا آپ نے؟ یہ سر اٹھا کر جیے گا۔ یہ میجر احمد کا پوتا ہے۔ یہ ان ہی کی طرح فوج میں جائے گا۔ مجھے آپ کی کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ میں خود بھیجوں گی اپنے بیٹے کو فوج میں اور آپ دیکھیے گا، ایک دن میرا بیٹا سر اٹھا کر ضرور جیے گا۔ اس نے اپنی نرم خو ماں کو اپنے سامنے ڈھال بن کر کہتے سنا۔
فوج؟ مائی فٹ! فرقان ماموں نے میز پہ رکھا اپنا سگریٹ لائٹر اٹھاتے ہوئے استہزائیہ سر جھٹکا۔ تم بھول رہی ہو سبین! تمہارا بیٹا ”غدار کا بیٹا“ ہے اور غدار کے بیٹے کو فوج میں کبھی نوکری نہیں ملتی۔ ارے! وہ تو اسے چھاؤنی کے قریب بھی نہیں بھٹکنے دیں گے۔ اس لئے ایسی کوشش بھی مت کرنا اور اگر کرنے کے بعد بے عزت کر کے نکالے جاؤ تو مدد کے لئے میرا دروازہ نہ کھٹکھٹانا۔ 
بات کرتے ہوئے انہوں نے اپنی شعلہ بار نگاہوں کا رخ جہان کی طرف کیا جو بالکل دم سادھے انہیں دیکھ رہا تھا۔ پھر اسی طرح انگشت شہادت اثھائے انہوں نے اسے ان آخری الفاظ سے متنبہ کیا جو ایک عمر اس کے ذہن میں گونجتے رہے تھے۔
تم لوگوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ اب جب تمہیں مدد چاہیے ہو تو ہمارے پاس مت آنا۔ ہمارا در مت کھٹکھٹانا، لیکن مجھے یقین ہے کہ تم بہت جلد پچھتاوؤں کا شکار ہو کر ہمارے دروازے پہ ضرور آؤ گے۔ اتنا کہہ کر وہ باہر نکل گئے۔ ملال زدہ سے سلیمان ماموں بھی ان کے پیچھے ہو لیے۔
ممی سر ہاتھوں میں لیے صوفے پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئیں اور وہ اسی طرح بت بنا کچن کی چوکھٹ پر کھڑا رہا۔ فرقان ماموں کے الفاظ نے اس کا اندر باہر توڑ کر رکھ دیا تھا۔اتنی ذلت، اتنی بے عزتی، کتوں کی سی زندگی گزارنے کی بد دعا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماموں نے اپنی زخمی انا کی تسکین کے لئے کیا کچھ نہیں کہہ دیا تھا۔ تب اسے لگتا تھا کہ وہ کبھی سر اٹھا کر نہیں جی پائے گا۔ وہ فوجی چھاؤنی کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتا، پاک اسپائی بننا تو پھر دور کی بات تھی۔ یہ احساس ہی اس کے سارے خوابوں کو ڈبو گیا۔ کئی دن تک تو وہ اور ممی نارمل ہی نہیں ہو سکے۔ دونوں چپ چپ سے رہتے تھے، ایک دوسرے سے نگاہیں چرائے، اپنے کام نبٹاتے رہتے، آہ! وہ بہت تکلیف کے دن تھے۔
مگر ممی روئیں نہیں۔ انہوں نے اپنا کام بڑھا لیا۔ اس نے بھی اپنے کام کا دائرہ کار بڑھا دیا۔ ابا کی بیماری بھی بڑھتی گئی۔ کبھی کبھی تو وہ بہت ہی قابو سے باہر ہو جاتے۔ چیختے چلاتے، ہاتھ میں آئی چیز دے مارتے، ان بلیو پرنٹس کا ذکر کرتے جو انہوں نے آگے بھیحے تھے۔ اس پاک اسپائی کا ذکر کرتے، جس کو انہوں نے قتل کیا تھا، مگر اب ممی اور وہ انہیں سنبھال لیا کرتے۔ بس خود کو سنبھالنے میں انہیں بہت عرصہ لگا تھا۔ کہنے والے تو کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، مگر سننے والوں کے لئے وہ باتیں ساری زندگی کے لئے ایک چبھن بن جاتی ہیں۔
وقت پھر بھی گزرتا گیا۔ باسفورس کے پل تلے پانی بہتا گیا۔ سمندری بگلے استنبول کے اوپر پرواز کرتے رہے۔
وہ ہائی اسکول کے آخری سال میں تھا، جب پیون نے آ کر اسے اطلاع دی کہ ہاؤس ماسٹر کے آفس میں کوئی ملاقاتی اس کا منتظر ہے۔ وہ الجھتا ہوا کلاس سے نکلا اور ہاؤس ماسٹر کے آفس کے دروازے تک آیا۔
اندر جیسے کوئی طوفان بدتمیزی مچا ہوا تھا۔
•••••••••••••••••••••
ہاؤس ماسٹر کے آفس کے اندر جیسے کوئی طوفان بدتمیزی مچا ہوا تھا۔ کھلی درازیں، بکھرے کاغذ، ہر چیز الٹ پلٹ پڑی تھی۔ ہاؤس ماسٹر احمت طور پریشانی کے عالم میں ایک دراز کھنگال رہے تھے۔ ان کا اسسٹنٹ دوسری دراز کی چیزیں نکال نکال کر باہر رکھ رہا تھا۔ ذرا دور رکھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کرسی پہ ایک صاحب خاموشی سے بیٹھے تھے۔
آخر چابی گئی کدھر؟ احمت بے جھنجھلا کر کہہ رہے تھے۔ جہان کی نظریں دیوار کے ساتھ لگے لاکر پر پھسل گئیں، جو مقفل تھا۔ یقیناً اس کی چابی نہیں مل رہی تھی۔
بولو! بتاؤ، اب میں ہیڈ ماسٹر کو کیا کہوں کہ میرے اسسٹنٹ کی لاپرواہی کی وجہ سے لاکر نہیں کھل رہا اور فائل نہیں نکالی جا سکتی؟ اپنی جھنجھلاہٹ اور پریشانی میں انہوں نے دروازے میں کھڑے لڑکے کو نہیں دیکھا تھا۔
سر! میں نے یہیں رکھی تھی، میں ڈھونڈ رہا ہوں۔ ابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسسٹنٹ کی بات کو فون کی گھنٹی نے کاٹا۔ اس نے جلدی سے ریسیور اٹھایا۔
ﺟﯽ، ﺟﯽ ﺳﺮ! ﺑﺲ اﺣﻤﺖ ﺑﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻓﺎﺋﻞ ﻻ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﯽ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﭧ! ﺑﻤﺸﮑﻞ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﮭﺒﺮﺍﮨﭧ ﭘﮧ ﻗﺎﺑﻮ ﭘﺎﺗﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻮﻥ ﭘﮧ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮨﺎﺅﺱ ﻣﺎﺳﭩﺮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺟﻦ ﮐﮯ ﺳﺮﺥ ﭘﮍﺗﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﮯ ﺗﺎﺛﺮﺍﺕ ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﺑﯿﺎﻥ ﮨﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺳﺮ! ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﮐﯽ ﭘﺸﺖ ﺳﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﺠﺎﯾﺎ۔
ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧﺍﺳﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﮧ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻭﮞ؟
ﮐﯿﺎ؟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﻟﺠﮭﻦ ﺩﺭ ﺁﺋﯽ۔
ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ آگے ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻻﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﯽ ﮨﻮﻝ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺳﮯ ﭼﮭﻮ ﮐﺮ ﮐﭽﮫ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ۔ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﯾﮏ ﺩﻡ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﭼﮭﺎ ﮔﺌﯽ۔ ﺳﺎﺭﯼ ﮐﮭٹر پٹر، ﻣﺘﺤﺮﮎ ﮨﺎﺗﮫ، ﺳﺐ ﭨﮭﮩﺮ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﯿﻨﭧ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﺳﮯ ﺗﯿﻦ ﭘﻨﯿﮟ ﻧﮑﺎﻟﯿﮟ، ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻟﮓ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﮟ۔ ﺁﮔﮯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﺱ نے ﻭﮦ ﭘﻦ ﺗﺮﭼﮭﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﯽ ﮨﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﯽ، ﭘﮭﺮ ﮔﺮﺩﻥ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻭﺍﻝﮐﻼﮎ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
ﻭﮦ ﺗﯿﻨﻮﮞ ﻧﻔﻮﺱ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﻡ ﺳﺎﺩﮬﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻭﮦﻧﭽﻼ ﮨﻮﻧﭧ ﺩﺍﻧﺖ سے ﺩﺑﺎﺋﮯ، ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﻮ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﺳﻤﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟﺍﻭﭘﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﯿﺴﮯ ﻣﻮﺳﯿﻘﯽ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺩﮬﻢ ﮨﻮ۔ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺳﺮﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻠﮏ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻻﮎ ﮐﮭﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﮔﺮﺩﻥ ﻣﻮﮌ ﮐﺮ ﻭﺍﻝ ﮐﻼﮎ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﻣﻨﭧ ﺍﻭﺭ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﻟﮕﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﮨﻮﺋﯽ۔ ﺷﺎﭖ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻃﺮﺯ ﮐﺎ ﺳﯿﻒ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﭘﭽﺎﺱ ﺳﮯ ﭘﭽﭙﻦ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﻟﮕﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﯿﻨﮉﻝ ﮔﮭﻤﺎﯾﺎ، ﺳﯿﻒ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺍﺩﺏ ﺳﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭧ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ۔
ﺗﻢ ﻧﮯ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﯿﺎ؟ ﮨﺎﺅﺱ ﻣﺎﺳﭩﺮ ﺷﺸﺪﺭ تھے۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page