top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر ستائیس

ﺳﺮ! ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﻨﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻭﻗﺖ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻓﺎﺋﻞ ﮨﯿﮉ ﻣﺎﺳﭩﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﺐ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﮔﯽ؟ ﮐﺴﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﭼﺎﺑﯽ ﺳﺎﺯ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺍﺯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻮﻻ۔
ﺍﻭﮦ ﮨﺎﮞ! ﻭﮦ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﺗﮯ ﺍﭨﮭﮯ۔ ﺗﻤﮭﺎﺭﺍ
ﺷﮑﺮﯾﮧ ﯾﻨﮓ ﻣﯿﻦ!
ﺍﻥ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺍﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮨﻮﺍ ﺟﻮ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺟﮩﺎﻥ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﮨﻮﮞ۔ ﺁﭖ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﺍﻧﮩﻮﮞﻧﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ۔
اﺳﮑﻮﻝ ﺭﯾﮑﺎﺭﮈ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﺟﮩﺎﻥ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﺍﺣﻤﺪ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ، ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﮐﺎ ﺳﺮ ﻧﯿﻢ ’’ﺷﺎﮦ‘‘ ﮨﮯ۔
ﺍﺣﻤﺪ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺍﺩﺍ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ، ﻣﮕﺮ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺑﺎ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﭽﮫ ﺍﺗﮭﻞ ﭘﺘﮭﻞ ﺳﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻓﺮﻗﺎﻥ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﭘﮭﺮ سے ﺗﺎﺯﮦ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﻮﮞ، ﺑﮩﺖ ﺍﺫﯾﺖ ﻧﺎﮎ ﺗﮭﺎ۔
ﮨﻢ ﺑﺎﮨﺮ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ؟ ﻭﮦ ﮐﺮﺳﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭘﻠﭧ ﮔﯿﺎ۔ 
ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺑﺎ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﺩﻭﺳﺖ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﮐﺮﻧﻞ ﺭﺅﻑ ﮔﯿﻼﻧﯽ، ﺷﺎﯾﺪ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﺳﻨﺎ ﮨﻮ؟ ﺑﺎﮨﺮ اﺳﮑﻮﻝ ﮐﮯ ﻓﭩﺒﺎﻝ ﮐﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﮯﮨﻮﺋﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻧﻔﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻏﻮﺭ ﺳﮯﺍﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
ﻭﮦ ﺳﻔﯿﺪ ﺍﻭﻭﺭ ﮐﻮﭦ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺍﭼﮭﮯ ﻗﺪ ﮐﺎﭨﮫ ﮐﮯ ﻣﮩﺬﺏ سے ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻟﮕﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﻘﺎﮨﺖ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﮯ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﺟﮭﻠﮑﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺍبا ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﺗﮭﮯ ﺗﻮﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﻣﻌﻤﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺗﮭﺎ، ﺟﺘﻨﮯ ﻭﮦ ﻟﮓ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﺳﮯ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺩﺍﺩﺍ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﯾﺎﺩ ﺁﯾﺎ ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺭﺍﺕ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺗﮭﮑﻦ ﺯﺩﮦ، ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭼﮩﺮﮦ۔
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺑﺎ ﻗﺼﻮﺭ ﻭﺍﺭ ﺗﮭﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﺳﮯ ﻓﺮﺍﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮯ ﻗﺼﻮﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻝ ﭨﺎﺭﭼﺮ ﺳﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﺳﺰﺍ ﮐﺎﭨﯽ۔ ﺗﯿﻦ ﺑﺮﺱ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻋﺰﺕ ﺑﺮﯼ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺳﺎﺭﮮ ﭼﺎﺭﺟﺰ ﮨﭧ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﭽﮯ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﯿﮟ ﻋﻼﺝ ﮐﮯ لیے ﻟﻨﺪﻥ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﺮﮐﯽ ﺁ ﺟﺎﺅﮞ۔ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﺩﯾﮑﮭﻮﮞ، ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺳﮑﻮں۔
وہ خاموشی سے سنتا رہا۔ جس شخص نے ان کی زندگی کے کئی برس برباد کیے۔ اس کے بیٹے کو وہ کیوں دیکھنا چاہتے تھے، وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
میرا بیٹا حماد بھی تمہاری عمر کا ہے۔ اس نے بھی بہت برا وقت گزارا ہے۔ میری بیوی نے بھی سزا کاٹی ہے۔ وہ بھی اتنے بے قصور تھے جتنے تم اور تمہاری والدہ۔
ہم سکندر شاہ کے گھر والے ہیں اور ہم یہ سب ڈیزرو کرتے ہیں۔ مجھے آپ کی ہمدردی نہیں چاہیے سر! اس کی آواز میں تلخی گھل گئی تھی۔
نہیں، تم یہ ڈیزرو نہیں کرتے تھے۔ جلاوطنی کی سزا سب سے اذیت ناک سزا ہوتی ہے۔ تم لوگوں نے بہت عرصہ یہ سزا کاٹی ہے۔ کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ تم سر اٹھا کر جیو، جیسے اب حماد جیے گا؟
اس کے فادر بے قصور تھے، میرے قصور وار ہیں۔ میں کبھی سر اٹھا کر نہیں جی سکتا، میں جانتا ہوں۔ وہ دونوں درخت تلے نصب ایک بینچ پر بیٹھ گئے تھے۔ سامنے سرسبز میدان تھا جس پہ سورج کی کرنیں ترچھی ہو کر پڑ رہی تھیں۔ استنبول میں سرما کا سورج ایسا ہی ٹھنڈا ہوتا تھا۔
مجھے تم سے ہمدردی نہیں ہے۔ مجھے صرف تمہارا خیال ہے۔ میں نے اپنے گھر والوں کی اذیت دیکھی ہے بچے! اور میں آج تمہاری ماں سے جب ملا تو میں نے انہیں بھی اسی اذیت میں دیکھا۔ وہ سکندر کو نہیں چھوڑ سکتیں، مگر تم تو اپنے ملک واپس جا سکتے ہو۔
میں نے اس بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ میں جانتا ہوں، میں کبھی فوج میں نہیں جا سکتا۔ مجھے وہ کبھی چھاؤنی کے قریب بھی نہیں بھٹکنے دیں گے۔ میں پھر سے ذلیل ہونے وہاں نہیں جانا چاہتا۔
وہ بہت تکلیف سے بول رہا تھا۔ فرقان ماموں کی باتیں کسی انی کی مانند ابھی تک دل میں گڑی تھیں۔
یہ تمہیں کس نے کہا کہ تمہیں فوج میں کمیشن نہیں مل سکتا؟ وہ حیران ہوئے۔
کیونکہ میں ایک غدّار کا بیٹا ہوں اور غدّار کے بیٹے کو فوج میں بھرتی نہیں کیا جاتا۔
مجھے افسوس ہے کہ تمہیں کسی نے غلط گائیڈ کیا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ میں تمہیں نامور ملکی غداروں کے نام گنوا سکتا ہوں۔ جن کے خاندان کے کتنے ہی لڑکے فوج میں کام کر رہے ہیں۔ اگر تم قابل ہو اور تم ایک دفعہ پھر سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ رکھتے ہو تو تمہیں چاہیے کہ تم اپنے ملک واپس آ جاؤ۔
وہ کتنی ہی دیر بیٹھے اسے سمجھاتے رہے کہ اسے ایک دفعہ کوشش کرنا چاہیے اور پھر ملک کے لئے قابل قدر خدمات سر انجام دے کر وہ اپنے خاندان کے نام پہ لگا دھبہ مٹا سکتا ہے۔ اچھائی برائی کو ڈھانپ دیتی ہے۔ ان کا اپنا بیٹا بھی اگلے سال آرمی میں کمیشن کے لئے درخواست دینے جا رہا تھا، وہ بھی ہائی سکول ختم کر کے ان کے پاس آ جائے اور ساتھ ہی امتحان دے۔
وہ خاموشی سے سنتا رہا۔ اگر اسے کوئی شک و شبہ تھا کہ وہ دھوکے سے اس کے باپ کو ملک واپس لے جانے اور سزا دلوانے کے لئے یہ سب کر رہے تھے تو وہ زائل ہو گیا۔ پھر بھی اس نے ان کو کوئی خاص جواب نہیں دیا۔ وہ اس نہج پہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ فرقان ماموں کی خواہش کے مطابق وہ کتوں کی طرح ذلیل ہو کر زندگی گزار تو رہے تھے، باعزت جینے کا حق ان کو نہیں تھا۔
سہ پہر میں جب وہ گھر لوٹا تو ممی نے کرنل گیلانی کی آمد کا بتایا اور یہ بھی کہ وہ ان سے اسکول کا پتہ پوچھ کر گئے تھے۔ ان کی فلائٹ شام میں تھی اور وہ آج ہی اس سے ملنا چاہتے تھے۔ پھر اس نے بھی سب کچھ بتا دیا۔
مگر میں ادھر نہیں جاؤں گا۔ مجھے فرقان ماموں کے گھر نہیں جانا۔ میں ان لوگوں سے پھر کبھی نہیں ملنا چاہوں گا۔ اس نے اپنے تئیں بات ختم کر دی تو ممی خاموش ہو گئیں۔
لیکن سوچیں خاموش نہیں ہوئیں۔ خواب خاموش نہیں ہوئے۔ وہ خواب کسی بوجھ کی طرح دل کو گھیرے رہا۔ کچھ دن بعد نیند میں وہ خود کو وہیں پاتا۔ انطاکیہ میں وہ بڑا سا دالان، فوارہ اور ساتھ کھڑا گھوڑا اور جب وہ پلٹنے لگتا تو اسے پکارا جاتا۔ شعور کی منزلیں طے کرتے کرتے وہ خواب جو آغاز میں ”خوف“ تھا اب ”دکھ“ بنتا گیا۔ جانے وہ کون تھا، اس نے اپنے ہاتھوں سے اس وجیہہ آدمی کو دفنایا تھا، مگر وہ کبھی اس کے خاندان کو نہیں تلاش کر سکے گا۔ اس کی بیوی، بچے برسوں اس کی راہ تکیں گے۔ حکومت، فوج، ایجنسی، کسی کو علم نہیں ہو سکے گا کہ وہ کہاں دفن تھا۔ جاسوس کی زندگی، جاسوس کی موت، یہی تھی جاسوس کی قسمت۔
پھر کیوں جوانوں میں یہ ہمت ہوتی تھی کہ وہ اپنی گردنیں ﷲ کے پاس رہن رکھوا دیں؟ وہ کہاں سے یہ جذبہ اپنے اندر لاتے تھے کہ بنا وردی، بنا تمغوں اور بنا ستائش کے خود کو کسی عظیم مقصد کیلئے صرف کر دیں؟ چپ چاپ اپنا فرض نبھائیں اور چپ چاپ مر جائیں؟ بلاشبہ وہ عظیم لوگ تھے اور وہ ان لوگوں میں سے کبھی نہیں ہو سکتا تھا۔ بعض دفعہ انسان اپنے خواب کسی شے میں ڈال کر ان کو سیل بند کر دیتا ہے۔ موم کی ایسی سیل جو کوئی کھول نہ سکے۔ اس نے بھی اپنے خواب مہر بند کر دیے تھے۔
یہ چند ماہ بعد کی بات تھی۔ ابھی اس کا ہائی اسکول ختم نہیں ہوا تھا کہ اسکول کا ایک ٹرپ انطاکیہ کیلئے پلان ہونے لگا۔ تاریخی اور قدیم شہر انطاکیہ جانے کیلئے تمام طلبا و طالبات بہت پرجوش تھے۔ وہ بھی تھا مگر اس کی وجہ کچھ اور تھی۔ اس کو اپنے خوابوں سے پیچھا چھڑانے کا راستہ نظر آ گیا تھا۔ ممی سے اس نے بہت اصرار سے اس فام ہاؤس کا پتا پوچھ لیا جس کے دالان میں فوارے کے ساتھ کچھ ”آثار“ ثبت تھے۔ وہ ان آثار کو کھوجنا چاہتا تھا۔ اس نے ممی کو کچھ نہیں بتایا۔ نہ ہی ابا کا راز اور نہ ہی اپنا ارادہ جو کہ اس فام ہاؤس کے مالک کو یہ کہانی سنانے کا تھا کہ وہ اس جگہ کو اکثر خواب میں دیکھتا ہے، شاید یہاں کوئی دفن ہے۔ وہ اسے راضی کر لے گا، وہ اس جگہ کی کھدائی کرے، پھر جب وہ لوگ اس پاک اسپائی کی نعش ڈھونڈ لیں گے تو وہ پاکستانی سفارت خانے اطلاع کر دے گا۔ شاید اس کی نعش واپس پاکستان بجھوانے کی کوئی سبیل نکل آئے۔
اس وجیہہ صورت پاکستانی اسپائی کو اس کے خاندان کو واپس لوٹانے کا اس سے بہتر لائحہ عمل اسے نہیں معلوم تھا۔ بلآخر وہ اس قرض کو اتار دے گا جو دادا نے کہا تھا کہ اس کے کندھوں پہ آ گرا ہے۔ بلآخر وہ ابا کے راز کے بوجھ سے نجات حاصل کر لے گا۔ اسے یقین تھا کہ وہ نعش آج بھی ویسی ہی گرم اور نرم ہو گی۔ اس کا خون اب بھی بہہ رہا ہو گا اور اس کی گردن پہ اب بھی پسینے کے قطرے ہوں گے۔ شہید مرتے تھوڑا ہی ہیں۔ وہ تو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
بہت دقتوں سے وقت نکال کر، ڈھونڈ ڈھانڈ کر اس فارم ہاؤس پہنچا۔ اندر کا راستہ اسے ابھی تک یاد تھا۔ بس اس گیٹ کو عبور کر کے ذرا آگے جا کر دائیں طرف مڑ جائے گا تو وہاں سے فوارے والا دالان صاف نظر آئے گا۔ گیٹ سے وہ جگہ نظر نہیں آتی تھی۔ ملازم نے اسے اندر آنے دیا اور فارم کے مالک کو بلانے چلا گیا۔ جہان ادھر نہیں رکا، وہ تیز قدموں اور دھڑکتے دل کے ساتھ بھاگتا ہوا آگے آیا اور عمارت کے دائیں جانب سے آ مڑا تاکہ دالان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دالان کے عین سرے پہ ٹھٹک کر رک گیا۔ پھر بے یقینی سے پلکیں جھپکیں۔ چند لمحے کیلئے ہر طرف سناٹا چھا گیا تھا۔
اس نے ہر چیز سوچی تھی، سوائے اس کے کہ آٹھ برس بیت چکے تھے۔ سامنے، جہاں پہلے کچی مٹی کا وسیع احاطہ اور درمیان میں فوارہ تھا، اب وہاں ایک گہرا اور خوب لمبا چوڑا سا تالاب تھا۔
وہ بے دم سا گھٹنوں کے بل زمین پہ آ گرا۔ تالاب؟ اتنا بڑا تالاب؟ اس کو تعمیر کرنے کیلئے تو کئی فٹ نیچے تک زمین کھودنی پڑی ہو گی، تو کھدائی کے دوران اس نعش کا کیا بنا ہو گا؟
آپ کو یقیناً خواب میں ایسا کچھ نظر آتا ہو گا، مگر یقین کریں! چار سال پہلے اس پوری جگہ کی کھدائی میرے سامنے ہوئی تھی۔ میں ایک دن بھی مزدوروں کے سر سے نہیں ہٹا اور ہم نے بہت نیچے تک زمین کھودی تھی۔ یہاں سے کچھ نہیں ملا تھا۔ انسانی لاش تو دور کی بات، کپڑے کا ٹکڑا بھی نہیں ملا۔
جب فارم ہاؤس کا مالک آیا تو اس کی کہانی سن کر بہت وثوق سے بتانے لگا۔ اس کے لہجے اور آنکھوں سے سچائی جھلک رہی تھی۔
ہاں! صرف ایک بات تھی۔ وہ کہتے کہتے ذرا رکا، اور پھر جیسے یاد کر کے بولا۔ اس جگہ کی مٹی بہت اچھی تھی۔ اس سے عجیب سی خوشبو آتی تھی۔ ایسی خوشبو جو ہم نے کبھی نہیں سونگھی تھی۔ اس کی وجہ میں شاید کبھی معلوم نہ کر سکوں۔
بہت سے آنسو اس نے اپنے اندر اتارے تھے۔ وہ خوشبو کی وجہ جانتا تھا، مگر وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ پاک اسپائی کی نعش کہاں گئی مگر یہ تو طے تھا کہ اس زندگی میں وہ کبھی نہیں جان پائے گا اور طے تو یہ بھی تھا کہ اس نے اس پاک اسپائی کو ہمیشہ کیلئے کھو دیا ہے۔
اس واقعے نے اسے ایک بات سمجھا دی تھی۔ وہ جو سمجھتا تھا کہ جاسوس لاوارث خاموشی سے مر جاتا ہے تو وہ غلط تھا۔ ﷲ بہت غیرت والا ہے۔ کسی کا احسان نہیں رکھتا۔ جو آدمی اس کے لیے جان دے دے، وہ اسے لاوارث چھوڑ دے گا؟ اس کو اپنی زمین میں باعزت جگہ بھی نہیں دے گا؟ یہ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ نہیں ہوتا تھا۔
اس روز اسے شدت سے فرقان ماموں کی باتیں یاد آئیں مگر آج ان باتوں کی تکلیف پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہوئی تھی۔ وہ کہتے تھے۔
تم ذلیل ہو گے، تم خوار ہو گے، تم کبھی سر اٹھا کر نہیں جی سکو گے۔ تم کتوں کی سی ذلیل زندگی گزارو گے۔
مگر اب بلآخر اس کے خوابوں پہ لگی موم کی مہر پگھل گئی تھی۔ سارے خواب پھر سے لفافے سے باہر آ گئے تھے۔
نہیں، وہ ان کی باتوں کو درست نہیں ثابت ہونے دے گا۔ 
وہ واپس جاۓ گا اور وہ بہت محنت کرے گا۔ اپنے ملک سے وفاداری کا عہد نبھاۓ گا۔ یوں مفرور مجرموں کی طرح ایک دوسرے ملک میں ساری زندگی چھپ کر نہیں گزار دے گا۔ اس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ وہ سر اٹھا کر کیوں نہیں جی سکتا؟ نہیں۔ وہ کتوں کی سی ذلیل و رسوا کن زندگی نہیں جیے گا۔ وہ حشر کے بڑے دن اپنے دادا کو کیا چہرہ دکھاۓ گا۔ اسے سرخرو ہونے کے لیے وہی نوکری کرنی تھی جو اس کے باپ نے کی، مگر اسے اپنے خاندان اور دادا کے نام پر سے ذلت کا دھبہ اتارنے کے لیے وہ نہیں کرنا تھا، جو اس کے باپ نے کیا۔ اس کو ثابت کرنا تھا کہ اچھائی، برائی کو رفع کر دیتی ہے۔ اور وہ یہ سب کر کے دکھائے گا۔ وہ فرقان ماموں کو یہ ثابت کر کے دکھاۓ گا کہ وہ اپنے باپ جیسا نہیں ہے۔ ایک دن آۓ گا، جب وہ ان کے سامنے سر اٹھا کر کھڑا ہو گا۔ وہ اس دن سرخرو ہو جاۓ گا، اس کی ماں اور دادا سرخرو ہو جائیں گے۔
اپنے تمام تر عزم و ہمت کے باوجود ایک بات طے تھی۔ اگر وہ پاکستان جاۓ گا تو کرنل گیلانی کے پاس جاۓ گا، یا کسی اور کے پاس یا فٹ پاتھ پہ رات بسر کر لے گا مگر ماموؤں کے گھر نہیں جاۓ گا۔
تم نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ اب جب تمہیں مدد چاہیے ہو تو ہمارے پاس مت آنا۔ ہمارا در مت کھٹکھٹانا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ تم بہت جلد پچھتاوؤں کا شکار ہو کر ہمارے دروازے پہ ضرور آؤ گے۔ یہی کہا تھا نا انہوں نے۔ اب اس کی عزت اسی میں تھی کہ وہ ماموں کی طرف نہ جاۓ۔ اس کےلیے یہ عزت نفس کا مسئلہ تھا، مگر ممی یہ سب کسی اور وجہ سے چاہتی تھیں۔
میں ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ تم بھی فوج میں جاؤ اور میں تمہارے اس فیصلے پہ بہت خوش ہوں مگر میں نہیں چاہتی کہ تمہارے ماموں اس بارے میں کچھ جانیں۔ میں اپنے بھائیوں کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ وہ اس چیز کو اپنی شکست سمجھتے ہوئے ہر ممکن کوشش کریں گے کہ تمہیں کامیاب نہ ہونے دیں۔ تم ان کے سہارے کہ بغیر کچھ بن جاؤ، اور سب سے بڑی بات، آرمی میں کوئی عہدہ پا لو، وہ یہ کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ وہ تمہارے خلاف ہو کر تمہیں اپ سیٹ کر دیں گے۔
پھر ہم اسے راز کیسے رکھیں گے؟
اس کی بات پہ ممی مسکرائی تھیں۔
کم آن جہان! تمہیں راز رکھنے آتے ہیں۔
مگر انہیں پتا چل جاۓ گا ممی!
دیکھو! ایک نہ ایک دن ان کو پتا لگنا ہی ہے، مگر تب تک تمہیں اس قابل ہو جانا چاہیے کہ تم ان کے سامنے سر اٹھا کر کھڑے ہو سکو۔ ویسے بھی ہر سال سیکڑوں کیڈٹ بھرتی ہوتے ہیں، تمہارے ماموں کو کیا معلوم کہ ان کے نام کیا ہیں اور وہ کون ہیں؟
اس نے اثبات میں گردن ہلا دی۔ یہ اتنا مشکل بھی نہیں تھا، جتنا وہ سمجھ رہا تھا۔
ہمارا استنبول میں کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔ حلقہ احباب بھی تھوڑا سا ہے۔ میں سب کو کہہ دوں گی کہ تم انقرہ گئے ہو، وہاں کالج میں داخلہ لے لیا ہے۔
نہیں! انقرہ میں سلجوق عمران کے کزنز پڑھتے ہیں، وہ میرے ہم عمر ہیں، انقرہ کہا تو پول کھل جاۓ گا۔ یونان ٹھیک رہے گا۔ ممی نے نم مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔
ہاں، تمہیں راز رکھنے آتے ہیں۔
ممی کے بقول، ماموں کے آس پاس خاندان میں دور دور تک کوئی فوج میں نہ تھا۔ وہ سب کاروباری لوگ تھے۔ ان کے حلقہ احباب میں اگر کوئی آرمی فیملی تھی بھی تو سکندر شاہ کے مشہور زمانہ کیس کے بعد فرقان ماموں وغیرہ اب ان سے احتزاز برتتے تھے۔ کرنل گیلانی ویسے بھی لاہور میں رہائش پزیر تھے، یوں جب وہ پاکستان گیا تو اسے اپنے ماموں کے شہر نہیں جانا پڑا تھا۔
ان سب احتیاطی تدابیر کے باوجود اسے علم تھا کہ جلد یا بدیر فرقان ماموں جان لیں گے کہ وہ ادھر ہی ہے اور اس وقت کو سوچ کر وہ خوف زدہ ہو جاتا تھا۔ ممی کے سامنے وہ ہمیشہ یہی ظاہر کرتا تھا کہ وہ یہ سب اپنی انا کے لیے کر رہا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ تھی، کہ اس کی عزت نفس مجروح ہوئی تھی، مگر یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ وہ اپنے ماموؤں کے سامنے خود کو کمزور محسوس کرتا تھا۔ وہ واقعی ان کے سامنے سر نہیں اٹھا سکتا تھا۔ اسے یہی خوف تھا کہ وہ اسے اس کے باپ کا طعنہ دیں گے اور وہ ایک دفعہ پھر ٹوٹ جائے گا۔
رؤف گیلانی بہت اچھے اور دھیمے مزاج کے حامل انسان تھے۔ وہ ان کی بہت قدر کرتا تھا۔ اس کے باپ کی ساری زیادتیاں نظر انداز کر کے انہوں نے اسے اپنے گھر جگہ دی اور پھر ہر موقع پہ اس کی مدد کی۔ صرف مالی مدد ان سے نہیں لیتا تھا، مگر اخلاقی طور پر وہ ہمیشہ اس کا سہارا بنے رہے۔ وہ اور حماد اکٹھے کیڈٹ بھرتی ہوۓ تھے اور ترقی کی منازل انہوں نے اکٹھے طے کی تھیں۔ وہ سکندر شاہ غدار کا بیٹا ہے، یہ بات کبھی بھی اس کے لیے تازیانہ نہیں بنائی گئی۔ اب رؤف گیلانی، ان کی بیگم ارسلہ، حماد اور اس کی چھوٹی بہن نورالعین (عینی) اس کے لیے دوسری فیملی کی طرح تھے۔ چھاؤنی میں عمومی طور پہ آپ کے اپنے کردار اور اعمال کو پہچان کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، نہ کہ آپ کے پرکھوں کے کردار اور اعمال کو۔ اس نے اپنا نام جہاں ایس احمد لکھنا شروع کر دیا۔ زیادہ تر وہ اپنے سر نیم احمد کے ساتھ ہی پکارا جاتا تھا مگر جب کبھی پورا نام لکھنا یا بتانا ہوتا، وہ جہان سکندر احمد ہی لکھا اور بتایا کرتا۔ 
کرنل گیلانی کہتے تھے، مسلمان اپنی زندگی میں اپنے باپ کے نام سے ہی پکارا جانا چاہیئے اور باپ کا نام اسے کبھی اپنے نام کے آگے سے ہٹانا نہیں چاہیئے، چاہے باپ جیسا بھی ہو۔ بہت عرصے بعد اس نے بلآخر اپنے احساس ِکمتری کو دبا لیا تھا۔رشتے ختم نہیں کر سکا تھا۔ختم کرنے اور دبانے میں خلیج جتنا فرق تھا، اور یہی فرق اس کی ذات میں ایک خلیج چھوڑ گیا تھا۔
وہ چلا گیا تو ممی نے مصلحتا ً ماموؤں سے ٹیلی فونک رابطہ استوار کر لیا، تا کہ اگر کبھی وہ یہ خبر جان لیں تو ممی کو معلوم ہو جاۓ اور ایک دفعہ فرقان ماموں نے باتوں باتوں میں کہہ بھی دیا کہ کسی نے ان سے استفسار کیا تھا کہ کیا کرنل سکندر کا بیٹا لاہور میں پوسٹڈ ہے؟ تو جواباً ماموں نے بہت فخر سے بتایا کہ ذلت و شرمندگی کے مارے سکندر شاہ کا خاندان کبھی بھی پاکستان کا رخ نہیں کرے گا۔ آخر کارنامہ بھی تو خاصا شرمناک سرانجام دیا تھا انہوں نے۔ وہ کوئی اور جہان ہو گا۔
ممی خاموش ہو گئیں، پھر انہوں نے ماموں کو یہی کہا کہ وہ کوئی اور ہی ہو گا۔ماموں کے ذہن میں ایک غلط تصوّر قائم تھا کہ غدار کا بیٹا فوج میں کبھی بھرتی نہیں ہو سکتا، اس لیے انہوں نے اس معاملے کی چھان پھنک نہیں کی۔ شاید کچھ عرصہ بعد وہ جان بھی لیتے، مگر تب تک اس کا تبادلہ وہاں ہو گیا، جہاں کبھی کوشش کرنے سے بھی پوسٹ نہیں ملتی اور جو خود کو "خفیہ والوں" میں شامل کروانے کی رتی بھر بھی کوشش نہ کرے، وہ وہاں بھیج دیا جاتا ہے۔ اب اس جاب کی ضرورت تھی کہ وہ اپنا سوشل سرکل محدود رکھے۔ منہ بند اور آنکھیں و کان کھلے رکھے اور اپنے کام کو بھی خفیہ رکھے۔
بالآخر وہ پچیس برس کی عمر میں، چھ ماہ کی ٹریننگ، چار ماہ دس دن میں مکمل کر کے ایک ایجنٹ بننے جا رہا تھا۔ "پاکستانی جاسوس" جس کا وہ ہمیشہ خواب دیکھا کرتا تھا۔ اب اسے امید تھی کہ شاید وہ برسوں دیکھا خواب اسے دکھائی دینا بند ہو جائے۔ گو کہ اس کی شّدت میں کمی آ چکی تھی مگر بہرحال وہ اب بھی اس کے ماضی کا آسیب بن کر اس کے ساتھ تھا۔
فوج اور ایجنسی میں (اس زمانےمیں) آپ کا ایک ہی ہدف، ایک ہی دشمن، ایک ہی تعصب، ایک ہی نفرت کا منبع ہوتا تھا۔
!.‏Dear Neighbours۔
جس رات اسے پہلی دفعہ غیر قانونی طور پر بھارت جانا تھا، اس سے پچھلے روز اس کے انسٹرکٹر کی موجودگی میں، مروجہ اصول کے مطابق ڈاکٹر نے اس کی داہنی طرف کی ایک ڈاڑھ نکال کر اس کی جگہ ایک خاص پلاسٹک کی بنی مصنوعی ڈاڑھ لگا دی تھی جس میں سائنائڈ سے بھرا کیپسول تھا۔
سائنائڈ جو کنگ آف پوائزنز تھا۔ یہ کیپسول ایک شیشے کے خول میں بند تھا اور زبان کی مدد سے باہر نکل آتا تھا۔اگر غلطی سے نگل لیا جائے تو جب تک شیشہ نہ ٹوٹے، یہ بہ آسانی کوئی نقصان دیئے بغیر جسم سے گزر جاتا ہے۔ لیکن اگر چبا لیا جائے تو شیشہ ٹوٹ جائے گا اور انسان چند پل میں مر جائے گا۔ یہ اس لیے تھا کہ اگر کبھی وہ گرفتار ہو جائے اور تشدد برداشت نہ کر سکے اور اسے خدشہ ہو کہ مزید تشدد کی صورت میں وہ اپنے راز اگل دے گا، تو بہتر تھا کہ وہ اپنی زہر بھری ڈاڑھ کو نکال کر چبا لے اور خاموشی سے جان دے دے۔
یہ اس سے بہتر تھا کہ وہ تفتیشی افسران کے سامنے بولنا شروع کرے، اپنے ساتھیوں کی جان خطرے میں ڈالے اور ملک کو نقصان پہنچائے۔ مر جانا، راز اگل دینے سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔
وہ سوا سال انڈیا میں ایک دوسری شناخت کے ساتھ رہا۔کور شناخت وہ جعلی شناخت ہوتی ہے جس کے زریعے جاسوس اس معاشرے میں متعارف ہوتا ہے۔ ہر کور کے ساتھ ایک لیجنڈ بھی ہوتا ہے۔
لیجنڈ اس فرضی ماضی کو کہا جاتا ہے جو اس جعلی کور کے پیچھے گھڑا جاتا ہے۔ مثلا یہ آدمی کہاں پیدا ہوا۔
آدمی کہاں پیدا ہوا، کہاں سے گریجویٹ ہوا، سابقہ بیوی کا نام، وغیرہ وغیرہ۔
آپ کے پیچھے آپ کی ایجنسی اس لیجینڈ کو اتنے اچھے طریقے سے نبھاتی ہے کہ اگر کوئی آپ کے بارے میں تحقیق کرنے نکلے تو اس کو آپ کی جائے پیدائش کے ہسپتال میں آپ کا نام رجسٹر میں لکھا بھی مل جائے گا۔ گریجویشن سرٹیفکیٹ بھی وہ دیکھ لے گا اور آپ کی سابقہ بیوی سے ملاقات بھی ہو جائے گی۔ یہ سب تاش کے پتوں کے گھر کی مانند ہوتا تھا، جس کو بعض دفعہ ایک پھونک ہی اڑا کر بکھیر دیتی تھی۔ اس چیز کو ایجنٹ کا کور بلو (Cover Blow) ہونا کہتے تھے۔
سوا سال اس کا اپنی ماں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اس کا پاکستان میں صرف ایک شخص سے رابطہ تھا، جو اس کے "باس" تھے۔ وہ لوگ اپنا باس اس کنٹرولر یا ہینڈلر کو کہتے تھے جو ہمہ وقت جاسوس سے رابطے میں رہتا تھا۔ ممی کو کوئی پیغام دینا ہوتا تو باس تک پہنچاتیں اور وہ اس تک پہنچاتے۔ باس کی ہر بات ماننا فرض تھا۔ بعض دفعہ اچھے بھلے حالات میں بھی دو دو ماہ خاموشی سے گھر میں بیٹھنے اور اپنی سرگرمیاں محدود کرنے کا حکم ملتا اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کرنا پڑتا۔ بعض دفعہ مسلسل کام کرنا ہوتا، بس جو ادھر سے حکم آئے، وہی کرنا ہوتا تھا۔ ہوتے ہیں نا کچھ لوگ جو اپنی گردنیں اللہ کے پاس رہن رکھوا دیتے ہیں۔ اس نے بھی رکھوا دی تھی۔
اور اپنی گردن رہن رکھوانا کیا ہوتا ہے، یہ اس کو تب علم ہوا تھا، جب سوا سال تک ریزیڈنٹ اسپائی کے طور پہ کام کرنے کے بعد ایک دن بہت اچانک وہ گرفتار ہو گیا تھا۔
••••••••••••••••••
اس نے ہمیشہ گرفتاری کے امکان کو مد نظر رکھا تھا مگر "را" کی تحویل اور تشدد کیا ہوتا ہے، یہ اسے تب معلوم ہوا جب اس نے خود کو ان کی حراست میں پایا۔
ایک مقامی بینک کے باہر وہ اپنے مقررہ وقت پہ ”دوست“ سے ملنے آیا تھا۔ دوست سے مراد اس کا کوئی فرینڈ یا عزیز نہیں جس سے اس کی دوستی تھی بلکہ وہ اپنے ملک کے ایحنٹس کو ”دوست“ کہا کرتے تھے۔ اس مقامی دوست کو اس تک چند اشیاء پہچانی تھیں۔ وقت جگہ سب کچھ دوست کا مقرر کردہ تھا۔ وہ پہلے بھی اس ساتھی جاسوس سے کئی بار مل چکا تھا۔ وہ تیس بتیس برس کا خوش شکل سا پاکستانی تھا، جو بھارت میں بھارتیوں کی طرح ہی رہ رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر کبھی جہان کو نہیں لگا تھا کہ یہی دوست اس کو یوں دھوکا دے گا۔
وقت مقررہ پر اسے بلا کر وہ خود نہیں آیا۔ وہ اس جگہ کے قریب ہی انتظار کرتا رہا، جب تک دوست نے نہیں آجانا تھا، وہ ادھر سے نہیں جا سکتا تھا، مگر پھر ایک دم سے پیچھے سے کسی نے اس کے سر پہ کچھ دے مارا اور وہ ضرب اتنی شدید تھی کہ وہ چند لمحے کے لئے واقعتاً سنبھل نہ سکا اور بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چند لمحے اسے زندگی کے بد ترین دور میں لے گئے۔
را کی تحویل جہنم سے بھی بدتر تھی

را“ کی تحویل جہنم سے بھی بدتر تھی۔
وہ اس کے بے ہوش ہوتے وجود کو گھسیٹتے، دھکیلتے اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ہاتھ، آنکھیں سب باندھ دیا تھا۔ وہ اندھا، مفلوح ہو کر رہ گیا تھا۔ وہ اتنے سارے اہلکار تھے اور وہ اکیلا تھا۔ وہ ان سے نہیں لڑ سکتا تھا۔ اس پہلی ہی ضرب نے اسے بے بس کر دیا تھا۔
کہیں کسی عمارت کے اندر ایک کال کوٹھڑی نما سیل میں لے جا کر اس کی آنکھوں سے پٹی اتاری گئی، پھر ایک آفیسر نے اس کو بالوں سے پکڑ کر چہرہ اونچا کیا، منہ پہ لگی ٹیپ اتاری اور پلاس کی قسم کے آلے سے اس کے ہر ایک دانت اور داڑھ کو باری باری کھینچا۔ جیسے ہی وہ آلہ نقلی داڑھ پہ آیا، زہر بھری داڑھ کھینچ کر الگ ہو گئی۔
یہ نقلی داڑھیں لگانے کا طریقہ دنیا کی ہر انٹیلی جینس ایجنسی میں پایا جاتا ہے، سو ہر ایحنٹ کو گرفتار کرتے ہوئے وہ سب سے پہلے اس کی داڑھ الگ کرتے ہیں۔ سو انہوں نے پاکستانی جاسوس کو گرفتار کرتے ہی سب سے پہلے اس کا فرار کا واحد راستہ ختم کیا، پھر دوبارہ سے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے اپنے ساتھ چلاتے باہر لے گئے
ایسی جیلوں میں قیدی کے فرار کا ہر امکان ختم کرنے کے لئے، کہ کہیں وہ تفتیشی سیل سے اپنے سیل کا فاصلہ اور سمت نہ جان لے اور اس طرح فرار ہونے کا کوئی منصوبہ ترتیب دے لے، اسے ہر چند قدم کے بعد لٹو کی طرح گھمایا جاتا تاکہ وہ سمت کھودے اور پھر وہ آگے چلاتے۔ اسے تربیت کے دوران بتایا گیا تھا کہ ایسے میں کیا کرنا چاہئے۔ اپنے قدم گننے چاہئیں، اور آس پاس کی خوشبو سونگھنی چاہئے۔ آوازیں سننی چاہئیں۔ اس نے یہی کیا۔ ہر طرف کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی آواز تھی۔ پھر حب قریباً ساٹھ قدم ہو گئے تو وہ اسے ایک کمرے میں لائے، کرسی پہ بٹھایا اور ہاتھ پاؤں کرسی کے ساتھ باندھے پھر آنکھوں سے پٹی اتاری۔
تاریکی سے تیز روشنی۔ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ سامنے میز پہ ایک بڑے ریفلیکٹر میں لگا بلب روشنی کے ٹارچر کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔ اس کی روشنی سے آنکھوں میں تکلیف ہوتی تھی۔ اس نے بے اختیار چہرہ پیچھے کر کے آنکھیں سکیڑیں اور سامنے دیکھنا چاہا۔ میز کے اس پار ایک آدمی کرسی پر بیٹھا تھا جو اپنے حلیے سے کوئی اعلٰی افسر لگتا تھا۔ میز پہ ایک ہینٹر سے ملتی جلتی چیز بھی رکھی تھی۔
ایک طرف دیوار میں شیشہ لگا تھا۔ جہان نے ذرا سی گردن موڑ کر ادھر دیکھا، اسے اس آئینے میں اپنا عکس نظر آیا تھا، مگر وہ جانتا تھا کہ یہ اس کی طرف سے آئینہ تھا، جب کہ اس کی دوسری طرف یہ شیشے کا کام دے رہا تھا۔ یعنی اندر بیٹھے آدمی کو اس میں اپنا عکس نظر آئے گا، لیکن جو آفیسرز اور سائیکاٹرسٹ اس شیشے کے پار کھڑے ہوں گے، وہ اس کو شیشے کی طرح استعمال کرتے ہوئے اس میں سے اندر کا منظر دیکھ رہے ہوں گے۔
وہاں ہونے والی تمام گفتگو انگریزی میں ہوتی تھی۔ انہوں نے اس پہلی گفتگو میں اس کو بتایا کہ اس کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان کی جیلوں سے مردہ یا اپاہج ہو کر ہی لوگ نکلتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ پاک اسپائی (پاکستانی جاسوس) ہے، اس لیے وہ سب سچ سچ بتا دے۔ اس صورت میں وہ اس کے ساتھ رعایت برتیں گے۔
وہ جانتا تھا کہ اس کی گرفتاری دوست کے کہنے پہ عمل میں آئی ہے، اور صاف ظاہر تھا کہ وہ بخوبی واقف ہیں کہ وہ جاسوس ہے لیکن اس کے پاس جو اسمگلر والا کور تھا، ( کہ وہ ایک اسمگلر ہے اور اس دوست نے کسی پرانے بدلے کے باعث اسے جاسوس کہہ کر پھنسوایا ہے) وہ کور اسے اب مرتے دم تک قائم رکھنا تھا۔
اس کا انٹرویو شروع ہو چکا تھا۔
نام؟ فرید حیات۔
قومیت؟ پاکستانی۔ 
دین؟ اسلام۔
شہر؟ سیالکوٹ۔
کس نے تربیت دی؟
جدّی پشتی اسمگلرز ہیں ہم، ہمارے باپ دادا ہماری تربیت کرتے ہیں۔ اس نے اپنی ازلی بےنیازی سے کہا۔
میں بھی جانتا ہوں اور تم بھی جانتے ہو کہ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ ایک موقع اور دیتا ہوں۔ اس رعب دار آفیسر نے غصے سے کہا تھا۔ بتاؤ، بھارت کس لیے آئے تھے؟
ہیروئن اسمگلنگ کے لیے۔
افسر اٹھا، اور وہ شے اٹھا کر پوری قوت سے اس کے سر پہ ماری۔ ایک، دو، تین پوری تین ضربوں کے بعد اس کا دماغ جیسے گھوم گیا۔ وہ سر کے پچھلے حصے میں پڑنے والی بدترین ضرب تھی۔
ہاں اب بولو! کس لیے آئے تھے؟
تمہاری ماں سے ملنے۔
ایک دفعہ پھر اس آدمی نے اس کے سر پہ وہ چیز ماری۔ ایسے لگتا تھا جیسے کھال تک کٹ گئی ہو۔ اذیت ہی اذیت تھی۔ وہ کرسی پہ پیچھے بندھے ہاتھوں کے ساتھ، آنکھیں سختی سے میچے ذرا سا کراہا تھا۔
درد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تکلیف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلن۔
اب بتاؤ! کس لیے آئے تھے؟ وہ پھر پوچھ رہے تھے۔
ہر بار اس نے وہی جواب دیا۔ ان گنت دفعہ انہوں نے سوال دہرایا اور اتنی ہی ضربیں اس کے سر پہ پڑیں۔ پھر وہ بے ہوش ہو گیا۔
جب ہوش آیا تو واپس اپنے سیل میں زمین پہ لیٹا تھا۔ سر اتنا دکھ رہا تھا کہ لگتا تھا ابھی پھٹ جائے گا۔ کنپٹی کے قریب سے خون نکل کر چہرے پہ جم گیا تھا۔ سر میں گومڑ اور جسم پہ کئی جگہ نیل تھے جیسے اس کے بے ہوش ہونے کے باوجود انہوں نے تشدد ختم نہیں کیا تھا۔ 
اس نے آنکھیں بند کیں تو وقت جیسے کئی برس پیچھے استنبول پہنچ گیا۔ وہ ہاتھ میں پکڑی روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بگلوں کی طرف اچھالتے ہوئے سمندر کنارے چل رہا تھا۔ دادا بھی ساتھ تھے۔ وہ ہمیشہ کی طرح آگے نکل گۓ تھے۔ پھر ایک دم وہ پیچھے مڑے اور اسے دیکھ کر مسکرائے۔
کل تمہاری ماں کی سالگرہ ہے۔ اسے تو یاد بھی نہیں ہو گا۔ ہر وقت کاموں میں جو الجھی رہتی ہے۔ یوں کرتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی تحفہ لے جاتے ہیں۔
ٹھیک۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
مگر اس کو بتانا نہیں۔ کل اسے سرپرائز دیں گے۔ نہیں بتاؤ گے نا؟ پھر رک کر انہوں نے مسکراتے ہوۓ پوچھا۔ کیا تمہیں راز رکھنے آتے ہیں جہان؟
جہان نے آنکھیں کھولیں۔ ٹھنڈے فرش پہ دکھتے جسم کو اس نے محسوس کیا اور دھیرے سے بڑبڑایا۔ مجھے راز رکھنے آتے ہیں دادا!
اس کا وہ بدترین درد جو پھر ہمیشہ اس کے ساتھ رہا تھا، اس کا آغاز اسی جیل سے اسی روز ہوا تھا۔
پھر چند گھنٹے بیتے تو ایک ڈاکٹر آ گیا۔ اس نے اس کے زخموں پہ دوا لگائی۔ کھانے کو اسپرین کی دو گولیاں دی اور چند مزید درد کی دوائیں اس اینٹ کے ساتھ رکھ دیں جس کو تکیہ بنا کر وہ فرش پہ آنکھیں موندے لیٹا تھا۔ رات میں وہ ڈاکٹر دوبارہ آیا۔ اب کی بار اس کی موجودگی میں ہی چند تفشیشی اہلکار اسے اپنے مخصوص کمرے میں لے جانے کے لیے آۓ تو ڈاکٹر نے انہیں سختی سے جھڑک دیا۔
تم دیکھ نہیں رہے، اس کا سر کیسے زخمی ہے۔ مجھے اس کو زندہ رکھنے کا حکم ہے، میں اس کو زندہ رکھوں گا۔ اپنی تفتیش بعد میں کرنا۔ آج تم نے اس کو مزید ٹارچر کیا تو یہ مر جاۓ گا۔
جہان نے ذرا کی ذرا آنکھیں کھول کر ڈاکٹر کو دیکھا جو ان اہلکاروں پر غصہ ہو رہا تھا۔ وہ بڑبڑاتے ہوۓ واپس ہو لیے۔ ڈاکٹر اب تاسف سے سر جھٹکتا اس کے سر کی پٹی کرنے لگا تھا۔
یہ انسان نہیں ہیں، درندے ہیں۔ وہ ساتھ ہی زیر لب انگریزی میں کہہ رہا تھا۔ جہان بس اپنی نڈھال، نیم وا آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا۔
تم فکر مت کرو، میں تمہاری ہر ممکن مدد کروں گا۔ پھر وہ اس کے قریب جھکتے ہوئے دھیمی آواز میں بولا۔ میں مسلمان ہوں۔ اگر تمہیں قرآن یا جاۓ نماز چاہیۓ تو اس کا بھی بندوبست کر دوں گا۔
جہان چند لمحے خاموش نظروں سے اسے دیکھتا رہا، پھر بولا۔
کیا تم مجھے سورۃ الایمان لا کر دے سکتے ہو؟
ہاں، بلکہ میں تمہیں پورا قرآن منگوا دیتا ہوں۔
منگوا دو۔ وہ ہولے سے مسکرایا اور آنکھیں پھر سے موند لیں۔
کیسا مسلمان تھا یہ ڈاکٹر جسے یہ تک معلوم نہ تھا کہ قرآن میں الایمان نام کی کوئی سورۃ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گدھا نہ ہو تو۔ وہ جانتا تھا کہ یہ مجرموں، خصوصا جاسوسی کے مجرموں کی تفتیش کا پرانا طریقہ تھا۔ ایک آفیسر آپ پہ بے حد سختی اور ٹارچر کرتا ہے، جبکہ دوسرا آپ کی طرف داری کرتا ہے۔ خود کو آپ کا ہمدرد ثابت کر تا ہے، تا کہ ایسے حالات میں جب انسان کو اپنے قریب کوئی نظر نہ آۓ، وہ خود کو مدد کے لیے آنے والا فرشتہ ثابت کرے اور اہم معلومات اگلوا لے۔
بہرحال اسے اردو ترجمے والا قرآن، نماز والی ٹوپی اور جاۓ نماز لا دی گئی۔ وضو کا پانی بھی دیا گیا۔ یہ اس کال کوٹھڑی کا واحد روزن تھا ورنہ دو دن بہت تاریک تھے۔ اپنے ملک سے دور ایک دشمن ملک میں دشمنوں کے درمیان زخمی ہو کر قید رہنا، دنیا کا سب سے تکلیف دا امر تھا۔
وہ روزانہ اس کو تفتیشی کمرے میں لے جاتے۔ کبھی بازوؤں کے درمیان راڈ پھنسا کر دیوار سے لگا کر پیٹا جاتا، کبھی الٹا لٹکا کر سر گرم پانی کی بالٹی میں ڈبویا جاتا۔ اس کے پاس کہنے کو بس ایک ہی بات تھی۔
۔I am not a spy
(میں جاسوس نہیں ہوں)
وہ چونکہ ایک دوست کے ہاتھوں پکڑوایا گیا تھا، اس لیے ان کو اس بات میں قطعاً کوئی شک نہ تھا کہ وہ جاسوس نہیں ہے۔ ان تکلیف دہ، پرتشدد دنوں میں جہان نے اس ساتھی ایجنٹ سے بہت نفرت کی تھی جس نے چند پیسوں کے لیے اسے اور نا جانے کتنے لڑکوں کو پکڑوایا تھا۔ اس نے واقعتاً قسم اٹھائی کہ زندگی میں اگر کبھی اسے موقع ملا تو وہ اس آدمی سے بدلہ ضرور لے گا، لیکن یہ موقع کبھی اسے ملا نہیں تھا۔ وہ اپنے اس دوست کا نام جانتا تھا، نہ ہی کوئی دوسری شناخت اور اس دنیا کے ساڑھے چھ ارب انسانوں میں وہ اس ایک آدمی کو تلاش نہیں کر سکتا تھا۔ ہاں اگر کبھی وہ واپس جا سکا تو اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے کو کوشش کرے گا۔ یہ الگ بات تھی کہ ایسی کوششیں عموماً کامیاب نہیں ہوا کرتیں اور یہ بھی کہ واپسی ان دنوں بہت ناممکن سی چیز لگتی تھی۔ 
قریباً بارہ دن بعد اس نے سورج اس وقت دیکھا جب وہ اسے اس کے سیل سے نکال کر باہر برآمدے میں لائے، جہاں لوہے کے بڑے بڑے بلاک تپتی گرمی میں تپ رہے تھے۔ وہ اس کو باری باری ان بلاکس پہ لٹاتے تھے۔ جلن، آگ، تپش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جلنے سے بڑا بھی کوئی عذاب ہو سکتا ہے بھلا؟ اس کی انا اور مردانگی کو گوارا نہ تھا کہ ان لوگوں کے سامنے اس کے لبوں سے اف تک نکلے، مگر بعض اوقات کراہنے اور درد سے بلبلا اٹھنے سے وہ خود کو روک نہیں پاتا تھا۔ تب اسے بہت غص ، بہت بےبسی محسوس ہوئی تھی۔ 
مگر ایک بات طے تھی۔
۔He will not sing 
(وہ اپنی زبان نہیں کھولے گا!)
پھر وہ اندھیر دن اور رات اس کے اندر سے ہر چیز آہستہ آہستہ نگلنے لگے۔ اپنی ذات کا وقار اور عزت نفس تو وہ کھو چکا تھا، پھر جب ہر روز وہ اسے بے پناہ تشدد کر کے نیم جان حالت میں سیل کے سخت فرش پہ پھینک کر چلے جاتے تو اندر موجود ہر جذبہ فرش کی گرمی میں بھسم ہونے لگتا۔ جیل جانے سے قبل وہ اتنا تلخ اور بے حس نہیں تھا۔ زندگی اور زندگی کی تمام تر نرمی اس کے اندر موجود تھی۔ مگر ان تاریک دنوں نے ہر چیز اپنے اندر جذب کر لی۔ وہ دن اور رات کا حساب نہ کر پاتا۔ آہستہ آہستہ دن رات برابر ہو گئے۔ 
اس نے وقت کا حساب مکمل طور پر کھو دیا۔ جب کھانا آتا تو معلوم ہوتا کہ رات ہو گئی ہے۔ کھانے کی پلیٹ جو پہرے دار دروازے کی درز سے جان بوجھ کر یوں ترچھا کر کے تھماتا کہ اس کے پکڑتے پکڑتے پلیٹ زمین پہ گر جاتی۔ اسے اس گندی زمین سے کھانا اٹھا کہ کھانا پڑتا جس کو چباتے ہوئے بھی اندر ریت اور پتھر محسوس ہوتے تھے۔ 
جب کبھی پاکستان اور انڈیا کا میچ لگا ہوتا تو پہرےدار کمینٹری سنتے ہوئے، زور زور سے پاکستان اور محمد علی جناح، اور مسلمانوں کو ایسی ایسی گالیاں دیتے، ایسے ایسے الفاظ سے نوازتے کہ اس کا خون کھول اٹھتا، مگر وہ اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلتا۔ 
زندگی، خواہشات، امیدیں، امنگیں، اس کے اندر سب کچھ مر گیا تھا۔ ساری دنیا اور اس کی ہر چیز من گھڑت فسانہ تھی۔ اگر کہیں کوئی حقیقت تھی تو وہ یہ تنگ، تاریک، غلیظ سا سیل تھا۔ 
وہ اس روز بھی فرش پہ لیٹا چھت کو خالی خالی نظروں سے تک رہا تھا۔ اسے ممی یاد آ رہی تھیں۔ وہ ہر روز رات کو سونے سے پہلے سوچتی ہوں گی کہ ان کا بیٹا کہاں ہے۔ وہ ان سے عرصے سے رابطے میں نہیں تھا مگر اب تک تو شاید ان کو علم ہو گیا ہو کہ وہ زیرِحراست ہے۔ کیا وہ پھر کبھی دوبارہ ان سے مل سکے گا؟ کیا وہ پھر کبھی پاکستان کو دیکھ سکے گا؟ اس نے سوچنا چاہا تو ہر طرف مہیب اندھیرا نظر آیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کبھی عدالت میں پیش نہیں کیا جائے گا، نہ ہی اس کا ملک اسے تسلیم کرے گا۔ کوئی ملک اپنے جاسوس کو تسلیم نہیں کرتا۔ مگر یہ اس کا اپنا انتخاب تھا۔ 
اس نے خود یہ زندگی چنی تھی اور اس تمام اذیت کے باوجود وہ جانتا تھا کہ اگر اسے دس زندگیاں دی جائیں، تب بھی وہ یہی جاب چنے گا۔ اسے اپنے کام سے محبت تھی۔ وہ پچھتا نہیں رہا تھا۔ مگر وہ یہ ضرور سوچتا تھا کہ اس پاکستانی جاسوس کے گھر والوں نے نہ جانے کتنا عرصہ اس کا انتظار کیا ہو گا، جس کو اس نے اپنے ہاتھوں سے دفنایا تھا لیکن اسے لاوارث نہیں چھوڑا گیا تھا۔ اس کی نعش کی بے حرمتی اللہ کی زمین نے نہیںہونے دی تھی۔ تب اس کی صرف یہی خواہش تھی کہ اسے لاوارث نہ چھوڑا جائے۔ پچھلی رات بھی پہریداروں نے سیل میں دو سنپولیے چھوڑ دیے تھے، جنہیں اس نے ہاتھ میں پکڑ کر جوتے کی نوک سے مارا تھا۔ اگر کل کو اس کے سوتے ہوئے وہ اس کو مار دیں اور اس کی لاش کو دریا میں بہا دیں تب وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اسے نہ نام چاہیے تھا، نہ شہرت، نہ ستائش، اسے بس عزت دار جنازہ چاہیے تھا۔
وہ بہت اذیت ناک روز و شب تھے۔
اسی وقت، جب وہ سوچوں میں غلطاں تھا، پہرے دار اس کے سیل میں لا کر کسی کو پھینک گئے تھے۔ اس نے آنکھیں کھول کر گردن ذرا سی موڑ کر دیکھا۔
وہ ایک کم عمر لڑکی تھی، جو بے تحاشا رو رہی تھی۔ اس نے پاکستانی طرز کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی اور دوپٹہ پھٹا ہوا تھا۔ چوٹی سے الجھے ہوئے بال نکل رہے تھے۔ اس کے حلیے سے لگ رہا تھا، اسے شدید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
کون ہو تم؟ وہ بولا تو اس کی آواز دھیمی تھی۔ وہ اسی طرح لیٹے ہوئے گردن ذرا سی موڑے اسے دیکھ رہا تھا۔
میں نے کچھ نہیں کیا۔ ہم پوری فیملی کرکٹ میچ دیکھنے آئے تھے۔ انہوں نے ہمیں جانے نہیں دیا۔ یہ کہتے ہیں، ہم پاکستانی جاسوس ہیں۔
وہ روتے روتے اسے اپنے بارے میں بتانے لگی۔ اسے بیس دن ہو گئے تھے، ان لوگوں کی قید میں اور وہ بہت دکھی تھی۔ وہ طپ چاپ اس کی روداد سنتا رہا۔ ابھی وہ بول ہی رہی تھی کہ سپاہی دوبارہ آئے اور اسے کھینچتے، گھسیٹتے باہر لے جانے لگے۔ وہ بے اختیار خوف سے روتی چلاتی، جہان کو دیکھ کر اسے مدد کے لیے بلاتی رہی۔
جہان نے گردن واپس موڑ کر آنکھیں بند کر لیں۔ وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
تین دن تک روز رات کو وہ اس لڑکی کو لے جاتے۔ ٹارچر سیل قریب ہی تھا۔ وہاں سے اس کی دردناک چیخیں، آہیں، سسکیاں، یہاں تک صاف سنائی دیتیں۔
صبح کے قریب وہ اسے سیل میں واپس پھینک جاتے، اس حالت میں کہ وہ مزید زخمی ہوتی اور رو رہی ہوتی۔
تیسری صبح وہ اٹھا، اپنے درد کو بھلائے اس نے پانی کے برتن سے ایک گلاس بھرا اور اس کے قریب لے کر آیا۔ وہ بند آنکھوں سے نڈھال سی کراہ رہی تھی۔ اس نے اس لڑکی کی آنکھوں کو دیکھا تو ایک دم سے جیسے کوئی یاد ہر سو چھانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فریحہ ایکان رضا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خوبصورت اور طراحدار فریحہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک روز ان کے گھر گیا تو اس نے لاونچ میں بیٹھی فریحہ کو آئینہ پکڑے، موچنے سے اپنی بھنوؤں کو تراشتے دیکھا۔ علی کرامت کی ممی اپنی بھنوؤں کو نہیں تراشتی تھیں۔ ان کے ابرو قدرتی تھے مگر اچھے لگتے تھے۔
آپ کیوں مسز فریحہ کی طرح اپنی آئی بروز کو شیپ نہیں دیتیں؟ اس نے ان سے پوچھ ہی لیا تو وہ ہنس کر بولیں۔
اللہ تعالی کی بنائی ہوئی چیزیں اپنی مرضی سے ردوبدل نہیں کرتے بیٹا! اللہ تعالی کو یہ اچھا نہیں لگے گا۔
وہ اس نیم بے ہوش لڑکی کی بھنویں دیکھ رہا تھا۔ بالکل فریحہ کی طرح کمان کی شکل میں بنی ابرو بہت صاف تھیں۔ اگر وہ ایک ماہ سے زیر حراست تھی تو ابھی تک ابرو کی شیپ خراب کیوں نہیں ہوئی تھی؟ کیا اسے جیل میں ابرو تراش ملا کرتا تھا؟
لعنت ہے! اس نے گلاس پورے کا پورا اس کے چہرے پر انڈیلا اور اٹھ کر واپس اپنی جگہ پر آ گیا۔ وہ کراہ کر رہ گئی مگر زیادہ حرکت نہیں کی۔
ایسے سٹول پیجین Stool Pigeons اکثر جیل میں مطلوبہ ملزم کے ساتھ ڈالے جاتے تھے تا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی داستان اور اپنی چیخیں سنا کر ملزم کو ڈرا سکے اور وہ اپنی زبان کھول دے یا کم از کم اس کی ہمدردی لے کر وہ اسٹول پیجین اس کے بارے میں کچھ جان سکے۔
وہ اب دن رات اپنے فرار کے متعلق سوچا کرتا تھا۔ وہ جیل اتنے زیادہ پہروں میں بند تھی کہ وہاں سے بھاگنا نا ممکن تھا۔ کرے تو کیا کرے؟ وہ اسے پولی گراف ٹیسٹ پہ لے کر گئے تھے، اور اس کو تربیت کے دوران اس مشین کو دھوکا دینا سکھایا گیا تھا، سو وہ اس کو نہیں توڑ سکے، لیکن اسے خوف تھا کہ مخصوص انجیکشن دے کر وہ اس سے بہت کچھ اگلوا لیں گے۔ پھر اس کی ایجنسی اس کا کبھی اعتبار نہیں کرے گی۔ وہاں یہی کہا جائے گا، وہ غدار کا بیٹا تھا، وہ باپ جیسا ہی نکلا۔ کیا کرے، کدھر جائے؟
پھر کئی دن بعد ایک روز وہ اسے سیل سے نکال کر ایک مختکف کمرے میں لے آئے جہاں الیکٹرک شاکس کا انتظام تھا۔ بجلی کے جھٹکے لینے کا مطلب تھا، ساری عمر صحت کے مختلف مسائل کا شکار ہو کر وہ فوج کے لیے ناکارہ ہو جائے۔ اس نے سوچنے میں بس ایک منٹ لگایا۔
اوکے، اوکے! ائی ایم اے اسپائی۔ اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر اعتراف کر لیا۔ مجھے شاکس مت دو میں سب بتاتا ہوں۔
تفتیشی ٹیم دوبارہ بیٹھی۔ ریکارڈنگ کا انتظام ہوا۔ سوال و جواب اور بیان دوبارہ لیے گئے۔ اس نے اپنے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق ان کو بتانا شروع کیا کہ وہ سویلین جاسوس ہے۔ اپنی ایجنسی کا نام اسے نہیں معلوم، اور چند دوسری کہانیوں کے بعد اس نے بتایا کہ اس ماہ کی تیرہ تاریخ کو اسے اپنے ساتھی جاسوس سے ملنا ہے۔ وہ ان کو وہاں لے جائے گا، تا کہ وہ اس ساتھی کو گرفتار کر لیں اور اس کے ساتھ رعایت برتیں۔ 
وہ جانتا تھا کہ وہ اس جیل سے بھاگ نہیں سکتا، ہاں کھلی فضا میں شاید یہ ممکن ہو۔ اس نے کہا کہ اگر وہ تیرہ تاریخ کو نہیں آیا تو پھر ایک یا دو ہفتے بعد اسی جگہ پہ دوبارہ آئے گا۔ 
خوب وارن کرنے اور جھوٹ بولنے یا فرار کی کوشش میں ملنے والی سزا کے بارے میں ڈرا دھمکا کر وہ یہ خطرہ لینے کو تیار ہو گئے۔ اس کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا، اور ان کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
وہ انہیں ایک پرہجوم جگہ پہ لے آیا مگر وہاں اتنی سیکیورٹی اور مکمل انتظامات تھے کہ ادھر سے فرار ہونا کسی اسپائیڈر مین کے لئے تو ممکن تھا، مگر انسان کے لیے نہیں۔ اس نے وہاں ادھر ادھر ٹہلتے ہوئے بہت دفعہ کوشش کی کہ کہیں کوئی جھول مل جائے، مگر یہ نا ممکن تھا۔
وہ چپ چاپ واپس آ گیا۔
اگلے ہفتے وہ پہلے سے زیادہ سکیورٹی کے ساتھ وہاں پہ لے جایا گیا۔ ادھر اس کا کوئی دوست نہیں آنا تھا۔ سو کوئی نہ آیا۔تین گھنٹے اس پل پہ ادھر ادھر ٹہل کر وہ اس سے ہٹ کر ایک بک اسٹال پہ چلا آیا۔ ہر طرف سادہ کپڑوں میں موجود سیکیورٹی اہلکار اس پہ نگاہیں مرکوز کیے ہوئے تھے۔
وہ ایک رسالہ اٹھا کر اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ اس کا ارادہ گھنٹہ بھر مزید ٹہل کر واپس ہو لینے کا تھا۔ کون سا کسی نے آنا تھا۔ اب اتنی گرمی میں وہ کیوں خوار ہوتا رہے؟
رسالہ رکھ کر وہ مڑنے ہی لگا تھا کہ شاپ سے نکلتی تین لڑکیاں ہنستی مسکراتی، باتیں کرتی یوں ایک دم اس کے سامنے آئیں کہ وہ ان سے ٹکرا گیا۔
اوہ! جس لڑکی سے وہ ٹکرایا تھا، وہ ایک دم اتنی بوکھلائی کہ اس کی کتابیں اور فائل نیچے جا گریں۔ وہ جلدی جلدی معذرت کرتا اس کی کتابیں اٹھانے لگا۔
وہ کالج یونیفارم میں ملبوس لڑکیاں تھیں۔ جس سے وہ ٹکرایا تھا، اس نے سر پہ دوپٹہ لے رکھا تھا۔ سفید دوپٹے کے ہالے میں چمکتا چہرہ بہت معصوم، بہت گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔ جہان کے ساتھ جھک کر اس نے اپنی فائل اٹھائی اور کچھ اس طرح سے اٹھائی کہ اس پر لکھے الفاظ واضح ہو گئے۔

وہ بہت کوشش سے اپنی حیرانی ظاہر کیے بغیر اٹھا۔ دل ایک دم زور سے دھڑکنے لگا تھا۔ لڑکیاں جلدی جلدی اپنی چیزیں سنبھال کر واپس مڑ گئیں۔ وہ خود کو پرسکون رکھتے ہوئے پھر سے بک ریک کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک کتاب اٹھا کر اس نے چہرے کے سامنے تان لی تا کہ اس کے تاثرات اس کے نگرانوں سے چھپ سکیں۔ 
اس لڑکی کی فائل پہ ایک آفیسر کا نام، رینک اور اس کی تفتیشی ٹیم میں شمولیت کا دن لکھا تھا۔ ساتھ میں پہچان کے لئے جہان کا اپنا کوڈ نمبر اور اس کے کوڈ نمبر کا مخفف لکھا تھا۔ اے آر پی۔
۔Agent rose petal
اس میں اور گلاب کی پنکھڑی میں کوئی مماثلت نہیں تھی۔ یہ بس ایک کوڈ نیم تھا، جیسے عموماً ہوا کرتے تھے۔ شاید جس نے الاٹ کیا تھا، اس کے سامنے اس وقت روز پیٹل ٹشو کا ڈبہ رکھا ہو، بہرحال اس لڑکی کی فائل پہ لکھے یہ الفاظ پہچان کے لیے کافی تھے۔ اس نے کتاب واپس رکھتے ہوئے سرسری سے انداز میں دکان کے شیشے کے دروازے کو دیکھا جہاں دور مخالف سمت جاتی تین لڑکیوں کا عکس نمایاں تھا۔
اسی پل فائل والی لڑکی نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک مسکراہٹ تھی۔
مرہ جمیلہ 
ایک خوبصورت عورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے ہی لمحے مرہ جمیلہ واپس پلٹ گئی۔ وہ تینوں لڑکياں اب بس پوائنٹ کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ وہ سب کچھ اتنے عام سے انداز میں ہوا تھا کہ ان درجنوں نگرانوں نے بھی کچھ محسوس نہیں کیا۔ ایک گھنٹے بعد وہ واپس چلے آئے۔
اب اس کے پاس مزید ایک ہفتے کا وقت تھا۔ اگلے ہفتے اس کو آخری دفعہ ان لوگوں کو اس جگہ پہ لے کر جانا تھا۔ اس کے تعاون کے پیش نظر ہفتے دس دن اس پہ تشدد نہیں کیا گیا تھا۔ کھانا بھی قدرے بہتر مل رہا تھا شاید وہ یہ سمجھے کہ اگر وہ راز اگل دے تو وہ اس کو چھوڑ دیں گے۔
حالانکہ وہ جانتا تھا کہ تب بھی وہ مارا جائے گا مگر اب اسے امید تھی۔ اسے لاوارث نہیں چھوڑا گیا تھا۔ اسے بس اس آفیسر کا انتظار کرنا تھا جو چند دن میں ادھر آ جائے گا اور فرار میں اس کی مدد کرے گا۔ 
اور پھر ایک روز وہ آفیسر اس کی تفتیش پہ تعینات ہو ہی گیا۔ اس کو امید تھی کہ وہ اس کی مدد کرے گا، مگر اس نے اس پر تفتیش اور تشدد کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ وہ اس پہ چلاتا تھا، اس کو گالیاں دیتا تھا، اور بہت ظلم کرتا تھا۔ جیسے اس قیدی کی زبان کھلوانا اس کے کیرئیر کا مسئلہ تھا۔ وہ اس آفیسر کے بارے میں شش و پنج میں مبتلا ہو گیا۔ ہو سکتا وہ لڑکی بھی ان ہی بھارتیوں کی بھیجی گئی ہو تا کہ وہ اس آفیسر کو اپنا ہمدرد خیال کر کے اس سے دل کی بات کر بیٹھے۔ 
مگر پھر اس لڑکی کی فائل پہ اس کا کوڈ نمبر کیسے لکھا تھا؟ 
وہ کوڈ نمبر پاکستان میں بہت اہم جگہ محفوظ تھا، وہ یوں کسی کو نہیں مل سکتا تھا؟ وہ کیا کرے ؟ 
صبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انتظار!!!!
اور ایسی ہی ایک شام جب بھارت اور پاکستان کے کرکٹ میچ میں پاکستان جیت گیا، تو اس آفیسر نے غصے اور اشتعال میں تمام گارڈز کو اس پہ کھلا چھوڑ دیا، وہ اس کو پیٹتے رہے، مارتے رہے، ڈنڈوں سے، مکوں سے، لاتوں سے، اور گالیاں دیتے رہے۔ 
وہ سہتا رہا۔ 
اور جب یہ سیشن ختم ہوا تو وہ سب باہر چلے گئے۔ آخری جانے والوں میں وہ آفیسر تھا۔ 
جب اس نے درد سے کرلاتے سر کو سیدھا کیا، اور نیم جاں آنکھوں کو کھول کر دیکھنا چاہا تو اس کے سیل کی چابی اس کے ساتھ گری پڑی تھی۔ 
یہ یقیناً بظاہر ان گارڈز کی دھکم پیل میں گری تھی۔
مگر وہ جان گیا تھا کہ وہ آفیسر ان کا اپنا تھا۔ 
اب وہ یہاں سے نکل سکتا تھا۔ 
اور اس آفیسر پہ کوئی شک بھی نہیں کر سکے گا۔ 
اس نے اپنی اور جہان، دونوں کی چمڑی بچانی چاہی تھی۔ 
کبھی زندگی نے موقع دیا تو وہ اس ہندو آفیسر کے احسان کا بدلہ ضرور پورا کرے گا۔ کاش وہ اس کے لیے کچھ کر سکتا۔ 
تین دن تک اس نے خاموشی سے انتظار کیا۔ چابی اس نے چھپالی تھی۔ جب زخم ذرا بھر گئے، تو ہولی آ گئی۔ 
تہوار کا دن۔ 
سب اس روز مگن تھے۔ 
وہ اپنا کام کر سکتا تھا۔ 
اور وہ موقع کا انتظار کرتا رہ گیا، جب اچانک سے ہر طرف شور اٹھا۔ دھکم پیل، افراتفری۔ 
کہیں کسی کمرے میں آگ لگ گئی تھی۔ لوگ بھاگ رہے تھے۔ وہ جان گیا تھا کہ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ 
باقی سب تاریخ کا حصہ بن گیا۔ 
اس افراتفری میں سیل سے نکلنا، ایک آفیسر کو گرا کر اس کا لباس اور کارڈ ہتھیانا کچھ مشکل نہ تھا۔ 
یہاں تک کہ وہ اس بلڈنگ سے باہر نکل آیا۔ 
پورے ایک ماہ دس دن بعد اس کو اس عقوبت خانے سے رہائی ملی تھی۔ چند دن بعد ہی وہ راجستھان کے قریب کی سرحد عبور کر کے اپنے ملک واپس پہنچ چکا تھا۔ 
ڈیڑھ برس بعد وہ جن حالات سے گزر کر وہ پاکستان پہنچا، وہ ناقابل بیان تھے۔ جب وہ واپس لاہور پہنچا تو اس کے زخم ابھی بھرے نہیں تھے۔ مسلسل علاج اور دیکھ بھال کے بعد ظاہری زخم مندمل ہو گئے مگر وہ سر کا بد ترین درد اس کے ساتھ رہا۔ اس نے کبھی اپنے اس سر درد کو ظاہر نہیں کیا، وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی بیماری یا معذوری اس کے سروس ریکارڈ کو خراب کرے اور وہ میدان جنگ سے واپس بیرکوں میں بھیج دیا جائے۔ ان کی ایجنسی کا ایک مشہور زمانہ مقولہ تھا کہ ”ہم زمانہ امن میں جنگ کرتے ہیں اور زمانہ جنگ میں اپنی کی ہوئی جنگ کا نتیجہ دیکھتے ہیں۔“ ابھی وہ مزید جنگ کرنا چاہتا تھا۔
(”جنت کے پتے“ ایک فرضی داستان ہے مگر جیل کے دوران تشدد کے طریقے جو یہاں بیان کیے گئے ہیں وہ بالکل درست اور حقیقت پر مبنی ہیں۔ یہ چند واقعات ابو شجاع، ابو وقار کی کتاب "غازی" میں بیان کی گئی سچی داستان جو سلیم نامی ایک حقیقی جاسوس کی داستان ہے سے متاثر ہو کر لکھے گئے ہیں، جس کے لیے ہم اس کتاب کے لکھاریوں کے احسان مند ہیں، اور سر سلیم کے ایصال ثواب اور مغفرت کے لیے دعا گو ہیں۔)
••••••••••••••••••••••
مگر اس جنگ اور قید نے اسے ایک مختلف انسان بنا دیا تھا۔ جہاں ایک طرف وہ اپنے سروس ریکارڈ میں Realiber Under Tourcher کی ڈگری میں آ گیا تھا، وہاں دوسری طرف اس کا بہت کچھ مر گیا تھا۔ وہ جو ایک فیملی بنانے کی، ایک حسین لڑکی سے شادی کر کے اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے، وہ خواہش مر گئی تھی۔ وہ دنیا سے بے اعتبار ہو چکا تھا۔ اس کے اندر اتنی تلخی بس چکی تھی کہ وہ اب ایک فیملی مین نہیں رہا تھا۔ وہ بس ایک ایجنٹ تھا۔ یہی اس کی زندگی، اس کی محبت، اس کی فیملی تھی۔ جب حکومت نے لاکھوں روپیہ خرچ کر کے اس کو ملک کی خدمت کے قابل بنایا تھا تو بہتر تھا کہ وہ یہی کام کرے۔ ماموؤں سے بغض و عناد، انتقام لینے کی خواہش، سب جیل نے نگل لیا تھا۔ اگر کچھ بچا تھا تو وہی ایک احساس کمتری جو ماموؤں کا سامنا کرنے کا سوچ کر اسے ہمیشہ محسوس ہوتا تھا۔ بس، اور کچھ نہیں۔
رہائی کے کچھ عرصے بعد وہ ممی کے پاس ترکی گیا تو اہک اچھی خبر اس کی منتظر تھی۔ ممی نے اپنی جمع پونجی ملا کر جہانگیر والا گھر پھر سے خرید لیا تھا۔ دادا کا بنایا گھر، ان کا اپنا گھ۔ ،مگر اب اس کو اس گھر نے بھی بہت زیادہ خوشی نہیں دی۔ وہ تو بس ایک خواہش تھی، جو پوری ہو گئی۔ 
قریبا تین برس قبل وہ اپنے ترک پس منظر کے باعث ترقی بھیجا گیا وہاں وہ دو کورز کے ساتھ رہ رہا تھا۔ ایک اپنی پاکستانی شناخت ”جہان سکندر“ اور دوسری انڈین شناخت ”عبدالرحمان پاشا“۔
اپنے کام کے سلسلے میں آج کل وہ اسلام آباد واپس آیا ہوا تھا اور ممی کے مسلسل زور پر وہ بلآخر ماموں کے گھر جانے کے متعلق سوچ رہا تھا کہ ہوٹل میں اپنی منکوحہ کو اتفاقیہ دیکھ لینے کے بعد اس کا ارادہ مزید ڈانواں ڈول ہو گیا اور بعد میں بھی شاید وہ ماموں سے ملنے کی کوشش کرتا، مگر وہ لڑکی استنبول آ رہی تھی،یہ خیال اسے پریشان کرنے کے لیے کافی تھا۔ اسے کچھ نہ کچھ ایسا کرنا تھا جس سے وہ اس لڑکی کو روک پائے، مگر کیا، یہ ابھی اسے طے کرنا تھا
•••••••••••••••••
وہ بیسن کی ٹوٹی پہ جھکا چہرے پہ پانی کے چھینٹے ڈال رہا تھا۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ مکروہ صورت اس کی جلد سے ہر نشان چھوڑ کر چکی ہے تو اس نے چہرا اٹھا کر باتھ روم کے آئینے میں دیکھا۔ ماتھے پہ سامنے کو گرے اس کے گہرے بھورے بال اور منہ دھلا دھلایا ہو چکا تھا۔ اس نے اسٹینڈ سے لٹکتا تولیہ اتارا اور منہ رگڑتا باہر آیا۔
لاؤنچ میں ٹی وی چل رہا تھا اس کا لیپ ٹاپ بھی آن پڑا ہوا تھا۔ صوفے پہ بیٹھتے ہوئے اس نے تولیہ ایک طرف ڈالا، پھر لیپ ٹاپ گود میں رکھتے ہوئے اس نے موبائل نکالا۔ اسے ممی کو فون کرنا تھا۔
دوسری جانب گھنٹی جا رہی تھی۔ وہ منتظر سا اسے سنتا گیا۔ ذہن کے پردوں پہ آج کے واقعات پھر سے چلنے لگے تھے۔
گزشتہ رات ماموں کے گھر سے نکلتے ہوئے اس کے ذہن میں ایک لائحہ عمل تشکیل پا رہا تھا۔ جو آخری چیز وہ اپنی مشکل زندگی میں نہیں چاہتا تھا، وہ اپنی بیوی کا اس شہر میں آ کر رہنا تھا، جہاں وہ پہلے ہی ایک مقیم ایجنٹ کی حیثیت سے دو ذزندگیا گزار رہا تھا۔ اب اسے کسی نہ کسی طرح اس لڑکی کو روکنا تھا۔ جب اس نے کچن میں سفید پھول رکھے تھے تو اس کے ذہن میں مکمل لائحہ عمل نہیں تھا، مگر پھر بھی وہ جاتے وقت اس کی کار پہ ایک جی پی ایس ٹریسر چسپاں کر آیا تھا۔ وہاں کھڑی دو گاڑیوں میں سے چھوٹی والی یقینا اس کی تھی۔ وہ اس لڑکی پر نظر رکھنا چاہتا تھا اور آج کل اس کے پاس اتنا ڈھیر سارا وقت تھا کہ وہ اس پہ نظر رکھ سکے اور پتہ نہیں کیوں، جب بھی وہ اس کے بارے میں سوچتا، اس کو وہ لڑکی کے نام سے ہی سوچتا۔ وہ اس کا نام نہیں لیا کرتا تھا۔ کچھ تھا، جو اسے پسند نہیں آ رہا تھا۔ 
وہ امریکی سفارت خانےکی سیکنڈ سیکریٹری کی وجہ سے آج کل ادھر تھا۔ وہ بھارتی نژاد امریکی شہری تھی اور اس کی پاکستان سے دو ماہ بعد روانگی تھی۔ جہان کی دلچسپی کی بات یہ تھی کہ اس کی اگلی پوسٹنگ استنبول میں امریکی سفارت خانے میں ہو رہی تھی۔ اگر اسے تک رسائی حاصل کر لے تو استنبول میں اس کے بہت سے کام آسان ہو سکتے تھے۔ مسئلہ بس اتنا تھا کہ وہ اس کی کار تک بھی رسائی حاصل نہیں کر پا رہا تھا۔ وہ اپنی کار کا شیشہ صرف اور صرف کسی خواجہ سرا بھکاری کے لیے کھولتی تھی کیونکہ اسے خواجہ سرا کی بد دعا سے ڈر لگتا تھا۔ غالبا خاندانی وہم تھا، جسے وہ آفیسر امریکا میں اتنے برس رہنے کے بعد بھی ختم نہیں کر سکی تھی۔ صرف اس کی کار کے انتظار میں اسے اب روز شام میں خواجہ سرا کا روپ دھار کر ان راستوں پر پھرنا تھا جس سے وہ گزرتی تھی۔
کسی دوسرے کے لیے شاید یہ بہت عجیب بات ہو، مگر اس کے لئے نہیں تھی۔ اس کے نزدیک خواجہ سرا بننا بالکل ایسے تھا، جیسے کسی ڈاکٹر کے لیے مکمل سفید اوور آل کی بجائے آف وائٹ اوور آل پہننا۔ ایسی تبدیلی جو محسوس ہوتی نہ ہی بری لگتی اپنے کیریئر کے دوران وه اتنا کچھ بن چکا تھا کہ بہت عرصه ہوا وه حس ہی ختم ہو چکی تھی جو عجیب و غریب ہونے کا احساس دلاتی۔
اپنے ذاتی کاموں کے لیے البتہ ایسے حلیے اس نے کبھی نہیں بدلے تھے، لیکن اب اس کی زندگی ذاتی رہی ہی نہیں تھی۔ اگر آج وه حیا کی گاڑی کو ٹریس کر کے اس سے ملنے گیا تھا، تب بھی اس کے ذہن میں اپنی اسی "جعلی" زندگی کی فکر تھی جو وه استنبول میں گزار رہا تھا- 
وه آئس کریم پارلر جہاں وه اس لڑکی کی گاڑی کی موجودگی کے باعث آیا تھا، اس جگہ سے زیاده دور نہ تھا، جہاں آج کل اس کی ڈیوٹی تھی۔ وہاں خواجہ سرا اکثر نظر آتے تھے، اور اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ ان میں سے شاید ہی کوئی اصلی خواجه سرا ہو۔ آدھے پروفیشنل اور باقی آدھے خفیه والے ہوتے تھے۔ جو ایسے روپ دھار کر حساس جگہوں کی نگرانی کیا کرتے تھے- 
وه اس لڑکی کو ترکی جانے سے روکنا چاہتا تھا اور کل تک تو وه اس سے ملنا بھی نہیں چاہتا تھا، مگر آج پتہ نہیں کیوں، اس کا دل چاہا تھا کہ وه اس سے بات کرے- وه اسے کبھی نہیں پہچان سکتی تھی- اسے یقین تھا وه کیا، ممی بھی اسے اس حلیے میں نہیں پہچان سکتی تھیں۔
اس روز اس لڑکی نے ہلکے آسمانی رنگ کا لباس پہن رکھا تھا- بال حسبِ معمول کھلے تھے- وه سلش پیتے ہوئے سوچ میں گم، غالباً شیشہ بند کرنا بھول گئی تھی۔ وه اس کے شیشے پہ جھکا تو وه چونک گئی اور پھر اس نے اس کے سفید، گلابی چہرے کو خوفزده ہوتے دیکھا۔ تمام تر گھبراہٹ کے باوجود اس نے ٹھنڈا ٹھار سلش جہان کے منہ پہ اُلٹ دیا- تب وه پیچھے ہوا تھا۔ اسے پیچھے سلش نے نہیں دھکیلا تھا، بلکہ اس کی جراّت پر وه حیران ہوا تھا- گزشته روز اگر اسے ایسا لگا تھا کہ وه کوئی بہت ہی نازک سی لڑکی ہے تو ایسا نہیں تھا- وه کافی پُر اعتماد اور ایک دم سے ردعمل ظاہر کر دینے والی لڑکی تھی- چلو، کوئی تو اچھی بات تھی- 
وه وہاں سے سیدھا اپنے اپارٹمنٹ آیا تھا اور اب حلیہ ٹھیک کر کے ممی کو فون کر رہا تھا- ممی نے فون اٹھاتے ہی سب سے پہلے وہی پوچھا جس کی اسے توقع تھی- 
تم ماموں سے ملنے گئے تھے؟
جی، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی میری صائمہ بھابھی سے بات ہوئی ہے، انہوں نے تو نہیں بتایا- وه حیران ہوئیں- 
آپ دو منٹ تسلی سے میری بات سنیں گیں؟ پورے دو منٹ تسلی سے اس کی بات سن لینے کے بعد ممی بولیں تھیں- 
تم آج چلے جاؤں، آج فرقان بھائی کے گھر رات کا کھانا ہے- سب اکھٹے ہوںں گے- تم ان سے ایک دفعہ مل لو، پھر بعد میں حیا کو اعتماد میں لے کر بتا دینا- بات ختم- 
اور اس کے جو ہاتھ میں آیا، وه اٹھا کر میرے اوپر دے مارنا ہے- اس نے بے اختیار سوچا تھا، پھر چند منٹ لگے اسے ممی کو راضی کرنے میں اور وه بامشکل اس کی بات پہ متفق ہوئیں کہ ابھی ماموں سے ملنے کے بجائے بہتر ہے کہ پہلے وه ماموں کی بیٹی سے ملے، ہو سکے تو اسے روک دے اور اگر اس کے رکنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور وه پانچ ماه کے لیے استنبول آ رہی ہے، تو پھر اسے ان لوگوں کو اپنے بارے میں آگاہی نہیں دینی چاہیۓ- یہ اس کی جاب کےاصول کے خلاف تھا- اسے ترکی میں اپنے اردگرد کوئی ایسا شخص چاہیۓ تھا جو اس بات سے واقف ہو کہ اس کا نام عبدالرحمن پاشا نہیں، یا جہان سکندر نہیں، بلکہ میجر جہان سکندر احمد ہے۔ اس نہج پہ پہنچ کر ممی راضی ہو گئیں۔ 
ٹھیک ہے، تم کرو جو تم کرنا چاہتے ہو میں انہیں نہیں بتاؤں گی کہ تم اسلام آباد میں ہو- وه خوش نہیں تھیں مگر خفا بھی نہیں تھیں- اس نے سکون کی گہری سانس اندر کھینچی۔ اب اس کے پاس اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیۓ چند روز تھے۔
فون بند کرنے کے بعد وہ فورا اٹھا اور اپنا اپارٹمنٹ مقفل کر کے باہر آیا- ممی نے فرقان ماموں کے گھر فیملی ڈنر کا بتایا تھا، اگر وه یہی بات کارڈ پہ لکھ کر ایک روز پرانی تاریخ کی مہر زده لفافے میں ڈال کر گلاب کے پھولوں کے ہمراه اس کے گھر دے آئے تو یقیناً وه اس کی توجہ پا لینے میں کامیاب ہو جائے گا- اس کے بعد ہی وه اس کی کوئی بات سنے گی۔
آج بھی وه اسی پھول والے کے پاس آیا تھا اور آج بھی اس کے پاس سرخ گلاب نہیں تھے- اس نے دل ہی دل میں پھول والے اور سرخ گلاب، دونوں پہ لعنت بھیجتے ہوئے سفید گلاب خرید لیے۔ بار بار وه اپنے موبائل پہ ٹریسر کا اسٹیٹس چیک کرتا تھا- اس کی کار ابھی تک گھر نہیں پہنچی تھی۔ 
اپنی مصروفیات میں سے اس لڑکی کے لیے وقت نکالنا ایک دم ہی اسے بہت دلچسپ لگنے لگا تھا۔
••••••••••••••••••••••
وہ داور کی مہندی کی دوپہر تھی۔ جب ممی کا فون آیا۔ وہ اس وقت آفس سے نکل رہا تھا، یہاں سے اسے اپنی وہ کار لینے جانا تھا، جو اسے اسلام آباد میں استعمال کرنی تھی۔ ممی کا نمبر اسکرین پر جلتا بجھتا دیکھ کر وہ ذرا چونکا۔ شاید ممی نے ذہن بدل لیا تھا، ورنہ وہ اس طرح اچانک کال نہیں کرتی تھیں، ماسواۓ ہنگامی صورتحال کے۔
جی ممی! خیریت؟ اپنے دفتر کی مین بلڈنگ سے دور ہٹ کر سڑک کنارے چلتے وہ ان سے بات کرنے لگا۔
تم آج جا کر ماموں سے مل لو۔
وہی ڈھاک کے تین پات، وہ جی بھر کر بیزار ہوا۔
ممی! کل رات ہم نے کس بات پہ اتفاق کیا تھا، آپ بھول گئیں؟
جہان میری بات سنو! مجھے خدشہ ہے کہ سلیمان بھائی حیا کی شادی کہیں اور نہ کر دیں۔
تو کر دیں! وہ یہ کہہ نہ سکا، گو کہ وہ یہی کہنا چاہتا تھا مگر جب بولا تو آواز میں پتا نہیں کہاں سے خفگی در آئی تھی۔
وہ اس طرح کیسے کر سکتے ہیں کسی اور سے اس کی شادی؟ ہمارا نکاح ہوا تھا، منگنی نہیں، جو وہ اپنی مرضی سے توڑ دیں۔
وہ خلع بھی لے سکتے ہیں اور تم جانتے ہو ایک دو پیشیوں میں فیصلہ ہو جایا کرتا ہے بچپن کے نکاح کا اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو اس کے ذمہ دار ہم ہوں گے۔
اور وہ خود کسی چیز کے ذمہ دار نہیں ہیں؟
جہان سکندر میں نے تمہاری پرورش اس منتقم مزاج سوچ کے ساتھ تو نہیں کی تھی۔ انہیں جیسے دکھ ہوا تھا وہ فورا نادم ہوا۔
اچھا، آئیی م سوری! میرا مطلب تھا کہ اگر ہم اس رشتے پر خاموش ہیں تو بات وہ بھی نہیں کرتے۔
وہ بیٹی والے ہو کر کیسے خود سے بات کریں؟ کیسے کہیں کہ ہماری بیٹی کو رخصت کروا کر لے جاؤ؟ ایسے کوئی اپنی بیٹی کو ہلکا نہیں کرتا۔
ہاں، میرے ماموؤں کا غرور اور انا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر ممی کہہ رہی تھیں۔
وہ ہماری طرف سے مایوس ہو چکے ہیں، اسی لیے سلیمان بھائی حیا کے لیے آنے والے رشتوں پہ غور کر رہے ہیں۔ وہ ایک دم بالکل چپ ہو گیا۔
آپ کو کس نے کہا یہ؟ یہ تو طے تھا کہ وہ بلا تحقیق کسی بات پہ یقین نہیں کر سکتا تھا۔
صائمہ بھابھی نے ابھی فون کر کے بتایا ہے۔ ان کے بقول سلیمان بھائی کو ہمارا انتظار بھی نہیں ہے۔ انہوں نے فرقان بھائی سے خود کہا ہے کہ ان کے کسی دوست نے اپنے بیٹے کے لیے حیا کا رشتہ بھجوایا ہے۔ اور آج وہ فرقان بھائی کو اس لڑکے سے ملوائیں گے۔ شاید ان کے کسی بزنس پارٹنر کا بیٹا ہے،
باہر سے پڑھ کر ابھی آیا ہے، فرقان بھائی نہیں ملے، ابھی اس سے۔ 
وہ بالکل خاموشی سے سنتا رہا۔ اسے یہ سب بہت برا لگ رہا تھا۔ کیوں، وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا۔
تم آج چلے جاؤ۔ میں اس رشتے کو توڑنا نہیں چاہتی جہان! وہ بے بسی سے کہہ رہی تھیں۔
جب وہ لوگ مجھے بے حد غیر اہم سمجھ کر میرے منتظر ہی نہیں ہیں تو کیا فائدہ جانے کا؟
بھابھی بتا رہی تھیں، حیا ہمارا پوچھ رہی تھی۔ اسے انتظار ہو گا۔
کیوں؟ وہ بے اختیار کہہ اٹھا۔ لڑکیوں کے دل بہت نازک ہوتے ہیں بیٹا! میں کبھی کبھی خود کو اپنی بھتیجی کا مجرم سمجھتی ہوں۔
آپ پریشان نہ ہوں، میں یہ رشتہ نہیں ٹوٹنے دوں گا۔
یعنی تم جا رہے ہو؟ وہ جیسے کھل اٹھیں۔
اب یہ بھی نہیں کہا تھا میں نے۔ بس آپ مجھ پہ بھروسہ رکھیں، میں سب فکس کر لوں گا۔
اور ممی خاموش ہو گئیں ان کو شاید اس کی قابلیت پہ بھروسہ تھا کہ وہ اپنے ارد گرد موجود ہر خراب چیز کو فکس کر لیا کرتا تھا۔ رشتوں اور چیزوں میں فرق ہوتا ہے۔ شاید ممی نے یہ بھی سوچا ہو۔
آج اس کو دیکھتے ہی پھول والے لڑکے کا چہرہ جگمگا اٹھا۔
صاب! آج سرخ گلاب بہت سارے ہیں۔
مگر مجھے سفید ہی چاہئیں۔ اس نے بٹوہ نکالتے ہوۓ دو ٹوک انداز میں سنجیدگی سے کہا۔ لڑکے کا چہرہ جیسے اتر سا گیا، مگر پھر بھی وہ جلدی جلدی سفید گلابوں کو اکٹھے کرنے لگا۔
سفید گلاب بےشک بہت سے لوگوں کے نزدیک دشمنی کی علامت تھے مگر بہت سے اسے امن اور صلح کی نشانی ہی گردانتے تھے۔
وہ آج ان کے گھر کے اندر نہیں گیا، بلکہ ان کے گھر کے مقابل ایک زیر تعمیر بنگلے میں چلا آیا۔
سریے، اینٹیں، آدھی بنی دیواریں، وہ گھر رات کے وقت ویران پڑا تھا۔ مزدور وغیرہ کب کے جا چکے تھے اور اب وہ وہاں اوپری منزل کے کمرے میں بیٹھ کر باآسانی سلیمان ماموں کے گھر کے کھلے گیٹ سے سب دیکھ سکتا تھا۔
مہندی کا فنکشن دونوں گھروں کے قریب ہی ایک کھلے پلاٹ میں شاندار قناتیں لگا کر کیا گیا تھا۔
اسے تقریب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، وہ صرف سلیمان ماموں کے کھلے گیٹ کو دیکھ رہا تھا جہاں بہت سے لوگ آ جا رہے تھے۔ خواتین کی تیاری اور الٹے سیدھے فیشن! وہ روایات اور قدریں جن کا ذکر ممی اکثر کیا کرتی تھیں، وہ اسے اپنے ننھیال کی خواتین میں کہیں نظر نہیں آئی تھیں۔ داور کی بہن تو شاید باقاعدہ اسکارف لیا کرتی تھی مگر وہ بھی اسے سلور لہنگے میں بنا سر ڈھکے ادھر ادھر پھرتی نظر آ رہی تھی۔ پتا نہیں کیوں شادیوں پہ لوگ سب بھلا دیتے ہیں؟ اسے افسوس ہو رہا تھا۔
بہت دیر بعد جہان نے بالآخر اسے دیکھ ہی لیا۔ وہ اپنی ممی کے عقب میں چلتی برآمدے سے اترتی ڈرائیوے تک آ رہی تھی، جہاں سلیمان ماموں ایک فیملی کے ہمراہ کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وہ واقعی بہت خوبصورت تھی۔ سنہرا لہنگا اور ٹیکا اسے مزید حسین بنا رہا تھا مگر وہ اسے پھر بھی ”مرہ جمیلہ“ نہیں لگتی تھی۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page