
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر اٹھائیس
سلیمان ماموں اب اس کا تعارف ان لوگوں سے کروا رہے تھے جو ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ صاحب، خاتون، اور غالبا ان کا بیٹا۔
اس نے اپنے سیل فون میں دور بین کا لینس نکالا اور ان کو فوکس کیا۔ اب وہ ان کے چہرے دیکھ سکتا تھا۔ وہ تینوں مہمان اسے بہت دلچسپی سے دیکھ رہے تھے، بالخصوص ان کا بیٹا۔ اس کی نظریں تو بہت ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے پتا نہیں کیوں پھر سے غصہ آنے لگا اور تب ہی اس نے حیا کے چہرے کی جوت کو ماند پڑتے دیکھا۔ وہ خوش نہیں لگ رہی تھی۔ ذرا سی دیر میں ہی وہ ان کے پاس سے ہٹ آئی۔ گیٹ سے باہر آ کر اس نے انگلی کی نوک سے آنکھ کا کنارا صاف کیا۔
اس نے موبائل کے بٹن کو چند ایک دفعہ دبایا۔ وہ اس کی کوئی تصویر اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔ وہ ان لوگوں سے مل کر خوش نہیں تھی شاید یہی وہ رشتے والے تھے، جن سے آج سلیمان ماموں نے فرقان ماموں سے ملوانا تھا۔ وہ اس پہ خوش اس لیے نہیں تھی کہ یہ رشتہ اس کے لیے ان چاہا تھا۔
دل کے کسی کونے میں اسے یک گونہ اطمینان سا نصیب ہوا۔ جیسے تسلی سی ملی ہو، جیسے ڈھارس سی بندھ گئی ہو، اب وہ پہلے جتنا نا خوش نہیں تھا۔
وہ بہت دیر ادھر ہی بیٹھا رہا۔ اسے فنکشن دیکھنے کی آرزو نہ تھی، بس وہ اس کی واپسی کے انتظار میں وہیں موجود تھا۔ وہ اسے ایک بار پھر دیکھنا چاہتا تھا۔ کافی دیر گزری ، تب وہ اسے واپس آتی دکھائی دی۔ وہ گھر کے اندر جا رہی تھی۔ کیا اسے اس سے ملنا چاہیئے؟ یا اس کے ترکی آنے کا انتظار کرے؟ وہ یہی سوچ رہا تھا جب اس کا فون بجا۔
اس نے سیل فون کی اسکرین کو دیکھا، پھر بے اختیار چونکا۔ یہ اس کی ترکی والی وہ سم تھی جو پوسٹ پیڈ تھی اور کبھی اس کے اور کبھی ممی کے زیر استعمال رہتی تھی۔ یہ نمبر ماموں کے پاس تھا اور اس میں ماموں کا نمبر محفوظ بھی تھا اور اب اس نمبر سے کال آ رہی تھی۔ ماموں کے گھر سے کال؟ وہ لمحے بھر کو گڑبڑا سا گیا۔
مگر اس نے فون اٹھا لیا چونکہ یہ ترک نمبر تھا اس لیے وہ ایک ہی لمحے میں خود کو ترکی لے گیا۔ ایک پیشہ ور ایجنٹ ہونے کے ناطے اس کو یہ ظاہر نہیں کرنا تھا کہ وہ ترکی سے باہر ہے اور اس کا نمبر رومنگ پہ ہے۔
وہ حیا تھی، ناقابل یقین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ممی کا پوچھ رہی تھی۔ وہ ان کی منتظر تھی، ممی ٹھیک کہتی تھیں۔ اس سب کے باوجود جب وہ بات کرنے لگا تو اس کا لہجہ خشک ہی تھا۔ وہ اتنی جلدی کسی کے ساتھ نرمی سے یا کھل کر بات نہیں کرتا تھا اور اس کو تو وہ ویسے بھی کوئی امید نہیں دلانا چاہتا تھا۔ پھر بھی، جب بات کے اختتام پہ اس نے حیا کی آواز کو بھیگتے ہوا سنا تو اس کا دل دکھا تھا۔
فون بند کرتے ہی اس نے وہ خط کا لفافہ نکالا جو وہ پھولوں کے ساتھ رکھنے کے لیے لایا تھا۔ ابھی اندر موجود سفید موٹے کاغذ پہ اس نے لکھا نہیں تھا اور اب اس کو معلوم تھا کہ اس کو کیا لکھنا ہے۔
اس لڑکی کے نام جو کبھی کسی ان چاہے رشتے کے بننے کے خوف سے روتی ہے تو کبھی کسی بن چکے ان چاہے رشتے کے ٹوٹنے کے خوف سے۔
یہ آخری بات محض اس کا گمان تھا، مگر کیا پتا وہ صحیح بھی ہو۔ اس نے پی کیپ سر پہ لی اور مفلر گردن کے گرد یوں لپیٹا کہ اگر اب وہ خود کو کوریئر سروس مین کہہ کر گھر کے کسی ملازم کے حوالے وہ پھول کرے تو کل کو دن کی روشنی میں وہ اسے پہچان نہیں پائیں گے۔ پھول اور خط ایک ملازم کے حوالے کر کے وہ واپس چلا آیا۔ وہ صرف حیا کو چونکانا چاہتا تھا اور اسے امید تھی کہ اس کا مقصد پورا ہو جاۓ گا۔
••••••••••••••••••••
داور کی بارات کے روز اس کا قطعا ارادہ نہ تھا کہ وہ آج بھی حیا کے لئے ادھر جائے گا۔ آج ویسے بھی اسے اپنے بہت سے کام تھے۔ سیکنڈ سیکرٹری تک وہ ابھی بھی رسائی حاصل نہیں کر سکا تھا، مگر وہ جانتا تھا کہ یہ کام وقت طلب ہوتے ہیں۔ صبر، انتظار، اور خاموشی، یہ تین چیزیں اس نے اپنی جاسوسی مہمات کے دوران سیکھی تھیں۔ آج بھی اس کا کام نہیں ہو سکا تھا اور وہ واپس گھر جا رہا تھا، مگر صرف آخری منٹ میں اس نے یونہی سرسری سا سلیمان ماموں کے گھر کا جائزہ لینے کا سوچا۔ معلوم نہیں وہ بار بار وہاں کیوں جاتا تھا۔
جب وہ ان کی گلی کے دہانے پہ پہنچا تو اس نے زن سے اپنے سامنے سے گزرتی گاڑی میں حیا کو دیکھا۔ وہ بے اختیار چونکا تھا۔ اس گاڑی میں اسے وہی کل والی فیملی نظر آئی تھی اور وہی بے باک نگاہوں والا فضول انسان گاڑی چلا رہا تھا۔
آخر وہ ان کے ساتھ کیوں جا رہی تھی۔
وہ فارغ تھا، اگر نہ ہوتا تب بھی ان کے پیچھے ضرور جاتا۔ جو بھی تھا، وہ اس کی بیوی تھی اور وہ اس وقت کچھ ایسے لوگوں کے ساتھ تھی، جو اسے پہلی نظر میں ہی اچھے نہیں لگے تھے۔ کل اسے وہ ان سے مل کر ناخوش لگی تھی، مگر آج وہ ان ہی کے ساتھ تھی۔ وہ کل غلط تھا یا آج؟ وہ یہی دیکھنا چاہتا تھا۔ اور جب اس نے میرج ہال کے ایک طرف حیا کو گاڑی سے اتر کر دوبارہ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتے دیکھا تو اسے دھچکا سا لگا تھا۔ وہ کیسے یوں کسی کے ساتھ بیٹھ سکتی تھی؟ کیا وہ ہر ایک کے ساتھ بیٹھ جانے والی لڑکی تھی؟ اسے شدید غصہ آیا تھا۔ ایک تو اس کا لباس، پھر وہ اتنا میک اپ کرتی تھی۔ اتنی نک سک سے تیار ہوتی تھی، اوپر سے رات کا وقت۔ اس کا دل چاہا تھا وہ ابھی اس کو ہاتھ سے پکڑ کر اس آدمی کی کار سے نکال لے اور اگر اس نے وہ عجیب سا حلیہ نہ اپنایا ہوتا تو شاید وہ یہ کر بھی دیتا۔
جب وہ گاڑی سے نکلا تھا تو فرائی پین بھی ساتھ اٹھا لیا جو اپنے اس گیٹ اپ کے ساتھ وہ رکھا کرتا تھا۔ کاملیت اس کے ہر "کور" میں نمایاں ہوتی تھی۔ اور جب اس نے اس نوجوان کے سر کے پچھلے حصے پہ فرائی پان مار کر اسے گرایا تو بھی اس کا غصہ کم نہیں ہوا تھا۔وہ اور کچھ نہیں کر سکتا تھا، کوئی حق نہیں جتا سکتا تھا، مگر اس لڑکی کو گردن سے پکڑ کر میرج ہال کے دروازے تک چھوڑ سکتا تھا۔
اور یہ اس نے کیا۔ اپنے لباس کا وہ گھٹیا سے رنگ کا دوپٹہ بھی اس پہ اچھال دیا مگر جب جانے لگا تو بہت سلگتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوۓ اگر وہ بولا تو صرف ایک لفظ، جو اس کی زبان پہ آیا تھا۔ "بے حیا"۔
ہاں وہ اسی قابل تھی۔ پچھلے دو روز میں اگر اس کے دل میں کوئی نرم گوشہ جاگا تھا تو اب وہ ختم ہو چکا تھا۔ جیسے کوئی دل سے اتر جاتا ہے، جیسے کسی کے بارے میں انسان شک و شبہہ میں پڑجاتا ہے۔ وہ اس وقت ایسا ہی محسوس کر رہا تھا۔
اب وہ اس سے نہیں ملنا چاہتا تھا اور اگر وہ اسے اسنبول آنے سے روک سکا تو ضرور روکے گا لیکن وہ ان کے گھر نہیں جاۓ گا۔ اس کا فیصلہ آسان ہو گیا تھا۔ ہر مشرقی مرد کی طرح اس کی بھی خواہش تھی کہ اس کی بیوی ہر کسی کی گاڑی میں بیٹھ جانے والی نہ ہو اور آج جو اس نے دیکھا، اس سے نہ صرف وہ بدظن ہوا تھا بلکہ وہ اس لڑکی کے بارے میں شدید شک و شبہے میں پڑ گیا تھا۔
یہ بھی تو ممکن تھا کہ وہ اس لڑکے کو پسند کرتی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کی جرات نے اسے بوکھلا دیا ہو اور وہ فطری ردعمل کے تحت بھاگی ہو، مگر کم از کم ایک بات واضح تھی کہ پسند نا پسند ایک طرف، مگر وہ کسی کو اپنے قریب نہیں آنے دیتی تھی۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے اس لڑکے کے والد کے رشتہ بھیجنے میں حیا کی رضا شامل ہو اور اسی لیے وہ جہان یا ممی کی آمد کا پوچھ رہی تھی تا کہ جلد از جلد یہ رشتہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے اور وہ اپنی مرضی سے کسی اور سے شادی کر سکے۔
لعنت ہے مجھ پر جو میں نے سلیمان ماموں کی بیٹی اور فرقان ماموں کی بھتیجی سے اچھی امید رکھی۔
دل میں آئے بغض کو ختم کرنے کے لیے اسے بہت سا وقت چاہیے تھا۔ وہ ایسا آدمی نہیں تھا کہ چند گھنٹوں بعد ٹھنڈا ہو کر سوچنے پر دل صاف کر لے۔
اس نے برسوں اس دنیا میں کام کیا تھا، جہاں ہر شخص کے دو سے زیادہ چہرے ہوتے تھے۔ دوسرے انسانوں پر سے اعتبار تو وہ بہت پہلے کھو چکا تھا، اب اپنی بیوی پر سے بھی کھو دیا تھا۔ اچھا ہی ہوا کہ وہ ماموں سے ملنے نہیں گیا۔ امید دلائے بغیر رشتہ ختم کرنا زیادہ بہتر تھا۔ بس چند دن وہ اس لڑکی پہ نظر رکھے گا۔ آخر اسے ممی کو رشتہ توڑنے کے لیے ٹھوس وجوہات بھی تو دینی تھیں۔
ایک دفعہ پھر وہ اپنی سوچ میں ”حیا“ سے ”اس لڑکی“ تک آ گیا تھا۔
•••••••••••••••••••••
وہ نوجوان جو اس لڑکی کے ساتھ اس نے بیٹھا دیکھا تھا اور بعد ازاں اسے فرائی پان بھی دے مارا تھا وہ اس کے ذہن سے نہیں نکل پا رہا تھا۔ اگلے کچھ دن وہ بہت مصروف رہا اور اسے اپنے ماموؤں کے گھر کے پاس سے بھی گزرنے کا وقت نہ ملا مگر شک کا جو کھٹکا دل میں پر گیا تھا، اس کی تصدیق کے لیے اس نے حیا کے ای میل ایڈریس پہ ”کلون“ لگا دیا تھا (اس کا ای میل ایڈریس ممی نے روحیل سے لے کر دیا تھا اسے) اس کلون ہیکر کے باعث اب اس ای میل ایڈریس میں جیسے ہی کوئی ای میل آتی یا جاتی تو اگلے ہی سیکنڈ وہ اسے اپنے فون پر موصول ہو جاتی۔ وہ اس لڑکے کا نام نہیں جانتا تھا اور نہ اتنا وقت تھا کہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرتا پھرے۔ اسے بس یہی معلوم کرنا تھا کہ اس کی منکوحہ کسی اور کے ساتھ وابستہ تو نہیں۔ اگر ہے تو کوئی ٹھوس چیز اس کے ہاتھ لگ جائے پھر وہ ممی کو راضی کر لے گا۔ ابھی تک اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی، مگر اس کا تذبذب بہرحال ختم نہیں ہوا تھا۔
داور کی شادی کو آٹھ، نو دن گزر چکے تھے۔ اس سہ پہر جب وہ اپنے اپارٹمنٹ کا لاک کھول رہا تھا، اس کا موبائل بجا۔ دروازہ احتیاط سے تھوڑا سا کھول کر اندر داخل ہوتے ہوئے اس نے آنے والا پیغام کھولا۔ وہ حیا کی ایک ای میل کی کاپی تھی، جو اس نے ابھی ابھی بھیجی تھی۔ دروازہ دوبارہ اندر سے لاک کرتے ہوئے جہان نے موبائل کی اسکرین پر چمکتا پیغام پڑھا۔
نیشنل رسپانس سنٹر فار سائبر کرائم، اس نے اچنبھے سے ایڈریس کو دیکھا جس کو ای میل بھیجی گئی تھی، اس کو کیا ضرورت پڑ گئی سائبر کرائم کو ای میل کرنے کی؟
میل میں ایک ویب سائٹ پر کسی ویڈیو کا پتا لکھا تھا اور ساتھ میں ایک مختصر سی شکایت درج تھی، جس کے مطابق اس کے کزن کی مہندی کی تقریب جو کہ چند دن پہلے منعقد ہوئی تھی، کی کوئی فیملی ویڈیو انٹر نیٹ پر ڈال دی گئی تھی۔ وہ اس کے خلاف پرائیویسی ایکٹ کے تحت شکایت کر رہی تھی کہ اسے فوری طور پر ہٹایا جائے۔
جہان نے ویڈیو کے پتے کو چھوا، مگر بہت بھاری ہونے یا نیٹ کی رفتار سست ہونے کے باعث کھل نہ سکی۔
خیر ویڈیو وہ بعد میں دیکھ لے گا، ابھی اسے اس کی مدد کرنی چاہئیے۔ یہ تو طے تھا کہ جس سائبر کرائم سیل سے اس نے رجوع کیا تھا، وہ ایک غیر فوجی ایجنسی کا سیل تھا اور وہ میل کا جواب تین چار دن بعد دیا کرتے تھے اور ان کا طریقہ کار ذرا پچیدہ تھا۔ پہلے وہ شکایتی فارم بھیجتے، جو ایف آئی آر کے مترادف ہوتا پھر ایک بیان لینے کے لیے ایجنسی کے تھانے ضرور بلایا کرتے تھے۔ اب یہ خاندانی لڑکیاں کہاں تھانے کچہری کے چکر کاٹیں گی، اس لئے اسے کچھ کرنا چاہئیے۔ اس سے لاکھ گلے شکوے ہونے کے باوجود وہ اس کی مدد کرنا چاہتا تھا۔
ممی سے اس نے حیا کا موبائل نمبر بھی ای میل ایڈریس کے ساتھ ہی لیا تھا۔ (ممی کا حیا سے کوئی خاص رابطہ تو نہیں تھا، بس ایک بار فاطمہ مامی نےحیا کے نمبر سے کال کی تھی تو نمبر آ گیا۔) اس نے چند لمحے سوچا پھر اپنے لینڈ لائن سے اس کا موبائل نمبر ڈائل کیا۔ یہ سرکاری فون تھا، اس کا نمبر کسی سی ایل آئی پہ نہیں آتا تھا۔ بس ”پرائیویٹ نمبر“ لکھا آتا تھا۔
آواز بدلنا کبھی بھی اس کے لئے مسئلہ نہیں رہا تھا۔ ان کو اس چیز کی بہت اچھی تربیت دی جاتی تھی، مگر صرف آواز بدلنے میں غلطی کا یا پکڑے جانے کا احتمال کافی زیادہ تھا۔ اس لیے اس نے voice changing application بھی آن کر دی۔ یہ خود کار نظام اس کے لبوں سے نکلے ہر لفظ کو سیکنڈ کے دسویں حصے بعد حیا کی سماعت تک ایک مختلف مردانہ آواز میں پہنچاتا تھا۔
جب وہ اس سے مخاطب ہوا تو اس کی آواز بہت دھیمی تھی۔ خوبصورت، مگر مدھم سا گھمبیر پن لیے۔ صوفے پہ نیم دراز ہوۓ، وہ بہت اطمینان سے ایسی باتیں کر رہا تھا، جو اس لڑکی کو چونکانے کے لیے کافی تھیں۔ وڈیو ہٹانے کا وعدہ لے کر اس نے وہی بات کہی جو سائبر کرائم والے بھی لازما کہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے آفس آ کر باقاعدہ رپورٹ کریں۔ اس بات پہ وہ باقاعدہ سٹپٹا گئی اور پھر جلدی سے فون بند کر دیا۔ جہان نے قدرے اچنھبے سے ریسیور کو دیکھا۔ وہ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں لگ رہی تھی؟ شاید مسئلہ سنگین تھا۔ اسے وہ ویڈیو دیکھ لینی چاہیے۔
قریبا دس منٹ بعد وہ اس ویڈیو کو اپنے لیپ ٹاپ پہ کھول رہا تھا۔ جیسے ہی صفحہ لوڈ ہوا اور اوپر ویڈیو کا نام جگمگایا، وہ ایک دم چونک کر سیدھا ہوا۔ جیسے جیسے ویڈیو چلتی جا رہی تھی، اس کے چہرے کے تاثرات سخت ہوتے گئے۔ پیشانی کی رگیں تن گئیں اور آنکھوں میں شدید غصہ در آیا۔
یہ تھا اس کے ماموؤں کا عزت دار خاندان؟ فرقان ماموں اور سلیمان ماموں کی عزت و عصمت والی بیٹیاں؟ وہ مکمل طور پر زنانہ فنکشن نہیں تھا۔ اسے پیچھے پس منظر میں ویٹرز اور ڈی جے بھی نظر آ رہے تھے۔ وہ بھی تو مرد ہی تھے۔ ان سے کوئی پردہ نہیں؟ کوئی شرم لحاظ نہیں؟ کیسے لوگ تھے یہ؟ کیا ہو گیا تھا پاکستان کو؟
دکھ، طیش، استعجاب۔ ایک دم وہ بہت اپ سیٹ ہو گیا تھا۔ بے حد غصے سے اس نے لیپ ٹاپ بند کیا اور اٹھ کر کمرے میں بے چینی سے ٹہلنے لگا۔ جیل میں گزرے وہ ایک ماہ دس دن اس کے اندر بہت تلخی بھر گئے تھے اور گو کہ وہ اس تلخی کو دبا گیا تھا، مگر ختم نہیں کر پایا تھا اور دبانے اور ختم کرنے میں خلیج بھر فرق ہوتا ہے۔
اسے اتنا غصہ تو اس لڑکی کو اس گاڑی میں بیٹھتے دیکھ کر نہیں آیا تھا جتنا اس واہیات ویڈیو کو دیکھ کر آ رہا تھا۔ یہ لڑکی اس جیسے آدمی کے ساتھ تو کبھی خوش نہیں رہ سکتی تھی۔ وہ یہ نہیں کہ رہا تھا کہ وہ بہت باکردار اور اچھا تھا۔ بس وہ دونوں دو مختلف طریقوں سے پروان چڑھنے والے دو مختلف انسان تھے۔ دریا کے دو کنارے اور اب تو ممی کی خوشی کے لیے بھی اس لڑکی سے باقاعدہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اسے پچھتاوا ہوا کہ اس نے ”میجر احمد“ یعنی اپنا نام کیوں بتایا۔ بہرحال وہ اس غلطی کو کور کر لے گا۔
وہ اسے معلوم نہیں ہونے دے گا کہ وہی میجر احمد ہے۔ یہ بعد کی بات تھی۔ ابھی مسئلہ اس کے اسکالرشپ کا تھا۔ جب یہ طے تھا کہ وہ اس کے ساتھ رشتہ نہیں رکھنا چاہتا، تو پھر وہ کیوں اگلے پانچ ماہ استنبول میں اس کیے لیے ہلکان ہو؟ ممی کا خیال تھا کہ وہ آئے گی تو ان کہ پاس رہے گی۔ اس صورت میں تو اور مسئلہ ہو گا کہ وہ استنبول میں دو شناختوں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ کبھی جہانگیر میں رہنا پڑتا تو کبھی بیوک ادا میں۔ اگر وہ دو دن بھی اس کے گھر رہی تو جان جائے گی کہ اس کی سرگرمیاں مشکوک ہیں۔ ایسے میں اس کے لیے خود کو چھپا کر رکھنا مشکل ہو جاۓ گا اور اب جب کہ اسے زندگی میں شامل نہیں کرنا تو پھر رازوں میں بھی نہیں شریک کرنا۔
وہ بار بار یہی بات سوچے جا رہا تھا۔
••••••••••••••••••
ان کے ہاں کام کرنے کہ دو طریقے بتاۓ جاتے تھے۔ بالواسطہ اور بلا واسطہ۔ بلاواسطہ طریقہ وہ عموما پہلے استعمال کرتا تھا، اگر وہ ناکام ہو جاۓ، تو پھر باواسطہ طریقہ چنا جاتا۔
فی الحال وہ یہی چاہتا تھا کہ کسی طرح وہ لڑکی ترکی نہ آئے۔ اس کی وجہ اس نے اپنے آپ کو یہی بتائی کہ وہ یہ صرف اور صرف اپنی دوسری زندگی میں کوئی گڑبڑ ہونے سے بچانے کے لیے کر رہا ہے۔ وہ آۓ گی، اور پھر وہ اس سے ملے گی، اس سے امیدیں وابستہ کر لے گی یا شاید وہ طلاق لینا چاہے، اس صورت میں ممی ہرٹ ہو گی، اف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان سارے مسئلوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا۔ کچھ ایسا ہو جائے جس سے وہ رک جائے اور استبول جانے کا پروگرام منسوخ کر دے۔
حماد آج کل آفیشل کام میں اس کی مدد کروا رہا تھا۔ وہ اپنے ایکسیڈنٹ کے بعد لمبی چھٹی پہ تھا، اس لیے بآسانی اس کے ساتھ کام کر سکتا تھا۔ اس نے حماد سے مدد لینے کا سوچا۔
دیکھو! میں صرف تمہاری تسلی کے لیے تمہاری مدد کرنے کو تیار ہوں، ورنہ میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ ترکی پڑھنے جا رہی ہے، تمہاری نگرانی کرنے نہیں۔ اس کع کبھی بھی تمہاری سرگرمیں پہ شک نہیں ہو گا۔ تم ہر چیز ٹھیک سے سنبھالنا جانتے ہو۔
اصل بات یہ ہے کہ تم وہاں اسے اپنے قریب نہیں دیکھنا چاہتے، تمہیں ڈر ہے کہ کہیں تم اس سے محبت نہ کرنے لگ جاؤ اور اس صورت میں تمہیں اپنے ماموؤں کے سامنے ہارنا پڑے گا۔ تمہارا دل اس رشتے کو رکھنے پر راضی ہے، مگر دماغ جو آج بھی اپنے ماموؤں سے انتقام لینے کا خوائش مند ہے، خائف ہے کہ کہیں دل کے جزبات انا پہ حاوی نہ ہو جائیں۔ پھر بھی میں جو کر سکا، کروں گا۔
حماد نے بہت اطمینان سے کہا تھا۔ جہان خفگی سے سر جھٹک کر رہ گیا، جیسے اسے سچ سن کر برا لگا ہو۔
بہرحال، وجہ جو بھی ہو، وہ پاکستان سے روانگی سے قبل اس درد سر سے چھٹکارہ چاہتا تھا۔ دوسری طرف اس نے وہ ویڈیو انٹرنیٹ پہ ڈالنے والے کو بھی ٹریس کر لیا تھا۔ وہ وہی مووی میکر تھا جو مہندی کی تقریب کی ویڈیو بنانے وہاں گیا تھا اور وہاں یہ کام اس نے اپنے موبائل کے کیمرے کے ذریعے ایک ویٹر سے لیا تھا۔ اس نے اپنی ایجنسی کے سائبر کرائم سیل والوں کے حوالے اس آدمی ک کر دیا تھا۔ اور اس نے جس جس کو وہ ویڈیو دی تھی، وہ بھی نکلوا لی تھی۔ پھر بھی، اگر انٹرنیٹ پر سے کسی نے اسے اپنے کمپیوٹر میں سیو کر لیا ہو تو اس کا کوئی ریکارڈ نہیں تھا۔ کہیں نہ کہیں تو وہ ویڈیو ضرور ہو گی۔ ساری دنیا سے تو وہ نکلوا نہیں سکتا تھا۔ بہرحال اس نے اس مووی میکر کے اکاؤنٹ کو اپنی دسترس میں لے لیا تھا۔ ویڈیو اس نے ہٹائی نہیں کہ ہٹانے کہ صورت میں وہ لڑکی کبھی اس سے ملنے نہ آتی۔ مگر اس کا صفحہ بلاک ضرور کر دیا، یوں کہ اس کے ماموں کے گھر کے سیکٹر کے علاوہ وہ ملک میں کہیں بھی دیکھی نہیں جا سکتی تھی۔ اسے پورا یقین تھا کہ اپنی ویڈیو ہٹوانے کے لیے وہ اس کے پاس ضرور آئے گی۔
اگلے روز اس کو حماد کے ساتھ چار پانچ گھنٹے سڑک پہ میڈم سیکنڈ سیکرٹری کے انتظار میں گزارنے تھے۔ وہ ایک ایسی مرکزی شاہراہ تھی جہاں ہر پل رش ہوتا تھا۔ اسے موہوم سی امید تھی کہ شاید وہ بھی یہاں سے گزرے۔ وہ عموما ہر وقت باہر ہی نکلی ہوتی تھی۔ وہ گھر میں بیٹھنے والی لڑکیوں میں سے نہیں تھی۔
اس سڑک پر تو نہیں مگر قریب کی ایک ذیلی سڑک پر وہ ٹریفک جام میں ضرور پھنسی ہوئی تھی۔ جہان اور حماد کا کام آج بھی نہیں ہو سکا تھا سو اس نے سوچا، وہ یہ دوسرا کام نپٹا ہی دے۔ پاکستان میں اس نے عورتوں کو اگر کسی شے سے بہت ڈرتے دیکھا تھا تو وہ خواجہ سرا کی بد دعا تھی، بالخصوص سفر سے پہلے اگر کوئی خواجہ سرا بد دعا دے دے تو اس بد شگونی کے بعد لوگ سفر ترک کر دیا کرتے تھے۔ وہ اس وقت بددعا کے اس اصل کو بھول جایا کرتے تھے کہ بددعا چاہے نیک آدمی دے، یا فاسق، چاہے معذور شخص دے یا صحت مند، وہ تب تک آپ کو نہیں لگ سکتی، جب تک آپ اس کے اہل نہ ہوں اور اگر آپ اس کے اہل نہ ہوں تو وہ دینے والے پہ پلٹ آتی ہے مگر اسے امید تھی کہ اس کی بیوی بھی ان ہی ضعیف العقیدہ لوگوں سے ہی ہو گی جو خواجہ سرا کی بددعا سے ڈرتے تھے۔
وہ صرف پانچ منٹ اس کام کے لیے نکال سکتا تھا، اسے واپس جا کر رپورٹ کرنی تھی۔ مگر جب ان دونوں نے اسے متوجہ کیا تو وہ ایک دم سے اتنے غصہ میں آ گئی کہ ان کی کوئی بات سنی ہی نہیں۔ حماد تو جانے کون سی باتیں لے کر بیٹھ گیا۔ مگر وہ کچھ سننے پہ تیار نہ تھی۔ اس نے جیسے بھلا دیا تھا کہ ڈولی نے اس پر کوئی احسان کیا تھا۔ وہ کوئی بات سننے پر تیار ہی نہ تھی، بلکہ مسلسل اسے ہٹنے اور جانے کا کہہ رہی تھی۔ یہاں تک ہوتا تو ٹھیک تھا، مگر وہی اس لڑکی کی ایک دم ری ایکٹ کر دینے کی عادت۔
اس نے حماد کی انگلیاں شیشے میں دے دیں۔
وہ ذرا سا زخم اتنا تکلیف دہ نہ ہوتا، اگر حماد کا ہاتھ فریکچر کے بعد اب تندرستی کی طرف نہ بڑھ رہا ہوتا۔ ایسے میں اس کی وجہ سے وہ ہاتھ زخمی ہوا۔ اسے شدید غصہ آیا۔ دوسری طرف اس کا دوسرا کام بھی نہیں ہو سکا تھا، ان دونوں باتوں پہ وہ شدید غصے کا شکار ہو رہا تھا۔
وہ اسے نہیں روک سکا۔ اسے اپنی یہ بے بسی غصہ دلا رہی تھی۔ اس رات وہ بہت دیر تک اس بارے میں سوچتا رہا تھا۔ وہ منظر جب وہ اس لڑکے کی کار میں بیٹھ رہی تھی اور وہ ویڈیو۔ وہ کچھ بھی فراموش نہیں کر پا رہا تھا۔اسے اس لڑکی سے کوئی تعلق نہیں رکھنا تھا، پھر بھی ایک دفعہ وہ اس سے ملنا چاہتا تھا۔ اگر وہ اسے کسی طرح اسکالرشپ لینے سے باز رکھ سکتا تھا تو یقینًا وہ اسے ترکی میں نہیں دیکھے گا۔ اس لیے یہ ملاقات اہم اور ضروری تھی۔
وہیں بستر پہ لیٹے لیٹے اس نے اپنے لینڈ لائن سے اس کا نمبر ملایا۔ کافی گھنٹیوں بعد اس نے فون اٹھا لیا اور چھوٹتے ہی ملنے کے لیے رضامندی ظاہر کر دی۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ نیند سے بیدار ہوئی ہو اور اس کے انداز سے یہ بھی ظاہر تھا کہ وہ گھر والوں کو بتائے بغیر ملنے آۓ گی۔ پتا نہیں اس نے ان سفید پھولوں کے بارے میں گھر میں کیا بتایا ہو گا۔شاید اس نے کوئی بہانہ کر دیا ہو۔ شاید پھول چھپا دیے ہوں۔ کوئی بعید نہیں کہ کل وہ اپنے ابا کو ساتھ لے آئے۔ ویسے اسے امید نہیں تھی کہ وہ گھر والوں کو درمیان میں لائے گی۔ جو بھی تھا، وہ لڑکی کافی باہمت اور اپنے مسائل خود حل کرنے والی لڑکی لگتی تھی۔
اس سی ملنے کے لئے ایک جعلی سیف ہاؤس کا انتظام زیادہ مشکل نہیں تھا۔ سب انتظام اس نے خود ذاتی طور پہ کیا تھا۔ البتہ یہ طے تھا کہ وہ اس سے اسکرین کے پیچھے سے بات کرے گا۔جیسے بعض اوقات کچھ لوگوں کو تفتیش یا پوچھ گچھ کے لیے بلا کر بات کی جاتی تھی۔ اس نے اپنا درست نام میجر احمد بتا کر البتہ غلطی کی تھی۔ ہو سکتا ہے فرقان ماموں کی وہ بات کہ سکندر کا بیٹا لاہور میں پوسٹڈ ہے، اس نے سن رکھی ہو اور وہ اس بارے میں شہبات کا شکار ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے دادا کا نام بھی ہو معلوم ہو اور اب اگر ایک میجر احمد اس کے سامنے خود کو چھپاتا ہے تو وہ دو جمع دو کر کے یہ جان سکتی تھی کہ وہ کون ہے۔
وہ اتنی ذہین تھی یا نہیں۔ وہ نہیں جانتا تھا۔ وہ خود ایک کاملیت پسند تھا۔ اس کی کور اسٹوری میں کوئی خامی، کوئی جھول نہیں ہونا چاہیے، یہ اس نے اپنی جاب کے دوران سیکھا تھا۔ اس کے پاس حیا کو دینے کے لیے کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے تھی کہ وہ کیوں اس سے اسکرین کے پیچھے بات کر رہا ہے اور وجہ بہت سادہ سی تھی۔
وہ اسے یہ تا ثر دے گا کہ اس کا چہرہ جھلسا ہوا ہے۔ اسکرین چونکہ فروسٹڈ گلاس کی تھی تو اس کے پیچھے اگر وہ احمد کا آدھا جھلسا چہرہ دیکھتی تو جھلسا ہوا حصہ نمایاں نہ ہوتا، دھندلے شیشے کے باعث اسے کافی گہرے رنگ کا برن بنانا تھا۔ وہ یہی قیاس کرے گی کہ وہ اپنے احساس کمتری کا شکار ہے اور اسی لیے ایک خوب صورت لڑکی کے سامنے آنے سے خائف ہے۔ ایک کامل اور ٹھوس وجہ۔
اس کے علاوہ ایک وجہ اور بھی تھی۔ اگر وہ اس کی بات نہیں سمجھتی اور اسکالرشپ سے پیچھے نہیں ہٹتی تو وہ ایک آخری کوشش کے طور پہ حماد کو اس سے بات کرنے کو کہے گا اور حماد کے نزدیک اس مسئلے کا سب سے بہترین حل یہی تھا کہ وہ خود کو میجر احمد ظاہر کر کے اس سے مل لے اور کسی بھی طرح اسے سمجھا دے کہ اس کے شوہر کے لیے یہ درست نہیں ہو گا کہ وہ وہاں جائے اور یہ کہ اس کا شوہر کہیں اس کی وجہ سے مصیبت میں نہ پڑ جائے۔ ابھی اس گفتگو کا پورا متن طے ہونا باقی تھا، مگر یہ طے تھا کہ وہ یہ کوشش ضرور کرے گا۔ اس کا رشتےدار ان کے قریب استنبول میں رہے۔ یہ اس کے لیے کوئی خوش آئندہ بات نہیں تھی۔
مجھے لگتا ہے تم اپنی مسز کے آنے سے خائف اس لیے ہو کہ تم کہیں ان کی محبت میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔
کہیں تم ان سے متاثر نہ ہونے لگو اور کہیں تمہارے پاس ان کو اپنی زندگی سے نکالنے کی وجہ ختم نہ ہو جاۓ۔ حماد اس کا مکمل ساتھ دے رہا تها، مگر ساتھ میں وہ مسکرا کر ایسا تبصرہ بهی کر دیا کرتا تها۔ وہ سر جهٹک کر نظر انداز کر دیتا۔
جب وہ میجر احمد کے اس خود ساختہ آفس آئی تو چیکنگ کے بہانے اس کا موبائل اس سے لے لیا گیا اور اس میں ایک بہت وسیع رینج کا حامل جی پی ایس ٹریسنگ ڈیوائس ڈال کر واپس کر دیا گیا۔ اگر وہ ترکی چلی جاۓ، تب یہ ڈیوائس اس کے بہت کام آۓ گا۔
جب وہ اندر آئی اور جہان اس سے مخاطب ہوا تو سب سے پہلے اس نے اسے یقین دلایا کہ اس ویڈیو کو وہ شہر کے ایک ایک بندے سے نکلوا چکا ہے۔ یہ سچ تها۔ کم از کم شادی کے فنکسن کی مووی بنانے والے جس مووی میکر کی یہ حرکت تهی، اس نے پوچھ گچھ پہ ہر اس سخص تک ان کو رسائی دے دی تهی، جس کو اس نے یہ وڈیو دی تهی، پهر بهی وہ جانتا تها کہ اگر ان لوگوں نے ویڈیو مزید آگے کی ہو، یا لوگوں نے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر لی ہو، یا کسی بهی دوسری صورت میں کہیں نہ کہیں وہ وڈیو ضرور کسی کے کمپیوٹر میں پڑی ہو گی۔
لیکن بعض باتیں انسان غیر ارادی طور پر کہہ دیتا ہے۔ جیسے جب اس نے بتایا کہ اس نے صرف صبر نہ کر سکنے کے باعث ملاقات کا بہانہ بنایا تها تو لمحے بھر کو وہ خود بهی حیران رہ گیا۔ ان پچهلے چند دنوں میں دیکھے جانے والے ناقابل برداشت مناظر کے باوجود وہ اس لڑکی سے بغیر کسی وجہ کے ملنا چاہتا تها؟ یا پهر جو وجوہات اس کے پاس تهیں، وه محض اس کے قریب رہنے کا جواز تها؟ شاید حماد ٹهیک کہتا ہے۔ پهر بھی وہ جانتا تها کہ وہ دونوں دو مختلف سے لوگ کبهی بھی ایک نہیں ہو سکیں گے۔
اس ملاقات میں اس نے اس لڑکی سے چند ایک سوال پوچهے، جن پہ حسب عادت وہ تب اٹهی۔ یہاں تک کہ جب وہ اسے نصیحت کرنا چاہ رہا تها، اس نے ٹهیک سے جواب بهی نہیں دیا، نہ ہی اس کی بات میں دلچسپی لی۔ تب اس نے وہ سوال کیا، جس سے وه شادی کے بارے میں اس کی ترجیحات جان سکے۔ وہ جانتا تھا وه فورا انکار کر دے گی، مگر کس وجہ کی بنا پہ؟ اور جب اس نے وجہ بتائی تو لمحے بهر کو وه خود بهی چونک کر رہ گیا۔ وہ جتنے یقین اور استحاق سے ”میرا شوہر، میرا شوہر“ کہہ رہی تهی۔ وہ پھر سے اپنے بارے میں بے یقین ہونے لگا۔ نا چاہتے ہوۓ بهی اس نے فرقان ماموں کے وه الفاظ دہراۓ جو انہوں نے ممی، ابا اور اس کی پاکستان واپسی کے بارے میں کہے تھے۔ وہ صرف یہ جاننا چاہتا تها کہ وہ اس کے ابا کے بارے میں کتنا جانتی ہے؟ مگر وہ حسب عادت بھڑک کر اٹھ گئی۔
تب اس نے اپنے قریب رکھے سرخ گلابوں کے بکے میں (کہ آج اسے واقعتا سفید گلاب نہیں ملے تهے، نہ اس نے تگ و دو کی تهی۔) ایک ننھا سا کارڈ لکھ کر ڈالا۔
"آنے کا شکریہ۔ اے آر پی۔“
کارڈ اس نے پھولوں کے اندر رکھ دیا۔ اس کے ساتهی نے بعد میں باہر جا کر حیا کو پهول دینے چاہے، مگر اس نے تو ان کو دیکها تک نہیں اور چلی گئی۔ وه جیسے بہت غصے میں تهی۔
ان تمام دنوں میں یہ وہ پہلا دن تها، جب جہان نے اس پہ بہت وقت صرف کیا تها۔ گویا کے وه بنیادی طور پہ اتنا چوکس آدمی تها که اسے وقت نکالنا آتا تها، مگر ابهی تک جو وہ خود سے کہہ رہا تها که وه یہ صرف اسے اسکالر شپ لینے سے روکنے کے لیے کر رہا ہے۔ خود بهی نہیں سمجھ پایا کہ اگر وہ اس کے سامنے آئی بیٹهی تهی تو اس نے ہر بات کہہ دی، سواۓ اسکالر شپ نہ لینے کے۔ وہ اس بارے میں ایک لفظ بهی نہ کہہ سکا۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ ان کی گفتگو جس تلخ موڑ پہ آ رکی تهی، اس کے بعد اس کو کسی کام سے منع کرنے کا مطلب تها کہ وہ جان بوجھ کر وہی کام کرے گی۔
مگر وہ ایک دفعہ پهر سے کوشش کرنا چاہتا تها۔ اگلے دو دن وہ اپنے کام پیک اپ کرتا رہا۔ اس کا کام ٹهیک
سے نہیں ہو پایا تھا کیونکہ میڈم سیکنڈ سیکریٹری واپس جا رہی تھیں کسی میٹنگ کے سلسلے میں۔ اس کے پیشے میں اکثر ایسا ہی ہوتا تھا۔ بہت دن بہت صبر و تحمل سے کسی معلومات کے ملنے کے انتظار کے بعد ایک دم سے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔
تیسرے روز وہ رات میں پھر جناح سپر مارکٹ کے ایک ویران سے چبوترے پہ اسے ملا تھا۔ دنیا کے ہر حساس ادارے میں سب سے زیادہ قدیم اور کسی حد تک گھسا پٹا طریقہ جو کسی بھی شخص کا احسان و اعتماد جیتنےکا بتایا جاتا تھا۔ وہ یہی تھا کہ پہلے آپ اپنے مطلوبہ شخص کو کسی مصیبت میں گرفتار کروائیں، پھر عین وقت پر پہنچ کر خود کو ہیرو ثابت کر دیں۔ اگر اگلا شخص عقل مند ہوا تو آپ کی حرکت جان جائے گا اور کبھی بھی آپ کا احسان مند نہیں ہو گا۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنی عقل مند ہے۔ البتہ وہ یہ نہیں جان پائ کہ لڑکے اسے کس کے کہنے پر ستا رہے تھے۔ اسے اس روز وہ ذرا غائب دماغ لگی تھی۔ جیسے کسی بات پہ الجھی ہوئی ہو۔ وہ اپنے شوہر کو ڈھونڈنا چاہ رہی تھی۔ آج پھر اس کی گفتگو میں شوہر کا تزکرہ تھا۔ وہ اب بھی سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ وہ اپنے شوہر کا انتظار کیوں کر رہی ہے؟ تاکہ رشتہ ختم کر سکے؟ یا پھر رشتہ نبھا سکے؟
جو بھی تھا، وہ اس پہ میجراحمد کا امپریشن اچھا ڈالنا چاہتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسے شک بھی پڑے کہ وہی ڈولی دراصل میجر احمد ہے۔ چبوترے پر جانے سے قبل اس نے چند ایک رسمی فقرے ریکادڈ کر کے اس ریکارڈنگ کا ٹائم لگا دیا تھا۔ عین وقت ہونے پہ حیا کا فون بج اٹھا۔ وہ یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ میجر احمد کی احسان مند ہے بھی یا نہیں، مگر اس نے عادت کے مطابق پوری بات سنے بغیر ہی جھڑک کر فون بند کر دیا۔ وہ میجر احمد کو پسند نہیں کرتی، وہ جان گیا تھا۔
پھر اسے وہ گاڑی والا لڑکا یاد آتا تو لگتا کہ وہ واقعی جہان سے رشتہ ختم کرنا چاہتی ہے۔ شاید میجر احمد کے سامنے اپنے شوہر کا ذکر صرف دھمکی کے طور پر کر رہی تھی تاکہ وہ اسے تنگ نہ کر سکے۔
جب وہ جانے لگی تو اس نے وہی کہا جو وہ کہنا چاہتا تھا۔ شاید اس کی بد دعا سن کر وہ رک جائے۔ پھر وہ چبوترے کی دیوار کے عقب میں جا کھڑا ہوا تھا۔ تب بھی اسے امید تھی کہ وہ مڑ کر ضرور آئے گی۔ یہ دیکھنے کہ وہ کون ہے اور کیوں ہے؟ مگر وہ ذرا سی رکی، مڑ کر دیکھا اور پھر واپس آگے بڑھ گئی۔ اس کا ذہن واضع طور پہ کہیں اور الجھا ہوا تھا۔
جہان کا کام نہیں ہو سکا تھا۔ اب مزید یہاں ٹھہرنا بےکار تھا۔ اس کو اب واپس جانا تھا۔ پندرہ جنوری کو اس کی فلائیٹ تھی۔ اس کے پاس اب صرف ایک دن تھا۔ صرف اور صرف اپنے دل کو مطمئن کرنے کے لیے ایک آخری کوشش کرنا چاہتا تھا۔
میں صرف تمہاری تسلی کے لیے ان سے بات کر لوں گا، ورنہ مجھے یقین ہے کہ اب تم خود بھی نہیں چاہتے کہ وہ رک جائیں۔ اگر ایسا ہوتا تو تم اس کے لیے موثر طریقہ اپناتے۔ ان کے پیپر ورک میں مسئلہ کرواتے۔ ان کے والدین کو کسی طرح اپروچ کر کے انہیں باز رکھنے کا کہتے۔ مگر تم جو بھی کر رہے ہو، وہ اس لیے نہیں ہے کہ تم ان کو روک سکو، بلکہ اس لیے ہے تاکہ تم ہر دوسرے دن ان سے ملنے یا ان کو دیکھنے کا موقع پیدا کر لو۔ تمہارا دل کہتا ہے کہ تم یہ رشہ نبھاؤ اور یہ کہ وہ ضرور ترکی آئیں تاکہ تم ان کو بہتر طور پر جان سکو مگر تمہارے دماغ میں تمہارے ماموؤں کے خلاف جو عناد بھرا ہے۔ وہ تمہیں اس رشتے کو توڑنے پہ اکساتا ہے۔ تم خود کنفیوژڈ ہو جہان! کہ تمہیں کیا کرنا ہے مگر کبھی کبھی انسان کو خود سے سچ بول لینا چاہیے۔ اس سے بہت سی کنفیوژن ختم ہو جاتی ہے۔
مگر وہ حماد کی ساری باتیں نظر انداز کر رہا تھا۔ اب بھی وہ اسی بات پہ قائم تھا کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے قریب ترکی میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ چونکہ اب اس کو روانگی کا حکم مل چکا ہے اور کل دوپہر میں اس کی فلائیٹ تھی۔ سو وہ آخری کوشش آج کے دن کرنا چاہتا تھا-
حماد کو آج اپنی امی اور بہن عینی کے ساتھ شاپنگ پر جانا تھا۔ وہ لوگ اس کی شادی کی شاپنگ کر رہے تھے۔ دوسری طرف جہان اپنے اپارٹمنٹ میں پیکنگ کر رہا تھا۔ ساتھ میں وہ اپنے ٹریسر کا اسٹیٹس ضرور چیک کرتا تھا۔ صبح وہ ڈپلومیٹک انگلیو میں تھی، پھر پنڈی چلی گئی شاید۔
اس نے وہاں سے کچھ اٹھانا ہو، کیونکہ پھر وہ واپس ڈپلومیٹک انکلیو چلی گئی تھی۔ ابھی دوپہر پوری طرح سے نہیں چھائی تھی، جب جہان نے اسے ایف سیون کی طرف جاتے دیکھا۔ کل رات بھی وہ جناح سپر میں تھی۔ سو آج بھی شاید وہیں جا رہی ہو۔ اس لڑکی کو شاپنگ کا بہت شوق تھا۔ بہر حال اس نے حماد سے بات کی۔ وہ لوگ ایف ٹین جا رہے تھے، مگر چونکہ وہ حیا سے بات کرنے کے لئے راضی تھا، اس لیے وہ جناح سپر چلا آیا۔
حماد اس سب کو ایک اتفاقیہ ملاقات کی طرح پلان کرنا چاہ رہا تھا چونکہ یہ طے تھا کہ وہ اسے اپنے میجر احمد ہونے کا تاثر دے گا۔ اس لیے یہ غلط لگتا کہ جو شخص اپنی بدصورتی کے باعث پہلے اس کے سامنے نہیں آ رہا تھا۔ اب بالشافہ ملاقات پر راضی ہو گیا تھا۔ اپنی جاب میں وہ اکثر ایسے اتفاقیہ مواقع پیدا کرتے رہتے تھے۔ ان کے نزدیک وہ لوگ احمق تھے، جو موقع ملنے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ مواقع ڈھونڈے نہیں، پیدا کیے جاتے ہیں۔ اب ایک بہت معصوم سے اتفاق میں وہ ایک ہی دکان میں اس سے ٹکرا جاتا۔ وہ یقینًا اس کا آدھا جھلسا چہرہ دیکھ کر چونکتی، اسی پل عینی اسے احمد بھائی کہہ کر پکارتی۔ عینی کو وہ پہلے ہی سمجھا چکا تھا کہ آج وہ اسے مارکیٹ میں احمد بھائی کہہ کر پکارے گی۔ کیونکہ وہ کسی کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اس کا نام حماد نہیں احمد ہے۔ عینی اپنے بھائی کی مشکوک حرکتوں کی عادی تھی۔ وہ شانے اچکا کر راضی ہو گئی۔ جو بھی تھا۔ اپنے بھائی کی مدد کر کے اسے ہمیشہ خوشی ہوتی تھی۔
"میں فیملی کے ساتھ مارکیٹ میں ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کس شاپ میں جائیں گی؟" حماد نے وہیں سے اسے فون کیا تھا۔
وہ اس وقت اپنا بیگ پیک کر رہا تھا۔
"وہ جو سعید بک بینک والا پلازہ ہے، اس میں جہاں ایک خالی چبوترہ سا بنا ہوا ہے۔"
"ہاں، مگر پھر کوئی بک فیئر لگا ہوا ہے۔ وہ خالی نہیں ہی۔"
"اس کے آس پاس کوئی کپڑوں یا جوتوں کی ایسی شاپ ہے جس پہ سیل لگی ہو؟" وہ سوچ سوچ کر بول رہا تھا۔ اس نے اتنے دنوں میں ایک چیز کا اندازہ کر لیا تھا۔ کہ وہ لڑکی کپڑوں، جوتوں کی بہت شوقین تھی۔
"ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے ایک جگہ سیل لگی ہوئی ہے۔"
"تم وہاں جاؤ، وہ ادھر ضرور آئے گی۔"وہ بہت وثوق سے بولا تھا۔
وہ کپڑے تہہ کرتے ہوئے پھر اسی نہج پہ سوچنے لگا۔ کیا وہ واقعی چاہتا تھا کہ وہ نہ جائے، یا پھر بس اس کی ہر پل خبر رکھنے کا بہانا ڈھونڈ رہا تھا؟" جہان! تم کنفیوژڈ ہو۔" اس نے خود کو سرزنش کی۔
پورا گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا جب حماد کا دوبارہ فون آیا۔ وہ لیپ ٹاپ سامنے رکھے کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔ حماد کا نمبر دیکھ کر ایک دم اس کا دل بہت اداس ہوا۔ یقینًا حماد نے اس سے بات کر لی ہو گی اور وہ ترکی نہیں آ رہی ہو گی۔ اس نے کال موصول کی۔
"اچھی بے عزتی کروائی آج تم نے میری۔" حماد ایک دم شروع ہوا۔ جہان سیدھا ہو بیٹھا وہ سخت غصے میں اسے ملامت کیے جا رہا تھا۔
"میرے بھائی! ہوا کیا ہے؟"
بھابھی نے مجھے پہچان لیا۔انہوں نے پوری شاپ میں سب کے سامنے اعلانیہ بتایا کہ میں پنکی بنا سڑک پہ گداگری کر رہا تھا۔ لعنت ہے مجھ پہ اور لعنت ہے اس دن پہ جب میں نے تمہاری مدد کرنے کا سوچا۔"
"اس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کیسے پہچانا؟" جب اس کے منہ پہ سلش گرا تھا۔ تب بھی اسے جھٹکا لگا تھا اور اب بھی ایسا ہی جھٹکا لگا تھا۔
"میرے ہاتھ پہ جو نشان ہے اور انگلیوں پہ جو انہوں نے اس دن زخم دیے تھے۔ ان ہی سے انہوں نے پہچان لیا اور میری فیملی کے سامنے اچھی خاصی میری بے عزتی کر دی۔"
"تو تم نے اس سے بات نہیں کی؟"
"میں اس سارے ہنگامے کے بعد کیا بات کرتا؟ میں تو جلدی سے وہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر شاپ کیپر آ گیا۔ اس دن ثانیہ اور میں نے یہیں سے شاپنگ کی تھی۔ وہ ہمیں جانتا تھا۔ بس شکر تھا اس نے میرا نام نہیں لیا تھا۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غصے سے بولتے بولتے وہ ایک دم رکا۔
تم جو چاہ رہے تھے کہ میجر احمد کا امپریشن اچھا پڑے، وہ اب نہیں ہو سکے گا، کیونکہ میں نے عینی سے کہا تھا کہ وہ مجھے احمد کہہ کر پکارے گی اور اس نے تمہاری مسسز سے لڑتے ہوئے بھی میری ہدایت یاد رکھی۔
اس سے بہتر تھا، میں تمہیں کام نہ ہی کہتا۔
جہان! مجھ سے بول لو، خیر ہے، مگر خود سے جھوٹ نہ بولو۔ سچے دل سے تسلیم کر لو کہ تم ان کو روکنا نہیں چاہتے تھے۔ تم اب بھی چاہتے ہو کہ وہ تمہارے استنبول ضرور آئیں۔ اس لیے اس بارے میں پریشان مت ہو اور جانے کی تیاری کرو۔ ویسے اچھی خاصی خوش اخلاق بیگم ہے آپ کی۔
اس کی آخری بات پہ وہ بے اختیار ہنس دیا تھا۔
حماد ٹھیک کہتا تھا۔ اسے اپنے اندر کی کنفیوژن ختم کرنی چاہیے۔ وہ اس کے ترکی آنے سے پریشان تھا مگر ناخوش نہیں۔ اس نے بلآخر خود سے سچ بول ہی لیا۔ وہ کسی لڑکی کے اپنے اعصاب پر حاوی ہو جانے سے ڈرتا تھا۔ لڑکی بھی وہ جو سلیمان ماموں کی بیٹی تھی۔ مگر اسے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ جب اسے ماموں سے انتقام لینا ہی نہیں ہے تو پھر ان کے خلاف دل میں عناد کیوں رکھے؟ اور شاید وہ خود بھی یہ رشتہ نہ چاہتی ہو۔ جہان کو اس کا اس لڑکے کی گاڑی میں بیٹھنا یاد تھا۔ چلو ٹھیک ہے، وہ آ جائے گی تو کبھی نہ کبھی وہ اس سے یہ بات کلیئر کر لے گا۔
اب وہ مطمئن تھا۔
•••••••••••••••••••••••
آفس میں نیم اندھیرا پھیلا تھا۔ کھڑکیوں کے باہر شام اتر آئی تھی۔ وہ ابھی تک اسی پوزیشن میں بیٹھی یک ٹک لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھ رہی تھی۔ آنسو اس کے گالوں پہ لڑھک لڑھک کر اب سوکھ چکے تھے۔ کہیں پس منظر میں فون کی گھنٹی بج رہی تھی مگر وہ اس جانب متوجہ نہیں تھی۔ وہ صرف اس ایک شخص کو دیکھ رہی تھی، جو اس سے ہم کلام تھا۔ بہت مختصر الفاظ میں اپنی کہانی سناتے ہوئے بھی درمیان میں اٹھ کر وہ کافی بنا لایا تھا۔ فارغ تو وہ بیٹھ ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ اسے جانتی تھی۔ مگر آج جب اس نے ویڈیو کے کھلتے ہی جہان کو بیوک ادا کے سفید محل میں موجود عبدالرحمن پاشا کے کمرے کی کمپیوٹر چیئر پہ بیٹھتے دیکھا تھا تو اسے لگا تھا وہ اس شخص کو نہیں جانتی، نہیں پہچانتی۔ وہ اس ویڈیو میں اور اے آر پی کے کمرے میں کیا کر رہا تھا؟ مگر جیسے جیسے وہ سنتی گئی اس کے عصاب سن پڑ گئے۔
پہلے اسے شاک لگا، پھر غصہ چڑھا، مگر ایسا غصہ جو شطرنج میں اپنے ذہین مقابل کی چال پہ مات کھا جانے سے چڑھتا ہے اور پھر اس کی جگہ دکھ نے لے لی۔ پہلی دفعہ اسے احساس ہوا تھا کہ جب تک انسان دوسرے کی جگہ پہ کھڑا نہ ہو، اسے پوری بات سمجھ میں نہیں آتی۔
ٹیلی فون کی گھنٹی ابھی تک بج رہی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ویڈیو کو وہیں روکا۔ ابھی وہ آدھی بھی نہیں ہوئی تھی اور ابھی تک جہان نے اس آدمی کا ذکر نہیں کیا تھا۔ جس کے چہرے پہ حیا نے کافی الٹی تھی؟ اگر اس کا وہ غریب سا ریسٹورنٹ اونر جہان ہی عبدالرحمن پاشا تھا۔ عائشے اور بہارے کا عبدالرحمن پاشا۔ تو پھر بے چارہ وہ کون تھا، جس پہ اس نے کافی الٹی تھی؟ اور وہ جس کو اس نے جہان کے ساتھ پینٹری میں دیکھا تھا۔
مگر ایک منٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دونوں کنپٹیوں کو انگلیوں سے دباتے ہوئے سوچنا چاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو کس نے کہا تھا کہ وہ عبدالرحمن ہے؟ کسی نے نہیں۔ اس نے آنے کے ساتھ اس کی تصاویر دیکھ کر ازخود یہ فرض کر لیا تھا کہ وہی عبدالرحمن ہو گا۔ تب وہ نہیں جانتی تھی کہ آنے کا ایک دوسرا بیٹا بھی ہے۔ ان کا اصلی بیٹا، گمشدہ بیٹا، جو عرصہ پہلے ادالار چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ ہاں، وہی تو تھا ان کا گمشدہ بیٹا۔ تب ہی تو اس کی تصاویر گھر میں ہر جگہ لگی ہوئی تھیں۔ پاشا بے (مسٹر پاشا) اسی نام سے جہان اسے ریسٹورنٹ میں پکار رہا تھا، جب اس نے ان کی باتیں سنی تھیں۔ عبدالرحمن پاشا اور پاشا بے دو الگ الگ لوگ تھے۔
فون مسلسل بجے جا رہا تھا۔ اس نے اکتا کر میز پہ رکھے فون کو دیکھا۔ ابا کی سیکریٹری کو کہا بھی تھا کہ اسے مت ڈسٹرب کرے، مگر کوئی سنے تو۔ اس نے ریسیور اٹھایا۔
جی؟
میم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولید صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ اصرار کر رہے ہیں۔ میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہیں بھیج دیں! اس نے ناگواری کی اٹھتی لہر کو دبا کر کہا اور فون رکھا۔ صرف اس فضول آدمی کی وجہ سے اس کا کردار جہان کی نظروں میں مشکوک ہو کر رہ گیا تھا۔ صرف یہی نہیں, وه کمپنی کے ساتھ بھی وفادار نہیں تھا- آج تو وہ اچھی طرح نپٹے گی اس سے-
اس نے آفس کا لاک کھولا اور نقاب کی پٹی سر کے پیچھے باندھ لی- پھر لیپ ٹاپ بند کر کے فلیش ڈرائیو واپس ڈبی میں ڈال لی- باقی ویڈیو وه گھر جا کر دیکھے گی- ویسے بھی شام ہونے کو آئی تھی۔ وقت کا کچھ پتا ہی نہیں چلا تھا- ابھی تک اس کے اعصاب شل تھے-
دروازه کھلا اور ولید لمبے لمبے ڈگ اٹھاتا اندر داخل ہوا- ہمیشہ کی طرح اس کے لبوں په استہزائیہ مسکراہٹ بکھری تھی- وه کرسی پہ ٹیک لگائے دونوں ہاتھوں پہ کہنیاں جمائے اسے آتے دیکھتی رہی-
کیسی ہیں آپ میڈم ایم ڈی؟ اس کے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے وه بولا-
آپ بتائیں، کیا کام تھا؟ وه خشک لہجے میں بولی- وه رات پھر سے تازه ہو گئی تھی کیا سوچتا ہو گا جہان اس کے بارے میں؟ افف!
کل بورڈ آف ڈائریکڑ کی میٹنگ میں ہم آپ کے خلاف قرارداد لا رہے ہیں- وه تپا دینے والے مسکراہٹ کے ساتھ اس کی میز سے پیپر ویٹ اٹھا کر انگلیوں میں گھمانے لگا-
کیسی قرارداد؟ اس نے حتی الامکان لہجے کو نارمل رکھنے کی سعی کی-
آپ جانتی ہیں کہ اگر سارے ڈائریکڑز مل کر ایم ڈی کے خلاف قرارداد لائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عدم اعتماد کی قرارداد تو ایم۔ڈی کو ہٹایا جا سکتا ہے-
وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ شاید ولید نے تازہ تازہ کمپنی لاء پڑھا تھا۔ ورنہ اسے یہ خیال پہلے دن آ جانا چاہیے تھا۔ کل آپ اس آفس کے باہر ہوں گی۔ چچ چچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے مگر ہم نے بہت برداشت کر لیا آپ کو۔ آپ جیسی عورتوں کی جگہ گھر میں ہوتی ہے یا مدرسے میں، ادھر نہیں۔
وہ اب بھی لب بھینچے اسے دیکھتی رہی۔
آپ یوں کریں، اپنی ضروری اشیا سمیٹ لیں۔ آخر کل آپ کو یہ جگہ چھوڑنی پڑے گی۔ میں یہی بتانے آیا تھا ادھر۔ وہ فاتحانہ انداز میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔
بیٹھیں! اس نے انگلی سے ایک دم اتنے تحکم سے اشارہ کیا کہوہ بے اختیار اگلے ہی پل واپس بیٹھا۔
اب میری بات سنیں۔ حیا دونوں مٹھیاں میز پہ رکھے، کرسی پہ ذرا آگے ہوئی۔
میں نے منگل والے روز ہیڈ آر کیٹیکٹ اور آپ کی گفتگو ریکارڈ کی تھی، سننا چاہیں گے؟
ولید کے چہرے کے تاثرات ناقابل فہم ہو گئے۔ اس نے سوالیہ ابرو اٹھائی۔
کون سی گفتگو؟
انجان بننا آپ کو فائدہ نہیں دے گا۔ میں جانتی ہوں کہ اس ٹریڈ سینٹر کے پروجیکٹ پلان میں آپ کے کہنے پہ آرکیٹکٹ نے گڑبڑ کی تھی۔ صرف یہی نہیں، بلکہ جس کمپنی کو وہ پروجیکٹ مل گیا تھا۔ ان کے مالکان سے آپ کے گہرے روابط ہیں۔ یہ ساری آپ کی اپنی کہی باتیں ہیں۔ میرے پاس ثبوت ہے۔ وہ کہہ رہی تھی۔ ولید کے لب پھینچ گئے اور آبرو تن گئے۔
آڈیو کسی چیز کا ثبوت کبھی نہیں ہو سکتی مادام!
مجھے کورٹ میں کسی کو کچھ نہیں دکھانا۔ مجھے صرف اپنے ابا کو سب بتانا ہے۔ ویسے بھی وہ اب ٹھیک ہو رہے ہیں۔ اسی ہفتے دوبارہ جوائن کر لیں گے۔ آج جب میں گھر جا کر ان کو آپ کی اصلیت بتاؤں گی تو وہ اپنی بیٹی کی ہر بات فوراً مان لیں گے۔ ہماری کمپنی لاء کے مطابق اگر ایسا ٹریزن ثابت ہو جائے تو نہ صرف آپ کے شئیرز فریز ہو سکتے ہیں بلکہ ابا کو آپ جانتے ہی ہیں، وہ اپنے ساتھ دغا کرنے والوں کو یوں ہی نہیں چھوڑتے ہیں۔ سڑک پہ لے آئیں گے وہ آپ کو۔
ولید کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔
میں تمہیں جان سے مار دوں گا۔ وہ غصے سے غرایا تھا۔
میں نے کمپنی کے ساتھ کوئی دغا نہیں کیا۔ اگر تم نے اپنے ابا کو کوئی الٹی سیدھی بات بتانے کی کوشش کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔
اس نے مسکرا کر سر اٹھا کر ولید کی طرف دیکھا۔ کسی سے تو وہ بھی ڈرتا تھا۔
میں دیکھ لوں گا تمہیں۔ ایک شعلہ بار نگاہ اس پہ ڈال کر وہ مڑا اور تیز تیز چلتا باہر نکل گیا۔
اس آدمی کو سمجھانے کے لیے وہ اس کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اور اس کی اس ایک حرکت نے اسے جہان کی نظروں میں مشکوک بنا دیا تھا۔ جب جہان اس سے ملے گا تو وہ سب سے پہلے یہی بات کلیئر کرے گی۔
جہان؟ وہ ایک دم چونکی۔ یہ ویڈیو اس نے لاکر سے ایک ماہ قبل نکالی تھی، یہ ساری باتیں تو پرانی ہو گئیں۔ وہ ابھی کہاں تھا؟
•••••••••••
پنکی نے پزل باکس اسے تهماتے ہوۓ کہا تها کہ جب تک وہ اسے کهول پاۓ گی تب تک وہ شاید اس دنیا میں نہ رہے۔ نہیں وہ یوں ہی کہہ رہا ہو گا۔ اس نے سر جھٹکا۔ وہ جہان کو ڈهونڈ لے گی۔ وہ اسے کہیں نہ کہیں ضرور مل جاۓ گا۔
اس نے موبائل نکالا۔ وه صبح سے سائلنت پہ تها اور اماں کی کئی مسڈ کالز اور مسیج آۓ پڑے تهے۔ اس نے میسج کهولا۔ وه کہ رہی تھیں کہ انہیں ابا کی گاڑی اور ڈرائیور چاہیے تهے۔ اس لیے انهہوں نے آفس فون کر کے دونوں منگوا لیے تهے۔ ایک اور پیغام میں انهوں نے بتایا کہ وه ظفر کو اس کی گاڑی کے ساتهہ بھیج رہی ہیں، وہ اسے گهر لے آۓ گا۔
بس کار بھیج کر ظفر کو واپس جانے کا کہہ دیتیں، ضروری تها کہ تایا ابا کا ملازم بهی ادهار لینے کا احسان لیا جاۓ؟ اسے خوامخواہ کوفت ہوئی۔ بہرحال اس نے سر جهٹک کر فون بک میں سے عائشے کے گهر کا نمر ڈهونڈ کر ملایا۔ کوئی جواب نہیں۔ پهر اس نے حلیمہ آنٹی کا نمبر ملایا۔ وه یقینا ان سے ہوٹل گرینڈ کا نمبر لے سکتی تهی، جہان وہیں ہو گا۔
آلو؟ وه اداس، مگر باریک سی آواز، اسے خوش گوار حیرت کا جهٹکا لگا۔
بہارے! میں حیا بول رہی ہوں۔
اوہ حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کہاں چلی گئی تهی؟ وه جیسے بہت اداس سی لگ رہی تھی۔
میں گهر آ گئی تهی مگر تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجهے پتا چلا تها کہ تم لوگ ملک چهوڑ کر چلے گئے ہو۔
سب چلے گۓ ہیں، میں نہیں گئی، میں اکیلی رہ گئی ہوں۔ وہ جیسے آنسو پیتے ہوۓ کہہ رہی تھی۔ عائشے بهی نہیں ہے، آن بھی نہیں ہے، سب چلے گۓ۔
عب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبدالرحمن؟وه کہاں ہیں؟ اس کی آواز میں لرزش تهی۔
وہ صبح آیا تها مجهے۔ اتنا سارا ڈانٹ کر گیا ہے، اس نے کہا وه جا رہا ہےاو یہ بهی کہ وہ اب مجھ سے ملنے نییں آۓ گا۔
کدهر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کدھر گیا ہے وه؟ ایک دم بہت سے آنسو اس کی پلکوں پہ آ رکے تهے۔
مجهے نہیں پتا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جیسے ٹهہری۔ اس نے کہا تها کہ اس نے تمہیں آنے سے کچھ دن پہلے بتا دیا تها کہ وہ کدهر جاۓ گا۔ تمہیں پتا ہے حیا؟
نہیں۔ وہ حیران ہوئی۔ اس نے تو مجھے نہیں بتایا۔ آنکهیں اس نے ہاتھ سے رگڑ کر صاف کیں۔
مگر تم فکر مت کرو بہارے!میں اگلے ہفتے ترکی آؤں گی نا، مجهے اپنی کلیئرنس کروانی ہے، تب میں اور تم مل کر اسے ڈهونڈیں گے۔ ہم اسے ڈهونڈ لیں گے۔ تم میرے آنے تک وہاں ہو گی نا؟
مجهے نہیں پتا۔ مجهے کچھ نہیں پتا۔ وه جیسے سارے زمانے سے خفا ہو رہی تھی۔
اس نے فون بند کر دیا۔ کتنی ہی دیر وہ سر ڈیسک پہ رکھ کر آنکهیں بند کیے بیٹھی رہی۔ اس کا ذہن صرف ایک ہی بات پہ مرکوز تها۔ جہان نے اسے جانے سے قبل نہیں بتایا کہ وہ کہاں جا رہا ہے، پهر اس نے بہارے کو ایسا کیوں کہا؟ یہ وڈیو تو پرانی تهی جبکہ بہارے نے جانے سے کچھ دن قبل کے الفاظ استعمال کیے تهے۔ کب بتایا جہان نے اسے؟
جب وہ اپنی چیزیں سمیٹ کر اٹهی تو بهی اس کا ذہن الجها ہوا تها۔
شام ڈهل چکی تهی۔ سب جا چکے تهے۔ وہ شاید اکیلی ره گئی تهی۔ جب وہ لفٹ میں داخل ہونے لگی تو تایا فرقان بهی ساتھ ہی داخل ہوۓ۔
آپ ابھی تک یہیں ہیں؟ وہ ان کو دیکھ کر ذرا حیران ہوئی تهی۔
ہوں! کچھ کاغذات لینے آیا تها۔ وہ اسی سرد مہر لہجے میں بولے۔ تناؤ اور برف کی دیوار ابهی تک بیچ میں حائل تهی۔ اسے پهر سے اماں پہ غصہ آیا کہ کیا ضرورت تهی ظفر کو بلوانے کی۔ وہ گاڑی چهوڑ کر چلا جاتا۔ وہ خود ڈرائیو کر کے آ جاتی۔ ان کا احسان لینا ضروری تها؟ اور جہان اس نے کب بتایا تها کہ وہ کدهر جا رہا ہے؟
لفٹ گراؤنڈ فلور پہ رکی تو اس نے پیچھے ہٹ کر تایا ک راستہ دیا، وہ نکل گئے تو وہ سست روی سے الجھی الجھی سی چلتی باہر آئی۔
جہان نے کب بتایا؟ جھولے پہ اس رات؟ یا ہسپتال میں جب وہ دونوں ابا کہ پاس تھے؟ یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بات سنو میری! ولید پتہ نہیں کہاں سے سامنے آیا تھا۔ حیا بے اختیار ایک قدم پیچھے ہوئی۔ لابی خالی تھی۔ سواۓ شیشے کے دروازے کے ساتھ کھڑے گارڈ کے، جو ان کو ہی دیکھ رہا تھا۔
کیا ہے؟ اگر تم نے سلیمان انکل سے کچھ کہنے کی کوشش کی تو میں تمہارے ساتھ بہت برا کروں گا۔ انگلی اٹھا کر چبا چبا کر بولتا وہ اسے تنبیہہ کر رہا تھا۔ حیا نے کوفت سے اسے دیکھا۔
یہ دھمکیاں کسی اور کو دو۔ میں جا رہی ہوں گھر اور میں ابا کو سب صاف صاف بتا دوں گی۔ کر لو جو تم کو کرنا ہے۔ اپنی ساری فرسٹریشن نکال کر وہ اس کے ایک طرف سے نکل کر وہ آگے بڑھ گئی۔ ولید کچھ کہے بنا تیز قدموں سے چلتا اس کے دائیں طرف سے گزر کر باہر نکل گیا۔
وہ گارڈ کو معمول کی ہدایات دینے کہ بعد باہر کی سیڑھیاں اترنے لگی۔ باہر آسمان نیلایٹ بھری سیاہی سے بھرتا جا رہا تھا۔ وہ اب بھی جہان کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس نے کب بتایا تھا اسے کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟
وہ سیڑھیاں اتر کر اب ایک طرف بنے پارکنگ ایریا کی طرف بڑھنے لگی، اس کی گاڑی دوسری طرف کھڑی تھی۔ اس تک پہنچنے کے لیے اسے چند قدم اس لمبی، چوڑی روش پر چل کر جانا تھا۔ وہ بہت غائب دماغی سے قدم اٹھا رہی تھی۔
اگر جہان کہہ رہا تھا کہ اس نے حیا کو بتایا تھا تو اس نے بتایا ہو گا۔ وہ سیدھی طرح کوئی بھی بات نہیں کہتا تھا۔ اس کی ہر بات پہیلی ہوتی تھی۔ آخر اس نے کب بتایا؟ روش پہ چلتے ہوۓ اس نے ذہن پر زور ڈالنے کی کوشش کی۔
کہیں دور اسے کوئی پکار رہا تھا۔ اس کے نام کی پکار بار بار پڑ رہی تھی۔ وہ اتنی الجھی ہوئی تھی کہ سن ہی نہیں پائی۔ تیز روشنی سی اس کی پیچھے سے آ رہی تھی۔ ساتھ میں ٹائرز کی آواز۔
ایک دم جیسے کسی خواب سے جاگ کر وہ چونک کر پلٹی۔ وہ ولید کی گاڑی تھی اور وہ تیز رفتار سے اسے روش پہ چلاتا آ رہا تھا اس کے اوپر چڑھانے کے لیے۔
ولید رکو! اس کے لبوں سے ایک کراہ تک نہ نکل سکی۔ سانس رکا اور ساتھ میں پورا وجود شل ہو گیا۔ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہ سکی۔ تیز ہیڈ لائٹس اتنے قریب تھیں کہ اس نے اپنے بچاؤ کے لیے صرف اپنے دونوں ہاتھ ہی چہرے پہ رکھے۔
دوسرے ہی لمحے زور کی ٹکر نے اسے سڑک کے دوسری طرف لڑھکا دیا۔ گاڑی زن سے آگے بڑھ گئی۔
••••••••••••••••••
#باب_12
ہوٹل گرینڈ کے بالائی منزل کے اس پرتعیش پاور آفس میں پرفیوم کی خوشبو کے ساتھ سگریٹ کی مہک بھی پھیلی تھی۔ وہ ریوالونگ چیئر پہ بیٹھا، لیپ ٹاپ پہ ہوٹل کے ریکارڈ چیک کر رہا تھا۔ قریب پڑا ایش ٹرے سگریٹ کے آدھ جلے ٹکروں اور راکھ سے بھر چکا تھا۔ یہ اس کی واحد بری عادت تھی جسے وہ بہت چاہ کر بھی نہیں چھوڑ سکا تھا۔
اس کی غیر موجودگی میں ہوٹل عثمان شبیر دیکھتے تھے۔ وہ ایک اچھےاور ایماندار آدمی تھے۔ ان کا بیٹا سفیر بھی ہوٹل میں کام کرتا تھا۔ لیکن جہان کی کوشش ہوتی، وہ اس لڑکے کو ایڈمنسٹریشن کے معاملات سے دور ہی رکھے۔ سفیر قدرے غیر زمےدار اور فطرتا لالچی واقع ہوا تھا۔ عثمان شبیر کل پاکستان جا رہے تھے۔ سو ان کی غیر موجودگی میں اسے سفیر کو ذرا کھینچ کر رکھنا تھا۔ کل! ہاں کل جا رہے تھے عثمان شبیر پاکستان!
ڈاکومنٹس دیکھتے ہوئے وہ ایک دم چونکا۔
عثمان شبیر کل پاکستان جا رہے تھے؟ اور ان کی واپسی بھی جلد ہی متوقع تھی۔ کیا وہ ان ہی تاریخوں میں واپس آئیں گے، جب پاکستان سے دو ایکسچینج اسٹوڈنٹس حیا سلیمان اور خدیجہ رانا استنبول آئیں گی؟
کچھ دیر وہ اسی نہج پہ سوچتا رہا، پھر سیل فون اٹھا کر دیکھا۔ حیا کی ای میلز میل باکس پہ لگے کلون کے باعث اسے ملتی رہتی تھیں۔ اس نے آج کی میلز چیک کیں۔ تازہ ترین میل اس کے ٹکٹ کی کاپی اور الیکٹرونک فارم تھا جو ڈورم الاٹمنٹ کے لیے حیا نے پر کر کے بھیجاتھا۔ اسے یہ میل صبح ملی تھی۔ وہ مصروفیت کے باعث پڑھ نہیں سکا تھا۔ اب پڑھی تو بے اختیار چہرے پہ مسکراہٹ آ گئی۔
اسموکنگ، ڈرنکنگ سب کرتی ہوں۔ سخت جھگڑالوں ہوں۔
پاگل لڑکی۔ کیا، کیا لکھ کر سبانجی والوں کو بھیج رہی تھی۔ انہیں واقعتا اب اسے خونخوار قسم کی لڑکیوں کے ساتھ ڈورم دینا تھا۔ اس نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ سر جھٹکا اور پھر ٹکٹ والی میل چیک کی۔
پانچ فروری کو ان دونوں لڑکیوں کی فلائٹ تھی۔ ابھی اس میں پورے دو ہفتے تھے۔
اب کیا کرنا چاہئے اس کو؟
بلآخر ایک فیصلے پہ پہنچ کر اس نے فون اٹھایا اور عثمان صاحب کی آیکسٹینشن ملائی۔
آلو؟
عثمان بے۔ آپ نے واپس کب آنا ہے؟ بنا تمہید کے اس نے کام کی بات پوچھی۔ بلاوجہ کی تمہیدوں سے تو اسے نفرت تھی۔
پندرہ، بیس دن تک- کیوں؟
پندرہ یا بیس؟
آٹھ فروری کی فلائٹ ہے، آپ حساب لگا لیں، تقریبا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جیسےخود بھی گننے لگ گئے۔
کیا آپ اتحاد ائیر لائینز کی پانچ فروری کی فلائٹ لے سکتے ہیں۔ اصل میں چھوٹا سا مسئلہ ہے، میرے ایک دوست کی بہن اپنی فرینڈ کے ساتھ استنبول آ رہی ہے۔
پھر اس نے مختصر الفاظ میں ان کو سمجھایا کہ ان کے درمیان کچھ فیملی کلیش ہیں۔ وہ ان کے بارے میں فکرمند ہے کہ پہلی دفعہ استنبول آنے کے پیش نظر ان کو یہاں کوئی مسئلہ نہ ہو، سو وہ چاہتا ہے کہ عثمان شبیر ان سے اپنا تعارف کروا دیں، تاکہ اگر کبھی مشکل میں وہ ان سے رابطہ کرے، تو وہ فورا عبدالرحمن کو بتائیں۔ لیکن ظاہر ہے اس کا نام درمیان میں نہیں آنا چاہیے۔ سخت قسم کا ایگو ایشو ہے۔
متوقع طور پر عثمان شبیر نے فورا ہامی بھر لی۔
فون رکھتے ہوئے وہ اب پہلے سے زیادہ مطمئن تھا۔ پتا نہیں وہ کب اس سے اور ممی سے رابطہ کرتی ہے۔ اس دوران اس کو کہیں کوئی مسئلہ نہ ہو۔ وہ اس کی بیوی تھی۔ اس کی ذمہ داری اور اگر وہ جان بھی لے کہ عثمان شبیر، عبدالرحمن پاشا کے کہنے پہ یہ سب کر رہے تھے، تب بھی وہ یہ سب نہیں جان سکتی تھی کہ عبدالرحمن پاشا کون تھا؟آخر جان بھی وہ کیسے سکتی تھی؟
عبدالرحمن پاشا اور عبدالرحیم پاشا، یہ دونوں حبیب پاشا کی پہلی بیوی کی اولاد تھے۔
حبیب پاشا ایک درمیانے درجے کے بھارتی بزنس مین تھے۔ وہ کچھ وجوہات کی بنا پر پہلی بیوی اور دو بیٹوں کو چھوڑ کر کئی برس قبل استنبول آ گئے تھے۔ ترکی میں انہوں نے امت اللہ نامی خاتون سے شادی کی اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ ان دونوں کا ایک ہی بیٹا تھا۔
طیب حبیب پاشا، المعروف پاشا بے۔
(عربی اور اردو کے وہ نام جن کے آخر میں ب آتا ہے ترک زبان میں وہاں سے ب ہٹا کر پ یا P لگا دیا جاتا ہے۔ وہ عرب کو Arep زینب کو Zeynep اور طیب کو Tayyip لکھتے ہیں۔ مگر ہم اسے طیب ہی لکھیں گے)
بیوک ادا میں امت اللہ کا خاندانی گھر، وہ عثمانی طرز کا سفید محل تھا۔ طیب حبیب ابھی چھوٹا تھا جب حبیب پاشا کا انتقال ہو گیا۔ تب امت اللہ اپنے بیٹے کو لے کر اناطولیہ کے ایک گاؤں چلی گئیں جہاں ان کے رشتے دار رہتے تھے۔ یوں وہ گھر بند ہو گیا۔ کئی برس وہ گھر بند رہا۔ پھر طیب حبیب جوانی کی دہلیز عبور کرتے ہی فکر معاش کی خاطر ادالار (شہزادوں کے جزیرے) پہ آ گیا۔ اس نے وہ گھر کھولا اور پھر ایک شہزادے کی طرح جینے کی خواہش کے ساتھ بیوک ادا رہنے لگا۔
دور اناطولیہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں بیٹھی اس کی سادہ سی ماں نہیں جانتی تھی کہ وہ ادالار میں کیسے لوگوں میں اٹھتا بیٹھتا ہے۔ امت اللہ نے بہت دفعہ چاہا کہ وہ بیٹے کے پاس بیوک ادا چلی آئیں، مگر طیب حبیب نے ایسا کبھی نہ ہونے دیا۔ اس کی ماں اس کی کمزوری تھی۔ وہ اسے بہت عزیز تھی اور وہ جانتا تھا کہ جس دن اس کی ماں کو معلوم ہوا کہ وہ مافیا کا حصہ بن چکا ہے، اس دن اس کی ماں مر جائے گی۔
•••••••••••••••••••••••
ترک ڈرگ اور آرم اسمگلنگ مافیا اپنی مثال آپ تھا۔ برطانیہ میں پہنچائی جانے والی اسی فیصد ڈرگز ترکی کے راستے سے ہی آتی تھیں۔ البتہ ادالار کا مافیا برطانوی یا Sicillian طرز کا مافیا نہیں تھا۔ اطالوی مافیا فیمیلز مضبوط اور منظم طریقے سے ایک علاقے میں کام کرتی ہیں۔ لوگ کسی منظم فوج کی طرح درجہ بددرجہ اس میں عہدے پاتے ہیں۔ اس طرح کی مافیا فیمیلز کو ٹریک کرنا اور پکڑنا پولیس کے لیے آسان ہوتا ہے۔ اگر اطالوی یا سسلین فیملی کے کسی ممبر کو کچھ بھی ہو جائے، فیملی وہیں رہتی ہے اور اپنا کام جاری رکھتی ہے۔
ترک مافیا ایسا نہیں تھا۔ وہ روس کے قریب ہونے کے باعث روسی مافیا کی طرح کام کرتے تھے۔ روسی فیملیز ایک علاقے میں اٹھتی تھیں۔ کچھ عرصہ وہاں وارداتیں کرتی تھیں اور غائب ہو جاتیں۔ کچھ عرصے بعد چہروں کے نقاب بدل کر وہ کسی دوسرے علاقے میں اٹھتیں اور یوں ان کا کام جاری رہتا۔ پولیس کا ان پہ ہاتھ ڈالنا بہت مشکل ہوتا تھا۔ اطالوی مافیا کی طرح وہ قدیم طرز کے جرائم میں نہیں، بلکہ جدید جرائم (جیسے سائبر کرائم، جعلی کمپنیاں، کریڈٹ کارڈ، فراڈز، اسمگلنگ وغیرہ) میں ملوث ہوتی تھیں۔
یونان سے ترکی اور ایران کے راستے ایشیائی ملکوں بالخصوص پاکستان میں بڑے پیمانے پر اسلحہ اسمگل کیا جاتا تھا اور بعد میں یہی اسلحہ دہشت گردی کی وارداتوں میں استعمال ہوتا تھا۔ جس کی وجہ سے متاثرہ ممالک کی ایجنسیوں کے قابل ایجنٹس ان فیملیز میں Panatrates کر کے، ان کا اعتماد جیت کر، ان کی شپ منٹس کی مخبری کیا کرتے تھے۔ کسی کو نہیں معلوم ہوتا تھا کہ کون سا آدمی اصل مافیا فیملی ممبر ہے یا کسی دوسرے ملک کا جاسوس۔
طیب حبیب نے اپنی مافیا فیملی میں جگہ بنا لینے کے بعد دولت تو بہت کمائی، ساحل کنارے ایک اونچا سا ہوٹل بھی کھڑا کر لیا۔ مگر وہ ان لوگوں میں سے تھا جو بہت زبوں حالی کے بعد لکشمی کو اپنے قریب پاتے ہیں تو اپنا ماضی اور احساس کمتری چھپانے کے لیے کسی جدی پشتی رئیس کا خول چڑھا لیتے ہیں، بلکہ خول چڑھانے کی کوشش ہی کرتے رہتے ہیں۔ کیونکہ فیشن خریدا جا سکتا ہے، مگر اسٹائل نہیں۔ طیب حبیب بھی کوے اور ہنس کے درمیان پھنس کر رہ گیا تھا۔ زندگی کا ایک لمبا عرصہ چھوٹے لوگوں کے ساتھ گزارنے کے باعث ذہنی طور پر وہ آج بھی اسی کلاس میں تھا۔ بھاؤ تاؤ کر کے خریداری کرنے والا، کسی ڈھابے نما ہوٹل کے شیف کے ساتھ بیٹھ کر ملکی حالات پر تبصرہ کرنے والا۔ خود بھی وہ ہوٹل میں اپنے پاور آفس کی بجائے کچن میں پایا جاتا تھا۔ ہوٹل کو اس نے کبھی اپنی مافیا سرگرمیوں کا مرکز نہیں بنایا تھا اور وہاں وہ ایک شریف آدمی کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس کی اسی فطرت کے باعث ورکرز اس سے خاصے بے تکلف تھے۔ یہاں پہ آ کر اس کے مصنوعی خول میں دڑاریں پڑنے لگتی تھیں۔ تب ہی اس نے خود کو پاشا بے کہلوانا شروع کیا کر دیا۔
ترکی میں عموما پہلے نام کے ساتھ پکارا جاتا تھا، جبکہ ادالار میں آخری نام (سر نیم) کے ساتھ ”مسٹر“ کہلوانا خودپسندی اور تکبر کی علامت سمجھا جاتا تھا- مگر طیب حبیب کبھی نہیں جان سکا کہ انسان کا قد اپنے نام یا لقب کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے اخلاق اور کارکردگی کی وجہ سے بڑا ہوتا ہے۔
طیب حبیب نے اپنی مافیا فیملی میں ایک عرصہ بطور فیملی ممبر کام کیا۔ مگر پھر زیاده پیسے کے لیے جہان کی ایجنسی سے ڈیلنگ شروع کر دی۔ بہت جلد وه ان کے مہرے کے طور پر کام کرنے لگا اور پھر اس نے اپنے تمام اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنے ایک ساتھی ایجنٹ کو اپنے سوتیلے بھائی کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ عبدالرحمن پاشا جو واقعی اس کے سوتیلے بھائی کا نام تھا- جہان سکندر نے یہ نام استعمال کر کے بہت جلد طیب حبیب کی فیملی میں اپنا مقام بنا لیا- فیملی سے مراد اس کا خاندان نہیں، اس کا مافیا کا گروه تھا- اور چونکہ یہ اطانوی مافیا نہیں تھا اور اس میں man_made اور capo۔ نہیں ہوتے تھے۔ سو اس روسی مافیا میں اپنی جگہ بنانا مشکل ثابت نہیں ہوا-۔ پیسہ اس دنیا کے مسائل حل کرنے کا ریڈی میڈ حل ہوتا ہے، زندگی اور خوشی کے علاوه اس سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے۔
طیب حبیب اور عبدالرحمن پاشا ایک ڈیل کے تحت بھائیوں کی طرح کام کرنے لگے تھے۔ طیب اسے اپنی ماں سے ملوانے بھی لے گیا تھا۔
اور وه اچھی طرح جانتا تھا کہ ایک ساده لوح عورت کو اپنے نرم رویے اور محبت بھرے انداز سے کیسے موم کرنا ہے۔ امت الله اس کے بارے میں بس اتنا جانتی تھیں کہ وه ان کے بیٹے کا دوست ہے اور اس نے ان کے بیٹے کی جان بچائی ہے جس کے باعث وه اس کی احسان مند تھیں۔ چونکہ وه بیوک ادا میں نہیں رہتی تھیں، اس لیے طیب حبیب کو یہ سب بتانے میں عار محسوس نہیں ہوئی تھی۔ وه سب سے جھوٹ بول سکتا تھا۔ مگر آنے سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا-
حبیب پاشا کے انتقال پہ انکے دونوں بیٹے انڈیا سے یہاں آئے تھے۔ بھلے درمیان میں کتنے برس گزر جائیں، آنے کو ان کی شکلیں اور رنگ اچھی طرح یاد تھا- وه جانتی تھیں کہ وه عبدالرحمن ان کے شوہر کا بیٹا نہیں ہے مگر جب ان کا اپنا بیٹا بضد تھا کہ اپنے دوست کو اپنے بھائی کے طور پر متعارف کروانے میں اس کا فائده ہے تو وه بھی اس کی یہ بات نبھانے کے لیے راضی ہو گئیں۔ ویسے بھی عبدالرحمن ایسا بیٹا تھا جیسا وه طیب حبیب کو بنانا چاہتی تھیں۔ اس کے اقدار، تہذیب، اخلاق، فرض ہر شے آنے کے لیے فخر کا باعث تھی۔
کافی عرصہ ان دونوں نے ایک ساتھ بیوک ادا میں کام کیا- البتہ طیب حبیب یہ نہیں جانتا تھا کہ عبدالرحمن پاشا ٹرپل ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ادالار میں اپنا نام بنانے کے لیے اسے ترک خفیہ ایجنسی کی مدد چاہیۓ تھی۔ تاکہ گرفتاری کی تلوار سر پہ لٹکنا بند ہو جاۓ۔ بدلے میں وه مافیا کی معلومات ترکوں کو دیتا تھا اور اگر اسے ترکوں کی کوئی خبر ملتی تو مافیا تک پہنچا دیتا تھا۔ یوں وه ایک خالص ٹریل ایجنٹ تھا۔ جو صرف اپنی ایجنسی کے ساتھ وفادار تھا- تاش کے پتوں کا گھر اس نے بھت محنت سے کھڑا کیا تھا اور اسے معلوم تھا جس دن یہ پتے ذرا سی پھونک سے الٹے، اس روز وه اپنی جان بچانے کے لیے ترکوں اور مافیا، دونوں سے بھاگ رہا ہو گا۔ مگر پھر، خطرات کے بغیر بھی کوئی زندگی ہوتی ہے؟
اس نے نا محسوس انداز میں طیب حبیب کے ہوٹل گرینڈ میں عمل دخل شروع کر دیا تھا۔ وه طیب حبیب سے برعکس شخصیت کا مالک، ورکرز سے خاص فاصلہ رکھنے والا باس تھا۔ اس کے بیش قیمت سوٹ، وه قیمتی پتھروں والی انگوٹھیاں جو بظاہر سونے کی لگتیں اور گلاسز، ہر شے طیب سے مختلف اور پرفیکٹ ہوا کرتی تھی۔
پاکستان سے اجازت تھی کہ وه چاہے تو یہاں شادی کر سکتا ہے، وطن واپسی پہ اس کو پاکستانی شہریت دی جائے گی۔ مگر وه اس نہج پہ نہیں سوچا کرتا تھا۔
پھر ایک روز طیب حبیب اچانک سے یونان میں گرفتار ہو گیا