
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر اکتیس
جب ادھر بیٹھے حیا نے اس سے کبھی جلنے کا زخم محسوس کرنے کا پوچھا تو لمحے بھر میں جیل میں بیتے وہ تاریک دن اور اندھیری راتیں اس کے ذہن میں امڈ آئیں مگر وہ بات ٹال گیا۔ اسے اپنے زخم دکھا کر ہمدردی حاصل کرنے کا شوق ہرگز نہیں تھا۔ وہ اس سے باتیں کرتے ہوئے دور الاؤ کے پاس بیٹھے لڑکوں کے گروپ کو دیکھ رہا تھا۔ اسی میں ایک لڑکا اس کا دوست تھا۔ابھی ملاقات میں وقت تھا مگر وہ وہیں سے اسے پہچان گیا تھا اس لڑکے کی عمر کم تھی شاید پچیس برس اس کے لیے وہ ایک جونیئر ایجنٹ ہی تھا۔ جونیئر مگر بہادر اور ذہین۔ اس کو پاکستان جانا تھا اور جہان سے کچھ چیزیں لے کر جانا تھا۔ دو ایک کام وہ پہلے بھی ساتھ کر چکے تھے اور اپنے سنیئر ایجنٹ کی وہ لڑکا بہت عزت کرتا تھا۔ اس کو عمر کا اصل نام معلوم نہ تھا اور نہ کبھی وہ اپنے ملک کی باتیں کرتے تھے اجازت ہی نہیں تھی مگر وہاں بیٹھے حیا سے اس کی رپورٹ کا پوچھتے ہوئے بھی وہ عمر کی موجودگی سے ہی بہت اچھا محسوس کر رہا تھا۔ اپنے ملک کی تو ہوا بھی اپنی لگتی ہے یہ تو پھر بھی ہم پیشہ ہم وطن تھا۔
میں عبدالرحمن پاشا کے گمشدہ بھائی پہ رپورٹ لکھ رہی ہوں۔ کسی اور دھیان میں اس نے حیا کی بات سنی اور اگلے ہی لمحے وہ سیدھا ہو بیٹھا۔ وہ کیا کہہ رہی تھی۔ جب جب فون پہ حیا نے کہا تھا کہ وہ کچھ لکھ رہی ہے تو وہ اسے یونہی خالی خوبی سی دھونس سمجھتا تھا مگر اب جو کچھ وہ بتا رہی تھی اس نے لمحے بھر کو تو جہان کا سانس ہی روک دیا۔
بات رپورٹ کی نہیں تھی، اس کی رپورٹ نہ کبھی لکھی جانی تھی نہ کسی نے شائع کرنی تھی۔ بات یہ تھی کہ اس کو یہ ساری باتیں کون بتا رہا تھا۔ اگر عائشے نے بتایا تو پھر یہ خطرے کی علامت تھی کہ عبدالرحمن کے گھر سے باتیں باہر نکل رہی تھیں۔ پاشا بے نئی زندگی شروع کرنے جا رہا تھا۔ ذاتی اختلاف ایک طرف وہ ان کا ایجنٹ تھا اور اس کی حفاظت کو یقینی بنانا ان کا فرض۔ اب اس کے گھر سے اس کی بیوی کی طرف سے کوئی ایسی بات باہر نکلے جو پاشا بے کو نقصان پہنچائے یہ اس کو مضطرب کر دینے کے لیے کافی تھا۔ حیا اور عائشے پھر یہ باتیں اور لوگوں سے بھی کہتی ہوں گی۔ ایک صرف جہان سے تو ذکر نہیں کیا ہو گا نا۔ دنیا ویسے تو چھوٹی تھی ہی مگر بیوک ادا تو بہت چھوٹا تھا۔
بہت مشکل سے اس نے بات کا رخ پھیرا۔ چونکہ وہ حیا سے ایسی بات کی توقع نہیں کر رہا تھا اس لیے وہ خود بھی ذرا سا پریشان ہو گیا تھا۔ وہ اس کے ساتھ پہاڑی کے نیچے تک آیا تھا اور پھر وہ سامان لینے چلی گئی تو وہ واپس اوپر آیا عمر سے ملا امانت پہنچائی اور واپس بندرگاہ پہ آ گیا۔
کل وہ دوبارہ بیوک ادا آئے گا پھر عائشے سے نپٹے گا مگر آج کل اسے وہ ویڈیو لاکر میں رکھ دینی چاہیے۔ ہو سکتا ہے وہ پزل باکس کھول چکی ہو اور اب جب کہ وہ استنبول جا ہی رہی تھی تو وہ جلد یا بدیر لاکر ڈھونڈ ہی لے گی۔
اگلے روز وہ بیوک ادا آ ٓگیا۔وہ ہوٹل میں تھا جب عائشے نے اسے میسج کیا کہ حیا کل چلی گئی تھی اور وہ گھر آسکتا ہے۔ عائشے جانتی تھی کہ وہ اسی کے ساتھ گئی ہے مگر اسے اطلاع دینے کا مقصد اسے گھر بلانا تھا۔ آنے بھی گزشتہ رات آ گئی تھیں۔وہ زیادہ دیر تک ان کو ادلار سے دور نہیں رکھ سکتا تھا سو اچھا ہوا حیا ان کے آنے سے قبل جا چکی تھی۔
عائشے کو اس نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام بھی نہیں کیا نہ ہی اس کے مخاطب کرنے پہ ٹھیک سے بات کی۔ عائشے کو موتیوں والی بات معلوم ہو چکی تھی اور اس نے یہی قیاس کیا کہ عبدالرحمن اس سے اسی تھپڑ پہ ابھی تک خفا تھا تب ہی سوائے اس رات کے اس نے عائشے سے ٹھیک سے بات نہیں کی تھی۔ وہ پھر سے معذرت کرنے آئی تھی مگر، جہان کے حیا کو پاشا بے کے متعلق بتانے پہ جھڑکنے پہ وہ خفا ہو کر واپس چلی گئی۔ ہ اسٹڈی سے مطلوبہ اشیاء لے کر پلٹنے لگا تھا کہ اس کی نظر میز پہ رکھے پزل باکس پہ پڑی۔ وہ ایک دم ٹھہر گیا پھر باکس اٹھا کر دیکھا۔ جلی ہوئی اطراف ابھری ہوئی سطور چھے چوکھنے الٹ پلٹ کر دیکھنے سے ہی وہ جان گیا تھا کہ یہ وہی پزل باکس ہے۔
جب اس نے عائشے سے باکس منگوایا تھا تو اس کی شکل یہ نہ تھی اور اس کا کوڈ عائشے پہ سیٹ تھا۔ چونکہ وہ انگریزی حروف تہجی پہ بنایا گیا تھا اس لیے عائشے کے نام کے ہجے انگریزی کے حساب سے تھے۔ورنہ مرک میں اس کا نام Aysegul لکھا جاتا تھا۔ (اس میں انگریزی حرف S کے نیچے ننھی سی لکیر ہوتی تھی۔ ترک اگر عام S لکھتے تو اسے سین کی آواز میں پڑھتے لیکن اگر ایس تلے لکیر ہوتی تو اسے شین کی طرح پڑھا جاتا۔)
بعد میں جہان نے اس کو کھول لینے کے بعد اس کا کوڈ ٹاقسم سیٹ کر دیا تھا۔ وہیں اسٹڈی میں کھڑے کھڑے اس نے کوڈ کو اوپر نیچے کیا، ٹاقسم پہ باکس کھل گیا۔ اندر اس کے لاکر کی سلپ، چابی اور کاغذ ویسے ہی پڑے تھے اس نے پھر سے باکس بند کیا، سلائیڈز آگے پیچھے کیں اور وہیں کھڑے کھْڑے سوچنا چاہا کہ اس لاپروائی کی وہ اپنی بیوی کو کیا سزا دے۔ حد ہو گئی، جو چیز اس نے بہت احتیاط سے اس تک پہنچائی تھی، اس کو یوں ادھر بھول کر چلی گئی تھی۔ اسے غصہ بہت آیا مگر دبا گیا۔
اب وہ کیا کرے۔ یہ باکس یہیں پڑے رہنے دے۔ مگر ایسی صورت میں یہ باکس ملازمہ یا عائشے کے ہاتھ لگ سکتا تھا اور عائشے سے وہ ویسے ہی ذرا محتاط رہتا تھا۔ تو پھر کیا کرے۔ عائشے کو دے دے کہ اسے بحفاظت حیا تک پہنچا دے۔ جو بھی تھا عائشے ایک ایمانت دار لڑکی تھی امانت کو کھول کر نہیں دیکھے گی۔
مگر نہیں۔ ہاشم نے باکس بنواتے وقت یہی کہا تھا کہ عبدالرحمن کو اس بات کی خبر نہیں ہونی چاہیے۔
پھر عبدالرحمن جو کہ اس کام میں ملوث ہی نہیں تھا وہ باکس کیوں حیا تک پہنچائے گا۔ اس کی کور اسٹوری میں جھول آرہا تھا۔
وہ کچھ دیر وہیں کھڑا سوچتا رہا پھر ایک دم سے اسے خیال آیا۔
بہارے گل۔ وہ ہر کسی سے راز رکھ سکتی تھی سوائے اپنی بہن کے۔ وہ اپنا سارا کھایا پیا اپنی بہن کو ضرور بتاتی تھی۔ اس نے ذہن میں ایک لائحہ عمل ترتیب دیا اور باکس پکڑے باہر آیا۔
یہ تو حیا کا ہے۔ اس کے استفسار پر بہارے نے حیرت سے باکس کو دیکھتے ہوئے بتایا۔ وہ یہیں بھول گئی؟ کل اس کا کزن اسے لینے آیا تو اسے جلدی میں جانا پڑا تمہیں پتا ہے اس کا کزن بہت ہینڈسم ہے۔ اس نے بڑے اشتیاق سے بتایا۔
بہارے نے حیا کے کزن کو کہاں دیکھا۔ اسے اچنبھا ہوا مگر جان بوجھ کر اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بہارے سے سوالات پوچھنے شروع کیے۔ باکس کس نے حیا کو دیا اور کس نے بنایا وغیرہ۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا پکڑا جا سکتا ہے یا نہیں۔ مگر لگتا تھا کہ حیا کو صرف باکس کھولنے بیں دلچسپی تھی اس نے بھیجنے والے کی زیادہ تحقیق نہیں کی تھی۔
اس نے بہارے سے کہہ دیا کہ اب وہ باکس اس کے پاس رہے گا اور وہ جانتا تھا بہارے زیادہ دیر تک یہ راز نہیں رکھ سکے گی۔ وہ عائشے کو ضرور بتائے گی۔ آنے کہتی تھیں یہ دونوں آنے گل کی بیٹیاں ہیں ان کی ماں نے ان کو تب تک کچھ نہیں کھلایا جب تک کہ اللہ کا نام نہیں اس پہ پڑھ لیا اس لیے یہ نہ کبھی خیانت کر سکتی ہیں نہ ہی کسی کو دھوکہ دے سکتی ہیں۔ بہارے کو لاکھ عائشے کے درس سے چڑ ہو وہ آخر میں تھی تو عائشے کی بہن۔ وہ حیا کی امانت مہمان کی امانت اس تک ضرور پہنچائے گی۔ ساتھ میں یہ بھی بتائے گی کہ عبدالرحمن یہ باکس اس سے دور کرنا چاہتا تھا شاید یہی سن کر حیا اسے اگلی دفعہ کہیں رکھ کر نہیں بھولے گی۔
جب وہ واپس پلٹا تو جانتا تھا کہ بہار ے بھی دبے قدموں اس کے پیچھے آئے گی۔ اس کو میز کے نیچے دروازوں کے چابی کے سوراخوں اور دیواروں کے پیچھے سے باتیں سننے کا بہت شوق تھا۔ اس لئے اس نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ ذرا سا کھلا رہنے دیا
اور بہارے کے سامنے الماری لاک کر کے چابی دراز میں رکھ دی۔
اب وہ پہلی فرصت میں یہ بات عائشے کو بتائے گی اور عائشے فورا سے بیشتر وہ باکس حیا تک پہنچائے گی۔ اور کم از کم اس سے وہ یہ تو جان لے گا کہ بہارے گل راز رکھ سکتی ہے یا نہیں۔ شاید اپنی بہن سے تو بالکل نہیں۔
اسی رات اس نے اپنے کمرے میں وہ ویڈیو ریکارڈ کی اور اس میں وہ سب کہہ دیا جو وہ کہنا چاہتا تھا۔ اگر نہیں کہا تو ابا کے ہاتھوں جاسوس کو مارنے کا قصہ کہ وہ ابا کا راز تھا اور فریحہ کی جاسوسی کا قصہ کہ وہ فریحہ کا راز تھا اور اپنے سر درد کا قصہ کہ وہ اس کا اپنا راز تھا اور اسے راز نبھانے بہت اچھے سے آتے تھے۔
اس رات وہ سو نہیں سکا۔ صبح جب وہ واپس استنبول آیا تو سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ جواہر جا کر اس نے اپنے لاکر میں یو ایس بی فلیش رکھی اور واپس ریسٹورنٹ آگیا۔ پوری رات کی بیداری کے بعد اب پچھلے کمرے میں صوفے پہ بیٹھا اور سر صوفے کی پشت سے لگایا ہی تھا کہ آنکھیں بند ہونے لگیں۔ ابھی اسے نیند میں گئے چند منٹ ہی گزرے تھے کہ موبائل بجنے لگا۔ وہ بدقت اس نے آنکھیں کھولیں، سیدھا ہوا اور جیب سے موبائل نکال کر دیکھا۔ ایکسچینج اسٹوڈنٹ کال کر رہی تھی۔ ایک تو یہ ایکسچینج اسٹوڈنٹ ٹھیک سے چین بھی نہیں لینے دیتی۔ ایک لمحے کے لیے جہان نے سوچا کہ نظر انداز کر دے پھر پتا نہیں کیوں وہ کر نہیں سکا اور کال اٹھا لی۔
آپ کا مطلوبہ نمبر اس وقت سو رہا ہے براہ مہربانی کافی دیر بعد رابطہ کریں۔ شکریہ! وہ بولا تو اس کی آواز خمار آلود تھی۔
جہان! اٹھو اور میری بات سنو۔ وہ بہت جھلا کر کہہ رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی جہان ابھی اسی وقت ٹاقسم میں مرمرا ہوٹل پہنچے، سلیمان ماموں کے کوئی دوست آئے ہوئے تھے۔ وہ سخت کبیدہ خاطر ہوا۔
میں نہیں آ رہا، مجھے آرام کرنے دو۔ جواب میں وہ بے حد خفا ہوئی اور اپنا پسندیدہ ”جہنم میں جاؤ“ بول کر فون رکھ دیا۔
جہان نے پھر سے سر صوفے کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں مگر اب نیند کا آنا ناممکن تھا۔ کچھہ دیر بعد حیا کا پھر میسج آیا۔ وہ اسے بلیو موسق بلا رہی تھی۔ اس کو جوابی ٹیسکٹ کر کے وہ اٹھا، شرٹ بدلی، منہ پہ چھینٹے مارے اور چابی اٹھا کر ریسٹورنٹ سے باہر آ گیا۔
حیا نے میسج پہ بلیو موسق کا کہا تھا اور نیلی مسجد کے باہر سبزہ زار پہ نصب بنچوں پہ ہی وہ سے دور سے نظر آ گئی۔ ایک لمحے کے لیے تو وہ اسے واقعی پہچان نہیں پایا تھا۔
حیا نے سر پہ دوپٹہ لے رکھا تھا۔ گہرے سبز رنگ کا دوپٹا جس کو وہ مستقل چہرے کے گرد ٹھیک کر رہی تھی۔ چونکہ اسے دوپٹہ لینے کی عادت نہیں تھی اس لیے وہ بار بار سر سے پھسل جاتا تھا۔
نیلی مسجد کے باہر کبوتو پر پھڑپھڑاتے ہوئے اڑ رہے تھے۔ کتنی ہی دیر تو وہ اس منظر کو ٹھہر کر دیکھے گیا۔ ایک دم سے اسے کچھ یاد آیا تھا۔
جب وہ انڈیا میں تھا، اور اس بک اسٹال کے ساتھ وہ لڑکی ملی تھی جسے ظاہر ہے کہ اس کے اپنوں نے ہی بھیجا تھا۔ اور وہ اسے اس آفیسر کا نام دکھا گئی تھی۔ جو اس کی مدد کرے گا اور بعد میں اسی کی مدد سے وہ جیل سے فرار ہوا تھا اس لڑکی کے سر پہ بھی ایسے ہی سفید دوپٹا تھا۔ خوبصورت، بہت خوبصورت جیسی علی کرامت کی ممی تھیں، جیسے آنے گل کی بیٹیاں تھیں، اور جیسی اب اس کی بیوی تھی۔
یہی تو چاہا تھا اس نے کہ اس کی بیوی ایسی ہو۔ بھلے وہ چہرہ نہ ڈھکے مگر باقی ہر طرح سے خود کو ڈھکے اور آج اس کی ساری خواہشیں پوری ہو گئی تھیں۔ اس کو بھی ایک مرمرا جمیلہ مل گئی تھی۔
اور تب ہی اس کی نگاہ حیا کے مقابل بیٹھے نوجوان پہ پڑی۔ اوہ ریسٹورنٹ سے وہ فرائنگ پان کیوں نہیں لایا۔آخر یہ شخص یہاں کیا کر رہا تھا۔ ایک لمحے کو اسے شدید غصہ چڑھا مگر جب اس نے دوبارہ حیا کو دیکھا تو جیسے بہت سے مناظر اس ایک منظر کی روشنی میں غائب ہو گئے۔
داور کی مہندی کی ویڈیو، حیا کا اس کار میں بیٹھنا، بارش میں سرخ کوٹ میں ٹاقسم پہ چلتی لڑکی۔
سارے منظر غائب ہو گئے ایسے جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔ پیچھے صرف ایک منظر بچا۔ بار بار چہرے کے گرد ڈوپٹہ ٹھیک کرتی خفا اور اداس سی بیٹھی لڑکی جو ذرا غصے سے سامنے بیٹھے شخص کو کچھ کہہ رہی تھی۔
جب وہ ان کے قریب آیا تو وہ چونکی اور ایک دم اس کا چہرہ جیسے کھل اٹھا۔ وہ حیران تھی اور خوش بھی۔ وہ اتنی بے اختیار ہو کر اٹھی کہ موبائل جو شاید اس کی گود میں تھا زور سے نیچے جا گرا۔
جہان! یہ ابا کے دوست کے بیٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تعارف کروانے لگے، اب وہ کیا بتاتا کہ وہ اس آدمی کو پہلے سے جانتا ہے، مگر ولید کو وہ ضرور کچھ بتانا چاہتا تھا۔ سلیمان ماموں اور حیا سے بہت ہی اپنائیت سے بات کرنے کے بعد اس نے لغاری صاحب کی سوالیہ نگاہوں کے جواب میں مسکراتے ہوئے ہی اپنائیت سے سارے رشتوں کی وضاحت ایک فقرے میں کر دی۔
میں جہان سکندر ہوں، سلیمان ماموں کا بهانجا اور حیا کا ہزبینڈ۔ اور اس ایک فقرے نے اس کے اپنوں کو جو حیرت بهری خوشی عطا کی، اس سے سلیمان ماموں کا بھانجا اور حیا کا ہیزبینڈ بلآخر یہ بات جان گیا کہ وہ سب یہ رشتہ چاہتے تهے۔ ساری ناراضگیاں دور ہوئیں سارے گلے ختم ہوئے۔ اس نے اپنی بیوی کو اس شخص کے سامنے مان دیا جس کے اور اس کی بیوی کے درمیان کبھی کچھ نہیں رہا تھا، ہو ہی نہیں سکتا تها۔
شام کو جب ماموں اور ممی لاؤنچ میں تهے وہ کچن میں حیا کی مدد کروا رہا تها۔ تب اس نے حیا کا پلان جاننے کی کوشش کی۔ وہ اسے ترکی سے بهیجنا چاہتا تها مگر حیا نے ابهی کچھ طے نہیں کیا تها کہ اسے ترکی میں رہنا ہے یا دوسرے ملک۔ ممی اور ابا کو وہ لندن میں سیٹل کر رہا تها، اگر حیا لندن جانے پہ راضی ہو گئی تو وہ اسے ان کے ساته لندن بھیج دے گا، لیکن اگر وہ نہیں راضی ہوتی تو وہ دوسرا طریقہ استعمال کرے گا۔
شام میں ان کی منگنی ہوئی۔ ممی کو جیسے پتا چلا کہ اس نے سب کے سامنے یہ اعتراف کیا ہے وہ بہت خوشی سے دو انگوٹهیاں نکال لائیں جو انہوں نے اس موقع کے لیے بہت عرصے سے سنبھال رکهی تھیں۔
وہ واقعی اس روز مطمئن تها۔ جب رات میں وہ ماموں کو چھوڑ کر گھر واپس آیا تو اس کا ارادہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھی سی کافی پینے اور کوئی اچھی سی مووی دیکھنے کا تها۔ فیملی والا احساس بہت عرصے بعد دل میں جاگا تها اور وہ اس احساس کو جینا چاہتا تها۔
مگر اس سے قبل حیا نے اسے بری خبر سنا دی۔
تمہارے لیے فون آیا تھا کوئی لڑکی تھی، نام تو نہیں بتایا مگر کہہ رہی تھی کہ تمہارا پارسل اسے نہیں ملا، کسی غلط ایڈریس پہ چلا گیا ہے۔
اور کسی نے وقعتا اس کا سانس روک دیا۔ اس کا گھر ایک سیف ہاؤس کے طور پہ استعمال ہوتا تھا۔ وہ جانتا تھا وہاں شام سے ایک کانٹیکٹ کی کال ہی آ سکتی تھی، اور اس کو پارسل نہ ملنے کا مطلب بہت واضع تھا۔ جو کچھ اس نے یہاں سے بھیجا تھا، واپس نہیں پہنچا تھا، بلکہ کسی غلط ایڈریس پہ چلا گیا تھا۔ اس نے ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں پیغام کو ڈی کوڈ کیا۔ اس کا بھیجا ہوا لڑکا، عمر واپس نہیں پہنچا تھا۔ بلکہ گرفتار ہو گیا تھا تو یقینا بہت ایمرجنسی سچویشن تھی، اس لیے پیغام اس کے گھر چھوڑ دیا گیا تھا۔ عین ممکن تھا کہ پیغام جس نے بھیجا ہو، وہ بھی جلدی جلدی اپنی جگہ سے پیک اپ کر کے نکل رہی ہو۔ خدایا یہ کیا ہو گیا تھا۔
اس کا لڑکا پکڑا گیا تھا۔ جیل تشدد، اذیت اس کی ہر طرف وہی تنگ و تاریک سیل چھانے لگا۔ ایسے میں کافی، مووی، سب فضول تھا۔
پوری رات وہ اسی صوفے پہ بیٹھا ہینڈلر کی کال کا انتظار کرتا رہا، مگر کال نہیں آئی۔ دو راتوں کی بےخوابی کے باعث صبح تک اس کی آنکھیں سرخ پڑنے لگی تھیں، مگر وہ وہیں بیٹھا رہا۔ ہر کوئی جیل سے فرار نہیں ہو پاتا۔ لوگ برسوں جیل میں سزا اور تشدد کاٹ کر وہیں خاموشی سے جان دے دیتے ہیں۔ ایک اور اسپائی ضائع ہو گیا۔ ایک اثاثہ ضائع ہو گیا۔ اس کی اذیت کی کوئی حد نہیں تھی۔
اس سارے میں حیا کا خیال اس کے ذہن سے بالکل نکل گیا۔ صبح ہوتے ہی وہ واپس چلی گئی۔ جہان نے روکا بھی نہیں۔ اس کے پاس کرنے کو بہت سے دوسرے کام تھے۔
اگلے روز وہ بیوک ادا چلا گیا۔ حیا، پزل باکس، جواہر کا لاکر، اس نے سب کچھ ذہن سے جھٹک کر خود کو ہوٹل گرینڈ میں مصروف کر لیا۔ ریسٹورنٹ میں اس نے بتا دیا تھا کہ اگر اس کی دوست (حیا) شام میں آئے تو کہنا، جہان جلدی اٹھ کر چلا گیا ہے، اگر صبح آئے تو کہنا، وہ آج آیا ہی نہیں۔ چند روز وہ واقعی نہیں آئی۔ عمر کی گرفتاری کی تصدیق ہو گئی۔ پھر انہی دنوں وہ بلآخر خود کو راضی کر کے انقرہ لے آیا۔ یہاں اسے اپنا چیک اپ کرانا تھا، سر کا بدترین درد جو سر سے ہوتا ہوا گردن تک جاتا، اسے اب اس کا علاج چاہیے تھا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد اس نے گردن کے ایک طرف کا ایم آر آئی کروایا تھا، مگر برین ایم آر آئی اس نے نہیں کروایا تھا۔ اپنا درد اس نے ہر جگہ چھپایا تھا، تب اتنی تکلیف ہوتی بھی نہیں تھی۔ یہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھی تھی۔ پانچ سال جہان نے اس اذیت کے ساتھ گزارے تھے، اب بلآخر وہ اس کا سامنا کرنا چاہتا تھا۔
ایم آر آئی سے قبل، سادہ ایکسرے سے ہی سارا معاملہ صاف ہو گیا۔ اس کو ایکسرے دکھانے سے قبل ڈاکٹر نے پوچھا تھا۔
کیا کبھی تمہیں سر پہ کوئی چوٹ آئی تھی۔ کوئی ایکسیڈنٹ جس میں سر کسی چیز سے ٹکرایا ہو؟
ہاں! میری لڑائی ہو گئی تھی کچھ لوگوں سے، انہوں نے میرے سر پر کوئی تلے کی طرح کی چیز سے مارا تھا جس سے سر سے خون بھی نکلا تھا۔ مگر خون اتنا زیادہ نہیں تھا۔ آنکھ کے قریب زخم سا ہوا تھا جس سے تھوڑا سا خون نکل کر کنپٹی تک ہی گرا تھا۔
مجھے افسوس ہے، لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی ڈاکٹر نے اس کا ایکسرے اس کے سامنے رکھا۔ شاید جس چیز سے ان لوگوں نے تمہیں مارا تھا اس پہ چھوٹی سی کیل لگی ہوئی تھی۔ ایک اشاریہ ایک انچ کی کیل جو تمہاری آنکھ کے قریب گھس گئی تھی۔
اس نے بے اختیار آنکھ کے قریب چہرے پہ ہاتھ رکھا، وہ ایک Object Foregin کے ساتھ پچھلے پانچ برس سے رہ رہا تھا اور اسے کبھی پتا نہیں چل سکا۔
اب کیا ہو گا۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ ماضی کا افسوس کرے یا مستقبل کے لئے فکر مند ہو۔ اسے واقعی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
ہمیں سرجری کے ذریعے یہ فارن آبجیکٹ ریموو کرنا پڑے گا، مگر، ڈاکٹر متذبذب سا رک گیا۔
آپ بتا دیں جو بھی بتانا چاہتے ہیں۔ میں تیار ہوں۔ بمشکل اس نے خود کو کمپوز کر لیا تھا۔
دیکھو! میڈیکل ہسٹری میں بہت سے ایسے کیسز آئے ہیں جس میں لوگ برسوں فارن آبجیکٹ کے ساتھ رہتے ہیں اور انہیں علم بھی نہیں ہوتا۔ وہ آدمی جس کے گلے کے قریب چاقو کا پھل، اور میرا مطلب ہے واقعی چاقو کا پھل گھس گیا تھا، چار برس تک اس کو علم ہی نہ ہو سکا کہ اس کے گلے میں کچھ ہے اور جرمنی کی ایک عورت تیس پینتیس برس تک اپنے برین میں آٹھ سینٹی میٹر لمبی پینسل لیے رہی۔ سرجری سے ایسی بہت سی چیزیں نکالی جاتی رہی ہیں، مگر، وہ پھر رکا۔ یہ ننھی سی کیل تمہاری Optic Nerve کے بالکل ساتھ پھنسی ہے۔ چند ملی لیٹر بھی آگے پیچھے ہوتی تو تم اندھے ہو جاتے۔ اب اس سرجری کا کم از کم میں رسک نہیں لوں گا، اس کی کامیابی کا چانس کم اور ۔۔تمہارے اندھے ہونے کا چانس زیادہ ہے
وہ خاموشی سے عادتا ًنچلا لب دانت سے دبائے سنے گیا۔ کبھی وہ سوچتا تھا، وہ بہت خوش قسمت ہے کہ وہ بغیر کسی مستقل انجری کے جیل سے باہر آ گیا اور فوج کے لئے ناکارہ نہیں ہوا۔ مگر وہ غلط تھا۔ جیل افسران نے اسے پہلے دن کہا تھا کہ کوئی ان کی جیل سے مردہ یا اپاہج ہوئے بغیر نہیں جاتا تھا۔ وہ ٹھیک کہتے تھے۔ وہ بالکل ٹھیک کہتے تھے۔
پھر میں کیا کروں۔ بہت دیر بعد اس نے پوچھا تو ڈاکٹر نے نفی میں سر ہلا دیا۔
تم دوسری رائے کے لئے کسی اور کے پاس جا سکتے ہو۔ باہر چلے جاؤ۔ جرمنی بہتر رہے گا۔ یقیناً کوئی مجھ سے اچھا سرجن یہ رسک لینے پہ تیار ہو جائے گا۔
وہ رات بہت تکلیف دہ تھی۔ ایک طرف یہ سر درد اور اب نکسیر پھوٹنا اور دوسری طرف اندھے ہونے کا خدشہ وہ کس کا انتخاب کرے۔ کیا اس کیل کو سر میں پڑے رہنے دے۔ یا پھر نکلوانے کا خطرہ مول لے لے۔ اور اگر وہ اندھا ہو گیا یا اپاہج، تو کیا ہو گا۔ کیریئر ختم، ملک کی خدمت ختم، حکومت کا لاکھوں روپیہ خرچ کر کے اس کی تربیت دلانا ختم، زندگی ختم۔
صبح وہ سیدھا ریسٹورنٹ آیا۔ آج پہلی دفعہ اس کا دل کسی کام کے لئے نہیں چاہ رہا تھا۔ زندگی پہلے بھی بے یقین تھی، مگر اب تو مزید بے یقین ہو گئی تھی۔ کیریئر کا ختم ہونا اس کے لئے زندگی کے ختم ہونے کے برابر تھا۔ مگر پھر بھی وہ یہ رسک لے گا۔ خطرہ لئے بغیر بھی کوئی زندگی ہوتی ہے بھلا۔
جہان بھائی، وہ آپ کی دوست آئی تھی رات کو۔ کاؤنٹر پر جز وقتی بیٹھنے والے لڑکے نے بتایا تو وہ چونکا۔
حیا۔ کیا کہہ رہی تھی۔
اپنی دوست کے ساتھ آئی تھی، آپ کا پوچھا پھر چلی گئی۔ کافی دیر بعد دونوں دوبارہ آئیں، ان کے شاید کوئی پیچھے لگا ہوا تھا، انہوں نے بیک ڈور کا راستہ مانگا۔ پھر وہ وہیں پینٹری میں بیٹھی رہیں۔ سوا ایک بجے وہ پیچھے سے نکل گئیں۔
اور کچھ۔
اور پاشا بے بھی آئے تھے۔ اب کی بار وہ بری طرح چونکا۔
کیا کہہ رہا تھا وہ۔
آپ کا انتظار کرتے رہے۔ یہیں دروازے کے پاس کرسی پہ بیٹھے رہے۔ اچھے موڈ میں نہیں تھے۔ آپ سے ملنا چاہتے تھے۔
کیا وہ دونوں لڑکیا اس کی موجودگی میں آئی تھیں۔ بہت دن اپنے مسئلوں میں الجھنے کے بعد آج اسے پھر حیا کی فکر ہو رہی تھی۔
جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں دروازے کے پاس کھڑی باتیں کر رہی تھیں۔ وہ ساتھ ہی بیٹھے تھے، انہوں نے چہرے کے آگے اخبار کر رکھا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا ہو گا۔ جب وہ دوسری دفعہ آئیں تب تک وہ جا چکے تھے۔
اچھا۔ وہ مطمئن ہو کر اندر چلا گیا۔ پاشا نے حیا کو دیکھ بھی لیا ہو تب بھی وہ ہرگز نہیں جان سکتا تھا کہ وہ جہان کی بیوی ہے۔ اسے جاننا بھی نہیں چاہئے تھا۔ کمزوریوں کو کیسے پکڑا جاتا ہے، جہان سے بہتر کون جان سکتا تھا۔ اس لئے کوئی اس کی کمزوری پکڑے وہ نہیں چاہتا تھا۔ بس اب وہ جلد از جلد حیا کو یہاں سے بھیج دے گا۔ استنبول غیر محفوظ تھا۔ کم ازکم اس کی فیملی کے لئے۔
مگر اسے واپس بھیجنے سے قبل ضروری تھا کہ وہ اپنا پزل باکس کھول لے اور لاکر بھی۔ وہاں موجود گارڈ کو اس نے ہدایات دیے دی تھیں۔ جب بھی کوئی ۹ نمبر کا لاکر کھولنے آئے گا، گارڈ اس کے ایک نمبر پہ مسیج کر دے۔ چند پیسے لے کر گارڈ اس کام کے لئے راضی ہو گیا تھا۔ اور ابھی تک لاکر کھولنے کوئی نہیں آیا تھا۔
جب وہ دوبارہ بیوک ادا گیا تو اس نے اپنی الماری چیک کی۔ اس میں پزل باکس نہیں تھا۔ وہ عائشے نے رکھ لیا تھا یا واپس حیا تک پہنچ گیا تھا۔ یہی پوچھنے کے لئے اس نے بہارے کو بلایا۔
وہ سر جھکائے اوپر آئی اور صاف صاف بتا دیا کہ پزل باکس اس نے حیا کو دے دیا ہے۔ چند لمحے وہ کچھ نہیں کہہ سکا۔ اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔ بہارے گل عائشے سے راز نہیں رکھ سکتی تھی۔ یقیناً اس نے سب سے پہلے عائشے گل کو بتایا ہو گا۔
اس نے بہارے پہ غصہ نہیں کیا۔ غصے والی بات تھی ہی نہیں۔ وہ اس کے سامنے پنجے کے بل بیٹھا اور اس سے اپنے راز کے بارے میں پوچھنے لگا۔
پھر تو مجھے تمہارے دوسرے وعدے کا بھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔
اور اب تو اسے اس وعدے کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت تھی۔ وہ اس پاک اسپائی کو جنازہ نہیں دے سکا تھا جس کو اس نے ابا کے ساتھ دفنایا تھا مگر شاید بہارے اس کو جنازہ دے سکے۔ یہ الگ بات تھی کہ کور Blow ہونے پر سب لوگ آپ کو پہچاننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ مگر بہارے مصر تھی کہ ایسا نہیں ہو گا۔
پورا ادالار بلکہ پورا ترکی تمہیں چھوڑ دے مگر بہارے گل تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گی۔
مگر بہارے گل کے چہرے پہ شدید غصہ امڈ آیا جب جہان نے بہارے کی نئی دوست کا ذکر کیا۔ وہ حیا کو بہت پسند کرتی تھی مگر عبدالرحمن اس میں دلچسپی رکھتا ہے یہ بات اس کو پسند نہیں تھی۔
وہ اپنے کزن کو پسند کرتی ہے اور اس کا کزن بہت ہینڈسم ہے
اس نے اپنے تئیں عبدالرحمن کو مقابلے کا احساس دلایا۔ بہارے نے حیا کا کزن کہاں دیکھا یہ وہ بعد میں عائشے سے پوچھے گا لیکن ابھی اس نے عبدالرحمن کے متعلق حیا کی رائے جاننی چاہی تو وہ فورا بولی۔
"یہ سچ ہے کہ اسے تم بالکل پسند نہیں ہو۔"
تب وہ بہارے کے سامنے سے اٹھ گیا۔ وہ زیادہ دیر رکے گا تو بہارے سمجھے گی کہ عبدالرحمن نے اسے معاف کر دیا ہے جبکہ وہ عائشے کی طرح اسے بھی یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ وہ حفگی اتنی جلدی بھلانے والوں میں سے نہیں ہے۔
تب بہارے نے اس سے پہیلی لکھنے والے کی بابت پوچھا۔ وہ ذرا چونکا پھر لاعلمی ظاہر کی، مگر اس کی اگلی بات نے جہان کو واقعتا چونکا دیا۔ اس نے کیوں نظرانداز کر دیا کہ جو باکس اس نے بہارے کو دیا تھا اور وہ جو حیا کو دیا تھا دونوں کی پہیلیوں کی لکھائی کا انداز ایک سا تھا۔ جبکہ ایک عبدالرحمن نے دیا تھا اور دوسرا میجر احمد نے۔ دونوں کو ایک سا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ حیا نے محسوس کر لیا تو عائشے نے بھی کر لیا ہو گا۔ عبدالرحمن کا اصل تعارف میجر احمد عائشے کو نہیں پتا چلنا چاہئے۔
شام میں وہ عائشے کے پاس بالخصوص اسی مقصد سے آیا تھا مگر حیا نے اس کے سامنے کسی میجر کا تذکرہ نہیں کیا تھا۔ وہ مطمئن ہو گیا۔ پھر خیال آنے پر پوچھا
بہارے کہہ رہی تھی۔ حیا کا کزن کافی ہینڈسم ہے۔ تم تو اس دفعہ اسے ساتھ نہیں لائی تھی جب میں حیا سے ملنے آیا تھا۔ پھر اسے کیسے پتا چلا۔ عائشے کا چہرہ خفت سے گلابی پڑ گیا۔
نہیں، وہ دراصل حیا نے اس سے کہا تھا کہ اس کی شادی اپنے کزن سے ہو چکی ہے، تو بہارے بار بار مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ اس کا کزن کیسا ہے۔ میں کہہ دیا کہ بہت اچھا ہے جو سچ تھا وہی کہا۔ وہ گڑبڑا کر سر جھکا کر لکڑی چھیدنے لگی۔
"تھینک یو عائشے! تم نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا، میں کبھی تم سے کوئی اور فیور مانگوں تو کیا تم دو گی۔ بنا کسی تاثر کے اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔ عائشے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا چند لمحے دیکھتی رہی پھر گردن اثبات میں ہلا دی۔
تم مجھ پہ بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ تمہیں کرنا چاہئے۔ پھر وہ جیسے کچھ کہتے کہتے رک گئی اور سر جھٹک کر دوبارہ سے کام کرنے لگی۔ وہ یقینا موتیوں کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی۔ مگر کیا فائدہ-
پھر ایک روز اس نے حیا کو میجر احمد کی طرف سے فون بھی کر لیا۔ اس کی باتوں سے اسے نہیں لگا کہ وہ باکس کے عبدالرحمن کی طرف سے ہونے کے بارے میں جان چکی ہے۔ اس روز وہ ذرا جنجھلائی ہوئی تھی۔ شاید وہ تنگ آ گئی تھی، چلو خیر، جلد یا بدیر یہ کھیل حتم ہونے والا تھا-
چند روز اسی روٹین میں گزر گئے۔ صبح ہوٹل گرینڈ اور دوپہر کی فیری لے کر استنبول آ جانا۔ طیب جبیب پاشا واپس استنبول آ چکا تھا اور اس نے بار بار کی مداخلت شروع کر دی تھی۔ جو وعدے کیے تھے وہ پورے کرو۔ وہ جواب میں اسے ٹال نہیں رہا تھا، مگر صرف تھوڑا سا وقت مزید مانگ رہا تھا
اپنی جگہ پہ طیب حبیب بھی ٹھیک تھا۔ اس کی زندگی استنبول میں تنگ ہو چکی تھی۔ اس کے دشمن، عبدالرحمن کے دشمنوں سے زیادہ تھے۔ مگر وہ کیا کرتا کہ ہر چیز اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ سارے احکامات پیچھے سے آتے تھے، سو وہ طیب حبیب کو جھڑک کر خاموش کروا دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ طیب بکتا جھکتا مگر پھر خاموش ہو جاتا۔ وہ عبدالرحمن کو انکار نہیں کیا کرتا تھا۔ اپنے غصے کا اظہار کر دینے کے بعد پسپائی بھی اختیار کر لیا کرتا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس کی بقا عبدالرحمن کے ساتھ میں ہے۔ اس کی دشمنی میں نہیں۔
چند روز بعد اسے احساس ہوا کہ حیا کو اپنے فون میں اس کے ٹریسر کے بارے میں علم ہو گیا تھا، کیونکہ اس روز جب وہ اچانک سے برگر کنگ آئی تو وہ ذرا حیران ہوا۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ دونوں چلتے چلتے استقلال اسٹریٹ کو ختم کر لیں۔ وہ کام چھوڑ کر باہر آ گیا اور ساتھ میں اپنا فون بھی چیک کیا۔ اس کا ریسیور اسے بتا رہا تھا کہ اس کا ٹریسر سبانجی میں ہی ہے جب کہ حیا کا موبائل اس کے ہاتھ میں ہی تھا۔ اچھا تو اس نے ٹریسر نکال لیا تھا۔ شاید اسی لیے اس نے صبح میجر احمد کے نمبر پہ ٹیکسٹ کیا تھا کہ وہ کوئی خاص بات کرنا چاہتی ہے۔ جہان نے سوچا وہ فارغ ہو کر اسے کال کرے گا مگر فراغت سے قبل ہی وہ خود آ گئی تھی۔
وہ دونوں ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوۓ استقلال اسٹریٹ میں آ گے بڑھنے لگے۔ جہان کو یاد تھا جب حیا کا جنجر بریڈ ہاؤس توڑنے پہ وہ اس کے ڈروم کے باہر کھڑا رہا تھا اور اس نے اسے ٹائمڈ کال کی تھی۔ شاید اس کی موجودگی میں کال آنے پہ حیا اسے اپنا مسئلہ بتا دے۔ اس دن وہ بات ادھر ادھر کر گئی تھی۔ آج اس کے ساتھ جدیسی میں چلتے ہوۓ اس کے ساتھ وہی کرنے کا فیصلہ کیا۔ کیا اب ان دونوں میں اتنا اعتبار پیدا ہو چکا تھا کہ حیا اسے سب کچھ بتا دے۔
وہ جوس لینے ایک کیفے میں گیا اور کال کا ٹائم سیٹ کر کے جوس لیے باہر آ گیا۔ اس نے ریکارڈنگ نہیں لگائی تھی ۔ جب حیا کال اٹھاۓ گی تو رابطہ منقطع ہو جاۓ گا۔ وہ سمجھے گی کہ دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئی ہے۔ وہ سننا چاہتا تھا کہ اس کال کی وہ کیا وضاحت دیتی ہے۔
وہ دونوں اب گلی میں کافی آگے بڑھ گئے تھے۔ حیا نے اس سے لندن جانے کا پوچھا ضرور مگر خود اس کا اپنا ارادہ بیوک ادا میں رہنے کا تھا۔
میں اپنی دوستوں کے ساتھ بیوک ادا میں رہنا چاہتی ہوں۔ وہ بے نیازی سے شانے اچکا کر کہتی چل رہی تھی۔ اس روز بھی اس نے اسکارف چہرے کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔ جو وہ چاہتا تھا وہ اس نے کبھی حیا سے نہیں کہا پھر بھی وہ ہو گیا تھا۔ اس سے آگے وہ کیا چاہتا تھا۔ بس اعتبار کا ایک رشتہ جب وہ پیدا ہو جاۓ گا تو وہ اسے خود بتا دے گا کہ وہ ان جنت کے پتوں میں کتنی خوبصورت لگتی ہے۔
ابھی جہان نے اسے ایک ٹرک دکھا کر اخبار طے کر کے پکڑا ہی تھا کہ حیا کا موبائل بجنے لگا۔ حیا نے موبائل نکال کر دیکھا اور کال کاٹ دی۔
میجر احمد کی کال تھی، کچھ کام تھا ان سے۔ وہ سرسری سے انداز میں بولی اور اسے سمجھ نہیں آیا وہ اس کو کیا کہے۔ وہ اتنی صاف گوئی سے بتا دے گی اس نے توقع نہیں کی تھی۔
اس کہ پوچھنے پہ حیا نے بس اتنا بتایا کہ میجر احمد کون ہے، مگر آگے پیچھے کچھ نہیں۔ سچ بتانے اور اعتبار کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ان کے درمیان سچ بولنے کا تعلق قائم ہو چکا تھا مگر اعتبار کا شاید نہیں۔ نہ اس نے حیا کو خود سچ بتایا تھا نہ ہی حیا نے اسے وہ تمام واقعات کے بتائے تھے جو اس کے ساتھ پچھلے چند ماہ سے ہو رہے تھے۔
جب وہ واپس چلی گئی تو وہ ریسٹورنٹ آ گیا۔ اس کا دل مطمئن تھا بھی اور نہیں بھی۔ حیا نے اس سے جھوٹ نہیں بولا تھا مگر اس پہ اعتبار بھی نہیں کیا۔ وہ لندن بھی اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ بیوک ادا میں رہے وہ یہ نہیں چاہتا تھا مگر جب دونوں کے درمیان اعتبار کا رشتہ تھا ہی نہیں تو وہ کس مان پہ اس سے کچھ منوا سکتا تھا۔
وہ ترکی صرف جہان کے لیے آئی تھی وہ جان گیا تھا۔ اب وہ اس کو یہاں سے صرف اپنی وجہ سے ہی بھیج سکتا تھا۔
تب ہی حیا کا فون آنے لگا۔ اس نے کال کاٹ کر خود فون کیا۔ یہ پہلی دفعہ تھا جب حیا نے خود اس سے بات کرنی چاہی تھی۔ زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ اب وہ اسے بتا رہی تھی کہ اس نے جہان سے میجر احمد کا ذکر کیا تھا۔
کیوں۔ آپ نے کیوں بتایا۔ وہ یہی جاننا چاہتا تھا۔
شوہر کو علم ہونا چاہیے کہ اس کی بیوی کس سے بات کرتی ہے۔ اس کے جا کر کہنے پہ وہ بے اختیار مسکرا دیا۔
اب وہ اسے وہ باتیں بتا رہی تھی جو اس نے عبدالرحمن اور طیب حبیب کے بارے میں سنی تھی۔ وہ تحمل سے اس کی سنتا اور سمجھاتا رہا۔ اسے صرف یہ جاننے میں دلچسپی تھی کہ حیا نے یہ ساری باتیں کس سے سنی تھیں۔ کس بات کے جواب میں وہ میں نے سنا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہہ رہی تھی کہ جہان نے اس کی بات کاٹی۔
کس سے سنا ہے۔ اتنی تیزی سے پوچھنے پہ وہ بے اختیار کہہ اٹھی۔
کبری خانم سے۔ الادار میں۔
تو یہ کبری خانم تھیں۔ عائشے سے ان کی اچھی سلام دعا تھی اور ان کا بیٹا ہوٹل گرینڈ میں ایک معمولی سی ملازمت کرتا تھا۔ ان خاتون سے تو وہ ذرا واپس جا کر نپٹے گا۔ ابھی اسے حیا کے ذہن سے اس خیال کو نکالنا تھا۔ جو بھی تھا وہ میجر احمد پر بھروسا کرتی تھی۔
اس روز حیا نے پہلی دفعہ اس سے پوچھا تھا کہ وہ جنت کے پتے کسے کہتا ہے۔ جواب میں وہ اسے وہ سب بتاتا گیا جو اس نے علی کرامت کی ممی سے بچپن میں سنا تھا۔ وہ ادھوری، پوری باتیں، وہ نرم سا احساس، وہ دل میں اترتے لفظ، وہ ہر چیز دہراتا گیا، یہاں تک کہ وہ کہہ اٹھی۔
آپ اچھے انسان ہیں، اچھی باتیں کرتے ہیں۔
آہ کاش! کہ وہ بتا سکتا کہ اس نے اس اچھے انسان کو کب کب، اور کیا کیا، دے مارا ہوا ہے۔
•••••••••••••••••••••
بیوک ادا کے ساحل پہ لہریں پتھروں پہ سر پٹخ رہی تھیں۔ ان کا شور اس اونچے سفید قصر عثمانی کے اندر تک سنائی دے رہا تھا۔ محل اندھیرے میں ڈوبا تھا سوائے اس کی اسٹڈی کے جہاں وہ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ سامنے لیپ ٹاپ کی چمکتی اسکرین پہ وہ پیغام کھلا تھا جو اسے اپنوں کی طرف سے آیا تھا۔ اس کا کام ادالار میں آخری مراحل پہ تھا۔ تاش کے پتوں کے گھر کا آخری مرحلہ۔ پھر اسے روپوش ہو جانا تھا۔
کچھ عرصہ روپوش رہ کر وہ دوبارہ استنبول آئے گا ایک آخری کام نپٹائے گا پھر واپسی۔ اپنے ملک واپسی۔
جب سے اس نے میل پڑھی تھی وہ انگوٹھیاں اور گلاسز خود سے علیحدہ کر کے میز پہ رکھ دی تھیں اور یہ سگریٹ نوشی، اس سے بھی اس کو جلد از جلد چھٹکارہ حاصل کر لینا چاہیئے، اب عبدالرحمن پاشا کو چھوڑنے میں کم وقت رہ گیا تھا۔
اس کے سر کا درد ویسا ہی تھا اور بہت سوچنے کے بعد اعصابی دباؤ بھی محسوس ہو رہا تھا۔ جرمنی میں اس نے پندرہ جون کے بعد کی ایک تاریخ بھی اپنی سرجری کے لئے لے لی تھی۔ ڈاکٹر نے اسے امید دلائی تھی کہ آپریشن کی کامیابی کا چانس اتنا ہی تھا جتنا کہ ناکامی کا۔ چونکہ وہ بیوک ادا سے پیک اپ کرنے سے قبل آپریشن کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتا تھا اس لیے اس نے تاریخ بعد کی لی تھی۔ یہ اس کے کام کا آخری مرحلہ تھا۔ انڈیا میں آخری مرحلے میں سب کچھ بگڑ گیا تھا آخری مرحلے میں اس کے دوست نے جس کے پاس وہ مدد کے لئے گیا تھا اس کو پکڑوا دیا تھا۔ سر کا درد ہمیشہ اسے اس دوست کی یاد دلاتا تھا۔ اس نے جہان کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا۔
لوگ بعض دفعہ آپ کے ساتھ بہت برا کر جاتے ہیں، اتنا برا کہ بس!
تمام سوچوں کو جھٹک کر اس نے فون اٹھایا اور ایکسچینج اسٹوڈنٹ کا نمبر نکالا۔
میرے پاس آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔ آے آر پی۔
مختصر پیغام لکھ کہ اس نے حیا کو بھیج دیا۔ جب وہ جواب دے گی تو وہ اسے برگر کنگ پہ بلائے گا۔ وہاں پاشا بے کو بھی وہ بلا لے گا۔ اسے پتا تھا کہ حیا کو وہ منظر کیسے دکھانا ہے۔ جب وہ اپنے شوہر کو اس گمشدہ شہزادے کے ساتھ دیکھے گی تو جہان کا کام آسان ہو جائے گا یا تو وہ جان جائے گی کہ وہی عبدالرحمن پاشا ہے یا وہ طیب حبیب کا دوست سمجھے گی دونوں صورتوں میں وہ اس سے دور چلی جائے گی۔ بھلے ترکی سے نہ جائے بس استنبول سے چلی جائے۔ بعد میں ہمیشہ کی طرح وہ اس سے معذرت کرنے چلا جائے گا اور اسے منا لے گ۔ا مگر وہ ویڈیو-
اس نے گہری سانس لے کر موبائل رکھ دیا۔ ویڈیو ابھی تک لاکر میں تھی۔ اگر جانے سے قبل وہ اسے نہیں نکال پاتی تو وہ ویڈیو واپس رکھ لے گا۔
حیا یہ سب 9 جون سے 15جون تک کے وقت میں سیٹ اپ کرنا ہو گا ابھی نہیں۔
وہ ریسٹورنٹ آیا تو طیب حبیب اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے مطالبے وہی تھے اور جہان کا رویہ بھی ویسا ہی تھا۔
چند دن انتظار کر لو میں تمہاری فیملی کو باہر بھجوا دوں گا۔ میں نے بات کی ہے بہت جلد سب کچھ سیٹل ہو جائے گا۔ وہ بے تاثر لہجہ میں کہتے ہوئے رجسٹر چیک کر رہا تھا۔ آج جوابا پاشا بے نے غصہ نہیں کیا اور نہ ہی لعن طعن کی ہے بس اتنا کہا:۔
میں امید کرتا ہوں کہ تم جلد از جلد میرا کام کر دو گے جہان بے، آخر فیملی سب کے لئے اہم ہوتی ہے۔ میرے لیے بھی اور تمہارے لیے بھی۔
اس کے آخری الفاظ پہ جہان نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ پاشا بے نے کوٹ کا کالر درست کیا اور الوداعی مسکراہٹ کے ساتھ وہ پچھلے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
شاید وہ صرف دھمکی دے رہا تھا۔ وہ اس کی فیملی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ ایسے ہی اسے دھمکانا چاہ رہا تھا۔ جہان سر جھٹک کے کام کرنے لگا۔
انسان کا اپنی انفرادی صلاحیتوں پہ حد سے زیادہ اعتماد بعض دفعہ اسے دوسروں کو انڈرایسٹیمیٹ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔اس کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا مگر ابھی وہ یہ نہیں جانتا تھا۔
شام میں وہ معمول کے مطابق ریسٹورنٹ کے کچن میں کھڑا گوشت کاٹ رہا تھا جب اس کا موبائل ہلکے سے بجا وہ ٹون سے سمجھ گیا کہ پیغام کس کی طرف سے تھا۔ مگر اس نے فون جیب سے نہیں نکالا۔ قریب ہی اس کے دو شیف کام کر رہے تھے۔ ایک تو پرانی ورکر تھی مگر دوسرا ترک لڑکا نیا تھا۔ اس کو جہان نے حال ہی میں رکھا تھا اور وہ جانتا تھا کہ وہ ترک ایجنسی کا ہے اور صرف اس کی جاسوسی کے لیے یہاں کام کر رہا ہے۔ اس کو رکھنے کا فائدہ یہ تھا کہ اب وہ اپنی مرضی کی باتیں ترکوں تک پہنچا سکتا تھا۔ ٹرپل ایجنٹ بن کر کام کرنا اس طرح اور بھی آسان ہو گیا تھا۔
اس نے ہاتھ صاف کیے، گوشت رکھا اور خاموشی سے باتھ روم کی طرف چلا گیا۔ اندر آ کر اس نے دروازہ بند کیا اور پیغام کھولا۔ چند لمحوں میں اس نے پیغام ڈی کوڈ کیا اور پھر، جیسے ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔
وہ لڑکا، عمر، وہ نہیں رہا تھا۔ اسے کس نے مارا، اور کب اور کہاں مارا، کچھ معلوم نہ تھا۔ وقت جیسے ایک دفعہ پھر برسوں پہلے کے انطاکیہ میں پہنچ گیا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے مٹی کھود رہا تھا۔ وہ مٹی جس سے آج بھی خوشبو ٓآتی تھی۔ کیا عمر کو دفن ہونے کے لیے مٹی ملی ہو گی۔ کیا اسے خود وہ مٹی مل پائے گی۔
اس کے دل میں تکلیف اُٹھ رہی تھی، شدید تکلیف۔ اس نے جیب میں فون ڈالا ٹوٹنی کھولی اور سنک پہ جھک کر چہرے پہ پانی کے چھینٹے مارے، پھر سر اٹھا کر آئینے میں خود کو دیکھا۔ شدت ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ پڑ رہی تھیں۔
دادا کہتے تھے کہ مومن کے لیے دنیا قید خانہ ہوتی ہے۔ وہ ٹھیک ہی کہتے تھے۔ اس وقت برگر کنگ ایک قید خانہ ہی تھا۔ وہ سارا کام چھوڑ کہیں دور جانا چاہتا تھا، وہ بوسفورس کے کنارے بیٹھ کر ڈھیر سارا رونا چاہتا تھا۔ اگر دادا ہوتے تو کہتے کہ فوجی رویا نہیں کرتے۔ کاش وہ ان سے پوچھ لیتا کہ اگر فوجی کا دل درد سے پھٹنے لگے اور جیسے سارے جسم میں ٹوٹے کانچ اترنے لگیں تو پھر وہ کیا کرے، کیا دنیا میں رونے سے بہتر بھی کوئی دوا ہوتی ہے۔
سلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہان کہاں ہے۔ بلند آواز سے اتھل پتھل سانسوں کے درمیان وہ باہر کہیں پوچھ رہی تھی، جیسے وہ دوڑ کر آئی تھی، جہان نے ہولے سے نفی میں سر جھٹکا تولیے سے چہرہ خشک کیا اور نم آنکھیں رگڑتا باہر آیا۔
وہ فریڈم فلوٹیلا کے اسٹریٹ پروٹیسٹ کے لیے آئی تھی اور اب وہ چاہتی تھی کہ وہ بھی ان کے ساتھ چلے۔ جہان اس سے نظریں ملائے بغیر گوشت کے ٹکڑے اٹھانے لگا۔ ٓکنکھیون سے وہ دیکھ رہا تھا کہ حیا نے نقاب لے رکھا تھا۔ اس کے نقاب کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ اس نے نیا نیا نقاب لینا سیکھا ہے، مگر پھر بھی نقاب نیٹ تھا۔ اسے کیا ہو گیا تھا؟ وہ اتنا بدل کیسے گئی تھی؟ وہ بھی ایک دم سے نہیں آہستہ آہستہ سے۔ مگر یہ تبدیلی کتنی اچھی لگتی تھی اس میں۔ ابھی وقت تھا نہیں تھا اس خوشی کو جینے کا ابھی اور موقع تھا دل میں کچھ مر سا گیا تھا۔
حیا بول رہی تھی مسلسل اور وہ کٓنکھیوں سے صرف اسے نہیں بلکہ پیچھے کام کرتے نئے شیف کو بھی دیکھ رہا تھا جس کے ڈریسنگ بناتے ہاتھ ذرا سست پڑ گئے تھے۔ بچہ ذرہ کچا تھا۔ یہاں کہی گئی ایک ایک بات کہیں اور پہنچائی جاتی تھی اور یہ پاگل لڑکی ترک فوج کے ایک کارندے کے سامنے اسے کہہ رہی تھی کہ وہ فلسطینیوں کی حمایت کرے۔
گو کہ تربیت کے مطابق وہ کبھی کسی متنازعہ ہنگامے والی جگہوں پہ نہیں جاتا تھا کوئی اور موقع ہوتا تو بھی وہ حیا کو منع کر دیتا مگر پیچھے کھڑا لڑکا سب سن رہا تھا۔ ترک فوج بے حد سیکیولر قسم کی فوج تھی جہاں عبداللہ گل اوع طیب اردگان کی حکومت کو ماڈرن مولویوں کی حکومت کہا جاتا تھا۔ وہیں ترک فوج اپنے دین سے بے حد متضاد خیال رکھتی تھی اور اپنی بیوی کو مطمئن کرنے کے لیے وہ ترکوں کی گڈبکس سے نکلنا نہیں چاہتا تھا۔ نتیجتآٓ وہ لڑکا تو پرسکون ہو گیا مگر حیا پچھلی کئی دفعہ کی طرح ایک بار پھر اس کو اور اس کے ریسٹورنٹ کو جہنم میں بھیج کر غصے سے وہاں سے چلی گئی۔
وہ اس کے پیچھے نہیں گیا۔اس کا موڈ پہلے ہی بہت خراب تھا وہ وہیں کھڑا خاموشی سے کام کرتا رہا۔ کام اسے کرنا تھا کیونکہ حیا کی طرح وہ موڈ خراب ہونے پہ دو چار چیزیں ہاتھ مار کر گراتے ہوئے ہر کسی کو جہنم میں بھیج کر کہیں دور نہیں جا سکتا تھا۔ یقینا اس معاملے میں وہ کافی خوش قسمت تھی
پوری رات وہ بے حد ڈسٹرب رہا، پھر صبح سب کچھ ذہن سے جھٹک کر وہ گھر سے نکل آیا۔
فیری اس نے کدی کوئے سے پکڑنی تھی۔ کدی کوئے شہر کی ایشین سائیڈ کی بندرگاہ تھی اور سبانجی بھی ایشین سائیڈ پہ واقع تھی۔ سو وہ منہ اندھیرے اس سے ملنے چلا گیا۔
وہ جھیل کے پاس بیٹھی تھی۔ کتابیں سامنے پھیلائے، وہ جیسے کافی دیر روتی رہی تھی۔ اسے بے اختیار وہ رات یاد آئی جب جنجر بریڈ ہاؤس ٹوٹا تھا اور وہ تب بھی ایسے ہی رو رہی تھی۔ اسے ایک لمحے کو اس لڑکی پر بہت ترس آیا جس کی زندگی اس نے اتنی مشکل بنا دی تھی۔
اس کے ساتھ چاندی کے پانی جیسی جھیل کے کنارے بیٹھے وہ بہت دیر تک اسے دھیرے دھیرے بہت کچھ سمجھاتا رہا۔ وہ اسے خواب نہیں دکھانا چاہتا تھا، سو حقیقت میں رہ کر مستقبل کے حوالے سے باتیں کر رہا تھا۔ اٹھنے سے قبل اس نے پھر سے ”لندن چلنے کا موڈ ہو تو بتانا“ کہا تھا۔ کتنا ہی اچھا ہو کہ وہ ممی کے ساتھ لندن چلی جائے، پھر بعد میں ایک دو روز کے لیے اپنی کلیئرنس کروانے بے شک آ جائے۔ مگر اپنا آخری مہینہ وہ اس شہر میں نہ گزارے اس روز اسے لگا تھا کہ حیا اس کو اس کی غیر متوقع فطرت کے ساتھ قبول کرنے پہ راضی تھی مگر اعتبار وہ ابھی تک ان دونوں کے درمیان قائم نہیں ہوا تھا۔ وہ روٹھنے اور منانے سے آگے نہیں بڑھے تھے۔
جس روز اس کے امتحان ختم ہوئے، اس سے اگلے دن وہ بیوک ادا گئی تھی۔ یہ عائشے نے اسے بتایا تھا کیونکہ اب اس کا ٹریسر صرف سبانجی میں پڑا رہتا تھا۔ اس نے دوبارہ اس کو ٹریس کرنے خود ہی کوشش کی یہ اتنا ضروری نہیں تھا۔
گیارہ جون کی رات وہ ممی کے ساتھ ان کی پیکنگ کروانے میں مصروف تھا جب ممی نے حیا کے بارے میں پوچھا۔
کیا وہ ہمارے ساتھ جائے گی۔
پتا نہیں آپ کی بھتیجی کہاں ہمیں اپنا پروگرام بتاتی ہے۔ اس نے شانے اچکا کر لاپرواہی سے جواب دیا تھا۔ پھر اس نے سوچا، وہ حیا سے پوچھ ہی لے کہ اس کا کیا پروگرام ہے۔ وہ اپنا آخری مہینہ استنبول میں نہیں تو کدھر گزارے گی۔ یہی سوچ کر اس نے میجر احمد کی طرف سے ”کیسی ہیں آپ۔“ لکھ کر بھیج دیا۔ پتا نہیں وہ کیسی تھی۔ پورے دس دن اس نے حیا کو نہیں دیکھا تھا نہ ہی کوئی بات ہوئی تھی۔
مجھے جنت کے ان پتوں نے دنیا والوں کے لیے اجنبی بنا دیا ہے میجر احمد! اس کے جواب میں بہت ٹوٹا، بکھرا پن سا تھا۔ شاید وہ رو رہی تھی۔ وہ اس کی عادت کو اتنی اچھی طرح سے جاننے لگا تھا کہ اس کے انداز سے اس کے موڈ کا اندازہ کر لیا کرتا تھا۔
وہ موبائل لے کر کچن میں آ گیا اور بہت سوچ کر اس نے ایک ایسا جواب لکھا جو اس وقت اسے تسلی دے سکے۔ یقینا اس کے نقاب پہ کسی پہ نے کچھ کہہ دیا ہو گا اور وہ دل چھوڑ بیٹھی تھی۔ عین ممکن تھا وہ کہنے والے کو ہاتھ میں آئی چیز بھی دے مار چکی ہو یا کم از کم اسے جہنم تک پہنچا چکی ہو۔ پتا نہیں اس کی تسلی ہوئی یا نہیں مگر اس کا مزید کوئی ٹیکسٹ نہیں آیا۔
صبح وہ بیوک ادا نہیں گیا کیونکہ آج ہفتہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ حیا کے حوالے سے کچھ طے کر لے مگر تبھی کام کے دوران اس کو جواہر مال کے لاکرز کے گارڈ کا پیغام موصول ہوا۔ ایک لڑکی جو سیاہ عبایا میں تھی نو نمبر لاکر سے کچھ لے گئی ہے۔
گریٹ۔ وہ تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ سسلی سے واپس سبانجی جاتی وہ اسے اور پاشا بے دونوں کو اپنے ریسٹورنٹ پہنچنے کا کہہ چکا تھا۔ پاشا بے کا مسکن قریب ہی تھا سو وہ حیا سے پہلے پہنچ گیا۔
کیا میرا کام ہو گیا؟ پینٹری میں جا کر اس نے پہلی بات یہی پوچھی تھی۔
نہیں، اس میں ابھی وقت ہے تم تھوڑا صبر نہیں کر سکتے۔ وہ زچ ہوا تھا۔
پھر تم کیوں ملنا چاہتے تھے۔
ہوٹل گرینڈ کے بارے میں کچھ بات کرنی تھی۔ اس نے پینٹری کا دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔ اپنے پرانے شیف کو وہ پہلے ہی سمجھا چکا تھا کہ اسے کیسے حیا کو پچھلی طرف سے بھیجنا ہے۔ اب پاشا بے کو ہوٹل کے معاملات کے بارے میں بتاتا وہ کنکھیوں سے روشن دان کی طرف دیکھ رہا تھا جو اس نے کھول رکھا تھا۔ وہ آئے گی تو اسے شیلف کے چمکتے شیشے میں روشن دان کا عکس نظر آ جائے گا۔ تب وہ ان دونوں کی باتوں سے جان جائے گی کہ دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا چل رہا ہے۔ حسب توقع پاشا بے جلد ہی ہوٹل گرینڈ کی بات ختم کر کے اپنے کام کی طرف آ گیا تب ہی اسے وہ روشن دان کے عکس میں نظر آئی۔
وہ جیسے ٹھٹھک کر رک گئی تھی۔ وہ ظاہر کیے بنا اپنے مخصوص انداز میں بات کہے گیا۔ اسے معلوم تھا کہ حیا اندر نہیں آئے گی اگر اس نے دروازے پہ دستک دی یا گھنٹی بجائی تب وہ اسے فورا جانے کا کہہ دے گا۔ وہ زبردستی تو اندر نہیں آنا چاہے گی۔ مگر جو ہوا وہ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا۔
تمہاری بیوی باہر کھڑی ہے جہان اسے اندر نہیں بلاؤ گے۔ جیسے ہی پاشا بے کی نظر اس پہ پڑی وہ مسکرا کر بولا۔
جہان کو لگا، کسی نے پینٹری کا سارا سامان اس پر الٹ دیا ہو۔ وہ کیسے جانتا تھا حیا کو۔ یہ نا ممکن تھا۔ اگر وہ اسے جہان کی دوست کہتا تو وہ اتنا ششدر نہ ہوتا مگر جہان کی بیوی۔ اسے کیسے پتا چلا۔ اس بات کا تو ترکی میں کوئی ڈاکومنٹ پروف بھی نہیں تھا، پھر۔
اب وہ اسے حیا کے بارے میں اور بھی بہت کچھ بتا رہا تھا، سبانجی، ایکسچینج اسٹوڈنٹ، ڈورم نمبر ،وہ سب جانتا تھا۔ ان کی ملاقات بھی ہو چکی تھی۔
حیا نے گردن ہلا کر تصدیق کی، مگر وہ انہی بے یقین نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اگر وہ دونوں مل چکے تھے تو اس نے پتا نہیں کیا کیا حیا کو بتایا ہو گا۔ سب کچھ الٹا ہو گیا تھا۔ اس نے پاشا بے کو واقعی انڈر ایسٹیمیٹ کیا تھا۔
اس نے بے اختیار پاشا بے کو گریبان پکڑ لیا۔ اگر وہ اس کی بیوی کو نقصان پہنچانے کا سوچے بھی تو وہ واقعی اسے جان سے مار دے گا۔ حسب عادت حبیب پاشا کی مسکراہٹ سمٹی۔ وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اسے اس کی بیوی سے غرض نہیں تھی، بس اس کے کام سے تھی۔ اس کے جاتے ہی وہ حیا کی طرف پلٹا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ دیمت نے ٹھیک کہا تھا بعض باتیں سیاق و سباق کے بغیر پیش کی جائیں تو ہیرو کو ولن بنا دیتی ہیں۔ وہ اس کا اعتبار کھو چکا تھا۔ حیا نے اس کی کوئی بات نہیں سنی اور فورا وہ جگہ چھوڑ کر چلی گئی۔
وہ اسے ترکی سے بھیجنا چاہتا تھا مگر اس طرح نہیں۔ خود سے بدظن کر کے نہیں خود کو بے اعتبار کر کے نہیں۔ سب کچھ الٹ گیا تھا۔ بہت دفعہ منصوبے الٹے پڑ جاتے ہیں کوئی بھی انسان ماسٹر پلانر نہیں ہو سکتا۔ وہ بھی نہیں تھا۔
دیمت کی بات پوری ہوئی۔ وہ شوہر سے بدظن ہو کر اس سے دور چلی گئی۔ اس نے حیا کو بہت فون کیا مگر اس نے جہان کی کوئی بات نہیں سنی۔ وہ چلی گئی اور جیسے بوسفورس کا پانی خاموش ہو گیا سرمئی بگلے اڑنا چھوڑ گئے ٹیولپس مرجھا گئے اور جیسے سارا استنبول اداس ہو گیا۔
وہ چلی گئی اور اپنا ٹریسر سبانجی کے ڈورم میں ہی چھوڑ گئی۔ ایسا اس نے کبھی نہیں چاہا تھا۔ دیمت کی بات پوری ہوئی تھی۔
حیا کے جانے کے بعد ممی اور ابا کے جانے کے انتظامات بھی مکمل تھے۔ ممی مضبوط عورت تھیں۔ اپنے کام اکیلے دیکھ سکتی تھیں۔ ساری زندگی انہوں نے ایسے ہی گزاری تھی سو وہ استنبول میں اپنا کام مکمل کرکے جرمنی جانے کا ارادہ کر رہا تھا۔ یہ روپوشی کے دن تھے اور ان دنوں میں وہ سرجری کروا لینا چاہتا تھا۔ دو تین ہفتے بعد اسے پھر ترکی جانا پڑ سکتا تھا شاید ایک آخری کام کے لیے۔ اس کے بعد ترکی کے باب کو اس کی زندگی سے نکل جانا تھا۔
جرمنی آنے سے قبل وہ حبیب پاشا سے آخری بار ملا تھا۔ اس کی تمام چیزیں اس کے حوالے کرنے سے قبل اس نے صرف ایک بات پوچھی تھی۔ کہ تم میری بیوی کو کیسے جانتے ہو۔ مجھے صرف سچ سننا ہے۔
اور طیب حبیب نے سچ بتانے سے انکار نہیں کیا۔ وہ اسے کبھی انکار نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے بقول اس رات جب وہ برگر کنگ کے داخلی دروازے کے ساتھ والی میز پر چہرے کے سامنے اخبار پھیلائے بیٹھا تھا تو اس نے ان دو لڑکیوں کی گفتگو سنی تھی جو وہاں کھڑی تھیں۔ سیاہ اسکارف والی لڑکی دوسری لڑکی کو اپنی انگوٹھی دکھاتے ہوئے جہان سکندر سے اپنی منگنی اور شادی کا ذکر کر رہی تھی۔ اس لئے وہ ان کے پیچھے گیا اور کافی شاپ تک مگر وہ ڈر گئیں اور اسٹریٹ میں اس کے آگے بھاگتی ہوئی واپس برگر کنگ آ گئیں۔ اسے اندازہ تھا کہ وہ اسکوائر تک ضرور آئیں گی سو وہ وہیں ان کا انتظار کرتا رہا۔ جب رات ڈیڑھ بجے والی بس انہوں نے اسکوائر سے پکڑی تو اس نے ان کا یونیورسٹی کیمپس تک پیچھا کیا اور اگلے روز اس نے ایک جاننے والے سے کہہ کر وہ تمام معلومات نکلوا لیں جو وہ حیا کے متعلق یونیورسٹی سے نکلوا سکتا تھا
اس نےطیب حبیب پاشا کو اس کے ڈاکو منٹس دے دیے پھر بیوک ادا جا کر آنے کو بالآخر وہ خبر سنا دی جس کا وہ ڈیڑھ برس سے انتظار کر رہی تھیں۔ ان کابیٹا مل گیا تھا وہ ایران میں تھا اور اس کے کچھ دشمن استنبول اس کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ اتنے عرصے بعد پہلی دفعہ طیب حبیب نے اپنی ماں کو فون کیا آنے خوشی و تشکر سے بے حال تھیں۔ جب طیب حبیب نے چاہا کہ وہ تینوں اب اس کے پاس ایران آ جائیں تو آنے بخوشی راضی ہو گئیں۔ اب عائشے کی باری تھی۔ آنے نے اپنے اور جہان نے اپنے طور پر اس کو ساتھ چلنے کے لیےکہا۔ وہ صبر شکر والی لڑکی تھی اور وہ جانتا تھا کہ وہ سمجھ چکی ہے کہ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ جب مصنوعی رشتے کی ڈور ٹوٹ جائے گی۔ عبدالرحمن ان کی زندگیوں سے نکل جائے گا اور وہ ایک دفعہ پھر ایک فیملی کی طرح رہیں گے۔
عائشے نے صبر کر لیا۔ ساری اذیت کو دل ہی دل میں دبا کر وہ روانگی کے لیے پیکنگ کرنے لگی۔
بہارے کے رونے اور عائشے کی چپ نے اسے اندر ہی اندر بہت ڈسٹرب کیا۔ یہ سب اس کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے اس کا کانٹیکٹ (طیب حبیب) ادھر نہیں رہ سکتا تھا۔ عائشے اور بہارے کو عبدالرحمن کو بھلانے میں ایک عرصہ لگے گا، اس کے بعد وہ ساری زندگی کسی اجنبی پہ اعتبار نہیں کر سکیں گی۔ وہ اپنے اندر کی بہت سی تلخی ان کی زندگیوں میں چھوڑ کر جا رہا تھا، مگر وہ کیا کرتا یہی اس کی جاب تھی۔
ممی کو ابھی ترکی سے جانے میں چند دن تھے، مگر اس کا کام ختم تھا، سو وہ جرمنی چلا گیا۔ جس روز اس کی سرجری متوقع تھی، اس صبح اس نے حیا کو فون کیا۔ وہ اسے کہنا چاہتا تھا کہ وہ بیمار ہے، اس کی سرجری ہے، وہ اس کے لیے دعا کرے، مگر وہ کسی اور موڈ میں تھی۔ اسے زیادہ فکر فلیش ڈرائیو کے پاس ورڈ کی تھی۔
ایک لمحے کو اس کا جی چاہا کہ وہ اسے بتا دے کہ پاسورڈ، پاسورڈ ہی ہے۔ دنیا کا آسان ترین پاسورڈ۔ وہ ویڈیو کھلتے ہی اسے کال بیک کرے گی۔ وہ آج ہی آپریشن ٹیبل پہ جانے سے قبل اس کی آواز سن لے گا، مگر وہ ایسا نہ کر سکا۔ اپنی کہہ کر اس نے بہت خشک لہجے میں تمام تعلقات منقطع کرنے کا مژدہ سنایا اور فون رکھ دیا۔
بہت ہی اضطراری کیفیت میں جہان نے پھر سے اس کا نمبر ڈائل کیا مگر اب وہ فون اٹھانے سے بھی انکاری تھی۔ وہ جہان سے بھی بدظن تھی اور وہ اپنے نمبر سے کال کر کے کسی لمبی چوڑی صفائی کے موڈ میں نہ تھا سو بد دلی سے اس نے فون ایک طرف ڈال دیا۔
آپریشن سے قبل ڈاکٹر نے آخری دفعہ اس سے پوچھا تھا۔
کیا تمہیں یقین ہے کہ تم آپریٹ کروانا چاہتے ہو؟
وہ اس وقت آپریشن ٹیبل پہ لیٹا تھا ہسپتال کے سبز گاؤن میں ملبوس اس کا چہرا بھی یژمردہ لگ رہا تھا۔ آخری دفعہ اس نے آپریشن تھیٹر کی چھت لائٹس اور تیار ہوتے ڈاکٹرز اور اسٹاف کو دیکھا اور سر ہلا دیا۔ وہ اپنے رسک پہ سرجری کروا رہا تھا سارے سودوزیاں اس کے کھاتے میں ہی لکھے جانے تھے۔
جب انسیتھیز دینے ایک ڈاکٹر اس کے قریب آیا تو اس کا جی چاہا کہ وہ انہیں روک دے۔ وہ سرجری نہیں چاہتا تھا۔ وہ اندھا نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ اپاہج نہیں ہونا چاہتا تھا مگر الفاظ نے جیسے اس کا ساتھ چھوڑ دیا۔ چہرے پہ ماسک لگتے وقت اس کا سارا جسم سن پڑتا گیا۔ آنکھیں بند ہو گئیں۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ جیسے سیاہ مخمل کا کوئی پردہ ہو۔ جیسے بنا تاروں کے رات کا آسمان ہو۔
کتنے گھنٹے گزرے کتنے پہر بیتے وہ نہیں جانتا تھا۔ جب حسیات لوٹیں تو پلکوں سے ڈھیر سارا بوجھ اترا۔ اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں
وہ ہسپتال کے لباس ہی میں تھا مگر کمرہ مختلف تھا۔ اس نے پلکیں جھپکائیں۔ دھندلا منظر واضع ہوا۔ وہ اب دیکھ سکتا تھا۔
کیا آپریشن کامیاب ہوا تھا؟
سسٹر اسے جاگتے دیکھ کر فورا باہر چلی گئی۔ اس کی واپسی اس کے سرجن کے ساتھ ہوئی۔
ہو گیا؟ اس نے داکٹر کو دیکھ کر لبوں کو ذرا سی جنبش دی۔
نہیں! ہم نے آپریٹ نہیں کیا۔ ڈاکٹر اس کے قریب آئے اور بتانے لگے۔ تم بے ہوشی کے دوران بار بار کہہ رہے تھے کہ ہم تمہیں جانے دیں تمہاری ماں کو تمہاری ضرورت ہے۔ اس کے بعد میں یہ آپریشن نہیں کر سکتا تھا۔ رسک فیکٹر تم جانتے ہو۔
اوہ! ایک تھکی ہوئی سانس لبوں سے خارج کر کے اس نے آنکھیں موند لیں۔
تم کچھ وقت لے لو، خود کو ذہنی طور پہ تیار کر لو، پھر ہم تمہاری سرجری کریں گے۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ہسپتال سے چھٹی ملنے پہ وہ اپنے ہوٹل واپس چلا آیا۔ ڈاکٹر ٹھیک کہتا تھا۔ اسے یہ خطرہ مول لینے سے قبل خود کو مکمل طور پہ راضی کرنا تھا۔
ہوٹل کے کمرے میں بیٹھے، اس نے اپنا ترکی والا نمبر آن کیا اور ایک ایک کر کے وائس میسج سننے لگا جو فون بند ہونے پہ کالرز نے ریکارڈ کروائے تھے چوتھا میسج ممی کا تھا۔
جہان! کیا تم شہر میں ہو؟ تمہارے ابا کی طبیعت بگڑ گئی ہے۔ میں انہیں ہسپتال لے کر جا رہی ہوں۔
وہ ایک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا اور جلدی سے اگلا میسج کھولا۔
جہان! تمہارے ابا کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔ اسے لگا کسی تیز رفتار ٹرک نے اسے کچل دیا ہے۔ وہ بالکل سن سنا رہ گیا۔ ممی کے میسجز یکے بعد دیگر فون پہ چل رہے تھے۔
میں باڈی لے کر پاکستان جا رہی ہوں۔
تم جہاں بھی ہو، کوشش کرنا جنازے پہ پہنچ جاؤ۔
الفاظ تھے یا چابک۔ اس کی ماں کو اس کی کتنی ضرورت تھی، وہ کتنی اکیلی ہوں گی، وہ کتنی دکھی ہوں گی، سب بے حساب تھا۔ وہ مشکل وقت میں ان کے پاس نہیں پہنچ سکا۔ وہ مشکل وقت میں کبھی ان کے ساتھ نہیں ہوتا تھا۔
ابا چلے گئے اور وہ ان کا آخری چہرہ بھی نہیں دیکھ سکا ۔زندگی بھی بعض دفعہ ہماری مرضی سے زیادہ قربانیاں مانگ لیتی ہے۔
جلدازجلد پاکستان پہنچنا ممکن نہ تھا۔ اس کی آزادی کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں تھی اجازت، پروٹوکول، احتیاط اور وہ ابا کے جنازے کے تیسرے دن اسلام آباد پہنچ سکا۔ اگر وہ ڈی ایکٹیویٹ نہ ہوتا تو شاید تب بھی نہ پہنچ سکتا۔ جب حیا کی دوست کی ڈیتھ ہوئی تھی تب حالات فرق تھے۔ اب حالات دوسرے تھے۔
اس رات جب وہ ایرپورٹ پہنچا تو سب سے پہلے اس نے حیا کو کال کی۔ وہ اس کے گھر کا راستہ جانتا تھا مگر اس کو پہلے قبرستان جانا تھا۔ وہ پچھلی تین چار راتوں سے مسلسل حالت سفر میں تھا اور بمشکل سو پایا تھا۔ سر درد بھی ویسا ہی تھا۔ اس کو اپنے باپ دادا سے ملے بغیر سکون نہیں مل سکتا تھا-
حیا خاموش خاموش سی تھی۔ اس کی خفگی، گریز، سنجیدگی، وہ سب سمجھ رہا تھا۔ اپنے باپ اور دادا کی قبروں کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھے، اس نے بہت سے بیتے لمحوں کو یاد کرنا چاہا۔ تلخ باتیں، کڑوے لمحے۔ادھوری یادیں، پورے دکھ۔
وہ گھر آئے تو حیا نے اسے اس کا کمرہ دکھایا۔ وہ جوتوں سمیت بستر پہ اس ارادے سے لیٹا کہ ابھی چائے پئیے گا پھر ممی کے اٹھنے کا انتظار کرے گا۔ وہ فجر پہ اٹھیں گی تو وہ ان سے مل لے گا لیکن تھکاوٹ اور سر درد کی وجہ سے اس کی وہیں آنکھ لگ گئی۔
جب وہ جاگا تو دوپہر ہو چکی تھی۔ سائیڈ ٹیبل پہ چائے کی پیالی پڑی تھی۔ حیا اس کے لیے فورا چائے لے آئی تھی۔ اس کا مطلب تھا اس کی خفگی اتنی نہیں تھی کہ وہ اسے دور نہ کر سکے۔
وہ فریش ہو کر نیچے آیا تو فرقان ماموں سمیت سب نیچے بیٹھے تھے۔ حیا وہاں نہیں تھی۔ وہ اپنی دوست کے ساتھ شاپنگ پہ گئی تھی۔ حیا اور اس کے شوق-
فرقان ماموں اور صائمہ ممانی اسے باتوں باتوں میں کافی سنا گئے۔ ان کے نزدیک اس کا رویہ قابل مذمت تھا۔ بیٹا باپ کے جنازے پہ نہ پہنچ سکے ایسی بھی کیا مصروفیت۔ وہ خاموش رہا۔
رات کھانے پہ فاطمہ ممانی نے اس کا پروگرام پوچھ کر بہت اپنائیت سے کہا تھا۔
الگ اپارٹمنٹ کی کیا ضرورت ہے۔ یہی گھر ہے سبین کا۔
وہ کتنے ہی دن بعد پہلی دفعہ مسکرایا وقت کیسے بدلتا ہے لوگ کیسے بدلتے ہیں رشتے کیسے بدلتے ہیں۔
فاطمہ ممانی کی خواہش بھی بجا تھی۔ مگر اسے لگتا تھا کہ اس کے نصیب میں پاکستان میں رہنا لکھا ہی نہیں ہے۔ ہاں شاید جب وہ ترکی کے لیے ناکارہ ہو جائے تو کچھ عرصہ یہاں رہ جائے۔ لیکن اپنے پلانز وہ ان لوگوں سے ابھی شیئر نہیں کرنا چاہتا تھا۔
حیا اس سے ویسی ہی کھینچی کھینچی سی رہتی تھی۔ کبھی شاپنگ کے بہانے کبھی کسی اور کام کے لیے وہ اس کو ساتھ لے جاتا اس سے ہلکے پھلکے انداز میں بات کرنے کی کوشش کرتا لیکن وہ ریزرو ہی رہتی۔ وہ انتظار کر رہا تھا کہ کب وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالتی ہے مگر وہ خاموش تھی۔ ہاں جب بھی وہ اسے دیکھ رہا ہوتا وہ محسوس کر کے چونکتی اور فورا اس کی طرف دیکھتی مگر اس کے چونکنے اور گردن موڑنے تک وہ نگاہوں کا زاویہ بدل چکا ہوتا۔
بالآخر فرقان ماموں کی بیٹی کی منگنی کی رات اس نے حیا سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کافی بنا کر اس کے پاس آیا تو اس نے دیکھا کہ حیا نے وہی موتیوں والے ایئر رنگز پہن رکھے تھے جن کی وجہ سے عائشے بہت ہرٹ ہوئی تھی۔
وہ دونوں چھت پہ جھولے پہ جا بیٹھے تو اس نے طیب حبیب کا ذکر چھیڑا کہ وہ اسے کیسے جانتی ہے۔
عبدالرحمن پاشا۔ امت اللہ حبیب پاشا کا بیٹا۔ حیا کی بات پہ وہ چونکا۔
عبدالرحمن۔ اوہ۔ وہ غلط سمجھی تھی۔ اس نے طیب حبیب کی تصویروں کو عبدالرحمن سمجھا تھا وہ تو تصاویر ہی نہیں بنواتا تھا۔ صرف ایک تصویر تھی بہارے کے پاس اس کی وگرنہ گھر میں تو ساری تصاویر طیب حبیب کی تھیں۔
جواب میں وہ اسے پوری روداد سنائے گئی۔ وہ بالکل خاموشی سے سنے گیا۔ وہ سب پہلے سے جانتا تھا سو کیا تبصرہ کرتا۔ صرف ایک بات نئی تھی۔ حیا نے پاشا بے پر کافی الٹی تھی۔ ویری گڈ پاشا بے نے یہ بات نہیں بتائی تھی مگر وہ اپنی بیوی کی خداداد صلاحیتوں کو کیسے بھول گیا۔
حیا نے ابھی تک وہ یو ایس بی نہیں کھولی تھی سو وہ چند آدھی سچی اور آدھی فرضی وضاحتوں سے اس کو وقتی طور پر مطمئن کر کے بات ختم کر گیا۔ اصل بات یہ تھی کہ ان کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہو چکا تھا۔ حیا نے اپنی طرف کی ساری کہانی سنا ڈالی تھی۔ وہ بھی اپنی کتھا سنا چکا تھا مگر حیا نے ابھی وہ سنی نہیں تھی۔
سلیمان ماموں کو جانے کس بات پر روحیل پر شک پڑ گیا تھا انہوں نے اس سے پوچھا مگر وہ دامن بچا گیا۔ اسے اپنی ڈیل نبھانی تھی۔ مگر ماموں کو علم ہو ہی گیا۔ ان کی روحیل سے اچھی خاصی بحث ہوئی اور پھر وہ ایک دم ڈھے سے گئے۔
فاطمہ ممانی اور حیا پہ وہ دن بہت بھاری تھے۔ وہ دونوں دکھ سے نڈھال تھیں۔ کیا ہوا جو سلیمان ماموں ان کے برے دنوں میں ان کے ساتھ نہیں تھے وہ اور ممی تو ان کا ساتھ دے سکتے تھے نا۔
وہ جانتا تھا جب باپ ناکارہ ہو جاتا ہے تو رشتے دار بدل جاتے ہیں۔ اس نے حیا کو اپنے رشتے داروں سے ہوشیار رہنے کو کہا اور پھر حالات ایسے بنتے گئے کہ حیا نے اپنے ابا کے آفس جانا شروع کر دیا۔ اس نے جہان سے مدد مانگی مگر وہ فورا پیچھے ہٹ گیا۔ اسے چند دن میں واپس ترکی چلے جانا تھا اس لئے بہتر تھا کہ وہ خود کو اپنی بیوی کی بیساکھی نہ بنائے۔
آج کل اس نے حیا سے اس کی گاڑی لے رکھی تھی۔ اسے اپنے کاموں کے لیے جانا ہوتا تھا سو اسے یہ کار ہتھیانی ہی تھی اور حیا کو اری ٹیٹ کرنا دنیا کا سب سے آسان کام تھا۔ وہ اس کی ڈکٹیشن سے اتنا تنگ پڑی کہ کار کی چابی خود اس کے حوالے کر دی۔
اس رات جب وہ واپس گھر پہنچا تو دیکھا وہ سیڑھیوں پہ سر جھکائے بیٹھی تھی۔ قریب پہنچنے پہ حیا کی گاڑی میں اس نے دیکھا وہ رو رہی تھی۔ وہ ایک دم بہت پریشان ہو گیا۔ شاید اس نے ویڈیو کھول لی ہو اور وہ اب اس سے ناراض ہو۔ وہ کچھ بھی بتائے بنا اندر بھاگ گئی۔ اس نے فورا ممی کو جا لیا۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ فرقان ماموں نے وہی کیا تھا جو وہ ہمیشہ کرتے تھے۔ اسے بہت دکھ ہوا۔ سوچا کہ صبح حیا سے بات کرے گا۔ مگر صبح وہ جلدی آفس چلی گئی۔ سو دوپہر میں اس نے حیا کو لنچ پہ بلایا۔ اسے اپنی بیوی کو کچھ خاص بتانا تھا۔ جب وہ بتا چکا تو کھانا آ گیا۔ وہ نقاب کے اندر سے بہت اعتماد اور سکون سے کھا رہی تھی پھر ایک دم وہ بولی۔
تمہیں اچھا لگتا ہے میرا یوں نقاب لینا۔
وہ بے اختیار چونکا اور پھر اس نے تائید تو کر دی مگر وہ الجھ گیا تھا۔ کیا وہ نقاب اس کے لیے کرتی تھی۔ وہی شک کرنے کی پرانی عادت۔ وہ واقعتا قدرے بے یقین ہو گیا تھا۔ پھر بھی اس نے سوچا کہ جانے سے قبل حیا سے اس بارے میں ضرور بات کرے گا۔
جس دن اس کے نانا کی برسی تھی اس شام فاطمہ ممانی نے اسے لاؤنج میں روک لیا۔ وہ ذرا جلدی میں تھا مگر اتنا بھی نہیں کہ ان کی بات نہ سنتا۔ ابھی اس کی فلائٹ میں وقت تھا۔ ممی کو اس نے صبح ہی بتا دیا تھا اور حیا کو وہ بتا دے گا اگر ملاقات ہوئی تو۔ ورنہ ممی بتا دیں گی۔
کیا تم حیا کو سمجھا نہیں ںسکتے۔ فاطمہ ممانی بہت مان سے اس کو کہہ رہی تھیں کہ وہ حیا کو سمجھائے تا کہ وہ اپنی ضد چھوڑ دے۔ وہ تحمل سے سنتا گیا۔ حیا آ گئی تو ممانی چلی گئیں۔ دونوں کے درمیان ذرا تناؤ تھا۔ ان کے جانے بعد وہ کچھ سوچ کر حیا کے پاس آیا۔
اس وقت باہر بہت زور کی بارش ہو رہی تھی۔ اس برستی بارش کے دوران اس نے حیا سے جاننا چاہا آیا کہ وہ اس کے لیے اپنا نقاب چھوڑ سکتی ہے۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ وہ ایسا چاہتا ہے بس یہی کہا کہ اگر وہ ایسا کہے۔ مگر چند ہی لمحوں میں اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ اس کے لیے یہ سب نہیں کر رہی۔ اسے جہان کی مورل سپورٹ بھی درکار نہیں تھی۔ اس نے خود کو بہت مضبوط کر لیا تھا۔
اب مزید کیا پرکھنا۔ کوئی وضاحت، کوئی امید، کچھ بھی تھمائے بغیر وہ وہاں سے چلا آیا۔ اسے جانا تھا۔ اس کا کام اس کا انتظار کر رہا تھا۔
یہاں سے اسے پہلے استنبول جانا تھا۔ اگر وہاں کچھ کرنے کو نہ رہ گیا تو وہ وہیں چلا جائے گا جہاں کے بارے میں چند روز قبل وہ حیا کو بتا چکا تھا۔ وہ اس پاک اسپائی کی طرح کسی گمنام قبر میں دفن ہونا نہیں چاہتا تھا۔ اگر وہ واپس نہیں آتا تو کم از کم اس کی بیوی کو اتنا تو معلوم ہو کہ اس کی قبر کہاں ڈھونڈنی ہے