top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر اڑتیس

اس نے وہ چیز اٹھائی۔ ٹوٹی سرخ جوتی۔
اب عینک اور دوسرا جوتا ڈھونڈنا بے کار تھا۔ وہ سیدھی کھڑی ہوئی تاکہ واپس جا سکے۔ اب اسے پیچھےنہیں دیکھنا تھا۔ اپنےپرس کو پکڑا ہی تھا-دوسرے جوتے نکالنے کو ایک دم کہیں سے سورج نکل آیا۔
آنکھیں چندھیاتی روشنی۔
وہ تیزی سے واپس بیٹھی۔ کالی رات روشن ہو گئی تھی۔ جلتی بجھتی روشنی۔ اس نے ہراساں نگاہوں سے پلٹ کر دیکھا۔
سرحد پہ روشنی کے راونڈز فائیر کیے جا رہے تھے۔
اندھیرے میں ہر طرف روشنی بکھرتی، مدھم ہوتی پھر بکھرتی، سرحدی باڑ پہ ہیولے سے بھاگتے دکھائی دے رہے تھے۔
اس نے زمین پہ پڑے ایک بڑے پتھر کو خالی ہاتھ سے سختی سے تھام لیا۔ دل دھک دھک کر رہا تھا۔
روشنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فائرنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسپیکر پہ آوازیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بنا آواز کے چلائی۔
جہان واپس آ جاو، آنکھوں سے آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے تھے۔ جسم کپکپا رہا تھا۔
روشنی فواروں کی صورت بار بار پھوٹ رہی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ بھاگتی ہوئی سرحد پہ چلی جائے۔
مگر وہ تیسرا وعدہ، وہ پاوں کی زنجیر بن گیا۔ وہ ہر دفعہ اسے چھوڑ کر چلی جاتی تھی۔ پہلی دفعہ وہ اسے چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھی۔ مگر جہان کے وہ الفاظ اسے واپس بھیج رہے تھے۔
"حیا! کچھ بھی ہو جائے، کچھ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر ایک دم زور سے دھماکا ہوا۔
پتھر کو پکڑے، گٹھڑی کی صورت بیٹھی حیا کے آنسو رک گئے۔ اس نے ساکت نگاہوں سے سرحد کی جانب سے آتے دھویں کو دیکھا...روشنی..چیخ و پکار..سائرن..بارود کی بدبو..اور پھر دھویں کے بادل ہر طرف چھاتے گئے۔ سرحد چھپ گئی اور دھندلی دیوار ایک دفعہ پھر ان دونوں کے درمیان چھا گئی۔
کیا ہوا تھا..کیا پھٹا تھا..اسے نہیں معلوم تھا وہ مردہ قدموں سے کھڑی ہوئی۔ ایک ہاتھ سے پرس اور ٹوٹا جوتا لٹک رہا تھا دوسرا ہاتھ پہلو میں خالی گرا تھا۔
خالی ہاتھ... خالی دامن... اسے دو وعدے توڑ کر تیسرا نبھانا تھا اسے واپس جانا تھا۔
بادل گرج دار اواز سے ایک دم برسنے لگے۔
موٹی موٹی بوندیں ٹپ ٹپ گرنے لگیں۔ ترکی کی پہلی بارش میں بھی وہ ننگے پاوں ٹوٹے جوتے کیساتھ چل رہی تھی آخری بارش بھی وہ ننگے پاوں تھی۔
ممی جواہر تک گئیں ہیں۔ میں ان کا بیٹا بول رہا ہوں جہان! وہ ننگے پاوں کھردری زمین پہ چل رہی تھی۔ کانٹے چبھ کر تلووں کو زخمی کر رہے تھے وہ سامنے دیکھ رہی تھی مگر شاید کچھ بھی نہیں دیکھ رہی تھی۔
جوتے کو کیا ہوا؟ اتنی سردی میں ننگے پاوں بیٹھی ہو، لاو دکھاو جوتا!
تڑ تڑ گرتے قطرے اسے بھگو رہے تھے۔ بادلوں نے سارا بوجھ اتار کر زمین اور زمین والوں کو بوجھل کر دیا تھا۔
میں بکواس کر کے گیا تھا نا مگر میری کوئی سنتا ہے، اس گھر میں دو دن نہ آوں تو سارا نظام الٹ جاتا ہے۔
اسکے پاوں سے خون نکل رہا تھا جسم میں جان نہیں رہی تھی۔
لگتا تھا ابھی لڑکھڑا کر گر پڑے گی اور گری تو اٹھ نہ سکے گی۔
انسان وہی چیز مانگتا ہے جس کی اسے کمی لگتی ہے سو، میں ہمیشہ زندگی مانگتا ہوں۔
اس کے ہاتھ میں اس کا صرف ایک جوتا تھا دوسرا وہی زیتون کے درخت کے آس پاس رہ گیا تھا۔
جب آدھی رات کے بعد حقیقت اپنا نقاب اتار کر پھینکتی ہے تو ہر سنڈریلا کو اپنا جوتا اسی مقام پہ چھوڑ کر واپس ہونا ہوتا ہے۔ اسے بھی جانا تھا۔
"ہینڈسم گائیڈ ابھی مصروف ہے کسی غیر ہینڈسم گائیڈ سے رابطہ کرو۔"
وہ بارش کے قطرے تھے یا آنسو، جو اس کے چہرے کو بھگو چکے تھے۔ دفعتا اس کا پیر رپٹا وہ اوندھے منہ زمین پہ گری۔ ہتھیلیاں چھل گئی، چہرے پہ مٹی لگ گئی۔ برستی بارش، سیاہ رات۔
بعض دفعہ قسمت ہرا دیا کرتی ہے حیا! ڈی جے کی ڈیتھ ہو گئی ہے۔
وہ اٹھنا چاہتی تھی اٹھ نہ سکی۔ وہیں جھکی بیٹھی سسکیوں کے ساتھ روئے گئی۔ کیچڑ، بارش، آنسو سب کچھ گڈمڈ ہو رہا تھا۔
فرقان ماموں کی فیملی سے ڈر لگتا ہے کیونکہ وہ سرخ مرچ کا استعمال کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں۔
بمشکل ہتھیلی کے بل زور لگا کر وہ اٹھ پائی۔ پاوں لہولہان ہو چکے تھے۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے موسلا دھار بارش میں پھر سے چلنے لگی۔
میں نے کہا تھا نا کہ زندگی میں اگر کوئی آپ کو جنت کے پتے لا کر دے تو اسے تھام لیجئیے گا وہ آپ کو رسوا نہیں ہونے دیں گے۔ گرتے پڑتے وہ کار کے قریب آئی دروازہ کھولا اور پھر اس کا سہارا لیکر خود کو سنبھالنا چاہا۔
جب اپنا چہرا چھپانے کیلئے میگزین سامنے کرتے ہیں تو اسے الٹا نہیں پکڑتے۔
اسٹیرنگ وہیل تھامے اس نے شیشے کے اس پار دیکھا۔ ہر سو دھند تھی جو ان کی زندگیوں سے چھٹتی ہی نہیں تھی۔
اگر جادوگر اپنے ٹرک کے فورا بعد ہی راز بتا دے تو کیا فائدہ؟
ہر شے سلو موشن میں ہو رہی تھی۔ ساری آوازیں بند تھیں۔ بس حرکت دکھائی دے رہی تھی۔
اس نے خود کو مریم خانم کے درواذے پہ دیکھا۔ بارش اسی طرح برس رہی تھی مگر اس کی سماعت بند ہو چکی تھی۔
"اچھا تم نے پاشا بے کے اوپر کافی الٹ دی تھی؟ گڈ! ویری گڈ!"
مریم خانم اسے سہارا دے کر بستر پہ لٹا رہیں تھیں۔ اس کے گرد ساری دنیا گول گول گھوم رہی تھی۔
"آپنی جگہ کبھی نہیں چھوڑتے حیا۔ ہوٹل گرینڈ کی مثال یاد رکھو۔"
وہ بستر پہ لیٹی تھی، آنکھوں سے بے آواز آنسو بہہ رہے تھے۔ پائینتی کی طرف بیٹھی مریم خانم اس کے پیروں پہ دوا لگا رہیں تھیں۔ اسے درد نہیں ہو رہا تھا ساری حسیات ختم ہو گئی تھیں۔
بلکل بھی مدد نہیں کروں گا۔ جو کرنا ہے اکیلے کرو، خود کرو، کیونکہ تم کر سکتی ہو۔
وہ اپنا ٹرالی بیگ گھسیٹتی ریلوے اسٹیشن پہ چل رہی تھی۔ دونوں پیر پٹیوں میں بندھے ہوئے تھے۔ قدم اٹھاتی کہیں اور تھی اور پڑتا کہیں اور تھا۔
لگتا ہے سب مجھ سے تنگ آ گئے ہیں، جو بار بار جانے کا پوچھتے ہیں۔ دل کرتا ہے ماہ سن کی طرح کبوتر بن کر کسی غار میں چھپ جاوں۔
ٹرین تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔ وہ کھڑکی کی طرف بیٹھی بھیگی سرخ آنکھوں سے باہر بھاگتے مناظر دیکھ رہی تھی۔ زیتون کے درخت پیچھے رہ گئے تھے۔ شیشے دھندلا گئے تھے یا اس کی آنکھوں میں دھند تھی اب تو سارے فرق ختم ہو گئے تھے۔
"میرا نام جہان سکندر ہے, میجر جہان سکندر احمد!"
سبانجی کا سبزہ زار بھی اسی کہر میں ڈوبا ہوا تھا۔ ہر سو دھند تھی، کوئی آواز، کوئی شور نہیں۔ اس نے خود کو فیکلٹی ہاؤس کا دروازہ بجاتے دیکھا تھا۔
شش چیخنا نہیں ورنہ آواز باہر جائے گی اور یہ ساری فیملی بھاگتے ہوئے آ جائے گی۔
اندر سے نکلتی فربہہ مائل لڑکی اس کی طرف دیکھ کر پریشانی سے اس کی جانب بڑھی تھی۔ وہ کیا کہہ رہی تھی حیا سن نہیں پا رہی تھی۔ بس اسے اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی سنائی دی۔ "میرا سامان پیک کروا دیں انجم باجی!"
اچھا! تمہیں نہیں پتا تھا میں کپادوکیہ میں ہوں؟
ہالے اس کے بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھی۔ انجم باجی اس کے جوتے رکھ رہیں تھیں۔ وہ بس ساکت سی صوفے پہ بیٹھی سر جھکائے بے آواز رو رہی تھی۔
تھوڑی سی کاٹن لا دو فارمیسی سے، کان میں ڈالنی ہے۔
اپنے ٹرالی بیگ کو ہینڈل سے گھسٹتی وہ اتاترک ہوالانی (ایرپورٹ) کے دروازے سے اندر داخل ہو رہی تھی۔ بے جان قدم بے سوچ نگاہیں۔
پتا ہے حیا! تم کب اچھی لگتی ہو؟ جب تم خاموش رہتی ہو۔
وہ سناشا سا لڑکا تیزی سے اس کی طرف آیا تھا۔ وہ اس کو پہچانتی تھی مگر سمجھ نا پا رہی تھی۔ وہ بول رہا تھا کچھ۔
عبدالرحمن بھائی نے کیا تھا کہ آپ سے مل لوں کہیں آپ کو کچھ مدد کی ضرورت نا ہو۔ آپ بہارے گل کو لے کر چلی گئیں میں بہت پریشان تھا۔ یہ ممی نے بھجوائے ہیں آپ کے لیے۔ وہ کوئی پیکٹ اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔ 
میری لغت میں دو بجے کا مطلب ہوتا ہے ایک بج کر پچپن منٹ۔
آفیسر اس کو لیپ ٹاپ ہینڈ کیری میں اٹھانے کا کہہ رہی تھی۔ اس نے خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھتے لیپ ٹاپ بیگ اٹھا لیا۔ اب کسی چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
مجھے کچھ بھی ہو جائے مر جاؤں گرفتار ہو جاؤں جو بھی ہو تم واپس گاڑی تک جاؤ گی بس!
جہاز کی کھڑکی سے نیچے بہت دور باسفورس کا سمندر نظر آ رہا تھا۔ نیلی چادر سفید جھاگ اور ان سب پہ چھائی دھند۔ پھر پھی اس نے آنسو نہیں پونچھے۔ وہ ترکی سے ہمیشہ روتے ہوئے جاتی تھی۔ اسے اس دفعہ بھی روتے ہوئے جانا تھا۔
مگر کون جانے،
کہ اس دفعہ کا غم،
سب سے بڑا تھا۔
•••••••••••••••••••••••••
وہ آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹی تھی۔ دفعتا دروازے پہ دستک ہوئی۔ اس نے آنکھوں سے بازو ہٹایا۔ اسی طرح لیٹی رہی۔ دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور پھر چلتے قدم۔ آنے والے نے آگے بڑھ کر کھڑکی کے پردے ہٹائے۔ اسے بند آنکھوں سے بھی سورج کی روشنی چھن کر خود پہ پڑتی محسوس ہوئی تھی۔
حیا اٹھ جاؤ بیٹا! طبیعت کیسی ہے؟ اس نے سبین پھپھو کی آواز سنی اور پھر بیڈ کی پائینتی کے پاس دباؤ محسوس ہوا جیسے وہ ادھر بیٹھ گئی تھیں۔
بخار اترا تمھارا؟ انھوں نے جھک کر اس کے ماتھے کو چھوا۔ حیا نے بازو آنکھوں سے ہٹایا اور خالی خالی نگاہوں سے ان کو دیکھا۔
شانوں پہ ڈوپٹا لیے بال کیچر میں باندھے وہ ویسی تھیں۔ پرسکون صابر ٹھنڈی۔
میں ٹھیک ہوں۔ وہ کہنی کے بل ذرا سی اٹھی۔ نقاہت پژمردگی۔ جیسے جسم میں جان ہی نہ رہی تھی۔
اور یہ تمھارے پاؤں کو کیا ہوا ہے۔ نتاشا کہہ رہی تھی کہ نئی بینڈیج لا رہی ہے۔ یہ بینڈیج تو بالکل خراب ہو گئی ہے۔ انھوں نے ہولے سے اس کے پیر کے انگوٹھے کو چھو کر کہا جس پہ لگی پٹی اب پرانی اور خستہ ہوچکی تھی۔ حیا تکیے کے سہارے بیٹھی انہیں دیکھتی رہی۔
جہان تمھارے ساتھ تھاَ؟ انہوں نے نرمی سے پوچھا۔ جب سے وہ آئی تھی، اتنی بیمار ہو گئی تھی کہ پھپھو سے باقاعدہ بات اب ہو پا رہی تھی۔
اس نے گردن اثبات میں ہلائی۔ گلے میں آنسوؤں کا پھندا پڑنے لگا تھا۔
پھر؟
اور اس پھر کے آگے سارے خواب ختم ہو جاتے تھے۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
میں نہیں جانتی پھپھو! ہم ساتھ تھے۔ وہ کہنے لگی تو آواز بہت بوجھل تھی۔ اس رات آسمان پہ بادل تھے اور چاند نہیں تھا تارے بھی نہیں تھے۔ وہ آگے جا رہا تھا۔ میں نے اسے روکنا چاہا۔ منع بھی کیا مگر اس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے میری نہیں مانی۔ وہ چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رکی اور پلک جھپکی تو آنسو رخسار پہ لڑھکنے لگے۔
پھر پتا نہیں کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر وہ واپس نہیں آیا۔ 
کمرے میں چند لمحوں کے لیے بوجھل سی خاموشی رہی۔ پھپھو کے چہرے پہ وہی سکون 'وہی ٹھہراؤ تھا۔ کیا اسے اسی وقت واپس آنا تھا؟ 
نہیں اس نے کہا تھا کہ آنے والے منگل کو وہ آ جائے گا۔ 
تو ابھی منگل آنے میں کچھ دن ہیں نا' وہ آجائے گا' تم فکر کیوں کر رہی ہوں؟ 
حیا نے نفی میں سر ہلایا۔ 
وہ نہیں آئے گا۔ وہ مشکل میں ہے۔ میں نہیں جانتی وہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔ مگر وہ مشکل میں ہے۔ شاید زخمی ہو، شاید گرفتار ہو اور شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے فقرہ ٹوٹ گیا۔ دل بھی ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔ 
اگر اس نے کہا تھا کہ وہ آئے گا تو وہ ضرور آئے گا۔ مجھے پورا یقین ہے۔ انہوں نے جیسے دلاسا دیتے ہوئے اس کے ہاتھ کی پشت کو تھپکا۔ وہ بھیگی نگاہوں سے ان کا پرسکون چہرہ دیکھتی رہی۔ 
میں سمجھی تھی کہ آپ میں اور مجھ میں بہت فرق ہے پھپھو! آپ صبر سے انتظار کرنے والی عورت ہیں۔ مگر میں چیزیں اپنے ہاتھ میں لے کر جہان کے ساتھ چلنے والی عورت ہوں۔ لیکن اب مجھے لگتا ہے کہ تکلیف ہم دونوں کے حصے میں برابر آئے گی۔ آپ ظاہر نہیں کرتی اور میں چھپا نہیں سکتی۔ بس یہی فرق ہے۔ 
بے یقین نہ ہو بیٹا! اللّٰہ سے اچھا گمان رکھو، اچھا ہی ہوگا۔ انہوں نے نرمی سے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔ وہ سر بھی نہ ہلا سکی۔ عجیب بے یقینی سی بے یقینی تھی۔ 
دروزہ ذرا سی دستک کے ساتھ کھلا۔ پھوپھو اور حیا نے ایک ساتھ اس سمت دیکھا۔ نتاشا دروازے میں کھڑی تھی۔ حیا بدقت پھیکا سا مسکرائی اور آنسو ہتھیلی کی پشت سے صاف کیے۔
حیا کیا تم اٹھ گئی ہو؟ میں تمہارے لیے بینڈیج لائی تھی۔ وہ خراب ہو چکا ہے اسے اتار دیتے ہیں۔ نتاشا رسان سے انگریزی میں کہتی ہوئی اندر آئی اور چھوٹا سا بکس بیڈ پہ حیا کے پیرں کے پاس رکھا۔ پھپھو اس کو جگہ دینے کے لیے اٹھ گئی تو وہ وہیں پھوپھو کی جگہ پہ بیٹھ گئی۔
ہوا کیا تھا حیا پیر پہ؟ وہ اب حیا کی ایڑھی سے بینڈیج اتارتے ہوئے بولی تھی۔ لہجہ نہ زیادہ متفکر تھا نا سرد۔ پتہ نہیں وہ اسے اچھی لگتی تھی یا بری۔ ویسے تو بے ضرر سی ہی تھی البتہ اس کا لباس۔ اللہ اللہ۔ اس ساری پریشانی میں بھی حیا کے ذہن میں آیا تھا کہ یہ اس طرح سلیولیس ٹاپ اور کیپری میں گھر میں گھومتی ہو گی اور روحیل اور ابا کو کوئی فرق نہیں پڑتا؟
کیا ہوا تھا حیا پیر پہ؟ نتاشا نے دوا لگاتے ہوئے دوبارہ پوچھا تو وہ چونکی۔
کانچ پتھر زمین پہ بہت کچھ گرا تھا اور میں انہی کے اوپر چلتی رہی۔
بہت بد احتیاطی ہے ویسے یہ۔ اوکے میں اسے بینڈیج کر رہی ہوں۔ بہت جلدی ٹھیک ہو جائے گا زیادہ گہرے نہیں ہیں۔
وہ اب مصروف انداز میں کہتی پٹی باندھ رہی تھی۔ دفعتا آسمانوں پہ اذان کی آواز گونجنے لگی۔ پھوپھو جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اس نے انہیں نہیں روکا۔ اس کے پاس روکنے کے لیے کوئی جواز نہ تھا۔
•••••••••••••••••
لاؤنچ سے باتوں کا شور کمرے تک سنائی دے رہا تھا۔ ثنا اور سحرش اپنی امی کے ساتھ آئی تھیں اور حسب معمول ان کی آمد پہ ارم اور سونیا بھی چلی آئی تھیں۔ وہ ابھی تک کمرے میں ہی تھی۔ ان سے نہیں ملی تھی۔ اماں دروازے پہ دو دفعہ آ کر باہر آنے کا کہہ چکی تھیں۔ 
اب تو بخار بھی اتر گیا ہے باہر آجاؤ۔ وہ کب سے آئی ہوئی ہیں اچھا نہیں لگتا۔ اور پھر بھی وہ بنا کچھ کہے بیٹھی رہی۔ دل ہی نہیں چاہ رہا تھا کسی سے ملنے کو۔ پھر کافی دیر بعد اٹھی اور اپنا بیگ کھولا تا کہ کوئی جوڑا نکالے۔ ابھی پہنا لباس ملگجا سا ہو رہا تھا۔ گرے شلوار قمیض اور ساتھ پتا نہیں کس جوڑے کا گلابی ڈوپٹہ پہنے بہت بکھرے بکھرے حلیے میں وہ بیمار سی لگ رہی تھی۔ بیگ کھول کر ڈھکن اٹھایا تو سامنے کپڑوں پہ گفٹ پیک میں ملفوف ایک پیکٹ رکھا تھا۔
اس نے وہ پیکٹ اٹھایا۔ کچھ مدھم مدھم سا یاد تھا کہ سفیر نے جاتے ہوئے یہ اس کے حوالے کیا تھا شاید حلیمہ آنٹی نے دیا تھا۔ اس نے ریپر پھاڑا اندر بہت خوبصورت سفید ان سلی سلک کا کپڑا تھا۔ ساتھ میں ایک چھوٹا سا کارڈ بھی لگا تھا۔ اس نے کارڈ اٹھایا۔
حیا کے لیے بہت دعاؤں کے ساتھ۔ تم ہمیشہ پوچھنا چاہتی تھی کہ تمہارے ساتھ فلائیٹ میں عثمان نے سامنے بیٹھی ترک عورت سے کیا کہا تھا تا کہ وہ تم سے فرینک نہ ہو سکے۔ تو میں تمہیں بتائے دیتی ہوں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم ایک نے ایک ایسی ڈش کا آرڈر دیا جس میں انڈین سٹائل کی تلی ہوئی پیاز بھی شامل ہے۔ اور بات یہ ہے کہ حیا تک عورتوں کو تلی ہوئی پیاز سے سخت الرجی ہے لیکن آف کورس وہ صرف اس لیے ایسا کرنا چاہ رہے تھے کہ کہیں اجنبی سے بے تکلفی سے تمہیں نقصان نہ ہو۔ ہم اپنے دوستوں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔!
فقط حلیمہ اور عثمان۔
اس کے چہرے پہ افسرہ سی مسکراہٹ امڈ آئی۔ کچھ باتیں ادھوری بھی رہ جائیں تب بھی ان کی تشنگی نہیں ہوتی۔ جیسے ڈی جے کو گڈ مارننگ ڈی جے کہنے والا لڑکا اسے نہیں ملا تھا۔ وہ کون تھا وہ کبھی بھی نہیں جان پائے گی۔ اور کون جانے کہ اس کو خود بھی پتا تھا یا نہیں کہ ڈی جے اس دنیا سے چلی گئی ہے۔
کون جانے!!!
اس نے بیگ سے کپڑے ادھر ادھر کیے۔ آگے پیچھے ہر جگہ دیکھا۔ پھر دوسرا بیگ کھولا۔ اس کا ونڈ چائم کہیں نہیں تھا۔ پتہ نہیں وہ اسے کہاں بھول آئی تھی۔ دل اتنا خراب ہوا اس بات سے کہ وہ لباس بدلے بغیر بال کیچر میں باندھے باہر آ گئی۔
مطلب حد ہو گئی۔ ایک دم سے ہمیں اتنی سنا دیں رضا بھائی نے۔ ہمارا کیا قصور؟ اور وہ فائزہ وغیرہ ان کو بھی تو دھیان رکھنا چاہیے تھا نا۔
ثنا لاؤنج میں بیٹھی زور و شور اور خفگی سے کہہ رہی تھی۔ حیا کو آتے دیکھ کر بات روک کر جلدی سے اٹھی۔ حیا آپا کدھر ہیں آپ۔ سب کہ ہرہے تھے کہ آپ آتے ساتھ ہی بیمار پڑ گئی ہیں۔ وہ بڑے تپاک سے اس کے گلے لگی۔ حیا زبردستی ذرا س مسکرائی۔ سونیا بھی اچھے سے ملی۔ باقی سحرش اور ارم تو اپنے اپنے موڈ میں تھیں مگر اسے کہاں پراہ تھی۔ نتاشا اپنے مصروف انداز میں بے نیاز سی صوفے پہ بیٹھی میگزین کے ورق پلٹ رہی تھی۔
تو پھر کیا تم نے فائزہ سے شکایت کی؟ وہ سب بیٹھ گئیں تو سونیا بھابھی نے ثنا کو تفکر سے دیکھتے ہوئے سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا۔ 
ہاں آج جا کر فون کروں گی۔ حد ہے۔ پھر حیا کو دیکھ کر ثنا وضاحت کرنے لگی۔ فائزہ باجی نے پتا ہے کیا کیا؟
کیا۔ حیا نے اسی کے انداز میں دوہرایا۔ اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ فائزہ ارسل کی بہن تھی اور ارسل وہ تھا جس کے ولیمے کی رات تایا ابا نے اس کی بے عزتی کی تھی۔
فائزہ باجی نے ارسل بھائی کے ولیمے کی تصویریں فیس بک پہ لگا دیں۔ چلو اپنی لگاتی تھی خیر تھی۔ مگر ہماری ٹیبل کی بھی تین تصویریں البم میں لگا دیں اور پرائیویسی پبلک رکھ دی۔ رضا بھائی نے دیکھا اور پھر ہمیں سنانے لگے۔ اب فائزہ باجی سے پوچھو کہاں کے ایتھیکس ہیں یہ کسی اور کی تصویریں لگا دو؟
وہ بس خاموشی سے ثنا کو دیکھے گئی۔ اس کا ذہن کیلیس کی سرحد سے آگے نہیں بڑھا تھا۔
آپ کی تصویر بھی تھی۔

آپ کی تصویر بھی تھی۔ ثنا نے یاد کر کے بتایا۔ اس پر وہ ذرا سی چونکی۔
مگر آپ کی تو خیر ہے، آپ نے تو لپیٹ کر دوپٹا لیا ہوا تھا ناں۔ پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ کون ہے۔ مگر میری تو اچھی خاصی کلاس لے لی بھائی نے۔ وہ سخت رنجیدہ ہو رہی تھی، غالباً ان کے گھر آتے ہوئے ہی رضا سے اس کا ٹاکرا ہوا تھا۔
ہاں حیا کا دوپٹا نا ہوا سلیمانی چغہ ہو گیا۔ ارم ذرا سا ہنسی۔ حیا نے نگاہ پھیر کر اسے دیکھا۔ وہ ہاتھ میں پکڑی شیشے کی پلیٹ پہ رکھی اسٹرابیری کو کانٹے میں پھنسا رہی تھی۔ پھر کانٹا منہ میں لے جاتے ہوئے اس نے حیا کو دیکھا۔ حیا کی نگاہوں میں کچھ ایسا تھا۔ ارم بے اختیار دوسری طرف دیکھنے لگی۔
ایک تو پتا نہیں ہمارے بھائیوں کو دوستوں کا اتنا خوف کیوں ہوتا ہے۔ ایسے ہم سارے زمانے میں بغیر ڈوپٹے کے گھومتے رہیں تب کچھ نہیں ہوتا لیکن اگر بھائی کی یونیورسٹی کے سامنے سے کار میں بھی گزرو تو بس۔ ہاتھ اندر کرو سر پہ ڈوپٹہ لو میرا کوئی دوست گزر رہا ہو تو دیکھنا مت۔ اف۔ ثنا رضا کی نقل کرتے ہوئے بولی تو سحرش ہنس دی۔ ارم فقط مسکرائی پھر اس نے حیا کو دیکھا۔ وہ ابھی تک خاموش مگر گہری نظروں سے ارم کو دیکھ رہی تھی۔ ارم ذرا جزبز ہو کر دوبارہ ثنا کو دیکھنے لگی۔
جہان نہیں آیا تمہارے ساتھ حیا؟ سحرش نے بات کا رخ پھیرا تو حیا نے نگاہیں اس کی طرف پھیریں۔ پھر ہلکا سا نفی میں سر ہلایا۔ نہیں۔ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔
اچھا تم تو کہہ رہی تھیں کہ وہ تمہارے ساتھ آئے گا۔ معصوم سا سوال تھا مگر اسے بہت زور سے چبھا۔ سونیا نے بےچینی سے پہلو بدلا۔ اسے یقیناً سحرش کا لہجہ اچھا نہیں لگا تھا۔
کہا تھا مگر ایسا ہو نہیں سکا۔ اس نے فقط یہی کہا۔ کوئی صفائی نہیں، کوئی دلیل نہیں، کوئی منہ توڑ جواب نہیں۔ اب تو کسی بات کا نہیں چاہتا تھا۔
اچھا! سحرش نے ذرا سے شانے اچکاتے ہوئے آگے ہو کر ایک اور اسٹرابری اٹھائی۔ حیا نے سرخ پھلوں سے بھرے ہوئے پیالے کو دیکھا۔ سرخ رسیلا پھل۔ سرخ جوتے۔ بیسن کے کنارے پہ لگا خون کا سرخ قطرہ۔
اس کا دل بھر آیا تھا۔ وہ ایک دم اٹھی اور تیزی سے کمرے کی طرف گئی۔
سب نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔
نتاشا اسی طرح بےنیاز سی میگزین کے صفحے پلٹ رہی تھی۔
•••••••••••••••••••••
حیا باجی آپ کا فون ہے ۔ وہ اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ کھولے عائشے کو میل لکھ رہی تھی۔ جب نور بانو نے دروازے سے جھانک کر صدا لگائی۔ وہ اچھا کہہ کر سینڈ کا بٹن دبا کر اٹھی اور باہر آئی۔ زندگی میں ناامیدی اتنی بڑھ گئی تھی کہ فون کی گھنٹی پہ بھی چونکنا چھوڑ دیا تھا۔ میجر احمد اسے کبھی بھی لینڈ لائن پہ کال نہیں کیا کرتا تھا۔ سو اسے دلچسپی نہ تھی کہ کس کا فون ہے۔ 
ہیلو؟ اس نے کریڈل کے پاس رکھا الٹا ریسیور اٹھا کر کان سے لگایا۔ 
بہت شکریہ میری بات سننے اور سمجھنے کا۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے عقلمندی کا ثبوت دیا۔ ولید کی مسکراتی آواز۔ اسے لگتا تھا کہ سارے احساس مر گئے ہیں مگر ایک ابال سا اندر سے اٹھا تھا۔ ہاں ابھی کچھ دل میں زندہ تھا۔ 
جو بھی کہنا ہے، صاف کہو۔ وہ دبے لہجے میں غرائی۔ 
میرے خلاف وہ کیس واپس لے کر تم نے ثابت کر دیا ہے کہ آپ ایک عقلمند خاتون ہیں۔ لمحے بھر کو اس کے عصاب مفلوج سے ہو گئے۔ کیس واپس؟ اس نے تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کس نے؟ 
میں نے تمہارے خلاف کوئی کیس واپس نہیں لیا۔ 
میں جانتا ہوں کہ آپ کے دباؤ پہ ہی یہ ہوا ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ نے یہ کیوں کیا ہے۔ یہ کال آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کی تھی اور یہ پوچھنے کے لیے بھی کہ پھر ہم کب مل رہے ہیں؟ وہ جیسے بہت مسرور اور مطمئن تھا۔ 
اس کے اندر جوار بھاٹا پکنے لگا۔ بمشکل اس نے ضبط کیا۔ میں فون رکھ رہی ہوں۔
کل دوپہر ایک بجے میں جناح سپر والے پزاہٹ پہ آپ کا انتظار کروں گا۔ ضرور آئیےگا۔ مجھےکچھ اہم باتیں کرنی ہیں۔ کیونکہ ابھی وہ آرکیٹیکٹ والا مسئلہ حل نہیں ہوا۔
اچھا۔ اور تمہیں لگتا ہے میں آجاؤں گی۔ وہ اور ہوتی ہیں کمزور لڑکیاں جو تم جیسوں سے ڈر جاتی ہیں۔ مائی فٹ۔ اتنا غصہ آیا تھا کہ دل چاہا یہ فون دیوار پہ دے مارے۔
آپ کو آنا ہو گا۔ یاد رکھیں وہ ویڈیو میرے پاس ہے۔ اگر آپ نہیں آئیں تو میں آپ کے گھر آ کر وہ ویڈیو آپ کے ہاں ٹی وی پہ چلا کر دکھاؤں گا اور یہ میرا وعدہ ہے۔ اس کے لہجے کی سفاکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا کا دل لرز کر رہ گیا مگر جب بولی تو آواز مضبوط تھی۔
تو پھر تم کر گزرو جو تم کرنا چاہتے ہو۔ ایسا سوچنا بھی مت کہ میں تم سے یوں ملنے چلی آؤں گی۔ جہنم میں جاؤ تم۔
اس نے فون زور سے کریڈل پر پٹخا۔ پھر تیزی سے مڑ کر ابا کے کمرے کی طرف گئی۔وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ٹائی کی ناٹ صیحح کر رہے تھے۔ آفس جانے کے لئے بالکل تیار۔
ابا کیا آپ نے ولید کے خلاف کیس واپس لے لیا؟ وہ پریشانی سے کہتی بنا اجازت اندر آئی تھی۔ سلیمان صاحب نے چونک کر اسے دیکھا اور پھر واپس شیشے کے سامنے ہو کر ٹائی کی ناٹ ٹھیک کرنے لگے۔
ہاں واپس لے لیا۔
مگر کیوں؟ وہ صدمے سے بولی۔
پہلی بات یہ کہ وہ بہت ہی کمزور کیس تھا۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے پاس کوئی خاص گواہ نہیں ہے اور تیسری بات اس کی گاڑی سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔ فرقان بھائی کو چوٹ گرنے سے آئی۔ اس لیے اس کیس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ وہ اب پرفیوم اٹھا کر خود پر اسپرے کر رہے تھے۔
مگر! ابا آپ جانتے ہیں اس نے مجھے ٹکر مارنے کی کوشش کی تھی۔
حیا میں اسے اس طرح نہیں چھوڑوں گا۔ آرکیٹیکٹ کے ساتھ مل کر اس نے جو بےایمانی کی ہے اس پر میں اسے آڑے ہاتھوں لوں گا۔تھوڑا انتظار تو کرو۔ لیکن ابا کی بات کے برعکس ان کا لہجہ غیر سنجیدہ تھا۔ وہ مزید سنے بغیر بھاگتی ہوئی باہر آئی ۔چند لمحوں بعد وہ تایا فرقان کے گھر تھی۔
تایا ابا اور صائمہ تائی ڈائننگ روم میں اکیلے ناشتا کر رہے تھے۔ لڑکے کام پر تھے۔ سونیا اور ارم بھی ساتھ نہیں تھیں۔
تایا ابا۔ وہ پریشانی سے ان کے پاس آئی۔
آؤ حیا! طبیعت کیسی ہے؟ وہ ہموار لہجے میں بولے، ساتھ ہی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ پہلے جیسی محبتیں نہ سہی مگر پچھلے کچھ عرصے والی رکھائی بھی نہیں تھی۔درمیانہ سا انداز۔
تایاابا! آپ لوگوں نے ولید کے خلاف کیس کیوں واپس لے لیا؟ وہ بےچینی سے وہیں کھڑے کھڑے بولی۔ صائمہ تائی اس کے لہجے پر بےاختیار پلٹ کر اسے دیکھنے لگیں۔
میں نے نہیں لیا تمہارے ابا نے لیا ہے۔ اور وہ اتنے غلط بھی نہیں ہیں۔ کیس کمزور ہے۔ وقت اور پیسے ضائع کرنے کا فائدہ ؟
مگر اس طرح تو وہ اور شیر ہو جائے گا۔ وہ سمجھے گا کہ ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیا! ہم سب ٹھیک ہیں۔ چوٹ مجھے لگی تھی۔ جب میں سمجھوتا کرنے پر تیار ہوں تو پھر؟ تایا ابا بھی شاید ولید کے خلاف کسی سخت کاروائی کے حق میں نہیں تھے۔ کاروباری سیاستیں۔ اف۔
اور آرکیٹیکٹ والا کیس؟ 
دیکھو ہم اس کو کھلم کھلا تو ڈیل نہیں کر سکتے۔ کمپنی کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مگر تمہارے ابا اس سے ضرور نبٹیں گے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تم فکر نہ کرو۔
وہ جانتی تھی کہ اس سے اب کوئی نہیں نبٹے گا۔ وہ صرف اس کو آرکیٹیکٹ والے کیس کا ڈراوا دے رہے تھے تا کہ اس کو سیدھا کر کے رکھ سکیں۔ شطرنج۔ بساط۔ سیاست۔
آپ نہیں سمجھیں گے۔ اس نے تاسف سے نفی میں سر جھٹکا۔
حیا! جہان نہیں آیا؟ صائمہ تائی نے ان کی گفتگو کو اختتام پزیر ہوتے دیکھا تو رہ نا سکیں۔
اللہ اللہ۔ پھر وہی سوال؟ اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔
وہ نہیں آ سکا تائی! آواز بھی دھیمی پڑ گئی۔
تو کب آئے گا۔ تمھارے ابا اور اماں تو چاہ رہے تھے کہ تمھارا نکاح بھی روحیل کے ولیمے کے ساتھ اناؤنس کریں۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تائی نے ہنکارہ بھر کر بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ نامکمل معنی اخذ کیے بغیر پلٹ آئی۔ تایا ابا اس وقت اخبار کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔
ہر کوئی پوچھتا تھا کہ وہ نہیں آیا کوئی یہ کیوں نہیں پوچھتا تھا کہ وہ کیوں نہیں آیا۔ سب اپنے مفاد کی بات پوچھتے تھے۔ جہان کی تو کسی کو فکر نہ تھی۔
•••••••••••••••••••••
اس کی میل پر عائشے کا جواب آ گیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ شام میں آن لائن ہو گی، تب وہ دونوں بات کریں گی۔ وہ عائشے سے کیا بات کرنا چاہتی تھی وہ نہیں جانتی تھی بس وہ اپنا دکھ اور اضطراب کسی سے بانٹنا چاہتی تھی۔ کسی سپاہی کی بیوی ہو کر دنوں، ہفتوں، مہینوں اس کا صبر سے انتظار کرنا کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے وہ اب جان پائی تھی۔
کیسی ہو؟ اسکرین پر عائشے کا شفاف، خوبصورت چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اسکرین کے سامنے ریوالونگ چئیر پر بیٹھی تھی اور بات کرتے ہوئے وہ شیشے کی ننھی پیالی سے ترک چائے کے گھونٹ بھر رہی تھی۔ 
مجھے نہیں پتا میں کیسی ہوں؟ وہ اداسی سے بولی تھی۔ ملگجے لباس بندھے بالوں میں حیا بہت کمزور اور افسردہ دکھائی دے رہی تھی۔
کیا ہمارا اناطولیہ اچھا نہیں لگا؟ عائشے نے حیرت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ پیالی سائیڈ پہ رکھی۔ 
کپادوکیہ، وسطی اناطولیہ میں واقع تھا۔ 
نہیں بہت اچھا لگا۔ وہ پھیکا سا مسکرائی۔ 
بہارے بتا رہی تم لوگ انقرہ بھی گئے تھے۔ کیا اس کے جانے کے بعد تم نے انقرہ دیکھا یا واپس آ گئیں؟
میں کیلیس چلی گئی تھی۔ اس کے لبوں سے پھسلا۔
چائے کی پیالی اٹھاتی عائشے گل چونکی تھی۔
اچھا؟ کس دن گئیں تھی تم کیلیس؟
اتور کو گئی تھی۔ منگل کی دوپہر واپس آ گئی۔ اب چھپانے کا کیا فائدہ تھا۔ عائشے چند لمحوں کے لئے سوچتی رہی تھی۔ پیالی اس کے ہاتھ میں تھی لیکن وہ اسے لبوں تک لے جانا بھول گئی تھی۔ 
کیا بارڈر وہاں سے قریب پڑتا ہے؟
ہاں! بہت قریب! اس کے نگاہوں کے سامنے پھر وہی رات گھوم گئی۔ وہ خوفناک برستی بارش والی رات۔
تو کیا بارڈر کی ساری خبریں کیلیس میں لوگوں کو مل جایا کرتی ہیں؟
کس قسم کی خبریں عائشے؟ اس نے اچنبھے سے اسکرین کو دیکھا۔
مطلب جو لوگ ان لیگل بارڈر کراس کرتے ہیں ان کی گرفتاری کی خبریں۔ کیا منگل کی صبح تم نے ایسی خبر سنی تھی؟ وہ بہت سوچ سوچ کر بول رہی تھی۔ اور لمحے بھر کے لئے حیا کو لگا، اس کا سانس رک گیا ہے۔
وہ اپنی بہن کی جاسوس ہے، ساری باتیں اس کو بتاتی ہو گی۔
تمہارا موبائل تمہارے پاس تھا بہارے؟
کیا تم لوگ کیلیس جاؤ گے؟ عبدالرحمن کیلیس کا نام لے رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
حیا عائشے نے اس کو پکارا وہ چونکی۔ کڑیاں سے کڑیاں ملائیں تو ذہن میں عجیب سا خیال ابھرا۔ نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ عائشے پولیس کو کیوں بتائے گی؟ مگر پھر وہ بارڈر پہ گرفتاری کے بارے میں سننے میں اتنی دلچسپی کیوں رکھتی تھی؟
ہاں پیر اور منگل کی درمیانی رات وہ بارڈر کراس کر رہا تھا عائشے! مگر سکیورٹی اہلکار اس کے انتظار میں تھے۔ وہ گرفتار ہوا یا مارا گیا، یہ میں نہیں جانتی۔ مگر میں اتنا جانتی ہوں کہ۔۔۔۔۔۔ وہ اس کے انتظار میں تھے کیونکہ تم نے ان کو بتایا تھا۔ ہے نا؟ پتا نہیں کیسے یہ سب اسکے منہ سے نکلا تھا۔ لاشعوری میں جڑتی کڑیاں مل کر ایک ایسی زنجیر بنا گئی تھی جس نے اسکے گلے میں پھندا ڈال دیا تھا۔
عائشے لمحے بھر کو خاموش ہو گئی۔ حیا کو لگا، وہ انکار کر دے گی مگر وہ جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔
ہاں میں نے انکو کال کی تھی۔ میرا فرض تھا۔ اگر مجھے معلوم ہو کہ ایک قومی مجرم قانون توڑنے جا رہا ہے تو مجھے سکیورٹی فورسز کو بتانا چاہئے۔
وہ بے یقینی سے عائشے گل کو دیکھ رہی تھی۔
وہ کتنے آرام سے یہ سب کچھ کہہ رہی تھی۔ کیا اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا کہہ رہی تھی؟
مرحبا حیا! بہارے کہیں پیچھے سے آئی اور بہن کے کندھے پہ جھول کر چہک کر اسکرین کو دیکھا۔ حیا نے جواب نہیں دیا۔ وہ ابھی تک عائشے کو دیکھ رہی تھی۔
عبدالرحمن مجرم نہیں تھا عائشے! وہ مجرم نہیں تھا!
چائے کا گھونٹ بھرتے بھرتے عائشے گل ٹھہری۔
اس کی آنکھوں میں اچنبھا ابھرا۔ عبدالرحمن کا کیا ذکر۔
تم۔ حیا نے لب کھولے مگر رک گئی۔ اس کے اندر ابلتا غصہ، بے یقینی سب کچھ رک گیا۔ کہیں کچھ غلط تھا۔
تم۔۔۔۔۔۔ تم نے عائشے! ہم عبدالرحمن کی بات کر رہے ہیں، جسے میں نے کیلیس میں کھو دیا۔ 
بے بسی سے اس نے کہنا چاہا۔ بہارے کبھی عائشے کو دیکھتی کبھی اسکرین کو۔
عبدالرحمن کیلیس میں کیا کر رہا تھا؟
تم جانتی ہو وہ کیا کر رہا تھا۔ تم نے سکیورٹی کو بتایا اسکے کراسنگ کا۔۔۔۔
حیا وہ کیلیس میں نہیں تھا۔ اسے انقرہ سے جرمنی جانا تھا۔ وہ کیلیس کیوں گیا؟
تم جانتی ہو وہ کیلیس میں تھا عائشے! تمہیں۔۔۔۔ بہارے نے بتایا تھا مجھے معلوم ہے۔ جذبات کی شدت سے اس کی آواز بلند ہو گئی تھی۔
بہارے گل! تم جانتی تھی؟ عائشے بے یقینی سے اپنی بہن کو دیکھا۔ وہ بے ساختہ سہم کر پیچھے ہوئی۔
میں نے کچھ نہیں کیا۔ سب مجھے ایسے کیوں دیکھتے ہیں؟ اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ 
وہ منگل کی رات بارڈر کراس کرنے جا رہا تھا، کیا یہ تمہیں بہارے نے نہیں بتایا۔ 
وہ بارڈر کراس کرنے جا رہا تھا؟ نہیں حیا۔۔۔۔۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ عائشے ابھی تک دم بخود تھی۔ میں نے تو اس کے بارے میں تو کسی کو کچھ نہیں کہا۔ میں نے تو نصوع فخری کے بارے میں بتایا تھا سیکیورٹی کو۔ اس نے بارڈر کراس کرنا تھا منگل اور پیر کی درمیانی شب! 
وہ جہان تھا عائشے! تم نے کال ہی کیوں کی سیکیورٹی کو؟ وہ دبی دبی چلائی تھی۔ اس رات کے زخم، بارڈر کی بو، روشنی کے گولے، سب پھر سے تازہ ہو گیا تھا۔ 
کیونکہ مجھے عبدالرحمن نے ایسا کرنے کو کہا تھا۔ وہ بےبسی سے بولی تھی۔ بہارے نے تائید میں سر ہلایا۔ 
میری بہن سچ کہہ رہی ہے۔ میں نے ان کی باتیں سنی تھی چرچ میں۔ 
اور حیا کو لگا وہ اگلا سانس نہیں لے سکے گی۔
••••••••••••••••
عائشے تمہارا فون بج رہا ہے۔ آنے کے پکارنے پہ وہ چونکی۔ گود میں رکھا موبائل جانے کب سے بج رہا تھا۔ 
بہارے! نمبر پہ لکھا نام بہت محبت سے لے کر اس نے آنے کو بتایا تھا اور سبز بٹن دبا کر فون کان سے لگایا۔ 
سلام علیکم! اس نے مسکرا کر سلام کیا۔ 
وعلیکم السلام کیسی ہو؟ ایران سے ہزاروں کلومیٹر دور، وہ اہلآرا وادی کے چرچ میں کھڑا، بہارے کے فون کو کان سے لگائے کہہ رہا تھا۔ ساتھ ہی اس نے پلٹ کر دیکھا۔ چرچ کے کھلے دروازے سے بیرونی سیڑھیاں نظر آ رہی تھی، جو پہاڑ کے نیچے تک جا رہی تھی۔ حیا ابھی نماز پڑھ کر نہیں آئی تھی اور بہارے کے پرس سے فون نکال کر اس نے اسے تصویریں کھینچنے چرچ کی اوپری منزل پہ بھیجا تھا۔ 
میں ٹھیک ہوں، تم بتاؤ ترکی والے کیسے ہیں؟ 
اس کی مسکراہٹ اور بھی خوبصورت ہو گئی تھی۔ طمانیت کے سارے رنگ آنکھوں میں اتر آئے تھے۔ بہت دن بعد اس نے عبدالرحمن کی آواز سنی تھی۔ 
عائشے! یاد ہے تم نے کہا تھا تم مجھے ایک فیور دو گی۔ وہ چرچ کی چوکھٹ میں کھڑا سیڑھیوں کو ہی دیکھ رہا تھا۔ حیا کے آنے سے پہلے پہلے اسے بات ختم کرنی تھی۔
ہاں، بتاؤ، کیا ہوا؟

تم ترکی کے سب سے بڑے بارڈر کے بارے میں کیا جانتی ہو؟
کون سا بارڈر؟ ترکی اور شام کا؟
ہاں، اس بارڈر کو ایک قومی مجرم اس منگل کی رات کراس کرے گا، غیر قانونی طور پہ۔ ایسے میں تمہیں کچھ کرنا ہے۔
چند لمحے خاموشی کے بعد (وہ غالبا کسی اور جگہ آ گئی تھی-) ہاں کہو، پھر میں سن رہی ہوں۔
ترکی کا تم پہ قرض ہے عائشے! اپنے دل سے پوچھو کہ اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ، ایک مجرم ترکی کا ایک قومی مجرم، غیر قانونی طریقے سے سرحد پار کر رہا ہے تو تمہیں کیا کرنا چاہیئے؟
عائشے خاموش ہو گئی وہ آواز مزید دھیمی کرتے ہوئے بولا۔
تمہیں بارڈر سیکیورٹی فورس کو فون کرنا چاہیئے، تمہیں انہیں بتانا چاہیئے، سب کچھ، تاکہ وہ اسے گرفتار کر سکیں مگر نہیں' عائشےگل یہ کیسے کر سکتی ہے، عائشے گل تو کچھ نہیں کر سکتی۔
ذرا اونچا بولو! اتنا آہستہ مجھے سمجھ نہیں آ رہا- کیا کوئی آس پاس ہے؟ وہ ناراض ہو کر زرا خفگی سے بولی جیسے آخری فقرے کو نظر انداز کرنا چاہ رہی تھی۔
میں نہیں چاہتا کہ کوئی سنے، تم یہ سب لکھ لو۔ کمانڈر کا نمبر بھی۔
پھر وہ اسے تمام ضروری باتیں بتاتا گیا اور وہ لکھتی گئی۔
انہیں تمہاری کال ٹریس کرتے ہوئے نوے سیکنڈ لگیں گے تم نے اسی ویں سیکنڈ میں کال کاٹنی ہے۔
تم یہ کرو گی نا؟ تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور تب ہی اس کو آپنے پیچھے کسی آہٹ کا احساس ہوا وہ تیزی سے پلٹا۔ اندر چرچ کی سیڑھیوں پہ حرکت سی ہوئی تھی۔
کوئی آ گیا ہے، بعد میں کال کروں گا'۔ اس کا مرحبا سننے سے قبل ہی وہ سبک رفتاری سے آگے آیا اور سیڑھیوں کی اوٹ میں چھپی بہارے گل کو کان سے پکڑ کر باہر نکالا
میں ابھی آئی تھی- واللہ میں نے کچھ نہیں سنا۔ چھوٹی بلی بوکھلا گئی تھی، مگر وہ لب بھینچے برہمی سے اسے چرچ سے باہر لایا تھا۔
تو تم میری باتیں سن رہی تھی۔ تمہیں تمہاری بہن نے سکھایا نہیں ہے کہ کسی کی باتیں چھپ کر نہیں سنتے۔
میری بہن کو کچھ مت کہو!
جو تم نے سنا ہے اگر وہ تم نے حیا کو بتایا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔
وہ دبے دبے غصے سے کہہ رہا تھا اور اگر تم نے اپنی بہن کو بتایا کہ میں نے یہ بات حیا کو بتانے سے منع کیا ہے تو میں واقعی بہت برا پیش آوں گا۔
سیڑھیوں پہ ٹک ٹک کی آواز گونجنے لگی۔ وہ اوپر آ رہی تھی۔ جہان نے بہارے کو موبائل واپس کیا جسے اس نے جلدی سے اپنے پرس میں ڈال دیا۔
اگر تم نے میری بات نہ مانی بہارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کچھ نہیں سنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ روہانسی ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب تک حیا اوپر پہنچ چکی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
•••••••••••••••••••
اس نے یہ سب کہا؟ وہ بے یقینی سے اسکرین پہ نظر آتی عائشے اور بہارے کو دیکھ رہی تھی۔
ہاں! میری بہن سچ کہہ رہی ہے۔ میں نے خود سنا تھا۔
تم نے یہ سب سنا تھا؟ اور وہ سمجھتی رہی کہ اس نے اس کی اور جہان کی باتیں سنی تھی۔ مگر وہ تو اردو میں بات کر رہے تھے۔ وہ سن بھی لیتی تو اسے کیا سمجھ میں آتا؟ اس نے اس کی باتیں سنی ہی نہیں تھی وہ ایک دفعہ پھر ایک طرف کی کہانی سے نتیجہ اخذ کر چکی تھی۔
اس نے اپنی مخبری خود کروائی؟ اس نے اپنے آپ کو خود گرفتار کروایا؟ مگر کیوں؟ اس سارے قصے کا کچھ سینس نہیں بنتا تھا۔ وہ حیران تھی، پریشان تھی۔
تمہیں کیسے پتا کہ وہ گرفتار ہو گیا؟ عائشے نے بے یقینی سے پوچھا۔
میں نے خود دیکھا تھا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا کے الفاظ لبوں پہ ٹوٹ گئے۔ اس نے کیا دیکھا تھا؟ ہیولے؟ دھواں؟ روشنی کے گولے؟ ایک طرف کی کہانی؟
مجھے نہیں پتا میں نے کیا دیکھا تھا- مجھے نہیں پتا۔ وہ بے بسی سے نفی میں سر ہلانے لگی۔ پھر ایک دم جھماکے سے اسے یاد آیا۔
جہان کے جوتوں کا رخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ اٹھا تھا تو اس کے جوتوں کا رخ بائیں جانب تھا، حالانکہ وہ سرحد کی جانب منہ کیے کھڑا تھا۔ کیا وہ سرحد کی طرف نہیں جا رہا تھا؟ وہ بائیں جانب جا رہا تھا۔ مگر بائیں جانب کیا تھا؟
پلیز تمہیں جب بھی کچھ پتا چلے مجھےضرور بتانا۔ اگر اسے میری وجہ سے کچھ ہوا تو میں ساری زندگی خود کو معاف نہیں کر سکوں گی۔
عائشے بہت فکرمند اور بے چین ہو گئی تھی۔ حیا نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا۔ عائشے کو تسلی دینے کیلئے ایک لفظ بھی اس کے پاس نہ تھا۔
سرحد کی وہ رات اور ہراقلیطس کی دائمی آگ سے اٹھتے دھویں کے مرغولے سب کچھ ایک دم سے تازہ ہو گیا تھا۔
••••••••••••••••••••
اس نے دیوار پہ لگے کیلنڈر کی تاریخوں کو ایک دفعہ پھر دیکھا۔ ابھی ابھی اس نے سرخ پین سے آج کی تاریخ یعنی ہفتے کا دن کاٹا تھا۔ ابھی مزید دو روز باقی تھے۔ پھر منگل تھی۔ پین رکھ کر وہ ڈریسنگ ٹیبل تک آئی اور آئینے میں خود کو دیکھا۔ ڈوبتی امید کے درمیان اس کا دل بننے سنورنے، تیار ہونے کسی بھی چیز کو نہیں چاہ رہا تھا- سادہ سفید شلوار قمیض اور شانوں پہ پھیلا سفید دوپٹا ڈھیلے جوڑ کے بندھے بال اور ویران آنکھیں۔ دل تو وہیں زیتون کے درختوں میں کھو گیا تھا۔
وہ باہر آئی تو روحیل کچن کی آدھ کھلی دیوار کے پیچھے نظر آ رہا تھا۔ اسے آتے دیکھ کر زرا سا مسکرایا۔
پیو گی؟ وہ کپ میں کانٹے سے کافی پھینٹ رہا تھا۔
اونہوں! وہ ہلکا سا نفی میں سر ہلاتے آگے آئی اور کچن کی سینٹر ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھی۔
اور کیا ہو رہا ہے؟ جہان نے کب آنا ہے؟ گھوم پھر کر وہی سوال۔
اچھا ہے نا وہ نہیں آیا۔ سب خوش ہو گئے۔ اسے میرے ساتھ دیکھ کر خوش تھا ہی کون بھلا؟ وہ تلخی سے بولی۔
ارے میں تو خوش تھا بلکہ وہ آتا تو میں اور بھی خوش ہوتا- خیر پھوپھو کہہ رہیں تھیں کہ وہ منگل کو آ جائے گا؟ روحیل پوچھ رہا تھا یا بتا رہا تھا وہ سمجھ نہ سکی۔ پھوپھو کو تو اس نے خود ہی بتایا تھا مگر جب اسے خود یقین نہیں تھا تو روحیل کو کیا دلاتی۔
نتاشا کہاں ہے؟ اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے موضوع بدلا۔
اندر ہو گی۔ ولیمے کیلئے آپنے ڈریس کی ڈیزائینگ کرتی پھر رہی ہے۔
اچھا خوش ہے وہ پاکستان آ کر؟
ہوں! روحیل نے کافی پھنٹتے ہوئے زرا سے شانے اچکائے۔ یہ ہاں تھا یا ناں وہ سمجھ نہیں سکی۔
اور اب تو ابا بھی جہان سے خوش تھے۔
تو پہلے کون سا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہتے کہتے رکی۔ ایک دم سے کچھ یاد آیا تھا۔ بیوک ادا میں جب روحیل سے اس کی بات ہوئی تھی تب اس نے کچھ بتایا تھا۔ تم نے بتایا تھا روحیل! یاد ہے کہ ابا کسی وجہ سے جہان سے خفا تھے۔
چھوڑو حیا! رہنے دو، وہ تو بس ایسے ہی۔
نہیں مجھے بتاؤ۔ تم نے کہا تھا بعد میں بتاؤں گا۔
کوئی خاص بات نہیں تھی۔ لیکن جب ابا ڈیڑھ سال پہلے استنبول میں سبین پھپھو سے ملےتھے تو انہوں نے کسی لڑکی کو جہان کو ڈراپ کرتے دیکھا تھا۔ بس اسی بات سے ان کے دل میں گرہ لگ گئی تھی۔ مگر خیر چھوڑو۔ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔
اور حیا کو تو یہ بات اچھی طرح یاد تھی۔اس نے ابا اور تایا کی باتیں سنی تھیں۔ ہاں وہ یہی بات کر رہے تھے۔ لیکن جہان نے اسے یہ بات کبھی نہیں بتائی کیونکہ اس نے پوچھی نہیں تھی۔ تو کیا ابھی بھی کچھ ایسی باتیں تھیں جو وہ اسے نہیں بتاتا تھا۔ جیسے عائشے کو وہ سب کہنا۔ اف! 
وہ دونوں ابھی وہیں بیٹھے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ حیا نے آگے ہو کر فون اٹھایا۔ ذہن میں پہلا خیال ولید کا آیا تھا۔
حیا کیا تم فارغ ہو؟ صائمہ تائی بہت ہی شیریں لہجے میں بول رہ تھیں۔ یقینا کوئی کام تھا۔
جی بتائیے۔
ارم کے ساتھ ماکیٹ تک ہو آؤ۔ کچھ قمیصیں لینی ہیں اسے اور اپنے تایا کا تمہیں پتہ ہے وہ اکیلے جانے کہاں دیتے ہیں۔
اوکے میں آ رہی ہوں۔
کوئی اور وقت ہوتا تو شاید وہ نہ آتی لیکن اس ارم سے بھی بات کرنی تھی۔ سو ایک نہج پہ پہنچ کر وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی۔
••••••••••••••••••••
اس نے کار پارکنگ ایریا میں روکی اور گیئر کو نیوٹرل پہ کیا۔ چابی گھماتے ہوئے ارم کو دیکھا۔ شلوار قمیض پہ سکارف لیے وہ ذرا بے چین نگاہوں سے شاپنگ پلازہ کو دیکھ رہی تھی۔
چلیں؟ اس کی بات پہ ارم چونکی۔
ہاں چلیں۔ مجھے کچھ قمیصیں لینی ہیں۔ بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارم ذرا تذبذب سے رکی۔ مجھے پنک کلر میں لان چاہیے۔ تم یوں کرو تم شاپ کے اندر چلی جاؤ جو اچھے لگیں نکلو لینا۔ تمہارا ٹیسٹ بھی بہت زیادہ اچھا ہے۔ مجھے کچھ جیولری بھی اٹھانی تھی میں تب تک دوسرے پلازہ سے اٹھا لاؤں۔ تم بیٹھو میں آتی ہوں۔
وہ جیسے ساری تمہید تیار کر لے لائی تھی اور اب جلدی جلدی لاک کھولنے لگی۔
میں بھی ساتھ چلتی ہوں۔
نہیں خیر ہے۔ تمہاری طبیعت نہیں ٹھیک، تمہیں یوں کیوں تھکاؤں۔ بس دس منٹ تو لگیں گے۔
ارم اگر تمھیں یوں اکیلے جانا ہے تو پہلے اپنے ابا سے پوچھ لو۔ اس نے کہنے کے ساتھ ہی اپنے موبائل پہ تایا کا نمبر ملایا اور کال کے بٹن پہ ہاتھ رکھے مگر دبائے بغیر سکرین ارم کو دکھائی۔ دروازے کو کھولتا ارم کا ہاتھ ٹھہرا۔ آنکھوں میں الجھن اور پھر غصہ در آیا۔ 
تمہیں کیا لگتا ہے میں کسی لڑکے سے ملنے جا رہی ہوں؟
نہیں مجھے لگتا ہے کہ تم ولید سے ملنے جا رہی ہو۔
اس نے بغور ارم کو دیکھتے ہوئے رسان سے کہا۔ ایک لمحے کے لیے ارم کے چہرے کا رنگ بدلا۔ اس نے تھوک نگلا مگر پھر وہ جی کڑا کر بولی۔ 
اور اگر جا بھی رہی ہوں تو کیا کر لوگی تم؟
میں اکیلی گھر چلی جاؤں گی اور کسی کو کچھ نہیں کہوں گی۔ پھر جب تم تنہا آؤ گی تو سب کو خود ہی وضاحت دیتی رہنا۔ میں قربانی کا بکرا کیوں بنوں ہمیشہ۔
میں کسی سے نہیں ڈرتی حیا۔
وہ تو مجھے معلوم ہے۔ تم نے جو میری ویڈیو دینے کی حرکت کی ہے اس سے پتہ چل گیا تھا کہ تمہیں اللہ کا خوف بھی نہیں ہے۔ 
کونسی ویڈیو؟ ارم نے ابرو اٹھائی۔ چہرے کا بدلتا رنگ گواہی دے رہا تھا کہ یہ حرکت اسی نے کی تھی۔ فون پہ بھلے وہ جتنی مضبوطی سے بات کر لے سامنے کی بات اور ہوتی ہے۔
تمہیں بھی پتہ ہے اور مجھے بھی کہ میں کس ویڈیو کی بات کر رہی ہوں۔ تم نے اس طرح کرتے اتنا بھی نہیں سوچا کہ اس میں تمہاری بھی بدنامی ہو گی۔ وہ دکھ سے ارم کو دیکھتے ہوئے بولی۔ گاڑی کے شیشے آدھے کھلے تھے اس کے باوجود باہر کے شور سے بےنیاز دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔ حیا دکھ سے اور ارم تلخی سے۔
میری زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔ میری جتنی بدنامی تم نے کروانی تھی کروا لی۔
ارم تم ولید سے وہ ویڈیو واپس لے لو۔ حیا نے التجا نہیں کی تھی بس قطیعت سے کہا تھا۔
اچھا یہ چاہتي ہو تم۔ اور اگر میں نہ لوں تو؟ ارم کے چہرے پر کڑوی مسکراہٹ تھی۔
تو تم نتائج کی ذمہ دار خود ہو گی۔
اور اگر میں اس شرط پر لوں کہ ابا کے سامنے جا کر تم کہو گی کہ اس رات میں تم سے ہی بات کر رہی تھی۔ اور وہ تمہارا ہی کوئی جاننے والا تھا۔ جس نے ابا کے فون کرنے پر فون اٹھایا تھا۔
حیا چند لمحے بہت دکھ سے اسے دیکھتی رہی۔
یو نو واٹ تم اور ولید ایک جیسے ہو۔ جب خود پھنسے ہوتے ہو تب بھی تمہیں لگتا ہے کہ دوسروں کو اپنے اشاروں پر نچا سکتے ہو۔ میں ایسا کبھی نہیں کروں گی۔
تو پھر ٹھیک ہے کرنے دو ولید کو اس ویڈیو کے ساتھ جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ چند لمحے دونوں کے درمیان ایک تلخ سی خاموشی حائل رہی۔ حیا سوچتے ہوئے ونڈو سکرین کے پار دیکھتی رہی۔ کسی طرح اسے ارم کو کنوینس کرنا تھا کہ وہ ولید سے وہ ویڈیو لے لے کسی بھی طرح۔
ارم میری بات سنو۔ اس میں تمہارا پارٹ بھی ہے۔ صرف میں نہیں تم بھی بدنام ہو جاؤ گی۔
پہلی دفعہ ارم کے چہرے پر ایک مطمئن مسکراہٹ ابھری۔
آر یو شیور حیا کہ اس میں میرا پارٹ بھی ہے؟ 
اور حیا سن رہ گئی۔ اس کا مطلب تھا کہ ارم نے اپنا پارٹ ایڈٹ کر دیا تھا اور وہ ان کاموں میں بہت ماہر تھی۔ اسے پہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا۔ کہ وہ ایسا بھی کر سکتی تھی۔
تو تم نے صرف مجھے بے عزت کرنے کے لیے یہ سب کچھ کیا۔ ارم تم مجھ سے اتنی نفرت کرتی ہو؟ وہ جو اتنی دیر سے سپاٹ لہجے میں بات کر رہی تھی اب کہ اس کی آوز میں شدید صدمہ در آیا تھا۔
ہاں کرتی ہوں اور مجھے تمہارے اس برقعے سے بھی نفرت ہے۔ ہمیشہ تمہاری وجہ سے مجھے ابا کی باتیں سننا پڑتی تھیں۔ ارم ایک دم پھٹ پڑی۔ جب روحیل بھائی امریکہ گئے اور تم یونیورسٹی تو تم ایک دم ماڈرن بن گئی۔ ابا تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتے تھے سو انہوں نے مجھ پہ روک ٹوک زیادہ کر دی کہ کہیں میں تمہارے جیسی نہ بن جاؤں۔ تمہاری وجہ سے مجھ پہ سختیاں بڑھی ہیں اور اب میں تنگ آ گئی ہوں اس زبردستی کے اسکارف سے۔ میرا بس چلے تو میں اس شہر کی ساری اسکارف شاپس کو آگ لگا دوں۔ نہیں کرنا مجھے اسکارف، کیوں کرتے ہیں ابا اتنی سخت۔ وہ ایک دم رونے لگی تھی۔ 
تو پھر کیا کریں وہ۔ سختی نا کریں تو کیا اپنی بیٹیوں کو کھلا چھوڑ دیں کہ جو مرضی کرو؟ ایسا نہیں ہو سکتا ارم۔ ہاں ٹھیک ہے ان کو ذہن سازی بھی کرنی چاہیے۔ انہیں اسکارف کے لیے پہلے کنوینس کرنا چاہیے۔ مگر ارم ان کی نیت تو ہمیشہ اچھی تھی نا۔ اس نے سمجھانے کی کوشش کی۔ ارم کے آنسوؤں سے اس کا دل ذرا پگھلا تھا۔ 
تمہیں زیادہ ابا کی وکالت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تمہیں شاپنگ نہیں کرنی تو ٹھیک ہے چلو گھر۔ مجھے نہیں جانا کہیں۔ وہ آنسو پونچھتی ایک دم بہت تلخی سے کہتی سیدھی ہوئی۔ حیا نے افسوس سے اسے دیکھا۔ دل میں جو نرم گوشہ بننے لگا تھا وہ فورا مٹ گیا۔ آخر وہ بھول بھی کیسے سکتی تھی کہ ارم نے ولید کو وہ ویڈیو دے دی تھی۔ اتنا بڑا دھوکا اس نے حیا کے ساتھ کیا تھا۔
اس نے افسوس سے سر جھٹکا اور اگنیشن میں چابی گھمائی۔ کار کے انجن میں حرارت پیدا ہوئی۔
ارم بھیگی نگاہوں سے شیشے کے پار دیکھ رہی تھی۔ اسے اب بھی اپنی ہی فکر تھی۔ اپنا اسکارف اپنے ابا کی سختیاں اپنی مجبوریاں۔ اسے اب بھی حیا کی یا اس ویڈیو کی فکر نہیں تھی۔
••••••••••••••••••••
منگل آیا، صبح ہوئی، دوپہر چڑھی، شام اتری اور رات چھا گئی۔ وہ نہیں آیا۔ بدھ بھی گزر گیا اور جمعرات کو زاہد چچا کی بیٹی مہوش پاکستان آگئی۔ مگر وہ شدید کرائسسز میں تھی۔ زاہد چچا اور عابدہ چچی نے کسی کو نہیں بتایا مگر صائمہ تائی کو اپنے کسی ذریعے سے پتا لگ ہی گیا۔ مہوش کا شوہر اس سے اگلی فلائٹ میں آرہا تھا مگر امیگریشن کے کسی چکر میں پھنس گیا اور عین وقت پر گرفتار کر لیا گیا۔ مہوش کی فلائٹ چونکہ ایک روز قبل کی تھی سو وہ اس وقت تک پاکستان آچکی تھی اور پھر خبر ملتے ہی تایا فرقان اور ان کی فیملی سمیت سب ہی عابدہ چچی کی طرف اکٹھے ہو گئے تھے۔
ڈائننگ ہال اور ڈرائنگ روم کے درمیان جالی دار پردہ آدھا گرا تھا اس کے پار صوفوں پر سب بڑے بیٹھے تھے۔ لڑکے وغیرہ بھی اکٹھے ہو گئے تھےسو وہ باہر لان میں تھے۔ اب تو حیا کی وجہ سے لڑکیوں کی طرف آنے سے بھی جھجھکتے تھے۔ نتاشا اور روحیل البتہ صوفوں پہ ہی بیٹھے تھے۔
عفان کے ماں باپ کیا کہتے ہیں؟ تایا ابا پوچھ رہے تھے۔ ان کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ جواب میں عابدہ چچی برے دل سے کچھ بتا رہی تھیں۔ ان کو یقیناً سب کا یوں افسوس کے لیے آنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
آج کل کے لڑکے بھی پتا نہیں کن چکروں میں ہوتے ہیں۔ صائمہ تائی نے ہمدردی سے کہا تھا۔
مہوش نے دبے دبے غصے سے جالی دار پردے کو دیکھا اور ایک دم اٹھ کر اندر چلی گئی۔ سونیا نے افسردگی سے اسے جاتے دیکھا۔ کیا کیا جا سکتا تھا؟
بس اللہ تعالیٰ خیر سے اسے واپس پہنچا دے۔ پھپھو نے دھیرے سے کہا۔ انہیں بھی صائمہ تائی کا یوں اصرار سے سب کو افسوس کے لیے ادھر لے آنا اچھا نہیں لگا تھا۔
جہان کی کیا خبر ہے سبین؟ منگل تو گزر گئی۔ اس کا کوئی اتا پتا ہی نہیں؟ صائمہ تائی کو پھپھو کا ٹوکنا برا لگا تو توپوں کا رخ عفان سے جہان کی طرف کر دیا۔ حیا چونک کر آدھے ہٹے پردے کو دیکھنے لگی۔
آ جائے گا بھابھی۔ کسی مسئلے میں ہو گا تبھی دیر ہوئی ہے۔ پھپھو کی آواز مزید دھیمی ہو گئی۔
تم بھی اپنے بیٹے پر نظر رکھا کرو سبین۔ تایا ابا نے اسی انداز میں کہا جس میں وہ عفان کی بات کر رہے تھے۔ پتا نہیں وہ بھی کسی ٹھیک کام میں ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے باپ کے جنازے پر بھی تو نہیں آیا تھا۔
جہان کا یہاں کیا ذکر بھائی؟ پھپھو کے لہجے میں دبا دبا سا شکوہ تھا۔
حیا نے میز کا کونہ سختی سے پکڑا۔ پیشانی کی رگیں بھینچ گئی تھیں۔ اندر ایک ابال سا اٹھا تھا۔
عفان کا بھی تو ہمیں معلوم نہیں تھا۔ یہاں شاید کسی کا بھروسا نہیں ہوتا۔ تایا ابا نے پھپھو کی بات سنے بغیر تبصرہ کیا۔ حیا کے اندر کا ابال بس کسی لاوے کی طرح پھٹ پڑنے کو تیار تھا۔ بمشکل وہ ضبط کر کے لب بھنچے بیٹھی رہی۔
ایسا کچھ نہیں ہے بھائی۔ میں اپنے بیٹے کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ حیا نے مڑ کر دیکھا۔ جالی دار پردے کے پاس پھپھو ذرا خفگی سے کہتی نظر آرہی تھیں۔ اس نے صائمہ تائی اور عابدہ چچی کے چہروں کے معنی خیز تاثرات دیکھے اور پھر ابا کو دیکھا، جو خاموشی سے پھپھو کو دیکھ رہے تھے۔
سچ کہوں تو سبین! مجھے تمھارے بیٹے کے کام مشکوک سے لگتے ہیں۔ کبھی کہتا ہے ریسٹورنٹ ہے، کبھی کہتا ہے جاب سے چھٹی نہیں ملی۔ بہتر ہو گا تم اس پہ چیک رکھا کرو تا کہ کل کلاں کو کوئی بڑا نقصان نہ اٹھانا پڑے۔ میں تو یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کام کیا کرتا ہے؟ 
اور تایا کی اس بات پر اسے لگا کہ اس کی برداشت ختم ہو گئی ہے۔ بس بہت ہو گیا، اب مزید وہ نہیں برداشت کر سکتی تھی۔ یہ ٹھیک تھا کہ اسے راز رکھنے آتے تھے مگر اسے صرف وہ راز رکھنے چاہئیں تھے جن کے رکھنے کا کوئی فائدہ ہو۔ اب مزید نہیں۔ 
وہ تیزی سے اٹھی اور جالی دار پردہ اٹھا کر ڈرائنگ روم کے دروازے پر آئی۔ اس کے یوں آنے پر سب نے اسے مڑ کر دیکھا تھا۔
•••••••••

کیا آپ جانتے ہیں تایا ابا کہ وہ کیا کام کرتا ہے۔ اگر نہیں جانتے تو میں آپ کو بتاتی ہوں؟ اپنے لہجے میں پنہاں غصے کو ضبط کیے جب وہ بولی تو اس کی آواز کافی بلند تھی۔ تایا ابا نے اسے حیرانی اور قدرے برہمی سے دیکھا اور پھر سلیمان صاحب اور فاطمہ کو، جیسے کہہ رہے ہو کہ آج ان کی بیٹی کو کیا ہو گیا۔
شاید آپ نہیں جانتے۔ ٹھہریں میں آپ کو بتاتی ہوں۔ وہ اسی انداز میں اونچی آواز میں بولی۔ جہان ابھی اس لیے نہیں آ سکا کیونکہ وہ اپنی آفیشل اسائنمنٹ میں پھنسا ہوا ہے۔ آپ تو یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ وہ ہماری ایجنسی کا ایک ایجنٹ ہے، ایک بہت قابل آرمی آفیسر۔ 
یہ بات کہہ کر جب وہ فارغ ہوئی تو اس نے باری باری سب کے چہروں کو دیکھا۔ تایا ابا، صائمہ تائی، زاہد چچا، عابدہ چچی۔ سب حیران سی نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے جیسے ان کی سمجھ میں نہیں آیا ہو کہ وہ کیا کہہ رہی ہے؟ آہستہ آہستہ اس کے الفاظ ان کے ذہنوں میں ٹھہرنے لگے اور ان کے معانی ان کے سامنے عیاں ہونے لگے۔
آرمی آفیسر۔ ایجنٹ۔ تایا فرقان نے کچھ حیران نگاہوں سے اسے دیکھا جو اپنی بات کہنے چکنے کے بعد ذرا پرسکون سی چوکھٹ پہ کھڑی تھی۔ پھر سبین پھپھو کو دیکھا جو خاموشی سے صوفے پہ بیٹھی تھیں مگر ان کی آنکھوں کا سکون اس بات کا غماز تھا کہ انہیں حیا کی اس بات سے خوشی ہوئی ہے۔ ضروری تو نہیں تھا کہ سب کچھ جہان آ کے بتاتا۔ انہیں شاید جہان نے منع کر رکھا تھا۔ بیٹے کا مان رکھتے ہوئے وہ خاموش رہی تھیں۔ لیکن حیا کے اس عمل سے جیسے ان کو ڈھیروں سکون مل گیا تھا۔
وہ ہماری ایجنسی کے لیے کام کرتا ہے؟ صائمہ تائی شاکڈ سی بولیں۔ کیا وہ آرمی آفیسر ہے؟ کیا واقعی؟
جی تائی جی یہ سچ ہے۔ وہ سینے پہ بازو لپیٹے بہت اعتماد سے کہہ رہی تھی۔ ہر دفعہ انسان کو اپنے لیے جنگ نہیں لڑنی ہوتی۔ کئی دفعہ دوسروں کے لیے بھی لڑنی پڑتی ہے اور وہ اس وقت وہی کر رہی تھی۔ 
اس نے بہت عرصہ یہ بات اپنے تک رکھی، آپ لوگوں کو نہیں بتائی، اس لیے نہیں کہ وہ آپ کو اپنا نہیں سمجھتا تھا۔ ہاں ٹھیک ہے اس کی جاب کی نوعیت ایسی تھی کہ اسے اپنی اصل شناخت چھپا کہ رکھنا تھی۔ لیکن وہ چاہتا تو بتا سکتا تھا۔ جیسے پھوپھو کو ہمیشہ سے معلوم تھا۔ جیسے بہت سے دوسرے لوگوں کو معلوم تھا۔ لیکن اس نے آپ لوگوں کو نہیں بتایا۔ شاید اس لیے کہ وہ آپ کا مان نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ وہ مان جس کے ساتھ بہت پہلے آپ لوگوں نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے لوگوں کہتے ہوئے تایا فرقان کو دیکھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت فخر سے کہا تھا کہ کسی غدار کے بیٹے کو فوج میں کمیشن نہیں مل سکتا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا تایا ابا۔ کتنے ہی غداروں کے بیٹے بھتیجے آج بھی فوج میں کام کر رہے ہیں اور بہت دیانتداری اور حب الوطنی سے کر رہے ہیں۔ اسی لیے جب اس کو جاب مل گئی تو اس نے آپ کو نہیں بتایا تا کہ آپ کا مان نہ ٹوٹے۔ تاکہ آپ کے فخر کو ٹھیس نہ پہنچے۔
وہ جانتی تھی کہ وہ کافی زیادہ بول رہی ہے بڑوں کے سامنے اتنا نہیں بولنا چاہیے مگر بات کرتے ہوئے بھی وہ تمیز اور تہذیب کے دائرے سے آگے نہیں نکل رہی تھی۔ البتہ اس کی آواز ذرا اونچی تھی۔ 
ڈرائنگ روم میں اتنا سناٹا تھا کہ سوئی بھی گرتی تو گونج پیدا ہوتی۔ تایا فرقان کے چہرے پہ ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔ وہ جیسے سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ یہ سب کیا ہوا ہے۔
نتاشا روحیل سے دھیمی آواز میں کچھ پوچھ رہی تھی۔ اور وہ آہستہ سے جواب میں کچھ بتا رہا تھا۔ نتاشا اس کی بات سن کر ذرا سا مسکرائی اور فاتحانہ نگاہوں سے اسے دیکھا اور کہا
۔I guessed so
ڈرائنگ روم میں موجود نفوس میں وہ واحد تھی جسے اس خبر نے بہت محفوط کیا تھا۔
کیا کرتا ہے وہ آرمی میں، رینک کیا ہے اس کا؟ زاہد چچا وہ پہلے تھے جنہوں نے سوال کیا۔ شاید ان کے ذہن نے اس بات کو قبول کرلیا تھا۔
میجر ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی۔ جواب کسی اور نے دیا۔ حیا بے اختیار چونکی۔ 
سلیمان صاحب! 
اب حیران ہونے کی باری اس کی تھی۔ اس کے لب ذرا سے کھل گئے اور آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئیں۔ ابا کو پتا تھا؟ابا کو کب سے پتا تھا؟ اس نے پھوپھو کی طرف دیکھا وہ بھی حیران ہوئی۔
کیا تمہیں معلوم تھا؟ تایا کو جھٹکا لگا۔
جی کافی عرصے سے پتا تھا۔ انہوں نے کہتے ہوئے حیا کو دیکھا۔ میں اس شہر میں رہتا ہوں اور میرے بھی سورسز ہیں۔ مجھے کافی عرصے سے پتا تھا اور مجھے اس پہ اسی بات کا غصہ تھا کہ کیا تھا اگر وہ ہمیں بتا دیتا ہم اس کے آپنے تھے دشمن تو نہیں تھے۔
حیا نے بے اختیار روحیل کو دیکھا۔ روحیل نے اثبات میں سر ہلایا۔ تو یہ بات تھی جس کی وجہ سے ابا اس سے برگشتہ رہتے تھے۔ وہ لڑکی والا معاملہ نہیں تھا۔ روحیل کو بھی پتا تھا۔ ابا کو بھی پتا تھا۔ نتاشا کو شک تھا۔ بس ایک وہیں بےوقوف تھی جو تین مہینے اس کے پزل باکس کی پہلیاں ڈھونڈتی رہ گئی کاش وہ ان سب سے پہلے پوچھ لیتی۔
حیرت ہے- تایا فرقان بمشکل کہہ پائے۔ وہ ابھی تک بے یقین تھے۔
تمہیں کس نے بتایا؟ فاطمہ ابھی تک حیران تھیں۔ کبھی اسے دیکھتیں کبھی سلمان صاحب کو۔ جیسے سمجھ نہیں پا رہیں کہ انہیں اس بات پہ خوش ہونا چاہیئے یا نہیں۔
جہان نے! اسے مجھے ہی بتانا چاہیئے تھا نا! اس نے شانے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔
بس وہ ایک جواب سب جواب پہ بھاری ہو گیا صائمہ تائی، عابدہ چچی کی معنی خیز نگاہوں'طنزوطعنے کی نشتروں ہر شے کو اپنا جواب مل گیا
وہ واپس پلٹی تو دیکھا ڈائیننگ روم میں،لڑکیاں اسے اسی ششدروحیران نگاہوں سے دیکھ رہی تھی
وہ اپنے کمرے میں لیپ ٹاپ کے آگے بیٹھی ترکی کی تصویریں دیکھ رہی تھی جب اس کا موبائل بجا
اسکرین کو دیکھتے ہوئے اس نے فون آٹھایا اور نمبر دیکھ کر جیسے اندر تک کڑواہٹ گھل گئی ولید'جانے یہ کب اس کی جان چھوڑے گا
طند لمحے وہ جلتی بجھتی اسکرین دیکھتی رہی اٹھائے یا نہین مگر اس آدمی سے کچھ بعید نہ تھا اٹھانا ہی پڑے گا اس نے سبز بٹن دبا کر فون کان سے لگایا
'ہیلو'
"میں تمہارے گھر کے باہر ہوں کیا تم پانچ منٹ میں باہر آسکتی ہو؟"
اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر دبا دیا
کیا؟تم یہاں کیا کررہے ہو؟وہ پریشان سی کھڑی ہوئی پھر کمرے سے باہر نکلی وہ بیرونی دروازے کیطرف نہیں بلکہ سیڑھیوں کی طرف جا رہی تھی
میں نے تم سے کہا تھا نا کہ مجھے تم سے بات کرنی ہے وہ آرکیٹیکٹ والا مسئلی ابھی حل نہیں ہوا اور میں جانتا ہو کہ تم اسے حل کرواو گی می اس دن پزاہٹ میں ویٹ کرتا رہا مگر تم نہیں آئیں اور میرا خیال ہے کہ وہ وقت آ گیا ہے جب تمہیں میری بات سنجیدگی سے سننا چاہئیے
اور میں نے تم سے کہا تھا کی میں نہیں آوں گی تم مجھے کیا سمجھتے ہو تمیارا خیال ہے کہ میں تمہاری ان گیڈردھمکیوں سے ڈر جاوں گی Grow Upولید! لہجے میں سختی رکھتے ہوئے وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اس نے ٹیرس کا دروازہ کھولا اور تیزی سے باہر آئی
میں نے فون تمہاری یہ سب باتیں سننے کیلئے نہیں کیا تم باہر آو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے بس پانچ دس منٹ لگے گے اوکے!کال کاٹ دی گئی
اس نے شاک زدہ انداز میں فون کو دیکھا اور پھر ےیزی سے آگے آئی اور پھر چھت پہ کونے میں پڑے جھولے کے پیچھے ہو کر اس نے منڈیر پہ جھانکا
باہر رات سیاہ تھی کہیں کہیں سٹریٹ پول جل رہے تھے۔ گھر کے گیٹ سے ذرا دور ولید کی سیاہ کار کھڑی تھی۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا اسٹیرنگ ویل پہ ہاتھ رکھے منتظر سا ان کی گیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ حیا کے اندر طوفان سا اٹھنے لگا۔ بے بسی بھی تھی غصہ بھی تھا۔ یہ آدمی کسی بھی طرح اس کا پیچھا چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھا۔ پتہ نہیں کچھ لوگوں کو اللہ کا خوف بھی نہیں ہوتا۔ کسی کی کمزوری ہاتھ لگنے پہ وہ خود کو خدا کیوں سمجھنے لگتے ہیں۔ مگر نہیں ایسے خداؤں سے ایسے بلیک میلروں سے اسے اچھی طرح نمٹنا آتا تھا۔
وہ مڑی اور ٹیرس پہ رکھے ان مصنوعی پودوں کی طرف آئی جو بڑے بڑے گملوں میں رکھے تھے۔ گملے بڑے تھے اس لیے ٹہنیوں کو کھڑا رکھنے لے لیے انہیں مٹی کی بجائے چھوٹے بڑے پتھروں سے بھرا گیا تھا۔ اس نے ایک گملے سے ایک وزنی سا پتھر اٹھایا اور واپس منڈیر تک آئی۔ ولید ابھی تک منتظر نگاہوں سے گیٹ کے طرف دیکھ رہا تھا جیسے اس کا خیال تھا کہ اس کی بلیک میلینگ میں آکر وہ ابھی گیٹ سے آتی دکھائی دے گی اور ایک دفعہ پھر اس کی گاڑی میں بیٹھ جائے گی۔ مومن ایک سوراخ سے کبھی دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ وہ اتنی کمزور تو نہیں تھی کہ اس کی بلیک میلینگ کی وجہ سے اس کے ساتھ بیٹھ جاتی۔ وہ اور ہوتی ہوں گی کمزور لڑکیاں جو بلیک میلنگ سے گھبرا جاتی ہو گی۔ نہیں۔ اگر اس نے جنت کے پتے تھامے تھے تو اللہ اسے رسوا نہیں کرے گا۔ یہ وعدہ اس سے جہان نے کیا تھا مگر جہان تو اس وقت وہاں نہیں تھا جو اپنا وعدہ نبھا سکتا۔ اسے خود ہی کچھ کرنا تھا۔
اس نے ایک نظر ہاتھ میں پڑے پتھر کو دیکھا اور پھر نیچے کھڑی گاڑی کو۔ لمحے بھر کے لیے ساری باتیں سیلاب کی طرح امڈ کر اس کے ذہن پہ چھاتی گئیں۔ ولید کی بلیک میلنگ اس کی بدتمیزیاں اس کے ہر وہ حرکت جس نے اسے ذہنی کوفت میں مبتلا رکھا تھا اور پھر اس نے کینچ کر وہ پتھر اس کی گاڑی پہ مارا۔
اندازہ اس نے ونڈ اسکرین کا کیا تھا مگر وہ بونٹ پہ لگ کر نیچے گرا۔ ولید نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا اور اس سے پہلے کہ وہ اوپر گردن کرتا حیا پیچھے ہو گئی۔ یہ نہیں تھا کہ وہ اس کے سامنے آنے سے ڈرتی تھی بس اس نے اسکارف نہیں لے رکھا تھا۔
گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی اور ٹائروں کی رگڑ۔ حیا نے حیرت سے منڈیر کے سوراخ سے نیچے دیکھا۔ ولید کی گاڑی دور جاتی دکھائی دے رہی تھی۔ اتنا بزدل نکلا وہ؟ بس ایک پتھر سے ڈر گیا۔ اس کو واقعی حیرت ہوئی تھی۔ یا شاید ہر بلیک میلر اتنا ہی بزدل اتنا ہی کمزور اور اتنا ہی گھٹیا ہوتا ہے۔ ہونہہ۔
لیکن اگر کسی دن وہ واقعی ان کے گھر پہنچ گیا اور وہ سی ڈی ابا یا کسی کو دکھا دی تو نتائج کیا نکلیں گے۔ وہ اپنی عزت کھو دے گی مقام کھو دے گی۔ ولید کے ہاتھ سے ملنے والی سی ڈی سب خراب کر دے گی۔
ارم اور ولید۔ ان دونوں کو اللہ کا کوئی خوف نہیں تھا۔ وہ بے دلی سے بیڈ پہ آکے بیٹھ گئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔
جب دل زیادہ اداس ہوا تو وہ وضو کر کے آئی اور قرآن کھول کر بیڈ پہ بیٹھ گی۔ ہاں اس نے جہان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ روز قرآن پڑے گی مگر ابھی تک نہیں پڑھ سکی تھی۔ اب وہ پڑھا کرے گی۔ مگر کہاں سے شروع کرے۔ سورہ بقرہ سے شروع کرے؟ 
اس نے سورہ نور نکالی۔ یہ وہ سورت تھی جس نے ہر چیز شروع کی تھی۔ جس نے اسے ایک اور دنیا میں پہنچایا تھا۔ اب اسے ایک دفعہ پھر پڑھنا تھا۔ ہاں عائشے کہتی تھی قرآن میں ہر چیز کا جواب ہوتا ہے۔ ہر دکھ کا مداوا ہر پریشانی کی تسلی۔ ہر فکر کا حل۔ وہ سورہ نور پڑھنے لگی۔ آہستہ آہستہ دل پہ تنگی قرآن پہ لکھے سیاہ حروف اس کا سیاہ موتی جو رومال میں رکھا تھا اور ساتھ کنکر جو اس کے دل میں دوسرے خیال آنے لگے۔ اس نے سر جھٹکا اور آیت پر توجہ دی۔
وہ لوگ جو تم میں سے ایمان والے ہیں 
اور انہوں نے اچھے کام کیے ہیں 
اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے
کہ ان کو وہ ضرور زمین میں جانشین مقرر کرے گا
جیسا کہ ان سے پہلوں کو مقرر کیا 
اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے 
اسے ضرور مستحکم کرے گا
اور ان کے خوف ضرور امن میں بدلے گا 
بس شرط یہ ہے کہ وہ میری عبادت کرتے رہیں 
اور میرے ساتھ کسی کو شریک نا ٹھہرائیں! 
(النور:55)
لمحے بھر کو کمرے میں رشنی ہو گئی۔ سونے کے پتنگے سے ہر سو گرنے لگے تھے۔ نور تھا اوپر نور کے۔ وہ الفاظ بہت ہی خوبصورت بہت ہی پر امید تھے۔ کیا واقعی ایسا ہو سکے گا۔ کیا واقعی اسے اپنے دین کی ثباتی نصیب ہو سکے گی۔
کبھی کبھی قرآن پاک کی باتیں اتنی پر امید دکھائی دیتی تھیں کہ اپنی نا امید زندگی سے اسے ریلیٹ کرنا مشکل لگتا تھا۔ مگر مریم خانم نے کہا تھا کہ یقین سے مانگیں تو ضورو ملتا ہے۔ ایک دفعہ ان آیات پر یقین کر کے تو دیکھیے۔ کون جانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے قرآن بند کر کے احتیاط سے بک شیلف پہ رکھا اور بیڈ پہ آ کر آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹ گئی۔ ابھی وہ صرف سونا چاہتی تھی۔ تھکن بہت زیادہ ہو گئی تھی بہت زیادہ۔
•••••••••••••••••
صبح وہ اٹھی تو پہلا خیال ان آیات کا آیا تھا۔ ہاں کمرے میں اب صرف سورج کی روشنی تھی اور صبح کی ٹھنڈی ہوا۔ رات والی روشنی اب ادھر نہیں تھی۔
انسان اسی خیال کے ساتھ اٹھتا ہے جس کے ساتھ وہ سویا تھا۔ شاید اسی لیے انسان جس ایمان کے ساتھ مرے گا اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ درمیان کا دورانیہ بے معنی تھا۔ وہ بال لپیٹتی باہر آئی۔ سارا گھر ابھی سو رہا تھا۔ لاؤنچ اور کچن کے بیچ آدھی کھلی دیوار سے نور بانو کام کرتی نظر ا ٓرہی تھی۔ پس منظر میں کوئی مانوس، غیر مانوس سی آوازیں آرہی تھی۔
نور بانو ناشتہ!
میں نے نتاشا باجی کے لیے مینگو سلش بنایا تھا۔ آپ پیئں گی؟
وہ سر ہلاتے ہوئے آگے آئی کاؤنٹر سے گلاس اٹھایا اور سلش والی جگ کو اس میں انڈیلا۔ کوٹی ہوئی برف اور جوس کی دھار اس میں گرنے لگی۔ پھر وہ پاس رکھی کرسی پہ بیٹھی اور گلاس لبوں تک لے جاتے ہوئے یونہی سر اٹھایا۔ ایک لمحے کے لیے ساری دنیا ساکت ہو گئی۔
ہر شے ٹھہر گئی۔ بس ایک چیز تھی جو حرکت کر رہی تھی۔ گول گول دائرے میں گھومتی ہوئی کانچ اور لکڑی کے ٹکرانے کی مدھم آواز۔ کانچ کی گلاب کی پنکھڑیاں۔ سلور راڈز۔
لبوں تک جاتا گلاس والا ہاتھ تیزی سے نیچے آیا تھا۔ آنکھوں کی پتلیاں بے یقینی سے پھیلیں۔
لاؤنج اور کچن کی درمیانی دیوار کے عین اوپر اس کا ونڈ چائم جھول رہا تھا۔ 
یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ یہاں کیسے آیا؟ یہ کس نے لگایا؟ اس نے حیرت و شاک سے نور بانو کی طرف دیکھا۔ کام کرتی نور بانو نے ونڈ چائم کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں اچھنبا ابھرا۔ پھر اس نے نا سمجھی سے نفی میں سر ہلایا۔
مجھے نہیں پتا باجی۔ میں نے تو ابھی دیکھا ہے۔
یہ تو میرا ہے۔ یہ تو ترکی میں مجھ سے گم گیا تھا۔ یہ یہاں کیسے آیا۔ یہ یہاں کس نے لگایا۔ وہ نور بانو سے کم اور خود سے زیادہ بات کر رہی تھی۔
نور بانو ہراساں سی ہو گئی۔ میں تو پہلے ہی کہتی تھی باجی کہ ہمارے گھر میں جن ہیں۔
مگر وہ سنے بغیر تیزی سے کچن سے باہر آئی۔ سیڑھیوں کے اوپر والے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ وہ سلش کا گلاس پکڑے ننگے پیر تیز تیز سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ پاؤں پہ لگے بینڈج اب کھل چکے تھے مگر زخموں کے نشان وہیں تھے۔
ایک دو تین چار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قدم جیسے زینوں پہ نہیں اس کے دل پہ پڑ رہے تھے۔ سانس تیز تیز چل رہا تھا۔ 
وہ چند سیڑھیاں چند صدیاں کیوں بن گئی تھیں۔ 
جیسے یہ فاصلہ کبھی ختم ہی نہیں ہو گا۔
وہ پھولے تنفس کے ساتھ اوپر آئی۔ اور دھڑکتے دل سے اس آخری کمرے کا دروازہ دھکیلا۔ 
گیسٹ روم کے بیڈ پہ ایک کھلا ہوا بیگ رکھا تھا جس میں سے شرٹ نکالتے ہوئے وہ بیڈ کے ساتھ ذرا جھکا ہوا کھڑا تھا۔ آہٹ پہ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔
حیا چوکھٹ پہ سلش کا گلاس اٹھا کر کھڑی پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ جہان اسے دیکھ کر چند لمحے کچھ کہہ نہیں پایا پھر دھیرے سے مسکرایا۔ شرٹ بیگ پر رکھی اور قدم قدم چلتا اس تک آیا۔ نیلی جیز اور سبز شرٹ میں وہ بہت فریش لگ رہا تھا۔
مرحبا! حیا سے چند قدم دور رک کر اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر کو خم دیتے ہوئے سلام کیا۔ حیا چند لمحے ویسی ساکت نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔ اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر اس کے ادھ کھلے لب بھینچ گئے پیشانی کی رگ تن گئی اور حیرت زدہ آنکھوں میں یکایک غصہ در آیا۔ ایک دم سے اس نے سلش سے بھرا گلاس جہان پہ پھینکا۔
تم وہاں مرنے کے لیے مجھے چھوڑ گئے تھے۔ میں وہاں کتنی دفعہ مری ہوں تمہیں پتا ہی نہیں اور اب تم آ کر کہتے ہو مرحبا! وہ ایک دم پھٹ پڑی تھی۔
سلش جہان کی شرٹ پر گرا تھا۔ وہ ایک دم پیچھے ہوا۔ پہلے اس نےاپنی شرٹ کو دیکھا اور پھر حیا کو جیسے اسے یقین نہ آیا ہو کہ ایک دفعہ پھر حیا نے یہ کیا ہے۔
حیا! وہ لمحے بھر کے لیے کچھ بول ہی نہیں پایا۔
کچھ مت کہو تم۔ تمہیں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو مجھے۔ بے وقوف ہوں جو میں کچھ نہیں سمجھتی کہ تم نے عائشے کو فون کر کے خود اپنی مخبری کروائی تم نے اپنے آپ کو خود پکڑوانا چاہا۔ یا شاید پتا نہیں تم وہاں گئے بھی تھے یا نہیں۔ میں نہیں جانتی وہاں کون تھا۔ مگر میں نے وہاں بارودی سرنگیں پھٹتے دیکھیں۔ میں نے وہاں پہ گولیاں چلتے سنیں۔ میں نے وہاں پر دھواں دیکھا۔ میں نہیں جانتی وہاں پر کیا ہوا۔ مگر جو بھی ہوا اس کے پیچھے تمہارا ذہن تھا۔ میں جانتی ہوں جہان تم ہمیشہ چیزیں پلان کرتے ہو مگر تم نے کہا تھا کہ اس دفعہ تم کچھ نہیں پلان کرو گے لیکن تم نے کیا! کیا تھا اگر تم مجھے بتا دیتے۔ میں کتنا پریشان رہی میں کتنی تڑپی۔ میں کتنی بے سکون رہی ہوں ان چند دنوں میں اندازہ ہی نہیں ہے تمہیں! 
وہ وہیں بیڈ کے کنارے پہ بیٹھی اور پھر ایک دم ہاتھوں میں منہ چھپا کر رونے لگی۔ جہان نے ایک دفعہ پھر گردن جھکا کر اپنی گیلی شرٹ کو دیکھا اور پھر فرش پہ گرے گلاس کو۔ شکر ہے وہ پلاسٹک کا تھا سو ٹوٹا نہیں۔
تم نے کیا کیا اس وقت میں نہیں جانتی۔ مگر جو بھی کیا وہ بہت برا تھا۔ اگر وہاں میرے دل کو کچھ ہو جاتا میں شاک سے ہی مر جاتی تو تم کیا کرتے۔ مگر تمہیں تو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا! وہ روتے روتے کہہ رہی تھی۔
اگر تمہاری یاداشت ٹھیک سے کام کر رہی ہے تو تمہیں یاد ہو گا کہ میں نے کہا تھا فورا وہاں سے چلی جانا۔ اگر تم نے سب کچھ دیکھا ہے تو اس کا مطلب ہے تم وہیں پر تھیں۔ تم نے میری بات نہیں مانی۔
حیا نے ایک دم سے گیلا چہرہ اٹھایا۔
میں چلی بھی جاتی تو کتنا دور جاتی۔ چند میٹر دور ہی تو کھڑی تھی ہماری جیپ۔ کیا مجھے وہاں تک سرنگیں پھٹنے دھماکے اور گولیوں کی آواز نہ آتی۔ وہ ایک تاریک خاموش رات تھی اور تم جانتے تھے کہ مجھے آواز آئے گی۔ اسی لیے تم نے مجھے کہا تھا کہ میں سرحد تک نہ جاؤں۔ کیا تم واقعی سرحد کے پار گئے تھے۔ کیا پتا تم گئے ہی نہ ہو۔ مجھے اب تمھاری کسی بات کا یقین نہیں رہا جہان۔
کتنے دن وہ مضطرب بے چین اور دل گیر رہی تھی اور اب کتنے مزے سے ا ٓکر کہہ رہا تھا مرحبا!
یعنی کہ تم نے میری بات نہیں مانی۔ یعنی کہ تم ہمیشہ اپنی مرضی کرتی ہو۔ اور اگر میں اپنی مرضی کروں تو تم غصہ کرتی ہو اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہان نے سر جھکا کر اپنی گیلی شرٹ کو دیکھا۔ کیا کچھ رہ گیا ہے جو تم نے میرے اوپر نہیں توڑا تو ایک ہی دفعہ توڑ لو تا کہ یہ سلسلہ ختم ہو جائے۔ وہ خفگی سے بولا۔ حیا نے اس کی بھیگی شرٹ کو دیکھا۔ اسے ذرا بھی افسوس یا پچھتاوا نہیں تھا۔ فی الحال وہ اسی قابل تھا۔
میں نے تم سے کہا تھا کہ ترکی اور شام کا بارڈر سب سے آسان بارڈر ہے۔ میں نے تم سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ہمیں نہیں پکڑ سکتے جب تک ہم خود نہ چاہیں۔ آسان بارڈر کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ منہ اٹھا کر سرحدی باڑ سے چلیں جائیں گئے۔ آسان مطلب یہ تھا کہ ایسے بارڈر پہ سرحدی فوج کو ڈاج دینا آسان ہوتا ہے۔
وہ کہتا ہوا باتھ روم کی طرف گیا۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page