
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر اُنتالیس
چند لمحوں بعد ہی وہ شرٹ کا گریبان تولیے سے صاف کرتا ہوا واپس آیا تھا۔
ہم ترکی اور شام کا بارڈر اسی طرح کراس کرتے ہیں۔ کمانڈر شیعہ تھا اس لیے مجھے یہ چاہیے تھا کہ میں اسے ایران سے کال کرواتا۔ اور ایران میں میرے پاس بہترین آپشن عائشے تھی۔ عائشے نے انہیں فون کر کے ایک ایسے کرمنل کا بتایا جسے وہ پکڑنا چاہ رہے تھے۔ حالانکہ وہ آدمی اس سے ہفتہ پہلے ہی ترکی سے شام جا چکا تھا۔ لیکن ان سکیورٹی فورسز والے گدھوں کو نہیں معلوم تھا۔ شرٹ صاف کر کے اس نے گردن کے اوپر جوس کے قطرے بھی تولیے سے پونچھے پھر سر اٹھا کر گلہ آمیز نگاہوں سے حیا کو دیکھا۔
اور اگر تم کسی پر کچھ گرانے سے پہلے اس کی بات سن لو تو بہتر ہو گا۔ میں نے جس کرمنل کے بارے ميں انہیں بتایا تھا وہ وہاں جا ہی نہیں رہا تھا۔ جو بندہ میری جگہ بارڈر سے اس پوسٹ تک گیا تھا اس کو پیسوں کی سخت ضرورت تھی۔ جب وہ اسے پکڑ لیں گے تو چھ ماہ تک اسے جیل میں رکھیں گے پھر چھوڑ دیں گے اور ان چھ ماہ تک اس کے گھر والوں کا بہت اچھا گزارا ہو جائے گا۔ یہ صرف ایک متبادل تھا جو اپنی طرف سے ہم سکیورٹی فورسز کو دیتے ہیں تا کہ وہ مخبری کی گئی چوکی کی طرف اپنا فوکس رکھیں اور ایسے میں ان کی توجہ کسی قریبی چوکی سے ہٹ جایا کرتی ہے۔ اور ہم ان کی اسی بےدھیانی کا فائدہ اٹھا کر بارڈر کے پار چلے جایا کرتے ہیں۔ ترکی اور شام کا بارڈر سب اسی طرح کراس کرتے ہیں۔ ایک بندہ پکڑواتے ہیں اور پوری کی پوری فیملی قریب ہی کہیں دوسری جگہ سے بارڈر کراس کر لیا کرتی ہے۔ اور جو بارودی سرنگ پھٹی وہ ان لوگوں سے بہت دور تھی۔ صرف افراتفری پھیلانے کے لیے کیا تھا میں نے یہ سب۔
تو اس لیے اس کے جوتوں کا رخ بائیں جانب تھا۔ وہ بارڈر کی طرف جا ہی نہیں رہا تھا۔ اس نے جانا ہی بائیں طرف تھا۔ کچھ نا کچھ تو تھا جو جہان نے اسے سکھایا تھا۔ مگر اس سیکھی ہوئی بات کو وہ پہلے اپلائی کر لیتی تو اتنی پریشانی نا ہوتی۔
اگر میں تمہیں پہلے بتا دیتا کہ وہاں پر سکیورٹی فورسز والے پہلے ہی تیار ہیں۔ بارودی سرنگ پھٹے گی گولیاں چلیں گی، تو کیا تم مجھے وہاں جانے دیتیں؟ تم پریشان ہو جاتی۔ تم اتنے دن پریشانی میں گزارتی کہ کہیں میرا diversion ناکام تو نہیں ہو گیا۔ کہیں یہ نہ ہو کہ سیکیورٹی فورسز والوں کو اندازہ ہو گیا ہو اور انہوں نے آس پاس کی فورس بڑھا دی ہو۔ تم اسی طرح کی باتیں سوچتی اور پریشان ہوتی رہتی۔ اسی لیے میں نے تمہیں نہیں بتایا۔ مگر نہیں وہ حیا سلیمان ہی کیا جو میری بات مان لے جو اپنی عقل سے بےعقلی والے کام نہ کرے۔ گیلے تولیے کو صوفے کی پشت پر ڈالتے ہوئے وہ برہمی سے کہہ رہا تھا۔
حیا نے بھیگے رخسار ہتھیلی کی پشت سے صاف کیے۔
اور وہ لڑکی کون تھی جس کے ساتھ ایک دفعہ ابا نے تمہیں دیکھا تھا؟ اب مت ظاہر کرنا کہ تمہیں یاد نہیں ہے
ًًًوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عائشے تھی!
عائشے کبھی بھی تم سے اتنی بے تکلف نہیں ہو سکتی، سچ بتاؤ!
نہیں، ان فیکٹ، یاد آیا، وہ میری سیکرٹری تھی، دیمت۔ اور وہ جانتی تھی کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ اصل بات کبھی نہیں بتائے گا۔ اب بھی کچھ باتیں تھیں جو وہ نہیں بتاتا تھا۔ مگر فی الوقت وہ اسے کچھ بتانا چاہتی تھی۔
میں وہاں تمہارے لیے گئی تھی جہان میں ترکی تمہارے لیے گئی تھی۔
جہان کے خفا چہرے کے تنے ہوئے نقوش ذرا ڈھیلے پڑے اور پھر اس کے ہونٹوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔
ویری گڈ۔ میں یہی سننا چاہتا تھا۔ وہ بہت محفوظ ہوا تھا۔ میں ہمیشہ سے جانتا تھا کہ تم وہاں کپادوکیہ دیکھنے کے لیے نہیں آئی۔
کپادوکیہ کی بات کون کر رہا ہے جہان۔ اس نے اکتا کر ٹوکا۔ تمہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ تم نے مجھے کپادوکیہ خود بلایا تھا ورنہ تم کبھی مجھے ماہ سن والی بات نہ کہتے۔ تم چاہتے تھے کہ میں وہاں آوں۔ اور میں کپادوکیہ کی بات کر ہی نہیں رہی۔ وہ اس کے سامنے آکر کھڑی ہوئی اور جب بولی تو اب کی دفعہ اس کی آواز پہلے سے ہلکی تھی۔
میں ترکی تمہارے لیے گئی تھی جہان۔ میں نے سبانجی کا اسکالرشپ تمہارے لیے لیا تھا۔ میں تم سے ملنا چاہتی تھی۔ میں تم سے ان گزرے سارے ماہ و سال کا حساب لینا چاہتی تھی جن میں میں نے تمہارا انتظار کیا تھا۔ میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ میں نے تمہارا نام کب سنا میں نہیں جانتی لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ تمہارا نام ہمیشہ میرے نام کے ساتھ رہا تھا۔ اب تم اس کو محبت کہو یا کچھ اور مجھے نہیں پتہ۔ میں بس اتنا جانتی ہوں کہ نہ میں تمہارے بغیر رہ سکتی ہوں نہ تم میرے بغیر رہ سکتے ہو میجر احمد! وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرائی۔ جہان نے ایک دم اسے دیکھا اور پھر دروازے کو۔
آہستہ بولو کوئی سن لے گا۔ حیا کی مسکراہٹ ذرا سی سمٹی۔ بے اختیار اس نے تھوک نگلا۔ اف ایک بات تو رہ ہی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن بھی گا تو کیا ہو گا۔ انجان بنتے ہوئے اس نے شانے جھٹکے۔
میں نہیں چاہتا ابھی کسی کو پتا چلے سمجھا کرو نا۔ وہ ذرا سا جنھجھلایا تھا۔
اس روز جب تایا فرقان وغیرہ تمہارے بارے میں پوچھ رہے تھے اور تمہیں الزام دے رہے تھے تو میں نے ہر چیز بتا دی ان کو۔ بات کے اختتام پر اس نے جہان کا چہرہ دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں پہلے اچنبھا اترا اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے سب کو کیا بتا دیا؟ وہ بری طرح چونکا۔
وہی جو سچ تھا۔ وہی جو تمہیں بہت پہلے ان کو بتانا چاہیے تھا مگر تم میں تو ہمت ہی نہیں تھی سو میں نے سوچا تھوڑی سی ہمت میں ہی کر لوں اور میں نے بتا دیا بس! وہ جتنی لاپروائی سے کہہ رہی تھی اس کے دل کی تیز ہوتی دھڑکن اس کے برعکس تھی۔ جہان کس طرح ری ایکٹ کرے گا اس پر اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ تب یقین جو نہیں تھا کہ وہ آجائے گا۔
مگر تم نے ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اف حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کہے۔ وہ متفکر سا نظر آنے لگا تھا۔
پتہ نہیں اب سب کیسے ری ایکٹ کریں گے۔ ایک دفعہ پھر نیا ایشو۔ میں مزید ایشو افورڈ نہیں کر سکتا۔ وہ جنھجنھلایا تھا۔
تمہیں کس نے کہا ہے کہ وہ ایشو بنائیں گے۔ وہ کوئی ایشو نہیں بنائیں گے جہان۔ تمہیں شاید ایک بات نہیں پتا۔ اس کے دل کی دھڑکن نارمل ہوئی اور جھک کر فرش سے پلاسٹک کا گلاس اٹھایا۔ پھر سیدھی ہو کر مسکراتے ہوئے بولی۔ تمہیں دنیا کی ہر تہذیب ہر ملک ہر علاقے کا پتا ہو گا۔ تمہیں بہت ساری زبانیں آتی ہوں گی۔ مگر ایک جگہ تم غلطی کر گئے ہو۔ تم پاکستان میں کم رہتے ہو نا تمہیں پتا نہیں ہے ہم پاکستانی مارشل لاء کے بھلے کتنے ہی خلاف کیوں نا ہو جائیں ہمیں اپنے جرنیلوں ڈکٹیٹر سے کتنے ہی شکوے کیوں نا ہوں ہم ان کی پالیسز سے کتنا ہی اختلاف کیوں نا کریں۔ مگر یہ بات ہمیشہ سے طے ہے کہ ہم اپنی فوج سے واقعی محبت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
جہان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر اس کے متفکر چہرے پر ذرا سی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہوئی۔
اور کیا اس ہم میں تم بھی شامل ہو؟
یہ ایک پہیلی ہے اور اس کا جواب تمہیں خود ڈھونڈنا ہو گا۔ اب تم کام کرو اور میں ذرا عائشے کو بتا دوں کہ تم واپس آ گئے ہو۔
کون عائشے؟ وہ جیسے بہت الجھ کر بولا۔ وہ ٹھہر گئی۔ ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی خیز لہر دوڑ گئی۔
میرا مطلب تھا پھوپھو کو بتا دوں۔ آف کورس تمہاری طرح میں بھی کسی عائشے کو نہیں جانتی۔
جہان نے اثبات میں سر ہلایا، یعنی اب اسے ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی ہو گی۔ عائشے بہارے کا باب بند ہو گیا تھا۔
کیا اب تمہیں کہیں جانا ہو گا یا تم گھر پہ رہو گے؟
کیوں نہیں جانا ہو گا۔ آج تو ویسے بھی میرا یوم حساب ہے۔ یوم حساب۔ ایک ایک پائی کا حساب دینا ہو گا۔ ان تین سال کا حساب دیتے ہوئے بھی ایک عمر نکل جائے گی۔ وہ واپس بیگ کی طرف مڑنے لگا مگر ایک دفعہ پھر اپنی گیلی شرٹ کو دیکھ کر رکا۔
اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آخری دفعہ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک! اس نے حیا کے ہاتھ میں پکڑے گلاس اور اپنی گیلی شرٹ کو دیکھتے ہوئے تنبیہہ کی۔ حیا نے بڑی مشکل سے مسکراہٹ اپنے لبوں پہ روکی۔
آئم سوری۔ بس میں غصے میں آ گئی تھی۔
پھر اپنی مسکراہٹ چھپاتی وہ تیزی سے باہر نکل گئی۔ جو پہلی چیز اس نے جہان پہ گرائی تھی وہ بھی سلش ہی تھا مگر وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ آج کا گرایا ہوا سلش وہ آخری چیز ہوگی جو اس نے جہان پہ گرائی ہے یا نہیں البتہ یہ طے تھا کہ اتنی آسانی سے وہ اپنی عادت نہیں چھوڑنے والی۔
••••••••••••••••••••••
سارے گھر میں خوشیاں اتر آئی تھیں۔ وہ خوشیاں جن کا اس نے بہت انتظار کیا تھا۔ پچھلے سال دسمبر میں سبانجی کی میل کے بعد ان چھ سات ماہ میں پہلی دفعہ وہ دل سے خوش ہوئی تھی۔ بہت مشکل سے یہ خوشی اس کو ملی اور وہ اس کو پورا پورا جینا چاہتی تھی۔
ابا اور پھپھو نے فیصلہ کیا تھا کہ جہان اور اس کی منگنی کا فنکشن بھی روحیل اور نتاشا کے ولیمے کے ساتھ رکھا جائے یعنی اسے بھی دلہن بننا تھا۔ ہاں رخصتی اس کی ڈگری ختم ہونے کے بعد ہی کی جائے گی۔ فنکشن اس سنڈے کو تھا او جب ڈیسائڈ ہوا تھا سارے گھر میں افراتفری اور رونق سی لگ گئی تھی۔ جہان زیادہ تر گھر سے باہر رہتا تھا لیکن جب بھی آتا اس کا استقبال ہمیشہ عزت اور احترام سے کیا جاتا۔ اس کی توقع کے برعکس تایا ابا، ابا، صائمہ تائی نے اس سے کچھ نہیں پوچھا تھا۔ کوئی گلہ یا کوئی طعنہ نہیں دیا تھا۔ جس نے پوچھنا تھا پھوپھو سے پوچھ لیا تھا۔ شاید اس سے پوچھنے کی کسی میں ہمت ہی نہیں ہوئی۔ تایا فرقان میں بھی نہیں۔
وقت بھی کیسے بدل جاتا ہے!
ہاں البتہ وہ اس سے اس کی جاب کے بارے میں اس کے کیریر کے بارے میں اور اس کے آنے والے کاموں کے بارے میں ضرور پوچھا کرتے تھے اور وہ ان کے سامنے بیٹھا دھیمے لہجے میں مختصر سے جواب دے رہا ہوتا تھا۔ ایک لحاظ سا تھا جو سب نے اپنے اور اس کے درمیان کھڑا کر دیا تھا۔ پتا نہیں وہ ان سب سے خوش بھی تھا یا نہیں۔ مگر وہ بہت خوش تھی۔
اس وقت بھی کچن میں بیٹھے مہمانوں کی لسٹ بناتے ہوئے وہ مسلسل آپ ہی آپ مسکرا رہی تھی۔ اس کے مقابل پنیر کیک کے آمیزے میں چمچہ ہلاتی ارم نے دزدیدہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔
تم نے فنکشن کا جوڑا لے لیا؟ جب ارم سے اس کی مسکراہٹ سہی نہ گئی تو اس نے پوچھ ہی لیا۔ اسے فاطمہ نے اسپیشل پنیر کیک کے لیے بلوایا تھا۔ کیونکہ فیملی میں وہ سب سے اچھا پنیر کیک بناتی تھی۔
اس کی بات پہ حیا زرا سا چونکی پھر نفی میں سر ہلا دیا۔ ارٓڈر تو دے دیا تھا مگر ابھی پک نہیں کیا۔
ہاں ویسے کافی لکی ہو تم۔ ہے نا؟ ارم نے چمچہ گول گول ہلاتے ہوئے کہا۔ کتنی آسانی سے بیٹھے بٹھائے اتنا ہینڈسم شوہر تمہیں مل گیا۔
بیٹھے بیٹھائے؟ حیا نے تعجب سے سوچا پھر دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔ اس کے پاؤں پہ زخموں کے نشان ابھی موجود تھے۔ بیٹھے بیٹھائے تو کچھ بھی نہیں ملتا۔ ارم نہیں جانتی تھی کہ اس خوشی کو پانے سے پہلے وہ کتنے صحرا ننگے پاؤں آبلہ پا چلی تھی۔ وہ کتنا جلی تھی۔ کیا سہا تھا اس نے۔ ارم تو کچھ بھی نہیں جانتی تھی مگر اسے جتانا بیکار تھا۔ اس فنکشن اور اس کی گہما گہمی میں حیا اتنی خوش تھی کہ اس نے ویڈیو والی بات کو دوبارہ نہیں چھیڑا تھا۔ شاید ارم اب جہان کے آنے کے بعد احساس کر کے خود ہی وہ ویڈیو واپس لے لے۔ شاید کچھ نہ کچھ وہ کر لے۔
لاؤنج میں پھوپھو اور اماں ولیمے کے انتظامات ڈسکس کر رہی تھیں۔ حیا کے لبوں پہ پھر سے مسکراہٹ امڈ آئی۔
اماں! نتاشا آ گئی شاپنگ سے؟
ہاں ابھی ابھی آئی ہے ساڑھی لے کر۔ مجھے دکھا کر اندر رکھنے گئی ہے۔ فاطمہ نے ہلکا سا سیڑھیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کی روحیل کا کمرہ اوپر تھا۔ البتہ فاطمہ کے چہرے پہ ناخوش سا تاثر تھا۔
حیا جاؤ نتاشا کو بلا کر لاؤ۔ پھوپھو کو بھی دکھا دے ساڑھی۔ تمہاری پھوپھو اندر تھیں جب وہ مجھے دکھا رہی تھی۔ اماں نے یاد آنے پہ اسے پکارا۔ ان کے چہرے پہ البتہ دبی دبی سی کڑہن تھی۔ پتہ نہیں کیا بات تھی۔ پوچھنے کا ارادہ ترک کر کے وہ پین کاغذ وہیں چھوڑ کر اٹھ گئی۔
جہان کا کمرا سیڑھیوں سے اوپر راہداری میں ایک کونے پہ تھا تو روحیل کا دوسرے کونے پہ۔ وہ آخری زینہ چڑھ کے اوپر آئی تو دیکھا جہان اور نتاشا روحیل کے کمرے کے سامنے کھڑے ہنستے ہوئے کچھ بات کر رہے تھے۔ نتاشا کے ہاتھ میں تین چار بڑے بڑے شاپنگ بیگز تھے اور وہ ہاتھ ہلا ہلا کر خالص امریکی انداز میں تیز تیز بولتی کچھ بتا رہی تھی۔ اتنی فاصلے سے آواز تو نہیں آ رہی تھی۔ وہ کیا کہہ رہے تھے مگر خوش مزاجی شناسائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ابرو تن گئے۔ (اتنے ہنس کر کبھی مجھ سے تو بات نہیں کی۔ اونہہ!)
نتاشا! اس نے پکارا۔ دونوں نے بے اختیار اسے مڑ کر دیکھا۔ جہان استقبالیہ انداز میں زرا سا مسکرایا مگر وہ ایک ناراض نگاہ اس پہ ڈال کر آگے آئی۔
نتاشا! اماں بلا رہی ہیں۔ پھپھو کو کپڑے دکھا دو۔
اوکے۔ نتاشا نے ایک نظر جہان کو دیکھ کر سر اثبات میں ہلایا اور نیچے چلی گئی۔ وہ چھبتی ہوئی نگاہوں سے نتاشا کو دیکھتی ہوئی جہان کی طرف پلٹی۔
کیا بات ہو رہی تھی اپنی بچپن کی سہیلی سے؟ وہ ذرا سا ہنس دیا۔
نہیں بھئی میں تو تمھاری وجہ سے اتنا خوش اخلاق ہو رہا تھا۔ تمہاری بھابھی ہے نا۔
میری وجہ سے تم کچھ نہیں کرتے اور اگر کچھ کرنا ہے تو شام میرے ساتھ فنکشن کے کپرے لینے چلو۔
اگر تمہیں نہیں پسند ہوئے تو بدل لیں گے۔ نتاشا کو بھول کر اسے کپڑوں کی بات یاد آگئی تھی۔
ایک تو پتہ نہیں ہماری منگنی کتنی دفعہ ہو گی۔ وہ اس فنکشن کے آئیڈیا سے اکتا جاتا تھا۔
اب ہو رہی ہے تو ہونے دو۔ کیا تم آج شام چلو گے؟
نہیں شام میں ذرا بزی ہوں۔ کل چلوں گا۔ پرامس۔
وہ نیچے آئی تو پھپھو اکیلی بیٹھی تھیں۔ اماں وہاں نہیں تھیں نہ ہی نتاشا۔
نتاشا صائمہ بھابی کی طرف گئی ہے انہیں شاپنگ دکھانے۔ تمہاری اماں لان میں ہیں۔ اس کے پوچھنے پہ پھپھو نے بتایا تھا۔ اوکے۔ اس نے سر پہ ڈوپٹہ لیا اور پورچ کے طرف کھلتے دروازے کی طرف آئی۔ پٹ ذرا سا کھولا تو برآمدے میں فاطمہ اور روحیل روبرو کھڑے نظر آئے۔ فاطمہ غصے اور خفگی سے روحیل سے کچھ بحث کر رہی تھیں اور وہ آگے سے کچھ کہنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔
یہ پہن کر جائے گی وہ ولیمے میں؟ حد ہوتی ہے روحیل! وہ گھر میں کیا کیا پہنے نہیں پھرتی، میں خاموش ہو جاتی ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے اور تمہارے ابا کو برا نہیں لگتا۔ مگر اس فنکشن میں ہزاروں لوگ ہوں گے روحیل! کچھ احساس ہے تمہیں؟
مگر اماں ایسا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اماں اس کی نہیں سن رہی تھیں۔
شلوار قمیض لہنگا کچھ لے لیتی۔ بھلے سر پہ ڈوپٹا نہ لیتی تب بھی خیر تھی۔ مگر یہ سلیولیس بیک لیس بے ہودہ سی ساڑھی اٹھا کر لے آئی ہے تمہاری بیوی۔ ہمارے خاندان میں کبھی ایسا لباس پہنا ہے کسی نے؟
اماں کیا ہو گیا ہے۔ حیا بھی تو سیلولیس پہن لیتی تھی۔ اور اماں کے تو مانو سر پہ لگی تلووں پہ بجھی۔
میری بیٹی کا نام مت لو! وہ ایک دم غصے میں آ گئی تھیں۔ میری بیٹی جب گھر سے نکلتی ہے تو عبایا پہن کر چہرہ ڈھانپ کر نکلتی ہے۔ خاندان میں کوئی نہیں ہے جو میری بیٹی کے برابر کا ہو۔
مگر اماں پہلے تو حیا بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے کی بات مت کرو روحیل! ہم حیا کی بات کر بھی نہیں رہے۔ ہم تمہاری بیوی کی بات کر رہے ہیں!
اچھا ٹھیک ہے۔ میں بات کروں گا اس سے۔ وہ جیسے جان چھڑانے والے انداز میں بولا تھا۔ مگر اماں قائل نہیں ہوئی تھیں۔ وہ اور بھی کچھ کہنے کا ارادہ رکھتی تھیں مگر حیا دبے قدموں واپس پلٹ گئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔ دل بھر آیا تھا۔
ابھی کل ہی تو وہ جب شاپنگ پہ جانے کے لیے دھلے کپڑوں میں سے عبایا ڈھونڈ رہی تھی تو اماں جھنجھلا کر کہہ رہی تھیں کہ ہر وقت اتنا برقع کانشس ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کی غیر موجودگی میں اماں اس کے بارے میں کچھ اور ہی کہہ رہی تھیں۔
دل سے تسلیم کر لینے اور زبان سے اعتراف کر لینے میں فرق ہوتا ہے اور وہ فرق فاطمہ پاٹ نہں پا رہی تھیں۔
••••••••••••••••••••
حیا نے کاؤنٹر پہ رکھے ڈبے کے ڈھکن کو بند کرنے سے پہلے ایک دفعہ جوڑے کو دیکھا اور پھر جہان کے چہرے کو۔
کیسا لگا تمہیں؟ اس نے ذرا اشتیاق ذرا فکر مندی سے پوچھا۔ پتہ نہیں اس کا ٹیسٹ جہان کو اچھا بھی لگتا ہے یا نہیں۔
ہاں اچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شاپ میں شاید اس سے زیادہ تبصرہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ بس ذرا سے شانے اچکائے۔
حیا نے ایک دفعہ پھر اس تہہ شدہ جوڑے کو دیکھا۔ حالانکہ منگنی اور نکاح جیسے موقعوں پر لڑکیاں لائٹ پنک پستہ گرین یا ہلکا نیلا پہننا پسند کرتی تھیں۔ پھر بھی اس نے یہ رنگ منتخب کیا تھا۔ وہ لمبا گھیر دار پاؤں تک آتا فراک تھا۔ ساتھ چوڑی دار پاجامہ سارا لباس ایک ہی رنگ میں تھا۔ گرے کلر اور گرے کا بھی درمیانہ سا شیڈ۔ نہ بہت ہلکا نہ بہت گہرا۔ پورے فراک پر نگینوں اور سفید موتیوں کا کام تھا۔ گرے اور سلور کا امتزاج۔ پھپھو اس کو وائٹ گولڈ اور ڈائمنڈ کا سیٹ دے رہی تھیں اور اس کی مناسبت سے اس کو یہ رنگ سب سے بہترین لگا تھا۔
حیا نے ڈبا بند کیا اور اسے شاپنگ بیگ میں ڈالتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ جہان اس کے پیچھے چلتے ہوئے باہر آیا۔
کیا تمہیں واقعی پسند آیا تھا۔ تمہارے چہرے سے تو نہیں لگ رہا تھا؟ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ متفکر سی بولی۔
نہیں مجھے پسند آیا۔ بہت اچھا کلر تھا لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگنیشن میں چابی ڈالتے ہوئے جہان نے شانے اچکائے۔
لیکن میں صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ کیا؟ وہ جانتی تھی کہ وہ بات کو کس طرف لے کر جا رہا ہے پھر بھی اس نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
یہی کہ تم اس لباس کیساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ تم پردہ کیسے کرو گی دلہن بن کر۔ وہ شاید کافی دیر سے یہی سوچ رہا تھا۔ حیا کے لبوں پہ ہلکی سی اسرار بھری مسکرہٹ ابھر کر معدوم ہوئی۔
کر لوں گی۔ گاڑی اب سڑک پر دوڑ رہی تھی اور وہ زرا سی مسکراتے ہوئے ونڈ اسکرین کے پار دکھ رہی تھی۔
کیا تم اس کام دار لباس پہ برقع لو گی یا چادر وغیرہ؟
نہیں میں برقع نہیں لوں گی۔
تو کیا تم اس کے کام والے ڈوپٹے سے نقاب کرو گی؟ جہان کو کہتے ہوئے بھی یی بات بہت عجیب لگ رہی تھی۔ بہت ہی آکورڈ۔ نقاب نہیں کامدار ڈوپٹے سے نقاب۔ اور اسے شاید لگا تھا کہ حیا آگے سے اس کی بات کی تصدیق کر دے گی۔
نہیں میں دوپٹے سے نقاب تو نہیں کروں گی۔
تو پھر تم کیا کرو گی؟
حیا نے آنکھوں میں اسی مسکراہٹ کو سموئے گردن موڑ کر جہان کو دیکھا۔ وہ جیسے اس بات پہ بہت سوچنے کے باوجود بھی کسی نتیجے پہ نہیں پہنچ سکا تھا۔
جہان کچھ باتوں میں میں تم سے زیادہ اسمارٹ ہوں۔ تم ہی نے کہا تھا نا کہ رستہ ہوتا ہے۔ میں نے بھی رستہ نکال لیا ہے۔
اچھا! پھر دیکھتے ہیں تم کیا کرتی ہو۔ وہ اس کی بات پہ محفوظ ہو کر زرا سا مسکرایا۔
تھوڑی ہی دیر بعد اسے محسوس ہوا کہ گاڑی گھر کی بجائے کہیں اور جا رہی ہے۔
کیا ہم گھر نہیں جا رہے؟ اس نے تذبذب سے پوچھا۔
پہلے ہمیں کچھ اٹھانا ہے۔ میں نے بیکری پہ کچھ آرڈر کیا تھا۔ وہ اسٹیرنگ وہیل کو گھماتے ہوئے موڑ کاٹ رہا تھا۔ حیا کو اچھنبا ہوا۔ رات ہو چکی تھی اور ان لوگوں نے ڈنر پہ گھر پہنچنا تھا۔
ایسا کیا آرڈر کیا تھا تم نے؟ شاید تمہیں یاد ہو میں نے تمہارا ایک جنجر بریڈ ہاوس توڑا تھا۔ اور حیا کا سانس لمحے بھر کو تھما۔
کیا تم نے میرے لیے جنجر بریڈ ہاوس بنایا ہے؟ وہ حیرت زدہ ہی تو رہ گئی تھی۔
تمہیں لگتا ہے میں اتنا فارغ ہوں؟ میں نے صرف ایک بیکری پہ آرڈر دیا ہے اور ہمیں صرف اسے پک کرنا ہے۔ کل ہماری منگنی تیسری دفعہ ہو رہی ہے سو، اس سے پہلے مجھے یہ حساب برابر کرنا ہے۔ مسکراہٹ دباتے ہوئے وہ بولا۔
لیکن تم نے خود نہیں بنایا نا۔
مگر پیسے تو میں ہی دے رہا ہوں نا؟ اور یہ بات کرتے ہوئے اس غریب آدمی کے چہرے پہ خفگی سمٹ آئی۔ حیا بے ساختہ گردن موڑ کر شیشے کے باہر دیکھنے لگی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ جہان اس کی آنکھوں میں آتی مسکراہٹ دیکھ پائے۔
اس بیکر نے بہت محنت سے جنجر بریڈ ہاوس بنایا تھا۔ وہ اتنا ہی پیارا تھا جتنا حیا کا اپنا جنجر بریڈ ہاوس- پتا نہیں کیوں اسے لگا تھا کہ یہ والا ہاوس زیادہ پیارا تھا۔
کاونٹر پر ٹرے پہ رکھا وہ خوبصورت سا ہاوس جس کے اوپر الابلا کینڈیز، جیلی سے ڈریسنگ کی گئی تھی۔
نہیں اسے پیک نہ کریں ٹوٹ جائے گا۔ بہت نازک ہے۔ میں اس کو یونہی اٹھا لوں گی۔ حیا نے بہت احتیاط سے جنجر بریڈ ہاوس والی ٹرے اٹھا لی۔ کپڑوں والا شاپر تو ویسے ہی گاڑی میں پڑا تھا۔ اب وہ ٹرے کو اسی طرح اٹھائے گھر لے جانا چاہتی تھی۔
اگر اس دفعہ یہ ٹوٹا تو یہ تمہاری غلطی ہو گی- جہان نے باہر نکل کر اسے تنبیہہ کی تھی۔ وہ جاب دیے بنا سہج سہج کر چلتی گاڑی تک آئی۔
پھر سارا رستہ وہ ٹرے ہاتھوں میں اٹھائے رہی تھی۔ ہاتھ دکھنے لگے تھے مگر اس نے زرا بھی بد احتیاطی نہیں کی تھی۔ یہ جنجر بریڈ ہاوس اسے اپنے والے سے زیادہ پیارا تھا۔
گاڑی گھر کے پورچ میں رکی تو جہان جلدی سے باہر نکلا اور اس کی طرف کا دروازہ کھولا- یقیننا یہ عنایت جنجر بریڈ ہاوس کیلئے تھی ورنہ اس کے لیے تو کبھی دروازہ نہیں کھلا تھا۔
وہ ٹرے اٹھائے باہر نکلی۔ جہان نے پچھلی سیٹ پہ پڑا اس کا شاپر اٹھا لیا۔
چلیے مادام آپ کے کپڑے ڈرائیور لے آئے گا۔ وہ مصنوعی بے چارگی سے کہتے ہوئے راستہ چھوڑ کر اسے آگے جانے کا اشارہ کر رہا تھا۔ حیا کے لبوں پہ مسکراہٹ امڈ آئی۔ ابھی وہ چند قدم ہی چل پائی تھی کہ جہان کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
یہ گاڑی کس کی ہے؟ شاید کوئی مہمان آیا ہے۔ اس بات پہ حیا نے گردن موڑ کر دیکھا۔ پورچ میں کھڑی اس کی گاڑی کے آگے کھڑی گاڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پیروں کے نیچے سے زمین سرکنے لگی تھی۔
اس سیاہ اکارڈ کو وہ ہزاروں گاڑیوں میں بھی پہچان سکتی تھی۔
پپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا نہیں۔ اس کی آواز لڑکھڑا گئی- ٹرے پہ جمے اس کے ہاتھ مزید سخت ہوئے۔
جہان کچھ کہے بغیر شاپنگ بیگ پکڑے اس کے آگے آگے اندر آیا- وہ جہان کے پیچھے اندر آئی۔ ایک ایک قدم بہت بھاری ہو گیا تھا۔
لاونچ کے دہانے پہ ہی اندر کا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے قدم چوکھٹ سے زرا پیچھے جم گئے۔ وہ تاریک گوشے میں کھڑی تھی۔ اندر والے لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں تھے۔
وہاں ولید صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔ سامنے ابا، اماں' صائمہ تائی' روحیل' نتاشا' پھوپھو، داور بھائی سونیا سب ہی تھے۔ سونیا تو چلو شادی شدہ تھی۔ خاندان کی رواہیت کے مطابق اس کا پردہ نہیں تھا اچھنبے کی بات تو یہ تھی کہ ارم بھی وہیں کونے میں کھڑی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جیسے وہ کچھ سرو کرنے کے بہانے یہاں آئی ہو اور پھر یہی کھڑی ہو گئی ہو۔
جہان اندر آیا ایک نظر سب کو دیکھا اور پھر ایک منٹ کہہ کر شاپنگ بیگ کی طرف اشارہ کیا۔ جیسے انہیں رکھنا ہے اور سیڑھیاں چڑھتے گیا۔ وہ وہیں اکیلی کھڑی رہ گئی۔ ٹرے کو پکڑے اس کے ہاتھ پسینے میں بھیگ گئے تھے۔
ولید نے جہان کو سیڑھیاں چڑھتے دیکھا تو گردن اس طرف موڑی۔ حیا کو دیکھتے ہوئے ایک زہریلی مسکراہٹ اس کے منہ پہ امڈ آئی۔ وہ کچھ مسرور سا واپس ان سب کی طرف مڑا جو ابھی تک الجھی نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔
جی سلیمان انکل تو میں کہہ رہا تھا کہ ہمیں اس معاملے میں آرام سے بات کرنی چاہیئے اور مس حیا۔ سوری مسز حیا تو یہ جانتی ہیں کہ میں یہاں کیوں آیا ہوں۔ اس نے بات کر کے پھر سے ایک فاتحانہ نظر حیا پہ ڈالی- ابا نے اس کے نگاہوں کے تعاقب میں حیا کو دیکھا اور پھر ولید کو۔
ولید! یہ میرا گھر ہے۔ یہاں اس طرح کے معاملے ڈسکس کرنے کا کیا مطلب ہے؟ ابا کو جیسے اس کا آنا اور یہ سب کچھ کہنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ روحیل، تایا ابا، سب کے ماتھے پہ بل تھے جیسے کسی کو یہ سب پسند نہیں آ رہا۔
بات گھر کی تھی اس لیے میں نے سوچا کہ گھر میں کر لی جائے۔ جو چیز میرے پاس ہے اسے دیکھ کر آپ کو اندازہ ہو گا کہ آپ لوگ اتنی آسانی سے میرے شئیر سیل نہیں کر سکتے۔
ولید یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ داور بھائی ناگواری سے کہتے اٹھنے لگے۔ روحیل بھی برہمی سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ ارم بھی اسی طرح کونے میں کھڑی تھی۔ شاید کسی نے اسے جانے کے لیے نہیں کہا تھا یا شاید کہا ہو تب بھی وہ کھڑی ہو گئی ہو۔ وہ غالبا سارا تماشا دیکھنا چاہتی تھی۔
اس سارے میں اگر کوئی بڑے مزے سے بیٹھی کوک کے کین سے گھونٹ گھونٹ بھر رہی تھی تو وہ نتاشہ تھی۔ ہر فکر سے بے نیاز' ہر سچویشن کو انجوائے کرتی ہوئی۔
داور! تم اسے ضرور دیکھنا چاہو گے۔ آخر اس کا تعلق تمہاری ہی شادی کے فنکشن سے تو ہے۔ وہ کہتے ہوئے کھڑا ہوا اور حیا کی طرف دیکھ کر اپنی جیب سے ایک پلاسٹک ریپر نکالا جس میں رکھی سی ڈی صاف نظر آ رہی تھی۔
کیا میں اسے چلا دوں؟ اس نے سی ڈی حیا کو دکھاتے ہوئے پوچھا۔
سب لوگ اس بات پہ مڑ کر حیا کو دیکھنے لگے تھے۔ وہ جو ساکت سی کھڑی بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس بات پہ بے اختیار اس کے قدم پیچھے ہٹے۔ کمر دیوار سے جا لگی۔ ہاتھ میں پکڑی ٹرے بہت وزنی ہو گئی تھی۔
اسی لمحے جہان خالی ہاتھ سیڑھیاں اترتا دکھائی دیا۔
جو باے کرنی ہے مجھ سے کرو۔ ہاں بولو، کیا مسئلہ ہے؟ وہ جیسے اب فارغ ہو کر بہت سنجیدگی سے کہتا ولید کے سامنے آ کر کھڑا ہوا۔
حیا نے امید سے جہان کو دیکھا۔ وہ یقیننا سمجھ جائے گا کہ یہ وہی ویڈیو ہے۔ وہ ابھی ولید کو کچھ دے مارے گا یا سی ڈی کے ٹکڑ ٹکڑے کر دے گا اسے پوری امید تھی۔
اس کی بات پہ ولید کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔ یہ شو ٹائم ہے اور تم تو اس شو کو ضرور دیکھنا چاہو گے۔ بات کے اختتام پہ ولید نے پھر حیا کو دیکھا۔ اس کا بار بار حیا کو دیکھنا سب کو الجھن اور عجیب سی کیفیت میں مبتلا کر رہا تھا۔
کیا ہے اس سی ڈی میں؟ جہان نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا البتہ آنکھوں میں ذرا سی الجھن تھی۔
وہ نہیں سمجھا تھا۔
اللہ اللہ! وہ نہیں سمجھا تھا!
اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
جہان نہیں سمجھا تھا۔ وہ کہنا چاہتی تھی چلانا چاہتی تھی۔ جہان اس سے مت پوچھو' پلیز جہان اسے گھر سے نکال دو۔ اسے کچھ دے مارو مگر اسے یہاں سے بھیج دو۔
مگر سارے الفاظ حلق میں دم توڑ گئے۔
آپ کے گھر کی چیز ہے تو آپ ضرور دیکھنا چاہیں گے اور اس کے بعد آپ فیصلہ کریں کہ آپ مجھے اپنی کمپنی میں کس حیثیت سے کام کرنے دیں گے۔
لاونچ میں خاموشی تھی۔ سب سن رہے تھے۔ بس وہی دونوں بول رہے تھے۔
حیا کا سانس آہستہ آہستہ رکنے لگا۔ دم گھٹ رہا تھا۔ فضا میں آکسیجن کم ہو گئی تھی۔
مگر اس میں ہے کیا؟
وہ رہا ٹی وی اور وہ اس کے نیچے ڈی وی ڈی رکھا ہے۔ اس کو لگا کرخود دیکھ لو بہت انجوائے کرو گے۔ اس نے سی ڈی جہان کو پکڑائی۔ حیا کے نتھنوں سے آکسیجن کا کوئی جھونکا ٹکرایا تھا۔ سانس۔ خوش گمانی۔ امید۔ ایک کرن نظر آئی تھی کہ جہان سی ڈی ہاتھ میں لیتے ہی توڑ دے گا اور ولید کو دے مارے گا۔
جہان نے ذرا تزبزب سے سی ڈی کو دیکھا اور پھر اسے تھام لیا۔ مگر اس نے اسے نہیں توڑا۔ اس نے سی ڈی کو کور سے نکالا الٹ پلٹ کر دیکھا اور پھر سر اٹھا کر ولید کی طرف متوجہ ہوا۔
آر یو شیور کہ اس میں ایسا کچھ نہیں جو کسی کی توہین کا باعث بنے۔ کیا میں واقعی اسے سب کے سامنے چلا دوں؟
اس میں جو ہے وہ سب سچ ہے۔ کوئی فکسنگ نہیں ہے۔ چلاو ضرور چلاو۔
جہان نے سی ڈی پکڑے پکڑے تایا ابا کو دیکھا۔ وہ اسی الجھی ہوئی نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ اچانک ہو کیا رہا ہے۔ اس طرح اچانک ولید کا آنا پھر ان سب سےکہنا کہ وہ ان سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے اور پھر یہ سی ڈی وغیرہ۔
جہان نے مڑ کر ارم کو دیکھا۔ کیا میں اسے چلا دوں؟ اس نے ارم سے اجازت مانگی تھی۔ وہ اس سے کیوں پوچھ رہا تھا۔ کیا اسے احساس نہیں تھا کہ یہ سی ڈی ارم نے ہی تو ولید کو دی ہو گی۔ اور اسی لیے ارم نے نہایت ہی بے نیازی سے شانے اچکائے جیسے کہہ رہی ہو میری بلا سے۔ البتہ اس کی آنکھوں میں مسکراہٹ سی تھی۔ شو ٹائم کی مسکراہٹ کہ اب آئے گا مزہ۔
جہان نے پھر ولید کو دیکھا جیسے خود بھی متذبذب تھا کہ اسے سی ڈی چلانی چاہیے یا نہیں۔
جہان نے ایک سپاٹ سی نگاہ اس پر ڈالی اور پھر اوکے کہتے ہوئے مڑا۔ اس کے قدم دیوار میں لگے ٹی وی کی طرف اٹھ رہے تھے۔
کچن کی کھلے کھڑکی سے ہوا کا جھونکا آیا اور آدھی کھلی دیوار پہ لٹکتے ونڈ چائم کی لڑیاں گول گول گھومنے لگیں۔ اسٹک اور کانچ ٹکرائے۔ خاموشی میں مدھم سا نغمہ بج اٹھا۔
ماتم کا نغمہ۔
سوگ کا نغمہ۔
جہان نے ایک قدم مزید ٹی وی کی طرف بڑھایا، باہر بادل زور کے گرجے، بجلی چمکی، اور حیا کے ہاتھ سے جنجر بریڈ ہاوس کی ٹرے گر پڑی۔ ہلکے سے ٹھڈ کی آواز سے ٹرے اوندھے منہ زمین بوس ہوئی۔ کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوا تھا۔ وہ سب اس سی ڈی دیکھ رہے تھے کہ آخر اس میں ایسا کیا ہے جسے دکھانے کے لیے ولید اتنا بے چین ہورہا تھا۔
جہان آہستہ آہستہ چلتا ٹی وی کی طرف جا رہا تھا۔ حیا کا ٹوٹا ہوا جنجر بریڈ ہاؤس اس کے قدموں میں گرا پڑا تھا۔ لیکن اسے پرواہ نہیں تھی۔ وہ بس سانس روکے لاؤنج میں بیٹھے نفوس کو دیکھ رہی تھی۔
ابا، روحیل، جہان۔ باپ، بھائی، شوہر۔ کوئی اس کے ساتھ نہ تھا۔ کوئی اسے اس پرائے مرد، بلیک میلر سے بچا نہیں سکتا تھا، مگر کیا واقعی کوئی نہیں تھا۔
اللہ تعالی۔ اس نے زور سے پکارا تھا۔ اللہ کا نام وہ واحد نام ہوتا ہے جس کو بولنے کے لیے ہونٹ ہلانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس نے بھی نقاب تلے بند ہونٹوں پیچھے زبان ہلاکر اسے پکارا تھا۔
اللہ تعالی میں بہت اکیلی ہوں میرے پاس اس وقت کوئی نہیں ہے جسے میں پکار سکوں۔
جہان اب ٹی وی کے پاس پہنچ چکا تھا۔ حیا کے دل پہ پڑتا بوجھ اب بڑھتا جا رہا تھا۔
صرف آپ ہیں جو میری مدد کر سکتے ہیں،
آپ دیں تو کوئی چھین نہیں سکتا!
جہان نے ٹی وی کا بٹن آن کیا اور پھر ریموٹ سے ڈی وی ڈی چلایا۔ اب ٹی وی اسکرین نیلی نظر آ رہی تھی۔
آپ چھین لیں تو کوئی دے نہیں سکتا!
جہان جھک کر بٹن دباتے ہوئے ڈی وی ڈی کی پلیٹ باہر نکالی۔ دفعتا ریمورٹ اس کے ہاتھ سے پھسل پڑا۔ ماربل کے فرش پہ ریمورٹ گرا تھا۔ چند لمحے مزید گزرے۔
میری مدد کریں۔ مجھے اکیلا نہ چھوڑیں!
جہان ریمورٹ اٹھا کر پھر سیدھا ہوا۔ کاش ریمورٹ ٹوٹ جاتا مگر وہ نہیں ٹوٹا تھا۔
ہر چیز اس کے خلاف جا رہی تھی۔
جہان نے خالی سانچے میں سی ڈی رکھی اور اسے واپس دھکیلا۔
مجھے ان لوگوں کے سامنے رسوا نہ کریں!
سکرین پہ مینیو لکھا آ رہا تھا۔ جہان نے ذرا پیچھے ہو کر ریمورٹ سے پلے کا بٹن دبایا۔
مجھے رسوا نہ کرنا! پلیز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلپ می۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پلیز!
حیا نے آنکھیں بند کر لیں۔ شاید سی ڈی نہ لگے وہ اندر پھنس جائے۔ شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر چند ہی لمحوں بعد اسے گانے کی ٹون سنائی دی تھی۔
شیلا کی موسیقی۔
اس کے قدموں تلے سے زمین سرکنے لگی تھی۔ سر سے آسمان ہٹنے لگا تھا۔ اسے لگا وہ ابھی گر جائے گی۔ وہ ابھی مر جائے گی۔
ویڈیو لگ چکی تھی۔ سب دیکھ رہے تھے۔
وہ خواب نہیں تھا۔ حقیقت تھی۔ وہ ایک بار پھر رسواء ہونے جا رہی تھی۔
ساری ریاضت، ساری اطاعت سب بے کار گیا تھا۔
رسوائی، گناہ۔ وہ اس کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ وہ قبر تک اس کے پیچھے آئیں گے۔
اس نے اپنی سرخ ہوتی بند آنکھیں کھولیں۔ لاونچ کا منظر دھوندلا رہا تھا۔ اس نے ابا کے چہرے ک دیکھنا چاہا جو بہت شاکڈ سے سکرین کو دیکھ رہے تھے۔ اس نے اپنے باپ کو سربازار بے عزت کر دیا تھا۔
اس نے روحیل کا چہرہ دیکھنا چاہا جیسے سمجھ نا آ رہا ہو کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
اس نے تایا ابا کے چہرے کو دیکھنا چاہا۔ غیض و غضب' غصہ پیشانی کی تنی نسیں' سرخ پڑتا چہرہ۔ اس نے صائمہ تائی اور اماں کا چہرہ دیکھا۔ ہکا بکا۔
گانا اسی طرح چل رہا تھا۔
اس نے نتاشہ کے چہرے کو دیکھا۔ وہ بڑے ستائشی انداز میں اسکرین کو دیکھتی ایکسائیٹڈ سی آگے ہو کر بیٹھی تھی۔ کوک کا کین اسی طرح اس کے ہاتھ میں تھا۔
اس کی نگاہیں نتاشہ سے ہوتی ہوئی جہان کے چہرے پہ پڑیں۔ جہان وہ واحد شخص تھا جو ٹی وی نہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ صرف چبھتی ہوئی نظروں سے ولید کو دیکھ رہا تھا۔ اور ولید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب اس نے دیکھا۔
ولید کا چہرہ سفید پڑا ہوا تھا۔ اتنا سفید جیسے کسی نے پینٹ کر دیا ہو۔ اسی پل اس نے ارم کو دیکھا۔ اس کا چہرہ بھی اتنا ہی سفید-
یہ کیا؟
ایک دم سے حیا نے گردن گھما کر اسکرین کو دیکھا۔
نقاب تلے اس کے ہونٹ زرا سے کھلے۔ آنکھوں کی پتلیاں بے یقینی سے پھیلیں۔
اسے لگا وہ کبھی سانس نہیں لے سکے گی۔
گانا بھی وہی تھا، میوزک بھی وہی تھا، سی ڈی بھی وہی تھی مگر منظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں یہ شریفوں کا مجرا نہیں تھا-نہیں۔ یہ اس کی ویڈیو تو نہیں تھی- یہ تو۔
ارم اور ولید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تصاویر کا ایک سلائیڈ شو تھا۔ ایک ایک کر کے بڑی بڑی تصاویر اسکرین پہ ابھرتی اور چلی جاتیں۔ ارم اور ولید کی تصاویر۔ اکھٹے کسی ریسٹورنٹ میں' کسی شاپنگ ایریا' کسی پارک میں۔ ساری فوٹوز سیلف فوٹوز تھیں۔ جیسے ولید کے ساتھ ہو کر ارم نے بازوں بڑھا کر خود ہی موبائل سے کھینچی ہو۔ اور اس لحاظ سے وہ دونوں بہت قریب قریب کھڑے تھے۔
ہر دو تین تصاویر کے بعد اسکین شدہ ای میلز اسکرین پہ ابھرتیں۔ ان میں سے کچھ فقرے ہائی لائٹڈ تھے۔ وہ تصاویر اتنی دیر اسکرین پہ رہتیں کہ وہ سب ان ہائی لائیٹڈ فقروں کو پڑھ لیتے۔ پھر اگلی تصاویر آ جاتی۔ ارم اور ولید کی ذاتی ای میلز۔
یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا؟ ولید ایک دم آگے بڑھنے لگا۔
ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو ان ٹانگوں پہ گھر نہیں جاؤ گے۔ وہیں کھڑے رہو۔ جہان کا وہ الجھن بھرا چہرہ وہ تزبزب سب غائب ہو گیا تھا۔
وہ اتنے سرد اور کٹیلے انداز میں بولا کہ ولید کے بڑھتے قدم وہیں رک گئے۔ اس نے ششدر سی نگاہوں سے جہان کو دیکھا۔
یہ شو ٹائم ہے نا ولید لغاری اور تم نے کہا تھا کہ اس شو کو میں بہت انجوائے کروں گا۔ میں تو کر رہا ہوں۔ تم بھی کرو مگر شاید تم کوئی غلط سی ڈی اٹھا لائے ہو۔
یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ غلط ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سچ نہیں ہے- ولید لغاری ہکلا گیا۔ کبھی وہ صوفے پہ بیٹھے نفوس کو دیکھتا کبھی جہان کو- حیا کو دیکھنا تو اسے یاد ہی نہیں رہا تھا۔
ابھی تم نے خود کہا تھا کہ یہ حقیقت ہے تمہارے کون سے بیان پہ یقین کروں میں؟وہ درشتی سے بولا مگر اسی اثنا میں داور بھائی غصے سے اٹھے تھے۔
گھٹیا انسان میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔
پلیز! جہان نے ہاتھ اٹھا کر انہیں اس کے قریب آنے سے روکا۔ ہاتھ کا استعمال مجھے بھی آتا ہے مگر یہاں خواتین بیٹھی ہیں اس لیے اس آدمی سے میں خود نبٹ لوں گا بعد میں! اور ابھی! اس نے انگشت شہادت اٹھا کر قہر آلود نگاہوں سے ولید کو دیکھتے تنبیہہ کی۔ ابھی تم یہاں سے اپنی شکل گم کر لو۔ تم سے میں بعد میں ملوں گا کیونکہ یہ سی ڈی میرے پاس ہے اور تم نہیں چاہو گے کہ تمہارا ہونے والا سسر یا اس کی بیٹی یہ سب دیکھے۔ سینیٹر عبدالولی کی بیٹی سے رشتہ ہو رہا ہے نا تمہارا؟
ولید لڑکھڑا کر پیچھے ہٹا۔ تایا ابا' ابا، روحیل سب اپنی جگہوں سے کھڑے ہو چکے تھے۔ بس نہیں چل رہا تھا کہ اس شخص کو گولی مار دیں۔
آوٹ! سلمان صاحب ضبط سے بہ زور بولے تھے۔ ولید اپنی اڑی رنگت اور بدحواس قدموں سے پلٹا۔ سامنے دیوار کے ساتھ لگی حیا کھڑی تھی۔ اس کی نقاب سے جھلکتی سیاہ آنکھوں میں بھی سکتہ طاری تھا۔ ولید ان آنکھوں میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ وہ تیزی سے باہر نکلا۔
باہر اسی طرح بارش کے قطرے گر رہے تھے۔
ٹی وی اسکرین پہ سلائیڈ شو ابھی تک چل رہا تھا۔ ارم سفید چہرے کے ساتھ وہ دیکھ رہی تھی۔ تصویریں تھیں کہ ختم ہی نہیں ہو رہی تھیں۔
یہ سب فوٹو فکسنگ ہو گی۔ پھوپھو رنجیدگی سے بولی تھیں۔ حالانکہ تصویریں بہت کلئیر تھیں مگر تایا ابا اور داور کے سرخ چہرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ارم کو کسی طوفان سے بچانا چاہتی تھیں۔
تیز بارش تھم چکی تھی۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی جاری تھی۔ کھڑکیوں کے شیشوں پہ گرتی ٹپ ٹپ کی آواز مسلسل آرہی تھی۔
پھوپھو کی بات پہ صائمہ تائی کو تقویت ملی تھی۔
یہ سب جھوٹ ہے الزام ہے میری بچی پہ- یہ سب ارم اور حیا کی تصویریں تھیں یہ لڑکا کہاں سے آ گیا ان میں؟ وہ اپنی بات منوانے کیلئے زور سے بولی تھیں۔ اور یہ ساری تصویریں حیا کے پاس تھیں اسی نے دی ہوں گی اس لڑکے کو اور نام میری بیٹی کا لگا دیا۔
گھر چلو تم لوگ! تایا فرقان قہر برساتی نگاہ سے ان کو دیکھتے ہوئے بولے تھے۔
میری بات سنیں یہ حیا کے پاس تھیں تصویریں اس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی لیے وہ لڑکا بار بار حیا کا نام لے رہا تھا۔
میری بیوی کا نام مت لیں ممانی! ابا صائمہ تائی کی بات پہ ناگواری سے احتجاج کرنے ہی لگے تھے کہ وہ جیسے غصے سے کہتا ان کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔
یہ تصویریں شاید آپ کو اپنی بیٹی کے لیپ ٹاپ سے بھی مل جائیں۔ مگر میری بیوی کا نام اگر کسی نے لیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ وہ اتنی سختی سے انگلی اٹھا کر بولا تھا کہ صائمہ تائی آگے سے کہہ نہ سکیں۔ فاطمہ اور پھوپھو نے افسوس سے ایک دوسرے کو دیکھا جیسے سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں۔
گھر آؤ تم لوگ! تایا ابا نے بہت ضبط سے سرخ پڑتی نگاہں سے بیوی کو اشارہ کیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے باہر نکل گئے۔ داوار بھائی فورا باپ کے پیچھے لپکے۔
ابا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب میں نے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ حیا نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارم نے ان کو آواز دینا چاہی۔
ارم! جہان نے حیرت اور غصے سے اسے دیکھا۔ تم میری بیوی کا نام ان سب میں کیسے لے سکتی ہو؟
تایا جا چکے تھے ارم نے بے بسی سے جہان کو دیکھا۔
تمہیں کیا لگتا ہے؟ تم لڑکیوں کو کیا لگتا ہے، ہاں؟ تم موبائل سے میسج مٹا دو گی، کال ریکارڈ حذف کردو گی تو وہ ختم ہو جائے گا؟ ایسا نہیں ہوتا ارم بی بی! ہر ایس ایم ایس ریکارڈ ہوتا ہے، ہر کال ریکارڈ ہوتی ہے۔ ایک دفعہ پھر لو میری بیوی کا نام اور میں تمہیں اپنی ایجنسی سے ولید کے فون پہ کی گئی ہر کال کی آڈیو ریکارڈنگ نکلوا کر دکھاوں گا۔ میرے لیے یہ بہت آسان ہے۔
ارم نے خشک لبوں پہ زبان پھیری اور اپنی ماں کو دیکھا مگر وہ پہلے ہی باہر جا رہی تھیں۔ وہ تیزی سے ان کی طرف لپکی۔ چوکھٹ پہ کھڑی حیا اور اس کے قدموں پہ گرے ملبے کو اس نے دیکھا بھی نہیں۔
لاونچ میں پھر سے خاموشی چھا گئی تھی۔ سب جیسے ایک دوسرے سے شرمندہ تھے۔ سوائے نتاشا کے۔