
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر پانچ
حیا نے میز تلے آہستہ سے اپنا پاؤں ڈی جے کے پاؤں پہ رکھا۔
فیملی فرنٹ کی ہما، کوئی معقول وجہ بتاؤ ان کو۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دراصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا بہت ڈرپوک ہے۔ اسے اسٹریٹ کرائم سے بہت ڈر لگتا ہے اور یہ پلی دفعہ اکیلی یورپ آئی ہے، تو یہ پوچھ رہی ہے کہ کہیں استنبول میں کوئی آرگنائزڈ کرمنلز سے تو واسطہ نہیں پڑے گا؟
حیا خفت سے سر جھکائے لب کاٹتی رہی۔ وہ خالی ہاتھ ان کے گھر آئی تھیں۔ اور انھوں نے میز بھر دی تھی، پھر بھی اس کے نخرے ختم ہونے میں نہیں آ رہے تھے۔ اسے بےحد پچھتاوا ہوا۔ وہ بات سنبھالنے پر ڈی جے کی بےحد ممنون تھی۔
قطعا نہیں، استنبول بہت محفوظ شہر ہے۔
سرخ بالوں والی لڑکی رسان سے بولی۔ یہاں پولیس کی پولیس ایسے لوگوں کو کھلے عام نہیں پھرنے دیتی۔
بالکل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ استنبول میں قانون کی بہت پاسداری کی جاتی ہے۔ ہالے نے تائید کی۔ مسز عبداللہ خاموشی سے سنتی رہیں۔ ان کے چہرے پر کچھ ایسا تھا کہ حیا انہیں دیکھے گئی۔
جب ہالے نور استنبول کی شان میں ایک لمبا سا قصیدہ پڑھ کر فارغ ہوئی تو مسز عبداللہ نے گہری سانس لی۔
خدا کرے، تمہارا واسطہ کبھی عبدالرحمن پاشا سے نہ پڑے۔
حیا نے دھیرے سے کانٹا واپس پلیٹ میں رکھا۔ ایک دم پورے ہال میں اتنا سناٹا چھا گیا تھا کہ کانٹے کی کانچ سے ٹکرانے کی آواز سب نے سنی۔
کون پاشا؟ ڈی جے نے الجھ کر مسز عبداللہ کو دیکھا۔
وہ ممبئی کا ایک اسمگلر ہے، یورپ سے ایشیاء اسلحہ اسمگل کرتا ہے۔ استنبول میں اگر چڑیا کا بچہ بھی لاپتہ ہو جائے تو اس میں پاشا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بوسفورس کے سمندر میں ایک جزیرہ ہے، ببوک ادا۔ اس جزیرے پہ اس مافیا کا راج ہے۔
اور میری مام کو خواب بہت آتے ہیں۔ ان کی بیٹی نے خفگی سے ان کو دیکھا۔
یہ لڑکیاں سمجھتی ہیں، میری عقل میرا ساتھ چھوڑنے لگی ہے۔
بالکل ٹھیک سمجھتی ہیں اور ایکسچینج اسٹوڈنٹس!کان کھول کر سن لو۔ ہالے نے قدرے تلملا کر مداخلت کی۔ استنبول میں ایسا کوئی کرائم دین نہیں ہے، یہ سب گھریلو عورتوں کے افسانے ہیں۔ یہاں کوئی بھارتی اسمگلر نہیں ہے۔
دونوں ترک لڑکیاں اپنے تئیں بات ختم کر کے اب سویٹ ڈش کی طرف متوجہ ہو چکی تھیں۔ خدیجہ بھی ان کی باتوں پہ مطمئن ہو کر شکرپارے کھانے لگی تھی، مگر حیا کے حلق میں بہت میٹھے سے شکرپارے کہیں اٹک سے گئے تھے۔
ابوظہبی انٹرنیشنل ائرپورٹ پہ س نے اس حبشی کے منہ سے پاشا کا نام سنا تھا۔ وہ نہایت مضحمل سا اپنی بیوی سے عربی میں بات کر رہا تھا۔ اپنے بیٹے کے علاج کا ذکر۔ مگر ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اور پاشا کے کام کا ذکر کر رہا ہو اور واقعی ترک گھریلو عورتوں کے افسناوں پاشا کا کوئی وجود نہ ہو۔
الوداعی لمحات میں جب باقی سب آگے نکل چکے تو مسز عبداللہ نے دھیرے سے حیا کے قریب سرگوشی کی۔
یہ لڑکیاں ستنبول کی برائی نہیں سن سکتیں۔ تمہیں اس لیے بتایا کہ تم کرائم سے ڈرتی ہو اور خوبصورت بھی ہو، خوبصورت لڑکیوں پر عموما ایسے لوگ نظر رکھتے ہیں۔
حیا نے چونک کر انہیں دیکھا۔ ان کے جھریوں زدہ چہرے پر سچائی بکھری تھی۔
وہ واقعی اپنا وجود رکھتاہے۔ وہ بالکل سن سی ہوئی انہیں دیکھے گئی۔ کیا افواہوں کا خوف مجسم صورت میں ان کے سامنے آ گیا تھا، یا ان کی عقل واقعی ان کا ساتھ چھوڑ ہی تھی؟
••••••••••••••••••••••
شام کے سائے گہرے پڑ رہے تھے، جب وہ سبانجی یونیورسٹی پہنچیں۔ سبانجی امراء کی جامعہ تھی۔ وہاں چار ماہ کے ایک سمسٹر کی فیس بھی دس ہزار ڈالر سے کم نہ تھی۔ شہر سے دور، مضافات میں واقع وہ قدرے گولائی میں تعمیر کردہ عمارت بہت پرسکون دکھتی تھی۔ چونکہ وہ جگہ استنبول شہر سے قریبا پینتالیس منٹ کے فاصلےپر تھی، اس لیے سبانجی میں ڈے اسکالرز نہیں ہوتے تھے۔ اس کے تمام طلبہ و طالبات بشمول ہالےنور جیسے لوگوں کے، جن کے گھر استنبول میں ہی تھے، ہاسٹل میں رہائش پزیر تھے۔
یونیورسٹی کی عمارت سے دور برف سے ڈھکے میدانوں میں ایک جگہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اونچی عمارتیں کھڑی تھیں۔ وہ ان کے رہائشی ڈروم بلاکس تھے۔ انگریزی حرف ایل کی صورت کھڑی تین تین منزلہ عماتیں، جن کے کمروں کے آگے بالکونیاں بنی تھیں۔ چھ کمرے ایل کی ایک لکیر پر تھے اور چھ دوسری لکیر پہ تھے۔
تمہارا کمرہ دوسری منزل پر ہے۔ ہالے نے اس کا سامان گاڑی سے نکالتے ہوئے بتایا۔ حیا اور ڈی جے دوسرا بیگ گھسیٹ کر لا رہی تھیں۔
ایل کی شکل کا ڈروم بلاک جسے ہالے بی ون کہہ رہی تھی، کے باہر گولائی میں چکر کھاتی سیڑھیاں کھلے آسمان تلے بنی تھیں، جو اوپر تک لے جاتی تھیں۔ لوہے کی ان سیڑھیوں کے ہر دو زینوں کے درمیان خلا تھا اور زینوں پہ برف کی موٹی تہہ تھی۔ ذرا سا پاؤں پھسلے اور آپ کی ٹانگ اس گیپ میں سے نیچے پھسل جائے۔ وہ تینوں گرتی پڑری بمشکل حیا کا سامان اوپر لائیں۔
کمرہ تو اچھا ہے، ہم یہاں رہیں گے؟ حیا نے ہالے کی تھمائی چابی سے اپنیdormitory کا دروازہ دھکیلا تو بے اختیار لبوں سے نکلا۔
ہم نہیں، صرف تم، کیونکہ خدیجہ کا بلاک بی ٹو ہے۔ وہ جو سامنے ہے۔ اس نے انگلی سے دور برفیلے میدان میں بنی عمارت کی جانب اشارہ کیا۔
کیا مطلب، میں ادھر اکیلی؟ وہ دنگ رہ گئی۔
بعد میں رم بدلوا سکتی ہو ڈروم آفیسر سے کہہ کر۔ ابھی تم آرام کرو۔ ہر کمرے میں چار اسٹوڈنٹس ہوتے ہیں۔ ہر اسٹوڈنٹ کی ٹیلی فون ایکسٹینشن اس کی میز پر ہوتی ہی۔ آج کل چھٹیاں ہیں، اکثر طالبعلم اپنے گھر گئےہوئے ہیں۔ تمہارا کمرہ خالی ہے مگر تم جا کر اپنے بیڈ پر ہی سونا، ترک لڑکیوں کے بستر پر کوئی سو جائے تو وہ بہت برا مانتی ہیں۔ کوئی مسئلہ ہو تو میرا ڈروم بلاک بی فور میں ہے، اوکے؟ وہ مسکرا کر بولی تو حیا نے سر ہلا دیا۔
ڈی جے نے بےچارگی سے اسے دیکھا اور ہالے کے ساتھ سیڑھیاں اترنے لگی۔
ہالے! سنو، اس بلڈنگ کے پیچھےکیا ہے؟ کسی خیال کے تحت اس نے پوچھا۔ ہالے مسکرا کر پلٹی اور بولی جنگل پھر وہ دونوں زینے اتر گئیں۔
حیا ایک جھرجھری لے کر پلٹی اور اندر کمرے میں قدم رکھا۔
کمرا خوبصورتی سے آراستہ تھا۔ ہر دیوار کے ساتھ ایک ایک ڈبل سٹوری بنک bunk رکھا تھا۔ عموما ایسے بنکس میں نیچے ایک بیڈ اور اوپر بھی بیڈ ہی ہوتا ہے لیکن اس میں نیچے بڑی سی رائٹنگ ٹیبل پڑی تھی۔ اس کے ساتھ ہی لکڑی کی سیڑھی اوپر جاتی تھی، جہاں ایک آرام دہ بیڈ تھا۔ میز پہ ایک ٹیلیفون رکھا تھا۔ وہ چاروں بنکس کو دیکھتی اپنے نام کی میز کی کرسی کھینچ کر نڈھال سی بیٹھ گئی۔
وہ ایک تھکا دینے والا دن ثابت ہوا تھا، مگر ابھی وہ تھکن کے بجائے عجیب سی اداسی میں گری تھی۔
غیر ملک، غیر خطہ، غیر جگہ اور تنہا کمرا۔ جس کے پیچھے جنگل تھا۔ اسے جانے کیوں بےچینی ہونے لگی۔ وہ فریش ہونے کے لیے اٹھی اور دروازے کی طرف بڑھی، تاکہ باہر کہیں باتھ روم ڈھوندے، ابھی اس نے دروازہ کھولا ہی تھا کہ دو کمرے چھوڑ کر ایک کمرے کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک لڑکا بیگ اٹھائے نکلا۔ اس نے جلدی سے دروازہ بند کیا اور پھر مقفل کر دیا۔
گرلز ہاسٹل میں لڑکا؟ اگر پاکستان میں ہوتی تو یقینا یہی سوچتی۔ مگر یہ بات تو سبانجی کے پراسپیکٹس میں پڑھ چکی تھی کہ وہ مخلوط ہاسٹل تھا۔ البتہ ایک کمرے کے اندر صرف ایک ہی صنف کے افراد رہ سکتے تھے۔
وہ بددل سی ہو کر واپس کرسی پہ آ بیٹھی۔
سامنے والی دیوار پر ایک سفید اور سیاہ تصویر آویزاں تھی، پینسل سے بنایا گیا وہ خاکہ ایک کلہاڑے کا تھا، جس کے پھل سے خون کی بوندیں گر رہی تھیں۔
خاکہ بےرنگ تھا، مگر خون کے قطروں کو شوخ سرخ رنگ سے بنایا گیا تھا۔
اس نے جھرجھری لے کر دوسری دیوار کو دیکھا۔
وہاں ایک لڑکی کے چہرے کا بےرنگ پنسل سے بنا خاکہ ٹنگا ہوا تھا، وہ تکلیف کی شدت سے آنکھیں میچے ہوئے تھی اس کی گردن پر چھری چل رہی تھی۔ اور اس سے بھڑکیلے سرخ خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔
وہ مضطرب سی اٹھ کھڑی ہوئی۔ ان تصاویر والی دیوار کے ساتھ لگے بنک کی میز پہ بہت سے چاقو اور چھریاں قطار میں رکھے تھے۔ ہر سائز ہر قسم اور ہر دھار کا چاقو۔ جن کے لوہے کے پھل مدھم روشنی میں چمک رہے تھے۔
وہ ایک دم بہت خوفزدہ ہو کر باہر لپکی۔
کوریڈور میں بہت اندھیرا تھا۔ دور نیچے برف سے ڈھکے میدان دکھائی دے رہے تھے۔ وہ تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھی، جیسے ہی اس نے پہلے زینے پر قدم رکھا اوپر چھت پہ لگا بلب ایک دم جل اٹھا۔
وہ ٹھٹک کر رکی اور گردن گھمائی۔ کوریڈور خالی تھا وہاں کوئی نہیں تھا۔ پھر بلب کس نے جلایا؟
اس کی گردن کی پشت کے بال کھڑے ہونے لگے۔ دھڑکتے دل کے ساتھ وہ پلٹی اور زینے اترنے لگی۔ تب ہی ایک دم ٹھا کی آواز کے ساتھ اوپر کوئی دروازہ بند ہوا۔ اس نے پتھر بن جانے کے خوف سے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی چلی گئی۔
آخری زینے سے اتر کر اس نے جیسے ہی برف زار پر قدم رکھا اوپر بالکونی میں جلتا بلب بجھ گیا۔
باہر زوروشور سے برف گر رہی تھی۔ تازہ پڑی برف سے اس کے قدم پھسلنے لگے تھے۔ سفید سفید گالے اس کے بالوں اور جیکٹ پہ آ ٹھہرے تھے۔ وہ گرتے پڑتے ڈی جے کے بلاک کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اسے پہلی دفعہ اپنی مانگی گئی کسی دعا پہ پچھتاوا ہوا تھا۔ کاش! آج یہ برف نہ پڑتی۔
بی ٹو کی دوسری منزل کی بالکونی میں دم لینے کو رکی۔ اسے منزل یاد تھی مگر کمرے کا نمبر بھول چکا تھا۔
اس نے ہونٹوں کے گرد ہاتھوں کا پیالا بنا کر زور سے آواز دی۔
ڈی جے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کہاں ہو؟
ڈی جے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی جے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دروازہ جھٹ سے کھلا اور کسی نے ہاتھ سے پکڑ کر اسے اندر کھینچا۔
اگر تم دومنٹ مزید تاخیر کرتیں تو میں مر چکی ہوتی حیا! ڈی جے بھی اس کی طرح تنہا اور خوفزدہ لگ رہی تھی۔ مگر اس کمرے میں آ کر حیا کا سارا خوف اڑن چھو ہو چکا تھا۔
ڈرو مت، تمہارے لیے ہی تو آئی ہوں۔ مجھے پتہ تھا، تم اکیلی ڈر ہی ہو گی، ورنہ میرا کیا ہے میں تو کہیں بھی رہ لیتی ہوں۔ وہ لاپروائی سے شانے اچکا کر بولی، پھر بے اختیار جمائی روکی۔ خوف ختم ہوا تو نیند طاری ہونے لگی۔
مگر ڈی جے! میں سوؤں گی کدھر؟
ان تین خالی بیڈز پر کانٹے بچھے ہوئے ہیں کیا؟
مگر ہالے نے کہا تھا کہ ترک لڑکیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فی الحال یہاں نہ ہالے نور ہے، نہ ہی ترک لڑکیاں۔۔۔۔۔۔
مگر اللہ تو دیکھ رہا ہے! غیر ملک میں اس کا سویا ہوا خوف خدا جاگ اٹھا تھا۔
اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی ہالے نور کو پتا نہیں لگنے دے گا۔ اب بستر میں گھسو اور سو جاؤ۔ خدا جانے مجھے کس پاگل کتے نے کاٹا تھا، جو ترکی آ گئی۔ آگے جھیل، پیچھے جنگل، اتنی وحشت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈی جے کمبل میں لیٹے مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔ نیند سے تو وہ بھی بےحال ہونے لگی تھی۔
سو ڈی جے کے قریبی بینک کی سیڑھیاں پھلانگ کر اوپر کمبل میں لیٹ گئی۔
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کچی نیند میں تھی جب ڈی جے نے اسے پکارا۔
ہوں؟ اس کی پلکیں اتنی بوجھل تھی کہ انہیں کھول نہیں پا رہی تھی۔
سامنے والے کمرے بڑے ہینڈسم لڑکے رہتے ہیں، میں نے انہیں کمرے میں جاتے دیکھا ہے۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ذہن غنودگی میں ڈوب رہا تھا۔
اور سنو، وہ پِلاؤ اتنا برا بھی نہیں تھا، ہمیں سفر کی تھکاوٹ ے باعث برا لگا، اور سنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر ڈی جے کے بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ سو چکی تھی۔
••••••••••••••••••••••••••••
گرلز اگلی قسط کل کو نہیں پرسوں کو پوسٹ ہو گی۔۔۔۔۔۔ کل کو چھٹی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔۔
اور اگلے کچھ دن پوسٹ آگے پیچھے ہو گئی تو پلیز برے ریمارکس نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میں تھوڑا بزی رہوں گی۔۔
دروازے پر مدھم سی دستک ہوئی تو وہ سرعت سے کرسی سے اٹھی۔ ایک نظر سوتی ڈی جے پہ ڈالی ، دوسری اپنے زیراستعمال بینک پہ جو دوباہ سے بنا سلوٹ اور شکن کے بنایا جا چکا تھا اور جس پہ ترک لڑکیوں کے اعتماد کے خون کیے جانے کی کوئی نشانی باقی نہ تھی۔۔۔۔۔۔ اور دروازہ کھول دیا۔
سلامً علیکم ایکسچینج اسٹوڈنٹس! ہالے نور ہشاش بشاش سی مسکراتی ہوئی کھڑی تھی۔ وہ یوں تھی گویا دھلی ہوئی چاندنی۔ سیاہ اسکارف چہرے کے گرد لپیٹے، ہلکی سبز لمبی جیکٹ تلے سفید جینز پہنے، شانے پہ بیگ اور ہاتھ میں چابیوں کا گچھا پکڑے وہ پوری تیاری کے ساتھ آئی تھی۔
وعلیکم السلام، آؤ ہالے!
میں تمہارے ڈروم میں گئی تھی لیکن تم وہاں نہیں تھیں۔ میں نے اندازہ کیا کہ تم یہیں ہو گی۔ ہالے نے اپنا بیگ میز پہ رکھا اور کرسی کھینچ کر نفاست سے بیٹھی۔
ہاں میں علی الصبح ہی ادھر آ گئی تھی۔ ڈی جے کی یاد آ رہی تھی۔
خدیجہ سو رہی ہے؟ ہالے نے گردن اونچی کر کے اوپر دیکھا، جہاں ڈی جے دو موٹے کمبل خود پہ ڈالے سو رہی تھی۔
ہاں اور شاید دیر تک سوتی رہے۔
اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے سوچا تھا کہ تمہارے فون رجسٹر کروانے چلیں آج۔ ترکی میں غیر ملکی فون پہ ترک سم کارڈ ایک ہفتے کے بعد بلاک ہو جاتا ہے۔
ہاں بالکل، تم لوگ جاؤ اور میرا فون بھی لے جاؤ، میں دو گھنٹے مزید سوؤں گی۔
کمبلوں کے اندر سے آواز آئی تو ہالے مسکرا دی، مسکراتے ہوئے اس کی چمکتی سرمئی آنکھیں چھوٹی ہو جاتی تھیں۔
چلو حیا! ہم دونوں چلتے ہیں۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ کھڑی ہو گئی تھیں۔ حیا صبح اپنے کمرے میں جا کر فریش ہو کر آئی تھی۔ ابھی وہ سیاہ چوڑی دار پاجامے اور ٹخنوں تک آتی سیاہ لمبی قمیص میں ملبوس تھی۔ شیفون کا ڈوپٹہ گردن کے گرد مفلر کی طرح لپیٹے، اور اوپر لمبا سیاہ سویٹر پہنے ہوئے تھی جس کے بٹن سامنے سے کھلے تھے۔
کچھ دن میرے خوش قسمت دن ہوتے ہیں، جب میرے پاس کار ہوتی ہے اور کچھ دن بدقسمت دن جب میرے پاس کار نہیں ہوتی۔ اور آج میرا خش قسمت دن ہے۔ ہالے نے اٹھتے ہوئے بتایا۔
ابھی ہم قریبی دکانوں میں جائیں گے، اگر وہاں سے فون رجسٹر نہ ہوئے تو جواہر چلیں گے، اس کے بعد وہاں سے جہانگیر۔
جواہر؟؟ حیا نے ابرو اٹھائی، جہانگیر کو اس نے کسی ترک کا نام سمجھ کر نظرانداز کر دیا۔
جواہر شاپنگ مال ہے۔ یورپ کا سب سے بڑا اور دنیاکا چھٹا بڑا شاپنگ مال!
اوہ اچھا جیسے پاک ٹاورز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوپر کمبلوں سے آواز آئی۔
پاک ٹاورز؟ ہالے نے گردن اٹھا کر خدیجہ کے کمبلوں کو دیکھا۔
ہمارا پاک ٹاورز، ایشیا کے سب سے بڑے شاپنگ مال میں شمار ہوتا ہے۔ وہ غنودہ آواز میں بولی۔
نائس! ہالے ستائش سے مسکرا کر باہر نکل گئی۔
حیا نے اس کے جانے کی تسلی کر لی، پھر لپک کر پیچھے آئی اور سیڑھی پہ چڑھ کر ڈی جے کا کمبل کھینچا۔
یہ پاک ٹاورز ایشیا کا سب سے بڑا مال کب سے ہو گیا؟
اس نے کون سا جا کر چیک کر لینا ہے۔ تھوڑا شو مارنے میں کیا حرج ہے؟
ڈی جے غڑاپ سے کمبل میں گھس گئی۔
••••••••••••••••••••••
ہالے ڈرائیو کرتے ہوئے متاسف سی بار بار معذرت کر رہی تھی۔ فون رجسٹرد نہیں ہو سکے تھے۔ Avea کی دکان پہلے تو ملی نہیں، دوسری موبائل کمپنیوں کی دوکانیں ہی ہر جگہ تھیں۔ یوں جیسے آپ کو زونگ کی دوکان کی تلاش ہو اور ہر طرف یوفون کی دوکانیں ہوں۔ بمشکل ایک دوکان ملی تو اس کا منیجر شاپ بند کر کے جا رہا تھا۔ لاکھ منتوں پر بھی اس نے دوکان نہیں کھولی اور چلا گیا۔ اب ہالے مسلسل شرمندگی کا اظہار کر رہی تھی۔
بس کرو ہالے! بعد میں ہو جائے گا، اب مجھے شرمندہ مت کرو۔
خیر، تمہارا دوسرا کام توکروں، جہانگیر چلتے ہیں۔
ہالے نے گہری سانس اندر کھینچی۔ گاڑی سڑک پر رواں دواں تھی اور کھڑکی کے باہر ہر سو برف دکھائی دے رہی تھی۔
تم ڈریس دکھاؤ، ہم پہنچنے والے ہیں۔
کدھر؟ حیا نے ناسمجھی سے ڈرائیو کرتی ہالے کو دیکھا۔
جہانگیر اور کدھر؟
وہاں کیا ہے؟
تمہاری آنٹی کا گھر، کل کہا جو تھا کہ تمہیں لے جاؤں گی، صبح بتایا بھی تھا، بھول گئیں؟
تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ادھر لے کر جا رہی ہو؟ وہ ہکابکا رہ گئی۔
ہاں نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب آیڈریس بتاؤ، اسٹریٹ نمبر تو مجھے یاد رہ گیا تھا، آگے بتاؤ۔
اوہ ہالے! اس نے ہڑبڑا کر پرس سے تڑامڑا سا کاغذ نکالا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کاغذ پر دیکھا، وہاں علاقے کا نام Cihangir لکھا تھا، وہ اسے سہانگیر پڑھتی تھی، اب اسے یاد آیا کہ ترکوں کا سی، جیم کی آواز سے پڑھا جاتا تھا۔ اگر اسے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ ادھر جانا ہے تو وہ تحائف ہی اٹھا لیتی جو اماں نے بھیجے تھے۔ ذرا اچھے کپڑے ہی پہن لیتی، تھوڑا سا میک اپ ہی کر لیتی۔😰😰😰
لو، یہ تو سامنے ہی تھا۔ اب تم جاؤ، مجھے ادھر تھوڑا کام ہے، میرا نمبر تم نے فون میں فیڈ کرلیاہے نا؟ جب فارغ ہونا تو مجھے کال کرلینا۔ میں آ جاؤں گی، گھنٹہ تو مجھے لگ ہی جائے گا، پھر کھانا ساتھ کھائیں گے۔
گاڑی رک چکی تھی۔ حیا نے بےتوجہی سے قس کی ہدایت سنیں اور دروازہ کھول کرنیچے اتری۔
اس کے دروازہ بند کرتے ہی ہالے گاڑی زن سے بھگالے گئی۔
وہ ایک خوبصورت چھوٹا سا بنگلہ تھا۔ بیرونی چاردیواری کی بجائے سفید رنگ کی لکڑی کی باڑھ لگی تھی۔ گیٹ بھی لکڑی کی باڑھ کا بنا تھا۔ گیٹ کے پیچھے چھوٹا سا باغیچہ تھا اور اس کے آگے وہ بنگلہ۔
بنگلے کی گلابی چھت مخروطی تھی۔ داخلی سفید دروازہ ذرا اونچا تھا اس تک چڑھنے کے لیے دو اسٹیپس بنے تھے۔
اسٹیپس کے دونوں اطراف خوش رنگ پھولوں والے گملے رکھے تھے۔ تو یہ تھی وہ چھوٹی سی جنت، جس میں وہ رہتا تھا، اور جس سے باہر نکلنے کا اس نے کبھی نہیں سوچا تھا
وہ گیٹ کو دھکیل کر، پتھروں کی روش پہ چلتی ان اسٹیپس تک آئی، اونچے سفید دروازے پہ سنہری رنگ کی تختی لگی تھی۔
سکندر شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ترک ہجوں میں لکھا نام اس کے پھوپھا کا ہی تھا۔ گھنٹی کی تلاش میں اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔ اس گھر میں بہت سی لکڑی کی کھڑکیاں بنی تھیں اور شاید کوئی کھڑکی کھلی بھی تھی، جس سے مسلسل ایک ٹھک ٹھک کی آواز آ رہی تھی جیسے کوئی ہتھوڑے یا کلہاڑے کو لکڑی پہ زور سے مار رہا ہو۔
اس نے کپکپاتی انگلی گھنٹی پررکھی اور سنہری ڈور ناب کے چمکتے دھات میں اپنا عکس دیکھا۔
کاجل سے لبریز بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، دونوں شانوں پر پھسل کر نیچے گرتے لمبے بال اور سردی سے سرخ پڑتی ناک۔ وہ سیاہ لباس میں چینی کی مورت لگ رہی تھی، گبھرائی ہوئی پریشان سی مورت۔
اس نے گھنٹی سے انگلی ہٹائی تو ٹھک ٹھک کی آواز بند ہو گئی۔
چند لمحے بعد لکڑی کے فرش پہ قدموں کی چاپ سنائی دی۔ کوئی انجانی زبان میں بڑبڑاتا دروازہ کھولنے آرہا تھا۔
وہ لب کاٹتے ہوئے کسی مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی،جب دروازہ کھلا۔ چوکھٹ پر بچھے ڈورمیٹ پہ اسے دروازہ کھولنے والے کے پاؤں دکھائی دیے۔ اس کی نگاہیں دھیرے سے اوپراٹھتی گئیں۔
بلیو جینز اور اوپر گرے سویٹر میں ملبوس، وہ ایک ہاتھ میں ہتھوری پکڑے کھڑا تھا۔ سوئیٹر کی آستینیں اس نے کہنیوں تک موڑ رکھی تھیں اور اس کے کسرتی بازو جھلک رہے تھے۔
حیا نے دھیرے سے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ اس کا سانس لمحے بھر کو ساکت ہوا تھا۔ وہ ویسا ہی تھا جیسے اپنے بچپن کی تصاویر میں لگا کرتا تھا۔ وہی بھورے مائل بال جو بہت اسٹائلش انداز میں ماتھےپر گرتے تھے۔ پرکشش آنکھیں، اٹھی مغرور ناک، سنہری رنگت کے تیکھے نقوش، وہ ماتھے پہ تیوری لیے آنکھیں سکیڑے اسے دیکھ رہا تھا۔
سن کمسن؟ اس نے ترک میں کچھ پوچھا تو وہ چونکی۔
سس۔۔۔۔۔۔ سبین سکندر۔۔۔۔۔۔ سبین سکندر کا گھر یہی ہے؟
جی یہی ہے۔ وہ انگریزی میں بتاکر سوالیہ جانچتی نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھنےلگا۔
اسے لگا وہ بوسفورس کے ہل پہ ہتھیلیاں پھیلائے کھڑی ہے، اور نیلے پانیوں کو چھو کر آتی ہوا اس کے بال پیچھے کو اڑا رہی ہے۔ وہ کسی گہرے خواب کے زیر اثر تھی۔ حسین خواب کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ان کی مہمان ہوں۔ پاکستان سے آئی ہوں۔ وہ اٹک اٹک کر بول رہی تھی۔ اس کے سامنے اس کی ساری خود اعتمادی ہوا ہو گئی تھی۔ ایک دم خود کو بہت کمزور محسوس کرنے لگی تھی۔ کیسی مہمان؟ اس کا انداز اکھڑا اکھڑا سا تھا، جیسے وہ کسی ضروری کام میں مصروف تھا جس میں حیا مخل ہوئی تھی۔
میں حیا ہوں۔۔۔۔۔۔ حیا سلیمان
میں حیا ہوں۔۔۔۔۔۔ حیا سلیمان۔ اس نے پرامید نگاہوں سے جہان سکندر کا چہرہ دیکھا کہ ابھی اس کا نام سن کر اس کی پرکشش آنکھوں میں وہ شناسائی کی کوئی رمق۔۔۔۔۔۔
کون حیا سلیمان؟
اس کے قدموں تلے باسفورس کا پل شق ہوا تھا وہ بےدم سی نیچے گہرے پانیوں میں جا گری تھی۔
کون حیا سلیمان؟ یہ الفاظ دہراتے ہوئے وہ سن سی ہوتی ہوئی، اسےتک رہی تھی۔ اس کی پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں۔ اس شخص کے چہرے پہ زمانوں کی اجنبیت اور بیزاری تھی، پہچاننے یا نہ پہچاننے کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ جہان سکندر تو اس سے واقف ہی نہ تھا۔
کون، مادام؟ اس نے قدرے اکتاکر دہرایا۔
حیا نے خفیف سا سر جھٹکا، پھر لب بھینچ لیے۔
میں سبین پھپھو سے ملنے آئی ہوں۔ ان کے بھائی سلیمان کی بیٹی ہوں۔ وہ جانتی ہیں مجھے۔
اوکے، اندر آ جاؤ۔ وہ شانے اچکا کر واپس پلٹ گیا۔
وہ جھجک کر اوپر زینے پر چڑھی، پائیدان دیکھ کر کچھ یاد آیا تو فورا پیر جوتوں سے نکالے اور لکڑی کے فرش پر قدم رکھا۔
فرش بےحد سرد تھا۔ دور راہداری کے اس پار جہاں اس نے جہان کو جاتے دیکھا تھا۔ وہاں سے ہتھوڑی کی ٹھک ٹھک پھر سے شروع ہو چکی تھی۔
وہ راہداری عبور کر کے کچن کے کھلے دروازے میں آ کھڑی ہوئی۔
امریکی طرز کا کچن نفاست سے آراستہ تھا۔ عین وسط میں گول میز کے گرد چار کرسیوں کا پھول بنا تھا۔ ایک جانب کاؤنٹر ساتھ وہ حیا کی طرف پشت کیے کھڑا تھا۔ اس کےہاتھ میں ہتھوڑی تھی، جس سے وہ اوپر کیبنٹ کے کھلے دروازے کے جوڑ پہ زور زور سے ضربیں لگا رہا تھا۔
وہ چند لمحے کے شش و پنج کے بعد ڈھیٹ بن کر آگے آئی اور قدرے آواز کے ساتھ کرسی کھینچی۔ وہ بےاختیار چونک کر پلٹا۔
ڈرائینگ روم میں۔۔۔۔۔ خیر! وہ ناگواری سے لب بھینچ کر واپس کیبنٹ کی طرف مڑ گیا۔ اس نے ایک ہاتھ سے کیبنٹ کے دروازے کے جوڑ پر کسی شے کو پکڑ رکھا تھا اور دوسرے سے ہتھوڑی مار رہا تھا۔
حیا سلیمان نے زندگی میں کبھی اتنی تزلیل محسوس نہیں کی تھی۔
مام۔۔۔۔۔۔۔ مام۔۔۔۔۔۔۔ چند لمحے گزرے تو وہ اسی طرح کام کی طرف متوجہ، چہرے پر ڈھیروں سنجیدگی لیے پکارنے لگا۔
وہ انگلیاں مروڑتی، ٹانگ پر ٹانگ رکھے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ دفعتا چوکھٹ پر آہٹ ہوئی، تو سر اٹھایا۔
راہداری سے برتن ہاتھ میں لیے سبین پھپھو اسی پل کچن میں داخل ہوئی تھی۔ کندھوں تک آتے باب کٹ بال اور کھلے لمبے اسکرٹ کے اوپر سرمئی سوئیٹر پہنے، وہ کچھ بولتی آ رہی تھی۔ اسے بیٹھا دیکھ کر ٹھٹک کر رکیں۔
حیا۔۔۔۔۔۔۔ میرا بچہ۔۔۔۔۔۔ تم کب آئیں؟ برتن کاؤنٹر پر تقریبا گرا کر وہ والہانہ انداز میں اس کی طرف لپکیں۔ وہ جو جہان کے سرد مہر رویے پہ بددل سی بیٹھی تھی، گڑبڑا کر اٹھی بہت گرم جوشی سے گلے لگا کر انھوں نے اس کی پیشانی چومی، پھر بےحد محبت و اپنائیت بھری نم آنکھوں سے مسکرا کر اس کا چہرہ دیکھا۔
فاطمہ نے بتایا تھا کہ تم کچھ روز تک آؤ گی ملنے۔ میں سوچ رہی تھی کہ تم تھکن اتار لو تو میں خود ہی تم سے ملنے آؤں گی۔ کیسی ہو تم؟ کتنی پیاری ہو گئی ہو۔
وہ اب اس کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھی محبت سے اس کا ہاتھ تھامے کہہ رہی تھیں۔
میں ٹھیک ہوں پھپھو! آپ کیسی ہیں؟ وہ بدقت مسکراتی انہی کی طرح انگریزی میں گفتگو کر رہی تھی۔
تم کتنی بڑی ہو گئی ہو۔ آنکھیں تو بالکل سلیمان بھائی جیسی ہیں۔
لوگ کہتے ہیں، میری آ نکھیں میری اماں سے ملتی ہیں پھپھو! وہ ہلکا سا جتاگئی۔
بھئی مجھےتم تو میرے بھائی کا ہی عکس لگتی ہو۔ اور باقی سب کیسے ہیں؟ وہ ایک ایک کا حال پوچھے گئیں۔ وہ سب کی خیریت بتا کر کہنےلگی۔
آپ داور بھائی کی شادی میں نہیں آئیں۔
داور بھی کتنا بڑا ہو گیا ہے ما شاء اللہ۔ شادی بھی ہو گئی۔ کیسی رہی شادی؟ میں نے ویڈیو دیکھی تھی تمہاری۔
اس نے چونک کر انہیں دیکھا۔
کون سی ویڈیو؟ اس کا سانس رکنے لگا۔ ایکدم ہی کمرے میں بہت سی گھٹن ہو گئی تھی۔
وہ جو داور کے ولیمہ پہ اسٹیج پہ بنائی گئی تھی۔ تم نے ریڈ فراک پہن رکھی تھی۔ میں نے روحیل کے فیس بک پہ دیکھی تھی۔
روحیل سے کانٹیکٹ ہے آپ کا؟ اس کی رکی سانس ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ بحال ہوئی۔ اور آپ فیس بک بھی یوز کرتی ہیں؟
وہ ان دونوں کی جانب پشت کیے کیبنٹ کے دروازے پر اسی طرح ضربیں لگا رہا تھا۔
ہاں، بس روحیل کی البمز دیکھنےکے لیے کرتی ہوں۔ تم استعمال کرتی ہو فیس بک؟
نہیں، پہلے کرتی تھی، پھر چھوڑ دیا۔ مجھے یہ سوشل نیٹ ورکس پسند نہیں ہیں، ہر شخص آپ کی زندگی میں جھانک رہاہوتا ہے، انسان کی کوئی پرائیویسی ہی نہیں رہتی۔
اوہ حیا! تم جہان سے ملیں؟ ایک دم خیال آنے پہ انھوں نے گردن پھیر کر اپنے بیٹے کو دیکھا، جو چہرے پر ڈھیروں سختی لیے اپنے کام کی جانب متوجہ تھا۔
جہان! تم حیا سے ملے ہو؟ یہ سلیمان بھائی کی بیٹی اور روحیل کی بہن ہے۔ تمہاری فرسٹ کزن۔
ہوں۔ مل چکاہوں۔ وہ اب جھک کر دراز سے کیل نکال رہا تھا۔
یہ رشتہ داریاں یاد رکھنے کےمعاملے میں بہت پور ہے۔ ویسے کوشش تو کرتا ہے اور اسے رشتے یاد بھی رہتے ہیں۔
دراصل پھپھو! انسان کو رشتے تب یاد رہتے ہیں جب اس کے ماں باپ اسے رشتے یاد دلائیں۔ بچوں کا کیا قصور؟ سارا قصور تو والدین کاہوتا ہے۔ اگر والدین ہی اولاد کو کبھی رشتہ داروں سے نہ ملوائیں تو الزام کس کے سر پہ رکھا جائے؟
سبین پھپھو کا جوش وخروش سے دمکتا چہرہ پھیکا پڑ گیا مگر وہ اسی طرح تلخی سےکہتی جارہی تھی۔ جہان اب بھی کام میں مصروف تھا۔
مثلا اب آپ لوگ ہیں۔ آپ کئی دہائیوں سے ادھر مقیم ہیں اور شاید آپ کا واپس آنے اور اپنے خونی رشتوں سے ملنے کا دل ہی نہیں چاہتا تو ہے ناں یہ ان فیئر۔۔۔۔۔ نہیں؟
پھپھو کا چہرہ سفید پڑ گیا تھا۔ لٹھے کی مانند سفید اور پھیکا۔ پھر وہ بدقت ذرا سا مسکرائی اور ہولے سے سر جھٹکا۔
ٹھیک۔۔۔۔۔۔ ٹھیک کہہ رہو ہو۔ بس کبھی آ ہی نہ سکے۔
وہ اب مطمئن تھی۔ اپنے لہجے پہ اسے قطعی افسوس نہیں ہوا تھا۔یہ ان لوگوں کی بےرخی تھی جس کے باعث اس کا ان سے تعلق ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا تھا۔ وہ زمین اور آسمان کے درمیان معلق تھی۔ کسی کی منکوحہ ہوکر بھی خاندان کے لڑکے اس سے امید لگانےلگے تھے۔ اس کڑوی دوائی کا ذرا سا ذائقہ یہ ذمہ دار بھی تو چکھیں، جنہیں اپنے بیٹے کو یہ بتانا یاد رہا تھا کہ وہ اس کی کزن ہے اور بس۔
دفعتا اس کی نگاہ فریج کےاوپر رکھے فوٹو فریم پہ پڑی۔ اس میں ایک خوش شکل، درمیانی عمر کے صاحب مسکرا رہے تھے۔ سر پہ آرمی کیپ اور خاکی وردی کے کندھوں پہ سجے تمغے و پھول ستارے۔
یہ پھوپھا ہیں؟ وہ گردن اٹھا کر حیرت سے تصویر دیکھنے لگی۔ سبین پھپھو نے اس کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھا اور دھیرے سے سر ہلایا۔
انسان کو رشتے تب یاد رہتے ہیں، جب اس کے ماں باپ اس کو رشتے یاد دلائیں۔ وہ پلٹے بنا خاصا جتا کر بولا تو حیا چونکی۔۔
وہ تو اسے اتنا لاتعلق سمجھ رہی تھی۔۔ اس کا خیال تھا، جہان نے اسکی تلخ باتوں پر دھیان نہیں دیا، مگرنہیں، وہ بظاہر نظرانداز کیے سب سن رہا تھا۔ وہ ذرامحتاط سی ہو کر سیدھی ہوئی۔
میرا مطلب ہے، پھوپھا آرمی میں تھے؟ پاکستان آرمی میں؟
نہیں! جہان ہتھوڑی سلیب پر رکھ کر آگے بڑھا اور فریج پہ رکھا فریم ہاتھ سے گرا دیا، تصویر والی طرف فریج کی چھت پر سجدہ ریز ہو گئی۔
حیا! تم نے کھانا تو نہیں کھایا نا؟ میں بس لگا رہی ہوں۔ پھپھو اب سنبھل کر دوبارہ ہشاش بشاش ہو گئی تھیں۔
حیا جواب دیے بنا تحیر سے فریج کے اوپر اوندھے منہ گرے فریم کو دیکھے گئی۔ اس کے ایک سوال کے جواب میں جس بدمزاجی سے جہان نے فریم گرایا تھا، وہ ابھی تک اس پہ گنگ تھی۔
ممی آپکا کیبنٹ تیار ہے۔ وہ اب کیبنٹ کھول بند کر کے چیک کر رہا تھا۔
تھینک یو جہان، اور باتھ روم کا نل بھی! پھپھو نےگول میز پہ پلاؤ کا بڑا سا پیالہ رکھتے ہوئے یاد دلایا۔
ائے ہئے۔۔۔۔۔۔ پھر وہی بدمزہ پلاؤ؟ وہ خفیف سا سر جھٹک کر رہ گئی۔
رہنے دے پھپھو! میں۔۔۔۔۔۔۔
کوئی اگر مگر نہیں۔ میں تمہارے لیے کچھ خاص نہیں بنا سکی اس لیے اب انکار کر کے مجھے شرمندہ مت کرنا۔
جیان اب دراز سے ایک ڈبہ نکال کر اندر رکھی چیزیں الٹ پلٹ کر رہا تھا۔ دفعتا ڈور بیل بجی۔ جہان نےرک کر راہداری کی سمت دیکھا پھر ڈبہ وہی چھوڑ کر باھر نکل گیا۔
شروع کرو حیا۔ پھپھو نے مسکراتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے پلیٹ تھمائی۔ اس نے شکریہ کہہ کر چاول اور تھوڑا سا لوبیہ کا مسالا پلیٹ میں نکالا۔
راہداری کے اس پار جہان کسی مرد کے ساتھ ترک میں کچھ بول رہا تھا۔ دونوں کی مدھم سی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
دوسرے ہی چمچ میں وہ پلاؤ اسے مزیدار لگنے لگا تھا۔ ڈی جے ٹھیک کہہ رہی تھی، ان کو کھانا صرف سفر کی متلی کے باعث برا لگ رہا تھا۔
پھپھو آپ کے ہاتھ میں بہت ذائقہ۔۔۔۔۔۔
حیا۔۔۔۔۔۔!
اس کا چمچہ پکڑے منہ تک جاتا ہاتھ اور بات دونوں رک گئے بےحد بےیقینی سے اس نے گردن موڑی
جہان راہداری سے اسے پکارتا چلا آ رہا تھا۔ کیا اس مغرور اور بددماغ آدمی کو اس کا نام یاد رہ گیا تھا؟
جی؟ وہ بمشکل بول پائی۔
وہ کچن کے کھلے دروازے سے اندر آیا تو حیا نے دیکھا، اس کے ہاتھوں میں ایک آدھ کھلے گلابوں کا بوکے اور ایک سفید کارڈ تھا۔
کیا تم یہاں رہنے آئی ہو؟ وہ اس کے سامنےکھڑا سختی سےپوچھنےلگا۔
نن۔۔۔۔۔۔ نہیں۔ وہ سانس روکے ان سفید گلاب کے پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔ یہ اس کے لیے نہیں ہو سکتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر اپنے ویلنٹائن کو میرے گھر کا پتہ دینے کی کیا ضرورت تھی؟
اس نے زیرلب ترک میں کسی غیر مہذب لفظ سے اس نامعلوم شخص کو نوازا اور گلدسہ و کارڈ اس کےسامنے میز پر تقریبا پھینکنےکے انداز میں رکھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے نہیں! وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے پھولوں کے اوپر گرے سفید کارڈ کو دیکھے گئی، جس پرلکھے حروف نمایاں تھے۔
فار مائی لو۔۔۔۔۔۔۔ حیاسلیمان، فرام یور ویلنٹائن۔
یہ یہاں بھی پہنچ گیا؟ وہ ابھی تک بےیقین تھی۔
جہان اپنا ٹول بکس کھولے کھڑا چیزیں الٹ پلٹ کر رہا تھا۔ کچن میں ایک شرمندہ سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ دفعتا میز پر رکھا حیا کا موبائل بج اٹھا۔ اس نے چونک کر دیکھا۔ گھر سے کال آرہی تھی اس نے کال کاٹی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
حیا۔۔۔۔۔۔ بیٹھو بچے۔۔۔۔۔ پھپھو نےاسےروکنا چاہا۔
میری۔۔۔۔۔ میری فرینڈ کال کر رہی ہے۔ وہ باہر آ گیئ ہے شاید، چلتی ہوں۔ اللہ حافظ۔
حالانکہ پھپھو کی شکل سے ظاہر تھاکہ وہ جانتی ہے کہ فون اس کی دوست کا نہیں تھا مگر انہوں نے سر ہلادیا۔ کہنے کو جیسے کچھ باقی نہیں رہا تھا۔ وہ کرسی دھکیل کر تیزی سے باہر نکل گئی۔
میز پر سفید گلاب پڑے رہ گئے۔ ڈور میٹ پر اس کے جوتے یونہی پڑے تھے۔ اس نے ان میں پاؤں ڈالے تو دیکھا ایک کاغذ ان پر گرا ہوا تھا۔ حیا جھکی اور وہ کاغذ اٹھایا۔ وہ کسی کوریئر کمپنی کی رسید تھی غالبا جو جہان نے دستخط کر کےوہیں پھینک دی تھی۔
وہ رسید الٹ پلٹ کر دیکھتی گیٹ عبور کر گئی تھی۔
وہ پھول آج ہی کی تاریخ میں کسی اے آر نے بک کروائے تھے۔ اے سے احمد اور آر سے۔۔۔۔۔؟