top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر چھ

وہ دھیرے دھیرے سڑک کنارے چلنےلگی۔ رسید ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھی۔
وہ گھنٹہ بھرپہلے تک خود اس بات سے ناواقف تھی کہ جہانگیر جا رہی ہے۔ پھر اس اے آر کو کیسے علم ہوا؟ کیا وہ اس کا پیچھا کر رہا تھا؟ کیا اس کا تعاقب کیاجارہا تھا؟ لیکن ایک پاکستانی آفیسر کے ایک غیر ملک میں اتنے ذرائع کیسے ہو سکتے تھے۔ صرف اسے تنگ کرنےکے لیے اتنی لمبی چوڑی منصوبہ بندی کون کرے گا؟ 
وہ کالونی کے سرے پر نصب بینچ پر بیٹھ گئی۔ اس کی نگاہیں برف سے ڈھکی گھاس پہ جمی تھیں۔ اسے ہالے کے آنے تک یہیں بیٹھنا تھا۔ 
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••

اس نے اگلےدن ہی ڈروم آفیسر حقان سے بات کر کےاپنا کمرہ بدلوا لیاتھا۔ اب وہ ڈی جے کے کمرے میں منتقل ہو چکی تھی۔ کمرےمیں تیسری لڑکی ایک چینی نژاد لنگ لنگ تھی۔ اس کا پورا نام اتنا لمبا اور پچیدہ تھا کہ یورپ کےلیے اپنا نام چیری رکھ لیا تھا۔ وہ ایکسچینج اسٹوڈنٹ تھی اور پی ایچ ڈی کر رہی تھی۔
چوتھی لڑکی ایک اسرائیلی یہودی ٹالی تھی۔ واقعتا ٹاہلی کے درخت کی طرح لمبی چوڑی اور گھنگھریالے بالوں والی۔ وہ بھی ایکسچینج اسٹوڈنٹ تھی۔ اور اس کی ساتھ والے کمرے کے فلسطینی ایکسچینج اسٹوڈنٹس (وہ ہینڈسم لڑکے جس کا ذکر ڈی جے نے پہلے روز کیا تھا) سے گاڑھی چھنتی تھی۔ وہ فلسطینی لڑکے اور وہ اسرائیلی لڑکی ہر جگہ ساتھ ساتھ نظر آتے تھے۔ کیمپس کی سیڑھیاں ہوں یا ہاسٹل کا کامن روم۔ وہ چاروں ساتھ ہی ہوتے۔
ان کے پاسپورٹ چیک کرؤاؤ، یا تو یہ اسرائیلی نہیں ہے، یا وہ فلسطینی نہیں ہیں۔ اتنا اتحاد اور دوستی؟ توبہ ہے بھئی! ڈی جے جب بھی ان کو ساتھ دیکھ کر آتی، یونہی کڑھتی رہتی۔ حیانے ابھی ان لڑکوں کو نہیں دیکھا تھا، نہ ہی اسے شوق تھا۔
تمام ممالک کے ایکسچینج اسٹوڈنٹس پیر تک پہنچ گئے تھے۔ وہاں کسی کو کسی ایکسچینج اسٹوڈنٹ کا نام معلوم نہیں ہوتا تھا۔ بس یہ فلسطینی ہیں، یہ چائینیز ہے، یہ نارویجن ہے، یہ ڈچ ہے اور یہ دونوں پاکستانی ہیں۔
ان کو ایک سے چارمضامین لینےکا اختیار تھا۔ ڈی جے نے دو لیےجبکہ حیا نے چار لیے۔ چوتھے ماہ کے اختتام پہ امتحان دینے کی پابندی تھی، اور یہ پانچ ماہ لازما ترکی میں گزارنے کی پابندی تھی، چاہے ہاسٹل میں رہو، چاہےنہ رہو، چاہے ساری رات باہر گزارو، کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ خوب مزے تھے۔
سبانجی میں کلاس کے اندر لڑکیوںکے اسکارف پہ پابندی تھی۔
تو یہ ہالے نور کیا کرتی ہو گی؟ حیا نے ڈی جے سے تب پوچھا، جب وہ دونوں نماز کےبہانے کلاس میں دکھائی جانےوالی ترکی کی تعارفی پریزنٹیشن سے کھسک کر آگئی تھیں اور اب پریئرہال میں بیٹھی چپس کھا رہی تھیں۔
وہ کلاس میں اسکارف اتار کرہی جاتی ہے۔ ڈی جے چپس کترتے ہوئے بتا رہی تھی۔ وہ دونوں چوکڑی مار کر کارپٹ پر بیٹھی تھیں۔ ایک طرف الماری میں قرآن و اسلامی کتب کے نسخے سجےتھے۔ دوسری طرف بہت سے اسکارف اور اسکرٹس ٹنگے ہوئے تھے۔ جینز والی ترک لڑکیاں اسکرٹ پہن کر نماز پڑھ لیتیں اور پھر بعد میں وہ اسکرٹ وہاں لٹکا کر چلی جاتیں۔ استنبول کے ہر زنانہ پریئر ہال میں ایسے اسکارف اور اسکرٹس لٹکےہوتے تھے۔
مزے کی ہے یہ ہالے نور بھی۔ وہ انگلی سے بال پیچھےکرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ اس نے بھی بلیو جینز کے اوپر گلابی سویٹر پہن رکھا تھا۔ پاکستان میں تایا فرقان کی ڈانٹ کے ڈر سے وہ جینز نہیں پہن سکتی تھی، لیکن شکر کہ یہاں وہ لوگ نہیں تھے اور وہ زندگی کو اپنی مرضی سے لطف اندوز ہو کر گزار رہی تھی۔
پرسوں تم اپنی پھپھو کے گھر گئی تھیں۔ کیسا رہا ٹرپ؟
اچھا رہا، پھپھو نے پلاؤ بنایا تھا، وہ واقعی اپنا بدمزہ پکوان نہیں ہے، جتنا ہم سمجھے تھے۔
میں تو پہلے ہی کہہ رہی تھی۔
جب پریئر ہال میں ھی خوب بور ہو گئیں تو باہر نکل آئیں۔
سرد نم ہوا دھیمی لے میں بہہ رہی تھی۔ ہری گھاس پہ سبانجی کی گول سی عمارت پورے وقار کے ساتھ کھڑی تھی، جیسے ایک گولائی کی شکل میں بنے گھر کو ہیٹ پہنا دی جائے۔ شیشےکے اونچے داخلی دروازوں کے سامنےسیڑھیاں بنی تھیں۔ سیڑھیوں کے دونوں اطراف سبزہ پھیلا تھا۔ وہ دونوں فائلیں تھامے زینے اتر رہی تھیں، جب ڈی جے نے اس کا شانہ ہلایا۔
یہ جو آخری زینے پہ تین لڑکےکھڑے ہیں، یہ وہی فلسطینی لڑکے ہیں۔ دیکھو! ٹاہلی بھی ان کے ساتھ ہے۔
اس نےہوا سے چہرے پہ آتے بال پیچھے ہٹائے اور دیکھا۔ وہ ہینڈسم اور خوش شکل سے لڑکے سیڑھیوں کے کنارے کھڑے باتوں میں مصروف تھے۔
آؤ ان سے ملتے ہیں۔
مجھے دلچسپی نہیں ہے۔ تم جاؤ، مجھے ذرا کام ہے۔
وہ کھٹ کھٹ زینہ اترتی آگے بڑھ گئی۔ ڈی جے نے اسے نہیں پکارا، وہ ان فلسطینیوں کی جانب چلی گئی۔ اور وہ یہی چاہتی تھی، ڈی جے سے دوستی اپنی جگہ، فی الحال وہ خوب آزادی سے استنبول کو کھوجنا چاہتی تھی۔ اکیلی اور تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔
قریبا گھنٹے بھر بعد وہ اپنے کمرے سے خوب تیار ہو کر نکلی اور پتھریلی سڑک پر چلنے لگی۔
اس نے بلیو جینز کے اوپر ایک تنگ، اسٹائلش سا گھٹنوں تک آتا کوٹ پہن رکھا تھا۔ شدید سردی کے باوجود ننگے پاؤں میں پانچ انچ اونچی ہیل پہنی تھی۔ ریشمی بال ہوا سے شانوں پہ اڑ رہےتھے اور گہرے کاجل کے ساتھ رس بھری کی طرح سرخ لپ اسٹک۔ اسے سرخ لپ اسٹک ہمیشہ سے پرکشش لگتی تھی اور آج اسے معلوم تھا کہ وہ بہت حسین لگ رہی ہے۔
بس اسٹاپ آ چکا تھا، جب بادل زور سے گرجے۔ یہ بس اسٹاپ یونیورسٹی کے اندر ہی تھا۔ سبانجی کی ہیروئن گورسل تھی۔ گورسل بس سروس۔ وہ سبانجی کے طلباء کے لیے ہی چلتی تھی اور انہیں استنبول شہر تک لے جاتی تھی۔ ہالے نے اسے گورسل کا شیڈول رٹوا دیا تھا۔ 
جس دن تمہاری گورسل چھٹی، تمہیں ہالے نور بہت یاد آئے گی۔ اس نے سختی سے تاکید کرتے ہوئے کہا تھا۔ گورسل اپنے مقررہ وقت سے ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کرتی تھی، اور اگر آپ چند سیکنڈ بھی تاخیر سے آئے تو گورسل گئی۔ اب دو گھنٹے بیٹھ کر اگلی گورسل کا انتظار کریں۔
جب وہ گورسل میں بیٹھی تو آسمان پہ سیاہ بادل اکٹھے ہو رہے تھے۔ جب گورسل نے باسفورس کا عظیم الشان پل پار کیا تو موٹی موٹی بوندیں پانی میں گر رہی تھیں اور جب وہ ٹاقسم اسکوائر پر اتری تو استنبول بھیگ رہا تھا۔
ٹاقسم اسکوائر استنبول کا ایک مرکزی چوک تھا۔ وہاں عین وسط میں اتاترک سمیت تاریخی شخصیات کے مجسمے نسب تھے۔ ”مجسمہ آزادی“ کے ایک طرف ہرا بھرا پارک تھا، اور دوسری طرف میٹرو ٹرین کا زیر زمین اسٹیشن۔
وہ بس سے اتری تو بارش تڑاتڑ برس رہی تھی۔ موٹے موٹے قطرے اس پہ گر رہے تھے۔ وہ سینے پہ بازو لپیٹے تیز تیز سڑک پار کرنے لگی۔ گیلی سڑک پہ اونچی ہیل سے چلنا دشوار تھا۔ چند ہی لمحوں میں وہ پوری طرح بھیگ چکی تھی۔
زیر زمین میٹرو اسٹیشن تک جاتی وہ چوڑی سیڑھیاں سامنے ہی تھیں۔ وہ تقریبا دوڑ کر سیڑھیوں کے دہانے تک پہنچی ہی تھی کہ چٹخ کی آوز آئی۔ وہ لڑکھڑائی اور گرتے گرتے بچی۔ اس کی دائیں سینڈل کی ہیل درمیان سے ٹوٹ گئی تھی۔ ٹوٹا ہوا دو انچ کا ٹکڑا بس اٹکا ہوا ساتھ لٹک رہا تھا۔
اس نے خفت سے ادھر ادھر دیکھا۔ لوگ مصروف انداز میں چھتریاں تانے گزر رہے تھے۔ شکر کہ کسی نے دیکھا نہیں تھا۔
بارش اسی طرح برس رہی تھی۔ اس کے بال موٹی گیلی لٹوں کی صورت چہرے کے اطرف میں چپک گئے تھے۔ اس نے کوفت سے ٹوٹے جوتے کے ساتھ زینہ اترنا چاہا، مگر یہ نا ممکن تھا۔ جھنجھلا کر وہ جھکی، دونوں جوتوں کے اسٹریپس کھولے، پاؤں ان میں سے نکالے اور جوتے اسٹریپس سے پکڑ کر سیدھی ہوئی۔
نیچے ٹرین کے پہنچنے کا شور مچ گیاتھا۔ وہ بھاگتے ہوئے ننگے پاؤں زینہ اترنے لگی۔
میٹرو کا ٹکٹ ڈیڑھ لیرا کا تھا، چاہے جس بھی اسٹیشن پر اترو۔ وہ ٹکٹ لے کر جلدی سے ٹرین میں داخل ہوئی تاکہ کسی کے محسوس سے قبل ہی معتبر بن کر جوتے پہن کر بیٹھ جائے۔
میٹرو میں نشستیں دونوں دیواروں کے ساتھ سیدھی قطار میں تھیں۔ کھڑے ہونے والوں کےلیے اوپر راڈ سے ہینڈل لٹک رہے تھے۔ وہ ایک ہینڈل کو پکڑے بھیڑ میں سے راستہ بنانے لگی۔ اس کی نظر کونےکی ایک خالی نشست پر تھی مگر آگے چلتے شخص نے گویا راستہ روک رکھا تھا۔ جب تک وہ کونے والی نشست پر بیٹھا نہیں، وہ آگے نہیں بڑھ سکی، پھر اس کے بیٹھتے ہی دھم سے اس کے برابر کی جگہ پر آ بیٹھی۔ وہ سیاہ سوٹ میں ملبوس شخص شناسا سالگا۔ لمحے بھر کو اس کا سانس رک سا گیا۔
وہ جہان سکندر تھا۔

بہت قیمتی اور نفیس سیاہ سوٹ میں ملبوس، جیل سے بال پیچھے کیے وہ چہرے پہ ڈھیروں سنجیدگی لئے اخبار کھول رہا تھا۔ بریف کیس اس نے قدموں میں رکھ دیا تھا۔ وہ متحیر سی بیٹھی، سامنے دیکھے گئی۔ کن اکھیوں سے اسے وہ چہرے کے آگے اخبار پھیلائے نظر آ رہا تھا۔ سامنے والی قطار اور ان کی قطار کے درمیان جگہ اوپر لگے ہینڈل پکڑ کر کھڑے لوگوں سے بھرنے لگی تھی۔
وہ اس عجیب اتفاق پر اتنی ششدر بیٹھی تھی کہ ہاتھ سے لٹکتے جوتےبھول ہی گئے۔ یاد رہا تو بس یہی کہ وہ کتنا قریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کتنا دور تھا۔ وہ اسے کیسے مخاطب کرے؟ اور اگر وہ اسے دیکھے بنا ٹرین سے اتر گیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس کا دل ڈوبنے لگا۔
مگر وہ تو شاید اسے پہچانے بھی نہ۔ اس سرد مہر، کم گو شخص سے اسے یہی توقع تھی۔
چند پل سرکے تھےکہ جہان نے صفحہ پلٹنے کی غرض سے اخبار نیچے کیا اور انگوٹھے سےاگلے صفحے کا کنارہ موڑتے ہوئے ایک سرسری نگاہ پہلو میں بیٹھی لڑکی پہ ڈالی، پھر صفحہ پلٹ کر اخبار کی طرف متوجہ ہو گیا۔ لیکن اگلے ہی پل وہ جیسے رکا اور گردن موڑ کردوبارہ اسے دیکھا۔ اس کی بھیگی موٹی لٹیں رخساروں سے چپک گئی تھیں۔ پانی کے قطرے ٹھوڑی سے نیچے گردن پہ گر رہے تھے۔ وہ اس کے متوجہ ہونے پہ بھی سانس روکے سامنے دیکھے گئی۔
"اوہ۔۔۔حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ حیرت بھری آواز کہیں دور سے آئی تھی۔ حیا نے دھیرے سے پلکیں اس کی جانب اٹھائیں۔ کاجل کی لکیر مٹ کر نیچے بہہ گئی تھی، تب بھی ان اداس آنکھوں میں عجب سحر دکھتا تھا۔
"جہان سکندر!" وہ بدقت رسماًمسکرائی۔
"حیا! کیسی ہو؟ اکیلی ہو؟" کہنے کے ساتھ جہان نے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ وہاں کوئی مسافر حیا کا ہم سفر نہیں لگ رہا تھا۔
"جی اکیلی ہوں۔"
"میں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیسی ہو؟" مسکراتے ہوئے اپنائیت سے کہتے ہوئے وہ اخبار تہہ کرنے لگا۔ وہ جو اس کے لئے ہتھوڑی اور میخیں نہیں رکھ سکتاتھا، اب اخبار رکھ رہا تھا؟ یا خدا! یہ وہی جہان سکندر تھا؟
"ممی تمہیں یاد کر رہی تھیں۔ تم پھر کب آؤ گی گھر؟" اخبار ایک طرف رکھ کراب وہ پوری طرح حیا کی جانب متوجہ تھا۔ وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔
"بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاید کچھ دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" کچھ کہنے کی سعی میں اسے محسوس ہوا، جہان کی نظریں اس کے ہاتھ پہ پھسلی تھیں، اور پیشتر اس کے کہ وہ چھپا پاتی، وہ دیکھ چکا تھا۔
"جوتے کو کیا ہوا ہے؟ اتنی سردی میں ننگے پاؤں بیٹھی ہو۔ لاؤ دکھاؤ جوتا"۔ وہ خفا ہوا تھا یا فکر مند، اسے سوچنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ جہان جوتا لینے کے لئے جھکا تو اس نے بے بسی سے ٹوٹی ہیل والی سینڈل سامنے کی۔
"یہ تو الگ ہونے والا ہے"۔ اس کے ہاتھ سے جوتا لے کر اب وہ اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ حیا نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
"جہان! رہنے دو۔"
"ٹھہرو شاید یہ جڑ جا ئے"۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جھک کر دوسرے ہاتھ سے بریف کیس میں سے کچھ نکالنے لگا۔
"جہان! لوگ دیکھ رہے ہیں!“
"یہ پکڑو زرا"۔ وہ سیدھا ہوا اور جوتا حیا کو تھمایا، پھر ہاتھ میں پکڑا ٹیپ کھولا۔ کافی لمبا سا اسٹریپ کھول کر دانت سے کاٹا۔ حیا نے جوتا سامنے کیا۔ اس نے احتیاط سے ہیل کے نچلے لٹکتے حصے کو اوپر کے ساتھ جوڑا اور اس کے گرد چکروں میں ٹیپ لگاتا گیا۔
"اب پہنو"۔ مرہم شدہ سینڈل کو اس نے جھک کر حیا کے قدموں میں رکھا۔ حیا نے اس میں پاؤں ڈالا اور اسٹریپ بند کرنے جھکی ہی تھی کہ زور پڑنے سے چٹخ ہوا اور ہیل کا ٹوٹا حصہ سرے سے ہی الگ ہو گیا۔
"اوہ!" وہ متاسف ہوا۔
"کوئی بات نہیں"۔ حیا کو شرمندگی نے آن گھیراتھا۔یہ وہ سرد مہر اور تلخ جہان نہیں، بلکہ کوئی اپنا اپنا سا شخص تھا۔
وہ جواب دینے کی بجائے جھک گیا تھا۔ حیا نے گردن ترچھی کر کے دیکھا۔ وہ اپنے بوٹ کا تسمہ کھول رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ حیا اسے روک پاتی، جہان اپنے بوٹ اتار چکا تھا۔
"پہن لو۔ باہر ٹھنڈ ہے، سردی لگ جائے گی"۔ اب وہ جرابیں اتارکر اپنے بریف کیس میں رکھ رہا تھا۔ اس کا انداز عام سا تھا، جیسے وہ روز ہی میٹرو میں کسی نہ کسی کو اپنے جوتے دے دیتا ہو۔
"نہیں، رہنے دو۔ میں ابھی مارکیٹ سے نیا لے لوں گی"۔
"پہن لو حیا!"
"مگر تم کیا کرو گے؟ تم تو آفس جا رہے ہو نا؟"
جہان نے زرا سا مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔ "آفس کے کام سے سسلی جا رہا ہوں"۔
"پھر میں تمہیں جوتے کیسے واپس کروں گی؟ پتا نہیں کب تمہارے گھر آؤں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"تم ابھی اکیلی کہیں نہیں جا رہیں۔ اگلا اسٹیشن سسلی ہے۔ ادھر ہم ساتھ مال سے جوتا خریدیں گے، پھر میں اپنے بوٹ واپس لے لوں گا"۔
"مگر تمہارے آفس کا کام۔۔۔۔۔۔۔"
"میں ننگے پاؤں جا کر کیا کروں گا؟" وہ دھیرے سے مسکرایا۔ وہ پہلی بار حیا کے لئے مسکرایا تھا۔ وہ یک ٹک کاجل کی مٹتی سیاہی والی آنکھوں سے اسے دیکھے گئی۔ اس کے چہرے سے چپکی موٹی گیلی لٹیں اب سوکھنے لگی تھیں اور ٹھوڑی سے گرتے پانی کے قطرے اب خشک ہو چکے تھے۔
"جوتے پہن لو۔ لوگ اب بھی دیکھ رہے ہیں"۔
وہ چونکی پھر خفیف سا سر جھٹکا اور دوہری ہو کر بوٹ پہننے لگی۔ وہ جب بھی سمجھتی کہ جہان لا تعلقی سے بیٹھا، اس کی بات نہیں سن رہا، وہ اس کو وہی فقرہ لوٹا دیا کرتا تھا۔ وہ سیدھی ہوئی تو جہان اخبار کھول چکا تھا۔ عجیب دھوپ چھاؤں جیسا شخص تھا۔
سسلی کے سٹاپ پہ میٹرو سے اترتے وقت حیا نے دیکھا، جہان بہت آرام سے اس کے آگے ننگے پاؤں چل رہا تھا۔ اس کے انداز میں کوئی خفت، کوئی جھجک نہ تھی۔
وہ دونوں خاموشی سے سیڑھیاں چڑھنےلگے۔ چند زینے بعد ہی سیڑھیوں کے اختتام پہ سڑک اور کھلا آسمان دکھائی دینے لگا۔ وہ جہان کے دائیں طرف تھی۔ آخری سیڑھی چڑھتے ہوئےاس نے دیکھا زمین پہ ایک کیل نکلی پڑی تھی۔ اس سے پیشتر کہ وہ مطلع کر پاتی، جہان کا پاؤں اس کیل کے نوکدار حصے پہ آیا۔ جب اس نے دوبارہ پاؤں اٹھایا تواس کی ایڑھی سے خون کی ننھی سی بوند نکل گئی تھی۔ اس نے بے اختیار جہان کے چہرے کو دیکھا۔ وہ سکون سے سیدھ میں دیکھتا تیز تیز چل رہا تھا۔
"جہان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا پاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں زخم آیا ہے۔" وہ اس کے ساتھ چلنے کی کوشش میں تیزی سے چلنے لگی تھی۔
"خیر ہے"۔ وہ رکا نہیں۔
"مگر تمہارا خون نکلا ہے"۔ وہ واقعتا ًپریشان تھی۔
"بچوں والی بات کرتی ہو تم بھی۔ اتنے زرا سے خون سے میں زخمی تو نہیں ہو گیا۔ بہت ٹف زندگی گزاری ہے میں نے۔۔۔۔۔۔ وہ دیکھو، جواہر مال۔"
اس سے کچھ کہنا بے کار تھا۔ وہ چپ ہو کر اس کے ساتھ مال کے قریب آ رکی۔
وہ ایک بلند و بالا خوبصورت، نیلے سرمئی شیشوں سے ڈھکی عمارت تھی۔ اس کے اوپر بڑا سا ستارہ اور اطرف میں چھوٹے ستارے بنے تھے۔ بڑے ستارے کے اوپر ”Cavahir mall“ لکھا تھا اور جہان ترکوں کی طرح "سی"کو "جے"پڑھ رہا تھا۔
"یہ جواہر مال ہے۔ یورپ کا سب سے بڑا اور دنیا کا چھٹا بڑا شاپنگ مال"۔ وہ فخر سے بولا تھا۔
جواہر اندر سے بھی اتنا ہی عالیشان تھا۔سفید ٹائلوں سے چمکتے فرش، اوپر تک نظر آتی پانچوں منزلوں کے برآمدے، اور ہر مال کی طرح وہ درمیان سے کھوکھلا تھا۔ عین وسط میں ایک اونچے کھجور کے درخت ٹاورز کی طرح لگے تھے، اور یہ روشنیوں و قمقموں سے مزین ٹاورز پانچویں منزل کی چھت تک جاتے تھے۔
وہ مسحور سی گردن اٹھائے اوپر پانچویں منزل کی بالکونیاں دیکھ رہی تھی، جہاں انسانوں کا ایک بےفکر، ہنستا مسکراتا ہجوم ہر سو بکھراتھا۔ رنگ، خوشبو، امارت، چمک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ یورپ تھا۔
جوتے خرید کر وہ دونوں اوپر چلے آئے۔ حیا نے جوتوں کا بل بنواتے ہی جلدی سے ادائیگی کر دی تھی تاکہ جہان کو موقع نہ مل سکے۔ وہ اس پہ خاصا خفا ہوا، مگر حیا پرسکون تھی۔ وہ ہالے نور سمیت کسی بھی ترک سے کچھ بھی لینے میں عار نہیں سمجھتی تھی مگر جہان سکندر کا احسان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی نہیں!
چوتھی منزل کی دکانوں کے آگے بنی بالکونی میں وہ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ لوگوں کے رش میں رستہ بناتی حیا کو جہان کی رفتار سے ملنے کے لیے تقریبا بھاگنا پڑ رہا تھا، پھر بھی وہ پیچھے رہ جاتی، اور وہ آگے نکل جاتا۔ وہ اس کا ساتھ دینے کی کوشش میں اب تھکنے لگی تھی۔
شاید یہی ان کی زندگی کی کہانی تھی۔
جہان نے ایک شیشے کا دروازہ کھولا اور ایک طرف ہٹ کر راستہ دیا۔
تھینک ہو۔ وہ سرخ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے مسکراتی ہوئی اندر داخل ہوئی، وہ بھی اس کے پیچھے آیا۔
وہ ریسٹورنٹ تھا۔ نرم گرم ماحول، ہیٹر اور باہر کے سرما کی ملی جلی خنکی، مدھم روشنیاں، پیچھے بجتا دھیما میوزک۔
آرڈر کرو۔ وہ ایک کونے والی میز کے گرد آمنے سامنے بیٹھ گئے تو جہان نےکہا۔ اپنا کوٹ اتار کر اس نے کرسی کی پشت پر رکھ دیا تھا اور اب وہ کف کھول کر آستین موڑ رہا تھا۔
مگر یہ دعوت کس خوشی میں ہے؟ حیا دونوں کہنیاں میز پر ٹکائے دائیں ہتھیلی ٹھوڑی تلے ٹکائےدلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ چہرے کے دونوں اطراف میں گرتے بال اب خاصے سوکھ گئے تھے۔
تمہارے اس خوبصورت کوٹ کی خوشی میں اور یہ دعوت میری طرف سے ہے، اب آرڈر کرو۔

تمہارے اس خوبصورت کوٹ کی خوشی میں اور یہ دعوت میری طرف سے ہے، اب آرڈر کرو"
حیا نے گردن جھکا کر ایک سرسری سی نگاہ اپنے کوٹ پہ ڈالی۔ "مگر دعوت تمہاری طرف سے ہے تو آرڈر تمہیں ہی کرنا چاہئیے۔
اس نے جہاں کی بات نظر انداز کر دی کہ شاید مذاق کر رہا ہے۔
"ٹھیک ہے۔ جہاں نے مینیو کارڈ اٹھایا اور صفحےپلٹنے لگا۔ وہ محو سی اسکے وجیہہ چہرے کو دیکھے گئی۔کیا وہ جانتا تھا کہ وہ اسکی بیوی ہے؟ اتنی بڑی بات وہ نہ جانتا ہو، کیا یہ ممکن تھا؟
"اس روز تم نے بہت غلط بات کی تھی جہاں! مجھے تم پہ بہت غصہ آیا تھا۔" جب وہ آرڈر کر چکا تھا وہ یونہی بند مٹھی ٹھوڑی تلے ٹکائے اسے تکتے ہوۓ بولی۔
"میں نے کیا کیا تھا؟" وہ حیران ہوا۔
"پتا نہیں کس نے میرے نام پھول بھیجے اور تم نے کہا کہ میرا ویلنٹائن۔۔۔۔۔۔ میں ایسی لڑکی نہیں ہوں جہاں! نہ ہی میں جانتی ہوں کہ وہ پھول کس نے بھیجےتھے؟"
"اوکے!" جہاں نے سمجھنے والے انداز میں اثبات میں سر کو جنبش دی، مگر وہ جانتی تھی، اسے یقین نہیں آیا۔
ریسٹورنٹ میں گہما گہمی تھی۔ اردگرد ویٹرز میزوں کے درمیان راستہ بناتے، ٹرے اٹھاۓ تیزی سے پھر رہے تھے۔ پس منظر میں بجتی موسیقی کے سُر بدل گئے۔اب ایک ترک گلوکار دھیمی لے والا گیت گنگنا رہا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ویسے تم صبح صبح کہاں جا رہی تھیں؟"
میں یہیں سیسلی آ رہی تھی، شاپنگ وغیرہ کرنے۔" ویٹر کافی لے آیا تھا اور اب ان دونوں کے درمیان جھکا ٹرے دوسرا کپ اٹھا کر میز پر رکھ رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بہادر لڑکی ہو اکیلی گھوم پھر لیتی ہو۔" جہان نے مسکرا کر کہتے ہوۓ اپنی کافی میں شکر ڈالی۔
"استنبول میں یہ بہادری مہنگی تو نہیں پڑے گی؟"
"مطلب؟" کافی کا بھاپ اڑتا ہوا کپ لبوں سے لگاتے ہوۓ جہان کی آنکھوں میں الجھن ابھری۔ اس نے ایک گھونٹ پی کر کپ نیچے رکھا۔
"مطلب ڈرگ مافیا، آرگنائزڈ کرائم اور اسٹیٹ سیکرٹ آرگنائزیشن جیسی ترکیبات سے واسطہ تو نہیں پڑے گا؟"
وہ کہنیاں میز پر رکھے آگے ہوئی اور چہرے پہ سادگی سجاۓ آہستہ سے بولی۔" کیوں کہ سنا ہے یہاں ان سب سے پالا پڑ سکتا ہے۔"
"کس سے سن لی تم نے ایسی خوفناک باتیں؟" جہاں نے مسکرا کر سر جھٹکا۔
"تم بتاؤ یہ پاشا کون ہے؟"
"پاشا کو نہیں جانتیں تو ترکی کیوں آئی ہو؟" مصطفی کمال پاشا۔۔۔۔۔۔ یا کمال اتا ترک۔۔۔۔ وہ ترکوں کا باپ تھا۔"
وہ نہیں، میں استنبول کے پاشا کی بات کر رہی ہوں، عبدالرحمن پاشا کی۔
کافی کا کپ لبوں تک لے جات ہوئے جہان نے رک کر ناسمجھی سے دیکھا۔ 
کون؟ کافی سے اڑتی بھاپ لمحے بھر کے لیے اس کے چہرے کو ڈھانپ گئی۔
ایک بھارتی اسمگلر جو یورپ سے ایشیا اسلحہ اسمگل کرتا ہے۔
کم آن! اس نے کپ رکھ کر سنجیدگی سے حیا کو دیکھا۔ استنبول میں ایسا کوئی مافیا راج نہیں ہے یہ کس نے تمہیں کہانیاں سنا دی ہیں؟ یوں ہی مشہور ہونے کےلیے کسی نے اپنے بارے میں افواہ اڑائی ہو گی۔ تم استنبول کو کیا سمجھ رہی ہو؟
ہالے کی طرح وہ ایک خالص ترک تھا۔ اپنے استنبول کے دفاع کے لیے جی جان سے تیار۔
ویٹر جہان کے اشارے پر بل کے آیا تھا اور جہان اپنے بٹوے سے کارڈ نکال کر اس کی فائل میں رکھ رہا تھا۔رائی ہوتی ہے تو پہاڑ بنتا ہے نا۔
حیا! یہ پاکستان نہیں ہے۔ جہان نے ذرا تفاخر سے جتا کر کہا تو اس کے لب بھینچ گئے۔ کارڈ رکھ کر جہان نے فائل بند کر کے ایک طرف رکھی۔
پاکستان میں بھی یہ سب نہیں ہوتا اور بل میں دوں گی۔ حیا نے تیزی سے فائل اٹھائی اور کھولی۔
جیسےمیں جانتا ہی نہیں۔ جہان کی اگلی بات لبوں میں ہی ره گئی۔ 
ان کےدائیں طرف سے ایک ویٹر ٹرےاٹھاۓ چلا آرہا تھا۔ اچانک ایک دوسرا ویٹر تیزی سے اسکے پیچھے سے آیا اور پہلے ویٹر سے آگےنکلنے کی کوشش کی۔پہلے ویٹر کو ٹھوکر لگی، وه توازن برقرار نهہ رکھ پایا اور نتیجتا اسکی دائیں ہتھیلی پہ سیدھی، رکھی لکڑی کا ٹرے شڑ شڑ کرتا بھاپ اڑاتا sizzler platter بیف اسٹیکس سمیت الٹ گیا۔ میز پہ رکھے حیا کے ہاتھ پہ ٹرے اور گرم بیف اکٹھے آکر لگے۔ وه بلبلا کر کھڑی ہوئی۔ فائل اور بل نیچے جاگرے۔
آئی ایم سوری۔۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری وه دونوں ویٹر بیک وقت چیزیں ٹھیک کرنے لگے۔ ٹرےسےکافی کا کپ بھی الٹ گیا تھا۔اور ساری کافی فرش پر گری پڑی تھی۔
جہان ناگواری سے ترک میں انہیں ڈانٹنے لگا۔ چند منٹ معذرتوں اور میز صاف کرنے میں لگ گۓ۔ وه واپس بیٹھا تو حیا اپنی کلائی سہلا رہی تھی۔
تمہیں چوٹ آئی ہے۔ دکھاؤ، زیاده جل تو نہیں گیا۔ اس نے ہاتھ بڑھایا، مگر حیا نے کلائی پیچھے کر لی۔
ذراسی چوٹ سے میں زخمی تو نہیں ہوگئی۔ بہت ٹف زندگی گزاری ہے میں نے۔ بظاہر مسکرا کر وه درد کو دبا گئی۔ ھہتھیلی سرخ پڑ چکی تھی اور شدید جل رہی تھی۔
میری بات اور ہے ہاتھ دکھاؤ۔
مگر اس نے ہاتھ گود میں رکھ لیا۔
ٹھیک ہے، اٹس اوکے، کافی کا شکریہ، اب ہمیں چلناچاہیئے۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ بل والی بات اسے بھول گئی تھی۔ 
مگر کافی توختم کر لو۔ وه قدرے پریشانی سے کھڑا ہوا۔ 
رہنےدو، انتہائی بدتہذیب ویٹرز ہیں یہاں کے، چلو۔
واپسی پہ وه اسے میٹرو اسٹیشن تک چھوڑنے آیاتھا۔ زیر زمین جاتی سیڑھیوں کے دہانے پہ وه دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے۔
تم واپس ٹاقسم نہیں آؤ گے؟ 
نہیں، وه دفتر یہاں قریب ہی ہے، جس سے کام کے سلسلے میں ملنے آیا تھا، اس طرف۔
جہان نے بازو اٹھا کر دور ایک طرف اشاره کیا۔اس نے سفید شرٹ کی آستین یوں ہی کہنیوں تک موڑ رکھی تھی۔ اور کوٹ بازو پہ ڈال رکھا تھا۔ ٹائی کی ناٹ اب تک ڈھیلی ہو چکی تھی۔ وه یقینا اس کا ایک ورکنگ ڈے خراب کر چکی تھی۔ 
ویسےتم کیا کرتے ہو؟ وه کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی گردن اٹھاۓ اسے دیکھ رہی تھی۔ 
میں ایک غریب سا ریسٹورنٹ اونر ہوں، استقلال اسٹریٹ پہ جو پہلا برگر کنگ ہے، وه میرا ہے۔ استقلال اسٹریٹ ٹاقسم اسکوائر کے بالکل ساتھ ہے۔ دیکھی ہے نا تم نے؟
اوں ہوں۔ اس نے گردن دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں ہلائی۔ 
تم اس ویک اینڈ پہ گھر کیوں نہیں آجاتیں؟ ممی خوش ہوں گی۔
اور تم؟ بےساختہ لبوں سےپهسلا۔
میں تو ویک اینڈ پر بھی ریسٹورنٹ ہوتا ہوں۔
پهر فائده، اس نے سوچا۔
کوشش کروں گی۔ وه مسکرا دی، اس نےدایاں ہاتھ جیب سے نکال کر بال پیچھے ہٹاۓ۔
تمہارا ہاتھ ابھی تک سرخ ہے، اگر کسی دوست نے پوچھ لیا تو کیا کہوگی؟
کہہ دوں گی کہ گدلی برف کے ساتھ کیچڑ تھی گھاس پ، وہیں پھسل گئی۔ اس نےلاپروائی سےشانےاچکاۓ۔ (اب کزن کے ساتھ کافی پینےکا قصہ تو سنانے سے رہی۔) 
پھسل گئی تو ہتھیلی رگڑی گئی؟
ہاں! 
اورگھٹنے؟ جہان نے مسکرا کر اس کی جینز کی طرف دیکھا۔ 
مطلب؟ حیا نےابرو اٹھاۓ۔
لڑکی! کور اسٹوری پوری بنایا کرو۔ اگر تم ہتھیلیوں کے بل کیچڑ میں گرو تو اصولا تمھارے گھٹنوں پہ بھی رگڑ آنی چاہیۓ۔ پھر وه چند قدم چل کر گھاس کے قطعے کی طرف گیا، جھک کر تین انگلیوں سے مٹی اٹھائی اور واپس آکر اس کے سامنے کی۔ اسے اپنی جینز پر لگا دو، ورنہ تمہاری فرینڈز یقین نہیں کریں گی۔
اتنابھی کوئی شکی مزاج نہیں ہوتاجہان سکندر! اس نے ہنس کر اپنے پوروں پہ ذرا سی گیلی مٹی لی اور جھک کر گھٹنوں کے اوپر جینز پہ مل دی، پهر ہاتھ جھاڑتے ہوۓ سیدھی ہوئی۔ 
میں کوشش کروں گا کہ ہفتے کی صبح سار اکام ختم کر کےگھر آجاؤں، تم ہفتےکی شام ضرور آنا۔ 
پہلی بار اسے احساس ہوا تھا کہ وه کم گو، سنجیده طبیعت کا، لیےدیے رہنے والا شخص ضرور ہے، مغرور بھی ہے اور جلدی گھلتا ملتا بھی نہیں، مگر اندر سے وہ بہت خیال رکھنے والا بھی ہے اور باریک بین بھی۔ جو معمولی باتیں وہ نظرانداز کر دیتی تھی، وہ جہان کی زیرک نگاہوں سے چھپی نہیں رہتی تھیں۔
وہ جب ہاسٹل واپس آئی تو ڈی جے اور ہالے ایک رسالہ کھولے کسی طویل بحث میں مگن تھی، ڈی جے کی نگاہ سب سے پہلے اس کے سرخ ہاتھ پر پڑی۔
ایک جگہ گدلی برف کے ساتھ کیچڑ تھی، وہی پھسل گئی۔
ڈی جے نے بے اختیار اس کے گھٹنوں پہ لگے کیچڑ کو دیکھا، پھر اثبات میں سر ہلایا۔ ہاں لگ رہا ہے۔
حیا بات بدلنے کی غرض سے بولی۔ ہالے!ہالے یہ بالکونی کی بتی کون جلاتا ہے؟ جیسے ہی اس کے نیچے جاؤ تو وہ جل اٹھتی ہے۔
ہالے جو غور سے اس کے کوٹ کو دیکھ رہی تھی، اس کے سوال پر نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔
ان میں آٹو میٹک سینسرز لگے ہیں، وہ اپنی رو میں کسی انسان کی موجودگی یا پھر تیز ہوا، آندھی وغیرہ میں خودبخود جل اٹھتی ہیں۔
اور دروازہ بہت دیر سے بند ہوا، خودبخود۔
ان دروازوں کے کیچرز سلو ہیں۔ یہ چوکھٹ پہ دیر سے آ کر لگتے ہیں، تاکہ ہر وقت کی ٹھاہ ٹھاہ سے طلبا کی پڑھائی ڈسٹرب نہ ہو۔
آہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈی جے نے سمجھ کر سر ہلایا۔ ہمارے ہاں بھی ہاسٹلز میں ایسی لائٹس اور دروازے۔۔۔۔۔۔۔
نہیں ہوتے۔ حیا نے ڈی جے کی بات تیزی سے کاٹی۔ اور پاک ٹاور ایشیا کا دوسرا بڑا مال نہیں ہے، ہمیں غلط فہمی ہوئی تھی۔ وہ جواہر دیکھ آئی تھی اور اسے اس بڑھک پر خفت ہوئی تھی۔
حیا! ڈی جے نے احتجاجا گھورا۔ ہالے ابھی تک حیا کا کوٹ دیکھ رہی تھی۔ حیا الماری کی طرف چلی گئی تو ہالے گہری سانس لے کر بولی۔
پھر حیا! تمہیں کسی ہینڈسم لڑکے نے کافی پلائی؟ وہ جو ٹوٹی جوتی والا شاپر الماری میں رکھ رہی تھی، بری طرح چونک کر پلٹی۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟ وہ تیزی سے بولی۔
کافی، چائے، لنچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں؟
نہیں، مگر کیوں؟
تم عقل مند، جو سرخ کوٹ پہن کر گئی تھیں، شہر کی سیر پہ استنبول میں، اگر اتنا زیادہ سرخ رنگ پہن کر اور ہیوی میک اپ کر کے باہر نکلا جائے تو اس کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہالے نے مسکراہٹ دبائی ”کہ یو آر لکنگ فار اے ڈیٹ، یا پھر ون نائٹ اسٹینڈ! یہاں تو لوگ ویلنٹائن ڈے پر بھی اتنا سرخ پہن کر نہیں نکلتے۔“ (چل حیا بی بی تو آزادی سیلیبریٹ کر لے)
اچھا! پتہ نہیں۔ وہ دانستہ ان کی طرف سے رخ موڑ کر الماری میں چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگی۔
یہ دعوت کس خوشی میں ہے؟
"تمہارے اس خوبصورت کوٹ کی خوشی میں۔
مارے تضحیک کے اس کے کانوں سے دھواں نکلنے لگا۔ وہ جہان کی مسکراہٹیں، وہ شائستگی، وہ ریسٹورنٹ لے جانا، وہ سب کسی اپنائیت کے جذبے کے تحت نہیں تھا، بلکہ۔۔۔۔۔ بلکہ وہ اسے کوئی بکاؤ مال کی طرح سمجھ رہا تھا، خود کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنے والی لڑکی؟ کوئی پیشہ ور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اس کے دل پہ بہت سے آنسو گر رہے تھے۔ جہان سکندر ہمیشہ اسے بے عزت کر دیا کرتا تھا۔ (ہیں۔۔۔۔۔۔۔ سچی؟؟؟)
••••••••••••••••••••••••

آہستہ آہستہ وہ جہان سکندر کے استنبول میں ایڈجسٹ ہوتی جا رہی تھی۔
ڈی جے کی نیند اور نسیان البتہ اسے عاجز کر دیتے تھے۔ ڈی جے کو ذرا کہیں ٹیک مل جاتی، وہ آنکھیں بند کر کے سونے کے لیے تیار ہو جاتی اور پھر اس کا بھلکڑ پن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا جب بھی کچھ فوٹو کاپی کروانے جاتی، اسے وہاں لاوارث پڑے کسی رجسٹر، کسی نوٹس کے جھتے، کسی کتاب پر ہمیشہ شناسائی کا گمان گزرتا۔ وہ اسےاٹھا کر دیکھتی تو بڑا بڑا ”ڈی جے“ لکھا ہوتا تھا۔ وہ ہر چیز واپس لا کر ڈی جے کے سر پر مارا کرتی تھی۔ اور ڈی جے ”یہ ادھر کیسے پہنچ گیا“ کہہ کر ہنسنے لگ جاتی۔
سبانجی میں ان کا ایک مخصوص آئی ڈی کارڈ بنا تھا۔ اس پہ تصویر کھنچوانے کی شرط اور گردن کھلی رکھنا تھی۔ وہ موبائل کے پری پیڈ کارڈ کی طرح تھی۔ گورسل کا ٹکٹ، فوٹو کاپیئر کی رقم اور دوپہر کے کھانے کا بل اسی کارڈ پہ ادا ہوتا تھا۔ اس میں موبائل کے ایزی لوڈ کی طرح بیلنس ڈلوایا جاتا تھا۔ انہیں ان پانچ ماہ میں ہر مہینے ایک ہزار یورو کا اسکالر شپ ملنا تھا، مگر چند تیکنیکی مسائل کے باعث کسی بھی اسکالر شپ ایکسچینج اسٹوڈنٹس کے فروری کے ایک ہزار یورو نہیں آئے تھے۔ امید تھی کہ مارچ میں اکٹھے دو ہزار مل جائیں گے اور پھر آگے ہر مہینے باقاعدگی سے ملا کریں گے۔ تب تک پاکستان سے آئی رقم سے گزارا کرنا تھا۔ سو آج کل سب ایکسچینج اسٹوڈنٹس کا ہاتھ تنگ تھا۔

دوپہر کا کھانا وه سبانجی کے ڈائننگ ہال میں کھاتی تھیں۔ رات کا کھانا اپنے کمرے میں خود بنانا ہوتا۔ ہر بلاک میں ایک کچن تھا۔ جہاں پر ہر اسٹوڈنٹ اپنا ناشتہ اور رات کا کھانا تیار کرتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہاں طلبہ کےلئےخصوصی ڈیزائن کرده چولھے تھے۔ اس خطرے کے پیش نظر کہ کہیں کوئی پڑھائی میں مگن چولھے پہ کچھ رکھ کے بھول جائے یا گیس کھلی چھوڑ دے اور نقصان ہو' وه چولھےآٹومیٹک تھے۔ ہر پندره منٹ بعد جب چولھا خوب گرم ہو جاتا تو خودبخود بند ہو جاتا۔ پهر پانچ منٹ بعد دوباره جل اٹھتا۔ انکو بند ہونے سے روکنے کا کوئی طریقہ نہ تھا۔ اور ایسے بیکار چولھوں پہ دیسی کھانا پکانا ناممکن تھا۔ ہاسٹل کے بلاکس کے قریب ہی ایک بہت بڑا لگژری سپراسٹور"دیاسا"تھا۔
"دیا"اسکا نام تھا اور "سا" ترک میں اسٹور کو کھہتے تھے۔ وه دونوں دیا اسٹور سے راشن لاتیں اور بل آدھا آدھا تقسیم کر لیتیں۔ ایک رات حیا کھانا بناتی اور وه بہت اچھا سا دیسی کھانا ہوتا۔ دوسری رات ڈی جے کی باری ہوتی اور جو وه بناتی، وه کچھ بھی ہوتا تھا مگر کھانا نہ ہوتا۔
ڈی جے میں یہ تمہارے سر پر الٹ دوں گی۔ وہ جب بغیر بھنے ابلی ہوئی سبزی کا سالن دیکھتی یا پهر ابلے چاولوں پہ آملیٹ کے ٹکڑے تو ڈی جے پہ خوب چلایا کرتی تھی۔ اور پهر ترکی کےمصالحے۔۔۔۔۔۔۔۔ وه اتنے پھیکے ہوتےکہ حیا چار چار چمچے بھر کے سرخ مرچ ڈالتے تو بھی ذرا سا ذائقه آتا۔ کھانے اسکے بھی پهیکے ہوتے مگر ڈی جے سے بہتر تھے۔ البتہ اپنے کمرے میں روز جب صبح ہوتی تو ڈی جے بینک کی سیڑھیاں پهلانگ کر اترتی اور اسی طرح نہار منہ کھڑکی میں کھڑی ہو جاتی۔ پھرپٹ کھول کر باہر چہره نکال کر زور سے آواز لگاتی۔
گڈ ما آآ آ رننگ ڈی جے۔ اور جواب میں دور کسی بلاک سے ایک لڑکا زور سے پکارتا۔ ٹی بے.. غالبا وه ڈی جے کے الفاظ ٹھیک سمجھ نہیں پاتا تھا۔ ڈی جے روز صبح صبح یہی عمل دہراتی تھی۔ اسکے ٹی بے کہنے کے بعد وه پکارتی"ذا.......لیل" اور وه لڑکا جوابا چلاتا دا...دی۔ اسکے بعد حیا کمبل سے منہ نکال کر کشن اٹھاتی اور ڈی جے کو زور سے دے مارتی۔ یوں اسکی اور اس ان دیکھے لڑکے کی گفتگو اختتام پذیر ہوتی۔ گھر روز ہی بات ہو جاتی تھی۔ البتہ موبائل کی رجسٹریشن میں مسئلہ ہوا تھا۔ ڈی جے کا تو رجسٹر ہوگیا، مگر حیا کےساتھ ہوا یوں کہ اسکے پاسپورٹ پہ جہاں انٹری کی تاریخ پانچ فروری لکھی تھی۔ وہاں اوپر آفیسر کے دستخط کے باعث پانچ کاہندسہ بظاہر چھ لگ رہاتھا۔ تاریخ کا ذرا سا فرق مشکل پیدا کرنے لگا اور اسکا فون رجسٹر نہ ہو سکا۔ وه ترک سم اس پہ استعمال نہیں کرسکتی تھی۔ کیونکہ ہفتے کے بعد غیر رجسٹر فون پہ ترک سم بلاک ہو جاتی تھی تو ہالے نے اسے اپنا ایک پرانا موبائل سیٹ لا دیا۔ اور وه اس بدصورت موٹے بھدے فون کو برداشت کرنے پر مجبور ہوگئی۔ اپنے موبائل پہ اس نے اپنی پاکستانی سم لگا دی تھی۔ اور وه رومنگ پر ٹھیک چل رہا تھا۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••
تمہارا کہاں کا پلان ہے؟ حیا نے چاولوں کی پلیٹ میں سے چمچہ بھرتے ڈی جے سے پوچھا۔ یہ پلاؤ اب اسکا اور ڈی جے کا مرغوب ترین کھانا بن چکا تھا۔ اور ساتھ ترک کوفتے اور پھلوں کا سلاد۔ وه دونوں آمنے سامنے ڈائننگ ہال میں بیٹھی جلدی جلدی کھانا کھا رہی تھی۔
میں سسلی جانا چاہتی ہوں شاپنگ وغیرہ کےلیے اور تم تو اپنی پھپھو کےگھر جاؤ گی نا؟ ڈی جے کوفتے کے سالن میں سے تیل نکال کر دوسرے پیالےمیں ڈال رہی تھی۔ وہ یوں ہی ہر سالن میں سے تیل نکالا کرتی تھی۔ تلی ہوئی چیزوں کو اخبار میں لپیٹ کر دباتی اور پھر کھاتی۔
ہاں اور تم ہڈیوں کا ڈھانچا اسی لیے ہو۔ حیا نے رک کر ناگواری سے اس کے عمل کو دیکھا۔ وہ بنا اثر لیے اوپر آیا تیل دوسرے پیالے میں انڈیلتی رہی۔
ڈائننگ ہال بے حد وسیع و عریض تھا۔ ہر سو زرد روشنیاں جگمگا رہی تھیں۔ وہاں دو لبمی سی قطاروں میں مستطیل میزیں لگی تھیں اور دونوں قطاروں کے چاروں طرف کرسیوں کی سرحد بنی تھی۔ ہر طرف گہما گہمی، رش اور شور سا تھا۔
دفعتا پلیٹ کے ساتھ رکھا حیا کا موبائل بج اٹھا۔ اس نے چمچہ پلیٹ میں رکھا اور نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے چمکتی اسکرین کو دیکھا۔ تایا فرقان ہوم کالنگ۔۔۔۔۔۔۔
حیا ارم بول رہی ہوں۔
ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ کیسی ہو ارم؟ نوالہ منہ میں تھا، اس لیے اس کی پھنسی پھنسی آواز نکلی۔ 
ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔ تم سناؤ۔ ارم کی آواز میں ذرا بے چینی تھی۔
سب خیریت ہے، تم سناؤ، کوئی بات ہوئی ہے کیا؟
نہیں۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔ سنو ایک بات تھی۔ ارم کی آواز دھیمی سرگوشی میں بدل گئی۔ 
کہو، میں سن رہی ہوں۔ اس کے ذہن کے پردے پر وہ ویڈیو ابھری تھی۔
وہ۔۔۔۔ یار عجیب سی بات ہے۔ مگر تم ابا وغیرہ کو نا بتانا۔ اصل میں کل شام جب میں یونیورسٹی سے واپس آئی تو گیٹ کے قریب ایک۔۔۔۔۔۔ خواجہ سرا تھا۔۔۔۔۔۔ اس نے مجھےروکا۔
حیا بالکل دم سادھےسنے گئی۔ پل بھر کو اسے ڈائننگ ہال کی آوازیں آنا بند ہو گئی تھیں۔ اس کی سماعت میں صرف ارم کے الفاظ گونج رہے تھے۔
پہلے تو میں ڈر گئی، مگر اس نے کوئی غلط حرکت نہیں کی تو مجھےتسلی ہوئی۔ وہ مجھ سے تمہارا پوچھ رہا تھا کہ حیا باجی کہاں ہیں اور کیسی ہیں؟ امریکہ پہنچ گئیں خریت سے؟ میں نے بتایا کہ وہ امریکہ نہیں ترکی گئی ہے۔ پھر وہ کہنےلگا کہ میں تمہیں اس کا سلام اور۔۔۔۔۔۔ وہ جھجھکی۔ اور دعا دے دوں۔
اور کچھ؟
نہیں، مگر تم ابا وغیرہ کو مت بتانا کہ میں نے ایک خواجہ سرا سے بات کی ہے۔
یہ بات تمہیں اس سے مخاطب ہونے سے قبل سوچنی
چاہیے تھی۔ بہرحال میں نہیں جانتی، وہ کون ہے، کیا نام بتایا اس نے اپنا؟
ڈولی۔
پتا نہیں کون ہے۔ آئندہ ملے تو بات نہ کرنا، بلکہ نظرانداز کر کے گزر جانا۔ مزید چند باتیں کر کے اس نے فون رکھ دیا اور دوبارہ پلیٹ کی طرف متوجہ ہو گئی۔
ویسے تمہاری پھپھو کا کوئی ہینڈسم بیٹا ویٹا ہے؟ ڈی جے نپکن سے ہاتھ صاف کر کے مگن سے انداز میں پوچھ رہی تھی۔
اس کا ہاتھ رک گیا۔ وہ چونک کر اسےدیکھنے لگی۔ کیوں؟ 
تمہاری چمک دمک دیکھ کر یہ خیال آیا۔ ڈی جے نے مسکراہٹ دباتے، اپنی عینک انگلی سے پیچھے کی۔
حیا نے یوں ہی چمچہ پکڑے گردن جھکا کر خود کو دیکھا۔ پاؤں کو چھوتے زرد فراک اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھی۔ فراک کی زرد شیفون کی تنگ چوڑی دار آستینیں کلائی تک آتی تھیں۔ شیفون کا ڈوپٹہ اس نے گرن کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔ بال حسب عادت سمیٹ کر دائیں کندھے پہ آگے کو ڈال رکھے تھے۔
ہاں، ہے ایک بیٹا مگر شادی شدہ ہے۔ وہ لاپرواہی سے شانے اچکا کر پلیٹ میں پڑا کوفتہ کانٹے سے توڑنے لگی۔
اونھوں۔۔۔۔ سارا مزہ ہی کڑکڑا کر دیا۔ 
اوہ ڈی جے! یہ کیا؟ وہ ڈی جے کے پیچھے کچھ دیکھ کر رکی تھی۔
کوفتہ ہے اور کیا۔ ڈی جے نے کانٹے میں پھنسے کوفتے کو دیکھ کر کہا۔
افوہ! اپنے پیچھے دیکھو۔ اس نے جھنجھلا کر کہا تو ڈی جے نےگردن موڑی۔ وہاں ایک قدرے فربہی مائل لڑکی چلی آ رہی تھی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ شلوار قمیض اور ڈوپٹے میں ملبوس تھی۔
سبانجی میں ہم وطن؟ ڈی جے نے بے یقینی سے پلکیں جھپکیں۔ اگلے ہی پل وہ دونوں اپنے اپنے کوٹ اٹھا کر کھانا چھوڑ اس کی جانب لپکیں تھیں۔
وہ لڑکی اپنی کتابیں سنبھالتی چلی آ رہی تھی۔ ان دونوں کو دیکھ کو ٹھٹکی۔ وہ ڈی جے کی شلوار قمیص اور حیا کا فراک پاجامہ بے یقینی سے دیکھ رہی تھی اور وہ دونوں اس کی شلوار قمیص۔ 
آپ پاکستانی ہیں؟ حیا پرجوش سی اس کےپاس گئی۔ ڈی جے اس سے ذرا پیچھے تھی۔
نہیں، میں انڈین ہوں۔
ڈی جے ڈھیلی پڑ گئی۔ رہنے دو حیا! مجھے ابھی ورلڈ کپ کا غم نہیں بھولا۔
اس نے سرگوشی کی۔ تین سل پہلے مصباح الحق کا آخری بال پر آؤٹ ہونا ڈی جے کو کبھی نہیں بھولتا تھا۔
حیانے زور سے اپنا پاؤں ڈی جے کے جوتے پر کھ کر دبایا۔
ہم پاکستانی ایکسچینج اسٹوڈنٹس ہیں۔ حیا سلیمان اور یہ خدیجہ رانا۔ آپ؟
میں انجم ہوں۔ میں اور میرے ہیسبینڈ پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور ہم یہاں پڑھاتے بھی ہیں۔ ادھر فیکلٹی میں ہمارا اپارٹمنٹ ہے، وہیں رہتے ہیں ہم، کبھی آؤ نا ادھر۔ انجم ان دونوں سے زیادہ پرجوش ہو گئی تھی۔
شیور۔۔۔۔۔۔ انجم باجی۔ ڈی جے ان کا مسلمان ہونا سن کر پھر سے خوش ہو گئی تھی۔ وہ تینوں کافی دیر وہاں کھڑی باتیں کرتی رہیں اور جب ڈیجے کو یاد آیا کہ گورسل نکلنے میں پانچ منٹ ہیں تو انجم باجی کو جلدی سے خداحافظ بول کر وہ اپنا کوٹ ہاتھوں میں پکڑے باہر بھاگیں۔
•••••••••••••••••••••••••••••
وہ ٹاقسم کے پارک میں سنگی بنچ پر بیٹھی تھی۔ اس نے اپنا سفید لمبا اونی کوٹ اب زرد فراک پر پہن لیا تھا اور سر جھکائے ہاتھ میں پکڑی شکن ذدہ چٹ پہ سے سبین پھپھو کا نمبر موبائل پہ ملا رہی تھی۔ ابھی تک اس نے اس نمبر کو موبائل میں محفوظ نہیں کیا تھا۔
وہاں دور تک سبزہ پھیلا تھا۔ خوش نما پھول اور رنگوں تتلیوں کی بہتات ہوا اس کےلمبے بال اڑا رہی تھی۔ وہ موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے فون پر جاتی گھنٹی سننے لگی۔
ہیلو۔ بہت دیر بعد جہان نے فون اٹھایا۔
جہان۔۔۔۔۔۔ میں حیا۔۔۔۔۔۔ اس کے انداز میں خفت در آئی۔ اس سے کہہ رکھا تھا اس لیے آج جا رہی تھی۔ ورنہ اس سرخ کوٹ نے تو اسے خوب بے وقعت کیا تھا۔
ہاں حیا بولو؟ وہ مصروف سا لگ رہا تھا۔
وہ میں ٹاقسم پہ ہوں، تم مجھے یہاں سے پک کر کے گھر لے جا سکتے ہو؟ آج ویک اینڈ تھا تو۔۔۔۔۔۔۔
سوری حیا! میں شہر سے باہر ہوں، تم گھر ممی کو فون کر لو نا۔
یہ تمہارے گھر کا نمبر نہیں ہے؟ اس نے حیرت سے چٹ کو دیکھا۔
نہیں، یہ تو میرا موبائل نمبر ہے۔
تو کیا اس نے داور بھائی کی مہندی والے روز جہان کے موبائل پہ فون ملا دیا تھا؟ 
اوہ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پھپھو کا نمبر لکھوا دو۔
جہان نے فورا نمبر لکھوا ی۔
اچھا میں ڈرائیو کر رہا ہوں، پھر بات ہوتی ہے۔ مزید کچھ سنے بغیر اس نے فون بند کر دیا۔
وہ دل مسوس کر رہ گئی۔ عجیب اجنبی سا اپنا تھا۔
پھپھو اسے کیب پر لینے آئی تھیں۔ وہ جو چند لیراز کی بچت کے چکر میں کیب کر کے نہیں گئی تھی، خوب شرمندہ ہوئی۔
گاڑی نہیں تھی تو بتاتیں، میں تو ایسے ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بات نہیں، گاڑی تو جہان کے پاس ہی ہوتی ہے۔ اور وہ مزید شرمندہ ہوئی۔ پھر گردن موڑ کر کھڑکی کےباہر دوڑتے درخت دیکھنےلگی۔
اسے پھپھو کچن میں ہی لے آئیں۔ حسب عادت وہ کام میں مصروف ہو گئیں۔
یہ میرے لیے اتنا بکھیڑا پالنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ اردگرد پھیلی اشیا دیکھ کر خفا ہوئی۔
کوئی بات نہیں، تم میری بیٹی ہو، میرا ہاتھ بٹا دو گی، اس لیے میں نے یہ سب شروع کر لیا۔ دونوں کے درمیان پچھلی ملاقات کے ناخوشگوار اختتام کا کوئی تزکرہ نہ ہوا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
چلیں! آج پلاؤ تو میں ہی بناتی ہوں، مجھے ریسیپی سمجھاتی جائیں، ویسے بھی ترکوں کی میز اس پلاؤ کے بغیر ادھوری لگتی ہے۔ وہ کوٹ اسٹینڈ پر لٹکا کر آستین کلائی سے ذرا پیچھے کرتی واپس آئی۔ ڈوپٹہ اس نے اتار کر کرسی پہ رکھ دیا تھا۔
پہلے تو تم چکن کی بوٹیاں کاٹ دو۔ انھوں نے ٹوکری میں رکھے مرغ مسلم کی طرف اشارہ کیا اور خود چولھے پر چڑھی دیگچی میں چمچہ ہلانے لگیں۔
چھری تو یہ پڑی ہے، کٹنگ بورڈ کدھر ہے؟ وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔
کٹنگ بورڈ۔۔۔۔۔۔ اوہو۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو صبح نہیں مل رہا۔ جہان بھی پتا نہیں چیزیں اٹھا کر کدھر رکھ دیتا ہے۔ ٹھہرو! میں ایک پرانا بورڈ لے آؤں۔ اوپر ایٹک attic سے۔ 
آپ رہنے دیں، میں لے آتی ہوں، ایٹک اوپر کس طرف ہے؟
سیڑھیوں سے اوپر راہداری کے آخری سرے پہ، مگر تمہیں تکلیف ہو گی، میں خود۔۔۔۔۔۔
آپ گوشت بھونیں، جل نہ جائے، میں بس ابھی آئی۔ وہ ننگے پاؤں چلتی باہر لوبگ روم تک آئی۔
سیڑھیوں کے ساتھ لگے قد آور آئینے میں اسے اپنا عکس دکھائی دیا تو ذرا سی مسکرا دی۔ فرش کو چھوتے زرد فراک میں وہ کھلتے پھول کی طرح لگ رہی تھی۔ گلے کا کاٹ کھلا تھا اور اس کے دہانے پہ چھوٹے چھوٹے سورج مکھی کے پھولوں کی لیس نیم دائرے میں لگی تھی۔ یوں لگتا تھا اس کی خوبصورت لمبی گردن میں سورج مکھی کے پھولوں کا ڈھیلا سا ہار لٹک رہا ہو۔ اس نے انگلیوں فراک پہلوؤں سے ذرا سا اٹھایا اور ننگے پاؤں لکڑی کے زینوں پر چڑھنے لگی۔
اور راہداری کے آغاز میں ایک کمرے کا دروازہ بند تھا، شاید وہ جہان کا ایک کمرہ تھا۔ ابھی گھر میں داخل ہوتے ہوئے پھپھو نے ایسا کچھ بتایا تھا۔
وہ ایک نظر بند دروازے پہ ڈال کر آگے بڑھ گئی۔ فراک اب اس نے پہلوؤں سے چھوڑ دیا تھا۔
ایٹک میں آگے پیچھے بہت سے صندوق اور کاٹھ کباڑ رکھا تھا۔ متذبذب سی اندر آئی۔ بتی نہ جانے کدھر تھی۔ اس نے دروازہ کھلا رہنے دیا، باہر سے آتی روشنی کافی تھی۔ 
وہاں ہر سو سامان رکھا تھا، کٹنگ بورڈ نہ جانے کدھر تھا۔ وہ اندازا آگے بڑھی اور ایک کونے والے صندوق کا کنڈا کھول کر ڈھکن اوپر اٹھایا۔ 
نیچے لونگ روم سے بیرونی دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آوز آئی۔ ساتھ میں جہان اور پھپھو کی ملی جلی آوازیں۔ یقینا وہ آ گیا تھا۔ وہ مسکرا کر صندوق پر جھکی۔
اس میں الیکٹرک کا کوئی ٹوٹا پھوٹا سامان رکھا تھا۔ کٹنگ بورڈ کہیں نہیں تھا۔ حیا نے ڈھکن بند کیا اور نسبتا کونے میں رکھے صندوق کی طرف آئی۔
اپنے عقب میں اسے راہداری سے کسی دروازے کے ہولے سے کھلنے کی چرر سنائی دی تھی۔ جہان اتنی جلدی اوپر پہنچ گیا؟ مگر وہ پلٹی نہیں اور صندوق کو کھولنےلگی، جس کےڈھکن کے اوپر گرد اور مکڑی کے جالوں کی تہہ تھی۔
اس نے چند چیزیں الٹ پلٹ کی تو بےاختیار گرد نتھنوں میں گھسنے لگی۔ اسے ذرا سی کھانسی آئی۔ پورا ایٹک بےحد صاف تھا۔ ماسوائے اس کونےمیں رکھے دو تین صندوقوں کے، جیسےانہیں زمانوں سے نہ کھولا گیا ہو۔
اس کی پشت پہ ایٹک کا ادھ کھلا دروازہ ہولے سے کھلا۔ کوئی چوکھٹ میں آن کھڑا ہوا تھا، یوں کہ راہداری کی آتی روشنی کا راستہ رک گیا۔ پل بھر میں ایٹک۔۔۔۔۔۔ نیم تاریک ہو گیا۔
وہ پلٹنے ہی لگی تھی کہ صندوق میں کسی خاکی شے کی جھلک دکھائی دی۔ اس نے دونوں میں پکڑ کر اسے اوپر نکالا۔ وہ لکڑی کا تختہ نہیںتھا، بلکہ اکڑا ہوا کپڑا تھا۔
حیا نےکپڑا کھول کر سیدھاکیا۔ ایک پرانی گرد آلود خاکی شرٹ۔۔۔۔۔ے ستارے، تمغے اور ایک نام کی تختی۔
چوکھٹ میں کھڑا شخص چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا، اس کی طرف بڑھنےلگا۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page