top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر سات

چوکهٹ میں کهڑا شخص چهوٹے چهوٹے قدم اٹهاتا، اس کی طرف بڑهنے لگا۔
حیا نے نیم اندهیرے میں آنکهیں پهاڑ پهاڑ کر وہ تختی پڑهی۔
"سکندر شاه" اس نے بے اختیار رینک دیکها۔ وه کرنل کی نشاندہی کر رہا تها۔
وہ شرٹ ہاتھ میں پکڑے کسی الجهن میں گرفتار پلٹی اور ایک دم جهٹکے سے پیچهے ہٹی۔
اس کے عقب میں جہاں نہیں تها۔ وه کوئی اور تها۔
دراز قد، کنپٹیوں اور پیشانی سے جهلکتے سفید بال، سخت نقوش، نائٹ گاؤن میں ملبوس، وه کڑی نگاہوں سے اسے دیکهتے قریب آ رہے تهے۔
وه سانس روکے انہیں دیکهے گئی۔
وه عین اس کے سر پر آۓ، اور ایک جهٹکے سے اسکی گردن دبوچی۔
"میری جاسوسی کرنے آئی ہو؟" 
اسکے گلے کو دبوچتے وه غراۓ تھء۔
بے اختیار اس کے لبوں سے چیخ نکلی۔ شرٹ اس کے ہاتھ سے پهسل گئی۔ اس نے اپنی انگلیوں سے گردن کے گرد جکڑے ان کے ہاتھ کو ہٹانے کی کوشش کی، مگر بے سود۔
"پاکستانیوں نے بهیجا ہے تمہیں؟ اپنے مالکوں کو بولو، انہیں بلیو پڑنٹس کبهی نہیں ملیں گے۔
"چهوڑیں مجهے۔" وه زور سے کهانسی۔ اس کا دم گهٹنے لگا تها۔ وه اس کا گلا دبا رہے تهے۔
"کوئی مجھ تک نہیں پہنچ سکے گا، کبهی نہیں، ہر چیز آگے دے دی گئی ہے، ہر چیز۔" انهوں نے اسے گردن سے دبوچے اس کا سر کهلے صندوق پہ جهکایا۔ وه تڑپنے، چلانے لگی۔
"چهوڑیں مجهے۔" وه اپنے ناخن ان کے ہاتھ میں چبهو کر ان کو ہٹانے کی ناکام سعی کر رہی تهی۔
"تمہیں واپس نہیں جانے دوں گا۔ وه بلیو پڑنٹس تمہیں کبهی نہیں ملیں گے"
حیا کا سانس رکنےلگا۔ وه اس کا سر صندوق میں دے کر اوپر سے ڈھکنا بند کر رہے تھے، اسے لگا وه مرنے والی ہے۔
"امی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امی۔۔۔۔۔۔۔!" وه وحشت سے چلانے لگی۔ وه اس کو گردن سے دبوچے، اس کا سر منہ کے بل اندر دے رہے تهے۔ گرد سے اٹے صندوق میں اسکا سانس اکهڑنے لگا۔
*•••••*•••••*••••••*••••••*

چھوڑیں۔"دھاڑ سے دروازہ کھلا اور کوئی غصے چلاتا اندر آیا۔ اس کی گردن کے گرد جکڑےہاتھ کو کھینچ کر الگ کیا اور ادھ کھلا ڈھکن پورا کھول کر دوہری ہو کر اوندھی جھکی حیا کو بازو سے پکڑ کر پیچھے ہٹایا۔
"کیا کر رہے تھے آپ؟ وہ آپ کی بیٹی کی طرح ہے، ایک بات میری دھیان سے سنیں۔ آئندہ اگر آپ نے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اچھا نہیں ہوگا۔"
انگشت اٹھا کر سختی سے وہ انہیں تنبیہہ کر رہا تھا۔جہان کو دیکھ کر وہ دو قدم پیچھے ہٹ کر خاموشی سے اسے سنتے گۓ۔
"اور تم!" وہ حیا کی طرف پلٹا۔ ایک غصیلی نگاہ اس پر ڈالی، اور کہنی سے پکڑ کر کھینچتا باہر لایا۔ "اوپر کیوں آئی تھیں؟ کس نے کہا تھا ادھر آؤ؟"
سیڑھیوں کے دہانے پہ لا کر اس نے حیا کا چہرہ دیکھا۔ اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ دہشت سے چہرے کا رنگ لباس کی مانند زرد پڑ چکا تھا۔گردن پہ انگلیوں کے سرخ نشان پڑے تھے۔ وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔
"وہ پھپھو نے۔۔۔۔۔۔۔"
"پھپھو کا بیٹا مر گیا تھا جو انہوں نے تمہیں بھیجا؟منع بھی کیا تھا، مگر یہاں کوئی سنے تو۔" وہ غصے میں بولتا، اسے کہنی سے پکڑے نیچے سیڑھیاں تیزی سے اترنے لگا۔ وہ اس کے ساتھ کھنچی چلی آ رہی تھی۔ پھپھو پریشان سی آخری سیڑھی کے پاس کھڑی تھیں۔
"میں بکواس کر کے گیا تھا نا، مگر میری سنتا کون ہے اس گھر میں؟ دو دن کے لیے نہ ہوں تو سارا نظام الٹ جاتا ہے۔ پورے گھر کو پاگل کر دیا ہے انھوں نے۔"
وہ آگے بڑھا اور سنٹر ٹیبل پہ رکھی میز سے پانی کی بوتل اٹھا کر لبوں سے لگائی۔ (پانی کی ضرورت تو حیا کو نہیں تھی؟)
وہ سہمی ہوئی کھڑی تھی۔ جہان کو اتنے شدید غصے میں اس نے پہلی دفعہ دیکھا اور اتنی شستہ اردو بولتے ہوۓ بھی۔
"میں۔۔۔۔۔میں انھیں دیکھتی ہوں۔" پھپھو پریشانی سے کہتے ہوۓ اوپر سیڑھیاں چڑھ گئیں۔
وہ گھونٹ پہ گھونٹ چڑھاتا گیا۔ بوتل خالی کر کے میز پہ رکھی اور اسکی طرف دیکھا۔
"باہر آؤ مجھے تم سے بات کرنی ہے۔" وہ کہہ کر روازہ کھول کر باہر نکل گیا۔ وہ ڈری، سہمی ہوئی چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پیچھے آئی۔
وہ بیرونی دروازے کے آگے بنے اسٹیپس پہ بیٹھا تھا۔ حیا نے دروازہ بند کیا اور اس کے ساتھ آ بیٹھی۔ زرد فراک پھسل کر اس کے ننگے پاؤں کو ڈھانپ گیا۔ باہر سردی تھی، مگر اسے نہیں لگ رہی تھی۔
"جو بھی ہوا، میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔" وہ سامنے دیکھتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔
نیلی جینز کے اوپر پہنے بھورے سویئٹر کو عادتاً کہنیوں سے ذرا آگے موڑے، وہ ہمیشہ کی طرح وجیہہ اور اسمارٹ لگ رہا تھا۔ غصہ اب کہیں نہیں تھا۔ وہ پہلے والا دھیما سا اور سنجیدہ جہان بن گیا تھا۔
"ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ وہ اپنے حواسوں میں نہیں ہوتے۔ کئی دفعہ انہوں نے ممی کو بھی مارنے کی کوشش کی ہے، مگر مجھے کچھ نہیں کہتے۔ ڈرتے نہیں ہیں، شاید نفرت کرتے ہیں۔"
سامنے سبزہ تھا۔ اس سے آگے سفید لکڑی کی باڑ اور باڑ سے ہی بنا گیٹ، باڑ کے تختوں کی درزوں سے باہر گیلی سڑک دکھائی دیتی تھی۔ نم ہوا گھاس پر سے سرسراتی ہوئی گزر رہی تهی۔ وه گهٹنوں کے گرد بازوؤں کا حلقہ بناۓ چہره جہان کی جانب موڑے بیٹھی تهی۔ فراک کا فرش کو چهوتا دامن ہوا کی لہروں سے پهڑپهڑاتا ہوا اوپر اٹھ جاتا تو پاجامے کی تنگ چوڑیوں میں مقید ٹخنے اور پاؤں چهلکتے۔
"میرا بهی دل کرتا ہے کہ میں پاکستان جاؤں۔ اپنے رشتہ داروں کے درمیان رہوں۔ اپنا آبائی گھر دیکهوں۔ مگر ہم پاکستان نہیں جاتے اور تم اس دن ممی کو طعنہ دے رہی تهی ہم پاکستان نہیں آتے۔" (افف۔۔۔۔۔ اتنا جھوٹ)
"نن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔" وه گڑبڑا گئی، مگر وه سن نہیں رہا تها۔
"حیا! ہم کبھی پاکستان واپس نہیں جا سکتے۔"
مگر کیوں؟ وه سناٹے میں ره گئی۔ وه چند لمحے چپ رہا، پهر آہستہ سے کہنے لگا۔
میرے دادا اپنے کاروبار کے سلسلے میں استنبول آیا کرتے تهے۔ اس گھر کی انہوں نے ہی خریدی تھی بعد میں ابا نے ادھر گھر بنوایا۔ تب وه پاکستان آرمی کی طرف سے یہاں پوسٹڈ تهے۔ میں استنبول میں ہی پیدا ہوا تھا اور ابا کی دوباره اسلام آباد پوسٹنگ ہونے کے بعد بھی میں اور ممی ادھر دادا کے ساتھ رہتے تهے۔ میرے دادا بہت اچهے، بہت عظیم انسان تهے۔ انهوں نے مجهے بہت کچھ سکهایا تها۔ دین، دنیا، عزت، بہادری اور وقار سے جینے اور شان سے مرنے کا سبق انهوں نے ہی مجهے دیا تها۔ میں آٹھ سال کا تھا، جب وہ فوت ہوئے تو میں اور ممی کچھ عرصہ کے لیے پاکستان آگئے۔ اور تب ہی وه واقعہ ہوا، جس نے ہماری زندگی بدل دی۔"
حیا کا سانس رک گیا۔ تب ہی تو ان کا نکاح ہوا تھا، تو کیا وہ باخبر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ (حیا کی خوش فہمیاں۔۔۔۔۔)
"جن دنوں میں اور ممی پاکستان میں تهے، بلکہ تمهارے گھر میں تهے، ابا آناً فاناً ترکی فرار ہو گۓ۔ فرار اس لیے کہ انھوں نے ایک حساس مقام کے بلیو پرنٹس ان کو بیچ دیۓ تهے جو ہمیشہ خریدنے کے لیۓ تیار رہتے ہیں۔ ثبوت انہوں نے کوئی نہیں چهوڑا، مگر تفتیش شروع ہوئی تو بہت کچھ کهلنے لگا۔ ابا نے ترکی سے هہی اپنا استعفی بھجوا دیا۔ پیچھے عدالت میں مقدمہ چلا اور وه غدار ٹهہراۓ گۓ۔ ان کے جرائم کی فہرست خاصی طویل تھی۔ ان کو سزاۓ موت سنا دی گئی اور انهوں نے ترکی میں سیاسی پناه حاصل کر لی۔ کچھ تعلقات کام آۓ اور کچھ رشوتیں، ابا کو ترک حکومت کبھی ڈی پورٹ نا کر سکی، نا ہی انٹر پول نے کوئی قدم اٹهایا۔ قصہ مختصر، ابا جس دن پاکستان کی سرزمین پہ قدم رکهیں گے، وہ گرفتار ہو جائیں گے اور ان کو پهانسی دے دی جاۓ گی۔ یہ بات تمهارے والدین کو پتہ ہے، مگر بدنامی کے ڈر سے کسی کو بتائی نہیں جاتی۔" 
وه کسی بهی جزبے سے عاری نگاہوں سے سامنے باڑکو دیکھتا رہا تها۔ حیا یک ٹک اسے دیکهے گئی۔ اس کے گهر میں پهپهو کے شوهر کا ذکر کوئی نہیں کرتا تها۔ شاید دانستہ طور پہ ایسا کیا جاتا تها۔
"میں ایک غدار کا بیٹا ہوں۔ میرا باپ ایک ملک دشمن ہے۔ اس ذلت کے باوجود ہم ابا کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ احساس جرم ہے یا قدرت کی طرف سے سزا، وه وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنا ذہن کهوتے جا رہے ہیں۔ سزاۓ موت کا خوف ان کے لیۓ ناسور بنتا جا رہا ہے۔ جو انهوں نے تمهارے ساتھ کیا، اس پہ ان کو معاف کر دینا۔ وه میرے باپ ہیں اور باوجود اس کے کہ یہ حقیقت بہت جگہ میرا سر جهکا دیتی ہے میں ان سے محبت کرنے پہ مجبور ہوں۔" 
حیا نے گہری سانس لی۔ اس کے کسی قصے میں اس کا قصہ نہیں تها، کسی داستان میں اس کی داستان نہ تهی۔
"میں کام سے باہر جا رہا ہوں، آج کهانا کها کر جانا۔" وه اٹها اور دروازہ کهول کر اندر چلا گیا. شاید وه ابهی صرف تنہائی چاہتا تھا۔ حیا گردن موڑ کر اسے جاتے ہوئے دیکهنے لگی۔ وه ننگے پاؤں لکڑی کے فرش پہ چلتا سیڑهیوں کی طرف بڑھ رہا تها۔
••••••••••••••••••••
حیا۔۔۔۔۔۔۔ خدیجہ! 
ٹالی نے انہیں اس وقت پکارا، جب وہ دونوں ڈی جے کے بینک پہ بیٹھی، اس کی شاپنگ پہ تبصرہ کر رہی تھیں۔ وہ چودہ فروری کی دوپہر تھی۔ اور ترکی آئے آٹھواں روز تھا اور ڈی جے جو ویلنٹائن ڈے کی رونق دیکھنے آج ٹاقسم گئی تھی مایوس لوٹ آئی تھی۔ پاکستان کے برعکس ترک ہر کام چھوڑ کر سرخ رنگ میں نہیں نہا جاتے، بلکہ سوائے سرخ پھولوں کی فروخت کے استنبول میں ویلنٹائن ڈے کے کوئی آثار نہ تھے۔ جب ڈی جے خوب مایوس ہو چکی تو اس نے یہ کہہ کر اپنے خیالات میں ترمیم کر لی کہ ”بھاڑ میں گیا سینٹ ویلنٹائن، ہمیں اس تہوار سے کیالینا دینا“۔
ان کی اس گفتگو میں مخل ہونے والی اسرائیلی ایکسچینج اسٹوڈنٹ تھی۔
ہاں؟ وہ دونوں جھک کر نیچے دیکھنے لگی، جہاں ٹالی ان کے بنک سے نیچے لٹکتی سیڑھی کے ساتھ کھڑی تھی۔
وہ لڑکے تمہارا پوچھ رہے تھے۔
حیا اور ڈی جے نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر ٹالی کو۔
کون سے لڑکے؟ 
وہ فلسطینی ایکسچینج اسٹوڈنٹس جو ساتھ والے ڈروم میں رہتے ہیں۔ وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ وہ پاکستانی لڑکیاں کیسی ہیں اور یہ کہ ان کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہے، اور یہ بھی کہ تم دونوں آج کی شام کی چائے کامن روم میں ان کے ساتھ پیو۔ وہ تمہارا انتظار کریں گے، اوکے بائے۔ ایک اسرائیلی مسکراہٹ ان کی طرف اچھالتی، وہ ہاتھ ہلا کر باہر نکل گئی۔
یہ فلسطینیوں کو ہمارا خیال کیسے آ گیا؟
اس ٹالیکے درخت سے دل بھر گیاہو گا شاید۔ ڈی جے نے قیاس آرائی کی۔
بکو مت! وہ ہمیں صرف مسلمان بہنیں سمجھ کر بلا رہے ہوں گے۔
اتنے ہینڈسم لڑکوں کی بہن بننے پر کم از کم میں تیار نہیں ہوں۔ یہ بھائی چارہ تمہیں مبارک ہو۔ ڈیجے بدک اٹھی تھی۔چلو پھر تیار ہو جائیں تاکہ وقت پہ پہنچ سکیں۔
حیا لکڑی کی سیڑھی سے نیچے اترنے لگی۔
صرف ہمیں بلایا ہے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمیں ہی بلایا ہے یا یہ عرب اسرائیل دوستی کی زندہ مثال بھی موجود ہو گی؟ ڈی جے کا اشارہ ٹالی کی طرف تھا۔
پتا نہیں۔ حیا نے شانے اچکا دیے۔ وہ الماری سے کپڑے نکالنے لگی۔ ہر موقع کی مناسبت سے مکمل ڈریسنگ کرنا اس کا جنون تھا۔ کپڑوں پہ ایک سلوٹ تک نہ ہو اور میک اپ کی ایک لکیر اوپر نیچے نہ ہو، وہ ہر بات کا خیال رکھتی تھی۔ البتہ لڑکوں کی دعوت پہ جانےکی اجازت پاکستان میں ابا یا تایا فرقان نہ دیتے، مگر وہ ادھر کون سا دیکھ رہے تھے۔ یہ ترکی تھا اور یہاں یہ سب چلتا تھا۔ 
وہ تین لڑکے تھے معتصم المرتضی، حسین اور مومن۔ ان کے ساتھ دو فلسطینی دوست محمد قادر اور نجیب اللہ جاتی دعوت کے شروع میں موجود رہے، پھر اٹھ کر چلے گئے، مگر ان تینوں میزبانوں نے احسن طریقے سے میزبانی نبھائی۔
وہ تینوں اسمارٹ اور گڈ لکنگ سے لڑکے ایک جیسے لگتے تھے۔ معتصم ان میں ذرا لمبا لگتا تھا۔ (اس کا نام معتصم المرتضٰی تھا، مگر یہ ڈی جے نے بعد میں نوٹ کیا کہ وہ فیسبک پہ اپنا نام معتصم اینڈ مرتضٰی لکھتا تھا۔ وجہ انہیں کبھی سمجھ نہیں آئی۔) حسین اور معتصم ان دونوں کو بالکل اپنی چھوٹی بہنوں کی طرح ٹریٹ کر رہے تھے۔ البتہ اس بھائی چارے سے مومن متفق نہ تھا۔ وہ فلرٹی، نظر باز سا لڑکا کچھ بھی تھا، مومن نہ تھا۔البتہ وہ دونوں اس کو اپنی موجودگی میں سیدھا کئے ہوۓ تھے۔ وہ دونوں اتنے ملنسار اور مہذب لڑکے تھے کہ حیا کو اپنے سارے کزنز ان کے سامنے بےکار لگے۔ البتہ جہان کی بات اور تھی۔ اس نے فوراٗ اپنی راۓ میں ترمیم کی۔
"اگلے ہفتے حسین کا برتھ ڈے ہے۔" حسین موبائل پہ فون سننے باہر گیا تو مومن نے بتایا۔
"پھر تو ہمیں اسے ٹریٹ دینی چاہیئے۔" ڈی جی سوچ کر بولی۔
"اور گفٹ بھی۔"حیا کو خیال آیا۔
"ہم دونوں اس کے لیے گھڑی خریدنے کا سوچ رہے ہیں اور جو ہم نے جواہر میں دیکھی ہے۔ 130لیراز کی ہے" معتصم نے چاۓ کا آخری گھونٹ پی کر کپ میز پہ رکھا۔
"یعنی کہ پاکستان روپوں میں۔۔۔۔۔۔" حیا نے سوچتے ہوۓ پرس میں ہاتھ ڈالا تا کہ موبائل کے کیلکولیٹر سے حساب کرسکے۔
"سات ہزار ایک سو پچاس پاکستانی روپے۔" معتصم جھک کر پیسٹریز کی پلیٹ سے ایک ٹکڑا اٹھاتے ہوۓ بولا۔ حیا کا پرس کو کھنگالتا ہاتھ رک گیا۔
اس نے حیرت و بے یقینی سے معتصم کو دیکھا۔
"تم نے اتنی جلدی حساب کیسے کیا؟"
"میں میتھس کا اسٹوڈنٹ ہوں۔" وہُ جھینپ کر مسکرا دیا۔
"اور معتصم کا ایک ہی خواب ہے کہ وہ میتھس میں نوبل پرائز لے۔" مومن، حیا کے ہاتھوں کو دیکھتے ہوۓ کہنے لگا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد معتصم سے آنکھ بچا کر حیا کے سراپے کا جائزہ لے لیتاتھا۔ حیا قدرے رخ موڑ کر معتصم کی طرف متوجہ ہوئی۔
"تو میتھس کے اسٹوڈنٹ! جلدی سے بتاؤ کہ اس مہنگی گھڑی کو خریدنے کے لئے اگر ہم چاروں پیسے تقسیم کریں تو ہر ایک کے حصے میں کتنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بتیس لیرا اور پچاس کرش۔"
"اوکے!" حیا نے گہری سانس لی اور پرس کھولا۔ ان کو پیسے انھوں نے زبردستی تھماۓ۔ مومن کو تو کوئی اعتراض نہ تھا، مگر معتصم ان سے رقم لینے پہ متذبذب تھا، مگر یہ ایک ان کہی بات تھی کہ بغیر اسکالرشپ کے استنبول جیسے مہنگے شہر میں وہ سب سے اتنا ہی افورڈ کر سکتے تھے۔ 
وہ تینوں جواہر کے لیے نکل رہے تھے۔ معتصم نے بتایا کہ وہ ابھی حسین سے نظر بچا کر گھڑی خرید لائیں گے۔ ان کو بھی ساتھ چلنے کی پیشکش کی اور ڈی جے ہاں کرنے ہی والی تھی کہ حیا نے اسکا پاؤں اپنے جوتے سے زور سے کچلتے بظاہر مسکراتےہوۓ انکار کر دیا۔
"نہیں! آپ لوگ جائیں ، ہم آج ہی ہو کر آۓ ہیں۔"
وہ تینوں چلے گۓ تو ڈی جے نے برا سا منہ بنا کر اسے دیکھا۔ "تم نے انکار کیوں کیا؟"
"پاگل عورت! تم پاکستان سے آئی ہو یا نیو یارک سے؟ انکی دعوت قبول کر لی، یہ ہی بہت ہے۔ اب ہم ان کے ساتھ سیر سپاٹوں پہ بھی نکل جائیں، کبھی نہیں، دماغ ٹھیک ہے؟"
"مگر وہ تو ہمارے بھائیوں کی طرح ہیں۔"
"پیچھے ہمارے اصلی بھائیوں کو پتا چلا تو کل ہی پاکستان واپس بلوا لیں گے۔ اس لئے اپنی اوقات میں واپس آؤ اور رات کے کھانے کی تیاری کرو۔" وہ موبائل کے ساتھ نتھی ہنڈز فری کانوں میں لگاتے ہوۓ بولی۔
"زہر ملا کے دوں گی تمہیں۔" ڈی جے بھناتی ہوئی پیر پٹخ کر اٹھی۔
"اور اگر تم چاولوں پہ آملیٹ ڈال کر لائی تو میں ساری ڈش تمارے اوپر الٹ دوں گی۔"
وہ وہیں صوفے پہ لمبی بیٹھی، اب موبائل کے بٹن دبا رہی تھی۔ دھیما میوزک اسکے کانوں میں بجنے لگا۔ ڈی جے غصے میں بہت کچھ کہتی گئی تھی، مگر اسے سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ آنکھیں موندے ہولے ہولے پاؤں جھلانے لگی۔
ڈی جے پیر پٹخ کر باہر نکل گئی۔
•••••••••••••••••••••••••••••
وہ رات ویلنٹائن کی رات تھی۔ ڈی جے کامن روم میں منعقدہ آل گرلز پارٹی میں جا چکی تھی، جو لڑکیوں نے مل کر دی تھی، جبکہ حیا آئینے کے سامنے کھڑی اپنا کاجل درست کر رہی تھی۔ اس کی تیاری مکمل تھی، لیکن جب تک وہ اپنی آنکھوں کے کٹورے کاجل سے بھر نہ لیتی، اسے تسلی نہیں ہوتی تھی۔ ابھی وہ کاجل کی سلائی کی نوک آنکھ کے کنارے سے رگڑ ہی رہی تھی کہ دروازہ بجا۔
دھیمی سی دستک اور پھر خاموشی۔
اس نے کاجل کی سلائی نیچے کی اور پلٹ کر دیکھا۔
یہ انداز ڈی جےکا تو نہیں تھا۔ وہ یوں ہی کاجل پکڑے آگے بڑھی اور ناب گھما کر دروازہ کھولا۔
باہر بالکونی میں روشنی تھی۔ جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا، بالکونی تاریک ہو گئی۔ غالبا سیڑھیوں کے اوپر لگا بلب بجھ گیا تھا۔ کیا کوئی آ کر واپس پلٹ گیا تھا؟ 
کون؟ اس نےگردن آگے کر کے راہداری میں دونوں سمت دیکھا۔ ہر سو خاموشی تھی۔ بالکونی ویران تھی۔ وہاں سردی تھی اور اندر کمرا گرم تھا۔
وہ چند ثانیے کھڑی رہی، پھر دھیرے سے شانے اچکا کر پلٹنے ہی لگی تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔
اوہ نہیں! اس کے لبوں سے ایک اکتائی ہوئی کراہ نکلی۔
چوکھٹ پہ اس کے قدموں کے ساتھ سفید گلابوں کا بکے اور ایک بند لفافہ رکھا تھا۔ وہ جھکی، دونوں چیزیں اٹھائیں اور جارحانہ انداز میں لفافے کا منہ پھاڑا۔ اندر رکھا چوکور کاغذ نکالا اور چہرے کے سامنے کیا۔
ہیپی ویلنٹائن ڈے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرام یور ویلنٹائن۔
اس نے لب بهینچ کر تنفر سے وه تحریر پڑھی اود پهر بے حد غصےسے کاغذ مروڑ کر گلدستے سمیت پوری قوت سےراہداری میں دے مارا.
آؤچ! وہ واپس مڑنے ہی لگی تهی، جب کسی کی بوکهلائی ہوئی آواز سنی۔ اس نے چونک کر پیچهے دیکها۔
گلدستہ اور کاغذ سیدهے ہاتھ والے کمرے سے نکلتے معتصم کو جا لگے تهے اور اس سے ٹکرا کر اب اس کے قدموں میں پڑے تهے۔
یہ کیا هے؟ وہ ہکا بکا کھڑا تها۔
"آئی ایم سوری متعصم!" وہ شدید بے زاری سے بمشکل ضبط کر کے بولی۔ متعصم کو وضاحت دینے کا سوچ کر ہی اسے کوفت ہونے لگی تهی۔
"یہ میں نے تمہیں نہیں دئیے بلکہ کسی فضول انسان نے مجهے بھیجے ہیں۔ تم برا مت ماننا اور ان کو ڈسٹ بن میں پهینک دینا۔ وہ ایک ہاتھ دروازے پر رکهے، دوسرے میں کاجل پکڑے ذرا رکهائی سے بولی۔
معتصم نے جهک کر وہ کاغذ اٹھایا اور سیدهے ہوتے ہوئے اس کی شکنے درست کر کےچہرے کے سامنے کیا۔ حیا کو کوفت ہونے لگی۔
"میں کہہ رہی ہوں نا، سوری۔" وہ جو قدرے بهنویں سکیڑے کاغذ کو دیکھ رہا تها، چونک کر اسے دیکهنے لگا۔
"نہیں اٹس اوکے۔ مگر یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں سبانجی میں کوئی تنگ کر رہا ہے؟"
وہ تحریر پہ نگاہیں دوڑاتےتشویش سے پوچھ رہا تها۔
"یہ بات نہیں ہے۔ یہ بہت پہلے سے میرے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ لمبی کہانی ہے، جانے دو۔ اس کو کوڑے میں پهینک دینا۔ گڈ نائٹ۔"
وہ مزید مروت کا مظاہرہ کئے بغیر دروازہ بند کرنے لگی تهی جب وه ہولے سے بولا۔
"یہ گیلا کیوں ہے؟" تم روئی ہو؟؟"
کچھ تها اس کی آواز میں دروازہ بند کرتی حیا رکی، پهر پٹ نیم وا کیا اور بالکونی میں قدم رکھا۔"
"میں کیوں روؤ گی؟" وہ کاغذ کو دیکهتے ہوتے بولی۔
معتصم کاغذ کے نچلے دائیں طرف کے کنارے پر انگلی پهیر رہا تها۔
"پهر یہ گیلا کیوں ہے؟ شاید پھولوں میں پانی تها؟"
حیا نے میکانکی انداز میں نفی میں گردن ہلائی۔
"نہیں یہ تو موٹے لفافے میں مہر بند تها۔"
معتصم نے وہ نم حصہ ناک کے قریب لے جا کر آنکھیں موندے سانس کو اندر کهینچی۔
"سٹرس؟ لیمن؟ لائم؟"وہ متذبذب سا حیا کو دیکهنے لگا۔
کیا کہہ رہے ہو، مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔
"کسی نے اس کے نچلے کنارے پہ لیمن کا رس لگایا ہے۔" پهر اس نے ذرا چونک کر حیا کو دیکها۔
"تمهارے پاس ماچس ہے؟"
وہ جواب دیے بنا الٹےقدموں پپیچهے آئی اور دروازہ پورا کهول کر ایک طرف ہو گئی۔ معتصم قدرے جھجکا پھر کاغذ پکڑے اندر داخل ہوا۔
حیا نے اپنی اور ڈی جے کی کرسیاں آمنے سامنے رکھیں اور پهر ٹالی کی میز پر چیزیں الٹ پلٹ کرنے لگی
"کیا تم بھی بچپن میں لیموں کے رس اور آگ والا کهیل کهیلتے تهے؟ وہ اب میز کی دراز کھول کر کچھ ڈھونڈ رہی تهی۔
ﻣﻌﺘﺼﻢ ﺩﻫﯿﺮﮮ ﺳﮯ ﮨﻨﺴﺎ۔
ﺑﮩﺖ ﮐﻬﯿﻞ ﮐﮭﯿﻠے ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﺁﮒ ﻭﺍﻟﮯ ہوﺗﮯ ﺗﻬﮯ۔ ﻓﻠﺴﻄﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺁﮒ ﮨﮯ، ﺷﺎﯾﺪ ﺗﻢ نہ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﻮ۔"
ﭼﻠﻮ، ﺁﺝ ﺍﻥ ﺗﺮﮐﻮﮞ ﮐﮯ ﮐﻬﯿﻞ ﺍﺳﺮﺍﺋﯿﻠﯽ ﺁﮒ ﺳﮯ ﮐﻬﯿﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔" ﻭﻩ ﺩﺭﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﮕﺮﯾﭧ ﻻ‌ﺋﭩﺮ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻻ‌ﺋﭩﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﺎﯾﺎ۔
ﻣﻌﺘﺼﻢ ﻧﮯ ﻻ‌ﺋﭩﺮ ﮐﺎ ﭘﮩﯿﮧ ﺍﻧﮕﻮﭨﮭﮯ ﺳﮯ ﺩﺑﺎ ﮐﺮ ﮔﻬﻤﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺁﮒ ﮐﺎ ﻧﯿﻼ‌ ﺷﻌﻠﮧ ﺟﻞ ﺍﭨﻬﺎ۔
"ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﺳﮯ۔" ﻭﮦ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﮧ ﺍﭨﻬﯽ۔
معتصم نے جواب نہیں دیا۔ وہ خط کے نم حصے کو، جو ابھی تک نہیں سوکھا تھا، شعلے کے قریب لایا۔ ذرا سی تپش ملی اور الفاظ ابھرنے لگے۔
بڑے بڑے کر کے لکھے انگریزی کے تین حروف- "اے آر پی"
وہ حروف عین "فرام یور ویلنٹائن" کے نیچے لکھے تھے۔
دونوں چند لمحے کاغذ کے ٹکڑے پہ ابھرے بھورے حروف کو تکتے رہے، پھر ایک ساتھ گردن اٹھا کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
"آرپ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایرپ؟ کیسا لفظ ہے یہ؟ حیا نے ممکنہ ادائیگی کے دونوں طریقوں سے حروف کو ملا کر پڑھا۔
"شاید کوئی نام!"
"کیا آرپ کوئی ترک نام ہے؟"
"معلوم نہیں۔" معتصم نے شانے اچکا دئیے۔
حیا سوچتی نگاہوں سے کاغذ کو تکتی رہی۔
"کیا میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں؟"
اس نے ایک نظر معتصم کو دیکھا پھر مسکرائی
"تم کر چکے ہو۔"
وہ ہولے سے مسکرا کر کھڑا ہوا اور کاغذ میز پر رکھا۔
وہ جو بھی ہے، شاید تمہیں اپنا نام بتانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ کون ہو سکتا ہے، یہ تم بہتر سمجھ سکتی ہو گی۔ مجھے اب چلنا چاہئیے۔"
"ہوں۔ تھینک یو معتصم!"
معتصم نے ذرا سی سر کو جنبش دی اور باہر نکل گیا۔
دروازے کا کیچر سست روی سے واپس چوکھٹ تک جانے لگا۔
حیا چند لمحے میز پہ رکھے کنارے سے بھورے ہوئے کاغذ کو دیکھے گئی، پھر بے اختیار کسی میکانکی عمل کے تحت اس نے ہاتھ میں پکڑی کاجل کی سلائی کو سیدھا کیا اور بائیں ہتھیلی کی پشت پر وہ تین حروف اتارے۔
"اے آر پی"
دروازہ چوکھٹ کے ساتھ لگنے ہی والا تھا۔ ذرا سی درز سے باہر راہداری میں گرا گلدستہ دکھائی دے رہا تھا۔ ایک دو پل مزید گزرے اور زوردار "ٹھا" کی آواز کے ساتھ دروازہ بند ہو گیا۔
وہ اپنی ہتھیلی کی پشت پہ سیاہ رنگ میں لکھے وہ تیں الفاظ دیکھ رہی تھی۔
"اے آر پی........"

اس نے اوپر بنےکیبنٹ کا دروازہ کھولا۔ چند ڈبے الٹ پلٹ کیے۔ نچلے خانے میں سرخ مرچوں کا ڈبہ نہیں تھا۔ وہ ایڑیاں اٹھا کر ذرا سی اونچی ہوئی اور اوپر والے خانےمیں جھانکا۔ وہاں سامنے ایک پلاسٹک کے بے رنگ ڈبے میں سرخ پاؤڈر رکھا نظر آیا۔
اس نے ڈبہ نکالا اور کاؤنٹر کی طرف آئی۔ وہاں ڈی جے کھڑی، سلیب پہ کٹنگ بورڈ کے اوپر پیاز رکھے کھٹا کھٹ کاٹ رہی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔
بریانی کی مقدار زیادہ ہے، چار چمچ سرخ مرچ ڈال دیتی ہوں، شاید ذرا سا ذائقہ آ جائے۔ ٹھیک؟ وہ خودکلامی کے انداز میں کہتی ٹوکری سے چھوٹا چمچ ڈھونڈنے لگی۔
ہاں ٹھیک! ڈی جے نے بھیگی آنکھیں اوپر اٹھا کر اسے دیکھتے ہوئے رندھی آواز میں کہا اور آستین سے آنکھیں رگڑیں۔
حیا اب ڈبے سے چمچ بھر بھر کر دھوئیں اڑاتے پتیلے میں ڈال رہی تھی۔ بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا اس کے پیچھے گردن پر جھول رہا تھا۔ سادہ شلوار قمیص پہ ڈھیلا ڈھالا سا سبز سوئٹر پہنے ہوئے تھی، جس کی آستینیں اس نے کہنیوں تک موڑ رکھی تھیں۔ ڈوپٹا ایک طرف دروازے پہ لٹکا تھا اور چند لیٹیں جوڑے سے نکل کر چہرے کے اطراف میں لٹک رہی تھیں۔ گوشت میں چمچہ ہلاتی وہ بہت مصروف لگ رہی تھی۔
وہ دونوں اس وقت انجم باجی کے کچن میں موجود تھیں۔ صبح انجم باجی ڈی جے کو ڈائننگ ہال میں ملیں تو شام کو اپنے گھر میں دعوت دے ڈالی، جو کہ ڈی جے نے یہ کہہ کر قبول کر لی کہ وہ اور حیا مل کر بریانی بنائیں گی۔ اب سرشام ہی وہ دونوں ہالے کو لے کر انجم باجی کے اپارٹمنٹ آگئی تھیں۔
ایک بیڈروم، لاؤنج اور کچن پر مشتمل وہ چھوٹا مگر بےحد نفیس اور سلیقے سے سجا اپارٹمنٹ تھا۔ ہالے کو انہوں نے لاؤنج میں انجم باجی کے ساتھ ہی بیٹھا رہنے دیا اور خود کچن میں آ کر کام میں مصروف ہو گئیں۔
یہ پینٹنگ جوید جی لائے تھے انڈیا سے۔ اندر لاؤنج میں انجم باجی کی ہالے کو مطلع کرتی آواز آرہی تھی۔
ڈی جے! یہ جوید جی کیا ہے؟ اس نے قدرے الجھ کر پوچھا ۔
ان کا مطلب ہے، جاوید جی۔ ان کے ہیزبینڈ! ڈی جے نے سرگوشی کی تو وہ ”اوہ“ کہہ کر مسکراہٹ دباتی پلٹ کر ابلتے چاولوں کو دیکھنے لگی۔
جس وقت انجم باجی اور ہالے کچن میں داخل ہوئیں، حیا پتیلے کا ڈھکن بند کر رہی تھی۔ آہٹ پر پلٹی اور مسکرائی۔
بس دم دے رہی ہوں۔
بہت خراب ہو تم دونوں، مجھے اٹھنے ہی نہیں دیا۔
بس اب آپ کو کھانے کے وقت ہی اٹھانا تھا۔ وہ جوید۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید بھائی آ گئے؟ وہ ہاتھ دھو کر تولیے سے صاف کرتی ڈی جے کے پاس آئی۔
ڈی جے کا سلاد ابھی تک مکمل نہیں ہوا تھا۔ اب کہیں جا کر وہ ٹماٹروں تک پہنچی تھی۔
بس آنے والے ہیں۔ لاؤ! یہ سلاد تو مجھے بنانے دو۔
نہیں! میں کر لوں گی۔ تھوڑا سا رہ گیا ہے۔ ڈی جے نے بڑی بےفکری سے کہا تو اس نے جتاتی نظروں سے اسے گھورا۔
آپ نےاس تھوڑے میں بهی صبح کر دینی ہے۔ لاؤ مجھے دو اور پلیٹیں لگاؤ۔ اس نے ٹماٹر اور چهری ڈی جے کے ہاتھ سے لے لی۔
ہالے ازخود نہایت پهرتی سےسارا پهیلاوا سمیٹنے میں لگی ہوئی تهی۔ وہ میلے برتن اب سنک میں جمع کر رہی تهی۔ وه ان کبهی کبهی کام کر نے والی پاکستانی لڑکیوں کی نسبت بہت تیزی سے ہاتھ چلا رہی تهی۔
ڈی جے کیبنٹ سے پلیٹں نکالنے لگی اور انجم باجی رائیتہ بنانے لگیں۔
حیا نے ٹماٹر کو کٹنگ بورڈ پہ بائیں ہاتھ سے پکڑ کر رکها اور چهری رکھ کر دبائی۔ دو سرخ ٹکڑے الگ ہو گئے اور ذرا سا سرخ رس بائیں ہتھیلی کی پشت پہ بہہ گیا، جہاں کاجل سے لکهے تین بڑے بڑے حروف تهے۔
اے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پی
وہ دو تین روز سے اس اے آر پی کے متعلق سوچے جا رہی تهی، اب بهی کچھ سوچ کر اس نے گردن اٹھائی۔
"انجم باجی!"
دہی کو کانٹے کی مدد سے پھینٹتیں انجم باجی نے ہاتھ روک کر اسے دیکه۔
آپ نے کسی "ایرپ" کے متعلق سنا ہے؟
"ایرپ"؟ انجم باجی نے حیرت بهری الجهن سے دوہرایا۔
جی، ایرپ۔ اے آر پی۔ اس نے وضاحت کے لیے ہجے کر کے بتایا۔
اوہ ناٹ اگین حیا پلیز! ہالے جو سنک کے آگے کهڑی تهی، قدرے اکتا کر پلٹی۔ اس کے ہاتھ میں جهاگ بهرا اسفنج تها جسے وہ پلیٹ پہ مل رہی تهی۔ 
"تم پهر وہی موضوع لے کر بیٹھ گئی ہو؟ اس کے انداز میں خفگی بهرا احتجاج تها۔
مگر ہالے۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کے وہ الجهی تهی۔ یہ موضوع تو اس نے ابھی تک ہالے کے ساتھ ڈسکس بهی نہیں کیا تها، پهر.........؟
میں نے کہا تها نا، یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔
مگر میں نے پوچھا ہی کیا ہے؟
اے آر پی۔ عبدالرحمان پاشا اور کون؟ میں نے بتایا تها نا کہ یہ گھریلو عورتوں کے افسانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ استنبول ہے۔ یہاں قانون کا راج ہے، مافیا کا نہیں۔ اب اس کے بعد میں اس موضوع پہ کچھ نہیں سنوں گی۔
ہالے اب پلٹ کر جهاگ سے بهری پلیٹ کو پانی سے کهنگال رہی تهی اور وہ....... وہ حیرتوں کے سمندر میں گهری کھڑی تهی۔
اے آر پی۔۔۔۔۔ عبدالرحمان پاشا.....اوہ.... یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا؟
"اوکے اوکے! وہ بظاہر سر جهکائے ٹماٹر کاٹنے لگی مگر اس کے ذہن میں بہت سے خیال گڈ مڈ ہو رہے تهے۔ ہالے اور جہان دونوں ایک جیسے تھے اور اپنے استنبول کے دفاع کے علاوہ کبھی کچھ نہیں کہیں گے، اسے یقین تھا، مگر کسی کے پاس تو کچھ کہنے کے لئے ہوگا اور اسے اس " کسی" لکو ڈھونڈنا تھا۔
وہ میز لگا رہی تھی جب جاوید بھائی آگۓ۔
وہ پی ایچ ڈی کر رہے تھے اور سبانجی میں پڑھاتے بھی تھے۔ بےحد ملنسار، سادہ اور خوش اخلاق سے دیسی مرد تھے۔ پرانے پاکستانی پروگراموں کے شوقین اور پرستار۔ ٹی وی کے ساتھ ریک میں ان کہی، تنہائیاں، دھوپ کنارے، آنگن ٹیڑا، الف نون سمیت بہت سے کلاسک ڈراموں کی ڈی وی ڈیز قطار میں سجی تھیں۔ ان دونوں میاں بیوی کا ایک دوسرے کے لئے طرز تخاطب بہت دلچسپ تھا۔ "جوید جی" اور "آنجو جی"۔ اسے بہت ہنسی آئی۔ باقی تینوں کچن میں تھیں، جب حیا پانی رکھنے میز پر آئی تو جاوید بھائی کو تنہا بیٹھے پایا۔ وہ کسی کتاب کی ورق گردانی کر رہے تھے۔
"جوید۔۔۔۔۔۔۔۔جاوید بھائی!" وہ گڑ بڑا کر تصیح کرتی ان کے سامنے کرسی کھینچ کر بیٹھی اور محتاط نگاہوں سے کچن کے دروازے کو دیکھا۔"
"ایک بات پوچھنی تھی آپ سے۔"
"جی جی۔ پوچھیۓ۔" وہ فورًا کتاب رکھ کر سیدھے ہو بیٹھے۔
"استنبول میں ایک انڈین مسلم رہتا ہے عبدالرحمان پاشا نام کا۔ آپ اسے جانتے ہیں؟" وہ محتاط سی کرسی کے کنارے ٹکی بولتے ہوۓ بار بار کچن کے دروازے کو بھی دیکھ لیتی۔
"کون پاشا؟ وہ بیوک ادا والا؟"
اور حیا کو لگا، اسے اس کے جواب ملنے والے ہیں۔
"جی جی وہی۔ وہ خاصا مشہور ہے۔"
"ہاں سنا تو میں نے بھی ہے۔ بیوک ادا میں اس کا کافی ہولڈ ہے۔ وہ مال امپورٹ ایکسپورٹ کرتا ہے۔"
"کیا وہ مافیا کا بندہ ہے؟ اسلحہ اسمگل کرتا ہے۔؟"
"ایک پروفیسر کو مافیا کے بارے میں کیا معلوم ہو گا حیا جی؟" وہ کھسیاہٹ سے مسکراۓ۔
"یعنی کے وہ واقعی مافیا کا بندہ ہے؟ اور آپ کو معلوم بھی ہے، مگر آپ اعتراف نہیں کرنا چاہ رہے۔" اس نے اندھیرے میں تیر چلانا چاہا۔
"میں ٹھیک سے کچھ نہیں جانتا۔" انہوں نے سادگی سے ہتھیار ڈال دیے۔
دفعتًا کچن سے انجم باجی کی چیخ بلند ہوئی۔ وہ جو کرسی کے کنارے پہ ٹکی تھی، گھبرا اٹھی اور کچن کی طرف لپکی۔
"کیاہوا؟"
انجم باجی سرخ بھبجوکا چہرہ اور آنکھوں میں پانی لیے کھڑی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں خالی چمچہ تھا۔
"مرچیں۔۔۔۔۔۔۔۔اتنی مرچیں حیا!"
"نن نہیں۔ یہ ترکی کی مرچیں پھیکی ہوتی ہیں تو میں نے صرف چار چمچے۔۔۔۔"
"چار چمچے؟" ان کی آنکھیں پھیل گئیں۔ "یہ ترکی کی نہیں خالص ممبئ کی مرچیں ہیں، میں سارے مسالے وہیں سے لاتی ہوں۔"
"اوہ نہیں۔" اس نے بے اختیار دل پہ ہاتھ رکھا، جبکہ ڈی جے ہنس ہنس کر دوہری ہو رہی تھی۔
••••••••••••••••••••••••••••••
سردی کا زور پہلے سے ذرا ٹوٹا تھا۔ اس صبح بھی سنہری سی دھوپ ٹاقسم اسکوائر پہ بکھری تھی۔ مجسمہ آزادی کے گرد ہر سو سونے کے ذرات چمک رہے تھے۔ وہ دونوں سست روی سے سڑک کے کنارے چل رہی تھیں جب ڈی جے نے پوچھا۔
"حیا........ یہ ٹاقسم نام، کتنے مزے کا ہے اس کا مطلب کیا ہوا بھلا؟"
"میں شہر کی میئر ہوں، جو مجھے پتا ہو گا؟"
"نہیں۔ وہ میری گائیڈ بک میں لکھا تھا کہ ٹاقسم عربی کا لفظ ہے اور اس کے معنی شاید بانٹنے کے ہیں، کیونکہ یہاں سے نہریں نکل کر سارے شہر میں بٹ جاتی تھیں تمہیں۔ عربی آتی ہے۔ اس لیے پوچھ رہی ہوں۔
" عربی میں تو ٹاقسم نام کا کوئی لفظ نہیں ہے، اور عربی میں بانٹنے کو تقسیم کہتے ہیں۔" وہ ایک دم رکی اور بے اختیار سر پہ ہاتھ مارا۔ "اوہ ٹاقسم یعنی تقسیم۔ اگر گوروں کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے پڑھو تقسیم، تاقسم یا ٹاقسم بن جاتا ہے۔"
"ٹاقسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔! واؤ۔" وہ دونوں اس بات پہ خوب ہنستی ہوئی آگے بڑھنے لگیں۔ وہ شاپنگ کے ارادے سے آج استقلال اسٹریٹ کی طرف آئی تھیں۔
استقلال جدیسی istiklal caddies (سٹریٹ) ٹاقسم کے قریب سے نکلنی والی ایک لمبی سی گلی تھی۔ وہ اگلی دونوں اطراف سے قدیم آرکیٹیکچر والی اونچی اونچی عمارتوں سے گھری تھی۔ گلی بے حد لمبی تھی، وہاں انسانوں کا ایک رش ہمیشہ چلتا دکھائی دے رہا ہوتا۔ بہت سے سامنے کی طرف جا رہے ہوتے اور بہت سے آپ کی طرف آ رہے ہوتے۔ ہر شخص اپنی دھن میں تیز تیز قدم اٹھا رہا ہوتا۔
گلی کے درمیان ایک پٹری بنی ہوئی تھی، جس پر ایک تاریخی سرخ رنگ کا چھوٹا سا ٹرام چلتا تھا۔ وہ پیدل انسان کی رفتار سے دگنی رفتار سے چلتا اور گلی کے ایک سرے سے دوسرے تک پہنچا دیتا۔ اس گلی کو ختم کرنے کے لیے بھی گھنٹہ تو چاہئیے تھا۔
وہاں دونوں اطراف میں دکانوں کے چمکتے شیشے اور اوپر قمقمے لگے تھے۔ بازار، نائٹ کلبز، ریسٹورنٹس، کافی شاپس، ڈیزائنروئیر، غرض ہر قسم کی دکانیں وہاں موجود تھیں۔ چند روز پہلے وہ ادھر آئیں تو صرف ونڈو شاپنگ میں ہی ڈھائی گھنٹے گزر گئے، اور تب بھی وہ استقلال جدیسی کے درمیان پہنچی تھیں، سو تھک کر واپس ہولیں۔
"حیا تم نے دیکھا استقلال سٹریٹ جیسے ماڈرن علاقے میں بھی ہر تھوڑی دور بعد پریئر ہال ضرور ہے۔"
"بڑے نیک ہیں بھئی ترک!" وہ دونوں طنزیہ ہنسی اور پھر متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ استقلال اسٹریٹ آنے کا اصل مقصد جہان سے ملنا تھا
اور وہ صرف اس لیے یہاں آئی تھی کہ برگر کنگ جاۓ اور "میں یہاں سے گزر رہی تھی تو سوچا۔" کہہ کر اس سے ملاقات کا بہانا ہی ڈھونڈ لے۔
وہ دونوں ساتھ ساتھ تیز رفتاری سے چل رہی تھیں۔وہاں ہوا تیز تھی اور حیا کے کھلے بال اڑ اڑ کر اس کے چہرے پہ آ رہے تھے۔ وہ بار بار جیکٹ کی جیب سے ہاتھ نکالتی اور انہیں کانوں کے پیچھے اڑستی۔ تب ہی اس نے برگر کنگ کا بورڈ دیکھا تو ڈی جے کو بتاۓ بنا ریسٹورنٹ کے دروازے تک آئی اور اس سے پہلے کہ وہ دروازے پہ ہاتھ رکھتی، دروازہ اندر سے کھلا اور کوئی باہر نکلا۔ وہ بے اختیار ایک طرف ہوئی۔ وہ جہاں تھا، وہ اسے پہچان گئی تھی مگر وہ اکیلا نہیں تھا۔
وہ اس کے سامنے سے آتا ساتھ سے گزر کر نکل گیا تو وہ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ ڈی جے نے اسے رکتے نہیں دیکھا تھا، وہ اپنی دھن میں دکانوں کو دیکھتی چلتی گئی اور لوگوں کے ریلے میں آگے بہہ گئی۔
حیا یونہی اپنے گھٹنوں تک آتے سیاہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اسے دیکھ رہی تھی۔ اب وہ ہوا کے رخ پہ کھڑی تھی، تو اس کےبال پیچھے کی طرف اڑنے لگے تھے۔
جہاں اس سے دور جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک دراز قد لڑکی بھی تھی۔ کوٹ اسکرٹ میں ملبوس اپنے سرخ بالوں کو اونچے جوڑے میں باندھے، وہ لڑکی ناگواری سے ہاتھ ہلا ہلا کر کچھ کہہ رہی تھی۔
جہاں نے اسے نہیں دیکھا، اسے یقین تھا۔ وہ دوڑ کر ان کے پیچھے گئی۔ وہ دونوں بہت تیز چل رہے تھے۔ ان کی رفتار سے ملنے کی سعی میں وہ ایشیائی لڑکی ہانپنے لگی تھی، بمشکل وہ ان کے عین عقب میں پہنچ پائی۔
لڑکی بلند آواز میں سر ہلاتی کچھ کہہ رہی تھی۔ جہاں بھی خاصا جھنجلایا ہوا جوابًا بحٽ کر رہا تھا۔ وہ ترک بول رہے تھے، یا کوئی دوسری زبان، وہ فیصلہ نہ کر پائی۔ شاید ترک نہیں تھی۔ وہ بہت لمبے لمبے فقرے بول رہے تھے اور جتنی ترک حیا نے اب تک سنی تھی، وہ ایسی نہیں تھی۔ ترک میں فقرے چھوٹے ہوتے تھے۔ بس فعل استعمال کیا اور اس کے آگے پیچھے سابقے لاحقے لگا لگا کر ایک بڑا لفظ بول دیا جو معنی میں کئی فقروں کے برابر ہوتا تھا
"جہاں۔۔۔۔۔۔۔ جہان۔۔۔۔۔" وہ شور و رش میں بمشکل اتنی آواز سے اسے پکار پائی کہ وہ سن سکے۔ اس کی تیسری پکار پہ وہ رکا۔ لڑکی بھی ساتھ رکی۔ وہ دونوں ایک ساتھ پلٹے۔
"جہان۔۔۔۔" اس کے ہونٹ جہان کو دیکھ کر ایک معصوم مسکراہٹ میں ڈھلنے لگے تھے۔
"کیا مسیلہ ہے؟" اس نے سنجیدہ، اکھڑے اکھڑے انداز میں ابرو اٹھاۓ۔ اسکے چہرے پہ اتنی سختی اور ناگواری تھی کہ حیا کے مسکراہٹ میں کھلتے لب بند ہوگئے۔ اس کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔
"میں۔۔۔۔حیا۔۔۔۔۔۔" وہ بے یقینی سے بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے شک گزرا کہ جہاں نے اسے نہیں پہچانا۔
"ہاں تو پھر؟" وہ بھنویں سیکڑے بولا۔
وہ لڑکی کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑی ناپسندیدگی سے حیا کو دیکھ رہی تھی۔
پھر؟ حیا نے بے یقینی سے زیرلب دہرایا۔ وہ ششدر سی جہان کو دیکھ رہی تھی۔
کوئی کام ہے؟ 

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page