
جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد
قسط نمبر آٹھ
کوئی کام ہے؟ وہ بمشکل ضبط کر کے بولا۔
حیا نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔ اس میں بولنے کی سکت نہیں رہی تھی۔
"تو میری شکلُ کیا دیکھ رہی ہو؟ جاؤ!" وہ شانے جھٹک کر پلٹا۔ لڑکی بھی ایک اچٹتی نگاہ اس پہ ڈال کر مڑ گئی۔
استقلال اسٹریٹ پر لوگوں کا ریلہ آگے بڑھتا گیا۔ جہان سکندر اور اس لڑکی کے پیچھے بہت سے لوگ اس سمت جا رہے تھے۔ کتنی ہی دیر وہ ساکت کھڑی بہت سے سروں کی پشت کے درمیان اور ان دونوں کو دور جاتے دیکھتی رہی۔ اس کی پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں۔
ان دونوں کے سراپے ہجوم میں گم ہو رہے تھے۔ وہ دو نقطے بنتے جا رہے تھے۔ مدھم ۔۔۔۔۔۔۔۔ دور۔۔۔۔۔۔ بہت دور۔۔۔۔۔۔
"حیا ۔۔۔۔۔۔حیا۔۔۔۔۔" ڈی جے کہیں دور اتھلُ پتھل سی سانسوں کے درمیان چلا رہی تھی، مگر وہ سن نہیں رہی تھی۔ وہ اسی طرح بھیڑ کے درمیان پتھر ہوئی کھڑی اسی سمت دیکھ رہی تھی۔ وہ بہت دور جا چکے تھے۔ ساکت پتلیوں میں اب درد ہونے لگا تھا۔ بلآخر بوجھ سے اس کی پلکیں گریں اور جھک کر اٹھیں تو منظر بھیگ چکا تھا۔ اس نے پھر سے پلکیں جھپکائیں تو بھیگی آنکھوں سے قطرے رخساروں پہ گرنے لگے۔ سامنے کا منظر قدرے واضح ہوا مگر۔۔۔۔۔
لمحے بھر کی تاخیر سے اس کا تعاقب ہار گیا تھا۔ وہ دونوں بھیڑ میں گم ہو گئے تھے۔ وہ اپنا منظر کھو چکی تھی۔
آنسو ٹپ ٹپ اس کی ٹھوڑی سے نیچے گردن پہ لڑھکتے گئے۔
"حیا۔۔۔۔ کدھر رہ گئیں تھیں تم؟" ڈی جے نے نڈھال سی آ کر اس کا شانہ جھنجھوڑا ۔ اس کا سانس پھول چکا تھا اور وہ ہانپ رہی تھی۔
"میں کہیں بہت پیچھے رہ گئی ہوں ڈی جے!" وہ اسی سمت دیکھتے ہوۓ بڑبڑائی تھی۔
*************************
اس نے ایک ہاتھ سے اوون کا ڈھکن کھولا دوسرے ہاتھ سے گرم ٹرے باہر نکالی۔
ٹرے پہ بھوری، خستہ گرما گرم جنجر بریڈ تیار پڑی تھی۔ ادرک کی ہلکی سی خوشبو سارے کچن میں پھیلی تھی۔
وہ دوسرے ہاتھ سے جنجر بریڈ کو چیک کرتی سیدھی ہوئی اور ٹرے لا کر کاؤنٹر پہ رکھی۔ وہ سفید ڈھیلی سی آدھے بازوؤں والی ٹی شرٹ اور کھلے سیاہ ٹراؤزر میں ملبوس تھی۔ بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا گردن پہ پڑا تھا اور الجھی الجھی سی لٹیں گالوں کو چھو رہی تھیں۔ ٹی شرٹ کے اوپر پہنے ایپرن پہ جگہ جگہ چاکلیٹ اور کریم کے دھبے لگے تھے۔
معتصم کاؤنٹر کے ایک طرف کھڑا پیالے میں انڈے کی سفیدی پھینٹ رہا تھا۔ ڈی جے دوسری طرف کھڑی سجاوٹ کے لیے بنٹی (bunties) اور رنگ برنگےبینز (beans) کے پیکٹ کھول کھول کر پلیٹ میں انڈیل رہی تھی۔ ہر رنگ کے بینز، کینڈیز اور سرخ بینز کا ڈھیر لگ چکا تھا۔
آج حسین کی سالگره تهی۔ روایتی طریقے سے کیک بنانے کی بجاۓ حیا اس کے لیے جنجر بریڈ هاؤس تیار کر رهی تهی۔ ایک فٹ اونچا جنجر بریڈ سے بنا گهر جو چاکلیٹ، کریم اور رنگ برنگی جیلیز سے سجانا تها۔ وه پچھلے چار گهنٹے سے لگی ہوئی تهی اور اب بالآخر اس کے جنجر بریڈ کے چھ کے چھ بیک هو چکے تهے۔ چار دیواروں کے لیے اور دو مخروطی چهت کے لیے۔
"آؤ اس کو جوڑتے ہیں۔" اس نے کہا تو معتصم جو آئسنگ بنا چکا تها۔ پیالہ رکھ کر اس کی طرف آ گیا۔ ڈی جے اب ایک دیوار اٹها کر اس میں سے مستطیل دروازه کاٹ رهی تهی۔
حیا اور معتصم نے احتیاط سے دیواریں متصل کهڑی کیں اور ان کے جوائٹ پہ، بطور گم، مخصوص سیرپ لیپ دیا۔ اور بہت آہستہ سے اپنے ہاتھ ہٹاۓ۔
دیواریں سیدهی کهڑی رہیں۔ سیرپ نے ان کو چپکا دیا تها۔
"زبردست! وه پر جوش ہو گئی۔ اس کا گهر بن رہا تها۔ یہ خیال ہی اس کی تهکاوٹ بھگا کر لے گیا۔
وه دونوں اب اگلی دیوار جوڑنے لگے۔ حیا کے ماتهے سے جھولتی لٹ بار بار آنکهوں کے سامنے آتی وه بار بار اسے پیچهے ہٹاتی۔ انگلیوں پر لگے چاکلیٹ سیرپ کے دهبے اس کے رخسار پر لگ گۓ مگر پرواه کسے تهی۔
چار دیواری بن گئی تهی۔ اب انهوں نے دو مستطیل ٹکڑوں کو اوپر الٹے "وی" کی طرح رکها اور جوڑ پر سیرپ لگایا۔ کافی دیر بعد انهوں نے اپنے ہاتھ اٹهاۓ۔
چھت برقرار رهی۔ سیرپ سوکهنے لگا تها۔ چهت مزید مضبوط ہو گئی۔
"حیا! تم گریٹ ہو۔" وه بهورا سا گھر بنا رنگ یا آرائش کے بهی اتنا حسین لگ رہا تها کہ معتصم بے اختیار ستائش سے بولا۔
"مجهے پتا ہے" وه دهیرے سے ہنسی۔
وه تینوں اب الابلا کینڈیز اور جیلیز سے دیواروں کی سجاوٹ کرنے لگے۔ وه ہر ڈیکوریشن کے ٹکڑے کے پیچهے ذرا سا سیرپ لگا کر اسے دیوار سے چپکا دیتے۔ بهورے گهر پہ جگہ جگہ سرخ، سبز اور نیلے بٹن کی مانند آنکهیں ابهرنے لگی تهی۔ ذرا سی دیر میں گھر سج گیا تها. ڈی جے نے سفید کریم سے کهڑکیوں کی چوکور چوکهٹیں بنائیں اور اندر نیلی کریم کا رنگ بھر دیا۔
"اب استنبول کی برف باری کا مزه اپنے گهر کو بهی چکهائیں۔"
حیا آئسنگ شوگر اور چهلنی لے آئی۔" اس نے سفید سوکهے آٹے کی شکل کی آئسنگ شوگر چهلنی میں ڈالی اور گھر کے اوپر کر کے چهلنی آہستہ آہستہ ہلانے لگی۔ چهلنی کے سوراخوں سے سفید ذرے نیچے گرنے لگے۔ بهورے گھر پر برف باری ہونے لگی اور اب ہلکی سی سفید تهہ چاکلیٹ سے ڈهکے گھر پر بیٹهنے لگی۔
حیا کا "جنجر بریڈ هاؤس" "Ginger Bread House" تیار تها۔
اس نے احتیاط سے ٹرے اٹھائی۔ گھر برقرار رہا۔ یہ اس کی ساڑهے چار گھنٹے کی محنت کا ثمر تها۔ کسی سالگره کی تقریب سے پہلے حیا سلیمان نک سک سے تیار نہ ہو، حیرت انگیز بات تهی، مگر آج اس کی تیاری وه گھر ہی تها۔ اسے اپنے رف حلیے، ایپرن اور چہرے پر لگے دهبوں کی پروا نہیں تهی۔ اس کی ساری توجہ ٹرے میں سجے جنجر بریڈ هاؤس پر تهی۔
وه ڈی جے اور معتصم کے پیچهے چلتی کامن روم میں داخل ہوئی۔
وہاں فاصلے فاصلے پہ گول میزوں کے گرد کرسیوں کے پهول بنے تهے۔ درمیانی میز پہ گفٹس اور حسین کا لایا ہوا کیک رکها تها۔ باره ممالک کے ایکسچینج اسٹوڈنٹس آچکے تهے۔ وه کوئی سرپرائز پارٹی نہ تهی۔ سو حسین بڑی میز کے پیچهے کهڑا ہنستا ہوا ٹالی کا گفٹ لینے کی کوشش کر رہا تها، جسے ٹالی بار بار پیچهے کر رہی تهی۔
"سرپرائز!" حیا نے پکارا تو سب نے ادهر دیکها۔ معتصم اور ڈی جے کے پیچهے وہ چوکهٹ پر کهڑی تهی۔ دونوں ہاتھوں میں اٹهائی ٹرے میں وه فیری ٹیل ہاؤس رکها تها، اور حیا کو پتا تها، وه ہنسل اور گریٹل کے جنجر بریڈ ہاؤس سے زیاده خوبصورت تها۔
"واؤ!" بے اختیار بہت سے لبوں سے ستائش نکلی۔
"حیا...۔۔۔ تم نے میرے لیۓ اتنا کیا؟" حسین بے حد متاثر ہوا تها۔
اس نے مسکراتے ہوۓ شانے اچکاۓ۔
وه دروازے میں کهڑی تهی۔ دروازه آدها کهلا تها اور سردی اندر آ رہی تهی۔
"آؤ حیا! اسے میز پہ لے آؤ۔" معتصم بڑی میز سے گفٹس، کیک اور دوسری ڈشز کے درمیان چیزیں ہٹا کر جگہ بنانے لگا۔
سردی کی لہر دروازے سے اندر گھس رہی تهی۔ اس نے بائیں ہاتھ میں ٹرے پکڑے، دائیں ہاتھ سے دروازه دهکیلنا چاہا۔ وه بدقسمتی کا لمحه تها۔
دروازے کی ناب کو اس نے چھوا ہی تها کہ دروازه زور سے پورا کهلا اور کوئی تیزی سے اندر داخل ہوا۔ کهلتے دروازے نے اس کا بڑھا ہاتھ پیچھے دھکیلا اور وه توازن برقرار نا رکھ سکی۔ بے اختیار ایک قدم پیچهے ہٹی اور تب ہی اس کے بائیں ہاتھ میں پکڑی ٹرے ٹیڑهی ہوئی۔
"اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نو!" بہت سی دلدوز چیخیں بلند ہوئیں اور ان میں سب سے دلخراش چیخ اس کی اپنی تهی۔
الٹی ہوئی ٹرے اس کے ہاتھ میں ره گئی۔ ہلکی سی ٹهڈ کی آواز کے ساتھ جنجر بریڈ هاؤس زمین پر جا گرا۔ ہر دیوار ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ بنٹیز او جیلیز ادهر ادهر بکهر گئیں۔
فرش پہ بریڈ، چاکلیٹ، کریم اور رنگ برنگی بنٹیوں کا ملبہ پڑا تها اور وه سب سناٹے کے عالم میں پهٹی پهٹی آنکهوں سے اسے دیکھ رہے تهے۔
کتنے ہی پل وه شاک کے عالم میں وه اس ملبے کو دیکهے گئی، پهر اس کے پار نظر آتے جوگرز کو دیکھا۔ اور اپنی ششدر نگاہیں اوپر اٹهائیں۔
وه جہان سکندر تها، اور اتنی ہی بے یقینی و شاک سے ملبے کو دیکھ رہا تها۔ حیا کے دیکهنے پہ بے اختیار اس نے نفی میں سر ہلایا۔
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔ میں نے جان بوجھ کر نہیں۔ مجھے نہیں پتا تها کہ تم سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ گاڈ۔۔۔۔۔ تاسف، ملال کے مارے وہ کچھ کہہ نہیں پا رہا تها۔
وہ جو پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تهی، ایک دم لب بهینچ گئی۔ اس کی آنکھوں میں تحیر کی جگہ غصے نے لے لی۔ خون کی سرخ لکیریں اس کی آنکھوں میں اترنے لگیں۔ وہ ایک دم جهکی، بریڈ کا ٹوٹا، کریم میں لتهڑا ٹکرا اٹھایا اور سیدهے ہوتے ہوئے پوری قوت سے جہان کے منہ پہ دے مارا۔
وہ اس غیر متوقع حملے کے لیئے تیار نہ تها۔ کریم میں لتهڑا ٹکرا اس کے گردن پہ لگا تو وہ بے اختیار دو قدم پیچهے ہٹا۔ ٹکڑا اس کی شرٹ پر سے پھسلتا هوا نیچے قدموں میں جا گرا۔
اس نے گردن پہ لگی کریم کو ہاتھ سے چهوا اور پهر انگلیوں کے پوروں کو بے یقینی سے دیکها۔
حیا! میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔
وہ سرخ آنکھوں سے لب بهینچے جہان کو دیکھ رہی تهی۔ اس نے لب اتنی سختی سے بهینچ رکهے تهے کہ گردن کی رگیں ابهرنے لگی تهیں اور کنپٹی پہ نیلی لکیر نظر آ رہی تهی۔ وہ بالکل چپ کھڑی گہرےگہرے سانس لے رہی تهی۔
حیا۔۔۔۔۔۔ اٹس اوکے۔۔۔۔۔۔۔ حسین پریشانی سے آگے بڑھا۔ ڈی جے اور معتصم بهی اس کے ساتھ تهے۔
حیا! میں نے واقعی نہیں دیکها تها کہ تم۔۔۔۔۔۔۔
شٹ اپ۔ جسٹ شٹ اپ! وہ اتنی زور سے چلائی کہ آگے بڑھتا حسین وہیں رک گیا۔
چلے جاؤ تم یہاں سے۔ کہیں بهی چلے جاؤ مگر میری زندگی سے نکل جاؤ۔ تم میرے لئے عذاب اور دکھ کے علاوہ کبھی کچھ نہیں لائے۔ نکل جاؤ اس کمرے سے۔ اس نے اردو میں چلا کر کہا تھا۔ بارہ ممالک کے ایکسچینج اسٹوڈنٹس میں سے اردو کوئی نہیں سمجهتا تها سوائے ڈی جے کے، مگر وہ تمام متاسف کھڑے طلباء سمجھ گئے تهے کہ وہ کیا کہہ رہی ہے۔
حیا۔۔! جہان کی آنکھوں میں دکھ ابهرا۔
میرا نام بهی مت لو۔ اس نے گردن کے گرد بندهے ایپرن کی ڈوری ہاتھ سے نوچی، ایپرن ایک طرف اتار کر پهینکا اور بهاگتی ہوئی باہر نکل گئی۔
سڑهیو ں کے اوپر لگا بلب اس کے آتے ہی جل اٹها۔ وہ تیزی سے چکردار سیڑهیاں اترنے لگی۔ آنسو اس کے چہرے پہ بہہ رہے تهے۔ آخری سیڑهی پھلانگ کر وہ اتری اور برف سے ڈھکی گهانس پہ تیز تیز چلنے لگی۔
باہر تیز سرد ہوا تهی۔ ہلکا ہلکا سا کہر ہر سو چهایا ہوا تها۔ وہ سینے پہ بازو لپیٹے، سر جهکائے روتی ہوئی چلتی جا رہی تهی اور اسے پتا تها کہ وہ ایک جنجر بریڈ ہاؤس کے لیے نہیں رو رہی تهی۔
پہاڑی کی ڈهلان اتر کر سامنے سبانجی کی مصنوعی جهیل تهی۔ جهیل اب خاصی پگهل چکی تهی، پهر بهی فاصلے فاصلے پر بڑے بڑے برف کے ٹکڑے تیرتے نظر آ رہے تهے۔
وہ جھیل کے کنارے رک گئی۔ تیز دوڑنے سے اس کا سانس پھول گیا تھا۔ پتلی ٹی شرٹ میں سردی لگنے لگی تھی۔ ڈھیلا جوڑا آدھا کھل کر کمر پر گر گیا تھا۔
وہ تھکی ماندی سی گھاس پہ بیٹھ گئی اور سلیپرز سے پاؤں نکال کر ٹھنڈے پانی میں ڈال دیے۔ وہ خود اذیتی کی انتہا تھی۔ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ کر سر نیچے جھکا کر وہ ایک دم سے بہت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
مصنوعی جھیل کا پانی رات کے اندھیرے میں چاند کی روشنی سے چمک رہا تھا، گویا چاندی کا ایک بڑا سا ورق سیاہ پانی پہ تیر رہا ہو۔ دور جنگل سے پرندوں کی آواز وقفے وقفے سے سنائی دیتی تھی۔ کئی لمحے ریت کی طرح پھسل کر جھیل کی چاندی میں گم ہو گئے تو اس نے قدموں کی چاپ سنی۔ کوئی اس کے ساتھ آ کھڑا ہوا تھا۔
اس نے بھیگا چہرا اٹھا کر دیکھا۔
وہ جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے لب کاٹتا سنجیدہ سا اس کے ساتھ کھڑا تھا۔
"سوری حیا! میں تو معذرت کرنے آیا تھا کہ اس روز کام کی پریشانی میں تم سے مس بی ہیو کر گیا مگر............" وہ چپ چاپ بے آواز روتی اسے دیکھے گئی۔
"آئی ایم رئیلی سوری....... میں نے تمہارا اتنا نقصان کر دیا۔ میں نے تمہیں دیکھا نہیں تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم دروازے کے پار کھڑی ہو۔ میں نے تمہارا بڑھا ہوا ہاتھ نہیں دیکھا تھا
اپنی دانست میں بہت تیز چل رہا تھا اور انجانے میں تمہارا ہاتھ دھکیل دیا۔ تمہاری ساری ریاضت ضائع کر دی۔"
شاید وہ صرف جنجر بریڈ ہاؤس کی بات کر رہا تھا، یا شاید ان کے تعلق کی۔ وہ ابھی کچھ بھی سہی یا غلط سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔
"مگر میں مداوا کر دوں گا۔"
"مداوا؟" اس کے بہتے آنسو پل بھر کو تھمے۔
"ہاں میں تمہیں بالکل ایسا جنجر بریڈ ہاؤس بنا کر لا دوں گا۔"
اور اس کا دل چاہا، وہ پھوٹ پھوٹ کر پھر سے رو دے
"مائی فٹ جہان سکندر!" وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور گیلے پیر پانی سے نکال کر سلیپرز میں ڈالے۔ "میری زندگی میں جنجر بریڈ ہاؤس سے بڑے مسائل ہیں۔"
وہ تیزی سے پلٹی تو ڈھیلے جوڑے کا آخری بل بھی کھل گیا اور سارے بل آبشار کی طرح کمر پہ سیدھے گرتے گئے۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اوپر ڈھلان پر چڑھنے لگی۔
جہان لب لب کاٹتا اسے دور جاتے دیکھتا رہا۔
•••••••
وہ تکیے سے ٹیک لگاۓ، پاؤں لمبے کیے، کمبل میں لیٹی تھی۔ دونوں ہاتھوں سے موبائل تھامے وہ گیم کھیل رہی تھی۔
ساتھ والے بینک پہ ٹالی منہ پہ تکیہ رکھے سو رہی تھی۔ چیری اسٹڈی روم میں تھی۔ خدیجہ نیچے اپنے بینک کی کرسی پر بیٹھی میز پہ رکھے لیپ ٹاپ کی کنجیوں پہ انگلیاں چلا رہی تھی۔
"حسین کا برتھ ڈے جنجر بیڈ ہاؤس ٹوٹنے سے خراب نہیں ہوا، اس کا برتھ ڈے تمہارے اوور ری ایکشن سے خراب ہوا ہے۔ تم نے اپنے کزن کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ اس کا قصور نہیں تھا۔ اس نے تمہیں واقعی نہیں دیکھا تھا۔ اگر تم تھوڑا سا ضبط کر لیتیں اور کھلے دل سے اپنے کزن کو ویلکم کرتیں تو ہم اسی ٹوٹے جنجر بریڈ ہاؤس کو یادگار بنا لیتے۔ اسے ایک دوسرے کے چہروں پہ ملتے، اس کے ساتھ تصویریں کھنچواتے اور کیا کچھ نہ کرتے۔ چیزیں وقتی ہوتی ہیں، ٹوٹ جاتی ہیں، بکھر جاتی ہیں۔ رویے دائمی ہوتے ہیں۔صدیوں کے لیے اپنا اٽر چھوڑ جاتے ہیں۔ انسان کو کوئی چیز نہیں ہرا سکتی جب تک کہ وہ خود ہار نہ مان لے اور تم نے آج ایک ٹوٹے ہوۓ جنجر بریڈ ہاؤس سے ہار مان لی۔"
لیپ ٹاپ کی سکریں پہ نگاہیں جماۓ ڈی جے تیزی سے کچھ ٹائپ کرتی کہہ رہی تھی۔
حیا اسی طرح ببل چباتی موبائل کے بٹن دباتی رہی۔
"تمہارے جانے کے بعد سب اتنے شرمندہ تھے کہ مت پوچھو کس طرح میں نے بمشکل سب کو منا کر حسین سے کیک کٹوایا۔"
دفعتًا حیا کا موبائل بجا تو ڈی جے خاموش ہو گئی۔ حیا نے لب بھینچے اسکرین کو دیکھا۔ وہاں جہان کا موبائل نمبر لکھا آ رہا تھا۔ چاہنے کے باوجود بھی وہ کال مسترد نہ کر سکی۔
"کیا ہے؟" اس نے فون کان سے لگا کر بہت آہستہ سے کہا۔
"ابھی تک خفا ہو؟" وہ ایک دم اتنی اپنائیت سے پوچھنے لگا کہ وہ لب کاٹ کر رہ گئی۔ حلق میں آنسوؤں کا گولہ سا اٹکنے لگا۔
"خفا ہونے کا اختیار اپنوں کو ہوتا ہے، مجھے یہ اختیار کبھی کسی نے دیا ہی نہیں۔"
اتنے لمبے مکالمے مت بولو۔ مجھ سے اب سردی میں نہیں کھڑا ہوا جا رہا۔فورًا باہر آؤ۔"
وہ ایک دم اٹھ بیٹھی۔
"تم کہاں ہو؟" آنسو غائب ہو گۓ۔
"تمارے ڈورم کے باہر بالکونی میں کھڑا ہوں۔"
"میرے الله! تم اب تک یہیں ہو۔" وہ فون پھینکُ کر اٹھی، تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتی نیچے اتری اور دوڑ کر دروازہ کھولا۔
وہ بالکونی کی ریلنگ سے ٹیک لگاۓ، سینے پہ بازو لپیٹے کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر مسکرایا۔
"اُف جہاں!" حیا دروازہ بند کر کے اس تک آئی۔ اس نے ٹی شرٹ کے اوپر ایک کھلا سا سیاہ سوئیٹر پہن لیا تھا اور بالوں کا پھر سے ڈھیلا جوڑا باندھ لیا تھا۔ آنکھیں ہنوز متورم تھیں۔
"کب سے کھڑے ہو ادھر ؟" وہ خفگی سے کہتی اسکے ساتھ آ کھڑی ہوئی۔
"جب سے تم نے بتایا تھا کہ تمہاری زندگی میں جنجر بریڈ ہاؤس سے بڑے مسائل ہیں۔ میں نے سوچا ان کو حل کیے بغیر نہ جاؤں۔ چاۓ تو نہیں پلاؤ گی؟"
وہ کچھ ایسے ڈرتے ڈرتے بولا کہ وہ ساری تلخی بھلا کر ہنس دی۔
"آؤ تمہیں ایپل ٹی پلاتی ہوں۔ تمہارے ترکی کی سوغات ہے ورنہ پاکستان میں تو ہم نے کبھی سیب والی چاۓ نہیں پی تھی۔" وہ دونوں ساتھ ساتھ اندرونی سیڑھیاں اترنے لگے۔
"اور ہم یہی پی کر بڑے ہوۓ ہیں۔ کتنا فرق ہے نہ ہم میں۔" وہ شاید یونہی بولا تھا۔ مگر کچن کا دروازہ کھولتی حیا نے مڑ کر اسے دیکھا ضرور تھا۔
"ہاں بہت فرق ہے ہم میں۔" اس نے تسلیم کر لیا تھا۔ اس نے ہار مان لی تھی، اور انسان کو کوئی چیز نہیں ہرا سکتی جب تک کہ وہ خود۔۔۔۔۔ اف یہ ڈی جے کے سنہری اقوال بھی نا۔۔۔۔!
وہ سر جھٹک کر کچن میں داخل ہوئی۔
"ایپل ٹی تو ختم ہے، اب سادہ چاۓ پیو۔" اس نے کیبنٹ کھول کر چند ڈبے آگے پیچھے کئے اور پھر مایوسی سے بتایا۔
"دودھ نکالو ،میں چاۓ کا پانی چڑھاتا ہوں۔" وہ آگے بڑھا، دیگچی ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکالی، اس میں پانی اور پتی ڈال کر چولہے پہ چڑھائی اور چولہا جلا دیا۔ وہ ایسا ہی تھا۔ فورًا سے کام کر دینے والا۔ اس کے ہاتھ بہت سخت اور مضبوط سے لگتے تھے۔ کام کے، محنت اور مشقت کے عادی۔وہ استنبول کی ورکنگ کلاس کا نمائندہ تھا۔
اب وہ سلیب پہ رکھے برتن جمع کر کے سنک میں ڈال رہا تھا۔
"رہنے دو جہان! میں کر لوں گی۔"
تم نے کرنے ہوتے تو اب تک کر چکی ہوتیں۔ اب اس سے پہلے کہ پانی سوکھ جاۓ، دودھ ڈال دو ، بلکہ مجھے دو ۔"
اس نے پلیٹ دھوتے ہوۓ دوسرے ہاتھ سے دودھ کا ڈبا اٹھایا اور خود ہی دیگچی میں انڈیل دیا۔ وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
وہ کھلے نل تلے پلیٹ کھنگال رہا تھا۔ جنز اور جوگرز پہنے، سویٹر کی آستینیں کہنیوں تک موڑے، وہ ٹاقسم اسکوائر کی میٹرو میں موجود اس ایگزیکٹو سے قطعًا مختلف لگ رہا تھا، جس سے چند ہفتے قبل حیا ملی تھی۔
"حیا ۔۔۔۔۔۔حیا۔۔۔۔۔" ڈی جے حواس باختہ سی چلاتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی۔
"تمہارا فون مر جائے گا بج بج کر۔ اوہ، السلام علیکم۔" جہاں کو دیکھ کر وہ گڑبڑا گئی۔
وعلیکم السلام!" جہان نے پلٹ کر اسے جواب دیا۔
"تمہارا فون!" وہ حیا کو فون تھما کر واپس مڑ گئی۔
حیا نے موبائل په دیکها۔ پانچ مسڈ کالز۔ ترکی کا کوئی غیر شناسا نمبر۔
اسی وقت اس کا موبائل پهر بجنے لگا۔ اس نے اسکرین کو دیکها۔ وہی ترکی کا نمبر۔ اس بار اس نے کال وصول کر لی۔
"هیلو" جب وه بولی تو اسکی آواز میں تذبذب تها۔
"حیا سلیمان! بندے کو عبدالرحمان پاشا کہتے ہیں۔ اب تک تو آپ مجهے جان گئی هوں گی۔" وه شسته اردو میں کہہ رہا تها۔ اس کی آواز میں ممبئ کے باسیوں کا تیکها پن تها اور لہجہ بہت ٹهنڈا۔
حیا کا رنگ پهیکا پڑ گیا۔ اس نے پلکیں اٹها کر جہان کو دیکھا۔ وه بہت غور سے اس کے چهلہرے کے اتار چڑهاؤ کو دیکھ رهہا تها۔
" رانگ نمبر!" اس نے کہہ کر فون رکهنا چاہا مگر وه آگے بڑھا اور موبائل اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
"کون؟" وہ فون کان سے لگا کر بولا تو اس کے چہرے پہ بےپناہ سختی تھی۔
کون؟ اس نے دهرایا۔ شاید دوسری جانب سے کوئی کچھ بول نہیں رہا تها۔ جہان لب بهینچے چند لمہے انتظار کرتا رها۔ پهر اس نے فون کان سے ہٹایا۔
"بند کر دیا ہے۔" اس نے موبائل حیا کی طرف بڑهاتے ہوئے جانچتی, مشکوک نگاهوں سے اسے دیکها۔ " کون تها؟"
"تمهیں نهیں بتایا تو مجهے کیوں بتاتا۔ شاید رانگ نمبر تها۔" وه اب سنبهل چکی تهی۔
"ہوں! تمهیں کوئی تنگ تو نهیں کر رها؟" پهر جیسے وه چونکا۔ "وه پهول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"پتا نهیں کون هے۔" اس نے شانے اچکا یۓ۔ "جانے دو۔"
"ہراس منٹ ایک جرم هے۔ هم اس کے لیے پولیس کے پاس جا سکتے هیں۔" وه کچھ سوچ کر بولا۔
کسی مسئلے کا حل جہان سکندر کے پاس نہ ہو، ایسا ممکن تھا بھلا۔
"جانے دو۔ میں اسے ذیاده اہمیت نهیں دیتی۔ خود ہی تهک کر رک جاۓ گا۔"
گو کہ وه مطمئن نہیں ہوا تها۔ مگر سر ہلا کر پلٹ گیا۔ اور نل پهر سے کهول دیا۔
حیا نے موبائل کو سائلنٹ پہ لگا کر جیب میں ڈال دیا۔ وه اس نازک رشتے میں مزید بدگمانی کی متحمل نہ تهی۔
"چولها کیوں بند کر دیا؟ ابهی پکنے دیتیں، میں زیاده کڑهی ہوئی چاۓ پینے کا عادی ہوں۔" اسی پل چولها بند ہوا تو وه چونکا۔
"میں نے نہیں بند کیا، یہ آٹو میٹک ہیں۔ ہر پندره منٹ بعد دس منٹ کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔ اب دس منٹ بعد خود ہی جل اٹهے گا۔"
"یہ اچها کام ہے۔ اسے جیسے کوفت ہوئی۔ پهر آخری برتن کهنگالتے ہوۓ وه بار بار چولهے کو سوچتی نظروں سے دیکهتا رہا۔ جب برتن دهل گۓ تو ہاتھ دهو کر چولهے کی طرف آیا۔
"برتن دهل گۓ تمهارے، اب تمهاری زندگی کے اگلے مسئلے کو حل کرتے ہیں اسکے بعد کون سا مسئلہ ہے وه بهی بتاؤ۔" وه چولهے کو پھر سے جلانے کی کوشش کرنے لگا۔
میری زندگی کے مسئلے ٹوٹے کیبنٹ یا ٹھنڈے چولہے کی طرح نہیں ہیں، جو تم حل کر لو۔
اچھی بھلی زندگینہے تمہاری، کیا مسئلہ ہے تمہیں، سوائے اس بےکار چولہے کے، کوئی تو حل ہو گا اس کا بھی۔ وہ نچلا لب دبائے جھک کر سوئچ سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا۔
اس کا کوئی حل نہیں ہے۔
یہ ناممکن ہے کہ کسی مسئلے کا کوئی حل نہ ہو۔ ٹھہرو! میں کچھ کرتا ہوں۔ وہ پنجوں کے بل زمین پہ بیٹھا اور جھک کر نیچے سے چولہے کا جائزہ لینےلگا۔
جہان! رہنے دو!
میری کار سے میرا ٹول بکس لے آؤ۔ ڈیش بورڈ میں پڑا ہو گا۔ تب تک میں اسے دیکھتا ہوں۔ وہ جینز کی جیب سے چابیوں کا گچھا نکال کر اس کی طرف بڑھائے، گردن نیچے جھکائے چولہے کے اردگرد جیسے کچھ تلاش کر رہا تھا۔
وہ جہان ہی کیا جو کچھ کرنے کی ٹھان لے تو پھر کسی کی سنے۔ اسے میٹرو میں اپنے جوتے کے تسمے کھولتا جہان یاد آیا تھا۔ اس نے مسکراہٹ دبا کر ہاتھ بڑھا کر چابی پکڑی اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
جہان کی چھوٹی سفید سی کار ہاسٹل کی سیڑھیوں کے آخری زینے کے سامنے کھڑی تھی۔ اس میں سے ٹول بکس نکالتے ہوئے بےاختیار حیا نے سوچا تھا کہ وہ اتنا امیر نہیں جتنا وہ سمجھتی تھی، یا پھر شاید یورپ میں رہنے والے رشتہ داروں کے بارے میں عمومی تصور یہی ہوتا ہے کہ وہ خاصے دولتمند ہوں گے، جبکہ جہان اور پھپھو اس کے برعکس محنت کش، ورکنگ کلاس کے افراد تھے۔
وہ واپس آئی تو وہ چھڑی سے ہی شروع ہو چکا تھا اور پائپ، ساکٹ اور پتا نہیں کیا کیا کھولے بیٹھا تھا۔
چند منٹ وہ خاموشی سے سلیب کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑی اسے کام کرتے دیکھتی رہی۔ وہ دائیں گھٹنے اور بائیں پنجے کے بل زمین پر بیٹھا پائپ کے دہانے پہ پیچ کس سے کچھ کھول رہا تھا۔ ٹول بکس اس کے پاؤں کے پاس کھلا پڑا تھا۔
چند صبر آزما پل بیتے اور پھر وہ فاتحانہ انداز میں ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھا۔
یہ چوتھا چولہا جو کونے میں ہے، یہ فکس کر دیا ہے، اب یہ خود سے نہیں بجھے گا۔ اس نے کہنے کے ساتھ ہی عملی مظاہرے کے طور پر چولہے کو جلا دیا اور پھر چائے کی کیتلی اسی پہ رکھ دی۔
یہ جو تم نے حرکت کی ہے نا جہان سکندر! یہ غیر قانونی ہے۔ اگر کسی کو پتا چل گیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔؟
سبانجی میں اسموکنگ بھی غیر قانونی ہے، مگر سٹوڈنٹس کرتے ہیں نا؟ ڈرنکنگ بھی غیر قانونی ہے، اسٹوڈنٹس وہ بھی کرتے ہیں اور کمروں میں چھوٹے چولہے اور مائیکروویو رکھنا بھی غیر قانونی ہے، وہ بھی رکھتے ہیں نا، سو تم بھی اپنی مرضی کرو! وہ کاؤنٹر سے ٹیک لگائے کھڑا بڑی لاپرواہی سے بولا تو وہ ہنس دی۔ اسے اپنا سروے فارم یاد آ گیا تھا۔
" تم سبانجی سے پڑھے ہو جو اتنی معلومات ہیں؟"
"سبانجی سے پڑھا ہوتا تو ایک چھوٹا سا ریسٹورنٹ نہ چلا رہا ہوتا۔ ہم تو عام سی سرکاری یونیورسٹیز میں پڑھنے والے مڈل کلاس لوگ ہیں مادام!" وہ جب بھی اپنی کم آمدن یا کام کا ذکر کرتا، اس کے بظاہر مسکراتے لہجے کے پیچھے ایک تلخ اداسی سی ہوتی۔ ایک احساس کمتری، یا پھر شاید یہ اس کا وہم تھا۔
"خیر!" حیا گہری سانس لے کر چولہے کی طرف آئی اور چائے کی کیتلی اٹھا لی۔ ٹرے میں پیالیاں اس نے پہلے سیٹ کر رکھی تھیں، اب وہ چھلنی رکھ کر چائے انڈیلنے لگی۔
"اس ویک اینڈ پر ڈنر کریں ساتھ؟"
اس نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا، ذرا سی چائے چھلنی کے دہانے سے پھسل کر پیالی پکڑے اس کے ہاتھ پہ گری، مگر وہ بےحد حیرت بےیقینی سے جہان کو دیکھے گئی۔
"اچھا......... اچھا...... نہیں کرتے۔ غلطی سے کہہ دیا۔ " وہ جیسے شرمندہ ہوگیا۔
"نہیں! نہیں، میرا مطلب ہے، ٹھیک ہے شیور، مگر کہاں؟" وہ جلدی سے بولی مبادا وہ کچھ غلط نہ سمجھ لے، پھر اپنی جلد بازی پہ بھی خفت ہوئی۔ "استقلال جدیسی میں کہیں بھی۔ تمہیں بس ٹاقسم پہ اتارتی ہے نا؟" حیا نے اس کی پیالی اٹھا کر اسے دی تو اس نے سر کے ذرا سے اثبات کے ساتھ تھام لی۔
"ہاں۔" وہ اپنی پیالی لے کر اس کے بالمقابل سلیب سے ٹیک لگائے کھڑی ہو گئی اور چائے میں چمچ ہلانے لگی۔
"پھر میں تمہیں ٹاقسم سے پک کر لوں گا۔ ہفتے کی رات، آٹھ بجے ٹھیک؟"
"ٹھیک۔" وہ گھونٹ بھرتے ہوئے مسکرا دی۔
جب وہ اسے واپس باہر تک چھوڑنے آئی تو دونوں کو اپنے نیچے پا کر بالکونی کی بتی خود سے جل اٹھی۔ وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ ہی رہا تھا کہ وہ ہولے سے کہہ اٹھی۔
"آئی ایم سوری، میں آج اوور ری ایکٹ کر گئی تھی۔"
جہان نے پلٹ کر اسے دیکھا۔
"کچن کے سارے برتن دھلوا کر، چولہا ٹھیک کروا کر اور چائے کے دو کپ بنوا کر تم نے بالآخر مان ہی لیا۔ بہت شکریہ۔ اب میں سکون سے سو سکوں گا۔" وہ گویا بہت تشکر اور احسان مندی سے بولا تھا۔
وہ خفت سے ہنس دی۔ "کہا نا سوری۔"
"سوری مجھے بھی کرنی چاہئیے، مگر وہ میں ڈنر پہ کروں گا، ادھار رہا۔ ہفتے کی شام آٹھ بجے، شارپ!"
مجھے یاد رہے گا۔ وہ سیڑهیاں اترنے لگا۔ اور حیا سینے پہ بازو لپیٹے کهڑی اسے جاتے دیکهتے رہی۔ جب اس کی کار نظروں سے اوجهل ہوگئی تو وہ کمرے کی طرف مڑ گئی۔ بالکونی کی بتی بجھ گئی۔ سارے میں تاریکی چها گئی۔ ڈی جے وہیں کرسی پہ بیٹھی لیپ ٹاپ پہ کچھ ٹائپ کر رہی تهی۔
وہ زیر لب کوئی دهن گنگناتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی اور اپنے بینک کے زینے چڑهنے لگی۔
تمہارا کزن بڑا ہینڈسم ہے۔ ڈی جے نے مصروف سے انداز میں تبصرہ کیا۔
سو تو ہے۔ اس نے بستر میں لیٹ کر ڈی جے کو دیکهتے ہوئے جواب دیا۔
یہ وہی پهپو کا بیٹا ہے نہ؟ ڈی جے اسکرین کو دیکهتی لیپ ٹیپ کی کنجیوں پہ انگلیاں چلا رہی تهی۔
ہوں!."
وہی شادی شدہ؟"
ہاں!"اس کے لبوں پہ دبی دبی سے مسکراہٹ درآئی۔
اچها!" ڈی جے مایوسی سے خاموش هو گئی۔
حیا زیر لب وہی دهن گنگنانے لگی۔
بکو مت۔ مجهے اسائنمنٹ بنانے دو۔
کچھ دیر بعد ڈی جے جهنجلا کر بو لی۔ مگر وہ مسکراتے ہوئے گنگنائے جا رہی تهی۔ وہ خوش تهی، بہت خوش تهی
دروازہ کهلا تها۔ اس نے دهکیلا تو وہ ایک ناگوار مگر آہستہ آواز کے ساتھ کهلتا چلا گیا۔
سامنے لاؤنج میں ابتری پهیلی ہوئی تهی۔ چھوٹا سا کچن بهی ساتھ ہی تها۔ جس میں اس کی بیوی کام کرتی ہوئی دیکهائی دے رہی تهی۔
ہاشم قدم قدم چلتا کچن کے دروازے پہ آ کھڑا ہوا۔ اس کی بیوی اس کے سامنے جانب پشت کیے چولہا جلا رہی تهی۔ وہ بهی اس کی طرح تهی۔ دراز قد، گهنگریالے سیاہ بال اور اہل حبشہ کی سی مخصوص موٹی سیاه آنکھیں۔
ڈاکٹر کیا کہتا ہے؟"
وہ چونک کر پلٹی۔ پهر اسے دیکھ کر گہری سانس لی اور واپس چولہے کی طرف مڑ گئی۔
سرجری ہو گی، اور اس کے لیے بہت سے پیسے چاہئیں۔
وہ خاموشی سے کھڑا سنتا رہا۔
پیسوں کا انتطام ہوا؟ وہ کپڑے سے ہاتھ پونچهتی ہاشم تک آئی اور پریشانی سے اس کا چہرا دیکها۔
نہیں! ہاشم نے گردن دائیں سے بائیں ہلائی۔
تو اب کیا ہو گا؟ ہمیں انہی چند ہفتوں میں ہزاروں لیراز جمع کرنے ہیں۔ تم نے پاشا سے بات کی؟"
کی تھی۔
تو کیا کہتا ہے وہ؟ وہ بےقرار ہوئی۔
نہیں دے گا۔ جو کم میں کر رہا ہوں، بس اس کی قیمت دے گا۔ اوپر ایک کرش kurush بھی نہیں۔
کیوں؟ اتنا تو پیسہ ہے اس کے پاس۔ پورا محل تو کھڑا کر رکھا ہے بیوک ادا میں، پھر ہمیں کیوں نہیں دےگا؟
وہ کہتا ہے اس نے کوئی خیراتی ادارہ نہیں کھول رکھا اور پھر مزید کس کھاتے میں دے؟ میں نے ابھی تک اس کی پچھلی رقم نہیں لوٹائی۔
ہاں تو وہ حارث کے علاج پہ لگ گئےتھے، کوئی جوا تو نہیں کھیلتے ہم۔ اس نے غصے سے ہاتھ میں پکڑا کپڑا میز پر دےمارا۔
وہ نہیں دے گا، میں کیا کروں؟ وہ بےحد مایوس تھا۔
مجھے نہیں پتا ہاشم! کہیں سے بهی ہو، تم پیسوں کا بندوبست کرو، ورنہ حارث مر جائے گا۔
ہاشم نے بےچارگی اور کرب سے سر جھٹکا۔
ہاشم! کچھ کرو۔ ہمارے پاس دن بہت کم ره گئے ہیں۔ ہمیں پیسے چاہئیں ہر حال میں۔
کرتا هوں کچھ۔ وہ جس شکستگی کے عالم میں آیا تها، اسی طرح واپس لوٹ گیا۔ اس کی سیاه پیشانی پہ تفکر کی لکیروں کا جال بچھا ہوا تها اور چال میں مایوسی واضح تهی۔
وہ مضطرب سی انگلیاں مروڑتی کھڑی اسے جاتے دیکھتی رہی، پهر ایک نظر بند کمرے کے دروازے پہ ڈالی جہاں ان کا بیٹا سو رہا تها اور جهٹک کر واپس سنک کی طرف پلٹ گئی، جہاں بہت سے کام اس کے منتظر تهے۔
•••••••••••••••••••••••••
ڈی جے نے دروازہ کهولا تو وہ اسے آئینے کے سامنے کهڑی دکهائی دی۔ وہ دروازہ بند کر کے آگے آئی اور حیا کے سامنے کھڑے ہو کر پوری فرصت سے اور بہت مشکوک نگاہوں سے اسے دیکها۔
اس کے ہاتھ میں مسکارا برش تها اور وہ آئینے میں دیکهتی، آنکھیں کهولے احتیاط سے پلکوں سے برش مس کر رہی تهی۔ گہرا کاجل، سیاہ سنہری سا آئی شیڈ اور لبوں پہ جمکتی گلابی لپ اسٹک وہ بہت محنت سے تیار هو رہی تهی۔ بال یوں سیٹ کر رکهے تهے کہ اوپر سے سیدهے آتے بال کانوں کے نیچے سے مڑ کر گهنگریالے هو جاتے تهے۔ بالوں پہ اس نے کچھ لگا رکها تها کہ وہ گیلے گیلے سے لگتے تهےاور جو فراک اس نے پہن رکها تها، اس کی پیٹی قدیم طرز کے سنہری سکوں سی بهری تهی۔ آستین بہت چھوٹی تھیں اور ان پر بهی سنہری سکے لٹک رہے تهے۔ نیچے لمبے فراک کی کلیاں سیاہ تھیں۔ ٹخنوں سے ذرا سا جهلکتا پاجاما بهی سیاه تها۔
کدهر کی تیاریاں ہیں؟ ڈی جے نے اسے سر سے پیر تک دیکها۔
ڈنر کی! اس نے لپ گلوس کے چند قطرے لبوں پہ لگائے اور آئینے میں دیکهتے ہوئے ہونٹ آپس میں مس کرکے کهولے۔
کس کے ساتھ؟
جہان کے ساتھ! بے ساختہ لبوں سے پھسلا، لمحے بھر کو وہ چپ ہو گئی، پھر لاپرواہی سے شانے اچکائے۔ ویسے وہ شادی شدہ ہے۔
اچھا! وہ دو گھنٹے سردی میں بالکونی میں کھڑا رہتا ہے، چولہے کے تاروں میں ہاتھ ڈال کر اسے ٹھیک کرتا ہے، سارا کچن صاف کر کے جاتا ہے، پھر تمہیں ڈنر پہ بلاتا ہے اور تم اس ساری تیاری کے ساتھ جا رہی ہو۔ پھر سوچ لو، وہ اب بھی شادی شدہ ہے؟
بکو مت! وہ ہنستے ہوئے کرسی پہ بیٹھی اور جھک کر اپنی سیاہ ہائی ہیلز پہننے لگی۔
نہ بتاؤ، میں بھی پتا لگا کر رہوں گی۔ ڈی جے منہ پہ ہاتھ پھیرتی اپنی کرسی پہ بیٹھ گئی۔
حیا نے گنگناتے ہوئے میز پہ رکھا اپنا چھوٹا سنہری کلچ اٹھایا۔ وہی داور بھائی کی مہندی والا کلچ، جو اس نے جہاز میں بھی اٹھا رکھا تھا۔ اسے وہ زیادہ استعمال نہیں کرتی تھی، اب بھی کھولا تو اندر ایک تہہ کیا ہوا وزیٹنگ کارڈ اور اتصلات کا کالنگ کارڈ بھی رکھا تھا جو انہوں نے ابوظہبی میں خریدا تھا۔ اس نے موبائل، پیسے اور سبانجی کا آئی ڈی کارڈ اندر رکھا۔ کلچ چھوٹا تھا، ہالے کا دیا گیا موٹا، بھدا موبائل اس میں پورا نہیں آ رہا تھا، تو اس نے موبائل ہاتھ میں پکڑ لیا اور ”اچھا میں چلی“ کہہ کر ہینگر پہ لٹکا اپنا سفید نرم کوٹ ایک ہاتھ سے کھینچ کر اتارا اور باہر لپکی۔
باریک لمبی ہیل سے پتھریلی سڑک پر چلتے ہوئے اس نے کوٹ سیدھا کیا اور پہنا، پھر چلتے چلتے سامنے سے بٹن بند کیے۔ گورسل کا سٹاپ ذرا دور تھا۔ اسے وہاں تک پیدل جانا تھا۔ وہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے، سر جھکائے تیز تیز سڑک پر چلتی جا رہی تھی۔ شام کی ٹھنڈی ہوا سے اس کے گیلے گھنگھریالے بال کمر پہ اڑ رہے تھے۔
جس لمحے وہ گورسل اسٹاپ کے قریب پہنچی، اسے گورسل دور سبانجی کے گیٹ سے باہر نکلتی دکھائی دی۔
ہالے نے کہا تھا، جس دن تمہاری گورسل چھوٹے گی اس دن ہالے نور تمہیں بہت یاد آئے گی۔ اور اس پل بے بسی اور دکھ سے اس دور جاتی گورسل کو دیکھ کر اسے واقعی ہالے نور بہت یاد آئی تھی۔
اس نے جیب سے موبائل نکالا اور جہان سکندر کو پیغام لکھا۔
میری گورسل چھوٹ گئی ہے، مجھے پک کر لو، میں اسٹاپ پہ کھڑی ہوں۔
وہ کتنی ہی دیر وہاں سڑک پہ ٹہلتی رہی، مگر اس کا جواب نہیں آیا، شاید اس غریب کے پاس جواب دینے کا بھی کریڈٹ نہیں تھا۔
ہارن کی آواز پر وہ اپنے حال میں لوٹ آئی جہاں ایک سیاہ چمکتی اس کے عین سامنے کھڑی تھی۔
ڈرائیور نے بٹن دبا کر اپنی طرف کا شیشہ نیچے کیا اور ذرا سا چہرہ موڑ کر اسے مخاطب کیا۔
مادام سلیمان؟ ٹاقسم اسکوائر، جہان سکندر۔ ترک لب و لہجے میں ڈرائیور نے چند الفاظ ادا کیے تو اس نے سر ہلا دیا اور دروازہ کھول کر پچھلی نشست پر بیٹھ گئی۔ وہ یقینا جہان کا ڈرائیور تھا، گو کہ اس نے مفلر چہرے کے گرد لپیٹ رکھا تھا اور سر پر ٹوپی بھی لے رکھی تھی۔ حیا بس اس کی ایک جھلک ہی دیکھ پائی تھی، پھر بھی اسے گمان گزرا کہ اس نے اس سیاہ فام حبشی کو کہیں دیکھ رکھا ہے۔ کہاں، یہ سوچنے کا عقت نہیں تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے جہان کو
”بہت شکریہ۔ میں پہنچ رہی ہوں۔“ لکهنے لگی۔
ذرا کی ذرا اس نےنگاه اٹها کر بیک ویومرر میں ایک دو بار دیکها بهی۔ مگر ڈرائیور نے اسے کچھ یوں سیٹ کر رکها تها کہ وہ صرف اپنا چہرا دیکھ سکتی تهی۔
ٹاقسم سکوائر پہ تاریکی کے پنچهی نے اپنے پر پهیلا رکهے تهےاور اسی مناسبت سے ہر سو بتیاں جگمگا رہی تھیں۔ پورا اسکوائر ان مصنوعی روشنیوں سے چمک رہا تها۔ مجسمہ آزادی کے اطراف سے مخالف سمتوں میں سڑکیں نکل رہی تھیں۔ وہاں ہر سو ٹریفک کا رش تها۔
مجسمہ آزادی کو چاروں اطراف سے گهاس کے ایک گول قطعہ اراضی نے گهیر رکها تها، جیسے کسی پهول کی چار پتیاں ہوں اور ہر پتی کے کناروں کی لکیر پہ پتهریلی روش بنی ہوئی تهی۔ وہاں لوگوں کی خوب چہل پہل تهی۔
ڈرائیور نے اسکوائر کے مقابل ایک عمارت کی بیرونی دیوار کے ساتھ گاڑی کهڑی کر دی۔
جہان سکندر!" اس نے انگلی سے اسی دیوار کے ساتھ ساتھ دور اشارہ کیا، جہاں جہان سکندر کی سفید کار کهڑی تهی یوں کہ وہ دیوار کے اس کنارے پہ تهی تو یہ سیاه کار اس کنارے پر۔
اس نے دروازہ کهولا اور باریک ہیل احتیاط سے باہر سڑک پہ رکهی۔ ٹاقسم سکوائر کو اس کی ہیلز پسند نہیں تھیں، اسے اندازہ تها۔
وہ اپنی گاڑی کے ساتھ ہی کھڑا تها۔ یبونٹ کهول کر وہ جهکے ہوئے، کچھ تاریں جوڑ رہا تها۔ سیاه جیکٹ اور جینز میں ملبوس، ہمیشہ کی طرح عام سے حلیے میں۔
وہ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سہج سہج کر چلتی اس تک آئی۔ وہ کچھ گنگناتے ہوئےایک تار کو دوسری کے ساتھ جوڑ رہا تها۔ہیل کی ٹک ٹک پہ رکا اور گردن گهما کر دیکها۔
سلام علیکم! اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئےسیدها ہوا۔
وعلیکم السلام ! اس تاریک کونے میں کیا کر رہے ہو؟
میری کار ہر خاص موقع پر دغا دے جاتی ہے، اب بهی مسئلہ کر رہی ہے، خیر میں فکس کر لوں گا۔ وہ ہاتھ جھاڑتے ہوئے لاپروائی سے بولا۔
وہ تو تم کر لو گے، مجهے پتا ہے۔ جہان سکندر کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ وہ دهیرے سے ہنسی۔
تم بتاؤ! پورے اسکوائر پہ مجهے تلاشتے تمہیں کتنی دیر لگی؟ اور بس پہ آئی ہو؟
نہیں، تمہاری بهیجی گئی شوفر ڈرون کار میں آئی ہوں ۔
وہ دهیرے سے ہنس دیا۔
یہ طنز کہاں سے سیکھ لیے ہیں تم نے؟ میں اتنا غریب بهی نہیں ہوں کہ تم یوں مزاق اڑاؤ۔ وہ ہنس کر سر جھٹکتا اب یونٹ بند کر رہا تها۔
حیا نے گردن پهیر کر پیچھے دیکها۔ طویل دیوار کے اس سرے پہ وہ سیاه کار اسی طرح کهڑی تهی۔
"تمہیں میرا میسج نہیں ملا تھا؟" وه قدرے بے چینی سے بولی۔
"میسج؟" جہان نے جیب تهپتهپائی۔ "میرا موبائل کہاں گیا؟ "اس نے دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا اور اپنا اسمارٹ فون نکالا۔ پهر اس کی اسکرین کو انگلی سے چهوا۔
"نهیں!" اس نے اسکرین حیا کے چہرے کے سامنے کی۔ وہاں انباکس کهلا تها اور حیا کا کوئی پیغام نہ تها۔ حیا نے بے اختیار اپنے ہاتھ میں پکڑے فون کو دیکها۔ اس پر پیغام رکنے کا نشان نظر آرہا تها۔ اس نے جلدی سے بٹن دباتے ہوۓ آؤٹ باکس کھولا۔ اس کے دونوں پیغام وہیں رکے تهے۔ "اوه! بیلنس ختم تها، تو ظاهر ہے پھر میسج کیسے جاتا؟
"کوئی خاص بات تهی کیا؟" وه کار کو لاک لگا رها تها۔
"تم نے مجهے اس پارکنگ ایریا میں ڈنر کرانا ہے یا کسی مہذب جگه پر؟" وه بات بدل گئی اور کنکھیوں سے اس نے اس لش پش چمکتی سیاہ کار کو دیکها، جو دور کهڑی تهی۔ اسے کس نے بهیجا، وه کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تهی۔
"اگر یه کار میرا اتنا وقت ضائع نه کراتی تو میں اب تک کسی ریسٹورنٹ میں جگه ڈهونڈ چکا ہوتا۔ لیکن اب بهی دیر نہیں ہوئی۔" دونوں ساتھ ساتھ سڑک کے کنارے چلتے رہے۔
استقلال اسٹریٹ نامی وه طویل گلی ٹاقسم اسکوائر کے ساتھ سے ہیی نکلتی تهی۔ وه ہفتے کی رات تهی، سو استقلال اسٹریٹ روشنیوں میں نہائی, رنگوں اور قمقموں سے سجی، رونق کیے عروج پر تهی۔ وہاں لوگ ہمیشه کی طرح دونوں اطراف میں تیز تیز چلتے جا رہے تهے۔ گلی کی دونوں جانب چمکتے شیشوں والی شاپس اور ریسٹورنٹس میں خاصا رش تها۔
وه آغاز میں ہی دائیں ہاتھ کی قطار میں بنے ریسٹورنٹ میں چلے آۓ۔
زرد روشنیوں سے مزین چهت اور جگمگاتے فانوس نے ریسٹورنٹ کے ماحول کو ایک خواب ناک سا تاثر دے رکها تها۔ اس کونے والی خالی میز کے ساتھ رکھے اسٹینڈ پہ حیا نے اپنا کوٹ لٹکایا اور کرسی کهینچ کر جهہان کے مقابل بیٹھی۔ زرد روشنیوں میں اس کے فراک کے سنہری سکے چمکنے لگے تهے۔ اس نے دائیں بازو میں سنہری کڑا پہن رکها تها اور اب وه کہنی میز پر رکھ کر بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے کڑے کو گهما رہی تهی۔ سنہری کلچ اور موبائل اس نے میز پر رکھ دیا تها۔
"آرڈر میں کروں یا تم؟"
"دعوت تمہاری طرف سے ہے، سو تم کرو۔" اس نے ذرا سے شانے اچکاۓ۔ جہان نے مسکرا کر سر کو خم دیا اور مینیو کارڈ اٹها کر انہماک سے پڑهنے لگا۔ اپنی عادت کے مطابق وه پڑھتے ہوۓ نچلے لب کو دانت سے دباۓ ہوۓ تها۔
حیا نے قدرے بےچینی سے پہلو بدلا۔ استقلال جدیسی میں کتنے ہی لوگوں نے مڑ مڑ کر اس یونانی دیویوں کے سے سنگار والی لڑکی کو ستائش سے دیکها تها، مگر یه عجیب شخص تها۔ کوئی تعریف نہیں, کوئی اظہار نہیں, اتنی لاتعلقی و بے خبری، وه بهی اس شخص کی جو ایک نظر میں سارے منظر کا باریک بینی سے جائزہ لے لیا کرتا تھا؟
اسے اپنی ساری تیاری رائیگاں جاتی محسوس ہوئی تھی۔
آرڈر کر چکنے کے بعد وہ میز پہ کہنیاں رکھے، دونوں ہاتھ آپس میں پھنسائے حیا کی طرف متوجہ ہوا اور ذرا سا مسکرایا۔
تم نے مجھ سے اس روز پوچھا ہی نہیں کہ میں تمہارے ڈروم بلاک کیوں آیا تھا؟
وہ مسکراتے ہوئے کتنا اچھا لگتا تھا۔ اس کے ہلکے سے بھورے شیڈ لیے سیاہ بال نو عمر لڑکوں کی طرح ماتھے پہ سیدھے کٹے ہوئے تھے اور عموما وہ ہلکے ہلکے گیلے ہوتے تھے۔ پرکشش آنکھوں میں ایک نرم دھیما سا تاثر لیے، وہ اب اتنا کم گو اور محتاط نہیں لگتا تھا جتنا پہلے دن لگا تھا۔
ظاہر ہے، کسی کام سے ہی آئے ہو گے۔ مجھ سے ملنے باخصوص آؤ، یہ تو ذرا مشکل ہی ہے۔
تم سے ملنے بالخصوص ہی آیا تھا اور اس کے لیے ممی کو پاکستان فون کر کے فاطمہ آنٹی سے تمہارے ڈروم کا نمبر پوچھنا پڑا تھا، ورنہ تم نے ہمیں ایڈریس تک نہیں دے رکھا۔
اور یہ بات تو اماں نے اسے کل ہی فون پہ بتا دی تھی مگر لمحے بھر کو اس نے سوچا کہ ڈھونڈنے والے تو بنا پتے کے بھی ڈھونڈ لیتے ہیں، جیسے وہ سفید گلاب ہر جگہ اسے تلاش کر لیتے تھے۔
تو پھر آپ کیوں آئے تھے مجھ سے ملنے؟
بس یونہی۔ مجھے لگا تھا کہ تم اس روز استقلال اسٹریٹ میں مجھ سے خفا ہو گئی تھیں۔
اچھا تو آپ نے مجھے اس دن پہچان لیا تھا، ہو سکتا ہے وہ میری شکل کی کوئی لڑکی ہو؟ وہ بہت جلدی بھلا دینے والوں میں سے نہیں تھی۔، سو بڑی حیرت سے کڑے کو انگلیوں میں گھماتی بولی تھی۔
ایک بات ابھی کلیئر کر لیتے ہیں حیا! وہ قدرے آگے کو ہوتے ہوئے سنجیدگی سے بولا۔ میں بہت ایکسپریسو نہیں ہوں، میں لمبی لمبی باتیں نہیں کر سکتا۔ میں پریکٹکل سا آدمی ہوں، ایسا آدمی جس کو فکر معاش ہمیشہ گھیرے رکھتی ہے۔ میرے پاس بڑی یونیورسٹی کی ڈگری نہیں ہے، میں ایک ریسٹورنٹ چلاتا ہوں، جس کی مکلیت میری اپنی نہیں ہے، میں کئی سالوں سے اس ریسٹورنٹ کی قسطیں ادا کر رہا ہوں جو کہ پوری ہی نہیں ہو رہیں۔ یہ چیز مجھے بہت پریشان رکھتی ہے۔ وہ کرد لڑکی جو اس دن میرے ساتھ تھی، وہ میرے ریسٹورنٹ کی عمارت کی اونر ہے اور ہمارے درمیان اس وقت یہی مسئلہ زیربحث تھا، جب تم وہاں آئیں۔ حیا! اس دن میں اتنا پریشان تھا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتیں۔ وہ میری پراپرٹی ضبط کرنے کی بات کر رہی تھی اور اگر میں اس کی رقم ادا نہ کر پایا تو وہ ایسا کر بھی گزرے گی۔ اسی پریشانی میں میں تمہارے ساتھ مس بی ہیو کر گیا۔ آئی ایم سوری فار ڈیٹ۔ مگر اپنی تمام پریشانیوں میں بھی مجھے اپنے سے جڑے رشتوں کا احساس ہے، اور میں ان کی پرواہ کرتا ہوں۔
حیا نے مجھ کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
اب بھی خفا ہو اس بات پہ؟ وہ قدرے توقف سے بولا۔
"نہیں، میں نے تمہیں تب ہی معاف کر دیا تها جب تم نے کچن کے سارے برتن دهوۓ تهے اور چولها فکس کر کے دیا تها۔"
وه بےاختیار ہنس پڑا۔
"مگر وه جنجر بڑیڈ ہاؤس مجھ پر ادهار ہے۔
اس سے پہلے کہ وه کچھ کہتی ویٹر اس کی طرف آیا تها۔
"میڈم سلیمان؟"
حیا نے چہرا اٹها کر دیکها اور لمحے بهر کو پتهر کی ہو گئی۔
ویٹر ایک سفید گلابوں کا بکے میز پر رکھ رہا تها۔
"یہ آپ کے لیے۔" ساتھ ہی اس نے دو رویہ تہہ کیا ہوا کاغذ حیا کی طرف بڑهایا۔
"لیجیۓ مادام۔" حیا جو ساکت نگاہوں سے گلدستے کو دیکھ رہی تهی, چونکی اور مضطرب سے انداز میں وه کاغذ تهاما۔ اس کے قدموں سے جان نکل چکی تھی۔ مؤدب سا ویٹر واپس پلٹ گیا۔ اس نے کپکپاتی انگلیوں سے کاغذ کی تہیں کهولیں۔
بے سطر کاغذ کے عین وسط میں انگریزی میں تین سطور لکهی تهیں۔
"میری کار میں سفر کر کے آنے کا شکریہ، لیکن اصولا مجھ سے لفٹ لینے کے بعد آپ کو ڈنر بهی میرے ساتھ کرنا چاہیۓ تها، نا کہ اپنے کزن کے ساتھ۔"
"فرام یور ویلنٹائین۔"
جہان گلاس ہونٹوں کے ساتھ لگاۓ گهونٹ گھونٹ پانی پیتا پلکیں سکیڑے اس کے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھ رہا تها۔
"کون بهیجتا ہے تمهیں یہ سفید پهول؟" وه خاصے سرد لہجے میں بولا تو حیا نے چونک کر سر اٹهایا۔
چند لمحے بیشتر کی گرم جوشی جہان کی آنکهوں میں مفقود تهی۔ اس کے چہرے پر زمانوں کے اجنبیت اور رکهائی چهائی تهی۔
"پپ...۔۔۔۔ پتا نہیں۔"
"اور اسے کیسے علم ہوا کہ ہم ریسٹورنٹ میں ہیں؟"
اسکا لہجہ چبهتا ہوا تها۔
وه خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکهے گئی۔ کوئی جواب بن ہی نہیں پا رہا تها۔
"دکهاؤ!" اس نے ہاتھ بڑهایا اور اب حیا کے پاس کوئی راستہ نہیں تها۔ اس نے کمزور ہاتهوں سے وه کاغذ جہان کے ہاتھ پر رکها۔
جیسے جیسے وه تحریر پڑهتا گیا،اسکی پیشانی پہ شکنیں ابهرتی گئیں۔ رگیں تن گئیں اور لب بهینچ گئے۔
"تم کس کی گاڑی میں ٹاقسم آئی ہو؟" اس نے نگاه اٹها کر حیا کو دیکها اور وه ایک نگاه میں سمجھ گئی تهی کہ وه ایک مشرقی مرد تها۔ تایا فرقان، ابا اور روحیل کی طرح کا مشرقی مرد۔