top of page

جنت کے پتے تحریر نمرہ احمد

قسط نمبر نو

وہ........ میں سمجهی وہ تمہاری کار اور ڈرائیور ہے۔ میں سمجهی تم نے ڈرائیور بهیجا ہے۔
"میرا ڈرائیور؟ کب دیکھا تم نے میرے پاس ڈرائیور؟اس نے تنفر سے کاغذ کو مٹھی میں مروڑ دیا۔
"میں سمجهی، اور اس نے کہا، تمہارا نام لیا تو۔۔۔۔۔۔۔
اس نے یہ کہا کہ اس کو میں نے اسے بهیجا ہے؟ اس نے دو ٹوک انداز میں پوچھا۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔نہیں۔"
یعنی کہ نہیں۔ اس نے نہیں بتایا کہ اسے کس نے بهیجا ہے اور تم اس کے ساتھ بیٹھ گئیں؟ حیا! تم یوں کسی کی گاڑی میں بهی بیٹھ سکتی ہو؟
میں نے کہا نا، میں سمجهی تمہاری کار تهی۔ بے بسی کے مارے اب اسے غصہ آنے لگا تها۔ بے قصور ہوتے ہوئے بهی اسے اپنا آپ مجرم لگ رہا تها۔
میرے پاس تم نے دوسری کار کب دیکهی؟ تم۔۔۔۔۔۔۔
اگر تمہیں مجھ پر اتنی بے اعتباری ہے تو میں لعنت بهیجتی ہوں تم پر۔ اس نے نیپکن نوچ پهینکا اور کرسی دهکیل کر اٹهی۔ جو شخص یہ حرکت کرتا ہے، وہ مجھ سے پوچھ کر نہیں کرتا، نہ اس میں میرا کوئی قصور ہے۔ اگر تم مجهے اتنا ہی برا سمجهتے ہو تو ٹهیک ہے، یہاں اکیلے بیٹهو، اکیلے کهاؤ اور اکیلے رہو۔ 
اس نے کلچ یوں ہاتھ مار کر اٹھایا کہ کرسٹل کا گلدان میز سے لڑهک کے نیچے جا گرا۔ چهناکے کی آواز آئی اور وه کرچیوں میں بٹ گیا۔
جہان شاید اس کے لیے تیار نہیں تها، مگر وہ اس کے تاثرات دیکهنے کہ لیے رکی نہیں۔ وہ تیزی سے میز کی ایک طرف سے نکلی، اسٹینڈ پہ لٹکا کوٹ کالر سے پکڑ کر کهینچا اور تیز تیز چلتی ہوئی باہر نکل گئی۔
اگر وہ اس کے پیچهے آنا بهی چاہتا، تو ابھی جو نقصان وہ کر کے گئی تهی، اسے پورا کر کے ہی آتا اور اس کاروائی میں اسے جتنے منٹ لگتے، اتنی دیر میں وہ اس سے دور جا چکی ہو گی۔
استقلال اسٹریٹ میں لوگ اسی طرح چل رہے تهے۔ وہ اس رش کے درمیان ہی میں کہیں تهی۔ اس نے کوٹ نہیں پہنا، بازو پہ ڈال دیا اور دونوں بازو سینے پہ لپٹے وہ تیز تیز قدم اٹھاتی چلی جا رہی تهی۔ آنسو متواتر اس کی آنکھوں سے گر رہے تهے۔
وه اس کے پیچهے نہیں آیا، اور اگر آیا بهی تو اس شور اور رش میں نہ اسے دیکھ پائی، نہ ہی اس کی آواز سن پائی۔ بس اسی طرح چلتی رہی۔ استقلال اسٹریٹ کا آخری کنارہ مڑ کر وہ ٹاقسم اسکوائر میں داخل ہوئی اور بالکل سیدھ میں چلتی ہوئی ٹاقسم پارک کی طرف بڑھ گئی۔
تاریک پارک کے ایک گوشے میں وہ سنگی بینچ ویران پڑا تها۔ وہ گرنے کے سے انداز میں اس پہ بیٹھی اور چہرا دونوں ہاتھوں میں چهپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
انا، خوداری، عزت نفس اور اپنی ذات کے وقار کے وہ سارے اسباق جو وہ ہمیشہ خود کو پڑهاتی اور یاد دلاتی رہی تهی، آج بہت ذلت کے ساتھ چکنا چور ہوئے تهے۔ وہ شخص کب اس کو یوں ذلیل نہیں کرتا تها، یوں بے مول، بے وقعت نہیں کرتا تها، اسے ایک موقع بهی یاد نہ آیا۔ ہمیشہ، ہر دفعہ وہ یہی کرتا تها، یا پهر ایسا ہو جاتا تها۔ آخرکب تک یوں چلے گا؟ بہت گرا لیا اس نے خود کو، بہت جهکا لیا، بہت بے مول کر لیا، اب وہ مزید نہیں جهکے گی۔ اب اسے جهکنا پڑے گا، بس آج یہ طے ہو گیا۔
اس نے بے دردی سے آنکھیں رگڑتے ہوئے سوچا، پهر ارگرد پهیلی رات کو دیکها تو واپسی کا خیال آیا اس نے گود میں رکها سنہری کلچ کھولا تاکہ موبائل نکال سکے، مگر......... اوہ، موبائل تو اس میں پورا ہی نہیں آتا تها، وہ تو اس میز پہ رکها تها اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کوٹ اٹھائے باہر بهاگی۔ اپنا ترکی والا بهدا موبائل وہ ریسٹورنٹ میں چھوڑ آئی تهی۔ اسے ہر حالت میں موبائل واپس اٹھانا تها، چاہے جہان سے سامنا ہو یا نہ ہو۔ چند منٹ بعد وہ ہانپتی ہوئی واپس استقلال اسٹریٹ میں اس ریسٹورنٹ کا دروازہ دهکیل کر اندر داخل ہوئی تو کونے والی میز خالی تهی۔ وہ دوڑ کر اس میز تک گئی اور ادھر ادهر چیزیں اٹها اٹها کر موبائل تلاشا، مگر وہ کہیں نہیں تها۔ کرسٹل کے ٹوٹے گلدان کی کرچیاں بهی اب فرش سے اٹها لی گئی تهی۔ 
"پرابلم میڈم؟"
وہ آواز پہ پلٹی تو وہی باوردی ویٹر جس کی ناک پہ موٹا سا تل تها، متفکر سا کھڑا تها۔ وہ بوکے اسی نے لا کر دیا تھا۔
میرا موبائل تها اس میز پہ۔ وہ پریشانی سے گهنگریالی لٹیں کانوں کے پیچهے اڑستے ہوئے بولی اور میز پہ چیزیں پھر سے ادهر ادهر کرنے لگی۔
جی ہاں پڑا تھا مگر جب آپ گلدان گرا کر گئیں تو آپ کے ساتھ جو صاحب تھے، انہوں نے وہ موبائل رکھ لیا اور مجھے کہا تھا کہ اگر آپ آئیں تو میں بتا دوں کہ وہفون انہی کے پاس ہے۔ ویٹر نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بتایا۔
اوہ اچھا۔ اس کےتنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔ ملنےکا ایک اور بہانہ۔ وہ چلا گیا؟ 
جی! وہ بل پے کر کے فورا آپ کےپیچھے باہر دوڑے تھے۔ آپ کو نہیں ملے؟ 
نہیں۔ شکریہ! وہ پھولوں کے متعلق کچھ پوچھنے کا ارادہ ترک کر کے باہر نکل آئی۔ استقلال اسٹریٹ پہ قدم رکھتے ہوئے اس نے کوٹ پہن لیا۔ اب اسے کافی دیر تک ٹاقسم اسکوائر پہ گورسل کے انتظار میں بیٹھنا تھا۔
••••••••••••••••••••••••••
ڈی جے خاموشی سے موبائل کے بٹن دباتی نمبر ملا رہی تھی۔ بٹنوں کی ٹوں ٹوں نے ڈروم کی خاموشی میں ذرا سا ارتعاش پیدا کیا تھا۔ کال کا سبز بٹن دبانے سے پہلے اس نے نظر اٹھا کر اپنے مقابل بیٹھی حیا کو دیکھا جو پوری سنجیدگی سے اس کی طرف متوجہ تھی۔
مگر حیا میں اسےکہوں گی کیا؟ 
یہی کہ حیا کو اپنا موبائل چاہیے اور وہ اسے واپس کر دے۔
مگر وہ واپس کیسے کرے گا؟
"یہ اس کا مسئلہ ہے، تم کال ملاؤ۔" وہ جهنجهلا کر بولی۔
ڈی جے نے سر ہلا کر سبز بٹن دبایا، اسپیکر آن کر دیا اور فون اپنے لبوں کے قریب لے آئی۔
دوسری جانب طویل گهنٹیاں جا رہی تهیں۔ وه دونوں دم سادهے گهنٹیاں سنتی گئیں۔
"پتا نہیں، تمہارا موبائل کدهر پڑا ہو، اسی کے موبائل پر کر لیتے ہیں، شاید اس پہ وه اٹهاۓ ہی... " تب ہی کال اٹها لی گئی۔
"ہیلو؟" وه جہان ہی تها ازلی مصروف انداز۔
"السلام علیکم! میں ڈی جے۔۔۔۔۔ خدیجه بول رہی ہوں۔" 
"دس از جہان۔ خدیجه! ایسا ہے کہ یہ فون میرے پاس ہے، حیا ریسٹورنٹ میں بهول گئی تهی۔ وه مصروف سا لگ رہا تها۔ پیچهے بہت سے لوگوں کی بولنے کی آوازیں آرہی تهیں۔ شاید وه ریسٹورنٹ میں تها۔
"مجهے پتا ہے، اسی لیے تو کال کی ہے۔" 
"اوکے!" وه گہری سانس لے کر بولا۔ "حیا کدهر ہے؟" 
"وه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وه مصروف تهی تو میں نے سوچا، میں آپ سے بات کر لوں۔" بات کرتے ہوۓ ڈی جے نے ایک نظر حیا پہ ڈالی جو دم سادھے، کرسی کے کنارے پہ آگے ہو کر بیٹهی اسے دیکھ رہی تهی۔
"جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیۓ۔" 
"بات یہ تھی کہ میں اور حیا کل پرنسز آئ لینڈز (شهزادوں کے جزیروں) جانے کا سوچ رہے تهے، ان فیکٹ ہم پرنسز آئی لینڈ کے سب سے بڑے جزیرے بیوک ادا Buyuk Ada جائیں گے۔" 
حیا نے ناسمجهی سے الجھ کر اسے دیکها، پهر نفی میں سر ہلا کر روکا، مگر وه مزے سے کہے جا رہی تهی۔
"اوکے تو آپ کو فون چاہیۓ؟" 
نہیں! فون آپ اپنے پاس رکهیں، عیش کریں، ہمیں بس کمپنی چاہیۓ"
"ڈی جے، ذلیل! وه بنا آواز کے لب ہلا کر چلائی اور ڈی جے کی کہنی مروڑی، مگر ڈی جے ہاتھ چهڑا کر اٹهی اور دروازے کے قریب جا کر کهڑی ہوئی۔
" کل؟کل تو میں ذرامصروف ہوں۔ آپ کے ساتھ نہیں چل سکوں گا"
"تو پرسوں صبح چلتے ہیں۔"
"شش۔۔۔۔۔ نہیں" وه ہاتھ سے اشارے کرتی اسے باز رکهنے کی کوشش کر رہی تهی۔
"پرسوں تو مجهے شہر سے باہر جانا ہے۔" وه کہہ رہا تها۔
"پهر جمعے کو؟"
"جمعے کو میری ایک اہم میٹنگ ہے اور بیوک ادا میں تو پورا دن لگ جاتا ہے۔"
"پهر تو آپ ہفتے کو بهی مصروف ہوں گے؟" ڈی جے نے مایوسی سے کہا تو دوسری جانب چند لمحے کی خاموشی چها گئی۔
"ان فیکٹ ہفتے کو میں واقعی فارغ ہوں۔ ٹهیک ہے، ہفتے کو میں آپ لوگوں کے ساتھ چل سکتا ہوں۔" وه جیسے بادل نخواستہ تیار ہوا تها۔
"بس پھر ٹهیک ہے، ہم صبح والی گورسل سے کدی کوئے کی بندرگاه پہ پہنچ جائیں گے۔ آپ بهی سات بجے سے پہلے پہلے ہمارا وہاں انتظار کیجیے گا۔ وہاں سے ہم پھر اکهٹے فیری میں سوار ہوں گے، ٹهیک؟"
ٹهیک میڈم!
"اور ہاں، تب تک آپ ہمارا فون استعمال کر سکتے ہیں۔" 
"میں آپ کا احسان تا عمر یاد رکهوں گا۔" وه ذرا سا ہنس کر بولا۔
وه فون بند کر کے واپس آئی تو حیا خاموشی سے اسے گهور رہی تهی۔ ڈی جے واپس کرسی پہ بیٹهی اور بڑے لاپرواه انداز میں میز سے میگزین اٹها کر صفحے پلٹنے لگی۔
"کیا ضرورت تهی اسے ساتھ چلنے کا کہنے کی؟ ہم اکیلے بهی تو جا سکتے تهے۔" 
"کیوں کے مجهے اس کے شادی شده ہونے میں بھی ابهی تک شک ہے۔" وه اب ایک صفحے پہ رک کر بغور کوئی تصویر دیکھ رہی تهی۔ "ویسے اس کی بیوی کہاں ہوتی ہے؟" 
یہیں استنبول میں۔ وه بددلی سے پیچهے ہو کر بیٹھ گئی۔
"اس کی کیا اپنی بیوی سے کوئی لڑائی ہے؟ کبهی زکر نہیں کرتا اس کا۔" 
"شاید۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اس موضوع پر کبھی بات نہیں کی۔ ویسے بهی جہان کا نکاح بچپن میں ہی ہو گیا تها۔ اب پتا نہیں اسے خود اپنے نکاح کا علم ہے بھی یا نہیں کیونکہ وه کبهی زکر نہیں کرتا، شاید پهوپهو نے اس سے چهپا رکها ہو۔"
"بچوں والی باتیں کرتی ہو تم بهی۔" ڈی جے نے خفگی سے چہرا اٹها کر اسے دیکها۔ "آج کے دور میں کہاں ممکن ہے کہ کسی کا نکاح ہوا ہو اور اسے علم نہ ہو۔ یقینا اسے پتا ہو گا۔ مگر یہاں سوال یہ ہے کہ نکاح اس کا جس سے بهی ہو، مگر تم اس کی اتنی کیئر کیوں کرتی ہو؟ ڈی جے پھر مسکراہٹ دبائے رسالے کی طرف متوجہ ہو گئی تهی۔
"کیوں کہ اس کا نکاح مجھ سے ہوا تها۔"وه آہستہ سے بولی تو ڈی جے نے ایک جھٹکے سے سر اٹهایا۔
"یعنی۔۔۔۔۔۔ یعنی اوہ گاڈ! تمهارا اس سے نکاح ہوا تها تو۔۔۔۔۔۔ تو وہ تمہارا کیا لگا؟"
"سوتیلا ماموں لگا۔" وه بگڑ کر بولی اور اپنے بینک کی طرف بڑھ گئی۔
اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے اتنی بڑی بات نہیں بتائی! ڈی جے ابھی تک بے یقین تھی۔
اب بتا تو دی ہے نا۔ اب جاؤ کلاس کا ٹائم ہونے والا ہے اور میں آج کیمپس نہیں جاؤں گی۔ وہ اوپر اپنے بستر میں پھر سے لیٹ گئی اور کمبل منہ پر ڈال لیا۔
بہت ذلیل ہو تم حیا! اوہ گاڈ، وہ تمہارا ہیزبینڈ ہے۔۔۔۔۔۔ ڈی جے ابھی ٹھیک سے حیران بھی نہ ہو پائی تھی کہ گھڑی پر نگاہ پڑی۔
ارے آٹھ بج گئے۔ وہ میگزین پھینک کر اٹھی اور کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔ پھر سلائیڈ کھول کر، چہرہ باہر نکالے لبوں کے گرد دونوں ہاتھوں کا پیالہ بنائے با آوز بلند چلائی۔
گڈ ما آ آ آ آرننگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈی جے۔
نی ی ی ی ی ی۔۔۔۔۔۔۔۔ نے ے ے ےے۔۔۔۔۔۔۔ دور نیچے سے کسی لڑکے نے جوابی ہانک لگائی تھی۔
ذا۔۔۔۔۔۔۔۔ لیل۔ وہ جل کر اور زور سے چلائی۔
چپ کرو، مجھے سونے دو۔ حیا نے تکیہ کھینچ کر اسے دے مارا، مگر وہ اسی کھڑکی کے پاس کھڑی صدائیں لگاتی رہی۔
•••••••••••••••••••••••••
وہ یونیورسٹی کی عمارت کی بیرونی سیڑھیاں اتر رہی تھی، جب اس کا موبائل بجا۔ وہ وہیں تیسری سیڑھی پہ رکی ، فائل اور کتابیں دوسرے ہاتھ میں منتقل کیں اور باری باری کوٹ کی دونوں جیبیں کھنگالیں، پھر اندرونی جیب میں ہاتھ ڈالا اور چنگھاڑتا ہوا موبائل باہر نکالا۔
یہ اس کا پاکستانی سم والا فون تھا۔ دوسرا موبائل جہاں کے پاس ہونے کے باعث وہ آج کل اسے ہی استعمال کر رہی تھی۔
چمکتی اسکرین پہ ترکی کا کوئی غیر شناسا نمبر لکھا آ رہا تھا۔ نمبر کس کا تھا، اسے قطعا یاد نہ آیا۔ نمبر یاد رکھنے کے میں وہ بہت چور تھی۔ اسے اپنے پاکستانی نمبر تک کے آخری دو ہندسے بھولتے تھے اور ترکی والا تو خیر سرے سے یاد نہ تھا۔
ہیلو! وہ فون کان سے لگائے ہوئے وہیں سیڑھی پہ بیٹھ گئی۔ کندھے سے بیگ اتارکر ایک طرف رکھا اور فائلیں گود میں۔

جہاں تیرا نقش قدم دیکهتے ہیں 
خیاباں خیاباں ارم دیکهتے ہیں
آواز اجنبی تهی بهی اور نہیں بهی، مگر اس کا لوچ، اتار چڑهاؤ اور انداز۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب شناسا تها۔ وہ لب بهینچ گئی۔
"عبدالرحمن بات کر رہا ہوں اور بات کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔" گو کہ وہ پڑها لکها لگتا تها مگر انداز سے کہیں نہ کہیں ممبئ کے کسی نچلے طبقے کے شہری کی جهلک آتی تهی۔
"کیا بات کرنی ہے آپ کو؟ آخر آپ مجھ سے چاہتے کیا ہیں؟" 
"ملنا چاہتا ہوں۔ بتائیے کیا یہ ممکن ہے؟" 
اس کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑگئی۔ ہتهیلیاں بے اختیار پسینے میں بهیگ گئیں۔
"میں نہیں مل سکتی۔" 
"کیوں؟ جس فون کال میں آپ کی دوست نے آپ کے کزن کو اپنے ساتھ چلنے کی آفر کی تهی، اس میں غالبا" انہوں نے بیوک ادا کا ذکر کیا تها۔ پرنسز آئی لینڈز۔۔۔۔۔۔ شہزادوں کے جزیرے۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ ادهر نہیں آ رہیں؟" 
تو وہ اس کی کالز ٹیپ کر رہا تها اور تب ہی اس نے پاکستان والے موبائل پہ کال کی تهی کیونکہ وہ ترکی والے فون کے جہان کی تحویل میں ہونے کے بارے میں جانتا تها۔
"میں بیوک ادا نہیں جا رہی۔ آئندہ آپ نہ تو میرا پیچها کریں گے، نہ ہی میری کالز ٹیپ کریں گے۔ ورنہ میں آپ کی جان لے لوں گی، سمجهے! " اس نے جهلا کر فون کان سے ہٹایا اور سرخ بٹن زور سے دبایا۔ موبائل آف ہوگیا۔
وہ گہری سانس لے کر اٹھ کهڑی ہوئی۔ جانے کب یہ شخص اس کا پیچها چهوڑے گا۔
•••••••••••••••••••••••••••••
سمندر کی جهاگ بهری نیلی لہروں پر سے ہوا سرسراتے ہوئے گزر رہی تهی۔ وہ دونوں فیری کی بالکونی میں کهڑے سامنے سمندر دیکھ رہے تهے۔ جہان قدرے جهک کر ریلنگ پکڑے کهڑا تها اور حیا گردن سیدهی اٹهائے لب بهینچے سامنے افق پہ دیکھ رہی تهی۔
ڈی جے ابهی ابهی کمیرا لیے بالکونی کے دوسرے سرے تک گئی تهی، سو ان دونوں کے درمیان خاموشی چها گئی تهی۔
وہ جب سے کدی کوئے کی بندرگاہ پہ فیری میں سوار ہوئے تهے، تب سے آپس میں بات نہیں کر رہے تهے۔ فیری ویسے بهی کهچا کهچ بهرا تها۔ جگہ ڈهونڈنے میں ہی اتنا وقت صرف ہوگیا۔ فیری کی نچلی منزل جو چاروں طرف سے شیشوں سے بند تهی، پر جڑے تمام صوفے اور کرسیاں بهرے تهے، سو وہ بالائی منزل پہ آگئے جو اوپن ائیر تهی۔ کهلا سا وسیع احاطہ جہاں ہر طرف صوفے اور کرسیاں تهیں، مگر ایک نشست بهی خالی نہ تهی۔ ان کو بالآخر فیری کے کنارے پہ بنی تنگ سی بالکونی میں کهڑے ہونے کی جگہ ملی۔ وہ اتنی تنگ تهی کہ سمندر کی جانب رخ کر کے ایک وقت میں ایک بندہ ہی ریلنگ کے ساته کهڑا ہو سکتا تها۔ بالکونی کی گیلری لمبی تهی اور لوگوں کی ایک طویل قطار وہاں کهڑی تهی۔
وہ دونوں بالکل دائیں طرف کے کونے میں تهے۔ ہوا بے حد سرد تهی، پهر بهی جہان سیاہ سوئیٹر کی آستین کہنیوں تک موڑے ہوئے تها۔ مگر اسے بے حد سردی لگ رہی تهی کہ اس نے سیاہ لمبے اسکرٹ کے اوپر صرف سرمئی سوئیٹر ہی پہن رکها تها، سو اب سیاہ اسٹول کو سختی سے کندهوں کے گرد لپیٹ کر بازو سینے پہ بانده رکهے تهے۔
"گیومی سم سن شائن.... گیومی سم رین ...." 
حیا کے بائیں جانب ریلنگ پکڑے انڈین لڑکیوں کا ایک گروپ کهڑا تها۔ وہ لڑکیاں بہت سی تهیں وہ کندهے سے کندها ملا کر کهڑی تهیں، اور ان کی قطار بالکونی کے دوسرے سرے تک جاتی تهی۔ وہ کسی اسٹڈی ٹور پہ استنبول آئی ہوئی تهیں اور اب چہرے کے گرد ہاتهوں کا پیالہ بنائے باآواز بلند لہک لہک کر گیت گا رہی تهی۔
"تم اس روز بغیر بتائے اٹھ کر چلی گئیں۔ تمہیں پتا ہے میں کتنی دیر استقلال اسٹریٹ میں تمہیں ڈهونڈتا رہا؟" وہ ریلنگ پہ جهکا سمندر کی لہروں کو دیکهتے ہوئے کہنے لگا۔
"تو نہ ڈهونڈتے۔" حیا نے بے نیازی سے شانے اچکائے۔ ہوا سے اس کے بال اڑ اڑ کر جہان کے کندهے کو چهو رہے تهے مگر وہ انہیں سمیٹنے کا تکلف بهی نہیں کر رہی تهی۔
"اتنا غصہ؟" جہان نے گردن موڑ کر حیرت سے اسے دیکها۔
وہ تنے ہوئے نقوش کے ساتھ سامنے دیکهتی رہی۔
"ایسا بهی کچھ نہیں کہا تها میں نے۔" 
"اگر تمہیں خود شرمندگی نہیں ہے تو میں کیوں دلاؤں؟" 
"میری جگہ کوئی بهی ہوتا تو وہ یہی پوچهتا۔" 
"مجهے کسی اور سے کوئی سروکار نہیں ہے۔sea gulls کا ایک غول پر پهڑپهڑاتا ان کے سامنے سے گزرا تها۔ جہان سیدها ہوا اور ہاتھ میں پکڑی روٹی کا ٹکڑا توڑ کر فضا میں اچهالا۔ ایک بڑے سے sea gull (سمندری بگلے) نے فضا میں ہی غوطہ لگا کر اسے اپنی چونچ میں دبا لیا۔
وہ خاموشی سے پانی کی نیلی سطح کو دیکھتی رہی۔ پانی میں گلابی جیلی فش تیر رہی تھی ان کے سر پانی کے اندر ہی تھے مگر وہ اتنا شفاف تھا کہ وہ واضح دکھائی دیتی تھیں۔
کیا میرا اتنا بھی حق نہیں ہے حیا!حیا کہ میں پوچھ سکوں کہ وہ شحخص کیوں تمہارے پیچھے پڑا ہوا ہے؟
پوچھو، ضرور پوچھو، مگر اسی سے جا کر پوچھو۔
مگر میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہے؟ 
میں بھی نہیں جانتی کہ وہ کون ہے۔
آج وہ جہان کے لیے وہی حیا سلیمان بن گئی تھی، جو وہ ہر ایک کے لیے تھی۔ خود کو جس شخص کے سامنے جھکا لیا تھا، اب اسی کے سامنے اٹھانا بھی تھا۔
جینے دو۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ پل تو۔۔۔۔۔۔ جینے دو۔
وہ لڑکیاں لہک لہک کر گا رہی تھیں۔ ڈی جے بھی کہیں ان کے ساتھ تھی۔
اچھا آئی ایم سوری۔ وہ رخ موڑ کر اس کے بالکل مقابل آ کھڑا ہوا اورروٹی کا بچا ہوا ٹکڑا اس کی طرف بڑھایا۔
حیا نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ ذرا سا مسکرایا۔
ایک لمحہ لگا تھا اسے پگھلنے میں اور وہ پگھلی ہوئی موم کا ڈھیربن گئی۔ بہت دھیرے سے وہ مسکرا دی۔ خود سے کئے سارے وعدے بھول گئے۔
اوکے! اس نے روٹی کا ٹکڑا کھینچ کر توڑا اور اڑتے ہوئے بگلے کی سمت پھینکا۔ اس نے اسے فضا میں ہی پکڑ لیا۔
تمہارا ترکی بہت خوبصورت ہے جہان! مگر یہاں کے لوگ اچھے نہیں ہیں۔ اب وہ روٹی کے ٹکڑے کر کے فضا میں اچھال رہی تھی۔
اچھا۔۔۔۔۔۔۔ کیسے ہیں وہ؟
اکھڑ' بد لحاظ' بد تمیز' بدتہذیب' بے مروت' الٹے دماغ کے لوگ ہیں یہاں کے۔
وہ کہتی گئی اور وہ بے اختیار ہنستا چلا گیا۔
اور پاکستان کے لوگ کیسے ہوتے ہیں حیا سلیمان! خوب ہنس کر وہ بولا تھا۔ 
کم از کم ترکوں سے تو بہتر ہوتے ہیں۔ اس نے روٹی کا آخری ٹکڑا بھی دور اچھال دیا۔
جہان ابھی تک ہنس رہا تھا۔
Give me some sunshine
Give me some rain.........
Give me another chance
To grow up again.........
لڑکیاں اسی طرح مگن سی گا رہی تھیں۔
••••••••••••••••••••••••••
وہ تینوں ساتھ ساتھ بیوک ادا کی اس بل کھاتی سڑک پر نیچے اتر رہے تھے۔ حیا ایک ہاتھ سے اسٹول اور دوسرے سے اڑتے بالوں کو سمیٹ کے پکڑے ہوئے چل رہی تھی۔
اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ پرانے زمانوں میں واپس چلی گئی ہے۔ ایک قدیم جزیرے پےہ جو ساری دنیا سے الگ تھلگ سمندر کے درمیان واقع تھا۔ وہ صدیوں پرانے شہزادوں کے جزیرے تھے اور وہ خود کوئی امر ہوئی شہزادی تھی۔
شہزادوں کے جزیرے یا پرنسز آئی لینڈز Princes Islan (ترک میں ادالار۔۔۔۔۔۔۔ ادا یعنی جزیرے، اور لار یعنی شہزادوں کے) مرمرا کے سمندر میں قریب قریب واقع نو جزیروں کے گروہ کو کہا جاتا تھا۔ گئے وقتوں میں سلاطین اپنے تخت و تاج کے لیے خطرناک لگتے شہزادوں کو جلا وطن کر کے ان نو جزیروں پہ بھیجا کرتے تھے، جس سے اس کا نام پرنسز آئی لینڈز پڑ گیا۔ ”بیوک ادا" ان میں سب سے بڑا جزیرہ تھا۔ "بیوک یعنی بڑا اور "ادا یعنی جزیرہ۔ بیوک ادا دنیا کے ٹریفک، رش اور ہنگامے سے دور ایک پرسکون، چھوٹا سا جزیرہ تھا۔ وہاں گاڑیاں، بسیں اور دوسری آٹوز نہیں ہوتی تھیں۔ سفر کرنے کے لیے قدیم وقتوں کی طرح گھوڑا گاڑیاں اوربھگیاں تھیں یا پھر بائی سائیکل۔ 
ڈی جے اور جہان اس سے چند قدم آگے نکل گئے تھے اور وہ قدیم زمانوں کے رومانس میں کھوئی ذرا پیچھے رہ گئی تھی۔ وہ دونوں باتیں بھی کر رہے تھے۔ ان میں اب خاصی بے تکلفی ہو چکی تھی۔ جہان اسے ریسٹورنٹس کے متعلق کچھ بتا رہا تھا۔
یہاں بہت زیادہ اقسام کے کباب ملتے ہیں، غالبا ڈیڑھ سو اقسام کے، اور یہ ریسٹوران یا تو سوپ فری دیتا ہے، یا اپیل ٹی۔
وہ بے توجہی سے ان کی باتیں سنتی قدم اٹھا رہی تھی۔
اس جگہ سڑک دونوں طرف سے ریسٹورینٹس میں گھری تھی۔ ان کے دروازے کھلے تھے اور سامنے برآمدے میں شیڈ تلے کرسیاں اور میزیں بھچی تھیں۔
سیاہوں کا ایک ہجوم ہر سو پھیلا تھا۔
سڑک کے وسط میں ایک جگہ مجمع سا لگا تھا۔ وہ تینوں بھی بے اختیار دیکھنے کے لیے رک گئے۔
سیاحوں کے درمیان گھری وہ ایک خوب صورت سی ترک بچی تھی۔ وہ گہرے جامنی بغیر آستین فراک میں ملبوس تھی، گھنگریالے بال کندھے پہ آگے کو ڈالے ہوئے تھے۔ وہ ریڈ کاریٹ پہ کھڑی کسی اداکارہ کی طرح کمر پہ ہاتھ رکھے ایک معصوم سا پوز بنائے کھڑی تھی اور ارد گرد دائرے میں کھڑے سیاح کھٹا کھٹ اپنے کیمروں میں اس کی تصویریں مقید کر رہے تھے۔
وہ ہر تصویر کہ بعد ذرا مختلف انداز میں کھڑی ہو جاتی ہو اور چہرے پہ معصومیت طاری کیے کبھی آنکھوں پٹپٹاتی، کبھی ٹھوری تلے ہاتھ رکھتی، کبھی مسکراتی، کبھی ناک سکوڑتی، شاید ایک دو سیاح اس کی تصویر بنانے رکے ہوں گے تو دیکھا دیکھی۔۔۔۔۔مجمع لگ گیا ہو گا۔ 
وہ اور ڈی جے بھی فوراً اپنے کیمرے نکال کر تصویریں بنانے کھڑی ہو گئیں۔ اس بچی کہ پوز اتنے پیارے تھے کہ تصویریں بنا بنا کر بھی ان کا دل نہیں بھر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد حیا نے لمحے بھر کا توقف کرتے اپنا چہرہ اٹھایا تو دیکھا، جہان ساتھ ہی کھڑا لب بھینچے قدرے ناگواری سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ 
وہ شانے اچکا کر پھر سے سیاحوں کے جمگھٹے میں گھری بچی کی طرف متوجہ ہو گئی۔ 
یار! عمر دیکھو اس کی اور ایکشن کیسے مار رہی ہے۔ ڈی جے ہنستے ہوئے تصویریں کھینچ رہی تھی۔ دفعتاً مجمع کو چیر کر ایک لڑکی آگے بڑھتی دیکھائی دی۔اس نے لمبے اسکرٹ اور کھلے سویٹر کے اوپر بھورا سادہ اسکارف چہرے کے گرد لپیٹ رکھا تھا۔ اس کی رنگت سنہری تھی اور آنکھیں بھوری سبز۔ وہ سولہ سترہ برس کی لگتی تھی۔ بائیں کہنی پر اس نے ایک ٹوکری ڈال رکھی تھی جس میں جنگلی پھول تھے۔ 
وہ ماتھے پہ تیوریاں لیے آگے بڑھی اور سختی سے اس بچی کا بازو پکڑا۔ بچی گھبرا کر پلٹی اور جیسے ہی اس لڑکی کو دیکھا، اس کے لبوں سے ہولے سے نکلا ”عائشے گل!“
جوابا وہ بھوری سبز آنکھوں والی لڑکی ترک میں غصے سے کچھ کہتی ہوئی اس کا بازو پکڑ کر مجمع میں سے راستہ بنا کر اس کو لے جانے لگی۔ وہ ترک میں جو کہہ رہی تھی، وہ ایسا تھا کہ سیاح فورا پیچھے ہٹنے لگے۔ ریڈ کارپٹ شو ختم ہو گیا تھا۔
بچی اب مزاحمت کرتی، چڑچڑے پن سے کچھ کہہ رہی تھی۔ وہ لڑکی جس کا نام شاید عائشے گل تھا۔مسلسل بولتی ہوئی اسے لے کر جا رہی تھی۔ اس کی بھوری آنکھوں میں غصہ بھی تھا اور دکھ بھی اور شاید نمی بھی۔
حیا گردن موڑ کر ان کو جاتے دیکھتی رہی۔
آؤ! تمہیں اپنا بیوک ادا دیکھاتا ہوں۔ جہان کی آواز پہ وہ چونکی پھر خفیف سا سر جھٹک کہ اس کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ 
جہان نے ایک بگھی روک دی تھی۔ ڈی جے نے البتہ چار لیراز فی گھنٹہ کے حساب سے سائیکل کرائے پر لے لی تھی اور اب وہ اسی پہ سوار ہو رہی تھی۔ حیا بگھی کہ قریب آئی تو جہان نے ایک طرف ہو کر راستہ دیا۔
وہ شاہانہ سی بگھی اوپر سے کھلی تھی۔ آگے ایک گھوڑا جتا تھا، اس کے ساتھ بگھی بان لگام تھامے بیٹھا تھا۔ پیچھے خوب صورت سی دو افراد کے بیٹھنے کی نشست بنی تھی جس پہ سنہری نقش و نگار بنے تھے۔
وہ احتیاط سے اوپر چڑھی۔ مخملیں شاہی نشست نہایت گداز تھی۔ وہ دونوں ایک ساتھ ہی اس پہ بیٹھے۔
بگھی بان نےگھوڑے کو ذرا سی چابک لگائی تو وہ چل دیا۔ پتھریلی سڑ ک پہ اس کہ ٹاپوں کی آواز گونجنے لگی۔
تو پھر پاکستان کے اچھے لوگ کیسے ہوتے ہیں؟
حیا نے گردن اس کی طرف پھیری۔ وہ ہاتھ میں پکڑے اسمارٹ فون پر نگاہیں جمائے پوچھ رہا تھا۔ وہ اسے کبھی بھی مکمل توجہ نہیں دے گا یہ تو طے تھا۔پاکستان اور پاکستان کے اچھے لوگ! حیا گہری سانس لے کر سامنے کو دیکھنےلگی۔
سڑک دو رویہ سبز درختوں کی قطار سے گھری تھی۔چند پیلے زرد پتے سڑک کے کناروں پہ بکھرے پڑے تھے۔ درختوں کی دونوں قطاروں کے درمیان بگھی سست روی سے آگے بھر رہی تھی۔ 
ہم بہت ترقی یافتہ نہیں ہیں، بہت پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں۔ دھوکہ دہی، رشوت زنی، قتل و غارت اور بہت سی برائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ ہمارے ہاں ظلم کھلے عام کیا جاتا ہے اور مظلوم بھی ہم ہی ہوتے ہیں۔ ہم پسماندہ بھی ہیں اور پست ذہن کے بھی، مگر اس سب کے باوجود جہان سکندر! ہم دل کے برے نہیں ہیں۔ ہمارے دل بہت سادہ، بہت معصوم، بہت پیارے ہوتے ہیں۔ 
پھر وہ قدرے توقف سے بولی۔
کیا تم نے واقعی ابا سے پوچھا تھا کہ پاکستان میں ہر روز بم بلاسٹ ہوتے ہیں؟ 
میں نے؟ موبائل کی اسکرین کو انگلیوں میں پکڑے وہ ذرا سا چونکا، پھر زیرلب مسکرا دیا۔ شاید۔۔۔۔۔۔۔ کیا نہیں ہوتے؟ 
ہوتے تو ہیں۔ ہماری انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی کے کیفے میں بھی بلاسٹ ہوا تھا۔ اس دن ہماری ایک فیئرویل پارٹی تھی اور ہم فرینڈز بلاسٹ سے دس منٹ پہلے کیفے سے نکلی تھیں۔ جب ہم دوبارہ آئے تو بہت برا منظر تھا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ خوں، ٹوٹا کانچ، جلی ہوئی دیواریں۔۔۔۔۔۔۔ اس نے یاد کر کے جیسے جھرجھری لی۔
تو سیکیورٹی ادارے کیا کرتے ہیں؟ 
لگتا تو نہیں کہ کچھ کرتے ہیں؟ خیر! ترکی کے لوگ کیسے ہوتے ہیں؟
میں تو ایک غریب سا ریسٹورنٹ اونر ہوں۔ ورکنگ کلاس کا ایک مزدورصفت شخص، جس کو مصروفیت کے باعث کھومنے پھرنے کا وقت بھی نہیں ملتا اور باوجود اس کے کہ میرے گھر سے بیوک ادا قریبا دو گھنٹے کی مسافت پر ہو گا، میں تین سال بعد ادھر آیا ہوں۔
واقعی؟ اس نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں۔ جہان نے شانے اچکا دیے۔
وقت ہی نہیں ملتا۔ میں نے بچت کے لیے ریسٹورنٹ میں ورکرز کم سے کم رکھے ہوئے ہیں، سو اس لیے کام کا بوجھ بہت بڑھ جاتا ہے۔ وہ اسی طرح اسکرین کو دباتا مسلسل کام کر رہا تھا۔
بگھی سڑک کی ڈھلوان سے نیچے اتر رہی تھی۔ بل کھاتی سڑک لے دونوں اطراف بہت خوبصورت بنگلوں قطار یں تھیں۔ سڑک کے کنارے کتے ٹہلتے پھر رہے تھے۔
یہ تختہ کمزور ہے۔ دفعتا جہان نے اپنے جوگر سے نیچے موجود تختہ تھپتھپایا اور پھر جھکا۔
پلیز جہان! ساری دنیا کی ٹوٹی چیزیں تمہارا ہیڈ ک نہیں ہیں۔
اچھا! وہ جو جھک رہا تھا، قدرے خفگی سے سیدھا ہوا۔ وہ پھرسے موبائل پہ کچھ لکھنے لگا۔
فون رکھ بھی دو۔
مادام! آپ یہ مت بھولا کریں کہ آپ ایک غریب ورکر کے ساتھ ہیں جو اگر ایک دن کا آف لے گا تو سارے آرڈرز میں ہیر پھیر ہو جائے گی، سو اس بے چارے کو بہت سے کام یونہی آن دی موو بھگتانے پڑتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ان تمام محنتوں کے باوجود وہ اگلے دس سال تک بھی بیوک ادا کے ان بنگلوں جیسا آدھا بنگلہ بھی نہیں بنا سکتا۔
اس کے کہنے پہ حیا نے لاشعوری طور پر سڑک کے دونوں اطراف بنے بنگلوں پہ نگاہ ڈورائی اور ایک لمحے کو ٹھٹک کر رہ گئی۔

دائیں طراف جہان کے اس جانب جس بنگلے کے سامنے سے بگھی گزر رہی تھی، وہ اتنا عالیشان اور خوب صورت تھا کہ نگاہ نہیں ٹکتی تھی۔
چار منزلہ، سفید اونچے ستونوں پہ وہ محل یوں شاہانہ انداز میں کھڑا تھا جیسے کوئی ببر شیر اپنے پنجوں پہ بیٹھا ہوتا ہے۔ اس کے چھوٹے سے باغیچے کے آگے ایک لکڑی کا سفید گیٹ تھا۔
بگھی آ گے بڑھ گئی تو وہ گردن موڑ کر دیکھنے لگی۔سفید محل کے لکڑی کے گیٹ پہ نام کی ایک تختی لگی تھی۔ جس پہ قدیم لاطینی ہجوں کے انداز میں لکھا تھا۔
اے آر پاشا۔
اس کے دل کی دھڑکن لمے بھر کو رکی تھی۔ اس کے انداز پر جہان نے پلٹ کر اس گھر کو دیکھا تھا۔
اب کیا تم ابھی سے میری جیب کا مقابلہ ان بنگلو ں کے ساتھ کرنے لگی ہو؟
وہ چونکی، پھر اس گیٹ کو دیکھا جو اب دور ہوتا جا رہا تھا۔
نہیں تو۔ وہ سر جھٹک کر آگے دیکھنے لگی۔
پھر کتنی ہی گلیوں سے وہ خاموشی سے گزرے، یہاں تک کہ ایک جگہ جہان نے ترک میں کچھ کہہ کر کوچوان سے بگھی رکوا دی۔
ہم نے پورے جزیرے کا چکر لگانا تھا، پھر ابھی سے کیوں رک گئے؟ وہ اترنے لگا تو حیا بول اٹھی۔
نماز! جہان نے سامنے مسجد کی جانب انگلی سے اشارہ کیا۔
اچھا! وہ سر ہلا کر اٹھی، ایک ہاتھ راڈ پہ رکھا اور احتیاط سے پاؤں نیچے پیدرل پہ رکھ کر اتری۔ جہان پہلے ہی اتر کر مسجد کے دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا۔
مسجد چھوٹی مگر صاف ستھری تھی۔ جہان مردوں والے حصے میں چلا گیا تو وہ وضو کر کے عورتوں کے پرئیر ہال میں آ گئی۔
ہال کے ایک کونے میں ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے ایک بچی اسی کے انداز میں بیٹھی دھیمی آواز میں کچھ کہہ رہی تھی۔
حیا نے گیلے بازؤوں کی آستین نیچے کرتے ہوئے بغور ان دونوں کو دیکھتی رہی۔ یہ وہی دونوں لڑکیاں تھیں جو ابھی دو گلیاں چھوڑ کر سڑک پر اسے نظر آئی تھیں۔ جامنی فراک والی چھوٹی بچی اور دوسری بھورے اسکاف والی سنجیدہ لڑکی۔
بچی منت بھرے شکایتی انداز میں اس لڑکی کے گھٹنے کو جھنجھوڑتی کچھ کہے جا رہی تھی، مگر وہ لڑکی جس کا نام شاید عائشے گل تھا، نفی میں سر ہلاتی گویا مسلسل اس کی تردید کیے جا رہی تھی۔ وہ دونوں دھیمی آواز میں باتیں کر رہی تھیں، حیا اسٹول کو چہرے کے گرد لپیٹتے ہوئے ان دونوں کو دیکھے گئی۔ انہوں نے اسے نہیں دیکھا تھا شاید، وہ آپس میں مشغول تھیں۔
وہ جب نماز پڑھ کر اٹھی تو دیکھا، وہ بچی ابھی تک اس لڑکی کو منا رہی تھی اور شاید اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔ اس کی آواز دھیمی اور زبان انجان تھی، مگر کبھی کبھی وہ بے بسی بھرے انداز میں چیخ کر ذرا زور سے عائشےگل۔۔۔۔۔۔۔۔ پلیز! کہہ اٹھتی تو حیا کو سنائی دے دیتا۔
ایک آخری نگاہ ان دونوں پہ ڈال کر وہ باہر آ گی۔
مسجد کے برآمدےمیں وہ تنہا نماز پرھ رہا تھا۔ حیا ننگے پاؤں چلتی ہوئی برآمدے تک آئی اور ستون کے ساتھ ٹیک لگا کے کھڑی ہوگئی۔ ہوا سے اس کا سر پہ لیا اسٹول سر کی پشت تک پھسل گیا تھا۔
سامنے چند قدم کے فاصلے پر وہ سجدے میں جھکا تھا۔
نیلی جینز اور اوپر سیاہ سوئیٹر جہان سکندر کا مخصوص لاپرواہ سا حلیہ۔ وہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ سر ستون سے ٹکاے اسے دیکھے گئی۔
وہ اب سجدے سے اٹھ کر تشہد میں بیٹھ رہا تھا۔ ہر کام پھرتی سے کرنے والا جہان سکندر کی نماز بہت ٹھہری ہوئی اور پرسکون تھی۔
وہ چونکہ اس سے ذرا پیچھے کھڑی تھی۔ تو یہاں سے اس کا صرف ہلکا رخ ہی نظر آتا تھا۔ گردن کی پشت اور چہرے کا ذرا سا دایاں حصہ۔ وہ گردن جھکائے تشہد پڑھ رہا تھا۔ پھر اس نے دائیں رخ سلام کے لیے گردن موڑی تو حیا کو بالآخر اس کا چہرہ نظر آگیا۔ وہ زیر لب مسکراتے اسے دیکھے گئی۔
دوسری جانب سلام پھیر کر اس نے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے۔ چند لمحے یونہی بیٹھا دعا مانگتا رہا، پھر ایک گہری سانس لے کر ہاتھ چہرے پہ پھیرتا وہ کھڑا ہوا اور واپس مڑا تو اسے ستون کے ساتھ کھڑے دیکھ کر مسکرایا۔
تم انتظار کر رہی تھیں؟ وہ ذرا مسکرا کر کہتا اس کی طرف آیا تو حیا نے ا ثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ دونوں ساتھ ہی باہر آئے تھے۔
جہان! چوکھٹ پر جب وہ جھک کر جوگر پہن رہا تھا تو حیا نے اسے پکارا۔
ہوں؟ 
تم مذہبی ہو؟
تھورا بہت۔ وہ تسمہ باندھ رہا تھا۔
لگتے نہیں ہو۔
تسمے کی گرہ لگاتی ادس کی انگلیاں تھمیں، اس نے سر اٹھا کر قدرے ناسمجھی سے حیا کو دیکھا۔
میں کیا کرتا تو مذہبی لگتا؟
وہ تو مجھے نہیں پتا۔ ویسے تم نے دعا میں کیا مانگا؟
میں نے زندگی مانگی! وہ تسمہ بند کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔
زندگی؟ حیا نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے دہرایا۔ وہ اب عادتاً سوئیٹر کی آستینیں موڑ رہا تھا۔
انسان وہی چیز مانگتا ہے جس کی اس کو کمی لگتی ہے، سو میں ہمیشہ زندگی مانگتا ہوں۔ اگر زندگی ہے تو سب خوب صورت ہے، نہیں ہے تو سب اندھیرا ہے۔وہ دونوں سڑک کے کنارے ساتھ ساتھ چلنے لگے تھے۔
خوب صورتی کیا ہوتی ہے جہان؟ 
بیوک ادا کی ایک سرد ہوا اس کے بال پھر سے اڑانے لگی تھی۔ شال سر سے پھسل کر اب گردن کے پیچھے اٹک گئی تھی۔ اور جب اپنے بکھرتے بال دونوں ہاتھوں میں سمیٹتے ہوئے اس نے یہ سوال پوچھا تھا تو شدید خواہش کے باوجود وہ جانتی تھی کہ وہ خوب صورتی حیا سلیمان کی آنکھیں ہیں“ جیسی کوئی بات نہیں کہے گا، مگر جو اس نے کہا، وہ حیا سلیمان کے لئے قطعا ً غیر متوقع تھا۔
علی کرامت کی ماں! 
کیا؟ اس نے نا سمجھی سے جہان کو دیکھا۔ وہ سامنے دیکھتے ہوئے قدم اٹھا رہا تھا۔
میرے لیے خوب صورتی علی کرامت کی ماں پہ ختم ہو جاتی ہے۔ علی کرامت میرا ایک سکول فیلو تھا۔
ایک دفعہ میں اس کے گھر گیا تھا، تب میں نے اس کی ماں کو دیکھا تھا۔ وہ بہت خوب صورت خاتون تھیں۔ وہ ڈاکٹر تھیں اور اس وقت ہسپتال سے آئی تھیں۔ وہ تھکی ہوئی تھیں اور تب کچن میں کھڑی ٹشو سے اپنا چہرہ تھپتھپا رہی تھی۔ حیا! وہ چہرہ اتنا مقدس، اتنا خوب صورت تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اس کی بات پہ وہ چند لمحے کھے لیےخاموش سی ہو گئی۔
وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترک تھیں یا پاکستانی؟ بہت دیر بعد وہ بولی۔
وہ سیاہ فام تھیں۔ خالص سیاہ فام۔
اور حیا کے حلق تک میں کرواہٹ گھل گئی، تا ہم وہ خاموشی سے اس کے ساتھ قدم اٹھاتی رہی۔
یہ وہ واحد شحخص تھا جس کے سامنے وہ جھک جاتی تھی، خاموش ہو جاتی تھی، کڑوے گھونٹ پی لیتی تھی اور پھر بھی موم بن جاتی تھی۔ اگر یہی بات کسی اور نے کہی ہوتی تو وہ اپنے ازلی طنطنے سےاس کو اتنی سناتی کہ ایسی بات کرنے کی وہ شخص دوبارہ ہمت نہ کرتا۔ حد ہو گئی، بھلا سیاہ فام کہاں اتنے حسین ہو سکتے ہیں۔ یا پھر شاید جہان کا مطلب یہ تھا کہ اسے حیا سلیمان کے مقابلے میں ایک بدصورت عورت بھی خوبصورت لگتی ہے۔
وه زندگی میں پہلی دفعہ کسی بدصورت عورت کو سوچ کر حسد کا شکار ھہوئی تھی مگر چپ رہی۔
سہ پہر ڈھلنے لگی تو وه واپسی کی تیاری کرنے لگے۔ بیوک ادا جزیرے کی گلیوں میں چل چل کر اب اس کے پاؤں دکھنے لگے تھے۔ ڈی جے واپسی پہ پهر سے بالکونی میں کھڑے ہونے کے لۓ قطعی راضی نه تھی اور اس کا پورا اراده فیری میں گھس کر چاہے پیار سے، چاہے لڑ جھگڑ کر، مگر بیٹھنے کے لئے نشست ڈھونڈنے کا تھا۔ جہان کو ٹکٹ لینے میں خاصی دیر لگ گئی۔ پانچ بجے والی فیری شام کی آخری فیری تھی، سو سیاحوں کا سارا ہجوم ٹکٹ کی کھڑکی کے آگے موجود تھا۔ اب اس کے بعد اگلا جہاز رات کے آٹھ بجے چلنا تھا اور پهر اگلی صبح تک کوئی جہاز نہیں چلتا تھا۔ جو رہ گیا وه جزیرے پہ رات بسر کرے یا پهر تیر کر واپس جاۓ۔ 
اگر تم دونوں اسی رفتار سے چلتی رہیں تو فیری نکل جاۓ گی اور تمھیں واقعی تیر کر واپس جانا پڑے گا۔ وه ان دونوں کی سست روی پہ خاصا جھنجھلا کر بولا تھا۔ جوابا وه قدرے خفت سے ذرا تیز چلنے لگیں۔
بندرگاه کھچا کھچ سیاحوں سے بھری ہوئی تھی۔ وه تینوں اس رش میں بمشکل راسته بناتے آگے بڑھ رہےتھے۔ جہان آگے تھا اور وه دونوں پیچھے۔ اسے اب اپنے ریسٹورنٹ کی فکر ہونے لگی تھیں۔ پراپرٹی کی مالکہ نے آ کر پهر سے کوئی ہنگامہ کیا تھا۔ جہان اسے اس سارے معاملے پہ قدرے پریشان اور متاسف لگا تھا۔ گو کہ وه تاثرات چھپانےکی مکمل کوشش کر رہا تھا۔ مگر وه اس کا ہر رنگ اب پہچاننے لگی تھی۔ 
وه تینوں فیری کی طرف جاتے بورڈ کی جانب بڑھ رہے تھے جب کسی نےحیا کی کہنی کو ذرا سا چھوا۔ ماڈم.......ماڈم...!
وه ٹھٹک کر رکی اور گردن موڑی۔
اس کے عقب میں ایک باره تیره برس کا ایک ترک لڑکا کھڑا تھا۔ وه کوئی ٹھیلےوالا تھا، اس نے گردن کے گرد اور دونوں ہاتھوں میں بہت سے ہار اور موتیوں کی لڑیاں ڈوریوں میں باندھ کر اٹھائی ہوئی تھیں اور اب وه لڑیوں کا ایک گچھا حیا کے چہرے کے سامنے کر کے دکھاتا، ترغیب دلانے کی کوشش کر رھا تھا۔
وه کبھی نه رکتی مگر وه موتی اور ان کی چمک اتنی خوبصورت تھی که اسےٹھہرنا ہی پڑا وه بےاختیار وه لڑیاں انگلیوں میں اٹھا کر الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ وه بالوں میں پرونے والی لڑیاں تھیں اور اتنی حسین تھیں که چند لمحوں کیلئےوه لمبےبالوں کی دیوانی لڑکی اردگرد کو فراموش کر بیٹھی۔
حیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا۔۔۔۔۔!
جہان دور سے اسے آوازیں دے رہا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا۔ جہان اور ڈی جے فیری کے تختے پہ چڑھ چکے تھےاور اب جھنجھلاھٹ بھری کوفت سے اسے بلا رھے تھے۔
ایک منٹ! وه انگشت شہادت اٹھا کر ان کو رکنے کا اشاره کرتی پلٹ کر جلدی جلدی لڑیاں دیکھنے لگی۔ 
ہاؤ مچ؟ اس نے دولڑیاں الگ کر کے پوچھا۔
ٹین لیرا......... ٹین لیرا۔
یه تو بہت زیاده ہیں۔ اس نے خفگی سے بچے کو دیکھا۔ پیچھے جہان اسے ناگواری بھرے انداز میں پھر سے آواز دے رھا تھا۔
تم جاؤ جگه تلاش کرو میں دومنٹ میں آرہی ہوں۔ اس نےان کو مطمئن کرنے کیلۓ جانے کا اشاره کیا۔ ان تک آواز شاید پہنچ گئی تھی، تب ہی وه دونوں سر ہلا کر مڑے اور فیری کےاندرونی راستے کی جانب بڑھ گۓ۔
فیری نکلنے میں ابھی تین منٹ تھے اور وه ان تین منٹوں کو ضائع نھیں کرنا چاہتی تھی۔
سیون لیرا۔ اس نے حتمی انداز میں لڑکے کو کہا اور پیسے نکالنے کیلۓ سنہری کلچ کھولا۔ اس سے قبل کہ وه نوٹ نکالتی، لڑکے نے ایک دم پرس جھپٹا اور بھاگ کھڑا ھوا۔
لمحے بھر کو اسے سمجھ نہیں آئی کے ھوا کیا ہے اور جب سمجھ آیا تو وه۔
رکو.......... رکو........ میرا پرس! وہ چلاتی ہوئی اس کے پیچھے لپکی۔ جہان، ڈی جے، فیری اس افتاد میں اسے سب بھول گیا۔
لڑکا پهرتی سے بھاگتا جا رہاتھا۔ سیاح افراتفری میں فیری کی طرف بڑھ رہے تھے۔ کسی کےپاس توجہ کرنے کو وقت نه تھا۔ وه تیز قدموں سےدوڑتی اس لڑکے کے پیچھے آئی۔ وه بازار کی طرف مڑ گیا اور اب ایک گلی کے عین وسط میں کھڑا تھا،حیا جیسے ہی بھاگتی ہوئی اس گلی میں داخل ہوئی، لڑکے نے چونک کر اسے دیکھا اور پهر سے بھاگ کھڑا ہوا۔
رکو۔۔۔۔۔۔ رکو! وه غصے سے چلاتی اس کے پیچھے دوڑ رہی تھی۔ لڑکا خاصا پهرتیلا لگ رہا تھا، مگر وه اتنا تیز نہیں بھاگتا تھا۔ تین گلیاں عبور کر کے وه اس رہائشی علاقے میں داخل ہوا اور سرپٹ دوڑتا ہوا دائیں طرف کی قطار کے بنگلوں میں سےایک کا گیٹ عبور کرگیا۔
وه ہانپتی ہوئی اس گیٹ تک آئی۔ گیٹ نیم وا تھا۔ لڑکا اندر ہی کہیں گیا تھا۔ 
دور کہیں فیری نکل چکی ہے۔ ڈی جے اور جہان جزیرے سے چلےگئے تھے اور وه ادھر تنہا ہی ره گئی تھی۔ لیکن یه وقت وه سب سوچنے کا نہیں تھا۔ اسے اپنا پرس اور پاسپورٹ واپس لینا تھا۔ ہر صورت۔
اس نے ایک لمحے کو اس نیم وا گیٹ کو دیکھا اور پهر اس کے پیچھے کھڑے اس عالیشان سفید محل کو اور پهر تیزی سے اندر آئی۔ یه وہی سفید محل تھا جو اس نے دوپهر میں دیکھا تھا.۔
چھوٹے سے باغیچے میں خاموشی چھائی تھی۔ شام کے پردے اب نیلے پڑ رھے تھے۔ وه پهولتے سانس کو ہموار کرتی متذبذب سی چلتی بنگلے کے داخلی دروازے تک آئی اور بیل کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا۔
لکڑی کا اونچا منقش دروازه قدیم طرز کا بنا تھا۔ اس کے آس پاس بیل نامی کوئی شے نا تھی۔ وه کیا کرے؟ یوں منه اٹھا کر کسی کے گھر میں کیسے گھس جاۓ؟ مگر وه بھی تو اسی گھر میں چھپنے کی نیت سے داخل ھوا تھا، اسے بہرحال اندر جانا تھا۔
ایک مصمم اراده کر کے اس نے کندھے په پهسلتی شال درست کی اور دروازے کا سنہری ناب گهمایا۔ وه قدیم وقتوں کی کوئی امر ہوئی شھزادی 
تهی جو راستہ بھٹک کر اس جزیرے پہ آنکلی تھی اور اب سلطان کے محل کے سامنے کھڑی تھی۔
دروازه چرر کی آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔ اندر ہر سو اندھیرا تھا۔ اس نےچوکھٹ پہ قدم دھرا۔
ہیلو؟ وه دو قدم مزید آگے آئی اور پکارا اس کی آواز کی گونج درودیوار سے ٹکرا کر پلٹ آئی۔
وه کسی لابی میں کھڑی تھی۔ وہاں نیم تاریکی سی چھائی تھی۔ صرف کھلے دروازے سے آتی شام کی نیلگوں روشنی میں آگے جاتی راہداری سی نظر آرہی تھی۔ اس کا دل عجیب سی بے چینی و خوف میں گھرنے لگا۔
کوئی ہے؟ اب کے اس نے پکارا تو آواز میں ذرا ارتعاش تھا۔ ایک دم اس کے عقب میں ٹھاہ کے ساتھ دروازہ بند ہوا اور کلک کے ساتھ لاک لگنے کی آواز آئی۔
وہ گھبرا کر پلٹی اور دروازے کی طرف لپکی۔ ڈور ناب بمشکل اس کے ہاتھ لگا۔ اس نے زور سے ناب کھنچا، پھر گھمایا، مگر بے سود۔ دروازہ باہر سے بند کیا جا چکا تھا۔
اوپن! اوپن دی ڈور! وہ دونوں ہتھیلیوں سے لکڑی کا دروازہ پیٹنے لگی۔ ساتھ ہی وہ خوفزدہ سی دبی دبی آواز میں چلا رہی تھی۔
شہزادوں کے جزیروں پہ خوش آمدید!
کسی نے بہت دھیرے سے اس کے عقب میں کہا تھا۔

شہزادوں کے جزیرے پہ خوش آمدید۔
کسی نے بہت آہستہ سے اس کے عب میں کہا تھا۔ وہ کرنٹ کھا کر پلٹی۔
لابی تاریک تھی۔ البتہ اندر کی سمت مڑتی راہداری کے آخری سرے پر کوئی ٹمٹماتی سی زرد روشنی دکھائی دی تھی۔ وہ آواز بھی وہیں سے آئی تھی۔
اس نے پلٹ کر آخری بار دروازے کی ناب کو گھمایا۔ اب اسے اس محل سے نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنا تھا۔ جو بےوقوفی وہ کر چکی تھی، اسے انجام تک پہنچانا ہی تھا۔
وہ آنکھیں سکیڑ کر اندھیرے میں دیکھتی آگے بڑھی۔ تاریک راہداری کے اس پار کوئی بڑا سا کمرہ تھا۔ شاید لونگ روم۔ گھپ اندھیرے میں وہ زرد سی موم بتیوں کی روشنیاں وہیں سے آ رہی تھیں۔
کون؟ اس نے چوکنے انداز میں پکارا۔ 
وہ لونگ روم کی چوکھٹ پہ آن کھڑی ہوئی تھی اور اس کو خوش آمدید کہنے والی عورت وہیں سامنے ہی تھی۔ لمبے اسکرٹ اور سوئیٹر میں ملبوس، اسکارف چہرے کے گرد لپیٹے، وہ جھریوں زدہ چہرے والی ایک معمر خاتون تھیں۔ وہ لونگ روم کے دوسرے سرے پہ کھڑی، ہاتھ میں پکڑی موم بتی سے اسٹینڈ پہ رکھی موم بتیوں ک جلا رہی تھیں۔ ایک ایک کر کے سرد پڑی موم بتیاں جلنے لگی تھیں۔
آ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر آجاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لمبی موم بتی سے اوپر نیچے اٹکی موم بتیاں جلاتے ہوئے انہوں نے اسی نرمی سے کہا تھا۔
وہ آپنی جگہ سے نہیں ہلی، بس بنا پلک جھپکے اس پر تعیش لونگ روم کے وسط میں رکھی میز کو دیکھے گئی، جس پہ رکھا سہنری ستاروں والا کلچ موم بتیاں کی ہلکی زرد روشنی میں چمک رہا تھا۔
یہ تمہارا پرس ہے، تم اسے لے سکتی ہو۔ اگر مجھے یقین ہوتا کہ تم میرے پاس صرف میرے بلاوے پہ آ جاؤ گی، تو میں اس بچے کو نہ بھیجتی۔ اسے معاف کر دینا، اس کی مجبوری تھی۔ آؤ بیٹھ جاؤ۔ کھڑی کیوں ہو؟
وہ ہاتھ میں پکڑی موم بتی لئے اب سامنے رکھی ڈائنگ ٹیبل کی طرف برھ گئیں۔ وہاں بھی ایک بڑا سا کینڈل اسٹینڈ نظر آ رہا تھا، اس کے اوپر جگہ جگہ موم بتیاں سیدھی کھڑی تھیں۔ وہ ایک ایک کر کے ان موم بتیاں کو بھی روشن کرنے لگیں۔
حیا کسی معمول کی طرح چلتی ہوئی آ گے بڑھی اور بڑے صوفے کے کنارے کی نشست پہ جا ٹکی۔ اس کی نگاہیں ابھی تک قریب رکھی میز پہ دھرے اپنے سہنری کلچ پہ تھیں۔
کچھ کھاؤگی؟
اس نے ہولے سے نفی میں سر ہلایا۔ بہت ساری ہمت مجتمع کر کے وہ بمشکل کہہ پائی۔
آپ نے مجھے یہاں کس لیے بلایا ہے؟
مجھے تم سے کچھ پوچھنا ہے اور تمہیں کچھ بتانا ہے۔ عبدالرحمن آج صبح کی فلائٹ سے انڈیا چلا گیا ہے۔ مگر جاتے جاتے اس نے یہ کام میرے ذمے لگایا تھا۔
وہ اب اس کی جانب پشت کیے آخری موم بتی جلا رہی تھیں۔
وہ عبدالرحمن کے نام پہ حیران نہیں ہوئی۔ اس نے دوپہر میں ہی اس گھر کے باہر گیٹ پہ لگی تختی دیکھ لی تھی۔ اس کے باوجود جب وہ بچہ اس گھر میں داخل ہوا تب وہ بھی پچھلے چلی گئی۔ وہ صرف اپنے پرس کے لیے آئی تھی یا کسی معمے کے حل کے لیے وہ کسی نتیجے پہ پہنچنے سے قاصر تھی۔
آپ کا عبدالرحمن پاشا سے کیا رشتہ ہے؟ وہ بولی تو اس کی آواز زرد روشنی کی مانند مدھم تھی۔ آہستہ آہستہ اس کا خوف زائل ہو رہا تھا۔
میں عبدالرحمن کی ماں ہوں۔ انہوں نے ہاتھ میں پکڑی موم بتی میز پر رکھی اور انگلی کی پوروں پہ لگی موم کھرچی، پھر پلٹ کر اس کی طرف آئیں۔
عبدالرحمن نے تمہیں ملنے کا کہا تھا، لیکن جب تم نے انکار کیا تو بھلے وہ ہاتھوں اور دامن کا صاف نہ ہو، دل کا اتنا صاف ہے کہ وہ رکا نہیں۔ البتہ جاتے جاتے اس نے میرے ذمے یہ کام لگایا تھا کہ میں تم سے مل لوں اور تمہیں ان سوالوں کے جواب دے دوں جو تمہارے ذہن میں کلبلاتے رہتے ہیں۔
وہ دم سادھے خاموشی سے اس معمر عورت کو دیکھے گئی، جو ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھی۔ ان دونوں کے درمیان رکھی کارنر ٹیبل پہ ایک فوٹو فریم رکھا تھا۔ اس میں دو چہرے مسکرا رہے تھیں۔ ایک وہی معمر خاتون اور دوسرا ان کے ساتھ ایک پینتیس، چھتیس برس کا مرد، جس کے بال گھنگریالے اور لمبے تھے۔ آنکھوں پہ موٹے فریم کا چشمہ تھا۔ چہرے پہ چھوٹی سی داڑھی جس میں جگہ جگہ سفید بال جھلکتے تھے۔ نہایت گہری سانولی رنگت کا وہ شخص بہت ہی عام سا قبول صورت مرد تھا۔
اس سے پہلے کہ میں کچھ بتاؤں، تم اگر کچھ پوچھنا چاہتی ہو تو پوچھ لو۔ حیا نے فوٹو فریم سے نگاہ ہٹا کر ان کو دیکھا، جو مسکراتی پرشفقت نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ وہ دروازہ بند ہونے پر ڈر گئی تھی مگر اب اس ڈر کا شائبہ تک نہیں تھا۔
عبدالرحمن پاشا مجھے پھول کیوں بھیجتا ہے؟ سفید پھول، جو شاید دشمنی کی علامت ہوتے ہیں۔ اس کے سوال پہ وہ ہولے سے مسکرائیں۔ 
ہر شخص کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے، شاید وہ اس طرح پھول اس لیے بھیجتا ہے تاکہ تمہیں چونکائے، تمہاری توجہ حاصل کرے۔
مگر وہ مجھے کیسے جانتا ہے؟ اس نے اپنی الجھن سامنے رکھی، جو اس کو مسلسل پریشان کیے ہوئے تھی۔
میں تمہیں یہی بتانا چاہتی تھی۔ انہوں نے ایک گہری سانس لی۔
دسمبر میں تم نے کسی چیریٹی ایونٹ میں شرکت کی تھی۔ وہ اسلام آباد میں اس وقت اسی ہوٹل میں تھا۔ وہاں اس نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا اور اسی رات پہلی بار تمہیں پھول بھیجے تھے۔
ایک دم سے اس کی دو ڈھائی ماہ کی بے چینی کا اختتام ہو گیا۔ اسے فورا سے یاد آگیا۔ جس رات اسے سبانجی کی طرف سے سلیکشن کی میل آئی تھی، اسی دوپہر اس نے یہ چیریٹی لنچ اٹینڈ کیا تھا، جو زارا کی کزن کی کسی اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے تعاون سے منعقد کیا گیا تھا۔ اس میں شہر کے کئی بزنس مین اور دیگر با اثر شخصیات نے شرکت کی تھی۔ وہ اور زارا بھی یونہی چلی گئی تھیں، یقینا اسے عبدالرحمن پاشا نے وہیں دیکھا ہو گا۔ یہ ممکن تھا۔ تمہیں وہ ڈولی نامی خواجہ سرا تو یاد ہو گا۔ اسے عبدالرحمن نے ہی تمہارے تعاقب پہ لگایا تھا۔ ڈولی اس کے آبائی گھر کا پرانا خادم ہے۔ برسوں سے ہمارے ساتھ ہے اور وہ صرف تمہاری مدد کے لیے تمہارے پیچھے آتا تھا۔ جہاں تک تعلق ہے اس میجر کا، جس کو تم نے اس کی ماں اور بہن کے سامنے بے عزت کیا تھا، اس کی مدد بھی عبدالرحمن نے تمہاری ویڈیو ہٹوانے کے لیے ہی لی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس وقت عبدالرحمن اس بات سے لا علم تھا کہ وہ میجر کرنل گیلانی کا بیٹا ہے۔ کرنل گیلانی جانتی ہو، کون ہیں؟
اس نے دھیرے سے نفی میں سر ہلایا۔
کرنل گیلانی وہ تھے جس کو تمہارے پھوپھا نے ملک چھوڑتے ہوئے اپنے کیس میں پھنسا دیا تھا۔ بے گناہ ہوتے ہوئے بھی کرنل گیلانی نے کئی سال سزا کاٹی اور گو کہ وہ بعد میں رہا ہو گئے تھے۔ انہوں نے قید کی صعوبتوں میں لگنے والی بیماریوں کے ہاتھوں زندگی ہار دی۔ اس میجر کی شادی ہونے والی ہے۔ اس نے تمہیں صرف اپنے کسی ذاتی منصوبے کے لیے پھنسانا چاہا تھا۔ مگر تم بے فکر رہو، وہ اب تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔
تو یہ تھا سارا کھیل۔ ایک بااثر شخص کے اپنی محبت کو پالینے کے لیے استعمال کردہ کچھ مہروں کی کہانی۔ ساری گھتیاں سلجھ گئی تھیں۔
اب آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں؟ وہ ذرا سرد لہجے میں بولی۔
تم یہ گھر دیکھ رہی ہو؟ بیوک ادا میں اس وقت بجلی کا کوئی پول مرمت کے باعث کام نہیں کر رہا، سو اس علاقے میں بجلی بند ہے، ورنہ جس گھر میں تم بیٹھی ہو، وہ بیوک اداکا سب سے خوبصورت، سب سے عالیشان محل ہے۔ یہ دولت، یہ شان و شوکت، یہ طاقت، یہ سب کچھ اور ایک ایسا شخص جو تم سے واقعتا محبت کرتا ہے، یہ سب تمہارا ہو سکتا ہے، اگر تم اسے قبول کر لو۔ اگر تم عبدالرحمن سے شادی کر لو۔ میں نے یہی کہنے کے لیے تمہیں ادھر بلایا ہے۔
حیا نے ایک گہری سانس اندر کھینچی۔
آپ کو پتا ہے جب کوئی شخص کسی عورت کو اذیت دیتا ہے اور اس کی بےعزتی کا باعث بنتا ہے تو کیا ہوتا ہےوہ عورت اس کی عزت کرنا چھوڑ دیتی ہے۔میں نے بھی عبدالرحمن پاشا کی عزت کرنا چھوڑ دی ہے۔ میں شادی شدہ ہوں، اس لیے میرا جواب صاف انکار ہے۔
کیا ہے، اس ایک معمولی سے ریسٹورنٹ اونر کے پاس جو عبدالرحمن کے پاس نہیں ہے؟ وہ ذرا حیران ہوئی تھیں۔
اس کے پاس حیا سلیمان ہے اور عبدالرحمن پاشا کے پاس حیا سلیمان نہیں ہے۔ وہ بہت استہزاء سے چبا چبا کر بولی تھی۔
وہ خاتون لاجواب سی خاموش ہو گئیں۔
اور اگر وہ نہ رہے، تب بھی تمہارا جواب انکار ہی ہو گا؟ وہ ایک دم اندر تک کانپ گئی۔
یہ دھمکی ہے؟
نہیں، محض ایک سوال ہے۔
میرا جواب پھر بھی انکار ہو گا۔
ٹھیک ہے، پھر تم بے فکر ہو جاؤ۔ عبدالرحمن زبردستی کا قائل نہیں ہے۔ نہ وہ عشق میں جوگ لینے والا شخص ہے۔ وہ آج کے بعد نہ تمہیں فون کرے گا، نہ تمہارا پیچھا کروائے گا، نہ ہی تمہارے راستے میں آئے گا۔ ویسے بھی وہ دو ڈھائی ماہ سے قبل انڈیا سے واپس نہیں آ پائے گا اور اس کے آنے تک تم جا چکی ہو گی۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر تمہارا جواب انکار میں ہو تو میں تمہیں اس چیز کی گارنٹی دے دوں کہ وہ تمہیں اب کبھی پریشان نہیں کرے گا۔ تم جا سکتی ہو۔ آخری فیری آٹھ بجے نکلے گی، اگر تم چاہو تو ٹکٹ کے پیسے۔۔۔۔
بہت شکریہ۔ میرے پاس پیسے ہیں۔ اس نے اپنا کلچ اٹھایا اور تیزی سے اٹھی۔
سنو! تم اچھی لڑکی ہو۔ کبھی دوبارا بیوک ادا آنا ہو تو ادھر ضرور آنا، مجھے تم سے مل کر خوشی ہو گی۔
مگر مجھے نہیں ہو گی۔ وہ واپس پلٹ گئی۔
نیم تاریک راہداری کے دوسرے سرے پہ بنے دروازے کا ناب اس نے گھمایا تو وہ کھل گیا۔ وہ دروازہ کھول کر باہر آ گئی۔ پتھر بن جانے کے خوف سے اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
باہر شام کی نیلگوں روشنی ڈوب رہی تھی۔ ہر سو اندھیرا چھانے لگا تھا۔ وہ دروازہ بند کر کے آگے روش پہ آئی۔ اسی پل باہر سے کسی نے سفید گیٹ کھولا۔ نیم اندھیرے میں بھی اسے وہ دونوں صاف نظر آ رہی تھیں۔ وہ ترک میں باتیں کرتیں، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلی آ رہی تھیں۔ وہی گہرے جامنی فراک والی بچی اور بھورے اسکارف والی بڑی لڑکی جس کے بازو میں جنگلی پھولوں سے بھری ٹوکری تھی۔
وہ مگن سی بچی کا ہاتھ تھامے چلی آرہی تھی۔ اسے سامنے سے آتا دیکھ کر ٹھٹھک کر رکی۔ حیا تیز قدموں سے آ گے بھر گئی۔ بھورے اسکارف والی لڑکی رک کر گردن موڑے اسے جاتےدیکھے گئی۔
بچی نے اسے جھنجھوڑا، تو وہ چونکی، پھر سر جھٹک کر اندر کی طرف جاتے آبنوسی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔
حیا تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے سڑک کے کنارے چل رہی تھی۔ سمندر کی طرف سے آتی ہوا مزید سرد ہو چلی تھی۔ نیلگوں سیاہ پڑتی شام دم توڑ رہی تھی۔ جب تک وہ واپس بندرگاہ پر پہنچی، شام اندھیرے میں بدل چکی تھی۔
تاریک رات، ویران سمندر، پراسرار جزیرہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کوئی محفوظ جگہ ملے تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔ ابھی تو وہ رونے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہی تھی۔ 
رات کی فیری کتنے بجے آئے گی؟ اس نے ٹکٹ کی کھڑکی سے جھانکتے آفیسر سے پوچھا۔ اس کا موبائل جہان ساتھ لایا تھا، مگر وہ واپس نہیں لے سکی تھی اور جہان اور ڈی جے کے موبائل نمبرز اسے زبانی یاد نہیں تھے۔ ورنہ کہیں سے کال کر لیتی۔ وہ چلے گئے ہوں گے اور پریشان ہوں گے۔ وہ اندزا کر سکتی تھی۔ آٹھ بجے۔ ٹکٹ چیکر نے جواب دیتے ہوئے بغور اسے دیکھا، پھر ساتھ رکھا کاغذ اٹھا کر دیکھا۔ 
آر یو حیا سلیمان؟ پاکستان تورست؟ (ٹورست؟ ) اس نے کہنے کے ساتھ وہ پرنٹ آؤٹ اس کے سامنے کیا، جس میں اس کی اور ڈی جے کی آج دوپہر کی کھنچی تصویر پرنٹ کی گئی۔ 
یس۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی ایم۔۔۔۔۔۔ میری فیری نکل گئی تھی، کیا میرے فرینڈز ادھر ہی ہیں؟ فرط جزبات سے اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ اس نے سوچ بھی کیسے لیا کہ وہ اسے چھوڑ کر چلے گئے ہوں گے؟
پولیس اسٹیشن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کم ٹو پولیس اسٹیشن۔ 
اور جب وہ پولیس آفیسرز کے ہمراہ پولیس اسٹیشن پہنچی تو اندرونی کمرے میں اسے وہ دونوں نظر آ گئے۔ 
ڈی جے کرسی پہ سر دونوں ہاتھوں میں تھامے بیٹھی تھی جبکہ جہان انگلی اٹھائے درشتی سے سامنے بیٹھے آفیسر سے کچھ کہہ رہا تھا۔ آفیسر جوابا نفی میں سر ہلاتے ہوئے کچھ کہنے کی سعی کر رہا تھا۔ مگر وہ نہیں سن رہا تھا۔ 
چوکھٹ پہ آہٹ ہوئی تو وہ بولتے بولتے رکا اور گردن موڑی۔ وہ بھیگی آنکھوں سے دروازے میں کھڑی تھی۔ 
اس کی اٹھی انگلی نیچے گر گئی، لب بھینچ گئے۔ ایک دم ہی وہ کرسی کے پیچھے سے نکل کر اس کی جانب آیا۔
کدھر تھیں تم؟
اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ میں کھو گئی تھی۔ وہ بچہ میرا پرس لے کر بھاگا تو۔۔۔۔
تو آدھے بیوک ادا نے تمہیں اس کے پیچھے بھاگتے دیکھا۔ عقل نام کی چیز ہے بھی تم یا نہیں؟ ایک پرس کے لیے تم اس کے پچھے بھاگیں؟ فیری چھوٹ جائے گی یا وہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے، تمہیں اس بات کا کوئی خیال تھا؟ وہ غصے سے چلایا۔ 
کیوں نہ بھاگتی میں اس کے پیچھے؟ پرس میں میرا پاسپورٹ تھا، سبانجی کا کارڈ تھا، بعد میں پریشانی ہوتی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
اور جو پریشانی ہمیں ہوئی وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اس ڈیڑھ گھنٹے میں پاگلوں کی طرح پورے جزیرے پہ ڈھونڈ رہے تھے۔ جانتی ہو ہماری کیا حالت تھی؟
ڈی جے جو اس کے چلانے کے باعث رک گئی تھیں۔ اب آگے بڑھی اور اس کے گلے لگ گئی۔ 
حیا! تم بالکل پاگل ہو۔ اس کی آنکھیں رونے سے متورم تھیں وہ دونوں پھر رونے لگی تھیں۔ 
حد ہوتی ہے غیر ذمہ داری کی۔ آئندہ میں تم دونوں کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گا۔ وہ بھنا کر کہتا واپس پولیس آفیسر کی طرف پلٹ گیا۔ وہ ابھی تک روئے جا رہی تھی۔ اسے پتا تھا کہ واپسی پہ جہان کی بہت سی باتیں سننی پڑے گیں۔ 
••••••••••••••••••••••••••••••••••
وہ دونوں لکڑی کا دروازہ دھکیل کر اندر آئیں تو ہر سو اندھیرا چھایا تھا۔ لونگ روم سے ٹمٹماتی ذرد روشنی جھانک رہی تھی۔ 
آنے! اس نے جنگلی پھولوں کی ٹوکری لابی میں رکھے اسٹینڈ پہ دھری اور بچی کا ہاتھ تھامے لونگ روم کی طرف آئی۔ 
صوفے پہ وہ معمرخاتون اسی طرح بٹیھی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں چند نوٹ تھے۔ جو وہ گن کر علیحدہ کر رہی تھی۔ ساتھ ہی وہ لڑکا کھڑا ان نوٹوں کو دیکھ رہا تھا۔
سلام علیکم آنے! کیسے ہو عبداللہ؟ اس نےبچی کی انگلی چھوڑ دی اور کندھے سے پرس کی اسٹریپ اتارتے ہوئے بڑی میز کی طرف آئی۔
میں ٹھیک ہوں عائشے! لڑکے نے معمر خاتون کے بڑھائے گئے نوٹ پکڑے، گنے اور باہر بھاگ گیا۔ وہ بقیہ نوٹ واپس بٹوے میں رکھنے لگیں۔ 
بجلی والا پول ٹھیک ہوا؟ بٹوہ بند کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔ 
وہاں بندے کام کر تو رہے ہیں۔ ابھی گلی میں داخل ہوتے ہوئے ہم نے دیکھا تھا۔ عبداللہ کیوں آیا تھا؟ وہ میز کے ساتھ کھڑی اپنا پرس کھولتی کہ رہی تھی۔ میرا کام تھا۔ انہوں نے بچی کا ہاتھ تھامتے ہوئے سرسری سا جواب دیا۔ جو اب ان کے ساتھ صوفے پہ آ بیٹھی تھی۔ 
کام بھی تھا اور آنے نے اسے پیسے بھی دیے عائشے گل! تم نے دیکھا، وہ صبح قرآن پڑھنے کب سے نہیں آیا، روز بہانے بنا دیتا ہیں۔ بچی ناک سکوڑتی کہہ رہی تھی۔

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page