top of page

عمران سیریز کا پہلا ناول - خوفناک عمارت

قسط نمبر ایک

سوٹ پہن چکنے کے بعد عمران آئینے کے سامنے لچک لچک کر ٹائی باندھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اونہہ۔۔۔پھر وہی۔۔۔چھوٹی بڑی۔۔۔میں کہتا ہوں ٹائیاں ہی غلط آنے لگی ہیں۔ وہ بڑ بڑاتا رہا۔ اور پھر ٹائی ۔۔۔لاحول ولاقوۃ۔۔۔۔نہیں باندھتا!۔
یہ کہہ کر اس نے جھٹکا جو مارا تو ریشمی ٹائی کی گرہ پھسلتی ہوئی نہ صرف گردن سے جا لگی بلکہ اتنی تنگ ہو گئی کہ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آنکھیں ابل پڑیں۔
بخ۔۔۔بخ۔۔۔خیں۔۔۔اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی آوازیں نکلنے لگیں اور وہ پھیپھڑوں کا پورا زور صرف کرکے چیخا۔ ارے مرا۔۔۔بچاؤ! سلیمان
ایک نوکر دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔۔۔پہلے تو وہ کچھ سمجھا ہی نہیں کیونکہ عمران سیدھا کھڑا ہوا دونوں ہاتھوں سے اپنی رانیں پیٹ رہا تھا!
کیا ہوا سرکار۔ بھرائی ہوئی آواز میں بولا!
سرکار کے بچے مر رہا ہوں۔
ارے۔۔۔لیکن۔۔۔مگر۔۔۔؟
لیکن۔۔۔مگر۔۔۔اگر۔۔۔عمران دانت پیس کر ناچتا ہوا بولا۔ ابے ڈھیلی کر۔
کیا ڈھیلی کروں؟ نوکر نے متحیر آمیز لہجے میں کہا۔
اپنے باوا کے کفن کی ڈوری۔۔۔جلدی کر۔۔۔ارے مرا۔
تو ٹھیک سے بتاتے کیوں نہیں؟ نوکر بھی جھنجھلا گیا۔
اچھا بے تو کیا غلط بتا رہا ہوں؟ میں یعنی عمران ایم ایس سی، پی۔ ایچ۔ ڈی کیا غلط بتا رہا ہوں، ابے کم بخت اسے اردو میں استعارہ اور انگریزی میں میٹافر کہتے ہیں۔ اگر میں غلط کہ رہا ہوں تو باقاعدہ بحث کر مرنے سے پہلے یہ ہی سہی۔
نوکر نے غور سے دیکھا تو اس کی نظر ٹائی پر پڑی، جس کی گرہ گردن میں بری طرح پھنسی ہوئی تھی اور رگیں ابھری ہوئی سی معلوم ہو رہی تھیں اور یہ اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی! دن میں کئی بار اسے اس قسم کی حماقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا!
اس نے عمران کے گلے سے ٹائی کھولی۔
اگر میں غلط کہہ رہا تھا تو یہ بات تیری سمجھ میں کیسے آئی؟ عمران گرج کر بولا۔
غلطی ہوئی صاحب!
پھر وہی کہتا ہے، کس سے غلطی ہوئی؟
مجھ سے!
ثابت کرو کہ تم سے غلطی ہوئی۔ عمران ایک صوفے میں گر کر اسے گھورتا ہوا بولا۔ 
نوکر سر کھجانے لگا۔
جوئیں ہیں کیا تمہارے سر میں! عمران نے ڈپٹ کر پوچھا۔
نہیں تو۔
تو پھر کیوں کھجا رہے تھے؟
یونہی۔
جاہل۔۔۔گنوار۔۔۔خوامخواہ بے تکی حرکتیں کرکے اپنی انرجی برباد کرتے ہو۔ نوکر خاموش رہا۔ یونگ کی سائکالوجی پڑھی ہے تم نے؟ عمران نے پوچھا۔
نوکر نے نفی میں سر ہلا دیا۔ 
یونگ کی ہجے جانتے ہو۔
نہیں صاحب۔ نوکر اکتا کر بولا۔
اچھا یاد کر لو۔۔۔جے-یو-این-جی۔۔۔یونگ! بہت سے جاہل اسے جنگ پڑھتے ہیں اور کچھ جونگ۔۔۔! جنہیں قابلیت کا ہیضہ ہوجاتا ہے وہ ژونگ پڑھنے اور لکھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔فرانسیسی میں جے ژ کی آواز دیتا ہے مگر یونگ فرانسیسی نہیں تھا۔
شام کو مرغ کھائیے گا۔۔۔۔یاتیتر۔ نوکر نے پوچھا۔
آدھا تیتر آدھا بٹیر۔ عمران جھلا کر بولا۔ ہاں تو میں ابھی کیا کہہ رہا تھا۔۔۔۔وہ خاموش ہو کر سوچنے لگا۔
آپ کہہ رہے تھے کہ مسالہ اتنا بھونا جائے کہ سرخ ہو جائے۔ نوکر نے سنجیدگی سے کہا۔
ہاں اور ہمیشہ نرم آنچ پر بھونو! عمران بولا۔ کفگیر کو اس طرح دیگچی میں نہ ہلاؤ کہ کھنک پیدا ہو اور پڑوسیوں کی رال ٹپک پڑے۔ ویسے کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ میں کہاں جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ 
آپ! نوکر کچھ سوچتا ہوا بولا۔ آپ میرے لیے ایک شلوار قمیض کا کپڑا خریدنے جا رہے تھے! بیس ہزار کا لٹھا اور قمیض کے لیے بوسکی۔ 
گڈ۔! تم بہت قابل اور نمک حلال نوکر ہو! اگر تم مجھے یاد نہ دلاتے رہو تو میں سب کچھ بھول جاؤں۔ 
میں ٹائی باندھ دوں سرکار! نوکر نے بڑے پیار سے کہا۔
باندھ دو۔
نوکر ٹائی باندھتے ہوئے بڑبڑاتا جا رہا تھا۔ بیس ہزار کا لٹھا اور قمیض کے لئے بوسکی۔ کہئے تو لکھ دوں!
بہت اچھا رہے گا۔
ٹائی باندھ چکنے کے بعد نوکر نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر پنسل سے گھسیٹ کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ 
یوں نہیں۔ عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے سنجیدگی سے بولا۔ اسے یہاں پن کر دو۔ نوکر نے ایک پن کی مدد سے اس کے سینے پر لگا دیا۔
اب یاد رہے گا۔ عمران نے کہا اور کمرے سے باہر نکل گیا!۔۔۔راہداری طے کرکے وہ ڈرائنگ روم میں پہنچا۔۔۔یہاں تین لڑکیاں بیٹھی تھیں۔
واہ عمران بھائی! ان میں سے ایک بولی۔ خوب انتظار کرایا! کپڑے پہننے میں اتنی دیر لگاتے ہیں۔
اوہ تو کیا آپ لوگ میرا انتظار کر رہی تھیں؟
کیوں ؟ کیا آپ نے ایک گھنٹہ قبل پکچر چلنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟
پکچر چلنے کا؟ مجھے تو یاد نہیں۔۔۔میں تو سلیمان کے لیے۔۔۔عمران اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے بولا۔ 
یہ کیا؟ وہ لڑکی قریب آکر آگے کی طرف جھکتی ہوئی بولی۔ بیس ہزار کا لٹھا۔۔۔اور بوسکی! یہ کیا ہے۔۔۔اس کا مطلب؟
پھر وہ بےتحاشہ ہنسنے لگی۔۔۔ عمران کی بہن ثریا نے بھی اٹھ کر دیکھا لیکن تیسری بیٹھی رہی۔ وہ شاید ثریا کی کوئی نئی سہیلی تھی!
یہ کیا ہے؟ ثریا نے پوچھا۔ 
سلیمان کے لیے شلوار قمیض کا کپڑا لینے جا رہا ہوں۔
لیکن ہم سے کیوں وعدہ کیا؟ وہ بگڑ کر بولی۔
بڑی مصیبت ہے! عمران گردن جھٹک کر بولا۔ تمہیں سچا سمجھوں یا سلیمان کو۔
اسی کمینے کو سچا سمجھئے! میں کون ہوتی ہوں۔ ثریا نے کہا۔ پھر اپنی سہیلیوں کی طرف مڑ کر بولی۔ اکیلے ہی چلتے ہیں! آپ ساتھ گئے بھی تو شرمندگی ہی ہوگی۔۔۔کر بیٹھیں گے کوئی حماقت!
ذرا دیکھئے آپ لوگ۔ عمران رونی صورت بنا کر درد بھری آواز میں بولا۔ یہ میری چھوٹی بہن ہے مجھے احمق سمجھتی ہے ثریا میں بہت جلد مر جاؤں گا! کسی وقت! جب بھی ٹائی غلط بندھ گئی! اور بیچارے سلیمان کو کچھ نہ کہو۔ وہ میرا محسن ہے۔ اس نے ابھی ابھی میری جان بچائی ہے!
کیا ہوا تھا۔ ثریا کی سہیلی جمیلہ نے گھبرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
ٹائی غلط بندھ گئی تھی! عمران سنجیدگی سے بولا۔
جمیلہ ہنسنے لگی۔ لیکن ثریا جلی کٹی بیٹھی رہی۔ اس کی نئی سہیلی متحیرانہ انداز میں اس سنجیدہ احمق کو گھور رہی تھی۔
تم کہتی ہو تو میں پکچر چلنے کو تیار ہوں۔ عمران نے کہا۔ لیکن واپسی پر مجھے یاد دلانا کہ میرے سینے پر ایک کاغذ پن کیا ہوا ہے۔
تو کیا یہ اسی طرح لگا رہے گا؟ جمیلہ نے کہا۔
جیئو! عمران خوش ہو کر بولا۔میرا دل چاہتا ہے کہ تمہیں ثریا سے بدل لوں! کاش تم میری بہن ہوتیں۔ یہ نک چڑھی ثریا مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی۔
آپ خود نک چڑھے! آپ مجھے کب اچھے لگتے ہیں۔ ثریا بگڑ کر بولی۔
دیکھ رہی ہو، یہ میری چھوٹی بہن ہے!۔
میں بتاؤں! جمیلہ سنجیدگی سے بولی! آپ یہ کاغذ نکال کر جیب میں رکھ لیجئے میں یاد دلا دوں گی۔
اور اگر بھول گئیں تو۔۔۔ویسے تو کوئی راہ گیر ہی اسے دیکھ کر مجھے یاد دلا دے گا۔
میں وعدہ کرتی ہوں!
عمران نے کاغذ جیب سے نکال کر جیب میں رکھ لیا۔۔۔ثریا کچھ کھنچی کھنچی سی نظر آنے لگی۔
وہ جیسے ہی باہر نکلے ایک موٹر سائیکل پورٹیکو میں آکر رکی جس پر ایک باوقار اور بھاری بھرکم آدمی بیٹھا ہوا تھا۔
ہیلو! سوپر فیاض۔ عمران دونوں ہاتھ بڑھا کر چیخا۔
ہیلو! عمران۔۔۔مائی لیڈ۔۔۔تم کہیں جا رہے ہو۔ موٹر سائیکل سوار بولا۔ پھر لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا۔ اوہ معاف کیجئے گا۔۔۔لیکن یہ کام ضروری ہے! عمران جلدی کرو۔
عمران اچھل کر کیرئیر پر بیٹھ گیا اور موٹر سائیکل فراٹے بھرتی ہوئی پھاٹک سے گذر گئی۔
دیکھا تم نے۔ ثریا اپنا نچلا ہونٹ چبا کر بولی۔
یہ کون تھا۔۔۔! جمیلہ نے پوچھا۔
محکمہ سراغرسانی کا سپرنٹنڈنٹ فیاض۔۔۔مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آسکی کہ اسے بھائی جان جیسے خبطی آدمی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ یہ اکثر انہیں اپنے ساتھ لے جایا کرتا ہے۔
عمران بھائی دلچسپ آدمی ہیں! جمیلہ نے کہا۔ بھئی کم از کم مجھے تو ان کی موجودگی میں بڑا لطف آتا ہے۔
ایک پاگل دوسرے پاگل کو عقل مند ہی سمجھتا ہے۔ ثریا منہ بگاڑ کر بولی۔
مگر مجھے تو پاگل نہیں معلوم ہوتے۔ ثریا کی نئی سہیلی نے کہا۔
اور اس نے قریب قریب ٹھیک ہی بات کہی تھی۔ عمران شکل صورت سے خبطی نہیں معلوم ہوتا تھا۔ خاصا خوشرو اور دلکش نوجوان تھا عمر ستائیس کے لگ بھگ رہی ہوگی! خوش سلیقہ اور صفائی پسند تھا۔ تندرستی اچھی اور جسم ورزشی تھا۔ مقامی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کی ڈگری لے کر انگلینڈ چلا گیا تھا اور وہاں سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لے کر واپس آیا تھا اس کا باپ رحمان محکمہ سراغرسانی میں ڈائریکٹر جنرل تھا۔ انگلینڈ سے واپسی پر اس کے باپ نے کوشش کی تھی کہ اسے کوئی اچھا سا عہدہ دلا دے لیکن عمران نے پروا نہ کی۔
کبھی وہ کہتا کہ میں سائنسی آلات کی تجارت کروں گا! کبھی کہتا کہ اپنا ذاتی انسٹی ٹیوٹ قائم کرکے سائنس کی خدمت کروں گا۔۔۔بہرحال کبھی کچھ اور کبھی کچھ! گھر بھر اس سے نالاں تھا اور انگلینڈ سے واپسی کے بعد تو وہ اچھا خاصا احمق ہو گیا تھا۔ اتنا احمق کہ گھر کے نوکر تک اسے الو بنایا کرتے تھے۔ اسے اچھی طرح لوٹتے اس کی جیب سے دس دس روپے کے نوٹ غائب کردیتے اور اسے پتہ تک نہ چلتا۔
باپ تو اس کی صورت دیکھنے کا بھی روادار نہ تھا صرف ماں ایسی تھی جس کی بدولت وہ اس کوٹھی میں مقیم تھا۔ ورنہ کبھی کا نکال دیا گیا ہوتا۔ اکلوتا لڑکا ہونے کے باوجود بھی رحمٰن صاحب اس سے عاجز آگئے تھے!
پاگل وہ اسی وقت نہیں معلوم ہوتے جب خاموش ہوں۔ ثریا بولی۔ دو چار گھنٹے بھی اگر ان حضرت کے ساتھ رہنا پڑے تو پتہ چلے۔
کیا کاٹنے کو دوڑتے ہیں۔ جمیلہ نے مسکرا کر کہا۔
اگر ان میں اسی طرح دلچسپی لیتی رہیں تو کسی دن معلوم ہو جائے گا۔ ثریا منہ سکوڑ کر بولی۔

کیپٹن فیاض کی موٹر سائیکل فراٹے بھر رہی تھی اور عمران کیرئیر پر بیٹھا بڑبڑاتا چلا جا رہا تھا۔ 
شلوار کا لٹھا۔ بوسکی کی قمیض۔۔۔شلوار کا بوسکا۔۔۔لٹھی۔۔۔لٹھی۔۔۔کیا تھا لاحول ولا قوۃ 
بھول گیا رکو۔ یار۔۔۔رکو۔۔۔شاید۔۔۔
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی۔ 
بھول گیا۔ عمران بولا۔
کیا بھول گئے۔
کچھ غلطی ہو گئی۔
کیا غلطی ہوگئی۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔ یار کم از کم مجھے تو الو نہ بناؤ۔
شاید میں غلط بیٹھا ہوں۔ عمران کیرئیر سے اترتا ہوا بولا۔
جلدی ہے یار۔ فیاض نے گردن جھٹک کر کہا۔
عمران اس کی پیٹھ سے پیٹھ ملائے ہوئے دوسری طرف منہ کرکے بیٹھ گیا۔
یہ کیا؟ فیاض نے حیرت سے کہا۔۔۔
بس چلو ٹھیک ہے۔
خدا کی قسم تنگ کر ڈالتے ہو۔ فیاض اکتا کر بولا۔
کون سی مصیبت آگئی! عمران بھی جھنجھلانے لگا۔
مجھے بھی تماشا بناؤ گے۔ سیدھے بیٹھو نا!
تو کیا سر کے بل بیٹھا ہوا ہوں!
مان جاؤ پیارے۔ فیاض خوشامدانہ لہجے میں بولا۔ لوگ ہنسیں گے ہم پر۔ 
یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔
منہ کے بل گر پڑو گے سڑک پر۔
اگر تقدیر میں یہی ہے! تو بندہ بے بس و ناچار۔ عمران نے درویشانہ انداز میں کہا۔
خدا سمجھے تم سے۔ فیاض نے دانت پیس کر موٹر سائیکل سٹارٹ کردی اس کا منہ پچھم کی طرف تھا اور عمران کا پورب کی طرف اور عمران اس طرح آگے کی طرف جھکا ہوا تھا جیسے وہ خود ہی موٹر سائیکل ڈرائیور کر رہا ہو! راہ گیر انہیں دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
دیکھا یاد آگیا نا! عمران چہک کر بولا شلوار کا لٹھا اور قمیض کی بوسکی۔۔۔میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ کوئی غلطی ہو گئی ہے۔
عمران تم مجھے احمق کیوں سمجھتے ہو؟ فیاض نے جھنجھلا کر کہا۔ کم از کم میرے سامنے تو اس خبطی پن سے باز آجایا کرو۔
تم خود ہوگے خبطی! عمران برا مان کر بولا۔
آخر اس ڈھونگ سے کیا فائدہ؟
ڈھونگ؟ ارے کمال کر دیا۔ اف فوہ! اس لفظ ڈھونگ پر مجھے وہ بات یاد آئی ہے جسے اب سے ایک سال پہلے یاد آنا چاہئے تھا۔
فیاض کچھ نہ بولا۔ موٹر سائیکل ہوا سے باتیں کرتی رہی۔
ہائیں٬ عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔ یہ موٹر سائیکل پیچھے کی طرف کیوں بھاگ رہی ہے۔ 
ارے اس کا ہینڈل کیا ہوا۔۔۔پھر اس نے بے تحاشہ چیخنا شروع کر دیا۔ ہٹو۔۔۔بچو۔۔۔میں پیچھے کی طرف نہیں دیکھ سکتا۔
فیاض نے موٹر سائیکل روک دی اور جھینپے ہوئے انداز میں راہ گیروں کو دیکھنے لگا۔
شکر ہے خدا کا کہ خود بخود رک گئی! عمران اترتا ہوا بڑبڑایا۔۔۔پھر جلدی سے بولا۔ لاحول ولا قوۃ اس کا ہینڈل پیچھے ہے! اب موٹر سائیکلیں بھی الٹی بننے لگیں۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟ کیوں تنگ کر رہے ہو؟ فیاض نے بے بسی سے کہا۔
تنگ تم کر رہے ہو یا میں؟۔۔۔الٹی موٹر سائیکل پر لئے پھرتے ہو! اگر کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو؟
چلو بیٹھو۔ فیاض اسے کھینچتا ہوا بولا۔
موٹر سائیکل پھر چل پڑی۔
اب تو ٹھیک چل رہی ہے۔ عمران بڑ بڑایا۔
موٹر سائیکل شہر سے نکل کر ویرانے کی طرف جا رہی تھی اور عمران نے ابھی تک فیاض سے یہ بھی پوچھنے کی زحمت گواراہ نہیں کی تھی کہ وہ اسے کہاں لے جا رہا ہے۔
آج مجھے پھر تمہاری مدد کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ فیاض بولا۔
لیکن آج کل میں بالکل مفلس ہوں۔ عمران نے کہا۔
اچھا! تو کیا میں تم سے ادھار مانگنے جا رہا تھا؟
پتہ نہیں۔ میں یہی سمجھ رہا تھا! ارے باپ رے پھر بھول گیا۔۔۔۔لٹھ کا۔۔۔پائجامہ۔۔۔۔اور قمیض۔۔۔لاحول ولا قوۃ۔۔۔بوسکا۔۔۔
پلیز شٹ اپ۔۔۔عمران۔۔۔یو فول! فیاض جھنجھلا اٹھا۔
عمران۔۔۔کیپٹن فیاض نے ٹھنڈی سانس لے کر اسے مخاطب کیا۔
اوں۔۔۔ہا۔
تم آخر دوسروں کو بیوقوف کیوں سمجھتے ہو۔
کیونکہ۔۔۔ہا۔۔۔ارے باپ یہ جھٹکے۔۔۔یار ذرا چکنی زمین پر چلاؤ۔
میں کہتا ہوں کہ اب یہ ساری حماقتیں ختم کرکے کوئی ڈھنگ کا کام کرو۔
ڈھنگ۔۔۔لو یار۔۔۔اس ڈھنگ پر بھی کوئی بات یاد آنے کی کوشش کر رہی ہے۔
جہنم میں جاؤ۔ فیاض جھلا کر بولا۔
اچھا۔ عمران نے بڑی سعادت مندی سے گردن ہالئی۔
موٹر سائیکل ایک کافی طویل و عریض عمارت کے سامنے رک گئی! جس کے پھاٹک پر تین چار باوردی کانسٹیبل نظر آرہے تھے۔
اب اترو بھی۔ فیاض نے کہا۔
میں سمجھا شائد اب تم مجھے ہینڈل پر بٹھاؤ گے۔ عمران اترتا ہوا بولا۔
وہ اس وقت ایک دیہی علاقہ میں کھڑے ہوئے تھے جو شہر سے زیادہ دور نہ تھا یہاں بس یہی ایک عمارت اتنی بڑی تھی ورنہ یہ بستی معمولی قسم کے کچے پکے مکانوں پر مشتمل تھی۔ اس عمارت کی بناوٹ طرز قدیم سے تعلق رکھتی تھی! چاروں طرف سرخ رنگ کی لکھنوری اینٹوں کی کافی بلند دیواریں تھیں اور سامنے ایک بہت بڑا پھاٹک تھا جو غالبا صدر دروازے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہوگا۔
کیپٹن فیاض عمران کا ہاتھ پکڑے ہوئے عمارت میں داخل ہو گیا۔۔۔اب بھی عمران نے اس سے یہ نہ پوچھا کہ وہ اسے کہاں اور کس مقصد کے تحت لایا ہے۔
دونوں ایک طویل دالان سے گذرتے ہوئے ایک کمرے میں آئے اچانک عمران نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے اور منہ پھیر کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک لاش دیکھ لی تھی جو فرش پر اوندھی پڑی تھی اور اس کے گرد خون پھیلا ہوا تھا۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ کپکپاتی آواز میں بڑ بڑا رہا تھا۔
خدا اس کے متعلقین کو جوار رحمت میں جگہ دے اور اسے صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ 
میں تمہیں دعائے خیر کرنے کے لئے نہیں لایا۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
تجہیز و تکفین کے لئے چندہ وہاں بھی مانگ سکتے تھے آخر اتنی دور کیوں گھسیٹ لائے۔
یار عمران خدا کے لئے بور نہ کرو۔ میں تمہیں اپنا ایک بہترین دوست سمجھتا ہوں۔ فیاض نے کہا۔
میں بھی یہی سمجھتا ہوں۔ مگر پیارے پانچ روپے سے زیادہ نہ دے سکوں گا۔ ابھی مجھے۔۔ لٹھی کا بوسکا خریدنا ہے۔۔۔۔ کیا لٹھی۔۔۔لو یار پھر بھول گیا! کیا مصیبت ہے۔
فیاض چند لمحے کھڑا اسے گھورتا رہا پھر بولا۔
یہ عمارت پچھلے پانچ برسوں سے بند رہی ہے۔ کیا ایسی حالت میں یہاں ایک لاش کی موجودگی حیرت انگیز نہیں ہے؟
بالکل نہیں۔ عمران سر ہلا کر بولا۔ اگر یہ لاش کسی امرود کے درخت پر پائی جاتی تو میں اسے عجوبہ تسلیم کر لیتا۔
یار تھوڑی دیر کے لئے سنجیدہ ہو جاؤ۔
میں شروع ہی سے رنجیدہ ہوں۔ عمران نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
رنجیدہ نہیں سنجیدہ۔ فیاض پھر جھنجھلا گیا۔
عمران خاموشی سے لاش کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔ تین زخم۔
فیاض اسے موڈ میں آتے دیکھ کر کچھ مسرور سا نظر آنے لگا۔
پہلے پوری بات سن لو۔ فیاض نے اسے مخاطب کیا۔
ٹھہرو۔ عمران جھکتا ہوا بولا۔ وہ تھوڑی دیر زخموں کو غور سے دیکھتا رہا پھر سر اٹھا کر بولا۔ پوری بات سنانے سے پہلے یہ بتاؤ کہ اس لاش کے متعلق تم کیا بتا سکتے ہو۔
آج بارہ بجے دن کو یہ دیکھی گئی۔ فیاض نے کہا۔
اونہہ۔ میں زیادہ عقل مندانہ جواب نہیں چاہتا۔ عمران ناک سکوڑ کر بولا۔
میں یہ جانتا ہوں کہ کسی نے اس پر تین وار کئے ہیں۔
اور کچھ! عمران اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
اور کیا۔ فیاض بولا۔
مگر۔۔۔شیخ چلی دوئم۔۔۔یعنی علی عمران ایم ایس سی۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کا خیال کچھ اور ہے۔
کیا؟
سن کر مجھے الو سہی احمق بٹا دو سمجھنے لگو گے۔
ارے یار کچھ بتاؤ بھی سہی۔
اچھا سنو! قاتل نے پہلا وار کیا!۔۔۔پھر پہلے زخم سے پانچ پانچ انچ کا فاصلہ ماپ کر دوسرا اور تیسرا وار کیا اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ زخم بالکل سیدھ میں رہیں۔ نہ ایک سوت ادھر نہ ایک سوت ادھر۔
کیا بکتے ہو۔ فیاض بڑبڑایا۔
ناپ کر دیکھ لو میری جان۔ اگر غلط نکلے تو میرا قلم سر کر دینا۔۔۔آن۔۔۔شائد میں غلط بول گیا۔۔۔۔میرے قلم پہ سر رکھ دینا۔۔۔عمران نے کہا اورادھر ادھر دیکھنے لگا اس نے ایک طرف پڑا ہوا ایک تنکا اٹھایا اور پھر جھک کر زخمون کے درمیانی فاصلے ناپنے لگا۔ فیاض اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ 
لو۔ عمران اسے تنکا پکڑاتے ہوئے بولا۔ اگر یہ تنکا پانچ انچ کا نہ نکلے تو کسی کی ڈاڑھی تلاش کرنا۔
مگر اس کا مطلب۔ فیاض کچھ سوچتا ہوا بولا۔
اس کا مطلب یہ کہ قاتل و مقتول دراصل عاشق و معشوق تھے۔
عمران پیارے ذرا سنجیدگی سے۔
یہ تنکا بتاتا ہے کہ یہی بات ہے۔ عمران نے کہا۔ اور اردو کے پرانے شعراٗ کا یہی خیال ہے۔ کسی کا بھی دیوان اٹھا کر دیکھ لو۔ دو جار شعر اس قسم کے ضرور مل جائیں گے جن سے میرے خیال کی تائید ہو جائے گی۔ چلو ایک شعر سن ہی لو۔
موچ آئے نہ کلائی میں کہیں سخت جاں ہم بھی بہت پیارے
مت بکواس کرو۔ اگر میری مدد نہیں کرنا چاہتے تو صاف صاف کہہ دو۔ فیاض بگڑ کر بولا۔
فاصلہ تم نے ناپ لیا۔ اب تم ہی بتاؤ کہ کیا بات ہو سکتی ہے۔ عمران نے کہا۔
فیاض کچھ نہ بولا۔
ذرا سوچو تو۔ عمران پھر بولا۔ ایک عاشق ہی شاعری کے مطابق اپنے محبوب کو اس بات کی اجازت دے سکتا ہے کہ وہ جس طرح چاہے اسے قتل کرے۔ قیمہ بنا کر رکھ دے یا ناپ ناپ کر سلیقے سے زخم لگائے یہ زخم بدحواسی کا نتیجہ بھی نہیں۔ لاش کی حالت بھی یہ نہیں بتاتی کہ مرے سے پہلے مقتول کو کسی سے جدوجہد کرنی پڑی ہو۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہےجیسے چپ چاپ لیٹ کر اس نے کہا جو مزاج یار میں آئے۔۔۔
پرانی شاعری اور حقیقت میں کیا لگاؤ ہے؟ فیاض نے پوچھا۔
پتہ نہیں۔ عمران پرخیال انداز میں سر ہلا کر بولا۔ ویسے اب تم پوری غزل سنا سکتے ہو۔ مقطع میں عرض کر دوں گا۔
فیاض تھوڑی خاموش رہا پھر بولا۔ یہ عمارت تقریبا پانچ سال سے خالی رہی ہے۔۔۔۔ویسے ہر جمعرات کو صرف چند گھنٹوں کے لئے اسے کھولا جاتا ہے۔
کیوں؟
یہاں دراصل ایک قبر ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کسی شہید کی ہے چنانچہ ہر جمعرات کو ایک شخص اسے کھول کر قبر کی جاروب کشی کرتا ہے۔
چڑھاوے وغیرہ چڑھتے ہوں گے۔ عمران نے پوچھا۔
نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ جس لوگوں کا یہ مکان ہے وہ شہر میں رہتے ہیں اور ان سے میرے قریبی تعلقات ہیں انہوں نے ایک آدمی اسی لئے رکھ چھوڑا ہے کہ وہ ہر جمعرات کو قبر کی دیکھ بھال کیا کرے!۔۔۔یہاں معتقدین کی بھیڑ نہیں ہوتی۔ بہرحال آج دوپہر کو جب وہ یہاں آیا تو اس نے یہ لاش دیکھی۔
تالا بند تھا؟ عمران نے پوچھا۔
ہاں۔ اور وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ کنجی ایک لمحے کے لئے بھی نہیں کھوئی اور پھر یہاں اس قسم کے نشانات نہیں مل سکے جن کی بناٗ پر کہا جاسکتا کہ کوئی دیوار پھلانگ کر اندر آیا ہو۔
تو پھر یہ لاش آسمان سے ٹپکی ہوگی! عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ بہتر تو یہ ہے کہ تم اسی شہید کی مدد طلب کرو جس کی قبر۔۔۔۔
پھر بہکنے لگے۔ فیاض بولا۔
اس عمارت کے مالک کون ہیں اور کیسے ہیں؟ عمران نے پوچھا۔
وہی میرے پڑوس والے جج صاحب۔ فیاض بولا۔
ہائے وہی جج صاحب! عمران اپنے سینے پر ہاتھ مار کر ہونٹ چاٹنے لگا۔
ہاں وہی۔۔۔یار سنجیدگی سے۔۔۔خدا کے لیئے۔
تب میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ عمران مایوسانہ انداز میں سر ہلا کر بولا۔
کیوں؟
تم نے میری مدد نیہں کی؟
میں نے۔ فیاض نے حیرت سے کہا۔ میں سمجھا نہیں۔
خود غرض ہونا۔ بھلا تم میرے کام کیوں آنے لگے۔
ارے تو بتاؤ نا۔ میں واقعی نہیں سمجھا۔
کب سے کہہ رہا ہوں کہ اپنے پڑوسی جج صاحب کی لڑکی سے میری شادی کرا دو۔
مت بکو۔۔۔ ہر وقت بے تکی باتیں۔
میں سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں۔ عمران نے کہا۔
اگر سنجیدگی سے کہہ رہے ہو تو شائد تم اندھے ہو۔
کیوں۔
اس لڑکی کی ایک آنکھ نہیں ہے
اس لئے تو میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ وہ مجھے اور میرے کتوں کا ایک نظر سے دیکھے گی۔
یار خدا کے لئے سنجیدہ ہو جاؤ۔
پہلے تم وعدہ کرو۔ عمران بولا۔
اچھا بابا میں ان سے کہوں گا۔
بہت بہت شکریہ! مجھے سچ مچ اس لڑکی سے کچھ ہو گیا ہے۔۔۔ کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔اوہ۔۔۔بھول گیا۔۔۔حالانکہ کچھ دیر پہلے اسی کا تذکرہ تھا۔ 
چلو چھوڑو کام کی باتیں کرو۔
نہیں اسے یاد ہی آجانے دو۔ ورنہ مجھ پر ہسٹیریا کا دورہ پڑ جائے گا۔
عشق۔ فیاض منہ بنا کر بولا۔
جیئو! شاباش! عمران نے اس کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے کہا۔ خدا تمہاری مادہ کو سلامت رکھے۔ اچھا اب یہ بتاؤ کہ لاش کی شناخت ہو گئی یا نہیں۔
نہیں! نہ تو وہ اس علاقہ کا باشندہ ہے اور نہ جج صاحب کے خاندان کے والے اس سے واقف ہیں۔
یعنی کسی نے اسے پہچانا نہیں۔
نہیں۔
اس کے پاس کوئی ایسی چیز ملی یا نہیں جس سے اس کی شخصیت پر روشنی پڑ سکے۔
کوئی نہیں۔۔۔مگر ٹھہرو۔ فیاض ایک میز کی طرف بڑھتا ہوا بولا۔ واپسی پر اس کے ہاتھوں میں چمڑے کا تھیلا تھا۔ 
یہ تھیلا ہمیں لاش کے قریب پڑا ملا تھا۔ فیاض نے کہا۔
عمران تھیلا اس کے ہاتھ سے لے کر اندر کی چیزوں کا جائزہ لینے لگا۔
کسی بڑھئی کے اوزار۔ اس نےکہا۔ اگر یہ مقتول ہی کے ہیں تو۔۔۔ویسے اس شخص کی ظاہر حالت اچھی نہیں۔۔۔لیکن پھر بھی بڑھئی نہیں معلوم ہوتا۔۔۔!
کیوں!
اس کے ہاتھ بڑے ملائم ہیں اور۔۔۔ہتھیلیوں میں کھردرا پن نہیں ہے۔ یہ ہاتھ تو کسی مصور یا رنگساز ہی کے ہو سکتے ہیں۔ عمران بولا۔
ابھی تک تم نے کوئی کام کی بات نہیں بتائی۔ فیاض نے کہا۔
ایک احمق آدمی سے اس سے زیادہ کی توقع رکھنا عقلمندی نہیں۔ عمران ہنس کر بولا۔
اس کے زخموں نے مجھے الجھن میں ڈال دیا ہے۔ فیاض نے کہا۔
اگر تم نے میرے زخموں پر مرہم رکھا۔۔۔تو میں ان زخموں کو بھی دیکھ لوں گا۔
کیا مطلب۔
“جج صاحب کی لڑکی!“ عمران اس طرح بولا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو! “اس مکان کی ایک کنجی جج صاحب کے پاس ضرور رہتی ہوگی۔“
ہاں ایک ان کے پاس بھی ہے۔
ہی یا تھی۔
یہ تو میں نے نہیں پوچھا۔
خیر پھر پوچھ لینا۔ اب لاش اٹھواؤ۔۔۔پوسٹ مارٹم کے سلسلے میں زخموں کی گہرائیوں کا خاص خیال رکھا جائے۔
کیوں؟
اگر زخموں کی گہرائیاں بھی ایک دوسری کے برابر ہوئیں تو سمجھ لینا کہ یہ شہید مرد صاحب کی حرکت ہے۔ 
کیوں فضول بکواس کررہے ہو۔
جو کہہ رہا ہوں۔۔۔اس پر عمل کرنے کا ارادہ ہو تو علی عمران ایم۔ ایس۔ سی، پی۔ ایچ۔ ڈی کی خدمات حاصل کرنا ہے۔ ورنہ کوئی۔۔۔کیا نہیں۔۔۔ذرا بتاؤ تو میں کون سا لفظ بھول رہا ہوں۔
ضرورت! فیاض برا سا منہ بنا کر بولا۔
جیتے رہو۔۔۔ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔
تمہاری ہدایت پر پورا عمل کیا جائے گا!۔۔۔ اور کچھ!
اور یہ کہ میں پوری عمارت دیکھنا چاہتا ہوں۔ عمران نے کہا۔
پوری عمارت کا چکر لگالینے کے بعد وہ پھر اسی کمرے میں لوٹ آئے۔
ہاں بھئی جج صاحب سے ذرا یہ پوچھ لینا کہ انہوں نے صرف اسی کمرے کی ہیئت بدلنے کی کوشش کیوں کر ڈالی جبکہ پوری عمارت اسی پرانے ڈھنگ پر رہنے دی گئی ہے۔۔۔ کہیں بھی دیوار پر پلاسٹر نہیں دکھائی دیا۔۔۔لیکن یہاں ہے۔۔۔
پوچھ لوں گا۔۔۔
اور کنجی کے متعلق بھی پوچھ لینا۔۔۔اور۔۔۔اگر وہ محبوبہ یک چشم مل جائے تو اس سے کہنا کہ تیر نیم کش کو کوئی میرے دل سے پوچھے۔۔۔شائد غالب کی محبوبہ بھی ایک آنکھ رکھتی تھی۔۔۔کیونکہ تیر نیم کش اکلوتی آنکھ کا بھی ہو سکتا ہے۔
تو اس وقت اور کچھ نہیں بتاؤ گے۔ فیاض نے کہا۔
یار بڑے احسان فروش ہو۔۔۔فروش۔۔۔شائد میں پھر بھول گیا کہ کون سا لفظ ہے۔ 
فراموش!
جیئو۔ ہاں تو بڑے احسان فراموش ہو۔ اتنی دیر سے بکواس کر رہا ہوں اور تم کہتے ہو کچھ بتایا ہی نہیں۔

دوسرے دن کیپٹن فیاض نے عمران کو اپنے گھر میں مدعو کیا۔ حالانکہ کئی بار کے تجربات نے یہ بات ثابت کر دی تھی کہ عمران وہ نہیں ہے جو ظاہر کرتا ہے نہ وہ احمق ہے اور نہ خبطی! لیکن پھر بھی فیاض نے اسے موڈ میں لانے کے لئے جج صاحب کی کانی لڑکی کو بھی مدعو کر لیا تھا۔ حالانکہ وہ عمران کی اس افتاد طبع کو بھی مذاق ہی سمجھا تھا لیکن پھر بھی اس نے سوچا کہ تھوڑی سی تفریح ہی رہے گی۔ فیاض کی بیوی بھی عمران سے اچھی طرح واقف تھی اور جب فیاض نے اسے اس کے ٬عشق٬ کی داستان سنائی تو ہنستے ہنستے اس کا برا حال ہو گیا۔
فیاض اس وقت اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھا عمران کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کی بیوی اور جج صاحب کی یک چشم لڑکی رابعہ بھی موجود تھیں۔
ابھی تک نہیں آئے، عمران صاحب۔ فیاض کی بیوی نے کلائی پر بندھی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
کیا وقت ہے۔ فیاض نے پوچھا۔
ساڑھے سات۔
بس دو منٹ بعد وہ اسی کمرے میں ہوگا۔ فیاض مسکرا کر بولا۔
کیوں۔ یہ کیسے؟
بس اس کی ہر بات عجیب ہوتی ہے۔ وہ اسی قسم کے اوقات مقرر کرتا ہے۔ اس نے سات بج کر بتس منٹ پر آنے کا وعدہ کیا تھا۔ لہٰذا میرا خیال ہے کہ وہ اس وقت ہمارے بنگلے کے قریب ہی کھڑا اپنی گھڑی دیکھ رہا ہوگا۔
عجیب آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ رابعہ نے کہا۔
عجیب ترین کہئے! انگلینڈ سے سائنس میں ڈاکٹریٹ لےکر آیا ہے۔ لیکن اس کی حرکات۔۔۔ وہ ابھی دیکھ لیں گی۔ اس صدی کا سب سے عجیب آدمی۔۔۔لیجئے شائد وہی ہے۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
فیاض اٹھ کر آگے بڑھا۔۔۔دوسرے لمحے عمران ڈرائنگ روم میں داخل ہو رہا تھا۔
عورتوں کو دیکھ کر وہ قدرے جھکا اور پھر فیاض سے مصافحہ کرنے لگا۔
غالبا مجھے سب سے پہلے یہ کہنا چاہیئے کہ آج موسم بڑا خوشگوار رہا۔ عمران بیٹھتا ہوا بولا۔
فیاض کی بیوی ہنسنے لگی اور رابعہ نے جلدی سے تاریک شیشوں والی عینک لگا لی۔
آپ سے ملئے، آپ مس رابعہ سلیم ہیں۔ ہمارے پڑوسی جج صاحب کی صاحبزادی اور آپ مسٹر علی عمران میرے محکمہ کے ڈائریکٹر جنرل رحمان صاحب کے صاحبزادے۔
بڑی خوشی ہوئی۔ عمران مسکرا کر بولا پھر فیاض سے کہنے لگا۔ تم ہمیشہ گفتگو میں غیر ضروری الفاظ ٹھونستے رہتے ہو۔ جو بہت گراں گذرتے ہیں۔۔۔رحمان صاحب کے صاحبزادے! دونوں صاحبوں کا ٹکراؤ برا لگتا ہے۔ اس کی بجائے رحمان صاحب کے زادے۔۔۔یا صرف رحمان زادے کہہ سکتے ہیں۔
میں لٹریری آدمی نہیں ہوں۔ فیاض مسکرا کر بولا۔
دونوں خواتین بھی مسکرارہی تھیں۔ پھر رابعہ نے جھک کر فیاض کی بیوی سے کچھ کہا اور وہ دونوں اٹھ کر ڈرائنگ روم سے چلی گئیں۔
بہت برا ہوا۔ عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔
کیا؟ شائد وہ باورچی خانے کی طرف گئی ہیں۔ فیاض نے کہا۔ باورچی کی مدد کے لئے آج کوئی نہیں ہے۔
تو کیا تم نے اسے بھی مدعو کیا ہے۔
ہاں بھئی کیوں نہ کرتا میں نے سوچا کہ اس بہانے سے تمہاری ملاقات بھی ہو جائے۔
مگر مجھے بڑی کوفت ہو رہی ہے۔ عمران نے کہا۔
کیوں؟
آخر اس نے دھوپ کا چشمہ کیوں لگایا ہے۔
اپنا نقص چھپانے کے لئے۔
سنو میاں! دو آنکھوں والی مجھے بہتیری مل جائیں گی۔ یہاں تو معاملہ صرف اس آنکھ کا ہے۔ ہائے کیا چیز ہے۔۔۔ کسی طرح اس کا چشمہ اترواؤ۔ ورنہ میں کھانا کھائے بغیر واپس چلا جاؤں گا۔
مت بکو۔
میں چلا۔عمران اٹھتا ہوا بولا۔
عجیب آدمی ہو۔۔۔بیٹھو۔ فیاض نے اسے دوبارہ بٹھا دیا۔
چشمہ اترواؤ، میں اس کا قائل نہیں کہ محبوب سامنے ہو اور اچھی طرح دیدار بھی نصیب نہ ہو۔
ذرا آہستہ بولو۔ فیاض نے کہا۔
میں تو ابھی اس سے کہوں گا۔
کیا کہو گے۔ فیاض بوکھلا کر بولا۔
یہی جو تم سے کہہ رہا ہوں۔
یار خدا کے لئے۔۔۔
کیا برائی ہے۔۔۔ اس میں۔
میں نے سخت غلطی کی۔ فیاض بڑبڑایا۔
واہ۔۔۔غلطی تم کرو اور بھگتوں میں۔ نہیں فیاض صاحب۔ میں اس سے کہوں گا براہ کرم اپنا چشمہ اتار دیجئے۔ مجھے آپ سے مرمت ہو گئی ہے۔۔۔مرمت۔۔مرمت۔۔۔شائد میں نے غلط لفظ استعمال کیا ہے۔ بولو بھئی۔۔۔کیا ہونا چاہئے۔
محبت۔۔۔فیاض برا سا منہ بنا کر بولا۔
جیئو! محبت ہو گئی ہے۔۔۔تو وہ اس پر کیا کہے گی۔
چانٹا مار دے گی۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
فکر نہ کرو میں چانٹے کو چانٹے پر روک دینے کے آرٹ سے بخوبی واقف ہوں طریقہ وہی ہوتا ہے جو تلوار پر تلوار روکنے کا ہوا کرتا تھا۔
یار خدا کے لئے کوئی حماقت نہ کر بیٹھنا۔
عقل مندی کی بات کرنا ایک احمق کی کھلی توہین ہے اب بلاؤ نا۔۔دل کی جو حالت ہے بیان کر بھی سکتا ہوں اور نہیں بھی کر سکتا۔۔۔وہ کیا ہوتا ہے جدائی میں۔۔۔بولو نا یار کون سا لفظ ہے۔
میں نہیں جانتا۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
خیر ہوتا ہوگا کچھ۔۔۔ڈکشنری میں دیکھ لوں گا۔۔۔ ویسے میرا دل دھڑک رہا ہے ہاتھ کانپ رہے ہیں لیکن ہم دونوں کے درمیان دھوپ کا چشمہ حائل ہے۔ میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ 
چند لمحے خاموشی رہی۔ عمران میز پر رکھے گلدان کو اس طرح گھور رہا تھا جیسے اس نے اسے کوئی سخت بات کہہ دی ہو۔
آج کچھ نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں۔ فیاض نے کہا۔
ضرور معلوم ہوئی ہوں گی۔ عمران احمقوں کی طرح سر ہلا کر بولا۔
مگر نہیں! پہلے میں تمہیں ان زخموں کے متعلق بتاؤں۔ تمہارا خیال درست نکلا۔ زخموں کی گہرائیاں بالکل برابر ہیں۔
کیا تم خواب دیکھ رہے ہو۔ عمران نے کہا۔
کیوں؟
کن زخموں کی بات کر رہے ہو؟
دیکھو عمران میں احمق نہیں ہوں۔
پتہ نہیں جب تک تین گواہ نہ پیش کرو یقین نہیں آسکتا۔
کیا تم کل والی لاش بھول گئے۔
لاش۔ ار۔۔۔ہاں یاد آیا۔ اور وہ تین زخم برابر نکلے۔۔۔ہا۔۔۔
اب کیا کہتے ہو۔ فیاض نے پوچھا۔ 
سنگ و آہن بے نیاز غم نہیں۔۔۔ دیکھو ہر دیوار سے سر نہ مار۔ عمران نے گنگنا کر تان ماری اور میز پر طبلہ بجانے لگا۔
تم سنجیدہ نہیں ہوسکتے۔ فیاض اکتا کر بے دلی سے بولا۔
اس کا چشمہ اتروا دینے کا وعدہ کرو تو میں سنجیدگی سے گفتگو کرنے پر تیار ہوں۔
کوشش کروں گا بابا۔ میں نے اسے ناحق مدعو کیا۔
دوسری بات یہ کہ کھانے میں کتنی دیر ہے۔
شائد آدھا گھنٹہ۔۔۔وہ ایک نوکر بیمار ہو گیا ہے۔
خیر۔۔۔ہاں جج صاحب سے کیا باتیں ہوئیں؟
وہی بتانے جا رہا تھا! کنجی اس کے پاس موجود ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ عمارت انہیں اپنے خاندانی ترکے میں نہیں ملی تھی۔
پھر۔ عمران توجہ اور دلچسپی سے سن رہا تھا۔
وہ دراصل ان کے ایک دوست کی ملکیت تھی اور اس دوست نے ہی اسے خریدا تھا۔ ان کی دوستی بہت پرانی تھی لیکن فکر معاش نے انہیں ایک دوسرے سے جدا کر دیا۔ آج سے پانچ سال قبل اچانک جج صاحب کو اس کا ایک خط ملا جو اسی عمارت سے لکھا گیا تھا اس نے لکھا تھا کہ اس کی حالت بہت خراب ہے اور شائد وہ زندہ نہ رہ سکے۔ لہٰذا وہ مرنے سے پہلے ان سے بہت اہم بات کرنا چاہتا ہے۔ تقریبا پندرہ سال بعد جج صاحب کو اس دوست کے متعلق کچھ معلوم ہوا تھا۔ ان کا وہاں پہنچنا ضروری تھا بہر حال وہ وقت پر نہ پہنچ سکے ان کے دوست کا انتقال ہو چکا تھا! معلوم ہوا کہ وہاں تنہا ہی رہتا تھا۔۔۔ہاں تو جج صاحب کو بعد میں یہ معلوم ہوا کہ مرنے والے نے وہ عمارت قانونی طور پر جج صاحب کی طرف منتقل کر دی تھی۔ لیکن یہ معلوم نہ ہو سکا کہ ان سے کیا کہنا چاہتا تھا۔۔۔
عمران تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔
ہاں! ۔۔۔اور اس کمرے کے پلاسٹر کے متعلق پوچھا تھا۔
جج صاحب نے اس سے لاعلمی ظاہر کی۔ البتہ انہوں نے یہ بتایا کہ ان کے دوست کی موت اسی کمرے میں واقعی ہوئی تھی۔
قتل۔ عمران نے پوچھا۔
نہیں قدرتی موت، گاؤں والوں کے بیان کے مطابق وہ عرصہ سے بیمار تھا۔
اس نے اس عمارت کو کس سے خریدا تھا۔ عمران نے پوچھا۔
آخر اس سے کیا بحث۔ تم عمارت کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟
محبوبہ یک چشم کے والد بزرگوار سے یہ بھی پوچھو۔
ذرا آہستہ۔ عجیب آدمی ہو اگر اس نے سن لیا تو۔
سننے دو!۔۔! ابھی میں اس سے اپنے دل کی حالت بیان کروں گا۔
یار عمران خدا کے لئے۔۔۔کیسے آدمی ہو تم۔
فضول باتیں مت کرو۔ عمران بولا۔ ذرا جج صاحب سے وہ کنجی مانگ لاؤ۔
اوہ کیا ابھی۔۔۔!
ابھی اور اسی وقت!
فیاض اٹھ کر چلا گیا۔ اس کے جاتے ہی وہ دونوں خواتین ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں۔
کہاں گئے۔ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
شراب پینے۔ عمران نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
کیا؟ فیاض کی بیوی منہ پھاڑ کر بولی۔ پھر ہنسنے لگی۔
کھانا کھانے سے پہلے ہمیشہ تھوڑی سی پیتے ہیں۔ عمران نے کہا۔
آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔وہ ایک ٹانک تھا۔
ٹانک کی خالی بوتل میں شراب رکھنا مشکل نہیں۔
لڑانا چاہتے ہیں آپ۔ فیاض کی بیوی ہنس پڑی۔
کیا آپ کی آنکھوں میں کچھ تکلیف ہے۔ عمران نے رابعہ کو مخاطب کیا۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔ جی نہیں۔ رابعہ نروس نظر آنے لگی۔
کچھ نہیں۔ فیاض کی بیوی جلدی سے بولی۔ عادت ہے تیز روشنی برداشت نہیں ہوتی اسی لئے یہ چشمہ۔۔۔
اوہ اچھا۔ عمران بڑبڑایا۔ میں ابھی کیا سوچ رہا تھا۔
آپ غالبا یہ سوچ رہے تھے کہ فیاض کی بیوی بڑی پھوہڑ ہے۔ ابھی تک کھانا بھی تیار نہیں ہو سکا۔
نہیں یہ بات نہیں ہے۔ میرے ساتھ بہت بڑی مصیبت یہ ہے کہ میں بڑی جلدی بھول جاتا ہوں۔ سوچتے سوچتے بھول جاتا ہوں کہ کیا سوچ رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ میں ابھی یہ بھول جاؤں کہ آپ کون ہیں اور میں کہاں ہوں؟ میرے گھر والے مجھے ہر وقت ٹوکتے رہتے ہیں۔ 
مجھے معلوم ہے۔ فیاض کی بیوی مسکرائی۔
مطلب یہ کہ اگر مجھ سے کوئی حماقت سرزد ہو تو بلا تکلف ٹوک دیجئے۔
ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ فیاض واپس آگیا۔
کھانے میں کتنی دیر ہے۔ اس نے اپنی بیوی سے پوچھا۔
بس ذرا سی۔
فیاض نے کنجی کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور عمران کے انداز سے بھی ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بھول ہی گیا ہو کہ اس نے فیاض کو کہاں بھیجا ہے۔
تھوڑی دیر بعد کھانا آگیا۔
کھانے کے دوران میں عمران کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ سب نے دیکھا لیکن کسی نے پوھچا نہیں خود فیاض جو عمران کی رگ رگ سے واقف ہونے کا دعوٰی رکھتا تھا، کچھ نہ سمجھ سکا۔ فیاض کی بیوی اور رابعہ تو بار بار کن انکھیوں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ آنسو کسی طرح رکنے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ خود عمران کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے بھی ان آنسوؤں کا علم نہ ہو۔ آخر فیاض کی بیوی سے ضبط نہ ہو سکا اور وہ پوچھ بیٹھی۔
کیا کسی چیز میں مرچیں زیادہ ہیں؟
جی نہیں۔۔۔ نہیں تو۔
تو پھر یہ آنسو کیوں بہہ رہے ہیں۔
آنسو۔۔۔کہاں۔ عمران اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ لل۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔ شائد وہی بات ہے۔۔۔ مجھے قطعی احسا س نہیں ہوا۔
کیا بات؟ فیاض نے پوچھا۔
دراصل مرغ مسلم دیکھ کر مجھے اپنے ایک عزیز کی موت یاد آگئی۔
کیا؟ مرغ مسلم دیکھ کر۔ فیاض کی بیوی حیرت سے بولی۔
جی ہاں۔۔۔
بھلا مرغ مسلم دیکھ کر کیوں؟
دراصل ذہن میں دوزخ کا تصور تھا۔ مرغ مسلم کو دیکھ کر آدمی مسلم کا خیال آگیا۔ میرے ان عزیز کا نام اسلم ہے مسلم پر اسلم آگیا۔۔۔پھر ان کی موت کا خیال آیا۔ پھ رسوچا کہ اگر وہ دوزخ میں پھینکے گئے تو اسلم مسلم۔۔۔ معاذ اللہ۔۔۔
عجیب آدمی ہو۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔
جج صاحب کی بیٹی بے تحاشہ ہنس رہی تھی۔
کب انتقال ہوا ان کا۔ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
ابھی تو نہیں ہوا۔ عمران نے سادگی سے کہا اور کھانے میں مشغول ہو گیا۔
یار مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم سچ مچ پاگل نہ ہو جاؤ۔
نہیں جب تک کوکا کولا بازار میں موجود ہے پاگل نہیں ہو سکتا۔
کیوں؟ فیاض کی بیوی نے پوچھا۔
پتہ نہیں۔۔۔ بہرحال یہی محسوس کرتا ہوں۔
کھانا ختم ہوجانے کے بعد بھی شائد جج صاحب کی لڑکی وہاں بیٹھنا چاہتی تھی۔ لیکن فیاض کی بیوی اسے کسی بہانے سے اٹھا کر لے گئی شائد فیاض نے اسے کوئی اشارہ کر دیا تھا۔ ان کے جاتے ہی فیاض نے عمران کو کنجی پکڑا دی اور عمران تھوڑی دیر تک اس کا جائزہ لیتے رہنے کے بعد بولا۔
ابھی حال ہی میں اس کی ایک نقل تیار کی گئی ہے۔ اس کے سوراخ کے اندر موم کے ذرات ہیں۔ موم کا سانچہ۔۔۔ سمجھتے ہو نا!

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page