top of page

عمران سیریز کا پہلا ناول - خوفناک عمارت

قسط نمبر چار

ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو! کچھ مضطرب بھی تھا۔ عمران نے پھر ایک چیونگم نکال کر منہ میں ڈال لیا۔
اس کا اندازہ غلط نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی چمڑے کی جیکت والے آدمی کے پاس آگیا۔ اور پھر عمران نے اس نے چہرے سے اضطراب کے آثار غائب ہوتے دیکھے۔
" سب چوپٹ ہو رہا ہے"۔ چمڑے کی جیکٹ والا بولا۔
" اس بڈھے کو شق ہو گیا ہے!"۔ دوسرا آدمی بولا۔
عمران ان کی گفتگو صاف سُن رہا تھا۔ جیکٹ والا چند لمحے پُرخیال انداز میں ٹھوڑی کھجاتا رہا پھر بولا۔
" مجھے یقین ہے کے اس کا خیال غلط نہیں ہے! وہ سب کچھ وہیں ہے لیکن ہمارے ساتھی بوڑھے ہیں۔ آوازیں سنتے ہی اس کی روح فنا ہوجاتی ہے"۔
" لیکن بئی! آخر وہ آوازیں ہیں کیسی؟"۔
" کیسی بھی ہوں۔ ہمیں اس کی پروانہ نہیں کرنی چائیے"۔
" اور وہ دونوں کس طرح مرے؟"۔
" یہ چیز!"۔ جیکٹ والا کچھ سوچتے ہوئے بولا۔" ابھی تک میری سمجھ میں نہ آسکی! مرتا وہی ہے جو کام شروع کرتا ہے۔ یہ ہم شروع ہی سے دیکھتے رہے ہیں"۔
" پھر ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟"۔ دوسرے آدمی نے کہا۔
" ہمیں آج یہ معاملہ طے ہی کر لینا ہے!"۔ جیکٹ والا بولا۔" یہ بھی بڑی بات ہے کہ وہاں پہ پولیس کا پہرہ نہیں ہے"۔
" لیکن اس رات کو ہمارے علاوہ اور بھی کوئی وہاں تھا، مجھے تو اس آدمی پر شبہ ہے جو باہر والے کمرے میں رہتا ہے"۔
" اچھا اٹھو۔ ہمیں وقت نہیں برباد کرنا چاہئے"۔
" کچھ پی تو لوں! میں بہت تھک گیا ہوں۔۔۔ کیا پیئو گے۔۔۔ وسکی یا کچھ اور؟"۔
پھر وہ دونوں پیتے رہے اور عمران اٹھ کر قریب ہی ایک پبلک تیلیفون بوتھ میں چلا گیا۔ دوسرے لمحے وہ فیاض کا نجی فون نمبر ڈائیل کر رہا تھا۔
" ہیلو!۔۔۔ ہاں میں ہی ہوں!۔۔۔ خیریت کہاں۔۔ زکام ہوگیا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ جوشاندہ پی لوں! ۔۔۔ ارے تو اس میں ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔ دیگر احوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر اور عمارے کے گرد مسلح پہرہ لگ جانا چاہئے۔۔۔۔ بس بس آگے مت پوچھو۔ اگر اس کے خالاف ہوا تو آئیندہ شرلاک ہومز ڈاکٹر وانسن کی مدد نہیں کرے گا"۔
ٹیلی فون بوتھ سے واپس آ کر عمران نے پھر اپنی جگہ سنبھال لی۔ جیکٹ والا دوسرے آدمی سے کہہ رہا تھا۔
" بوڑھا پاگل نہیں ہے اس کے اندازے غلط میں ہوتے"۔
" اونہہ ہوگا"۔ دوسرا میز پر خالی گلاس رکھتا ہوا بولا۔" صحیح ہو یا غلط سب جہنم میں جائے لیکن تم اپنی کہو۔ اگر اس لڑکی سے پھر ملاقات ہوگئی تو کیا کرو گے؟"۔
" اوہ"۔ جیکٹ والا ہنسنے لگا۔" معاف کیجئیے گا میں نے آپ کو پہچانا نہیں"۔
" ٹھیک، لیکن اگر وہ پولیس تک پہنچ گئی تو؟"۔
" وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔ بیان دیتے وقت اسے اس کا اظہار بھی کرنا پڑے گا کہ وہ ایک رات میرے ساتھ اس مکان میں بسر کر چکی ہے۔ اور پھر میرا خیال ہے کہ شاید اس کا ذہن کنجی تک پہنچ ہی نہ سکے"۔
عمران کافی کا آرڈر دے کے دوسرے چیونگم سے شغل کرنے لگا اس کے چہرے سے اسے معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ سارے ماحول سے قطعی بےتعلق ہے۔ لیکن یہ حقیقت تھی کہ ان دونوں کی گفتگو کا ایک ایک لفظ اس کی یادداشت ہضم کرتی جا رہی تھی۔
" تو کیا آج بوڑھا آئے گا؟"۔ دوسرے آدمی نے پوچھا۔
" ہاں آج فیصلہ ہوجائے"۔ جیکٹ والا بولا۔
دونوں اٹھ گئے۔ عمران نے اپنے حلق میں بچی کچھی کافی انڈیل لی۔ بل وہ پہلے ہی ادا کر چکا تھا۔
وہ دونوں باہر نکل کر فٹ پاتھ پر کھڑے ہوگئے اور پھر ان دونوں نے ایک ٹیکسی رکوائی، کچھ دیر بعد ان کی ٹیکسی کے پیچھے ایک دوسری ٹیکسی بھی جا رہی تھی جس کی پچھلی سیٹ پر عمران اکڑوں بیٹھا سر کھجا رہا تھا۔ حماقت انگیز حرکتیں اس سے اکثر تنہائی میں سرزد ہو جاتی تھیں۔
ارکھیم لین میں پہنچ کر اگلی ٹیکسی رُک گئی۔ وہ دونوں اترے اور ایک گلی میں گھس گئے۔یہاں عمران ذرا سا چونک گیا۔ اس نے انہیں گلی میں گھستے ضرور دیکھا تھا۔ لیکن جتنی دیر میں وہ ٹیکسی کا کرایہ چکاتا وہ انہیں کھو چکا تھا!۔
گلی سنسان پڑی تھی۔ آگے بڑھا تو دائنے ہاتھ ایک دوسرے گلی دکھائی دی۔ اب اس دوسری گلی کو طے کرتے وقت اسے احساس ہوا کہ وہاں تو گلیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ لہذٰا سر مارنا فضول سمجھ کر وہ پھر سڑک پر آگیا۔ اور اس گلی کے سرے سے تھوڑے ہی فاصلے پر رک کر ایک بُک سٹال کے شو کیس میں لگی ہوئی کتابوں کے رنگ برنگ گردپوش دیکھنے لگا، شاید پانچ ہی منٹ بعد ایک ٹیکسی ٹھیک اسی گلی کے دہانے پر رکی اور ایک معمر آدمی اتر کر کرایہ چکانے لگا۔ اس کے چہرے پر بھورے رنگ کی ڈاڑھی تھی۔

لیکن عمران اس کی پیشانی کی بناوٹ دیکھ کر چونکا۔ شکل بھی جانی پہچانی معلوم ہو رہی تھی۔ 
جیسے ہی وہ گلی میں گھسا عمران نے بھی اپنے قدم بڑھائے۔ لئی گلیوں سے گزرنے کے بعد بوڑھا ایک دروازے پر دستک دینے لگا! عمران کافی فاصلے پر تھا! اور تاریکہ ہو جانے کی وجہ سے دیکھ لیے جانے کا خدشہ بھی نہیں تھا، وہ ایک دیوار سے چپک کر کھڑا ہوگیا! ادھر دروازہ کھلا اور بوڑھا کچھ بڑبڑاتا ہوا اندر چلا گیا۔ دروازہ پھر بند ہوگیا تھا۔ عمارت دو منزلہ تھی۔ عمران کافی پیچھے تھا لیکن وہ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اندر داخل ہونے کے امکانات پر غور کرتے وہ دروازے تک پہنچ گیا۔ اور پھر اس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر دروازے سے کان لگا کر آہٹ سننا شروع کر دی لیکن شاید اس کا ستارہ ہی گردش میں آگیا تھا دوسرے ہی لمحے دروازے کے دونوں پٹ کھلے اور دونوں آدمی اس کے سامنے کھڑے تھے۔ اندر مدھم سی روشنی میں ان کے چہرے تو نہ دکھائی دئیے لیکن وہ کافمی مضبوط ہاتھ پیر کے معلوم ہوتے تھے۔
" کون ہے؟"۔ ان میں سے ایک تحکمانہ لہجے میں بولا۔
" مجھے دیر تو نہیں ہوئی"۔ عمران تڑ سے بولا۔
دوسری طرف سے فوراَ ہی جواب نہیں ملا۔ غالباَ یہ سکوت ہچکچاہٹ کا ایک وقفہ تھا۔
" تم کون ہو"۔ دوسری طرف سے سوال پھر دہرایا گیا۔
" تین سو تیرہ"۔ عمران نے احمقوں کی طرح بک دیا۔ لیکن دوسرے لمحے اسے دھیان نہیں تھا! اچانک اسے گریبان سے پکڑ کر اندر کھنچ لیا گیا۔ عمران نے مزاحمت نہیں کی۔
" اب بتاؤ تم کون ہو؟"۔ ایک نے اسے دھکا دے کر کہا۔
" اندر لے چلو"۔ دوسرا بولا۔
وہ دونوں اسے دھکے دیتے ہوئے کمرے میں لے آئے۔ یہاں سات آدمی ایک میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور وہ بوڑھا جس کا تعاقب کرتے ہوئے عمران یہاں تک پہنچا تھا شاید سردار کی حیثیت رکھتا تھا کیونکہ وہ میز کے آخری سرے پر تھا۔
وہ سب عمران کو دیکھنے لگے۔ لیکن عمران دونوں آدمیوں کے درمیان میں کھڑا چمڑے کی جیکٹ والے آدمی کو گھور رہا تھا۔
" آہا!"۔ یکایک عمران نے قہقہہ لگایا اور اپنے گول گول دیدے پھرا کر اسے کہنے لگا۔" میں تمیں کبھی نہیں معاف کروں گا۔ تم نے میری محبوبہ کی زندگی برباد کر دی!"۔
" کون ہو تم میں تمھیں نہیں پہچانتا"۔ اس نے تحیر آمیز لہجے میں کہا۔
" لیکن میں تمھیں اچھی طرح پہچانتا ہوں! تم نے میری محبوبہ پر ڈورے ڈالے ہیں۔ میں نہیں بولا! تم نے ایک رات اس کے ساتھ بسر کی میں پھر خاموش رہا لیکن میں اسے کسی طرح برداشت نہیں کر سکتا کہ تم اس سے ملنا جلنا چھوڑ دو"۔
" تم یہاں کیوں آئے ہو؟"۔ دفعتہَ اب بوڑھے نے سوال کیا اور ان دونوں کی گھورنے لگا جو عمران کو لائے تھے۔ انہوں نے سب کچھ بتا دیا۔ اس دوران عمران برابر اپنے مخاطب کو گھورتا رہا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے دوسرے لوگوں سے اسے کوئی سروکار نہیں۔
پھر اچانک کسی کا گھونسا عمران کے جبڑے پر پڑا اور وہ لڑکھڑاتا ہوا کئی قدم پیچھے کھسک گیا! اس نے جھک کر اپنی فلٹ ہیٹ اٹھائی اور اسے اس طرح جھاڑنے لگا جیسے وہ اتفاقاَ اس کے سر سے گِر گئی ہو اور اب وہ جیکٹ والے کو گھورے جارہا تھا۔
" میں کسی عاشقیہ ناول کے سعادت مند رقیب کی طرح تمھارے حق میں دستبردار ہوسکتا ہوں!" عمران نے کہا۔
" بکواس مت کرو"۔ بوڑھا چیخا۔" میں تمھیں اچھی طرح جانتا ہوں! کیا اس رات کو تم ہی وہاں تھے؟"۔
عمران نے اس کی طرف دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔
" یہ زندہ بچ کر نہ جانے پائے"۔ بوڑھا کھڑا ہوتے ہوئے بولا۔
" مگر شرط یہ ہے"۔ عمران مسکرا کر بولا۔" میت کی بےحرمتی نہ ہونے پائے"۔
اس کے حماقت خیز اطمینان میں ذرہ بھر بھی فرق نہ ہونے پایا تھا۔۔۔ تین چار آدمی اس کی طرف لپکے۔ عمران دوسرے ہی لمحے ڈپٹ کر بولا۔" ہینڈز اپ"۔ ساتھ ہی اس کا ہاتھ جیب سے نکلا۔ اس کی طرف جھپٹنے والے پہلے تو جھجکے لیکن پھر انہوں نے بےتحاشہ ہنسنا شروع کر دیا۔ عمران کے ہاتھ میں ریوالور کی بجائے ربڑ کی ایک گڑیا تھی۔ پھر بوڑھے کی ایک گرج دار آواز نے انہیں خاموش کر دیا اور وہ پھر عمران کی طرف بڑھے۔ جیسے ہی اس کے قریب پہنچے عمران نے گڑیا کا پیٹ دبا دیا اس کا منہ کھلا اور پیلے رنگ کا گہرا غبارہ اس میں سے نکل کر تین چار فٹ کے دائرے میں پھیل گیا۔۔۔۔۔ وہ چاروں بےتحاشہ کھانستے ہوئے وہیں ڈھیر ہوگئے۔
" جانے نہ پائے"۔ بوڑھا پھر چیخا۔
دوسر لمحے میں عمران نے کافی وزنی چیز الیکٹرک لیمپ پر کھینچ ماری۔۔ اور زوردار آواز کے ساتھ بلب پھٹا اور کمرے میں اندھیرا پھیل گیا۔
عمران اپنی ناک پر رومال رکھے ہوئے دیوار کے سہارے میز کی سرے کی طرف کھسک رہا تھا، کمرے میں اچھا خاصہ ہنگامہ بھرپا ہوگیا تھا۔ شاید وہ اندھیرے میں ایک دوسرے پر گھونسہ بازی کی مشک کرنے لگے تھے، عمران کا ہاتھ آہستہ سے میز کے سرے پر رینگ گیا اور اسے ناکامی نہیں ہوئی جس چیز پر شروع سے ہی اس کی نظر رہی تھی۔ اس کے ہاتھ آچکی تھی۔ یہ بوڑھے کا چری ہینڈ بیگ تھا۔

واپسنی میں کسی نے کمرے کے دروازے پر اس کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی لیکن عمران اس کے سامنے کے دو تین دانتوں کو روتا ہوا چلا گیا۔ عمران جلس دے جلد کمرے سے باہر نکل جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے حلق میں بھی جلن ہونے لگی تھی۔ گڑیا سے نکلا ہوا غبارہ پورے کمرے میں پھیل گیا تھا۔
کھانسیوں اور گالیوں کا شور پیچھے چھوڑتا ہوا وہ بیرونی دروازے تک پہنچ گیا۔ گلی میں نکلتے ہی قریب کی ایک دوسری گلی میں گھس گیا۔ فالحال سڑک پر نکلنا خطرناک تھا۔ وہ گافی دیر گھومتا ہوا گلی سے ایک دوسری سڑک پر آگیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹیکسی میں بیٹھا اس طرح اپنے ہونٹ رگڑ رہا تھا جیسے سچ مچ اپنی محبوبہ سے ملنے کے بعد لپ سٹک کے نشان چھڑا رہا ہو۔

دوسری صبح کیپٹن فیاض کے لیے ایک دوسرے درد سری لے کر آئی۔ حالات ہی ایسے تھے کے براہِ راست اسے ہی اس معاملے میں الجھنا پڑا۔ ورنہ پہلے تو معاملہ سول پولیس کے ہاتھ میں جاتا تھا۔ بات یہ تھی کہ اس خوفناک عمارت کے قریباَ ایک یا ڈیڑھ فرلانگ کے فاصلے پر ایک نوجوان کی لاش پائی گئی۔ جس کے جسم پر کتھئ پتلون اور چمڑے کی جیکٹ تھی۔ کیپٹن فیاض نے عمران کی ہدایت کے مطابق پچھلی رات کو پھر عمارت کی نگرانی کے لیے کانسٹبیلوں کا ایک دستہ تعینات کروادیا۔ ان کی رپوڑٹ تھی کہ اس رات عمارت کے قریب کوئی نہیں آیا اور نہ ہی انہوں نے قرب و جوار میں کسی کی آواز سنی لیکن پھر بھی عمارت سے تھوڑے فاصلے پر صبح کو ایک لاش پائی گئی۔
جب کیپٹن فیاض کو لاش کی اطلاع ملی تو اس نے سوچنا شروع کر دیا کہ عمران نے عمارت کے آس پاس مسلح پہرہ بٹھانے کی تجویز کیوں پیش کی؟
اس نے وہاں پہنچ کر لاش کا معائنہ کیا۔ کسی نے مقتول کی داہنی کن پٹی پر گولی ماری تھی۔ کانسٹیبلوں نے بتایا کہ انہوں نے پچھلی رات گولیوں کی آواز بھی نہیں سنی تھی۔
کیپٹن فیاض وہاں سے بوکھلایا ہوا عمران کی طرف چل دیا۔ اسکی طبعیت بری طرح جھلائی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عمران نے کوئی ڈھنگ کی بات بتانے کی بجائے میر و غالب کے اوٹ پٹانگ شعر سنانا شروع کر دئیے تو کیا ہوگا۔ بعض اوقات اس کی بےتکی باتوں پر اس کا دل چاہتا تھا کہ اسے گولی مار دے پر اس کی شہرت کا کیا ہوتا۔ اس کی ساری شہرت عمران کے دم سے تھی اور وہ اس کے لیے کئی پیچیدہ مسائل سلجھا چکا تھا۔ بہرحال کام عمران کرتا تھا اور اخباران میں نام فیاض کا آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اسے عمران کا سب کچھ برداشت کرنا پڑتا تھا۔
عمران اسے گھر پر ہی مل گیا!۔۔۔لیکن عجیب حالت میں۔۔۔۔ وہ اپنے نوکر سلیمان کے سر پر کنگا کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ وہ کسی دوراندیش ماں کے سے انداز میں اسے نصحیتیں بھی کئے جا رہا تھا۔ جیسے ہی فیاض کمرے میں داخل ہوا۔ عمران نے سلیمان کی پیٹھ پر گھونسا جھاڑ کر کہ۔" ابے تو نے بتایا نہیں کہ صبح ہوگئی"۔
سلیمان ہنستا ہوا بھاگ گیا۔
" عمران تم آدمی کب بنو گے"۔ فیاض ایک صوفے پرگِرتا ہوا بولا۔
" آدمی بننے میں مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔۔۔ البتہ میں تھانےدار بننا ضرور پسند کروں گا"۔
" میری طرف سے جہنم میں جانا پسند کرو لیکن یہ بتاؤ کے تم نے پچھلی رات اس عمارت پر پہرہ کیوں لگوایا تھا؟"۔
" مجھے کچھ یاد نہیں"۔ عمران مایوسی سے سر ہلا کر بولا۔" کیا واقعی میں ایسی کوئی حرکت کی تھی؟"۔
" عمران"۔ فیاض بگڑ کر بولا۔" اگر میں آئیندہ تم سے کوئی مدد لوں تو مجھ پر ہزار بار لعنت"۔
" ہزار کم ہیں"۔ عمران سنجیدگی سے بولا۔" کچھ اور بڑھاؤ تو میں کچھ غور کرنے کی کوشش کروں گا"۔ فیاض کی قوتِ برداشت جواب دے گئی اور وہ گرج کر بولا۔
" جانتے ہو، وہاں صبح ایک فرلانگ کے فاصلے پر ایک لاش ملی ہے"۔
" ارے توبہ"۔ عمران اپنا منہ پیٹنے لگا۔
کیپٹن فیاض کہتا رہا۔" تم مجھے اندھیرے میں رکھ کر ناجانے کیا کرنا چاہتے ہو۔ حالات اگر اور بگڑے تو مجھے ہی سنبھالنے پڑیں گے لیکن کتنی پریشانی ہوگی۔ کسی نے اس کی داہنی کن پٹی پر گولی مار دی ہے، نہیں سمجھ سکتا کہ یہ حرکت کس کی ہے"۔
" عمران کے علاوہ اور کس کی ہو سکتی ہے!"۔ عمران بڑبڑایا پھر سنجیدگی سے پوچھا۔" پہرہ تھا وہاں؟"۔
" تھا۔۔۔۔ میں نے رات ہی میں یہ کام کیا تھا"۔
" پہرے والوں کی رپورٹ؟"۔
" کچھ بھی نہیں! انہوں نے فائر کی آواز بھی نہیں سنی"۔
" میں یہ نہیں پوچھ رہا۔۔ کیا کل بھی کسی نے عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی"۔
" نہیں۔۔۔ لیکن میں اس لاش کی بات کر رہا ہوں"۔
" کئے جاؤ۔ میں تمھیں نہیں روکتا۔ لیکن میرے سوالات کے جوابات بھی دئیے جاؤ۔ قبر کے مجاور کی کیا خبر ہے!۔۔۔ وہ اب بھی وہیں موجود ہے کہ غائب ہوگیا!"۔

" عمران خدا کے لیے تنگ نہ کرو"۔
" اچھا تو علم عمران ایم۔ایس۔سی۔پی۔ایچ۔ڈی کوئی گفتگو نہیں چاہتا"۔
" تم آخر اس خبطی کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو"۔
" خیر جانے دو۔ اب مجھے اس کے متعلق کچھ اور بتاؤ"۔
" کیا بتاؤں!۔۔۔ بتا تو چکا۔۔۔ صورت سے بُرا آدمی نہیں معلوم ہوتا خوبصورت اور قدآور، جسم پر چمڑے کی جیکٹ اور کتھئی رنگ کی پتلون!"۔
" کیا؟"۔ عمران چونک پڑا۔ اور چند لمحے اپنے ہونت سیٹی بجانے والے انداز میں سکڑ کر فیاض کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔
بے خطر کوس پڑا آتشِ نمرود میں عشق۔۔۔۔ نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
" کیا بکواس ہے!"۔ فیاض جھنجھلا کر بولا۔" اول تو تمھیں اشعار ٹھیک یاد نہیں پھر یہاں کہنے کا موقعہ کب تھا۔۔۔ عمران میرا بس چلے تو میں تمھیں گولی ماردوں"۔
" کیوں شعر میں کیا غلطی ہے؟"۔
" مجھے شاعری سے دلچسپی نہیں لیکن مجھے دونوں مصرعے بےربط معلوم ہوتے ہیں۔ لا حول ولا قوہ میں بھی انہیں لغویات میں الجھ گیا۔ خدا کے لیے کام کی باتیں کرو۔ تم نےجانے کیا کہہ رہے ہو!"۔
" میں آج رات کو کام کی بات کروں گا اور تم میرے ساتھ ہوگے لیکن ایک سیکنڈ کے لیے بھی وہاں سے پہرہ نہ ہٹایا جائے۔ تمھارا ایک آدمی پر وقت مجاور کے کمرے میں موجود ہونا چاہئے۔بس اب جاؤ!۔۔۔ میں چائے پی چکا ہوں ورنہ تمھاری کافی مدارت کرتا۔ ہاں محبوبہ کو ایک پیغام پینچا دینا کہ رقیب رو سیاہ کا سفایا ہوگیا! باقی سب خیریت ہے!"۔
" عمران میں آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑوں گا! تمھیں ابھی اور اسی وقت سب کچھ بتانا پڑے گا"۔
" اچھا تو سنو۔۔۔ لیڈی جہانگیز بیوہ ہونے والی ہے!۔۔۔ اس کے بعد تم کوشش کرو گے کہ شادی اس کے ساتھ ہوجائے۔۔۔ کیا سمجھے؟"۔
" عمران!"۔ فیاض یک بیک مار بیٹھنے کے انداز میں سنجیدہ ہوگیا۔
" یس باس"۔
" بکواس بند کرو۔ میں ابھی تمھاری زندگی تلخ کردوں گا"۔
" بھلا وہ کس طرح سوپر فیاض؟"۔
" نہایت آسانی ہے!"۔ فیاض سگریٹ لگا کر بولا۔" تمھارے گھر والوں کو شبہ ہے کہ تم سارا وقت آوارگی اور عیاشی میں گزارتے ہو! لیکن کسی کے پاس اس کا ٹھوس ثبوت نہیں۔۔۔ میں ثبوت مہیا کر دونگا۔
ایک ایسی عورت کا انتظام کر لینا میرے لیے مشکل نہ ہوگا جو براہِراست تمھاری اماں بی بی کے پاس پہنچ کر اپنے لٹنے کی داستان بیان کردے"۔
" اوہ"۔ عمران نے تشویش آمیز انداز میں اپنے ہونٹ سکوڑ لیے پھر آہستہ سے بولا۔
" اماں بی بی کی جوتیاں آل پروف ہیں۔ خیر سوپر فیاض یہ بھی کر کے دیکھ لو تم مجھے ایک صابر اور شاکر فرزند پاؤگے!۔۔ لو چیونگم سے شوق کرو"۔
" اس گھر میں ٹھکانہ نہیں ہوگا تمھارا۔۔۔۔"۔ فیاض بولا۔
" تمھارا گھر تو موجود ہی ہے"۔ عمران بولا۔
" تو تم نہیں بتاؤ گے"۔
" ظاہر ہے"۔
" اچھا! تو اب تم ان معاملات میں دخل نہیں دوگے میں خود ہی دیکھ لونگا"۔ فیاض اٹھتے ہوئے خشک لہجے میں بولا۔" اور اگر تم اس کے بعد بھی اپنی ٹانگ اڑاتے رہے تو میں تمھیں قانونی گرفت میں لے لونگا"۔
" یہ گرفت ٹانگوں میں ہوگی یا گردن میں!"۔ عمران نے سنجیدگی سے پوچھا۔ چند لمحے فیاض کو گھورتا رہا پھر بولا۔" ٹھہرو!"۔ فیاض رُک کر اس اسے بےبسی سے دیکھنے لگا۔۔۔۔ عمران نے الماری کھول کر اسے وہی چرمی بیگ نکالا جسے وہ کچھ نامعلوم افراد کے درمیان سے پچھلی رات کو اُڑا لایا تھا۔ اس نے ہینڈ بیگ کھول کر چند کاغذات نکالے اور فیاض کی طرف بڑھا دئیے۔ فیاض نے جیسے ہی ایک کاغذ کی تہہ کھولی بے اختیار اچھل پڑا۔۔۔۔ اب وہ دوسرے کاغذات پر بھی نظریں دوڑا رہا تھا۔
" یہ تمھیں کہاں سے ملے؟"۔ فیاض تقریباَ ہانپتا ہوا بولا۔ شدتِ جوش سے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔
" ایک ردیفروش کی دکان پر۔۔۔ بڑی دشواری سے ملے ہیں ورنہ وہ دو آنہ سیر کے حساب سے"۔
" عمران خدا کےلیے"۔ فیاض تھوک نگل کر بولا۔
" کیا کر سکتا ہے بےچارہ عمران!"۔ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔" وہ اپنی ٹانگیں اڑانے لگا تو تم اسے اپنی قانونی گرفت میں لے لو گے"۔
" پیارے عمران! خدا کے لیے سنجیدہ ہوجاؤ"۔
" اتنا سنجیدہ ہوں کہ تم مجھے بی پی کی ٹافیاں کھلا سکتے ہو"

" یہ کاغذات تمھیں کہاں سے ملے ہیں؟"۔
" سڑک پر پڑے ہوئے ملے تھے اور اب میں نے انہیں قانون کے ہاتھوں میں پہنچا دیا۔ قانون کا کام ہے کہ وہ ایسے ہاتھ تلاش کرے جن میں ہتھ کڑیاں لگا سکے"۔
فیاض نےبسی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
" لیکن اسے سن لو"۔ عمران قہقہہ لگا کر بولا۔" قانون کے فرشتے بھی ان لوگوں تک نہیں پہنچ سکتے"۔
" اچھا تو یہی بتا دو کہ ان معاملات سے ان کاغذات کا کیا تعلق؟"۔ فیاض نے پوچھا۔
" یہ تمھیں معلوم ہونا چاہئے"۔ عمران دفعتہَ سنجیدہ ہوگیا۔" اتنا میں جانتا ہوں کہ یہ کاغذات فارن آفس سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کا اُن بدمعاشوں کے پاس ہونا کیا معنی رکھتا ہے"۔ عمران بولا۔
" کن بدمعاشوں کے پاس؟"۔ فیاض چونک کر بولا۔
" وہی۔۔۔ اس عمارت میں"۔
" میرے خدا!"۔۔۔۔ فیاض مضطربانہ انداز میں بڑبڑایا۔ لیکن تمھارے ہاتھ کس طرح لگے"۔
عمران نے پچھلی رات کے واقعات دہرا دیئے! اس دوران فیاض بےچینی سے سنتا رہا، کبھی کبھی وہ رک کر عمران کو گھورنے لگتا! عمران اپنی بات ختم کر چکا تو اس نے کہا۔
" افسوس۔۔۔ تم نے بہت برا کیا۔۔۔ تم نے مجھے کل یہ اطلاع کیوں نہیں دی"۔
" تو اب دے رہا ہوں اطلاع۔ اس مکان کا پتہ بھی بتادیا جو کچھ بن پڑے کر لو"۔ عمران نے کہا۔
" اب کیا وہاں خاک پھانکنے جاؤں"۔
" ہاں ہاں کیا حرج ہے"۔
" جانتے ہو یہ کاغذات کیسے ہیں"۔ فیاض نے کہا۔
" اچھے خاصے ہیں۔ ردی کے بھاؤ بک سکتے ہیں"۔
" اچھا تو میں چلا!"۔ فیاض کاغذ سمیٹ کر چرمی جیکٹ میں رکھتا ہوا بولا۔
" کیا انہیں اس طرح لے جاؤ گے!"۔ عمران نے کہا۔" نہیں ایسا نہ کرو مجھے ابھی قاتلوں کا بھی سراغ لگانا پڑے"۔
" کیوں؟"۔
" فون کر کے پولیس کی گاڑی منگواؤ"۔ عمران ہنس کر بولا۔" کل رات سے وہ لوگ اس کی تلاش میں ہیں۔ میں رات بھر گھر سے باہر ہی رہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت مکان کی نگرانی ہو رہی ہوگی! خیر اب تم مجھے بتا سکتے ہو کہ کاغذات کیسے ہیں"۔
فیاض پھر بیٹھ گیا۔ اب وہ اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کہا۔
" سات سال پہلے ان کاغذات پر ڈاکہ پڑا تھا۔ لیکن ان میں سب نہیں ہیں۔ فارن آفس کا ایک افسر انہیں لے کر سفر کر رہا تھا۔۔۔۔ یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کہاں اور کس مقصد سے جا رہا تھا کیونکہ یہ حکومت کا راز ہے۔۔۔ آفیسر ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کی لاش مل گئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ سکرٹ سروس کا ایک آدمی بھی تھا، اس کے متعلق آج تک نہ معلوم ہو سکا۔۔۔۔ شاید وہ بھی مار ڈالا گیا ہو۔۔۔۔ لیکن اس کی لاش نہیں ملی"۔
" آہا۔۔۔ تب تو یہ بہت بڑا کھیل ہے۔۔"۔ عمران کچھ سوچتا ہوا بولا۔" لیکن میں جلد ہی اسے ختم کرنے کی کوشش کرونگا"۔
" تم اب کیا کرو گے؟"۔
" ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا!"۔ عمران نے کہا۔" اور سنو ان کاغذات کو ابھی اپنے پاس ہی دبائے رہو اور ہینڈ بیگ میرے پاس رہنے دو۔ مگر نہیں اسے بھی لے جاؤ!۔۔۔ میرے ذہن میں کئی تدبیریں ہیں! اور ہاں۔۔۔ اس عمارت کے گرد دن رات پہرہ رہنا چاہئے"۔
" آخر کیوں؟"۔
" وہاں تمھارا مقبرہ بنواؤنگا"۔ عمران جھنجھلا کر بولا۔
فیاض اُٹھ کر پولیس کی کار منگوانے کے لیے فون کرنے لگا۔


اسی رات کو فیاض بوکھلایا ہوا فیاض کے گھر پہنچا۔ فیاض سونے کی تیاری کر رہا تھا۔ ایسے موقع پر اگر عمران کے بجائے کوئی اور ہوتا تو وہ بڑی بداخلاقی سے پیش آتا۔ لیکن عمران کا معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ اس کی بدولت آج اس کے ہاتھ ایسے کاغذات لگے تھے جن کی تلاش میں عرصے سے محکمہ سراغراسنی سر مار رہا تھا۔ فیاض نے اسے اپنے سونے کے کمرے میں بلوایا۔
" کیا بات ہے۔۔۔ کہو؟"۔
عمران ٹھنڈی سانس کے کر بولا۔" کیا تم کبھی کبھی میری قبر پر آیا کرو گے؟"۔
فیاض کا دل چاہ رہا تھا کہ اس کا سر دیوار سے ٹکرا کر سچ مچ اس کو قبر تک جانے کا موقع مہیا کرے! وہ کچھ کہنے کی بجائے عمران کو گھورتا رہا۔
" آہ! تم خاموش ہو!"۔ عمران کسی ناکام عاشق کی طرح بولا۔" میں سمجھا! تمھیں شاید کسی اور سے پریم ہوگیا ہے"

" عمران کے بچے"۔
" رحمان کے بچے!"۔ عمران نے جلدی سے تصحیح کی۔
" تم کیا میری زندگی تلخ کیے ہوئے ہو"۔
" اوہو! کیا تمھاری مادہ دوسرے کمرے میں سوئی ہوئی ہے"۔ عمران چاروں طرف دیکھتا ہوا بولا۔
" بکواس مت کرو۔۔۔ اس وقت کیوں آئے ہو"۔
" ایک عشقیہ خط دکھانے کے لیے"۔ عمران جیب سے لفافہ نکالتے ہوئے بولا۔
فیاض نے اس کے ہاتھ سے خط لے کر جھلاہٹ میں پھاڑنا چاہا۔
" ہاں، ہاں!"۔ عمران نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔" ارے پہلے پڑھو تو میری جان مزہ نہ آئے تو محصول ڈاک بذمہ خریدار"۔
فیاض نے خط نکالا۔۔۔۔ اور پھر جیسے ہی اس کی نظریں اس پر پڑیں۔ بیزاری کی سارہ علامتیں غائب ہوگئیں اور اس کی جگہ اس تعاجب نے لےلی۔ خط ٹائپ کیا ہوا تھا۔
" عمران !۔۔۔ اگر وہ چرمی ہینڈ بیگ یا اس کے اندر کی کوئی چیز پولیس تک پہنچی تو تمھاری شامت آجائے گی! اسے واپس کر دو۔۔۔ بہتری اسی میں ہے ورنہ کہیں۔۔۔ کسی جگہ موت سے ملاقات ضرور ہوگی۔ آج رات کو گیارہ بجے ریس کورس کے قریب ملو، ہینڈ بیگ تمھارے ساتھ ہونا چاہیے! اکیلے ہی آنا! ورنہ اگر تم پانچ ہزار آدمی بھی ساتھ لاؤ گے تو تب بھی گولی تمھارے ہی سینے میں پڑے گی"۔
فیاض خط پڑھ چکنے کے بعد عمران کی طرف دیکھنے لگا۔
" لاؤ۔۔۔۔ اسے واپس کردو"۔ عمران نے کہا۔
" پاگل ہوگئے ہو"۔
"ہاں"۔
" تم ڈر گئے"۔ فیاض ہنسنے لگا۔
" ہارٹ فیل ہوتے ہوتے بچا ہے"۔ عمران ناک کے بل بولا۔
" ریوالور ہے تمھارے پاس؟"۔
" ریوالور!"۔ عمران اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے ہوئے بولا۔" ارے باپ رے"۔
" بس کرو"۔ عمران برا سا منہ بنا کر بولا۔" اس میں آواز بھی ہوتی ہے اور دھواں بھی نکلتا ہے! میرا دل بہت کمزور ہے! لاؤ ہینڈ بیگ واپس کردو"۔
" کیا بچوں کی سی باتیں کر رہے ہو"۔
" اچھا تو تم نہیں دوگے"۔ عمران آنکھیں نکال کر بولا۔
" فضول مت بکو مجھے نیند آرہی ہے"۔
" ارے واہ۔۔۔ فیاض صاحب! ابھی میری شادی نہیں ہوئی اور میں باپ بنے بغیر مرنا پسند نہیں کرونگا"۔
" ہینڈ بیگ تمھارے والد کے آفس میں بھیج دیا گیا ہے"۔
" تب انہیں اپنے جوان بیٹے کی لاش پر آنسو بہانے پڑیں گے! کنفوشش نے کہا تھا"۔
" جاؤ یار خدا کے لیے سونے دو"۔
" گیارہ بجنے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں"۔ عمران گھڑی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔
" اچھا! چلو تم بھی یہیں سو جاؤ"۔ فیاض نے بےبسی سے کہا۔
کچھ دیر خاموشی ہی رہی پھر عمران نے کہا۔" کیا اس عمارت کے گرد اب بھی پہرہ ہے؟"۔
" ہاں!۔۔۔۔ کچھ اور آدمی بڑھا دیئے گئے ہیں لیکن آخر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو۔ آفیسر مجھ سے اس کا سبب پوچھتے رہتے ہیں اور میں ٹالتا رہتا ہوں"۔
" اچھا تو اٹھو! یہ کھیل بھی اسی وقت ختم کر دیں! تیس منٹ میں ہم وہاں پہنچیں گے باقی بچے بیس منٹ! گیارہ سوا گیارہ بجے تک سب کچھ ہوجانا چاہئے"۔
" کیا ہونا چاہئے؟"۔
" ساڑھے گیارہ بجے بتاؤں گا۔۔۔! اٹھو!۔۔ میں اس وقت عالمِ تصور میں تمھارا عہدہ بڑھتا ہوا دیکھ رہا ہوں"۔
" آخر کیوں؟ کیوئی خاص بات؟"۔
" علی عمران ایم۔ایس۔سی۔پی۔ایچ۔ڈی۔ کبھی کوئی عام بات نہیں کرتا۔ سمجھے ناؤ گٹ اپ!"۔
فیاض نے لباس تبدیل کیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی موٹر سائیکل بڑی تیزی سے اس دیہی علاقے کی طرف جا رہی تھی جہاں وہ عمارت تھی! عمارت کے قریب پہنچ کر عمران نے فیاض سے کہا۔
" تمھیں صرف اتنا کرنا ہے کہ تم اس وقت تک قبر کے مجاور کو باتوں میں الجھائے رکھو جب تک میں واپس نہ آجاؤں۔ سمجھے! اس کے کمرے میں جاؤ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس کا ساتھ نہ چھوڑنا"۔

 

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page