
میرا رکھوالا - مصنفہ: ثمرین شاہ
قسط نمبر ایک
لوکیشن :Cannes ,France
بورڈ روم میں سب بیٹھے اپنے باس لقمان حمید کا انتظار کررہے تھے سب کو حیرانی تھی کے رات کے گیارہ بجے انہوں نے کس مقصد کے لیے ان کو بلوایا ہے
کوئی سوچ رہا تھا کے نہیں فلم کے بارئے میں ڈسکشن کرنی ہوگئی تو کوئی اس بات سے انکاری تھا کے فلم کی ڈسکشن وہ بھی رات کے گیارہ بجے امبوسپل لقمان صاحب اتنے پاگل نہیں تھے ضرور کوئی سریس بات ہوگئی ابھی وہ سب سوچ رہے تھے کے اچانک بورڈ روم کا دروازہ کھلا اور لقمان حمید اندر داخل ہوئے ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ کے بجائے سنجیدگی چھائی ہوئی تھی انکھوں میں تھکن نظر ارہی تھی جیسے بہت عرصے سے ان کی نیند پوری نہیں ہوئی ہوں حلانکہ صبح تک بلکل ٹھیک تھے لیکن اچانک ان کی حالت کو دیکھ کر سب چونک پڑئے
"سر سب خیرت ہے نا آپ نے اچانک ہمیں کیوں بلوایا ۔"
"کچھ نہیں بیٹھوں مجھے بس ضروری بات کرنی ہے تم لوگوں سے ۔"
وہ یہ کہہ کر اپنی کُرسی کی طرف ائے لیکن بیٹھے نہیں بس اپنا بازو چیر پر ٹکا دیا اور پھر اپنے سکیڑی کو اشارہ کیا جو پہلے ہی اس کمرے میں کھڑی تھی اس نے لقمان صاحب کی انکھوں کے اشارے کو سمجھ کر پروجیکٹر ان کیا اور پھر ان کی پھیچے دیوار پر پوائنٹ کیا پھر اس نے لیپ ٹاپ ان کر کے لقمان حمید کے پاس ائی لقمان حمید نے اس کو جیب سے یو اس بی نکال کر دی اور اس کے کان میں کچھ کہا وہ سر ہلا کر دوبارہ اس طرف ائی
"لقمان کچھ بتاو تو صیح اتنا سسپنس کیوں کرئیٹ کررہے ہوں ۔"
نوید لقمان کا گہرا دوست جو اتنی دیر سے خاموش تھا ایک دم جنجھلا کر بول پڑا
"ابھی پتا چل جائے گا صبر کرو تم ۔"
لقمان حمید نے نوید کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کے نوید احمد چونک پڑئے
فانسی نے لائٹس اف کردی اور پھر پروجیکٹر کی روشنی دیوار پری اس میں فانسی نے ایک فائل کھولی اور ایک فوٹو کو کلک کیا وہ فورن اوپن ہوگئی اور اس تصویر کو دیکھ کر سب کی سانسیں رُک گئی اور انکھیں حیرت سے پھٹ گئی
"لقمان یہ یہ ۔۔۔۔۔۔"
سب سے پہلے آواز نوید احمد کی نکلی اور لقمان احمد ایک بار پھر عجیب انداز سے مسکرا دیا
"نوید پہچانا ۔۔۔۔۔۔۔کل اس نے میرے گھر پر حملہ کیا تھا ۔"
ان کی آواز سپاٹ تھی لیکن نوید کو نجانے کیوں ان کا لہجہ سخت لگا
..................................................................
لوکیشن : Shandara village . Islamabad
لینڈ کروزر بڑی ہی تیزی سے چل رہی تھی لیکن راستے کچے ہونے کے باعث بار بار رُک رہی تھی لیکن ڈرایور آہستہ چلانے کا نام ہی نہیں لیے رہا تھا اس تو جلدی تھی کے وہ پہنچے
کار کے شیشے نیچے ہوئے اور اس میں ایک نو سال کی بے انتہا خوبصورت بچی نے اپنا سر باہر نکلا اور اس جگہ کو دیکھا جہاں ہر طرف کھیت ہی کھیت ہریالی ہی ہریالی تھی اس کی ہیزل بروان انکھیں چمک اٹھی آج سے پہلے اس نے یہ جگہ نہیں دیکھی تھی فرانس کے علاقے کینن میں ہر وقت دھوپ ہی دھوپ ہوتی تھی اور اسے دھوپ سخت بُری لگتی تھی بارش پہلے ہوچکی تھی اور ابھی بھی دوبارہ ہونے والی تھی کیونکہ بادل گرج رہے تھے گیلی مٹی کی خشبو اور ٹھنڈی ٹھنڈی تیز ہوائوں نے اس کے خوبصورت گلابی ہنٹوں پر بڑی سی مسکراہٹ لیے ائی تھی بارش شروع ہوچکی تھی
بارش کی نھنی نھنی بوندئے اس کے ملائم چہرے پر پڑنے لگی اس نے اپنا چھوٹا سا ہاتھ باہر نکالا اور پانی کو اپنی مُٹھی میں قید کرنے لگی
"مہر اندر او بمیار ہوجاوں گی ۔"
پارسا نے اپنے اس گڑیا کو اندر کیا لیکن خاموش سی گڑیا نے اس بار ضد کی
"Maman pluie
(مما بارش !!!)
وہ فرنچ میں بولتے ہوئے اپنی ماں کو گیلا ہاتھ دکھانے لگی پارسا نے مسکرا کر اپنی اس باربی ڈول کے سینڈ براون بالوں کو سہالیا اور وہ دوبارہ شیشے کی طرف جانے لگی کے پارسا نے اسے بازو کے گھیرے میں لیا
"بے بی ابھی ہم پہنچنے لگے ہیں پھر انجوائی کرنا ٹھیک ہے ۔"
انہوں نے مہر کے پیشانی چومئ مہر نے اپنا منہ پھولا لیا پر وہ ہلی نہیں لیکن اس کی نظریں اس طرف ہی تھی
پھر وہ ایک بڑے سے فارم ہاوس کے طرف پہنچے جس کے بڑے سے گیٹ پر حمید پیلس لکھا ہوا تھا دروازہ اٹومیٹک سسٹم پر کھلا ،کار اندر داخل ہوئی آب کی بار بارش میں تیزی اگئی تھی
فرنٹ سیٹ پر بیٹھے لقمان حمید کے چہرے پر عجیب سی جنجھلاہٹ اگئی انہیں بارش سے سخت چڑ تھی
"عباس کار کو شیڈ کی طرف لیے جاو اور اسے صاف کروادینا۔"
"جی صاحب جی !"
عباس کہہ کر کار کو شیڈ کی طرف لیے گیا زاویار جو پودوں کو شیڈ کی طرف لیے کر جارہا تھا ایک دم گاڑی کو دیکھ کر اس کے ہاتھ سے گملہ چھوٹ گیا عباس نے اپنے بیٹے کو دیکھ کر ایک دم بریک لگائی
"کیا ہوا !!!"
لقمان حمید غصے سے بولے
"وہ صاحب جی میرا پُتر زاویار ۔"
لقمان حمید نے سامنے اس تیرہ سال کے بچے کو دیکھا
زاویار ان کی نظر خود پر پاکر آیک دم بھاگ پڑا مہر کی نظر اس پر پڑی اس نے پھیچے مڑ کر دیکھا وہ آب غائب ہوچکا تھا
"اپنے بیٹے کو مینرز سیکھاوں اور یہ گند تم اس سے صاف کروانا ۔"
لقمان صاحب غصے سے بولے
"جی صاحب جی ۔"
مہر کو اپنے باپ کے غصیلے لہجے پہ ناگواری ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساجدہ روٹی پکا رہی تھی اچنک دروازہ کھلنے کی آواز ائی اس نے دیکھا زاویار اندر ایا وہ کافی حد تک بھیگ چکا تھا
"ارئے زاویار تم تو کافی بھیگ چکے ہوں اِدھر آو ۔"
بے بے اسے دیکھتے ہوئے بولی
زاویار بھاگتے ہوئے بے بے سے لپٹ گیا اور رونے لگا
"ارے کیا ہوا ہے بتاو مجھے رو کیوں رہے ہو ۔"
"بے بے ابا نے بہت مارا ہے ۔"
زاویار کانپتے ہوئے بولا
"کیوں مارا ہے ۔"
بے بے حیرانگی سے بولی
"میں بتاتا ہوں ۔"
اچانک ابا کی آواز سن کر زاویار بے بے کے گود میں مزید چھپ گیا
"او ادھر ا تو بے غیرت ۔"
عباس نے اسے کھینچا
"ارے ارے کی کررہے ہوں تُسی بچہ ہے ۔"
"بچہ !منع بھی کیا تھا اسے حمید پیلس نہ ائی پر یہ سنے کسی کی تب نا۔"
وہ زاویار کو مارنے لگا
"ابا چھوڑئے میں تو گملوں کو اٹھا رہا تھا ۔"
زاویار روتے ہوئے بولا
"کس نے کہا تھا تجھے گملوں کو اٹھانے کو ۔"
"ابا کسی نے نہیں کہا لیکن وہ دھوپ والے پودئے تھے تو میں نے سوچا انہیں شیڈ کے پاس لیے جاو ۔"
"ہاں تو بس یہاں کا ایک سینا ہے ہم تو عقل سے پیدل ہے نا۔"
عباس نے ایک اور تھپڑ زاویار کے منہ پر مارا زاویار کے گال جل اٹھے وہ چیخ پڑا ۔
"چھوڑئے اسے ۔"
بے بے نے زاویار کو کھینچ کر اپنے سینے سے لگا دیا جبکہ وہ زور زور سے رونے لگا
"سمجھا دئے اسے منہ کالی بیڑ نا ہوں تو ۔"
وہ اسے شعلہ بار نظروں سے دیکھتے ہوئے کہہ کر چلا گیا
جبکہ زاویار ایک دم خاموش ہوگیا کیا سب اسے نفرت کئ نگاہ سے اس لیے دیکھتے ہیں کے وہ بدصورت ہے
اسے اپنے آپ سے نفرت محسوس ہورہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر کچن کی طرف گئی اس نے دیکھا وہاں کام والے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے مہر اندر ائی اور اس نے فریج کھولا
"چھوٹی بی بی آپ کو کچھ چاہیے ۔"
ساجدہ جو کھانا بنا رہی تھی مہر کو دیکھتے ہوئے بولی
مہر کو ان کی لینگویج سمجھ نہیں ائی اس نے نفی میں سر ہلایا
انہوں نے سر ہلایا اور دوبارہ کام میں لگ گئی
مہر کو انگور کھانے تھے لیکن اس کو فریج میں نہیں ملے
Je veux manger des raisins
(مجھے انگور کھانے ہیں ۔")
اس نے ان سب کو بولا کسی کو اس کی انوکھی ترین زبان پلے بلکل نہیں پڑی
"کیا چاہیے آپ کو ۔"
آب مہر کو ان کی زبان سمجھ نہیں ائی
"Les raisins
(انگور )
"ائے ہائے ساجدہ ائی کُڑی کی کہہ رہی ہے ۔"
جمیلہ جو آٹا گوند رہی تھی اس چھوٹی سی فارنر کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی
"پتا نہیں آپا مجھے تو کچھ سمجھ نہیں ارہی ۔"
مہر نے انہیں اشارہ سے سمجھایا تب بھی وہ سمجھ نہ سکے
Mere mere
(امی !امی!)
وہ باہر نکلتے ہوئے بولی
"ہائے بڑی عجیب کُڑی ہے ۔"
زاویار کو کہا گیا تھا کے فارم ہاوس کے گارڈن سے مہر بے بی کے لیے فروٹس لیے ائے وہ وہاں جارہا تھا جب ایک لڑکی کی آواز پر مڑا
Pere mere
(ابو !امی !)
مہر پھیچے والے لان کی طرف اگئی تھی جس طرف گارڈن کا دروازہ تھا زاویار کی انکھیں حیرت سے کھل گئی وہ بہت خوبصورت بچی تھی کوئی گڑیا ایسی گڑیا تو اس نے کہی نہیں دیکھئ تھی مہر اس وقت لمبی سی پنک فراک اور بالوں میں بو باندھے کوئی شہزادی ہی لگ رہی تھی
مہر نے دوسری طرف دیکھا تو ایک لڑکے کو سامنے بڑے سے وڈن دروازے پر کھڑا دیکھ کر چونک پڑی یہ تو وہی تھا جس سے دیکھ کر بابا کو غصہ چڑ گیا تھا
پانچ فٹ دو انچ ہائٹ ،گہرا سانولہ رنگ ،بہت ہی عام سے نقوش موٹا بدھا جسم وہ بہت ہی بدصورت تھا لیکن مہر کی نظروں میں ناجانےکیوں وہ یونیق لگا
زاویار اس کے دیکھنے پر گڑبڑا گیا اور تیزی سے دروازہ کھولا
"ہے !!!! "
مہر تیزی سے اس کی طرف ائی زاویار اندر داخل ہوچکا تھا
یہ بہت ہی خوبصورت اور بے حد بڑا فارم گارڈن تھا جہاں ہر طرف ہر قسم کے پھل اور سبزیاں لگی ہوئی تھی بیج میں چلنے کے لیے ایک وئے بنایا ہوا تھا اور اس کے اگئے انگور اور سیب کے درخت تھے اور سائڈ پہ دو پونیز کھڑئے ہوئے تھے اور چاڑا کھا رہے تھے قریب ہی ان کا چھوٹا سا ریڈ کلر کا ہٹ بنا ہوا تھا مہر نے پہلے زاویار کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا پھر اس نے دور سے ہی سفید کلر کا پونی دیکھا پھر خوشی سے اس کی طرف بھاگی وہ ہلکہ سے زوایار سے ٹکرائی اور زاویار وہی ٹہر گیا
Poneys
وہ خوشی سے کھکھلا ئی اور پونی کے پاس اکر اس کے اوپر ہاتھ پھیرنے لگی پونی نے تھوڑا سا منہ ادھر کیا وہ ڈر کے پھیچے ہوئی پھر دوبارہ ہنستے ہوئے اس کے قریب ائی زاویار تو جیسے مسمرائز ہوگیا پھر ایک دم چونکہ پھر پاس پڑی ہوئی باسکٹ سٹینڈ سے باسکٹ اٹھائی اور انگور کی درخت کی طرف ایا
مہر ابھی تک پونی کو سہلا رہی تھی زوایار نے سیری سیٹ کی اور اوپر چھڑا
مہر نے اسے دیکھا پھر اس طرف ائی اس نے دیکھا وہاں اوپر انگور تھے وہ خوش ہوئی
Les raisins les raisins
(انگور انگور )
زاویار نے اسے دیکھا جو نیچے سے ہی چلا رہی تھی
اسے اس کی زبان سمجھ میں تو نہیں ائی پر وہ اس کے اشارے سے سمجھ گیا تھا اسے انگور چاہیے
زاویار نے تیزی سے نکال کر باسکٹ میں ڈالے اور جمپ لگائی مہر ایک دم پھیچے ہوئی
"سوری میم ۔"
زاویار نے باسکٹ اس کے سامنے پیش کی اور سر جکھا لیا وہ نہیں چاہتا تھا اس کے بد صورت ہاتھ سے وہ انگور لے
J'ai besoin d'être lavés
(مجھے دھوئے وئے چائیے ۔)
زاویار کی انکھیں حیرت سے پھیل گئی اسے انگلش اتی تھی اور وہ جانتا تھا یہ انگلش کا لفظ ہرگز نہیں ہے
مہر نے گہرا سانس لیا آب اسے پھچتاوا ہورہا تھا کاش وہ ممی کی بات مان لیتی اور انگلش اور آردو کی کلاس اٹینڈ کر لیتی لیکن وہ ٹیچر تھا ہی اتنا خوفناک کے اس کو دیکھ کر اسے ایک ہفتے سے نیند نہیں ائی اور ابھی بھی اس کا سوچتے ہوئے مہر دوبارہ کانپ گئی
زاویار نے اسے کے سفید چہرے کو دیکھا پھر پریشانی سے بولا
"انیی برابلم مس ؟"
مہر نے اسے دیکھا وہ سمجھ گئی وہ کیا پوچھنا چارہا ہے اس نے نفی میں سر ہلایا پھر اس نے زاویار سے باسکٹ لی اور ٹریک کی طرف چلنے لگی زاویار بس وہی کھڑا رہا اور اسے دور جاتا ہوا دیکھنے لگا یہ تھی ان کی پہلی ملاقات تھوڑی عجیب تھی نہ ان کی زبان ایک جیسی تھی ،نہ ان کا رہن سہن ایک جیسا تھا ،ان کی شکلوں صورت میں زمین آسمان کا فرق تھا لیکن کچھ تھا ان کی درمیان جو ان کو معلوم نہیں تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ویسے لقمان صاحب کی دئی کتنی سونی ہے ہائے پوری ڈول ہے قسم سے ہے نا زاویار ۔"
زاویار پڑھ رہا تھا جب بے بے کپڑے سیتے ہوئے بولی
"بے بے یہ لوگ کہاں سے آئے ہیں ۔"
"بتایا تو تھا والیت سے ائے ہیں۔"
"بے بے والیت کا کوئی نام بھی ہوتا ہے ۔"
زوایار ہنستے ہوئے بولا
"ہنس کیوں رہے ہو مجھے کیا پتا ہے کیا نام ہوتا ہے ہاں بی بی جی کچھ کہہ رہی تھی او کیا کہتے فر فر فاراس بڑا ہی کوئی عجیب نام ہے ۔"
"آپ فرانس کہنا چارہی ہوگئ بے بے ۔"
زاویار گہری مسکراہٹ سے انہیں دیکھتے ہوئے بولا
"ہاں ہاں وہی بھی بہت ہی مشکل نام ہے سڈا پکستان دا نام چنگا ہی ہے آرام نال بولن جاندا ہے ۔"
بے بے مسکراتے ہوئے بولی
زوایار ہنس پڑا
"وہ اس لیے کیونکہ یہ آپ کا ملک ہے تبھی آپ سے بولا جارہا ہے ویسے فرانس اتنا مشکل نام نہیں ہے ۔"
زوایار نے کام مکمل کیا اور ان کے پاس اکر بیٹھ گیا
"لو جی وہ فارنر کُڑی پتا نہیں کیا بولے جارہی تھی جب سمجھ نہیں ائی تو میرے میرے لگائی ہوئی بھاگی ۔"
"اسے انگور چائیے تھےبے بے ۔"
زاویار کو یہ ساری سچویشن دلچسپ لگی بے بے نے دھاگہ اپنے دانتوں سے کاٹا پھر ایک دم چونک کر اسے دیکھا "تجھے کیسے پتا ؟"
پھر زاویار نے انہیں سب بتایا تو وہ ہنس پڑی پھر ایک دم بولی
"یہ لے تو جا بی بی کو یہ ڈریس دئے ا ۔"
"یہ کس کا ہے بے بے ۔"
زاویار نے بلیو کلر کی لمبی سی فراک کو اپنے ہاتھ میں لیا اور اسے دیکھتے ہوئے بے بے سے پوچھا
"یہ مہر کا ہے بیٹا تھوڑا سا پھٹ گیا تھا پارسا بی بی پھینکنے والی تھی لیکن مہر کو بہت پسند تھی اس نے رونا شروع کردیا تو پارسا بی بی نے مجھے کہا آب جاوں دئے او اورجلدی اجانا ٹھیک ہے ۔"
زاویار سر ہلا کر چل پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :Cannes France
وہ ہنستے ہوئے اپنے دوستوں کے ساتھ مال سے باہر نکلی اس کی ہائی ہیل کے سٹریپس ٹوٹ گئے تھے وہ جنجھلا کر جکھی
دور سے ہی شوٹر جو اس پوائنٹ کررہا تھا ایک دم شوٹ کرنے لگا تھا اس کے نیچے ہونے پر اس کا کام آسان ہوگیا تھا اس نے ٹریگر دبایا ہی تھا کے وہ جھکنے کے بجائے آب بیٹھ گئی شوٹر نے ایک بار پھر تحمل سے پھر اس پر فوکس کیا
" ہرئی آپ یار کتنی دیر لگاو گئی ۔"
اس کی دوست جمیہ نے کہا
"یار ایک سکینڈ ایک تو اس جوتی کو بھی ابھی ٹوٹنا تھا ۔"
اس نے اپنی بالوں کی لٹوں کو سائڈ پہ کیا تب تک بندہ ٹریگر دبا چکا تھا لیکن اِس کی بدقسمتی اور اُس کی خوش قسمتی کے وہ بچ گئی کیونکہ وہ جلدی اٹھ گئی تھی
مہر کی ایک دم چیخ نکل پڑی
سارے لوگ فائر کی آواز پر ڈر پڑئے اور نیچے جکھی
"او شٹ !!!"
اس کی دوست تیزی سے اس کی طرف ائی
"تم ٹھیک ہوں ۔"
مہر نے ایک دم اِدھر اُدھر ہوکے دیکھا تب تک اس کا ڈرایور تیزی سے کار لایا اور مہر کو سمجھ نہیں ائی کے کس نے اس کو اٹیک کرنے کی کوشش کی ہے
"مہر چلوں یہاں پر ایک دم رش ہوگیا ہے چلوں ۔"
مہر فورن کار میں بیٹھی اس کو سانس نہیں ارہی تھی
"ڈیڈی کو کال کرو ۔"
"یہ لو مہر پانی پیو ۔"
"میں نے کہا ڈیڈی کو کال کرو ۔"
مہر گھبڑا کر بولی
پولیس کے سائرن کی آواز ارہی تھی اور بہت سے لوگ بھاگتے ہوئے نظر ائے اس کے بعد مہر کو کچھ سمجھ نہیں ائی اور اس کی انکھیں آہستہ سے بند ہونے لگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :London United Kingdom
اس نے دروازہ ناک کیا سنیر افسر عمیر رضا جو فائل دیکھ رہے تھے مصروف انداز میں بولے
"کم ان !!"
دروازہ کھلا
"سر کیا میں اندر اسکتا ہو ۔"
عمیر رضا کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ اگئی لیکن انہوں نے نظریں فائل سے نہیں ہٹائی تھی
"تمہاری یہ عادت کب بدلے گئ زاوی ۔"
زاویار ہنستا ہوا اندر ایا
"عادت کھبی بدلتی ہے سر اور آپ کے لیے کچھ بھی سر ۔"
زاویار کے انکھیں شرارت سے چمک اٹھی عمیر صاحب اس نوجوان کو دیکھنے لگے جو کتنا ٹلینٹٹ کے ساتھ موزب تھا اور خوبصورت سارے افسروں میں سے ہی کوئی ہو اس کے سارے میٹس اسے "provocative creature کہتے ہیں اسے لگ بھگ ساری قسم کئ زبانیں اتی ہے اکسڑمیلی شارپ مائنڈ اس نے تقریباً دو سال کے اندر بیس بڑے رسکی کیسس حل کیے ہیں دوستوں اور اپنوں کے لیے جتنا وہ صوبر ،ہنس مکھ تھا اتنا ہی کمینہ اور درندہ وہ دشمنوں کے لیے تھا
عمیر صاحب کی آرزو تھی کے وہ ان کا داماد بنے لیکن ایک بیٹی کا باپ کو یہ کہنے کی ہمت نہ تھی حتاکہ زاویار ان کی بہت رسپیکٹ کرتا تھا لیکن انہیں یہ زیب نہیں دیتا کے وہ اپنی بیٹی کا ہاتھ اس طرح مانگے
"سو سر کوئی نیا کیس میں تو تھک گیا ہو اتنی چھٹیا ۔"
زاویار ان سے مل کر کُرسی پہ بیٹھ کر پیپر ویٹ گھماتے ہوئے بولا عمیر صاحب ہنس پڑے
"تم وہ پہلے لڑکے ہو جو چھٹیوں سے بور ہوگیا ہے ۔"
"کیا کرو کچھ ہے ہی نہیں کرنے کو ۔"
"کوئی اکٹویٹز ڈھونڈوں کہی گھموں پھروں ۔"
"سر آپ کو پتا ہے سیر و تفریح مجھے کھبی انسپائرڈ نہیں کرتی اور رہی بات اکٹویٹز کی تو وہ ڈھونڈنے ایا ہو نا کوئی کیس ۔"
"ایک تو حد ہے لڑکے چوبیس سال کے ہو لیکن مجال ہے کوئی مزئے کرو تم ۔"
"سر مزا تو مجھے کام میں ہی اتا ہے ۔"
"چلو پھر مجھے لگتا ہے تم ہی سو ٹیبل ہو اس کیس کے لیے پاکستان جانے کی تیاری کرو ۔"
"واٹ !"
زاویار کی انکھیں حیرت سے پھیل گئی اور پیپر ویٹ پہ گھماتے ہوئے اس کا ہاتھ رُک گیا
"یس ینگ مین یہ لیے فائل ۔"
انہوں نے زاویار کو فائل پکرائی زاویار نے لی اور کھولی
"اس لڑکی کی جان خطرے میں ہے دو دفعہ اس پر حملہ ہوا ہے ایک مال میں پھر دوسرا اس کے گھر میں دونوں دفعہ خوش قسمتی سے اس کی جان بچ گئی اس کے باپ کا کہنا ہے اس کی کسی سے دشمنی نہیں ہے نہ ہی اسے کھبی کسی قسم کی دھمکی ملی ہے یہ کون ہے جو اس بچی پر چپ چاپ اٹیک کیے جارہا ہے اس کا باپ نے پہلے پولیس کو انفورم کیا لیکن کوئی پکے ثبوت نہیں مل رہے مجھے تو کوئی یہ پکا کھلاڑی لگ رہا ہے وڈ ڈیو سئے ینگ مین ۔"
زاویار بس خاموش تھا اس کی نظر صرف ایک انکھوں پر تھی وہ تھی ہیزل انکھوں پر زاویار اسے پورے گیارہ سال بعد دیکھ رہا تھا وہ بلکل ویسی تھی باربی ڈول
فرق صرف اس کی قد ،بال اور سراپے پہ ایا تھا باقی وہی تھی زاویار کھبی سوچ نہیں سکتا تھا تقدیر انہیں دوبارہ ملائی گئی تو ایسے ملائی گئی
"جی سر مجھے یہ کیس کافی انٹرسٹنگ لگ رہا ہے آپ میری مسڑ لقمان سے میٹنگ کروادئے ۔"
زاویار کا لہجہ بے حد عجیب سا تھا عمیر صاحب اس کے لہجے پر چونک پڑئے پر سر ہلاتے ہوئے بولے
"آر یو شیور کافی رسک ہے اس میں ۔"
"سر رِسک تو بہت سارے کیسس میں تھے یاد ہے آپ کو افغانستان والا کیس ۔"
زاویار مسکراتے ہوئے بولا
"کیسے بھول سکتا ہوں میں ہمیں لگا تم ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہوں پر گاڈز بلیسنگ ۔"
زاویار کی مسکراہٹ دھمیی پر گئی کیونکہ یہ خبر سنتے ہی "کے زاویار مر گیا ہے ۔"بے بے کو دل کا دورہ پڑ گیا اور وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی
"اینی ویز سر ائی ہف ٹو گو آب تو بڑا انٹرسٹنگ کیس ملا ہے ۔"
زاویار اٹھتے ہوئے اکسائٹٹ انداز میں بولا عمیر صاحب ہنس پڑئے
"ارئے رُک جاو کھانا تو کھالو ۔"
"نیکسٹ ٹائم سر ۔"
زاویار نے انہیں سلوٹ کیا اور چل پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :Shandara village Islamabad
زاویار نے دروازے پر دستک دئی مہر جو ٹی وی دیکھ
رہی تھی ایک دم اس نے اٹھ کر کھولا اور زاویار کو دیکھ کر حیران ہوئی وہ کچھ بولنےلگی جب زاویار نے اس کی ڈریس اگئے کی
"میم آپ کی ڈریس ."
زاویار اہستگی سے بولا
مہر نے جب اپنی فیورٹ فراک دیکھی تو خوشی سے اس سے لی
Merci
(تھینک یو )
زاویار سمجھ گیا وہ کیا کہنا چارہی ہے اس لیے سر ہلاتے ہوئے واپس مڑنے لگا
کے مہر نے اس کا ہاتھ پکر لیا زاویار ایک دم کرنٹ کھا کر مڑا مہر نے اسے اندر انے کا اشارہ کیا
زاویار نے آیک دم تیزی سے ہاتھ چھڑوایا اور بھاگ پڑا
مہر نے اسے حیرت سے جاتے ہوئے دیکھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنا کوٹ صوفے پہ پھینکتے ہوئے اس نے رموغ کنڑول اٹھا کر ٹی وئی ان کی اور صوفے پہ پھینکتے ہوئے کچن کی طرف بڑھا اس نے فریچ سے انرجی ڈرنک نکالا اور پھر دوبارہ صوفے کی طرف ایا اور بیٹھ گیا فون کی بیل پر اس نے فون اٹھایا
"ہلیو !"
"ہلیو زاویار صاحب بات کررہے ہیں ۔"
"ام یس آپ کون ۔"
میں لقمان حمید بات کررہا ہو عمیر صاحب نے آپ کو بتایا ہوگا ۔"
"زاویار ایک دم سیدھے ہوکے بیٹھ گیا اسے ہرگز امید نہیں تھی مطلب ابھی وہ عمیر سر سے مل کر ایا اور ہامی برھی ،تو فورن انہوں نے فٹافٹ کال کردئی مطلب کچھ زیادہ ہی مسئلہ تھا اور سب سے زیادہ اسے ہنسی ان کے زاویار سر پر کہنے پہ ائی ہا تقدیر انسان کو کہاں لاکھڑا کردیتی ہے
"جی بولیے لقمان صاحب کیا کہنا ہے آپ کو زاویار عباس سے ۔"
زاویار نے اس طرح بولا جس سے لقمان صاحب ایک دم ساکت ہوگئے
...............................................................
لوکیشن :Cannes France
"پاپا آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں ۔"
مہر ان کے کمرئے میں اتے ہوئے چیختے ہوئے بولی
"یہ بہت ضروری ہے مہر اس میں تمہاری بھلائی ہے ۔"
"بھلائی !آپ میری اس گنوار کے ساتھ شادی کروارہے ہیں اور آپ کو پتا ہے نا اس نے کیا کیا تھا میرے ساتھ بھول گئے آپ گیارہ سال پہلے کیا ہوا تھا ۔"
اس کی اس بات پر لقمان صاحب کے ماتھے پر پسینہ اگیا
"مہر بھول جاو اس وقت زاویار بچہ تھا ہو جاتی ہے غلطی ۔"
مہر کی پہلے انکھیں حیرت سے پھیلی پھر اس کی چہرے پر زہریلی مسکراہٹ ائی
"واو غلطی ! اور بچہ papa are you drunk
مہر تیزی سے بولی
"جو بھی ہو مہر آب وہ بڑا سلجھا ہوا لڑکا ہے ،تم دیکھوں گئی تو حیران رہ جاوں گئی ۔"
"سٹاپ اٹ پاپا میں زاویار سے ہرگز شادی نہیں کرو گئی اور نہ میں اس گھٹیا علاقے میں جاوں گئی ۔
"تم حمید پیلس ہی رہوں گئی ۔"
"نو نو اور آپ کو ہوکیا گیا ہے اس بدشکل سے میری شادی کروانا چاہتے ہیں آپ اپنے برادری میں بےعزتی کروائے گئے اس جاہل سے شادی کروا کر ۔"
لقمان صاحب خاموش رہے انہیں سمجھ نہیں ارہی تھی کے وہ مہر کو کیسے بتائے ۔"
"ٹھیک ہے مہر تم مت کرو شادی لیکن کچھ دن کے لیے پاکستان جاوں اور زاویار سے مل لو پھر سوچ لینا لیکن یہ تمہارے لیے بہت ضروری ہے ."
مہر نے اپنے مٹھیاں اور لب ایک ساتھ بھنیچ لی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کے وہ آخر کرئے تو کیا کرئے
لیکن کچھ سوچ کر بولی
"ٹھیک ہے پاپا میں پاکستان جاو گئی بٹ اونلی فور ون منتھ اور میں اس جاہل سے ہرگز شادی نہیں کرو گئی ."
مہر اہستگی سے بولتی ہوئی کمرئے سے نکل پڑئی جبکہ
لقمان صاحب اس کے جلدی مان جانے پہ حیران ہوئے
خیر چلو جو ہوا اچھا ہی ہوا پر آب ان کے دل میں خوف اگیا تھا اگر مہر کو سچ پتا چل گیا تو وہ کیا کرئے گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :Shandara Islamabad
مہر بالکنی کی طرف ائی اور وہ دور سے زاویار کو دیکھے جارہی تھی جو پودوں کو پانی دئے رہا تھا لیکن وہ ہلنے کے بجائے ایک جگہ سٹل کھڑا تھا مہر چپ چپ ریلنگ پر ہاتھ ٹکائے ببل گم چبائی جارہی تھی
اور اُدھر زاویار مہر کو سوچ رہا تھا کسی نے اس کے بارئے میں پوچھنا تو دور دیکھنا بھی درد کار نہیں کرتا صرف ایک بے بے تھی جن کو وہ عزیز تھا وہ تو ان کی اولاد تھا اس لیے ورنہ بے بے کے لیے غیر ہوتی تو پھر اس منہ کالی بیڑ کو نہ دیکھتی ہاں وہ اس گاوں کا منہ کالی بیڑ کے نام سے مشہور تھا کوئی اس کے قریب نہیں اتا تھا ،وہ کلاس میں ایک کونے میں ہمیشہ اکیلا بیٹھتا تھا ,کوئی اس کا دوست نہیں تھا ،سکول کے ماسڑ جی بھی اسے مارتے تھے ویسے تھا تو بڑا لائق بس بچوں کے مزاق سے بچنے کے لیے کلاس میں بہت کم اتا تھا
اس کی شخصیت مزید دبتی جارہی تھی وہ لوگوں کے دیکھ کر گھبڑا جاتا تھا اسے لگتا تھا آب اس کا مزاق اڑائے گئے اور ہوتا بھی ایسا تھا کوئی نہیں کوئی اس کی شکل پر تنقید کرجاتا تھا وہ پہلے روتا تھا پھر اس نے اگنور کرنا شروع کردیا تنہائی اور کتابیں اس کے دوست بن گئے تھے
"اوئے کب سے یہاں کھڑا ہے جا کھڑکھی صاف کر صاحب جی نے کمپلین کی ہے چل جا ۔"
سمیر جو یہاں کا نوکر تھا اور زاویار سے تین سال بڑا اس کے سر پہ چپیٹ لگا کر بولا
زاویار نے سر ہلا کر فورن وہاں سے گیا
مہر نے ناگواری سے سمیر کو دیکھا جس نے زاویار کو چپیٹ لگائی تھی یہ کوئی طریقہ ہے بھلا
اس نے ریلنگ سے ہاتھ ہٹائے اور نیچے والے پورشن کی طرف چل دیے
"مہر جانو کدھر جارہی ہوں ۔"
پارسا جو مہر کے کپڑئے تہہ کررہی تھی اس کو کمرئے سے نکلتا ہوا دیکھ کر بولی
Downstair je suis très ennuyé
(نیچے جارہی ہو بہت زیادہ بور ہورہی ہو ۔")
اس نے نیچے جانے کی وجہ ساتھ بتا کر چل پڑی
اس گھر میں دو لائونج تھے وہ کامن لائونج میں گھسی دیکھا زاویار کھڑکیوں کو صاف کررہا تھا اس نے مہر کو بس ایک نظر دیکھا تو پھر اپنے کام میں لگا رہا مہر اس سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن اس کو پتا تھا وہ اس کی زبان نہیں سمجھ سکے گا
تو وہ خاموشی سے صوفے پے جا بیٹھی اور ریموٹ اٹھا کر ٹی وی ان کیا زاویار آب اسے دیکھنے لگا ہاں وہ کیوں دیکھے گئی اسے جب عام سا شخص اسے دیکھنا پسند نہیں کرتا تو وہ کیوں دیکھے گئی
زاویار نے ڈسٹر اٹھایا اور جانے لگا جب مہر کے آواز پر وہ رُک پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :Kathmandu Nepal
ایک فارنر بندہ ٹمپل (مندر )کے اندر داخل ہوا اس کے ہاتھ میں بروان رنگ کا بریف کیس تھا جس نے اسے سختی سے پکرا ہوا تھا جیسے اس سے کوئی چھین لیے گا انکھوں پہ اس نے کالا چشمہ پہنا ہوا تھا اور چہرہ بھی سپاٹ تھا ہاں اس کے ہھتیلی ضرور بھیگ گئی تھی جس سے اس کی گھبڑاہٹ واضع معلوم ہورہی تھی ۔
اس نے پہلے مورت کی طرف دیکھا پھر مڑ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا جیسے کسی کو ڈھونڈنا چارہا ہو پر اسے کوئی نظر نہیں ارہا تھا اسے خاصی مایوسی ہوئی اور ڈر بھی اگیا کے آب کیا کرئے ایک دم کسی نے اس کے کندھے پہ۔ ہاتھ رکھا
وہ مڑا ایک چائنیز شکل کا بندہ جس نے بلیک سوٹ پہنا ہوا تھا اس کو اوپر سے نیچے دیکھتے ہوئے بولا
"Code
اس بندئے کے چہرے پہ سکون اتر ایا
Cannes
اس بندئے نے سر ہلایا
"Follow me
وہ اس کے پھیچے چلنے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :Paris France
یہ ایک چھوٹا سا روم تھا جس میں صرف دو چیر اور پیچ میں ایک ٹیبل تھا اوپر ایک بلب لگا ہوا تھا اس شخص کے ہاتھ باندھے گئے تھے اور منہ پہ ٹیپ لگائی گئی تھی اس شخص کے چہرے پر بلکل سکون تھا لیکن اسے پتا نہیں تھا جو شخص اس سے تفتیش کرئے گا وہ انسان نہیں وہ انسان کے روپ میں ایک جانور ہے
پورے دس منٹ بعد وہ اندر داخل ہوا اس نے بلیک پینٹ اور لائٹ بلیو شرٹ پہنی ہوئی تھی اس کے پھیچے ایک اور بندہ ایا اس کے ہاتھ میں ایک باکس جس پہ والٹج کا لفظ ہی نظر ایا تھا اندھیرے میں اور کافی ساری تارئے تھی اس نے ٹیبل پہ رکھی اور چل پڑا
زاویار نے ایک انگلی سے اپنی ائی بروز مسلی اور اس شخص کو سرد مہری سے دیکھا پھر اس نے اگئے بڑھ کر انتہائی زور سے ٹیپ اس کے منہ سے کھینچا وہ بندہ بے اختیار چیخ پڑا
"Hurt
زاویار کے چہرے پہ زہریلی مسکراہٹ اگئی
"تم لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہو دیکھوں میں بتا چکا ہوں اس میں مارکس کا ہاتھ نہیں ہے ۔"
وہ چیختے ہوئے بولا
زاویار نے پہلے اس دیکھا پھر اسے ایک زور دار تھپڑ مارا
"تو پھر کس کا ہاتھ ہے تمہارا ؟"
زاویار اس کے جبڑئے پکر کر غرایا
وہ بندہ تو جیسے ہل پڑا
"میں نے کہا ہم اس کام میں نہیں ہے ملوس سنا تم نے تم چاہیے پوری زندگی لگا دو میرے جواب یہی ہے ۔"
"کتنی منہ مانگی قیمت دئی ہے اس کمینے نے ؟"
زاویار نے آب اس کے بال اپنی مٹھیوں میں لیے اور سُرخ انکھوں سے اسے دیکھا
لوکیشن :Islamabad Pakistan
مہر آج ایر پورٹ سے نکلی اور اس گنوار کا ویٹ کررہی تھی جو اس کو لینے انے والا تھا لیکن آبھی تک اس کی نظر میں نہیں ایا تھا
"اُف کدھر ہوگا کہی سائیکل میں تو نہیں آرہا"
مہر دل میں سوچتے ہوئے اپنی ٹرالی پُش کر کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی
" کدھر ہے یہ مسڑ جاہل ویسا ہی ہوگا پتا نہیں پاپا کو بھی اس کو چُنا تھا ویسے اس کی تقدیر ہی میرے پیروں تلے ہے کوئی میری بڑھاس نہیں برداشت کرسکتا اس پر کُھل کر نکالوں گی
وہ پورے پندرہ منٹ ویٹ کرتی رہی پھر غصے سے بیگ سے فون نکالنے لگی جب کسی کی گلا کنکھارنے کی آواز ائی مہر نے مڑ کر دیکھا تو ایک منٹ کے لیے ٹہر گئی
چھ فٹ تین انچ سے نکلتا قد سرخ سفید رنگت پر تھیکے نقوش کھڑی مغرور ناک اور بڑھی ہوئی شیو واقی اس بندئے کو جچ رہی تھی
چاکلیٹی بروان بال ہلکے سے اس کے ماتھے پر بکھرئے ہوئے تھے
انکھوں پہ اس نے عام سی بلیک سن گلاسس پہنی تھی
لیکن پھر بھی وہ بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا سکائی بلیو شلوار سوٹ میں
مہر کا دل تھم گیا اس نے پورے فرانس میں بھی ایسا پُرکشش انسان نہیں دیکھا تھا پاکستان میں اتنی خوبصورتی کب سے آگئی یہ تو فرانس کے فلم فیسٹول
میں جائیں تو وہاں یہ دھوم ہی مچا لے
"مس مہر لقمان چلیں ۔"
عجیب بے نیازی تھی اس کے انداز میں مہر تو مر مٹی
"آپ کو میرا نام کیسے پتا ۔"
مہر زندگی میں پہلی بار کسی مرد سے گھبراتے ہوئے بولی
"اتنی آسانی سے تو آپ بھول نہیں سکتی تھی خیر مجھے بھیجا تھا آپ کو لینے کے لیے ۔"
زاویار اسے کو دیکھ نہیں رہا تھا
"وہ گنوار گینڈا نہیں ایا مجھے لینے ۔"
آب زاویار نے اپنے لب زور سے بھینچے
"یہ گینڈا آپ کے سامنے ہی ہے میڈم مہر ۔"
زاویار دانت پیستے ہوئے بولا اور مہر ایک دم شاکڈ میں چلی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :Paris France
"مجھے کسی نے کوئی پیسے نہیں دئیں ۔"
وہ چلایا
زاویار نے اس کے بال مزید کھینچے اور رکھ کر لگائی
"عورت کو کھلونا سمجھا ہے تو نے بتا مجھے ۔تم اور تمہارا باس جب چائیے یہ بزنس کرتے رہوں گئے اور میں یہ ہونے دو گا ۔"
زاویار نے اسے چھوڑا
اور ٹیبل پر بیٹھ کر اس نے اپنے شرٹ کی سلیوس کہنی تک مڑوری
اور اپنی پینٹ کی پوکٹ سے ٹیزر نکالا
"چلوں شاباش بتاوں مجھے ایک ایک ڈیٹیل ۔"
زاویار کا لہجہ برف کی طرف سرد تھا
"میں ۔نے۔کہہ ۔دیا ۔کے ۔ نہ ۔ میں ۔ اس ۔۔۔۔
وہ ایک ایک لفظ کو زور دیتے بول رہا تھا جب زاویار نے ٹیزر اس کے ہاتھ پہ رکھا اور اس کو جھٹکا لگا اور وہ چیخ پڑا
"آب بولو کتنی لڑکیاں تھی جواب دو مجھے ۔۔"
زاویار آب کی بار چلایا
"تم کچھ بھی کرلو زاویار عباس میرا جواب یہی ہوگا تم اپنا وقت ضائع کررہے ہو ۔"
زاویار نے مسکرا کر پھر ٹیزر اس بازو پہ دیر تک رکھا وہ ایک بار پھر چیخ پڑا
"تم تو کافی وفادار دِکھ رہے ہو خیر دیکھتے ہیں کتنے وفادار ہوں ۔"وہ ایک دم آٹھا اور ہاتھ اپنے کمر پہ ٹکا کر اِدھر اُدھر چلنے لگا
"ایک ڈئیل کرتے ہیں میں تمہیں تین کڑور دو گا وہ بھی صرف ڈیٹیل دینے پر بولوں منظور ہے ۔"
زاویار ہاتھوں کو مسلتے ہوئے بولا اور وہ بلکل چُپ ہوگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :Islamabad Pakistan
"کیا کہا تم نے وائیف ہاو ڈیر یو ۔"
مہر تیزی سے بولی
"تم میری بیوی ہو مہر !!!"
زاویار کھڑکھی کی طرف دیکھے ہوئے بولا
"کیا ثبوت ۔۔۔
اس سے اگئے مہر کچھ بولتی زاویار نے اپنی جیب سے ایک کاغذ باہر نکالا اور مہر کی طرف کیا
"یہ ثبوت !!!"
مہر نے اس سے چھپٹ کے لیا اور دیکھنے لگی یہ تو سول میرج کے پیپرز تھے آٹھ دن پہلے کی بات ہے اور یہ کیا یہ سگنیچرز بھی میرے ہوہے ہیں میں نے کب کیا
"یہ بلکل فیک ہے میں نے کوئی نہیں کیے سائن ۔"
مہر نے اس کے منہ پر مارے زاویار کو بلکل غصہ نہیں ایا بس مسکرا کر اس نے فائل کو لپیٹ لیا اور پوکٹ میں رکھا اور بولا
"یہ سب تمہارے پاپا کا پلان تھا ورنہ مجھے بھی نہیں شوق تھا آپ جیسی لڑکی سے شادی کرنے کا ۔"
مہر نے ایک دم جھٹکے سر مڑ کر اسے دیکھا آب کی بار اس کی رنگت ہلدی کی مانند پڑ گئی
"کیا پاپا نے ؟"
اس سے صرف اتنا بولا گیا تھا
"ہاں آپ کے پاپا نے ۔"
زاویار اسے دیکھتے ہوئے آرام سے بولا
مہر نے تیزی سے اپنے بیگ سے موبائل نکالنے لگی لیکن یہ کیا موبائل تو کہی بھی نہیں تھا اس نے دوبارہ چیک کیا پھر اپنے جیب میں دیکھا
"میرا موبائل !!!"
جبکہ زاویار بلکل خاموش رہا
"میرا موبائل کہاں ہے !!!!"
مہر نے زور دیتے ہوئے زاویار سے پوچھا
"مجھ سے کیا پوچھ رہی ہے مجھے کیا پتا آپ کا موبائل کہاں ہے ۔"
زاویار ناگواری سے بولا
"زاویار مجھے سب پتا ہے یہ تمہاری گیم ہے ورنہ پاپا کھبی ایسا نہیں کرسکتے ۔"
زاویار نے اپنی جیب سے فون نکالا اور مہر کو پکرایا
مہر نے اس سے لیا اور پاپا کا نمبر ملانے لگی لیکن اسے پاپا کا نمبر نہیں یاد آرہا تھا اُف !!! ایک تو پاپا بھی نمبر ہر بار چینج کرتے تھے
"کانٹیکٹز میں چیک کر لے میرے پر نا الزام لگائیے گا کے مجھے پتا تھا کے آپ کو آپنے پاپا کا نمبر نہیں یاد ۔"
زاویار نے آہستگی سے کہا
مہر نے حیرت سے اسے دیکھا پھر اس نے کانٹیکٹز
سے پاپا کا نمبر ڈھونڈ لیا اور کال کرنے لگی لیکن یہاں پر سگنل نہیں آرہے تھے
"ڈئیم اٹ !!"
پھر اس نے شیشے کی طرف دیکھا وہ آب کافی سنسان جگہ پہ جارہے تھے ۔"
"ہم کہاں جارہے ہیں ۔"
مہر کی آواز میں اچانک گھبراہٹ اگئی
"ہم اپنے گھر شاندراہ ڈیر وائف ۔"
زاویار مسکراتے ہوئے بولا
مہر نے غصے سے اسے دیکھا
"ڈرائیور میں نے جو تمہیں اڈریس دیا تھا وہاں پر جانا تھا واپس چلوں !"
مہر تیزی سے بولئ جبکہ ڈرائیور نے سنا ہی نہیں
"میں نے کہا واپس چلوں ۔"
آب مہر چیخی
"ٹھیک ہے ۔"
مہر نے دروازہ کھولا لیکن یہ کیا یہ کھل نہیں رہا تھا
مہر نے زور سے کھولنے کی کوشش کی لیکن بے سُد پھر اس نے غصے سے زاویار کا کالر پکرا
"تم نے تم نے چائلڈ لاک لگایا ہے نا ؟"
مہر مزید چیخی زاویار نے اسے سرد مہری سے دیکھا
اور اپنا کالر زور سے چھڑوایا
"مہر چُپ کر کے بیٹھ جائے ۔"
زاویار کا لہجہ وارنگ دیتا ہوا تھا جبکہ مہر کا پاڑا مزید چڑھ گیا
"چُپ کر کے چُپ کر یو ۔۔۔"
ایک دم پسینجر والی سائڈ کا شیشہ ٹوٹا مہر چیخ پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
لوکیشن :Shandara Islamabad
زاویار مڑا تو مہر اس کے سامنے ائی
"تم ہمیشہ اُداس کیوں رہتے ہوں ۔"
مہر نے اشارہ سے سمجھا کر اسے بولی
زاویار سمجھ گیا لیکن اس نے کندھے اچکائے جیسے کہہ رہا ہو پتا نہیں
مہر کے ماتھے پہ لکیر اگئی
"کیوں نہیں پتا تمہیں ؟ اگر کوئی مسئلہ ہے تو میں تمہاری مدد کرو ۔"
زاویار حیران رہ گیا لیکن اس نے نفی میں سر ہلایا
"مہر!!!"
وہ دونوں کسی کی اونچی آواز پر مڑئے دیکھا تو لقمان حمید غصے سے زاویار کو دیکھ رہے تھے زاویار گھبڑا گیا وہ ایک دم ائے اور زاویار کو ایک تھپڑ لگایا مہر نے منہ پہ ہاتھ رکھا
Pere
"تمہیں یہاں کس کے لیے رکھا ہے کام کرنے کے لیے تو پھر میری بیٹی کے ساتھ کیا کررہے ہو ۔"
وہ گویا دھاڑ ہی اٹھے
مہر کو اپنے پاپا پر غصہ چڑھا اور زاویار کو دیکھنے لگی جس نے چہرہ جکھا لیا تھا اور مہر یقین سے کہہ سکتی تھی اس کے انسو نکل رہے ہوگئے پارسا نیچے بھاگتے ہوئے ائی
"کیا ہوا لقمان !"
"پارسا مہر کو اپنے ساتھ رکھا کرئے اس پر بُرئے اثرات پڑ سکتے ہیں اور تم کھڑئے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو دفع ہوجاو میری نظروں سے ۔"
زاویار تیزی سے وہاں سے بھاگا مہر اس کے پھیچے گئی لیکن لقمان حمید نے اس کا بازو پکر لیا
"مہر اپنے کمرئے میں جائے ۔"
"پاپا آپ بہت unreasonable ہے آپ نے کیوں مارا اسے اس نے کچھ نہیں کیا تھا ۔"
"مہر پلیز جاوں پارسا اسے لیے کر جائے ۔"
"بتائے پاپا کیوں مارا آپ نے اسے ۔"
آب کی بار مہر کی انکھوں میں انسو اگئے پارسا نے عجیب نظروں سے اپنے شوہر کو دیکھا اور مہر کو اٹھایا
"میری بچی آبھی تمہیں کچھ نہیں پتا ۔"
لقمان اس کا چہرہ تھپ تھپانا چاہا ۔ لیکن مہر نے ان کا ہاتھ جھٹکا
"ائی ہیٹ یو آب بہت بُرئے ہیں آپ نے اسے مارا ۔"
وہ رونے لگی پارسا نے اسے سنبھلا اور جبکہ لقمان حمید اس کے رونے پر حیران ہوئے اسے کب سے اٹیچمنٹ ہوئی
"آپ بھی کیا کرتے ہے لقمان ۔"
پارسا نے تاسف بھری نظروں سے انہیں دیکھا اور مہر کو اٹھا کر لیے گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔
لوکیشن :Paris France
"بولوں نا منظور ہے تمہیں ۔"
زاویار ٹیبیل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا اور جکھا وہ اگئے سے کچھ نا بولا
"چلوں دیتا ہو تمہیں ایک گھنٹہ سوچ کر بتانا۔"
وہ اسے سوچ میں چھوڑ کر باہر ایا پرویز جو اس کا انتظار کررہا تھا اس کے نکلنے پر قریب ایا
"ہوگیا کام ؟"
زاویار نے نفی میں سر ہلایا
"اپنے زبان کا پکا لگ رہا ہے مجھے یہ کمینہ ۔"
پرویز گہرا سانس لیتے ہوئے بولا جبکہ زاویار ہنسا
"اس کا پالا زاویار عباس سے پڑا ہے کب تک چُپ رہے گا ایک گھنٹہ دیا ہے اسے ۔"
زاویار چل کر اس کے کیبن میں داخل ہوا
اور فائل اٹھا کے چیک کرنے لگا پرویز بھی اس کے پھیچے ایا
"اگر زاویار اس نے کچھ نہ بولا تو ؟"
پرویز نے اپنا خدشہ ظاہر کیا
"تو مار دئے گئے اس کو ۔"
زاویار سفاکی سے بولا پرویز کی انکھیں کھل گئی زاویار نے اس کی حالت دیکھی اور ہنس پڑا
"تو اس لائن پہ کیوں اگیا ہے ؟اتنا گھبڑا کیوں رہا ہے ۔"
زاویار کی نظریں آب فائل پر مرکوز ہوگئی
"زاوی تجھے سمجھنا چائیے میری بہن ان کے قبضے میں ہے امی کا بُرا حال ہے ہوش انے کا نام ہی نہیں لیے رہی اور جب ہوش اتا ہے تو حرا حرا بڑبڑاتی ہیں آب تو اسے مارنے کی بات کرئے گا تو پھر حرا کا کیسے پتا چلے گا ۔"
پرویز کے لہجے میں کرب تھا زاویار کھڑا ہوا اور پرویز کو گلے لگایا
"پرویز حرا میری بھی بہن ہے اور تجھے لگتا ہے میں پُرسکون ہوں میرا بس چلے ان کا وہ حشر کرو کے موت بھی مانگے تو انہیں موت نہ ملے ۔"
"جانتا ہوں !"
پرویز نے اسے بھینچا اور الگ ہوا تب افسر جانسن انٹر ہوئے
"زاویار کیس سے فارغ !"
زاویار نے انہیں دیکھا
Not yet
"لقمان حمید تم سے ملنا چاہتے ہیں ۔"
پرویز نے حیرت سے زاویار کو دیکھا جبکہ زاویار کا چہرہ سپاٹ ہوگیا تھا
"اوکے آپ انہیں کہے کے ویٹ کرے ا ابھی بزی ہو ۔"
زاویار بول کر کُرسی پر بیٹھ گیا
جبکہ وہ سر ہلا کر چلا گیا
"زاویار یہ مہر کے ابو تو نہیں ہے ۔"
پرویز سب جانتا تھا اس کا ماضی اس سے بلکل نہیں چھپا ہوا تھا
"ہاں یہی ہے مہر کے ابو مسڑ لقمان حمید ۔"
زاویار کا لہجہ برف جیسا ٹھنڈا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔
لوکیشن :Kathmandu Nepal
وہ اس کے پھیچے چلتا گیا اور ٹمپل (مندر ) سے باہر نکل ائے وہ آب مندر کے پھیچے والی طرف سے گئے اس جگہ کافی رش تھا جس میں ان کا تھوڑا چلنا مشکل ہوگیا لوگوں سے دھکے کھاتے ہوئے بلا آخر وہ اس لفیٹ سائڈ کے ایک اندھیری جگہ لیے گیا جوہی جوہی وہ اس کے ساتھ جارہا تھا اس کی دل کی دھڑکن تیز ہوتی جارہی تھی وہ اس چھوٹے دروازے پہ لیے گیا اور کوڈ لکھا وہ اچانک کھل گیا آہستہ آہستہ دروازہ کھلنے لگا وہ بندہ جھک کے گھسا جبکہ وہ بھی اس کی تلقید میں اندر گھسا آب یہ جگہ کافی ٹھنڈی اور بڑی تھی سفید دیوار اور شیشے کے فلور تھے یہ بڑا عجیب تھا شیشے کے فلور اس کے اگئے بندہ بڑی ہی تیزی سے چل رہا تھا جبکہ یہ آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہا تھا اور پھر سامنے ہر طرف دروازے نظر انے لگئے ایسا لگ رہا تھا وہ کسی ہوٹل کے اندر داخل ہورہا ہے پھر وہ ایک لیفٹ کے اندر داخل ہوئے
"ہم کب تک پہنچے گئے ۔"
تائی کانتھ بلا آخر بول پڑا جبکہ وہ خاموش رہا اس نے بھی دوبارہ سوال نہیں کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
لوکیشن : Islamabad Pakistan
مہر نے چیختے ہوئے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھا جبکہ ڈرائیور جس کو بازو میں گولی لگئ اپنا توازن کھو بیٹھا اور زاویار فورن فرنٹ سیٹ پہ اگئے جکھا اور اس نے سٹیرنگ کو کنڑول کیا مہر نے اپنی انکھیں زور سے بند کرلی ایک دم کار کو بریک لگی اور گاڑی جھٹکا کھا کر رُکی
اب کی بار پھیچے کا دروازہ ٹوٹا مہر نے ایک بار پھر چیخ ماری زاویار پہلے جکھا پھر پھیچے اکے اس نے فورن مہر کو بازو میں لیا اور مزید جکھا ایک بار پھر کچھ ٹوٹنے کی آواز ائی مہر مزید زاویار سے لپٹ گئی اور سسک پڑی
"زاوی مجھے یہاں سے نکالو پلیز ۔
وہ جتنا زاویار سے چپک سکتی تھی چپک گئی زاویار نے بھی گرفت مضبوط کرلی
"بلکل خاموش رہنا ۔"
وہ آب اسے کہہ کر مزید جکھا مہر کو گھبڑاہٹ ہورہی تھی چہرہ پسینے سے بڑھ گیا تھا جبکہ انکھیں بار بار نم ہورہی تھی
"یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے ۔"
مہر ہچکی لیتے ہوئے بولی
"میری وجہ سے ۔"زاویار نے نیچے ہوکے اسے دیکھا
"اچھا خاصا ہوٹل جارہی تھی میں تم مجھے یہاں لیے ائے آب بھگتوں ۔"
مہر کی انکھ اور ناک لبلباب نمکین پانیوں سے بھر گئی
زاویار کے دل کو کچھ ہوا لیکن خود پہ قابو پایا
"مہر رونا بند کرو ابھی بھی ہم خطریں سے نہیں نکلے ۔"
زاویار دانت پیستے ہوئے بولا
"میں نے کسی کا کیا بگارا ہے کیوں لوگ مجھے مارنے پہ تل گئے ہیں ۔"
مہر پھر بھی رونے سے باز نہ ائی زاویار کو اپنا سر پیٹنے کا دل چاہا
"اس ڈرایور کو کیا ہوا دیکھوں انہیں گولی لگ گئی ہے ٹھیک تو ہے ۔"
دس منٹ رونے دھونے کے بعد مہر کو ڈرایور کا خیال ایا
"مر گیا ہے ۔"
زاویار دھیرئے سے بولا
مہر مزید ڈر گئی اور اس نےاپنا منہ زاویار کی گردن میں چھپا لیا
پورئے آدھا گھنٹا ہوگیا جب زاویار کو لگا سب سیف ہے
تو اس نے اٹھنا چاہا کے مہر جو اس کے ساتھ تھی سو گئی تھی زاویار تھوڑا سا ہلا مہر ڈر کر اٹھی اور زاویار کے ساتھ لگ گئی ۔
"ریلکس مجھے لگتا ہے سب سیف ہے ۔"
آب انہوں نے باہر دیکھا کافی اندھیرا چھا گیا تھا زاویار نے ایک ہاتھ سے دروازہ کھولا اور دوسرے ہاتھ سے مہر کو پکر کے باہر ایا اس نے اِدھر اُدھر دیکھا
پھر مہر کو اشارہ کیا سب ٹھیک ہے
مہر نے گہرا سانس لیا لیکن پھر بھی اس کے دل میں ڈر تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
لوکیشن :Shandara Islamabad
وہ پارسا کے گود میں تھی ابھی اس کا رونا ختم ہوا تھا
اور پھر ایک دم کچھ سوچتے ہوئے بولی
Mere
"جی میری جان ۔"
پارسا اس کے بال سہلاتے ہوئے بولی
"مجھے اُردو کی کلاس لینی ہے ۔"
پارسا کے ہاتھ رُک گئے اور اس نے حیرت سے مہر کو دیکھا
"مہر !"
"مما پلیز !! مجھے کلاس لینی ہے ۔"
مہر ان کی گود سے اٹھتے ہوئے بولی
"ٹھیک ہے میں تمہارے پاپا سے بات کرتی ہو ۔"
"پاپا سے نہیں پاپا بہت گندئے ہے آپ خود ارینج کرئے ۔
"مہر بُری بات وہ تمہارے پاپا ہے ۔"
"نہیں وہ گندئے ہے وہ مارتے ہے سب کو ۔"
مہر کا چہرہ سُرخ ہوگیا
"مہر ان کو پریشانی ہوگی اس لیے مار دیا ورنہ وہ ایسے نہیں ہے ۔"
پارسا بے بسی سے بولی
"اوکے فائن بٹ میری کلاسس سٹارٹ ہو ۔"
"وجہ جان سکتی ہو میں اچانک تمہیں اردو کا شوق کیسے ہوگیا ۔"
مہر پہلے خاموش رہی پھر بولی
"مجھے پاکستان تین مہینے رہنا تو کم سے کم مجھے اُردو تو اتی ہو ۔"
پارسا نے سر ہلایا
"ٹھیک ہے میں انتظام کرتی ہو لیکن اس بار بھی شور نا مچا دینا کے میں نے نہیں پڑھنا سمجھی ۔"
"ائی پرامس !"
مہر ان کا ہاتھ پکرتے ہوئے بولی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :Kathmandu Nepal
وہ لیفٹ سے نکل کر سیدھا چلتے ہوئے ایک بڑے سے کالے دروازے پہ پہنچے اور اس نے نے کھولا اور اس اگئے کیا وہ اندر داخل ہوا یہ بلکل کوئی افس ہی لگ رہا تھا فرنیچر کو دیکھ کر تو ایسا لگا
اس بندئے نے اسے اگئے چلنے کا اشارہ کیا اور خود اِدھر کھڑا ہوگیا
"میں جاوں ۔"
اس نے سر ہلایا لیکن منہ سے کچھ نہیں بولا
وہ بھی کچھ سوچ کر اگئے چل پڑا تو سامنے ایک بڑے سے ڈیسک اور چیر جو مڑی تھی ضرور وہی شخص تھا
"ام کوڈ Cannes ."
چیر ایک دم مڑی تو اس میں ایک شخص نظر ایا جس کے بال سفید تھے انکھوں پہ چشمہ تھا چہرے پہ ہلکی ہلکی جھڑیاُں نظر آرہی تھی سوٹ پہنے اور ہاتھ میں سگار لیے وہ بہت گریس فل گینگسڑ تھا
"او بیٹھوں ۔"
وہ سگار کا گہرا کش لیتے ہوئے بولا
وہ سامنے والی کُرسی پر بیٹھ گیا
"بتاوں بھائی کیا کام ہے ۔"
اس نے اپنے بیگ سے دو تصویر نکالی اور سامنے رکھی سامنے ایک خوبصورت نوجوان کی اور ایک لڑکی تھی ۔
"سر نے آپ کے اکاونٹ میں پورے بیس کڑور ڈال دئے تھے ان کا خاتمہ کرنا ہے ۔"
وہ ایک لفظ پہ زور دیتے ہوئے بولا
"اچھا !"
وہ غور سے اٹھا کر ان کی تصویر دیکھنے لگا اس کے چہرے پہ مسکراہٹ ائی اور پھر رکھا کر کش لیتے ہوئے بولا
"اوکے ! لڑکی کو تو ڈرایئکٹ شوٹنگ ! اس لڑکے کی بھی ایسے ہی موت رکھنی ہے ۔"
اس بندئے نے نفی میں سر ہلایا اور پھر اسے سارا پلان بتایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :Paris France
زاویار پورے دو گھنٹے بعد آیا حلانکہ اس کا کیس تیس منٹ کے اندر حل ہوگیا تھا اور بس پرویز اور باقی پولیس فورس جانے کی تیاری کررہی تھی جہاں پہ حرا قید تھی
وہ اپنے کیبن میں ایا جہاں لقمان حمید بیٹھے اس کا انتظار کررہے تھے
"او ہو مجھے لگا آپ چلے گئے ہوگئے آپ تو بیٹھے ہوئے ہیں لگتا ہے بہت ہی سریس کیس ہے ۔اور آپ خاصے مجبور بھی دکِھ رہے ہے بتائیں لقمان صاحب آپ نے اپنی بیٹی کا کیس مجھے کیوں سنوپا میں تو نمک حرام ، انسان کے روپ میں شیطان وغیرہ وغیرہ خیر بتائیں آپ ۔"
"زاویار میں نے نہیں تم نے کیس اکسیپٹ کیا ہے ۔"
لقمان دانت پیستے ہوئے بولے
"میرا فرض ہے کے میں کسی کے مسائل حل کرو چاہیے
وہ میرا دشمن ہی کیوں نہ ہو آپ پر تو کوئی مجبوری نہیں تھی جب میں نے آپ کو فون کر کے بتادیا تھا کے میں کون ہو ،مجھے آپ کا کیس انٹرسٹنگ لگا ہے آپ کو تو فورن ہٹ جانا چاہیے تھا میں کچھ بھی کرسکتا تھا اتنے سالوں بعد آپ کو میری پارسائی پہ یقین کیسے اگیا
زاویار بھی اسی انداز میں بولا
جبکہ لقمان حمید بلکل چُپ ہوگئے