
میرا رکھوالا - مصنفہ: ثمرین شاہ
قسط نمبر دو
لوکیشن :Kathmandu Nepal
"اس بندئے کی انفورمیشن پتا چلی ۔"
ظہیر سومرو اس تصویر کی طرف اشارہ کرتیں ہوئے بولے
"باہر کا آفسر ہے نام زاویار عباس ہے آب تک انڑنیشنل لیول کا سب سے بسٹ اور چیلنجنگ آفسر ہے جسے امریکہ ،لندن اور کنینیڈا سے میڈلز اور شیلڈ مل چکے ہے جتنا وہ انوسینٹ اور سویٹ سب کے ساتھ ہے اتنا ہی کمینہ اور خطرناک وہ مجرموں کے لیے ثابت ہوا ہے آب تک کے بیس کیسس حل کر چکا ہے پاکستان کے شاندراہ گاوں سے اس کا تعلق ہے چھ سال پہلے وہ کلیفورنیا آیا تھا اور اس نے ایزا لیبر (مزدور ) کے طور پر کام کیا پھر ڈفرنٹ سٹور میں بھی کام کیے ہے وہ کسی دوست کے گھر رہ رہا تھا جو کوئی اچھا خاصا امیر گھرانے سے تھا اس نے وہاں سے گرجویشن کئ اور انٹلجنسی کی طرف چلا گیا اور اس کی ہایسٹ کورس کی بنا پر اسے آفسر بنادیا گیا ۔"
وہ رٹے والے سٹائل میں تیزی تیزی بولتا گیا
"او انٹرسٹنگ یہ تو بہت چیلنجنگ پرسنآلیٹئ ہے مطلب اس کے لیے اس کو مارنے کے لیے اسی جیسا بندہ چاہیے ۔"
ظہیر سومرو ہنستے ہوئے بولے
"جی سر اور یہ موت ایسے ہو کے وہ لڑکی پر اٹیک کرتیں کرتیں اس کی بھی موت واقع ہوجائے لیکن یہ بہت مشکل لگ رہا ہے ۔"
"خیر اتنا مشکل بھی نہیں ہے وہ آگر چیلنجنگ آفسر ہے تو میں چیلنجس کا بادشاہ مجھے چیلنجنگ بندئے بہت پسند ہے ٹھیک ہے پہلے خوف پیدا کرتیں ہے ،ایسی سیدھی سادی سی موت اس بندئے کو نہیں سوٹ کریں گی کیا کہتے ہو ۔"
وہ سگار اپنے منہ میں لیے گیا اور ساتھ میں کھڑئے اسسٹنٹ نے لائٹر سے اسے جلایا
"سر لیکن آن دونوں کی موت کا واقع ہونے کے لیے جلدازجلد کہا گیا ہے ۔"
ظہیر سومرو سگار کا گہرا کش لیتے ہوئے ہنس پڑیں
"مائی بوئی جتنی Intense اور ڈینجرس سچویشن ہوگئ اتنا ہی بونس ملے گا سمجھے میری بات۔"
وہ آن کی بات کی گہرائی کو تو نہیں سمجھ سکا لیکن سر ہلاتے ہوئے بولا
"ٹھیک ہے سر جیسا آپ بہتر سمجھے ۔"
"آب میں چاہتا ہو کے جانباز کو تم آسلام آباد بھیجوں اور آن دونوں پہ کڑی نظر رکھی جائیں کے وہ اس وقت کہاں ہے اور مجھے ڈیٹیل چوبیس گھنٹے میں چاہیے انڈرسٹینڈ ۔"
"جی سر آپ کو ایک ایک انفورمیشن ملتی جائیں گی ۔"
"گڈ یو مے گو ناو ۔"
وہ چلا گیا تو اس نے مڑ کر کھڑکھی کی طرف دیکھا
"تمہارا تو شو ٹائیم آب شروع ۔"
وہ کمینگی سے مسکراتے ہوئے سگار پھینک چکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بلکل قریب آچکے تھے جب مہر چیخی زاویار ایک دم
مڑا وہ تقریباً گن نکالنے لگا تھا جب دیکھا مہر نے آپنا
پاوں کیچڑ میں پنھسا لیا تھا اس نے گہرا سانس لیا
"ایڈٹ میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو میرا پیر پھنس گیا
ہے ۔مہر آپنا پیر نکال رہی تھی جب زاویار کو ایسا ہی کھڑا دیکھتے ہوئے جل کر بولی
وہ آب اس کے پیر دیکھنے لگا مہر اپنا پیر کھینچ رہی تھی جب زاویار کو اسی پوزیشن میں پھر دیکھا
"میں نے کیا کہا ہے تم سے ۔"
مہر آب اونچی آواز میں بولی آب کی بار لہجے میں تھوڑی سی بے بسی اگئی تھی
"آپ نے کہا تھا مسز مہر کے میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو تو میں آب آپ کا پیر دیکھ رہا ہو ۔"
وہ معصومیت سے کہتا ہوا مہر کو زہر لگا
"تم ایک جاہل اور گنوار انسان تو تھیں لیکن آپ کی عقل گھٹنے سے بھی نیچے تھی وہ مجھے آج پتا چلا رہا ہے ۔"
مہر نے اپنے ٹانگیں پکری اور مزید زور لگایا لیکن بے سُد
"تت تت تت مس مہر آپ کی زبان میں خاصا دم ہے لیکن آپ میں نہیں بڑا آفسوس ہوا ویسے ارے ہاں میں تو بھول گیا میں تو آپ کے لیے دیکھ بھال کے لیے رکھا گیا ہو وہ بھی آپ کے پاپا نے رکھا ہے مجھے آب دیکھ لے میڈم مہر میری عقل گھٹنے سے نیچے ہے یا آپ کے پاپا کی ۔"
زاویار دل جلانے والی مسکراہٹ سے بولا
"یو ایڈیٹ خبردار میرے پاپا کے بارے میں ایسا کہا منہ توڑ کے رکھ دو گی اوچ !!!۔"
مہر نیچے کو جھک گئی اور زور دیں کر نکال رہی تھی اس کا چہرہ پسینے سے بھر گیا تھا جب کے سارے بال چہرے پہ اگئیں تھیں
"پہلے اپنا پاوں تو نکال لیے پھر منہ توڑ لیجے گا ۔"
زاویار آب بھی کہنے سے باز نہیں آیا
مہر نے اسے خشمگیں نظروں سے دیکھا
"کیا ہوا آپ کو میری مدد چاہیے ۔"
زاویار مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا مہر کا دل کررہا تھا اس کے بال نوچ ڈالے اس کے ایک ایک نقش کو گھونسہ دیں مارے
"مجھے نہیں چاہیے تم جیسے جاہل انسان کی مدد ۔"
مہر آب ہاتھ سے کیچڑ کو سائڈ پہ کرنے لگی
"ائیم ائینڈ ائیم بی ائے !!!"
زاویار کی اس بات پہ مہر نے سر اُٹھایا اور ناسمجھی سے دیکھا
"آپ کہہ رہی ہے نا جاہل اس لیے بتایا محترمہ ہم جاہل ہرگز نہیں ہے ۔"
اگئے زاویار بولنے لگا تھا کے اس نے ائیم بی ائے کہاں سے کیا ہے لیکن خاموش رہ گیا کیونکہ اسے نہیں بتانا تھا ویسے اگر مہر کو پتا چل جائیں اس نے ائیم بی ائے سٹنفورڈ یونیورسٹی سے کیا ہے وہ بھی پوری سکالرشپ پر تو اس نے یہی بے ہوش ہو جانا یہ بات سوچتے ہوئے زاویار کو ہنسی اگئی مہر نے جب زاویار کو ہنستے ہوئے دیکھا تو ایک مٹی کا حصہ اُٹھایا
اور زاویار کے منہ پہ مارا زاویار اس حملے کےلیے تیار نہ تھا ایک دم بھوکلا کر پھیچے ہوا
On your face. Mr Zaviar Abbas
مہر نے جلانے مسکراہٹ سے اسے دیکھا زاویار کا چہرے پہ ہلکہ سا لگا تھا اور قمیض پہ بھی زاویار نے جھک کر تھورا سا کیچڑ اٹھایا اور مہر کی شرٹ پہ لگایا
جس کو دیکھ کر اسے سخت چڑ تھی
"یہ کیا تم نے !!!!!
On your dress Mrs mehr
مہر نے آپنے قمیتی
Zuhair Murad
کی وائٹ شرٹ دیکھی جو تقریباً کیچڑ کے داغوں سے بھر چکی تھی اسے یہ گفٹ فارس نے دیا تھا
"تم نے تم نے تمھاری ہمت کیسی ہوئی یہ مجھے فارس نے دی تھیں ۔"
مہر صدمے سے چیخ پڑی
"اتنی بکواس شرٹ یہی ڈیزرو کرتی تھی اور آپ نے شروع کیا تھا ۔"زاویار ہاتھ جھاڑتا ہوا بولا
"یہ مجھے فارس نے دی تھیں میری برتھ ڈئے کے لیے !!!اور تم نے برباد کردئی !!!میں کیا بتاوں گی اسے اور اسے کیا کہوں گی میری شادی ہوگئی
زاویار ایک دم وہی کھڑا کا کھڑا رہا
"یہ فارس کون ہے ؟"
مہر نے ایک دم زور لگایا تو بلا آخر اس کا پیر نکل آیا
"فارس میرا بوئی فرینڈ ہے میری محبت ۔"
یہ بات سن کے زاویار وہی جم گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔......................................................
لوکیشن :Cannes film festival
France
کینن فیسٹول کی نائٹ پارٹی تھیں سب لوگ خوش
گپوں میں لگیں ،ریڈ کارپٹ پہ بڑے بڑے سلیبریٹی
کھڑے بے شمار فوٹوز لیے رہے تھیں ایک قدم چلتے کے فوٹو دوسرے قدم چلتے پھر آیک اور فوٹو اسی طرح سارے اپنے مہنگے مہنگے ٹاپ ڈیزانر کے کپڑے پہنے آپنے جلوے دیکھا رہے تھے
اس کے بعد ویٹر سے شیمپین لیے کر آپنے دوستوں کے ساتھ آپنی فلمز ڈسکس کرنے لگ جاتیں
کالی مرسیڈیز رُکی ایک طرف بلیک سوٹ میں لقمان حمید نکلے اور جبکہ دوسری طرف بلیک سلکی گاون میں مہر نکلی حمید لقمان سامنے آئیں اور مہر کے کندھے پہ بازو پھیلا کر اگئیں چلنے لگیں ۔
مہر نظر آٹھائے سب لوگوں کو دیکھ رہی تھی اس کی باڈی جتنی کنفیڈنٹ تھی اُتنی ہی اس کی ہیزل انکھیں ناجانے کیوں کنفیوزڈ اس نے کھبی بڑی پارٹی تو کیا چھوٹی پارٹی بھی اٹینڈ نہیں کی تھی اسے نفرت تھی پارٹیوں سے تھی حتاکہ پچبن میں وہ دیوانی تھی ہر دوسرے دن کوئی نہیں کوئی ہنگامہ ضرور ہو لیکن یہ شوق بچپن میں ہی دم توڑ گیا آب بھی وہ نہیں آنا چارہی تھی لیکن لقمان حمید نے اتنا اصرار کیا وہ حیران ہوگئی پاپا نے کھبی اتنی ضد نہیں کی تھی آج اُتنی کیوں کررہے ہیں بلا آخر وہ مان گئی
لقمان حمید اپنے دوستوں سے ملنے لگیں اور ساتھ میں مہر کو سب سے انٹروڈیوس کروارہے تھے مہر پھیکی سی مسکراہٹ سے ان سے ہاتھ ملانے لگی جب اسے کوئی سرگوشی سُنائی دینے لگی
"تم اس ڈریس میں پری لگ رہی ہو مہر بلکہ نہیں یہ تو بہت عام سا لفاظ ہے تم تو اس میں گولڈی لاکس لگ رہی ہو ۔"
"مہر !!!!! ان سے ملوں یہ ہے میرا کزن حدید رحمان اور یہ اس کا بیٹا فارس رحمان ۔"
مہر چونکی تو اس نے دیکھا وائٹ پینٹ کوٹ میں سفید بال انکھوں میں بڑا سا چشمہ لگائے وہ اس کے پاپا کے کزن تھیں اور ساتھ میں کھڑا گرئے سوٹ میں گرئے ہی انکھوں والا ڈیشنگ سا فارس رحمان تھا جو مہر کو مسکراتی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔مہر اس کے دیکھنے پر مزید کنفیوزڈ ہوگئی
"واو حدید تمھاری بیٹی تو بہت زیادہ خوبصورت ہے بلکل ڈول یہ تو واقی پارسا کا عکس ہے وہ بھی تھی ہی اتنی خوبصورت اور دل کو ہلا دینے والی ۔"
لقمان حمید ہنس پڑیں جبکہ مہر کو ان کے کمینٹس سخت بُرے لگیں وہ خاصے عجیب طریقے سے بول رہے تھے اوپر سے اسے پاپا پر بھی غصہ آیا جو ان کی بات پر ہنس رہے تھے
"مہر بیٹا تم اِدھر فارس سے بات کرو ہم آبھی آتے ہیں ۔"
وہ لوگ چلیے گئیں اور مہر پریشان ہوگئی وہ فارس کو دیکھنے لگی جو بہت خاموشی سے لیکن مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا
"مجھے جوائن کریں گی مس مہر ۔"
فارس نے ہاتھ اگے کیا مہر کو عجیب لگا فارس اس کی کفیفیت سمجھ چکا تھا اس نے ہاتھ پھیچے کرلیا
"چلے ہم باتیں تو کرسکتے ہیں ۔"
وہ خوشگوار لہجے میں بولا مہر نے سر ہلایا
"سو آپ کیا کرتی ہے ۔"
وہ دونوں بار سے اپنی اپنی ڈرنگس لیے چکے تھے جب فارس مہر کو دیکھتے ہوئے بولا
"شو ڈیزانگ !"
"واو امیزنگ مطلب آپ لوگوں کی شوز ڈیزائین کرتی ہے تو کیا نام ہے تاکہ ہم بھی خریدیں ۔"
"آبھی نہیں آبھی تو بس خالی ڈیزائن کرتی ہو ۔"
مہر پینا کولاڈا کا سپ لیتے ہوئے بولی
"میرے سے کچھ نہیں پوچھے گی آپ بہت چُپ چُپ سی ہے ،باتیں نہیں کرتی ۔"
فارس نے دوستانہ لہجے میں پوچھا
مہر نے سر اُٹھایا
"پتا نہیں میری شائد کھبی کسی سے بات نہیں ہوتی زیادہ اس لیے ۔"
فارس کی ابرو اُٹھ پڑیں
"ڈونٹ ٹیل می آپ کا کوئی دوست نہیں ہے اور آپ کسی سے بھی بات نہیں کرتی ۔"
وہ خالی گلاس ویٹر کو دیتے ہوئے بولا مہر نے نفی میں سر ہلایا
"سٹرینج !!!"
اس نے صرف اتنا کہا مہر نے نظریں جکھا لی آب اسے اس ماحول میں بے زاری ہورہی تھی
"سوری آپ کو میری بات بُری لگی ۔"
فارس نے محسوس کیا
مہر نے سینے پہ بازو باندھ لیے اور مسکراتے ہوئے بولی
"نہیں میں نے کیوں بُرا منانا ہے ۔"
"وہ اکچلی میں نے آپ کوسٹرینج کا ائی مین لُک your so beautiful and enchanting with your your hazel eyes and sand brown hair locks
Totally mesmerising
آپ کو دیکھ کر ایک فرینچ کی پوئیم یاد آئی ہے سناؤ ۔"
فارس نے تائید چاہیی
"جی سنائے ۔"
Triste, et le jour pour moi sera comme la nuit.
Je ne regarderai ni l’or du soir qui tombe,
(Saddened, and the day will be like night for me.
I will neither see the golden glow of the falling evening,)
پوئیم تو فارس سنانے لگا تھا لیکن آواز پھیچے سے آئی تھی اور مہر اور فارس اچانک پھیچے مڑئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امی آپ کو پتا ہے مہر نے آج مجھ سے اُردو میں بات کی تھی ۔"
زاویار مزے سے کہتا ہوا بے بے کو بولا جو اس کو روٹی ڈال رہی تھی
"اچھا او تے مجھے پتا ہے پر کیسے بول رہی تھیں ۔"
"بہت ہی ٹوٹی پھوٹی طریقے سے بول رہی تھی لیکن بہت کیوٹ لگ رہی تھی ۔"
زاویار ہنستے ہوئے روٹی توڑتے ہوئے بولا
"کوٹ ائے کوٹ کی ہوتا ہے ۔"
بے بے نے چٹنی اس کی پلیٹ میں ڈالی
زاویار کو ہنسی آگئی "کیوٹ بے بے اس کا مطلب معصوم سی پیاری سی ۔"
بے بے کا ہاتھ رُک گیا وہ آب سر اُٹھا کر غور سے آپنے اس تیرہ سال کے بیٹے کو دیکھنے لگی جو پہلے خاموش رہنے کے بجائے آب بولنے لگا تھا اور وجہ کون تھی وہ باخوبی سمجھ گئی تھی
"آچھا !!! تو آج کل تے بہت خوش رہنے لگا ہے وجہ کی ہے ۔"
بے بے نے اسے دیکھتے ہوئے کہا آب زاویار کو نوالہ حلق میں اٹک گیا پھر اس نے سنبھل کر بے بے کو دیکھا
"بے بے آپ کو ایسا کیوں لگا اور کیا مطلب ہے میں کیا ہر وقت روتا رہتا ہو ۔"
زاویار مضنوعی ناراضگی سے بولا اور پانی پینے لگا
"او نا نا پُتر مجھے تے بہت خوشی ہے کے تو ہنسے لگا ورنہ ایک بہت عرصے سے تیری ہنسی کیا مسکراہٹ ہی غائب ہوگئی تھی ۔"
"بے بے میں تو کھبی ہنسہ ہی نہیں ہو پر آپ کو پتا ہے یہ لوگ ہی آپ کی چہرے پہ مسکراہٹ لاتے ہیں اور یہ لوگ ہی آپ کے چہرے سے مسکراہٹ نوچ لیتے ہے یہ دنیا کے لوگ بڑے عجیب ہیں انھیں کھبی چین نہیں ملتا بس اگلا ہنس کیوں رہا ہے ہنسا اچھا نہیں ہے اس کے لیے دل مردہ ہوجائے گا اور جب کوئی دُکھی آدمی دیکھے گئیں تو کہے گئیں یہ دیوداس یا دُکھی آتما ہے وغیرہ وغیرہ اور کوئی سپاٹ سا چہرہ لیے کر گھوم رہا ہوگا تو کہے گئے اس میں تو کوئی جزبات ہی نہیں انتہائی بے حس انسان ہے خیر میں بھی کیا بولنے لگا آپ کھا کیوں نہیں رہی ۔"
آج زاویار اپنے عمر سے دس سال بڑا لگ رہا تھا بے بے کو یقین نہیں آرہا تھا یہ ان کا زاویار ہے جو نہ تو کچھ بولتا تھا نہ ہی اپنی دل کی بات کسی سے کہتا تھا آب انھیں لگ رہا تھا ایک توجہ ایک توجہ انسان کو بدل دیتی ہے اور یہ توجہ مہر کی تھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :Cannes France
وہ اندر داخل ہوا تو سب لوگ میٹنگ میں بیٹھے ہوئے تھیں اور ابھی تک شہیر آزان نہیں آیا تھا وہ جلدی سے اندر داخل ہوا اور ایک سیٹ پہ بیٹھ گیا تھا
سارے لوگ آپنی باتوں میں لگیں تھیں جبکہ وہ بلکل چُپ آپنے پاوں ہلا کر اِدھر اُدھر دیکھنے کے بجائے بس نیچے دیکھ رہا تھا
ایک دم ساتھ والا اس کو بولا
"اوئے غازی تو کدھر غائب تھا باس تمھارا کتنا پوچھ رہے تھے ۔"
غازی ایک دم مڑا اس نے دیکھا شعیب اسے دیکھ رہا تھا
"کہی نہیں گھر گیا تھا دادی سے ملنے ۔"
"باس نے وہاں پتا کروایا تو وہاں نہیں تھا آب سچ بتا تو کہا گیا تھا ۔"
غازی اگئے سے کچھ بولتا ایک دم دروازہ کھلا اور شہیر آزان کو دیکھ کر سب اُٹھ پڑیں
"سب بیٹھوں غازی میٹنگ کے بعد تم میری آفس آنا ۔"
غازی نے ان کی بات پہ سر اثبات میں ہلایا
"جیسے کے سب جانتے ہیں کے دو دن بعد کینین فلم فیسٹول شروع ہونے والا ہے اور ظاہر ہے وہ کمینہ بھی آئے گا کیونکہ ہیڈ جو ہے اس کے کمزوری میں نے پکڑنی ہے اور اس کی کمزوری اور کوئی نہیں بلکہ اس کی اکلوتی بیٹی مہر ہے تو کیوں نا اس کمزوری کا استمعال کیا جائے لیکن ہم یہ گیم بہت سلو کھیلے گئیں اس لیے تم لوگوں کو میں نے میٹنگ میں اس لیے بُلایا ہے کہ تم سب فیسٹول میں جاوں گئیں اور آن پر نظر رکھوں گئیں از داٹ کلیر مجھے ایک ایک ڈیٹیل چائیے اچھا سنوں میں سب کو ان کی جگہ بتادیتا ہو جہاں جہاں تم لوگوں نے جانا ہے ٹھیک ہے اور آپنا بھیس بھی بدلنا ہے ٹھیک ۔"
پھر میٹینگ تقریباً دو گھنٹے جاری رہی اور جب میٹنگ ختم ہوئی تو غازی ان کی پھیچے چل پڑا
.....................................................................
لوکیشن :Unknown location Islamabad
مہر آب مسکراتے ہوئے اُٹھی اور زاویار کے ریکائشن کا ویٹ کرنے لگی
"آپ جیسی لڑکی کا بھی بوئی فرینڈ ہے واو خیر اچھا ہے ویسے کتنے رہ چکے ہیں آپ کے ۔"
زاویار اتنی دیر خاموش رہنے کے بعد بلا آخر بول پڑا
مہر کا منہ کھُل گیا وہ یہ زاویار سے توقع نہیں کررہی تھی
"مجھ جیسی لڑکی سے کیا مراد ہے تمھارے ؟"
مہر اس کے سامنے ائی
"جانے دیں آپ برداشت نہیں کر پائی گئیں ۔"
زاویار عجیب سے لہجے میں کہتا ہوا اگئے چل پڑا مہر نے اس کی قمیض پکڑی
"کیا مطلب ہے تمھارا کتنے رہ چکے ہیں کھُل کر بات کرو
میں بھی تو سُنو میرا سو کالڈ شوہر کیا کہہ رہا ہے ۔"
زاویار نے آپنی قمیض چھڑوائی
"میں یہاں کوئی تماشہ نہیں چاہتا چُپ کر کے چلے ۔"
زاویار تحمل سے کہتا ہوا چلنے لگا
Do you think I'm a slut
مہر نے آب اس کا بازو پکرا اور سخت لہجے میں بولی
"جب آپ ہے تو مجھے سوچنے کی کیا ضرورت ہے ۔"
زاویار آپنے ایک ایک لفظ کو زور دیتے ہوئے بولا
مہر کا دل چھن سے ٹوٹا وہ واقی زاوی نہیں تھا وہ تو کوئی سنگدل انسان تھا جس نے بڑی بے رحمی سے کہہ دیا کے وہ کریکڑلس ہے وہ کریکڑلس !!مہر سے یہ بات برداشت نہ ہوئی اس کا ہاتھ دوسری بار بھی بے ساکتا اُٹھا اور زاویار کے گال پر نیشان ثبت کر گیا
زاویار پھٹی انکھوں سے مہر کو دیکھنے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن Cannes film festival France
ان دونوں نے پھیچے مڑ کر دیکھا سامنے ایک آدمی کھڑا مہر کو دیکھتے ہوئے بولا
مہر نے اسے دیکھا بلونڈ دھاڑی اور بلونڈ بال جو کندھے تک آتے تھیں گرین انکھیں اور گرئے سوٹ میں وہ جو کوئی بھی تھا لیکن بے حد ہینڈسم تھا مہر نے اسے گھور کر دیکھا لیکن وہ شخص بے حد دلچسپی سے مہر کو دیکھ رہا تھا
"ارئے شان تم یہاں ۔"
فارس جلدی سے اُٹھا اور اس سے ملا مہر نے بس اسے ایک نظر دیکھا اور مڑ کر بار کی طرف دیکھنے لگی
"میں ٹھیک تمھارے ڈیڈ سے ملا اور پوچھا یہ ہیرو کدھر ہے پتا چلا اس گولڈی بیوٹی کے ساتھ ویسے کون ہے تمھاری گرل فرینڈ ۔"
مہر ایک دم مڑی اور خشمگیں نظروں سے اسے دیکھنے لگیں وہ بھی نظر اُٹھا کر انتہائی گہری نظروں سے مہر کو دیکھ رہا
"ارئے نہیں پاگل یہ میرے ڈیڈ کے کزن کے بیٹی ہے مسڑ لقمان حمید کی ۔"
فارس نے اس کے بازو میں کُہنی ماری جیسے تنبیہ کررہا ہو
"واو پھر تو یہ گولڈی سنگل ہے ۔"
مہر کو اس کی بات پہ خاصی ناگاواری ہوئی وہ چل پڑی
"یار شان تو نے کیا کیا اس طرح بات کرتیں ہیں ۔"
شان نے آپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا پھر بولا
"تو کس طرح بات کرنی چاہیے ۔"
"تو بہت بولڈ ہے ٹھیک ہے لیکن یہ بہت ڈفرنٹ لڑکی ہے ۔"
فارس دور سے ہی مہر کو دیکھتے ہوئے بولا
"واو مجھے ڈفرنٹ بہت پسند ہے ،خیر لیکن خاصی مغرور لگ رہی ہے محترمہ ۔"
شان کی نظریں آبھی تک مہر پر تھیں
"تو چھوڑ یار پاکستان سے کیسے ٹائیم نکال لیا کیپٹن صاحب ."
شان مسکرایا
"بس یار ماحول چینچ کرنا تھا اور اتنی بیوٹیز کو دیکھ کر میرا زرا بھی واپس جانے کا دل نہیں کررہا ۔"
فارس اس کی بات پہ ہنس پڑا
"کمال ہے ویسے ایشن بیؤٹیز کی بات ہی الگ ہے لیکن تم ۔"
"خیر چھوڑ یہ محترمہ کا نام کیا ہے ۔"
شان کی نظروں نے مہر کو ڈھونڈا
"مہر کی بات کررہا تو بھول جا مجھے پسند ہے ۔"
فارس ہنستے ہوئے بولا
"لیکن تو بھول رہا ہے جس نظر نے اُسے دیکھا ہے وہ کیپٹن شان کی نظریں تھیں اور پھر اسے پھیچا چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے خیر چھوڑو اس مس گولڈی کو پہلے کسی اور سے ملا ۔"
"تو تو بڑا ہی کمینہ ہے ۔"
فارس ہسنتے ہوئے بولا اور شان گہری مسکراہٹ سے اس کے ساتھ اگئے چل پڑا
"تم تم مر جاو برباد ہوجاو تم خود ایک گلی کے کیڑے مکوڑے ہو یو باسٹرڈ ااا۔"
زاویار نے مہر کو اٹھایا اور آپنے کندھے پہ لٹکادیا
مہر کے سارے بال منہ پہ اگئے اور وہ ایک دم حیرت سے جم گئیں
"یہ کیا کررہے ہو اُتارو مجھے ۔"
مہر نے آپنا آپ چھڑوانا چاہا
"تم اگر بلکل نہ چُپ ہوئی مہر تو میں اُٹھا کر زمین پہ پٹھک دو گا ۔"
زاویار سرد لہجے میں بولا
"میں نے کہا چھوڑو مجھے ۔"
مہر آب اس کی پشت پر مُکے برسانے لگی زاویار کو تو جیسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا مہر نے پھر زاویار کے بال کھینچے اور اتنی زور سے کھینچے کے آب زاویار نے اس کے ہاتھ جھکڑئے اسی چکر میں مہر زور سے نیچے گری
"اُف !!!"
زاویار تیزی سے مہر کے دونوں ہاتھ پھیچے لیکر گیا
اور اپنے جیب سے رومال نکال کر انھیں تیزی سے باندھنے لگا
"یہ کیا کررہے ہو ۔"
مہر درد بھول کر اس کی حرکت کو شاکڈ سے دیکھنے لگی
زاویار اس کے کانوں کے قریب آیا
"وہ کیا کہتے ہے مسز مہر every action has its reaction تو اسی اکشن کا ریکاشن ہے ۔"
وہ کہہ کر اٹھ پڑا اور مہر کو دوبارہ اسی طرح اُٹھایا
مہر پھر زور زور سے ہلی اور اپنا ہاتھ نکالنے لگی لیکن وہ اتنا کَس کے باندھا گیا تھا کے مہر سے مشکل ہوگیا
"میں زور سے چلاو گئیں ۔"
مہر نے اسے دھمکی دیں ،زاویار ہنس پڑا
"شوق سے کرو یہاں صرف ایک گھر جس کے ہم قریب اگئیں ہے ۔"
"مجھے چھوڑوں ورنہ میں نے تمھارا حشر کردینا ہے ۔"
مہر آب چیخی
"آب تم چاہتی کے میں تمھارا منہ کو بند کرو ۔"
زاویار تیزی سے بولا
"دیکھ لو گئی میں تمھیں !!!!!"
"شوق سے دیکھنا مسز پہلے کمرئے میں تو جانے دو ۔"
زاویار کی بات پہ مہر کا منہ کُھل گیا
"تم دُنیا کے سب سے گھٹیا اور ذلیل آدمی ہو ۔"
"تمھارے پاس کوئی نئے لفظ نہیں اُردو سیکھنے کے بعد صرف یہی سیکھا ہے ۔"
"تم سے تو سیکھا ہے سب میں نے اور تمھارے شکل دیکھ کر مجھے یہی لفظ یاد آتے ہیں ۔"
زاویار آب دروازے کے قریب پہنچ چکا تھا اور اسے اُتارا
اس نے مہر کو پکڑئے رکھا
"میں یہ کھول رہا ہو اگر تم نے کوئی ردِعمل کیا تو پھر تم اس کا انجام جانتی ہو ۔"
مہر نے اسے ایسے دیکھا جیسے ایک سکینڈ میں اسے کچا چبا جائیں گئ
زاویار اس کے پھیچے گیا اور کھولنے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : کینین ،فرانس
"تم نے بات نہیں کی تھیں اس سے ۔"
وہ سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے
"نہیں یار ۔"
وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے
"کیا مطلب ہے تمھارا وہ ہم سے سب کچھ چھین لیے گئیں یار جلدی سے کچھ کر ۔"
"میں کرتا ہو ۔"
"نہیں اس مسئلے کو چھوڑ ان کا کام پہلے کر اُدھر سے دولت زیادہ مل رہی ہے اس کا مسئلہ بعد میں حل ہوجائے گا ۔"
وہ کچھ زیادہ ہے ڈیسپریٹ تھا
"تم سمجھ نہیں رہے ہو یہاں سے کام تمام کرنا ضروری ہے ۔"
"وہ ہماری جان لیے لے گئیں تب تم بیٹھے رہنا ۔"
وہ آب اُٹھ کر اس پر چلایا
"اچھا اچھا صبر کرو ۔"
اس نے کچھ سوچا
"اگر ہم کسی آفسر کو چُنے تو کسی کو کچھ معلوم نہیں ہوگا ۔"
"کیا تو پاگل ہے دماغ تو نہیں خراب ہوگیا آپنے پیر پہ کھلاڑی مارے گا ۔"
"میں کب کہہ رہا ہو پاکستان کا ہو اِدھر کی بات کررہا ہو اسی ملک کا ہوگا تو اس ملک کا وفادار ہوگا اسے کام میں لگا دیں گئیں پھر ہم آرام اور سکون سے ۔"
"بات تو نے ویسے ٹھیک کی ہے لیکن آگر کسی کو شک پڑ گیا تو ۔"
"کسی کو نہیں پڑئے گا میں جمیل سے بات کرتا ہو اور ساجد کو فل حال نا بتانا ۔"
"ٹھیک ہے چلوں پھر ۔"
وہ اس کے ساتھ باہر چل پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ ،اسلام آباد
اس نے دور سے ایک پپی دیکھا تھا لان میں وہ پہلے حیران ہوئی اس نے پاپا سے کہا تھا کے اس ایک پپی چاہیے پاپا نے کہا یہاں کے اچھے نہیں ہوتیں پھر اچانک
وہ اپنی سوچ کو جھٹک کر فورن تیزی سے نیچے آئی
وہ باہر نکلی اس نے دیکھا وہ چلتے ہوئے لان کے پچھلے طرف چلا گیا ہے لیکن اس طرف بڑئے بڑے پھولوں کی جھاڑیاں بہت تھیں وہاں پر فل حال جانا منع تھا جب تک کٹائی نہیں ہو جاتی مہر اس طرف بھاگی اور اتنی تیزی سے بھاگی کے وہ گِر پڑی اور اس کا پیر پہ کیچڑ کے ساتھ کانٹا لگ گیا
مہر چیخ پڑی اس وقت دوپہر کا وقت تھا سب سوئے ہوئے تھیں
اس نے آپنا پیر سے نکالنے کی کوشش کی اسے اور تکلیف ہورہی تھی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی جب ایک سانولے ہاتھ نے اس کے پیروں کو چھوا
مہر چونکی اور اس نے روتے ہوئے سر اُٹھایا دیکھا زاویار جھکا ہوا تھا اور اس کا پیر دیکھ رہا تھا
اور پھر اس نے ایک سائڈ سے دباو بڑھایا مہر نے سسکی لی زاویار نے اس کو دیکھا پھر تیزی سے کانٹا نکلا اور مہر نے آپنے منہ پہ ہاتھ رکھا زاویار نے پھینکا آور تیزی سے بھاگتے ہوئے ایک بالٹی اُٹھا کر لایا اور اس میں سے کپ سے نکال کر مہر کے پیروں میں ڈالا مہر کو ٹھنڈئے پانی سے جلن سے راحت ملی اور اس سے لگا کیچڑ بھی اُتر رہا تھا
زاویار نے ایک بار پھر نکال کر ڈالا اور مہر آب حیرت سے اسے دیکھ رہی تھیں وہ بہت دھیان سے کررہا تھا
جب کیچڑ اتر گیا تو زاویار نے دیکھا مہر چُپ کر کے اسے دیکھ رہی تھیں
"میڈم آپ کو اس طرف نہیں انا چائیے تھا ۔"
"پپ پی !!!"
زاویار نے اس کی بات پہ حیرت سے دیکھا یہ کیا کہہ رہی ہے
"کیا ؟؟؟"
"پپ پی !!"
زاویار اس کی بات پہ سُرخ ہوگیا یہ کیسی باتیں کررہی ہے !
پھر ایک پپی مہر کے سامنے سے گزُرا تب مہر اسے اشارہ کرتیں ہوئے بولی زاویار کو آب سمجھ آئی اسے شرمندگی ہوئی اور ہنسی بھی ائی
زاویار نے جاکے سپارک کو پکرا اور اُٹھا کر مہر کی طرف آیا
مہر کے چہرے پہ چمک بھر گئی
اور ہنٹوں پہ پیاری سی مسکراہٹ زاویار نے مہر کے گود میں سپارک کو رکھا
"میم یہ کچھ نہیں کہے گا ۔"
زاویار نے مہر کو تسلی دیں جو تھوڑا گھبڑا رہی تھیں
اس نے زاویار کی بات سُنی اور ہلکہ سا ہاتھ لگانے لگی
پھر جب اس نے کوئی رسپونس نہیں دیا تو وہ آہستہ آہستہ سہلانے لگی زاویار مسکرا پڑا
"آپ کو پیٹس پسند ہے ۔"
زاویار نے پوچھا مہر نے اسے دیکھا اور سر ہلایا
"زاویار نے سر ہلایا
"ہیز کیوٹ !!!"
مہر ہنستے ہوئے بولی
"یس ہی از او سوری میں بھول گیا ۔"
زاویار سر پہ ہاتھ مارتے ہوئے بولا مہر نے اسے دیکھا
"کیا ہوا ؟"
"وہ آپ کا زخم ! میں ابھی ڈیٹول لیے آیا ۔"
وہ کہہ کر پھیچے والا دروازے سے گیا مہر ابھی تک دور زاویار کی پُشت کو دیکھ رہی تھیں وہ کتنا اچھا ہے اس کا دل کتنا خوبصورت ہے چہرے کی خوبصورتی کون دیکھتا اس کا دل کتنا خوبصورت ہے اس دن پاپا نے اسے تھپڑ مارا وہ چُپ چاپ کر کے پی گیا اور اسے سے بدلہ بھی نہیں لیا اور آب اس کی فکر میں اسے کے لیے انٹییپٹک لیکویڈ لارہا ہے ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :کینن ،فرانس
مہر فوڈ سیکشن کی طرف آئی وہ چمچ اُٹھانے لگی جب کسی نے اس سے پہلے اُٹھا لی اس نے مڑ کر دیکھا
شان تھا اس نے مسکراتے ہوئے مہر سے پلیٹ لیے لی
"ہاو سویٹ تھینک یو آپ نے میرے لیے پلیٹ اور چمچ پکری رکھی ۔"
مہر کو غصہ آیا لیکن کچھ بولی نہیں مڑ کر دوسری پلیٹ اُٹھائی پھر ایک بار اس سے لی گئیں اس نے پھر دیکھا شان نے لی
"یہ کیا بدتمیزی ابھی آپ کے ہاتھ میں پلیٹ تھیں ۔"
"وہ اصل میں ان کو چاہی تھیں ناں اس لیے ۔"
مہر نے دیکھا ایک بلیو ساڑی میں اولڈ لیڈی تھیں
مہر نے جلدی سے اُٹھائی اور اگئیں بڑھ گئیں اس نے سی فوڈ لینا تھا لیکن آب شان کی وجہ سے وہ پہلے ڈیسرٹ سیکشن اگئیں اور سٹرابیریز اٹھائی اور چکلیٹ فاونٹین میں ڈوبوئی ساتھ ایک اور ہاتھ نے بھی ایسا کیا اس نے دانت پیسے کیونکہ وہ شان ہی تھا اس نے غصے سے پلیٹ وہی چھوڑی
اور چل پڑی
اسے سامنے فارس نظر آیا
"ارے مہر تم نے کچھ کھانے کے لیے کیوں نہیں لیا ۔"
مہر نے پھیچے مڑ کر دیکھا جو بلکل شریفوں کی طرح کھانا ڈال کر اس کے پاس آیا
"ارے بیوٹیفُل لیڈی آپ نے کچھ کیوں نہیں لیا ہم جانتے ہیں آپ کی سماڑنس کا کیا راز ہے لیکن آیسے بھوکے تو نہیں رہے چلے یہ لے میں اور ڈال کر لیے آتا ہو ۔"
شان نے اسے پلیٹ آفر کی مہر نے اسے خشمگیں نظروں سے دیکھا اور چل پڑی
"یار شان کتنا تنگ کرو گئیں اسے ۔"
فارس ہنستے ہوئے بولا
شان مسکرایا
"یار اس مس گولڈی کو چھیڑنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔"
"پٹوں گئیں کپتان صاحب !!!"
فارس ہنسا جبکہ شان آپنی دھاڑی پہ ہاتھ پھیرتے ہوہے دور جاتیں ہوئے مہر کو دیکھنے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کھول چکا تھا ،آب دروازے کی طرف بڑھا آور ناک کیا
مہر اس کے پھیچے آئی زاویار نے دو تین بار ناک کیا
لیکن جواب صفر
مہر نے گہرا سانس لیا لیکن اگئیں سے بولی کچھ نہیں
"لگتا ہے کوئی نہیں ہے ۔"
زاویار بڑبڑایا
اور مڑ مہر خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں
"چلوں مسئلے کا حل بتاوں !!"
"کیا !"
"یس ڈیر مسئلے کا حل ۔"
زاویار نے سینے پہ ہاتھ باندھے
"مجھے کیا پتا خود سوچوں جو مجھے زبردستی اُٹھا کر لائے ہو ۔"
"ہاں وہ تو ہے بٹ کیا کریں ہم ٹہرے گاوں کی جاہل گنوار لوگوں ہمیں کہاں سوچنا آتا ہے آپ جیسی فرانس کی پڑھی لکھی لڑکی کا دماغ تو تیزی سے کام کرتا ہے ۔"
بات تو زاویار نے عام سے لہجے میں کہی تھی لیکن مہر سمجھ گئیں وہ ظنز کررہا ہے ۔
"یہ جو تم نے کھمبے جتنی ہائٹ اور پتھر جیسا جسم بنا چکے ہو تو اس کا استمعال بھی کرو ۔"
مہر نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا
"کیا کریں دل آب بھی وہی ہے ڈرپوک سا ۔"
"بس بھی کرو گئیں تم !!"
مہر تیزی سے بولی اسے دیکھ کر شان یاد آرہا تھا وہ بھی ایسا ہی تھا ڈھیٹ نہ ہو تو
"آبھی میں نے شروع ہی نہیں کیا!"
زاویار نے مسکراہٹ دبائی
مہر نے غصے سے دروازے کو ٹھوکر ماری اور اتنی زور سے کے اس کی ٹانگوں میں درد کی لہر دوڑی وہ چیخ پڑی اور نیچے بیٹھ گئیں زاویار نے دیکھا اور قہقہ لگا کر ہنس پڑا اور پھر جاکے دروازے کو ہلکی سی ٹھوکر ماری اور وہ ایک دم ُکھل پڑا اور پھر آپنے کالر اکڑانے لگا اور اندر جانے سے پہلے بولا
"جب تھوری ہمت ہو تو اجائیں گا مجھ سے تو اُمید نہ ہی رکھیں کے میں آپ کو اُٹھاوں گا ۔"
مہر نے غصے سے جوتی اُٹھائی تب تک زاویار اندر گھُس پڑا
دور سے دوربین میں ان دونوں دیکھتے ہوئے ظہیر سومرو کو کال ملانے لگا کال اس کے اسسٹینٹ نے اُٹھائی
"سر کو بتادینا وہ اس وقت شاندراہ کے سے چار کلو میٹر کے ایک چھوٹے سے گاوں میں ہے ان سے پوچھوں آب کرنا کیا ہے ۔"
"ٹھیک ہے ٹھیک ہے اوکے یاد سے کردینا ورنہ جانتے تو ہوں نا!"
لوکیشن :Shandara. Islamabad
وہ دوبارہ آیا اور جھک کر مہر کے پیروں کو انونٹمینٹ لگائی مہر اسے دیکھیں جارہی تھیں جبکہ پپی اس کے گود میں ہی تھا
وہ لگا کر جب اُٹھا تو اس نے کہا
"آپ چل سکیں گی میڈم !"
مہر نے سر اُٹھایا اور پھر سر ہلا کر اُٹھ پڑی
"ار یو شیور !"
زاویار نے تائید چائیے ،مہر مسکرائی
"تھینک یو چوٹ ویسے بھی اتنی زیادہ نہیں ہے ۔"
مہر تھوڑا سا اٹک اٹک کر بولی تھیں لیکن اس کی اُردو ٹھیک ہوتی جارہی تھیں
زاویار نے سر ہلا کر مڑا ہی تھا کے مہر نے اسے پکارا
"زاویار !"
زاویار مڑا
"فرینڈشپ !!!"
اس نے اگئیں ہاتھ کیا زاویار کا منہ ُکھل گیا وہ دنیا کی کوئی پہلی انسان تھیں جو اس سے اس سے دوستی کرنا چائتی تھیں لیکن کیوں کیا اس نے اس کی جان بچائی تھیں اس لیے لیکن اس کو دیکھ لگتا تھا وہ پہلے سے کرنا چاہتی ہے
"فرینڈز !!"
زاویار چونکہ پھر اس نے ہاتھ اگئیں کیا اور دونوں نے ہاتھ ملائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :انون ایڑیا ،اسلام آباد
مہر گھر کے اندر داخل ہوئی دیکھا گھر بلکل گھر خالی تھا کوئی ایک چیز بھی یہاں نہیں تھی اور زاویار اِردگِرد دیکھ رہا تھا
"یہ کیا گھر تو خالی ہے ۔"
مہر بڑبڑائی
"نہیں نہیں یہ سامنے ٹیبل پڑا ہے اور اِدھر انٹالین ڈیزان کا صوفہ فرینچ کپڑا ڈیزان بائی میلکن اِدھر ٹی وی ہے سامنے کافی ٹیبلز ہے کارپٹ کو تو آپ بھول ہی گئی اور کرٹن بھی لگئیں ہیں ۔"
مہر نے اس کی بات پہ اپنی آنکھیں گھمائی
"کہاں پھس گئیں میں ۔"
"فارس نے ایسا شاندار گھر تو نہیں دکھایا ہوگا آپ کو ۔"
زاویار اس کے سامنے آیا
"فارس کا یہاں کیسا ذکر ۔"
مہر نے گھور کر دیکھا
"آب تو بھی ہر وقت اسی کی باتیں ہوگئیں آپ کو بوئی فرینڈ جو ٹہرا۔"
مہر نے مٹھیاں بھینچ لی
"تمھیں جیلیسی ہورہی ہے ۔"
زاویار قہقہہ لگا کر ہنس پڑا
"میں بھلا کیوں ایک عام سی لڑکی کے لیے فضول میں ہی جیلس ہوگا ۔"
وہ چڑانے والی مسکراہٹ سے کہتا مہر کو زہر لگا
Go to hell
"مجھے جانے کی کیا ضرورت ہے آپ سے شادی کر کے میں آلڑیڈی جہنم میں انٹر ہوچکا ہو ۔"
زاویار مسکراتے ہوئے مڑ کر اِدھر اُدھر ٹہلنے لگا
مہر کو سخت رونا انے لگا اسے سب یاد آرہے تھیں پاپا ،ماما ،فارس اور ایون شان ہاں وہ کمینہ جیسا بھی تھا اسے بے انتہا چاہتا تو تھا وہ اگر اسے تنگ کرتا تھا تو اتنا کھبی زہر نہیں لگا جتنا یہ لگا
شان سے وہ چڑتی تھی جبکہ اس سے اس شخص سے وہ بے انتہا نفرت کرتی تھیں
زاویار نے جیب سے سگیرٹ نکالی اور اسے لائٹر سے جلانے لگا مہر نے ایک دم اسے دیکھا اور اس کے چہرے میں ناگواری کی لہر اگئیں
"تم !"
وہ کچھ کہنے لگی کے ایک دم چُپ ہوگئیں اور ایک کونے میں جاکر چُپ ہوکے بیٹھ گئیں
زاویار نے ایک کش لیا اور اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا
"تم کہی اور جاکے نہیں پی سکتے ۔"
زاویار کچھ نہیں بولا بس مسکراتے ہوئے پیا جارہا تھا
"اوّل درجے کا گھٹیا اور تھرڈ کلاس انسان ہے شان میں کتنے مینرز تھیں ۔"
"اکسکیوزمی آپ نے کچھ کہا ؟"
زاویار نے سگیرٹ کو اپنے انگلی میں رکھا اور اسے دیکھا
"تمھیں زرا بھی شرم نام کے چیز نہیں ہے کے میرے سامنے سگیرٹ پی رہے ہو ۔"
زاویار نے آپنی جیب سے پیکٹ نکالا اور اس کے سامنے بڑھایا
"یہ لو اگر تم مجھے پہلے کہتی تو میں تمھیں آفر کرتا ۔"
مہر کا منہ اس کی بات پہ کُھل پڑا وہ گھٹیا ترین انسان تھا وہ اس کا زاوی نہیں تھا وہ اس کا زاوی نہیں رہا تھا وہ زاوی مر چکا تھا جس کو سگیرٹ سے اتنی نفرت تھیں کی اس کا بس چلتا اس شے کو ختم کردیتا اور یہ یہ ۔۔۔۔
مہر نے ڈبہ لیکر اس کے منہ پر مارا لیکن اس کچھ بولی نہیں اور اُٹھ کر ایک جگہ پہ لیٹ کر اس نے اپنی انکھیں موند لی زاویار اسے دیکھتا رہ گیا مہر نے انکھیں زور سے بھینچ لی کے اس کی انکھوں سے انسو نہ نکل پڑیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ ،اسلام آباد
زاویار ڈبے اُٹھا کر سٹور روم میں لیے کر جارہا تھا جب گرین فراک میں مہر اس کے پاس آئی
"زاوی زاوی !!!"
جب سے ان دونوں کی دوستی ہوئی تھیں مہر اسے زاوی بُلا نے لگی تھیں زاویار نے ایک دن اسے سے ہو ھا کے تم مجھے یہ کیوں بُلاتی ہو تھوڑا سا سوچنے کے بعد وہ بولی بس مجھے یہ نام اچھا لگتا ہے اور مجھے تم اچھے لگتے ہو زاویار ہلکہ سا مسکرا پڑتا کیونکہ
وہ پہلی تھیں جس کو وہ اچھا لگتا تھا
"تمھیں مجھے منہ کالی بیڑ کہنا چاہیے ۔"
مہر جو اپنے پیر ہلاتی وہ اس کو دیکھتے ہوئے بولتی
"کیوں یہ کیسا عجیب نام ہے ۔"
آب وقت کے ساتھ ساتھ اس کی اُردو ٹھیک ہوتی جارہی تھیں کیونکہ زاویار اسے نئے نئے لفاظ سکھاتا
"سب مجھے اسی نام سے پُکراتے ہیں ۔"
"سب پاگل ہے تم اپنا دل سمال مت کرو ۔"
اس کو چھوٹے کہنے کے بجائے سمائل کہنے پر زاویار ہنس پڑا
"تم بہت کیوٹ ہو مہر ۔"
"اچھا ویسے سب مجھے کہتے ہیں ۔"
مہر برامدے کے کونے میں بیٹھی زور زور سے ٹانگیں ہلانے لگی
"تم میرا نام بھی سیجیسٹ کرو ناں !"
زاویار جو کو پلر کو کپڑے سے صاف کررہا تھا مڑا
"کیوں تمھارا نام اچھا نہیں ہے ۔"
"او ہو نیک نیم جیسے تمھارا نام زاوی ہے تو میرا بھی کوئی نام ہونا چاہیے ۔"
زاویار سوچ میں پڑ گیا اس کے زہن میں ایک نام آیا لیکن سر جھٹک کر بولا
"مہر یہ اچھا نام ہے !!!"
مہر نے گھورا
"پلیز کوئی تو نام ہوگا ۔"
"میں تمھیں مہر ہی بلایا کرو گا ۔"
زاویار نے جیسے بات ختم کی اور چل پڑا مہر نے منہ بنا لیا وہ آب دوسرے دن اس کے پاس ائی تھیں جو سٹور روم میں باکس رکھ رہا تھا
"تم اتنا بھاری کیسے اُٹھا لیتے ہو ۔"
وہ اپنی بات بھول کر اسے دیکھ رہی تھیں
"جیسے سب اُٹھا لیتے ہیں ۔"
وہ اس وقت سخت مصروف لگ رہا تھا
"اچھا چھوڑوں اسے مجھے کچھ دیکھانا ہے ۔"
اس نے زاویار کا ہاتھ پکر کر کھینچا
"کیا ہے مہر ؟؟؟"
"او نا ۔"
وہ اسے گھسیٹ کر ایک جگہ بیٹھایا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گئی
اس نے سگریٹ کا پیکٹ نکالا زاویار کا منہ کُھل گیا
"یہ کہاں سے لیا تم نے ۔"
زاویار نے تیزی سے لیا
"یہ یہ میں نے بابا کی بیڈروم میں پڑا تھا پاپا اسے منہ میں ڈالتے ہیں اور اس میں دھوا نکلاتا ہے کتنا کول لگتا ہے تم بھی کرو اور مجھے بھی سیکھاو ۔"
مہر معصومیت سے بولی
Are you insane
زاویار نے اسے دور پھینکا مہر نے اسے گھورا
"تم نے پھینکا کیوں مجھے کرنا ہے ۔"
"مہر پاگل ہو یہ اچھا نہیں ہوتا صحت کے لیے ۔"
وہ اُٹھنے لگی جب زاویار نے اس کا ہاتھ پکڑا
"پھر بابا کیوں کرتیں ہے ۔"
"تمھارے بابا پاگل ہے اس لیے ۔"
زاویار بڑبڑایا
Mehr smoking is injurious to health
"کیسے ؟"
وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی
"اسے سے آپ کی لنگز ڈمیج ہوتی ہیں ہے تمھیں پتا ہے نا جہاں سے سانس لیتے ہیں ۔"
مہر نے سر ہلایا
"تو وہ اگر ہم لیے گئیں اور ہماری لنگز ڈمیج ہوگئی تو کیا ہم سانس لیے پائے گئیں ۔"
مہر نے نفی میں سر ہلایا اور پھر منہ کھولے بولی
"او لارڈ !!پھر اگر سانس نہیں لیے پائے گئیں تو ہم تو مر جائیں گئیں ۔"
Exactly
زاویار کھڑے ہوتیں ہوئے بولا
But why daddy wants to suicide
مہر نے ایک دم کہا
"پتا نہیں ان کو پتا ہوگا ۔"
"میں پاپا کو سوسئیاڈ نہیں کرنے دو گی ۔"
مہر نے جاکے سگیرٹ کے ڈبے کو پیروں سے کک ماری زاویار کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئیں پھر وہ زاویار کے پاس آئی
"ہم پتا کیا کریں گئیں زاوی !"
زاویار کریٹ اٹھا کر جب رُکھ چکا تب بولا
"کیا کریں گئیں ۔"
"ہم نے سگیرٹ کو بین کردیں گئیں ۔"
زاویار ہنس پڑا
"کاش ایسا ہوجائیں لیکن یہ نا ممکن ہے ۔"
"تم جب مجھے پڑھاتے تھیں تو کہتے تھیں کوئی بھی چیز نا ممکن نہیں ہے تو یہ بھی نہیں ہے ۔"
"میری باتیں یاد رہتی ہے تمھیں !!!"
زاویار نے اپنے ہاتھ جھاڑے مہر نے اپنے فراک سے رومال نکالا اور اس دیا
"یہ لو !!!
زاویار چونک پڑا
"نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔"
"نہیں رکھوں اور میں چلتی ہو میرے (ممی )بُلا رہی ہوگئیں ۔"
وہ دیں کر چلی گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آب سگیرٹ کو پھینک چکا تھا اور مہر کو دیکھ رہا تھا جو آب سو چکی تھیں
وہ کھڑکھی کی طرف بڑھا اور اس نے اپنی جیب سے وہی رومال نکالا جو گیارہ سال پہلے مہر نے اسے دیا تھا چھوٹے سا پنک کلر کا رومال جس کے چھوٹی سی جگہ پہ ایم لکھا ہوا تھا وہ آب مڑ کر دوبارہ مڑ کر مہر کو دیکھ رہا تھا
وہ نیچے زمین پہ لیٹی سردی میں کانپ رہی تھیں زاویار نے آپنی جیکیٹ اُتاری اور اسے کو اوپر ڈال دیں اور اس کے چہرے کو دیکھا جہاں آنسو کے نیشان آب بھی موجود تھیں اس نے انگلی کی پوروں سے اس کے گالوں کو چھوا وہ ہلکہ سا کسمائی
"زاوی !!!"
کوئی کہتا تھا
"زاوی میرے ساتھ چلوں ۔"
کوئی اسے کھینچ کر آپنے ساتھ لیکر جاتا تھا
"زاوی ائیم سوری ۔"
کوئی اپنے کان پکر کر سیڈ فیس بناتا تھا
"مجھے تم اچھے لگتے ہو اس لیے تمھارا یہی نام رکھوں گی ۔"
کوئی اپنی ٹانگیں زور سے ہلاتا
زاویار کھڑا ہوگیا اور دوبارہ کھڑکھی کی طرف بڑھ گیا
اسے سگیرٹ کی دوبارہ طلب ہورہی تھیں اس نے نکالی اور منہ میں ڈالنے لگا
"میں اور تم مل کر بین کریں گئیں ۔"
اس نے سر جھٹک کر سگیرٹ جلائی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :کینن ،فرانس
وہ سب کینن بیچ ائے تھیں فارس نے مہر کو اپنی برتھ ایے پارٹی میں انوائٹٹ کیا مہر جانا نہیں چاہتی لیکن پاپا کے فورس کرنے پر چل پڑی
اس نے گرین کلر کی سکیرٹ پہنی تھی ساتھ میں وائٹ کلر کا ٹاپ بالوں کو اس نے اونچی پونی ٹیل بنائی تھیں
وہ پروائٹ سائڈ پہ ائی تھیں کیونکہ وہاں ہی اریجمنٹ کی تھیں گرین شرٹ اور بیج شارٹس میں فارس آیا اور مہر مسکرائی
"ہیپی برتھ ڈئے ۔"
اس نے گفٹ اگئیں کیا فارس نے مسکراتے ہوئے لیا
"تھینک یو ویسے یار اس کی ضرورت نہیں تھیں آپ بیوٹیفُل لیڈی نے یہاں اپنے مبارک قدم رکھیں اور کیا چاہیے ہمیں آو !!"
اس نے مہر کو اشارہ کیا مہر چل پڑی اگئیں کی اریجمنٹ بے حد سنپل لیکن اچھی کی ہوئی تھیں سارے لوگوں ایک دوسرے سے باتوں میں لگیں تھیں کوئی سرفنگ کے لیے جارہا تھا کوئی کپل اپنے رومینس میں لگئیں تھیں مہر کو الجھن ہوئی یہ نہیں تھا کے یہ سب نیا تھا اس کے لیے لیکن کسی جانے والے کے سامنے بڑا ہی عجیب لگتا ہے
"It's the heart of gold and star dust ofsoul that makes you beautiful
مہر ایک دم مڑی اور اس نے دیکھا اور کوئی نہیں کیپٹن شان تھا اس نے پھیچے پونی باندھی تھی اس نے انکھوں میں ریبین کی گلاسس لگائی ہوئی تھیں اس نے وائٹ پولو شرٹ اور بیج کلر کی ہی شارٹس پہنے ہوئے تھیں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا
"تم تم یہاں !!!!"
"ہاں میں کیوں آپ مجھے مس کررہی تھیں مس گولڈی ۔"
مہر نے عجیب منہ بنایا
"ہائے اس ڈریس میں تو ماشااللّٰلہ سے قیامت لگ رہی ہے لیکن ڈیر ایسا حسین وجود کو چھپانا چاہیے ناکے آن عجیب مردوں کو دیکھانا چاہیے ۔"
شان کی اس بات نے مہر کو تپا دیا
Mind your own business
"ائے کاش ہمارا بزنس ہوتا مس مہر لیکن کیا کریں ملک کے رکھوالے بننے کے لیے بنے ۔"
"تو مسڑ رکھوالے آپنے ملک جائیں ناں یہاں کیا کررہے ہیں ۔"
"بس چھٹیاں منانے آیا ہو لیکن پتا چلا سب سے قمیتی چیز میری گولڈی یہاں پر ہے بس اسے لیے بنا نہیں جاوں گا ۔"
"میں تمھاری نہیں ہو شان !!!"
"وہ کہتے ہے ہم نہیں ہے تمھارے
لیکن انھیں کیا پتا وہ تو اوّل روز سے ہمارے ہی ہیں ۔"
شان دلکش لہجے میں بولا
You're just impossible
مہر تیزی سے بولی
Only for you Goldie
مہر اسے مڑتے ہوئے خشمگیں نظروں سے دیکھا شان
نے سٹائل سے گلاسس اتار کر اسے دیکھا
Mine
وہ اونچی آواز میں بولا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی انکھ کُھلی اس نے دیکھا اس کے اوپر جیکٹ پڑی ہوئی تھیں اور یہ جیکٹ اور کوئی نہیں بلکہ زاویار کی ہی تھیں اس نے مڑ کر دیکھا جہاں زاویار دیوار ک ایک سائڈ پہ بیٹھا سینے پہ بازو لپیٹے انکھیں موندیں سویا ہوا تھا مہر نے دیکھا وہ بہت ٹھنڈ میں اسے اپنی جیکٹ دیں چکا ہو کتنا کیرنگ !!نہیں وہ کیرنگ ہرگز نہیں یہ اس کی ڈیوٹی ہے لقمان حمید نے اسے زمہ داری دیں ہے کے وہ اس کا خیال رکھنا فرض ہے ورنہ یہ پھتر دل شخص کیا جانیں وہ تیزی سے اُٹھی اور اس نے جیکٹ زاویار کے منہ پہ مارنے لگی جب اس نے دیکھا وہ سوتے ہوئے بہت ہی معصوم بچے کی طرح لگ رہا تھا بہت ہی پیارا وہ تھا ہی اتنا خوبصورت اتنا معصوم کے مہر کو اس کو دیکھتے ہی دل پگھل گیا
وہ گھٹنے کے بل بیٹھ گئیں اور اسے دیکھنے لگی
"زاوی تم اتنے سنگدل کیوں ہوگئیں ہو تم تو سب سے پیارے تھیں سب سے اچھے دُنیا میں اگر کوئی اچھا انسان تھا تو وہ تم تھیں زاوی مجھے سے ہر کوئی محبت کرتا ہے لیکن مجھے کسی کی محبت اٹریکیٹ ہی نہیں کرتی مجھے تو اپنا دوست اچھا لگتا تھا میرا زاوی
میرا رکھ والا تم مجھے زرا بھی خوبصورت نہیں اچھے لگ رہے مجھے وہ موٹا سا ڈارک سا کیرنگ سا زاوی واپس چاہیے لیکن میں جانتی ہو وہ مجھے کھبی نہیں ملے گا میرا دوست میں نے کھو دیا ہے ۔"
اس کی انکھیں انسو سے بھر گئیں اس نے جلدی سے انسو صاف کیے اور جیکٹ اس کے اوپر ڈال کر اُٹھ پڑی
لوکیشن :شاندراہ آسلام آباد
زاویار کو کچھ دن کے لیے آپنے ماموں کے پاس جانا تھا کیونکہ وہاں پہ اس کے نائنتھ کے اگزامز تھیں مہر شام کو اپنے ابو امی کے ساتھ شہر گئیں تھیں زاویار اس کا انتظار کرتا رہا لیکن پھر سوچا واپس اجائیں گا تو بتادیں گا اس لیے وہ رات کو چلا گیا
مہر جب گھر واپس ائی تو خاصی بور ہوئی اسے بلکل بھی نہیں مزا آیا اور اس کے پاپا کے دوست کے بچے بہت بدتمیز تھیں اسے زاویار یاد آرہا تھا وہ کتنا سویٹ ہے اس کے ہر بات سُنتا ہے کھبی ٹوکتا نہیں اور کچھ سمجھانا تو اتنے اچھے طریقے سے سمجھاتا ہے وہ اس وقت اس کے پاس جانا چاہتی تھیں اسے سب بتانا چاہتی کے وہ لوگ بُہت عجیب تھیں اسے بہت تنگ کیا پھر اتنی رات کو سوچ کر چُپ ہوگئی وہ بے چارا صبح سے شام تک کام کرتا ہے پڑھتا ہے تھک بھی گیا ہوگا اس لیے صبح ہی اس سے بات کریں گی وہ سو گئی جب صبح اُٹھی تو جلدی سے فورن تیار ہوئی
پارسا اسے کمرئے میں اُٹھانے کے لیے ائی تھیں لیکن اس بلکل تیار ہوکر دیکھتے ہوئے حیران ہوئی مہر نے بلیو کلر شلوار قمیض پہنی تھیں اور وہ اپنا چھوٹا سا ڈوپٹہ اُٹھا رہی تھیں
"ارئے مہر یہ کس نے دیا یہ تو اتنا پیارا ہے ۔"
مہر نے اپنے لان کی پیاری سا انگرکھا سٹائل کی قمیض دیکھی پھر ہنس کر ممی کو دیکھا
"پیرے یہ زاوی نے دی تھیں اس کی ماما نے بنایا ہے اچھا ہے ناں ۔"
پارسا نے مسکراتے ہوئے انکھیں مزید کھولی اس کے بیٹی بہت زیادہ پیاری لگ رہی تھیں
"اچھا واقی میں بہت پیارا بنایا انھوں نے کب دیا مجھے بتایا کیوں نہیں ۔"
وہ اس کے پاس آئی اور مہر سے برش لیکر اس کے بال میں کنگھی کرنے لگی
"کل دیا تھا اس نے ایک دن میں ان کے پاس گئیں تھیں تو وہ مشین سے کپڑے بنا رہی تھیں میں نے ان سے پوچھا تو کہتی ہے وہ زاوی کے کپڑے بنا رہی ہے میں نے کہا اس سے کپڑے بن جاتیں ہیں تو انھوں نے کہا ہاں میں نے کہا میرے بھی بنا دیں گی تو وہ ہنس کر مان گئیں زاوی نے منع کیا لیکن میں نے ضد کی اور اس کے اگلے دن وہ میرے لیے لے آیا
"یہ تو واقی بہت خوبصورت اور مہنگا کپڑا ہے مہر ایسے ضد تو نہیں کرنی چاہئے تھیں وہ بہت غریب لوگ ہیں ۔"
"لیکن میرے (ممی ) ان کے دل امیروں سے بڑے ہیں ۔"
پارسا کا ہاتھ رُک گیا اور وہ مہر کو موڑ کر دیکھا جو انھیں دیکھ رہی تھیں اس کی سوچ واقی ہی دارب سے ملتی تھیں پارسا نے اپنا سر جھٹکا
"جاوں لگتا ہے میری بیٹی کا پاکستان میں دل لگ گیا ہے ۔"
مہر مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور اُٹھ کر نیچے چل پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر ایک سیٹ پہ بیٹھ گئی اور ویٹر نے اکے اسے جوس سرو کرنے لگا کے اس میں سے دو گلاس اُٹھائے گئیں
مہر نے دیکھا وہ اور کوئی نہیں شان ہی تھا
"فور یو گولڈی گولڈ ڈسٹ ود exotic freshness جسٹ لائک یو ۔"
مہر نے بس اسے ایک نظر دیکھا اور منہ موڑ لیا
"ہماری مس گولڈی لگتا ہے کافی ناراض ہے ۔"
شان اس کی ساتھ والی کُرسی پہ بیٹھ گیا
"میرا جب تمھارے سے کوئی تعلق نہیں ہے تو میں بھلا تم سے کیوں ناراض ہوگئیں ۔"
مہر نے اسے گھورا
"مطلب ہماری گولڈی ہم سے ناراض نہیں ہے چلوں اچھا ہے ۔"
شان مسکرایا
اس نے گولڈ ڈسٹ مہر کو پکرایا مہر یہ گلاس اسے اٹھا کر مارنے لگی تھیں کب فارس آیا
"ارئے مہر تم نے ابھی تک کچھ نہیں لیا یار بُری بات اور یہ کدھر ہے ویٹر !"
"مس گولڈی کے سامنے اتنا مہنگا جوس پڑا ہے لیکن مجال ہے یہ اپنی میٹھی سی زبان کو ٹھنڈک بخشے ڈیر آپ نے مرچے پہلی ہی اتنی کھائی ہیں تھوڑا سا پی لیے ۔"
شان کی بات پہ وہ تپ اُٹھی
Behave yourself
مہر سخت لہجے میں کہتے ہوئے اُٹھ پڑی
"ارئے ارئے شان یار میری مہمان کو کیوں تنگ کررہے ہو پلیز مہر مائینڈ نہیں کیجیے گا یہ ایسا ہی ہے پاگل سا ۔"
"تھوڑا دیوانہ سا !!"
شان کی بات پہ مہر نے اپنا پرس اُٹھایا
"پلیز مہر مت جاوں ۔"
فارس اس کے ساتھ چلنے لگا
شان سپ لیکر گہری نظروں سے ان دونوں کو ساتھ چلتے ہوئے دیکھنے لگا لیکن گلاس کو پکرتے ہوئے اس کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی تھیں اور لب زور سے بھینچے جارہے تھیں کیونکہ فارس نے مہر کا بازو پکرا تھا اور اس سے ضبط کرنا مشکل ہورہا تھا
"مہر پلیز وہ عجیب سا ایسی ہی تنگ کرتا ہے دیکھوں وہ بہت اچھا میں اسے بھی جانے کا کہہ نہیں سکتا کیونکہ وہ میرا دوست ہے ."
"تو میں کون سا کہہ رہی ہو فارس تم لوگ انجوائی کرو ویسے بھی مجھے یہ سب پارٹی وغیرہ نہیں پسند میں بور ہورہی ہو میں چلتی ہو۔"
"او ہو ہم تمھیں بور نہیں ہونے دیں گئیں پلیز چلوں میری خاطر اس کو ایک دن کے لیے اگنور کردوں ۔"
مہر نے اس کو دیکھا جو معصوم سی شکل بنا رہا تھا پھر وہ مان گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زاویار اُٹھ پڑا دیکھا مہر نہیں تھیں وہاں وہ تیزی سے اُٹھا
"مہر !
مہر !
اس نے ایک چھوٹے سے کمرئے کی طرف بڑھا وہ وہاں تھیں نیچے اپنے آپ کو گھیرے میں لیے لیٹی تھی شاہد اس کو سردی لگی تھیں زاویار نےتو اسے اپنی جیکٹ دیں تھیں لگتا ہے ضرور اس نے اس کو دیں دی تاکہ وہ اس پر احسان نہ جتایے
وہ اپنے منہ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے واش روم کی طرف بڑھا جب اس کا فون بج اُٹھا اس نے دیکھ کر فورن اُٹھایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر نیچے ائی اس نے دیکھا آج زاویار کہی نہیں نظر آرہا وہ باہر گئیں وہ وہاں بھی نہیں تھا
اس نے گارڈن میں جانا کا فیصلہ کیا وہ وہاں گئیں لیکن وہاں دور دور تک زاویار کا نام و نیشان نہیں تھا
وہ مایوسی سے دوبارہ واپس مڑی جب سمیر سامنے سے گزر رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے بولا
"میڈم کیا چاہیے آپ کو ؟"
مہر نے سر اُٹھایا اور اسے ناگواری سے دیکھا کیونکہ یہ سمیر ،زاویار کو بہت تنگ کرتا تھا اس نے گھور کر مڑنے لگی جب وہ بولا
"اس کالے کوئے کو ڈھونڈ رہی ہے بلکہ سوری کالے گائے کو ڈھونڈ رہی ہے ۔"
مہر کو کوئے کا نہیں پتا تھا لیکن گائے کا ضرور اس لیے اسے غصہ آیا
"سٹاپ آٹ اسے گائے مت کہوں ۔"
مہر نے اپنے نھنے سی مٹھیاں بھنیچ لی
"اچھا آپ اسُی گینڈئے کو ڈھونڈ رہی ہیں وہ تو چلا گیا ۔"
سمیر بولا
"مہر گینڈئے لفظ کو بھول کر اسے دیکھنے لگی
"کدھر چلا گیا ؟"
آب وہ جلدی اور پریشانی سے بولی
"اس دُنیا سے بہت اچھا بندہ تھا ویسے ۔"مہر اس کی بات پہ ایک دم شاکڈ ہوگئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔......
لوکیشن : Goa India
"تمھیں کس نے کہا تھا اسے چُنے کو ۔"
وہ ایک دم دھاڑ اُٹھے
"سر وہ انٹرنیشنل لیول کا آفسر ہے اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔"
وہ لیپ ٹاپ سے سکائیپ میں بات کررہے تھیں وہ اپنے باس کے دھاڑ پر سر جکھا گیا تھا
"یو بلڈی فُولز انٹرنیشل کے بعد آفسر لفظ بھول گئیں وہ بہت ہی خطرناک قسم کا آفسر ہے ایک اور منہوس خبر میں آیا ہے ہائیر کیا ہے اور وہ اس سے بھی زیادہ شاطر ہے بس ایک دفع اس کا نام پتا چل جائیں پھر ہمارا کام آسان ہوجائیں گا آب بتاو اگر اسے ایک بھی بھنک پڑ۔ گئی تو وہ ائی ایس ائی والوں کو خبر کردیں گا پھر اپنی اور میری کفن تیار رکھنا ۔"
"آپ بلکل فکر نہ کریں سر پلیز اس طرح میرے ایک تیر سے دو شکار ہو جائیں گئیں میں آپ سے وعدہ کرتا ہو کے میں اس انٹرنیشنل آفسر کو بہت بڑی مات دو گا ۔"
وہ انھیں مناتے ہوئے بولا
"اس کو چھوڑوں اس خبیث کا پتا کرواوں اس نے ہمارا سارا کام تمام کردینا ہے ۔"
"اوکے سر آپ فکر نہ کریں میں شیم سے بات کرتا ہو آپ بلکل ٹینشن نہ لیے ۔"
وہ انھیں بائے کرتیں ہوئے فون بند کرچکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :انون ایڑیا ،آسلام آباد
وہ واش روم سے باہر آیا دیکھا مہر ابھی تک لیٹی ہوئی تھیں
"ہیں کہی مر ور تو نہیں گئیں ۔"
وہ چلتے ہوئے اس کے پاس آیا جو بلکل نہیں حرکت کررہی تھیں اس نے اپنی ٹھوڑی پر ہاتھ پھیرا اور کچھ سوچ کر اسے کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئیں
اس نے اپنا فون نکالا اور اپنے ٹیون میں سے کچھ سلیکیٹ کیا پھر کچھ سوچ کر اس نے موبائل ڈیٹا آن کیا اور اس میں سے سکیری ساونڈز ڈاونلوڈ کیا
"کم آن جلدی ہوجائیں اس سے پہلے یہ اُٹھ جائیں ہوگیا ۔"
اس نے مہر کے کان کے قریب رکھا اور ڈروانی چیخنے والی سُن کر زاویار کو لگا کے مہر چیخیے گئیں لیکن اس نے صرف انکھیں کھولی اور زاویار نے اسے حیرت سے دیکھا
"تمھیں لگا اس طرح کر کے میں ڈر جاو گی چیخنے لگوں گی تمھارے ساتھ چپک جاوں گی تو تمھاری یہ بھول ہے ۔"
مہر اُٹھ کھڑی ہوئی اور اس کا فون گرانے والے انداز میں زاویار کو دیا جسے زاویار نے کیچ کیا
"او تو میسز زاویار نے ڈرنا چھوڑ دیا ہے ہماری بیوی بننے کا اثر ہے ۔
زاویار نے اس چڑانے کے لیے جیب سے سگریٹ نکالی ورنہ ابھی اسے طلب نہیں ہورہی تھیں
مہر نے اسے دیکھا مڑنے والی جب زاویار نے اس کا بازو پکڑا اور کھنیچ کر اپنے ساتھ لگایا
"کدھر جارہی ہو مسز زرا اپنی شوہر کی تھکن تو اتارو ۔"
وہ سگریٹ کے پھونک مہر کے چہرے پہ مار رہا تھا
مہر اس کے بازو میں مچلی
"چھوڑوں مجھے میں تمھاری بیوی نہیں ہو۔"
وہ ساتھ میں کھانسنے لگی
"ثبوت بھول گئیں مہر ڈیر !یاد دلاؤ میں تمھیں ۔"
اس نے گرفت مضبوط کی
"چھوڑوں مجھے درد ہورہا ہے ۔"
"اتنا تو نہیں ہوا تھا جتنا مجھے ہوا تھا جب تمھارے یہ ہیزل انکھوں میں بے اعتباری دیکھی تھیں جہاں میں نے اپنے لیے گھن دیکھی تھیں ۔"
زاویار سخت لہجے میں بولا
مہر کی انکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئی اس نے زاویار کے ہونٹوں میں پڑا سگیرٹ اپنے ہونٹوں سے لگایا زاویار نے گرفت ایک دم ڈھیلی کی
"مہر !!!"
زاویار کو شدید جھٹکا لگا اس کے جلے ہوئے ہونٹ دیکھیں وہ اس کی اس بات پہ اتنا بڑا ریکائشن لیے گی اس نے سوچا نہیں تھا مہر نے جلن سے اپنی انکھوں کو زور سے بھینچا اور بھاگتے ہوئے واش روم میں گھسی جب کے زاویار اس کے پھیچے آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن ؛کینن ،فرانس
جہاں بیج ہو وہاں سرفنگ نہ ہوں یہ تو ناممکن سی بات اور کینن بیج تو فرانس کا سب سے خوبصورت ترین بیج تھا مہر آب قدرے فاصلے میں ریت پہ بیٹھی سمندر کی لہروں کو دیکھ رہی تھیں پھر اس نے شان کو سرفنگ کرتے ہوئے دیکھا اورپھر وہ اپنی سوچ پہ گُم ہوگئی وہ پہلی بار باہر نکلی تھیں ورنہ اسے باہر نکلنے کا شوق نہیں تھا اسے مردوں سے بات کرنا ان کے ساتھ گھومنا کھبی اچھا نہیں لگا اس نے کوئی دوست بھی نہیں بنائی وہ بس کمرئے میں بند کتابوں یا لیپ ٹاپ میں لگی رہتی اور جب سے پارسا کی ڈیتھ ہوئی وہ تو مزید خاموش اور زیادہ بند ہوتی گئیں اور آج پورے گیارہ سال بعد پورے گیارہ سال بعد وہ ایسے باہر نکلی کسی سے بات کی کسی کی پارٹی میں ائی اور دو بندوں سے اس کی بات چیت ہوئی فارس اچھا تھا اس کی نیچر بہت چل سی تھیں جبکہ شان سے ملاقات خاصی ناخوشگوار سی تھیں بہت ہی عجیب تھا باتیں اس کی خاصی ناگوار ہوتی لیکن مہر نے اس کی ہری انکھوں میں کھبی ہوس نہیں دیکھی یہی سب سے حیران کُن بات تھیں وہ فلرٹ کرتا بکواس سی شاعری کرتا لیکن ایسی فیلنگز جس میں انسان کے دل میں خوف پیدا ہوجائیں ایسا کھبی نہیں ہوا ورنہ وہ بہت ڈرپوک قسم کی لڑکی تھیں ناجانے کیوں وہ شان سے صیح کھل کر سنا جاتی تھیں
"ربا میں تو مر گیا ہوئے
شدائے مجھے کر گیا کر گیا ہوئے ۔"
شان کی دلکش آواز سُن کر مہر نے اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھا
اور بس بیج کو دیکھیں جارہی تھیں
شان اس کے ساتھ بیٹھ گیا
اور مہر کے ہاتھ ہٹائے
"ڈونٹ ٹچ می !"
مہر چیخی
شان نے اپنے ہاتھ اوپر کر لیے
"سوری گولڈی گستاخی کے لیے بے پناہ معافی لیکن ائے کاش اگر آب یہ بات فارس کو بولتی تو ہمارا دل باغ باغ ہوجاتا ۔"
مہر نے اسے دیکھا اس نے گلاسس پہنی ہوئی تھیں شکر تھا ورنہ اس کی انکھیں بے حد عجیب تھیں وہ سمجھ نہیں پارہی تھیں کے یہ گرین ہے یا کیا کیونکہ اتنی گرین اس نے آج تک نہیں دیکھی تھیں اگر وہ غور سے دیکھتی تو وہ پھر بکواس کرنے لگ جاتا
"ہائے شکر ہے یہ نورانی چہرے کا دیدار کروایا آپ نے مس گولڈی بس دل کرتا ہے اس چہرے کو چھپا لو اسے صرف میں دیکھوں اور کوئی نا دیکھیں ۔"
What the hell is problem with you
مہر نے اریرٹیٹ ہوکے اسے دیکھا
You my golden sunshine
You have have taken my every
Single piece of body
And claimed your name
And my blood sings your name
With your golden skin burst
My brain which spins while your
Fluttering lashes bows
And kiss your cheeks that are made of dust of gold
That takes my breath away
Oh baby
This is my problem
My Golden beauty
You claimed me
مہر ایک منٹ کے لیے تو کھو گئی وہ اسے دیکھیے جارہی تھیں جبکہ شان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی
George Gordon Byron کی پوئیم اپنی دلکش آواز میں سُنائی
She walks in beauty, like the night
Of cloudless climes and starry skies;
And all that's best of dark and bright
Meet in her aspect and her eyes:
Thus mellowed to that tender light
Which heaven to gaudy day denies.
One shade the more, one ray the less,
Had half impaired the nameless grace
Which waves in every raven tress,
Or softly lightens o'er her face;
Where thoughts serenely sweet express
How pure, how dear their dwelling place.
And on that cheek, and o'er that brow,
So soft, so calm, yet eloquent,
The smiles that win, the tints that glow,
But tell of days in goodness spent,
A mind at peace with all below,
A heart whose love is innocent!
وہ مسکراتے ہوہے اس کا منتظر تھا جو آب تک سٹل تھیں پھر مہر ہوش میں اکر بولی
"آب تک کتنی لڑکیوں کو اپنی بکواس شاعری سے پٹا چکے ہوں ۔"
مہر کا لہجہ سپاٹ سا تھا لیکن انکھیں حددجہ سرد
"My golden goddess مجھےشاعری تمھیں دیکھ کے یاد آتی ہے ورنہ مجھ جیسا انسان کو شاعری کی الف ب تک نہیں پتا تھیں تم نے مجھ پر کیسا جادو کیا ہے ۔"
"کرتے رہو کوشش کھبی کامیاب نہیں ہوگئیں۔"
مہر نے اپنے اڑُتے لٹوں کو پھیچے کیا
"کیوں کوئی دل میں ہے ۔"
شان آب سپاٹ لہجے میں بولا
"ہاں میرا دل صرف کسی اور کے لیے اور یہ دل اسی کا رہے گا ۔"
مہر مضبوط لہجے میں بولی شان اسے دیکھتا رہا پھر ہنس پڑا
"میں جانتا ہو مس گولڈی میرے سے پھیچا چھڑانے کے لیے تم جھوٹ بول رہی ہو لیکن میں بہکاوئے میں نہیں آو گا ۔"
"کرتے رہوں خالی ہاتھ رہوں گئیں بلکہ رہوں گئے کہاں مل جائی گی دوسری گولڈیز۔"
مہر کہتے ہوئے اُٹھ پڑی
"ہمیں آزمانا ہے تو شوق سے آزماوںُ
لیکن یہ نہ کہوں تم ہمارے نہیں ۔"
مہر نے اپنا ہاتھ جھٹکا
"اچھا کرتیں ہو مجھ سے محبت ۔"
مہر نے اپنے بازوں دونوں پھیچے کیے
"آب تمھیں سینہ کاٹ کر دکھاؤں گی میرا دل صرف تمھارا ہے ۔"
شان کے لہجے میں شدت تھیں اور ایک منٹ کے لیے تو مہر ڈر گئیں
"نہیں بس دو گھنٹے کے لیے اس سمندر میں ڈوبے رہوں ایک سکینڈ بھی باہر نہیں آنا۔"
مہر نے اس لیے کہا کے وہ آب اپنی اصلیت دکھا دیں گا
شان مسکرایا
"بس اتنی سی خواہش ہماری گولڈی کے لیے جان مانگتی وہ بھی دیں دیتا یہ تو کچھ بھی نہیں ہے ۔"
شان کھڑا ہوگیا مہر آب ڈر گئیں شان نے اس کا گال تھپکا مہر ایک دم پھیچے ہوگئیں وہ حیرت سے اس دیوانے کو دیکھ رہی تھیں جو اگئیں چل کر ایک دم جاتا گیا مہر کے انکھیں حیرت سے پھیل گئیں کیونکہ وہ آب ایک منٹ کے اندر چلا گیا مہر کو لگا وہ آب آجائیں گا لیکن وہ نہیں نکلا ایک دو تین چار پانچ منٹ ہوگئیں وہ ناں آیا مہر کو لگا تھوڑا سا صبر لیکن وہ نہیں نکلا اس کی دل کی دھڑکن تیز ہوگئیں وہ فارس کے پاس بھاگتے ہوئے گئیں
فارس جو دوستوں کے ساتھ بیٹھے بات کررہا تھا مہر کی آواز پہ مڑا
"فارس فارس وہ وہ ۔"
"کیا ہوا مہر ؟" فارس اُٹھا
"وہ شان !"
"کیا ہوا پھر تنگ کیا اس نے آو میرے ساتھ آب میں اسے بتاتا ہو۔"
"وہ سمندر کے اندر چلا گیا ۔"
"تو ؟"
فارس کی بات پہ اس نے حیرت سے دیکھا
"کیا مطلب تو وہ اندر چلا گیا کافی ڈیب اور وہ مر جائے گا ۔"
"مہر ٹیک اٹ ایزی ،اتنا ڈیب نہیں ہے ۔"
"نہیں نہیں وہ اس طرف گیا ہے وہاں جہاں ڈیب ہے ۔"
"اس کے لیے کوئی بھی سمندر ڈیب نہیں ہے مہر ۔"
"کیا مطلب ! "
"مہر وہ سمندر کے اندر ایک گھنٹے سے زیادہ رہ سکتا ہے وہ ٹاپ سیمونگ چیمپین رہا ہے وہ اپنی برھتنگ کنڑول کرسکتا ہے جسٹ ریلکس یار بھول گئیں وہ فوج میں ہے ۔"
"لیکن فوج میں تو جنگ لڑی جاتی ہے ناکے ڈوپکی لگانے کا کہا جاتا ہے ۔"
مہر حیرت سے بولی
"او مائی یور سچ ان انوسینٹ گرل ۔"
"لیکن میں نے اسے دو گھنٹے کا کہا ہے کیا وہ پاگل دو گھنٹے بنا ماسک کے اندر ہی رہے گا ۔"
"اتنا پاگل نہیں ہے وہ ۔"
فارس بڑبڑایا
"خیر جو بھی ہے مرئے یا جیے میری بلا سے میں جارہی ہو ۔"
مہر کہتی ہوئی چل پڑی اس نے دیکھا وہ اپنا پرس بھول گئیں ہے اِدھر وہ اُدھر جاکے اُٹھانے لگی پھر دیکھا وہ نہیں نکلا
"بھاڑ میں جائیں میری بلا سے آللّٰلہ کریں مر جائے ۔"
وہ کہہ کر چل پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : انون ایڑیا ،آسلام آباد
"مہر دروازے کھولو مہر پلیز یہ کیا حرکت کی تھیں ۔"
زاویار دروازے کو پیٹنے لگا
"مہر میں یہ دروازہ توڑ دو گا تم جانتی ہو مجھے ۔"
مہر نے اپنے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارے اور وہ جلن سے سسک رہی تھیں زاویار بار بار دروازہ پیٹ رہا تھا
"کھولوں مہر !!ٹھیک ہے میں توڑنے لگا ہو ۔"
اس سے پہلے وہ توڑتا مہر نے دروازہ کھول دیا
زاویار پہلے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے اس کا بازو پکرا اور باہر لیکر آیا روشنی میں اس کے ہونٹوں کا جائزہ لیا اور پھر اس انگلی سے چھوا مہر ایک بار پھر سسِک پڑی
زاویار جھکنے لگا لیکن کچھ سوچ کر وہ ہٹا اور اس نے کہا
"تمھارا دماغ دُرست ہے کس نے کہا تھا ایسی سٹوپڈ ترین حرکت کرنے کو ۔"
مہر کچھ نہ بولی اگر کچھ بولتی تو اسے تکلیف ہوتی
"میں کچھ پوچھ رہا ہو تم سے بچپن سے لیے کے آب تک سٹوپڈ ہو میرے وجہ سے اپنا ہاتھ جلا دیا اور میری وجہ سے ہی ۔۔۔"
وہ کہتے کہتے چُپ ہوگیا مہر نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا
"فور گیٹ اٹ !"
وہ کہہ کر چلا گیا اور مہر نے اپنے ہاتھ کو اُٹھا کر دیکھا جس پہ اس کے جلے ہوئے نیشان ابھی بھی تھے وہ انھیں چھونے لگی انسو اس کے ہاتھ پہ گِر رہے تھیں
بہت کچھ یاد آرہا تھا اسے جسے وہ کھبی بھول نہیں سکتی تھیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ ،آسلام آباد
مہر کو تین دن۔ سے بخار تھا اور وہ سارا دن بے ہوش پڑی رہی پارسا کا رو رو کر بُرا حال ہورہا تھا اور لقمان حمید بھی پریشان پارسا کو سنبھال رہے تھیں
"ریلکس پارسا کچھ نہیں ہوگا ۔"
"پرسو کتنی تیار ہوکر باہر گئیں تھیں اتنی پیاری لگ رہی تھیں میری ہی نظر لگ گئیں ۔"
پارسا لقمان کے سینے سے لگی روتے ہوئے بولی
"او ہو کیسی باتیں کررہی ہو موسم کی تبدیلی کے وجہ سے ہوا فکر نہ کرو ڈاکڑ نہ دوایاں دیں ہیں ۔"
"یہ مجھے دارب کی طرح نہ چھوڑ کر چلی جائیں ۔"
لقمان ایک دم اس کی بات پہ خاموش ہوگیا لیکن اس نے پارسا کو کچھ نہیں کہا
اور پارسا کو احساس نہیں ہوا کے لقمان حد سے زیادہ خاموش ہوگیا ہے
"زاوی زاوی تم کیسے مر گئیں تم کیسے مر سکتے ہو ۔"
مہر سوتے ہوئے بڑبڑاتے ہوئے بولی پارسا نے دیکھا اور
اُٹھ کر اس کے پاس ائی
"مہرو مہرو میری جان انکھیں کھولوں مہر ۔"
پارسا اس کے سر پہ ہاتھ پھیرنے لگی
مہر بڑبڑاتی رہی پھر ایک دم خاموش ہوگئی
لقمان انھیں دیکھتا رہا پھر اُٹھ کر چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :انون ایڑیا ،اسلام آباد
مہر اپنے ٹانگوں کے گرد بازو لپیٹے سر اپنے گھنٹے میں رکھیں تقریبا سو چکی تھیں زاویار کو گئیں ہوئے تقریباً گھنٹا ہونے والا تھا لیکن وہ آبھی تک نہیں آیا تھا مہر اس کے انتظار میں ہی سو گئیں تھیں اچانک فائرنگ کی آواز پہ وہ ڈر کر اُٹھی