top of page

میرا رکھوالا - مصنفہ: ثمرین شاہ

قسط نمبر تین

لوکیشن : انون ایڑیا 
مہر نے اس کی انکھوں میں دیکھا جو بلکل خالی تھیں 
جن میں کوئی رنگ نہیں تھا جو واقی اس کے ہاتھوں سے مرنے کے لئے تیار تھا 
"رُک کیوں گئیں مارو مجھے ختم کردو ."
مہر نے اس سے لی اور دور جاکے پھینکی 
"ہاں تاکہ میں پھانسی میں چڑھ جاوں اصل بدلہ تو تم لیے رہے ہو اپنے پکڑئے جانے کا لوگوں کے لیے تم ایک مظلوم گاوں کا چھوٹا موٹا لڑکا جو ایک ریس زادی کے ہاتھوں مارا گیا مجھے پولیس پکڑیں گی میرے پر اور میرے باپ پہ تھو تھو ہوگئیں واو مسڑ زاویار عباس واہ داد دینے پڑیں گی آپ کی پلینگ کی لیکن میں اس پلینگ میں نہیں او گی اور نکاح کون سا نکاح پہلے میرے باپ پہ الزام لگایا آب میری محرومہ ماں پر بھی لگارہے ہو گیارہ سال پہلے امی نے مجھ سے کچھ سائن نہیں کروایا سمجھے ۔"
"کتنا جھوٹ بولو گی پارسا میم نے خود کہا تھا میں مہر سے کروا لو گی تم اسے اپنی بیوی ہی سمجھنا !!!!"
"او ہو مسڑ جاہل انسان انہوں نے کہا کے میں نے سائن کرلیا اور آپ مان گئیں میں نے کوئی بھی چیز سائن نہیں کی مجھے تم سے نفرت تھیں میں تمھاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی اور تمھیں لگتا ہے میں اس ٹائیم اس ٹائیم سائن کرو گی اور تم گیارہ سال سے مجھے اپنی بیوی سمجھتے رہے ہاہاہا مجھے ترس آرہا ہے تمھاری اس بھولپن سے ,کوئی اتنا بھی معصوم ہوسکتا ہے بھلا ہاں ہوسکتا ہے اور وہ تم ہی ہو بے وقوف ترین انسان جسے دُنیا کے بارے میں کچھ نہیں پتا ۔"
وہ کہہ کر آہستہ آہستہ چلنے لگی جبکہ زاویار حیرت سے مہر کو دیکھ رہا تھا 
....................................................................
لوکیشن : کراچی ،پاکستان 
"ایجنٹ کریمیل ہمیں تم پر فخر ہے جو اتنا مشکل ترین کیس تمھاری وجہ سے سیکسیفول ہوا ہے ورنہ ان معصوم بچیوں کا مستقبل تباہ ہوجاتا ہے ۔"
ایجنٹ کریمیل کی چہرے پہ گہری مسکراہٹ اگئی اور پھر بولی 
"نہیں سر ایسے کیسے ہوسکتا تھا کریمیل کوئی کام لیے اور وہ حل نہ ہو اور میں آپ کی بہت مشکور ہو سر کے آپ نے مجھ پر بھروسہ کیا اور مجھے یہ کیس ہینڈل کرنے کی آجازت دیں ۔"
"خوش رہوں اچھا اس کے بارے میں کوئی ثبوت اکھٹے ہوئے ۔"
کریمیل سمجھ گئیں ان کا اشارہ کس طرف تھا 
"سوری سر تھوڑی میرا دھیان اس کیس پہ اچانک چلا گیا اور اوپر سے وہ اتنا چالاک ہے ایک بھی انفورمیشن اس نے اپنے گھر میں نہیں رکھی نہ ہی آفس میں ۔"
"ہمم کچھ تو پتا لگا ہوگا ۔"
"سر اگر پتا ہوتا تو میں آپ کو بتاتی بلکہ یہ کیس میری لیے ہر چیز سے ضروری ہے ۔"
کریمیل کا لہجہ میں نفرت اگئیں 
"کول ڈاون میں نے اس کے لیے ایک سپیشل سکیرٹ ایجنٹ کو اپاونیٹ کیا ہے وہ بہت زیادہ شاطر ہے خاصا الٹا بھی دماغ ہے محترم کا لیکن میری ریسپیکٹ بہت کرتا ہے وہ کھبی کچھ نہیں بتاتا جب تک پورا کیس حل نہ کر آئے میرے زندگی کے پچیس سالا اس فیلڈ میں میں نے ایسا passionate اور sagacity بندہ آج تک نہیں دیکھا اور پھر ایک تم ہو 
One of the sharp and genius women 
In our agency 
"اٹس ا ہونر سر اور یہ سب آپ کی وجہ سے ورنہ میں آج یہاں پر نہیں کھڑی ہوتی ۔"
"اچھا سر آب مجھے اس کیس پہ فوکس کرنا اس کے لیے اجازت ۔"
"یس مائی گرل یو ہیو اونلی سکس منتز اور میں چاہتا ہو تم سیکس منتھ میں یہ کیس حل کرو اور کیا تم چاہتی ہو تم اس ایجنٹ سے مل جس کی میں بات کررہا ہو ۔"
"سکس منتھز سر یہ تو بہت تھوڑا ۔"
انہوں نے گھورا 
"اچھا اچھا اور اس ایجنٹ سے ملنے کی ضرورت نہیں ہے وہ اپنا کام جاری رکھیں اور میں آپنا ۔"
Smart girl !! Are you competing with him 
ایجنٹ روجر کی بات پہ وہ ہنس پڑی 
I guess so 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :شاندراہ اسلام آباد 
مہر چھت پہ بیٹھی تھیں ابھی بھی پرسہ نے اسے ضد کر کے کچھ کھلانے کی کوشش کی تھیں لیکن اس نے کچھ نہیں کھایا تھا 
"بلکل اپنے باپ پر جارہی ہو نہیں کھاو گی تو مر جاوں گی ۔"
"ہاں مجھے مر جانا ہے میرا دوست مر گیا ہے تو مجھے بھی مرنا ہے اس کے پاس جانا ہے ۔"
پارسا کے دل کو کچھ ہوا 
"پاگل ہوگئیں ہو مہر یہ کس طرح کی باتیں کررہی ہو تمھیں ہوکیا گیا ہے ۔"
پارسا کو مہر کہی سے بھی دس کی بچی نہیں لگ رہی تھیں وہ اتنی بدل گئیں تھیں اس نے ایسا سوچا نہیں تھا جبکہ مہر خاموشی سے سر جھکائے اپنا پیر ہلانے لگی 
زاویار اندر داخل ہوا پارسا ایک دم مڑنے لگئ جب اسے دیکھا
"میم آپ نے مجھے بلایا ۔"
زاویار کی آواز سُنتے ہی مہر ایک دم مڑی اور وہ اُٹھی 
"زاوی تم زندہ ہوں !!!"
زاویار نے پہلے پارسا اور پھر مہر کی بات سُنتے ہی حیرت سے دیکھا 
"جی !! ۔"
"او لارڈ ائیم سو ہیپی تم اگئیں امی آپ سمیر کو مار پڑوائے اس نے کیوں کہا زاویار مر گیا تھا ۔"
پارسا نے تاسف سے اپنی بیٹی کو دیکھا اور چل پڑی 
مہر مسکراتے ہوئے زاویار کے پاس آئی 
"تم کہا چلے گئیں تھیں پتا ہے میں اتنا روئی تھیں."
زاویار نے حیرت سے مہر کا ریکائشن دیکھا وہ تو بہت بمیار لگ رہی تھیں اس کا سفید چہرہ بلکل پیل ہوچکا تھا انکھوں کی گرد ہلکے تھیں اور انکھیں بھی کافی سوجی ہوئی وی تھیں جیسے کے وہ بہت روئی وی ہو اور وہ کمزور بھی لگ رہی تھیں.
مہر تم کیا روئی تھیں ؟؟"
مہر نے اس کی بات پہ سر ہلایا 
"وہ سمیر بہت گندا ہے اس نے مجھے کہا تم یئ دُنیا چھوڑ کر چلے گئیں ۔"
زاویار کو جھٹکا لگا اتنا تو پتا تھا اس کے مرنے سے بے بے کے علاوہ کوئی نہیں روئے گا لیکن مہر مہر بلا کیوں روئے گی 
"تم اس لیے روئی تھیں کے میں مر گیا تھا ۔"
مہر نے اپنی انکھیں مسلتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا 
اور زاویار کو جھٹکے کے علاوہ کچھ محسوس ہوا 
"تم میرے لیے روئی تھیں ۔"
وہ ایک بار پھر بولا 
مہر کو آب غصہ آیا اس نے زاویار کے بازو پہ مکا مارا 
"کتنا بار بتاوں برے ہوگئیں ہو کیا ؟؟"
مہر نے بہرے کے بجائے بُرے کہا 
زاویار کو ہنسی اگئیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر نے اسے دیکھ کر اپنی انکھیں گھمائی 
‏Wow when your hazel eyes rolling at me 
‏You take me high 
شان کی بات پہ اس کا دل کیا اس کا گلا دبا دیں 
"تم میرے گھر کیا کررہے ہو ۔"
"ارئے گولڈی مسلمان تو ہونا بندہ پہلے سلام کرتا ہے ۔"
شان مسکراتے ہوئے بولا 
"تم بھی مسلمان ہو سلام پہلے تم کرو ۔"
مہر تیزی سے کہتے ہوئے بولی 
"اسلام و علکیم آب خوش مائی گولڈی بندئے کو ولکیم کریں گی ۔"
"تمھیں جوتی مار کر ولکیم نہ کرو ۔"
مہر دانت پیستے ہوئے بولی شان ہنس پڑا اس کی ہنسی پہ مہر کو مزید غصہ چڑھا 
"ارئے اتنا اچھا ولیکم ہم سے ہضم نہیں ہوگا بس ایک مسکراہٹ سے نواز کر یہ کہہ دیں 
"ائے شان تشریف لائے یہ آپ کا ہی تو گھر ہے ۔"
فارس نے شان کی آواز سُن لی تھیں تو وہ ایک دم باہر آیا 
"تو یہاں پہنچ گیا !!"
شان نے اسے ایک نظر دیکھا پھر نظر مہر پر ٹکا لی اور مہر مہر کا بس نہیں چل رہا تھا اس کی سبز انکھیں پھوڑ ڈالے 
"ہاں بس کچھ ہی دن ہی رہ گئیں ہے سوچا اپنے ڈیر فادر ان لا سے مل لو پر وہ تو ہے ہی نہیں سوچا اپنی مس گولڈی سے مل لو ۔"
مہر نے جھٹکے سے اپنا سر اُٹھایا 
"واٹ کیا کہا تم نے فادر ان لا ؟؟ دیکھوں شان شرافت سے چُپ چاپ کر کے چلے جاوں ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا ۔"
"گولڈی تم تو بہت اچھی ہو کیوں بُری ہوگی بُرے ہو تمھارے دُشمن ۔"
شان کی انکھوں میں شرارت ٹپکی فارس کو ہنسی اگئی مہر نے مڑ اسے خشمگیں نظروں سے دیکھا فارس نے اپنی ہنسی کو بریک لگائی 
"نکلوں یہاں سے میرے گھر سے نکلوں ۔"
مہر نے اسے دھکا دیا 
"ایزی گولڈی جارہا ہو بس تمھیں ہی دیکھنا تھا او ہاں بھول گیا ۔"
اس نے اپنی جیب سے گولڈ کلر کا فلاور نکلا اور اسے دیا 
"فور یو ۔"
فارس ایک دم خاموشی سے دیکھنے لگا 
مہر نے لیکر اسے مارا "جاوں یہاں سے گارڈز کو بھیجوں نکالے اسے ۔"
شان ہنستے ہوئے چل پڑا لیکن مڑ کر بولا 
"اوئے تو بھی ا میں فرانس میں بور ہورا ہو کہی گھما پھیرا لیے میری گولڈی تو مجھے گھر میں بھی نہیں انے دیں رہی ۔"
"ہاں آیا سوری مہر اس کمینے نے تمھیں تنگ کیا ۔"
شان نے اسے گھورا جبکہ مہر نے ان دونوں کو اور انگلی اُٹھا کر اسے کہا 
"میرے سے دور رہو ورنہ اچھا نہیں ہوگا ۔"
"تم میرے دل میں بس گئی ہو مہر آب بُرا ہو یا اچھا مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔"
شان دلکش لہجے میں بولا 
"بہتر ہے مجھے اپنے دل سے نکال دو ۔"
مہر سخت لہجے میں بولی 
"تم واقی میرے دل میں بس چکی ہو مہر اور دل سے نکلنا اسی طرح ہے جیسےجسم سےروح نکلانا ۔"
شان کے لہجے میں شدت محسوس کر کے وہ ایک دم جیسے ٹہر گئیں کیا واقی کیا واقی شان اس سے اتنی محبت کرتا ہے اتنی کے وہ اگر اس کے دل سے نکل گئی تو وہ کیا مر جائیں گا لیکن میری محبت سے زیادہ طاقتور نہیں ہوسکتی جو میں کسی اور کے لیے محسوس کرتی ہو وہ ہر شخص سے بھی پیارا ہے کیا ہوا اگر وہ خوبصورت نہیں ہے لیکن اس کا دل بے حد خوبصورت ہے 
"ہوگیا تمھارے ڈائلوگ بازی میں تمھاری بہکاوئے میں نہیں آو گی سمجھے یہ شاعری یہ محبت کی باتیں کسی اور پہ آزمانا مجھ پہ ہرگز اثر نہیں ہوگی ۔"
مہر کہہ کر چل پڑی جبکہ شان کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئیں 
"اور کر بکواس میں نے کہا تھا یہ لڑکی تیری لیے نہیں ہے ۔"
شان نے اسے دیکھا 
"میرے لیے نہیں سے کیا مطلب ؟ وہ اگر کسی کی ہے تو صرف اور صرف میری کیپٹن شان کی ہے اور اگر کسی نے اسے چھینے کی تو کیا یہ بات سوچی بھی تو وہ اپنے کفن کا انتظام کروا لے کیونکہ میں اسے سٹریٹ ٹو وئے قبر میں اتاروں گا ۔"
شان کی لہجے میں آنچ محسوس کرتیں ہوئے فارس کا منہ کُھل گیا 
"تو مزاق کررہا ہے نا !! "
شان نے اسے دیکھا اور دل شکن انداز میں مسکرایا 
"تجھے میں کیا ہنستے ہوئے نظر آرہا ہو ۔"
اور فارس کا منہ ُکھل گیا 
"تو مہر سے محبت لیکن اتنی جلدی ؟؟"
"محبت کیا کوئی کورس ہے جو جلدی نہیں بلکہ دیر سے ہوتی ہے ۔"
شان نے سگیرٹ جلائی اور کار میں بیٹھا 
"لیکن تو نے کھبی کسی سے محبت ہی نہیں کی یار تجھے تو محبت نام سی ہی چڑ تھیں ۔"
"لیکن گولڈی کو دیکھ کر یہ چڑ ختم ہوگئیں تو اپنی کار میں بیٹھ پہلے تیری کار چھوڑتے ہیں پھر مجھے پیرس جانا ہے کسی کام سے ۔"
"پیرس کیوں ؟"
فارس جھکا شان نے اسے منہ پر پھونکا 
"یہ کیا بدتمیزی ہے !!!"
وہ جنجھلایا 
"کام ہے اور تیرا بھی جانا ضروری ہے مائی فرینڈ !!"
فارس نے اسے گھورا 
"تو نہیں سُدرھے گا ۔"
"شان کھبی سُدھرا ہے یہی تو اس کا کریکٹر ہے ۔"
فارس ہنس پڑا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : انون ایڑیا اسلام آباد 
"اور کتنا چلوں گی تم !"
مہر نے ایک دم مڑ کر دیکھا زاویار اس کے ساتھ چل رہا تھا اور اس نے ارِدگِرد دیکھا وہ آب کافی اگئیں پہنچ گئیں تھیں 
"ویسے ہم جہاں جارہے ہیں وہ شہر کا راستہ ہے تمھیں پتا ہے ؟"
مہر پھر بھی خاموش رہی 
"فارس کی یاد آرہی ہے فون دو بات کرنے کے لیے ۔"
مہر نے اسے بے تاثر انداز میں دیکھا اور پھر بولی 
"زاویار تم ایک کام کرو یہاں سے چلیے جاوں میرے رکھ والے بنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جس نے مجھے مارنا ہوگا وہ مجھے ماردیں ایسی زندگی کا ویسے بھی کوئی فائدہ نہیں ہے ۔"
"میں تمھارا رکھ والا ہوں بھی نہیں میں تو تمھاری عزت ۔۔۔۔"
Will you just shutup Zaviar Abbas 
مہر چیخ کر بولی 
زاویار نے اسے سپاٹ نظروں سے دیکھا پھر کہنے لگا 
"میں سچ بول ۔۔
"مجھے نہیں سُنا سچ ٹھیک ہے گیارہ سال جو کچھ بھی ہوا میں نے نہیں سُنا مجھے تنگ کرنا چھوڑ دوں میرا پھیچا بھی چھوڑ دوں تم اپنے راستے میں اپنے راستے 
خدا کے لیے خدا کے لیے زاویار تمھیں آپنی بے بے کا واسطہ دیتی ہو چلیے جاوں یہاں سے ۔"
مہر ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی 
"ٹھیک ہے اس کے بارے میں بعد میں بات کریں گئیں آبھی یہاں سے نکلنا ضروری ہے ۔"
زاویار نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا مہر نے اس بار ہاتھ نہیں چھڑوایا وہ تھک گئیں تھیں اسے پتا تھا کوئی فائدہ نہیں ہے لڑنے کا وہ بہت ڈھیٹ قسم کا انسان تھا 
اور وہ اسے لیکر اگئیں چلنے لگا پتا نہیں اس کے ساتھ اگئیں جاکر کیا ہوگا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ اسلام آباد 
زاویار ہنس پڑا 
"تم میرے لیے روئی تھیں ۔"
مہر نے سر ہلایا زاویار ہنستا چلا گیا اور اتنا ہنسا کے مہر کو آب جنجھلاہٹ محسوس ہوئی 
"ہنسنا بند کرو !!!"
"اچھا اچھا سوری میم !!"
اس نے منہ پہ ہاتھ رکھا لیکن مہر نے اس کی انکھوں میں دیکھا جہاں آب بھی شرارت پھوٹ رہی تھیں 
"جاوں میں تم سے بات نہیں کرٹی ۔۔
"کرٹی نہیں مہر کرتی !"
زاویار نے ہمیشہ کی طرح اسے ٹوکا 
"ہاں وہی تم جاوں تم اور سمیر گیندئے ہو !!"
زاویار پھر ہنس پڑا 
"گندئے !!!"
"جاوں یہاں سے !!!"
مہر آب چیخ پڑی 
"اچھا اچھا سوری بتاوں مجھے کیا ہوا ہے ؟"
وہ کھڑا اس کے سامنے کان پکڑتے ہوئے بولا مہر ہنس پڑی 
"ایسے مت کرو صاف بندر لگ رہے ہو ۔"
زاویار نے منہ بنالیا 
"یار کیا مطلب ؟؟ سب مجھے کہتے ہیں آب تم بھی کہنا شروع کردوں ۔"
مہر پھر ہنستے ہوئے بولی 
"کوئی اور کہے تو وہ تو بہت بُرا انسان ہے میں کہوں تو میں تمھاری دوست ہو دوستوں کو تو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں ۔"
مہر نے اپنی ڈھیلی پونی کو کس کے باندھا زاویار ہنس پڑا کے آچانک اس کی ہنسی کو بریک کیونکہ لقمان حمید کی مرسیڈیز حمید پیلس انڑ ہوچکی تھیں 
"میں چلتا ہوں ۔" زاویار جلدی سے کہہ کر مڑا مہر اس کے پھیچے ائی
"کدھر جارہے ہوں زاوی رُکوں تو!!"
مہر نے اس کا بازو پکڑا 
"مہر آبھی نہیں یار میں بعد میں آو گا نا آبھی تمھارے پیرے اگئیں ہیں ۔"
زاویار نے اپنا بازو چھڑوایا 
"پیرے کچھ نہیں کہے گئیں تم میرے دوست ہو زاوی پلیز ۔"
مہر نے پھر پکڑا 
"کہا نا مہر چھوڑوں مجھے ۔"
زاویار نے تیزی سے کہا مہر کی انکھوں میں انسو بھرئے 
"ٹھیک ہے جاوں تم میں ڈرپوک لوگوں سے بات نہیں کرتی ۔"
زاویار کچھ بھی کہے بغیر یہاں سے تیزی سے بھاگا کوئی اور وقت ہوگا تو وہ مہر کو منا لیے گا 
"سٹوپڈ کوئی میرا دوست نہیں سب میرے سے دور بھاگ جاتیں ۔"
وہ بیڈ پہ لیٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : کینن ،فرانس 
مہر آبھی ڈیزانگ سینٹر سے نکلی تھیں اور اپنی کار کی طرف آئی ،وہ دروازہ کھولنے لگی جب اس نے دیکھا ٹائر پنچڑ تھا 
"ڈئیم اِٹ ۔"
مہر نے کچھ سوچ کر فون نکلا 
"ہلیو ڈرایئور تم میرے ڈیزائنگ سینٹر آجاوں کیونکہ میری گاڑی کا ٹائیر پنچڑ ہوگیا ہے ہاں امرجینسی کیز تو ہے نا تمھارے پاس ٹھیک ہے میرے فکر نہ کرو میں آجاوں گی اوکے اوکے !!"
وہ فون بند کرتی ہوئی اگئیں چل پڑی وہ چل رہی تھیں جب اس نے دیکھا کوئی اس کا پھیچا کررہا ہے وہ مڑی تو اس نے دیکھا بلیک سپورٹس بائیک میں ایک آدمی اس کے پھیچے تھا اور اس نے بلیک ہلمیٹ پہنا ہوا تھا جس سے اس کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا مہر نے اگنور کیا اور چل پڑی اس نے محسوس کیا وہ آبھی بھی اس کے پھیچے ہی ہے وہ تیزی سے چل پڑئ وہ ایک دم تیزی سے اکر اس کی طرف راؤنڈ کرنے لگا 
لوگ بڑی حیرت سے دیکھ رہے تھیں مہر کو غصہ چڑھ گیا اس کی ہاتھوں میں بلیک بینڈ دیکھ کر وہ پہچان گئی کے یہ کون تھا اس نے بیگ اٹھا کر اسے مارا جیسے بڑا اسے لگ کر اثر ہونا تھا وہ ایک جگہ روک کر اُترا اور اپنا ہلمیٹ اُٹھایا مہر جلدی سے اپنا بیگ اُٹھانے لگی کے شان نے اس کی کمر کو پکڑا اور اپنے ساتھ لگایا 
"مسڈ می گولڈی !!!"
وہی دہلا دینے والی مسکراہٹ 
"مجھے پتا تھا پتا یہ کمینے انسان تم ہی ہوگئیں ۔"
مہر نے اس دھکا دیں کر چیختے ہوئے کہا
"او مائی لو لیکن میں تو تمھیں لفٹ دینے کے لیے تمھارے پھیچے آئے تھا کیونکہ تمھارا ٹائر پنچڑ ہوگیا تھا ۔"
"اور یہ پنچڑ بھی تمھیں نے کیا ہوگا ۔"
مہر کی بات پہ وہ ہنسا 
"میری گولڈی خاصی سمارٹ ہے ویسے ۔۰
"ائی سیڈ ڈونٹ کال می گولڈی ۔"
مہر نے جھک کر اپنا بیگ اُٹھایا شان نے اس کا ہاتھ پکڑا
"او تمھیں کینن کی اچھی سی کافی پلواتا ہوں ۔"
مہر نے اپنا ہاتھ چھڑوایا 
"شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی میں تمھاری اور تم کہہ رہے ہوں کافی !!!"
"اچھا میری شکل نہ دیکھنا لیکن میرے ساتھ چلوں تو صیح یار بہت تھوڑے دن رہ گئیں ہیں پھر مجھے واپس اپنے ملک جانا ہے ۔"
"شکر ہے جان تو چھٹی گئی ۔"
مہر بڑبڑائی 
"چلوں میری گھوڑی او سوری ائی مین گولڈی !!"
شان نے مسکراہٹ دبائی مہر نے بیگ اُٹھا کر اس کے بازو پہ مارا 
"خود گھوڑے جیسے ہائٹ ہے اور مجھے گھوڑی کہتے ہوں ۔"
"تم نے کیا گھوڑے کی ہائیٹ چیک کی تھیں جو مجھے بتارہی ہو ۔"
شان ہنستے ہوئے بولا 
"نہیں تم گھوڑے نہیں جیراف ہوں لیکن تمھارا منہ کسی شیر کی طرح تم واقی ایک جانور ہوں جو انسان کے روپ میں ہوں ۔"
شان کے چہرے پہ مسکراہٹ گہری ہوگی اس نے مہر کے ٹھوڑی پکر کر ہلایا مہر نے ہاتھ جھٹکا 
"جیراف والی بات میں اگیڑی میں ہرگز نہیں کرو گا ہاں شیروں والی بات مجھے پسند ائی ہے نا میری زبردست پرسنالیٹی ۔"
مہر نے اس انتہائی بونگے لیکن پیارے انسان کو دیکھا 
"بھول رہے شیر بھی جانور ہے ۔"
"لیکن آپنی دُنیا کا بادشاہ ۔"
"جاوں پھر جنگلوں پہ راج کرو ۔"
"میری گولڈی شیرنی چلیے گی تو پھر مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔"
مہر کو ہنسی اور غصہ ایک ساتھ آیا وہ بہت عجیب تھا 
"تم کیا ہوا ؟"
مہر نے تھوڑا گھور کر کہا 
"صرف تمھارا !"
"ناممکن باتیں بہت کرتیں ہیں آپ کیپٹن صاحب ۔"
مہر نے اپنے سینے پہ ہاتھ باندھتے ہوئے بولی 
"ناممکن چیزیں آپ کی دُنیا میں ہوگئیں گولڈی صاحبہ میری دُنیا میں ہرچیز پوسپبل ہے ۔"
"اور مجھے حاصل کرنا تمھاری لیے آسان ہے ۔"
وہ جیسے اسے چیلنج دیں رہی تھیں 
"اتنا آسان ہے میری لیں تم کو پانا مہر کے تمھیں پتا ہی نہیں چلے گا کے میں تمھیں حاصل کر چکا ہونگا ۔"
مہر اس کی لہجے کے مضبوطی کو دیکھتی رہ گئیں ۔
"ٹھیک ہے دیکھتے ہے میں تمھیں پورے ساتھ دن پورے ساتھ دن دیتی ہو کچھ ایسا کرو جس سے میرے دل میں تمھارے لیے جگہ بن جائیں چیپ حرکتیں چھوڑ کر کچھ ایسا کرو کے میرا دل پگھل جائیں میں تم سے محبت کے ساتھ تمھاری عزت بھی کرو بتاوں چیلنج منظور ہے ۔"
مہر نے ہاتھ اگئیں کیا شان ہنسا
"اڑیو سریس !!"
"جی میں بلکل سنجیدہ ہوں اور تم سے وعدہ کرتی ہو اگر میرے دل میں تمھارے لیے محبت پیدا ہوگئیں تم رشتہ بھیج دینا ۔"
"آج کہی فرسٹ ایپریل تو نہیں ہے ۔"
شان نے اپنا موبائل نکالا 
"تھرٹین جون ہے شان اگر سریس ہوں تو وعدہ کرو ورنہ پھر چلیے جاوں یہاں سے ۔"
شان نے آپنی دھاڑی پر ہاتھ پھیرا اور پھر بولا 
"ٹھیک ہے ڈن ! میں تمھیں سات دن سے پہلے پالو گا ۔"
شان کا لہجہ جتنا مضبوط تھا چہرہ بھی اپنی لہجے کی۔ مضبوطی کا پتا دیں رہی تھی۔ 
"اور ایسا کھبی نہیں ہوگا کیونکہ میرے دل میں صرف زاویار عباس ہے اور زاوی کی جگہ کوئی شخص نہیں لیے سکتا ۔"
اس نے دل میں کہا 
"دیکھتے ہیں اسے آسان چیلنج مت سمجھنا کیونکہ میرا دل بہت سخت ہے ۔"
شان ہنس پڑا 
"ہم نے بہت بڑے بڑے سخت دلوں کو نرم کیے ہیں گولڈی آپ کیا چیز ہیں یہ کام تو میرے بائے ہاتھ کا کھیل ہے ۔"
"ٹھیک ہے پھر کل ملاقات ہوتی ہے آپ سے کیپٹن شان بیسٹ آف لک ۔"
وہ بیگ کندھے پہ لٹکا کر چل پڑی 
...................................................................
لوکیشن : کراچی ، پاکستان 
وہ اپنا بیگ پیک کررہی تھیں جب اس کی نظر سامنے اپنے بابا کی تصویر پر پڑی اس کے بابا بہت خوبصورت اور بہادر انسان تھے انھیں کسی چیز کا ڈر نہیں تھا وطن سے محبت اتنی زیادہ تھی کے وہ جنون بن گیا اور اسے جنون نے ان کی جان لیے لی وہ بیگ کو بند کر کے بیڈ پہ بیٹھ گئیں اور تصویر اُٹھانے ہوئے بولی 
"میں آپ کا خواب پورا کرو گی بابا ،آپ کی دُشمنوں کو منہ کی کھانی پڑیں گی کیونکہ وہ جانتے نہیں ہے ان کا مقابلہ آپ کی بیٹی کررہی اور آپ کی بیٹی آپ کی طرح ہے نڈر ،مضبوط آپ کا بیٹا نہیں تھا تو کیا ہوا آپ کی بیٹی تو ہے نا اور آپ کی بیٹی آپ کی عزت لوٹا کر رہے گی جنہوں نے آپ کی کو غدار کہہ کر مار دیا تھا نا ان کو ایسی عبرت ناک سزا ملی گی کے خون کے آنسو روئے گئیں اور ممی ممی کو کیسے بے دردی سے مارا انھوں نے میں جانتی ہو بابا آپ کو بہت تکلیف ہوئی ہوگی کے آپ کی بیٹی کچھ نہیں کرسکی 
اس کے انسو تصویر پر گِر رہے تھیں لیکن میں آپ دونوں کا بدلہ لیے کر رہوں گی اور اپنی ملک کی حفاظت کرو گی یہ میرا آپ سے پکا وعدہ ہے ۔"
اس نے اپنے بابا کی تصویر کو چوم کر دوبارہ اسی پوزیشن میں رکھی اور بیگ ُاٹھا کر اپنی مشن پڑ چل پڑی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : آرمی ویلفیر میس لاہور ،پاکستان 
دروازئے کی دستک پر جو اپنی پیکنگ کررہا تھا ایک دم بولا 
"یس کم اِن ۔"
دراوزہ ایک دم کھلا اور ایک خوش شکل فوجی کی وردی میں آندر داخل ہوا 
"ارئے یہ کیا تو کہی جارہا ہے ."
اس نے اس کے کھلے بیگ کو بیڈ پہ دیکھا جس سے لگ رہا تھا وہ پیکنگ کررہا ہے 
"ہاں یار آڈرز اگئیں ہیں جانا تو پڑیں گا ۔"
وہ ہلکہ سا مسکراتے ہوئے نہایت سلیقے سے اپنی شرٹ کو فولڈ کررہا تھا 
"یار یہ کیا ایک تو تمھارے باس میری سمجھ سے باہر دو دن کا سانس نہیں لینے دیتے تمھیں نئے آڈرز بھیج دیتے ہیں کیوں چُنی اتنی مشکل جاب ۔"
اسید کچھ زیادہ ہی آپ سیٹ لگ رہا تھا کیونکہ یہ لاہور آبھی ہی دو دن پہلے آیا تھا 
"بڈی یار جاب کے بارے میں کچھ نہ کہہ مجھے محبت ہے اس سے اپنے ملک کے لیے تو جان بھی حاضر ہے ۔"
وہ دراز سے اپنی کتاب نکال رہا تھا اور اپنی روشن انکھوں سے کہتے ہوئے مڑا 
"ہاں ہم نے تو یہ وردی فیشن میں پہنی ہے اور فوج میں تو اس لیے داخل ہوئے ہیں کے ہمیں پھوپھی کی بیٹی کا رشتہ مل جائیں بس تو ٹہرا ملک کا رکھ والا ۔"
اس کی بات پہ اس کی ہنسی چھوٹ گئی 
"پسند خالا کی بیٹی ہے لیکن چائیے پھوپھی کی بیٹی ناٹ فیر یار ۔"
وہ شرارت سے بولا اس نے سر جھٹکا 
"اچھا آب کہاں جارہا ہے تو ۔"
"کیوں بتاوں تجھے ۔"
اس نے گھورا 
"کیا مطلب کیوں بتاوں بتانا کہاں دفعان ہورہا ہے ۔"
"اسید بڈی جہاں جارہا ہو مشن کے لیے جارہا ہو اور مشن کے سب سے امپورٹنٹ رول کسی کو بھی اپنی پلینگ نہیں بتانی ۔"
وہ مسکرا کر کہتا ہوا بیگ پیک کر چکا تھا 
"چل چھوڑ وہ تو میں پتا لگا لوں گا تیار ہوجا کلب چلتے ہیں ۔"
اس نے مڑ کر آبرو اُٹھائیں 
"یہ کلب کیوں ؟؟"
"سمجھا کر نا ۔"
اس نے شرارت سے انکھ گھمائی وہ سمجھ چکا تھا لیکن انجان بنتے ہوئے بولا 
"نہیں میں بلکل نہیں سمجھا اور میں ایسی جگہ جاتا ہی نہیں ہوں جہاں میری سمجھ کی نہ ہوں ۔"
"او کم آن سٹون مین کھبی تو ان بیوٹیز کے لیے دل کو تھوڑا سا پگھلاؤ ۔"
" دل کسی محرم کے لیے پگھلایا جائیں تو زیادہ بہتر ہے ۔"
وہ آب انڑکام سے اپنے لیے کافی منگوا رہا تھا پھر رُک کر اسے پوچھا
"کیا منگواؤں ۔"
"میری جوتی ۔"
اسے اپنی بات رد کیے جانے پر بے حد غصہ آیا 
اس کے چہرے پہ مسکراہٹ آگی 
"اچھا یار کیپٹن اسید کی جوتی مل سکتی اصل میں انھوں نے کھانی ہے ۔"
اسید نے اپنے بے انتہا بونگے دوست کو دیکھا جس کی بونگیاں اپنی عروج پہ تھیں 
وہ اگلی کی حیرت بھری آواز سنُتا ہوا مزاق کررہا ہو کہہ کر اُٹھ پڑا 
"ہاں مسڑ اتنا غصہ کیوں آرہا ہے ۔"
اس نے اپنے جگری دوست کو دیکھا 
"اتنا نیک کیوں ہے تو !"
اس کی بات پہ اس کی انکھیں حیرت سے پھیل گئیں 
"اس سب باتوں میں میرا نیک ہونا کہاں سے آگیا ۔"
"تو ہر طرح سے نیک ہے یار کوئی بھی تیرے جیسا نہیں بن سکتا ۔"
آب اسید کے لہجے میں رشک اگیا 
"عجیب آدمی ہو تم پہلے مجھے سٹون مین کہتے ہو پھر کہتے ہو نیک آدمی ڈیسائڈ کر میں ہوکیا آخر ۔"
"یہ تمھاری علاوہ کوئی نہیں ڈیسائڈ کرسکتا کیونکہ تو میرے لیے بھی مسڑی ہے لیکن اس ساری مسڑی کے باوجود کہتا ہوں تو بہت نیک ہے اتنا نیک شخص میں نے آج تک نہیں دیکھا ۔"
وہ بہت گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا وہ ہنس پڑا 
"کون سا نشہ کیا ہے تو نے جا پانی کے چھینٹے مار اور چینج کر کے میرے ساتھ چل ۔"
اسید نے ٹائیم دیکھا اور ایک منٹ میں سب کچھ سمجھ گیا وہ اسے کہا جانے کی بات کررہا ہے 
"تم میرے ماموں کے پاس لیکر جارہے ہو ۔"
اسید نے گھورا 
"جی بلکل آپ کے ماموں جان اور میرے بہترین ٹیچر صادق علی ۔"
"یار میں ان سے کچھ دن پہلے ملنے کے لیے گیا تھا بار بار جانا کیا ضروری ہے ۔"
"لیکن سر سے مجھے پتا چلا آپ ان سے دو مہینے نہیں ملے اور ان دنوں آپ لاہور میں بھی تھیں یہ کیا ہے ؟"
وہ آگئیں سے لاجواب ہوگیا 
"آب ماموں میری شکایتیں تم سے کرتیں ہیں ۔"
آب اسے غصہ آگیا 
"نہیں یار کمپلین نہیں کی وہ بس تمھاری فکر میں ۔۔۔۔"
"بس مجھے کچھ نہیں سُنا مجھے پتا ہے تم ان کے ہی حمایتی ہوں جاوں تم ہی ان سے مل کر آو ۔"
وہ تیزی سے کہتا ہوا ڈریسنگ روم میں گھُس گیا 
اچانک اس کی موبائل کی بیب بجی اس نے جاکے اُٹھایا 
"اسلام و علیکم !! یس سر ایجنٹ ٹروپ سپیکنگ اچھا اچھا واٹ اس کیس میں ایک اور بھی بندہ شامل ہے 
نہیں نہیں مجھے اعتراض بھلا کیوں ہونا بس آپ نے مجھے بتایا نہیں تھا اچھا نام تو بتا دیں سر میں خود ڈھونڈوں ؟سر کس کام پر لگا رہے ہیں آپ وہ خود ملے گئے مجھ سے ٹھیک ہے پھر یس فلائٹ ہے میری کل اوکے اوکے سر آللَٰلہ حافظ !" اس نے اپنا موبائل آف کردیا اور اس بیگ میں رکھا اور دراز سے آپنا دوسرا موبائل نکلا اور اسے آن کیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : انون ایڑیا ،آسلام آباد 
ان کو چلتے ہوئے تقریباً پندرہ منٹ ہوگئیں تھیں لیکن آبھی تک ان کو ایک سواری نہیں ملی تھیں یہ دونوں پھچھلے گھنٹے ایک دوسرے کی بانسبت بلکل خاموش تھیں شاہد لڑانے کی وجہ نہیں مل رہی تھیں یا لڑتے لڑتے تھک چکے تھیں 
زاویار نے اس چلتے چلتے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنے جیک کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر خاموشی سے چلنے لگا مہر نے سر اُٹھا کے اس کا چہرہ دیکھا جو کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا مہر اسے دیکھتی رہی وہ کب سے اتنا خوبصورت ہوگیا کیسے وہ اتنا بدل گیا اتنا بھی کوئی بدل سکتا ہے کیا یہ واقی ہی زاوی ہے یا ؟ اس سے اگئیں اس سے سوچا نہیں گیا 
زاویار کو اس کی نظروں کی تپش محسوس ہورہی تھیں لیکن اس نے اگنور کیا اور چلتا گیا 
کے اس ایک سواری نظر ائی اور ایسی سواری دیکھ کر اس کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی کیونکہ یہ گدھا گاڑی تھیں اور اس کے ساتھ تو بہت سی یادیں جڑی ہوئی تھیں 
"مہر !!"
زاویار نے اس کو دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں اس طرح پکڑیں جانے پر وہ گڑبڑائی 
"کیا ہے ؟"
اپنے گھبراہٹ کو مٹانے کے لیے وہ گھور کر بولی 
"وہ سامنے دیکھوں !!"
مہر نے دیکھا اور گدھا گاڑی کو دیکھ کر اسے بہت کچھ یاد آیا 
"مہر گِر جاوں گی ۔"
"میں اسے گدھے کے اوپر بیٹھنا ہے ۔"
"میں نہیں مجھے اس گدھے کے اوپر بیٹھنا ہے ۔"
"اُف ماسڑ جی چاپ کرو ۔"
زاویار ہنس پڑا 
"ہنس کیوں رہے ہوں ۔"
"کیونکہ چاپ نہیں چُپ ہوتا ہے ۔"
"تو پھر چُپ کرو !! آب مجھے بیٹھاوں ۔"
مہر نے اسے دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا پھر کہا
"آب میرا منہ دیکھتی رہوں گی چلوں آو اس پہلے یہ سواری بھی ہاتھ سے جائیں ۔"
وہ غصے سے کہتا ہوا اگئیں چل پڑا 
مہر کا منہ ُکھل گیا اس نے کچھ نہیں کہا تھا تو وہ اتنی سختی سے کیوں بولا ایک تو خود یاد کرواتا بچپن کے خوبصورت پل جو دل کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں اور پھر خود ہی تلخ زبان کا استمعال کر کے انھیں یادوں اور دل کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے 
مہر نے مٹھیا بھینچ لی اور سیدھا چل پڑی اس کے پھیچے 
اور زاویار نے اس کے اوپر بیٹھے چاچا سے بات اور ان کو شہر کی طرف جانے کے لیے کہا چاچا خاص مانے نہیں لیکن انہوں نے کہا وہ ایک ایسے جہاں روک دیں گئیں جہاں بہت ساری سواریاں ہوتئ ہیں جو شہر تک پہنچا دیں گی زاویار نے اسی بات کا شکر کیا اور مڑا تو مہر ایسے کھڑی تھیں اس کے میلے اور عجیب حُلیے کو دیکھ کر وہ بھی ان کے سامنے خاصی ناگاواری ہوئی اس نےاس کا ہاتھ پکڑ کر سائڈ پر لیکر گیا اور جیکٹ اتار کر اسے دیں مہر اس کے زور سے ہاتھ پکڑنے پر تیزی سے بولی 
"یہ کیا بدتمیزی ہے !!"
"چُپ کر یہ جیکٹ پہنوں اور میں اگئیں سے کچھ نہیں سُنوں گا !"
زاویار سختی سے بولا 
"نہیں پہنوں گی میں تم نے اتنی زور سے میرے ہاتھ کو پکڑا تمھیں آخر تکلیف کیا ہے !"
مہر نے اسے خشمگیں نظروں سے دیکھا 
"مہر پہنوں گی یا میں خود پہناوں اور ویسے بھی تم کوئی دس سال کی بچی نہیں ہوں بند کرو یہ سٹوپڈ حرکتیں ۔"
"پہلے اپنی یہ جلاد والے رویے کو غور کرو تو پھر مجھے کہنا ۔"
مہر نے چیختے ہوئے کہا چاچا نے پھیچے مڑ کر دیکھا 
"آواز کو دھیمی رکھوں مہر !!! اور پہنوں ۔"
"اگر میں نے یہ سب نہیں کیا تو کیا مارو گئیں گھسیٹوں گئیں یہی تو تم جیسے مرد کر سکتے ہوں ۔"
زاویار نے اس کے بولنے پر تیزی سے ایک بازو پکڑا اور اس میں جیکٹ کی بازو ڈالی اور دوسرا بازو بھی سختی سے پکڑ لیا مہر ایک دم حیران ہوگئی اس کی ایک دم سڈیڈی ریکائشن سے 
"یو چیپسڑ !!!"
وہ تیزی سے کہتے ہوئے لیکن زاویار نے تیزی سے بڑی کنڑول سے اسے پکڑ کر پہنا دیں 
"چلوں جی یہ کام ہوگیا آب چُپ کر کے چلوں ورنہ تم جانتی ہو میں کیا کرسکتا ہوں ۔"
"بس ایک بار یہاں سے نکلنے دو مجھے زاویار عباس پھر تمھیں بتاتی ہوں میں کیا کرسکتی ہو۔"
اس نے دل میں کہا اور اپنا ہاتھ چڑھوایا 
"جارہی ہو اور خبردار مجھے جو چھوا ۔"
وہ تلخی سے مسکرایا 
"مجھے بے کار چیزوں کو چھونے کا شوق نہیں ہے ۔"
مہر اس سنگدل آدمی کو اگنور کر کے چڑھ کر بیٹھ گئی اسے رونا آرہا تھا لیکن اس کمینے کے سامنے وہ ہرگز نہیں روئے گی 
زاویار بھی بیٹھ گیا اور اسی طرح خاموشی سے ان کا سفر شروع ہوا لیکن یہ خاموشی بہت معانی رکھتی تھیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : کینن فرانس 
یہ منظر لقمان ولا کا تھا رات کے دو بج رہے تھیں لان میں کُتے چھوڑیں گئیں تھیں جو بلکل خاموش اِدھر اُدھر پھیر رہے تھیں وہ اس نے بڑی ہی احتیاط سے دیوار پھیلانکی اور دیکھا سامنے ہی کافی کُتے تھیں اس نے بنا آواز دیا چلنے لگا اور اِدھر اُدھر دیکھا اور سامنے دیکھا کے ایک طرف کمرئے کی لائٹ کھلی ہوئی تھیں اس نے سوچا یہ ضرور مہر کا کمرہ ہوگا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر نے اپنے پونی کھولی اور بستر پر بیٹھ گئی 
"اگر شان جیت گیا تو ؟ تو کیامیں اسے بتادوں گی میرا گیارہ سال پہلے نکاح ہوچکا ہے لیکن اس کے زیادتی ہے 
کے میں اسے ٹیسٹ کررہی ہوں پہلے ہی بتادینا چاہی تھا پر وہ یقین نہیں کرتا اور اس طرح اگر میرے بابا سے پوچھ لیتا تو اُف میرا اللّٰلہ پھر تو گڑبڑ ہوجاتی کیا کررہی ہوں نہیں مہر تمھیں نہیں گھبڑانا بتادوں گی کرنا ہے جو کرتا رہے ۔"
وہ اپنے سے کہتے ہوئے بستر پر لیٹ گئی 
"زاوی تم کہاں ہوں ،کدھر ہو دیکھوں میں کتنی اکیلی ہوں تمھاری مہر کو کوئی اور چاہتا ہے میں نے اس کی انکھوں میں جنون دیکھا پلیز آجاوں ورنہ وہ مجھے تم سے چھین لیے گا ۔"
اس کے انکھوں میں انسو اگئیں اور اس نے انکھیں سختی سے موند لی 
وہ مشکلوں سے بالکنی کی طرف پہنچا 
"اُف!! "
پھر آرام سے جمپ لگائی 
اور اندر دیکھا اندر لائٹ آف تھیں مطلب بالکنی کی کھلی تھیں جبکہ اند کی بند کردیں گی تھیں اس نے دروازے کے ہینڈل کو پکڑ کر گھمایا اور دروازہ کھلا ہوا تھا اگر بند بھی ہوتا تب اسے مسئلہ نہیں تھا 
اس نے کوشش کی کے ہلکی سی آہٹ بھی نہ ائے اور چلتے ہوئے ایک بڑئے شاندار سے کمرئے میں داخل ہوا جو یقینن مہر لقمان کا ہی تھا اس نے دیکھا وہ پری پیکر اپنے قوین سائز بیڈ پہ سوئی وی تھیں اس کا بڑا دل کررہا تھا وہ اس کے قریب جائیں لیکن آبھی نہیں ابھی اس نے اہم کام کرنا ہے اس نے دیکھا سامنے ڈریسنگ روم تھا اس نے جاکے دروازہ کھولا اور بڑی ہی احتیاط سے اندر داخل ہوا اور اس نے اپنی جیکٹ سے ٹارچ نکلائی ورنہ لائٹ کھولنے سے وہ اُٹھ سکتی تھیں 
اس نے ایک الماری کھولی وہ لاکڈ تھیں 
"یہ کیا ؟جو لاکڈ اس میں ہی کچھ خاص ہوسکتا ہے ۔"
اس نے پہلے اسے چھوڑ کر باقی سارے دیکھیں باقی میں اس کے مطلب کی چیز نہیں تھیں پھر یہ ہلکہ سا پھیچے ہوا جب کسی چیز لگنے سے وہ لڑکھڑایا 
"او شٹ !"
اس نے خود کو سنبھالا اور اس منہوس چیز کو دیکھا جس دیکھا ایک بڑا سا ٹریشر باکس تھا جو لاکڈ تھا 
اس نے جھک کر ٹارچ سے اس کوپڑ ٹریشر باکس کو دیکھا جو کافی پُرانی لگ رہا تھا 
اس نے تالے کو دیکھا اور مسکرا کر پڑا تالا کھولنا اسے کے بائے ہاتھ کا کام تھا اس نے بڑی ہی ماہر انداز میں اس کو ہلکہ سا جھٹکا دیا اور اپنی پروفیشنل کیز کا استمعال کر کے کھول دیا 
لیکن جب اس نے کھولا تو اسے جھٹکا لگا 

لوکیشن :لاہور ،پاکستان 
ڈور بیل کی مسلسل آواز پر وہ جو اپنے لیے چائے بنا رہی تھیں جنجھلائی 
"ارئے کوئی ہے تو جاکے دروازہ کھولے !!"
وہ اونچی آواز میں بولی پھر دوبارہ ڈور بیل کی آواز سُن کر وہ چھولا بند کر کے تیزی سے دروازہ کی طرف آئی 
"کون کمبخت ہے اس وقت !!"
اس نے جاکے دروازہ کھولا تو سامنے کھڑئے اس شخص کو دیکھ کر ٹھہر گئی 
"اسلام و علکیم !"
وہ دھمیے آواز میں کہتا سر جکھا گیا اور پارو کو احساس ہوا اس نے سر پہ ڈوپٹہ نہیں لیا تھا اس جھجھل محسوس ہوئی جلدی سے ڈوپٹہ سر پہ ٹکا کر بولی 
"ائے اندر ائے ۔"
"کیا صادق سر گھر پہ ہے ۔"
اس کی بات سُن کر وہ جان گئی آب وہ گھر میں نہیں ائے گا کیونکہ آبا بھی گھر میں نہیں تھیں 
"نہیں آبا مسجد گئیں ہوئے ہیں آب اندر ائے تو ۔"
وہ اس یونانی دیوتا جیسے حسین میجر کو دیکھنے لگی جو اس کے پہلی نظر میں ہی دل میں بس گیا ۔
"نہیں چلتا ہوں ان کو بتا دیجیے گا میری رات کو فلائٹ 
ہے اور ہاں جب سر موجود نہ ہوں تو ایسے سامنے اکر دروازہ کسی انجنبی کے لیے نہیں کھولتے دھیان رکھیں گا ۔"
وہ اسے تنبیہ کر کے چلا گیا 
جبکہ پارو کا منہ بن گیا 
"اُف کتنا کھڑوس ہے اور اللّٰلہ اتنا بھی کیا سر جھکانا 
اگر اس کا بس چلے خود بھی برقعہ کرنا شروع کردیں ایسی لڑکیوں والی نزاکت کو کس نے میجر بنا دیا ۔"
وہ اپنے آپ سے کہتی ہوئی اندر داخل ہوئی 
دراوزے پہ دوبارہ بیل ہوئی اس کے قدم رُک پڑیں 
"ہائے اللّٰلہ کہی دوبارہ تو نہیں آگئیں لگتا ہے انھیں احساس ہوگیا ہے کے انھوں نے زیادہ ہی سخت لہجہ استعمال کیا تھا ۔"
وہ دل میں خوش ہوتی دوبارہ دروازے کی طرف پہنچی جہاں وہ اسے دیکھ کر خوش ہوئی تھیں لیکن ساتھ اپنے آبا جی کو دیکھ کر اس کا منہ بن گیا 
"ارئے تم نے اسے اندر آنے کیوں نہیں دیا پارو!! آو بیٹا ۔"
صادق علی کے تلقید میں وہ بھی اندر داخل ہوا 
"پارو تم جاوں میرے بچے کے لیے کھانے کا انتظام کرو لو بتاو بھلا کام سے اکر جارہے ہو تو بتائے بنا تھوڑی جاتا ہے ۔"
صادق علی کچھ زیادہ ہی ناراض لگ رہے تھیں 
"جی آبا وہ اس کھڑوس میجر کو گھور کر دیکھتی جو صادق علی کی بات پہ اس کے چہرے پہ بے حد پیاری سی مسکراہٹ اگئی تھیں اور اس وقت پارو کا دل دھڑک اُٹھا تھا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :شاندراہ آسلام آباد 
وہ زاویار سے ناراض تھیں ،اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھیں کیونکہ وہ ڈرپوک تھا اسے اس کے بابا سے ڈرنے کی کیا تُک تھیں لیکن تھپڑ بھی بلاوجہ کا اس کے بابا نے بہت زور سے بھی مارا تھا اس کی جگہ اگر وہ خود بھی ہوتی تو وہ بھی ڈر کر بھاگتی لیکن وہ تو لڑکی ہے ڈر جانا تو اس کا حق بنتا ہے اور زاویار تو لڑکا لڑکے تو کافی بہادر ہے انھیں سوچوں میں گُم تھیں 
کے پارسا اس کے پاس آئی 
"ارئے مہرو ایسے کیوں بیٹھی ہوں نیچیے زاویار آیا ہوا ہے ۔"
"تو میں کیا کرو آیا تو آتا رہے ۔"
مہر نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی آن کر لیا پارسا نے اسے حیرت سے دیکھا 
"ایک ہفتے سے پاگلوں کی طرح رو رہی تھیں مجھے میرا دوست چاہیے میرا دوست اور آب اسے بات ہی نہیں کررہی کیا چکر ہے ۔"
پارسا نے مہر کے سینڈ براون بالوں کو سہلایا 
"میرے(ممی) زاوی پیرے (پاپا) سے بہت ڈرتا ہے کل مجھے اس کے ساتھ کھیلنا تھا لیکن جیسے اس نے دیکھا پیرے آرہے ہیں وہ ڈر کر بھاگ گیا دو دن وہ ہمارے گھر نہیں آیا اور آج پیرے جب دوبارہ کام پر چلیے گئیں تو آگیا ۔"
پارسا اس کی بات پہ مسکرا پڑی 
"بس اتنی سی بات لیکن مہر جانو آپ کو تو پتا ہے آپ کے پیرے اسے پسند نہیں کرتے ،یاد ہے جو زاویار کو بلاوجہ تھپڑ پڑا تھا اگر آپ کو پڑتا کیا آپ پیرے کے سامنے آتی نہیں نا اس لیے میری پیاری بیٹی زاویار کی بھی یہی مجبوری ہے بات ڈرپوک کی نہیں بات سلف ریسپیکٹ کی ہے اور زاویار میں سیلف ریسپیکٹ ہے 
اس لیے وہ یہ سب کررہا ہے چلوں شاباش اُٹھوں نیچے اتنی مزئے دار سی چیز بن رہی ہے اور بنا بھی زاوی رہا ہے میں تو امپریس وہ تو بلکل ۔۔"
وہ کچھ کہتے کہتے رُکی اور پھر مہر کو بولی "چلوں میری جان اُٹھوں ۔"
"کیا بنا رہا وہ ۔"
مہر اشتیاق کے مارے اُٹھی 
"نیچے خود دیکھوں گی تو پتا چل جائے گا ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر سوچ میں گُم تھیں جب جھٹکا لگنے پر اس نے سر اٹھایا دیکھا وہ آڈئے پہ پہنچ چکے تھیں پھر اس نے زاویار کو دیکھا جو پہلے ہی اُتر چکا تھا اور آب اس دیکھتے ہوئے بولا 
"اُتریں گی آپ یا میں آپ کو انویٹیشن دوں ۔"
وہی کڑوا لہجہ جہاں مٹھاس کا کہی نامونیشان نہیں تھا 
مہر نے اسے تیز نظروں سے دیکھا اور جلدی سے اُتری 
زاویار نے اس کا بازو پکڑا مہر نے ایک دم ڈرتے ہوئے مڑی کیونکہ اس کا ارادہ بھاگنے کا ہی تھا 
لیکن زاویار نے کہا 
"میری جیب سے والٹ نکالوں ۔"
مہر نے نا سمجھی سے دیکھا زاویار نے اپنی انکھیں گھمائی اور جیکٹ میں ہاتھ ڈالا اور نکلا اس میں پیسے نکال کر اس نے چاچا کو دیں 
"چلوں !! "
مہر کو بڑئے غور سے اپنے ہاتھ دیکھتا پاکر کر وہ تیزی سے بولا مہر نے چونک کر اسے غور سے دیکھا 
"اِدھر میرا منہ دیکھتی رہوں گی چلوں گی بھی کے نہیں او خدایہ !!!
وہ اگئیں چل پڑا اور مہر اس کی ایک ایک حرکت کو غور سے دیکھ رہی تھیں 
پھر اپنی سر کو جھٹکا 
"اس کو دیکھتی رہی تو پھر میں گئی یہاں سے نکلنا بہت ضروری ہے ورنہ اس ہٹلر کے دادا کے پاس میں پھس جاوں گی ۔"
اس نے کچھ سوچا پھر اس نے دیکھا ایک وین تھیں جو جانے کے لیے تیار تھیں وہ بنا سوچے اس کی طرف تیزی سے بڑھنے لگی جب زاویار نے اس کا بازو دبوچا 
"کہاں بھاگی جارہی ہے مسز !!!"
زاویار کی آواز سُنتے ہوئے اس کا چہرہ سفید ہوگیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دیکھا اور پھر جلدی سے خود کو کمپوز کرتے ہوئے بولی 
"نہیں تو ! تمھیں ایسا کیوں لگا ۔"
زاویار نے اسے دیکھا اور پھر اس کے چہرے پہ دلشکن انداز میں مسکراہٹ ائی 
"تمھارے چہرئے کا سفید پن ساری کہانی بتارہا ہے لیکن خیر اگر غور کیا جائے تمھاری سانسیں خاصی تیز ہیں ، انکھوں کا نیشانہ وہ سامنے وائٹ وین تھیں قدموں کی راہ بھی اس طرف تھیں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن ڈیر وائف اسے ہم اس بڑئے والے بلیو وین ڈسکس کرتیں ہیں چلوں !"
مہر کا دل کیا اس کے خوبصورت چہرے کو بے شمار تھپڑوں سے بھر دیں جو لومڑی سے بھی زیادہ چلاک تھا اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ لی اور اس کے ساتھ چل پڑی ورنہ بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ اس نے اس کی پھیچے جو آنا تھا کیونک ان کی ڈیوٹی جو ٹہری
"ویسے مہر مجھے آج سے پہلے مجھے تمھارا چہرہ کھبی اتنا خوبصورت نہیں لگا جتنا آبھی تمھیں دیکھ کر لگا ۔"
وہ اس کے ساتھ وین کے اندر بیٹھتے ہوئے بولا مہر کا اس کی بات پہ دل دھڑک اُٹھا وہ اُمید نہیں کرسکتی تھیں زاویار عباس اس کی تعاریف کریں گا 
"کیا مطلب ؟"
"تم نے Conjuring 2 دیکھی ہے ۔"
"ہاں تو !"
مہر نے کہا 
"اس میں جو نن تھیں ناں ہا کیا نن تھیں اس کی شکل تم سے ملتی ہے بلکہ تم زیادہ بہتر رول پلے کرسکتی تھیں اس فلم میں ۔"
زاویار ہنستے ہوئے بولا اور مہر کا منہ کھل گیا 
اس نے ایک پنج زاویار کے پیٹ پہ مارا 
"اوچ !!"
"اپنی شکل دیکھی ہے منہ کالی بیڑ بلکہ گینڈئے وہ بھی بدصورت ترین گینڈئے ۔"
وہ اونچی آواز میں کہتی ہوئی اس کا گیربان پکر چکی تھیں 
لوگ حیرت سے ان دونوں کو دیکھنے لگیں 
زاویار نے ہلکے سے اپنا گیربان چھڑوایا 
اور پھر لوگوں کی نظریں پاکر بولا 
"میری وائف ،پیاری ہے ناں بس تعریف میں کمی کردیں اس لیے انھیں غصہ آگیا ۔"
زاویار کی بات پہ اس کا دماغ اوٹ ہوگیا 
"کیا مطلب ہے تعریف ! تعریف تم مجھے چڑیل کہہ رہے ہو ۔
زاویار نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑا 
اور اس کی کان میں بولا 
"تماشہ مت کرو مہر کتنا گِرو گی تم ۔"
اس کی سرد آواز پہ وہ اتنا نہیں سُن ہوئی تھیں جتنے اس کے سرد الفاظ سے 
"اور یہ یورپ نہیں تمھارا جب چاہیے تم کچھ بھی کرسکتی ہوں اس لیے خاموش رہوں اسی میں تمھاری بہتری ہے ۔"
مزید سخت الفاظ نے اس کے انکھیں پانیوں سے بھر دیں اور اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے اور اتنی زور سے بھینچے لگی کے اسے تکلیف ہوئی اس نے منہ موڑ کر شیشے کی طرف دیکھنے لگی اس کا دل کررہا تھا کہی چھپ کر روئے اور خوب روئے اسے پارسا کی یاد آرہی تھیں اسے پارسا کی سخت ضرورت محسوس ہورہی تھیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :شاندراہ آسلام آباد 
مہر پارسا کے ساتھ نیچے ائی تو پارسا اس کا ہاتھ پکر کر کچن کی طرف لیے گئی اور کچن کا جو باہر کی طرف راستہ تھا اس کا دروازہ کھولا اور اسے سامنے کی طرف لیکر گئی اور اگئیں چلنے لگی 
"میرے کدھر لیکر جارہی ہیں آپ !"
مہر انھیں حیرت سے دیکھتی ہوئی بولئ 
"زاوی نے میرے لیے اور تمھارے لیے کچھ پلین کیا اس نے مجھے اور تمھیں نیچیے بلوایا تھا ابھی ہم بڑئے والے لان میں جارہے ہیں ۔"
"اس نے ہمارے لیے سپرائز رکھا ہے ۔"
مہر ایک دم خوش ہوتیں ہوئے بولی 
"ہاں کچھ ایسا ہے ۔"
انھوں نے اندر کا دروازہ کھولا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : کینن ،فرانس 
مہر لان میں بیٹھی چائے پی رہی تھیں جب اسے کی سیل کی رنگ بجی اور اس سیل کی رنگ ڈفرنٹ تھی
‏Nick cave 
‏Into my arms کو سُن کر اس کا منہ کھل گیا 
‏But I don't Believe in the existence of angels 
‏But looking at you 
‏I wonder if that's true 
‏But if I did 
‏I would summon them
‏Together 
‏And ask them to watch over you 
مہر نے اپنا سر جھٹکا اور فون اُٹھایا 
"ہلیو !"
"اسلام و علکیم مہر کیسی ہے آپ ؟"
شان کی خاصے مودب لہجے اور الفاظ پہ مہر کو جھٹکا لگا 
"آپ نے میرے فون کو چھیرا تھا اور یہ حرکت آپ نے کب انجام دیں ہے ۔"
مہر نے بھی اسی کے انداز میں کہا لیکن دانت پیستے ہوئے 
اگئیں سے اس کی دلکش ہنسی سُنائی دیں مہر جنجھلائی 
"اس گستاخی کے لیے معافی مہر میڈم لیکن آپ نے اپنا پاسورڈ نہیں ڈالا تھا تو ہمیں آپ کو یہ پنک کلر کا فون بھی بے حد پسند آیا سوچا میں بھی خرید لو اس لیے دیکھتیں دیکھتیں آپنی پسندیدہ رنگ ٹیون ڈال دیں ۔"
اس کی اتنے معصومانہ انداز پہ مہر اس کی اکٹینگ کو سہرائے بغیر نہ رہ سکے 
"اور آپ بتانا پسند فرمائے گئیں یہ گستاخی آپ سے ہوئی کب ؟"
"وہ ہم آپ کو بعد میں بتائیں گئیں کیونکہ اللّٰلہ کے کرم سے ہمیں سات دن دیں گئیں ہے اپنی پاکیزہ محبت ثابت کرنے کے لیے انھیں سات دنوں میں ہم بتادیں گئیں ۔"
اس کے خوبصورت لہجے میں وہ ایک منٹ کے لیے کھو گئی لیکن پھر سر جھٹکتے ہوئے بولی 
"بہت آسان سمجھ رہے ہو مجھے پانا ۔"
مہر کا لہجے کی تیزی پر وہ اِدھر کھڑا ہنس پڑا 
"آسان ہے یا مشکل کی بعث کو چھوڑوں گولڈی جلدی سے تیار ہوکے آو میں نے اپنے دوستوں سے ملوانا ہے آپ کو ۔"
"مجھے تمھارے دوستوں سے ملنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے سمجھے اور میں نے کیا تھا تمھیں ایسے کرنا کے میں تمھاری عزت کرو ۔"
مہر کے لہجے پہ اس کی مسکراہٹ گہری ہوگئ 
"مطلب گولڈی صاحبہ ففٹی پرسنٹ راضی ہے ۔"
مہر کو اس کی بات پہ ایک دم تیش اگیا 
"کس نے کہا ہے تمھیں میں راضی ہوں اور جو کچھ کرنا ہے کرلوں میں نہیں او گی اور چیلنج کینسل ۔"
"ارئے آپ تو گھبڑا گئی مطلب آپ کو یقین ہے نے یقین جیت جانا ہے اس لیے جلدی سے کینسل کررہی ہے خیر میں نے کہا نا اس بعث کو چھوڑ دیں پلیز جلدی سے Antibes land theme park آجائے امید کرتا ہو آپ ایک گھنٹے میں وہاں موجود ہوگی ۔"
مہر نے تیزی سے فون بند کردیا 
"اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہے یہ نہ ہوں گھر ہی آجائیں ایک دفعہ جاتی ہو اور اسے سیدھا سیدھا کہہ دو گی ۔"
وہ کچھ سوچتے ہوئے اُٹھ پڑی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : لاہور ، پاکستان 
"میں نے کہا اندر آجائیں تو کیسے سیدھے سیدھے نہ کہہ دیا اور آبا جب ائے تو کیسے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی اور ان کی بات پہ اندر ابھی گیا اُف یہ میجر بہت ہی کھڑوس ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اکڑ ہے اس میں لو بھلا ہمارا نکاح ہوچکا ہے تب بھی اندر نہیں گھسے گا اتنی شرافت کس میں ہوتی ہے یا یہ اپنی شرافت کی اکٹینگ کرتا ہے ۔"
"پارو بیٹی کہا ہوں چائے بنا رہی ہے یا پائے ہمارا بیٹا انتظار کررہا ہے ۔"
"تو کرتا رہے کون سا میرا کررہا ہے آبا ۔"
پارو بڑبڑاتے ہوہے کپ ٹرئے میں سیٹ کررہی تھیں 
"آب دیکھنا چائے پیے گا تو کیسے کوجے کوجے منہ بنائے گا اقر قسم سے اگر اس نے بنایا تو ابا اور ہمارے رشتے کا بھی لحاظ نہیں کرو گی ۔"
وہ تیزی سے کہتی ہوئی مڑی ہی تھیں کے سامنے آتے 
میجر صاحب سے ٹکرا گئی 
اور سارے چائے میجیر صاحب کی سفید شرٹ پہ گِر گئی 
"ہائے اللّٰلہ !!!"
پارو نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ آسلام آباد 
ان دونوں نے دروازہ کھولا اور ایک دم حیرت سے ان کی انکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی کیا یہ جو پلان کی یہ سارا زاویار نے کیا ہے 
اس بڑئے سے لان جہاں یہ لوگ پارٹی رکھا کرتیں تھیں 
اِدھر زاویار نے چھوٹا سا ٹیبل رکھا تھا اس پہ پارسا کا فیورٹ کلر ریڈ رکھا تھا اس پہ جاکے چھوٹا سا کیک 
پڑا ہوا تھا اور نیچے اس نے چھوٹے سے گلٹر چارٹ پیپر 
پہ اس نے لکھا تھا 
"ہیپی برتھ ڈئے پارسا میم !"
زاویار ایک دم سامنے آیا پارسا کی انکھوں میں انسو اگئیں 
مہر نے پہلے زاویار کو دیکھا پھر اپنی ممی کو 
"میرے آپ کی برتھ ڈئے ہے اور مجھے نہیں پتا اور یہ زاوی کو کیسے پتا چلا ۔"
زاویار کے ساتھ اس کے بے بے ائی اور ان کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا 
زاویار نے پھیچے مڑ کر ایک لال گلاب کا پھول دیا 
"ہیپی برتھ ڈئے میم !"
پارسا نے جھک کر اسے ملی 
"تھینک یو سو مچ تو وہ اتنا مزئے دار چیز تم نے میری برتھ ڈئے کی خوشی میں بنائی تھیں اور تمھیں کیسے ہتا چلا ۔"
پارسا اس پیارے دل والے لڑکے کو دیکھتے ہوئے بولی 
"وہ اس دن آپ کی ائی ڈی کارڈ گِر گیا تھا تو میں نے جب آپ کو پکرایا تو میں نے آپ کئ ڈیٹ اف برتھ دیکھی تھیں اس لیے سوچا آپ کے لیے کچھ کرو ۔"
مہر مسکرا کر زاویار کو دیکھ رہی تھیں کیونکہ ممی اس کی زیادہ خوش نہیں رہتی تھی اس وجہ نہیں پتا تھی لیکن شاہد پیرے کو ممی کی برتھ ڈئے یاد نہیں رہتی اس لیے وہ سیڈ ہے اور زاویار کو یاد تھی اس لیے وہ خوش تھیں 
"بی بی جی سالگرہ بہت مبارک ہوں زاویار نے مجھے دو دن پہلے بتایا یہ آپ کے لیے آپ کی وجہ سے میرا پُتر کو پڑھائی کی لگن ہوئی اور جو چیز آپ نے دیں اسے تو آب جنون ہوگیا ہے ۔"
"ارئے اس کی کیا ضرورت تھیں آپا اور یہ یہ تو سب سے پیاری چیز ہے اور یہ اسی چیز کے لیے بنا ہے میں نے تو بس اسے اس کی منزل دکھا دی آپ اس منزل کو مکمل کرنا اس نے ہے نا زاوی ۔"
زاویار مسکرایا اور بولا 
"آپ دیکھیں ناں میں نے بے بے کو خاص کہا کے آپ کے لیے ڈریس بنائے ۔۔"
"ہاں دیکھائی مجھے آپا دیکھوں آپ نے کیسا بنایا اگر مجھے اچھا لگا میں سوچ رہی ہو وہاں کینن میں آپ کے ساتھ کوئی بزنس کرو ۔"
وہ اُٹھا کر اگئیں چلنے لگی تب مہر زاویار کے پاس 
آیا 
"کیسی ہو مہر !"
مہر نے اسے دیکھا پھر اسے یاد آیا وہ اس سے ناراض ہے وہ منہ بنا کر سر جھٹکتے ہوئے اگئیں چلے گئیں 
"ارئے آرہے ائیم سوری پر کیا کرو تمھارے پیرے بہت خطرناک ہے انھیں دیکھ کر بہت ڈر لگتا ہے تمھیں پڑتا نا تھپڑ جو مجھے پڑا تھا پھر پتا چلتا ۔"
مہر نے اس کی بات سُنتے ہوئے اسے گھورا اور کمر پہ دونوں ہاتھ جما کر لڑاکا عورتوں کی طرح بولی 
"کیا پیرے مجھے مارئے گئیں آج تک مجھے کسی نے نہیں مارا اگر مارے گا میں اسے چھوڑوں گی نہیں ۔"
"او ائیم سوری مس آپ کی تو مار تو سر سے بھی زیادہ خطرناک ہوگی ۔"
زاویار مضنوعی ڈر سے بولا مہر کے سر پہ مزید بل پڑ گئیں 
"میرا مزاق اُڑا رہے ہوں ۔"
"نہیں نہیں میری کیا مجال جو آپ کا مزاق اُڑا اچھا سوری نہ مہر ایک تو میرے پیپرز ختم ہوئے پوچھوں گئی نہیں کے کیسے ہوئے ۔"
"ہاں تم ٹہرے لائق لوگ نہ بھی پڑھوں تب بھی نمبر آجائیں گئیں ۔"
"ہو مجھے لائق سمجھتی ہوں !!"
"تو اور کیا ماسٹر جی کو سب آتا جاتا جو ہے ۔"
"ارئے واہ میرے جانے کے بعد آُردو خاصے اچھی ہوگئی ہے آپ کی ۔"
"افوہ چھوروں اُردو کو ویسے کیک کہاں سے لائے ۔"
"کہی سے نہیں خود بنایا !!"
"ہیں تمھیں کیک بنانا آتا ہے ۔"
"ہاں !!بہت آسان ہے ۔"
"تمھیں تو ہر چیز آتی ہے زاویار مجھے دیکھوں مجھے تو صیح طریقے سے کھانا بھی نہیں آتا میرے خود کھلاتی ہیں ۔"
"ہاں تو دودھ پینے والی بچی بنا چھوڑ دو خود سے کام کیا کرو ۔"
"میں دودھ نہیں پتی اور میں نے کیا تھا پر چمچ میں رائس ڈالتی ہو سارے گر جاتیں ہیں ۔"
"کیوں ہاتھوں میں جان نہیں ہے ۔"
"ہاتھوں میں جان کیسے ہوسکتی ہے ۔"
"افوہ میں آب اس کی بھی ڈیٹیل نہیں دیں سکتا ۔"
"زاویار پُتر آ جو کیک بنایا ہے وہ تو مہر بی بی کو دس تاکے پارسا میڈیم کاٹے ۔"
بے بے کی آواز سُن کر زاویار نے بولا جی آیا 
"ویسے بتایا نہیں تم نے کے کیک کیسے سیکھا ۔"
"وہ شہر میں جاتا ہو نا وہاں شاپس میں کافی مگیزین لگی ہوئی تھیں اس میں ایسی کیک کی ریسپی پڑھ آیا اور گھر اکے تمھارے کچن میں ٹرائے کیا پارسا میڈم سے آجازت لیے لی تھیں یوز کرنے کی ۔"
"تو تمھیں یاد رہا ۔"
"ہاں اتنا مشکل بھی نہیں تھا بس دودھ ،فلور ، چاکلیٹ ،انڈئے ساری چیزیں لیے آیا بس بیکنگ سوڈا تمھارے کچن سے لیے لیا ۔"
"واو مجھے سیکھاؤں گئیں ۔"
"اگر تمھارے پیرے اگئیں تو انھوں نے مجھے اوون میں گھسا دینا ہے ۔"
"اتنے بھی بُرے نہیں ہے پیرے ۔"مہر نے گھورا 
وہ دونوں ٹیبل کے قریب آگئیں زاویار ہنس پڑا 
"کیا ہوا کس بات پہ ہنس رہے ہو ۔"
پارسا نے نائف اُٹھایا 
"میں نے کہا کے اس نے کیک بنایا ہے تو مجھے سکھا دیں تو کہتا ہے پیرے نے اسے اوون میں گھسا دینا ہے ۔"
اس کے بے ساختہ بولنے پر زاویار سپٹا گیا 
پارسا نے ایک دم زاویار کو سپٹاتے ہوئے دیکھا اور پھر ہنس پڑی 
"زاوی ارئے کیوں گھبڑا گئیں میں نہیں بتاوں گی ۔"
"نہیں وہ وہ ۔۔"
"زاویار پُتر ایسے کہتے ہیں ۔"
بے بے کی ڈانٹتے ہویے بولی 
"سوری میم !"
"ارئے کوئی بعد نہیں او مہر اور تم بھی آو مجھے گفٹ بہت پسند آیا اور تم بھی میرے ساتھ کیک کاٹوں ۔"
وہ پیارے سے کہتے ہوئے ان دونوں کو بلوایا

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page