top of page

میرا رکھوالا - مصنفہ: ثمرین شاہ

قسط نمبر چار

لوکیشن : ملتان ،پاکستان 
مہر چُپ کر کے روتے روتے پتا نہیں کب کا سو گئی جب 
کسی نے اس کا کندھا ہلایا وہ ہلکہ سا کسمائی لیکن پھر جب ہلایا گیا تو اس نے ہاتھ زور سے کسی کے چہرے پر مارا پھر ایک دم اسے لگا کچھ ہوا ہے اس نے انکھیں کھولی تو زاویار اپنے گال پہ ہاتھ رکھے اسے گھور رہا تھا 
"ہوگئی نیند پوری محترمہ مہر لقمان !!! اور اگر مزید کسی چیز کی بڑھاس نکالنی ہے تو یہ لے میرا دوسرا گال بھی ہے ۔"
اس کی بات پہ مہر نے اِردگرد دیکھا کافی لوگ وین سے باہر نکل گئیں تھیں اس نے کھڑکھی کی طرف دیکھا جہاں اندھیرے کے سائے نظر آرہے تھیں لیکن اندھیرے کے اندھیرے کے کیوں بھلا کیونکہ آسلام آباد تو اتنا دور نہیں تھا جس پہ اندھیرا چھا گیا 
"ہم کہاں ہے اس وقت ۔"
مہر کے ایک دم بولنے پہ زاویار بولا 
"ملتان !"
"اور ٹائیم ٹائیم کیا ہورہا ہے ۔"
"رات کے آٹھ بج رہے ہیں ۔"
"تمھیں کس نے کہا تھا ملتان او خدایہ میرا بھوک سے بُرا حال ہورہا ہے اور تم !!! آسلام آباد اُتر نے کے بجائے 
ملتان دماغ تو نہیں خراب ہوگیا زاویار !!"
زاویار نے شاپر اسے پکرایا 
"لو ٹھنسو ندیدی نہ ہو تو!!"
وہ اس کی کمینٹ کو کھانا اُٹھا کر منہ پہ مارتی لیکن اس وقت تو اسے اتنی بھوک لگ رہی تھیں دو دن سے بھوکا انسان کا کیا حال ہوجاتا ہے 
"ان کو کھانے کے لیے کچھ نہیں ملتا تھا مہر اور ایسے بہت سے بچے ہیں انھیں گلیوں میں تین یا چار دن تک بھوکے لیٹے رہتے صبح سے لیے کے شام تک روزی کی تلاش میں اپنا نہیں تو اپنے بہن بھائی کا پیٹ بھرنے کے لیے کچھ کرتیں لیکن ان کے چہرے پہ مسکراہٹ ہی رہتی 
ہم جیسے لوگوں کو ایک سکینڈ میں اپنی چیز وقت پہ نہ ملے تو ہم آسمان اور زمین ایک کردیتے ہے اپنے تلخ لہجے سے اپنا دن بھی خراب کرتیں ہے اور دوسروں کا دل بھی خیر میں اس لیے یہاں آتا ہو تاکہ میرے لیے ان کے منہ سے بس ایک دعا سُنا چاہتا ہوں 
"وہ کیا ؟"
وہ اسے دیکھتے ہوئے بولی 
"یہی جو آپ چاہیتے ہیں شان بھائی وہی ہوں !"
"اور تم کیا چاہتے ہوں !"
"شہادت !!"
وہ اس کی بات پہ ایک دم حیران ہوئی 
"کیا ؟"
"تم تو اکسپکیٹ کررہی ہوگی کے میں تمھاری خواہش کرو گا مجھے تمھاری خواہش ہے گولڈی لیکن میری اولین خواہش اپنے وطن کے لیے ہے اور اگر میری جان جائے تو آپنے اللّٰلہ اور اپنے وطن کے لیے جائیں ۔"
"کہاں کھوں گئی تم !!
زاویار کی آواز پہ وہ چونکی 
وہ اسے دیکھ رہا تھا 
"تم کچھ کہہ رہے تھیں ۔"
مہر نے کہا زاویار کو بہت کھوئی کھوئی سی لگ رہی تھیں 
"کچھ نہیں تم کھاؤں ۔"
"تم کھا چکے ہوں ۔"
اس کو ایسا بیٹھتے دیکھ کر بولی 
"کیا بات ہے ملتان کی ہوا نے بڑا اثر دیکھایا ہے خاصے بیوی والے اثار نظر آرہے ہیں ۔"
زاویار نے ابرو اُٹھاتے ہوئے کہا 
"اتنے بُرے دن نہیں آئے میرے میں نے بس انسانیت کے ناطے پوچھا ۔"مہر نے شاپر میں سے دیکھا اس میں بن کباب اور ایک پانی کی بوتل تھیں 
"او اچھا اچھا مہر لقمان میں انسانیت بھی ہے ۔"
زاویار نے سینے پہ بازو بانتے ہوئے اس کو دیکھتے ہوئے کہا 
"تمھارے میں تو ہے ہی نہیں !!"
مہر نے بائٹ لیتے ہوئے کہا 
"بڑا پتا ہے میرے بارے میں ."
"میرے علاوہ کس کو پتا ہوگا تمھارا ۔۔۔
مہر کہتے کہتے ایک دم چُپ ہوگئی 
زاویار نے اسے دیکھا اور اس نے زاویار کو مہر کے سائڈ پہ مایونیز لگ گئی تھیں زاویار نے کہے بنا بے اختیاری سے کفیت میں اس کا ہاتھ اُٹھا مہر نے ایک دم دیکھا وہ ایک دم ہرسا ہوکر پھیچے ہوئی زاویار کے چہرے پہ بے سکتا مسکراہٹ آئی لیکن اس نے روکا اور اسے کے اگئے مزید جھک گیا اور ہاتھ اگئیں کیے مہر کا سر شیشے سے لگا 
"اُف !!"
اس نے ہاتھ اپنے ڈیفینس میں اگئے کیا زاویار نے ہٹا کر قمیض کی جیب سے رومال نکالا اور اس کی منہ صاف کیا 
مہر ایک دم ساکت ہوگئی 
"ہاہاہاہاہاہا ۔"
مہر مزئے سے اس کے ساتھ بیٹھی چکلیٹ کیک کھا رہی تھیں لیکن اس نے پورے چہرے پہ مل دیا تھا
مہر نے اسے دیکھا پھر گھورا 
"ہنس کیوں رہے ہوں ۔"
"میرے خیال ہے مہر تم اپنی ماما کو بلوالو وہ تمھیں کھانے میں ہلیپ کردیں تم کھاتی نہیں ہو تم تو چہرے پہ لگاتی ہو ہاہاہاہا ۔"
"زاوی !!! گندئے ہوں تم ۔"
"لیکن اس وقت گندی تم ہوں !!!"
زاویار کی بات پہ اس نے رونا شروع کردیا 
"ائیم سوری مہر ائیم سو سوری اچھا میں مزاق کررہا تھا تم بہت پیاری لگ رہی ہوں اچھا اچھا میں صاف کردیتا ہو۔"
اس نے اپنے جیب سے رومال نکالا اور مہر کے چاکلیٹ سے لگئیں ہوئے منہ کو صاف کیا 
اور مہر نے روتے ہوئے اسے حیرت سے دیکھا اور آب اسی حیرت سے مہر زاویار کو دیکھ رہی تھیں جب اس کی نظر آپنے چھوٹے والے رومال پڑ پڑی جس پہ چھوٹا سا ائیم لکھا ہوا تھا زاویار نے جلدی سے اسے اپنی جیب میں رکھا تاکہ مہر نہ دیکھ سکے لیکن مہر اس رومال کو پہچان گئی تھیں اور آب بھی وہ بلکل جم کے اسے دیکھ رہی تھیں 
"کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو اور جلدی کھاؤں پھر کہنا ہے میرا کھانا ٹھنڈا کردیا !"
زاویار نے اپنی بے اختیاری پر جھجھل مٹانے کے لیے اسے ڈپٹتے ہوئے بولا 
مہر آب بھی حیرت سے دیکھا مہر نے بن کباب نیچیے رکھا اور کچھ بھی سوچے بغیر زاویار سے لپٹ کر رو پڑی اور زاویار حیرت سے جم گیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ آسلام آباد 
"یہ لڑکا مہر کے پاس کیا کررہا تھا ۔"
لقمان جب اندر داخل ہوا تو پارسا پر برس پڑا کیونکہ اس نے ابھی مہر اور زاویار کو ایک ساتھ باتیں کرتیں ہوئے دیکھا تھا وہ ریکائشن لیتا لیکن مہر پہلے ہی ان کی خلاف ہوئی وی تھیں وہ نہیں چاہیتے تھیں ان کی بیٹی ان سے بدگمان ہوجائیں 
"لقمان زاوی بہت اچھا بچہ اور مہر کا دوست !!"
"پارسا بیگم کھبی نوکر اور مالک کی دوستی ہوئی ہے جو آب ہوگی !"
ان کے سخت لہجے پر پارسا کو بُرا لگا 
"آپ کی سوچ کتنی چھوٹی ہے ہم مسلمان ہے اور سب مسلمان برابر ہوتیں ہیں ۔"
"پلیز آب آپ لیکچر نہ دینے شروع کردیجیے گا ! آج میں نے اس لڑکے کو بخش دیا لیکن آئندہ اگر میرے سامنے آیا تو میں اس کا حشر کردو گا ۔"
لقمان سخت لہجے میں کہتا ہوا کوٹ اُتار رہا تھا 
"آپ کو اس تیرہ سال کے بچے سے کیا برابلم ہے اس بچارے نے تو آپ کا کچھ نہیں بگاڑا ایسے کیوں کررہے ۔"
پارسا زاویار کے دفاع میں بولی 
"بس ! مجھے کچھ نہیں سُنا مجھے یہ لڑکا آئیندہ میری بیٹی کے سامنے نہ نظر آئے ۔"
"وہ میری بیٹی بھی ہے اور مجھے اس کا خیال ہے اس کی خوشی کی پروا ہے اور اس کی خوشی زاویار میں ہی ہے ۔"
لقمان کو سخت غصہ آیا لیکن تحمل سے بولا 
"بچی ہے اسے تو ہر کوئی اچھا لگ سکتا ہے ہر کسی کو سر پہ سوار کردیں گئیں ۔"
"آپ جو کہہ لیے لیکن میں اسے منع نہیں کرسکتی دونؤن ایک دوسرے کے دوست ہیں آور آپ رہنے دیں آپ کو تو کچھ نہیں کہہ رہا !"
"پارسا!!"
لقمان کی دھاڑ پر پرسا اچھل پڑی 
"میں نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا مہر اس کے پاس مجھے نظر نہ ائے سمجھی !!!"
وہ یہ کہہ کر چل پڑیں جبکہ پرسا کی انکھیں آنسووں سے بھر گئی 
"دارب !"
اس کی زبان سے صرف ایک ہی لفظ نکلا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :انٹائیبز تھیم پارک ،فرانس 
وہ ٹکٹ لیکے اندر داخل ہوئی جب سارے رش پہ کس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر گھمایا مہر ایک دم جاکے اس کے سینے سے لگی دیکھا تو اور کوئی نہیں بلکہ شان مراسی حلانکہ اس نے گانا نہیں گایا تھا لیکن حلیے سے وہ دل میں اسے یہی کہتی تھیں 
"واو کوئی لوگ اس گرین میسکی میں غزب کے لگ رہے ہیں مجھے پتا تھا تم آو گی ۔" 
مہر اس کے حصار سے ہٹی اور اس دیکھا جو ریڈ ٹی شرٹ اور بلیو جینز میں انکھوں پہ گلاسس ٹکائے وہ بھی کسی ہیرو سے کم نہیں لگ رہا تھا البتہ اس کے سر پہ ہیر کیچ کو دیکھیں اس کی ہنسی چھوٹ گئی
"ارئے یہ کہی قیامت کا دن تو نہیں ہے جو مہر لقمان کے چہرے پہ مسکراہٹ ائی اور وہ مجھے دیکھ کر خیر ہم نے آخر کار جادو کردیا ۔"
مہر پاگلوں کی طرح ہنستے ہوئے اپنے بیگ سے لپ سٹک نکالی اور اسے سامنے کی 
"لو یہ بھی لگاوں میں آبھی آیررنگز نکال کردیتی ہوں وہ بھی پہننا دیکھنا کیسے جچوں گئیں قسم سے ہاہاہا ۔"
"ہاہاہا ویری فنی یہ لمبے میری مجبوری ہے خیر مجبوری بھی نہیں مجھ پہ جچتے بھی ہے لیکن اگر تم مجھے بنا دھاڑی اور چھوٹے بالوں میں دیکھوں گی تو نے میرا مزید دیوانہ ہوجانا ہے ۔"
شان اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا 
"اکسکیوزمی !!! دیوانہ خیر ابھی مراسی لگ رہے ہو تو اس وقت چھلا ہوا آلو لگوں گئیں ۔"
شان نے اسے حیرت سے دیکھا پھر بُرا منائے بغیر ہنس پڑا 
"خوب مزاق اُڑانا ہے اُڑا لو ڈیر ہم بُرا نہیں منائیں گئیں ۔"
"مجھے تمھارے بُرا لگنے سے فرق نہیں پڑتا ۔"
"تو یہاں آنے کی وجہ۔"
"مجھے بس رائڈز لینے کا دل کررہا تھا اس لیے اگئیں ورنہ تمھارئے لیے توبہ وہ دن قیامت والے دن بھی نہیں آئے گا ۔"
"کیا الہام ہوگیا ہے تمھیں!!"
"اُف جس مقصد کے لیے بلوایا ہے آب بتا بھی چکوں !!! یا میں آپنا ٹائیم ویسٹ کرنے آئی ہوں !! 
مہر کا صبر آخری حدوں کو چھو رہا تھا 
"اچھا اچھا اوکے آو چلوں ویسے بھی پارک کے سرٹن ٹائمز ہوتیں ہے بند ہوجائیں گے اور میرے دوستیں بد مزہ ہوگئیں ۔"
شان کے کہنے پر اس نے اپنی انکھیں گھمائی 
"اور تمھارے یہ سو کالڈ سٹوپڈ فرینڈز کہاں ہیں ؟"
مہر کی اس بات پہ آب شان کے چہرے پہ سنجیدگی اگئی 
"مہر بہیو یور سلف !"
شان کے سخت لہجے پہ مہر حیران ہوگئی وہ ہر کسی سے توقع رکھ سکتی لیکن آب تک شان سے بلکل بھی نہیں 
ایک لڑکی ان کے سامنے اس نے وائٹ سکرٹ اور بلیو ٹاپ پہنا ہوا تھا بالوں کو اونچا بن بنائے بلیو انکھوں والی وہ کوئی پیاری سی لڑکی تھیں 
"مسڑ شان !"
شان نے مڑ کر اسے دیکھا 
"او جنفیر تم اگئی کدھر ہے میرے دوست ۔"
آب شان کا لہجہ ایک دم بدل چکا تھا اور اس کے چہرے پہ ایک گہری مسکراہٹ اگئی تھیں 
"آپ کا ہی انتظار کررہے تھیں وہ بیٹھے کب سے پوچھ رہے ہیں ہمارے سپر مین کب ائے گئیں ۔"
شان جنفیر کی بات پہ ہنسا مہر نے الجھن امیز نظروں سے دونوں کو دیکھا 
"ان کا سپر مین اگیا ہے آو مائی گولڈی ۔"
اس نے مہر کا ہاتھ پکر لیا جنفیر نے مہر کو دیکھا اور مسکرائی 
"سر شی از یور گرل فرینڈ !"
شان نے ایک دم مہر کو دیکھا اور اسے مسکراتے ہوئے دیکھا اور مہر نے جنفیر کی بات پہ غصے سے اپنا ہاتھ چڑھوایا 
"میں اس کی گرل فرینڈ نہیں ہوں سمجھی ۔"
مہر پھنکاری 
شان نے گہرا سانس لیا اور اس شیرنی کو دیکھا اور ہھر جنفیر کو بولا 
"چلیے آو مہر !!"
وہ چل پڑا اور مہر اِدھر ہی کھڑی رہی شان پھر مڑا 
"مہر !!"
مہر نے اسے دیکھا 
"پلیز ایک دفعہ میرے دوستوں سے مل لو اگر تمھیں کوئی اعتراض ہوا تو پھر واپس چلی جانا ۔"
شان کی بات پہ اس کو ناچارا منا پڑا اور اس کے ساتھ چل پڑی جب اس نے اگئیں جاکے دیکھا ویٹنگ ایڑیا میں کافی سارے بچے وہ بھی بہت سے ڈیزبیل (معذور )بچے ڈیزبیل (معذور )بچے جو شان کو دیکھ کر سپر مین کہتے ہوئے چلائے شان ان کے پاس آیا اور ایک بچی جس ایک ٹانگ نہیں تھیں اس کو اُٹھا لیا اور اس کے گال پہ پیار کیا اور پھر ایک بچے جو ویل چیر پہ بیٹھا ہوا تھا اس کے بال بگاڑتے ہوئے کچھ کہا جو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑا پھر اس نے مڑ کر اسے دیکھا جبکہ مہر ان کافی سارے بچوں کو دیکھ رہی تھیں جو کتنا بے بس اور لاچار تھیں لیکن ان کے چہرے پہ کوئی مایوسی اور پریشانی نہیں تھیں ان کی انکھیں اور چہرے پہ ایک روشنی پھوٹ رہی تھیں ۔"
"سپر مین آپ نے کہا تھا آپ گولڈی سے ملاوائے گئیں ۔"
بل جس نے اتنی موٹی موٹی عینک پہنی ہوئی تھیں اور اس کے ایک بازو نہیں تھیں وہ دوسرے ہاتھ سے شان کی شرٹ ہلاتے ہوئے بولا 
شان نے اس دیکھا اور دوسرے بازو میں اسے اُٹھا لیا اور پیار کیا 
"بل بیٹا وہ سامنے ہے گولڈی !"
سب بچوں نے شان کے اشارہ کرنے پر مہر کو دیکھا مہر نے ان سب کے معصوم چہرے دیکھیں اور اس کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی پھر اس کی نظر شان پڑ پڑی جو اسے اِدھر آنے کا اشارہ کررہا تھا مہر کے قدم اُٹھی اور وہ اس کی طرف بڑھی جبکہ شان کا چہرہ روشن ہوگیا اور سر بچوں کی ایک آواز تھیں 
"سپر مین اور اس کی گولڈی ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :لاہور پاکستان 
"ہائے اللّٰلہ !!!"
پارو نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا کیونکہ میجر صاحب کی سفید شلوار قمیض پہ چائے کے گہرے دبئے لگ چکے تھیں اور میجر شاہ نے پارو کو سخت قسم کا گھورا اور پارو نے اس کی سخت نظروں کو دیکھا تو بولی 
"شاہ جی سچ میں میری کوئی غلطی نہیں ہے آپ میرے پھیچے آئے تھیں ۔"
میجر شاہ کی آبرو کھڑئے ہوگئیں اور پارو نے اس کی نظروں سے بچنے کے لیے کہا
"آبا جی !"
شاہ نے مڑ کر دیکھا تو پارو وہاں سے بھاگنے لگی کے شاہ نے اس کا بازو پکڑ کر آپنے ساتھ اسے لگایا 
"کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ ہر وقت جلدی کس بات کی ہوتی ہے کھبی تو ہر چیز تحمل سے کیا کریں آب دیکھیں نا یہ کیا کردیا کتنا بے عزتی ہوگی ہماری !"
شاہ کی شرارت سے بھری آواز پر پارو کا منہ کھل گیا 
کہاں میجر صاحب کے خطرناک تیور ہوتیں تھیں اور آب 
اس نے سہم کر میجر صاحب کو دیکھا کے کہی وہ طنز تو نہیں کررہے لیکن شاہ کی انکھوں میں شرارت تھیں اور چہرے پہ وہ کھلتی ہوئی مسکراہٹ دیکھ کر پارو کا منہ کھل گیا 
"آپ آپ شاہ جی ہی ہیں ۔"
پارو کی بے تُکی بات پر میجیر شاہ کا قہقہ چھوٹ گیا 
"ہائے کس بے وقوف سے میری شادی ہوگئی ہے لیکن خیر ہے میرے دل کے قریب ہے لیکن اس سے پہلے میرے دل میں کوئی اور بھی ہے جس کے بارے میں تمھیں بتانا چاہتا ہوں ۔"
میجیر شاہ کی بات پہ پارو کو جھٹکا لگا 
"کیا !!!"
"ہاں لیکن آبھی نہیں پارو کیونکہ سر نماز پڑھنے گئیں ہیں آتیں ہوگئیں میں تمھیں رات کو ہی وڈیو کال کرو گا 
آن لائین رہنا اور سنبھل کر کام کیا کرو اور ایک اور ریکویسٹ خدا کا واسطہ ساری رات پاگلوں کی طرح نہ سوچتی رہنا لیکن اتنا ضرور کہوں گا وہ میری زندگی کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنی کے تم ہوں سمجھی !"وہ اس کی پیشانی پہ پیار کر کے چلا گیا جبکہ پارو وہی ساکت رہ گئی 

لوکیشن : ملتان ،پاکستان 
وہ روئی جارہی تھیں جبکہ زاویار بلکل جم کر رہ گیا 
وہ آپنے آپ میں اس سے لگی بڑبڑاتی جارہی تھیں 
"تم کیوں چلیے گئیں کیوں وہاں سے بھاگ گئیں کیوں کیوں !!
زاویار نے نیچے دیکھا جس کے رونے میں مزید شدت اگئی تھیں 
"کیوں رو رہی ہو مہر ۔"
زاویار نے آہستگی سے کہا اور مہر ایک پل کے لیے ٹہر گئی اور پھر جھٹکے سے آلگ ہوئی 
"کیونکہ کیونکہ ! مجھے تم سے نفرت ہے شدید نفرت ۔"
وہ غراتے ہوئے اسے بولی 
زاویار نے بے حد نرمی سے دیکھا 
"تو اس میں رونے والی کون سی بات ہے وہ تو اس میں کوئی شک نہیں ہے تم مجھ سے نفرت کرتی ہوں لیکن نفرت کا اس طرح کا اظہار میں نے پہلی بار دیکھا ہے ۔"
وہ اس کی گیلے گال اور سوجی ہوئی انکھوں کو دیکھتے ہوئے بولا 
مہر کو کوئی جواب نہیں مل پارہا تھا آخر اس سے یہ بے اختیاری کیوں ہوئی اگر ہو بھی گئی تو اسے بتادیں لیکن بتانے سے کیا ہوگا اس سنگدل انسان کا دل تھوڑی پگھل جانا ہے ۔
مہر اُٹھ کر گزرنے لگی کے زاویار نے اس کا بازو کھینچ کر دوبارہ بٹھایا 
"کہاں جارہی ہوں !!"
اس کے سپاٹ لہجے پہ مہر کو مزید رونا اور غصہ آیا 
"میری پھوپھی کے ولیمے میں کیوں چلوں گئیں !!!"
زاویار کو بے حد ہنسی آئی لیکن چہرے پہ سنجیدگی لاتے ہوئے بولا 
"اچھا تمھاری پھوپھو بھی ہیں وہ بھی ملتان میں تو پھر ہم یہاں کیا کررہے ہیں بس میں !چلوں بتاوں آڈریس !"
مہر نے آپنا سر تھام لیا پھر دوبارہ اُٹھنے لگی کے زاویار نے اس کا ہاتھ کھینچ کر دوبارہ اُٹھایا 
"کیا بدتمیزی ہے !"
مہر آب چیخ پڑی 
"بدتمیزی نہیں ڈیر وائف تمھارے سو کالڈ فادر نے مجھے آپ کا رکھ والا بنایا ہے اس لیے اور ویسے بھی صبح کے پانج بجے یہ چلیے گی تو ہم کشمیر جائیں گئیں !"
اس کے کشمیر جانے پر مہر کو جھٹکا لگا 
"کشمیر کیوں ؟"
وہ تیزی سے بولی 
"ویل اس کا جواب میرے پاس نہیں ہے ۔"
زاویار نے سیٹ کے ساتھ ٹیک لگا دیں 
"لیکن میں کشمیر ہرگز نہیں جارہی بہت ہوگیا میری ٹکٹ یہی کہی ملتان کے ایرپورٹ سے کرواو اور میں واپس یہاں سے جانا چاہتی ہوں ۔"
اس کی بات پہ زاویار کا قہقہہ چھوٹ گیا 
"کینن کینن واپس جانا چاہتی ہوں ۔"
محترمہ مہر صاحبہ میرے پاس دس ہزار کی علاوہ ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے چلوں پیسے کو چھوڑوں پاسپورٹ کدھر ہے آپ کا جہاں تک مجھے یاد ہے آپ کا سامان اس ایٹک کے دوران کار میں رہ گیا تھا ۔"
اس کی بات وہ اس پر مکُے برسانے لگی 
"یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے نہ تم مجھے لینے آتے نہ تم میرا ٹیکسی تک پھیچا کرتیں نہ مجھے شاندراہ لیے کر جاتیں نہ ہی وہ اٹیک ہوتا ہے اور نہ ہے میں تمھارے ساتھ اس سٹوپڈ گھر جاتی اور نہ ہی دوبارہ وہاں اٹیک ہوتا آب دیکھنا تمھارے ساتھ ہوں تو مجھ پر لازمی اٹیک ہوگا اس لیے میں جارہی ہو ں ۔"
وہ اس سائڈ پہ کر کے اُٹھ پڑی اور زاویار نے اسے روکا نہیں کیونکہ اسے پتا تھا وہ خود یہاں آجائیں گئی اگر نہ ائی تو !"
اس سوچ پر اس نے کھڑئے ہوتے کھڑکھی کی طرف دیکھا جہاں وہ اتنی ٹھنڈ میں اس کی جیکٹ پہنے اِدھر اُدھر دیکھا رہی تھیں زاویار کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی 
"پاگل ہے یہ لڑکی !"
اس نے کہا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ آسلام آباد 
مہر زاویار کے گھر پہنچی تھیں کے اس نے دیکھا زاویار کی شور کرتیں ہوئی آواز ائی مہر ایک دم ڈر گئی 
"منع کتا سی کے صاحب جی کی دی نے قریب نہ آئی 
لیکن تو سدھرئے تب نا کھوتے دا پُتر !"
"آبا معاف کردیں آبا ا ۔"
"کیوں ماررہے ہیں چھوڑیں اس سے چھوڑیں !!!"
بے بے کی روتی ہی آواز پر مہر اندر تیزی سے بھاگی دیکھا عباس زاویار کو چپلوں سے مار رہا تھا اس نے دیکھا زاویار کا چہرہ کافی حد تک سُرخ ہوچکا تھا اس پر کافی نیشان تھیں جوتے کے مہر کا دل کانپ اُٹھا اتنی سی بات اتنی سی بات پہ کون مارتا ہے ۔
وہ اگئیں بڑھی اور اس نے ان کو دھکا دیا 
"چھوڑیں اسے چھوڑیں کیوں ماررہے ہیں آپ !!!"
عباس اور سب ایک دم جھٹکے سے مڑی مہر عباس کو مُکے ماررہے تھیں 
"آپ اس کے ابو نہیں ہے آبو ایسے ہوتیں ہیں آپ کیوں مار رہے ہیں اسے ۔"
جب وہ پریشان ہوتی تو فرنچ میں بولتی تھیں آبھی بھی ایسا ہی بول رہی تھیں جو کسی کو تو نہیں زاویار کو سمجھ اگئی تھیں 
عباس ایک دم رُک پڑا اور ڈر گیا کیونکہ اگر مہر بی بی رو پڑی تو صاحب جی نے نہیں بخشنا 
بے بے نے جاکے مہر کو اپنے ساتھ لگایا 
"چھوٹی بی بی آپ کیوں رو رہی مار تو زاویار کو پڑرہی تھی۔"
جبکہ زاویار مار وار سب بھول گیا وہ بلکل حیرت سے مہر ک انداز دیکھ رہا تھا مہر نے ایسا کیوں کیا وہ اسے بچانے کیوں ائی وہ اس کے لیے اس کے باپ کو مارنے لگی یہ اچھی نیشانی نہیں تھیں نہیں مہر بچی ہے لیکن اس کی حرکتیں ،زاویار آب جوانی کے دہلیز کے قریب آرہا تھا اور وہ سب سمجھ رہا تھا ظاہر ہے وہ چودہ سال کا تھا اوپر سے بے حد تیز دماغ کا وہ ہر ایک حرکت کو پہچان جاتا تھا وہ مہر کو پہلے دیکھتا رہا پھر وہاں سے تیزی سے بھاگا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : کراچی ،پاکستان 
"ہاہاہا اچھا ویسے حیرت کی بات ہے بلکل بھی اسے حیرانگی نہیں ہوئی ۔"
وہ اس کی بات سُن کر خاصا محفوظ ہوا 
"کہاں اور میں تو ڈر رہا تھا کے کہی وہ مجھے پہچان نہ لیے لیکن شکر ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔"
"ہاں مسڑ آپ کو پھر آفسر کس نے بنایا اس لیے کے آپ لومڑی سے بھی زیادہ چلاک ہیں ۔"
وہ اس کی بات پہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا 
"مزئے کی بات بتاوں وہ بھی یہی سوچتی ہے میرے بارئے میں !"
"اس نے تیرے منہ پہ کہا !"
"نہیں میری حرکتوں پہ اس کی یہی سوچ ہوتی ہے ۔"
"او واو تو میجیر صاحب بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں اسے ۔"
"نہیں لیکن اتنا مشکل نہیں تھا جاننا اسے ,میشن تھا میرا اسے جاننا ،اس کی محبت کو جاننا پر میں محبت کر بیٹھا لیکن وہ چاہتی تو اس کو ہے انکھیں اور زبان تو اس کی نفرت بولتی لیکن میں دلوں کو پڑھ لیتا ہوں وہ سے عشق کرتی ہے مجھ سے نہیں ۔"
"فکر نہ کر یار تو ہر چیز کو ہینڈل کرلینا لیکن ملک زیادہ عزیز ہونا چاہیے یہ کھبی مت بھولنا ۔"
"یا یہ میں کھبی نہیں بھولا گا اپنے ملک کے لیے اپنی محبت کی بھی جان لینے پڑیں میں لو گا آئیل ٹاک ٹو یو لیٹر !"
وہ فون بند کر کے سیٹ سے ٹیک لگا چکا تھا اور سوچ میں پڑ گیا کیا وہ واقی اپنی محبت کو ختم کردیں گا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ ،آسلام آباد 
وہ سکول کے لیے نکلا تھا جب کسی کی آواز پہ مڑا دیکھا وہ مہر ہے وہ اپنا سر جھٹک کر دوبارہ چل پڑا 
"زاوی زاوی رُکوں تو !!"
مہر اس کے پھیچے بھاگی زاویار تیزی سے اگئے چلنے لگا وہ مہر سے دور بھاگنا جانا چاہتا تھا کیونکہ جو کچھ ہورہا ہے بہت غلط ہورہا ہے 
"زاوی پلیز بات تو سُنوں میری !!!" مہر اس کے پاس بھاگتے ہوئے آئی
وہ ایک دم اس کے قریب ائی اور پھر اس کے چہرے کو دیکھا جہاں ابھی تک نیل پڑیں ہوئے تھیں 
"تمھیں ابھی بھی درد ہورہا اور سکول کیوں جارہے ہوں ۔"
زاویار نے بس اس کی طرف دیکھا اور اگئے چل پڑا مہر کو ایک دم جھٹکا لگا 
"زاوی زاوی مجھ سے ناراض ہوں کیا تمھارے ابو نے میرے جانے کے بعد تمھیں پھر مارا !"
آب زاویار کا ضبط جواب دیں گیا 
"آپ کو اس سے کیا کے انھوں نے مجھے مارا ہے کے نہیں مت پڑیں میرے معاملے آپ کی وجہ صرف آپ کی وجہ سے کل میری بے بے کو تھپڑ پڑا مجھے تو روز مار پڑتی اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن میری بے بے کا کیا جو اتنی خدمتوں کے بعد انھیں اتنی بے عزتی سُنے کو ملی اور بے عزتی کس نے کی آپ کے سو کالڈ پیرے نے اس بے عزتی کے بعد آبا نے بے بے کو مارا اور اتنا کے بے بے کل بے ہوش ہوگئی اور یہ سب میری غلطی ہے نہ میں آپ سے دوستی کرتا نہ بے بے کو اتنی زلت اُٹھانی پڑتی ۔"
مہر اس کے سخت لہجے پہ ایک دم شاکڈ ہوگئی 
"زاوی پیرے ایسا کیسے کرسکتے تم سچ کہہ رہے ہو نا ۔"
اس کے ہیزل انکھوں میں عجیب سے معصومیت تھیں جس سے زاویار کو زرا دل نہیں کررہا تھا ڈانٹے کو بھلا مہر کا اس میں کیا قصور لیکن لقمان حمید کے نفرت زدہ لہجے پہ اس کا خون کھول رہا تھا اسے پہلی بار غصہ آیا تھا اور بےحد آیا تھا 
"نہیں میں جھوٹ کہہ رہا ہو پلیز میرا پھیچا چھوڑ دیجیے مجھے سکول کے لیے دیر ہورہی ہے ۔"
وہ اگے چل پڑا 
"زاوی زاوی بات تو سُنو ۔"
لیکن وہ اس کا پھیچا کرتی پر وہ سائیکل پہ بیٹھا تیزی سے چل پڑا اور مہر کی انکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : انٹائیبز تھیم لینڈ پارک 
شان اور مہر ان سب کے لیے ائسکرئیم لینے گئی تھیں مہر نے پوری رائڈز بے حد انجوائی کیے تھیں اسے آج پہلی بار شان کے سنگ بلکل بُرا نہیں لگا بلکہ بہت اچھا لگا ایسا لگا کوئی بے حد اپنا ہے اس کے ساتھ اس کو دیکھ کر اسے زاویار یاد آرہا تھا زاویار جیسی سوچ تھیں شان کی پھر ایک دم اس نے شان کو دیکھا جو آج مہر سے بلکل کم مخاطب ہوا تھا اس کی کنسیٹریشن صرف آج اس کے دوستوں کی طرف تھیں اُنھی پر اس کا دھیان تھا 
"ویسے مجھے نہیں پتا تھا تمھارے اندر humanity ہے ۔"
مہر کے بات پہ شان نے اس کی طرف دیکھا تو ہنس پڑا 
"اچھا چلیے آب جان لیا آپ نے کے ہم انسانیت پہ یقین کرتیں ہیں ۔"
"کہی تم میری وجہ سے تو ایک دن کا ڈرامہ تو نہیں کررہے ۔"
آب شان جو اسے چاہت سے دیکھ رہا تھا اس کے چہرے پہ سنجیدگی اگئی 
"دیکھوں مہر ان معصوم کے شکلوں سے کیا تمھیں لگتا ہے میں ایک دن کا دکھاؤا کررہا ہوں کیا ان کی لہجے میں میری لیے محبت نہیں محسوس کی تم نے جب وہ مجھے دیکھ کر سپُر مین کہتے ہوئے چلائے خیر میں آب تمھیں اس چیز کی اکسپلینشن نہیں دو گا میں تو اپنا یہ والا پارٹ کھبی نہ دکھاتا لیکن سوچا جب تمھیں پروپوز کرنا ہے تو یہ چیز تمھیں پتا ہونی چائیے ۔"
وہ کتنا خوبصورت بولتا تھا مہر نے یہ اعتراف کیا 
"ائیم سوری !"
مہر کی بات اس نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا مہر کو اپنے سوری کہنے پر حیرانگی ہوئئ 
"کیا کہا تم نے !!"
مہر بلکل تیزی سے چلنے لگی 
"کچھ نہیں کہا دیر ہورہی سب انتظار کررہے ہوگئیں ۔"
وہ اپنی بالوں کی لٹوں کو کانوں کے پھیچے کرتی اگئیں بڑھ چکی تھیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : نیو ڈیلی ، انڈیا 
"کیا !! یہ کیا کہہ رہے ہوں !! "
وہ سکائپ پہ اس کی خبر پر چلایا 
"جی اس غدار کا بانجھا زندہ ہے اور تمھارے گاوں میں ہی ہے ۔"
"یہ کیسے ہوسکتا ہے میں نے خود اس گھر میں آگ لگوائی تھیں وہاں ایک زرا نہیں بچا تھا وہ بچہ کیسے بچ سکتا ہے !"
"وہاں ایوڈینس کے مطابق ایک لاش پہ نہیں پائی گئیں بس مالی نقصان ہوا تھا اور تم نے بس آگ لگا کر وہ ان سے چل کر سمجھ گئیں جیت ہماری ! بیٹا اگر اس کو پتا چلا گیا وہ کون ہے اور ہم کون پھر تو بس رام رام ستے ہے ۔"
"نہیں کچھ کرنا پڑیں گا میں اس کو ختم کردو گا ۔"
"نہیں ختم کرنے والی بات نہیں رہی میری پوری بات دھیان سے سُنا جو کہہ رہا ہو وہ کرنا سمجھے ۔"

لوکیشن : ملتان ،پاکستان 
"اُف آب کہاں ڈھونڈوں ٹیکسی اور پھر پیسے کہاں سے دو گی یہ زاویار عباس کو دوبارہ مجھ سے کیوں ملنا تھا ۔"
مہر نے زاویار کی جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس نے چونک کر جیکٹ کو دیکھا جس میں زاویار کی خشبو آرہی تھیں سگیرٹ اور واٹری سمیل مہر کو بے اچھی لگی لیکن پھر سر جھٹکا 
"ظالم آدمی زرا بھی پروا نہیں ہے میری میں اس سڑک پر اکیلی چل رہی ہو پھیچے آجائیں ہونو کیوں آئیے گا اس کی تو جان چھٹ گئی میری سے ۔"
مہر سڑک پہ چل رہی تھیں جب اسے سیٹیوں کی آواز ائی 
اس نے مڑ کر دیکھا دو اوارہ لڑکے اس کے پھیچے آرہے تھیں 
"آرئے یہ خوبصورت سے نازک کلی اکیلی سڑک پہ کیا کررہی ۔"
ایک نے بڑی ہی گندی نظروں سے مہر کو دیکھا 
مہر کو دل کیا چپلے اُٹھا کر ان کے منہ پہ مارے لیکن اگنور کرتی اگئے چل پڑی 
"اُف کیا نخرہ ہے کیا ادا ہے ہم کہی مر ہی نہ جائے ۔"
دوسری کی آواز سُن کر مہر کا خون مزید کھول اُٹھا مہر آب تیزی سے مڑی اور خنخوار نظروں سے انھیں دیکھا دیکھا پھیچا زاویار تھوڑے سے فاصلے پہ کھڑا ہ تماشہ دیکھ رہا تھا ہاں تماشہ کوئی اس کی بیوی کو چھیڑ رہا ہے اور وہ بے غیرتوں کو طرح دیکھ رہا تھا اس بات پہ مہر کا دماغ گھوم اُٹھا ان لڑکوں کو چھور کر دل کیا اسے زاویار کو جوتی مارے لیکن اس سے پہلے ان دونوں کو سبق سکھانا تھا 
اس نے اپنی بازو پھیچی کی اور ان کی طرف ائی اس کی نظر زاویار پر تھیں جو ابھی تک بے شرموں کی طرح کھڑا تھا اس سے اس کے دماغ میم شرارے بھرے جبکہ لڑکے مزید آہے بھر رہے تھیں 
"ہائے آجا آجا میں ہو پیار تیرا ۔۔۔
اگئیں سے وہ اپنی بے ہودگی دکھاتا مہر نے سیدھا اپنی جوتی پیروں سے نکالی اور رکھ کر ایک کے منہ پر ماری کے وہ سیدھا نیچے گرا اگلے کا منہ کھل گیا لیکن وہ جب تک مہر کو دیکھا مہر نے الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کے منہ پر مارا 
"کُتے پیار چاہیے تجھے پیار چاہیے ابھی دیتی ہو میں تم کو اس نے ارد ایک زور دار لات ایک کے پیٹ پی ماری جبکہ دوسری کے منہ پر 
زاویار کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی اس نے دو لات اتنی زور سے دونوں کی گردنوں پہ ماری کے کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کے یہ نازک سی مہر ہے پھر اس نے دیکھا سامنے پتھر کے کچھ ٹکرانے پڑیں تھیں اس نے پھرتی سے اُٹھا کر ایک کے منہ میں ٹھونسے 
"پیار چاہیے !!! یہ لیے ۔"
وہ واقی بہت خطرناک لگ رہی تھی۔ زاویار تو شاکڈ ہوگیا پھر بھاگتے ہوئے آیا 
اس سے پہلے دوسرا اُٹھ کر مہر پر وار کرتا زاویار نے ایک پنج اس کے منہ پہ مارا 
اور مہر نے خنخوار نظروں سے زاویار کو دیکھا اس کو مارنے کے لیے لپکی کے زاویار نے اس کا بازو پکڑا 
"ایزی شیرنی میں ہوں !!"
"جانتی ہو میں تمھیں کمینے انسان آب اکے دکھا رہے ہو اپنی مردانگی !!"
"جب دیکھا ہی آب ہے تو تب ہی دکھاؤں گا لیکن تم نے لڑنے نہیں دیا دیکھا کیسے بچارے لنگڑ کر بھاگے ہے ویسے مجھے نہیں پتا تھا تم تو خاصی خطرناک ہوں ۔"
زاویار کے لہجے میں مضنوعی حیرت تھیں لیکن پہلی بار اس کے چہرے پہ ایک الگ قسم کا غرور تھا ایک خوشی تھیں ایک چمک تھیں
"ہاتھ نہ لگاوں مجھے دور رہوں کچا چبا کر رکھ دو گی ۔"
مہر نے تیزی سے کہتے ہوئے اسے دھکا دیا 
زاویار مسکرایا پھر بولا 
"ہاں میں تو بھول گیا تم تو وہ نن ہوں کنجرنگ والی ۔"
زاویار کے شرارتی لہجے پر اس نے گہرا سانس لیا 
"دیٹس آینف میں واپس جارہی ہوں مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی یہ زندگی کے چار دن میرے لیے ایک قیامت ہے ۔"
"چودہ ایپریل سے زیادہ قیامت دن تو نہیں ہوگا ۔"
زاویار کے سخت الفاظ نے مہر کے قدم ٹہرا دیے 
"وہ رات مہر بھول گئی وہ بارہ بجے کی اندھیری رات ۔"
زاویار نے ناجانے کیوں یہ بات چھیر دیں اور اس کے لہجے میں مہر نے تڑپ محسوس کی اور مہر کو پتا نہیں چلا کے ڈھیر سارے آنسووں اس کے گالوں پہ بہنے لگیں 
"زاویار پلیز !!"
"میں مہر اس دن یہاں سے جانے والا تھا لیکن کسی ایک طاقت نے مجھے روک دیا وہ طاقت تمھاری تھیں لیکن مجھے نہیں پتا تھا یہ طاقت مجھے حیوان بنا دیں گی میں ایک چودہ سال کا لڑکا ایک مرد بن گیا مرد بھی نہیں ایک شیطان !!!! اور ۔۔۔
مہر مڑی اور اس کے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کردیں 
"حیوان تو میرے لیے نہیں تھیں حیوان تم اپنے لیے تھیں 
تم نے آج ٹاپک چھیر کر میرے زخمی وجود کو چھیرا ہے کیوں زاوی آخر کیوں تم نے ایسا کیا کیوں اس دن خاموش رہے کیوں ۔"
زاویار کا چہرہ سفید ہوگیا 
"یہ کیا کہہ رہی ہوں میں خاموش !!"
مہر نے ایک اور تھپڑ مارا 
"سنا چاہوں گئیں میری نفرت کی وجہ میری نفرت کی وجہ تمھاری خاموشی تھیں جب پوری دُنیا تمھیں چور باپ کا بیٹا کہہ رہے تھے تمھارا لب سئی لینا ، میری بکواس کو چُپ چاہ سہنا پھر جب حازق کی ہوس زدہ نظریں اور اس کے بیہودہ آلفاظ وہ بھی میرے لیے تمھارا خاموش رہنا اور سب سے آخری بات اپنی سیلف ریسپیکٹ کھو دینا اور اس پہ بھی خاموش رہنا زاویار تم اس دن اپنا سب کچھ کھو کر بھی گونگے رہے گونگے ائی ہیٹ یو فور دس جب پاپا تمھیں ماررہے تھیں تم کیوں خاموش رہے کیوں زاوی جب تمھیں بے دردی سے زخمی کر کے نکال دیا کیوں خاموش رہے جب بے بے کا اعتماد ٹوٹا تب کیوں خاموش رہے جب دوبارہ میرے پاپا تم سے ملے اور انھوں نے میری لیے تمھیں چُنا تو کیوں خاموش رہے مجھے تمھاری خاموشی سے نفرت تھیں زاویار تمھاری خاموشی سے تم تو برباد ہوئے لیکن میں نے تمھیں کھو دیا !! "
وہ اس کے سینے میں منہ دیے رو پڑی اور زاویار اس انکشاف پر ساکت ہوگیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :شاندراہ اسلام آباد 
مہر جب جب زاویار کے پاس جاتی زاویار اسے اگنور کرتا اور یہ اگنورنس اسے بُری طرح توڑ رہا تھا کہتے ہے اگنورنس ایک زہر کی طرح جو سب کچھ برباد کردیتا ہے محبت ،دوستی اور سب اچھے احساس کو ختم کردیتا ہے اور یہی اگنورنس کررہا تھا اس نے چار مہینے کی دوستی کو بڑی ہی بے دردی سے ختم کیا 
یہ ایک ایسا خطرناک عنصر تھا جو بلاسٹ ہونے پہ سب کچھ ختم کر چکا تھا دوستی ، خوشی ،اعتبار اور محبت اور زاویار کی بے خبری نے مہر کو اندر سے توڑ دیا اس نے آب زاویار سے بدلہ لینے کے لیے اس نے الگ لبادہ اوڑھ لیا جو نفرت کا تھا جو کُدرت تھا ، جس میں کوٹ کوٹ کر انا بھری ہوئے تھیں جو ایک سٹیٹس کنشس ریس باپ کی بیٹی بن گئی جو اسے ہونا چاہیے تھا اس نے ہر ایک سے روڈلی بات کرنا شروع کردیا بے بے جب اسے نظر آتی تو وہاں سے غصہ سے مڑ جاتی 
یا کھبی کھانا نہ ملتا تو ان پر چلانے لگتی یہ چیز اس وقت کسی کے نظر میں نہیں تھیں وہ تو بعد میں جب پارسا کو پتا چلا تو وہ شاکڈ میں چلی گئی 
وہ سیدھا مہر کے کمرئے میں آئی جو بیڈ پہ بیٹھی اپنی سٹوری بُک اُٹھائی تھیں 
"یہ کیا بدتمیزی ہے مہر !!"
پارسا کی بات پہ اس نے سر اُٹھایا اور پھر انھیں دیکھا 
"کیا ہوا میرے !"
"تم نے سب سے بدتمیزی سے بات کرنا شروع کردیں ہے یہ تربیت کی ہے میں نے تمھاری ۔"
"میں نے کوئی بدتمیزی نہیں کی ۔"
پارسا کا مزید دماغ آوٹ ہوگیا 
"آب تم نے جھوٹ بولنا شروع کردیا ہے !"
"میں جھوٹ نہیں بول رہی ہے ۔"
پارسا کو غصہ اگیا اور اس نے مہر کے بازو پکڑا کر اسے جنجھوڑا 
"آئیندہ تم نے آپا یا کسی بھی بندئے سے بدتمیزی سے پیش آئی تو میں بھول جاوں گئی تم میری بیٹی ہو سمجھی !"
جب ایک دل پہلے سے زخمی ہوں تو انسان خاصا سنسیٹو ہوجاتا ہے اور یہی اس وقت مہر تھیں جو ماں کی ہلکی سی جھاڑ پر اسے رونا آیا اور غصہ بھی ماں کے جانے کے بعد اس نے مٹھیاں بھینچی اور بالکنی کی طرف آئی اس نے دیکھا زاویار وہاں کھڑا پودوں کو پانی ڈال رہا تھا اسے مزید غصہ آیا کیونکہ اس کے ساتھ زاویار کے ماموں زاد جوریہ بھی کھڑی تھیں جو زاویار کے ہی جتنی تھی دو دن سے آئی زاویار کی ہی پھیچے پھیچے گھوم رہی تھیں اور مہر کو اپنے دوست چھین جانے پہ مزید غصہ آرہا تھا 
"ہر وقت کام میں لگے رہتے ہوں تم تمھاری مہمان آئی ہے کچھ اسے بھی تو پوچھ لو ۔"
جوریہ ببل گم چابتے ہوئے بولی زاویار نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا 
"کیا پوچھوں میں تم سے جیا !"
زاویار نے ناسمجھی سے اسے دیکھا 
"اُف اللّٰلہ زاوی ! تم کتنے بور جب دیکھوں یا کام میں لگیں رہتے ہوں یا پڑھائی یار میں پہلی بار تمھارے گاوں آئی ہوں زرا سیر تو کروادو پھوپھو نے کہا تھا زاوی لیے جائے گا ۔"
اس کی اونچی جاہلانہ آواز مہر کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں اور مہر کا اسے زاوی کہنے پر دماغ آوٹ اف کنڑول ہوگیا 
"یہ اسے زاوی کیون بلا رہی ہے زاوی صرف میں کہہ سکتی ہوں اور یہ اس سے اتنا ہنس ہنس کر کیوں بات کررہی ہے آبھی بتاتی ہوں اسے زاوی صرف میرا دوست ہے اور کسی کا نہیں ۔"
وہ نیچے گئی اور وہ پایپ کو فولڈ کر رہا تھا وہ اسے زاوی بولنے لگی تھیں لیکن کچھ سوچ کر بولی 
"ائے سنو !!!"
زاویار اور جوریہ مڑئے مہر نے اپنے سینے پہ بازو باندھے تھیں اس کے نو ریسپانس پر مہر نے تیزی سے کہا 
"میں تمھیں بلا رہی ہو بلیک مین !! 
اس کی حقارت زدہ لہجے پہ زاویار کی انکھیں حیرت سے پھٹ گئی کیا یہ مہر ہی تھیں 
"یہ کون تمھیں بدتمیزی سے بلا رہی ہے ۔"
جوریہ نے مہر کو ناگواری سے دیکھا 
"بہرے ہو کیا ؟"
وہ آب انگلش میں چیختے ہوئے بولی 
زاویار کچھ سوچتے ہوئے اس طرف آیا دیکھا سامنے حال میں لقمان حمید کھڑے فون پہ بات کررہے تھیں اس نے جلدی سے رُخ مڑا اور تیزی سے چلنے لگا 
مہر کا منہ کھل گیا پھر اگنورنس !جوریہ اسے دیکھ کر زاویار کے پھیچے گئی اور مہر کے ہونٹ اور ٹھوڑی کانپنے لگے اس کے دل کو کچھ ہورہا تھا چہرہ اس کا پسینے سے بڑھ گیا لقمان حمید آب باہر آچُکے تھیں مہر کو ایسے کھڑئے دیکھ کر چونکے 
"مہر بچے !"
مہر ایک انچ بھی نہیں ہلی لقمان حمید چونک پڑیں وہ چل کر اس کے پاس ائے 
"مہر مائی چائلڈ !"
انہوں نے جھک کر اسے پکڑا انھیں محسوس ہوا مہر کا جسم کافی ٹھنڈا ہے 
"او مائی اِدھر کیا کررہی ہو میری بیٹی کتنی ٹھنڈی ہورہی ہوں !"
مہر کو باپ کے بازو ملتے ہی پھوٹ پھوٹ کر روپڑی !!!
"پیرے پیرے سب گندئے سب گندئے مجھے واپس جانا ہے واپس ۔"
وہ فرنچ میں اپنے باپ سے کہتے ہوئے رو پڑی 
"مہر کیا ہوا ہے کسی نے تمھیں کچھ کہا ہے !"
لقمان نے مہر کی پُشت کو تھپکا اور پریشانی سے بولے 
"مجھے واپس جانا ہے ۔"
مہر بس روتے ہوئے بار بار بولی 
"اچھا میری بیٹی ضرور واپس جائیں گے بس ڈیڈی کا کام ختم ہوجائیں ٹھیک ہے چلوں اندر جاوں ۔"
وہ اس کا چہرہ تھپک کر اُٹھ پڑئے 
جبکہ مہر خود کو اکیلہ محسوس کررہی تھیں آج پیرے نے بھی وہ کمفرٹیبل فیلنگ نہیں دیں جو ایک باپ کو دینی چاہیے تھی آج کے دن سے اسے نفرت ہورہی تھیں سب سے ہورہی تھیں حتاکے اپنے آپ سے بھی نفرت ہورہی تھیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر دوپھر کے قریب گارڈن کی طرف گئی آج اس کا پونی کی پاس جانے کا دل کررہا تھا اس نے سامنے دیکھا وہاں بڑئے سے لان کی طرف زاویار اور جوریہ بیٹھے باتیں کررہے تھیں مہر کا دل چھن سے ٹوٹا وہ بدل جائیں گا اتنی جلدی آخر کیوں کیا جوریہ زیادہ اچھی دوستی ہے اس کی کیا وہ اس کو زیادہ اچھے جوکس سناتی ہے اس کی باتوں میں زیادہ مزا آتا ہے اس کے سنگ کیا اسے اچھا لگتا مہر کی ایک بار پھر ٹھوڑی اور ہونٹ کانپنے لیکن وہ تیزی سے نیچے اُتری وہ اس گھر کی مالکن ہے وہ یہ سب اپنے لان میں برداشت نہیں کریں گی وہ تیزی سے ائی اور ان کی طرف پہنچی 
"بات سُنوں نکلوں یہاں سے ۔"
اس کے لہجہ کانپتا ہوا تھا لیکن اس نے خاصے غصہ میں کہا زاویار نے اسے دیکھا اور پھر جوریہ کا
"میں یہ کریٹ رکھنے آیا ہوں بس دو اور آجائیں پھر چلا جاتا ہون ۔"
زاویار کا اجنبی لہجہ وہ کیوں ایسا کررہا ہے 
"گیٹ اوٹ نکل جاوں یہاں سے کالے کوئے !!!!"
مہر نے اسے دھکا دیا زاویار ایک دم پھیچے ہوا 
"یہ آپ بدتمیزی سے کیوں بات کررہی ہے وہ کہہ رہا نا کام کے بعد وہ چلا جائیں گا ۔"
جوریہ تیزی سے بولی 
"شٹ آپ !!"
مہر نے جوریہ کو دیکھتے ہوئے کہا

مہر نے جوریہ کو دیکھتے ہوئے کہا 
جوریہ کو اس کی بات سمجھ نہیں آئی لیکن زاویار نے ایک دم مہر کو سنجیدگی اور خاصی سرد نظروں سے دیکھا 
"مہر میم آپ نے جو کچھ کہنا ہے مجھے کہے لیکن آپ میری کزن سے بدتمیزی نہیں کرسکتی !"
مہر کے اس رویے پہ ایک دم ساکت ہوگئی 
"زاوی تم میرے دوست ہوں تم اس کے پاس کیا کررہے ہو۔"
بچی تھی کتنی دیر غصہ نکالتی اس لیے اس کے رویے سے ہکلاتے ہوئے بولی 
"میں آپ کا دوست نہیں ہو میم میں آپ کا نوکر ہوں اور آپ میری مالکن اس کے علاوہ میرا آپ سے کوئی رشتہ نہیں ہے چلوں جوریہ !"
وہ مہر کو چھوڑ کر اگئیں چل پڑا اور مہر وہی کھڑی رہی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :کینن فرانس 
وہ دونوں شام کو واک کررہے تھیں شان نے کہا تھا وہ اسے چھوڑ دیں گھر مہر نے کوئی بعث نہیں کی اور اس کے ساتھ چل پڑی پھر اس نے ایک پارک پہ گاڑی روک دیں مہر نے اسے دیکھا تو وہ بولا 
"جب یہ سات دن تم نے میرے نام کیے ہیں تو کچھ تو اپنے آپ کو پرو کرو ۔"
مہر نے اس کی انکھوں میں دیکھا اور اس کی انکھوں میں اُمید دیکھ کر وہ گلٹی محسوس کرنے لگی اس نے سوچ لیا آج وہ شان کو سب بتادیں گی آج بھی وہ اسی نیت سے آئی تھیں وہ پہلے بتادیتی لیکن معصوم بچوں کا دل نہیں توڑنا چاہتی تھی 
"ٹھیک ہے مجھے بھی تم سے کچھ کہنا ہے ۔"
مہر نے اس کی انکھوں میں نہیں دیکھا وہ جانتی تھی وہ اس کے کیفیت سمجھ لے گا 
"اچھا واو ایک دن میں ہی میں نے پورا چارم دیکھا دیا 
یار بچوں سے ملانے کے لیے میرے دماغ میں یہ آئیڈیا پہلے کیوں نہیں آیا کہوں کیا کہنا ہے ۔"
وہ پوری طرف اس کے متوجہ تھا 
"باہر چلے پارک میں ! واک کرلیں گئیں ۔"
"ہمم ناٹ آ بیڈ آئیڈیا چلوں !"
وہ مسکراتے ہوہے باہر نکلا اور تیزی سے مہر کی طرف آکر اس کا دروازہ کھولا مہر نکلی اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگی وہ بہت زیادہ ہی خوش لگ رہا تھا مہر کو گھبڑاہٹ ہونے لگی اگر اس نے کوئی ریکائشن لیے جو بہت زیادہ بُرا ہوا تو 
وہ خود سے سوچتی ہوئی اسے دیکھنے لگی وہ اس کے ساتھ مسکراتے ہوئے چل رہا تھا اب وہ سوچ رہی تھی کے یہ مسکراہٹ ایک دم غائب ہوئے گی کتنا بُرا کریں گی اس کے ساتھ 
"تمھیں پتا ہے آج میں بہت خوش ہو مہر اتنا کے کوئی حد نہیں اتنی خوشی مجھے آج تک نہیں ملی ۔"
اس کے گھمبیر لہجے پہ وہ اسے دیکھنے لگی اگر زاویار اس کے دل میں نہیں ہوتا تو وہ آب تک شان سے محبت کرنے لگ جاتی یا اگر محبت نہ کرتی لیکن شادی ضرور کرلیتی 
"کیا ہوا کچھ کہوں نا جو تمھیں کہنا ہے ۔"
شان اسے کے چُپ چاپ دیکھنے پر خوش گوار لہجے میں بولا 
"میں جو کچھ کہنا چاہتی ہوں اسے بے حد تحمل سے سُنا شان ائی نو مجھے پہلے ہی یہ سب کہہ دینا چاہیے تھا پر خیر آب سُنوں !!۔"
مہر نے اپنے خشک ہنٹوں پہ زبان پھیرا اور اسے دیکھا جو اسی ہی دیکھ رہا تھا 
"میرا گیارہ سال پہلے ایک لڑکے سے نکاح ہوچکا تھا اور یہ نکاح میری میرئے ائی مین میری ماما نے کروایا ۔"
اس نے شان کو دیکھا جہاں کوئی ریکاشن نہیں تھا بلکل سپاٹ تھا اس کا چہرہ 
"مجھے نہیں پتا وہ اس وقت کہاں ہے کدھر کیسا ہے لیکن جو بھی ہے میں اس کے نام سے بندھی ہوئی ہوں اور اس کی ہوں تم میری باتوں پر یقین نہیں کرو گئیں شان لیکن یہ سچ ائیم سوری میں نے تمھیں چیلنج دیا تھا مجھے لگا تم ہار جاوں گئیں اور مجھے آپنا خفیہ نکاح بتانی کی ضرورت نہیں پڑیں گئیں لیکن آج تمھاری انکھوں کو تمھارے جزبے کو اور سب سے بڑی چیز تمھاری انسانیت کو دیکھ کر میں نو ڈاؤٹ ہار رہی تھیں لیکن میں آج بھی زاویار عباس سے محبت کرتی ہوں !"
اس نے بے حد آرام سے اسے اپنی بات کہہ دی اور اس کے جواب کی منتظر تھیں شان تھوڑی دیر تک خاموش رہا پھر ہنستے ہوئے بولا 
"اچھی سٹوری تھیں گولڈی تو کب آرہی ہے کینن فلم فیسٹول پہ یہ فلم !!"
شان نے اپنی دھاڑی پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا مہر نے اسے دیکھا اور پھر بولی 
"یہ مزاق نہیں ہے شان میرا نکاح سچ میں ہوچکا ہے ۔"
شان نے تمسخرا انداز میں اپنا سر جھٹکا 
"پلیز میرے سے جان چھڑانے کے لیے تو ایسے نہیں کہوں مہر اور پلیز یہ گیم تو میرے ساتھ نہیں کھیل سکتی اگر واقی نکاح ہوا ہوتا بے شک خفیہ تو پہلے فہرست میں تم مجھے بل شٹ کہہ کر کہہ دیتی ائیم میرڈ آور اب جب میں اپنی منزل کے قریب ہوں تو تم نے ایک دم سے فیک سٹوری بنا دیں پلیز اگر یہی تمھارا پلان ہے تو اس میں کھبی کامیاب نہیں ہو گی ۔"
شان کی بات پہ اسے غصہ چڑھا 
"میرا نکاح ہوچکا ہے گیارہ سال پہلے اور میں زاویار کی منکوحہ ہوں سمجھے اس لیے میرا پھیچا اب تم چھوڑ دو اسی میں تمھاری بہتری ہے !"
مہر کی تیز آواز پہ اس نے اپنے سینے پہ ہاتھ باندھے 
"میں ثبوت کے بنا کسی بات پہ یقین نہیں کرو گا مہر !یہ تمھاری بھول ہے کے تم مجھے کہوں گی کے میرا نکاح ہوا تو میں مان جاوں گا جب تک نکاح نامہ میرے سامنے نہیں آجاتا میں بلکل بھی تمھارا پھیچا چھوڑوں گا ۔"
شان کی بات پہ وہ ایک دم کے لیے چُپ ہوگئی پھر اس نے سر اُٹھایا 
"ٹھیک ہے میرے گھر چلوں وہاں پر میں تمھیں دکھاتی ہوہی اگر نکاح نامہ تمھارے سامنے آگیا آج کے بعد سے تم اپنی شکل نہیں دکھاؤں گئیں ۔"
مہر نے انگلی اُٹھاتے ہوئے کہا 
"ڈن پھر میں اپنی شکل بھی تمھیں نہیں دکھاؤں گا !!"
شان کے مضبوط لہجے پہ وہ مڑ کر کار کی طرف بڑھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ آسلام آباد 
لقمان حمید کی مرسیڈیز کے ساتھ پھیچے ایک کالی بڑی جیپ حمید پیلس کے اندر داخل ہوئی 
مرسیڈیز میں لقمان حمید اور ان کے دوست عاطف خام جبکہ جیپ میں ان کا بیس سالا بیٹا حازق خان نکلا 
"واو حمید ائیم امپریس یہ فارم ہاوس تم نے کس آرکیٹیکٹ سے بنوایا ۔"
وہ لقمان حمید کے ساتھ چلتے ہوئے بولے 
"سب پارسا نے کیا تمھیں تو پتا ہے پارسا نے انٹریر ڈیزانگ کی ہوئی ہے اس نے اور اس کے دو فرینڈز مل کر سارا اس گھر کا نقشا بدلہ ۔"
وہ اپنی باتوں باتوں میں گھر کے اندر گھس گئیں جبکہ حازق خان اندر جانے کے بجائے لان پہ چلا گیا وہ اس خوبصورت فرنچ ڈیزان کردہ لان کا جائزہ لے رہا تھا جب اس کی نظر مہر پر پڑی ۔
مہر گرین فراک بالوں کو بن بنائے گھنٹے کے بل بیٹھی ہاتھوں میں گلوز پہنے وہ سیڈ کو پلانٹ کررہی تھیں 
حازق کی نظر اس پر پڑی اور وہ اس کا جائزہ لینے لگا 
اس کا جائزہ بلکل بھی عام سا نہیں تھا اس نے اس کے دس سال ہونے کا بھی لحاظ نہیں کیا تھا 
وہ اس کی بے انتہا گوری بازوں کو دیکھا رہا تھا جہاں کہی کہی مٹی بھی لگی ہوئی تھیں وہ اس کی گردن کو دیکھ رہا تھا جہاں ہلکہ ہلکہ سی مٹی کے ساتھ پسینے تھا پھر اس نے مہر کے خوبصورت چہرے کو دیکھا جو لب بھینچے بے حد معصوم انداز میں اپنے کام پہ فوکس تھیں 
"مائی مائی واٹ آ بیوٹی !!!!"
اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا اور مزید تھوڑا سا گھور کر وہ اندر چلا گیا جبکہ مہر بے چاری کو پتا نہیں تھا کے کوئی اسے اپنی شکاری انکھوں سے نشانہ بنا چکا تھا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : کینن فرانس 
وہ دونوں اس کے گھر کے اندر داخل ہوئے ، شان اور مہر کے چہرے پہ سختی چھائی ہوئی تھیں لیکن دل تیزی سے دھڑک رہے تھیں مہر نے اپنے بیگ سے چابی نکالی اور اپنی لابی کا دروازہ کھولا 
"تمھارے پاپا گھر پہ نہیں ہوتیں !"
شان کی اچانک کہنے پہ مہر نے اسے دیکھا 
"کیوں پوچھ رہے ہوں !"
شان نے اسے دیکھا اور کندھے اچکائے 
"پتا نہیں میں نے غور کیا وہ گھر میں کم پائے جاتیں ہیں !"
"کام ہوتا ہے ان کو ویسے بھی پیرس گئے ہوئے ہیں ۔"
"اچھا !!!"
شان نے خاصے زور دیتے ہوئے کہا 
"کیوں تمھیں کوئی مسئلہ ہے ۔"
مہر نے اس کے زور سے کہنے پہ کہا 
"نہیں مجھے کیا ہونا میں زرا فادر ان لا سے ملنا چاہتا تھا ۔"
مہر نے اس ڈھیٹ انسان کو دیکھا 
"وہ تمھارے فادر ان لا نہیں ہے ۔"
"تو کیا اس جاہل زاویار کے ہیں !"
شان نے چڑ کر کہا مہر کا منہ کھل گیا اور پھر اس دھکا دیتے ہوئے بولی 
"ہاو ڈیر یو کالڈ ہم جاہل خبرادر تم نے زاوی کو کچھ کہا تمھاری میں یہ دھاڑی نوچ کر رکھ دو گی زاوی دُنیا کا جنٹیل مین انسان ہے تمھاری طرح چیپ دو نمبر بلکہ دو نمبر بھی نہیں تین نمبر عاشق نہیں ہے ۔"
شان نے اسے دیکھا اور پھر بولا 
"بہت محبت ہے تمھیں اسے ۔"
مہر کے چہرے پہ ایک تلخ مسکراہٹ اگئی 
"محبت نہیں عشق مجھے زاوی سے عشق ہے ۔"
شان نے اپنے لب بھینچ لیے 
"رائٹ خیر نکاح نامہ دکھانا پسند فرمائی گی آپ !"
اس کی بات پہ وہ اپنا سر جھٹکتے ہوئی اوپر گئی 
وہ بھی اس کے پھیچے آیا اس نے چابی جو پکڑی ہوئی تھیں اس سے دروازہ کھولنے لگی 
"ایسی کیا بات ہے جو تم نے اپنا دروازہ بھی لاکڈ کیا ہوا ہے ۔"
شان کی بات پہ وہ ایک دم ٹہر گئی 
"سکیورٹی ریزن !"
"او اچھا سکیورٹی سامنے اتنے کیمرے لگیں ہوئے ہیں 
گارڈز ہر جگہ پھیر رہے ہیں باقی بھی کمرئے کھلے ہوئے ہیں تم نے آپنا لاکڈ کیا ہوا ہے خیر تو ہے نا !"
مہر اس کے بات پہ مڑی 
"تم کیا ڈیٹیکٹیو ہو !"
"نہیں !"
"تو ایسے سوال پوچھنا بند کرو!"
وہ دروازہ کھول چکی تھیں اور اندر آئی اس نے آپنا بیگ بیڈ پہ پھینکا تو آب ڈریسنگ روم کا دروازہ کھولنے لگی 
"تم نے کیا سو دوسو کڑور کے ہیرے رکھے ہیں اتنی سکیورٹی !"
"تم نا نکل ہی جاوں میرے گھر سے ۔"
"نکاح نامہ !"
"یو ۔۔۔۔۔۔"
مہر نے مٹھیاں بھینچ لی اور دروازہ کھولا وہ اندر داخل ہوئی شان بھی آنے لگا تو وہ مڑ کر بولی 
"تم باہر ہی رہوں !"
"کیوں مطلب واقی ایسا کچھ ہے جو تم کسی کو بھی دکھانا نہیں چاہتی !"
"ہاں نہیں دکھانا چاہتی باہر نکلوں ۔"
شان نے اپنے ہاتھ اُٹھا لیے 
"ایزی گولڈی ٹھیک ہے !"
وہ ہنستے ہوئے اس کے بیڈ پہ بیٹھ گیا 
مہر نے اپنا ٹریشر باکس نکلا اور اسے گھسیٹا لاک کو اس نے دیکھا اور اس نے مڑ کر لاکڈ الماری کو کھولا اور دراز سے ایک چابی نکالی اور مڑ کر جھکی اور تالے سے کھولنے لگی 
اس نے کھولا اور اس میں سے پیپرز چیک کرنے لگی دیکھا وہاں نہیں تھیں مہر کو جھٹکا لگا 
"پیپرز کہاں ہے !"
مہر کی دل کے دھڑکنے تیز ہوگئ اس نے پاگلوں کی طرح ڈھونڈنا شروع کردیا 
اس نے تقریبا سارا دیکھ لیا سب کچھ تھا اس میں بس ایک پیپرز نہیں تھیں مہر نے اپنا منہ پہ ہاتھ رکھا 
"او میرے اللّٰلہ پیپرز کہاں ہے !

یا اللّٰلہ کدھر ہے پیپرز !"
"گولڈی پیپرز لینے گئی ہوں یا بنوانے !!!"
شان کی آواز میں وہ پریشانی سے اُٹھ کر اپنے الماری میں چیک کرنے لگی 
وہاں بھی نہیں تھیں اس نے سارے کپڑے نکالنے شروع کردیں دراز کھول ڈالے لیکن پیپرز کہی بھی نہیں تھے 
"کدھر گئیں میں نے تو چار دن پہلے چیک کیا تھا پیپرز باکس میں ہی تھے صیح طریقے سے میں نے فائل میں ڈالے تھیں ۔"
وہ اپنے آپ میں گم تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز ائی 
"او یہ اتنا پھیلاؤا کیا اپنے نکاح نامے کو صیح طریقے سے نہیں سنبھالا تھا ۔"
"میں نے اِدھر ہی رکھا تھا کدھر گیا وہ ۔"
شان نے الماری کے ساتھ ٹیک لگا لی اور اسے دلچسپی 
سے دیکھا 
"یار ڈیر آب ڈرامے بند کرو ! چلوں باہر آو ۔"
شان نے اس کا ہاتھ پکڑا 
مہر نے اپنا ہاتھ جھٹکا 
"میرے پیپرز یہی تھیں اور میرا نکاح زاوی سے ہوچکا ہے سمجھے !"
اس کے کہنے پر شان نے اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لگایا 
"بس یہ مزاق میں بات اچھی لگتی ہے مہر اگر تم کسی کی بیوی بنو گی تو صرف میری زاویار کی سٹوری ایک حد تک اچھی لگی مجھے لیکن آئیندہ تمھارے منہ سے میں اس کا نام نہ سنو سمجھی !"
شان کے لہجے میں ایک عجیب سی پوزیسونس اس نے محسوس کی اس نے اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کی لیکن شان کی گرفت مضبوط ہوتی گئی 
"چھوڑوں مجھے !!!"
شان نے مسکراتے ہوئے جھکتے ہوئے اس کی ہیزل انکھوں میں دیکھا
"پہلے مجھے ائی لو یو تو کہوں گولڈی کب سے ترس گیا ہو یار !!"
مہر اس سے پہلے اس کی دھاڑی کو نوچتی شان اس کے دونوں ہاتھ پھیچے لیکر گیا 
"میں نہیں بولوں گی تمھیں چھوڑ دو شان مجھے ۔"
مہر تیزی سے بولی شان مزید جکھا 
"تو یہ سب جھوٹ تھا ہے نا میرے سے دور کرنے کے لیے یہ ڈرامہ تھا ۔"
مہر نے منہ دوسری طرف کر لیا اسے گھٹن سی محسوس ہورہی تھیں 
"نہیں یہ سچ ہے اور یہ میرا آللَٰلہ اور اس کا رُسول گواہ ہے میں زاویار عباس کی بیوی ہوں !!"
شان نے اس کو الماری کے ساتھ لگایا 
"زاویار اچھا چلوں نکاح نامہ نہیں مل رہا تصویریں تو ہوں گی اس کی میں بھی تو دیکھوں وہ دیکھنے میں کیسا ہے جو تم مجھ جیسے بندئے کو ریجیکٹ کررہی ہوں !!"
وہ غرایا مہر نے پہلی بار اسے اتنے غصے میں دیکھا 
"دیکھاتئ ہو میں تمھیں ۔"
وہ اسے دھکا دیتی ہوئی ٹریشر باکس کی طرف جھکی اور اس نے ایک تصویر نکالی یہ وہ والی تصویر تھیں میرے کی برتھ ڈے والے دن اس میں مہر تھی ، زاویار ، میرے اور بے بے سب مسکرا رہے تھے اور سب بے حد خوش لگ رہے تھیں اس کے پاس بہت سی تصوریں تھیں لیکن وہ شان کو نہیں دیکھانا چاہتی تھیں اس نے شان کو دیکھایا شان جو اسے گھور رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے لی اور دھیان سے اس نے تصویر میں دیکھا اور اس نے ابرو اُٹھائے پھر اس نے ہنسنا شروع کردیا وہ ہنسا نہیں تھا بلکہ اس نے بلند و بانگ قہقہے لگائے تھیں 
"او تو تمھیں اسے کالے سے محبت ہے او ہو اف اللّٰلہ !!!
ہاہاہا ۔"
مہر سے زاویار کی خلاف بات برداشت نہ ہوسکی اس نے ایک تھپڑ شان کے منہ پہ جھاڑ دیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوکیشن : شاندراہ آسلام آباد 
مہر ناشتے کے لیے نیچے ائے تھیں تو سب ڈائینگ ٹیبل پہ بیٹھے تھے وہ اتنے لوگوں کے سامنے نہیں بیٹھ کے کھا سکتی تھیں اس لیے مڑنے لگی جب لقمان حمید نے اسے آواز دیں 
"مہر ڈیر کہاں جارہی ہوں اِدھر آو ہم سب کے ساتھ بیٹھ کے ناشتہ کرو ۔"
لقمان کی بات پہ حازق کی نظر اس پہ پڑی جس نے وائٹ سلولیس ٹاپ اور بلیو جینز پہنی ہوئی تھیں حازق کی ہوس زدہ نظریں اس کی جسم کا جائزہ لیے رہی تھی ،پارسا اس کی شائینس کو سمجھ سکتی تھی تو بولی 
"جانے دیں اسے ،جاوں مہر جانو آپ کا ناشتہ آوپر آجائیں گا ۔"
مہر نے سر ہلایا اور اوپر کی طرف بڑھنے لگی کے لقمان کی آواز نے دوبارہ اس کے قدم روکے 
"نہیں مہمان آئے ہیں اچھا نہیں لگتا آو مہر بیٹا اِدھر بیٹھوں ۔"
انھوں نے حازق کے ساتھ خالی سیٹ کی طرف اشارہ کیا حازق کے ان کے کہنے پر بڑی گہری مسکراہٹ اگئی تھیں 
مہر جھجھکتے ہوئے اکر بیٹھ گئی 
"مہر انکل سے تو تم کل مل چکی ہو یہ ان کا بیٹا ہے حازق ابھی ابھی ائیر فورس میں گیا ہو ائینڈ تمھیں بھی شوق تھا نا فلائی کرنے کا حازق بیٹا میری بیٹی پائلٹ بنا چاہتی ہے ۔"
لقمان حمید کی بات پہ حازق نے اسے دیکھا اور ہاتھ اگئے کیا 
"ہائے ! ویسے آب اتنی چھوٹی سے ابھی سے اتنے بڑے خواب خیر ائی لائک اٹ ۔"
مہر نے ناگواری سے اسے دیکھا پھر لقمان حمید کو دیکھا جو اسے اشارہ کررہے تھے کے بُرا لگتا ہے اس نے ہاتھ اگئے کیا اور ملایا حازق نے اس کی ہاتھوں کی نرمی کو محسوس کیا اور پکڑ کر انھیں سہلانے لگا تھا کے مہر نے ہاتھ ایک دم پھیچے کیے اور پھر اس نے ایک بریڈ لی پھر اس نے جیم کی طرف دیکھا تھوڑا سا اُٹھی کی اس کی شرٹ تھوڑی سے اوپر ہوگئی حازق نے دیکھا اور دل شکن انداز میں مسکراتے ہوئے اس نے بریڈ سے بائٹ لی 
اور بڑے ہی دھڑلے سے سب کے سامنے اسے گندی نظروں سے دیکھ رہا تھا

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page