top of page

میرا رکھوالا - مصنفہ: ثمرین شاہ

قسط نمبر پانچ

زاویار پُتر تو بات تے کرا کر مہر نال کنی اکیلی ہوگئی ہے ۔"
بے بے جب اس کی آرہئ مالش کررہی تھیں تب بولی 
"بے بے میرا دل کرتا ہے مجھے خود اچھا نہیں لگتا لیکن اس کے باپ نے کتنی بدتمیزی کی آپ سے اور اس نے وارنگ دیں ہے اگر میں مہر کے قریب آئی تو وہ آپ کا حشر کردیں گا مجھے اپنی مار پڑنے سے بلکل ڈر نہیں لگتا مجھے بس آپ کی عزت کی پڑوا ہے جانتی ہو پُتر پر مجھے بو ڈر لگ رہا ہے ۔"
بے بے کی بات پہ وہ مڑا بے بے اسے دیکھنے لگی اس کے مسلسل کام کرنے پہ موٹاپے پہ کافی کمی اگئی تھی اس کی رنگت پہ گہرے سانولے پن سے ٹھیک ہورہی تھی اور جوانی کی قریب اس کے نقش پہ بھلے ہوتے جارہے تھے جب یہ پیدا ہوا تھا تو بے حد خوبصورت تھا 
گوری گوری رنگت خوبصورت نقش کا حامل بس جب سے یہ دو مہینے میں بیمار ہوا تب سے اس کا چہرہ عجیب ہوگیا تھا تھا اور آبھی تک اس کی رنگت ٹھیک نہیں ہوئی تھیں 
"کیوں بے بے کیوں ڈر لگتا ہے ۔"
"پتا نہیں ایک دل میں ڈر سا اگیا جیسے بہت کچھ غلط ہونے والا ہے جیسے ہم تباہ اور برباد ہوجائیں گئیں ۔"
"اللّٰلہ نہ کریں کیسی باتیں کررہی آپ بے بے ۔"
زاویار نے ان کا ہاتھ تھام لیا بے بے نے ہنس کر اس کا چہرہ تھپ تھپایا 
"چل میں بھی کیا بولنے بیٹھ گئی کھانا کھائے گا ۔"
"بے بے کچھ ہوا ہے ! "
زاویار نے زور دیتے ہوئے کہا 
"کچھ نہیں ہوا !"
ایک دم دروازے پہ دستک ہوئی 
"جا تیرا پیو ہوگا ۔"
بے بے کے کہنے پڑ وہ اُٹھا اور دروازہ کھولا دیکھا تو فرحت کھڑی تھیں 
"فرحت خالا خیر تو ہے نا !"
زاویار نے رات کے نو بجے کے وقت ان کو اچانک آنے پہ پوچھا 
"زاویار پُتر کدھر ہے تیری ماں جلدی آ لقمان صاحب نے بلایا ہے ۔"
"کیوں ؟"
زاویار ناگواری سے بولا 
"تیرے باپ نے کام ہی ایسا کیا ہے اری او آپا کدھر ہے دیکھ تیرے میے نے کی کتھا ۔"
بے بے جلدی بھاگتے ہوئے آئی 
"کی ہوا فرحت کیوں چلا رہی ہے ۔"
"چل لقمان صاحب نے بلایا ہے تجھے ۔"
"کیوں خیر تے ہے نا ۔"
بے بے نے سر پہ ڈوپٹہ اوڑھا 
"تیرا میاں اس دی مرسیڈیز بھاگا کے لیے گیا ہے اور کہی غائب ہوگیا ہے ۔"
فرحت کی بات پہ انھیں گہرا جھٹکا لگا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوکیشن : گلگت بلتستان ، پاکستان 
وہ سوئی وی تھی جب اسے کسی نے جنجھوڑا 
اس نے کلسمندی سے سر اُٹھایا دیکھا زاوی جکھے اسے اُٹھا رہا تھا 
"ناشتہ آگیا ہے کر لو ۔"
اس دن سے اس کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی زاویار سے اور آج زاویار نے ہی پہل کی تھی دونوں سفر میں بلکل خاموش تھے کیا کہتے کہنے کو رہ کیا گیا تھا 
مہر کا آج سر بہت دُکھ رہا تھا وہ اُٹھ کر اپنا سر تھام چکی تھی 
زاوی نے ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور اسے دیکھا 
"کیا ہوا ؟"
مہر نے کوئی جواب نہیں دیا 
"مہر ٹھیک تو ہوں !"
مہر نے سر اُٹھایا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا وہ دونوں اس وقت زاویار کے دوست کے گھر تھے چھوٹا سا خوبصورت سا کاٹج میں سامان کھانے پینے کی چیزیں موجود تھی مہر نے نہیں پوچھا تھا وہ کہاں ہے کس کا گھر وہ بس چُپ چاپ پہنچ کر بس بستر ملتے ہی گر پڑی اور نیند کی وادیوں میں چلی گئی تھی 
"ہاں ٹھیک ہوں ویسے ہم کہاں ہے ؟"
وہ بے حد نارمل لہجے میں بولی 
"گلگت !"
وہ آب چائے کا کپ اُٹھا چکا تھا 
"وہ مجھے پتا ہے یہ کس کا کاٹج ہے ۔"
وہ اپنے بالوں کو جوڑے میں لپیٹ رہی تھی کمرئے میں ہیٹر لگا ہوا تھا اس لیے سردی اسے محسوس نہیں ہوئی 
"میرے دوست کا ہے !"
متضر سا جواب 
"ائی سی اچھا ہے کافی !"
وہ کہتے ہوئے اس کے پاس آئی اور اس نے ٹرے میں دیکھا جہاں چائے کا کپ جیم ، بٹر اور صرف چار بریڈ تھی 
"انسان پہلے ہاتھ دھو لیتا ہے ۔"
زاویار کے کہنے پر اس نے سر اُٹھایا وہ اسے نہیں دیکھ رہا تھا بس چائے کا ہلکے ہلکے گھونٹ لیے رہا تھا 
مہر بھی بنا کوئی بعث کیے اُٹھ پڑی اور ایک دروازہ تھا شاہد واش روم وہ اس کی طرف بڑھی وہ اندر آئی اور اس نے نل کھولا پانی کو چیک کیا شکر تھا گرم ہے 
اس نے ہاتھ ہینڈواش سے دھوئے اور اپنا چہرہ دیکھا 
الجھے بال چہرے پہ جگہ جگہ مٹی گرد ،زخم کے ہلکے نیشان اور عجیب سی زردی اس کا تو حلیہ بگڑا تھا اور زاویار تو بلکل فریش لگا رہا تھا نہایا دھویا آب اس نے بلیو جینز کے اوپر گرین جمبر پہنا ہوا تھا سامان تو اس کے پاس نہیں تھا یہ ویسے کس گھر ہے !"
وہ سوچ میں تھی جب زاویار کی آواز گونجی 
"چائے ٹھنڈی ہورہی ہے !!"
زاویار کے کہنے پر اس نے منہ پہ چھینٹے مارے اور ٹاول اُٹھا کر باہر آئی 
اس نے دیکھا وہ ناشتہ کر چکا تھا 
"تم یہ کرلو میں زرا جارہا ہوں ۔"
"کہاں اور یہ کس کا گھر ہے ۔"
مہر بے حد نارمل تھی اور اس سے ایسے بولی جیسے ان دونوں کی درمیان کھبی جھگڑا نہیں ہوا
اسے محسوس نہیں ہوا یہ سوال وہ پہلے بھی پوچھ چکی ہے 
"آتا ہوں میں اور یہ میرے دوست کا گھر ہے یہاں ہرچیز اویلیبل ہے کوئی مسئلہ ہوں تو یہ سامنے فون پڑا ہے مجھے کال کرلینا ۔"
وہ اشارہ کرتے ہوئے مڑنے لگا 
"ام زاوی !"
اس نے جلدی سے کہا اور پھر لب بھینچ لیے زاویار مڑا اور ابرو اُٹھائے جیسے پوچھنا چارہا ہوں 
"کیا ؟"
"وہ کپڑے ! "
اس نے اپنے میلے سے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا 
زاویار نے گہرا سانس لیتے ہوئے الماری کی طرف بڑھا اور اس میں سے لانگ سویٹر اور ایک sweat pant
نکالی اور اس کی طرف بڑھائی 
"یہ لو !!"
وہ ایسے دیں رہا تھا جیسے اس کا گھر ہوں اور اس کی چیزیں مہر کو عجیب لگا 
"یہ تمھارے دوست کا ہے !"
مہر جھجکتے ہوئے بولی 
"رکھ لو وہ آسٹریلیا گیا ہوا میں کھبی کھبار اس کے یہاں آتا تھا اس کی چیزیں استعمال کرتا تھا تم نے پہن لیا تو کیا ہوگیا میں آبھی جاوں گا تمھارے لیے کچھ لیے او گا ۔"
مہر نے اس سے لے لی 
"تھینک یو !"
"ناشتہ کرلو چائے تو ٹھنڈی کر لی نیچے جاکے بنا لینا کافی کا سامان بھی موجود ہے !"
وہ کہہ کر چل پڑا 
اس نے بروان لیدر جیکٹ اٹھائی اور پہننے لگا اور جیپ جی چابی اور وائلٹ اُٹھایا وہ تو سب ایسے کررہا تھا جیسے یہ اس کا گھر ہے اور اس کی چیزیں ہے ۔
مہر اسے دیکھ رہی تھی اور پھر بھوک محسوس ہونے پر وہ اکے ناشتہ کے لیے بیٹھ گئی چائے واقی ٹھنڈی ہوگئی تھی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : کینن ، فرانس 
شان کو جھٹکا لگا 
"ہاو ڈیر یو تم کیسے اس پہ ہنس سکتے ہوں ، یہ دُنیا کا سب سے خوبصورت ترین شخص ہے ہر انسان سے بہتر ہے تم دفع ہوجاو یہاں سے جسٹ گیٹ لاسٹ ۔"وہ اس سے تصویریں چھین کر اسے دھکا دیں کر نکالنے لگی 
اس کی انکھوں میں آنسو اگئے شان نے اگئے بڑھ کر اس کا چہرہ تھاما
"تم واقی اس انسان سے بے انتہا محبت کرتی ہوں !"
مہر نے اس کے ہاتھ کو ہٹایا 
"مت ہاتھ لگاو مجھے میں اس کے ساتھ بے وفائی نہیں کرسکتی ۔"
وہ چیخی شان نے سر پہ ہاتھ پھیرا 
"وہ تمھیں کھبی نہیں ملنے والا اور تم اس کے لیے بیٹھی رہوں گی ۔"
وہ اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا 
"ہاں نہ ملے مجھے میں ساری زندگی اس کے نام سے جی لو گی !!"
مہر کی انکھوں میں نمی اگئی 
"بس بھی کرو ڈرامے مہر مجھ سے تم جان نہیں چھڑا سکتی سمجھی اور یہ تھپڑ یہ تھپڑ تم یہ تھپڑ مار کر مجھے غصہ نہیں دلا سکتی تم کچھ بھی کر کے مجھے غصہ نہیں دلا سکتی ہاں اگر کوئی شخص تمھارے زرا بھی قریب آیا اس میں زندہ گار دو گا !"
شان کے سرد لہجے پہ وہ ایک پل کے لیے ٹہر گئی لیکن سر جھٹکتے ہویے بولی 
"چلے جاوں یہاں سے !"
مہر نے اسے نہیں دیکھا 
"جارہا ہوں لیکن جب تک نکاح نامہ میرے سامنے نہیں آجاتا میں تمھارا پھیچا نہیں چھوروں گا ۔"
وہ انگلی سے اس کے گال کو ہولے سے چھوتا چلا گیا 
مہر نے اپنا سر تھام لیا 
"اُف اُف یا اللّٰلہ کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں !"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ اسلام آباد 
زاویار اور بے بے تو جیسے ساکت ہوگئے 
"یہ کی کہہ رہی تو عباس ایسا کی کرسکتا ہے !"
سب سے پہلے آواز بے بے کی ائی 
"جلدی چل بعد میں بتادینا لقمان صاحب سخت غصے میں ہے ۔"
"بے اگئے بڑھنے لگی جب زاویار نے ان کا ہاتھ پکڑا 
"بے بے آپ اِدھر ہی رہے !"
زاویار سنجیدگی سے بولا 
"یہ کیا کہہ رہا ہے لقمان صاحب نے بلایا ہے !"
"میں نے کہا نا بے بے آپ اِدھر ہے رہے میں جارہا ہوں ۔"
آب زاویار کا لہجہ سخت تھا
"زاویار دماغ خراب ہوگیا تیرا ۔"
"بے بے جو کہہ رہا ہو نا وہ سُنے میں جاتا ہوں ۔"
"چُپ کر اور چل فرحت !"
زاویار نے جان لگا کر ان کا بازو کھینچا اور باہر نکل کر دروازہ لاکڈ کرنے لگا 
فرحت اور بے بے کو جھٹکا لگا 
"زاویار ائے کی کررہا تھا زاویار پُتر کھول دروازہ زاوی کھول ۔"
زاوی نے تیزی سے لاکڈ کیا اور پھر فرحت خلا کو دیکھا 
"چلیے خالا۔"
"ائے کی کٹھا تو !"
"میں نے کہا نا چلیے !"
زاویار کی لہجہ بلکل بدلہ ہوا تھا اسے پتا تھا اس کے ساتھ اگئے کیا ہونے والا تھا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : گلگت ، بلتستان 
وہ نیچے ائی چھوٹے سے لاونج کے ساتھ اوپن فارم سٹائل کچن تھا اس نے بڑھ کر فریج کھولا اور اسے حیرانگی ہوئی ہر چیز بھری ہوئ تھی
"لگتا ہے یہ کاٹج ڈیلی بیسس پہ استعمال ہوتا ہے ۔"
وہ اپنے بالوں کو پھیچے کرتی ہوئی دودھ کا ڈبہ نکالا اور کاونٹر پہ رکھا اس نے پھر دیکھا کافی میکر پہلے سے پڑا ہوا تھا 
اس نے کافی کو پلگ کے ساتھ لگایا 
اور اس میں دودھ ڈالا پھر نیسکفیے تلاش کرنے لگی جب اس کی نظر سامنے سوسیس کے ساتھ نظر ائی مہر نے اٹھایا 
اور اس میں کافی بنانے لگی جب تک کافی بن رہی تھی اس نے گھر جا جائزہ لیا بے حد خوبصورت کاٹج تھا سب سے زیادہ پردہ ہٹا ہوا تھا جہاں ہرے ہرے لان اور اوپر سے نیلے آسمان کے سامنے برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ نے اس کو مسمرائز کردیا اسے ہمیشہ سے پاکستان ہی پسند تھا بے شک دوسرے ملک کی جگہ جتنی خوبصورت کیوں نا ہوں لیکن جو سکون پاکستان میں تھا وہ اور کہی بھی نہیں تھا پھر ایک نظر اس کی تصویر پہ پڑی جس میں زاویار بلیک سوٹ میں تھا اور اس کے ساتھ دوسرے کھڑے ہوئے شخص نے اسے ساکت کردیا 
"شش شان !!!"
تو کیا یہ گھر شان کا ہے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ آسلام آباد
وہ لقمان صاحب کے لائونج میں اس وقت موجود تھا .
لقمان صاحب ٹانگ پہ ٹانگ چھڑائے سگار کے گہرے کش لیے رہے تھیں 
"تمھیں پتا ہے تمھارے باپ نے کتنے کڑور کے گاڑی بگھا کے لیے گیا ۔"
ان کا لہجہ بے حد عام تھا لیکن زاویار کے لیے ہرگز عام نہیں تھا 
"میں نے کچھ پوچھا تم سے !"
اس کی بات پہ زاویار نے سر اُٹھایا 
"ایک کڑور !"
زاویار کے کہنے پر وہ بے اختیار ہنس پڑا 
"تو تمھیں پتا تھا مطلب تیرے باپ نے گھر میں ساری پلینگ بتائی تھی ۔"
آب وہ اُٹھ کر اس کے مقابل آیا 
"میں کچھ پوچھ رہا ہو تجھ سے جواب دیں ۔"
اس نے ایک جانھپڑ زاویار کے منہ پہ رکھ کر لاگیا 
پارسا نیچے آئی تو اس نے دیکھا پارسا کا دل تڑپ اُٹھا 
"لقمان !!!"
وہ بھاگتے ہوئے 
"تیرے باپ میری گاڑی چوری کر کے لیے گیا تو تجھ کُتے اور اپنی کُتیا بیوی کو کیوں نہیں لے کے گیا ۔"
ایک اور کراکے دار تھپڑ زاویار کو اپنے لیے گالی پہ اتنا غصہ نہیں آیا جتنی اپنی ماں کے اوپر حرف آنے پہ آیا 
اس نے لقمان کا دھکا دیا 
"خبرادر آپ نے میری ماں کو کہا ٹانگے توڑ کے رکھ دو گا ۔"
زاویار دھاڑا !!!"
مہر شور کی آواز سے ڈر کے فورن نیچے آئی اس نے سڑھیوں سے دیکھا زاویار کو مار پڑ رہی تھی 
"ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری !"
انھوں نے زاویار کو لات ماری وہ نیچے گر گیا پارسا بھاگتے ہوئے ائی تب تک وہ اسے پیٹنے لگے اور بے تحاشا گالیاں دینے لگے مہر کانپ اُٹھی 
"لقمان چھوڑیں اسے چھوڑیں !!!"
"میں زندہ نہیں چھوڑا گا اس کمینے کو !! ایک تو باپ چوری کرتا بیٹا اکڑ دیکھاتا ہے ۔"
وہ اس کے زخمی کر چکے تھے پارسا نے زاویار کو بازو کے حصار لیے 
"بس کریں زرا بھی انسانیت نہیں ہے آپ میں بچہ ہے !!!"
پارسا چلائی جبکہ مہر کی حالت عجیب ہوگئی وہ اگئے سے کچھ کیوں نہیں بول رہا اتنا چُپ کیوں ہے اس کا تو کوئی قصور نہیں ہے مہر نیچے جانا چاہتی تھی لیکن ڈر کی وجہ سے وہی کھڑی رہی 
"اس نے جو بکواس کی ہے وہ کیا !!"
وہ پارسا کی اس سے ہمدرد نہیں برادشت ہورہی جو اس اپنے حصار میں لیے کوئی سگی ماں لگ رہی تھی لقمان حمید پھر اس کو مارنے کے لیے لپکے تھے 
پارسا ایک دم غصے سے اُٹھی اور اسے اپنے پھیچے کیا 
"آپ نے اگر اسے دوبارہ ہاتھ لگایا تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا لقمان خبردار اگر آپ نے زاویار کو کچھ کہا ۔"
لقمان حمید کو سخت غصہ چڑھا 
"بہت ہمدردی ہورہی ہے اس سے !!!
"ہاں ہورہی ہے !!"
"ٹھیک ہے تم بھی اس کے ساتھ دفع ہوجاو میں تمھیں !!
"نہیں نہیں !!!!"
یہ کہنے والا زاویار تھا اور ان کے پیر پڑ گیا 
"پلیز میری وجہ سے آپ پارسا میم کی زندگی تباہ مت کریں پلیز پلیز آپ جو کہے گئے میں وہی کرو گا بے شک میری جان لیے لے ۔"
پارسا کو گہرا جھٹکا لگا اور بلکل حیرت سے دیکھنے لگا 
"اگر کسی اپنے کے لیے مجھے اپنی جان دینی بھی پڑئے نا تو میں دینے کے لیے تیار ہو اپنوں کی خوشی مجھے بہت غزیز ہے ان کی ایک تکلیف کو میں برداشت نہیں کرسکتا ۔"
کوئی کہتا تھا اور پارسا نے بڑھ کر زاویار کو پکڑا 
"زاوی چھوڑ دو انھیں !! میرے لیے تم زیادہ امپورٹنٹ ہوں نا کے میرا رشتہ ۔"
پارسا کے کہنے پر لقمان حمید کو جھٹکا لگا 
"پارسا تم ہوش میں ہوں !"
وہ دھاڑ اُٹھے 
"ہاں میں اسی طرح ہوش میں ہوں جس طرح آپ ہوش میں مجھے اپنی زندگی سے بے دخل کرنے والے ہیں ایک کڑور آپ کی زندگی کے لیے بے حد اہم ہے ہم نہیں انسانیت نہیں قصور زاویار کا نہیں ہے اس کے باپ کا ہے !!"
"نہیں اس کی یہ قیمت ادا کریں گا جیسے بچوں کو باپ کی جائیداد ملتی ہے اسے طرح ان کی گناہوں کی سزا بھی انھی کو ملی گی ۔"
وہ زاویار کو ٹھوکر مار کر چلے گئے اور پارسا نے روتے ہوئے زاویار کو اپنے ساتھ لگایا 
"مجھے معاف کردیں دارب !!!"
وہ زاویار کے سر پہ پیار کرنے لگی اور دل میں دارب سے معافی مانگنے لگی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : گلگت بلتستان ، پاکستان 
وہ ساکت نظروں سے زاویار کے ساتھ شان کی تصویر دیکھ رہی تھی جو نیوی بلیو سوٹ میں ڈیشنگ لگ رہا اس کے لمبے بال کٹے ہوئے تھے بس اس کی گولڈن دھاڑی بڑھی ہوئی تھی جب کے ہری انکھوں میں ویسی چمک تھی جو اس کو دیکھتے ہوا کرتی تھی 
اس نے بے اختیار اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرا 
"میں اس کو زندہ گار تو دو گا اگر تمھارے کوئی نزدیک آیا ۔"
اسے شان کی آواز نے ڈرا دیا 
"او میرے خدایہ شان اور زاوی ایک دوسرے کے دوست مطلب یہ گھر شان کا ہے اور اگر وہ آگیا تو کیا ہوگا 
میرے اور زاویار کے درمیان جتنی بھی خلش کیوں نہ ہوں لیکن میں تو اس سے محبت کرتی ہوں اور میں مرتے دم تک اس سے جُدا نہیں ہوسکتی ۔"
اس نے تصویر اُٹھائی اور دونوں کو دیکھا ایک سے وہ محبت کرتی ہے اور ایک اس سے محبت کرتا ہے اور دنیا ایک دوسرے کے گہرے دوست اُف !!"
دروازہ کھلنے کی آواز ائی اس نے مڑ کر دیکھا تو زاویار نے ہاتھ میں شاپر پکڑیں ہوئے تھے اور اسے دیکھا پھر اس کے ہاتھ میں پکڑی تصویر کو 
"کیا ہوا ؟؟"
"زاوی یہ کون ہے!!"
مہر نے بے حد انجان بنتے ہوئے کہا 
"ویسے عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے خیر میرا دوست ہے زیشان !!!"
"لیکن اس کا نام ش۔۔۔۔مہر نے جلدی سے اپنے ہونٹ بھینچے اور زاویار نے حیرت سے اسے دیکھا 
"تم جانتی ہوں اسے ۔"
زاویار نے بیگز رکھتے ہوئے کہا مہر کنفیوز ہوگئی 
"نن نہیں ممم میں نہیں جانتی ویسے یہ گھر کس کا ہے ؟"
زاویار نے اسے الجھن امیز نظروں سے دیکھا 
"مہر ڈیر ناشتہ کیا کے نشہ ؟"
وہ اس کے قریب آیا اس کی کلون کی خشبو مہر کے ہوش اڑا رہی تھی
"کیا مطلب ہے تمھارا ناشتہ کیا ہے ۔"
وہ اس کے بالوں کو دیکھ رہا تھا جو بار بار اس کے چہرے پہ آرہے تھے 
زاویار نے اگئے بڑھ کر ان کو پھیچے کیا مہر کرنٹ کھا کر پھیچے ہوئی 
"تو پھر یہ سوال تم مجھ سے تین سو بار پوچھ چکی 
ہوں ۔"
زاویار نے سر جھٹکتے ہوئے کہا 
"تمھارے اسی تصویر والے دوست کا گھر ہے ۔"مہر نے تصویر کی طرف اشارہ کیا 
"ہاں یہ میرے دوست شان کا گھر ہے آرمی والوں کی طرف سے دیا گیا ہے آبھی اس کی دو دن پہلے کزن کی شادی تھی تو گیا ہوا ہے ۔"
وہ صوفے پہ بیٹھ گیا 
"ابھی تم نے کہا اس کا نام ذیشان ہے ۔"
مہر اس کے سامنے کھڑی ہوئی 
"تمھیں کیا برابلم ہے ؟"
زاویار نے بے زاری سے دیکھا 
"میری کوئی برابم نہیں میں نے بس پوچھا نہیں جواب دینا چاہتے تو مت دو !"
مہر بگڑ کر جانے لگی کے زاویار نے اس کا ہاتھ پکڑا مہر کا دل دھڑک اُٹھا 
"بات سُنو !!"
اس کے کہنے پہ اس کی چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ اگئی 
"وہ جو کافی تم نے بنائے ہے اس کو تو دیکھ لو کتنے دیر سے بن رہی ہے ۔"
زاویار کے کہنے پر اس کے موڈ کا بیرہ غرق ہوگیا اور اس نے مڑ کر خشمگیں نظروُں سے دیکھا 
"کیا ہوا اچھا زیشان کو پیار سے سب شان بلاتے ہیں آب خوش !!"
اب مہر کو مزید غصہ آیا 
"فٹے منہ اس کا ۔"
مہر بڑبڑاتے ہوئے کچن کی طرف بڑھی 
"میرے لیے بھی لے آو یار طلب محسوس ہورہی ہے ۔"
وہ دونوں ایسے مخاطب ہوئے جیسے ان کی بیج کوئی پریشانی نہیں تھی 
"کھانا نا لیے او تمھارے لیے ۔"
مہر چبا چبا کر بولی 
"او وڈ لو ٹو بٹ سوری میں جلا ہوا کھانا کھانے کے موڈ میں ہرگز نہیں ہوں !!"
زاویار نے انتہائی سنجیدگی سے کہتے ہوئے ریمیوٹ اُٹھا لیا مہر نے سامنے پڑا سپچولا اُٹھایا اور اس کی طرف پھینکا جو زاویار نے بنا دیکھے ہی کیچ کرلیا 
مہر کا منہ کھل گیا 
"یار مہر تم بھول رہی ہو بچپن میں تم نے ہی کہا تھا میری سینس بہت تیز ہے اور میرے تقریباً چار انکھیں ہیں ۔"
وہ بڑی دلکش مسکراہٹ سے اسے دیکھنے لگا 
مہر بلکل ٹہر کر اسے دیکھنے لگی 
"او زاوی تم نا بڑے ہوکر پولیس میں جانا !"
"پولیس میں کیوں ؟"
زاویار نے اس کے ساتھ نہر کے کنارے بیٹھتے ہوئے کہا 
"تم بہت تیز ہوں !!"
زاویار ہنس پڑا 
"ضروری ہے جو تیز ہو وہ پولیس والا ہی بنے ۔"
"لیکن اگر تم پولیس میں جاوں گئے تو ملک کا فائدہ ہوگا ۔"
مہر نے مٹھی اپنی ٹھوڑی پہ ٹکا لی 
"یار ویسے تیز سے مراد ۔"
"تم ہر چیز کو بہت ابزورو کرتیں ہوں تم کوئی جمیز بونڈ ہی ہوں تمھاری چار انکھیں ہیں اور ہاتھی جیسے بڑے کان ۔"
مہر کے کہنے پہ اس نے ہنقو کی طرح اسے دیکھا 
"یار مہرو ایسے تو نہ کہوں !!
"ایسا ہی ہے مجھے اتنا نوٹس کرتے ہوں مہرو ایسے چلتی ہوں تو گڑبڑ ہے مہرو جب آپنے بالوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بولتی ہوں تو جھوٹ ! یہ بابا بھیگ مناف رہے ہیں یانی سچ میں انھیں ضرورت ہے ، یہ ڈرامہ کررہا ہے اسے چرس پینی ہے ایک ایک بندئے کو تم جان جاتیں ہوں یو آڑ ریلی شارپ ۔"
اور زاویار اسے چھوٹی سے ڈول کی باتوں کو سُنتا تو ہنستا چلا جاتا 
"کہاں کھو گئی !"
زاویار نے اس کے سامنے آتے ہوئے چُٹکی بجائی مہر نے اسے دیکھا اور سر جھٹکا 
"کہی نہیں !!!"
"خاصی موٹی نہیں ہوگئی تم !!"
زاویار کی بات پہ وہ مڑی اور اس کے ماتھے پہ بل پڑے 
"کیا مطلب ہے تمھارا ہاں ۔"
"مطلب یہ کے تمھیں لارج سائز کے کپڑے اتنے اچھے فٹ کیسے اگئی ۔"
وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا

لوکیشن : کینن فرانس 
مہر نیچے تیار ہوکر ناشتے کے ٹیبل پہ بیٹھی کے کسی نے پھیچے سے اس کی انکھوں پہ ہاتھ رکھا 
"اُف کون ہے !!"
مہر نے جنجھالاتے ہوئے ہاتھ ہٹائے تو شان کو دیکھ کر اس کا منہ کھل گیا 
"سپرائز گولڈی کیسی ہوں !!"
وہ اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا
"تم !!! تم یہاں کیا کررہے ہوں تمھیں اندر کس نے آنے دیا ."
مہر تیزی سے اُٹھی شان نے مسکراتے ہوئے سامنے بڑے سے کسٹل باول میں سے ایک سیب اُٹھایا اور اسے کھانے لگا کے 
مہر نے اس سے سیب چھینا شان کا منہ کھل گیا 
"نکلوں میرے گھر سے میں نے کہا نا پھیچا چھوڑ دو میرا !!!"
شان مسکراتے ہوئے اُٹھ پڑا اور مہر سے دوبارہ سیب لیا اور اب اسے بائٹ کیا 
"نکاح نامہ ملا ؟؟"
مہر کے ماتھے پہ بل آئے لیکن بولی کچھ نہیں 
"نہیں ملا تو ڈیر میں کیسے جا سکتا ہوں !!"
وہ دوبارہ کرسی پہ بیٹھ گیا 
"تم پاکستانی فوجی ہوں نا ؟"
مہر نے اپنے سینے پہ بازو باندھتے ہوئے اسے کہا شان بائٹ لیتے چونکہ 
"ہاں تو !!"
"تو فرانس میں ہی قدم جما لیے جاوں نا اپنے ملک !!!"
شان کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی 
"سنڈئے کو فلائٹ ہے میری جارہا ہوں لیکن میں چاہتا ہوں گولڈی میری بن کے میرے ساتھ جائے !!"
"اور یہ ٹوٹلی ناممکن ہے کیونکہ میں مسز زاویار عباس ہوں !! "
"یہ بھی ایک ناممکن سے بات کیونکہ تم شان کی ہوں !!"
دل تو کررہا ہے کے اس کے یہ سہنائے سے بال کو ڈرل مشین سے برباد کردوں !!
وہ دل میں سوچتے ہوئے اسے گھورتی ہے 
"ڈرل مشین نہیں کینچی یار !!"
شان کی بات پہ اسے جھٹکا لگا یہ کیا اسے کیسے پتا کے میں کیا سوچ رہی ہوں 
"مجھے کیسے پتا کو چھوڑوں ناشتہ کرو پھر ہم پیرس چلتے ہیں !!!"
مہر کچھ سوچنے لگی پھر دیکھا وہ سوچ پڑھ لیتا ہے اس لیے سر جھٹکتے ہوئے کہا 
"اگر تم میری سوچ پڑھ لیتے ہوں تو تمھیں یہ بھی پتا ہوگا کے میرے دماغ میں زاویار کے علاوہ اور کوئی نہیں ۔"
"لوگوں کو دل میں بستے سُنا تھا دماغ کا نیا سٹائل ہے اور ویسے بھی میں لوگوں کی سوچ تب پڑھتا ہوں جب ان کی باڈی لنگیوج چینج ہوتی ہے ان کی انکھیں اور چہرہ سب کہانی بتادیتی ہیں زاویار کہنے کے وقت تم بلکل گھبرائی ہوتی ہوں جیسے تم جھوٹ بول رہی ہوں اور خیر اگر دماغ میں بسا مجھے کوئی پروا نہیں مجھے بس دل چاہیے تمھارا دل میں بس گیا تو دماغ میں بھی بس جائے گئیں ۔"
"سٹاپ اٹ بس جاوں یہاں سے یا عزت سے نکالوں تمھیں ۔"
مہر تیزی سے بولی 
"ناشتہ تو کرلوں !!!"
"کیوں پیسے نہیں تھے جو میرے گھر کھانا کھانے آگئے ۔"
مہر کو بہت غصہ آرہا تھا 
اس نے اپنی جیب سے ایک ہزار یورو نکالے اور اس کے ہاتھ میں تھمائے 
"حلانکہ ایک سیب ہی کھایا ہے لیکن گولڈی کے گھر خالی ہاتھ آنا مجھے بلکل نہیں پسند یہ لو میری جان میری ماں ہوتی تو تمھیں ضرور پیار سے دیتی !!!"
مہر نے اس کے منہ پہ مارے 
"سکیورٹی !!! سکیورٹی !'"
"مہر !!"
لقمان حمید کی آواز پہ وہ دونوں مڑئے 
وہ کھڑئے حیرت سے ان دونؤں کو دیکھ رہے تھے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ اسلام آباد 
مہر نے زاویار کی حالت دیکھی تو اسے رونا آیا وہ کیوں چُپ رہا اسے چُپ نہیں رہنا چاہی تھا اور وہ پاپا کے پیروں کیوں پڑ گیا اس کی عزت گئی اسے زاویار کی عزت عزیز تھی وہ اپنے کمرئے میں جارہی تھی جب وہ کسی سے لگنے پہ پھیچے ہوئی دیکھا حازق کھڑا تھا 
اور اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا 
"ارئے مہر کیا ہوا طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمھاری اتنی پیل کیوں ہوگئی ہوں ۔"
وہ پیل ضرور تھی لیکن حازق نے اسے جان بوجھ کر چھونے کے لیے کہا حازق نے اس کا ماتھا ہاتھ سے چھوا مہر پھیچے ہوئی 
"میں ٹھیک ہوں !!"
حازق جکھا 
اور اس کے گال کو پکڑا 
"نہیں تمھارے تو طبیعت مجھے ٹھیک نہیں لگ رہی ۔"
مہر کو الجھن ہوئی لیکن اسے بار بار رونا آرہا تھا اس کا زہن ابھی تم زاویار پہ تھا اسے یہ نہیں پتا تھا کوئی اپنی ہوس زدہ نظروں سے اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچا رہا تھا 
اس نے اپنے دوسرے گالوں سے مہر کا پکڑا اور اس کو نزدیک کیا 
"کیا ہوا مہر ڈیر !!"
وہ اس کی گالوں کی نرمی کو محسوس کرتے ہوئے لمبی سانس لینے لگا 
مہر کے انسو سے انسو ٹپک پڑیں 
"ارئے تم رو کیوں رہی ہوں !!"
مہر نے نفی میں سر ہلا کر اپنی انکھیں ملی 
"کچھ نہیں ہوا حازق بھائی !!!"
اس نے کمزور آواز میں کہا 
"تو پھر ان خوبصورت انکھوں میں آنسو کیوں !"
آب اس نے مہر کی بازو کو پکڑا اور اس پہ ہاتھ پھیرنے لگا 
اگے سے وہ کچھ کہتا کسی قدموں کی چاب سُنتے ہوئے وہ فورن کھڑا ہوا تو دیکھا لقمان حمید تھے ایک پل کے لیے وہ ڈر گیا لیکن ان کے چہرے کے اکیسپریشن دیکھ کر وہ تھوڑا سا پُرسکون ہوا کیونکہ ان کا دھیان ان دونوں کی طرف نہیں تھا مہر نے انھیں دیکھ کر فورن اپنے کمرئے کی طرف بھاگی حازق نے اسے بھاگتے ہوئے دیکھا اور موقع ہاتھ سے گنوانا دیکھتے ہوئے اسے غصہ آیا لیکن سر جھٹکتے ہوئے نیچے چلا گیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : لاہور ، پاکستان 
"پارو بیٹی ابھی تک سوئی نہیں تم !!"
صادق علی نے جب اسے لیپ ٹاپ پہ کام کرتے ہوئے کہا 
تب بولے 
"نہیں آبا بس یہ کیس سے ریلیٹٹ فائل بنا لو پھر جاتی ہوں میں !!"
"کیوں آب کون سا کیس ملا ہے میری گڑیا کو جو اتنی مصروف ہوگئی ہے ۔"
صادق علی اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی 
"جنرل صاحب اتنا زبردست کیس ملا کی آپ کی بیٹی نے چار چاند لگا دینے ہیں بس آپ دعا کریں بس آپ میجیر صاحب کو نہ بتا دیجے گا ۔"
"کیوں اسے کیوں نہیں ۔"
وہ اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوئے بولی 
"آپ کو تو پتا ہے نا میجیر صاحب کو ایسے کیس بہت پسند ہے مجھے حل کرنے کے بجائے یہ خود دیکھیں گئے اور مجھے سُنانے لگ جائیں گئیں یہ ایسے نہیں کرنا ویسا کرو نہیں غلط بندئے سے بات کی ہے تم نے نہیں یہ کیا کردیا کھبی کھبار لگتا ہے جیسے میجیر صاحب خوامخواہ فوج میں چلے گئیں انھیں وکیل ہونا چاہیے تھا ۔"
"ہاں تو تھا نا بس دو سال ہی اس نے وکالت پڑھی اور پھر اچانک فوج میں ہی چلا گیا اس نے کہا میرے لیے اتنا ہی پڑھنا کافی ہے آب تو بس ملک کا رکھ والا بنا ہے میں نے ، بچپن سے ہی بہت پیشینیٹ تھا اور اتنا شارپ کے بندہ اس کی باتوں سے ہی لاجواب ہوجاتا تب سی ہی میری خواہش تھی وہ میرا بیٹا بنے اور اللّٰلہ کے کرم سے یہ خواہش بھی پوری ہوگئی ۔"
"ہمم لیکن آبا آپ کو نہیں لگتا میجیر صاحب تھوڑے کھڑوس ہیں ۔"
صادق علی اس کی بات پہ ہنس پڑیں اور اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا 
"دل کا بہت اچھا ہے وہ ۔"
پارو نے منہ بنایا 
"دل کا کیا کریں بندہ انسان کو زبان میٹھی رکھنی چاہیے اس سے ہر کوئی خوش رہتا ہے آب ہمیں تھوری پتا وہ دل کا کتنا اچھا دل کو اندر جھانک تھوڑی سکتے ہیں ۔"
پارو نے ان کی کندھے پہ سر رکھ لیا 
"تمھیں پتا ہے میری پارو کے جب دوائی کھاتے ہیں تو کتنی کڑوی لگتی ہے لیکن ہوتی تو ہمارے فائدے کے لیے ہیں اور جب کوئی میٹھا یا ٹافی کھائے تو ہمارا گلا خراب ہوجاتا ہے ، ہمیں شوگر ہوجاتی ہے اس لیے کھبی کھبار کڑوی چیز بھی ہمارے فائدئے کے لیے ہوتئ ہے اسے طرف وہ بھی ایسا ہی لہجہ کا جتنا کڑوا کیوں نہ ہوں دل کا بے حد صاف ہے اور تمھیں تو وہ کھبی بھی فضول بات پہ نہیں ڈانٹتا کچھ معاملے میں زرا سخت ہے 
وہ تو میں بھی ہوں اور ہمارا غصہ تمھارے بھلے کے لیے ہوتا ہے ۔"
پارو نے سر ہلایا 
"جی پاپا آپ صیح کہہ رہے ہیں بس کھبی کھبار بُرا لگ جاتا ہے میں جان بوجھ کے تھوڑا کرتی ہوں میں جانتی ہوں وہ بہت اچھے لیکن ان پل میں تولہ پل میں ماشہ والا کہانی ہے ۔
"کیا ہوا آج کیا ڈانٹ تو نہیں دیا میری گڑیا کو !!"
صادق علی ہنسے پارو نے نفی میں سر ہلایا 
"نہیں تو بس آبا پلیز انھیں اس کیس کے بارے میں نہ بتائیں گا ۔"
"اچھا مجھے بتاو کون سا کیس ہے ۔"
"چائلڈ کیڈنیپنک اینڈ ابیوز !!!"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : گلگت بلتستان ، پاکستان 
مہر کا منہ کھل گیا اور اپنے کپڑوں کو دیکھا اس نے فولڈ کیے تھے لیکن اتنے بیگی کھلے کپڑوں میں وہ موٹی لگ رہی تھی 
"یہ کھلے کپڑے ہیں !!"
مہر کی بات پہ زاویار کے چہرے پہ خوبصورت مسکراہٹ آئی 
"اچھا مہر بہانے تو نہ بناؤں یار ویسے یہ راز کیا ہے سمال سے لارج تک آنے کا ۔"
زاویار کی بات پہ اس نے بیلن اُٹھایا اور اس مارنے کے لیے لپکی کے وہ بھاگا وہ بھی اس کے پھیچے بھاگی 
"چھوڑوں گی نہیں میں تمھیں !!"
زاویار ایک صوفے کی طرف چلا گیا مہر اس کے پھیچے آئی 
"پہلے پکڑ تو لو موٹی !!!"
"خود تھے موٹے کالے کوئے گینڈئے ! "
زاویار صوفے کے ایک طرف چلا گیا جبکہ مہر دوسری طرف 
"پکڑ کے تو دکھاؤ اور میں کہاں سے موٹا اتنا ہینڈسم اور سمارٹ تو ہوں !!!"
مہر ایک بار پھر پھیچے گئی اور وہ صوفے سے جمپ مار کر سیدھا پچھلی طرف گیا مہر صوفے پہ گری اور گہرے سانس لینے لگی ا
"او یو !! "
وہ اٹھی اور اس کے پھیچے بھاگی 
"تمھیں ہینڈسم نہیں گینڈسم کہنا چاہئے ۔"
زاویار نے دروازہ کھول کر بند کیا کے مہر کا سر لگا اور وہ دھڑم کر کے نیچے گری

لوکیشن : کینن ، فرانس 
"کیسے ہے لقمان صاحب !!"
شان نے مسکراتے ہوئے اگئے بڑھ کر ان سے ہاتھ ملایا 
"میں ٹھیک تم کون ہو کہی دیکھا ہے میں نے تمھیں !!"
لقمان حمید مسکراتے ہوئے بولے 
"جی کیپٹن شان !! بلکہ نہیں میجر شان دو دن پہلے پروموشن ہوگئی ہے میری !"
لقمان حمید ہلکہ سا مسکرائے 
"اچھا اِدھر کے آرمی آفسر ہوں ۔"
"نہیں جی پاک آرمی سے ہیں ۔"
"او پاک آرمی !"
لقمان حمید مسکراتے ہوئے بولے مہر نے اپنی انکھیں گھمائی 
"جی پاک آرمی !!"
شان نے بھی مسکراتے ہوئے کہا 
"سو میجیر صاحب کیسے آنا ہوا ۔"
لقمان حمید نے اسے دیکھا 
"بس مہر نے بلایا تھا کے ناشتہ کرو سوچا آجاتا ہوں ۔"
لقمان حمید نے مہر کو دیکھا اور مہر نے غصے سے شان کو دیکھا اور دانت کیچائے !!!! 
"تم دونوں کی کب ملاقات ہوئی ۔"
لقمان حمید بہت لبرل قسم کے تھیں اور انھیں کوئی اعتراض نہیں تھا وہ ان معاملوں میں کھبی دلچسپی نہیں لیتے تھے نہ جانے آج کیوں لے پڑیں 
"فارس کے تھڑو !!! میں فارس کا دوست ہوں سر !"
"او تو آپ فارس کے دوست ہے ۔"
اس سے اگئے کچھ کہتے ان کی فون کی ٹیون نے انھیں مزید بولنے سے روکا 
"اکسکیوزمی میری کال آپ کنٹینیو کریں ناشتہ !!"
وہ مسکراتے ہوئے بولے اور مہر کا منہ کھل گیا 
"لگتا ہے سسر جی امپریس ہوگئے مجھے سے !!"
مہر نے اسے خشمگیں نظروں سے دیکھا اور جانے لگی کے شان نے اس کا بازو پکڑا مہر جنگلی بلی کی طرح اس پر چھپٹی 
"مجھے چھوڑ دو ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا ۔"
شان مسکرایا اور اس کے گرد بازو پھیلا دیا مہر جھٹکے سے الگ ہونے لگی لیکن مقابل کی گرفت مضبوط تھی 
"مجھے بُری گولڈی زیادہ پسند ہے چلوں بنو بُری کیوں کے میں تمھیں زندگی پر نہیں چھوڑنے والا ۔"
مہر کی حالت عجیب ہوگئی اسے لگا وہ زاویار کے ساتھ دھوکہ دیں رہی ہے وہ ایک بدکرادر عورت ثابت ہوگی کیسی بیوی ہے جو کسی غیر مرد کے بازو خود پہ برادشت کررہی ہے ۔یہ بات سوچتے ہوئے اس کا خون کھول اُٹھا اس نے شان کی دھاڑی زور سے کھینچی 
"اوچ !!!"
گرفت ڈھیلی ہوگئی جبکہ شان نے حیرت سے مہر کو دیکھا 
"دوبارہ مجھے ہاتھ لگایا تو زندہ نہیں رہوں گئے سمجھے میں زاویار کی تھی زاویار کی ہوں اور ہمیشہ زاویار کی رہوں گی ۔"
شان ساکت رہ گیا وہ بے اختیار اس کا جنونی انداز دیکھ رہا تھا اور اس کی انکھوں میں شان نے اس ان دیکھے شخص کا ہی عکس دیکھا اسے یقین نہیں آرہا تھا یانی زیشان شاہ کی کوئی جگہ نہیں تھی مہر لقمان کی زندگی میں ۔
"بہت چاہتی ہوں اس سے ۔"
نجانے کیوں اس کا لہجہ عجیب ہوگیا مہر نے وحشت انداز میں سر اُٹھایا 
"چاہتی ! چاہنا بے حد معمولی لفظ ہے میں مانتی ہوں زاویار کو ، میرا مجازی خدا ہے وہ اور تم جانتے ہوں اگر خدا کے بعد جس کو سجدہ کیا جاتا تو مجازی خدا کو اور زاوی میرا زاوی میرا سب کچھ ہے کیا ہو اگر وہ میرے قریب نہیں ہے بلکہ نہیں وہ بلکل میرے پاس ہے میرے دل کے قریب میری سانوسوں میں بستا میری خون میں گردش کرتا مہر کے ساتھ جو نام ہمیشہ کے لیے رہے گا وہ زاویار کا ہی رہے گا کیونکہ مہر زاویار کے بنا ادھوری ہے !!"
شان بلکل سپاٹ چہرہ لیے اسے دیکھ رہا تھا پھر چلتا ہوا قریب اگیا 
اور اس کو دیکھنے لگا اور اتنی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا کے مہر نے سر اُٹھایا 
"چلے جاوں شان کچھ حاصل نہیں ہوگا تمھیں تمھیں کسی اپنے کا واسطہ دیتی ہوں پلیز !"
اس نے پرُنم انکھوں سے شان کو دیکھا 
"تجھے محتاط کرتا ہوں تیری میں جان لے لو گا 
کھبی تو نے اس جھیل سی انکھوں کو پُرنم کیا !!"
اس نے بے اختیار یہ شعر پڑھا اور انگلی کی پوروں سے اس کی ایک پلکوں سے لٹکی نمی کو اپنی انگلی میں جزب کیا اور مڑ کر چلا گیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : گلگت بلتستان 
زاویار نے ایک دم چیختی ہوئی آواز پہ ایک دم مڑا اور دروازہ کھولا 
اور نیچے دیکھا پہلے تو وہ حیرت سے دیکھتا رہا مہر کو جو اپنے سر کو پکڑیں نیچے گری ہوئی تھی پھر اس کا فلگ شفاف قہقہہ چھوٹ گیا 
"ہاہاہاہاہاہا ۔"
مہر نے مشکلوں سے اپنی انکھیں کھولی اوف زاویار کو ہنستے ہوئے دیکھا وہ اُٹھی زاویار نے اس کے ماتھے کو دیکھا جہاں گرورا بن گیا تھا اس کی مزید ہنسی چھوٹ گئی مہر نے بے حد غصے سے دیکھا اور بیلن اُٹھا کے اسے مارنے لگی
"ارئے ارے ۔"
زاویار ایک دم لگنے پہ اسے فورن بولا 
"اور ہنسوں مجھے دیکھوں میرے چہرے کا کیا حشر کردیا ۔"
مہر بلکل رونے والی ہوگئی 
زاویار نے اسے بیلن لیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا 
"اچھا کاکا نہیں رونا ابھی دوائی لگا دیتا ہوں ۔"
زاویار کی بات پہ مہر نے اس بازو پڑا مارا 
"میں کاکا نہیں ہوں !!!!! سمجھے "
"رائٹ !!"
زاویار مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا اور اسے صوفے پہ بیٹھایا اور بیلن کو جاکے اسے اپنی جگہ پہ رکھا اور فریج کھولا اور اس میں سے ایس کیوبز نکالی اور دراز سے ائیس بیگ نکالا اور ان میں ائیس ڈالی اور گہائے بگائے مہر پر نظر ڈالتا جو صوفے پہ سر ٹکائے اپنی انکھیں موند چکی تھی 
زاویار اس کے پاس آیا اور اسے دیکھنے لگا وہ تو مہر جو اس کی نظروں کی تپش کو محسوس کیا تو سر اُٹھا کے دیکھا اس نے زاویار کھڑا تھا اس نے پھر منہ بنا کے انکھیں بند کر لی زاویار کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی 
اور اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے ائیس بیگ اس کے سر پہ رکھا مہر نے ایک دم سسکی لیتے ہوئے انکھیں کھولی اوپر سے ٹھنڈ بھی تھی اس لیے ایک دم سے اسے جھڑجھڑی ائی 
اور سب سے بڑی حیرت زاویار عباس کو دیکھتے ہوئے آئی جو بڑے احمناک سے اس کے سر پہ ٹکھور کررہا تھا وہ بلیو نہیں کرسکتی تھی یہ زاویار ہی تھا جو اس کے پیر پھنسے پر بھی کوئی فرق نہیں پڑا تھا ، جو اسے اکیلے گھر پہ چھوڑ گیا تھا ، جو اس کے جلے ہوئے ہونٹ پہ بھی نہیں تڑپا تھا نہیں اب بھی اسے کوئی پروا نہیں ہے اسے ہمدردی نہیں ہے یہ اس کی ڈیوٹی اور یہ بات سوچتے ہوئے مہر کو بے حد تکلیف ہوئی اسے آب ٹھنڈک محسوس کرتیں ہوئے عجیب سا محسوس ہوا اس نے اس کا ہاتھ ہٹایا 
"بس ٹھیک ہے ۔"
وہ سپاٹ لہجے میں بولی 
"لیکن یہ سر پہ رکھوں نیل پہ پڑ گیا ہے تمھیں !!"
زاویار عام سے لہجے میں بولا تھوڑی دیر والی نوک جھونک پل میں کہاں غائب ہوگئی تھی 
"تمھیں پروا ہے ۔"
مہر نے تیزی سے کہتے ہوئے اس کی انکھوں میں دیکھا 
زاویار نے ابرو اُٹھائے وہ بلکل خاموشی سے مہر کو دیکھ رہا تھا 
"یہ بات کہا سے اگئی ۔"
جب بولنے پہ آیا تو اتنا ہی بول پایا مہر نے اس ہارٹ لیس انسان کو دیکھا 
"رائٹ ! کہاں سے اگئی ۔"
مہر خود کلامی میں کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی اور اس کے پاس سے گزر کر جانے لگی کے اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور خود پہ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا 
"بتاوں اپنا مسئلہ ؟"
اس کی بات پہ اس کی انکھیں حیرت سے کھلی پھر اس نے تلخ ہنسی میں یہ بات اُڑائی 
"میرا مسئلہ ، میرا مسئلہ تم ہوں سمپل !"
زاویار اسے دیکھتا رہا جس کی انکھوں میں نمی آرہی تھی 
"اتنا روتی کیوں ہوں !!"
اس کے کہنے پر اس نے الجھن امیز انداز میں دیکھا 
"کس نے کہا ہے میں روتی ہوں ۔"
مہر نے تیزی سے کہا 
"تو یہ بار بار اپنی انکھوں کو نم کیوں کرلیتی ہوں تھوڑا سا تو بچا کر رکھوں ۔"
اس کی بات پہ مہر نے اس کی انکھوں میں دیکھا جو ہر جزبات سے عاری تھے 
"کیوں ؟"
منہ سے بے اختیار نکلا 
"میری موت کے لیے ۔"
اس کے یہ چار لفظ تھے اور مہر کے لیے چار خنجر جس نے اس کے دل پہ جاکے وار کیا وہ اس کی موت اس کی موت کا کھبی نہیں سوچ سکتی تھی انسو مزید بھرتے جارے تھے اور زاویار اس کی نظروں سے دندھلا ہوتا جارہا تھا 
زاویار اسے دیکھا ہوا ہاتھ اگئے بڑھانے لگا لیکن اس نے اس کا ہاتھ جھٹک کر تیزی سے اوپر کی طرف بھاگی 
اور زاویار نے اس کے جھٹکے ہوئے ہاتھ کو تیزی سے مٹھی میں بنایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ آسلام آباد 
زاویار کو سزا یہ دیں گئی تھی کے وہ اب گھر کے آدھے سے زیادہ کام کریں گا اور اسے اپنا سکول چھوڑنا ہوگا 
سکول چھوڑنے کے لفظ سے زاویار کو بے حد تکلیف ہوئی لیکن پارسا نے اسے کہا کے وہ اتنا تیز اور شارپ ہے اسے کسی سکول کی ضرورت نہیں ہے وہ ٹنتھ کے اگیزام پرائویٹ دیں انھیں خود لقمان پہ غصہ تھا لیکن اگر وہ مزید سٹینڈ لیتی تو پھر انھیں ایک کو چُنا ہوتا مہر اور زاویار کو اور دونوں ہی پارسا کو بے حد عزیز تھے اس لیے اس نے دل پہ پتھر رکھتے ہوئے انھوں نے بے حد خاموشی سے اس بچے پر ظلم ہوتے دیکھا 
جو صبح سے لیکر شام تک کام کرتا پارسا اس کے پاس آئی 
"زاوی !"
لہجے میں گہری ممتا تھی 
زاویار مڑا اور اس نے پارسا کی آواز پہ اس نے ٹائروں پہ جو کپڑا مار رہا تھا اس ایک جگہ رکھ کر ان کے پاس آیا 
"یس میم !"
پارسا نے اس کے ہاتھ کو پکڑا جو بہت کھردرئے ہوگئیں تھے 
"کھانا کھایا ؟"
زاویار نے سر اثبات میں ہلایا 
"زاوی کم جھوٹ بولا کرو اِدھر بیٹھوں ۔"
وہ اسے اپنے ساتھ بیٹھاتی ہوئی ایک باکس لائی اور اسے پکرایا 
"لو صبح سے کام میں لگئے ہوئے ہوں حالت ہی عجیب کردی ہے ۔"
زاویار ان کی محبت پر صرف ہلکہ سا مسکرایا 
"ایسے بات نہیں ہے !!"
"تو کیسی بات ہے ہاتھ دیکھ رہے ہو اپنے چہرہ دیکھ رہے ہوں اور کام پڑھائی کے علاوہ تمھیں کوئی ہوش نہیں ہے بمیار پڑ جاوں گئے زاوی !!"
زاویار کو ان کی اتنی فکر پر حیرانی ہوئی 
"آپ اتنا کیوں پریشان ہورہی ہے میں سب مینج کررہا ہوں ۔"
پارسا نے اسے دیکھا اور اس کی انکھوں میں آنسو اگئے وہ بلکل دارب ہی تھا سچ تھا دارب اور وہ ایسے ہی تھے جتنی پریشان کیوں نہ ہوتی کھبی بھی نہیں گھبراتے تھے 
اس نے اگئے بڑھ کر ہاتھ لگانا چاہا لیکن ہاتھ کو روک دیا اور خود کو کمپوز کرتے ہوئے بولی 
"آب کھاو میں نے فرائڈ رائس بنائے مہر کے لیے سوچا تمھیں بھی دو بتاوں کیسا ہے ۔"
زاویار نے انھیں دیکھا اور مسکرایا 
"جی میں ضرور ٹرائی کرتا ہوں ۔"
اس نے لانچ باکس کھولا 
"دیکھنے میں تو بڑا مزئے دار لگ رہا ہے ،مجھے یقین ہے آپ نے اچھا بنایا ہوگا ۔"
پارسا ہنس پڑی کچھ معاملوں میں وہ بہت الگ تھا

لوکیشن : کینن فرانس 
مہر افس میں بیٹھی تھی جب اس کی گولیگ ائی ا
"مہر تم سے ملنے کوئی آیا ہے ۔"
مہر جو کافی کے سپ لیتے ہوئے لیپ ٹاپ پہ اپنے ڈیزائن بنا رہی تھی سر اُٹھایا 
"ہاں بولوں !!! "
"کوئی تم سے ملنے آیا ہے ۔"
مہر نے کپ رکھا 
"کون ؟"
"فارس رحمان !"
مہر نے حیرت سے ابرو اُٹھائے 
"او اچھا بلاؤ انھیں ۔"
مہر سوچ میں پڑ گئی چار دن ہوگئے تھے شان کو گئے ہوئے ایک بار بھی اس نے کال نہیں کی تھی نے اس سے ملنے آیا تھا کیا وہ چلا گیا کیا واقی وہ چلا گیا ہے اس کی شدت دیکھ کر تو نہیں لگ رہا تھا 
اسی سوچ میں فارس اندر داخل ہوا 
"کیسی ہوں مہر !!"
فارس ہلکی سی مسکراہٹ پہ اندر داخل ہوئی 
"میں ٹھیک فارس تم سناؤں کیسے ہوں کہا تھے ۔"
"بس اپنے کام میں مصروف تھا !"
مہر مسکرائی 
"ایسا کون سا کام تھا جو تم اپنی دوست کو بھول گئے ۔"
"اچھا میں دوست آج کل تو شان صاحب مہمان خصوصیت تھے ۔"
مہر کا منہ اتر گیا 
"کس کا نام لیے لیا یہ نہ ہوں شیطان کو نام لو اور وہ خاضر ہوجائیں ۔"
فارس ہنس پڑا 
"اتنا بُرا لگتا وہ صاحب پاکستان پہنچ بھی گئے ہیں !!"
"کیا !"
مہر نے اسے حیرت سے دیکھا فارس کو اس کی حیرانگی عجیب لگی 
"تمھیں تو خوش ہونا چاہیے یار !!"
"ہاں بس یقین سا نہیں آرہا ہے اتنا اچانک چلا گیا وہ اتنا ڈھیٹ تھا وہ ۔"
"مہر آخری ٹائیم اس سے تم کب ملی تھی ۔"
فارس کی بات پہ اس نے سر آٹھایا اور اس نے ناسمجھی سے دیکھا 
"کیا مطلب ؟"
"مطلب یہ کے اس کی فلائٹ سنڈئے تھی وہ فرائی ڈئے کو ہی کیوں چلا گیا ۔"
آب اس کے کہنے پر مہر کے ماتھے پر بل اگئے 
"کیا مطلب ہے تمھارا مجھے کیا پتا وہ مجھے بتا کر تھوڑی گیا تھا اور پلیز فارس شان سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے اسے ریلییٹٹ میں بات نہیں کرنا چاہتی خیر کیا لو گئے چائے یا کافی !! 
فارس اسے گہری نظروں سے دیکھتا رہا پھر بولا 
"مہر اگر تمھیں شان نہیں پسند تو میں تمھیں کیسا لگتا ہوں ۔"
فارس کی بات پہ اس جھٹکا لگا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ اسلام آباد 
مہر کچن سے جوس کا گلاس لیکر باہر نکلی جب کسی سے ٹکرائی اور اس کا گلاس زور سے گرا زاویار جو ٹیبل صاف کررہا تھا ایک دم مڑا دیکھا حازق تھا جو مہر سے ٹکرایا تھا 
"اُف لٹل پرنسس تمھیں چوٹ تو نہیں لگی ۔"
اس نے جھک کر مہر کا چہرہ تھاما اور اس پہ ہاتھ پھیرا کیونکہ اس ذلیل کو جو موقع مل گیا تھا زوایار کو بے حد عجیب لگا اس کا رویہ 
"میں ٹھیک ہوں حازق بھائی !! "
مہر نے اس کا ہاتھ ہٹایا اور اس گند کو دیکھنے لگی وہ مڑنے لگی 
"یار مہر کہاں جارہی ہوں میں تم سے ملنے آیا ہوں ۔"
مہر نے دیکھا زاویار انھیں گھور رہا تھا اسے بے حد خوشی ہوئی کے وہ جیلس ہوا جیسے وہ اسے اور جوریہ کو دیکھ ہوئی تھی 
"ٹھیک ہے میں چلتی ہوں آپ میرے دوست ہے نا حازق بھایا ۔"
مہر کے کہنے پر حازق کو حیرت ہوئی اور زاویار کو دل میں عجیب سی ٹھیس ہوئی حازق کے چہرے پہ شیطانی مسکرائٹ اگئی
اس نے مہر کا ہاتھ پکڑا "کیوں نہیں میری ڈول آپ تو میری سب سے خاص دوست ہیں ۔"
وہ جانے کفیے جب مہر نے اسے روکا اور مڑ کر بولی 
"یہ تم صاف کرو گئے سمجھے !!!!! "
وہ زاویار کو اونچی آواز میں بولی زاویار نے سر اُٹھایا 
وہ بولی تو اسے غصے سے تھی لیکن اس کی ٹھوڑی کیوں ہل رہی تھی زاویار کو حیرت ہوئی کیونکہ وہ تب ہلتی تھی جب اسے بہت رونا آتا تھا تو وہ کیا اپنے انسو روک رہی تھی 
"سُنا نہیں میری چھوٹی سی ڈول نے کیا کہا ہے ۔"
حازق نے رب ڈال کر کہا زاویار نے ضبط کیا اور بولا 
"جی میم کردو گا ۔"
مہر تیزی سے وہاں سے نکل گئی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : گلگت بلتستان 
زاویار کمرئے کا دروازہ کھولنے لگا تو دیکھا لاکڈ تھا 
اس نے دستک دیں 
"مہر !!"
"مہر دروازہ کھولوں ۔"
"مہر پلیز کھولوں ورنہ میں توڑ دو گا دروازہ۔ ۔"
"مہر !! "
وہ توڑنے کے لیے پھیچے ہوکے اگئے ہونے لگا اور دھکا دینے لگا کے اسی پل مہر نے دروازہ کھولا
اور وہ مہر سے ٹکرا کر نیچے گرا 
"اُف اللّٰلہ !! "
مہر کا اتنی زور سے نہیں لگی تھی کیونکہ پھیچے کارپٹ تھا لیکن زاویار کا بھاری بھرکم وجود نے اس کی جان نکال دیا 
"کمرہ کیوں بند کیا تھا میں توڑنے والا تھا ۔زاویار نے خود کو سنبھالا 
"تمھیں سی ائی ڈی کا دایا بنے کو بہت شوق ہے جو دروازے توڑنے لگے تھے اُف اُٹھوں بھی گینڈئے ۔"
اس نے زاویار کو پُش کیا لیکن زاویار نے اسے دیکھا تو دیکھتا رہ گیا اس نے اس کی لائی ہوئی کاٹن کی پیرٹ گرین قمیض جس کی صیح فٹنگ بھی ہوئی تھی اور مہر کے بال نہانے سے گیلے تھے وہ محیوت سے اسے دیکھنے لگا مہر ایک دم سُرخ ہوگئی 
"آب اٹھوں گئے بھی تم گینڈئے !!"
اس نے بےحد کنفیوزڈ ہوکے تیزی سے کہا 
زاویار نے اسے گھورا اور مزید جھک کر اسے کہا۔ 
"کسے گینڈا ہے کہا تم نے اب دیکھوں مجھے کون اٹھاتا ہے ۔"
زاویار اب اس کے چہرے کے قریب ہوگیا مہر کی دل کی دھڑکن تیز ہوگئی 
اس نے گھبراتے ہوئے زاویار کے سینے پہ ہاتھ رکھا اور زور لگانے لگی 
"پلیز اُٹھ جاوں !!"
زاویار کے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ تھی 
"واہ دا کنفیڈنٹ اور جنگلی بلی میرے سے کنفیوزڈ ہوگئی کیا بات ہے زاویار آپ کی آپ واقی لوگوں کو اپنے سحر میں طاری کر لیتے ہیں ۔"
آج زاویار کا لہجہ ہی بدل گیا اس نے مہر کو مڑا ہوا منہ اس کی طرف کیا مہر نے اپنی انکھیں بند کر لی اتنی ٹھنڈ کے باوجود ماتھے پہ پسینے اگیا زاویار نے اس کی چمکتی ہوئی پیشانی دیکھی اس سے رہا نا گیا اس نے پہلی بار ماتھے پہ پیار بھرا بوسہ دیا مہر کو لگا اس پل اس کی جان نکل جائیں گی اس لگا اس کی سانسیں رُک جائیں گی کیونکہ یہ احترام اور محبت سے بھرا بوسہ تھا 
مہر نے اس کی جیکٹ کے کالر پکڑ لیے اس سے پہلے زاویار سے اور بے اختیار ہوتی وہ ایک دم فون کی بیل پہ وہ ہوش میں آیا تھا 
وہ ایک دم اُٹھا مہر نے پٹ سے انکھیں کھولی 
اس نے نکلا اور ایک دم الرٹ ہوگیا کیونکہ یہ کال لقمان حمید کی کال تھی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن: لاہور پاکستان 
"آج تو شاہ صاحب آرہے ہیں مجھے خوب خاطر داری کرنی ہے ارے ندرت ارے ندرت کدھر ہوں جلدی سے سلاد کاٹ دو ارے یہ لڑکی کہاں ہے ندرت ندرت !!!"
پارو نے میجیر شاہ کے پسندیدہ گلاب جامن اور پیشاوری نان بنا رہی تھی ساتھ میں اس نے بہاری کبابوں کو تلنے کے لیے تیل فرائی پین میں ڈالے اور ندرت کو آواز دی 
"اُف شاہ نے آجانا ہے کسی بھی وقت اور کھانا وقت پہ نہ ملا تو بہت سُنے کو ملے گا ۔"
"بی بی جی ہٹیے آپ تیار ہوئے شاہ صاحب اگئیں گئے تو آپ کو اس حالت میں دیکھ کر ان کا منہ بگڑ جائیں گا ۔"
"بہت شکریہ کہاں مری ہوئی تھی اتنا سارا کام کر لیا ہے میں نے اور مہارانی صاحبہ ڈرامہ دیکھ رہی ہوگی ۔"
"آپ کو نہیں پتا باجی اتنا زبردست کہانی تھی کے کیا بتاوں ۔"
"آب ڈرامہ کو چھوڑ کر تم نے ناولز پڑھنا شروع کردئے ۔"
"باجی آپ کی کلکیشن سے نکالا ہے میں نے ۔"
پارو نے ایک دم مڑ کر اسے خشمگیں نظروں سے گھورا 
"ندوں کی بچی !! کس سے پوچھے میری لائبریری گئی ۔"
"ہو باجی پہلے کہہ رہی تھی میجیر صاحب کتنے سخت ہے اپنی کتابیں ہاتھ نہیں لگانے دیتے میں ہوتی تو کھل کر پڑھنے دیتی سب کو اور اب آپ ایسی باتیں کررہی ہیں ۔"
پارو نے اسے گھورا اور پھر مڑ گئی 
"اچھا کون سی کہانی نکالی ۔"
"باجی وہی جس میں ہیرو فوج میں ہوتا ہے اور کسی جنگ میں جاتا ہے اور جب واپس آتا ہے تو ساتھ میں ایک عورت اور ایک بچہ ہوتا تو ہیروین جو خوشی سے اس کے استقبال کے لیے جاتی ہے تو ان کو دیکھ کر بے ہوش ہوکر گر جاتی ہے ۔"
"یہ بیکار کہانی ابھی تک پڑی ہے میں پھینکنا بھول گئی ۔"
ڈور بیل کی آواز پہ پارو نے کباب نکالے 
"اور ہاتھ ڈوپٹے سے صاف کرتیں ہوئے بولی 
"تم اس کو دیکھوں میں باہر جاوں میٹھا منگوایا تھا میں نے ۔"
پارو کہتی ہوئی ڈوپٹہ سر پہ ٹکا کر باہر آئی اور دروازہ کھولا اور میجیر شاہ کو دیکھ کر اسے حیرت اور خوشی کا جھٹکا لگا شاہ ہلکے سا مسکرایا لیکن اس کے چہرے پہ پریشانی کے اثار تھے 
"اندر آئے نا آپ !!"
پارو مسکراتے ہوئے بولی وہ اندر داخل ہوا ساتھ میں ایک دس سالا لڑکا اور ایک عورت کو دیکھ کو پارو کو گہرا جھٹکا لگا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوکیشن : شاندراہ ،اسلام آباد 
"ماما میں چاہتی ہوں اس بار میری دھوم دھام سے برتھ ڈئے ہوں !!"
پارسا جو کوئی کتاب پڑھ رہی تھی مہر کے آنے پر اسے اپنے ساتھ بیٹھایا جب مہر بولی پارسا مسکرائی 
"لیکن پارٹی کیوں آپ کو تو زاوی کے ساتھ منانے کا شوق تھا اس کے ساتھ میلہ بھی جائیں گی ۔"
مہر نے منہ بنایا 
"اس کے پاس میں بلکل نہیں جاوں گی اور اس کا نام نہ لیا کریں سخت بُرا لگتا ہے مجھے !"
پارسا نے ایک دم حیرت سے دیکھا اور اس کے ماتھے پہ بل آئے 
"کیوں بُرا لگتا یہ تم زاویار کو کیوں اگنور کرتی ہوں ۔"
"کیونکہ وہ چور باپ کا بیٹا ہے ۔"
مہر نے کہنے میں دیر نہیں کی کے پارسا نے تھپڑ اس کے نرم گالوں پہ جاکے مارا مہر کو جھٹکا لگا 
"کیا کہا تم نے یہ تربیت کی ہے میں نے تمھاری یہ سب سکھایا ہے میں نے ۔"
مہر نم انکھوں اور زرد چہرے سے اپنے ماں کو دیکھنے لگی 
"میرے آپ نے اس کے لیے مجھے مارا ۔"
مہر ہکلاتے ہوئے بولی 
"ہاں اور خبردار تم نے اس کے بارے میں کوئی فضول بات کی نہیں بات کرنی تو مت بات کرو لیکن اس کی ریسپیکٹ میں کوئی کمی نہیں آنی چاہیے ۔"
مہر جلدی سے اُٹھی 
"آپ گندی ہے بہت گندی ہے آپ اس کی مما لگتی ہے میری نہیں !!"
پارسا کی انکھیں ایک دم پھیل گئی وہ اگئے سے کچھ بولتی مہر روتے ہوئے بھاگی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : کینن فرانس 
مہر نے فارس کی بات پہ اسے گھورا 
"فضول بات مت کرو ۔"
فارس ہنس پڑا 
"یار مردوں سے پرابلم کیوں ہے تمھیں ۔"
"مجھے کیوں ہونی ہے میں نے کیا تم سے کہا یا میں ہر بندئے سے لڑتی رہتی ہوں ۔"
"تو مجھ سے شادی کرلو نا ۔"
اس کی بات پہ اسے مزید جھٹکا لگا 
"فارس پلیز سٹاپ جوکنگ ۔"
مہر آب سنجیدگی سے بولی 
"دیکھا دیکھا تمھیں شان سے پرابلم نہیں ہے بلکہ تمھیں ہر ایک سے پرابلم تم کسی سے شادی نہیں کرنا چاہتی ۔"
"تم مجھے سے ملنے آئے ہوں یا میرا انٹرویو لینے ۔"
مہر اب تیزی سے بولی 
"مہر کوئی بات ہوئی ہے شان مجھے بہت اپ سیٹ لگ رہا تھا !"
"تو میں کیا کرو !"
"یار میں بس ۔"
"بس فارس اگر تم نے صرف شان سے ہی ریلیٹٹ بات کرنی ہے تو پلیز تم یہاں سے جاسکتے ہوں ۔"
مہر اب اپنے فائل میں مصروف ہوگئی 
"اچھا اچھا سوری نہیں بات کرتا کافی پینے تو چلوں گی ۔"
مہر نے سر اُٹھایا وہ دوستانہ انداز میں بولا تھا 
"ایک شرط پہ نو پروپوز نو شان !"
فارس ہنس پڑا 
"ڈن !!"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔...................
لوکیشن : گلگت ، بلتستان 
مہر نے زاویار کے ماتھے پہ بل دیکھے لیکن اس سے پوچھا نہیں 
وہ اپنا بس پڑی بلیو شال اُٹھانے لگی جب اس نے زاویار کو باہر نکلتے ہوئے دیکھا اس نے کندھے اچکائے اور شاک اوڑھ کر بیڈ پہ بیٹھ گئی 
"جی بولیے لقمان صاحب !"
زاویار سپاٹ لہجے میں بولا 
"تم دونوں کہاں ہوں مجھے خبر آئی تم دونوں شاندراہ نہیں ائے ایسا کیوں ۔"
وہ بے حد پریشان لگ رہے تھے 
"ایسا کیوں ہہہم بس میرا دل کررہا تھا آپنی بیگم کو ہنی مون کے لیے پاکستان گھمانے ۔"
زاویار کے چہرے پہ تلخ مسکراہٹ آئی 
"شٹ آپ ! تم اس کے شوہر نہیں ہوں وہ فیک کاعذات ہیں تم یہ مت بھول جانا !"
وہ غصے سے بولے 
زاویار کا چہرہ لال ہوگیا 
"تمیز سے مسڑ لقمان صاحب آپ جس سے بات کررہے ہیں وہ آفسر زاویار ہیں آپ کا نوکر زاویار عباس نہیں 
اور آپ بھول رہے اس وقت آپ کی بیٹی میری رحم وکرم میں ہے سو مائنڈ اٹ !"
زاویار کا سخت آفسرانہ لہجے سُن کر لقمان حمید گھبڑا گئے 
"ائیم سوری میں پتا نہیں پریشانی میں بول گیا مائینڈ ہی کر گئے تم ۔"
"مائینڈ کرنا میری نیچر میں بلکل نہیں ہے بٹ سلف ریشپکیٹ مٹرز ٹو می ا لاٹ خیر یہی کہنا ہے آپ نے ۔"
"میری مہر سے بات کرواو !"
"ضروری ہے !"
زاویار بولا 
"ظاہر بیٹی سے بات کرنی ہے مجھے یہ تو بتادوں اس وقت تم کہاں ہوں ۔"
"مہر اس وقت واش روم میں ہے تھوڑی دیر میں نکلتی ہے تو کرواتا ہوں لیکن آپ کا یہ جاننا ضروری نہیں ہے ہم کہاں ہے ۔"
"کیوں ؟"
"یہ آپ کو پتا ہونا چاہیے کے آپ کے اتنے دشمن ہے اور ہماری کال ہوسکتا ہے ٹریس ہورہی ہوں ۔"
اس کی اس بات پہ لقمان حمید چُپ ہوگئی اگر اسے انٹیلیجنٹ افسر بنایا تھا تو بلکل صیح ہی بنایا تھا وہ واقی حد سے زیادہ انٹیلیجنٹ تھا 
"ٹھیک ہے مہر سے بھی بات کروانے کی ضرورت نہیں ہے رکھتا ہوں میری بیٹی کا خیال رکھنا ۔"
"اوکے ! اللّٰلہ حافظ ۔"
وہ مڑا کے مہر سامنے کھڑی تھی ایک منٹ کے لیے تو وہ چُپ ہی ہوگیا لیکن اس کے فیشل اکسپریشن دیکھ کر زاویار نے گہرا سانس لیا 
وہ اگئے بڑھا اور اسے دیکھتے ہوئے بولا 
"چلوں !"
مہر نے اس سوالیہ نظروں سے دیکھا 
"لنچ کریں گئے تمھارے جلے ہوئے کھانا کھانے سے تو رہا ۔"
"تم نے کھبی میرے کھانے ٹرائے کیے ہیں جو آپنے سے لگے ہوئے ہو ۔"
مہر نے تیزی سے کہا 
"ہر وقت محترمہ نے مرچے کیوں چبائی ہوتی ہے ۔"
"زاویار شروع تم کرتے ہوں ۔"
زاویار نے مڑ کر اسے دیکھا اس کے چہرے پہ شرارت سے بھری مسکراہٹ ابھری 
"ہاں جہاں سے شروع کیا تھا وہی سے کنٹنیو کرتے ہیں تو کہاں تھے ہم ۔"
اس نے مہر کی شال پکڑی اور جھٹکے سے اسے کھینچا اور اپنے ساتھ لگایا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ اسلام آباد 
مہر غصے سے روتے ہوئے نیچیے آئی اس نے دیکھا زاویار کرسٹل واز کو صاف کررہا تھا وہ غصے سے آئی اور اس نے اسے دھکا دیا زاویار ایک دم لڑکھڑایا اور جو واز تھا وہ زور سے نیچیے گرا وہ حیرت سے مڑا مہر غصے سے اسے دیکھ رہی تھی 
"تمھاری وجہ سے تمھاری وجہ سے میرے نے مجھے تھپڑ مارا بہت اچھے ہوں نا تم تو ایک اچھا کام کرو گیٹ آوٹ فرام ہیر !!!"
وہ چیخی ساتھ میں اس کے انکھوں میں انسو آنے لگے 
زاویار بلکل خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا 
‏You ugly duckling , stupid black cat
‏Big Buffaloes 
‏Awful animal 
‏Nasty 
‏Nauseous 
‏I hate you Zaviar 
‏The ugliest man on earth 
وہ اسے جتنا بے عزت کرسکتی تھی اس نے کیا جب کے زاویار کا چہرہ بلکل سپاٹ تھا اور اس نے کوئی ریسپونڈ نہیں کیا نا رویا نہ بھاگا نہ چلایا نہ پریشان ہوا بس چُپ چاپ سُنتا جارہا تھا 
ایک دم پرسا نیچیے ائی اور اس نے مہر کو زاویار پہ چلاتے ہوئے دیکھا زاویار نے انھیں دیکھا اور پھر اشارے سے انھیں روکا وہ جو مہر کی طرف لپکنے والی تھی 
پارسا چونکی اور وہ مڑی دیکھا لقمان حمید کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ تھی اور وہ بے حد خوشی سے مہر کو زاویار سے بے عزت ہونا دیکھ رہے تھے 
پارسا کو بے حد غصہ آیا دل کیا ان باپ بیٹی کو تہس نہس کردیں جو اس کے زاویار کو بُری طرح توڑ رہے تھے 
"زاوی تم جاوں یہاں سے !"
پارسا حکم لہجے میں بولی زاویار نے ایک منٹ نہیں لگایا کے وہاں سے جانے لگا 
کے مہر بدتمیزی سے بولی 
"یہ تمھارا باپ صاف کریں گا اسے صاف کرو ۔"
پارسا نے جھٹکے سے مہر کو دیکھا لقمان حمید ہنس پڑیں 
"ائیم پراوڈ اُف یو مہر !"
وہ کہہ کر چل پڑیں 
اور پارسا کو لگا جیسے یہ بے عزتی زاویار کی نہیں دارب کی ہورہی ہے 
"ائی ٹرسٹ یو میری جان !!"
کچھ گونجا تھا اس کے کانوں میں !!
"زاوی جاوں یہاں سے !"
اب کی بار پارسا چلائی اور مہر ڈر کر اچھلی 
زاویار تیزی سے وہاں سے گیا پارسا اس کے پاس آئی 
"یہ تم صاف کرو گی !"
انھوں نے مہر کو دیکھا 
"کیا میں ! نہیں کرو گئ زاویار کی مما !"
مہر کا اتنا کہنے کافی تھا کے پارسا نے زور دار تھپڑ مہر کے اسی گال پہ دوبارہ مارا 
"آئیندہ تم نے اگئے سے بکواس کی مہر تو میں بھول جاوں گی میں تمھاری ماں ہوں سُنا تم نے دفع ہوجاوں یہاں سے ۔"
وہ دھاڑی تھی 
مہر ایک دم روتے ہوئے تیزی سے بھاگی 
"ائیم سوری دارب ائیم رئیلی رئیلی سوری دارب !"
پارسا منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوکیشن : کینن فرانس 
لقمان حمید آفس میں بیٹھے تھے جب انھیں مہر کی کال آئی وہ مصروف تو تھے لیکن مہر کی کال ان کو اٹھانی پڑی 
"ہیلو مہر کیسی رہی اکزیبشن ؟"
مہر دو دن سے اپنی اکزبیشن کے لیے پیرس گئی تھی دو دن انھوں نے مہر سے بات نہیں کی تھی ایک تو وہ خود مصروف تھے اوپر سے وہ زیادہ مہر کے معاملوں میں نہیں پڑتے تھے 
"بابا بابا مجھ پہ اٹیک ہوا ہے !"
لقمان حمید کے چہرے پہ سایہ لہرایا 
"کیا تم تم ٹھیک تو ہو نا کب کیسے ؟"
ان کے لہجے پہ پریشانی تھی 
وہ انھیں سب بتاتی گئی ان کے چہرے پہ پریشانی کی لکیریں بھرتی جارہی ہے 
"ٹھیک ہے تم وہی رہوں میں ابھی ٹرین لیکر وہاں آتا ہوں میری جان پریشان مت ہونا ۔"
انھوں نے اسے تسلی دیں اور پھر غصے سے فون بند کیا 
اور تیزی سے باہر آئے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : لاہور ،پاکستان 
اس نے دس سال کے لڑکے کو دیکھا جو بلکل اپنی ماں کی طرح تھا ہاں ہلکے ہلکے سے نقش اس کے شاہ سے مل رہے تھے یہ دیکھتے ہوئے اس کی انکھوں میں پانی آیا اور اس نے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا 
"آپ ایسا کیسے کرسکتے !"
پارو یک دم چیخ پڑی میجیر شاہ کے اس کے چیخنے پر ماتھے پہ بل اگئے 
"آواز نیچی رکھوں !! "
"آپ بیوی اور ایک عدد بچہ لیے ائے اور میں آواز اونچی بھی نا رکھوں ۔"
شاہ اور اس عورت کا منہ ہکا بکا رہ گیا 
"یہ کیا بکواس کررہی ہوں پارسا !!!"
میجیر دارب چلائے 
"میں بکواس کررہی ہوں شاہ دارب ! یہ عورت اور بچہ کون ہے !!!!"
آج پہلی بار پارسا نے دارب کے نام سے پکارا 
"شاہو ! تم نے اسے میرے بارے میں نہیں بتایا !"
فریحہ نے دارب کو دیکھتے ہوئے کہا 
"او تو اس نے آپ کو بھی نہیں بتایا کے لاہور میں انھوں نے دوسری بیوی رکھی ہے تتت افسوس سدہ کیا کھیل کھیلا ہے آپ نے شاہ دارب مجھے ابھی اسی وقت آپ سے طلاق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے پارسا اگئے سے کچھ بولتی دارب کا بھاری ہاتھ اس کے چہرے پہ پڑا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : گلگت ، بلتستان 
مہر نے گھبڑا کر اسے دیکھا جس کا آج رنگ ہی الگ تھے زاوی اتنا رومینٹک اس نے آج سوچا نہیں تھا وہ اس کے کان کے قریب جھکا اور پھر بولا 
"تم اس ڈریس میں بہت موٹی کے ساتھ طوطا لگ رہی ہوں ۔"
زاویار کے شرارتی لہجے پہ اس کی دل کی دھڑکن تیزی کے بجائے ایک دم نارمل ہوگئی اور اس کا چہرہ غصے سے لال ہوگیا 
"ہاں مجھے آب مہر کے بجائے تمھیں طوطی کہنا چاہیے ہر وقت ٹر ٹر ٹر ۔"
زاویار ہنستے ہوئے کہنے لگا مہر کا چہرہ دھوا دھوا ہوگیا اس نے کُشن اٹھایا اور اسے مارنے لگی 
"میں طوطی اچھا اور تم اس کالے کپڑوں میں کالے کپڑوں میں ۔۔۔"
اسے دماغ میں کوئی ورڈ نہیں سوج رہا تھا کیونکہ وہ واقی بلیک شلوار قمیض کے اوپر بلیک لیدر کی جیکٹ میں ہینڈسم لگ رہا تھا 
"کیا ہوا طوطی ورڈز اٹک گئے ۔"
زاویار ہنستے ہوئے بولا 
"کالے کوئے لگ رہے ہوں !!!! "
وہ اسے کُشن مارتے ہوئے بولی 
"جیلس طوطی !!"
زاویار شرارت سے بولا 
"کالی منہوس بلی ہوں تم !!!"
"ائے بلا ہوتا ہے بلی نہیں ۔"
زاویار روانگی میں کہہ گیا مہر کھلکھلا کر ہنس پڑی 
"ہاں کالا منہوس بلا !!! "
"اچھا بلا ابھی شکار کرتا ہوں طوطی کا ۔"
زاویار اس کے پاس آیا پکڑنے کے لیے وہ بھاگی 
اور پکڑا ہوا کشن اسے مارا زاویار نے کیچ کیا وہ باہر بھاگی وہ بھی پھیچے آیا باہر کافی بڑا لان تھا وہ سڑھیوں سے اتری بارش کی وجہ سے سڑھیاں گیلی تھی وہ پھسلنے لگی کے زاویار نے فورن اسے پکڑا

لوکیشن : گلگت بلتستان ،پاکستان
زاویار نے اسے پکڑا 
"سر پہ گرورے کے بجائے سر پھاڑنا ہے آپنا ۔"
وہ بے اختیار بولا 
"تمھاری وجہ سے ہی ہونا تھا ۔"
مہر اس سے الگ ہوئی زاویار اسے دیکھنا لگا وہ بچپن میں جب اس کے سامنے بلیو شلوار قمیض پہن کر آئی تھی تو بہت پیاری لگ رہی تھی ویسے ہی پیاری وہ آب پیرٹ گرین اور بلیو ڈریس میں لگ رہی تھی پر اسے اس کی تعریف بھی نہیں ہو پارہی تھی اب تو اس نے اسے طوطا اور موٹی کہہ دیا تھا تب ہی محترمہ کا منہ سوجا ہوا تھا اب کسیے تعریف کریں اس نے آج تک کھبی کسی کی تعریف نہیں کی بچپن کی بات اور تھئ 
لیکن اب وہ بلکل بدل گیا تھا اور وہ اپنی عادتوں کے خلاف جانا بہت مشکل ہوگیا تھا شرارتیں خیر کھبی کھبی کر لیتا تھا اپنے گولیگ وغیرہ کے ساتھ اس لیے اتنا مسئلہ نہیں ہوا تھا لیکن تعریف وہ اس کی طرف دیکھنے لگا جو بلکل محیوت پہاڑوں کو دیکھ رہی تھی 
اس کا دل کررہا تھا اس کی کھل کر تعریف کریں اسے اپنی مکمل امادگی سے اپنا لیے ساری رنجش ختم کردیں جو ہوا وہ گزر گیا قصور تو مہر کا کہی سے بھی نہیں تھا خیر اگر تھا بھی تو جانے دیتے ہیں 
"ام مہر ۔۔۔"
مہر نے ایک دم مڑ کر اسے دیکھا 
"کیا ہے !!"
اس نے اسے گھورا 
"وہ تم "
"کیا تم یہی نا کے طوطی اور موٹی لگ رہی ہوں ۔"
مہر نے اپنی انکھیں گھماتے ہوئے کہا 
"جب مجھے پتا ہے تو بتا کیوں رہی ہوں ۔"
زاویار کے منہ سے نکلا 
"ٹھیک ہے خوش ہوں میں اب جاو یہاں سے میرا سر مت کھاؤں ۔"
زاویار کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی 
"کھانے سے یاد آیا او چلوں ۔۔۔"
"میں کہی نہیں جارہی سمجھے !!"
مہر وہی سڑھیوں پہ بیٹھ گئی 
"تم بلکل نہیں بدلی !!!"
وہ اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولا 
"ہاں اور تم بدل گئے ۔"
مہر کے کہنے پر وہ اسے دیکھنے لگا وہ سمجھ گیا تھا وہ کیا کہنا چارہی تھی 
"ہاں زیادہ خوبصورت اور ہینڈسم جو ہوگیا ہوں ۔"
اس نے یہ بات مزاق میں اڑائی 
"بہت خوش فہمی نہیں ہوگئی تمھیں ویسے ۔"
مہر نے اپنے بالوں کو ایک طرف کیے 
زاویار ہنسا 
"کس چیز کی خوش فہمی مجھے ۔۔"
"اپنی خوبصورتی کی ۔"
"خیر کیا نہیں ہونی چاہئے ۔"
زاویار اسے ہی دیکھ رہا تھا 
"خوبصورتی ظاہری خوبصورتی نہیں خوبصورتی اچھے آخلاق ہوتیں ہیں آپ کے اچھائی آپ کو خوبصورت بناتی ہے خوبصورت تم بچپن میں تھے لیکن اب نہیں ۔"
مہر کہہ گئی جو اس کے دل میں تھا وہ زاویار کے سامنے زیادہ دیر کچھ چھپا نہیں سکتی تھی لیکن پتا نہیں کیوں وہ اپنی محبت چھپاتی گئی اس سے لیکن اب جیسے وہ ہار رہی تھی زاویار سے پانج دن بھی نہیں ہوئے اب دونوں کو اور وہ دونؤن ایک دوسرے سے ہارتے جارہے تھے 
"صیح کہہ رہی ہوں تم !!"
زاویار نے تویل خاموشی کے بعد اتنا کہا اور اُٹھ گیا 
اور مہر بلکل خاموشی سے ان پہاڑوں کو دیکھنے لگی 
"چلوں میں کھانا لا رہا ہوں بیکار میں وقت ضائع کیا ۔"
اس کی جنجھلاتی ہوئی آواز پہ مہر کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوکیشن :شاندراہ ،اسلام آباد 
آج مہر کی برتھ ڈئے رکھی گئی تھی وہ اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ رہی تھی سُرخ فراک کے اوپر بڑا سا روز والا بینڈ پہنے وہ واقی کوئی شہزادی لگ رہی تھی پارسا اندر آئی اور اپنی بیٹی کو دیکھنے لگی جو بار بار اپنے آپ کو دیکھ رہی تھی 
وہ اس کے پاس آئ اور گھٹنے بل بیٹھ گی مہر نے انھیں دیکھا اور منہ غصے سے اِدھر کر لیا چار دن ہوگئے تھے مہر نے پارسا کو معاف نہیں کیا تھا 
پارسا نے اپنے کانوں کو پکڑا 
"معاف کردوں اپنی ماما کو !!"
مہر نے انھیں دیکھا اور پھر منہ موڑ لیا 
"میرے سوری کررہی ہے نا مہرو!!"
مہر نے پھر دیکھا وہ منہ بسورے دونوں کانوں کو پکڑے اسے دیکھ رہی تھی 
مہر سے رہ نا گیا اور ان کے دونوں ہاتھ ہٹا کر ان کے ساتھ لگ گئی 
"اٹس اوکے میرے پر آپ نے مجھے بہت زور سے مارا ۔"
پارسا نے نم انکھوں سے ہنستے ہوئے اسے پیار کیا اور بولی 
"ماما اب کھبی نہیں مارے گئ ۔"
"اگر مارا آپ نے تو ۔"
مہر نے سر اٹھایا 
"پھر آپ واقی ماما سے پکی والی ناراض ہوجانا ۔"
مہر ہنس پڑی 
"ایسا تو ہو نہیں سکتا میرے !!"
مہر دوبارہ ان کے ساتھ لگی لقمان حمید اندر داخل ہوئے
"ہوگئی ماں بیٹی میں صلاح ۔۔"
"ہاں ہوگئی اور مہر کئ میرے اس کے لیے تحفہ بھی لائی ہیں ابھی لاتی ہوں ۔"
پارسا اُٹھ گئی اور الماری کی طرف بڑھی اس نے ایک پیکٹ نکالا اور اسے پکڑایا 
"تھینک یو میرے !!!"
مہر نے خوشی سے لیا اور کھولنے لگی 
"ابھی نہیں ۔"
پارسا نے کہا 
"کیوں ۔۔"
مہر نے سر اُٹھایا 
"بعد میں ابھی اسے رکھ دو جب پارٹی ختم ہوجائیں گی تب کھولنا ۔"
جب لقمان حمید چل پڑئے تب انھوں نے اسے کہا ۔
مہر نے سر ہلایا اور اپنے قریب ٹیبل پہ رکھ دیا 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :گلگت ، بلتستان 
مہر بور ہورہی تھی اس لیے اندر اگئی اور اس گھر کو اب دیکھنے لگی یہ گھر شان کا ہے جو اس کے پھیچئے دیوانہ تھا اس کو پاگلوں کی طرح چاہنے والا ایک دم جیسے غائب ہی ہوگیا اس نے سامنے پڑی اس تصویر کے علاوہ اور کوئی تصویر نہیں دیکھی تھی جب تک زاویار نہیں آتا اسے تھوڑا تجسس ہوا 
وہ دوبارہ سڑھیوں پہ اوپر آئی اوپر صرف تین کمرئے تھے ایک کھلا تھا جو ان دونوں کا کمرہ تھا دوسرا اس نے ابھی دیکھا نہیں تھا ایک اس نے کھولا دیکھا لائبریری تھی وہ اندر اس نے دیکھا وہاں ساری تصویریں شان کی ہی تھی کہی کہی جگہ میڈلز وغیرہ پڑیں ہوئے تھے کہی ایوارڈز کہی شیلڈ اس نے دیکھا سامنے ایک ہی بڑی فوٹو تھی اس میں وہ کلین شیو میں تھا 
"جب تم مجھے کلین شیو میں دیکھوں گی تو میری دیوانی ہوجاو گی ۔"
اس فوٹو میں بے انتہا خوبصورت لگ رہا تھا وہ اس کے قریب جانے لگی اور اسے دیکھنے لگی 
اس کے گولڈن بال اور ہری انکھوں میں وہ کسی ہالی وڈ ہیرو سے کم نہیں لگ رہا تھا پھر بے اختیار اس کی نظر سامنے ایک ٹیبل پہ پڑی سامنے دو تین تصویروں کے ساتھ ایک ڈائری پڑی ہوئی تھی اس نے اگئے جاکے دیکھنے لگی جب کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا 
اس نے دیکھا زاویار کھڑا تھا

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page