
میرا رکھوالا - مصنفہ: ثمرین شاہ
قسط نمبر چھ
لوکیشن : شاندراہ ، اسلام آباد
حمید پیلس کو روشنی سے سجایا گیا تھا ، مہمانوں کی امد بڑھ چکی تھی مہر کئ گیارویں سالگرہ پہ اس کی فیورٹ ڈیزنی تھم رکھی ہوئی تھی وہ ہنستے مسکراتے ہوئے سب سے مل رہی تھی وہ بلکل فیک کررہی تھی یہ صرف دور بنا ویٹر زاویار ہی سمجھ سکتا تھ
مہر کی نظریں زاویار کو ہی تلاش کررہی تھی لیکن وہ اسے کہی نہیں نظر آیا
کسی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا
اس نے مڑ کر دیکھا حازق کھڑا تھا
"مائی یو لُک سو پریٹی مہر مجھے اندازہ نہیں تھا تم حد دے زیادہ خوبصورت ہوں ۔"
اس کی تعریف کرنے پہ مہر شرما اُٹھی
"ایسے بات نہیں ہے بھایا ۔"
اس کے بھایا کہنے پر حازق کا دل خراب ہوا وہ اگئے سے کچھ بولنے لگی کے پارسا ائی
"کیسے ہوں حازق بیٹا !!"
حازق نے اپنے تاثرات ٹھیک کیے اور جلدی سے بولا
"جی ٹھیک انٹی آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں ۔"
"تھینک یو مہرو تم اِدھر آو میں نے تم سے بات کرنی ہے ۔"
پارسا نے مہر کا ہاتھ پکڑا اور زاویار کو اشارہ کیا
کے وہ اس طرف ائے ۔
زاویار نے سر ہلایا اور جانے لگا جب وہ ٹکرایا دیکھا لقمان حمید تھے
"تم کدھر جارہے ہوں ۔۔۔"
لہجہ بے حد سخت تھا
"وہ وہ ۔۔"
زاویار ایک منٹ کے لیے جیسے گھبڑا گیا
"اُدھر لیکر جاوں وہاں لوگوں کو چاکلیٹس نہیں ملی ۔"
"جی جی ۔۔"
زاویار نے بیچارگی سے منہ بنا لیا اور مڑ گیا
پارسا اسے کمرئے میں لیکر ائی اور بیٹھایا
"کیا ہوا میرے آپ مجھے اِدھر کیوں لیے ائی ."
"تم اِدھر بیٹھوں میں ابھی ائی ٹھیک ہے ۔"
پارسا چلی گئی اس نے دیکھا جب تک زاوی آتا ہے تب تک وہ اپنے کمرئے سے کچھ لے ائے پارسا جیسے کمرئے سے نکلی سب سے پہلے پارٹی کی طرف بڑھی کے زاویار کو بلا سکے پھر وہ اپنے کمرئے کی طرف جائیں گی
حازق نے ان کو جاتے ہوئے دیکھا اور موقع کا فائدہ اُٹھا کر وہ کمرئے کے اندر داخل ہوا اور بند کیا اور ایک دم اس نے لائٹ آف کردی مہر ایک دم ڈر گئی
پارسا نے زاویار کو اشارہ کیا زاویار نے دیکھا اور جلدی سے لقمان حمید کی نظروں سے بچ کر وہ آیا
"تم کمرئے میں جاوں تمھارا گفٹ اِدھر ہی پڑا میں ابھی اوپر سے کچھ لیکر آئی ٹھیک ہے !
زاویار نے سر ہلایا اور چل پڑا
وہ کمرئے کے قریب آیا اسے کچھ ٹوٹنے کی آواز ائی وہ تیزی سے کمرئے کی طرف گیا دیکھا تو لاکڈ وہ اِدھر کشمکش میں کھڑا ہوگیا کے کہی مہر کو پتا تو نہیں چل گیا اس لیے اس نے لاکڈ کیا ہے اس نے دیکھا یہ کھل نہیں رہا تھا سامنے بڑئے سے الماری میں اسے یاد آیا ہمیشہ امیرجینسی کے لیے ڈوپلکٹ چابی رکھتے ہیں وہ دراز کھولنے لگا اور اس نے چابی ڈھونڈئ جب اسے چیخنے کی آواز ائی اب اسے گڑبڑ محسوس ہوئی اس نے جلدی سے چابی نکالی اور دروازہ کھولا
دیکھا اندر اندھیرا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مہر !!"
زاویار کی آواز سُنتے ہوئے حازق گھبڑا گیا جس نے ابھی مہر کے منہ اور انکھوں پہ ہاتھ رکھا تھا اور اسے جھگڑنے کے کوشش کررہا تھا
زاویار نے لائٹس ڈھونڈئ کھولنے لگا کے کسی نے اسے دھکا دیا زاویار نیچے گرا
مہر چیخنے لگی حازق نے کچھ سوچتے ہوئے سیدھا زاویار کے پاس آیا اور زور سے اس کی شرٹ کھینچی جو ہلکی سی چیڑ گئی
چیخ کر وہ دروازہ کھولنے کے لیے بھاگی اور نکل گئی پارسا جو نیچے اُتر گئی اسے روتا ہوا دیکھنے لگی اور اس کی عجیب حالت پہ جلدی سے بھاگی
"مہر !! ۔"
وہ پیکٹ گرا کر فورن نیچے بھاگی
مہر روتے ہوئے اس طرف جارہی تھی کے پارسا نے اسے پکڑا
"مہرو مہرو کیا ہوا ہے ۔"
اس کے الجھے بال اور سلیوس کے سٹریپ نیچے ہوئے وئے انکھوں میں انسو کے ساتھ وحشت
"میرے میرے وہ ۔۔"
ایک دم دروازہ کھلا اور حازق زاویار کو گھسیٹتے ہوئے لایا اس نے دیکھا زاویار کا چہرہ لال ہوا تھا اس کی بھی حالت عجیب ہوئی وی تھی پارسا کا جیسے دل بند ہوگیا
"دیکھے انٹی اس خبیث انسان مہر کے ساتھ کیا کرنے والا تھا وہ تو شکر ہے اللّٰلہ کا میں گزرا تو مجھے کچھ ٹوٹنے کی آواز ائی اور میں وقت پہ اگیا تمھیں زرا بھی شرم نہیں کمینے ۔"
اس نے زور دار تھپڑ زاویار کے منہ پہ مارا پارسا کو لگا جیسے اسے تھپڑ مارا ہوں
مہر کی انکھیں پھٹ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن گلگت ،بلتستان
"تم یہاں کیا کررہی ہوں ۔"
مہر نے ایک دم گھبڑا کر اسے دیکھا وہ گھور رہا تھا
"میں میں ایسی ہی گھر دیکھ رہی تھی ۔"
"گھر دیکھ رہی تھی یا جاسوسی کررہی تھی ۔"
زاویار کی بات پہ اس کی ایک دم بولتی بند ہوگئی
"جاسوسی کیوں بھالا میں دیکھ رہی تھی لائبریری ہے بُکس دیکھو۔"
مہر نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور ایک شلف سے Thomas hardy کی بُک نکالی اور اسے ایسے ہی دیکھنے لگی
"تو پھر تمھاری انکھیں اس ڈائری پہ کیوں مرکوز تھی ۔"
زاویار کی بات پہ اس نے دانت پیسے
"آلو ہر جگہ پہ اس کی نظر ہوتی ہے ۔"
"ایسے کوئی بات نہیں کیا ہوگیا ہے نہیں اسکتی اگر اتنا ہی پروایٹ ہے تمھارے دوست کا گھر تو لاک کرتیں ۔"
"بُکس پڑھ سکتی ہو لیکن کسی کے پرسنل چیزیں دیکھنا بُری بات ہے ۔"
"اوکے ماسڑ جی !!"
مہر نے بچپن کی طرح اسے ہاتھ جوڑتے ہوئے ماسڑ جی کہا تو زاویار کو ہنسی آئی لیکن خود پہ ضبط کرتا ہوا بولا
"ایون مجھے بھی نہیں انڑسٹ یہاں پر فضول آدمی کی چیزیں ہیں ۔"
مہر بُکس رکھتے ہوئے بولی ساتھ میں اپنی زبان پہ دانت رکھا
"مہر کی بچی ستیاناس جائیں تیرا ۔"
"اکسکیوزمی !! اس نے تمھارا کیا بگارا ہے جو تم اسے فضول آدمی کہہ رہی ہوں ۔"
زوایار ماتھے پہ بل ڈالتے ہوئے بولا
"اب ببب تم فضول ہوں تو تمھارے دوست بھی فضول ہوئے ۔"
مہر کہتے ہوئے چل پڑی اور زاویار اسے دیکھ کر دوبارہ
شان کی تصویر کی طرف مڑا اس کی ہری انکھوں کو دیکھ کر زاویار نے پل کے لیے دیکھتا رہا پھر سر جھٹک کر دروازہ بند کر چکا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارسا اس سے پہلے اُٹھتی لقمان حمید جو فون کرنے کے لیے اس طرف آئے چونکے اور اس طرف فورن پہنچے جہاں حازق زاویار کو مار رہا تھا، زاویار اُٹھنے لگا اسے اٹیک کرنے لیکن حازق نے اس کے منہ پہ تھپڑ مارا مہر اکیشُ لیتے لیکن وہ زاویار کی خاموش پہ حیران ہوئی جبکہ پارسا گُم سُم
"کیا ہورہا ہے یہاں ۔"
لقمان حمید کی گرجدار آواز پہ صرف حازق نے سر اُٹھایا جبکہ مہر اور پارسا سکتے میں تھی
"انکل اس خبیث نے میں آپ کو بتاتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے یہ کمینہ مہر کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانے لگا تھا ۔"
پارسا تڑپ کر اُٹھی جبکہ لقمان حمید کا چہرہ فق ہوگیا
"نہیں نہیں ایسا نہیں ہے یہ جھوٹ ہے میرا بچہ ایسا نہیں ہے ۔"
پارسا نے ساکت ہوئے زاویار کو اپنے ساتھ لگایا
"زاویار منہ سے کچھ بولوں انھیں بتاو کچھ بولتے کیوں نہیں ہوں ۔"
زاویار کی نگاہیں جھکی ہوئی تھی لقمان حمید غصے سے ائی انھوں نے پارسا کو کھنیچ کر الگ کیا اور ایک لات زاویار کے منہ پہ ماری پارسا تڑپ کر اُٹھی
"لقمان نہیں نہیں لقمان ۔"
"نمک حرام خور تو تو اپنے باپ سے بھی بڑا لٹیرا نکلا اس نے تو میری گاڑی چوری کی تھی اور تو میری بیٹی کی عزت لوٹنے لگا تھا کُتے !!!"
زاویار چُپ چاپ مار کھاتا رہے گا
"نہیں زاوی ایسا نہیں ہے لقمان جھوٹ بول رہا ہے یہ ۔"
لقمان نے پارسا کو دھکا دیا
"بکواس بند کرو اپنی تمھاری وجہ سے میں نے اسے رکھا دیکھ لیا نتیجہ ۔"
"میں نے کہا نا زاوی ایسا نہیں ہے ۔"
لقمان نے اسے ایک تھپڑ لگایا
مہر نیچے گر کر بے ہوش ہوگئی اور حازق نے یہاں سے بھاگنے میں ہی آفیت جانی
"تمھیں تو میں دیکھتا ہوں پہلے اسے تو نکالوں ۔"
انھوں نے زاویار کے بال کھینچے اور اسے گھسیٹا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : گلگت بلتستان ،پاکستان
مہر نیچے ائی اس نے دیکھا تو لفافے پڑئے ہوئے تھا ایک میں دو نان تھے جبکہ دوسرے میں باربی کیو اس کی خوشبو سے اس کی بھوک بھی چمک اُٹھی ساتھ میں اس کا دماغ اس کے دماغ میں کچھ آیا
"میں مرچے چباتی ہونا زاویار عباس ابھی بتاو گی میں تمھیں ۔"
مہر نے جلدی سے ایک پلیٹ نکالی اور اور اپنا ڈال کر اس نے ایک سائڈ میں رکھا اور کچھ تلاش کیا اس نے دیکھا ہاٹ ساس کے ساتھ ایک چلی پاوڈر تھی اس نے جلدی اٹھا کر ڈالا اور اسے لفافے کے اندر مکس کرنے لگی تب اسے سڑھیوں کی نیچے اتُرنے والی کی آواز ائی وہ جلدی سے سنگ کی طرف بڑھی اپنے ہاتھ دھونے زاویار آیا
"او تو لوگوں نے اپنا کھانا پہلے ڈال دیا ہے ۔"
مہر نے اپنی مسکراہٹ دبائی
"کھانا ڈھنڈا کر کے کھاتی تم پتا نہیں کہا چلے گئے تھے ۔"
"یہ تم ہنس کیوں رہی ہوں ۔"
مہر نے ایک دم سر اُٹھایا اور حیرت سے اسے دیکھا
"ککک کہاں ہنس رہی ہوں ۔"
"تو بار بار تمھاری ہنٹوں میں کیچائی کیوں ہورہی ہے ۔"
"اللّٰلہ یہ اس نے اپنے دوست والی کوالٹی اپنائی ۔"
مہر دل میں بولی اور اسے دیکھا جو خود پلیٹ میں اپنا کھانا ڈال رہا تھا
"تم الٹا سوچتے ہوں مجھے کوئی ہنسی نہیں آرہی ۔"
مہر کھانا اُٹھا کر صوفے کی طرف اگئے
"تمیز دار لوگ ڈائینگ ٹیبل پہ بیٹھ کے کھانا کھاتے ہیں ۔"
زاویار چیر پہ بیٹھتے ہوئے بولا
"لیکن میں نے بہت سے بڑئے بڑئے بدتمیزوں کو دیکھا ہے بیٹھتے ہوئے ان کا کیا کہوں گئے ۔"
اس نے شان کی سامنے پڑی تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا
"پتا نہیں کیا کہتی ہوں بہر حال کیا میں اچھا لگ رہا ہوں کھاتے ہوئے اکیلے ۔"
"اکیلے کہاں ہو تم بیٹھی ہونا میں !!"
مہر نے پانی کا گلاس اُٹھایا
"ٹی وی دیکھ رہی ہوں ؟"
زاویار کی بات پہ اس نے مڑ کر دیکھا اس نے دیکھا ابھی تک اس نے اسٹارٹ نہیں کیا وہ ہاتھ دونوں میں قید کیے بیٹھا ہوا اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا مہر نے گہرا سانس لیکر اُٹھی اور اس کے ساتھ والے چیر پہ بیٹھ گئی
"خوش !!"
زاویار نے اسے گہری نظروں سے دیکھا جو اس کی پلیٹ پر گائے بگائے نظر رکھ رہی تھئ
زاویار نے اپنی پلیٹ اس کی طرف کی مہر نے ایک دم سر اُٹھایا
"وہ تم اتنی ندیدوں کی طرح میری پلیٹ پہ نظر رکھ رہی ہوں اس لیے سوچا تم ہی کھا لو۔"
مہر کو ایک دم گھبڑاہٹ ہوئی
"نہیں !! میں دیکھ رہی تھی میں نے آدھا کمپلیٹ بھی کردیا ہے تم نے ابھی تک کھایا نہیں ۔"
"آہا ٹھیک ۔"
زاویار نے سر ہلا کر کھانا شروع کردیا مہر کو بڑی ہنسی آرہی تھی
"اُف ایک تو مرچے بھی تھوڑی زیادہ ڈالتی کے ایک نوالے پہ ہی اس کی چیخے نکل پڑتی ۔۔"
زاویار نے اس میں پہلے کی بانسبت تیز مرچے محسوس اور حد سے زیادہ محسوس کی اس نے مہر کی طرف دیکھا جس کی دبی دبی مسکراہٹ نے سارا کھیل بتادیا
"او تو محترمہ کی حرکت ہے یہ مہر بی بی میں اس سے بھی زیادہ تیز نمک سے بڑھے کھانا کھا چکا ہوں ، قیدی بن کر اس سے زبان کو جلا دینے والے کھانے بھی کھائے ہیں یہ ت کچھ بھی نہیں ہیں ۔"
زاویار کو آرام سے کھاتا ہوا دیکھ کر مہر نے ایک دم جھٹکے سے سر اُٹھاتے ہوئے دیکھا زاویار نے بھی
"کیا ہوا ؟"
ہائے اس منہوس کو اثر نہیں ہوا کتنے مزئے سے کھا رہا ہے !!
وہ دل میں سوچتے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگی اس کا تو نوالہ ہی اٹک گیا اور وہ کھانسنے لگی
زاویار نے گلاس کا پانی اسے پکڑایا
"ویسے مرچے تو میرے کھانے میں تھی لگی آپ کو کیوں او ہاں یاد آیا آپ روز چباتی جو ہیں ۔"
زاویار کی شرارتی لہجے پہ اس کا دل گیا گلاس اُٹھا کر سر پہ مارے
"تمھیں تو دیکھ لو گی میں اس گھر میں سکون کو ترسوں گئے ۔"
مہر بڑبڑاتے ہوئے اُٹھ پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ آسلام آباد
پارسا بھاگی وہ زاویار کو خود سے الگ نہیں کرسکتی برسوں سے اس نے سوچا وہ اِدھر ہے تو محفوظ رہے گا لیکن وہ بھول گئی تھی دُشمن تو ہر جگہ موجود ہوتیں ہیں اور سب سے بڑا دُشمن تو اِدھر ہی تھا
"لقمان چھوڑیں اسے خدارا چھوڑ دیں اسے ۔"
"کمینہ ذلیل انسان کو میں چھوڑ دو ۔"
انھوں نے اسے گھسیٹا جو زخمی حالت میں نیم بے ہوشی میں چلا گیا
"لقمان پلیز چھوڑیں اسے ۔"
پارسا نے پوری طاقت لگائی وہ دوسری طرف سے اسے لیکر گئے اور اسے زمین پہ گرایا
اور سکیورٹی کو بلوایا بے نے نے ایک دم دیکھا تو بھاگتے ہوئے آئی
"یہ کیا کیا آپ نے زاوی زاوی انکھیں کھولو میرے بچے ۔"
"اپنے اسے حرام زادئے بیٹے کو یہاں سے دو منٹ میں دفعہ ہوجا ورنہ کُتوں کے کھانے کے لیے تیار رہنا ۔"
وہ دھاڑ کر مڑا جبکہ پارسا جلدی ان کی طرف بھاگی کے لقمان نے اس کا بازو پکڑا
"تم تو اندر چلوں ۔"
انھوں نے پارسا کو پکڑا اور اسے گھسیٹا
"چھوڑوں مجھے لقمان چھوڑیں ۔"
پارسا نے پوری جان لگائی لیکن لقمان کی گرفت سخت تھی
"مجھے زاوی کی پاس جانا خدارا پلیز میں دارب کو کیا منہ دکھاؤں گی چھوڑیں پلیز !!!"
اس نے دل میں کہا اور خود کو بار بار چھڑوارہی تھی
لقمان نے اسے کمرئے میں لیے گئے
"جب تک تمھارا زاوی کا بھوت نہیں ختم ہوجاتا تب تک اسی کمرئے میں رہوں گی اور تمھیں شرم آنی چاہیے جو بیٹی کی کوئی فکر نہیں ہے ۔"
وہ کہہ کر دروازہ بند کر گیا
پارسا سر تھام کر رونے لگی لیکن روتے روتے بجلی کی تیزی سے زور دار کچھ آیا
"ہاں میرے دماغ میں کیوں نہیں آیا آب اسے اپنے کی ضرورت ہے اسے آب سہارے کی ضرورت وہ اسی کے پاس جائیں گا وہی اس کا اصل مقام ہے ۔"
اس نے جلدی سے دیکھا اس کا فون سامنے پڑا تھا اس نے اُٹھایا اور کال ملانے لگی دو منٹ بعد ہی کال مل چکی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : گلگت بلتستان ،پاکستان
وہ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی جب بیل کی آواز پہ اس نے دیکھا رات کے دس بجے تھے زاویار کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا
جبکہ مہر بور انداز میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی اسے کچھ نہیں ملا تھا بس شان کی تصویروں چیزیں اور کچھ ڈوکیمنٹس اسے ایسے چیز نہیں ملی تھی جو شان اور زاویار کا کچھ پتا چل سکتا اوپر سے صاحب نے اوپر کے کمرئے ہی لاکڈ کردیں ضرور اس ڈائری میں کچھ ہے جس سے پتا چل سکے وہ واقی اس سے محبت کرتا تھا یا فلرٹ ہی تھا فلرٹ ہی ہوگا وہ انھیں سوچ میں گُم تھی جن دروازے پہ دستک ہوئی
ہاں اگیا پتا نہیں کدھر چلا گیا تھا ، تم گلگت گھومنے آئے ہوں یا میری حفاظت کرنے ۔۔"
ایک دم اس کی بولتی بند ہوگئی جب ایک ہنستی مسکراتی لڑکی اس کے ساتھ تھی
ہلیو اسلام و علیکم آپ مہر ہے نا !"
اس کے کہنے پر مہر نے تیزی سے زاویار کو دیکھا اور زاویار نے اس کی نظروں کا مفہوم سمجھ لیا تھا اسے ہنسی آئی لیکن سنجیدگی سے کہتے ہوئے بولا
"مہر یہ ہالے نور ہیں اور ہالے نور یہ میری دشمن ائی مین بیوی مہر ۔"
مہر نے اپنی گھوری جاری رکھی
"زاویار نام سے زیادہ بتانا پسند فرماو گئے یہ ہالے نور کون ہے ؟"
اس کی تیز آواز پہ زاویار نے اسے گھورا کے تمیز سے
"میں آپ لوگوں کی نیبر ہوں اور زاویار اور شان کئ بہت ہی کلوز فرینڈ ۔"
اچھا تو مردوں پہ ڈورے ڈالے ہیں اس کمینی نے
مہر نے دل میں سوچتے ہوئے اسے دیکھا
"اندر آو نا ہم ٹھنڈ میں کیوں کھڑئے ہیں یہاں ہٹو مہ
مہر نے اسے گھورا جبکہ زاویار ہالے کو اندر کے آیا
مہر نے زوردار انداز میں دروازہ بند کیا زاویار مڑا اور اسے گھورا لیکن مہر اسے اگنور کر کے اگئے چل پڑی
اور صوفے پہ بیٹھی اس نے سامنے پڑی شان کی فوٹو دیکھی اور مسکرائی اور زاویار کو بھی دیکھ کر مسکرائی مہر الجھن میں مبطلہ ہوگئی وہ ان دونوں کو ایسے کیوں دیکھ رہی ہے ۔
"بیٹھ جاوں زاوی !! "
ہالے نور نے زاویار کو کھڑئے دیکھتے ہوئے کہا اور مہر نے دیکھا زاویار ہالے کو ہی دیکھ رہا ہے اور مہر کو یہ سب دیکھنا اور سُنا تن بدن میں آگ لگا دیں
"زاوی نہیں زاویار نام ہے ان کا ۔"
مہر گلے کو کنکھار کر بولی ہالے نور اور زاویار نے مہر کے اکھڑ لہجے کو دیکھا اور ہالے مسکرائ اور مہر کو اس کا مسکرانے پر جنجھلاہٹ ہوہی
"میں تو زاوی بلاتی ہوں اسے کیوں زاوی تمھیں کوئی اعتراض ہے ۔"
مہر کا دماغ میں شوہلے اُٹھ گئے کوئی کتنے بولڈ انداز میں اس کے شوہر پر ڈورے ڈال رہی تھی وہ بھی اس کے بیوی کی موجودگی میں
"ہاں ہالے کیوں نہیں مہر اُٹھوں ہالے کے لیے کچھ لاو ۔"
"جوتی نا لیے او ۔"
مہر دل میں کہتی ہوہی زاویار کو خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے اُٹھی
"زاوی زاوی شکل ہے اس کی چوہیا جیسا منہ ہے اس کا انکھیں بھی کتنی عجیب سی ہیزل گرین بھلا ایسی ہوتی ہے انکھیں توبہ صاف صاف چڑیل لگ رہی ہے اور زاوی ایسے دیکھ رہا تھا جیسے کوئی پرئ اگئی ہوں توبہ انکھیں نوچ لو اس کی کھبی مجھے ایسے نہیں دیکھا اس نے ہائے شان والی نظریں ہونی چاہئی تھی اس کی کیسی وارفتگی ہوتی تھی اور میں نے اسے منہ نہیں لگایا ۔"
"کیا خود سے باتیں کررہی ہوں کچھ انتظام کرنے کو کہا تھا توبہ ایسی پھوٹر بیوی ملی ہے ۔"
زاویار نے اس کے سائڈ پہ کیا مہر سے چمچ گری وہ جھکی جبکہ وہ دراز سے کافی پیکٹ نکالنے لگا مہر اٹھی تھی کے اس کا گال مہر سے مس ہوگیا مہر کا دل دھڑک اُٹھا گھبراہتے ہوئے اس سے ہاتھ سے چمچ چھوٹ گیا
"کیا کررہی ہوں تم اُف رہنے دو جاوں اسے کمپنی دو میں کچھ کرتا ہوں ۔"
زاویار تاسف سے سر ہلاتے ہوئے جھک کر چمچ اُٹھانے لگا کے مہر جھٹکے سے اُٹھی اس کا سر زاویار کے ہنٹوں پہ جاکے لگا اور بہت ہی زور سے لگا
"اُف !!!!!!!مہر "
"کیوں بار بار میرے سر پہ آرہے ہوں میری کوئی غلطی نہیں ہے سمجھے !!!!
مہر تیزی سے بولی
"نہیں جاوں یہاں سے دو اس کو ٹائیم ۔"
"نہیں دیتی تمھاری مہمان ہے تم دو اس کو ٹائیم ۔"
"ٹھیک ہے پھر اوپر چلی جاوں ۔"
زاویار مڑ کر کافی بنانے لگا
"ہاں تاکے تم لوگوں کو تنہائی مل جائیں ۔"
زاویار ایک دم جھٹکے سے مڑا مہر کا چہرہ سخت لال تھا اور یہ غصے سے تھا
"تنہائی ! ہاں صیح کہہ رہی ہوں ہمیں تنہائی مل جائیں گی کیونکہ بیوی قریب آنے سے تو رہی ۔"
زاویار کی بات پہ اس کا دل ڈوب اُٹھا وہ توقع نہیں کرسکتی تھی وہ اتنا منہ پھٹ نکلے گا اس نے سوچا نہیں تھا بنا سوچے سمجھے وہ تیزی سے آئی اس نے زاویار کی جیکٹ کھینچی زاویار جھٹکے سے مڑا مہر خود کو اونچا کرتے ہوئے ایک گستاخی کر چکی تھی
زاویار کو جھٹکا لگا وہ یہ امید نہیں کرسکتا تھا کے مہر ایسی حرکت کریں گی
مہر نے اس کے گلے میں باہنے ڈالنے لگی کے ہالے نور کی آواز پہ اس نے اسے جھٹکے سے الگ گیا
"زاوی کس تکلف میں پڑ گئیں آو یار چھوڑوں سب پھر میں گھر جاوں سدرہ میرا انتظار کررہی ہوگی ۔"
مہر کو غصہ آیا جس نے ان دونؤں پر مداخلت کی تھی اور سب سے زیادہ اسے زاویار کے جھٹکنے پہ آیا تھا اور اپنی اس حرکت پر بھی اسے سمجھ نہیں آئی تھی
وہ نم انکھوں سے اسے بنا دیکھا تیزی سے وہاں سے گی اور زاویار نے اپنے منہ پہ ہاتھ پھیر کر خود کو کمپوز کیا اور پھر کچھ سوچتے ہوئے ہنس پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کیا ہوا تمھاری بیوی کہاں ہے اور یہ دو کافی کیوں ؟"
ہالے نور نے ان دونوں کی تصویر پکڑی ہوئی تھی زاویار دیکھ چکا تھا اور اس سے لیکر رکھی
"وہ واش روم گئی ہوئی ہے طبیعت نہیں ٹھیک اس کی ۔"
"خیرت ہے کہی باپ تو نہیں بنے والا ۔"
زاویار چھینپ گیا
"پاگل ایسی کوئی بات نہیں ہے وہ تو مجھے خیر چھوڑوں ہاسپٹل میں کام کیسا چل رہا ہے ."
"اُف میں یہاں تم سے ہسپتال کے بارے میں بات کرنے نہیں آئی ہر وقت ہسپتال چڑ ہوتی ہے مجھے اُف خیر دعوت ولیمہ کب کررہے ہوں ۔"
"ہاہاہہاہاہاہہاہاہاہا شادی نہیں ہوئی یار اور تم ولیمے تک پہنچ گئی ۔"
"کیا مطلب مہر تمھاری بیوی نہیں ہے ۔"
ہالے نور نے اسے گھورا
"ہمارا صرف نکاح ہوا ہے بس اس کے اگئے فل سٹاپ ہے !!"
"تم نا زاوی آلو انسان تمھیں تو رومینس بھی نہیں آتا شان سے کچھ سیکھوں رومینس اس سے شروع ہوتا ہے اور اس پہ ہی ختم ہے ۔"
"شان صاحب کی بات ہی الگ ہے ان کا کیا مقابلہ ایسے ایسے اشعار منہ سے نکلتے ہے کے بندہ دنگ رہ جائیں ۔"
"اچھا بس بس ڈرامے باز ویسے بہت افسوس ہے مجھے جہاں شان دیوانہ ہے اِدھر زاوی ایک نمبر کا کھڑوس !! بہت ہی اوپزیٹ یار ۔"
"آب یار شان اور زاوی ایک جیسے تو نہیں ہوسکتے ۔"
وہ ہنس پڑی "ہاں دل ایک ہی ہیں ۔۔۔بس دماغ الگ !!!"
زاویار ہنس پڑا اور کافی کا سپ لینے لگا
"شان والی چیز لاو اور مہر بیچاری کو خوش کرو وہ کیا کوئی بھی لڑکی ہوتی تم سے لڑتی اور جھگڑتے ۔"
"لڑتی وہ ہر بندئے سے ہے کسی ایک کو تو چھوڑا ہوں اس نے ۔"
"اچھا !!!"
مہر کو اوپر ان کی باتوں کے بجائے ہنسنے کی آواز ائی تھی اسے رونا آیا اس نے تکیہ میں منہ دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
"مر جاوں تم برباد ہو جاوں کیڑئے پڑیں مرتے وقت ازدہ سانپ کھا جائے ۔"
وہ دل ہے دل میں اسے بددعا دیں رہی تھی پھر اپنے لب کو چھوتے ہوئے اسے اپنی بے اختیاری پہ غصہ آیا اور تیزی سے واش روم کی طرف گئی اور پانی کے چھینٹے مار ر انھیں رگڑنے لگی
"ڈفر ، ایڈیٹ ، سٹوپڈ !!! "
زاویار ہالے کو چھوڑ کر آیا اور دیکھا خاموشی ہر طرف چھائی ہوئی وی تھی
"کہی بے وقوف لڑکی کہی بھاگ وہاگ تو نہیں گئی ۔"
وہ تیزی سے اوپر گیا اور کمرئے میں پہنچا دیکھا تو سکون بھرا سانس لیا وہ کمبل میں ہی دبکی ہوہی تھی زاویار کے پاس آئیڈیا آیا کچھ سوچتے ہوہے اس نے دراز سے میک سامان دیکھا اور اس میں سے ایک رسٹ لپ سٹک نکالی اور شیشے کی طرف بڑھا اور اس نے اس ساٹیل سے گال پہ لگایا کے واقی کسی کے ہنٹوں کے نیشان لگ رہے تھے اس نے پھر دبی ہوہی قدموں میں جاکے لپ سٹک رکھی اور سیٹی کے دُھن بجاتے ہوئے بیڈ کے دوسری طرف آیا اور جیکٹ اُتاری اور صوفے پہ اچھال کر وہ بیڈ پہ بیٹھا اور گنگنانے لگا
مہر نے کمبل کے اندر اس کو سُنا اور اس کا دماغ آوٹ ہوتا جارہا تھا
"مہر سے زیادہ پیاری ہے اور کیرنگ ہے ہالے اُف بس ایک بار جان چھوٹ جائیں مہر سے پھر ہالے کو اپنی زندگی سے شامل کرو گا ۔"
وہ خود سے کہہ رہا تھا اور اس بات پہ مہر ایک دم اُٹھی
"کیا کہا تم نے !!"
مہر تیزی سے اس پر چھپٹی
"مجھ سے جان چھڑوا کر تم اس ہالے کو پروپوز کرو گئے یاد رکھنا زاویار میں مر بھی جاوں تمھارا کھبی پھیچا نہیں چھوڑوں گی سمجھے تم !!!! ۔"
وہ اس کا گیربان پکڑتے ہوئے دھاڑی انکھیں انسو سے بھری ہوئی تھی پھر اچانک اس کی نظر اس کے گالوں پہ گئی لپ سٹک کے نیشان دیکھ کر اس کا چہرہ سفید ہوگیا مطلب مطلب ہالے نور نے اُف مہر اسے چھوڑتے ہوئے اپنے منہ کو چھپا کر رونے لگی
"تم تم اتنے گھٹیا انسان ہوں زاویار میں سوچ بھی نہیں سکتی بیوی کا چھونا بُرا لگتا ہے اور دوسری عورت کا ۔۔ ائی ریئلیئ ہیٹ یو !!
زاویار کو ہنسی ائی
"ہاں تو تم جو کرتی ہوں ہر چیز جزبات میں تمھارا ہر ایکشن بس چیلنج پہ بیس ہوتا ہے پیار بھی چیلنج کے لیے کرو گی اور نفرت بھی مجھے کیا سمجھا ہوا تم نے جب دل کریں گا تھپڑ ماروں گی جب دل کریں گا مجھے پیار کرو گی واٹ ربش !!"
زاویار کی تیز آواز پہ اس نے سر اُٹھایا وہ غصے سے اسے دیکھ رہا تھا
"او آُٹھوں یہاں سے تمھارا بستر نہیں ہے اور اپنی اکڑ کو ختم کرو تو بہتر ہے میں مزید نہیں برداشت کرسکتا ہر چیز کی حد ہوتی ہے ۔"
زاویار چہرے پہ ناگواری لے آیا
مہر خاموشی سے لیٹ کر کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی
"مہر اُٹھوں !!!"
زاویار نے کمبل ہٹانے لگا مہر نے سختی سے پکڑیں رکھا
"مار کھاو گی میرے بستر سے اُٹھوں ۔"
"یہ تمھارا بستر نہیں ہے !!!
مہر رندھی آواز میں بولی
"میرا دوست میرے بھائی کی طرح ہے اسے میرے لیٹنے پہ بھی نہیں اعتراض نہیں ہوگا ہاں تمھارا ہوسکتا ہے ۔"
"کیوں وہ الٹا خوش ہوگا اس کی گولڈی اس گھر میں موجود ہے۔"
مہر ایک دم بولتے بولتے رہ گئی
"وہ خوش کیوں ہوگا ؟"
زاویار نے اس کا کمبل کھینچا
"پتا نہیں ۔"
"اٹھوں مہر !"
مہر نے تکیہ اُٹھا اور اسے مارنے لگی
زاویار ایک دم پھیچے ہوا اور بیڈ پہ گرا اور مہر کھڑئے ہوکر اسے مارنے لگی
زاویار نے اس کی ٹانگ پکڑی اور اسے فلپ کیا اور اس سے تکیہ کھینچا مہر نے زور سے بھینچ لیا اور وہ ایک دوسرے سے کھینچنے لگیں مہر نے تو ٹانگ اس کے پیٹ میں ماری
"اُف !! "
زاویار کہتے ہوہے اس سے اتنے زور سے تکیہ کھینچا کے وہ پھٹ گیا اور ساری روئی باہر اگئی اور پھر پورے ان کے وجود کو ڈھک گئی
وہ دونوں پہلے دیکھتے رہے پھر دونؤں کے قہقہے چھوٹ گئی وہ دونوں ہنسنے لگے اتنا کے دونوں کے پیٹ میں درد ہونے لگا
زاویار نے خود کو سنبھالا اور اُٹھ بیٹھا ساتھ میں ہنستے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ اور کھینچا مہر نے اپنے منہ میں پھنسی ہوئی روئی نکالی اور کھانسنے لگی پھر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور ہنس پڑیں
"ابھی بھی بچے ہی ہے ہم ہے نا ۔"
زاویار نے اپنے بالوں کو جھنڈتے ہوئے کہا مہر کچھ نہیں بولی اسے دیکھنے لگی جس کے کانوں میں روئی نظر آئی تو ہنستے ہوئے اس نے نکالی زاویار نے اسے دیکھا اور مہر نے نکالتے ہوئے اس کے سامنے کی
"ویسے وہ کیا تھا ؟"
زاویار کی بات پہ اس نے اپنی انکھیں گھمائی
"جو بھی تھا لیکن گناہ نہیں تھا ۔"
مہر کی بات پہ زاویار ایک دم خاموش ہوگیا
"مجھے اتنی بولڈ لڑکیاں نہیں پسند ۔"
زاویار کے کہنے پر اس کے چہرے پہ سنجیدگی اگئی
"آہا بیوی کی بولڈنس نہیں پسند لیکن نیبر کی پسند ہے ۔"
زاویار اگئے سے کچھ نہیں بولا مہر اُٹھ پڑی اور اپنے بالوں کو جھٹکا ایک تو اس کے بال بھی سینڈ بروان سے تھے تو روئی کہی کہی سے نہیں مل رہی تھی وہ شیشے کی طرف ائی اور برش اُٹھا کر انھیں برش کرنے لگی ایک سائڈ پہ اس کے بال الجھے ہوئے تھی وہاں سے برش پھنس گیا
"اللّٰلہ آج کا دل لگتا ہی بُرا ہے نکلتا کیوں نہیں ہے ۔"
اچانک کسی نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا وہ مڑی دیکھا زاویار کھڑا ہوا تھا
"کیا ہے !!!"
مہر نے اسے گھورا
زاویار نے اس کا ہاتھ ہٹایا اور برش پکڑ لیا اور بڑئے احتیاط سے اس کے بالوں سے برش نکالنے لگا
مہر بار بار ہل رہی تھی
"ہٹو تم سے نہیں ہوگا دیر کررہے ہوں
زاویار نے ایک دم اس کے سر پہ چپٹ لگائی
"خاموشی سے کھڑی رہی بس ہر ایک کے ساتھ تم نے لڑنا ہے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑنا ۔"
اس نے ایک ایک کر کے بالوں کو برش سے نکالا مہر کو کچھ الجھنے میں تکلیف ہوئ کیونکہ وہ بار بار زاویار سے تھوڑا دور ہورہی تھی زاویار نے اس کی کمر پکڑی اوف جھٹکے سے اپنے ساتھ لگایا
"اگر ہلی تو بال کھینچ کر ہاتھ میں دیں دو گا ۔"
وہ اریٹٹ انداز میں بولا
"میں نے نہیں کہا تھا میری مدد کرو خود آئے اور افیشنسی دیکھانے لگیں اور مجھے ڈانٹنا بند کرو کوئی حق نہیں ہے تمھارا ۔"
زاویار برش رکھ چکا تھا اور اسے چھوڑتے ہوئے بولا
"ٹھیک ہے کوئی حق نہیں ہے تو ہھر تمھیں بھی مجھے چھونے کا کوئی حق نہیں ہے سمجھی ائینڈ ون مور تھنگ اگر تم نے مجھے ہاتھ لگایا کسی بھی جزبات کے تہط تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا ۔"
زاویار انگلی اُٹھاتے ہوئے بولا
مہر خاموشی سے وہاں کھڑی رہی اور زاویار وہاں سے گزر کر واش روم چلا گیا اور زور سے دروازہ بند کیا
مہر کی بچپن کی طرح ٹھوڑی ہلی
"مہرو اس پہ سائن کرو اگر تمھیں زاوی پہ زرا سا بھی اعتبار ہے تو ان پیپر پہ سائن کرو اور اگر تمہیں میرے سے محبت ہے تو کردو تم ہمیشہ کی زاوی کی ہوجاوں گی اور میرے دل میں سکون آجائیں گا ۔"
"میرے میں زاوی کی ہوجاوں گی ۔"
"ہاں تم اس کی دلہن بن جاوں گی میں اس ٹائیم نکاح بلکل نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن مجبوری ہے میری بچی اپنی میرے کی بات مان لو ۔"
مہر نے اپنے نھنے منہ ہاتھوں سے اپنا نام لکھا اور وہ زاوی کی ہمیشہ ہمیشہ کی لیے ہوگئی
"اب بات سُنو میری اب تم صرف زاوی کی ہوں کسی اور کے بارے میں کھبی مر کے بھی نا سوچنا محبت اسی سے کرو گی اور آخری دم تک کرو گئ وعدہ کرو مہر میں تم سے وعدہ کرتئ ہوں زاویار ہمیشہ تمھارا رکھوالا بنا رہے گا ۔"
"میرے ائی پرامیس میں صرف زاوی کے علاوہ کسی کے بارے میں نہیں سوچو گی ۔"
پارسا نے خود سے۔ لپٹا کر اسے پیار کیا
"اللّٰلہ تمھیں خوش رکھیں اللّٰلہ کھبی میرا جیسا نصیب نا دیں ۔"
"میرے آپ جھوٹ بولتی تھی زاوی میرا ہے ہی نہیں وہ تو مجھے چاہتا ہی نہیں ہے وہ بس اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہے اور بس خود کو پارسا ثابت کرنے کے لیے لقمان حمید کو خوش کر رہا ہے ۔"
وہ خود سے کہتے ہوئے بالکنی میں اگئی اور بنچ پہ بیٹھ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زاویار واش روم سے باہر آیا اور اس کا فون بجا دیکھا پرویز تھا اس نے اُٹھایا اور اِدھر اُدھر دیکھا اور بالکنی کی طرف آیا اور اُٹھایا دیکھا وہاں مہر بینچ پہ بیٹھی سو چکی تھی اتنی ٹھنڈ میں کیا وہ پاگل تھی اس نے جلدی سے فون اُٹھایا
"ہے بڈی میں تمھیں صبح کال کرتا ہوں اوکے ۔"
اور اس کی سُنے بغیر اس نے فون بند کردیا اور اس کو دیکھا منہ اس کا اپنے بالوں سے ڈھکا ہوا تھا
"بھوتنی نا ہوں تو !!"
زاویار ہنستے ہوئے بولا
زاوی نے بڑی احتیاط سے اسے اُٹھایا وہ کسمائی اور ہلکا سا سسکی اور کچھ گرمائش پاکر مہر کو لگا جیسے پارسا اس کے پاس آگئی ہوں
"میرے آپ جھوٹ بولتی ہیں زاوی کھبی میرا نہیں تھا وہ کھبی میرا نہیں ہے ۔"
اس کے ایک جملے نے زاویار کو ساکت کردیا اور وہ کافی ٹھنڈی ہوچکی تھی اس نے اسے بیڈ پہ لیٹایا
سائڈ سے روئی نیچے پھینکی اور اسے رضائی آوڑھی
وہ پھر بھی ہلکہ سا کانپ رہی تھی اس نے جاکے الماری کھولی دوسرا موٹا سا کمبل نکالا اور اس کے اوپر ڈالا
اور کمرئے کے ہیٹر کو سیٹ کیا اس نے ٹائیم دیکھا رات کے دس بج رہے تھے زیادہ ٹائیم نہیں ہوا تھا وہ وضو پہلے کر چکا تھا اس نے جائے نماز دراز سے نکالی اور بچھا کر نیت باندھ لی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زاویار کی انکھ کھلی اس نے صوفے سے اُٹھ کر ٹائیم دیکھا صبح کے آٹھ بج رہے تھے وہ نماز پڑھ کے قران پاک کی تلاوت کرکے جاکنگ کے لیے نکل پڑا اور واپس آیا تو چھ بج رہے تھے اس نے تھوڑا سا صوفے پہ لیٹ کر انکھ بند کی اور دوبارہ کھولی تو کسی کھٹ پھٹ آواز سے اس نے اپنی انکھیں مسلی اور جاکے کچن کی طرف آیا اور حیرت کی انتہا تھی مہر بلکل فریش ناشتہ تیار کررہی تھی اس نے زاویار کا لایا ہوا پنک سوٹ پہنا ہوا تھا اور وہ ایسے ایکٹ کررہی تھی جیسے سب کچھ نارمل ہے مہر مڑی اور اسے دیکھا کچھ کہنے لگی کے دروازے کی بیل کی آواز پہ زاویار بولا
"میں دیکھتا ہوں ۔۔۔"
مہر نے خاموشی سے جاتیں ہوئے دیکھا زاویار دروازے کی طرف بڑھا اور ہالے نور کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی
"ہالے تم !! "
"ہاں میں سوچا گرم گرم جلیبی بنائی ہے تم لوگوں کو دیں آو شانی کو بہت پسند ہے نا ۔"وہ پلیٹ پکر کر اندر آئی مہر ٹرے اُٹھا کر اس طرف آئی اور ہالے نور کو دیکھ کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی
"یہ ڈائن یہاں کیا کررہی ہے ۔"
ہالے مہر کے قریب آئی اور اس سے ملی "کیسی ہوں مہر !!! "
"ٹھیک !!"
مہر نے دانت پیستے ہوئے کہا اور پھر زاویار کو خونخوار نظروں سے دیکھا
"او نا ہالے ناشتہ کرو ۔"
زاویار کے کہنے پر مہر کا دل کیا سارا ناشتہ اس کے سر پہ گرا دیں
ہالے مہر کے تاثرات دیکھ چکی تھی اور پھر زاویار کو دیکھا جو کندھے اچکا رہا تھا
"ہاں کیوں نہیں ویسے بھی سدرہ کو سکول چھوڑ کر آئی ہوں اب اکیلے بور ہورہی تھی سوچا جلیبی بنا لو شانی اور تم کو میری جلیبی پسند ہے نا !"
مہر نے انکھیں گھمائی اور ٹرئے رکھی
"لیجیے کیجیے ناشتہ ۔"
مہر تیزی سے کہتی ہوہی جانے لگی جب ہالے نے اس کا ہاتھ پکڑا
"مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے ۔"
ان کے کہنے پر مہر گڑبڑائی زاویار اسے غصے سے دیکھ رہا تھا
"نہیں ! "
"تو پھر بیٹھو نا اور میری جلیبی ٹرائی کرو کے کیسی ہے ۔"
مہر نے اس کے انکھوں میں نرمی دیکھی ویسے ہی نرمی جو میرے میں ہوا کرتی تھی اس کا دل تھوڑا سا پگھلا وہ بیٹھ گئی زاویار کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی واقی ہالے سب پہ جادو کرتی ہے کوئی اس سے نفرت کر ہی نہیں سکتا
"زاوی آج تم سدرہ کو پک کر لو گئے ۔"
"ہاں کیوں نہیں ۔"
زاویار اس کا شوفر ہے کیا !!
مہر کو ایک دم پھر سے غصہ آیا
"یہ سدرہ کون ہے ؟ "
مہر عام سے لہجے میں بولی
"میری دس سالا چھوٹی بہن ہے "
مہر نے سر اُٹھایا اتنا ایج ڈفرنس لیکن اسے کیا وہ اگئے سے سر جھٹکتے ہوئے جوس کے سپ لینے لگی
"آچھا تم دونوں رات کو میرے گھر آنا میں نے ڈنر رکھا ہے شام کے سات بجے بی ریڈی مجھے وقت کے پابندی والے لوگ پسند ہے ۔"
"میری تو کوئی ٹینشن نہیں البتہ ان محترمہ کو مجھے کچھ نہیں پتا ۔"
زاویار کہتے ہے بریڈ اُٹھائی اور اسے دکھائی جو جلی ہوئی تھی مہر نے نظر انداز کی زاویار نے ایک دم ہالے کو دکھائی ہالے نے اسے گھورا اور اسے اشارہ کیا کے کھائے
"ہالے میں اب سے تمھارے گھر ناشتہ کرنے آیا کرو گا ۔"
مہر نے جھٹکے سے اپنا سر اُٹھایا اور زاویار کو دیکھا کو اس کی بنائی چیزیں چھوڑ کر اس کی جلیبی بائٹ کررہا تھا
"کیوں بھئی بیوی نے اتنا زبردست ناشتہ بنایا اس کا چھوڑ کر میرے گھر آنے کی وجہ ۔"
بات تو ہالے نے بڑئے پیار سے کی تھی لیکن مہر کو صاف صاف طنزیا لگی وہ جھٹکے سے اُٹھی
"اکسکیوزمی !!!"
وہ تیزی سے مڑی اور چل پڑی جبکہ زاویار ہنس پڑا اور ہالے نے اس کے بازو پہ مکا مارا
"بدتمیز انسان یہ کیا حرکت ایسے کرتیں ہیں بیوی کے ساتھ ."
"جیسے وہ مجھے اپنا شوہر سمجھتی ہے جو میں اسے بیوی سمجھوں ۔"
"زاوی ایسا کیوں کررہے ہوں بہت افسوس ہورہا ہے مجھے ۔"
"اس نے میرے ساتھ بچپن میں کیا سلوک کیا تھ اس کے بعد یہ جب سے آئی ہے بدتمیزی پہ بدتمیزی اتنا کون بدتمیز ہوتا ہے ہالے !!"
"ہاں اپنے بارے میں تو جیسے بھول ہی گئے تم بھی کوئی کم نہیں ہوں ۔"
ہالے کی تیزی سے کہنے پر اس نے سر جھٹکا اور جلیبی اُٹھا کر کھانے لگا کے ہالے نے اس کے ہاتھ سے کھینچ کر رکھی اور مہر کا بنایا ہوا ناشتہ اس کے سامنے کیا
"یہ تم کھاو گئے سمجھے کتنی محنت سے اس بیچاری نے بنایا ہے ۔"
"وہ بیچاری خدا کو مانو یار وہ ویلک ہے کنجرنگ کی جو انسان کا جینا حرام کردیتی ہے انسان سکون سے نہیں رہ سکتا اس کے ساتھ ۔"
"اچھا بک بک کرنا بند کرو اور چُپ کر کے ٹھنسو ۔"
زاویار نے منہ بنایا
"زاوی اگر زرا بھی پیار ہے مجھ سے تو اُٹھاو ۔"
زاوی نے بچے کی طرح منہ بسورا اور کھانے لگا
"اُف یہ چبایا نہیں جارہا کتنی پھوٹر بیوی ملی ہے مجھے ۔"
"وہ تم سے بے حد پیار کرتی ہے زاوی اس کی انکھوں میں تمھارے لیے دیوانگی کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔"
"یا واٹ ایور !!"
زاویار نے ساتھ میں جوس کا سپ لیا
"اچھا خیر چھوڑوں تم سے ضروری بات کرنی تھئ ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر لیٹی انسو بہا رہی تھی جب سامنے پڑا کورڈلیس کی بیل کی آواز پہ وہ مڑی اور اس نے دیکھا باہر سے نمبر تھا اس نے اُٹھایا
"ہاں زاوی پہنچ گئے بڈی ۔"
شان کی آواز سُنتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپنے
"ششش شان۔"
مہر کا ہاتھ پیسنے سے بھر گیا اور وہ منہ سے کچھ نہیں بولی
"ہیلو ہلیو اوئے کمینے کدھر ہے تو آواز آرہی ہے ۔"
دروازہ کھولا دیکھا تو زاویار انٹر ہوا
مہر کا سفید چہرہ دیکھ کر چونکہ اور اُدھر شان ہیلو ہیلو کرتا رہا مہر نے فورن بند کیا اور اسے دیکھا
"تمھیں کیا ہوا کس کا فون تھا ۔"زاویار نے کیچینز ٹیبل پہ رکھی
"پتا نہیں !!"
"پتا نہیں ؟"
دوبارہ بیل بجی تو مہر اچھلی زاویار نے دیکھا
"اب کیا ہوا ایسے کیوں اچھلی جیسے موت کا فرشتہ اگیا ہوں !!"
زاویار کی بات پہ اس نے نفی پہ سر ہلایا اور اُٹھ کر واش روم میں گھسی زاویار نے اُٹھایا اور شان کی آواز سُنتے اس سے بات کرنے لگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر خود کو کمپوز کر کے باہر آئی وہ ابھی تک ہنستے ہوئے بات کررہا تھا
"آہا اچھا اچھا سریسلی تو آرہا ہے واو وئی کانٹ ویٹ
کب ہے فلائٹ ابھی کہہ رہے ہو آرہے ہو پھر کہتے ہوں پہلے لاہور آو گا ہالے اور ہم سب کو انتظار ہے میری بیوی تو تم سے ملی ہے نہیں لیکن اسے تجسس ہے ہاں ۔"
مہر تو کانپ اُٹھی شان او گاڈ اب کیا ہوگا اس کے سامنے
مہر کا چہرہ دیکھتے ہوئے زاویار چونکہ
"اوکے تو جا پھر بات ہوگی ۔"
"ائے ویلک پلس طوطی تمھیں کیا ہوا ؟"
مہر سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی اور بار بار انگلی کو مڑور رہی تھی
"بہری ہوگئی ہوں کچھ کہہ رہا ہوں ۔"
"اللّٰلہ شان آگیا تو کیا ہوگا کہی وہ زاویار کو مار ہی نہ دیں ۔"
وہ خود سے بڑبڑائی
"مہر زاویار آپ سے کچھ کہہ رہا ہوں ۔"
وہ اُٹھ ہر اس کے سامنے آیا
مہر نے سر اُٹھایا اور کچھ سوچ کر بولی
"مجھے کینن واپس جانا ہے ۔"
زاویار نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
"اب کون سا دورہ پڑ گیا ہے تمھیں ۔"
"میں نے کہا نا زاوی پلیز ۔"
وہ التجایہ لہجے میں بولی
"ہوا کیا ہے آخر !"
"مجھے یہ جگہ نہیں پسند پلیز ۔"
"تم پاکستان اپنے سیفٹی کی وجہ سے آئی ہوں ۔"
"بھاڑ میں گئی سیفٹی یہاں کون سی سیفٹی ہے ۔"
مہر جنجھلاتے ہوئے بولی
زاویار نے اسے دیکھا جو بے حد پریشان دکھ رہی تھی
"شان کے فون کی وجہ سے یا ہالے نور کی وجہ سے ۔"
اس کی اتنی ایکوریٹ بات پہ مہر کی دھڑکن تیز ہوگئ
ککک کیا مطلب ؟"
"مطلب سمپل ہے ڈیر وائف آپ ان دونوں کی وجہ سے کہہ رہی ہے چلے ہالے کی سمجھ میں آتی ہے شان کا کیا چکر ہے ۔"
"کوئی چکر نہیں ہے اور مجھ کیا پتا اسے میں نے صرف تصویروں میں اور تمھارئے دوست کی حیثیت سے دیکھا ٹھیک اور ہالے نور کی کوئی وجہ نہیں بس وہ میں نے ڈیٹ دیکھی آج ففتھ ستمبر ہے اور چوبیس کو میری اکزیبشن ہے !"
"کس چیز کی اکزیبشن اور یہ آنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا ۔"
زاویار صوفے پہ بیٹھ چکا تھا
مہر نے نظر گھمائی
"شادی کر لی میرا نہیں جان سکے تم اور میں یہاں ایمرجنسی نوٹ پہ آئی ہوں سمجھے !!"
"اچھا ! خیر شادی تمھاری بھی ہوئی ہے مجھ سے میرے بارے میں پتا ہے ۔"
"مجھے نہیں پتا ہوگا اور کسے پتا ہوگا ایک نمبر کا جاہل گنوار انسان ۔"
"بتایا بھی تھا لیکن زہن سے نکال دیا ائ ائیم ام بی ائے !"
"یہ کیا ائیم بی ائے لگا رکھا ہے آدھی دُنیا نے کیا ہوا تم انوکھے نہیں ہوں اور پتا ہے باڈی گارڈ بنے پھرتے ہوں ۔"
"سٹنفورڈ کا پتا ہے !!"
زاویار نے عام سے لہجے میں کہا
"سٹنفورڈ کا سُنا ہنو میرے وہی سے پڑھی ہیں کیوں نہیں پتا ہوگا !!"
"تو ڈیر تمھاری میرے کے داماد نے وہی سے ائیم بی ائے کیا ہے وہ بھی اکیس سال کئ عمر میں ۔"
مہر کو شدید طرین جھٹکا لگا
"کیا کہا تم نے سٹنفورڈ مزاق کررہے ہونا ۔"
"کیا میں تمھیں ہسنتے ہوئے نظر آرہا ہوں !"
زاویار نے اپنی ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھا اور اسے دیکھا
مہر ہنسنے لگی
"تم تم اور سنٹفورڈ اچھا مزاق کھبی امریکا میں قدم نہیں رکھا اور وہاں سے ائیم بی ائے کرلیا او میرے خدا ہاہاہاہا اللّٰلہ میری توبہ ۔۔۔۔
زاویار نے اگئے سے کچھ نہیں کہا
"خیر کم بونگیا مارا کرو ہالے تمھاری باتوں میں اسکتی ہے میں نہیں ۔"
"او پلیز سب سے زیادہ تم میری باتوں میں آتی ہوں ۔"
زاویار نے ٹانگیں ٹیبل پہ رکھی
"میم اس کی کوئی وضاحت نہیں کرو گا جو سمجھنا ہے سمجھوں ۔"
"او ہلیو مسڑ سنٹفورڈ زرا اپنی ڈگری دکھاؤں گئے بنا ہی ڈگری کے ائیم بی ائے کرلیا۔"
وہ اس کے ساتھ صوفے پہ بیٹھتے ہوئے ہنستے ہوئے بولی
"تو کیا مطلب ہے میں ڈگری لیکر پھرتا کرو گا اور سب کو ثبوت دکھاتا رہوں گا ویسے بھی ڈگری میرے گھر ہے ۔"
"اچھا شاندراہ گاوں کے ایک دہیاتی نے دُنیا کے ٹاپ یونی ورسٹی میں سے ایک میں ائیم بی ائے کیا تھا اچھا ویسے پیسے اتنے کہاں سے آئے تھے اب یہ نہ کہنا سکولرشپ ۔"
وہ مزئے سے بولی
"بات ہی یہی ہے تو یہی کہوں گا اصل میں میں نے سکینڈ آیڑ میں پورے پاکستان میں ٹاپ کیا تھا پھر سیٹ کا ٹیسٹ دیا پھر ایئلٹس کا شان نے مشورہ دیا کے امریکا اپلائی کرو ویسے ہی اپلائی کیا اور کام بن گیا دو یونی ورسٹی نے مجھے اکسیپٹ کیا ایک تھی براون دوسری تھی سٹنفورڈ سوچا ساسو ماں نے وہی سے کی ہے میں بھی وہی سے کرلو ۔"
"تمھیں کیسے پتا ہے کے ممی نے وہی سے کیا ہے ۔"
وہ حیرت سے بولی
"میم نے کچھ نہیں بتایا تھا وہ تو ویسے ہی میں نے ایک دم صفائی کررہا تھا کے میری نظر ان کی ڈگری پہ پڑی انھوں نے بتایا کے تم اور وہ اکیلے امریکا میں رہا کرتی تھی انھوں نے کیا سبجیکٹ رکھا تھا ہاں کرائیم تو وہ اپنی بوریت مٹانے کے لیے جب تم تقریبا چھ سال کی تھی ۔"
"ہاں ممی نے مجھے بتایا تھا پتا ہے زاوی ممی ہم سے کتنی قریب تھی تمھیں بھی اتنا ہی چاہا جتنا مجھے لیکن مجھے آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں وہ اتنا تڑپی کیوں تھی جب بابا تمھیں مار رہے تھے اتنی تڑپ تو کسی ماں میں ہوتی ہے ۔"
"میرے لیے وہ ماں ہی تو تھی ۔"
زاویار نے دل سے کہا مگر بولا کچھ نہیں
"خیر تھوڑا ڈھنگ کا تیار ہونا ہالے کے گھر جانا ہے ۔"
ایک دم باتوں ہی باتوں میں وہ سرد مہری سے کہتا ہوا اُٹھ پڑا اور مہر کا میج ورلڈ پل میں غائب ہوگیا لیکن وہ بگڑنے کے بجائے بلکل خاموش تھی وہ تھک گئی تھی لڑتے لڑتے وہ جانتی تھی کوئی فائدہ نہیں ہے
"ٹھیک ہے !"
کہتے ہوئے اُٹھ پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ زاویار کے ساتھ ہالے کے چھوٹے سے لیکن بے انتہا خوبصورت گھر کے اندر داخل ہوہی دروازہ کھولنے والی
دس سالا ہلتھی سی بچی تھی
"ارے زاوی بھایا اور مہر آپی آپ ائے اندر ۔"
وہ خوش اخلاقی سے بولتی ہوئی اندر آنے کی اجازت دینے لگی
مہر فیک مسکراہٹ لیے جبکہ زاوی خوش اخلاقی سے اس کے گالوں میں چٹکی لیتا ہوا اندر آیا
مہر نے دیکھا تو گھر کو دیکھ کر حیرانگی رہ گئی اتنا شاندار گھر اس نے آج تک نہیں دیکھا اتنا ویل فرنیشد کے ساتھ ساتھ ہالے شان زاویار اور سدرہ کی بے شمار تصوریں تھے
ایک میں شان آرمی کا یونی فورم میں پہنے کھڑا ہالے پہ ریولور پوانٹ کی تھی دوسرے طرف ہالے جس نے آرمی ساڑی پہنی ہوئی تھی جبکہ زاویار ان کے سامنے محافظ بنا کھڑا ہوا تھا ، دوسری جب یہ دونوں جمپر میں جتنا اونچا جمپ لگا سکتے تھے اور فوٹو کو کیپچر کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش تھی جس میں سب سے زیادہ ہالے ناکام تھی پھر چھ سال سدرہ کو سب نے اپنے گرد لیے اس کے ساتھ کیک کاٹا اور بھی بہت سی تھی جب ہالے کی آواز پہ وہ مڑی وہ ہاتھوں میں گلوز پہنے چہرے پہ پسینہ تھا لیکن انکھوں میں گہری چمک تھی وہ آئی اور مہر سے ملی مہر مسکرا بھی نہ سکی
"بہت پیاری لگ رہی ہوں میری بھی نظر نہ لگ جائیں تمھیں ۔"
"لگ ہی نہ جائیں نظر ہنو جل رہی ہوگی اندر ہی اندر بس یہ زاویار کو قابو کرنے کے طریقے ۔"
وہ دل ہی دل میں خود سے کہے جارہی تھی ہلکہ سا مسکرائی
"آہا کیا خشبو آرہی ہے کیا بنایا ہے ۔"
"صبر تو کرو لڑکے سدرہ جاکے اپنا بنایا ہوا ڈرنک تو لانا ۔"
"جی نوری آپا ۔"
وہ اندر چلی گئی جبکہ مہر بولی
"آپ کے امی ابو کہاں ہے !!"
اس کی بات پہ ہالے ایک دم مسکراہٹ غائب ہوگئی زوایار نے اپنے پیشانی مسلی بس نہیں چل رہا تھا مہر کا گلا دبا دیں
"امی کی ڈیتھ سدرہ کے پیدا ہونے کے دن ہی ہوگئی تھی اور بابا بھی دو سال بعد چل بسے میں اور سدرہ پھر خالا کے ساتھ رہے اور پھر میں آرمی ڈاکڑ بنے کی تیاری کرنے لگی آئینڈ جب بن گئی تو پھر میں اور سدرہ یہاں اگئی ۔"
"او ائیم سوری !"
"او ڈونٹ بی کسی نہ کسی کے ماں باپ نہیں ہوتے جیسے کے تمھاری ممی نہیں رہی زاوی نے بتایا تھا بہت رسپیکٹ کرتا تھا وہ پرسا میم کی بلکہ وہ کیا ہم بھی کرتے تھے اتنی پیاری ہستی جو تھی ۔"
وہ اگئے سے کچھ بولتی کے زاویار نے مداخلت کی
"ہالے صاحبہ جلدی سے کچھ کھانے کے لیے لیکر آئے سچ میں بہت بھوک لگ رہی صبح سے وہی جلی ہوئی بریڈ کھائی ہے ۔"
زاویار کے کہنے پہ مہر خاموش رہی جبکہ ہالے نے اسے سخت قسم کا گھورا جبکہ زاویار نے ویسے ہی گھورا کے زیادہ امیوشینل نہ ہوں ۔"
"یہ آرام سے باتیں نہیں کرنے دیں گا چلوں کچن میں چلوں
زاویار نے گھورا اور پھر وہ مہر کو لیکر اندر اگئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : لاہور ،پاکستان
"دماغ خراب ہوگیا تمھارا کوئی عقل نہیں رہی ناجانے تمھیں کس نے سیکرٹ ایجنٹ بنا دیا افسوس ہورہا ہے کے تم میری بیوی ہوں ۔"
شاہ دارب کا بس نہیں چل رہا تھا پارو کو مار مار کر حشر کردیں
"کیوں جب سچ بولا تو کڑوا لگا میں ایک پل بھی آپ کے ساتھ نہیں رہوں گی میں آبھی اسی وقت بابا جان کو آپ کے کرتوت بتاو گی کے کتنا مان تھا انھیں اپنے شاہ پر کیسے ایک پل میں ان کا مان توڑ دیا ۔"
فریحہ اگئے آئی
"دیکھوں پارو !!"
پارسا نے انگلی اُٹھائی
"تم اپنا منہ بند کرو میرے اور میرے شوہر کے بیچ میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔"
اب بچے کو اپنی ماں کیا بے عزتی برداشت نہ ہوئی
"میری ماں پہ چلانا بند کریں آپ ۔"
دارب کے ساتھ ساتھ باقی سب نے بچے کی دھاڑ سُنی
"چلے ممی ہمیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا ۔"
وہ اپنی ماں کا پلو کھینچنے لگا
"بیٹا آپ چُپ کریں اور فریجہ جاوں بچے کو کمرئے میں لیکر جاوں میں اس لڑکی کو سنبھالتا ہوں ۔"
"پر شاہو!!! "
"میں نے کہا نا جائیں !!!"
وہ سختی سے بولی
فریجہ بچے کو ساتھ لیکر جاتی اندر جانے لگتی ہے کے پارو ان کے سامنے آئی
"ایک قدم بھی تم میرے گھر میں نہیں رکھوں گی ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا سمجھی !!!
پارسا بدتمیزی سے بولی دارب نے تیزی سے آیا اور پارسا کا ہاتھ پکڑا
"تم تو چلوں نا میرے ساتھ ۔"
"میں آپ کے ساتھ کہی نہیں جاوں گی سمجھے ۔"
وہ دھاڑی دارب اسے گھسیٹنے لگا اور باہر آپنی گاڑی کی طرف لایا اور اسے بیٹھایا لیکن بیٹھانا بڑا مشکل تھا کیونکہ پارسا جنگلی بلی بنی ہوئی تھی
"چھوڑو مجھے آاا۔۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مہر یہ زرا چکھنا کیسا ہے ۔"
ہالے نے چمچ سے تھوڑا سا اچار گوشت کا مسئلہ اسے چکھائے کے لیے دیا مہر نے اس سے لیا اور چکھا واقی بہت اچھا بنا تھا وہ تعریف کرنے لگی تھی جب ہالے کی بات پہ اس کا خلق تک کڑوا ہوگیا
"زاویار کو میرے ہاتھ کی بریانی اور آچار گوشت بہت پسند ہے جب بھی آتا ہے میرے پاس تو یہی دو ڈشز کی ڈیمانڈ کرتا ہے ، بھئی تم بھی بنایا کرو اس کے لیے ۔"
مہر زرا بھی نہیں مسکرائی سپاٹ نظروں سے دیکھتی رہی
"انسان کو ہر حال میں مسکرانا چاہئی تھوڑا سا ہنٹوں کو کھینچنے سے پیسے یا بہت انرجی ضائع نہیں ہوجائیں گی کھل کر مسکرایا کرو مہر کیونکہ زندگی بہت کم ہوتی ہے پتا نہیں ہوتا ایک دم جیسے ختم ہوجاتی ہے ۔"
مہر نے ان کے لہجے میں کرب محسوس کیا
"زاویار اور شان سے کب ملاقات ہوئی ۔"
مہر کی بات پہ ہالے مڑی اور اسے دیکھا
"اسلام آباد میں ہوئی تھی شان زاویار کو زخمی حالت میں لایا تھا اور میں نے ٹریٹمنٹ کی تھی اس کی پھر زاویار اور شان سے میری ملاقات ہونے لگی اور پتا نہیں چلا ایک دوسرے کے گہرے دوست بن گئے ۔"
مہر کو موقع مل گیا سب جانے کا
"اچھا شان آور زاوی کی ملاقات کا پتا ہے آپ کو اور زاویار نے ائیم بی ائے کہاں سے کیا ؟"
ہالے نے اسے حیرت سے دیکھا
"تمھیں زاویار نے کچھ نہیں بتایا ؟"
مہر نے نفی میں سر ہلایا
"بہت ہی بدتمیز انسان ہے کچھ بھی نہیں بتایا اس نے
زاویار اور شان کی دوستی تب ہوہی تھی جب شان اسلام آباد آیا تھا تو وہاں فائرنگ ہوئی تھی جس میم زاویار کو گولی لگی تھی بس پھر شان صاحب بچا کر لائے ہمارے ہوسپٹل اس طرح زاویار کو ہوش آیا بہت اچھا لگا سا ہم سب کو اپنا اپنا باتوں ہی باتوں ہم ایک دوسرے کے اچھے دوست بن گئے زاویار پولیس آفسر ہے
اس وقت اپنے سی ایس ایس کے امتحان دیے تھے تمھیں اس نے نہیں بتایا ۔"
مہر کو جھٹکا لگا کیا زاوی پولیس میں ہے اور اس نے نہیں بتایا
"انہوں نے ائیم بی ائے کیا ہے !!"
"ہاں لیکن پروایٹ کیا تھا اس نے ۔"
اور مہر نے مٹھیا بھینچ لی اسے زاوی کے بارے میں کچھ نہیں پتا اس کے پاس گن بھی تھا اور اس نے اسے پروٹیکٹ کیا تھا وہ بھی بنا پینک ہوہے یہ سب اسے پتا ہونا چاہئے اور ہالے کو پتا ہے مطلب اس کی دوست ہالے ہی تھی وہ نہیں اس بات پہ مہر کی انکھیں ڈبڈبا گئی
"ارے کیا باتیں ہورہی ہے ہالے شانی سے بات ہوہی تمھاری ۔"
زاویار کی آمد نے مہر کو کمپوز رہنے کو مجبور کیا ورنہ وہ ابھی رو پڑتی
"نہیں یار وہ تو بدتمیز غائب ہی ہوگیا ہے تمھاری ہوئی کیا ۔"
"ہاں آج صبح ہوہی تھی جب تم واپس چلی گئی تھی ۔"
"کیا !!"
ہالے مڑی
مہر زاویار کو نہیں دیکھ رہی تھی وہ بس زمین کو گھوری جارہی تھ
اس نے مجھے کہا تھا کے وہ ہالے سے بات کرچکا ہے ۔"
ہالے کا منہ کھل گیا
"جھوٹا ہے ایک نمبر کا ۔"
"پاکستان آرہا چار دن بعد لیکن صاحب پہلے لاہور اُترے گے ۔"
"کیوں گلگت والوں نے بین کردیا ہے اسے ۔"
ہالے نے کمر پہ ہاتھ رکھے
"پوچھو اسے ۔"
زاویار نے فون پکرایا
"مہر ڈیر تم زرا دیکھو گی میں ابھی اس سے بات کر آو ۔"
مہر نے سر نہیں اُٹھایا تھا وہ بس ہانڈی کو دیکھیں جارہی تھی
"تمھیں کیا ہوا ہے ویلک بھوتنی ایسے چہرہ کیوں جھکایا ہے کوئی پنیشمنٹ ملی ہے ۔"
زاویار نے سامنے اکر بریانی کے ڈھکن اُٹھایا اور اس کی بھاپ سے زاویار کے ہاتھوں میں لگی
"اُف !!!"
مہر نے تب بھی سر نہیں اُٹھایا
"ائے کیا ہوا ۔"
زاویار کو اب پریشانی ہوئی وہ اس کے قریب آیا اور ٹھوڑی سے سر اُٹھایا کے مہر کی انکھیں سُرخ ہوہی وی تھی
"کیا ہوا مہر !! "
"تم نے جھوٹ بولا نا مجھ سے تم نے ہر چیز کے بارے میں چھپایا ۔"
مہر رندھی ہوئی آواز میں بولی زاویار نے نا سمجھی سے دیکھا
"کیا ؟؟"
"تم پولیس آفسر ہوں تم یہ سب ایک ڈیوٹی کے تحت کررہے ہوں تم میرا رکھوالا صرف پولیس آفسر کے تھڑو بنے ہوں ناکے میرے شوہر کے تھڑو ۔"
"تمھیں کس نے بتایا ۔"
زاویار کے ماتھے پہ شکن ابھری
"جس نے بتایا ہے اس کو چھوڑوں جب تمھارا مقصد کامیاب ہوجائیں گا تو کیا مجھے چھوڑ دو گئے مجھ سے طلاق لیے لو گئے "
مہر کا اندیشہ زبان پہ بلا آخر اگیا تھا زاویار کے چہرے پہ سنجیدگی وہ کچھ بولنے لگا کے ہالے اگئی مہر نے جلدی سے انسو پونچھے جبکہ زاویار کے فون کال ائی دیکھا پرویز کی تھی اس نے اُٹھایا
"اکسکیوزمی !!!"
اس نے اُٹھایا
"شانی کا بچہ پہلے تو انکار کررہا پاگلوں کی طرح پوچھا تو مانا تم اس سے ملوں گی تو پاگل ہوجاو گی اس کی باتوں سے عجیب ہی دماغ خراب ہے میں تو اسے سردرد کہتی ہوں ۔"
ہالے نے باول نکالتے ہوئے کہا مہر کو ہنسی آئی کیونکہ وہ شان کی حرکتوں سے اسے سردرد ہی کہتی تھی پھر لب بھینچ لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"کہوں پرویز!!"
زاویار بالکنی میں اگیا تو سرد آواز میں بولتے ہوئے ایک کان فون سے لگائے اور دوسری ہاتھ سے سگریٹ جلانے لگا
"یار زاوی مجھے پتا چل گیا یہ سب کون کررہا ہے ۔"
زاوی چونکہ اور پھونک مارتے ہوئے بولا
"کون ؟"
"یار ڈمیول سہانی نام ہے اس کا فرینچ فلم تھی اس کی
"فریڈم ۔" نام تو زبردست ہے اور عام سا بھی لیکن فلم سوسائڈ کو پروموٹ کررہی تھئ اور بہت سی اکسپلیٹ سین تھے ہوتے تو بہت سی فلم میں تھے لیکن یہ ٹارچر تھا اور ایسا ٹاچر انسان کو دماغ خراب کردیں کینن فلم فیسٹول میں اس کے لسٹ میں نام آیا تھا لقمان حمید کے دوست نوید کے بہت اچھے ٹرمز تھے نوید نے لقمان سے بنا پوچھے اسے لسٹ میں ڈال دیا
لقمان صاحب کو پتا چلا اور انھیں اعتراض ہوا اور جب انھوں نے فلم دیکھی ان کا دماغ بھک سے اُڑھ گیا جتنے بھی فرانس کے رہنے والے تھے لیکن تھے تو پاکستانی تو اس لیے انھوں نے یہ فلم ریجیکٹ کر لی ڈمیول نے بہت اصرار کیا ساتھ میں انھیں رشوت دی لقمان حمید نے بےعزت کیا تب بھی ڈمیول ڈھیٹ بنا رہا ایک دن وہ ان کے گھر بھی آیا لقمان حمید نے اس کے منہ پہ تھپڑ مارا کیونکہ اس نے کہا تھا کے ان کی بیٹی تو نہیں ہے فلم میں جو انھیں اعتراض ہے تب سے وہ بس خاموشی سے چلا گیا اس نے کچھ نہیں کہا بس بدلہ لینے کا طہہ کر لیا اپنا نام آئے اس نے نیپال کے ڈان ظہیر سومرو نام کو پیسے دیں ہیں یہ رہی اب تک کی انفورمیشن اب بتا ۔"
"ہممم تو یہ بات ہے وہ بدلہ لیے رہا ہے مہر کو مار کر ویسے میں سمجھا کوئی بہت بڑی بات ہوگئ یہ تو مسئلہ حل ہوجائیں گا ۔"
زاویار نے سگیرٹ کو زمین پر پھینکا اور اسے جوتے سے مسلا
"اوئے مسڑ اوور کنفیڈنٹ زیادہ بھی مت تیس مار خان بنو اتنا آسان نہیں وہ ظہیر سومرو ہے ۔"
"اچھا تو میں ظہیر سومرو کا باپ ہوں ۔"
زاویار مزئے سے بولا
"چل بتا اپنے سسر کو یہ خبر ویسے کتنی کمزور یاداشت ہے ان کی ۔"
"اچھا اوکے رکھ تو اور مزید پتا لگا اسے سومرو کے بچے کا ۔"
وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا
"اوکے باس !!
وہ مڑا ہالے کھڑی تھی
"کیا ہوا اور یہ سگیرٹ کی سمیل کیوں آرہی ہے ۔"
زاویار نے اپنا سر کھجایا
"زاویار تم نے شان والی عادت کب سے اپنا لی اسے لیکچر دیتی تھی تم شروع ہوگئے مہر کیا سوچے گئ ۔"
ہالے بولی
"مجھے اس کے فرق پڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔"
زاویار سرد لہجے میں بولا
"یہ کیا بکواس کررہے ہوں ۔"
ہالے بولی
"بکواس نہیں ہے میں میشن ختم ہونے کے بعد اسے چھوڑ دو گا میرا نہ اس سے کوئی تعلق ہے نہ ہی لقمان حمید سے ۔"
"زاویار یہ تم ہی ہونا کیا اوّل فُول بک رہے ہو گیارہ سال سے وہ لڑکی تمھارے نام سے جڑی ہوہی ہے ۔"
"ائی ڈونٹ کیر میرا جیسے ہی کام ختم ہوجائیں گا میں مہر کو چھوڑ دو گا ۔"
"زاویار !!!"
"ہالے نیچے چلے بعد میں بات کریں گئے ۔"وہ کہتے ہوئے چل پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہر نے سدرہ سے پوچھا واش روم کا اور جلدی سے گھسی اور تڑپ تڑپ کر روپڑی
"مجھے اس کے فرق پڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔"
"میں میشن کمپلیٹ ہونے کے بعد اسے چھوڑ دو گا ۔"
"میرا نہ اس سے تعلق ہے نہ لقمان حمید سے ۔"
مہر نے اپنا منہ چھپا لیا
"میرے کدھر چلی گئی ہے آپ دیکھا آپ نے آپ کا زاوی مجھے چھوڑ رہا ہے مجھے اپنی زندگی سے نکال دیں گا وہ مجھے مار رہا ہے میرے مجھے زخمی کررہا ہے آپ نے کیوں اس سے میری شادی کروائی کیوں ۔"
وہ پارسا سے روتے ہوئے مخاطب ہوئی
بس بہت ہوگیا میں ایک پل بھی یہاں نہیں رہوں گی میں یہاں سے چلی جاوں گی جہاں مجھے زاویار کو چھوڑنے کا موقع ہی نہ ملے ۔"
مہر اپنا منہ صاف کرتی ہوئی باہر آئی اور سیدھا دیکھا وہ دونوں بیٹھے باتیں کررہے تھے مہر کو سانس نہیں آرہی تھی لیکن خود پر کنڑول کیا اس نے وہ کمزور نہیں پڑیں گی کھبی نہیں کم سے کم اس شخص کے سامنے کھبی بھی نہیں ۔"
اس نے مضبوط قدم اُٹھائے اور ائی
"دیر لگا دیں یار آو کھانا لگا ہوا ہے ۔"
ہالے مسکراتے ہوئے بولی مہر نے اسے نفرت سے دیکھا اور زاویار کو بھی جو کھانا شروع کرچکا تھا
مہر بیٹھ گئی اور اس نے ہلکہ سا سالن ڈالا اور روٹی ُاٹگائی
"اپی مہر آپی کتنی پیاری لگ رہی ہے اس یلیو سوٹ میں بھایا کی چوائس بہت اچھی ہے ۔"
مہر نے زخمی نظروں سے زاویار کو دیکھا اور پھر کہنے لگی
ہالے نے اس کی گہری خاموشی محسوس کی اور پھر زاویار نے گفتگو شروع کی اور اس سے ہنس کر باتیں کرنے لگا مہر کا دماغ آوٹ ہورہا تھا اچانک ہالے نے اس کی خاموشی محسوس کی اور زاویار کو دیکھا جو مہر کو بلکل اگنور کیے اس سے اور سدرہ سے بات کررہا تھا
"مہر کون سا شیمپو استمعال کرتی ہوں ؟"
مہر نے ناسمجھی سے اسے دیکھا پھر ہالے نے زاویار کے بال چھوئے
"اس کے بال کتبے سلکی ہوگئے ہے کہی مہر کا شیمپو تو نہیں استمعال کرتے ۔"
مہر کا تو جسم اگ میں تپ اُٹھا وہ پلیٹ کو سائڈ پہ کرتیں ہوئے اُٹھی اور اس نے پیپسی کا گلاس اُٹھایا اور چل کر زاویار کے پاس ائی زاویار اور سب چونکے اور دیکھا کے مہر نے او دیکھا نا تاو سیدھا زاویار کے سر پہ پیپسی انڈیل دیں سب کو جھٹکا لگا
"وہ کیا ہے نا پیپسی سے نہاتے ہے نا اس لیے ۔"
وہ گلاس سائڈ پہ رکھ کر اسے خنخوار نظروں سے دیکھا
"گڈ بائی زاویار عباس ۔۔۔۔۔"
مہر کہتی ہوہی تیزی سے بھاگی
"اسے کیا ہوا ؟؟"
"لگتا ہے اس نے تمھاری بات سُن لی تھی زاویار بھاگو تم وہ کچھ کر نہ لے ۔"
زاویار اُٹھا اور تیزی سے بھاگا
......................................................................
وہ دروازہ کی طرف بڑھی اور کسی کی آواز پہ چونکئ
وہ مڑی اور اس نے دیکھا فارس کھڑا تھا
"فارس !!!"
"مہر تم یہاں !!"
فارس حیرت سے اس کی طرف آیا مہر کا چہرہ رونے سے کالا ہوگیا تھا کیونکہ اس کا کاجل پھیل گیا تھا
"مہر تم ٹھیک ہوں اس طرح پاگلوں کی طرح کیوں بھاگ رہی تھی ۔"
مہر نے دیکھا دور سے زاویار آرہا تھا مہر سیدھا فارس کے ساتھ لگ گئی اور رونے لگی
"فارس مجھے یہاں سے لیے جاوں ، پلیز فارس !!!! "
زاویار ایک دم ساکت رہ گیا
"مہر ٹھیک ہے یہ گھر تمھارا ہے کیا ؟؟؟"
فارس نے اس کا سر تھپکا
زاویار پہلے دیکھتا رہا پھر وہ تیزی سے بھاگا اور اس نے فارس کو کھینچا
اور نیچے زور سے گرایا
"تمھاری اتنی ہمت میری بیوی کو گلے لگنے لگی ۔"
زاویار اسے پیٹنے لگا
مہر ایک دم شاکڈ ہوگئی پھر تیزی سے آئی فارس تیزی سے اُٹھا اور زاویار کو مارا
"چھوڑو اسے چھوڑو ۔"
"بیوی کیسی بیوی جو بیچاری ابھی اکیلے روتے ہوئے بھاگی تم نے ایسا کچھ کیا ہوگا جو وہ روتے ہوہے میرے ساتھ لگی ۔"
زوایار نے تیزی سے اس کے منہ پہ مکا مارا جس سے فارس کے ناک سے خون کے فوارے نکل آئے مہر چیخ پڑی وہ دونوں کتوں کی طرح لڑنے لگیں
"زاویار پلیز فارس کو چھوڑوں زاویار !!!!"
زاویار کو جھٹکا لگا اور ایک دم مڑا
"او تو تم نے اپنے عاشق کو یہاں بلوایا تھا بولو تم نے اسے یہاں بلوایا تھا ٹھیک ہے پھر بھاڑ میں جاو میں خوامخواہ لڑتا رہا میرے غیرت ختم ہوگئی ہے میں ابے اسی وقت تمھیں طلاق دیتا ہوں
طلاق دیتا ہوں
طلاق دیتا ہوں
مہر ایک دم ساکت ہوگئی
مہر نے ایک دم اپنی انکھیں کھولی پھر اس نے دیکھا وہ بھاگتے ہوئے کہاں اگئی ہے اس نے سر اُٹھایا دیکھا وہ بستر پر تھی
یہ کیا ابھی وہ ہالے کے گھر سے بھاگی تھی اسے فارس ملا زوایار لڑا اور لڑتے لڑتے اس نے مہر کو طلاق دیں دی پھر دروازہ کھولا تو دیکھا زاویار کھڑا تھا اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا
"انسان اگر بھاگتا ہے تو تھوڑے سے سنینس بھی ہونی چاہئی ہے پھسل کر گر گئ تھی تم شکر ہے سر نہیں پٹھا تمھارا !!!!"
وہ اس کے قریب بیٹھا مہر نے دیکھا اور اُٹھنے ہوئے اس کے سامنے آئی
"میری کیا غلطی ہے ۔۔۔۔"
پھر وہی ٹھوڑی ہلنا اور انسو سے بھری انکھیں
"مہر کوئی بعث نہیں ۔۔۔۔"
زاویار ہاتھ اُٹھاتے ہوئے بولا
"مت چھوڑوں مجھے پلیز !!"
مہر نے ہاتھ جوڑ لیے
"سوری مہر مجھے تم سے محبت نہیں ہے میں نے صرف ہمدردی کے ناطے کیا تھا ورنہ تم لوگ اس چیز کے بھی قابل نہیں ہوں ۔"
وہ خنجر مار رہا تھا اور بہت سخت قسم کے
"اور تمھیں کیا تکلیف ہے تمھارا عشق منتظر ہے فارس رحمان رہنا اس کے ساتھ خوشی خوشی ۔۔۔۔۔
مہر نے اسے تھپڑ مارا
"نہیں رکھنا ساتھ مت رکھوں لیکن اپنی زبان کو لگام دوں مجھے بھی تم جیسے تھرڈ کلاس انسان کے ساتھ نہیں رہنا جارہی ہوں میں یہاں سے اور ہاں کہہ دینا اپنے لقمان صاحب سے کے ائیم سوری سر مہر مر چکی کیونکہ واقی مہر مر گئی ہےمر گئی ہے مہر زاویار۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چیختے ہویے کہہ کر وہاں سے چلی گئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زاویار کے چہرے پہ مسکراہٹ اگئی
"اٹس شو ٹائیم !!!!!!"
وہ ایک دم ہنسنے لگا کے نیچے سے فائرنگ کی آواز یقینن نیچے سے ہی تھی زاویار نے فورن گن نکالی اور دروازہ کھولا نیچے سے آرہی تھئ تین مزید گولیوں کے بعد ایک دم خاموشی چھا گئی اس نے نیچے دیکھا
"مہر !!! "
"مہر "
وہ پریشانی سے بولا ایک دم تیزی سے نیچے آیا
بڑے ہی احتیاط سے اس نے گن ہر طرف پوائنٹ کی
اور ہر جگہ دیکھنے لگا کے گن کہاں ماری گئی تھی اسے حیرانگی ہوئی شان کی تصویر پر ہی ماری گئی تھی کیونکہ وہ ساری زمین پہ گری تھی
"مہر !!!!"
"مہر نہیں ایجنٹ کریمیل عُرف مہرالنساء دارب علی شاہ
کیا نام ہے تمھارا را ایجنٹ ڈیول !!!!!! جو زاویار اور شان بنا ہوا تھا ۔"
ایک دم اس نے دیکھا مہر نے اس کے سامنے گن پوائنٹ کی
ڈیول کا چہرہ سفید ہوگیا
"نائس گیم ائی لائک اٹ لیکن دم نہیں تھا زرا بھی اور وہ کون ہالے ہاہاہاہا را کی دوسری ایجنٹ ھارپر !!! تم کمینے لوگ لقمان حمید کے ساتھی جس نے میرے باپ کے ساتھ میری ماں کا قتل کیا اور زاویار
یہ رہی زاویار کا ڈیتھ سڑٹئفیکٹ تمھیں کیا لگا تم اسے چھپا دو گئے اور ایسی جگہ لاکڈ کرو گئیں جہاں میری پہنچ سے دور ہوگا تو تمھاری غلط فہمی ہے مجھے پتا ہے پتا ہے وہ مر گیا ہے مرگیا
مہر رندھی آواز میں کہتے سامنے ڈیتھ سرٹیفیکٹ پھینکا
وہ بولتی جارہی تھی اور وہ دونوں کھڑے ایک دوسرے پہ گن پوائنٹ کیے ہوئے تھے ڈیول نے نیچے پھینکا ہوا سرٹیفیکٹ دیکھا جس میں زاویار عباس کے نام کے ساتھ ڈیٹ اُف ڈیتھ گیارہ جولائی 2017 کو وہ بھی صبح کے چار بجے ہوئی تھی
یانی کے دو مہینے پہلے ،موت کی وجہ سینے پہ گولی لگنے کی وجہ سے تھی
"ہاں اتنی محنت کی مجھے بے وقوف بنانے میں ظاہر سی بات ہے پاکستانی ایجنٹ ہوں کوئی عام چیز تھوری ہوئی لیکن اب تمھارا کھیل ختم !!"
"تمھیں پارسا نے کچھ نہیں بتایا ۔۔۔۔۔۔۔"
اس نے الجھن امیز نظروں سے دیکھا
"کیا مطلب ہے تمھارا !!!!!"
اس نے گن پہ گرفت مضبوط کی
"اچھا لیکن اس میں لقمان حمید کا کیا کام ۔۔۔وہ تو تمھارے باپ ۔۔۔"
ڈیول ایک دم نیچے ہوا کیونکہ وہ ٹریگر دبا چکی تھی
"نہیں ہے وہ میرا باپ میرا باپ شہید دارب علی شاہ تھا جس سے غددار کہہ کر مار دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ بیٹھی زاویار کا انتظار کررہی تھی جب اس کی کال آئی اس مے دیکھا اور فون اُٹھایا
اس نے جلدی سے اُٹھایا یہ اس کا خفیہ فون تھا جسے وہ سنبھالے رکھتی تھی
"ہیلو رینا سب خیریت ۔۔۔۔"
مہر محتاط انداز میں شیشے کے پار آئی
"خیریت نہیں ہے ، وہ جو زاویار ہے وہ زاویار نہیں ہے ۔۔"
مہر ایک دم رُک پڑی
"کیا !!!"
"ہاں لڑکی مجھے ابھی ابھی کچھ انفورمیشن ملی ۔۔۔۔یہ تمھارے دُشمن لقمان کے ہی بندئے ہے ۔"
مہر کا دل ڈوب پڑا
"پلیز دینا کہہ دو یہ مزاق ہے ۔۔۔"
مہر کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی
"ڈونٹ ٹیل می مہر کہی تمھارے اس کے ساتھ کوئی تعلق تم اتنی جلدی کیسے بے وقوف بن گئی ۔"
"تم رکھوں میں ابھی کچھ پتا کرتی ہوں ۔۔۔"
مہر کے دماغ میں آیا اس کی باتوں کا جواب اس لائیبریری میں تھا
وہ احتیاط سے فون آف کر کے کھڑی رہی
"اللّٰلہ یہ جو کچھ بھی ہے بس یہ سچ نہ ہوں میرے مالک یہ سچ نہ ہوں زاویار جو ہے وہی رہی وہ انٹرنیشنل انٹیلجنس افسر ہے وہی ہی ہوں اور اگر وہ ایسا نہ ہوا تو پھر اصلی زاویار کہاں ہے ۔"
کچھ سوچتے ہوئے وہ باہر نکلی اس نے نیچے سے جھانک کر دیکھا وہاں کوہی نہیں تھا وہ پھر بھی چیک کرنے کے لیے مزید نیچے جھکی پھر مطمن ہوکر اس نے دروازے کی ہینڈل کو گھمایا دیکھا بند تھا کچھ سوچتے ہوئے مہر نے دیکھا اور یاد آیا کے کچھ کیز تھی تھی ڈرار میں وہ بھی بہت ساری کچھ سوچ کر وہ نیچے آئی اور دراز کھولنے لگی کے وہ بھی لاکڈ تھا
"اُف یہ کیا ہے !!!!!"
وہ جنجھلائی اور کچھ سوچتے ہوئے اس کے دماغ میں آئیڈیا آیا
"پیپر کلپ ہاں پیپر کلپ سے کھل سکتا یا اللّٰلہ میری مدد فرمانا اس نے ایک افس ٹیبیل پہ دیکھا کچھ سٹشنری سامان پڑا ہوا تھا اس نے پیپر کلپ ڈھونڈے جو بڑی ہی مشکلوں سے ملے اس نے دیکھا اور پھر تیزی سے آوپر بھاگی اور اس نے کھولنے کی کوشش کی پانچ منٹ کی جدوجہد کے بعد لاک نہ کھلا اسے جنجھلاہٹ ہوئی پھر ایک اور آئیڈیا آیا
"ہیر پنز اس نے اپنے سر میں دیکھی ایک ہیر پن تھی اس نے وہ اتاری اور پیپر کلپ اور اس کو جوڑ کر تھوڑا سا لمبا کیا اور کھولا
"یا اللّٰلہ مدد فرما !!"
خوش قسمتی سے کھل گیا
"یس !!!!"
اس نے جلدی سے کھولا اور بند کیا اور لائٹ ان کی
دیکھا کمرہ ویسا ہی تھا وہ ٹیبیل کے سامنے آئی جہاں ڈائری ہوتی تھی وہ وہاں نہیں تھی
"اللّٰلہ یہ کہاں گئی ۔"
وہ جلدی سے دراز کھولا وہ بھی لاکڈ تھا
"افوہ !!!!!!!!"
اس نے ٹیبیل کو ٹھوکر ماری پھر وہ گھومئ جب اس نے سامنے ٹیبیل پر دیکھا جو کچھ فائلز پڑئ ہوئی تھی اس نے اُٹھائی اور کھول کر دیکھی
"میجیر ذیشان رضا احمد ۔" کے کیس کی فائل تھی اس نے تیزی سے صفے پلٹے اسے کچھ کام کا نہ ملا کیونکہ وہ کسی لاہور والے کیس سے متعلق تھی اس نے جنجھلاتے ہوئے فائل پھینکی
اور سر پہ ہاتھ پھیرا اور اس کے سامنے آئی یہ دو ڈفرنٹ بندئے ایک کیسے ہوسکتے ہیں مہر سٹوپڈ کچھ بھی ہوسکتا ہے میرے نے بتایا جے زاویار ایک محفوظ جگہ پہ چلا گیا لیکن یہ نہیں بتایا وہ کہاں گیا بے بے بھی اس دُنیا سے چلی گئی تھی ورنہ ان سے پتا چل جاتا اُف نہیں وہ ایک بندئے ایک بندئے کیسے نہیں مہر میشن خراب ہوجائیں گا دھیرے سے اتنی کامیاب کیسس حل کرنے کے بعد اس پہ میں نہیں ہارو گی اس نے دیکھا تو اس کی انکھیں حیرت سے پھیل گئی
اس نے دیکھا اس کا ٹریشر باکس پڑا ہوا تھا
"یہ یہاں کیا کررہا ہے !!!!!"
اس نے قریب اکر دیکھا اس کا شکر کا سانس بھال ہوا وہ اس کے جیسے تھا لیکن اس کا نہیں تھا کیونک اس میں پی لکھا ہوا قریب ہی جبکہ اس میں D
وہ جلدی سے جھکی اور اس نے دیکھا اس میں لاک نہیں لگا تھا بلکہ یہ کوڈنگ سسٹم پہ مشتمل تھا
"او مائی !!!!!"
مہر کا چہرہ پیسنے سے بھر گیا
اس نے منہ پہ ہاتھ پھیرا اور لمبے لمبے سانس لیے
"کیپ کام !!!"
"یہ سکس ورڈ کی کوڈنگ ہے کیا ہوسکتی ہے ۔"
"زاویار !!"
اس نے ٹائپ کیا وہ نہیں کھلا
"ام کیا ہوگا ۔"
"گولڈی !!!!!"
ایک دم سوچتے ہوئے جمکھا ایک دم وہ کھل گیا
اور اس نے کھولا اور ایک چیز جو اس نے نکالی اس کی جان نکل گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب میجیر دارب سے ریلیٹٹ ریپورٹ تھی ،پھر پارسا سے ریلیٹٹ بھی سب کچھ ائے ٹو زی اس میں موجود تھا ان دونوں کی پیدائش کے ساتھ موت تک کئ ساری خبر تھئ پھر اس نے ایک اور فائل پڑی دیکھی
"را ۔"
اس نے کھولی اور دیکھی
"ایجنٹ ڈیول اینڈ ایجنٹ ہارپڑ ۔"
میشن : وائٹ ڈیتھ
ہیڈ : اکاش سنگھم
"زاویار ، ہالے نور ، ذیشان رضا ، ائینڈ فارس رحمان ۔"
"کیا فارس !!!!!!"
یہ سب کیا ہے مہر کو اور بھی بہت سی چیزیں ملی ان کا میشن ان کا پلین
یہ اٹیک شاندراہ میں ظہیر سومرو نے کروایا تھا اور کار میں بھی اور یہ ظہیر سومرو کوئی اور نہیں ڈیول ہی تھا یانی کے فیک زاویار اور جو گھر اور مال پہ اٹیک ہوا تھا وہ لقمان حمید نے کروایا اس سے وہ خبرادر ہوگئی تھی وہ جانتی تھی یہ کام لقمان نے کروایا ہے اور بھی اتنی پلینگ سے پھر اس نے نقلی میٹنگ تیار کروائی سب کچھ پلین کے تھڑو تھا اور انھوں نے فیک فلم میکر ہائیر کیا تاکہ شک ہوجائیں تو بیک آپ پلین کریں ۔"
او تو یہ گیم تھی کے لقمان حمید میرے باپ کے پیسے پر بھی عیشائی کرتا رہے اس کے میشن بھی کامیاب ہوجائیں اور میرا خاندان کی آخری امید بھی ختم ہوجائیں او میرے اللّٰلہ ۔"
پھر اس نے دیکھا نکاح نامہ پڑا ہوا تھا
"او تو اس وقت وہی تھا یہ دونوں ایک ہی تھے
اس نے ایک اور پیج نکلا جس میں ایک اور ڈیتھ سرٹیفیکٹ تھا اور جب اس نے پڑھا اس کے رونگٹھے کھڑئے ہوگئے زاویار عباس کی ڈیتھ سرٹیفیکٹ تھا اور اس نے ایک اور چیز دیکھنے والی تھی جب وہ ایک دم اُٹھی اور جلدی سے سب کچھ رکھ کر اس نے سرٹیفیکٹ اُٹھا لیا اور جلدی سے سب کچھ دیکھ کر وہ لاکڈ کر کے باہر آئی اسے سانس نہیں آرہی تھی
اس نے دوبارہ اسے دیکھا
"مطلب انھوں نے اسے ختم کردیا بلاوجہ جب اس کا کوئی قصور نہیں تھا میں یہ کیوں نہیں ڈفرنشیٹ کرسکی کے زاویار خوبصورت نہیں تھا اور یہ خوبصورت تھا او میرے خدا آور وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی ۔"
"میرے وہ چلا گیا وہ مجھ سے ملے بنا ہی چلا گیا ۔"
پھر مہر نے خود کو کمپوز کیا اب کیا ہونا تھا اسے میشن پہ دھیان دینا ایجنٹ اپنا دل پتھر کرلیتے ہیں اسے بھی کرنا تھا اور وہ کمرئے میں ائی لیکن انسو بار بار آرہے تھے اتنا بڑا دھوکہ وہ چلاک ہونے کے باوجود بھی کھا گئی اسے کمزور نہیں پڑنا اسے اپنے بابا اور ماما کے ساتھ زاوی کا بھی بدلہ لینا اس زاوی کا جو اس کا بچپن کا دوست جو کہی غائب ہوگیا تھا
اس لیے جب اس نے ڈیول کو دیکھا دل کیا اسے ابھی شوٹ کردیں لیکن ابھی اس نے گیم کو طریقے سے ان کی سوچ کے مطابق کھیلنا تھا دل پہ پتھر رکھ کر وہ ہرچیز کو غور کررہی تھی لیکن اس کا چہرہ بار بار اکسپریشن کا ساتھ نہیں دیں رہا تھا اور آخر مین جب وہ ہالے کے گھر آئی تھی اس کا ضبط ٹوٹا جارہا تھا کیسے اس کے اپنوں کے قاتل ہنسی خوشی باتیں کررہے اور اسے بے وقوف بنا رہے تھے ۔ اور پھر جب اس نے دیکھا فیک زاویار اسے چھوڑ رہا ہے اسے رونا اس بات پہ نہیں آیا تھا اسے رونا اپنے اصلی زاویار کے کھونے پہ آیا تھا
"اور یہ گرنے اور خواب کا ڈرامہ اس نے اس کو چیک کرنے کے لیے کیا تھا کے آیا جو اسے انفورمیشن ملی ہے وہ اصلی ہے کے نہیں !!! اور اس کی تصدیق ڈیول کے سخت چہرے سے ہوگئی تھی بے شک اگر زاویار ایجنٹ ہوتا لیکن مہر اتنا ضرور جانتی تھی کے وہ اس کی ہلتی ٹھوڑی کو دیکھ کر بے چین ہوجاتا تھا کیوں نہیں سمجھتی کیونکہ جب بچپن میں زاویار نے مہر کو پہلے بار غصہ کیا تھا اس میں وہ بڑا مجبور لگ رہا تھا
اور مہر کی ہلتی ہوئی ٹھوڑی دیکھ کر وہ اور زیادہ پریشان ہوگیا تھا لیکن اس میں اس میں بلکل سرد جزبات تھا کوئی فیلنگ نہیں تھی ان میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دوبارہ چلانے لگی جب ڈیول نے مہر کی گن پہ اپنی پوئنٹ کی اور تیزی سے ٹریگر دبایا گولی سیدھا مہر کی گن کو لگی مہر کے ہاتھ سے ایک چھوٹی اور وہ تیزی سے آیا اور مہر کی کمر کو پکڑا اور اسے گھما کر دیوار کے ساتھ لگایا
"ایجنٹ کریمیل میں نے سر روجر سے سُنا تھا کے شی از ون آف ٹلینٹٹ اینڈ سمارٹ لیڈی مجھے لگتا ہے اب انھیں بھی ریٹارمنٹ لیے لینی چاہیے اور تمھیں اور مجھے اسے شوٹ کرنے کا دل جس نے تمھیں اپرو کیا سٹوپڈ لڑکی مجھے نہیں پتا ہوگا تم میرے سگے چاچا کی بیٹی ہوں اور مجھے انی پہ سب سے زیادہ حیرت ہورہی ہے کے انھوں نے نہ میرے بارے میں بتایا نہ زیشان بھایا کے بارے میں تتتت اب بھی کہوں گا ایک نمبر کی پھوٹر بیوی ملی ہے چلوں مسز انڑوڈیکشن کرواتے ہیں مائی سلف میجیر زاویار عباس علی رضا اینڈ جن کی تصوریں برباد کی ہے وہ تمھارے جھیٹھ ہے گولڈی میجر ذیشان علی رضا خیر ان سے تمھاری ملاقات فرانس میں ہوئی تھی اور مجھے پتا ہے وہ خاصی خشگوار ملاقاتیں نہیں تھی ۔"
وہ اس کی کانوں میں بولا