
میرا رکھوالا - مصنفہ: ثمرین شاہ
قسط نمبر سات
لوکیشن : سرگودھا ، پاکستان
وہ بیٹھا فائل دیکھ رہا جب دروازے پہ دستک ہوئی
وہ اُٹھا اور اس نے دروازہ کھولا اس کا بٹلر کھڑا ہوا تھا
"کیا ہوا سفیر !!!"
زیشان نے ٹائیم دیکھا رات کے نو بج رہے تھے
"صاحب آپ کا فون آیا ہے ۔"
زیشان نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
"کس کا آیا ۔"
"پتا نہیں کوئی عورت تھی اور ان کی رونے کی آواز تھی ۔"
"افوہ تم سے پوچھا تو دس گھنٹے لگ جائیں گئے ۔"
وہ نیچیے آیا
"ہیلو اسلام و علیکم لفیٹنٹ زیشان علی رضا سپیکنگ ۔"
"شانی !!!"
پارسا کی رندھی آواز سُن کر زیشان کو جھٹکا لگا
"آنی !!!"
"شانی پلیز آجاوں پلیز انی کو تمھاری ضرورت ہے ۔"
"کیا ہوا آنی بتائیں تو صیح سب ٹھیک ہے آپ کے اور انکل لقمان کے درمیان اور کہی انھیں کچھ یا پھر مہرو تو ٹھیک ہے نا اور زاوی !!! "
"کچھ ٹھیک نہیں شانی بس تم آجاو ۔"
"انی میں کیسے اسکتا ہوں جب تک آپ مجھے نہیں بتائیں گئی۔"
پھر پارسا نے چوبیس سالا زیشان کو سب بتادیا اور زیشان نے اپنی بھائی کی حالت سُنی اور اس کے ماتھے پہ شکنیں بھرتے جارہے تھے اور لب سختی سے بھینچے گئے
"ان کی اتنی ہمت کے زاویار پہ ہاتھ اُٹھائے انی مجھے آپ سے امید نہیں تھی آپ مے زاوی پہ اتنے ظلم ہونے دیں آخر کیوں میں نے کہا تھا آپ سے میں آپ کمانے لگا ہوں مجھے اس کے پاس بھیج دیں لیکن آپ نے زرا بھی نہیں سُنی میری بعد آپ نے کہا جب زاوی اُٹھارہ کا ہوجائیں گا وہ میرے پاس آجائیں گا ۔"
"زیشان یہ ضروری تھا تمھیں تو میں نے بورڈنگ سکول میں ڈال دیا تین سال کی زاویار کو کہاں بھیج سکتی تھی اور اگر کسی کو شک پڑ جاتا کے زاویار شہید میجر دارب علی کا بھتیجا ہے تو وہ اس کا قتل کردیتے تمھارا تو کسی کو یقین نہیں آنا تھا کیونکہ انھیں لگا تھا اس حادثے میں مر گئے ہوں بس اتنا انھیں شک تھا ایک تین سالا بچے پر مہر کا بھی نہیں پتا تھا ان کو اب مجھ بتاوں میں کیا کرتی اور زاویار کو میں خطرے میں نہیں ڈال سکتی تھی خیر چھوڑوں اس بات کو پلیز شانی زاویار اور آپا کا کچھ کرتی ہو تب تک کچھ ایسا کرو پلیز شاندراہ آجاوں پلیز۔۔۔"
"اچھا آنی آپ مجھے شرمندہ کررہی ہے میں آپ کا بیٹا نہیں ہو کیا ممی کے بعد آپ نے ہی مجھے اور زاوی کو ماں کا پیار دیا ہے اور آج آپ کی بدولت میں آرمی میں گیا ہوں آپ انی بلکل فکر نہ کریں میں آرہا ہوں اوکے مہرو کا خیال رکھیں گا ۔"
وہ فون بند کر کے مڑا پارسا کے دل کو راحت ملی
وہ واپس آیا
"یہ لقمان نے ایسا کیوں کیا کیا چکر ہے انی کہہ رہی ہے پہلے سے سلوک بُرا ہے مہر سے اتنا زیادہ لگاوں مجھے ہضم نہیں ہورہا اُف اس کو اتنا مارنے کو دل کررہا ہے لیکن آنی کی وجہ سے چُپ ہوں ۔"
وہ بیٹھا ہوا تھا پھر اس نے بیگ پیک کرنے لگا اور ساتھ میں کال ملائی
"اسلام و علیکم سر ذیشان بات کررہا ہوں ۔"
"ہاں بولو شانی سب خیریت ہے اس وقت کیوں فون کررہے ہوں ۔"
"ام سر مجھے کیا دو دن کی چھٹی مل سکتی ہے میں دو دن میں واپس آجاوں گا ۔"
"ہممم اچھا ٹھیک ہے سب خیر ہے نا ۔"
"بس سر کچھ پرسنل میٹر ہے ۔"
"ٹھیک ہے لیٹر میرے سے سائن کرواتے جانا ۔"
"اوکے سر تھینک یو سر اللّٰلہ حافظ ۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بھایا انڈیا کی جیل میں قید ہوگئیں ہے اور مجھے یہ بات پتا چلی میں سیدھا کراچی چلا گیا بھابی اور زیشان کو لینے اور سر کو یہ بات پتا ہے تمھیں اس لیے نہیں بتایا کیونکہ میری ان سے سخت لڑائی ہوئی وئ تھی میں ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ ہی وہ مجھ سے وجہ تھی کے مجھے انھیں کی طرح فوج میں جانے بلکہ ایجنٹ بنے کا شوق تھا جبکہ بھایا کا خواب تھا میں بریسڑ بنوں اور مجھے وکیل بنے میں کوئی خاص لگاوں نہیں تھا میں بس ملک کا رکھوالا بنا چاہتا تھا
اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا جب میں نے وکالت چھوڑی بھایا کو بہت غصہ چڑھ گیا انھوں نے مجھے اجازت نہ دیں وہ نہیں چاہتے تھے میں فریحہ اور چھوٹے سے ذیشان کو چھوڑ دو میں نے کہا آپ بھی تو جاتیں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو پھر کیا کرتیں یوہی بعث میں انھوں نے مجھے تھپڑ مارا اور اپنی زندگی سے نکال دیا میں بھی غصے سے چلا گیا اور فوج میں بھرتی ہوگیا اس کے دو سالوں بعد میں نے ایجنسی میں اپلائی کیا اور وہاں چلا گیا بھایا کو میں نے کال کرنے کی کوشش کی تھی انھوں نے نہیں اُٹھایا اور میں گھر بھی گیا انھیں منانے لیکن پتا چلا وہ شفٹ ہوچکے ہیں مجھے بُرا لگا اور دُکھی بھی ہوگیا خود کو بہت اکیلا محسوس کرنے لگا پھر میری دوستی تمھارے پاپا کرنل صاحب سے ہوگئی بہت اچھے تھے وہ میں بہت ہی امپریسڈ تھا ان سے بعد میں مجھے پتا چلا ان کی بیٹی بھی ایجنٹ ہے مجھے کافئ حیرت ہوئی کہاں وہ اتنی اسلامی سوچ رکھنے والے اور کہاں اتنے خطرناک کاموں پہ انھوں نے بیٹی کو لگایا کہتے تھے ان کو شوق تو نہیں تھا لیکن تم نے جب بتایا کے اسلام میں بھی عورتیں جہاد میں لڑتی تھی میں بھی کسی پہ ظاہر نہ کر کے لڑوں گی میں تم سے بہت انسپائرڈ ہوا لیکن کیا پتا تھا یہ ایجنٹ تھوڑی جھلی نکلے گئیں اور پھر سر کہنا چاہیتے تھے لیکن بیٹی کے باپ ہونے پر ہچکچا رہے تھے میں نے خود پروپوزل بھیج دیا بس میں نے رخصتی کے لیے منع کردیا کے جب تک بھایا سے نہیں مل لیتا تب تک تمھارے ساتھ ازواجی زندگی نہیں شروع کرو گا پھر کچھ دن پہلے میں ان کی خبر لینے جارہا تھا تو مجھے یہ خبر ملی تھی بھابی اور زیشان کو لیکر اِدھر اگیا ہو کے تم انھیں سنبھالوں گی لیکن بے وقوف لڑکی کچھ اور ہی سمجھے بیٹھی تھی میں تمھیں اس دن بتانے والا تھا جس دن بتایا تھا کے سکائپ پہ کال کرو گا لیکن موقع ہے نہ ملا پھر تم بھی مجھ سے روٹھ گئی خیر پارو میں کچھ دن میں انڈیا جارہا ہوں امید کرتا ہوں تم زیشان، بھابی اور بھابی کی ہونے والی نھنی سی جان کا خیال رکھوں گی ۔"
وہ ہوٹل کے روم میں کھڑکھی کے سامنے سے ہٹتے ہوئے اس کا ہاتھ تھماتے ہوئے بولا پارسا کی انکھ میں انسو اگئیں
"ائیم سوری دارب میں پتا نہیں کیا سمجھ گئی ایک ایجنٹ ہونے کے باوجود بھی ۔"
"ہاں ایک ایجنٹ ہونے کے باوجود بھی لیکن اس ایجنٹ کے ساتھ تم ایک لڑکی ہوں اور لڑکیاں ٹہری سدہ کی جزباتی لیکن تمھارے لیے میرا پوزیسو ہونا اچھا لگا ورنہ میں سمجھتا کے مجھے بس کھڑوس، ہٹلر ، سنگدل فوجی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جو بلاوجہ ہی دل دکھاتے ہیں منہ میں ہر وقت کڑواہٹ ہی ہوتی ہے ۔"
وہ شرارت سے بولا پارسا کا منہ کھل گیا اس نے دارب کے سینے پہ ہلکے سے مکا مارا
"اُف ظالم بیوی !!!"
"بیوی نہیں منکوحہ پتا نہیں بیوی کب بنائیں گئے ۔"
پارسا نرھوٹے پن سے بولی
دارب ہنس پڑا اور پیار سے اس کا سر اوپر کیا
"یہ کیا شاہ لوگ ٹھوڑی اوپر کرتیں آپ ہے سیدھا ماتھا اوپر کرتیں ہیں ۔"
"پتا نہیں مجھے تمھاری سب سے زیادہ بڑی بڑی اور چمکتی ہوہی روشن پیشانی بے حد پسند ہے ۔"
دارب نے کسی زیر اثر اگئے جھکا اور اس پہ لب رکھے اور بیس سکینڈ تک رکھ رہے پارسا کو لگا اب تو وہ گئی لیکن دارب مضبوط اعصاب کا مالک تھا وہ ہٹ گیا اور اس کے گالوں پہ ہاتھ رکھا
"اپنا بھی خیال رکھ لینا اور یہ مت بھولنا کے تم دارب کی جان ہوں ۔"
اس نے گال تھپکا اور پارسا نے اس کے اسی ہاتھ کو پکڑا اور اسے چوما
"مجھے آپ پہ فخر ہے دارب آپ فکر نہ کریں آپ کی جان ان کا دلوں جان سے خیال رکھے گئ ال دا بیسٹ میجیر صاحب !!!"
پارسا نے دوسرے ہاتھ سے سلوٹ مارا
دارب نے بھی سلوٹ مارا
"ال دا بیسٹ ایجنٹ فلاور !!!"
پارسا ہنستے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے بے زاویار کو گاوں کے ایک چھوٹے سے کلنک لے گئی تھی زاویار کو زحم تو زیادہ شدید نہیں آئے تھے لیکن وہ صدمے کی وجہ سے کافی دیر سے بے ہوش تھا بے بے کا رو رو کر بُرا حال ہورہا تھا بےشک وہ ان کئ سگی اولاد نہیں تھا لیکن سگی اولاد سے بڑھ کر تھا زاویار نے ہی ان کی خالی گود کی کمی پوری کی تھی
اور گیارہ سال سے اسے پال رہی تھی محبت کیوں نہ ہوتی
"ڈاکڑ صاحب میرے بچے کو ہوش کیوں نہیں آرہا ۔"
وہ روتے ہوئے بولی
"اسے کوئی بہت ہی گہرا صدمہ پہنچا ہے اس لیے وہ بے ہوش ہے آپ فکر نہ کریں کچھ گھنٹوں میں ہوش آجائیں گا۔"
پارسا وہاں پہنچی تو اس نے زاویار کی حالت دیکھی تو اس کا دل تڑپ اُٹھا
"زاوی زاوی تمھاری آنی اگئی ہے انکھیں کھولو۔"
"بی بی یہ کیا کیا آپ نے مجھ سے وعدہ لیتی ہے اسے ایک آنچ بھی نہ آنے پائے اور خود ہی اسے زخمی کردیا ۔"
پارسا ایک دم تڑپ کر مڑی
"ایسا تو نہ کہے اپا میں آپنے بچے کو کیوں زخمی کرو گی میری دارب کی جان کو کیوں تکلیف دو گی ایسا تو مت کہے آپ !!!"
پارسا روتے ہوئے بولی
"بی بی روئے تو نہ میں جانتی ہوں آپ بہت مجبور ہوں ۔"
انھوں نے پارسا کو اپنے ساتھ لگایا ان کا دل بھی تڑپ اُٹھا تھا اس میں پارسا کا کیا قصور
"نہیں اپا میں مجبور نہیں تھی میرے پاس دارب کا دیا سب کچھ تھا زمین پیسہ جائیداد جس کو میں نے لقمان کے نام سے شو کر سب سے بڑی غلطی کی ، وہ لالچی شخص ساتویں آسمان پہ خود کو سمجھ رہا ہے غرور ہے اس میں بہت اور آپ نہیں جانتی اسی مجبوری کے نام پہ مہر کو اس کے باپ کا نام نہ دیں سکی نہ ہی زاویار کو اس کا مقام اور محبت اور نہ ہی زیشان کی تنہاُئی کو مٹا سکی میں کتنی بُری ہوں میرے سے دارب کا ایک بھی کیا ہوا وعدہ پورا نہیں ہوا بارہ سال بارہ سال آپ نہیں جانتی میں نے کس اعزیت میں گزارے ہیں قیامت والے دن فریحہ آپی اور دارب کو کیا منہ دکھاوں گی اللّٰلہ میرے کام میں آسانی فرما ۔"
وہ بے بے سے لگی تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی اور بے بے کے انسو پارسا کے بالوں پہ جزب ہوگئیں وہ سوچ رہی تھی کسی کی بھی قسمت پارسا جیسی نہ ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : لاہور ،پاکستان
فریحہ کو سخت پیاس لگ رہی تھی وہ اُٹھی اور باہر آئی تو دیکھا پارسا لیپ ٹاپ پہ بیٹھ کر کام کررہی تھی ساتھ میں کافی کے سپ لیے رہی تھی اس کی انکھوں پہ لگا چشمہ پھسل کر ناک پہ اگیا تھا لیکن اسے کوئی پروا نہیں تھی وہ جیسے کام کرتیں وقت اپنا ہوش بھول جاتی ہے ۔"
فریحہ مسکرائی پارسا جب واپس آئی تھی تو اس نے ہاتھ جوڑ کر ان سے معافی مانگی اور اپنی نا علمی کا اظہار کیا اور اب سے لیکر وہ ان کا اور زیشان کا بے حد خیال لگ رہی تھی زیشان کو پہلے پارسا بُری لگتی تھی لیکن جب فریحہ نے بتایا کے انھیں معلوم نہیں تھا اس لیے انہوں نے ایسا کیا اس کے بعد سے بھی وہ جھجھکتے ہوئے ان سے بات کرتا تھا لیکن پارسا کی جولی طبیعت نے ساری جھجھک ختم کردیں تھی وہ انھیں چاچی کے بجائے آنی ہی کہتا تھا کیونکہ پارسا نے ہی کہا تھا دارب انڈیا کے لیے روانہ ہوچکا تھا جنرل صادق علی بھی کسی کام سے اسلام آباد گئے ہوئے تھی تو سارے کام پارسا کے سر پہ تھے لیکن مجال ہے اس کے ماتھے پہ ایک شکن آئی ہوں
فریحہ پانی کو بھول کر اس کے پاس اگئی پارسا نے چونک کر سر اُٹھایا
"ارے آپی آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا اس وقت کیوں اُٹھی آپ ۔"
اس کے فکرمند انداز کو دیکھ کر فریحہ مسکرائی اور اس کی عینک کو اوپر کیا اور اس کے ماتھے پہ پیار کیا
"تم اُٹھ سکتی ہوں میں نہیں صبح سے لگی ہوئئ ہوں آبھی بھی اس کمپیوٹر کو اُٹھا کے بیٹھ گئی نہ اپنے کھانے کا ہوش ہے نہ کپڑوں کا دارب آئے گا تو کیا سوچے گا ۔"
"چھوڑیں میجیر صاحب کو جب آئے گئے تو دیکھی جائیں گی ویسے بھی اب تو کام کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے خیر آپ کو کچھ چاہئے بنا دو ۔"
"ائے چُپ کرو اور اُٹھوں صبح کام کرنا بند کرو یہ سب ۔"
فریحہ نے ڈپٹا پارسا مسکرائی
"ایسا لگتا ہے جیسے میری بڑی بہن اگئی ہوں قسم سے بڑی خواہش تھی کے کوئی بہن ہوں میری ،لوگوں کی بہنوں کو دیکھتی تو قسم سے بہت کمی کا احساس ہوتا میں نو سال کی تھی جب امی اس دُنیا سے چلی گئی امی اس وقت میری دوست ہوا کرتی تھی میں نے کہا تھا امی سے کے مجھے کوئی بہن لادیں جس کے ساتھ میں کھیلوں ،ڈھیر ساری باتیں شیر کرو ،میں اس کو تیار کرو اس کا خیال رکھوں امی میری بات پہ ہنس پڑی پھر ایک دن امی آئی تو انھوں نے مجھے کہا پارو آپ کے لیے بہنا لارہی ہیں وہ مجھے ڈھیر سارا پیار کر کے چلی گئی اور پھر وہ نہیں آئی اور نہ میری بہن ،مجھے تکلیف ہوئی کم سے کم بہن نہ ہوتی امی تو ہوتئ نا اس لیے خود کو بہت تنہا محسوس کرنے لگی پہلے تو وقت ایسا ہی بورنگ گزر جاتا لیکن جب تیرہ سال کی ہوئی تو جاسوسی ناولز پڑھنے لگی اور اتنے کے ڈیٹیکٹیو بنے کا شوق ہوگیا ابو کو تو نہیں بتاتی لیکن ایجنٹ بننے کا ارادہ تب سے کرلیا تھا اور جب بلکل مکمل ریسرچ کر کے میں نے ابا کو بتایا ابا حیران ہوئے پھر اچانک انھیں کیا ہوا انھوں نے سختی سے منع کیا مجھے بہت رونا آیا میں سارا دن روتی رہی امی کی کمی کا احساس ہوا بھائی کی کمی کا احساس ہوا جو میرا ساتھ دیتا بہن کی کمی کا احساس ہوا خیر میں بھی کیا شروع ہوگئی پھر میرا ابا نے میرا لا میں اڈمیشن کروادیا دارب کی طرح مجھے بھی لا میں زرا بھی انڑس نہیں تھا بہر حال سال تو گزر گیا اچانک میری نظر آخبار پر پڑی تھی لڑکیوں کے لیے آفر تھی بس تو پھر لا پڑھنے کا یہ فائدہ ضرور ہوا کے میں نے آبا کو ایسی ایسی دلیلے دی کے ابا تو چار پانچ دن تو خاموش رہے ایک دن میرے کمرئے میں آئے میں اس وقت نماز پڑھ رہی تھی اچانک انھوں نے مجھ سے بولے
"پارو تیار ہو جاوں ۔"
میں حیران ہوئی کیوں ابا صبح کی چھ بجے انھیں کہاں جانے کی سوجی تو جب انھوں نے میری ایجنسی میں اپلائی کرنے کے لیے کہا تو بس پھر میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا سمجھتی تھی اللّٰلہ نے مجھے ماں اور بہن بھائی نہیں دیں پھر سوچتی اتنے اچھے اور پیار کرنے والا ابا میری آئیڈیل جاب جس کی میں خواہشمند تھی وہ ملی ، ایک خوبصورت اور فوجی شوہر جو مجھ سے بہت پیار کرتا ہے اور آپ اور زیشان ملے اب تو لگتا ہے جیسے زندگی مکمل ہوگئی ہوں ۔"
فریحہ مسکرا پڑی اور پیار سے اس کے بال سہلائے
"خوش رہوں اللّٰلہ تمھیں نظر بد سے بچائے ۔"
"امین ! ارے میں کیا باتوں میں لگ گئی آپ کو کچھ چاہیے تو دوں ویسے بھی مجھے بھی سخت بھوک لگ رہی ہے پھر کچھ کھاتی ہوں ساتھ میں شاہ سے بات کرلو صبح شانی کو بھی سکول چھوڑنا اور بھی بہت سے کام اُفففف !!!"
وہ اس کو ٹینشن لیتا ہوا ہنس پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : شاندراہ ،اسلام آباد
رات کے ایک بجے کوئی کلنک میں داخل ہوا اس نے بلیک ماسک اور کالے کپڑئے پہنے ہوئے تھے اور وہ بڑئے ہی آرام سے گھسا اور اس نے ٹارچ ان کی کیونکہ اس طرف لائٹ نہیں تھی چلتے چلتے وہ ایک روم کی طرف آیا جہاں وہ اپنے میشن کے قریب تھا وہ اندر داخل ہوا اس نے دیکھا پارسا نہیں تھی بلکہ بے بے کُرسی پہ بیٹھی انکھیں بند کئی ہوئی تھی جبکہ بستر پہ زاویار لیٹا ہوا تھا وہ بلکل قریب آیا اور اسے دیکھنے لگا اور پھر اس نے چاقو نکالا اور دوسرا ہاتھ اُٹھا کر اس کے منہ پہ رکھنے لگا کے اس کی چیخوں کا دم توڑ دیں وہ یہ سب کرنے لگا کے کسی نے اسی کے منہ منہ پہ ہاتھ رکھا اور پھرتی سے چھڑی لیکر اس کی گردن پر لے گیا اور اس کے کانوں میں بولا
"چُپ کر کے میرے ساتھ چل ورنہ تمھاری گردن کو زبع کرنے میں ایک سکینڈ نہیں لگاوں گا ۔"
وہ سرد لہجے میں کہتا ہوا اسے گھسیٹ کر باہر لیکر گیا
اور ایک دم موڑ کر اسے دیوار سے لگایا
"اب بتا مجھے تجھے کسے نے بھیجا ورنہ گردن اُڑا دو گا میں تیری !"
ذیشان خطرناک لہجے میں بولا
"ککک کسی نہیں ۔"
وہ آٹک آٹک کر بولا ذیشان کے چہرے پہ طنزیا مسکراہٹ اگئی
"الو نظر آتا ہوں میں تم کو !!!"
اس نے ایک رکھ کر اس کو لگائی کے اس بندئے کا چہرے ایک تھپڑ پر ہی لال کے بجائے نیلا ہوگیا
"بول اب ورنہ شاندراہ میں اس سے زیادہ بھیانک موت تو نے آج تک نہیں دیکھی ہوگی ۔"
"جی بتاتا ہوں مجھے سنگھنیا باس نے بھیجا اس کو مارنے کے لیے ۔"
"کون سنگھنیا !!!"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :امرت سر ، انڈیا
وہ اس وقت ایک مشن کے تھرو سب بیٹھے گاوں کے ایک حویلی کے کمرئے میں ڈسکشن کررہے تھے کے کہاں کہاں سے اٹیک کرنا ہے کے نہیں سب نے اپنے اپنے بھیس بدلے ہوئے تھے اور سکھ کے روپ اپنائے دارب ان سب کے پلین سُن رہا تھا
"تم لوگ باڈر کے قریب رہنا اور تم لوگ اسے چار سو میٹر کے فاصلے پہ سب کچھ ابزرو کرنا اور پھر ایک سرنگ ہوگی جو بلکل نیچے تقریباً گیارہ فٹ گہری ہوگی اس کو پاس کر کے تم سیدھا وہاں پہنچ جاوں گئے جہاں سب سے زیادہ فوج کھڑی ہوگی اس لیے احتیاط کے طور پہ تم میں سے دیو اور اشکر! تم لوگ انھی کا یونی فورم میں ملبوس ہوگے کے اگر شک ہوجائیں تو اس چیز کو آرام سے ٹیک کیا جائیں اور تو سمیر !"
انھوں نے دارب کو کہا
"تم نے ان کو متوجہ کرنے کے لیے بم پھینکنا جب وہ اِدھر چونک پڑیں گئے پھر ہم اپنا حملہ شروع کردیں ٹھیک ۔"
"یس باس !"
"اور ہاں سب سے زیادہ احتیاط Dynamite bombs کی کرنی ہے وہ زمین کے کچھ حصے میں اٹیچ کیے ہوتیں ہیں اور پاکستانی فوج بہت چلاک ہے انھیں نقصان ہو نہ ہوں ہم مارے جائیں گئے خیر شب شب بولنا چاہئے ہم ہی ہوگئیں کامیاب چلوں فوج تیاری کرو ہمیں باڈر پہ جانے کی تیاری شروع کرنی ہے ۔"
سب اُٹھ کھڑئے ہوئے
"جے ہند !!"
سب سلیوٹ مار کے کھڑئے ہوگئے
"جے ہند !"
دارب کے چہرے پہ ان سب کو دیکھ کر تمسخرا مسکراہٹ آگئی اور دل سے اتنا نکلا
"پاکستان زندہ آباد !"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارسا کلنک آئی تو زاویار کے روم کے اندر داخل ہوئی
وہ ہوش میں تھا اور بے بے اسے پانی پلا رہی تھی پارسا چونکی یہاں ٹیبیل پہ بہت سی شے پڑی ہوئی تھی فروٹ اور جوس کے ساتھ کافی سارے چاکلیٹس کا باکس تھا
"کوئی آیا تھا ساجدہ آپا۔"
پارسا اگئے بڑھی کے کسی نے فورن اس کی انکھوں پہ ہاتھ رکھا
پارسا ایک دم ٹہر گئی اسے لگا جیسے دارب کے ہاتھ ہوں ویسے ہی بڑے بڑے اور بے حد رف وہ ایک فوجی اور ایک عام سے مرد کے ہاتھ کو ڈفرنشیٹ کرسکتی تھی آخر ایک وقت کی انٹیلیجنٹ ایجنٹ تھی
"شانی !!"
پارسا کی انکھیں گیلی ہوگئے اور اس سے شان کے ہاتھ گیلے ہوگئے
شان نے ایک دم ہاتھ ہٹائے اور انھیں مؤڑا پارسا روتے ہوئے اس کے ساتھ لگی
"آنی !!!!بس ریلکس آپ کا شان آپ کے پاس ہے آپ فکر کیوں کرتی ہے ۔"
"مجھے معاف کردو میں تمھارے بھائی کا خیال نہیں رکھ سکی ۔"
زاویار پریشانی سے پارسا کو روتے ہوئے دیکھنے لگا شان نے اسے دیکھا اور اسے نرمی سے انکھوں سے اشارہ کیا کے ریلکس برو !!!
"آنی پلیز روئے مت چاچو کی روح کو تکلیف پہنچے گی اور زاوی کا مجھ سے زیادہ آپ پر حق ہے کوئی بات نہیں ہوجاتا ہے کھبی کھبار ماں بھی اپنے بچے کو بھڑیوں سے نہیں بچا پاتی لیکن آللَٰلہ کا مہربان چھاؤں ہے نا ہم پر کیوں ٹینشن لیتی ہے آپ ، میں بے بے اور زاوی کو اپنے ساتھ لیے جاوں گا کاش مہرو اور آپ کو بھی لے جاوں لیکن اس وقت میری پاس وہ طاقت نہیں ہے کے آپ کو لیے جا سکو اس کے لیے معاف کردیں آنی !!"
پارسا نے نفی میں سر ہلایا اور اس کا چہرہ پکرا اور اس کا ماتھا چوما
"آنی کی جان آنی بہت پرواڈ ہے آپ پر اور فکر نہ کرو مہر تم لوگوں کے پاس ضرور آئے گی میں آو یا نہ آو اس لقمان حمید کو کس بات کا غرور ہے وہ میرے اور دارب کی بیٹی ہے اس کا کیا حق بس سہارا دینے سے کچھ نہیں ہوتا ہوتا تب اگر وہ میری بیٹی کو سمجھنے والا باپ کا پیار دیتا جو آج تک نہیں دیں سکا خیر اس کا بھی کوئی قصور نہیں ہے جب وہ اس کا سگا باپ ہے ہی نہیں تو کیسے محبت دیتا اس لیے میں آج دارب کا وعدہ پورا کرنے جارہی ہوں ۔"
وہ زاویار کی طرف دیکھنے لگی جو بلکل خاموشی سے انھیں دیکھ رہا تھا پارسا اس کے پاس آئی اور بیٹھ گئی پارسا نے اس کے گالوں کو چھوا
"میرا بیٹا ٹھیک ہے نا !!"
"جی آنی !! "
"اپنے بھایا سے ملے۔"
شان ہنس پڑا
"جی آنی آتے ساتھ رٹے ہوئے انداز میں سب بتادیا تاکے کوئی کنفیوزثن نہ رہے اور میرا پیارا بھائی ہے بھی بے حد شارپ اس نے بہت اگئے جانا ہے انشاآللّٰلہ !"
"امین !"
بے بے اور پارسا نے بیک وقت کہا ، پارسا نے بیگ سے ایک کاغزات نکالے اور ساتھ میں ایک پین نکلا
"دو وعدے کرنے ہے زاوی اگر تم زرا سا بھی آنی کو چاہتے ہوں ۔"
"یس میم !!"
وہ بولا پارسا نے گھور کر اس کے سر پہ چپت لگائی
"خبردار میم کہا مجھے مارو گی میں !"
"انی آپ انی سے پہلے آفسر تھی ناں اس لیے آفسر کو تو ریسپیکٹ دینی چائیے ۔"
زاویار جھٹ بولا سب اس کے حاضر جواب ہونے پر ہنس پڑیں
"خیر اگر آنی سے بہت پیار کرتیں ہوں اور مہر کی زرا سی پروا ہے تمھیں تو اس پر سائن کرو ۔"
ساجدہ کی نظر نکاح نامے پہ پڑی تو انھوں نے جھٹکے سے پارسا کو دیکھا
"بی بی جی یہ کیا "
شان نے بھی دیکھا تو حیران ہوگیا
"انی یہ کیا ۔"
"یہ بہت ضروری ہے شانی اور آپا اس کے علاوہ میرے پاس دوسرا راستہ نہیں ہے ۔"
"آنی یہ دونوں ابھی بچے ہے کیا ہوگیا ہے آپ کو یہ کیسا فیصلہ کرنے جارہی ہے مہرو کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور زاویار کے ساتھ بھی !!!"
"کوئی زیادتی نہیں ہے مہر سے میں یہ دستخط کروا چکی ہوں ۔"
اب جو جھٹکا سب کو لگا تھا وہ بہت شدید اور گہرا تھا
"کیا !"
شان تو جیسے چیخ پڑا اور زاویار بُت بنے انھیں دیکھ رہا تھا
"اگر تم لوگ مجھے دارب یا اپنے ماں باپ کی جگہ مانتے ہوں تو میرے یہ فیصلہ مانا پڑیں گا بولو زاوی ،تم چُپ کرو شان تمھارا نکاح نہیں کروارہی ۔"
شان کو بولنے پر ایک دم ڈپٹا اور پھر زاویار کی طرف دیکھا زاویار نے پہلے انھیں دیکھا اور پھر بے بے کو بے بے نے اس کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے سر ہلایا کے کردو یہ سب لکھا ہے تو وہ ہوکر ہی رہنا ہے زاویار نے خاموشی سے پین لیا شان کا منہ کھل گیا
"یہ سب پاگلپن ہے ۔"
"تمھارے ساتھ تو نہیں ہونا جس کو تم چاہتے ہوں اس سے شادی کروا دو گی ۔"
پارسا نے شان کا جنجھلایا ہوا چہرہ دیکھا
"آنی یہ بات نہیں ہے ،افوہ کریں جو کرنا ہے مجھے کیوں بلایا ہے پھر !"
پارسا نے اس کے کمنٹ کو اگنور کیا اور زاویار نے خاموشی سے سائن کردیا
پارسا نے اس کے ماتھے پہ پیار کیا
"مہر کو کھبی خود سے الگ نہیں کرنا زاوی میرا وعدہ ہے وہ صرف تمھاری ہے تمھاری رہے گی اور ہاں تم نے اسی کی رہنا خبرادر ایک اور بات ہمارے خاندان میں سب فوج میں گئے ہیں اس لیے مسڑ تمھیں بھی جانا ہے اور ائی ایس ائی جوائن کرنا ہے پلیز ایسا لگتا ہے زاوی جیسے میں رہوں گی نہیں اس لیے ساری بات کررہی ہوں ۔"
سارے تڑپ اُٹھے شان نے انھیں اپنے ساتھ لگایا
"کیسی باتیں کررہی ہے آنی اللّٰلہ ہمارے سر پہ آپ کو سلامت رکھے ہمارا آپ کے علاوہ ہے کون ۔"
پارسا نے پیار سے اس کا گال تھپکا جبک زاویار نے ان کا ہاتھ پکر لیا
"خوش رہوں تم شانی زاوی کو کہاں لیکر جاوں گئے ۔"
"میری پوسٹنگ جہلم ہورہی ہے کچھ مہینے کے لیے زاوی کو کیڈٹ کالج میں آڈمیشن کروادو گا اس کی ٹینشن نہیں ہے ہوجائیں گا ویسے بھی پتا چلا صاحب نے بورڈ میں ٹاپ کیا ہے ۔"
شان نے پیار سے زاویار کے بال ٹھیک کیے
اور پارسا نے ان دونوں کو پیار سے دیکھا اور تھوڑا پُرسکون ہوگئی ایسا لگ جیسے دارب اس کے فیصلے پر بے حد خوش ہے
**************
لوکیشن : ممبئی ، انڈیا
"سر میجیر شاہ دارب علی سپیکنگ ۔"
"او دارب اینی ریپورٹ ۔"
جنرل تمیور ہمدانی ایک الرٹ ہوکر بولے
"سر ریڈی رہے اوپریشن از سٹارٹٹ !"
"او کیا پلان ہے ۔"
وہ انھیں سب ڈیٹیل بتانے لگا اور اس نے خاص گوڈنگ لنگویج میں سمجھایا جو سمجھ میں آنے سے رہی
"ویل ڈن مائی بائی نیکسٹ پرسیسو !!"
وہ فرینچ میں بولے دارب ہنس پڑا
"سر میجر عباس کو وہ نیو دیلی لیے گئے ہیں میں نے سُنا ہے ۔"
"اچھا تو اب کیا کرنا ۔"
"اب یہ ہے کے نیکسٹ سٹاپ تو وہی ہے لیکن ایک بندہ مجھے بھایا کو نکالنے میں ہلپ کرسکتا ہے بٹ اس سے پہلے مجھے Goa جانا پڑیں گا خواجہ سرِاہ کے روپ میں ۔"
"اوکے یو کیری ان مائی سن ال دا ویری بیسٹ !"
دارب نے فون بند کیا اور پھر اپنے فون کی سکرین کو دیکھا جہاں پارو کی تصویر کو لگی ہوئی تھی اس کو دیکھتے ہوئے اور کچھ سوچتے ہوئے اس نے فون نکال کر سم نکالی اور اسے بیگ میں رکھی اور پھر ایک اور سم نکالی اور اسے لگائی اور پھر ہوٹل کے بستر پہ بیٹھ کر اس نے نمبر ملایا اور کانوں پہ لگایا اس نے ٹائیم دیکھا اور سوچا وہ اس وقت کھانا دیں رہی ہوگی یہ سوچتے ہوئے بند کرنے لگا کے فورن اُٹھا لیا
"ہلیو !!"
دارب اگئے سے کچھ نہیں بولا
"ہلیو شاہ آپ بات کررہے ہیں ۔"
دارب کو اس کے ایک دم پہچانے پر ہنسی اگئی
"مانا پڑیں گا ایجنٹ صاحب آپ کو ۔"
"پتا ہے نخرہ کوئی کال پہ کرتا ہے تو وہ ہے میجر شاہ دارب علی منہ سے ایون سلامت تک نہیں بھیجے گئے چائیے اگلہ منہ سے پہلے کچھ نہ بولے ۔"
دارب ہنس پڑا
"اسلام و علیکم ! اچھا کیا کررہی ہوں ۔"
"ولیکم سلام بس آبھی شانی کو دودھ کا گلاس دیا ہے تو ناول پڑھ رہی تھی باقی سب تو سو ہی گئے ۔"
"اتنی جلدی !"
دارب نے دوبارہ گھڑی دیکھتے ہوئے کہا
"جی اتنی جلدی آپی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور شانی نے صبح سکول جانا ہے۔"
"ہممم کچھ کھایا تم نے ۔"
"ہاں ہاں میں نے پیٹ بھر کے کھایا ۔"
"بالوں کے ساتھ کھیل تو نہیں رہی ۔"
دارب مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا جب بھی پارسا جھوٹ بولتی بالوں کے ساتھ کھیلتی تھی پارسا کو جھٹکا لگا اِدھر اُدھر دیکھنے لگی کہی دارب نے کمیرہ تو نہیں لگادیا
"جھلی میں جانتا ہوں تمھیں کمیرے کی ضرورت نہیں ہے مجھے تمھارے دل پہ میری آنکھیں فکس ہے ۔"
پارسا ہنس پڑی
"آپ بھی نا شاہ !!!"
"میں بھی نا کیا !"
"خیر آپ کا میشن کیسا جارہا ہے ۔"
"الحمدللّٰہ آبھی تک تو اچھا ہی ہے بس تم دعا کرو ۔"
"میری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے دارب !!"
"اچھا جاوں پہلے کھانا کھاو اور ان فضول ناولز کو پڑھنا چھوڑ دو پہلی اتنا بڑا چشمہ لگا ہوا ہے اور ہی آندھی ہوجانا ہے ۔"
"او ہو شاہ آپ کو تو ہر وقت اعتراض رہتا ہے ۔"
"نہیں میری جان فکر ہوتی ہے مجھے تمھاری آخر جب آو گا تو آپنی زندگی شروع کریں گے اگر زندہ رہا تو نہ رہا تو میرے پھیچے اپنی زندگی نہ خراب کردینا اور خبرادر جو اپنی موٹی کوجی انکھوں پہ بُرے بُرے انسو لائے قسم سے بہت دل دکھے گا ۔"
پارسا کا دل تڑپ اُٹھا
"کیسی بات کررہے ہیں شاہ خدا آپ کو خفظ و آمان میں رکھے ۔"
دارب نے دل سے امین کہا
"دعا کرو بڑی طاقت ہے ان میں رکھتا ہوں زیادہ دیر بات نہیں کرسکتا ۔"
"اپنا خیال رکھیے گا شاہ ۔"
"تم بھی سب کو سلام !"
"فی آمان اللّٰلہ !!"
*************************
اسی طرح پارسا مہر کو لیکر فرانس چلی گئی جبکہ لقمان حمید اپنے کسی کام سے رُک گئے اور کچھ دنوں بعد آنے کو کہا شان اپنے کام پہ جانے سے پہلے زاوی اور آمی کو جہلم پہ ایک کرائے کا گھر لیکر دیا اور زاویار کا اڈمیشن کیڈٹ کالج میں کردیا زندگی اسی ڈگر پہ چل رہی تھی سب اپنی دُنیا میں لگ گئے پھر ایک زندگی میں ایک بہت بڑا انکشاف ہوا پرسا کو وہ بھی اس کے کینن آنے کے چار سال بعد وہ مہر کو سہلا کر جو ہی نیچے آئی تھی جب اس نے کچھ سُنا اس نے دیکھا لائبریری میں لقمان کسی سے بات کررہے تھے
"ہاں فکر نہ کرو نہیں سُن رہی بولو بیٹی کے پاس ہے ہاں ہاں مجھے سمجھ نہیں آرہی کیا کرو نہ اسے ختم کرسکتا ہوں نہ اس کی بیٹی کو اور وہ کمینے کا بھتیجا کہی غائب ہوگیا ہے کسی کو مارنے کے لیے بھیجا تھا اسے پھر خود کی ہی لاش واپس ملئ یہ بھی نہیں پتا کس کی چال تھی اُف سب اتنے کام آسان ہورہے تھے اس وقت اور اب نہ اس دارب کے بچے کی ایک جائیداد نام ہورہی ہے نہ ہی کوئی دفعہ ہورہا مجھ سے اور نہیں ہوتا ڈرامہ یہ کینن کا ہیڈ بنانا مجھے اپنے نہ ملک رہنا اس پاکستان سے میرا دم گھٹتا تھا بس فیک کی ہر چیز ہے حمید پیلس کیسا پیلس جب ہے ہی مہر اس کمینے دارب کی بیٹی کا کچھ بھی تو نہیں ہے اور اس کی بیوی سے بھی کیا حاصل ہوا نہ اس نے اپنا آپ سونپا مجھے بس نکاح اپنی حفاظت کے لیے کیا بڑی ہی بے وقوف لڑکی ہے اسی سے سہارہ مانگا جس نے اس سے سہارہ چھین لیا اس کے شوہر کو غدار قرار کر کے مار دیا لیکن اس کے بعد لگا جیسے سب کچھ فتع کرلیا خود کو سکندر ِاعظم سمجھ بیٹھا بھول تھی اب بتا میں کیا کرو
وہ اگئے بھی کچھ بول رہا تھا لیکن پارسا کے کانوں میں سائے سائے ہورہی تھی اس کو لگا جیسے معاورتن نہیں واقی اس کے پیروں سے زمین نکل گئی ہوں
وہ اس شخص کے ساتھ پورے پندرہ برس رہی جس نے اس کے دارب کو اس کو دارب کو برباد کردیا اور وہ بھی پورے پاکستان میں اس کا نام !!!"
پارسا کو لگا اس کو سانس نہیں آرہی تھی
"دعا کرو پارو یا تو شہید ہوں یا غازی بنو بس اس کے علاوہ مجھے کوئی خواہش نہیں ہے ۔"
"اپنے ملک کے لیے اپنے ایک ایک خون کا قطرہ قربان کرنے لیے تیار ہوں ۔"
"پارو میرے جانے کے بعد خود کو برباد نہیں کرنا اور خبردار ان کوجی انکھوں میں بُرے انسو لائی ۔"
"اپنا خیال رکھنا اور میری نسا کا بھی ۔"
پارسا وہی چکرا کر گر پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : گلگت بلتستان
مہر نے زور دار جھٹکا دیا کے ایک دم زاویار پھیچے ہوا
اور وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگا مہر اس کے قریب آئی اس کے گیربان پکر کر اپنی آنکھوں کے مقابل کیا
"شکر ہے منہ سے تم نے خود کو سارا سچ اعتراف کیا ورنہ یہ چوہے بلی کا کھیل چلتا رہتا اور مجھے کیا پاگل سمجھا ہے ایجنٹ روجر نے جو بات کی تھی وہ حرف با حرف ٹھیک کہی تھی وہ بہت کام تعریف کرتے اور ان کی کرتے جو واقی بہت کمال کے ہوتے ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے مجھے طلاق والا ڈرامہ رچا کر تم کیا سمجھتے ہوں میں آپنا بول کھول دو گی اور تم اپنی ہیرو ہنری دکھا کر یہ شو کرو گئے میں بے وقوف ہوں نہیں میجیر زاویار عباس مجھے سارا ائے ٹو زی تک پتا جو تمھیں پتا ہے وہ مجھے بھی پتا ہے بس ایک دوسرے پہ ظاہر نہ ہورہے تھے میں نے بھی یہ سب ڈرامہ کیا کے تم منہ سے کچھ پھوٹو کے شان اور زاویار کا چکر کیا ہے آخر ! اور ممی نے واقی مجھے کچھ نہیں بتایا وہ تو مجھے ان کی دئی ہوئی سیف کی چابی میں ہر سچ پتا چکا تب سے میں پلان کیے بیٹھی ہوں اور مجھے کیا پاگل سمجھا جو نہ تمھیں اور نہ ہی شانی بھایا کو دیکھا ہوگا مجھے پتا ہے ایک پہلے دن اور بیچ والے دن وہی تھے باقی کے دن وہ اپنے میشن پہ گئے ہوئے تھے ویسے اب تو چار دن بعد آرہے ہیں خوب تم دونوں کو تنگ کرنا تھا لیکن تم تم نے زاوی تمھیں آرام نہیں ہے خوامخواہ یہ کھیل کھیلتے رہے مجھے ایسے ہی تڑپاتے رہے پتا بھی ہے کتنی مشکل ہے میرے لیے اس گھر میں رہنا جہاں وہ ذلیل شخص کتنے آرام سے میرے ماں باپ کو مار کے بیٹھا میں منہ سے اسے باپ کہنا میرے لیے اتنا مشکل ہے اور تم اور شان بھایا۔ بس مجھے آزماتے رہے ۔"
زاویار اسے دیکھنے لگا جو اتنی مضبوط ہونے کے باوجود بکھر رہی تھی وہ اتنی انٹیلیجنٹ اور چالاک کے ساتھ تھی تو ایک لڑکی اور آنی ہمیشہ کہا کرتی تھی لڑکی ٹہری سدا کی جزباتی بے شک وہ اتنی مضبوط اور طاقتور کیوں نہ ہوں لیکن آپنی زندگی میں آیک گھنی چھاؤں کی سخت ضرورت ہوتی ہے انھیں آپنا ایک محافظ اور رکھوالا چاہیے ہوتا جو ان کو اپنی محفوظ پناہ میں رکھے اور انھیں مکمل کریں جیسے پارسا دارب سے مکمل ہوتی تھی ویسے ہی مہرالنساء زوایار سے مکمل ہوتی تھی پھر اچانک اس کی نظر شان کی گری ہوئی تصویر پہ پڑی اس کے دل میں ٹھیس اُٹھی اس کا جان ست چڑھکنے والا بھایا بھی انھیں کمینے لوگوں کو شکار ہوا
"تمھیں پتا ہے میں میجر ایک دم کیسے بنا ۔"
زاویار بڑبڑایا
مہر نے ایک دم چونک کر سر اُٹھایا
"کیوں بھلا !!!!"
زاویار مڑا تو اس کی انکھیں سُرخ تھی
"تمھیں پتا ہے کے زیشان زندہ بھی ہے آور نہیں بھی !!!"
مہر نے الجھن امیز نظروں سے دیکھا
"زاوی !!"
"مہر تم ائے ٹو زی سب جانتی ہوں لیکن اس ائے ٹو زی میں چھپے ایک راز کو نہیں جانتی جو تقریباً سب ہی آفسر سے چھپایا گیا ہے یہ راز میں اور ہالے ہی جانتے خیر تم میری بیوی اور ملک کی رکھوالی بھی تو یہ جانان ضروری ہے کے میجیر شان دو مہینے پہلے لقمان کے بندئے کے ہی ہاتھوں شہادت پا چکا ہے ۔"
مہر کے سر پہ اب سچ مچ والا بم پٹھا
"کیا !!! "
"ہاں اور اس اوپریشن کو پورا کرنے کے لیے مجھے یانی کیپٹن زوایار کو میجیر کا رینک اتنی کم عمر میں دیا گیا ! اور مجھے یہ زمہ داری کسی بھی حال میں پوری کرنی ہے ۔۔۔
اس سے اگئے کچھ کہتا کے مہر بھاگتے ہوئے آئی اور اس سے لگ گئی
"کچھ مت کہوں زاویار ہم دونوں مل کر یہ اوپریشن پورا کریں گئے ہمیں خدا نے ایک کیا کس لیے ہے کیونکہ ہم کوئی کام کریں تو مل کر ڈھٹائی سے کریں اب دیکھنا کیسے ہمارے دُشمنوں کو پردہ صاف ہوگا ویسے بتاوں گئے یہ بھایا کے ساتھ کیسے ہوا ائی نو مشکل ہے لیکن زاویار بتاو اپنا غم مت چھپاؤں کھل کر بتاوں ۔"
زاویار نے پیار سے اس کا معصوم چہرہ دیکھا اور اسے گھیرے میں لیا اور گہرے سانس لیتے ہوئے سر اس کے سر کے ساتھ ٹکا لیا
"وہی جو میجیر عباس رضا کے ساتھ ہوا تھا جو میجیر دارب کے ساتھ ہوا اور ایجنٹ پارسا کے ساتھ ہوا وہی سب ذیشان علی کے ہی ساتھ ہوا ۔"
زاویار کے لہجے میں تڑپ تھی اور مہر نے اسے خود میں بھینچ لیا
"ہالے ذیشان بھایا کی منگیتر تھی ناں ۔"
"ہاں بھایا بہت چاہتے تھے انھیں بس اسی میشن کے بعد دونوں نے شادی کا سوچا تھا خیر کیا کہے اور تم ڈرامے باز جیلسی کا بہنا بناتی رہی اور ہالے بھی فل ایکٹنگ میں لگی ہوئی وی تھی لیکن کوئی اس کے دل میں جھانکے کے کتنی تڑپ ہے اور کتنا درد ہے جو اپنے محبوب سے دو مہینے ہوگئے بچھر ہوئے اور میں جانتا ہوں وہ کسی سے شادی نہیں کریں گی ذیشان بھایا بھی جانتی تھے اس لیے تو انھیں ہالے سے شدید محبت تھی ۔"
آج زاویار کھل کر بول رہا تھا اپنا درد دکھا رہا تھا اور مہر اس کے درد کو سمیٹ رہی تھی حلانکہ خود بھی کھل کر رونے کا چارہا تھا جو ان کی خاندان کی نسل کو تباہ کرنے پہ ہی تل پڑا تھا
※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : لاہور ،پاکستان
دارب اپنے اوپریشن میں سکیسفل واپس آیا تھا ، لیکن آفسوس وہ اپنے بھائی کو نہ بچا سکا لیکن اس کے باد کے اس نے اپنے بھائی کے قاتل کو وہ ابرت ناک سزا دلاؤ ائی تھی کے کوئی سوچ نہیں سکتا تھا آج وہ پورے چار مہینے بعد واپس آرہا تھا اسے گھر آنے کی ہمت نہیں ہورہی تھی کیسے جواب دیں گا بھابی اور ذیشان کو جن کی انکھوں میں اس نے اُمید دیکھی تھی خیر بتانا تو تھا ہی آخر کب تک چھپنی تھی یہ بات وہ کار لیکر سیدھا صادق علی کے گھر قریب لارہا تھا جب کافی سارے لوگ اس گھر پہ نظر آئے اور ایک امبولینس کو دیکھ کر اس کا دل کی دھڑکن رُک سی گئی دیکھنے میں تو سب کچھ سمجھ آرہا تھا لیکن وہ سمجھنا نہیں چارہا تھا آبھی بھایا کا درد کم نہیں ہوا تھا کے ایک اور آزمائش دارب نے کار رُکو دیں
"یا اللّٰلہ تو نے پہلے ہی میرا بھائی لے لیا ہے اب میرے سے کوئی اپنا نہ چھین مجھ سے برداشت نہیں ہو پائے گا ."
لیکن کہنے سے کیا ہونا تھا موت تو اٹل ہے اس کو ہونے سے کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی وہ کافی دیر ہمت کر کے آیا صادق علی کو دیکھ کر اس کے جان میں آئی کے شکر ہے وہ سلامت ہے وہ لوگوں سے مل رہے تھے جب ان کی نظر دارب پہ پڑی تو ایک دم تیزی سے آئے اور اس کے گلے لگ پڑیں
"تم ٹھیک ہوں خدا کا شکر ہے ۔"
وہ دُکھی لہجے پہ بولے ان کے لہجے پہ دارب کا دل گھبڑا گیا کہی پارو !!!"
"سر پارو تو ٹھیک ہے نا !!!"
دارب آہستگی سے بولا
"ہاں وہ ٹھیک ہے لیکن ۔۔۔"
اگئے اس سے سُنا نہیں گیا
"فریحہ بیٹی بچے کو جنم دیتے ہوئے اس دُنیا سے چلی گئی ۔"
تو آخر کار بھابی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں رہی دو میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ ہی اس دُنیا کو چھوڑ گئے دونوں نے ہی شہادت کے موت پائی لیکن اس معصوم بچے اور شان کا کیا ہوگا
"میت کو غصل دیے دیا گیا ہے اب جنازے کی تیاری کررہے ہیں باقی سب اندر ہیں شان کو دیکھوں وہ تو چُپ ہی نہیں ہورہا ۔"
دراب کو تکلیف بہت ہوئی اس کا بھی رونا کا دل کررہا تھا لیکن رو نہیں سکتا تھا اسے ہی سب کو سنبھالنا تھا
وہ اندر آگیا جہاں سب عورتیں کے درمیان فریحہ کی میت پڑی ہوئی تھی اور ذیشان کی میت سے لپٹا ہوا پھوٹ پھوٹ کر رورہا تھا اور پارسا خود روتے ہوئے اسے سنبھالنے کی کوشش کررہی تھی لیکن وہ سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔دارب کو یہ منظر بلکل نہیں پسند آرہا تھا بھایا کی موت سے زیادہ سب سے درد ناک منظر تو یہ تھا پارسا نے مڑ کر دیکھا اور اس کی سوجی ہوئی انکھیں حیرت سے پھیل گئی وہ بھاگتے ہوئے آٹھی اور دارب کے ساتھ لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی
"مجھے معاف کردیں دارب میں آپ کا وعدہ پورا نہیں کرسکی میں آپی کا خیال نہیں رکھ سکی آئیم رئیلی رئیلی سوری ۔"
وہ بولے جارہی تھی اور دارب اسے تھپک رہا تھا
"تمھاری کوئی قصور نہیں ہے پارو یہ سب تو لکھا تھا ۔"
اور پھر اس کی سُرخ نظریں ذیشان کے جھٹکے لینے وجود پہ تھی اس نے نرمی سے پارسا کو الگ گیا اور جاکر شان کے پاس آیا
"ممی انکھیں کھولے نا پلیز ممی مجھے چھوڑ کرنے جائیے نہیں چاہیے مجھے وہ بے بی گندا ہے وہ آپ کو مار دیا اس نے ۔"
دارب کا دل اس کے الفاظ سے چیڑ گیا اس ننھی سی جان کا کیا قصور بھلا
"شانی !"
دارب نے اسے پکارا ذیشان نے سر اُٹھایا اور خاکی یونیفورم میں دیکھ کر آپنے چاچو سے لپٹ گیا
"چاچو !! چاچو ممی مجھے چھوڑ گئی اس بے بی نے ممی کو مار دیا پاپا بھی نہیں ہے ممی بھی چلی گئی ۔"
دارب سے برادشت نہیں ہوا اور ایک انسو شان کے بالوں میں جزب ہوگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : کینن ، فرانس
وہ ذیشان اور زاویار دونوں کو سب حقیقت ایمیل کی تھڑو بتا کر اُٹھی اور مہر کے کمرئے میں آئی اور اسے پیار کیا اور جلدی سے فون اُٹھایا اور مہر کا سامان پیک کرنے لگی ساتھ میں انھوں نے مہر کو ایک کاغذ پہ سب کچھ لکھ دیا اور اس بیگ میں ڈالا اور تیجوڑی دیکھی جس پہ پی لکھا ہوا تھا پارسا نے اس نوٹ کے ساتھ چپکا دیا
"میری جان اسے اپنے جان سے بھی زیادہ سنبھالنا اس میں تمھاری امانت ہے ۔"
یہ لگا کر وہ آئی اور مہر کو اُٹھانے سے پہلے انھوں نے لاکر سے کچھ نکالا اور گلوز پہنے اس کے بعد ریوالور نکلا پارسا کے ہاتھ کھبی نہیں کانپنے تھے جب بھی وہ دُشمنوں پر اٹیک کیا کرتی تھی لیکن آج ناجانے کیوں اس کا دل گھبڑا رہا تھا جیسے آج کچھ ہوجائیں گا
"نہیں پارسا تم ایجنٹ فلاور ہوں اور تم زرا نہیں گھبڑاوں گی تمھیں تو میں لقمان تمھیں گولیوں سے چھلنی نہ کردیا تو میرا نام بھی پارسا نہیں ۔۔۔"
وہ ریوالور کو سختی سے پکڑیں مہر کو دیکھی جو انکھ بند کیے پُرسکون انداز میں سورہی تھی پارسا نے دیکھا اور دوبارہ اس کے پاس اکر اسے ڈھیر سارا پیار کیا اسے لگ رہا تھا جیسے وہ بھی مہر سے دور ہوجائیں گی
"اپنا خیال رکھنا میری مہرو ماما اگر پاس نہ ہوئی تو اس کے لیے سوری !!!"
※※※※※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : گجرات ،پاکستان
شان آپنا یونی فورم پہن چکا تو بے بے کو آواز دینے لگا
"بے بے ناشتہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے میں جارہا ہوں ۔"
وہ اپنی کیپ اُٹھا چکا اور سڑھیوں سے اتر رہا تھا جانے کے سامنے ایک دم بے بے نے سٹک پکڑی
"تو یہ الو کے پڑھاٹے تیرے نوکر کھائیں گئے ،چُپ کر کے آیا وآڈ !!"
"بے بے لیٹ ہورہا ہوں میٹنگ ہے آج میری نو بجے ۔"
شان ان کے پاس آیا اور ان کے کندھے پہ بازو پھیلائے
"تجھ سے تو بہتر میرا پُتر زاوی ہے کوئی چیز بناؤ شوق نال کھا لیندا ایک تو موا فٹنس کی پڑئ رہتی ہے سب جانتی ہوں چل آ پتا ہے تیری میٹنگ دیر سے ہے ۔"
شان ہنس پڑا
"آپ کے زاوی کی بات ہی الگ ہے امریکا چلا بھی گیا لیکن بچوں کی طرح دن رات آپ کو فون کرنا نہیں چھوڑا اس نے اور مجھے بھی بار بار کہتا رہتا ہے بھایا بے بے کا خیال رکھا کرو اور جو بنائیں کھا لیا کریں اور ٹو کے تو بلکل ہی نہیں آرہے بتاو بھلا صرف اس کی بے بے ہے میری نہیں اور اس نالائق کو میری فکر تو بلکل بھی نہیں بس سلام کے علاوہ ہر وقت بے بے بے بے کا کاکا نہ ہو تو ۔"
شان ڈائینگ ٹیبل پہ آیا جہاں سب کچھ لگا ہوا تھا تو وہاں بیٹھی خوبصورت سے زاویار عباس کو چائے کے سپ لیتے ہوئے دیکھا تو حیرت کا جھٹکا شان کو لگا
"تم !!!"
زاویار کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی اور مڑ کر اُٹھ گیا
"لوگ غیبتوں میں لگئے ہوئے تھے میرے بارے میں کیا باتیں ہورہی تھی بھایا کاکا اچھا تو آپ کیوں جلتے ہیں میرے اور بے بے کے پیار سے ۔"
زاویار نے اسے گلے لگایا
"چار سال بعد زاویار کو واپس آکر ملتے ہوئے ذیشان کو حیرت ہے حیرت ہوئی کیونکہ کل ہی اس نے فون پہ کہا تھا کے ڈگری ملنے سے پہلے نہیں آو گا اس کا بکچلر اور ماسڑ اس نے سٹنفورڈ یونی ورسٹی سے کیا تھا اسے آفر ہوئی تھی لیکن زاویار نے منع کردیا شان نے اسے جھاڑ پلائی زاویار نے کہا اس نے فوج جوائن کرنا ہے تو شان نے کہا پہلے تعلیم مکمل کرو اور پھر اکر کرلینا منع تو نہیں کررہا وہ پھر بھر پور بعث کے بعد جیت شان کی ہوئی اور بے بے نے بڑی ہی مشکلوں سے اسے امریکا پڑھنے کے لیے بھیجا ، شان نے اسے خود میں بھینچا اور بولا
"کمینے انسان بتا نہیں سکتا تھا اور ڈگری لیے بنا ہی آگئے اور آیا کب ۔"
"بس صبح کے پانج بجے آپ نماز پڑھنے گئے تھے میں نے اکر بے بے کو سپرائز دیا اور کہا آبھی آپ کو نہ بتائیں صبح میں خود سپرائز دو گا اور ڈگری کا کیا کرنا ہے فوج میں جانا ہے آنی کا سپنا پورا کرنا ہے میں نے ۔"
"آنی کے سپنے کے بچے ایک مہینے بعد تیری کنویکیشن سرمنی ہے میں اور بے بے جائیے گیے ۔"
"تو آپ جائیں نا میں تو خیر نہیں جاوں گا ۔"
زاویار پھر جاکر کُرسی پہ بیٹھ گیا شان نے اسے گھورا اور جاکر اس کے کان کھینچے
"اس بھایا چھوڑے اب تو میں بڑا ہوگیا ہوں ۔"
"تم کیا تمھارا تایا بھی جائے گا اور جتنا بھی تو بڈھا ہوجائیں میرے لیے بچہ ہی رہے گا ۔"
"اچھا میرے معصوم سے کانوں کے ساتھ کیوں ظلم کررہے ہیں خود تو آرمی میں چلے گئے میرا کیوں چانس خراب کررہے ہیں ۔"
شان نے چپٹ لگائی اور بیٹھ گیا بے بے بھی ہسنتے ہوئے بیٹھ گئی
"آج آفس نہیں جانا کیا صاحبزادے ۔"
بے بے شرارت سے بولی شان ہنس پڑا
"جانا تو ہے پر اس نالائق کو سبق سکھا دو ۔"
"بھایا میں نالائق نہیں ہوں اتنی ٹاپ یونیورسٹی سے ائیم بے ائے کیا ہے ۔"
شان ہنس پڑا
"اچھا تو کدھر ہے ثبوت ثبوت وہی چھوڑ کر اب مجھے شوخیاں دکھا رہے تو چل رہا سمجھا ۔"
زاویار نے منہ بنایا اور بریڈ پہ جیم لگانے لگا ایک دم اس کی نظر سامنے مہر اور پارسا کی تصویر پہ گہی وہ سامنے ایک بڑے سے شلف پر انھیں دونوں کی تھی اور یہ تو کوئی نئی تصویر لگ رہی تھی مہر اس میں سولہ سال کی خوبصورت دوشیزہ لگ رہی تھئ اس کے خوبصورت سے سینڈ بروان بال اب لمبے ہوچکے تھے پارسا کی سُنا تھا ہارٹ اٹیک سے ڈیتھ ہوگئی تھی اور وہ اس وقت اتنا پاگل ہورہا تھا وہاں جانے کے لیے کے مہر کیسی ہوگی کیا حال ہوگا شان بھی زاویار کو لیکر جانا چاہتا تھا وہاں لیکن مجبور تھا اس نے کہا تھا کے کسی طریقے سے مہر کو مل لیے گئے لیکن فل حال ابھی نہیں ۔ شان نے اسے اتنی دیر تصویر کو غور کرتیں ہوئے دیکھا تو اس کے چہرے پہ شرارت والی مسکراہٹ اگئی
"آبھی بس کردیں کتنا سکین کریں گا اپنی بیوی کو جانتا ہوں خاصی پیاری ہے لیکن آبھی سترہ سال کی ہے سمجھے !!!!"
زاویار بُری طرح چھینپ گیا
"آپ کو یہ مہر کی تصویر کہاں سے ملی ۔"
"انٹرنیٹ سے !!!"
شان کی بات پہ زاویار کو اچھو لگا اسے آج تک مہر انٹرنیٹ پہ نہیں ملی بھایا کو کہاں سے ملی
"مجھے تو نہیں ملی ۔۔۔"
شان اس کی بات سُن کر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا جبکہ ہری انکھوں میں گہری شرارت تھی
"او تو مسڑ بیوی کو سٹاک کرتیں رہے لیکن ہائے یئ ظلم ملی ہی نہیں ۔"
بے بے کو بھی ہنسی آئی لیکن زاویار کا جنجھلایا چہرہ دیکھ کر بولی
"شانی چُپ کر میرے پُتر کو تنگ نہ کر ۔"
"ہائے بے بے صاحب جی نے چودہ سال کی عمر میں شادی کر لی اور ایک ہم ہے اکتیس کے ہوگئے لیکن آبھی تک کنوارے ۔"
"ہاں تو میں پاگلوں کی طرح آٹھ سال سے تیرے پھیچے پڑی ہوں اب تو تے میجیر بھی بن گیا تو کب کریں گا شادی ۔"
شان نے کپ اُٹھایا اور ہنس پڑا
"ہاں ہاں بے بے تیاری پکڑیں اور ڈاکڑ ہالے کے گھر ۔"
شان نے ایک دم حیرت سے دیکھا اور اس کے چوری پکڑے جانے پر زاویار ہنس پڑا
"مجھے پتا تھا بھایا آپ ہالے میں انٹریسٹٹ ہے ۔"
"تمھیں کیسے پتا !!!!"
"مجھے پاگل سمجھا جو بار بار آرمی میڈیکل کے کالج کے کون چکر لگاتا تھا بار بار بائیک لیے کے ٹینیچر کی طرح ہوسٹل میں پہنچ جانا ۔۔۔۔اس سے اگئے بولا نہیں گیا شان نے بے بے کی سٹک اُٹھائی اور زاویار بھاگ اُٹھا
"تو میری جاسوسی کرتا تھا ۔"
"آپ کا بھائی ہوں ویسے بھی جاسوس بنانا ہے تو جاسوسی کرو گا ۔"
تیری تو میں اچانک شان ٹیبئل سے ٹکرایا مہر کی لگی ہوئی تصویر گرنے لگی زاویار تیزی سے آیا اور اسے پکڑا
"بھایا آپ بھی نا بچے بن جاتے ہیں ۔"
زاویار تیزی سے بولا
شان نے اس کے چہرے کو دیکھا جو بہت ہی احتیاط سے مہر کی تصویر رکھ رہا تھا اسے سمجھ آگئی وہ مہر کو شدت سے چاہتا ہے
"تصویر ہی تھی یار اتنا ریکائشن ٹوٹ جاتا بھی تو کیا دوبارہ بھی تو بن سکتا تھا ۔"
"جس چیز کا ٹوٹنے کا ڈر ہوں وہ چیز نہیں بنانی چائیے بھایا کیونکہ جب ٹوتا ہے تو بہت عجیب سی تکلیف محسوس ہوتی ہے اگر یہ تصویر ٹوٹ جاتی تو عجیب سی دل میں ٹھیس سی اُٹھاتی آپ کو پتا ہے جب آنی کی موت ہوئی تھی تو میرے ہاتھ سے ان کی تصویر گری تھی اس لیے میں اب آنی کے بعد اور کسی کو کھو نہیں سکتا خاص کر انھیں جنھیں میں دلوں جان سے چاہتا ہوں ۔"
اس کی بات پہ شان ایک دم چُپ ہوگیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : گلگت بلتستان
مہر ہالے کے گلے لگی
"ائیم سوری مجھے پتا ہونے کے باوجود بھی آپ سے روڈ ہوہی اور بار بار شان کا ذکر کر کے آپ کو تکلیف دی ۔"
مہر واقی شرمندہ لگ رہی تھی ہالے نے پیار سے اس کا چہرہ پکڑا
"تمھیں پتا ہے اپنی امی کی ہی طرح انھیں کی جیسی انکھیں اور انھیں کی جیسے بال ڈٹو یو آر پارسا اور حرکتیں بھی ویسی سو کیوٹ !!!"
مہر چھینپی
ہالے نے اس کے پیارے سے مکھڑے کو دیکھا اور پھر دل میں اس کو ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دیں اور پھر اس نے شان کی تصویر دیکھی اور پھر زاویار کو جب مہر بولی تو اس کی سانسیں رُک گئی
"میں جانتی ہوں آپ بھایا سے بہت پیار کرتی ہے آپ خوش ہونے کی اکٹینگ کرتی ہے لیکن کیا آپ اپنی زندگی اگئے نہیں شروع کرسکتی ۔"
زاویار نے جھٹکے سے اسے دیکھا
"مہر کیا بکواس ہے !!!"
زاویار کے سخت لفاظ پہ پارسا نے اسے گھورا اور پھر بولی
"اس کو کچھ مت کہو ذاوی
ہاں مہر تم بلکل ٹھیک کہہ رہی ہوکبھی ایسا ہوتا ہے نا کہ کسی بہت اپنے کی جدائی، دوری یا موت آپ کو اندر تک چھلنی کر دیتی ہے آپکی روح تک کو زخمی کر دیتی ہے
کیونکہ جس سے آپ جدا ہوتے ہو وہ آپ کی روح کا حصہ ہوتا ہے آپ کی پوری زندگی ہوتا ہے آپکی جان قید ہوتی ہیں اس میں
اس کی سانس چلتی ہے تو آپ کی سانس چلتی ہے
اس کا دل دھڑکتا ہے تو آپ کا دل دھڑکنے کا اقرار اور اظہار کرتا ہے
اور سوچیں کے اگر وہ شخص آپ سے جدا ہو جائے تو کیا آپ زندہ ہیں ؟
حرام موت آپ مر نہیں سکتے طبعی عمر تک آپ خود کو گھسیٹنا نہیں چاہتے
غرض کے آپ جینا ہی نہیں چاہتے
زندگی اور دنیا آپ کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی
پھر آپ صرف ایک زندہ لاش ہوتے ہو
اور سوچیں کہ اگر آپ مجبور کر دیئے جاؤ کہ اپنے غم کو چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دینا تو اس بندے کی کیا حالت ہوتی ہوگی
اس کا دل تو سہی معنوں میں خون کے آنسو روتا ہے
جو لوگ آنسو پی جاتے ہیں اور جن کے آنسو آنکھوں سے نہیں گرتے
ان کے آنسو دل پہ گرتے ہیں
اور جب آنسو دل پہ گرتے جائیں گرتے جایئں تو دل میں ایسا شگاف پیدا کر دیتے ہیں جس کو دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی خوشی بھر نہیں سکتی
اور اس کے بعد آپ کے لیے خوشیوں کا کوئی معنی نہیں
کیونکہ جس کی مسکراہٹ اور خوشی آپ کے لیے خوشیوں کا پیام اور سچی خوشی کا احساس تھا وہ تو اب رہا ہی نہیں
کوئی نہیں سمجھ سکتا کہ میرے دل میں کتنے شگاف پڑ چکے ہیں
ایسے بہت سے لمحات آئے جب میں نے اپنی آنکھوں سے گرنے والے آنسو پی لئے
اور وہی آنسو میرے دل پے گر گر کے اب میرے دل کو اتنا زخمی کر چکے ہیں اتنا زخمی کہ میرا دل اب مردہ ہوچکا ہے
اس میں اب کوئی احساس نہیں اور نہ ہی کوئی جذبہ
خزاں کہ موسم میرے اندر ٹھہر گیا ہے
میں تو اس کے ساتھ ہی مر چکی ہوں اب تو صرف مجھے دفنایا جاۓ گا
وہ تو مجھ سے بہت دور جا چکا ہے اب بس مجھے اس تک کا سفر پورا کرنا ہے ۔"
ان کے لفظوں نے زاویار اور مہر کو زلزلے کے جھٹکے دیں
لوکیشن :گجرات ،پاکستان
شان اس کے پاس آیا اور اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا
"میرے خیال میں زاوی اب ہمیں مہر کو لیکر آجانا چاہیے ۔"
زاویار نے سر اُٹھایا اسے لگا بھایا مزاق کررہے ہیں لیکن شان کی سنجیدہ نظروں سے اسے حیرانگی ہوئی
"جانتا ہوں بڈی تم لقمان حمید کی وجہ سے کہہ رہے ہوں لیکن اب تمھیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے یار تم اس کے شوہر ہوں پلس اب تم ایک نوجوان پڑھے لکھے آدمی ہوں جو اپنا کریر سٹارٹ کرنے لگے ہوں اس لیے کوئی طاقت تمھیں مہر سے دور نہیں کرسکتی ۔"
شان کی پوری بات سُن کر وہ تھوڑی دیر خاموش رہا پھر بولا
"میں ڈرتا ہوں بھایا !"
اس کی بات پہ شان نے اسے حیرت سے دیکھا اور پھر قہقہ لگا کر ہنس پڑا زاویار نے انھیں گھورا
"او گاڈ کیا کہا تم نے ڈرتا ہوں تو بیٹا فوج میں آپ نہ ہی جائیں تو بہتر ہے ۔"
شان نے اس کا مزاق اُڑایا
"شانی زاوی پُتر کو کیوں چھیڑ رہا اور تو آبھی تک گیا نہیں ۔"
بے بے نے زاوی کو اپنے ساتھ لگایا اور اسے گھورا
"سمجھائے اپنے اس لاڈلے کو ڈرنے کا بچہ خیر میں جارہا ہوں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں عجیب ہی کاکے ہوں تم !!"
وہ زاویار کے بال بگاڑ کر بے بے کو پیار کر کے چلا گیا
"پُتر تو اس کی دل کا بُرا مان گیا ۔"
زاویار کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر بے بے بولی زاویار چونکہ تو اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بے بے کو دیکھا
"ایسی کوئی بات نہیں ہے بے بے بھایا کی بات کا میں کیوں بُرا مانو گا ۔"
"پُتر وہ بھی کہہ تو صیح رہا ہے میری مان تے فرانس جا کے مہر بی بی نو لے آ ۔"
زاویار ہنس پڑا
"آپ کو پتا ہے مہر بی بی نے دسویں نہیں پوری کی اور میں اسے بہو بنا کے لیے آو ۔"
"تے اس میں کیری گل ہے میں جب دُلہن بنی تھی اُس وقت تیرہ سال کی تھی ۔"
"آپ کے ساتھ ظلم ہوا تھا تو آپ چاہتی ہے سب کے ساتھ ہوں ۔"
زاویار شرارت سے بولا
بے بے نے دھپ لگائی
"چل ولیت کی بُری ہوا لگ گئی ہے تجھے ۔"
"توبہ ہے بے بے ۔۔۔"
زاویار ان کے ساتھ اُٹھ گیا لیکن آبھی تک اس کی نظریں مہر کی تصویر سے نہیں ہٹی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : گلگت ، بلتستان
مہر ایک دم ساکت ان کے جانونی انداز کو دیکھ رہی تھی
ہالے نے ان دونوں کے سفید چہرے دیکھے تو خود کو کنڑول کرتے ہوئے بولی
"اچھے لفظ ہے نا میں نے انسٹاگرام میں دیکھے ارے ہاں یاد آیا میں سدرہ کو دیکھ آو سوئی بھی ہے کے نہیں کہی چھپ کر موبائل نہ یوز کررہی ہوں ۔"
وہ جلدی سی اُٹھی زاویار اسے روکنے لگا کے مہر نے اس اشارے سے منع کیا زاویار نے اسے گھورا اور نظر آنداز کر کے ہالے کے پھیچے جانے لگا کے مہر نے زاویار کا ہاتھ پکڑا
"زاویار وہ تمھاری موجودگی میں نہیں روئیے گی انھیں زرا کھل کر رونے دو من ہلکہ ہوگا ۔"
"مہر تمھیں یہ بات نہیں کرنی چاہئی تھی ۔"
زاویار تیزی سے بولا
"ائیم سوری نا میں نے سوچا اس طرح زندگی ۔"
"اپنی سوچ تم۔ اپنے پاس ہی رکھا کرو ۔"
زاویار کی بات پہ مہر نے اسے گھورا
زاویار تاسف سے سر ہلاتا ہوا باہر نکل پڑا مہر نے مڑ کر شان کی تصویر دیکھی اس کی چمکتی ہوئی ہری آنکھیں کتنی روشن تھی جس میں ایک الگ جنون تھا اسے بلکل شان میں اپنے بابا کا عکس نظر آرہا تھا بابا کی بھی انکھیں ایسے ہی تھی لیکن ان دونوں کو بےدردی سے مار دیا اب بچے تھے صرف مہر اور زاویار جنھیں بابا ماما اور شان کا خواب اور نامکمل مشن کو پورا کرنا تھا اب جیت صرف ان کی ہی ہوگی ۔
وہ شان کی تصویر دیکھ کر ایک مضبوط آرادہ کرُچکی تھی کی کسی کی سسکی پر چونکئ سامنے دیکھا ہالے ہاتھوں میں خاکی یونی فورم تھامے اس کے سامنے آئی اس پہ خون کے دبے تھے اور بیج پہ میجر ذیشان کا نام لکھا ہوا تھا
مہر کی انکھیں سرُخ ہوگئی
"مہر جب وہ میرے گود میں سر رکھے میرا ہاتھ تھامے بار بار کہہ رہا
"میرا میشن پورا کرنا پلیز میرے ملک کو اس دُشمنوں سے پاک کرنا۔"
بس یہی آلفاظ تھے میرا ملک وہ ملک کا رکھوالا اپنی آخری دم تک ملک کو سوچتا رہا اور دوسرا جب اس نے کلمہ شہادت پڑھا بس اس وقت مجھے لگا قیامت آگئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔میں کھل کر نہیں رو سکتی تھی کیونکہ شانی کی انکھوں میں تانبیہ تھی کے اس سے زاوی کا حوصلہ کھوئے گا میں کھبی بھی زاویار کے سامنے نہیں روئی آج پتا نہیں مجھے کیا ہوا کے میں بے اختیار ہوگی لیکن جب زاوی کے سفید چہرے کو دیکھا مجھے شانی کی تانبیہ دیتی ہوئی خوبصورت درد سے بھری ہری انکھیں یاد آگئی
مہر تم نے جب مجھے کہا میں شان کے بنا کسی اور کی ہوجاوں ، ہوجاتی اگر میں زندہ ہوتی ۔۔۔"
مہر سے آگئے برادشت نہ ہوا اور جاکے ہالے کو گلے لگادیا
"آپ دیکھنا ہالے آپی میں کیسے اس لقمان حمید کا حشر کرتی ہوں کیونکہ اس نے ہمارے چار آعزیم ہستی کو چھینا ہے سکون اب اس کے نصیب میں کھبی نہیں ہوگا ۔"
مہر مضبوطی سے بولی تھی لیکن آخر میں اس کا لہجہ رندھ گیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : کینن ،فرانس
پارسا اپنی گھبراہٹ کو دور کرنے کے لیے پہلے کچن میں آئی اور جاکر اس نے فریج میں پانی کی بوتل نکلانے لگی جب کچھ سوچتے ہوئے اس نے جوس کا ڈبہ نکلا اور ڈھکن کھول کر تیزی سے گھونٹ لیے کیونکہ اسے کمزوری محسوس ہورہی تھی اس کا دل بھی گھبڑا رہا تھا اس نے پی کر ڈبا رکھا اور گہرا سانس لیکر لائبریری کے دروازے پہ پہنچی اس نے دروازہ ہولے سے کھولا تاکے لقمان چونک نہ پڑیں لیکن کمرئے میں کوئی آواز نہیں تھی مطلب وہ کال ختم کر چکا تھا
وہ دھیرے دھیرے چلتی اندر داخل ہوئی جب اس نے دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا
"مجھے ڈھونڈ رہی ہوں پارسا ڈیر !!!"
پارسا ایک دم مڑی لقمان حمید کُرسی پہ بیٹھا سگار پکڑے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا پارسا کے انکھوں میں نفرت کی چنگاری آگئی اور ہونٹ اس نے سختی سے بھینچ لیے
"ڈیر وائف یہ آپ نے گن کیوں پکڑی ہے یہ بچوں کی کھیلنے کی چیز نہیں ہے ۔"
"اچھا اور تم انسان کو کھلونا سمجھ کر بڑے ہی آرام سے توڑ ڈالنے میں ماہر ہوں سنگھنیا چوہان !!!!"
"واو میری بیوی کو میرا نام بھی پتا چل گیا شکر ہے پتا تو چلا ۔"
"ہاں پتا چلا کے تم دُنیا کے سب سے غلیظ اور کمینے انسان ہوں شکر ہے خدا کا تمھیں اپنا آپ سونپا نہیں ورنہ میں دارب کو کیا اپنے خدا کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی ۔"
سنگھنیا نے ایک جاندار قہقہ لگایا پارسا نے گرفت مضبوط اور دل میں کلمہ پڑھا اور ٹرگیر دبانے لگی کے ایک دم سنگھنیا نے ہاتھ اُٹھایا
"اا ایجنٹ فلاور ایسے کیسے پہلے اپنی خواہش تو بتادوں ۔"
پارسا کے دل تیزی سے دھڑکنے لگا اس کا چہرہ پسینے سے بھر گیا تھا ناجانے کیوں اس کی سانیسں اکھڑ رہی تھی سنگھنیا کے چہرے پہ ایک گہری مسکراہٹ آگئی
"او پارو تمھیں پسینہ کیوں آرہا ہے زہر کو اتنا جلدی تو نہیں آثر کرنا چاہئی تھا آبھی ہم نے بات مکمل ہی نہیں کی ہاہاہاہاہاہا ۔"
پارسا نے پھیلتی ہوئی انکھوں سے دیکھا لیکن گن پہ اس نے گرفت مضبوط رکھی اور اس کی ناک میں نمی محسوس ہوئی اسے سمجھ آگئی یہ خون ہے اور اس نے پارسا کو زہر دیا لیکن کب ؟""
"کب یار میں پلین پہلے سے ہی کرچکا تھا آج تمھاری موت جا دن رکھتا ہوں اس لیے تمھارے کھانے کے ساتھ جوس میں ملا دیا اور اب بھی شاہد وہی جوس کا ڈبہ پیا ہے تم نے ہاہاہاہاہاہا ویسے مجھے پاگل سمجھا تھا تم نے کے میں ایسی جگہ بات کرو گا جہاں تمھیں شک ہوں اتنا بھی پاگل نہیں ہوں میں آخر میجر دارب کو مارا ہے اور اسے غدار بھی ثابت کیا ہے کوئی عام بات تو نہیں ہے نا اور سب سے بڑی بات تم جیسی ایجنٹ کو بھی بے وقوف بنایا ہے اب کیا کیا بتاوں خیر ۔"
وہ ایک دم اپنی حرکت کرتی کے اچانک اس کو پیٹ میں شدید جلن محسوس ہوئی انکھوں پہ دھند سئ چھا رہی تھی لیکن اس نے ہمت کر کے شوٹ کیا لیکن بدقسمتی سے سنگھنیا کو نہیں لگی
"ارے پارو کیا کررہی ہوں لگ جائیں گی یار ۔"
وہ اس کے قریب آیا پارسا نے چیختے ہوئے گن دوبارہ چلانے لگی لیکن افسوس اس میں ایک ہی گولی تھی وہ زور سے ٹریگر دبا رہی تھی اور وہ قہقہ لگائے جارہا تھا پارسا کے ناک سے خون بہہ رہا تھا اور وہ ایک دم گر گئی وہ سانس لینے کی کوشش کررہی تھی لیکن اسے سانس نہیں آرہی تھی سنگھنیا نے سامنے پڑا پانی کا گلاس اُٹھایا اور جھک کر اس کے پاس آیا
"تتت یار جانے سے پہلے تھینکس تو بولتی جاوں میں تمھیں تمھارے محبوب شوہر کے پاس بھیج رہا ہوں اور یہ لو پانی کا گلاس زندگی کا آخری پانی کا گلاس اب میں یزید جیسا بھی ظالم دُشمن نہیں ہوں حیران ہورہی ہونا میں ہندو اور مجھے یہ سب کیسے پتا یار یئ تو پوری دُنیا کو پتا ہے خیر میں بھی کیا شروع ہوگیا تمھیں پانی چاہیے ہوگا آخر جوس بیچارے نے تمھارا سارا کھیل بگاڑ دیا ۔"
اس نے نفرت سے پارسا کے منہ پہ پانی پھینکا اور پارسا گرتی چلی جارہی تھی
مہر کی فکر نہ کرنا میں بہت خیال رکھوں گا اور پھر صیح سلامت تم دونوں کے پاس بھیج دو گا بہت جلد میری جان ہاہاہاہاہاہا
"جے ہند !!"
اور پارسا کو لگا اب موت اس کے قریب آرہی ہے اس نے ہولے سے کلمہ شہادت پڑھا اور اپنی انکھیں موند لی کھبی نہ کھولنے کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : جہلم ،پاکستان
شان سورہا تھا کے اچانک اس نے کسی کے چیخنے کی آواز آئی وہ تیزی سے اُٹھا اور اس نے دیکھا زاویار چیخ رہا تھا
"آنی آنی پلیز پلیز آجائیں وہاں گر جائیں گی آپ آنی !!!!! "
"زاوی زاوی کیا ہوا ۔"
شان نے لائٹس آن کی تو زاویار کو دیکھا جس کا جسم جھٹکوں کی زد میں تھا
شان نے اسے پکڑ کر جنجھوڑا
"میرے بھائی ہوش میں آو ۔"
زاویار کی انکھیں بند تھی لیکن وہ چلا رہا تھا شان کو لگا وہ نیند میں ہے اس نے زاویار کے ایک زور دار جھٹکا دیا زاویار نے ایک دم انکھیں کھولی اس نے اِردگرد دیکھا پھر شان کو جو اس کا چہرہ تھامے بول رہا تھا
"میرے بھائی تم ٹھیک ہوں !"
"بھیا کیا ہوا آپ اس وقت ۔"
زاویار نے حیرت سے انھیں دیکھا شان چونکہ اور اس کے سر پہ چپٹ لگائی
"الو ! تیری وجہ سے ڈر گیا کوئی خواب دیکھا تھا ۔"شان نے سائڈ ٹیبیل پہ پڑا پانی کا گلاس اُٹھایا اور اسے پکڑایا زاویار خاموش رہا پھر پانی کا گلاس لیکر دو گھونٹ لیے اور انھیں پکڑایا
"بھیا آنی سے بات کریں ۔۔۔"
شان چونکہ
"خیریت اس وقت ۔"
"پلیز بھیا ۔"
"زاوی کیا ہوگیا ہے اس وقت ہمارے تین بج رہے ہیں وہاں رات کے گیارہ بارہ بج رہے ہوگئے آنی سو گئی ہوگئ اور پتا ہے نا پھر لقمان حمید کو شک ہوجائیں گا ۔"
"ٹھیک ہے !!!"
وہ کہتے ہوئے اُٹھ گیا اور کھڑکھی کھول دیں اسے بہت عجیب سی گھبڑاہٹ ہورہی تھی آنی خواب میں بہت زخمی تھی اور کوئی انھیں ایک جھٹکے سے قبر میں گرا چکا تھا اور زاویار کچھ نہیں کرسکا تھا
"خدا کریں کے یہ خواب ہی ہوں ۔"
وہ بڑبڑایا
"اوئے سونا نہیں ہے ۔"
شان لیٹے ہوئے بولا
"آپ سو جائیں مجھے نیند نہیں آرہی ۔"
"چلوں جیسے تمھاری مرضی مجھے کل جانا ہے اس لیے سونا بے حد ضروری ہے لیکن اگر دل زیادہ گھبڑا رہا ہوں تو مجھے اُٹھا لینا ۔"
زاویار نے سر ہلایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح شان جانے کی تیاری کررہا تھا جبکہ زوایار نماز پڑھنے کے بعد سو چکا تھا بے بے ناشتہ تیار کررہی تھی کے جب فون بجا بے بے نے اُٹھایا تو کوئی بندہ فرنچ میں بات کررہا تھا
"ہے یہ کیا بول رہا ہے رانگ نمبر ہوگا ۔"
انھوں نے بند کردیا
شان نیچے آیا اور بے بے کو پیار کر کے ناشتے کی ٹیبل پہ بیٹھ گیا
"شانی پُتر ۔"
شان نے سر اُٹھایا
"جی بے بے ۔"
"او ایک فون آیا سی دوجی زبان تے بول رہا سی کوئی منڈا ۔"
ذیشان نے ایک دم سر اُٹھایا
"دوجی زبان آپ کا مطلب ہے باہر سے فون آیا تھا ۔"
"ائی لگادا ہے مینو کوئی انگریز ہی ہوسی ۔"
"کب آیا ۔"
شان کورڈ لیس کی طرف بڑھا اور اس نے پوچھا
"ائے پانچ منٹ پہلے ۔۔۔۔"
اس نے نمبر چیک کیا اور کوڈ سے پتا چل گیا فرانس کا ہے
"آنی نے تو نہیں کیا ۔"
اس نے سوچتے ہوئے فون کو اس نمبر پہ کال کی اور اُٹھایا فون اُٹھا لیا گیا
"ہلیو از کیپٹن شان دیر ۔۔"
کوئی بندہ فرنچ میں بولا
"یس ڈینی تم بول رہے ہوں ۔"
شان پہچان گیا اسی سے تو ہر ایک چیز کئ خبر ملتی تھی
"تھینک گوڈنس شان تم نے فون اُٹھایا تمھیں بہت آہم خبر دینی تھی ۔"
"ہاں ہاں میں سُن رہا بولا ۔"
شان نے سر اُٹھایا دیکھا زاویار نیچے آرہا تھا
"شان بڈی یو ہیو ٹو بی بریو !"
شان کے ماتھے پہ بل آئے
"کیا مطلب سب ٹھیک تو ہے نا ۔"
"آبھی آبھی مجھے خبر ملی تمھاری آنی کی ڈیتھ ہوگئی ہے ۔"
اور اس وقت شان کے ہاتھ سے فون چھُٹا ،زاویار نے انھیں دیکھا اور چلتے ہوئے آیا
"بھیا ! "
اس نے شان کا سفید چہرہ دیکھا جس نےاپنے ہونٹ سختی سے بھینچ لیے تھے جبکہ انکھیں پتھرا گئی تھی
"بھیا کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے ۔"
زاویار نے اونچی آواز میں کہتے ہوئے انھیں جنجھوڑا
شان نے اسے دیکھا اور پھر اس کی ہری انکھوں میں سُرخی ڈوری بے بے بھی زاویار کی اونچی آواز پہ آئی
"زاوی آنی از نو مور ۔"
شان کے ٹوٹے لہجے نے زاویار اور بے بے کے پیروں تلے سے زمین نکال دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن :گلگت ،بلتستان
مہر گھر کے اندر آئی اس نے دیکھا زاویار شان کی تصویریں نکال رہا تھا مہر نے گولی ایسے ماری تھی کے جہاں صرف فریم ہی لگا ہوا تھا اپنی اس حرکت پہ اسے پیشمانی بھی ہوئی تھی اور خود پر غصہ بھی آیا تھا
زوایار کافی حد تک تصویریں سنبھال چکا تھا
مہر اس کے پاس آگئی زاویار نے سر اُٹھایا اور آخری تصویر رکھی
"وہ ائیم سوری ڈرامے کے باوجود بھی مجھے ایسا نہیں کرنا چائیے تھا ۔"
وہ آہستگی سے بولی
اس نے دیکھا زاویار کے ہاتھ کو جھٹکے سے دیکھا اس میں خون ٹپک رہا تھا مہر کے دل کو کچھ ہوا
"یہ کیا کیا تم نے ۔"
زاویار نے اپنے ہاتھ کو دیکھا اور پھر بڑے ہی آرام سے کندھے اچکائے
"کچھ نہیں کانچ کو ُاٹھاتے ہوئے لگ گیا ۔"
بڑا ہی آرام سے کہتے ہوئے وہ آگئے بڑھا کے مہر نے اس کے بازو پکڑا
"یہ کانچ کو تم نے اُٹھایا تھا یا اسے بھینچا تھا ہاتھ دیکھ رہے ہوں کتنا گہرا کٹ لگا ہے ۔"
"یار کچھ بھی نہیں ہوا مجھے عادت ہے ۔"
"لیکن میرے ہوتے ہوئے یہ عادت چھوڑنی پڑیں گی ایک تو تم زاوی گدھے ہی ہوں ۔"
زاویار نے اسے گھورا اور وہ اسے گھسیٹتی ہوئی صوفے پہ بیٹھا دیا اور پوچھا
"ایڈ باکس کدھر ہے ۔"
"جب پورے گھر کی تلاشی لیے لی تھی تو مجھ سے کیا پوچھ رہی ہوں ۔"
زاویار کے کہنے پر مہر نے اپنی انکھیں گھمائی
"اب ایسے بھی بات نہیں ہے میں نے بس بھیا کا روم چیک کیا تھا ۔"
"اچھا !!!"
زاویار زور دیتے ہوئے بولا جیسے کے وہ بہت معصوم ہے
"بتاوں بھی !!!"
زاویار اُٹھنے لگا کے مہر نے بتایا
"چُپ کر کے بیٹھ جاو اور سیدھے طریقے سے بتاوں ایڈ باکس کہاں ہے ۔"
"اُف سامنے ڈرار کے نیچے ہے وہی لینے جارہا تھا۔"
مہر اس کی بات سُنتے ہی آگئے بڑھی اور اس نے ایڈ باکس نکالا اور اس کی طرف آئی
اور اس کے قریب بیٹھ کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور دیکھنے لگی زاویار اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا
"اتنے دھیان سے کیا دیکھ رہی ہو جلدی کرو ہاتھ پڑھنے کے لیے نہیں کہا ۔"
مہر نے سر اُٹھایا اور پھر باکس کھول کر بولی
"دیکھ رہی تھی کوئی کانچ کے چھوٹے ٹکڑے تو نہیں گُھسے ۔"
"اچھا تم ڈاکڑ تو نہیں ہو کہی ۔"
"جی نہیں امجرجینسی کی طور پہ کوئی چوٹ لگی ہوں تو مجھے فرسٹ ایڈ کرنا آتا ہے ۔"
"او لیکن دل کے چوٹ پہ فرسٹ ایڈ کرنا نہیں آئی ۔"
زاویار کے کہنے پر اس نے سر آُٹھایا اور اس کی انکھوں میں دیکھا پھر اس نے زاویار سے نظر چُرائی
"میری مجبوری تھی ۔"
"کیسی مجبوری !!
زاویار نے دانت پیسے
"ایک بار بھی نہیں سوچا ایک بار بھی میرا سہرا لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی سب کچھ تنہا جھیلتی رہی ۔"
"زاویار تم نے بھی سب کچھ اکیلے جھیلا ہے ۔"
مہر آہستگی سے بولی
"میری بات ۔۔۔
"ہاں یہی کہوں گئے تمھاری بات الگ ہے تم مرد اور میں عورت ہوں یہی نا ۔"
زاویار چُپ ہوگیا
"جب امی کی ڈیتھ کا مجھے معلوم ہوا ہاں اس وقت میں بہت روئی تھی مجھے تمھاری ضرورت محسوس ہوئی تھی اتنے کے میں خود بیان نہیں کرسکتی کیونکہ ممی نے مجھے صرف تم پر بھروسہ کرنے کا کہا تھا
ممی نے پاپا کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا تو ظاہر سے بات ہے اس سنگھنیا کو اپنا باپ سمجھتی رہی اس میں ایک سکون تلاش کرتی رہی لیکن وہ مجھ سے اکھڑنے لگا مجھے لگا میرے کی ڈیتھ پہ پریشان ہے اس لیے چُپ رہی لیکن اندر ہی اندر اکیلی ہوتی جارہی تھی تم سوچ نہیں سکتے زاویار تنہائی کتنی آعزیت دیتی ہے میں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ سیکھا ہے اتنی کم عمر میں مجھے ہر چیز کی سمجھ آگئی بس سکول سے گھر ،گھر سے سکول تک کا سفر تھا میرا لگ رہا تھا ایک سُرنگ ہے اس میں صرف سکول اور گھر کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے ،سکول میں میری خاموش طبیعت کے باعث کوئی میرے نزدیک نہیں آتا تھا گھر بلکل سُسنان انسانوں کے بغیر کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا میرے دل کرتا تھا تمھیں کہی ڈھونڈوں تمھیں کہی پکارؤں لیکن کہاں آخر کہاں ۔۔۔۔"
وہ ٹرانس میں کھو کر بولے جارہی تھی اور زاویار کے دل میں بے چینی آگئی
"آنی نے تمھیں یہ سب کیوں نہیں بتایا ۔"
زاویار کے ہاتھوں کی پٹی کر چکی تھی لیکن پھر بھی اس نے اس کا ہاتھ۔ تھاما ہوا تھا
"ڈرتی تھی شاہد ایک بہادر آفسر کے باوجود ایک خوف تھا ان کے دل میں میجر دارب کے بعد انھیں شان بھیا اور تم میں پاپا کا عکس نظر آتا تھا وہ دارب کو کھو چکی تھی لیکن وطن کے یہ دو کل کے رکھوالے نہیں کھونا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ اور شاہد مجھے بھی ۔"
مہر کی انکھوں میں آنسو اگئے
زاویار سے اگئے برادشت نہ ہوا وہ مہر کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا لیکن دانستگی میں دیں دی تھی، اس کے ساتھ پھر بھی بھیا اور بے بے کا ساتھ تھا جبکہ وہ تن تنہا سب کچھ جھیلتی رہی اس دُشمن کے انڈر رہی کچھ بھی ہوسکتا تھا اور زاویار اس وقت خود کو ہی قصور وار ٹہرا رہا تھا اس نے مہر کو اپنے ساتھ لگا لیا
"ائیم سوری !!!"
اس نے مہر کی نم پلکوں پہ لب رکھے مہر نے اپنی آنکھیں بند کر لی اور محفوظ پناہ ملتے ہی پُر سکون ہوگئی اور کُھل کر رونے لگی
"نہیں سوری والی کوئی بات نہیں ہے تم مجبور تھے
میں مجبور تھی لیکن اب تو ساتھ ہے نا ۔"
مہر اپنے آنسو صاف کرنے لگی زاویار مسکرایا
"منع کیا تھا نا تمھیں تمھاری جان لیے لو گا اگر زرا سا بھی روئی تو ، اور مہر وعدہ کرتا ہوں چاہئے اب کچھ بھی ہوجائیں میں تم سے کھبی جدا نہیں ہوگا موت بھی آجائیں یہ دل صرف تمھارے نام پہ دھڑکتا رہے گا ۔"
مہر کی انکھیں پھیل گئی وہ اس آن رومینٹک انسان کو دیکھ رہی تھی جس کے زبان سے یہ الفاظ زرا بھی نہیں سوٹ کررہے تھے ایک دم اس کا چہرہ لال ہوا اور وہ ہنسنے لگی زاویار نے اپنے انکھیں سکڑئ
"جب تک ہے جان دیکھی ہے کیا ؟"
مہر ہنستے ہوئے بولی زاویار سمجھ گیا
"ہاں ہاں ہنس لو پھر کہوں گی زرا ایک لفظ بھی پیار کا بول دیں کیسے دوسری لڑکیوں کو غور غور سے دیکھتا ہے زرا میرے سامنے بھی نظر کرم کر لے ۔"
وہ بازو ہٹا کر سائڈ پہ ہوا مہر نے اس کے بازو پہ زور سے مکا مارا
"خوش فہمی میں ہی بیٹھے رہوں میری جوتی بھی نہیں ہوگی جیلس تم سے اگر تمھارے پھیچے لڑکیاں مرتی ہے تو میرے پھیچے لڑکوں کی کمی نہیں ہے ۔"
مہر شرارت سے کہتے ہوئے اُٹھی کے زاویار نے اس کی کلائی پکڑی اور جھٹکے سے اسے کھینچا اور دونوں بازو پھیچے لیکر گیا اور اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے سخت لہجے میں بولا
"آج تو تم نے یہ بات کردی لیکن آئندہ اگر زبان سےدوبارہ یہ کہا تو میں جان لینے میں زرا بھی دیر نہیں لگاوں گا ۔"
ایک عجیب سی پوزیسونس تھی مہر کو جھٹکا لگا
"بات ہی کی تھی ۔" مہر نے اپنا بازو چھڑوایا
"تمھیں پتا ہے جب بھیا تمھیں شعر سُنارہے تھے اور چھیڑ رہے تھ حلانکہ وہ سب نقلی تھا لیکن مجھ سے برادشت نہیں ہوا اور فارس کا تم سے بات کرنا مت پوچھوں میری نسے پھٹ جاتی تھی کوئی بھی مرد تمھارے اگر قریب ہوئے ۔"
"زاوی !!!"
مہر نے حیرت سے دیکھا زاویار نے خود کو کنڑول کیا اور مہر کو سائڈ پہ کر کے اُٹھا
"نماز کی دیر ہوگئی ہے پڑھنے جارہا ہوں ۔"
مہر نے اسے حیرت سے جاتے ہوئے دیکھا اتنی پویسونس وہ میری لیے
"تم صرف میری ہوں صرف اور صرف میری سمجھی۔"
اسے یاد آیا تھا ایک عجیب سے خطرناک لہجے میں یہ کہا کرتا تھا اور اب بھی کچھ سوچتے ہوئے ویے مسکرا پڑی
"چلوں مسڑ مجھے چاہتا تو ہے ۔"
وہ خود سے کہتے ہوئے اُٹھ پڑی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔