
میرا رکھوالا - مصنفہ: ثمرین شاہ
قسط نمبر آٹھ
لوکیشن : لاہور ،اسلام آباد
ذیشان ماں کی موت کے بعد بلکل خاموش ہوگیا تھا اسے نھنھے سے زاویار سے نفرت تھی وہ اس کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا اس کا تو کھبی کھبار دل کرتا اس چھوٹی سی جان کی جان لے لیے ،دارب نے تو یہ سب محسوس نہیں کیا تھا لیکن پارسا کو یہ چیز بہت زیادہ محسوس ہوئی تھی دارب اور پارسا کی شادی سادگی سے ہوئی تھی اور وہ اب ایک فرنشڈ فلیٹ میں زاویار اور ذیشان کے ساتھ رہتی تھی
دراب اور عباس کا بڑی سا گھر کراچی میں اور اسلام آباد میں موجود تھا اور کافی ساری زمینیں بھی ان کی ابو کے گاوں شاندراہ میں تھی اور دارب نے کچھ سوچتے ہوئے سارے جائیداد پارسا کے نام کردیں تھی لیکن فل حال اسے بتایا نہیں تھا کروڑ کی جائیداد کی مالک ہونے پر اگر پارسا کو پتا چلتا تو وہ بے ہوش ہوجاتی اور دارب سے لڑ کر ذیشان اور زاویار کے نام کردیتی ذیشان پارسا کے قریب ہوتا جارہا تھا لیکن زاویار کہی آس پاس ہوتا تو اس کو غصہ چڑھ جاتا
اور پھر اپنی آنی سے بھی لڑ پڑتا آج تو بات زیادہ ہی بگڑ گئی
آٹھ ماہ کا زاویار اپنے کھلونوں کے ساتھ کھیل رہا تھا جبکہ پارسا نماز پڑھ رہی تھی اور ذیشان اپنا ہوم ورک کررہا تھا
اچانک زاویار کرال کر کے اپنے بھائی کے قریب آگیا اور اس کے پیروں کو چھونے لگا ذیشان نے اسے دیکھا اور غصے سے اپنا پیر جھٹکا جو سیدھا زاویار کے منہ کو جاکر لگا اور زاویار جھٹکے سے پھیچے ہوا تھا اس کا سر ٹکرایا اور اتنی زور سے ٹکرایا کے زاویار کے سر سے خون نکلنے لگا اور وہ بے ہوش ہوگیا شان ایک دم ڈر گیا اور کُرسی سے اُٹھ کر اسے اُٹھایا
"زاوی زاوی آنی !! آنی ۔"
شان چیختے ہوئے باہر بھاگا آخر خون ایک تھا تڑپنا تو تھا
پارسا نے سلام پھیرا تو شان کی چیخ پڑ اُچھلی
مڑی تو اس نے اپنے چیخوں کو دبایا
"زاوی !"
وہ بھاگتے ہوئے آئی اور اسے پکڑا
"اسے کیا ہوا !!!"
ان کے کہنے پر شان گھبڑا گیا
"پپ پتا نہیں ۔"
"بیگ لاو میں دارب کو فون کرتی ہوں زاوی میری جان !!!"
اس نے زاویار کو پکڑا اور جاکر اپنا موبائل اُٹھایا تب تک شان اس کا بیگ لیے آیا تھا
"شانی تم گھر ہی رہوں میں زاوی کو لیے جاوں گی ۔"
شان جانا چاہتا تھا لیکن دل میں ایک عجیب ڈر سے وہ مان گیا
"آنی مجھے فون کردیجیے گا ۔"
"جب تک میں نہ فون کرو کسی کا دروازہ نہیں کھولنا ۔"وہ اسے ہدائیت دیتی چل پڑی جبکہ شان کا چہرہ سفید پڑ گیا اس کی وجہ سے زاویار کے سر پہ چوٹ لگی ہے اگر اسے کچھ ہوگیا تو وہ خود سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہے گا وہ قاتل بن جائیں گا چاچو اور آنی اس سے نفرت کریں گئے ۔
اس چھوٹے سے گیارہ سال بچے کے زہن میں اتنی سوچیں آگئی کے وہ بلکل رونے والا ہوگیا امی بھی کیا سوچے گئی وہ کتنا برا ہے جس نے اپنے بھائی کو مارا وہ کچھ سوچتے ہوئے صادق علی کی ہیدائت پر وضو کرنے چلا گیا انھوں نے اسے کہا تھا اگر رونا ہوں تو اپنے اللّٰلہ کے سامنے روئے اس سے اپنی دل کی بات کرو دل کا بوجھ کافئ ہلکہ ہوجائیں گا اور کسی کو پتا نہیں چلا گا کیونکہ وہ سب سے بڑا رازدار ہے اگر اس کا بندہ بے چین ہے تو وہ اس کی بے چینی ایک پکار سے دور کردیں گا ۔"
ان کی بات سو فیصد درُست تھی ممی کی موت کے بعد وہ خود کو بہت بے چین محسوس کررہا تھا اور اس کی یہ بے چینی اللّٰلہ کے قریب آنے سے دور ہوگئی تھی اور آبھی یہ اللّٰلہ کے سامنے بیٹھا گِرگِرا رہا تھا
"پلیز اللّٰلہ مجھے گنہگار ہونے سے بچا لے میرے بھائی کو کچھ نہیں ہونا چاہیے آئی پرامس میں آج کے بعد اسےمارنا تو دور کی بعد کھبی اسے ڈانٹوں گا بھی نہیں پلیز میرے زاوی کو بچا لینا آپ ،میں بہت بُرا ہوں لیکن آنی تو اچھی ہے چاچو آچھے ہے ان کے لیے زاوی کو جلدی سے ٹھیک کردیں ۔"
وہ آہستہ لہجے میں دعا کررہا تھا جب دروازہ کھولنے کی آواز آئی
"اس کو کھانا کھلا دینا جب یہ اُٹھے اور ساتھ میں دوائی دین دینا اور شانی کو اکیلے چھوڑ کر آئی تم حد ہی کرتی ہوں پارسا شانی شانی !!!"
دارب اس کو پکارتا ہوا آیا لیکن شان نے ڈر کر تیزی سے دروازہ بند کیا
※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن :گلگت ،بلتستان
وہ نماز پڑھ کر اُٹھی اور اس نے دیکھا زاویار صوفے پہ کمبل آُوڑھے انکھیں موندیں لیٹا ہوا تھا
وہ نماز پڑھ چکا تھا لیکن آج اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لیے اس نے جاکنگ کا آرادہ ترک کیا ہوا تھا
مہر بیڈ پہ بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی
"سب مجھے منہ کالی بیڑ کہتے ہیں ۔"
"لیکن تمھارے فیچرز تو بہت خوبصورت ہے ۔"
زاویار نے حیرت سے دیکھا تو قہقہ لگا کر ہنس پڑا
"میں کوئی گاڑی تھوڑی ہوں ۔"
"بے ووف انسان !!! فیچرز کسی بھی چیز کے ہوسکتے ہیں ۔"
مہر نے بے انتہا معصومیت سے زاویار کو بے وقوف کے بجائے بےووف کہا تھا زاویار ایک بار پھر ہنس پڑا واقی میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہر غم بھول جاتیں تھے لیکن اب بہت کچھ بدل گیا تھا وہ بدل گئی تھی زاویار بدل گیا تھا لیکن کیا دل بدل گئے تھے ؟
"کیوں مجھے دوبارہ کالا کرنے پہ تُلی ہوں !"
زاویار کے بڑبڑانے پر اس نے چونک کر اسے دیکھا اس نے انکھیں بند کی ہوئی تھی
اسے اپنا وہم لگا لیکن زاویار ایک بار پھر بول پڑا
"میں کوئی کریم نہیں لگتا مہر اس لیے اتنی حیرت سے مت دیکھوں مجھے !!!"
اب مہر گڑبڑا گئی
"میرا دماغ خراب ہے جو میں تمھیں دیکھوں ۔"
اس نے زاویار کو گھورا زاویار کے چہرے پہ دبی مسکراہٹ آئی جس سے اس کا ڈمپل نمودار ہوا اور ڈارک شیو کے باوجود بلکل صیح طریقے سے نظر آرہا تھا
"تو پھر ایک ہی پوزیشن میں ایک جگہ فوکس کسے کررہی تھی یہ سامنے پڑیں واز کو۔"
زاویار نے اس طرف مڑ کر بازو اپنے سر کے نیچے رکھا اور اپنی روشن آنکھیں کھولی
مہر جنجھلائی
"وہ میں سوچ رہی تھی کے تمھیں اُٹھاوں تم نے نماز نہیں پڑھی ۔"
زاویار نے ابرو اُٹھائے
"پڑھ چکا ہوں تمھاری طرح نہیں ہوں نماز کو قضا کردوں ۔"
"اپنے آپ کو بہت پاکیزہ سمجھتے ہوں ۔"
مہر آبھی بھی اُردو میں پھوٹر تھی زاویار اس کے پاکیزہ کہنے پر ہنس پڑا
"پاکیزہ نہیں پاک باز یار !!! تمھیں کس پاگل نے ایجنسی میں ڈال دیا اُردو بڑی خراب ہے تمھاری ۔"
"کیا مطلب ہے تمھارا اُردو خراب ہے میری بہت اچھی ہے سمجھے !!! "
"اُف مہر الفاظ کی آدائیگی صیح سے کر لیا کرو ۔"
زاویار آنکھیں بند کرتے ہوئے بولا آج اس کا سر بھی بہت زیادہ درد کررہا تھا
"اب اس میں غصہ ہونے کی کون سی بات ہے ۔"
مہر نے اس کے بے انتہا سُرخ چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا
"کیونکہ صبح ہی صبح تم میرا دماغ چاٹ رہی ہوں ۔"
مہر کی آنکھیں پھیل گئی کھبی جو پیار سے کہہ دیں مہر تم بولتی رہا کرو کھبی چُپ نہ رہا کرو بہت خوبصورت لگتا ہے تمھارا بولنا لیکن وارے نصیب جو ایسا خوش نصیب دن دکھا دیں
"تمھیں بہت غصہ آتا ہے جب میں بولتئ ہوں ۔"
زاویار نے کمبل میں منہ دبک لیا تھا اور خمار زدہ لہجہ میں بولا
"ہاں بہت اتنا کے غصے سے میرا دماغ گرم ہوجاتا ہے ۔"
مہر نے سامنے پڑا گلاس سے بھرا پانی دیکھا اور اُٹھتے ہوئے بولی
"ارے مائی سویٹ ہسبنڈ آپ کا دماغ گرم ہوگیا ہے ۔"
زاویار چونکہ اس نے کمبل سے منہ نکلا کے مہر نے اس کے سر پہ پانی انڈیل دیا زاویار جھٹکے سے اُٹھا ایک تو تیز بخار اوپر سے ٹھنڈی پانی نے اسے جنجھوڑ دیا
"آپ بیٹر فیل کررہے ہیں آپ ۔"
اس کے کہنے پہ زاویار نے تیزی سے اسے دیکھا اور اس کے خطرناک تیور دیکھ کر مہر کا بھاگ جانے کا دل کیا لیکن وہ بُزدل ظاہر ہوتئ اس لیے مضنوعی مسکراہٹ دیتے ہوئے وہ مڑ پڑی
زاویار نے اپنی گیلی سویٹر دیکھی اور تھوڑا سا کھانستے ہوئے وہ اُٹھا مہر گھبڑا گئی لیکن مضبوطی سے چلتی ہوئی جلدی سے واش روم گھُسی
اور اندر گھستی ہوئے ہنس پڑی
"دیکھا! مہرالنساء کا وہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔"
وہ منہ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کھل کر ہنسنے لگی
زاویار نے سویٹر اُتاری اور الماری کھول کر گرم شلوار قمیض نکلانے لگا اور اسے سخت قسم کا کھانسی کا دورہ پڑا اس نے سوچا شاور لیکر دوائی کھا کر سوجائیں گا وہ تیزی سے واش روم کی طرف بڑھ رہا تھا کیونکہ گرم پانی اسی واش روم میں آتا تھا اب پتا نہیں کوئی بھید نہیں تھا اس لڑکی کا کے واش روم کھولتی ہے کے نہیں وہ بڑھا ہی تھا کے مہر نے دروازہ کھولا اور جاتیں ہی زاویار سے زبردست ٹکراو ہوا مہر نے اپنا سر تھاما تو اس نے دیکھا زاویار بنا شرٹ کے کھڑا تھا ،اس کا چہرہ ایک دم سُرخ ہوگیا
"یہ کیا بدتمیزی ہے !!!!"
وہ سخت لہجے میں بولی زاویار نے اریٹٹ انداز میں اسے دیکھا اور پھر جب اس کا شرم سے جھکتا ہوا چہرہ دیکھا تو اس کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی اس نے مہر کو ہٹانے کے بجائے اس کے نزدیک ہوا
"آبھی تو میں نے کچھ نہیں کیا !"
مہر اس کے لہجے پہ گھبڑا گئی
"ہٹو یہاں سے !!!"
مہر اسے دھکا دینا چاہتی تھی لیکن اسے شرم آرہی تھی
"دیکھوں زاویار ہٹ جاوں ورنہ میں !!!!"
"ورنہ میں کیا مہر !"
وہ آگئے بڑھا مہر پھیچے ہوتی گئی کے وہ دونوں واش روم میں آگئے
مہر نے اپنی ایک ہاتھ کو مٹھی بنائی کے اسے مار سکے کے زاویار نے پکڑ لیا اور پھیچے لیکر اسے دیوار سے لگایا
"ایجنٹ کریمیل دھیان سے جس سے آپ مقابلہ کررہی ہے وہ میجر زاویار عباس ہے منہ کالی بیڑ زاوی نہیں !!!!!"
وہ اسے کچھ باوار کروارہا تھا اور جھکا مہر نے سختی سے انکھیں بند کر لی
"مار کھاو گئے تم مجھ سے !!!!!!"
وہ دانت پیستے ہوئے بولی
اچانک اس کے اوپر ٹھنڈا پانی گِرا مہر نے جھٹکے سے دیکھا زاویار نے شاور سپرے سے پانی اس کے اوپر گرایا
اور وہ بھی ٹھنڈا
زاویار پھیچے ہوچکا تھا
اور اس نے مہر کی طرف پوائنٹ کیا مہر نے آگئے ہاتھ رکھا
"یو ایڈیٹ بند کرو اسے مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے زاوی ۔"
"مجھ سے پنگا لو گی تو یہی ہوگا مہرالنساء زاویار ۔"
زاویار ہنستے ہوئے بولا
"او یو !!!!!"
وہ قریب آئی اس سے شاور سپڑے پکڑنے لیکن زاویار اس کے بلکل منہ پر لیکر جارہا تھا مہر کے سارے کپڑے گلیلے ہوچکے تھے وہ تیزی سے واش روم سے باہر بھاگی ورنہ اس نے یقینن بیمار ہوجانا تھا زاویار قہقہ لگا کر ہنسنے لگا
باہر سے مہر کی چیخنے کی آواز آئی
"دیکھ لو گی میں تمھیں !!!!!!"
"مجھے کہتی ہو کیا بدتمیزی ہے اور خود تتتت کتنی بے شرم ہو مہر ۔"
زاویار نے ہانک لگاتے ہوئے دروازہ بند کیا کوئی بھروسہ نہیں تھا ڈنڈا نہ لے آئے محترمہ
※※※※※※※※※※※※※
لاہور ، پاکستان
"شانی کیا ہوا شانی دروازہ کھولوں یار !!"
دارب نے جب ذیشان کو ڈرتے ہوئے دروازہ بند کرتیں ہوئے دیکھا تو حیران ہوا
"نہیں چاچو !!!"
وہ رونے لگا
"کیا ہوا شانی میرے بیٹے دروازہ کھولو ڈر گئے ہو کیا یا کوئی آیا تھا بیٹا پریشان نہ ہوں چاچو آگئے ہے نا ۔"
پارسا زاویار کو لٹا کر آئی تو حیران ہوئی
"شاہ کیا ہوا ؟ "
"پتا نہیں شانی شاہد ڈر گیا ہے شانی بیٹا کھولوں نا۔"
دراب نے دوبارہ دستک دیں
شان بیڈ پہ جاکے کمبل میں چھپ گیا
"دراب مجھے سمجھ آگئی ہے آپ اسے چھوڑیں میرے ساتھ چلیے !"
پارسا ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی دارب نے اسے نا سمجھی سے دیکھا
"آپ چلے تو صیح !!
وہ اس کے ناسمجھی سے دیکھنے پر بولی وہ سر ہلاتے ہوئے دروازے پہ ایک بار پھر نظر ڈال کر چل پڑا
"زاویار کو چوٹ شان کی وجہ سے لگی ہے ۔"
پارسا نے اس کا ہاتھ پکڑے رکھا اور بامشکل ہی بول پائی وہ بتانا نہیں چاہتی تھی لیکن مجبوری تھی
"کیا ؟؟ شانی ایسا کیوں کریں گا ام کیا اس سے کوئی اکسیڈنٹلی ہوا ہے ۔۔
"نہیں دارب شان زاویار سے نفرت کرتا ہے اور تب سے جب سے زاویار پیدا ہوا ہے ۔"
پارسا مزید بولتی گئی اور دارب کی آنکھیں پھیل گئی
"واٹ !!!اتنا سب کچھ ہوگیا اور تم مجھ اب بتا رہی ہوں ۔"
دارب نے اسے غصے سے کہا
"ائیم سوری دراب مجھے واقی نہیں پتا تھا شانی اتنی نفرت کریں گا زاوی سے کے اسے نقصان پہچانے پر تُل جائیں گا ۔"
"لیکن ایک آٹھ ماہ کے بچے نے اس کا کیا بگاڑا ہے ۔"
دارب نے اسے دیکھا
"وہ سمجھتا ہے کے زاویار کی وجہ سے اس کی ماں مر گئی ۔"
پارسا کے کہنے پر وہ ایک دم خاموش ہوگیا اور پھر دروازے کی طرف دیکھا پارسا نے اس کا ہاتھ دبایا
"آپ اسے کچھ نہیں کہے گے ۔"
"کیوں نہیں کہوں اس نے زاویار کا آج سر پھاڑا کل اس کی جان لے لیے گا تب کیا کرو گی تم ۔"
دارب کو غصہ سے زیادہ پریشانی تھئ
"ہم اسے پیار سے سمجھائے گے اور زیادہ آپ ہی اسے سمجھائے گے وہ آبھی ڈر رہا ہے بچہ ہے دراب آپ کے پیار سے سمجھانے پر سمجھ جائیں گا ۔"
پارسا کے کہنے پر اس نے سر ہلایا اور اُٹھ کر ڈوپلیکیٹ چابی سے دروازہ کھولا شان ڈر گیا وہ اُٹھنے لگا جب دارب فورن اندر آیا شان نے کوئی راستہ نا پاکر رونا شروع کردیا
"ائیم سوری چاچو آئیم سوری لیکن میں نے یہ جان بوجھ کر نہیں کیا تھا میں کھبی آپنے بھائی کو نہیں مارنا چاہتا تھا ۔"
وہ منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا دارب اس کے پاس آیا اور اسے اپنے ساتھ لگایا
"شش کچھ نہیں ہوتا میں سمجھ سکتا ہوں تم اپنی مما کی وجہ سے یہ سب کررہے ہوں اٹس نیچرل بڈی آئی انڈرسٹینڈ لیکن اس میں چھوٹے سے زاوی کا کیا قصور اسے تو پتا بھی نہیں ہے اس کئ ماما کون ہے اسے تو اپنی ماما کا پیار نہیں ملا وہ تو آپ سے بھی جیلس ہونے شروع کردیں کے آپ کو تو پاپا کا بھی پیار ملا ہے اور ماما کا بھی اور ساتھ ساتھ میرا اور آنی کا بھی لیکن زاوی تو پھر اکیلا ہوجائیں گا نا اسے تو سب سے زیادہ اپنے شانی بھایا کا پیار چاہئے نا دیکھتے نہیں کیسے بھاگا بھاگا تمھارے پاس آتا ہے اور اس کو اکیلے چھوڑ دو گے خدا نا خواستہ مجھے یا آنی کو کچھ ہوجائیں تو کون سنبھالے گا کون خیال رکھے گا اس کا وہ تو بلکل اکیلا ہوجائیں گا پتا ہے آپ کے پاپا میرے بھایا مجھ سے بہت پیار کرتے تھے میرا بہت خیال رکھتے تھے وہ یہ نہیں چاہتےتھے میں فوج میں جاوں کیونکہ خاصی سخت جاب تھی لیکن مجھے جنون تھا وہ مجھ سے ناراض ہوگئے میں بلکل اکیلا ہوگیا مجھے بھیا کی ہر قدم پہ ضرورت محسوس ہوتی خیر جب بھائی پہ مشکل وقت آیا میں بھی کچھ نہ کرسکا لیکن میں چاہتا ہوں شانی تم اپنے بھائی کو خود سے بھی زیادہ محبت کرو اس کا خیال کرو جب وہ کسی مصیبت میں ہوں تو اس کی ڈھال بنو اس کے رکھوالے بنو اس لیے تو آپ کی امی بلکل مطمن ہوکر گئی کیونکہ انھیں یقین ہے اس کا بڑا بھائی اس کا رکھوالا بنا رہے گا ہے نا تو اپنی امی کو تو ناراض نہ کرو میرے یار ، میرے بوئی اب رو مت پارو سے زیادہ کوجے لگتے ہوں روتے ہوئے ۔"
دارب نے شان کے سر پہ بوسہ دیا اور مڑ کر دیکھا پارسا مسکراتے ہوئے دیکھ رہی تھی اور اس تھمز آپ دیا دارب بھی مسکرا پڑا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوکیشن : کراچی ،پاکستان
دارب آفس کے اندر داخل ہوا جب حسن بھی اس کے پھیچے آیا
"دارب سُن !"
دارب چیر پہ بیٹھا تو بولا
"ہاں بولوں حسن !!"
دارب نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
"سر تمھیں بولا رہے ہیں ۔"
"اچھا خیرت !"
وہ اُٹھ پڑا
"خریت ہی ہے لیکن ایک کیس سے ریلیٹٹ ڈسکس کرنا تھا تو تمھیں بولایا اور ہاں کوئی لفیٹنٹ کرنل لقمان حمید آیا ہے سر نے اس سے تمھیں ملوانا تھا ۔"
"اچھا !"
دارب سوچ میں پڑا اور چل پڑا اس نے جاکر دروازہ ناک کیا
"آجاوں !"
"مے آئی کم ان سر !"
دارب نے دروازہ کھولتے ہوئے کہا
کرنل ربانی نے دراب کو دیکھا تو مسکرا پڑیں
"آو دارب تمھارے ہی انتظار تھا !!"
دراب آگئے بڑھا اور سامنے کُرسی پہ اس نے شخص بیٹھے ہوئے دیکھا جو یقیناً لفیٹنٹ کرنل لقمان حمید تھا
"بیٹھوں دارب ان سے ملوں یہ ہے لفیٹنٹ کرنل لقمان حمید ہے اور لقمان یہ ہے ہمارے سب سے ٹیلنٹٹ آرمی آفسر جو بہت جلد اس رینک میں آنے لگئے ہیں میجر شاہ دارب ۔"
لقمان حمید نے بڑی ہی دلچسپی سے دارب کو دیکھا دراب نے مسکراتے ہوئے ہاتھ آگئے کیا لقمان نے ہاتھ ملایا
"ہلیو !!"
"اسلام و علیکم !!"
دراب نے دلکش لہجے میں کہا لقمان حمید نظروں ہی نظروں میں اس کی پرسنالٹی کو سہرا رہے تھے
لوکیشن : شاندراہ ،اسلام آباد
پارسا لان میں بیٹھی چائے کے سپ لیے رہی تھی اور سامنے تین سالا زاویار اور تیرہ سالا ذیشان کو فٹ بال سے کھیلتے ہوئے دیکھ رہی تھی زاویار بال کی پھیچے بھاگتا لیکن شان اسے بال لینے کا کوئی موقع نہیں دیں رہا تھا
"شانی !زاوی کو بھی بال دو کیسے تکھا رہے ہوں میرے بیٹے کو ۔"
شان نے سر اُٹھایا اور پھر زاوی کو دیکھا جو بال کے قریب آرہا تھا شان نے دوسری طرف کک کی اور وہ دور چلی گئی زاوی نے منہ پھیلا لیا لیکن اس طرف بھاگا لیکن شان نے اسے پکڑا تو وہ مچلنے لگا
"او لڑکے رُک جا چلوں آو جوس پیتے ہے پھر کھیلتے ہے ۔"
زاویار بولا
"نہیں بھا !!"
"او چلوں تو صیح نا ۔"
"بھا بال بال چاہئے ۔"
"چھوڑو گندی بال !"
پارسا نے جب زاویار کی رونی صورت دیکھی تو بولی
"شانی کیوں زاوی کو تنگ کررہے ہوں دیں دو نا بال ۔"
"آنی بال اُدھر مٹی والی جگہ پہ چلی گئی ہے اس لیے اوئے رو تو نہیں آو مل کے دھوتے ہیں اس بال کو ۔"
شان کو زاوی کے موٹے موٹے آنسو نہ برداشت ہوئے پائے اس کے گالوں پہ پیار کرتا ہوا اسے نیچے اتار کر زاوی کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگا
پارسا گہری مسکراہٹ سے ان دونوں بھایوں کو دیکھ رہی تھی
"آللّٰلہ ہمیشہ ان دونوں بھائی میں سلوک اتفاق اور محبت رکھنا ۔"
وہ دل میں کہتے ہوئے اپنا موبائل اُٹھا کر دیکھا جس پہ دراب کی مسڈ کال آئی تھی
"ارے ان مسڑ کا فون آیا اور مجھے پتا ہی نہیں چلا ۔"
پارسا نے فون ملایا اور دوسری بیل پہ فون اُٹھا لیا گیا
"ہلیو کہاں تھی تم ! میں کب سے کال کررہا تھا ۔"
"دارب صرف ایک مسڈ کال تھی ۔"
پارسا ہنستے ہوئے بولی
"کیسی ہوں طبیعت تو ٹھیک ہے نا تمھاری اور زاویار ،شانی ۔"
"دونوں کھیل رہے ،آج موسم اچھا تھا سوچا گرم سی چائے بنا کر باہر مزے لو ۔"
"اکیلے اکیلے ۔۔"
دارب ہنستے ہوئے بولا
"تو اور کیا آپ تو آنے سے رہے دو ہفتے کا کہا تھا اور مہینہ ہوگیا آپ کو گئے ۔"
"اس دفعہ مشن ہی ایسا ملا ہے اور میں تو کب سے اس کیس کو حل کرنے کے لیے بیتاب تھا ۔"
"واقی دارب چلے اللّٰلہ آپ کو کامیاب کریں ویسے شاندراہ کب تک آئے گئے ۔"
"بس دو تین دن میں کوشش کرو گا یہاں کا چکر لگالوں رکھتا ہوں فون آللّٰلہ حافظ !"
"اللّٰلہ حافظ !"
***********
لوکیشن : کینن ،فرانس
مہر نے کتاب بند کی
"اُف آج دن کیوں نہیں گزر رہا ویسے تو ہر روز ایسے ہوتا ہے لیکن آج تو بہت ہی بوریت والا دن ہے کیا کرو ۔"
وہ کچھ سوچتے ہوئے ہوم تھیٹر کی طرف چلی گئی اور کوئی ہارر فلم ڈھونڈنے لگی لیکن اس نے سی ڈی سٹینڈ میں دیکھا وہاں بہت کم فلمز تھی اور خاصی بیکار جو صرف لقمان حمید دیکھتا تھا
"میرے کی کلکشن تھی وہ کدھر گئی ۔"
وہ پارسا کی کلیکشن ڈھونڈ رہی تھی جو ہمیشہ یہاں ہوا کرتی تھی ۔
"کسی سے پوچھو گی تو کہی بھی صیح نہیں بتائیں گا پتا نہیں سب میرے کی ڈیتھ کے بعد بے ایمان ہوگئے ہے کچھ بھروسہ نہیں ہے ان کا ۔"
وہ کچھ سوچتے ہوئے فرسٹ فلور کی اکٹیک کی طرف بڑھی آج لقمان حمید کینن فلم فیسٹول کے لیے گئے تھے اور رات تک ان کا گھر آنے کا کوئی آرادہ نہیں تھا وہ بڑھ رہی تھی جب کسی نے پکارا
"مہر میڈم کدھر جارہی ہے ۔"
مہر مڑی تو اس نے دیکھا ان کا ہاوس کیپر سٹیو کھڑا تھا اور اس کے چہرے پہ پریشانی کے آثار تھے مہر کو شک کی گھنٹی بجی کیونکہ وہ بہت نوٹ کررہی تھئ کے گھر میں بہت مشکوک حرکتیں چل رہی تھی اب گھر پہ اکیلی ہوتی تھی تو زیادہ سے زیادہ ایک ایک چیز پر غور کرتی تھی اور یہی اس کی سب سے بڑی خوبی تھی زندگی نے اس چھوٹی سے لڑکی کو بہت کچھ سکھا دیا تھا
"کہی نہیں بس کچھ سیڈیز نہیں تھی مجھے لگا فرسٹ فلور کے اکٹیک میں ہوگا ۔"
"وہاں کچھ نہیں ہے ۔"
مہر نے ائی بروز اوپر کی
"اتنا گھبڑا کیوں رہے ہوں ۔"
سٹیو مہر کے کہنے پر سپٹا گیا
"نہیں میڈم میں کہاں گھبڑا رہا ہوں آپ کا لنچ ریڈی ہے ۔"
"ٹھیک ہے تم جاوں میں آتی ہوں ۔"
مہر کو لگا جیسے وہ اسے روکنے کا کہے گا لیکن اس نے کچھ نہیں کہا اور وہ چُپ کر کے چلا گیا مہر نے کچھ سوچا
"آخر کچھ تو ہے جو مجھ سے چھپایا جارہا ہے میرے کی ڈیتھ کے بعد سب ہی عجیب ہوگئے ہے ۔"
وہ کچھ سوچتے ہوئے اوپر جانے کا ارادہ تک کرُچکی تھی اور نیچے آگئی
※※※※※※※※※※※※
وہ نیچے آہستہ سے چلتی ہوئی آئی جب کسی کی آواز پہ وہ چونکئ
"سر مجھے لگتا ہے مہر بی بی کو شک پڑگیا ہے اکٹیک کی طرف انھوں نے جانے کا کھبی نہیں سوچا آج پتا نہیں کیوں چلی گئی میں نے جب ان سے پوچھا تو ان کے چہرے کے تاثرات سے پتا چل رہا تھا ۔"
وہ اُردو میں لقمان حمید سے بات کررہا تھا کیونکہ لقمان حمید کو آبھی تک یہ نہیں پتا تھا کے مہر کو آردو آتی ہے
مہر کو ایک دم اپنا شک صیح نکلا
"اچھا تو کوئی بات ضرور ہے جو مجھ سے چھپائی جارہی ہے ."
مہر سیدھا کچن کی طرف آئی اور اس نے پانی کا گلاس نکلا
"ضرور اس اکٹیک میں کچھ ہے جو مجھ سے چھپایا جارہا ہے کیا ہوسکتا ہے ۔"
وہ سوچ رہی تھی جب سٹیو آگیا سٹیو دیکھنے میں تو فارنر لگتا تھا لیکن اسے اس کی اتنی صاف اُردو سُن کر وہ حیرانگی نہیں ہوئی اُردو کوئی بھی سیکھ سکتا ہے لیکن اس کی یہ زبان اُردو بھی نہیں لگ رہی تھی اسے کچھ ہندی سی محسوس ہوئی تھی
سٹیو نے اس کے سامنے ڈس رکھی مہر سٹول پہ بیٹھ گئی اور اسے دیکھنے لگی جس پر اب پہلی والی گھبڑاہٹ نہیں تھی
"ام سٹیو !
سٹیو گلاس اور جوس کا ڈبہ اس کے سامنے رکھ رہا تھا بولا
"یس میڈم !"
"تمھیں ہندی آتی ہے ۔"
تب اس نے سٹیو کا چہرہ سفید ہوتے دیکھا لیکن اس نے اسے فورن سنبھلتے ہوئے دیکھا
No ma'am how could I know Hindi I'm a French guy
(میم مجھے ہندی کیسے آتی ہوگی میں تو فرنچ ہوں ۔)
وہ ٹہر ٹہر کر بولا
"اچھا ! لیکن کسی بھی انسان کو ہر قسم کی لنگیوج آسکتی ہے ۔"
مہر نے عام سے لہجے میں کہا لیکن دل ہی دل میں اس کی کمال اکٹینگ پہ داد دیں
"میم۔ آپ کو آتی ہے ۔"
اس کے سوال پہ مہر کو حیرت ہوئی اس کے حلق میں نوالہ پھنس گیا اس نے پانی کا گلاس اُٹھایا اور ہنستے ہوئے بولی
"نہیں تو مجھے نہیں آتی تمھاری طرح میں بھی فرینچ ہوں ۔"
"بٹ یو آڑ ا پاکستانی ۔"
اس کے سوالوں پہ مہر کو حیرانگی ہورہی تھی کہی اس کو تو میرے پہ شک نہیں ہوگیا
"ہاں بٹ پاکستان میں رہتی نہیں ہوں میرا ملک تو فرانس ہے تو میں اسی کی سٹزن ہوئی ۔"
وہ اپنا کھانا مکمل کر چکی تھئ اور کچھ سوچتے ہوئے آپنے کمرئے میں آئی
※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : کراچی ،پاکستان
دروازے پہ دستک ہوئی دارب جو اپنے کیس کی ریسرچ میں آتنا گُم تھا اسے پتا نہیں چلا جب دوبارہ دستک ہوئی تو اس نے سر اُٹھایا
"یس کم ان !"
دروازہ کھلا اور اس کا بٹلر کھڑا ہوا تھا
"سر آپ کے مہمان آئے ہیں ۔"
دارب نے مڑ کر گھڑی کو دیکھا رات کے آٹھ بجے رہے تھے
"اس وقت کون آیا ہے ۔"
"لفیٹنٹ کرنل لقمان حمید آئے ہیں ۔"
دارب نے فائل بند کر کے رکھی اور اُٹھا
"اچھا میں آتا ہوں تب تک تم ان خاطر داری کرو اور ہاں کھانا تو تیار ہے کیا پکا ہے ۔"
"جی سر الو گوشت پکے ہیں ۔"
"او ہو ایک کام کرو یہ کو پیسے باہر سے کھانا آڈر کرو ۔"
دارب تیار ہوکر نیچے آیا جب لقمان حمید پینٹنگ کو دیکھ رہے تھے
"اسلام و علیکم ائیم سو سوری آپ کو انتظار کرنا پڑا۔"
دارب کے کہنے پر لقمان حمید مڑے اور مسکراتے ہوئے اس کے سامنے ہاتھ آگئے کیا جسے دارب نے بڑی گرم جوشی سے ملایا
"نہیں برابلم یار ظاہر اتنی بھاری زمہ داری ہے تم پر تم اس کیس نے تمھیں اونچائی پہ لیے جانا ہے ۔"
دارب ہلکہ سا مسکرایا اور صوفے پہ بیٹھا
"نہیں سر یہ میری زمہ داری نہیں ہے میرا فرض ہے ، اور اس کیس میں ٹررسٹ گروپ کے ساتھ سمگلر ہے جو ہمارے ملک کو برباد کرنے میں ایک سکینڈ نہیں لگائے گئے یہ ایک وائرس کی طرح پھیلے جارہے جو پتا نہیں کتنے کتنے علاقے کو تباہ کررہا تھا ہم تو بڑے بڑھ شہروں کو دیکھتے ہے لیکن ہم چھوٹے چھوٹے علاقے کو بھول جاتیں ہیں جن کی عزت ،زندگی سب کچھ ایک سکینڈ میں ختم ہوجاتی ہے ۔"
"یہی بات مجھے آپ کی اچھی لگتی ہے آپ واقی تعریفوں کے حق دار ہے جو بھی آپ کی تعریف کرتا ہے وہ ہرگز نہیں جھوٹ بولتا ۔"
لقمان حمید ستائش بھری نظروں سے دراب کو دیکھنے لگے دارب ان کی بات پر چھینپ گیا
"اب ایسی بھی بات نہیں ہے سر !"
"اچھا اب تک کیس کہاں تک پہنچا ہے ۔"
وہ پیپسی کے سپ لیتے ہوئے بولا
"ام ابھی کہاں آبھی تو سٹارٹنگ ہے سر ۔"
"پھر بھی کچھ تو پلین کیا ہوگا تم نے ۔"
انھوں نے اسرار کیا تو دارب انھیں مائنر ڈیٹیل بتارہا تھا وہ اس کا ڈیٹیل پہ مسکرائے
"ہوں بلکل زبردست کب تک ارادہ ہے ایکشن لینے کا ۔"
وہ سوچ کر اسے دیکھتے ہوئے بولے
"بس جب ساری انفورمیشن ان سے ریلیٹٹ مل جائیں گی پھر چائنہ جاو گا ایک مہینے کے لیے وہاں پہ میرا کام ہے اس کے بعد ہی کوئی اکشن لو گا ۔"
"ہوں تو بیسٹ آف لک !"
لقمان حمید سُنتے ہوئے اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگے اور دارب اپنے بٹلر سے بات کرنے لگا اور پھر لقمان کو دیکھتے ہوئے بولا
"سر کھانا لگ گیا آپ آئے ۔"
"ارے اس تکلف کی کیا ضرورت تھی ۔"
"کیوں نہیں تھی آپ آئے پہلی دفعہ میرے گھر آئے ہے مجھے بہت خوشی ہوئی ۔"
※※※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : کینن ،فرانس
مہر آپنے کمرے میں ٹہل رہی تھی اور کچھ سوچ رہی تھی
"کیا کرو اس اکٹیک میں کس طرح جاوں جیسے کسی کو شک بھی نہ ہوں اور میں وہاں جاکر دیکھوں آخر اس میں ہے کیا سوچ مہر بہت بڑی بات ہے جو میری علم نہیں ہے سب کی حرکتیں بڑی ہی عجیب ہے افوہ !"
پھر اس نے سوچتے ہوئے اپنا لیپ ٹاپ نکالا اور بستر پہ بیٹھ کر کچھ طریقے ڈھونڈے لیکن بڑے ہی عجیب عجیب ٹرکس تھے جو اس سے یقینن نہیں ہونے تھے ۔
"اللّٰلہ کچھ تو مدد کر میری ۔"
وہ ڈفرنٹ قسم کی ویب سائٹ دیکھ چکی تھی ،ویسے مہر کو تھوڑی انجوئیمنٹ ہورہی تھی کے ڈیٹیکٹیو والے کام کرو
"کاش زاوی ہوتا میرے ساتھ وہ تو بڑی سے بڑی برابلم کو بھی چٹُکیوں میں حل کرلیتا ۔"
"ہر چیز کو بڑے دھیان دھیان سے پھوک پھوک کر قدم اُٹھانا چاہیے اگر جلدبازی کرو گی تو نقصان تمھارا ہی ہونا اور ویسے بھی سلو اینڈ سٹیڈی ونز دا ریس ۔"
اسے زاویار کی کہی ہوئی بات یاد آئی
"لیکن زاوی ہر چیز جلدی کیوں نہیں کرسکتے وہ زیادہ بہتر نہیں ہوتا بانسبت آپ ہر چیز پہ سلو ہوکر ایک ایک چیز کو دیکھ کر وہ کام کریں سارا جوش مزا خراب ہوجاتا ہے ۔"
"جوش میں ہی تو انسان کی عقل ختم ہو جاتی ہے وہ اس وقت دل کی سُنتا جو دل کو سکون اور راحت دیں گی وہ وہی کریں گا اس وقت تو دماغ اس کا کسی کام کا نہیں رہتا میں یہ بھی نہیں کہہ رہا دل کی نہ سنوں لیکن اگر دماغ اور دل کو ساتھ لیکر چلوں گی تو ہر فیصلہ صیح سے کرو گی ،کرو ضرور اپنی لیکن دل دماغ لیکر کیونکہ کے ہمارے جسم کا یہ بہت اہم حصہ ہیں اور یہ بہت بڑا کردار آدا کرتیں ہے اس کے بغیر ہم کچھ نہیں ہے ۔"
اور وہ حیرت سے جم جاتی اسے کھبی زاویار تیرہ سال کا لڑکا نہیں لگا تھا وہ تو باتوں سے کوئی بہت بڑا آدمی لگتا تھا
"میں بھی کیا سوچنے لگی پتا نہیں کہاں ہوگا ۔"
پھر اس نے لیپ ٹاپ کی طرف دھیان دیا
"میں پتا لگا کررہوں گی آخر چکر کیا ہے !"
※※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : گلگت ،بلتستان
زاویار لیٹا ہوا تھا جب فون بیل پہ اس کی انکھ بے اختیار کھلی اس نے ہاتھ مار کر دو تلاش کیا نہیں ملا وہ اُٹھ پڑا تو دیکھا سائڈ ٹیبل پہ پڑا ہوا تھا اس نے دیکھا تو یہ نمبر لقمان حمید کا تھا اس نے دیکھا یہ اس کا دوسرا موبائل تھا جس پہ نیپال کی سم تھے وہ سمجھ گیا
اس نے جلدی سے اُٹھایا اور اپنا گلا کنکھار کر آواز بھاری کی
"ہلیو !!!"
"ہاں بولوں لقمان حمید کیسے یاد کیا ہمیں ۔"
"تمھیں میں نے پیسے مجھے بس ان کی انفورمیشن کے لیے نہیں دیں اب تک ان کی موت ہوجانی چاہیے تھی کیوں نہیں ہوئی اور وہ گلگت میں پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں ۔"
زاویار کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی اسے کیسے پتا چلا
"آواز اپنی آہستہ رکھوں تم شاہد بھول گئے ہوں تم کس سے بات کررہے ہوں ظہیر سومرو سے ان کا کام تمام کرو یا نہ کرو تیرا کرنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگاوں گا
اتنے بے صبریں کیوں ہوں جب دراب سے لیکر ذیشان تک کو مار چکے ہوں تو خود کیوں نہیں ماردیتے انھیں"
زاویار نے اسے چیک کرنا چاہا
"دیکھوں مارنا میرے لیے بہت آسان ہے لیکن اس بار میں شک کی نظر میں آرہا ہوں جب سے اس ذیشان کی موت ہوئی ہے اگر پاکستانی فوج کو زرا سا بھی شک ہوگیا میں تو مرو گا ساتھ میں ہمارا پلان بھی خراب ہوجائیں گا ۔"
"بہرحال یہ تمھارا معاملہ مجھے ان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور مجھے اس طرح فون کر کے تنگ نہ کرو وہ پہلے بھی میرے دو حادثوں سے بچ گئے تھے ۔"
"جانتا ہوں میں !"
لقمان حمید کے بات پہ مسکرایا
"اچھا تو پھر پُرسکون رہوں تمھیں بہت اچھی خبر دو گا وہ بھی بہت جلد ۔"
"مہربانی کر کے دیں دینا ان کا مسئلہ ہٹے تو پھر ہم اپنا کام شروع کریں خیر مجھے انتظار رہے گا ۔"
"ہاں فکر مت کرو کام ہوجائیں گا ۔"
زاویار نے فون بند کر کے دیکھا اس نے فورن دوسرا فون اُٹھایا اور اس میں پرویز کو کال کی
"ہاں پرویز سُن ! تو نے خبر دیں دی اس کو ۔"
"ہاں اب شو ٹائیم ہے یار مجھے کافی انفورمیشن مل چکی ہے اب کھیل کو سٹارٹ کرتیں ہے ۔"
"گریٹ ! فارس سے اس کی ڈیٹیل لے لو میں باقی مینج کر لو گا اوکے !"
"اوکے ٹھیک ہے اللّٰلہ حافظ ۔"
زاویار نے فون بیڈ سائڈ ٹیبل پہ رکھا تو اس نیچے دروازے پہ ایک جگہ اندھیرا نظر آیا وہ سمجھ گیا مہر ان دونوں کی باتیں سُن رہی ہے زاویار کے چہرے پہ شرارت سے بھری مسکراہٹ آگئی
"ہاں ہلیو نتالیہ کیسی ہوں یار !"
مہر جو مڑ کر جانے لگی تھی اس کی خشگوار آواز پہ دروازے پہ ہی رُک گئی
"ہاں یار تمھیں بہت مس کررہا ہوں تم کیا پاکستان واپس آگئی سچ میں واو داٹس گریٹ یار میں فل حال تھوڑا سا بزی ہوں لیکن آئیل ٹرائی یار آئی پرامس لڑکی
آو گا بس کام میں پھنسا ہوں ہا نا کیسے بھول سکتا ہوں وہ سٹنفوروڈ کے دن تمھارے ساتھ مجھے وہی ٹائیم اچھا لگتا تھا ہاں گلا میرا تھوڑا سا خراب ہے بخار ہوا ہے بس اس موسم میں طبیعت خراب ہوجاتی ہے یہاں خیال رکھنے والا بھی کوئی نہیں ہے پتا ہے جب میں بیمار ہوتا تھا تو تم بھی اپنی کلاسس مس کر کے میرے فلیٹ میں آجاتی تھی ۔"
مہر کا منہ کھل گیا اس کا چہرہ بھی سُرخ ہوگیا
"خیال میں رکھواتی ہوں تمھارا زاویار عباس !!!"
وہ سیدھا نیچے کی طرف بڑھئ زاویار آرام سے اُٹھا اور اس نے چیک کیا کے ہے تو نہیں پھر اس نے ہلکے سے دروازہ کھولا اور چیک کیا اور پھر قہقہ لگا کر ہنس پڑا
"بے وقوف جھلی لڑکی !!!"
اس نے گرما گرم کافی بنائی زاویار کے لیے اور ایک سوپ کا پیالہ ٹرے میں رکھا اور اُٹھ کر اوپر آگئی
اس نے دروازے کھولا دیکھا وہ بیڈ پہ لیٹا سو رہا تھا
مہر نے سیدھا جاکر ٹرے سائڈ ٹیبل پہ رکھی اور اس نے دیکھا زاویار کی سوکس پڑی ہوئی تھی اس نے اُٹھائی اور اسے دیکھا اس نے جلدی اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا
"اُف اس سے بندہ یقینن اللّٰلہ کو پیارا ہوجائیں ۔"
مہر نے انگلی سے پکڑ کر اس کے منہ تک لیکر گئی زاویار ایک دم چونک جب اس نے سانس لی تب اس کئ حالت خراب ہوگئی وہ جھٹکے سے اُٹھا
"چھی !!!!!!!!! یہ کیا ہے ۔"
اس نے جرابے دور پھینکی
"تمھاری اس نتالیہ کی خشبو !!!"
مہر نے جل کر کہا
"مہر یہ کیا حرکت ہے اور اتنی بدبودار جرابے ۔"
اس نے اپنا سر تھام لیا
"اُف سر چکڑا گیا ۔"
"لو جی جن کی جرابے ہے انھیں خود نہیں پتا ۔"
زاویار نے نظر ڈالی لیکن نفی میں سر ہلایا
"نہیں یہ میری نہیں ہے اپنا جرابے سنبھال کر رکھا کرو اور کچھ تو صفائی کا خیال کیا کرو مہر !!!"
مہر کا منہ کھل
"میں یانی میں صفائی کا خیال نہیں رکھتی مسڑ زاویار عباس ۔"
"ہاں ۔"
"مہر نے دوبارہ اُٹھا کر اس کے منہ پہ ماری
"زرا دھیان سے دیکھوں تمھارے جوتے سے نکالے ہے توبہ کتنے گندئے ہوتے ہیں فوج ۔"
زاویار کو یاد آیا کے اس نے چار دن پہلے انھیں دھونے کا ارادہ کیا تھا اور زندگی میں پہلی بار بھول گیا وہ صفائی کا بہت خیال کرتا تھا ایون فوج کی سختیوں میں بھی اسے اپنا خیال رہتا
"او ڈیم اٹ !"
وہ جلدی سے اُٹھا مہر نے اس گھورا اور وہ اگنور کر کے دونوں ساکس بوٹس میں رکھ کر چل پڑا
"ارے کہاں جارہے ہوں ۔"
مہر نے دیکھا اس کی پڑی ٹرے ویسے ہی پڑی تھی اس نے زاویار کا بازو پکڑا
"کیا کررہے ہوں !"
"سوکس دھونے !!!"
مہر کو اس کے اتنے معصومیت کہنے پہ ہنسی آئی
"یہ رکھے رہوں کریں گی نہ تمھاری نتالیہ ۔"
زاویار کو بھی ہنسی آئی لیکن گھورتے ہوئے بولا
"تم نے میری باتیں سُنی ۔"
مہر نے اس کے ہاتھ سے شوز لیے
اور سڑھیوں کے قریب رکھے اور اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے اسے جھڑجھڑی ہوئی
"کیا ہوا ؟"
"تمھارے یہ شوز توبہ اس سے مردے زندہ اور زندہ مردہ ہوجائیں گئے ۔"
زاویار نے گھورا
"تم سونگھا دیتا لیکن آثر ہی نہیں ہونا تھا ۔"
وہ اندر جانے لگا
"اچھا کیوں آپ کی عقل کیا کہتی ہے ۔"
"میری عقل کہتی ہے کے گھوسٹ (بھوت ) پہ بو آثر نہیں ہوتی تم بھول گئی ہوں تم ویلک ہوں جو لوگوں کا جینا حرام کردیتی ہے ۔"
"میں نے کیا تمھارا کوئی خون پیا ہے جو مجھے بھوت کہتے ہوں خود کیا ہو ڈرکیولا میرا بلڈ ٹیسٹ کرواوں گئے
تو ایک بھی خون نہیں بچا ہوگا میں کہوں میرے شوہر نے رہنے نہیں دیا ۔"
وہ تیزی سے بولی
زاویار قہقہہ لگا کر ہنس پڑا مہر کہی سے بھی انٹیلیجنٹ ایجنٹ نہیں لگ رہی تھی
"ہاں تبھی چہرہ حد سے زیادہ سفید ہے تمھیں کیا انمیہ کی بیماری ہے او سوری بھول گیا تم تو بھوت ہوں ۔"
"یہی کافی میں تمھارے سر پہ الٹ دو گا ۔"
مہر دبی آواز میں چیخی !
"او اس سے یاد آیا یہ کون سے کرم نوازی تھی آپ کی ،خیر تو ہے آج یوم حشر والا دن تو نہیں آگیا ۔"
"ہر چیز کا غلط مطلب لینا تم بمیار تھے سوچا میں نے کے کچھ دیں دو ۔"
مہر نے اپنی منہ پہ آتی بالوں کو پھیچے کیا زاویار مسکرا پڑا
"اب تو خیر دونوں چیزیں ٹھنڈی ہوگئی ہے اتنی مشکلوں سے بنایا تھا ۔"
زاویار نے کافی کا کپ اُٹھا لیا اور اس کا سپ لیا تھی صیح میٹھی اور ٹھنڈی اور زاویار کو ایسی کافی سے سخت نفرت تھی لیکن پھر بھی مہر کے خاطر پی گیا
"چینی زرا تھوڑی اور ہوتی ساتھ میں اتنی گرم بھی نہیں ہونی چاہیے گڈ جاب ۔"
لوکیشن : کراچی ،پاکستان
"یہ کیا ہے سر ۔"
دارب کا لہجہ کسی شاکڈ سے کم نہیں تھا
"تمھارا عمل نامہ !"
جنرل ربانی صاحب کا لہجہ پتھر سے بھی سخت تھا
"سر ایسا کیوں میں نے یہ خبر لیک نہیں کی اور آپ مجھے اس میشن سے نہیں نکال سکتے اس میشن پہ کام کرنا میرا خواب تھا۔"
ربانی صاحب نے اس کی بات کر کے بے آختیار قہقہ لگایا
"لڑکے تم مشین کی بات کرتے ہو تمھیں تو پھانسی کی سزا ملنی چاہیے لیکن چونکہ لقمان کی وج ال از ان کنڑول تو اس کی رکیوسٹ پر ہم تمھیں ملک سے بدر کرنے کے ساتھ تمھارے سے یہ وردی بھی چھین رہے ہیں ۔"
دارب کو لگا جیسے بے شمار خنجر اس کے جسم میں کھونپ دیں ہوں اس کے جسم کا ہر ایک ایک زرعہ یہ بات سُنتے ہی تکلیف سے بلبلا اُٹھا تھا وہ تیس سالا مرد یہ بات سُنتے ہی رونے والا ہوگیا
"سر یہ آپ کیا کہہ رہے پلیز ایسے تو مت کہے میں اپنے
نبی کی قسم کھاتا ہوں میں نے اپنے ملک کے ساتھ کوئی بے ایمانی نہیں کی آپ میرا یقین کریں ۔"
دارب کی اواز شدید بھاری ہوگئی تھی وہ سب کچھ برداشت کرسکتا تھا لیکن اپنے اوپر غدار کا لگا ہوا داغ ہرگز نہیں برداشت کرسکتا تھا
"تم یہاں سے دفع ہوجاو دارب میں تمھاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا اور اس ملک سے جانے کی تیاری کرو !!!!"
"پلیز سر میری بات سُنے !!"
"ائی سیڈ گیٹ لاسٹ !!!!!"
دراب نے کاغذ کا سختی سے اپنی مٹھی میں لیا اور وہاں سے چل پڑا
※※※※※※※※※※※※※※※※※※
"یہ آپ کیا کہہ رہے دراب !!"
پارسا نے اسے فون پہ پھوٹ پھوٹ کر روتا ہوا دیکھا تو پریشان ہوتے ہوئے بولی تو دارب نے جو اسے بتایا اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی
"پارسا میں اللّٰلہ کی قسم کھاتا ہو میں نے کچھ نہیں کیا میں نے کوئی خبر وہاں نہیں پہنچائی میرا یقین کرو۔"
"دراب میں اپنی جان سے بھی زیادہ آپ پہ بھروسہ کرتئ ہو آپ پلیز ایسے مت کریں مجھے تکلیف ہورہی ہے ۔"
پارسا بھی فون پکڑیں رورہی تھی دارب نے اپنا منہ صاف کیا
"ائیم سوری مجھے پتا نہیں چلا تمھاری طبیعت پہ اثر ہوجائیں گا تم سے بعد میں بات کرتا ہو لیکن میں پتا کروا کے رہوں گا آخر یہ کس کی چال ایسے تو نہیں بیٹھوں گا میں اپنا اور میری نسا کا خیال رکھنا اور پلیز اگر میں نہ ہوا تو زاویار اور ذیشان کا اپنی جان سے بھی زیادہ خیال رکھنا ان کو اسے ملک کے رکھوالا بنانا ۔"
پارسا کو خظرئے کی گھنٹی محسوس ہورہی تھی
"دارب دراب آپ کو قسم ہے کے آپ نے کچھ کیا !!"
پارسا کی ڈری ہوئی آواز پہ دراب دُکھ بھرے انداز میں بولا
"فکر مت کرو خودکشُی نہیں کرو گا موت میرے پاس خود چلی آئی گی۔"
وہ بند کر چکا تھا اور پارسا دارب دراب کہتی رہی
دراب نے اپنا سر تھام لیا اور سوچ میں پڑ گیا آخر یہ کس کی گھٹیا چال تھی وہ سوچ رہا تھا ایسا کون سا شخص تھا جس کو اس کی ہلکی سی پلینگ کی خبر تھی اور اسے پتا لگنے میں ایک سکینڈ بھی نہیں لگا
"لفیٹنٹ کرنل لقمان حمید !!!"
※※※※※※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : گجرات ،پاکستان
"واپس آگئی جرمنی سے کیسی رہی شادی ؟"
ذیشان شاور لیکر آیا تو دیکھا اس کا فون مسلسل بج رہا تھا تو زاویار نے پکڑ لیا تھا
"او ہو ہالے صاحبہ کی کال ہے مطلب ہماری ہونے والی بھابی کی کال ہے ۔"
شان تیزی سے اس کی طرف آیا کے زاویار تیزی سے بھاگا
"زاوی رُک !"
"نہیں آج تو میں بھی بات کرو گا ہلیو سلام و علکیم ہالے بات کررہی ہے نا جی شان نہیں ہمیں زاویار عباس کہتے ہیں سچی بھا آئی مین ہالے صاحبہ میں شان نہیں ہوں ۔"
ذیشان نے اسے پکڑ کر فون چھپٹنا چاہا لیکن زاویار نے شان کے ایک ہاتھ سے روکا
"ارے آپ مان نہیں رہی میں ذیشان بھائی کا چھوٹا بھائی ہا مطلب بھائی نے آپ کو میرے بارے میں نہیں بتایا بہت بُری بات ہے اچھا بتایا پھر تو ٹھیک ہے جی آگیا امریکا سے بتانا چاہیے تھا نا انھیں خیر آپ سے پھر بات ہوگی کچھ لوگ بہت بے قرار ہورہے ہیں ۔"
زاویار شرارت سے بولا
شان نے غصے سے اس سے فون چھینا اور زاویار جانے لگا کے شان نے کان پکڑا
"ا بھایا ظالم لوگ مجھے چھوڑ دو ورنہ ہالے بھابی آ بھائی آپ چنگیز خان کی تو سپاہی نہیں ہے اُف چھوڑے اچھا معاف کردیں ۔"
شان نے چھوڑا اور اس کو اشارے سے وارنگ کیا زاویار نے اپنے کان کو سہلائے
"آپ تو چاہیتے نہیں ہے میں فوج میں جاو۔"
"جا اب ڈرامے باز ."
شان مسکراہٹ دباتے ہوئے مضنوعی رعب ڈالتے ہوئے بولا
"او تو یو کہے نا پرائویسی چاہیے کیا یاد رکھے گئے آپ
دیتا ہو آپ کو تنہائی ویسے بھایا ساری عمر کی قیدی ہوجائے گئے ۔"
شان قہقہ لگا کر ہنس پڑا
"لُک ہو از ٹاکنگ جو خود شادی کے قید میں پھنس چکا ہے ۔"
زاویار نے گھورا واقی اس بار چُپ ہوکے چلا گیا
"ہاں شادی بہت اچھی رہی ویسے یہ زاویار اور آپ کی آواز کتنی ملنے لگی ہے کیا آپ جیسے ہوگیا ہے ۔"
"ہاں ایسا ویسا بلکہ یو کہوں میرے سے زیادہ خوبصورت اور سمارٹ ہوگیا ہے میرے سے زیادہ آرمی میں جانے کا جنون ہے اس کو ۔"
"اللّٰلہ اسے کامیاب کریں ۔"
"خیر میں سوچ رہا ہو کیوں نہ رشتہ بھیج دو بے بے بھی ہے زاوی بھی بس مہر کی کمی ہے اس کے بغیر تو خیر شادی نہیں کرو گا لیکن میں چاہتا ہوں تمھاری امی کے گھر ان کو بھیجوں ۔"
"شانی اتنی جلدی ابھی تو میرا میڈیکل کالج کا ایک سال ہوا ہے ۔"
"نہیں یار مجھے اس طرح نہیں پسند اچھا بھی نہیں لگتا تم سے اس طرح بات کرنے کو اپنی اپنی سے نہیں لگتی ۔"
"کیا مطلب ہے آپ کا ۔"
ہالے شاکڈ انداز میں بولی
"میرا مطلب یہ ہے جیسے زاویار کا نکاح ہوا ہے ویسے بھی اب میرا بھی ہوجانا چائیے ۔"
"نکاح !!"
"جی ہاں نکاح کیونکہ میں اس طرح چار سال صبر کرسکتا ہوں ورنہ ہرگز نہیں ۔"
ہالے ایک دم خاموش ہوگئی
"ارے محترمہ خاموش کیوں ہوگئی کیا بُری لگی میری بات لیکن ہالے سمجھو نہ میں اس طرح تمھارے ساتھ زیادتی کررہا ہو میری بات سمجھ رہی ہونا کے میں کیا کہنا چارہا ہوں ۔"
شان نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا
"ٹھیک ہے آپ اپنی بے بے کو میرے گھر بھیج دیں ۔"
ہالے کے کہنے پر شان کے چہرے پہ گہری مسکراہٹ آئی پھیچے سے زاویار کی آواز آئی
"تو بھائی تیاری شروع کریں ۔"
اس کی شرارت سے بھری اونچی آواز پہ شان تیزی سے فون بند کر کے اسے مارنے کے لیے لپکا
※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : گلگت ،بلتستان
مہر نیچے آئی وہ کام میں بہت مصروف دکھائی دیں رہا تھا لیکن ابھی تک اس کا بخار اور گالا نہیں ٹھیک ہوا تھا ساتھ ساتھ وہ کھانس بھی رہا تھا
مہر نے اسے مسلسل کھانستے ہوئے دیکھا تو اس کے پاس جانے کے بجائے کچن کی طرف بڑھی اور کچھ سوچتے ہوئے اپنی سپیشل انگڑڈینٹس والی چائے بنانے لگی وہ بنا رہی تھی ساتھ میں نظر اس پر بھی ڈال رہی تھی جب کال بیل پہ چونکی اس نے دیکھا ایجنٹ روجر کا فون تھا
"یس سر ۔"
"کریمیل گلگت میں کیا کررہی ہوں اور تمھارا کام کہاں تک پہنچا میں نے کہا تھا تمھیں میجر ذیشان سے ملنے کو ۔"
مہر نے اپنے لب کاٹے اور اس طرف دیکھا جو اپنے کام پہ مصروف تھا مہر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
"جی سر ملاقات کرتی ہوں میں گلگت اس لیے آئی ہوں سُنا ہے میجر ذیشان اِدھر ہی کہی ہے ۔"
مہر نے جھوٹ بولا جب سے اس نے اپنے پاپا کی کہانی سُنی تھی اسے کسی پہ بھی بھروسہ نہیں رہا تھا
"آہا جلدی سے ملوں اور اپنے کام شروع کرو یہ ٹریرزم اوپریشن آدھے پاکستان کو تباہ کردیں گا ۔"
"جی سر ہم جلد از جلد اس پہ کام کرتے ہیں ۔"
اس نے مزید دو تین باتیں کی اور بند کیا مڑی تو زاویار کھڑا ہوا تھا ریڈ جمبر اور بلیو جینز کے ساتھ الجھے باولوں اور سُرخ ناک اور گال میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا زاویار اس کے چہرے کو دیکھ کر مسکرایا
"پھوٹر بیوی اگر میرے لیے چائے بنا رہی تھی دیکھوں نا سارا پانی خشک ہوگیا زرا دھیان بھی دیں دیا کرو ۔"
مہر نے دیکھا واقی پانی تھا ہی نہیں ،زاویار نے سٹو بند کیا
"ائیم سوری میں دوبارہ بنا دیتی ہوں۔"
مہر دوبارہ کھولنے لگی جب زاویار نے اس کا ہاتھ پکڑا
"رہنے دو تم اپنا کام کرو ۔"
مہر نے ناسمجھی سے اسے دیکھا
"کیسا کام ؟"
زاویار نے گلا کھنکھاڑا
"میجر شان سے ملاقات کا ۔"
زاویار نے اسے اُٹھایا مہر کو جھٹکا لگا
"چلو آو گولڈی میٹنگ کرتے ہیں ۔"
زاویار کے لہجے پہ اس کا دل دھڑک اُٹھا
"زاوی !! اتارو مجھے ۔"
وہ اسے اُٹھائے پچھلے لان کی طرف لیے آیا سردی کی ایک لہر مہر کے جسم پہ پڑی
"زاوی ٹھنڈ ہے میں نے شال نہیں پہنی اور تم بھی بمیار پڑ جاو گئے ۔"
لیکن زاویار سُنے بغیر چل پڑا اور ایک طرف رُک گیا اور اسے اُتارا
اور اپنی جیب سے اس نے بلیک فولڈ نکالا
"یہ کیا ہے ۔"
"مڑوں تو صیح ۔"
"اُف زاویار ٹھنڈ میں !!!!"
زاویار نے ایک پیار بھری شرارت سے اس کی بولتی بند کردیں
"شش آج میں چاہتا ہوں لڑائی ہرگز نہیں ۔"
مہر نے جھٹکے سے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا اسے زاویار سے اُمید نہیں تھی
"ایسا ریکائٹ مت کرنا جیسے میں کوئی اجنبی ہوں ۔"
زاویار نے اسے گھورا اور آگئے بڑھا اور اس کی انکھوں پہ پٹی باندھی اور اس کا ہاتھ پکڑا
"تم کہی مجھے مار تو نہیں دو گئے ۔"
مہر ڈرتے ہوئے بولی زاویار ہنس پڑا
"تمھیں کیسے پتا چلا ۔"
"زاویار تم بھول رہے ہو میں ایجنٹ کریمیل ہوں ۔"
"ویسے کتنا عجیب نام ہے تمھارا آنی کا اتنا اچھا نام رکھا گیا تھا ۔"
وہ اسے ساتھ لیکر چلتے ہوئے بولا
"تمھارا جیسے بڑا خوبصورت نام ہے زاویار جیسے زیبرا کو اپنا یار یاد آگیا ہے ۔"
مہر کہتے ہوئے ہنس پڑا
"بہت ہے بونگا جوک تھا ویسے ۔"
زاویار بڑبڑایا
"تمھیں سے انسپائرڈ ہوں ۔"
"چلوں آخر گولڈی نے مانا کے میں اس کے لیے انسپریشن ہوں ۔"
"یہ تمھیں جلدی اتنی خوش فہمی کیوں ہو جاتی ہے ۔"
زاویار نے اسے ایک دم اُٹھایا اور اور ایک ہلتی ہوئی چیز پہ بیٹھایا
"یہ کیا ہے !!"
مہر تیزی سے بولی
"اُف لڑکی چڑیل چیخوں تو نا یہاں پہاڑ والی فوج حملہ نہ شروع کردیں ۔"
زاویار ہنستے ہویے بولا
"زاویار خدا کی قسم اگر مجھے کچھ ہوا تو تمھیں کچا چبا جاوں گی ۔"
"آج ثابت ہوگیا کے مہرالنساء زاویار چڑیل ہیں ،ویسے مہر تمھارے پاوں مجھے کل اُلٹے لگ رہے تھے۔" وہ بیٹھا اور مہر بلانڈ فولڈ اتارنے لگی کے زاویار نے اس کا ہاتھ پکڑا
"خبردار اتارا ورنہ اسے جھیل میں پھینک دو گا ۔"
مہر کو جھٹکا لگا
"ہم جھیل میں ہے !!"
"جی !!!"
زاویار نے بوٹ سٹارٹ کی وہ چلنے لگی خاصی تیزی سے
"تم کیا کررہے ہو ۔"
"تمھارا کام تمام !!! چُپ نہیں کرسکتی تھوڑی دیر کے لیے!"
زاویار اب جھلا گیا
مہر خاموش ہوگئی پھر اسے بوٹ رُکنے کی آواز آئی بوٹ آہستہ آہستہ ہل رہی تھی
زاویار نے اس کا ہاتھ پکڑا اور جھک کر بولا
"آنکھیں کھولو!!"
"تو یہ جو تم نے پٹی باندھی ہے اس پہ کیسے آنکھیں کھولو ۔"
زاویا نے گہرا سانس لیا
"مجھے واقی وہ بندہ سامنے لانا ہوگا جس نے تمھیں As a. Agent Approve
کیا ہے ۔"
اس نے آگئے بڑھ کے اس کی بلانڈ فولڈ اتارا
مہر نے آنکھیں بلنک کی اور اِدھر اُدھر دیکھا زاویار کے ہاتھ میں lantern پکڑا ہوا تھا
"زاوی یہ کیا ہے !"
Happy 12 anniversary Goldie
زاویار نے لنڑن چھوڑ دیا اور وہ اوپر جانے لگا مہر نے اسے دیکھا زاویار بھی مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا
"کیا ہوا گولڈی شاک میں چلی گئی !!"
اس نے دوسرا لنڑن اُٹھایا اور لائٹر سے اندر جلانے لگا
"یہ سب کیا ہے زاوی !"
"وہ مجھے یاد آیا ہماری انویرسری ہے آج لیکن سارا دن ایسے گزر گیا مجھے لگا تم کچھ سپرایز دو گی لیکن کیسے بھول سکتا ہوں بھوتنی کو خون چوسنے کے علاوہ کیا آتا ہے آبھی ہالے کے گھر تھا تو وہ ٹنگیلڈ دیکھ رہی تھی اس میں یہ سین تھا میرے دماغ میں آئیڈیا ہالے کو پلان بتایا تو پھر بس تمھارے سامنے اب جلدی کرو ۔"
مہر کی آنکھوں میں نمی آئی لیکن وہ ہنس پڑئ آج اسے لگا تھا اسے اس کا زاوی واپس مل گیا ہے اور زاوی کو اس کی گولڈی
"چلوں گولڈی اس طرح ہم اپنے سارے غموں ،درد ،کو اُڑا دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے وعدہ کرتے ہیں کے ہم نے بارہ سال اس رشتے کو نبھانے کا تو پتا نہیں لیکن اسے باندھ کر رکھا اور ہمیشہ باندھ کر رکھیے گئے پرامس !"
مہر نے بھی دوسری طرف پکڑ لیا
"پرامس !"
زاویار اور مہر دونوں کے چہرے پہ گہری مسکرآہٹ آئی
"آنکھ نم تھی
ہونٹوں پہ مسکان تھیں
دل ایک انداز میں دھڑکے
روح کو سکون بخش رہا تھا
لفظ کچھ کہنے کے نہیں تھے
مگر ہزار وعدے تھے
وعدے
ایک ساتھ رہنے کے
وعدئے
عمر بھر محبت کرنے کے
وعدئے
ایک دوسرے کے ہمدرد بنے کے
وعدئے
ایسے ہزار ان گنت وعدے
دل میں عہد کیے وہ وعدئے
آنکھیں اور دھڑکنیں علان کررہی تھی
جبکہ لب مسکرانے کے علاوہ کچھ نہیں کررہی تھی ۔
اس طرح ہزار وعدئے وہ ایک ایک لنڑن اُڑاتے ہوئے کررہے تھے
جب آخری والا آیا تو مہر آرام سے اُٹھی اور اس کے برابر بیٹھ گئی
"زاویار ایک وعدہ کرو مجھ سے ۔"
زاویار نے اسے دیکھا
"کہوں !"
"مرد عورت کے لیے ہمیشہ ایک سٹیج آگئے ہوتا ہے اور کس لیے ہوتا کے وہ اس کو اپنے برگد کی ٹھنڈی چھاؤں سے کھبی الگ نہ کریں اور ہمیشہ اس کا رکھوالا بنا رہے بے شک محبت میں کمی کردینا لیکن تحفظ میں کھبی کمی نہ کرنا ۔"
زاویار مسکرایا اور اس نے جھک کر مہر کو پیار کیا
"یہ وعدہ تھوڑا مشکل ہے لیکن ہاں کرتا ہو تم سے وعدہ ساری زندگی تمھارا رکھوالا بنا رہوں گا ۔"
مہر مسکرائی اور انھوں نے اپنا آخری لنڑن آڑایا
مہر نے اس کی کندھے پہ سر رکھ دیا اور زاویار نے اس کا سر چوم کر خود اپنا گال اس کے سر پہ رکھ دیا
لوکیشن : کراچی ،پاکستان
سنگھنیا شراب کی چسکیاں لیے رہا تھا جب دروازے پہ ناک ہوا
"اندر آجاو !!"
تو دھاڑ کی آواز پہ دروازہ کھلا سنگھنیا ایک دم سر اُٹھا کر اس نے دیکھا تو دارب کھڑا تھا
"تم !!!"
"تم یہاں کیا کررہے ہو!"
وہ تیزی سے اُٹھا لیکن لڑکھڑا کر بیٹھ گیا
دارب اسے خون خوار نظروں سے دیکھتے ہوئے چھپٹا
"تم اکر ہم سب کو بے وقوف بنا سکتے ہوں تو تمھاری یہ سب بڑی غلط فہمی ہے سنگھنیا کیونکہ تو جانتا نہیں ہے کے شاہ دارب علی کون ہے تم پورے پاکستان کو بے وقوف بنا سکتے ہو لیکن مجھے نہیں !!"
اس نے ایک مکا اس کے منہ پہ مارا وہ دھڑم کر کے گرا
"مجھے غدار ثابت کردو گئے تم تمھارے یہ بھول ہے میں اس ملک کے لیے جان دیں بھی سکتا ہوں تو جان لیے بھی سکتا ہوں تو تمھارا وہ حشر کرو گا تم موت بھی مانگو کے تمھیں موت نہیں ملی گی ۔"
وہ اسے پیٹنے لگا جبکہ وہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا
"مارو جتنا دل کرتا ہے مجھے مارو آخر مرنے والی انسان کی میں اتنی سی خواہش تو پوری کرسکتا ہوں ۔"
"مرے گا تو سنگھنیا لیکن تیرا میں پہلے بول کھولوں گا ۔"اس کو وہ چھوڑ کر وہ آلماری کی طرف بڑھا اور کچھ ڈھونڈنے لگا
※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : گلگت ،بلتستان
مہر اور وہ کافی دیر وہاں بیٹھے باتیں کرتے رہے ڈھیر ساری بچپن سے لیکر ان کا اب تک کا کو سفر تھا اس میں کوئی دُکھی لڑائی کردینے والی باتیں نہیں تھی وہ بارہ سال پُرانے والے مہر اور زاوی بن گئے جو ایک دوسرے کے بہت اچھے اور گہرے دوست تھے مہر اور زاویار کو جب دونوں کو سردی لگی تو وہ گھر کے لیے فورن پہنچے کے زاویار جو پہلے سے بمیار تھا اس کی طبیعت مزید خراب ہوئی تو ہوئی ساتھ میں مہر نے بھی چھینکنا شروع کردیا
دونوں نے ایک اور گرم سویٹر پہنی اور زاویار نیچے چل پڑا جبکہ مہر وہی سوچ میں بیٹھی رہی پھر اس نے دراز سے یو ایس بی نکالی اور نیچے آگئی دیکھا تو زاویار آتش دان کے قریب بیٹھا کالی شال اپنے گرد لپیٹے کسی سوچ میں گُم تھا ساتھ اس کے پاس کافی کے دو مگ پڑے ہوئے تھے مہر ہولے سے مسکرا پڑی
اور اس کے پاس آئی اور اس کے قریب بیٹھ گئی زاویار نے چونک کر اسے دیکھا
"آگئی کب سے ویٹ کررہا تھا تمھارا !"
اس نے ایک کپ اُٹھایا اور مہر کو پکڑایا مہر نے تھینک یو کہتے ہوئے لیے لیا
" تم نے دوائی لی ۔"
مہر نے اسے دیکھا جس کا ناک بہت زیادہ سُرخ تھا اور چہرہ بھی
"مہر نے ہاتھ بڑھا کر اس کا چہرہ چیک کیا جو بخار سے تپ رہا تھا اسے جھٹکا لگا
"زاوی ! تمھیں تو بہت تیز بخار ہے ۔"
وہ تیزی سے اُٹھی کے زاویار نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
"کچھ نہیں دوائی لی ہے ٹھیک ہوجاوں گا ۔"
"لیکن ایسے کیسے تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی پھر بھی اتنی سخت سردی میں تم نے ایڈونچر کرنا تھا ۔"
زاویار نے اس نرمی سے کھینچا اور اپنے گود میں بیٹھایا ساتھ میں اپنا شال اس کے گرد لپیٹی زاویار نے آنکھیں بند کر کے مہر کے کندھے پہ سر رکھ دیا
مہر نے اس کا چہرہ چھوا جو بلکل جل رہا تھا
"زاویار تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے چلوں ُاٹھوں نا پھر تمھیں پتا ہے اس ویک ہمیں برازیل جانا ہے ۔"
وہ دوبارہ اُٹھنے لگی کے زاویار نے گرفت مضبوط کر لی
"تمھارے سے پہلے جانتا ہو لیکن پلیز مہر جتنے بھی دن ہے میں انھیں خوبصورت یادوں میں تبدیل کرنا چاہتا ہوں کیا پتا شان بھایا کی طرح میں بھی اس میشن میں شہادت پا لو !"
مہر تڑپ گئی اس نے زاویار کا چہرہ اوپر آُٹھایا اور اپنے ہاتھوں میں بھرا
"خبرادر زاویار اگر تم نے زبان سے ایسا لفظ دوبارہ دہرایا زہر لگ رہے مجھے ایسے کمزور نا اُمید سے ۔"
زاویار نے اسے زرا دیکھا اور پھر نظر گھما لی لیکن مہر نے اسے مجبور کیا اس کی آنکھوں میں دیکھنے کے لیے
"نا اُمید نہیں ہو لیکن قسمت کا کچھ پتا نہیں ہوتا مہر ابو امی ،آنی چاچو ایون بھایا کا پتا تھا کے وہ اس دُنیا سے ایسے چلے جائیے گئے اس لیے ہمارا بھی نہیں پتا ایک ہوتی ہے تقدیر اور تدبیر آپ تدبیریں بے شمار کر لیتے ہو لیکن تقدیر ہمیشہ تدبیر سے الُٹ ہی ہوتئ ہے ۔"
زاویار ناجانے آج کیوں آپ سیٹ لگ رہا تھا
"وہ سب میں بھی جانتی ہو کے تدبیر اور تقدیر میں بہت فرق ہوتا ہے لیکن تین چیزیں ہوتی ہے آللّٰلہ پہ کامل یقین دوسرا ہمت تیسری کوشش تو کیا کچھ نہیں ہوسکتا زاویار تم نہیں جانتے مجھے بھی کھبی اُمید نہیں تھی کے میں ایک ایجنٹ بن جاوں گی تین بار تین بار ریجیکٹ ہوئی تھی میں لیکن میں ڈھیٹ بنی رہی اس سنگھنیا سے جھوٹ بول کر میں ورلڈ ٹور کے بہانے پاکستان آتی رہی کے نہیں مجھے امی اور بابا کا آدھورا خواب پورا کرنا ہے اسی لگن میں لگی رہی کے مجھے آخری سانس تک کوشش کرنی ہے لیکن نا امید نہیں ہونا کیونکہ نا اُمیدی کفر ہے جب میرے بابا آنی اور شان بھایا نے نا اُمید جیسے الفاظ استمعال نہیں کیے تو تم کیوں کررہے ہوں آج تم میرے ساتھ ساتھ اپنے اپنوں کو بھی مایوس کررہے ہوں ان کو میرے سے توقع ہرگز نہیں تھی ان کی آخری امید تم ہی بچے ہو اب تم ہی اس آخری کھیل میں گھبڑا جاوں گئے تو یہ کہاں کا انصاف ہوگا زاویار میں تمھارے ساتھ ہوں آخری دم تک تمھارے ساتھ رہوں گی ۔"مہر نے زاویار کی آنکھیں چوم لی
"مجھے تم پہ فخر ہے زاویار اس لیے پلیز ایسے الفاظ استمعال مت کرنا بس یقین ، ہمت اور کوشش کو اپنا دوست بناؤں کامیابی تمھارے قدم چھوئے گی ۔"
زاویار ہنس پڑا
"اوکے ماسڑ جی !!!"
مہر مسکرا پڑی اور زاویار کو ہولے سے گال پہ مارا اور اس کی سینے پہ سر رکھ دیا
"ویسے تمھیں ایجنٹ نہیں لیکچرار ہونا چاہیے تھا اتنی باتیں کہاں سے سکیھی میں تو تمھارے ساتھ نہیں تھا ۔"
زاویار نے اس کے بال سہلائے
"بس وقت آزمائش سب کچھ سکھا دیتی ہے کھبی کھبار آپ ساری زندگی گزار دیتے ہوں لیکن کچھ سیکھ نہیں پاتے اور کھبی ایک ٹھوکر آپ کو ساری زندگی کے رنگ دکھا دیتی ہے ۔"
زاویار نے اس کا ماتھا چھوا
"صیح کہا تم نے واقی ایک ٹھوکر انسان کو زندگی کے سارے گُر سکھا دیتی ہے ۔"
※※※※※※※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : گجرات ،پاکستان
آج شان اور ہالے کی نکاح کی تقریب تھی زاویار تیار ہورہا تھا جب اس کی نظر مہر کی تصویر پہ پڑئ اپنی واسکٹ کے آخری بٹن کو بند کرتے ہوئے وہ تصویر کے قریب آیا
"ہا گولڈی تمھاری کمی بہت محسوس کررہا ہوں میں ،
آج بھیا کی خوشی میں تم شامل نہیں ہوں لیکن بھیا وعدہ کررہے ہیں کے جب میں کیپٹن کے رینک میں پہنچ جاوں گا تو میں اور بھیا تمھیں لینے آئے گئے پورے حق اور مان سے بس کچھ دن کا صبر ۔"
"زاوی تیار ہوگئے !"
شان کی آواز پہ زاویار تیزی سے بولا
"آیا بھایا۔"
وہ باہر نکلا اس نے شان کو دیکھا جو بلیک شلوار قمیض کالی پیشاوری چپل اور بروان شال میں بہت خوبصورت لگ اور چارمنگ لگ رہا تھا زاویار نے نظریں چُرا لی کے شان کو کہی نظر نہ لگ جائیے
"واہ آج تو لوگ بڑئے چمک رہے ہیں ۔"
"تم بھی تو کم نہیں لگ رہے لڑکے کیا بات ہے ابھی بیوی صاحبہ تو اِدھر موجود نہیں ہے ۔"
شان شرارت سے بولا
"اب کیا بیوی کو دیکھ کر بندہ چمکے گا اور بہت سی بیؤٹیز ہوگی کیا خیال ہے بھیا دوسری شادی نہ کرلو ۔"
شان نے ایک مکا اس کے بازو پہ مارا
"وہ میری بہن اور بیٹی کی طرح ہے پہلا حق اس کا مجھے پر میرے بہن کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دو گا سمجھے ۔"
"تم میں آپ کا کچھ نہیں لگتا ۔"
"ہاں دور کے رشتے دار ۔۔۔"
شان نے اس کی گردن دبوچ کر بال بگاڑے
"بھایا سارے بال خراب کردیں آپ نے آپ دیکھنا کیسے ہالے بھابی کو آپ کے قصے سُناتا ہوں ۔"
زاویار کے کہنے پر شان نے مزید دباؤں بڑھایا
"جیسے میں سنانے دو گا ۔"
بے بے ہلکے سے گرین کام والے جوڑے میں آئی اور ان کو لڑتے ہوئے دیکھا
"او ہو حد ہوگئی تم لڑکوں کی آج کے دن تو ایک دوسرے کو بخش دیا کرو ۔"
"بے بے دیکھے نا بھیا خود شروع ہوجاتے ہیں اُف !!!"
"زاوی چل نیچے جا ٹوکریاں رکھ کر آ ۔"
"بے بے باقی کرلیے گئے نا ۔"
زاویار نے مسکین سی شکل بنائی
"جاتا ہے کے نہیں ۔"
"یہ ہٹلر صاحب مجھے جانے دیں گئے نا تب ۔"
زاویار نے شان کے بازو کی طرف اشارہ کیا جو زاویار کی گردن پر تھی بے بے کی تنبیہ نظروں پہ شان نے دونوں بازو ہٹائے
"بے بے کی وجہ سے چھوڑ رہا ہوں خبردار کوئی فضول حرکت کی !"
زاویار تیزی سے ہٹا اور بولا
"فضول تو نہیں البتا جو میرا حق بنتا ہے میں وہی کرو گا ۔"
زاویار شرارت سے کہتا ہوا بھاگا
بے بے اور شان ہنس پڑیں شان نے بے بے کے گرد بازوں حمائیل کیے
"زیادہ شرارتی نہیں ہوگیا ۔"
"چنگا ہے نا پُتر ورنہ یہ بچبن تے وت ہی سنجیدہ سی ہر وقت یا تے خاموش رہنا سی یا تے رونے لگا جادا ائے صرف تیری محبت دا کمال ہے ورنہ میرا پُتر بو کلا سی ۔"
"بس بے بے اس کی شخصیت دبائی گئی تھی اور کچھ نہیں اب اس کو آزاد کیا ہے تو یہ اتنا کنفیڈنٹ ہوا ہے میں نے سوچا میری محبت میں کہی یہ بگڑ نہ جائیے اس لیے امریکا کے ماحول میں یہ اکیلہ اور آزاد رہے تاکہ اس کی سوچ کھلے اس میں جو کمی ہے وہ لوگوں کی اصلاح اور نصیحت کے بجائے خود ہی پورا کریں ۔"
شان نے مسکراتے ہوئے انھیں دیکھا بے بے نے پیار سے اس کا گال تھپ تھپایا
*******************
لوکیشن : کراچی ،پاکستان
دارب ساری انفورمیشن اکھٹی کر چکا تھا اور نکل پڑا
وہ گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی لیکر سیدھا جنرل ربانی کی گھر کی طرف روٹ کررہا تھا
اسے چلاتے ہوئے احساس ہوا کے کچھ گڑ بڑ ہے اس نے بیک ویو مرر سے دیکھا ایک کار اس کے پھیچے آرہی تھی اسے سو فیصد یقین ہوگیا کے کے سنگھنیا کے بندئے ہیں اس نے اس ٹرک کرنے کے لیے کار کو ایک طرف لیے گیا اس نے دیکھا دوسری کار اس طرف آرہی تھی اسے تھوڑی پریشانی ہوئی لیکن اس نے دوسری طرف موڑ کاٹی ، دیکھا تیسری گاڑی نے اسے گھیر لیا
اب وہ سوچ میں پڑ گیا کے کیا کیا جائے اس نے گاڑی ایک اور راستے پہ لیکر جانے کی کوشش کی کے دوسری والے نے اس کی کار کو زبردست جھٹکا دیا
دارب سے سٹرینگ چھوٹ گیا
اس طرح دارب نے بچنے کی خاطر فائل کو پکڑ کے کار کی پسنجر سیٹ کی طرف گیا تو وہاں سے بھی جھٹکا لگا دارب کے سر پہ زور سے لگی اور اسے اپنے چہرے پہ نمی محسوس ہوئی اور اس کے بعد اسے ہوش نہ رہا
************************
لوکیشن :شاندراہ ،اسلام آباد
پارسا سوئی ہوئی تھی جب اسے بے چینی سے محسوس ہوئی اس نے اُٹھ کر پانی کے لیے اُٹھی تو دیکھا جگ خالی تھا وہ اُٹھی اور پانی کے لیے کمرئے سے باہر نکلی اور آج تیز طوفان بارش ہورہی تھی اس نے زاویار اور شان کے کمرئے میں جانا ضروری سمجھا کے زاویار طوفان سے ڈرتا ہے وہ کمرئے کی طرف گئی
اور انھوں نے دیکھا دونوں بڑے ہی آرام سے سورہے تھے
پارسا نے کھڑکھی کو دیکھا تو وہ سمجھ گئی کے شان نے بند کردیں دونوں کے کمبل درست کر کے وہ جو ہی باہر نکلی اسے بیل کی آواز آئی اور اس ٹائیم پہ اس کا دل بے آختیار دھڑک اُٹھا
اس نے نیچے دیکھا نیچے والے کورڈلیس بج رہا تھا
پارسا کو دل نہیں کررہا تھا اُٹھانے کو لیکن سوچا کہی دراب کا فون نہ ہو لیکن وہ موبائل پہ بھی کرسکتا تھا پھر اپنی مزید سوچوں کو جھٹک کر وہ نیچے احتیاط سے آئی آجکل اس کا آخری مہینہ چل رہا تھا دراب کو جب پتا چلا کے بیٹی ہے تو وہ خوشی سے جھوم اُٹھا تھا اس نے اس کا نام بھی پہلے ڈیسائڈ کردیا تھا
"مہر النِسا دارب ہی رکھوں گا میں تو ۔"
وہ ہمیشہ کھبی کھبی کہتا لیکن خاصا دہرا کر کے نام یہی رکھنا
وہ نیچے بڑی ہی مشکلوں سے پہنچی اس کے چہرے پہ پسینہ آگیا اور وہ صوفے کے قریب کورڈلیس کے قریب آئی اور اس نے اُٹھایا
"ہلیو !"
"جی میں مسز دارب بات کررہی ہوں ۔۔"
آگئے پارسا کو لگا جیسے کسی نے اس کے کانوں میں سور پھونک دیا ہوں یا کسی نے اس کے جسم کو چھلنی کردیا ہوں فون اس کے ہاتھ سے چھوٹا اور پھر وہ چیخی
"دارب !!!!!!!!!"
اس کی دلخراش چیخے پورے شاہ ہاوس میں گونجی
************************
لوکیشن : گلگت ،بلتستان
"سب پلان ریڈی ہے ۔"
"یس سر ! "
زاویار بولا
"برازیل کب ارادہ ہے ۔"
"بس یہاں کچھ بمز منگوائے ہیں جیسے ہی آتے ہیں میں اپنا کام شروع کردو گا ۔"
زاویار نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا
"ٹھیک ہے میں پہنچتا ہوں ہر چیز تو ویسے ال از ان کنڑول ہے لیکن پھر بھی محتاط رہنا ۔"
مہر ہالے کے گھر سے واپس آئی تو اس نے زاویار کو فون پہ مصروف دیکھا
"اوکے !"
"ہالے کی طبیعت اب کیسی ہے ۔"
"ٹھیک ہے بس کھا کچھ نہیں رہی تھی ۔"
زاویار کے چہرے پہ پریشانی آگئی اس کی نظر شان کی تصویر پہ پڑی پھر بولا
"تم نے کچھ کھلایا ۔"
"ہاں زبردستی سوپ ہی پیا ہے میں نے میڈسن دیں پھر سو گئی ۔"
مہر نے غور کیا جیسے زاویار کسی سوچ میں گُم تھا
"زاوی !"
نو رسپونس
"زاوی !"
"زاویار !!!!!"
زاویار نے سر اُٹھایا
"کدھر کھوئے ہوں پریشان نہ ہوں ہالے بلکل ٹھیک ہیں ۔"
"اچھا !"
مہر کو عجیب لگا
"زاوی کیا بات ہے ۔"
زاویار اُٹھ کھڑا ہوا
"او کہی چلتے ہیں ۔"
"کدھر ؟"
مہر نے اسے دیکھا زاویار نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
"بس ایسے ہی جھیل پہ جہاں ہم نے اپنا خوبصورت آغاز کیا تھا ۔"
مہر مسکرائی اور اس کا ہاتھ تھام لیا
******************
لوکیشن : شاندراہ اسلام آباد
دراب کا آج چالیسواں تھا پارسا بلکل گُم سمُ بیٹھی تھی جب کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور ہلایا وہ بلکل ساکت رہی
"آنی آنی !!!"
شان بار بار پکار رہا تھا
زاویار نے بھی آنی کو ساکت دیکھا اور ان کی گود میں آگیا
"ائی آئی !!!"
وہ پارسا کو چہرہ اپنے نھنے منے انگلیوں سے چھو رہا تھا لیکن پارسا ابھی بھی ساکت ہی تھی وہ واقی چالیس دن سے ایسے ہی تھی مہر بھی پیدا ہوگئی تب اسے کچھ احساس نہیں ہوا نہ رونا آیا نہ مہر کے ہونے پہ خوشی بس پتھرائی آنکھوں سے وہ اپنی گود میں بچی کو دیکھ رہی تھی جو بلکل دارب اور اس کا عکس تھا اگر دراب ہوتا تو کتنا خوش ہوتا لیکن دارب تو تھا ہی نہیں نہ ہی کوئی خوشی تھی اس نے خاموش سے بچی ساجدہ کو پکڑادیا جو اس گھر کی ملازمہ کی ساتھ ساتھ شان اور زاویار کو خیال رکھتی تھی ان کی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے بلکل بچوں جیسا پیار کرتی تھی اور ان کو سنبھالتی تھی تو دونوں ان سے مانوس ہوگئے تو اور خاص کر زاوی انھیں بے بے کہنے لگا تھا
اور مہر کو بھی وہ ہی تب سے سنبھال رہی تھی لیکن ایک بچی کو اپنی ماں کی ضرورت ہوتی ہے ایک مہینے سے وہ ڈبے کا دودھ پی رہی تھی جس سے اس کی طبیعت خراب ہورہی تھی بے بے نے لاکھ پارسا کو سمجھایا لیکن پارسا نے اپنی آنکھیں کان لب سب بند کرلیے تھے
"آئی آئی !!!"
زاویار جب پارسا کے سینے سے لگ کر رو پڑا اچانک پارسا کو ہوش آیا
"زاویار اور شان کا خیال رکھنا ۔"
اس نے نیچے دیکھا تو زاویار کے چھوٹے سے جسم کو دیکھا جو جھٹکے کھا رہا تھا پارسا کا دل تیزی سے کام کیا اور بے اختیار تڑپ اُٹھا
"زاوی رو کیوں رہے ہوں کچھ نہیں ہوا تمھارے چاچو آجائیں گئے مت رو زاوی ایسے اچھا نہیں لگ رہا دیکھنا آبھی چاچو آجائیں گئے دیکھنا میری جان ابھی بھاگتے ہوئے وہ ہمیں سینے سے لگا لیے گئے دارب اتنی آسانی سے نہیں مر سکتا ۔"
وہ اس کے وجود کو اپنے باہوں میں لیے بار بار بول رہی تھی شان کی آنکھوں میں آنسو آگئے
"آنی !"
شان نے ان کا چہرہ تھاما پارسا نے اسے دیکھا
"شانی تم تم کہاں تھے !!"
پارسا نے اسے بھی اپنے ساتھ لگایا
"میں یہی تھا آنی !"
وہ بھرائی آواز میں بولا
پارسا نے اس کا ماتھا چوما
"رو تو مت یار میرا دل گھبرا رہا ہے ۔"
پارسا عجیب سی ہنسی میں بولی شان نے ایک دم سر اُٹھایا اسے لگا آنی کہی پاگل تو نہیں ہوگی
"آنی آنی پلیز ایسے مت کریں چاچو کے بعد آپ ہمیں اکیلہ نہیں چھوڑ سکتی ۔"
پارسا ایک دم چیخی
"مت کہوں ایسے مت کہوں تمھارے چاچو زندہ ہے نسا کو بھی اپنے ابو کی ضرورت ہے میری نسا ۔"
انھوں نے اپنے پیٹ پہ ہاتھ رکھا تو حیران ہوئی
"میری نسا کہاں ہے میری دارب کی نسا کہاں ہے!"
وہ چیخنے لگی شان اور زاویار ڈر گئے ایک دم بے بے بھاگتے ہوئے آئی وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی
"اللّٰلہ تو مجھ سے میری بیٹی بھی نہیں چھین سکتا میرا کیا قصور تھا پہلے میرے سے ماں باپ بہن پھر میرا شوہر اور اب بیٹی تو نہ چھین میری دارب کی نیشانی میرے دراب !!"
وہ چیختے ہوئے ایک دم بے ہوش ہوگئی
"آنی !!!!"
لوکیشن : گجرات ،پاکستان
شان نے ہالے کو انگھوٹی پہنائی زاویار نے ایک دم ٹوکا
"بھائی اچھا سا پوز بنائے بڑے عجیب لگ رہے ہیں شادی والے دن تو کٹنگ کروا لیتے ۔"
ہالے کی ہسنی چھوٹ گئی شان نے اسے گھورا
"قسم سے بھائی ملنگے لگ رہے ہیں ایسے کرتے ہوئے ایک بھی تصویر اچھی آئی ہوں ۔"
"بیٹا تیری شادئ ہونے دو جب لمبی دھاڑی اور لمبے بال رکھ کر مہر کے سامنے بیٹھاوں گا تب پوچھوں گا بلکہ خواجہ سرِاہ بنا کر ہی بیٹھا دو گا میشن بھی پورا کرلینا ،دلہن بنے کو ارمان بھی پورا ہوجائے گا ۔"
سارے لوگوں کا قہقہ اُٹھا زاویار نے انھیں گھورا
"بھائی بہت بونگا جوک تھا ویسے ۔"
"اچھا تو اتنے دیر سے بونگیاں کس کی عروج پہ تھی ۔"
"ٹھیک ہے آپ کریں انجوائی یہاں میں یہاں سے جارہا ہوں ۔"
زاویار ناراضگی سے چلا گیا
بے بے ارے کرتے رہی سارے بھی پریشان ہوگئے ہالے کی تنبیہ نظروں پہ شان نے کہا
"ڈرامے کررہا ہے آجائیں گا ۔"
"ارے یار زرا کباب دو دو خالی بوٹیاں کھاؤں گا میرے بھائی کا نکاح ہے ۔"
زاویار نے پلیٹ آگئے کی جب کسی نے اس کے کندھا تھپ تھپایا
"جاوں یار تنگ نہ کرو ویسے ہی موڈ خراب ہے ۔"
"اگر موڈ خراب ہے تو یہ بوٹیاں کا مزا کیوں بھلا ۔"
شان کی آواز پہ زاویار نے اپنے زبان کو دانتوں تلے دبایا اور مڑا شان اسے دیکھ رہا تھا اور اس کے پلیٹ سے ایک کباب اُٹھایا
"اچھا کھانا جیسے کھلا تو فورن شاہ صاحب ناراضگی کا بہانا کر کے دوڑے چلے آئے ۔"
"بھائی بھائی وہ ۔"
زاویار فورن انھیں پلیٹ پکڑا کر بھاگا کے کہی بھائی دوبارہ اس کے بچارے کانوں کو نشانہ نہ بنائے
شان ہنس پڑا اچانک اس کے سامنے آیک بندہ کھڑا ہوا تھا شان نے اسے پہچان لیا
"عزیم !!!"
عزیم نے اسے دیکھا تو فورن آیا
"شانی بھایا !!!"
عزیم فورن بھاگا اور اس کی طرف آیا اور ان کے گلے لگا
"کیسے ہیں آپ اور بہت بہت مبارک ہوں ۔"
"خیر مبارک یار کوئی کام تھا ۔"
"جی بھائی ضروری بات بتانی تھی میڈم پارسا سے متعلق ہے آپ نے ہی تو کہا تھا ۔"
"اچھا کچھ پتا چلا آو میرے ساتھ ۔"
وہ نظر بچا کر اسے اپنے ساتھ لیکر گیا
***********************
لوکیشن :گلگت ،بلتستان
وہ دونوں آج جھیل کے پار بیٹھے اس نظارے میں کھوئے ہوئے تھے تھے کے اچانک مہر بولی
"ویسے تم کتنے اور سمارٹ بن رہے تھے ۔"
زاویار نے اسے دیکھا
"جب تم نے شان بھیا کا روپ اپنایا تھا اور دو گھنٹے کا چیلنج دیا لیکن میں جیسے گئی پندرہ منٹ بھی نہیں ہوئے تمھیں باہر نکلنے میں ۔"
"جھلی وہ بھایا ہی تھے اور بھائی واقی کافی دیر تک پانی میں رکھ سکتے ہیں ۔"
"جھوٹے زیادہ مت بنو مانا بھایا آئے تھے لیکن فورن تمھیں میرے پاس بھیج کر اپنے کام میں شروع ہوگئے ۔"
"یہ تمھیں اتنی باتیں کیسے پتا ہے ۔"
"اب کیا ہزار بار بتاوں کے میں ایک ایجنٹ ہوں ۔"
"جو بس مجھے ابزرو کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکی ان سالوں میں ۔"
زاویار نے شرارت سے کہا
"ابھی قیامت نہیں آئی زاویار ۔"
"اچھا تو وہ صبح کون میرے ہر ایک نقش کو ۔۔"
مہر نے اس کے سینے پہ مکا مارا
"تو تمھیں کیا تکلیف ہے اپنے شوہر کے ساتھ رومینس کررہی تھی تمھیں کیوں جلن ہورہی ہے ۔"
مہر اترا کر بولی
"تتت بچارا بہت ترس آرہا مجھے اس پر جو ساری زندگی تمھاری جیسی بھوتنی سے اپنا خون ضائع کروائے گا ۔"
"خیر ہم بات کہاں لیے گئے تم اس پانی میں دو گھنٹے کیا بیس منٹ بھی نہ رہ سکے ۔"
مہر مزئے سے بولی
زاویار نے اپنی آنکھیں گھمائی
"مجھے کیا پاگل کُتے نے کاٹا تھا جو رہتا !"
مہر نے اسے گھورا
"تو اتنی بونگی مارنے کو کس نے کہا تھا ۔"
"وہ وہ تو تمھیں ٹیسٹ کررہا تھا اور مجھے ہنڈرڈ پرسنٹ پتا تھا تم نے وہاں سے چلے جانا تھا انسانیت تو ہے ہی نہیں تم میں ۔"
وہ اب اس کا مزاق اُڑا رہا تھا
"اچھا تو سیدھا سیدھا کہوں نا زاویار صاحب ڈرپوک تھے ۔"
"ڈرتا روتا نہیں ہوں میں !"
زاویار تیزی سے بولا
"چلوں اس جھیل میں چھلانگ لگاوں پندرہ منٹ بھی کرتے ہوں مان جاوں گی تمھیں ۔"
مہر نے اسے چیلنج کیا
چیلنج مت کرو مجھے ۔"
"بس بس مان لیا سیدھا کہہ بھی دو کے میجر زاویار عباس انتہائی ڈرپوک انسان ہے تتتت کیوں پاک فوج کا نام خراب کررہے ہوں ۔"
زاویار اُٹھا اور تیزی سے جاکر جھیل پہ چھلانگ لگادیں مہر کا منہ کھل گیا کیونکہ کے یہ جھیل کافی بڑی اور گہری تھئ اور اس کا پانی اتنا ٹھنڈا تھا کے کوئی بھی جم جاتا
مہر دل میں ڈر گئی
لیکن اونچی آواز میں بولی
"دیکھنا آبھی تم نکل آو گے ۔"
ایک منٹ پانچ منٹ دس منٹ جیسے جیسے منٹ بڑھتے جارہے تھے مہر کی دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی
"اس الو کے پٹھے کو جزباتی ہونے کو کس نے کہا تھا ۔"
مہر بڑبڑائی
"ام زاوی ٹھیک ہے آجاو ں شام ہونے والی ہے ہالے انتظار کررہی ہوگی ۔"
وہ کبھی یہ نہیں کہنا چاہتی تھی تم جیت گئے اب باہر بھی آجاو ۔"
زاویار پانی سے باہر نہیں نکلا تھا
"زاوی دیر ہورہی ہے ۔"
مہر نے دیکھا بیس منٹ سے زیادہ ہوگیا اب تو پکا کچھ گڑبڑ ہے کیونکہ کوئی بھی انسان
زندہ نہیں رہ سکتا بے شک وہ فوج میں تھا لیکن تھا تو انسان
اس نے زاویار کا جھیل سے ایسے جاتا ہوا بے جان ہاتھ دیکھا اس کی چیخ نکل پڑی
وہ کچھ سوچتے ہوئے جلدی سے بھاگی اور جھیل کی طرف بڑھی اسے تیرنا آتا تھا لیکن اتنے گہری جھیل میں وہ ڈر رہی تھی لیکن ہمت کر کے اس نے جمپ لگائی اور زاویار کے پاس پہنچی اس کو اتنے یخ پانی سے جان نکل گئی تھی اور اب زاویار اتنے دیر سے
"یہ سب میری بے وقوفی کی وجہ سے ہوا ہے ۔"
وہ اس کے پاس آئی اور اس کے ہاتھ کو کھینچا
"زاوی ہوش کرو زاوی زاوی!!"
وہ اس کی گردن کو پکڑ کر گھسیٹنے لگی حلانکہ اس کے لیے بہت مشکل ہوگیا لیکن اس نے ہمت کر کے اسے نکلا اور خود لمبے لمبے سانس لینے لگی پھر ہوش آیا تو زاویار کی طرف آئی
"زاویار زاویار آنکھیں کھولو زاوی !!!"
اس نے اس کی سینے پہ ہاتھ رکھ کر دبایا خاصے زور سے
"پلیز زاویار میں بہت ماروں گی اُٹھوں اچھا سوری میری غلطی ہے میں جھلی بے وقوف اوکے میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں آئی لو یو آی ریلی لو یو کھولوں نا آنکھیں !!!"
مہر رونے لگی
ایک دم زاویار اچھل کر اُٹھا
"میں جیت گیا میں جیت گیا !!!"
وہ گیلے حلیے میں پاگلوں کی طرح بنگھڑے ڈالنے لگا
مہر نے ہونق انداز میں اسے دیکھا
"دیکھا میں پورے پندرہ منٹ سے زیادہ پانی میں رہا زیادہ بھی رہ سکتا تھا لیکن میری سویٹ وائف کو برادشت نہیں تھا کتنے پیار سے نکالا مجھے اور آئی لو یو بھی بول دیا آئی لو یو ٹو بھوتنی !!"
زاویار نے جھک کر اس کی گالوں کی چٹکی لی مہر پہلی بار اس سے بے وقوف بنی اور اسے اتنا غصہ آیا اس کے جزبوں کا مزاق بنایا وہ تیزی سے اُٹھی اس نے زاویار کا گیربان پکرا
"تم نے مزاق سمجھا ہے میری جان نکل گئی تھی زاویار ہر چیز مزاق میں نہیں اچھی لگتی میرے بابا سب میرے پاس نہیں تھے اور اب صرف تم میرے سب کچھ ہوں تمھیں کچھ ہوجاتا ہے تو کیا ہوتا میرا بولوں جواب دو !!"
وہ چلائی زاویار اب سنیجدہ ہوگیا اور اس کے گیلے چہرے کو دیکھا جو غصے سے سُُرخ ہوگیا تھا
"مجھے تم زہر لگ رہے ہوں شکل بھی نہ دیکھنا اپنی !!!!"
وہ اس کو جھٹکا دیں کر مڑنے لگی جب زاویار نے اا کھینچا اور جھک کراسے چوم لیا اور اسے چھوڑا بھی نہیں بلکہ گرفت مضبوط کر لی مہر سختی سے اس سے الگ ہونا چاہتی تھی لیکن زاویار گرفت سخت سے سخت کرتا جارہا تھا