top of page

میرا رکھوالا - مصنفہ: ثمرین شاہ

قسط نمبر نو

لوکیشن : شاندراہ آسلام آباد 
پارسا کی عددت ختم ہوگئی تھی اسی طرح اس کو بھی چار مہینے میں صبر آگیا تھا اسے اپنے لیے نہیں اپنے بچوں کو لیے جینا تھا اس نے دراب کا خواب پورا کرنا تھا ،دارب کی موت کی وجہ خودکشی تھی کراچی کے سمندر میں صبح کے وقت اس کی ڈیڈ باڈی ملی تھی لیکن پارسا کو اب بھی لگ رہا تھا کے یہ سازش تھی لیکن وہ کیا کرسکتی تھی ،اس نے سروس چھوڑ دیں وہ جانتی تھی دارب بہت ناراض تھا کیونکہ وہ ہمیشہ اس کے خوابوں میں آتا تھا جب سے اس نے ریزائن کر لیا تھا دارب نے خوابوں میں آنا چھوڑ دیا تھا وہ تو خود سے بھی ناراض ہوگئی تھی خود سے بے نیاز تھی لیکن وہ زاویار اور زیشان کا خیال رکھتی تھی مہر کو وہ کم دیکھتی تھی کیونکہ اسے دیکھ کر اسے دراب زیادہ یاد آتا تھا اور وہ شان اور زیشان کے سامنے اپنا ضبط نہیں کھونا چاہتی تھی ابھی بھی وہ زاویار کو کھانا کھلا رہی تھی جب شان آیا 
"آنی آپ سے کوئی ملنے آیا ہے ۔"
ذیشان کی بات پہ پارسا نے سر اُٹھایا
"کون ؟"
"پاپا کے کوئی دوست ہے ۔"
"اچھا ! زاویار کو لیے جاوں کمرئے میں تھکا ہوا ہے ۔"
ذیشان نے زاویار کا ہاتھ پکڑا جو واقی نیند میں ہی تھا 
پارسا نے اپنے سر کا ڈوپٹہ ٹھیک کیا اور ڈرائینگ روم کی طرف بڑھی اس نے دیکھا کوئی بتیس سالا عمر کا آدمی وہاں بیٹھا ہوا تھا اس کی سرُخ سفید رنگت اور بالوں پہ میں ہلکے سے سفید بال وہ واقی کوئی گریس پرسنالٹی کا مالک تھا 
"جی اسلام و علکیم !"
لقمان حمید نے سر اُٹھایا اوف بڑی ہی گہری نظروں سے پارسا کو دیکھا 
"ولکیم و سلام بھابی کیسی ہے آپ بہت آفسوس ہوا دارب کا ۔"
وہ بولا پارسا خاموش رہی اور بیٹھ گئی 
"بھابی میں لفیٹنٹ کرنل لقمان حمید میں دارب سے بہت امپریس تھا کیا زبردست پرسنالیٹی کو مالک تھا ایسے جھوٹے الزام پہ اسے ہمت نہیں ہارنی چائیی تھی کم سے کم مجھ سے مل لیتا ایسے ایک دم ٹوٹ کر خودکشی کرلینا کوئی سمجھداری کی بات تو نہیں ہے ۔"
وہ اسے دیکھ رہا تھا لیکن پارسا نے نظریں جکھائی 
"اس نے آپ کا بھی نہیں سوچا نہ ہی اپنی بھتیجے اور بیٹی کا کیسے سنبھالی گی آپ اکیلی تنہا ۔"
وہ ہمدردی کچھ زیادہ دکھا رہا تھا پارسا کو الجھن ہوئی 
"آپ کو کوئی کام تھا !"
پارسا نا چاہیتے ہوئے بھی اپنے لہجے میں ناگواری لیے آئی 
"نہیں بس آپ سے آفسوس کرنے آیا تھا چلتا ہوں ۔"
وہ اسے مزید گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے چل پڑا پارسا نے گہرا سانس لیا اور اُٹھ پڑی 
*********************
لوکیشن : گجرات ،پاکستان 
"یہ دیکھیں ان کی ڈیتھ ہارٹ اٹیک سے نہیں بلکہ زہر دینے سے ہوئی تھی ،اور ان کی موت گھر میں ہوئی تھی 
اور مجھے یقین ہے یہ کام اس سنگھنیا کا ہی تھا ۔"
عزیم نے اسے ساری فائلز دکھائی جس میں سارے ثبوت تھے لیکن پھر بھی شان کنفرم کرنا چارہا تھا 
"ائیم سوری بھائی میں اس ٹائیم آپ کو ٹینز نہ کرتا لیکن میں جانے والا تھا اس لیے آپ کو بتایا شان نے اپنا سر اُٹھایا 
"نہیں یار سوری کیوں کررہے ہوں میشن ہے اور یہ تو پھر معاملہ میری آنی اور نسا کا ہے نسا کی جان بھی اس کا مطلب خطرے میں ہے ۔"
شان کا لہجہ سخت ہوتا جارہا تھا جبکہ جبرئے بھینچ لیے 
"میری غلطی اس کے سوتیلے باپ کے پاس مزید نہیں رکھنا چاہئے تھا وہ میری اور زاویار کی زمہ داری تھی لیکن خیر کچھ کرتے ہے تم ایک کام کرو کچھ انفورمیشن لاو اس سے ریلیٹٹ کچھ کرتے ہیں ۔"
شان نے فائل کو بند کرتے ہوئے کہا 
شان کی نظر بے اختیار فون پہ پڑی جس پہ ابھی جیے ائیمل کا میسج آیا تھا بجلی کی طرح یہ بات اس کے دماغ میں آئی 
"عزیم !!"
"جی بھائی !"
"یاد ہے پانج پہلے میرا ائیمل ہیکیڈ ہوگئی تھی آنی کی ڈیتھ کے بعد ۔"
"جی تو پھر ! 
"تو پھر یہ ہے کے اس ائیمیل کو کھولنے کی کوشش کرو !!
"ام ٹھیک ہے کیا آپ کو بھی وہی لگ رہا ہے جو مجھے لگ رہا ہے ۔"
شان نے سر اُٹھایا 
"ہاں مجھے بھی وہی لگ رہا ہے ۔"
شان نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور ایک دم بولا
"زاوی اندر آجاوں !!"
زاویار جو دروازے کے باہر چھپ کر اندر سے ان کی باتیں سُن رہا تھا شان کے کہنے پر اچھل پڑا 
"واپس جانے کی کوئی ضرورت نہیں اندر آجاوں معاملہ نسا کا ہے ۔"
زاویار سوچ میں پڑا رہا لیکن پھر اس نے دراوزہ کھولا 
اور شان کو دیکھا جو زاویار کو ایک نظر دیکھا پھر عزیم کو دیکھا جو شان کی ائیمیل نوٹ ڈوان کررہا تھا اور پھر اُٹھ پڑا 
"اوکے بھائی چلتا ہوں میں ۔"
شان نے اس کو روکا 
"نہیں میرا فنکشن ہے ایسے کیسے جانے دوں تمھیں ۔"
"بھائی ائیم رئیلی سوری آپ کے لیے کچھ لایا بھی نہیں ہوں ۔"
وہ شرمندہ لگ رہا تھا 
"اُف جاہل آدمی ! فضول ہی سوچنا تم چلوں نیچے میں ابھی آتا ہوں بالوں کو ہاتھ مار مار کر خراب کردیا ہے ۔"
زاوی اب کی بار بلکل خاموش تھا ،شان کو اس کی خاموشی بہت محسوس ہوئی 
"کیا سوچ رہا ہے بڈی !!!"
جب عزیم چلا گیا تو شان نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا 
"بھائی مطلب آنی نے جس سے شادی کی وہ ہندو تھا اور ٹروریسٹ !!"
"ایزی برو دعا کرو ایسا نہ ہوں ورنہ میں پہلی فرست میں نسا کو لیکر آنا ہوگا میری بھی سب سے بڑی غلطی تھی ۔"
زاویار ایک بار پھر خاموش ہوگیا شان جانتا تھا وہ آنی اور مہر کے معاملے میں سنسیٹو تھا مطلب وہ ہر کسی کے معاملے میں سینسٹو تھا 
"ریلکس میرے بھائی اِدھر دیکھ یار آج میرا نکاح ہے تجھ سے گانا بھی سُنوانا ہے ۔"
زاوی نے انھیں دیکھا اور پھر ہلکی سی مسکراہٹ لایا شان نے اسے پیار کیا اور اس پہ بازو پھیلا کر بولا
"چل خبرادر سوجا ہوا منہ لایا مار مار کر ہنسانا ہے میں نے ۔"
شان نے ہولے سے اس کے پیٹ پہ مکا مارا زاویار ہنس پڑا 
"بھائی آپ بھی !!!"
**********************
لوکیشن : شاندراہ اسلام آباد 
"آپ کا دماغ خراب ہے !"
پارسا چیخ پڑی جبکہ لقمان کا چہرہ پُرسکون تھا وہ جانتا تھا کے اس کا ریکاشن ایسا ہوگا 
"دیکھیں آپ کو یہاں رہنے کی اجازت نہیں ہے مس پارسا ۔۔
"مس پارسا نہیں مسز دارب سمجھے ! میں اپنے بچوں کو لیے جاوں گی یہاں سے لیکن یہ دارب کے دادا کی جائیداد ہے اور ان بچوں کی اسے میں کیوں دوں اوپر سے شادی کیوں کرو میں شادی میں دارب کی بیوی ہوں ۔"
پارسا کا دل کررہا تھا وہ اس بندئے کو گولیوں سے اُڑا دیں 
"دیکھیں اب آپ دارب کی بیوی نہیں رہی اور آپ یہاں محفوظ نہیں ہے اس کے دشمن ہے وہ آپ کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔"
"پہچانا ہے تو پہنچاتے رہے لیکن میں ایسا ہرگز نہیں کرو گی میں دارب کی تھی دارب کی ہوں اور دارب کی ہمیشہ رہوں گی سمجھ گئے اب تشریف لیے جاوں یہاں سے ۔"
پارسا سخت لہجے میں بولی 
سنگھنیا نے اپنے لب بھینچ لیے وہ جانتا تھا کے وہ ایسے نہیں مانے گی اس لیے خاموشی سے چلا گیا 
اور پھر اپنے پلان کے مطابق وہ مختلف دھمکیوں کے خط بھیجتا ان کو مارنے خاص کر ان بچوں کو مارنے کے شروع میں پارسا نے اگنور کیا لیکن جب اس کے گھر کا شیشہ جو لان کی پھیچلی طرف تھا ٹوٹا اس کے دل میں ڈر آگیا کیونکہ یہ شیشہ گولی سے ٹوٹا تھا ، اس نے ایک حل سوچا مہر کو تو وہ سنبھال لیے گئ لیکن شان اور زاویار دارب کا مستقبل ہے وہ انھیں ختم نہیں ہونے دیں گی اس نے پہلے فرست میں اپنے دوست کے ڈیڈی کو فون کیا جو لارنس کالج مری کے پرنسپل تھے 
اس نے اپنی ریزن بتائی اور انھوں نے بنا ٹیسٹ کے شان کا آڈمیشن کروادیا ویسے بھی پارسا نے اس کی کارگردگی بتائی تھی کے وہ ایک اوٹسٹینڈنگ سٹوڈنٹ ہے اب رہ گیا چار سالا زاویار! زاویار کو ہائیپر پنگمنٹیشن ہوگئی تھی جس سے اس کا رنگ سانولہ ہوگیا تھا اور وہ موٹا بھی تھا جس سے اس کی خوبصورتی میں کمی آگئی تھی پارسا نے اسے معجزئے سے کم نہیں سمجھا وہ خطرہ ٹک جانے پر بعد میں زاوی کا علاج کروادیں گی ویسے بھی میڈسن اور سکن ٹریٹمنٹ سے کبھی بھی ٹھیک ہوسکتا ہے اس نے یہ بھی دیکھا کے ساجدہ کے شوہر کا نام بھی عباس ہے تو شک کی تو کنجائش نہیں ہوگی ،اس نے ساجدہ کو ساری چیزیں بتادیں ساجدہ کو کیا تھا ویسی بھی زاویار بہت اٹیچ تھا اور پھر اس نے باہر سے منگوائی ہوہی ٹین میڈسن جو لوگ اکثر سانولہ کرنے کے لیے کھاتے ہیں انھیں پکڑا دیں 
"یہ آپ اسے تب تیجیے گا جب اس کا رنگ صاف ہونے لگ جائیے ۔"
"بی بی آپ کو کیا ہوگیا !"
"یہ بہت ضروری ہے آپا میں شک کی کوئی کنجائش نہیں ڈالنا چاہیتی اب آپ کا ہی یہ بیٹا ہے لیکن آپ نے اپنا سگا بیٹا ہی سمجھنا اسے پڑھنا ہے اسے کوئی تکلیف نہیں دینے یہ میری امانت ہے پلیز اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے میرے دراب کی دُنیا ہے یہ میں اسے بھی ہوسٹل بھیج دیتی لیکن یہ معصوم سی جان وہاں کے سنیرز کی شرارتوں کو برداشت نہیں کر پائیے گا ویسے بھی خاصا سینسٹو ہے ابھی دُنیا کے سختی برداشت نہیں کر پائیے گا ۔"
"آپ فکر نہ کرو پارسا بی بی یہ میری جان سے بڑھ کر عزیز ہے میں اس کا خیال رکھوں گی ."
"میں آپ کو اس کے پیسے بھیجتی رہوں گی آپ نے بلکل بوجھ نہیں سمجھنا اسے ۔"
"کیریے جی گلا کردیں ہو تُسی بی بی یہ بوجھ نہیں آئیے تے میری لیے اللّٰلہ دیں نعمت ہے ۔"
پارسا کے دل میں سُکون اُتر آیا لیکن دل میں ایک بے چینی سی تھی اس نے اپنے لیے فرانس کا ویزا لگوا دیا تھا کیونکہ اب بات مہرو کی تھی اس کا یہاں سے دور رکھنا تھا فل حال ،سیٹس کانفرم ہوگئی تھی وہ پیکنگ کررہی تھی جب اس کا فون آیا 
"ہیلو !"
"ہلیو آنی !!"
شان کی آواز سُنتے ہی پارسا خوش ہوہی 
"شانی میری جان !"
"یہ آپ نے مجھے کہا چھوڑ دیا ہے آنی اور آپ آپ فرانس جارہی ہے مجھے اکیلہ چھوڑ کر ۔"
شان کی اس بات پہ پارسا کا دل چیر گیا 
"شانی میری جان بس کچھ سالوں کی بات ہے میرا آرمی بوئی بریو ہے نا کیسا جارہا ہے میرے بیٹے کا سکول ۔"
اسے شان کی سسیکیوں کی آواز آئی اس کا دل ڈوب رہا تھا 
"آنی میں بہت اکیلہ ہوں یہاں کیون جارہی ہے آپ مجھے پلیز واپس لیے جائیے ۔"
پارسا نے اپنے آپ کو کنڑول کیا اور پھر مضبوط لہجے میں بولی 
"نہیں شانی یہ تمھارا امتحان ہے لوگوں کو دکھاوں تم کیا ہوں تم ایک بزدل انسان نہیں ہوں تم ایک شیر ہوں ایک بہادر انسان جو لوگوں کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کریں گا تمھیں اپنے چاچو کی طرح بنا ہے تمھیں میرا غرور نہیں توڑنا تم میری شان ہو میرا مان ہوں خبرادر جو لڑکیوں کی طرح روئے مرد ہو تم بھول جاوں کے تم ایک بچے ہو تمھیں سخت ہونا پڑیں گا اپنے زاوی کے لیے اسے بھی تو تمھیں سنبھالنا ہے اسے بھی چھوڑ رہی ہوں یہاں کیونکہ میں تم دونوں کو کھونا نہیں چاہتی قمیتی ہو تم دونوں اس ملک کے لیے بھی سمجھے شان وعدہ کرو کھبی رو گئے نہیں !! پرامس ٹو یور آنی داٹ یو ول بی دا سٹرانگ گائی انڈرسٹینڈ !"
"اوکے آنی آپ پریشان مت ہو میں بلکل ٹھیک ہوں ۔"
"نہیں میری جان ایسے نہیں دل سے ٹھیک اور خوش رہوں میرے بچے ابھی عمر کیا ہے ٹینشن لینے کی کوئی تنگ کریں سٹریٹ ٹو ویے پرنسپل کو بتادینا وہ تمھیں کچھ نہیں کہے گئے انکل بہت اچھے ہیں اور کوئی سین کریٹ مت کریٹ کرنا میری جان اوکے آنی لوز یو !!"
"ائی لو یو ٹو آنی ! اپنا خیال رکھیں گا ۔"
پارسا کو لگا وہ بہت سیڈ ہے لیکن جانتی تھی شان بہت بہادر اور سمجھدار بچہ ہے ۔"
وہ سونے کے لیے لیٹی ہی تھی جب اس ایک طرف دھوا نظر آیا اس نے دروازہ کھولا تو نیچے جھانکا تو نیچے والے لائونج سے دھوا نکل رہا تھا مطلب وہاں آگ !!"
وہ تیزی سے مڑی اس نے بستر پہ لیٹی مہر کو اُٹھایا اور جلدی سے چادر اُٹھائی اور اس کے گرد باندھی اور جلدی سے نیچے بھاگی اس نے دیکھا ہر طرف آگ ہی آگ تھی کہی بھی کوہی راستہ نہیں تھا اس نے کچھ سوچتے ہوئے دوبارہ اوپر کی طرف بھاگی اور چھت کی طرف پہنچی اس کے پھیچلی طرف سیڑھیاں تھی اس اپنے چادر سے مہر کو صیح سے لپیٹا اور اپنے سے باندھ دیا اور نیچے کی طرف جانے لگی جب وہ نیچے پہنچ گئی تو اسے یاد آیا اس کی بہت سی چیزیں بہت سی یادیں آگ کے لپیٹ میں آگئی ہوگی دارب کی نیشانی !! نہیں بہت سی چیزیں اس کے بابا کے گھر میں ہے وہ انھیں میں جی لیے گی اور دارب کی تین نشانیاں ہے تو وہ کیوں گھبڑا رہی ہے اس نے اس اگ سے لپیٹی ہوئی اس گھر کو دیکھا اور آنکھوں کو سختی سے میچ کر وہ بھاگ پڑی اور باہر نکلی تھی کے کوئی گاڑی فورن سامنے آئی پارسا تیزی سے سائڈ پہ ہوہی اس کا پاوں پھسلا اور وہ دھڑم کر کے نیچے گری 
※※※※※※※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : گلگت ،بلتستان 
زاویار نے اسے چھوڑا 
"اب خوش گولڈی !!"
"تم دُنیا کے انتہائی بے شرم اور لوفر انسان ہو ۔"
مہر غصے سے الگ ہوئی زاویار ہنس پڑا 
"اتنا غصہ کیوں آرہا ہے میری گولڈی کو !!"
مہر مڑ کر چلنے لگی زاویار اس کے پھیچے بھاگا
"اب تو میں نے سوری بھی کردیا ...
وہ بولتے بولتے جیسے رُک گیا اس کی نظر بے اختیار ایک گھروں میں سے ایک پر پڑی جو اسے چھت پر دوربین سے دیکھ رہا تھا وہ سمجھ گیا یہ لقمان حمید کا ہی کوئی بندہ اس نے ظہیر سومرو پہ بھی بھروسہ نہیں کیا تھا زاویار نے نظر فورن اُٹھائی اور مہر کو بولا 
"مہر ہالے کے پاس چلے ۔"
مہر نے اسے غصے سے دیکھا 
"اُدھر ہی جارہی ہوں تمھارے پاس تو میں اب رہوں گی نہیں ۔"
"اچھا ہے میری چڑیل سے جان چھٹے گی ورنہ راتوں کی نیند ہی حرام ہوگئی تھی ۔"
زاویار شرارت سے بولا اور کوشش بھی کررہا تھا جلدی سے وہ جائے ۔
"تم نا ڈوب کے مر جاوں ۔"
"مرنے والا تھا لیکن تم نے ہی بچا لیا ۔"
"سب سے بڑی غلطی تھی مہر ہالے کے گھر کی طرف بڑھ گئی اور زاویار تیزی سے چلتے ہوئے گھر پہنچا اس نے فارس کو ٹیکسٹ کیا اور پھر اس نے الماری سے جاکر گلوز پہنے اور گن نکالی اور لیدر کی جیکٹ اُٹھا کر وہ اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے ٹوپی پہنے لگا 
※※※※※※※※※※※
"سر ان دونوں کے ریلشن شپ بڑے خشگوار ہے آپ تو کہہ رہے تھے یہ دونوں نفرت کرتے ہیں ۔"
"ڈئیم اٹ !!! مجھے پتا تھا یہ کمینہ زاویار اسے زیر کر لے گا آخر خون بھی کس کا ہے اُف مار ہی دوں ان دونوں کو اسے سومرو سے کچھ نہیں ہونے والا ۔"
"میں بھی آپ کو یہی کہہ رہا تھا سر ماردیتے ہیں ۔"
"رُک جاوں جلدباز مت بنوں میں بات کرتا ہوں اگر دیر کرتا ہے تو ان دونوں کا کام تمام کردیتے ہیں ۔"
کسی نے اس سے فون کھینچا اور سیدھا گولی اس کے سر پہ ماری 
وہ بندہ جیسے چکرا اُٹھا 
زاویار نے اس کھینچ کر دیوار سے لگایا اس کا منہ دیوار کی طرف تھا تاکہ وہ زاویار کا چہرہ نہ دیکھ سکے 
"اچھا تو سنگھنیا کو آرام نہیں ہے منع کیا تھا نہ میں نے کے یہ معاملہ میرا ہوچکا ہے ۔"
"سومرو صاحب آپ !!!"
وہ جیسے منٹوں میں سمجھ گیا 
"ہاں تجھے اپنا باپ یاد آگیا شاباش وہ میرے شکاری ہے اپنے اس باس کو سمجھا دیں میرے معاملے میں پڑا 
تو اس کی لاش کو کُتے کے حوالے کردوں گا سمجھے !اور ایک سکینڈ میں یہاں سے دفع ہو جا ورنہ تجھے بھی حوالے کرنے میں ایک سکینڈ نہیں لگاوں گا ۔"
وہ سخت آواز میں کہتا اس کی گردن چھوڑ کر مڑنے لگا کے اس بندئے نے گولی نکالی لیکن اس سے پہلے زاویار اس پر گولیوں کے کہی نشر کر چکا تھا 


لوکیشن : اسلام آباد پاکستان 
پارسا کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو بستر پہ پایا اس کے جسم دُکھ رہا تھا لیکن وہ تیزی سے اُٹھی اس نے اردِگرد دیکھا سائڈ بستر پہ مہر لیٹی ہوہی تھی 
پارسا نے اپنا سر تھاما اور پھر اُٹھی کے دروازہ کھلا 
"آپ اُٹھ گئی !!"
"میں میں یہاں کیا کررہی ہوں ۔"
پارسا نے لقمان کو دیکھا تو ناگاواری سے بولی 
"میں نے آپ کو پہلے بھی کہا تھا کے آپ کی اور آپ کے بچوں کی جان خطرے میں ہے پر آپ سن نہیں رہی تھی 
اب آپ نے نقصان دیکھ لیا وہ آپ کو بھتیجا بچ نہ سکا ۔"
پارسا نے نا سمجھی سے دیکھا 
"اس حادثے میں آپ کو بھتیجا مر گیا ۔"
پارسا کو لگا زاویار !! اس کا دل ڈوب گیا 
"کس بھتیجے کی بات کررہے ہیں 
"شان ! وہی تو تھا !"
پارسا کا دل بے اختیار پُرسکون ہوگیا لیکن وہ ایک دم خاموش ہوگئی کے لقمان حمید کو پتا نہ چلے دونوں جان کو سب سے چھپانا تھا 
"مجھے بہت آفسوس ہے میں کچھ نہیں کرسکا لیکن میں اب اس چھوٹی سی بچی کے ساتھ ظلم نہیں کرسکتا میں آپ کو مہر کو سہارہ دینا چاہتا ہوں میں نے خود رئٹرایمنٹ لے لی ہے اور مجھے فرانس میں جاب آفر ہوئی ہے ۔"
"بس مجھے کچھ نہیں سُنا ۔"
"دیکھیں اگر آپ کو اپنی جان پیاری نہیں ہے اپنی دارب کی نیشانی کی تو ہوگی پیاری اس لیے سُن لے میری بات آپ بیشک اپنی زندگی گزارتی رہے گا میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گا بس میں سہارہ دینا چاہتا ہوں ۔"
وہ مہر کے گال سہلا کر چلا گیا پارسا نے اپنا سر تھام لیا
"ہاں واقی کیا کریں گی وہ بیشک وہ مہر کے ساتھ اکیلے رہ سکتی تھی دراب کی یادوں کو لیکر پر عورت تھی مرد کا سہارہ ضروری تھا اب بھی وہ کتنی اکیلی تھی اس نے سوچ لیا تھا کے وہ دو دن سوچنے کے بعد تیار ہوگئ لیکن سکیورٹی ریزن کی وجہ سے وہ کریں گی باقی لقمان کس سے چاہئے شادی کرسکتا ہے لقمان کا کہنا تھا اس کی بیوی مر گئی تھی دو سال پہلے اسے اب بیوی کی ضرورت نہیں بس وہ انسانیت کے ناطے کرنا چاہتا ہے لقمان نے نکاح کے بعد اپنے حقوق بھی نہیں مانگے نہ پارسا کو نہ کوئی پروا تھی یہ اللّٰلہ کی طرف سے اسے بڑی آزمائش سے بچا لیا تھا 
لقمان سے شادی کرنا اس کی سب سے بڑی غلطی تھی 
جس پہ وہ صیح طریقے سےپچتا بھی نہیں پائی تھی اور موت کی آغوش میں چلی گئی تھی 
※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : گجرات پاکستان 
شان بلکل ساکت لیپ ٹاپ کو دیکھ رہا تھا 
"شان میں نہ ختم کر سکی تو تم کرو گئے زاویار بھی نہیں صرف تم کیونکہ زاویار سے زیادہ میرے بچے تم نے سہا ہے تم تڑپے ہو اس کی وجہ سے تمھارا باپ چچا اس دُنیا سے چلے گئے انھیں وہ مقام نہیں مل سکا جو ایک فوجی کا حق تھا جلد بازی مت کرنا برباد کر کے مارنا میرے بچے یہ بدلہ تمھارا ہے تم نے دراب کا بدلہ لینا ہے تم نے اسے قاتلوں کو آزاد رہنے نہیں دینا ان کو تڑپا تڑپا کر مارنا تمھاری آنی ہار گئی وہ اپنے دارب کے لیے کچھ نہیں کرسکی تمھاری آنی تم سے ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتی ہے خدارا اس کے قاتلوں کو مت بخشنا ۔"
زاویار آیا کل وہ آزاد کشمیر جارہا تھا اس کی پوسٹنگ تھی وہاں شان کی سُرخ آنکھیں اور ایک ہی زاویے میں لیپ ٹاپ کو گھورتے پایا تو اس کے پاس آیا
"بھیا کیا ہوا ؟"
شان نے اپنی سُرخ آنکھیں اُٹھائی اور اسے لیپ ٹاپ پکڑایا 
زاویار نے لیا اور اسے لیا اور پھر اس کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے لگا اور جوہی وہ پڑھتا جارہا تھا اس کا دماغ ماوف ہورہا تھا 
اس نے غصے سے لیپ ٹاپ کو بند کیا 
"بھائی آنی کے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا اور ہم مزئے سے بیٹھے رہے اور مہر مہر کیسے رہی ہوگی میں اس کے ٹکڑئے ٹکڑئے کردوں گا ۔"
وہ غصے سے پاگل ہورہا تھا جبکہ شان بلکل چُپ تھا 
"بھیا آپ خاموش کیوں ہے ۔"
زاویار چیخ پڑا 
"آواز آہستہ کرو اپنی !!!"
شان نے سر نہیں اُٹھایا تھا لیکن سخت لہجے میں بولا تھا 
"کیوں کرو میری آنی میرے چاچو ابو اس انسان کے ہاتھوں مارے گئے اور میں آواز بھی اونچی نہ رکھوں ۔"
"آنی صیح کہتی ہے تمھیں نہیں بتانا تھا کیونکہ تم جزباتی ہو۔"
"میری بیوی اس شخص کے انڈر ہے بھیا اور میں جزباتی نہ ہوں !"
"اسے سزا میں دلااوں گا لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آرہی اس نے آنی اور مہر کو کس مقصد کے لیے اپنے پاس رکھا تھا جبکہ اس کا تو کام ختم ہوگیا تھا ۔"
"بھیا آپ میجر ہے اتنی سی بات نہیں پتا وہ آرام سے پاکستان آتا رہے گا فیک ائی ڈئے پہ کھبی کھبار جائیداد کا ہولڈر بنا رہے گا وہ ایک تو عیشائی بھی کریں گا شہرت بھی کمائے گا اور اپنا ٹریرسم اور عورتیں کے سمگلنگ اوپریشن بھی جارہی ۔۔"
"اور اپنے ملک کا وفادار بھی کہلائے گا ہے نا ۔"
زاوی کی بات کاٹتے ہوئے شان نے کہا 
"اتنا سب جب وہ کررہا ہے تو ہمیں بھی اسی کی طرح کا کھیل کھیلنے چاہئی چلوں اسے عیاش کو موقع دیتے ہیں ۔"
شان کی بات زاویار کے پلے نہیں پڑی 
"یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ !!"
شان اُٹھ کھڑا ہوا اس کے چہرے پہ عجیب سئ مسکراہٹ تھی 
"وہ بات تو سُنی تھی میرے بھائی pay them in same coin سو میں بھی اسے same coin میں pay کرو گا بہت شوق ہے اسے لوگوں کی زندگی کے ساتھ کھیلنا میں اس کی زندگی کو ایسا کھیلوں گا جیسے کسینوں میں جوا کھیلا جاتا ہے اس میں پتا کیا ہوتا ہے ایک بندہ بار بار جیت رہا ہوتا ہے اس کی خوشی کی کوئی اتنہا نہیں ہوتی جب وہ سیٹپ بائے سٹیپ اونچےمقام پہ پہنچ جاتا ہے کوئی لوگ مشورہ دیتے ہے بس کر جاوں اتنا لالچ اچھا نہیں ہے لیکن جب جوئے کی لت لگ جائے تو پھر کون ہٹتا ہے اس کے بعد وہ ایک ہار سے بُری طرح نقصان اُٹھاتا ہے میں اس سنگھنیا کے ساتھ بھی جوئے کا کھیل کھیلوں گا ۔"
شان کے مضبوط لہجے پہ زاویار نے دیکھا 
"آپ کیا کریں گئے بھیا ۔"
‏You just watch the game my brother 
‏This Is about life gambling

لوکیشن : گلگت ،بلتستان 
ہالے اس کی شکائتیں سُنی تو ہنس پڑی 
"اُف کتنا لڑتے ہو تم دونوں تم لوگوں نے ٹام اینڈ جیری کو بھی پھیچا چھوڑ دیا ہے ۔"
"آپ ہنس رہی ہے اچھو !! دیکھا اتنی ٹھنڈا تھا مجھے لگا میں اس میں جم جاوں گی ۔"
مہر نے ٹیشو اپنے ناک پہ رکھا 
"اُف ! نسا تم ایجنٹ ہی ہو نا ؟"
ہالے نے چائے کا کپ آگئے کیا مہر نے پکڑ لیا اور پھر چھینکی 
"یار آپ سب مجھ سے ایسے کیوں پوچھتے ہیں میں صرف انفورمیشن دینے والی آفسر ہوں کوئی فائٹنگ کرنے والی نہیں ۔"
"پھر بھی تمھاری ٹرینگ ہوئی ہے لیکن تم تو بہت نازک ہوں بھائی !"
"ویسے آپ کیوں نہیں بنی !!!"
"توبہ حد ہے ایک تو پورا خاندان ایجنٹوں سے بھرا ہے ویسے بھی شان نے مجھے تب پسند کیا تھا جب میں میڈیکل کے فرسٹ ائیر میں تھی ۔"
"اچھا او ہو تو لو ایٹ فرسٹ سائٹ والا سین تھا ۔"
ہالے کے چہرے پہ دُکھ بھری مسکراہٹ آگئی 
"پاگل تھا وہ جھلا !! خیر کب تک تیاری ہے ۔"
"دو دن بعد لیکن زاویار مجال ہے صیح طریقے سے بتائیں ۔"
"زاویار واقی عجیب ہوگیا ہے شانی کے ڈیتھ کے بعد بہت کم بولتا تھا ورنہ اتنا شرارتی تھا کے کوئی حد نہیں ۔"
وہ دونوں باتوں میں مصروف تھی جب ایک دمھاکے کی آواز پر وہ دونوں نے اپنے کانوں پہ بے اختیار ہاتھ رکھا 
※※※※※※※※※※※※※※※※※※£
لوکیشن : نیو دیلی ،انڈیا 
وہ اس وقت لیلی پیلس ہوٹل کے کمرئے میں موجود تھا 
اس نے اپنا بیس ایک گنجی اور موٹے بندئے کے روپ پہ اپنایا تھا جس کا نام رازل چوہان تھا جس کے پاس بے تہاشا دولت تھی اور وہ نیو دیلی کسی ڈیلیگیشن کے لیے آیا ہے لیکن آصل وجہ اس نے سنگھنیا پر نظر رکھنے تھی جو اسی ہوٹل میں موجود تھا اور اپنے عیاشی کے لیے ایک عورت کو بلوایا تھا ساتھ میں اس ہوٹل کے ہال روم میں ایک خفیہ میٹنگ ہونی تھی ، شان 
نے یہاں کے ایک ہیڈ کو اس ہال میں خفیہ جگہ مائیکرو فون لگوا دیں تھے پھر اس نے ایک کمیرہ اور مائیکرو فون سنگھنیا کے کمرئے میں لگانا تھا اور یہ کام اسے خود کرنا تھا وہ اپنے گہرے دوست فارس کو میسج کرنے لگا جو خود ایک ائی ایس ائی آفسر تھا اور اس کے ابو بھی سنیر آفسر تھے اور وہ بھی اس میشن کا حصہ تھے ، اس نے فارس سے اپنے لندن والے سم سے کال کی 
"ہلیو ! "
"فاسی شانی بات کررہا ہوں ۔"
"تو تو لندن ہے اور میں سمجھا تو پاکستان ہوگا ۔"
فارس کی حیرانگی والی آواز آئی 
"میں لندن نہیں ہوں سٹوپڈ انسان اب سُن نیو دیلی ہوں میں تو دو دن میں ممبئی آنے کی کوشش کر ۔"
"ممبئی کیوں !!"
"تیرا ولیمہ ہے یار بھول گیا گدھے !!"
"پتا ہے لیکن ممبئی کیوں ۔"
"کیونکہ میں نے سُنا ان کی میٹنگ ایک گروہ کی اِدھر جبکہ دوسری کی ممبئی یہ پہلے والے گروہ سے بڑی ہوگئ اس لیے میں چاہتا ہوں تو ساتھ ہو ۔"
"اچھا سر کوئی اور حُکم ویسے ٹھیک تو ہو نا ۔"
شان چونکہ 
"کیا مطلب ؟"
"مطلب پریشان مت ہو یار جیت ہماری ہوگی ۔"
"انشاآللّٰلہ !!"
اس نے فون بند کیا اور پھر ویٹر کا سوٹ جو اس نے پہلے لیے لیا تھا وہ نکالا اور پھر تیاری کرنے لگا ۔
※※※※※※※※※※※※※※※※
گھر میں اچانک دھوا آگیا تھا مہر اور ہالے کھانسنے لگی 
"یہ کیا ہے مہر دھماکا اُدھر ہوا اور پھر یہاں ۔"
ہالے کو کچھ نظر نہیں آرہا تھا 
"ہالے آپی آپ اِدھر ہی رہے میں کچھ کرتی ہوں ۔"
مہر اگئے بڑھنے لگی جب کسی نے سختی سے اس کی کمر پکڑی اور اس کے منہ پہ رومال رکھا مہر ہلنے لگی اور تیزی سے جھٹکے کھا رہی تھی اس مارنے لگی کے اس کا دوسرا بازو بھی پکڑا گیا اور پھر اسے آگئے کچھ یاد نہ رہا اور وہ پوش و خرو سے بیگانہ ہوگئی 
مہر مہر ! کدھر ہو یار کہاں چلی گئی ۔"
جب اسے مہر کی آواز نہیں تو وہ تیزی سے بولی جب دھوا کم ہوا تو اس نے دیکھا وہاں مہر نہیں تھی اور وہ مہر کو ڈھونڈنے لگی 
※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※
لوکیشن : ممبئی ،انڈیا 
اسے ناکامی ہوئی تھی کیونکہ میٹنگ کینسل ہوگئی تھی اور سنگھنیا بھی یہاں سے چلا گیا تھا شان کو دل کررہا تھا اس دُنیا کو تہس نہس کردیں لیکن نہیں اس نے گیم کو سلولی کھیلنا تھا تاکہ اسے بلکل اونچائی پہ پہنچا کر پھر اسے زمین بوس کردیں 
وہ سوچ میں پڑ رہا جب فارس نے اسے کافی پکڑائی 
"انھیں شک پڑگیا تھا اس لیے نہ میٹنگ نیو دیلی میں ہوئی نہ ممبئی میں خاصے چالاگ گروہ ہے یہ ۔"
شان نے سر اُٹھایا اور پھر لیپ ٹاپ رکھا 
"میٹنگ ہوچکی ہے لیکن مجھے دیر سے پتا چلا ۔"
فارس نے اسے شاکڈ انداز میں دیکھا 
"واٹ !!!! اور تو ایسے بیٹھا ہوا ہے ۔"
"نہیں اس طرح کام نہیں کرنا جلدبازی میں ہم وہ کررہے ہیں ہمیں اس پہ نظر رکھنی ہے اور اسے اونچائی پہ پہنچنا ہے اور یہ پروسیس مجھے دو سال تک کرنا ہے اور دو سال تک وہ کینن فلم فیسٹول کے ایز ہیڈ پہ آجائیں گا ۔"
"تو پاگل ہے شان ہے یہ کیس جلد از جلد ختم کریں اس میں لوگوں کی جان اور عزت کا سوال ہے بدلے کے آگ میں اندھے مت بنوں دو سال دماغ خراب ہوگیا ہے تیرا ۔"
"تم ڈبل پاگل ہوں ایک بات کو ایک پہلو میں سوچتے ہوں دوسرے سائڈ سے کھبی نہ دیکھنا مجھے لگتا ایک میں ہی انٹیلیجنٹ ہوں ہم اسے دھوکے میں رکھیں گئے اس لگئے گا وہ کامیابی کے سڑھیاں چھڑتا رہے گا پتا ہے جتنی اونچائی زیادہ ہوگئ اتنے گرنے سے زیادہ تکلیف ہوگی اور میں اسے ویسے ہی تکلیف دینا چاہتا ہوں جو اس نے میرے خاندان کے ساتھ کیا ہے اس کے سزا ایک گولی ہرگز نہیں ہے اگر ایک گولی ہوتی لوگ اسے کی استیا پانی میں گرا چکے ہوتے لیکن میں اس کا وہ حال کرنا چاہتا ہوں کے رہا کے سارے ایجنٹ بھرتی ہونے سے پہلے ہزار بار سوچے ۔"
شان نے سگیرٹ نکالا اور اسے جلانے لگا اس کے اتنے سخت اور خطرناک لہجے پر فارس اسے دیکھتا رہ گیا

لوکیشن : چائینہ 
مہر کی آنکھ کسی چیز کے جھٹکے سے کھُلی تھی اس نے دیکھا کوئی چیز چل رہی تھی پھر اس نے اس طرف دیکھا کوئی کالی موچھے اور دھاڑی کے ساتھ بلیک جیکٹ اور سن گلاسس میں جیپ چلا رہا تھا 
مہر ایک دم جھٹکے سے اُٹھی اس نے اِردگرد دیکھا وہ جیپ میں تھے اور پہاڑی علاقہ اب کہی نہیں تھا وہ ایک صاف ستھری ہائی وئے تھیں پھر اس نے اسے دیکھا 
"زاوی یہ سب کیا ہے اور ہم ہم یہاں کیا کررہے ہیں ۔"
اس نے زاویار کو پہچان لیا تھا زاویار نے اسے دیکھا تو ہنس پڑا 
"حیرت کی بات ہے اتنا میک آپ کیا تم نے پھر بھی مجھے پہچان لیا ۔"
"اس میں حیرت کی کون سی بات ہے وہ سب تم نے کیا تھا اور ہالے ہالے کہاں ہے ۔"
"ہالے بلکل محفوظ ہے اور ہم اس وقت چائینہ ہے ۔"
"واٹ !!!!!! آڑ یو کیڈنگ می ہم چائینہ کیا کررہے ہیں ۔"
"کیا مطلب ہم چائینہ کیا کررہے ہیں ہمیں وہی جانا تھا ۔"
زاویار ایسے بولا جیسے اسے کچھ معلوم نہیں تھا ۔
"ہمیں برازیل جانا تھا ۔۔"
"چلے جائے گئے ڈیر پہلے میشن ختم ہوجائیں ہنی مون پہ پکا لیے جاوں گا ۔"
زاویار شرارت سے بولا 
"افوہ ! پتا نہیں کس سے شادی کرلی میں نے ۔"
"یہ تمھیں بارہ سال پہلے سوچنا چائیے تھا اور اب جلدی سے اپنا گیٹ آپ چینج کرو پھیچے بیگ پڑا ہوا ہے ۔"
مہر نے ناسمجھی سے اسے دیکھا پھر اس کی بات کا مطلب سمجھ کر وہ پھیچے مڑی 
※※※※※※※※※※※※※※※※※※
شان کا جو مقصد تھا اس میں وہ ستر فیصد کامیاب رہا ،اس نے مہر کی سیفٹی کے لیے ایک بندہ ہائیر کیا تھا زاویار پھر بھی مطمن نہیں ہوا تھا وہ جیسے ہی ایجنسی میں داخل ہوا اس کی پہلا کام ہی مہر کو لانا تھا لیکن شان نے سختی سے منع کردیا اور اس طرح بہت بڑی بعث جس میں بہرحال جیت شان کی ہوئی وہ کافئ سارے کیس کو ٹیکل کر چکا تھا اور اس کا مقصد بلکل قریب آرہا تھا کیونکہ لقمان حمید کینن فلم فیسٹول کا ہیڈ بن چکا تھا 
اب زاویار نے کہا تھا کے کام شروع کیا جائے لیکن شان نے کوئی ریسپانس نہیں کیا، پتا نہیں کیا اس کے دماغ میں چل رہا تھا زاویار جنجھلا جاتا ۔
پھر ایک سب سے بڑا انکشاف دونوں پہ ہوا جب مہر پاکستان آئی نہ کے انھیں ڈھونڈنے بلکہ ایجنٹ کے لیے اپلائی کرنے اور یہ بات دونوں کے لیے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھی شان کو شک پڑا کہی اسے پتا تو نہیں چل گیا اس نے مہر کو خطرے سے بچانے کے لیے اپنے دوست سے ریکویسٹ کی اسے ریجیکٹ کیا جائے اور واقی ایسا ہوگیا تھا بے شک کم عمری میں اس میں کافی قابلیت تھی لیکن پھر بھی شان اس کی سیفٹی چاہتا تھا پھر دوسرا جھٹکا تب لگا جب وہ دو مہینے بعد دوبارہ آئی اور اسے دوبارہ ریجیکٹ کرنا پڑا جب اس طرح ایک اور بار ہوا بلا آخر شان نے ہار مان لی اور وہ اکسیپٹ ہوگئی ، زاویار راضی نہیں ہورہا تھا اس کا کہنا تھا اس کو انھیں ڈھونڈا چائیے ناکہ ان چکروں میں پڑیں وہ بھی اپنی جگہ صیح تھا لیکن شان مہر کی بھی کفیفیت سمجھ گیا تھا 
"بھائی آپ ٹوٹلی پاگل ہوگئے ہیں مہر کو کیوں سلیکٹ کیا ۔"
شان سگریٹ کے گہرے کش لیے رہا تھا چھت پہ جب زاویار دندانتا ہوا آیا وہ بہت غصے میں تھا 
"تمھیں غصے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے ہر وقت کیوں گرم ہوتیں ہو ۔"
"مجھے پاگل کُتے نے کاٹ لیا ہے ۔"
زاویار تیز لہجے میں بولا
"تو جاو ہوسپٹل سے ٹیکے لگاوں ۔"
"بھائی یہ مزاق نہیں ہے ۔"
"تو میں کون سا کررہا ہوں ۔"
شان نے سگیرٹ پھینکی اور روشنی سے بھرے شہر کو دیکھنے لگا 
"آپ کر کیا رہے ہیں ۔"
"کچھ نہیں کررہا میں مجھے میرا کام کرنے دو خیر افغانستان کی تیاری ہوگئی ۔"
"نہیں جارہا میں ۔"
زاویار سر جھٹکتے ہوئے بولا 
"تو پھر میرے گھر سے دفع ہوجاو ۔"
زاویار نے ان کے سخت لہجے پہ گھورا 
"چلا جاتا ہوں میں پھر واپس نہیں آو گا تو جشن منا لیجیے گا ۔"
"کیپٹن بن کر زیادہ بکواس نہیں کرنے لگئے ۔"
شان نے اسے ایک نظر دیکھا 
"اور آپ اب لفیٹنٹ کرنل کے رینک میں جانے لگے ہیں کب کریں گئےاس سنگھنیا کا کام تمام ریٹارمنٹ کے بعد ۔"
شان ہنس پڑا 
"اُف کتنے جلدباز ہو تم دھیرے برو بس اب کام شروع کرنا ہے کیونکہ مہر بھی اسی کے پھیچے ہے ۔"
زاویار کا چہرہ سفید ہوگیا 
"واٹ مطلب وہ سب جان چُکی ہے ۔"
"جی بلکل !!"
"یہ باتیں مجھے پتا ہونا چاہیے آپ کو کیوں پتا ہے ۔"
"کیونکہ میں تم سے بڑا ہوں ۔"
شان ہنستے ہوئے بولا 
"لیکن میں اس کا شوہر ہوں !"
زاویار نے دوبدو جواب دیا 
"او ہوں ! شوہر صاحب پوزیسو ہورہے ہیں ۔"
زاویار اپنی آنکھیں گھماتے ہوئے جانے لگا کے شان نے اس کا شانہ پکڑا اور اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لگایا 
"اپنا خیال رکھنا بڈی ! بہت رسکی کیس لیا ہے ۔"
"آپ والا تو ظاہر ہے نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اکیس کیس حل کیے ۔"
"اب ہر کوئی شان کی طرح تھوڑی ہوسکتا ہے ۔"
شان نے اس کی پیٹھ کو تھپکا
زاویار ہنس پڑا
※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※※
شان فرانس کی تیاری کررہا تھا جب کسی نے دروازے پہ ناک کیا اس نے دیکھا ہالے گرین سادہ شلوار قمیض میں بالوں کو فش ٹیل بریڈ بنائے بلکل سادہ لیکن پیاری لگ رہی تھی اس کے ہاتھ میں ایک باکس تھا 
"ایک تو آپ اتنے ملک گھوم چکے ہیں مزا تو بڑا آتا ہوگا ۔"
ہالے کی آنکھیں سُرخ تھی جبکہ چہرے پہ گہری مسکراہٹ شان کے دل کو کچھ ہوا وہ جانتا تھا جب بھی وہ جاتا تھا وہ روتی تھی اس کی زندگی کے لیے ڈھیروں دعا کرتی تھی کیونکہ شان ایسے ایسے خطرناک کیسس کے لیے جاتا جہاں واپسی کے اُمید نہ ہوتی اسے بُرا بھی لگتا کے وہ ہالے کو اس طرح دُکھ دیں رہا ہے وہ بھی اپنی جگہ مجبور تھا آخر تھا تو فوجی اور فوجی کی زندگی ایسے ہی ہوتی ہے ۔ اس نے خود سے وعدہ کرلیا تھا کے وہ جب سنگھنیا کا کام تمام کرلے گا وہ ہالے کے ساتھ شادی کر لے گا 
اس نے اپنا بیگ بند کیا اور اس کے پاس آیا اس کا ہاتھ تھام کر اس نے دروازہ بند کیا اور اسے صوفے کی طرف اشارہ کیا ،ہالے سر جکھا کر بیٹھ گئی جبکہ شان اس کے ساتھ بیٹھنے کے بجائے گھٹنے کے بل جھکا اور اس کے گھٹنے پہ ہاتھ رکھا ہالے نے نظریں اُٹھائی 
"بُرا ہوں نا میں تنگ کرتا ہوں تمھیں کافی !!"
ہالے نے اس کی بات پہ زور سے سر نفی میں ہلایا
"اُف مانتی کیوں نہیں ہو !!"
شان ہنستے ہوئے اس کی ٹھوڑی اُٹھاتے ہوئے بولا 
"جب آپ بُرے ہے ہی نہیں تو کیوں بولوں میں شانی ۔"
ہالے مسکراتے ہوئے بولی 
"وہ تو مجھے پتا ہے کے ذیشان علی سب سے اچھا انسان ہے لیکن تنگ تو بہت کرتا ہے نا ۔"
"ہاں لیکن زاویار سے کم !"
شان ہنس پڑا اور اس کی انگلی میں موجود اس کی دی ہوئی انگھوٹی کو گھمانے لگا 
"غصہ نہ کرنا میں زرا مہر کے ساتھ تھوڑا فلرٹ کرو گا زاویار کو ابھی نہیں پتا اگر پتا چل گیا تو موصف اُڑھ کر آجائیں گا ۔"
ہالے نے شان کا کان ہولے سے پکڑا 
"خبرادر ! وہ بھابی ہے آپ کی شرم کریں ۔"
شان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا 
"بھابی سے پہلے بہن اور بیٹی ہے میری جھلی میشن ہے تھوڑا سا تنگ کرو گا کچھ دن رہنا ہے پھر اوپریشن شروع کرنا اور یہ تب ہوگا جب زاویار صاحب آ نہیں جاتیں ۔"
"زاویار کیوں ؟"
"بس نالائق کو یہ کام کرنے کا بہت شوق ہے سوچا اسے بھی ڈال دو ۔"
"نہیں شانی زاویار کو اس معاملے میں مت ڈالے ۔"
شان نے اس کی گود میں سر رکھ دیا 
"چھوڑوں یہ میشن اُف تم بھی سوچتی ہوگی کس کمپلیکیٹٹ فیملی میں گھس گئی ہوں ۔"
ہالے نے جھک کر شان کے سر پہ پیار کیا اور اپنا سر اس کے سر پر رکھ دیا 
"مجھے تو فخر ہے آپ پر جو اتنی کم عمری میں اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کیا اگر آنی زندہ ہوتی تو وہ آپ پر بہت پراوڈ ہوتی ۔"
شان کا آنکھوں سے ایک موتی ٹوٹ کر ہالے کی قمیض پر گڑا
"دعا کریں آنی آپ کا شانی آپ کا کیا ہوا وعدہ پورا کریں ۔"
※※※※※※※※※※※※※※※※※※
وہ بے بے سے ملنے لگا بے بے نے کچھ پڑھ کر اس کے چہرے پہ پھونکا کیونکہ آج ہی وہ فرانس جارہا تھا
"دعا کریں بے بے اس بار مہر بھی واپس آجائیں گئ ۔"
بی بی نے پیار کیا 
"خدا تمھیں اپنی حفظ و ایمان میں رکھے بیٹا ۔"
اچانک گھر کا فون بجا اور ان دونوں نے چونک کر دیکھا 
"میں دیکھتا ہوں ۔"
شان کہتے ہوئے آگئے بڑھا اور اس نے کورڈلیس اُٹھایا 
"ہلیو اسلام و علیکم !زیشان سپیکنگ کیا !!!!
وہ اچانک یہ خبر سُنتے ہوئے لڑکھڑایا 
"زاوی ! "
※※※※※※※※※※※※※※※※※※
زاوی کی موت کی خبر سُن کر وہ ٹوٹ گیا وہ جیسے سب کچھ بھول گیا تھا اور بے بے یہ خبر برادشت نہ کر پائی اور اس دُنیا سے چل بسی شان بلکل خاموش ہوگیا ایک جگہ کمرئے میں بند ہوگیا ہالے بار بار روتے ہوئے دستک دیں جارہی تھی لیکن دروازہ رات سے صبح دن سے رات ہوگئی نہ کھل سکا ہالے تھک کر وہاں بیٹھ گئی 
"شانی پلیز ایسے مت کریں ابھی تک زاوی کی ڈیڈ باڈی 
بھی نہیں ملی ہوسکتا ہے وہ زندہ ہو آپ ہمت تو مت ہارے ضروری نہیں ہے زاویار بم بلاسٹ کا شکار ہوا ہو شان !"
اس کا بولتے ہوئے گلا پک گیا تھا لیکن شان نے دروازہ نہیں کھولا 
شان نے اندر سر اپنے گھٹنے پہ ٹکا لیا اس کی حالت عجیب ہورہی تھی کوئی بھی نہیں رہا تھا ،وہ بلکل اکیلے ہوگیا تھا بلکل تنہا اس کا دل کررہا تھا خود کو ختم کردیں سب اسے چھوڑ گئے تھے وہ کس جواز سے اس دُنیا میں رہے ۔
دروازے پہ ملازمہ کی تیز تیز آواز آئی ہالے جو دروازے کے ساتھ لگی بیٹھی ہوہی تھی ایک دم تیز آواز پہ اُٹھی اور نیچے آئی 
"شما کیا ہوا ! "
"بی بی جی صاحب جی نیچیے آئے ۔"
"شما چلا کیوں رہی ہو بے بے کہاں ہے ۔
زاویار کی آواز سُنتے ہی ہالے سکتے میں چلی گئی اور پھر تیزی سے نیچے آئی اس نے دیکھا زاویار کا چہرہ ہلکہ سا زخمی ہوا تھا لیکن وہ بلکل صیح سلامت تھا 
"زاویار !!!!!!"
زاویار نے ہالے کی حالت دیکھی اسے جھٹکا لگا 
"ہا ہالے بھابی !!"
ہالے تیزی سے بھاگی اور زاویار سے لگ گئی 
"زاوی تم زندہ ہو تم میں جانتی تھی مجھے یقین تھا دیکھوں تمھاری وجہ سے شان پانچ دن کمرئے میں بند ہیں اور بے بے !!"
"کیا ہوا بھابی بے بے اور بھیا !"
زاویار نے اس کے شانے کو پکڑا اور پریشانی سے پوچھا 
" کچھ بولتی کیوں نہیں ہے ہالے بتائیں بے بے اور بھیا !!"
"بے بے تمھاری موت کا صدمہ برداشت نہیں کرسکی اور ۔۔۔۔"
آگئے ہالے سے کچھ کہا نہیں گیا اور وہ رونے لگی زاویار وہی زمین پہ ڈہے گیا اس کی آنکھیں پتھرا گئی 
اس سانس نہیں آرہی تھی عجیب سے متلی سے محسوس ہورہی تھی دل جیسے منہ کو آرہا تھا 
"ہالے بھیا بھیا تو نہیں ۔"
ہالے کو لگا وہ ابھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں گا لیکن وہ بڑی مشکلوں سے ضبط کررہا تھا 
"شان اپنے کمرے میں بند ۔۔"
زاویار تیزی سے اُٹھا اور شان کے دروازے پہ آیا 
"بھیا بھیا دروازہ کھولے !!!!"
زاویار پاگلوں کی طرح دستک دینے لگا لیکن دروازہ کھولنے کی کوشش کرنے لگا 
"بھابی اس کی چابی !!"
"شان کے پاس ہی ہے اس لیے تو کھول نہیں سکتی ۔"
وہ جب اس کے پاس پہنچی تب زاویار کے بولنے پر بولی 
"آپ سائڈ پہ ہوجائیں ۔"
اس نے کہا اور ایک ہی دھکے سے دروازہ کھولا اور اندر گھسا اور چیخ پڑا 
"بھیا !!!!!"
اس نے دیکھا شان زمین پہ بے ہوش لیٹا ہوا تھا 
********************

شان کی طبیعت اب بہتر تھی ، وہ ہوسپٹل سے تین دن بعد واپس آگیا تھا ، وہ زاویار کو خود سے الگ نہیں کررہا تھا وہ ایک سکینڈ کے لیے بھی کہی ہلتا تو شان اسے کہی جانے سے روکتا اب بھی ایسا ہی ہوا تھا 
"بھائی میں کپڑے چینج کرنے جارہا ہوں ابھی آو گا ۔"
زاویار نے شان کے سر پہ پیار کیا اور اُٹھ پڑا 
ہالے اندر آئی اس نے دیکھا شان کے چہرے پہ بے چینی تھی 
"بہت پیار کرتے ہیں آپ اس سے ۔"
شان نے سر اُٹھایا پھر سر پہ ہاتھ پھیرا 
"پاگل لگ رہا ہوں نا میں ۔"
شان کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ آگئی 
"ویسے تم کب آئی ۔"
"آبھی کھانا لائی ہوں میں اِدھر کھائے گئے ۔"
"انٹی اور سدرہ نہیں آئی ۔"
وہ بستر سے اُٹھ پڑا ہالے نے نفی میں سر ہلایا 
شان اس کے قریب آیا اور اسے اپنے ساتھ لگایا ہالے کو ایک سکینڈ نہیں لگا رونے میں شان نے اس کے گرد بازوں لپیٹے اور اس کے ماتھے پہ لب رکھ دیں 
"ائیم سوری تمھیں بہت پریشان کرتا ہوں نہ میں ۔"
ہالے نے آگئے سے کچھ نہیں کہا بس روتی رہی زاویار آندر آنے لگا پھر ان دونوں کو اس طرح دیکھ کر ہلکہ سا مسکرایا اور پھر مڑ پڑا 
"بس کرو یار کتنے آنسو بہاؤں گی میری مرنے کے لیے تھوڑے سے بچا لو ۔"
ہالے اس کے کہنے پہ شاکڈ ہوگئی اور ایک زور سے مکا اس کے سینے پہ مارا شان اُچھل پڑا 
"خبردار ! خبرادر آپ نے ایسے کہا میں خود کو شوٹ کردوں گی جائے نہیں بات کرنی میں نے آپ سے ۔"
وہ اسے دھکا دیں کر جانے لگی کے شان نے اسے پکڑا وہ غصہ سے ہاتھ چھڑوانے لگی 
"او ہو اتنا غصہ !!!"
"چھوڑیں مجھے میں جارہی ہوں ۔"
"اور جیسے تمھیں میں جانے دو گا ۔"
شان نے اس کی کمر کو پکڑا اور زور سے کھینچ کر اُٹھا لیا اور اس کا چہرہ اپنے چہرے کے قریب کیا 
ہالے اس طرف دیکھ نہیں رہی تھی 
"اُف اتنا غصہ لڑکی ! میں نے بس حقیقت پسند بنے کی کوشش کی ۔"
"تو مت بنے حقیقت پسند !!"
شان ہنس پڑا اور اپنا سر ہالے سے ہولے سے ٹکرایا 
"ناولز کم پڑھا کرو لڑکی !!!"
ہالے نے جھٹکے سے سر اُٹھایا اور شان سے رہا نہ گیا تو اس کی لمبی پلکے چھو لی 
ہالے ایک دم پھیچے ہوئی 
"ذیشان پلیز مجھے چھوڑ دیں ابھی زاویار آجائے گا ۔"
ہالے نے اپنی کمر پہ اس کا ہاتھ ہٹانا چاہا لیکن شان نے گرفت مضبوط کر لی 
"میں سوچ رہا ہوں آج ہی تمھاری رخصتی کردی جائیں کیا خیال ہے ۔"
شان اتنے دنوں بعد آج شرارت لہجے میں بولا 
"شانی پلیز !!!! "
شان کی گرم سانسیں اس کے چہرے پہ پڑ رہی تھی 
شان نے اسے چھوڑ دیا اور اس کے گالوں کو پکڑا 
"پرسو میری فلائٹ ہے اس چکر میں بھول گیا کے میرے ملک کو میری ضرورت ہے تین ہفتے غفلت میں رہا 
رہنا نہیں چاہیے تھا خیر میرے لیے دعا کرنا بیوٹیفُل ۔"
ہالے نے نمی آنکھوں سے اسے دیکھا اور پھر سر ہلایا 
شان نے اس کی ٹھوڑی چوم لی اور پھر اپنے ساتھ لگایا
※※※※※※※※※※※※※※※※※※※
وہ پھر ایک نیے پلان کے تحت جارہا تھا جس میں اب زاویار بھی شامل تھا 
"فل حال تم پاکستان ہی رہو تمھیں ویسے بھی تین مہینے کی چھٹی ملی ہے جیسے ہی تمھاری ضرورت پڑیں گی تم آجانا ۔"
شان کے کہنے پر زاویار نے سر ہلایا
"مہر کی تصویریں لیں لیجیے گا ۔"
اس کے کہنے پر شان دیر تک ہنستا رہا 
"نہیں بھائی اتنا چھچھوڑا سمجھا ہے مجھے ۔"
شان نے اپنی بڑھتی دھاڑی کو ہاتھ لگایا 
"بھائی قسم سے آپ کے بالوں نے لڑکیوں کے بالوں کو مات دیں دی ہے اتنے سلکی ۔"
شان نے اسے گھورا 
"کام ختم ہوجائیں تو کلین شیو کرواوں گا اور بال کٹواوں گا میں تو حیران ہوتا ہوں یہ لڑکیاں کیسے سنبھال لیتی ہے ۔"
"ہاں اور آپ ہالے کو کہتے ہے بال مت کٹوانا ایک دن بیچاری نے شولڈر کٹ کروا لیں تو آپ نے ان سے چار دن بات نہیں کی ۔"
"خیر میں سوچ رہا ہوں اس پہ فورس نہ کرو وہ ہر بالوں میں کیوٹ لگتی ہے بس کہی یہ خدا نہ خواستہ بوئے کٹ نہ کروالے ۔"
زاویار اس کی بات پہ دیر تک ہنستا رہا 
اور پھر وہ فرانس چلا گیا اس سے پہلے وہ فارس نے غازی بن کر میٹنگ آٹینڈ کی جو لقمان حمید نے فیک بنوائی تھی تاکہ کسی کو بھی اس پر شک نہ ہوں اور سارا الزام اس پروڈیوسر پر چلا جائے جسے کچھ علم ہی نہیں ہے اس بارے میں 
پھر شان اگلے دن پہنچا فارس نے اسے سارا پلان بتایا
کے لقمان حمید کا ساتھی جو اس کا فیک کزن بن کر اپنے بیٹے کے ساتھ مہر کی شادی کا ارادہ رکھتا تھا 
تاکہ مہر کے نام جتنا کچھ ہے وہ اس کے نام کر کے اس کا کام تمام کردیں فارس نے ان بندوں کو کیڈنیپ کردیا جو لوگ یہاں فیسٹول پہ آنے لگئے تھے چونکہ لقمان حمید کو صرف خبر دیں گی تھی کے وہ لوگ آنے لگے ہیں اس نے ان کی شکلیں نہیں دیکھی تھی نہ ہی نام پتا تھے لیکن اگر وہ لقمان حمید کے پاس اکر کوڈ بولے گئے تو وہ انھیں پہچان لیے گا لقمان نے اسے اپنی پارسا سے ریلیٹٹ پہلے ہئ انفورمیشن ایجنسی کو دیں دی تھی تاکہ وہ آئے تو وہ پریپر ہو فارس کے ابو رحمان صاحب کو کوڈ معلوم تھا وہ جیسے ہی آئے تو انھوں نے لقمان حمید کے پاس اکر کوڈ بولے لقمان حمید نے اسے دیکھا تو چہرے پہ فورن مسکراہٹ آگئی 
"آگئے تم !!!"
"جی سر آگیا میں !!! "
"تمھارا نقلی بیٹا کہاں ہے ۔"
وہ اس سے گلے ملتے ہوہے کانوں میں بولا 
"وہ سامنے ہے !"
"نام کیا ہے ۔"
"فارس !!"
"اوکے ! "
پھر اس نے فارس کی ملاقات مہر سے کروائی فارس نے جان بوجھ کر اسے دلچسپی سے دیکھا آیا اس ایجنٹ کا ریکائشن کیا ہوگا اور مہر شائی (شرمیلی ) قسم کی لڑکی بنے میں تمام ریکارڈ توڑ رہی تھی اور فارس اس کی ایکیٹنک کو سہرائے بغیر نہ رہ سکا اور پھر آئی ذیشان کی انٹری جس نے اپنا شان نام رکھنا ہی بہتر سمجھا وہ تھا تو میجر کے رینک پہ لیکن اس نے زاویار کا رینک دینا مناسب سمجھا ویسے بھی شان اور زاویار کی جسامت پہ کوئی فرق نہیں تھا دونوں بھائی ایک ہی عمر کے لگتے تھے فارس کو اپنا سر دیوار پہ مارنے کا دل کیا کے وہ کہی سے بھی کیپٹن نہیں لگتا تھا شان اسے بار بار ٹیسٹ کررہا تھا اور مہر واقی اپنی حرکتوں میں امپریس اسے امپریس کیے جارہی تھی شان کو لگا اسے نہیں پتا وہ کون ہے لیکن مہر کو پتا تھا اس نے زرا سی بھنک نہیں پڑنے دیں شان کو فارس کے ابو کرنل رحمان صاحب نے بتایا کے لقمان مہر کو مارنے کی پلینگ کررہا ہے اس نے پوچھا کے وہ کیسے کریں گا تو اس نے بتایا کے وہ کسی انٹیلجنس آفسر کو رکھ لے گا جو یہاں کا ہو اور پھر شک کی ایک بھی کنجائش نہیں رہے گی رحمان صاحب نے کہا اگر آفسر کو پتا چل گیا اس نے کہا وہ کوئی مشہور شارپ شوٹر ڈھونڈ رہا جو کسی اور ملک کا ہو تاکہ ان دونوں کے پاکستان جانے کے چند دنوں بعد ہی ان کی جان لے لیں شان ساری باتیں سُن کر ہنس پڑا 
"تو ہنس رہا ہے وہ بھائی ضرورت سے زیادہ ہی چلاک ہے تبھی تو اس نے سالوں سال ترقی کی ہے ۔"
فارس نے اپنے سر پہ ہاتھ پھیرا جبکہ شان سگیرٹ پھونک رہا تھا 
"میں نے کہا تھا جب یہ اونچائی کے آخری حد تک پہنچ جائے گا میں اسے زور سے گراؤں گا اور یہ وقت آگیا ہے 
زاویار کا بھی رول شروع ہوچکا ہے ۔"
اس نے کہتے ہوئے فون اُٹھایا اور کال ملائی تین بیل پہ کال اُٹھا لی گئی
"برو لندن سیدھا پہنچوں اور انٹرنیشل انٹیلجنس ایجنسی جانا وہاں کے سنیر آفسر تمھیں سب کچھ بتادیں گئے ۔"
اور پھر زاویار وہاں پہنچ گیا اور انھوں نے سارے پلان کو جانے کے بعد زاویار کو ایز ا فیک انٹرنیشنل انٹیلجنس آفسر بنادیا وہاں کے صرف ایک اور آفسر عمیر رضا بھی شامل تھے وہ زاویار سے اس کی اتنی کم عمری میں شاندار کارگردگی دیکھ کر امپریس ہوگئے تھے اور ان کی اور اس کی کم ہی دنوں میں بہت گہری دوستی ہوگئی اور جب یہ پلان انھوں نے جانا انھوں نے بھی زاویار کا ساتھ دیا اور اس اوپریشن میں شامل ہوگئے ۔اب تک لقمان حمید نے کوئی ایکشن پلان نہیں کیا اس لیے زاویار کو وہی رہنا تھا تب تک ذیشان مہر کو ٹیسٹ کررہا تھا اور باقی لقمان کی اکٹوٹیز کو دیکھ رہا تھا کے وہ آخر آگئے کریں گا کیا۔
لیکن ابھی تک کوئی خبر نہیں تھی جس سے شان کو حیرانگی بھی نہیں ہوئی تھی وہ جانتا تھا وہ اس بار کچھ بہت بڑا کررہا ہے پھر اس نے مہر کے گھر تک آنے کے لیے اسے چھیڑنا تھا اور اس کے قریب ہونا تھا اس نے زاویار کو بلوا لیا تھا اور اسے سب بتایا اور زاویار کو پتا لگا اس نے تکیہ اُٹھایا اور اسے مارنے لگا 
"آپ کو شرم نہیں آتی آپ میری بیوی کے ساتھ فلرٹ کرتیں رہے بھیا اُف ۔"
شان نے بھی تکیہ اُٹھایا اور ان دونوں میں پلو فائٹنگ ہونے لگی 
"ابے یار تمھیں اس لیے بلوایا ہے کے آگئے کا کام تمھیں ہی کرو گئے ۔"
"اور وہ بھی اس کے جیٹھ کے روپ میں ہے نا بھیا وہ کیا سوچتی ہوگی جب بعد میں اسے پتا چلے گا ۔"
زاویار نے انھیں گھورتے ہوئے بلو انھیں مارا 
"جھل آدمی کوئی مائنڈ نہیں کریں گی یہ ضروری ہے چل میری طرح روپ اپنانا ہے میں نے یہاں کے فلم کے مشہور میک آپ آرٹسٹ کو بلوایا ہے وہ ایسا حُلیہ بدلے گا کے تو بھی میری طرح ہینڈسم ہوجائیں گا ."

اور پھر زاویار نے شان کا روپ اپنا کر مہر کے قریب آنے کی کوشش کی وہ دیکھنا چارہا تھا کے مہر کہی اسے بھول تو نہیں گئی وہ جب پاکستان آئی تھی تو اس نے زاویار کا پتا کیوں نہیں لگایا تھا اسے ڈھونڈنا تو چاہیے تھا وہ اس کا دوست نہیں اس کا شوہر تھا ،مہر کی حرکتوں سے وہ بے حد خوش ہورہا تھا کے وہ زاویار سے پیار کرتی ہے اور بار بار شان کو ریجیکٹ کررہی ہے لیکن پھر بھی وہ مطمن نہیں تھا اس نے اسے چیلنج دینے کے بعد اس کے گھر آیا اور اس نے ٹریشر باکس میں دیکھا یہ تو آنی کا باکس تھا سب کچھ آنی کا پڑا ہوا تھا ساتھ میں اس کے اور مہر کے نکاح کے کاغذ پڑیں ہوئے تھے اس نے جلدی سے اُٹھا لیے اور واپس مڑ پڑا تاکہ دیکھ سکے کے نکاح کے پیپرز گُم ہونے کے بعد وہ کیا کرتی ہے ۔
جیسے ہی زاویار وہاں سے چلا گیا مہر بستر سے اُٹھی اور دیر تک ہنسنے لگی اسے پتا تھا وہ کیا لیکر گیا ہے اس نے بھی جیسے کھیل چل رہا تھا چلنے دیا 
زاویار کی لقمان حمید سے ملاقات ہوہی اور فارس نے انھیں بتایا کے یہ پاکستانی کیپٹن کے روپ میں ہے دارصل یہ ڈیول ہے را کا ایجنٹ لقمان حمید خوش ہوگئے اور اس نے اپنے کام پہ جارہی رکھنے کا کہا کے آگر فارس سے گھیر نہیں رہی تو شان سے ضرور ہوجائیں .گی 

لوکیشن : ہونک کونگ ،چائینہ 
مہر اور زاویار یہاں پہ کسی اور روپ میں رہ رہے تھے زاویار نے ظہیر سومرو بن کر لقمان حمید کو خبر دیں دی تھی کے مہر اور زاویار کا کام تمام ہوگیا ہے اور اب ان کی ڈیڈ باڈی کا کیا کرنا ہے لقمان حمید کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اس نے فل حال کہا کے وہ جب اپنا کام مکمل کر لے تو پھر اعلان کریں گا لیکن اور ان کو جہاں دل کریں دفنا دیں ، 
زاویار نے فون بند کیا تو مہر اپنی وگ ُاتار رہی تھی 
"ویسے اس نے میٹنگ چائینہ کیوں رکھی ۔"
مہر نے جیکٹ اُتارتے ہوئے کہا 
"پتا نہیں ۔"
مہر نے اسے حیرت سے دیکھا 
"کیا مطلب ہے پتا نہیں ۔"
"کھانا منگوائے بھوک لگ رہی ہے پھر شام کو کہی جانا ہے ۔"
"کدھر جانا ہے اور بات کو کیوں گھما رہے ہو ۔"
مہر نے اپنے سینے پہ ہاتھ باندھا 
"میں کب گھُما رہا ہوں یار ابھی مجھے کچھ نہیں پتا مجھے بس چائینہ آنے کے آڈرز ملا تھے ۔"
"اُف تم مجھ سے ہر چیز کیوں چھپا رہے ہو ۔"
"جیسے تم مجھ سے چھپاتی ہو ویسے ہی میں چھپا رہا ہوں ۔"
زاویار مسکراتے ہوئے اس کے پاس آیا 
"میں نے کیا چھپایا ہے ۔"
"زیادہ سمارٹ مت بنو ہر چیز چھپائی ہے ہمارے پلان میں معصوموں کی طرح ہمیں الو بناتی رہی میرے ساتھ پاگلوں کی طرح بنا جواز لڑتی رہی میں بھی کہوں اتنا غصہ کس بات پہ ہے ۔"
"بنا جواز پاگل نہیں تھی میں سارے بدلے اتارے ہے جب جب جب تم نے بچپن میں مجھے تنگ کیا ،خاموشی سے چُپ چاہ مار کھاتے رہے اس ذلیل آدمی سے اور اس کے بعد تم اور بھیا مجھے لینے تک نہیں آئے سب کچھ جانے کے باوجود اور جب ملے بھی تو ایکٹنگ کرتے رہے مجھے تھا غصہ بہت تھا دل کرتا اتنا ماروں تمھیں کے ساری نسلے یاد رکھے ۔"
زاویار ہنس پڑا 
"اور اب ہے غصہ !"
وہ اس کے آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا 
"ہاں اب بھی ہے کیونکہ تم مجھے اب بھی کچھ نہیں بتارہے ہو ۔"
"توبہ ہے میری یہ کام ختم ہوئے تو تمھیں ریٹارمنٹ دلواتا ہوں بہت دماغ خراب کرتئ ہو ۔"
زاویار بستر پہ بیٹھ گیا 
"خبرادر آئندہ ایسا سوچا میں ایجنسی نہیں چھوڑوں گی ۔"
"پھر ہر وقت کہی نہ کہی جاتی رہو گی میرے بچوں کو کون سنبھالے گا ۔"
اس کے بے باکی سے کہنے پر مہر نے سُرخ چہرے سے دیکھا 
"تم سنبھالنا !! "
زاویار قہقہ لگا کر ہنس پڑا 
"تم جیسی فمینسٹ بیویاں واقی مردوں کا دماغ خراب کرتی ہے ۔"
"تو نہ کرتے شادی مجھ سے میں نے فورس تو نہیں کیا تھا ۔"
"خیر مجھے کیا پتا تھا یہ گیارہ سالہ چوہیا بڑی ہوکر اتنے بڑے کارنامے کریں گی اب پھچتاوے کے سوا کیا ہوسکتا ہے ۔
مہر نے جیکٹ اس کے منہ پہ ماری 
"میں بھی بہت پچتا رہی ہوں لیکن کیا ہوسکتا ہے ۔"
وہ بھی یہی کہتے ہوئے اندر واش روم میں گُھس پڑی 
※※※※※※※※※※※※※※※※※※

فرانس کے ایک ہوٹل میں شان رہ رہا تھا جب دروازے پہ دستک ہوئی 
شان نے ٹائیم دیکھا رات کے تین بج رہے تھے اسے حیرانگی ہوئی وہ فورن محتاط ہوکر اُٹھا اور گُُن اُٹھا لی 
اس نے اندر ہول سے دیکھا تو زاویار کو اپنے روپ میں دیکھ کر اس نے گہرا سانس لیا اور دروازہ کھولا 
"او ہو میرا ٹوین آیا ہے ائے شان صاحب !!"
شان کے شرارتی لہجے پر زاویار نے اپنی آنکھیں گھمائی اور بیگ پکڑ کر اندر آیا
"کیسا رہا بڈی سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا ۔"
شان اب کے بار کلین شیو میں تھا جبکہ بال لمبے ہی تھے 
"بھیا نکال دیا اس نے ۔"
زاویار نے منہ بسورا شان ہنس پڑا 
"چلوں بیوی سے رومینس کرتے رہے کے کچھ خبر ہے ۔"
"یہ لڑکیوں کو پاکستان سے اسٹریا اور لندن بھیجنے کا پلان بنا رہے اور لڑکیاں کم سے کم پانچ سو سے زاہد ہیں اور دوسرا کراچی کے کچھ علاقے میں سو سائڈ بم کے تیاری پکڑ رہے ہیں اور کم سے کم بیس نوجوانوں کی برین واشنگ کررہے ہیں ۔"
شان کو غصہ آیا اس نے بے اختیار اس سنگھنیا کو گالی دیں 
"خیر پاکستان کی تیاری پکڑتے ہیں اور مہر کے ساتھ لقمان کا کیا پلان ہے ۔"
"ابھی تک تو میرے نہیں خیال وہ ابھی اسی چکر میں پھنسا ہوا ہے ۔"
شان نے اسے دیکھا 
"خیال سریسلی ! زاویار یہ خیال سے نہیں ہر چیز کا یقین کر کے قدم اُٹھایا کرو ۔"
"اچھا یہ کون سے دھاڑی لگوا دیں ہے جو اُترنے کا نام ہی نہیں لیے رہی ۔"
"زاویار نے اپنی دھاڑی کی طرف اشارہ کیا شان ہنس پڑا 
"لاو میں کچھ کرتا ہوں لیکن اس سے پہلے ٹکٹ تو بُک کروالوں !!"
※※※※※※※※※※※※※※※※※※

© 2018 Created by Syed Ali Raza
bottom of page